Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities > Volume 1 Issue 2 of Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities

کرنسی بنانے کا اختیار اور موجودہ کرنسی کی شرعی و فقہی حیثیت اور فقہا کی آرا |
Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities
Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

عام لوگوں کو کرنسی بنانےکا اختیار دینے کے بارے میں فقہاکااختلاف

احناف کا مسلک

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی اس بارے میں رائے مختلف تھی انہوں نے فرما یا کہ عوا م الناس کو بھی ان سکوں کے ڈھالنے کی اجازت ہے ،لیکن شرط یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے بنا ئے ہو ئے سکوں کے ساتھ عوام الناس کی طرف سے بنا ئے ہوئے تمام سکوں کااوصاف اور أوزان میں مماثلت ہو نا ضروری ہے۔ اوراس طرح کرنے میں ا سلام اور اہل اسلام کا ذرّہ برابر بھی ضرر نہ ہو تو عام لوگوں کے لئے بھی حکومتِ وقت کے بنائے ہوئے سکوں کے اوصاف و اوزان کا خیال رکھتے ہوئے سونے اور چاندی سے دراہم ودنانیر بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے کھرے دراہم کو چھپکے سے بنانے پر نا جائز ہو نے کا فتوی دیا تھا،کیونکہ یہ سلاطین کا وصف ہے۔1

مالکیہ کا مسلک

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کے بنانے کو مکروہ کہا ہے :

وکره ذلک الإمام مالک وقال:إنه من الفساد ولو کان الضرب علی الوفا کما روی عن سعید بن المسیب أن من یضرب النقود من غیرِ رجال الدولة أو السلطة الحاکم یعتبر من الفساد فی الأرض.2

"امام مالکؒ نے کرنسی بنا نے کی اجازت صرف حکومتِ وقت کو دیا ہے اور ہر ایک کو بنا نے کی اجا زت کو ناپسند فرمایاہے فساد کے دروازے کے کھلنے کے خدشے سے ،کیوں کہ انکے بنا ئے ہوئے سکے حکو متِ وقت کے بنائے ہو ئے سکے کے مشابہ نہ ہو ،اسی طرح حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حاکمِ وقت کے علاوہ دوسرے کو سکے بنانے کی اجازت دینے میں زمین میں کا فی انتشار پھیل جا نے کا خدشہ ہے ۔"

سابقہ حکومت کا طریقہ کار

حجاج بن یوسف یہ اعلان کیا کہ اسکی اجا زت صر ف حکومتِ وقت کو ہو گا۔اس اعلان اور رائے کو بہت سے علماء نے تسلیم وقبول کیا اور دراہم ڈھالنے جیسے اہم امر کو حکو متِ وقت کے ذمہ پر چھو ڑنے کا اقتصار کیا۔ پھر امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا کہ منا سب نہیں کہ سلطانِ وقت کے امر کے بغیر دراہم ڈھالے جائیں ۔اس لئے کہ اگر عوام الناس کو اس کی رخصت دی گئی تو وہ بڑے خطر نا ک کام کر نے شروع کردیں گے جن کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جا ئیگا، اسی وجہ سے امام احمد بن حنبلؒ نے بادشاہِ وقت کے امر کے بغیردراہم ڈھالنے کی عدمِ جواز کا فتویٰ دیاتھا۔ یعنی عوام الناس کے لئے منا سب نہیں کہ وہ اپنے طور پر دنانیر اور دراہم کوبنا نے کا آغاز کردیں ، کیونکہ اس طرح سے کھو ٹے دینار ودراہم بازار اور ما رکیٹوں میں بکثرت آنے لگیں گے اور اس سے طلب و رسد کے استحکام کو اس طرح نقصان پہنچے گا کہ عوا م الناس کیلئے مالی معاملات نمٹاناقابو سے باہر ہو جائیں گے ۔ انہی معاملات و مشکلات پر کنٹرول کر نے کیلئے ان نقود کو قابو میں رکھنا انتہائی اہم اور لازمی درجے میں ہے۔ 3

مندرجہ بالا فقہاء کی آراء سے یہی بات معلو م ہوئی کہ کرنسی کی نگہداشت اور اسکے اتار چڑھاؤ پر کنٹرول رکھنا اور اسکو چھاپنے کی ذمہ داری حکومتِ وقت کی ہے اور ہر عام وخاص کو اسکی اجازت دینا خود ایک بے اصول بات ہے جس سے معا شرے میں بہت ساری خرابیاں پیدا ہونگی ان ساری خرابیوں سے بچنے کیلئے حکومت کی نگرانی وعمل دخل انتہا ئی لازمی وضروری ہے اور اس سے عام مراکز ِ تجارت میں بھی طلب ورسد کی بے توازنیوں سے چھٹکارا مل جا ئیگا ۔

موجودہ پیسے کی حقیقت اور اس نظام کا ایک جائزہ

یہ دھاتی نقود ایک زمانہ دراز تک لوگوں کے مابین شہرت و قبو لیت حاصل کر کے عام تجارتی منڈیوں میں راج کر تی رہی ،لیکن زمانے کی اس تیز رفتاری کی جدت کے ساتھ یہ نقود بھی نبھا نہ پائی اور لوگوں کے اعتماد کو خوب ٹھیس پہنچایااور ناکامی کے دھانے پر دستک دیکر لوگوں کے ذھنی اور فکری سوچ کو ایک اور جدید نظام کے ایجاد کے طرف مجبور کر دیا جوکہ کاغذی کرنسی کی صورت میں وجود پذیر ہوئی اور جسکی ابتدائے ایجاد چین کے طرف منسوب کی جاتی ہے۔

اس بارے میں فقہا اور اہل دانش کا موقف

اسی مضمون کوڈاکٹر پروفیسر وہبۃ الزحیلیؒ مندرجہ ذیل الفاظ میں لکھتے ہیں:

ثم استعملوا الفلوس المصنوعة من غیر الذهب والفضة ثمناً للأشیاء البسیطة وتظل لها صفة الثمنیة ما لم یبطل الناس التعامل بها فاذا أبطلت صارت مجرد سلعة وفقدت صفة الثمنیة بخلاف نقود الذهب والفضة. وفی عصرنا الحاضر ظهرت النقود الورقیة والنقود المصرفیة وربما تصیر بطاقات الائتمان هی النقود فی المستقبل القریب. وقد ظهرت النقود المتداولة الورقیة لأول مرۃ فی العالم سنة ١٩١٠م فی الصین وفی مطلع القرن السابع عشر المیلادی وجدت الأوراق النقدیة (البنکنوت) بصورة رسمیة وأول من أصدرها بنک أستاكهوم بالسوید.۲

"پھر لوگوں نے چھوٹے أشیاء کی خریداری کیلئے سونے اور چاندی کے علاوہ کے بنے ہوئے سکوں سے خریداری شروع کردی تھی ،لیکن انکی ثمنیت اس وقت تک باقی رہتی تھی جب تک لوگ ان کے ساتھ معاملات کرتے رہتے تھے اور جب انکے ذریعے معاملات کرنا ختم کردیتے تو انکی حیثیت صرف ایک سامان سی باقی رہجاتی تھی بخلاف سونا اور چاندی نقود کے کہ انکی ثمنیت پھر بھی باقی رہتی ہے ۔اور عصرِ حاضر میں کاغذی کرنسی اور بینک کرنسی یعنی کارڈز وغیرہ اور مستقبل قریب کے یہی کرنسی ہیں اور حالیہ رائج کرنسی سب سے پہلے ١٩١٠میلادی میں چین نے ایجاد کی تھی اور سترہویں صدی ہجری کے اوائل میں باقاعدہ مخصوص صورت میں اسٹاك ہوم بینک نے جاری کیا تھا ۔"

عبداللہ بن سلیمان مندررجہ بالا عبارت پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:

علی أی حال فقد وصل النقد إلی مرحلة فیها مزید من أسباب الثقة والاطمئنان والقدرة علی إدارة التعامل به بین الناس بمختلف أشکاله وألوانه....الخ۳.

"دھاتی نقود ایک عرصہء دراز تک لوگو ں کے مابین لین دین کے امور نمٹانے کیلئے ایک کا فی مستحکم اور اطمینان بخش ذریعہ مختلف ڈھانچوںاور کئی صورتوں میں رہا ،لیکن ان تما م خوبیوں کے باوجود اس میں اتنی خاصیت اور قوت نہ تھی کہ عوا م الناس کے روزمرہ کے مسائل وامور کو بروقت اور جدید بڑھتی ہوئی اقتصادی صورتحال کے عین مطابق ڈھال اور حل کر سکے جسکی ناکامی نقل وحمل کی صورت میں عیان وظاہر تھی کہ جس سے لو گ عاجز نظر آتے تھے اشیاء کے ہیوی ہونے کے سبب انتقالی کے کام نے ایک کافی ہی پیچیدہ صورتحال اختیار کر رکھی تھی،ضیاع اور چوری کے خطرات اسکے علاوہ تھے لوگوں کے اقتصادی ذہنی اور فکری سوچ کو ایک اور جدید نظام کے ایجاد کے طرف مجبور کر دیا جو کہ اس تیز رفتار اقتصادی بڑھوتری کے سفر کی کشتی میں سوار ہو سکے ۔ اور یہیں سے کاغذی کرنسی کی طر ف انسانی اقتصادی فکر متوجہ ہوئی اور سب سے پہلے چین نے اسکی ابتداء کی تھی اور چین نے ہی پورے عالم شہر ت دلائی ۔"

ابن بطوطہ کی رائے

بأنهم کانوا لایتبایعون بدینار ولا درهم و جمیع ما یتحصل لبلادهم لایسبکونه قطعاً ما یلتفت إلیه حتی یصرفه بالبالشت ثم یشتر به ما أراد. ...الخ...۴.

"اہل چین کو جو کچھ اپنے شہروں سے خریدنا ہوتا وہ خریداری دراہم و دنانیر سے ہرگز نہیں کرتے ،بلکہ یہ لوگ اس کاغذ کے ٹکڑے کے ذریعے جس کا حجم ایک بالش کے بقدر ہو تا تھا اسکے ذریعے سے اپنے لین دَ ین کے تمام معاملات نمٹایا کرتے تھے یہ سلاطین کے آڈر سے شایع اور ڈھالے جاتے تھے جس کا نام پچیس بالش رکھا گیا تھا، انہیں انکی حیثیت وہی تھی جوکہ ہمارے ہاں دینار کی حیثیت تھی، اگر یہ کاغذ کسی کے بھی ہاتھ سے پھٹ جاتے تو انہیں حکام کے سامنے پیش کرنے سے انکے عوض نئے نوٹ مل جاتے تھے اور ان نوٹوں کی ویلیو کا اسے بھی اندازہ لگا یا جاسکتاہے کہ سوائے ان نوٹو ں کے کوئی بھی شخص دراہم ودنانیر کے سکوں سے کچھ بھی نہیں خرید پاتا اور نہ ہی اس شخص کو مارکیٹ میں ویلیو دی جاتی تھی جب تک کہ ان دراہم ودنانیر کو کاغذی کرنسی سے ایسچینج نہ کر والیتااسکے بعد وہ شخص کوئی چیز خریدنے پر قادر ہوتا۔"

"قضایہ فقہیہ معاصرہ" کے مصنف لکھتے ہیں:

ثم إن القطع النقدیة سواء کانت من الذهب أو من الفضة وإن کان یخفف حملها بالنسبة إلی السلع النقدیة، ولکنها فی جانب آخر یسهل سرقتها فی نفس الوقت فکان من الصعب علی الأثریاء أن یخزنوا کمیات کبیرة من هذه القطع فی بیوتهم، فجعلوا یودعون هذه الکمیات الکبیرة عند بعض الصاغة والصیارفة، وکان هؤلاء الصاغة والصیارفة عندما یقبلون هذه الودائع یسلمون إلی المودعین أوراقاً کوثائق أو إیصالات (receipts) لتلک الودائع. ولما ازداد ثقة الناس بهؤلاء الصاغة ہصارت هذه الإیصالات تستعمل فی دفع الثمن عند البیعات، فکان المشتری بدل أن یدفع القیمة نقداً، یسلم إلی البائع ورقاً من هذه الإیصالات وکان البائع یقبلها ثقة بالصاغة الذین أصدروها. فهذه هی بدایة الأوراق النقدیة ولکنها فی بدایة أمرها لم تکن لها صورة رسمیة، ولاسلطة تلزم الناس قبولها، وإنما کان المرجع فی قبولها وردها إلی ثقة البائع أو الدائن بمن أصدرها. ولما کثر تداول الإیصالات فی السوق فی مطلع القرن السابع عشر المیلادی تطورت هذه الأوراق إلی صورة رسمیة تسمی البنکوت ویقال: إن بنک استاک هوم بالسوید أول من أصدرها کأوراق نقدیة ۵.

"پھر نقود کی ڈھلی چاہے سونے کی ہو یا چاندی کی زرِبضاعتی سے اگرچہ منتقل کرنے کے اعتبار سے آسان او ر سہل تھا ،لیکن دوسری طرف اسکی چوری کرنی بھی بہت آسان تھی ،اسی وجہ سے بڑے بڑے مالداروں کیلئے بہت بڑا مسئلہ ہوگیا تھا کہ وہ کس طرح نقود کے اتنی بڑی رقم کو ڈھلی کی صورت میں اپنے گھروں میں جمع کرکے رکھیںتو پھر انہوں نے یہ تدبیر سوچی کہ اتنی بڑی عدد کو بعض سناروں اور صرافوں کے پاس بطورِامانت کے رکھوانا شروع کردیں اور یہ صراف اور سنا رامانت اپنے پاس رکھنے کے بدلے امانت رکھوانے والوں کو بطورِثبوت کے انکو ایک رسید دیا کرتے تھے اور جب لوگوں کا اعتماد ان سناروں پر بڑھ گیا تو ان کے عطاکردہ رسیدوں کو لوگ بطورِثمن کے استعمال کرنے لگے اور ہر خریدار اشیاء کی خریداری کے وقت بجائے نقد قیمت کی ادئیگی سناروں کی طرف سے اداشدہ رقعہ کو ان پر اعتماد کی وجہ سے بائع کو دیتے تو وہ بھی قبول کرتے تھے ۔یہی اسی کرنسی کی ابتدائی صورت تھی ،لیکن ابتداء میں اسے کوئی خاص شکل نہ تھی،لیکن سترہویں صدی ہجری میں سب سے پہلے چین کے ایک بینک نے جاری کیا ۔"

کرنسی کادورِ اول اور اسکی ایجاد

چین میں سب سے پہلے بادشاہ "تونغ جو" نے کاغذی نوٹ بنائے تھے،جیسے کہعبداللہ بن سلیمان بن منیع لکھتے ہیں:

ویعتقد أن أول إصدار ورق نقدی کان فی عهد سن تونغ أحد ملوک الصین فی القرن التاسع المیلادی، وأن عملیة الإصدار استمرت من قبل حکام و ملوک الصین والمغول۶.

" اور یہی سمجھا جاتا ہے کہ پہلی بار کاغذی نوٹ بادشاہ تونغ نے نویں صدی ہجری میں شائع کئے تھے ، ان نوٹوں کو ڈھالنے کاعمل چینی اور مغل بادشاہوں کے طرف سے بھی جا ری رہا ہے ۔"

مارکو پولو کے سفرنامے سے اقتباس

قبلائی خان کی سلطنت کا ٹکسال خان بلگ میں ہی واقع ہے۔ انکے اس محنت طلب کام سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ کیمیا سازی کے بڑے ہی ماہر تھے، جس پر انکی سلطنت کا ٹکسال گواہ ہے ۔ یہ کاغذی نو ٹ شہتوت کی چھال سے بنا یا کرتے تھے ۔ ریشم کے کیڑے کی خوراک اسی درخت کے پتے ہیں۔اس چھال کی اندرونی سیاہ اور ریشہ دار پرت کو علیحدہ کرکے اسے چیتھڑوں کی صورت میں کاٹ لیا جاتا ہے، پھر کوٹ کراسے چپٹا کر کے گوند میں گیلا کرکے جسے کاغذ جیسی چیز بنائی جاتی ہے جو کہ اپنے عمدہ معیار کی بناء پرمصر کے کاغذات کی مانند ہوا کرتی تھی۔ پھر کاٹنے کا انداز مربع اور مستطیل صورت کے پارچوں میں الگ حجم کے لحاظ سے ہوا کر تا تھا۔ سب سے چھوٹے ٹکڑے کی قیمت وینس کے نقرئی گروٹ کے آدھے کے مساوی ہوا کرتی تھی اوربڑے ٹکڑے کی قیمت دگنی ہوا کرتی تھی ۔ پانچ گروٹ اور دس گروٹ کے نوٹ بھی ہیں اور یہ گروٹ ایک ، دو یا تین بیزنتوں سے لے کر دس بیزنت کے بقدر انکی مالی حیثیت ہوتی ہے ۔

اسکے بعد یہ سیاح نوٹوں پر حکومت وقت کے خاص علامت ونشانی کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ہر نوٹ پر قبلائی خان کی مہر لگی ہوتی ہے ۔ اس نوٹ کو اتنا ہی درجہ حاصل ہے کہ جتنا درجہ طلائی اور نقرئی سکوں کو ہے۔ خصو صاً حکومتی افسران کے نام ان نوٹوں پر لکھے ہوتے ہیں۔اور اس سلطنت کے طرف سے کچھ مخصوص افسران اسی کا م پر متعین ہیں جو کہ نوٹوں پر سرخ سیا ہی مہر کے ذریعے لگادیتے ہیں۔ اگر کوئی قانون کے خلاف حرکت کرتے ہوئے جعلی نوٹ سازی میں گرفتار ہوجائے تو اسکو سزائے موت سنائی جاتی ہے ۔اتنی کثرت سے یہ نوٹ چھاپے جاتے ہیں کہ قبلائی خان ان کاغذوں کے ذریعے دنیا کا ہر سکہ خرید سکتاہے ۔جوبھی شخص انکی مالی حیثیت سے یا کسی بھی اعتبار سے انکو رد کرے تو اسکو اذیت ناک سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسے یہ مشہور سیاح چین کے حالات کے با رے میں اپنے کارناموں میں لکھتا ہے کہ اس کاغذی کرنسی کو جھٹلانے والے آدمی کو سزائے موت سنائی جاتی ہے۔ پوری سلطنتِ قبلائی خان میںہر کاروبار کرنے والے شخص کو انہی نوٹوں کے ذریعے اپنے معاملات نمٹانے ہو تے ہیں کوئی بھی شخص انکی قانونی مالیا تی حیثیت سے انکار کی صورت میں سزائے موت کاسامنا کرسکتا ہے ۔ عوامی سہولیات ا و ر ہر شئے کی خریدوفروخت مثلاًموتی ،قیمتی پتھر،سونا اور چاندی وغیرہ کے علاوہ دوسری اکثر سہولیات اسی نوٹ میں ہیں ۔ اور وزن کے اعتبار سے بھی کافی فرق ہے۔ جس نوٹ کی قمیت دس بیزنت ہے، اس کا وزن ایک بیزنت کے سکے سے بھی کم ہے۷۔

کاغذی کرنسی پرگذرنے والےمراحل

عبداللہ بن سلیمان بن منیع فرماتے ہیں:

تتمثل فی آن غالب التجار کانوا فی غالب أسفارهم التجاریة لا یحملون معهم نقوداً للسلع التی یشترونها خشیة من ضیاعها أو سرقتها وإنما یلجأون إلی أخذ تحاویل بها علی أحد تجار الجهة المتجهین إلیها من شخصیة ذات اعتبار وسمعة حسنة بلد التاجر المحال إلی مثله فی البلد المتجة إلیه۔ لم تکن هذه التحاول فی الواقع نقوداً، إذ لیس فی استطاعة حاملها أن یدفعها أثماناً للمشتریات لانعدام القابلیة العامة فیها وإنما هی بدیل مؤقت عن النقود۸.

" اول وھلے میں ان کو کوئی بھی تاجر اپنے ساتھ کہیں بھی نہیں لے جا سکتے تھے ہر کوئی چوری یاضائع ہونے کے خوف سے صراف اور سناروں یا ذی اثر شخصیات کے ہا ں بطورِ امانت کے رکھواکر جسکے عوض انکو ایک رسید دیدی جا تی تھی اور بعد میں یہی رسید کرنسی کی صورت اختیار کر گئی اور جب لوگوں کا اعتماد ان سناروں پر بڑھ گیا تو ان کے عطاکردہ رسیدوں کو لوگ بطورِثمن کے استعمال کرنے لگے اور ہر خریدار اشیاء کی خریداری کے وقت بجائے نقد قیمت کی ادئیگی سناروں کی طرف سے اداشدہ رقعہ کو ان پر اعتماد کی وجہ سے بائع کو دیتے تو وہ بھی قبول کرتے تھے۔"

مفتی تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں، یہ کاغذی نوٹ کا ابتدائی زمانہ تھا اور اسکے ساتھ ساتھ نہ انکی کوئی مخصوص صورت تھی اور نہ ہی قانونی طور پر اسکی کوئی قیمت تھی کہ جسکی بناء پر نہ قبول کرنے والے کو مجبور کیا جا سکے۔ کاروباری شخص کے قبولیت اور رد کرنے کا مدار صرف اجراء کرنے والے شخص پر اعتماد کی بناء تھی ۔جب ١٧٠٠ عیسویں کی ابتداء میں مارکیٹوںاور عام بازاروں میں ان رسیدوں کا رواج کثیر تعداد میں ہوا تو اسکے بعدیہ رسیدیں ترقی کے راہوں سے گذرتے ہوئے ایک مخصوص ڈھانچے میں ڈھل کر خاص ہیئت حاصل کرلی جسے خاص الفاظ میں بینک نوٹ کہا جاتاہے ۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں لکھا ہے کہ سب سے پہلے سویڈن کے اسٹاک ہوم بینک نے اسے بطور کاغذی نوٹ کے جاری کیا۔اس وقت جاری کرنے والے بینک کے پاس ان کاغذی نوٹوں کے بدلے میں سو فیصد اتنی مالیت کا سونا موجود ہوتا تھا۔ا ور بینک یہ التزام کرتا تھا کہ وہ صرف اتنی مقدار میں نوٹ جاری کرے جتنی مقدار میںاس کے پاس سونا موجود ہے اورا س کاغذی نوٹ کے حامل کو اختیار تھا کہ وہ جس وقت چاہے بینک جا کر اس کے بدلے سونے کی سلاخ حاصل کرلے، اسی وجہ سے اس نظام کو سونے کی سلاخوں کا معیار (Gold bullion standard) کہا جاتا ہے۔١٨٣٣ء میں جب 'بینک نوٹ' کا رواج بہت زیادہ ہوگیا تو حکومت نے اس کو "زرقانونی" (Legal tender) قرار دے دیا۔ اور ہر قرض لینے والے پر یہ لازم کر دیا کہ وہ اپنے قرض کے بدلے میںاس نوٹ کو بھی اسی طرح ضرور قبول کرے گا جس طرح اس کے لئے سونا چاندی کے سکے قبول کرنا لازم ہیں اس کے بعد پھر تجارتی بینکوں کو اس کے جاری کرنے سے روک دیاگیا اور صرف حکومت کے ماتحت چلنے والے مرکزی بینک کو اس کے جاری کرنے کی اجازت دی گئی۔ پھر حکومتوں کو زمانہ جنگ اور امن کے دوران آمدنی کی کمی کی وجہ سے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں بہت سی مشکلات پیش آنے لگیں۔ چنانچہ حکومت مجبور ہوئی کہ وہ کاغذی نوٹوں کی بہت بڑی مقدار جاری کردے جو سونے کی موجود مقدار کے تناسب سے زیادہ ہو، تاکہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے اسے استعمال کرے۔ اس کے نتیجے میں سونے کی وہ مقدار جوان جاری شدہ نوٹوں کی پشت پر تھی وہ آہستہ آہستہ کم ہونے لگے حتیٰ کہ ابتداء میں ان نوٹوں اور سونے کے درمیان جو سوفید تناسب تھا وہ گھٹتے گھٹتے معمولی سا رہ گیا۔ اس لئے کہ ان نوٹوں کو جاری کرنے والے مرکزی بینک کو اس بات کا یقین تھا کہ ان تمام جاری شدہ نوٹوں کو ایک ہی وقت میں سونے سے تبدیل کرنے کا مطالبہ ہم سے نہیں کیا جائے گا، اس لئے سونے کی مقدار سے زیادہ نوٹ جاری کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ زیادہ مقدار میں نوٹ جاری کرنے کے نتیجے میں بازار میں ایسے نوٹ رائج ہوگئے جن کو سونے کی پشت پناہی حاصل نہیں تھی، لیکن تاجر ایسے نوٹوں کو اس بھروسہ پر قبول کرتے تھے کہ ان نوٹوں کے جاری کرنے والے مرکزی بینک کو اس بات پر قدرت حاصل ہے کہ وہ تبدیلی کے مطالبے کے وقت اس کے پاس موجود سونے کے ذریعے ان کا مطالبہ پورا کردے گا۔ ایسے کرنسی کو زر اعتباری (Fiduciary money) کہا جاتا ہے۔دوسری طرف آمدنی کی مذکورہ بالا کمی اور زیادہ روپے کی ضرورت ہی کی بناء پر حکومتیں جواب تک معدنی سکوں کے ساتھ معاملات کرتی آئی تھیں، اس بات پر مجبور ہوئیں کہ وہ یا تو سکوں میں دھات کی جتنی مقدار استعمال ہو رہی ہے، اس کو کم کردیں یا ہر سکے میں اصلی دھات کی بجائے ناقص دھات استعمال کریں۔ چنانچہ ا س عمل کے نتیجے میں سکے کی ظاہری قیمت (Face value) جواس پر درج تھی، اس سکے کی اصلی قیمت (Intrinsic value) سے کئی گنا زیادہ ہوگئی۔ ایسے سکوں کو "علامتی زر" (Token money) کہا جاتا ہے، اس لئے کہاس سکے کی معدنی اصلیت اس کے اس ظاہری قیمت کی محض علامت ہوتی ہے جو کبھی ا س کی ذات قیمت کی ٹھیک ٹھیک نمائندگی کیا کرتی تھی۔ رفتہ رفتہ"زراعتباری" (یعنی جس نوٹ کی پشت پر سونا نہیں تھا) کا رواج بڑھتے بڑھتے اتنا زیادہ ہوگیا کہ ملک میں پھیلے ہوئے نوٹوں کی تعداد ملک میں موجود سو نے کی مقدار کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوگئی۔ یہاں تک کہ حکومت کو اس بات کا خطرہ لاحق ہوگیا کہ سونے کی موجودہ مقدار کے ذریعے ان نوٹوں کو سونے میں تبدیل کرنے کا مطالبہ پورا نہیں کیا جاسکتا، چنانچہ شہروں میں حقیقتۃً یہ واقعہ پیش آیا کہ مرکزی بینک نوٹوں کو سونے میں تبدیل کرنے کا مطالبہ پورا نہ کرسکا۔ اس وقت بہت سے ملکوں نے نوٹوں کو سونے میں تبدیل کرانے والوں پر بہت کڑی شرطیں لگا دیں۔ انگلینڈ نے ١٩١٤ء کی جنگ کے بعد اس تبدیلی کو بالکل بند کر دیا۔ البتہ ١٩٢٥ء میں دوبارہ تبدیلی کی اجازت اس شرط کے ساتھ دی کہ ایک ہزار سات سو پونڈ سے کم کی مقدار کوئی شخص تبدیل کرانے کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔ چنانچہ اس شرط کے نتیجے میں عام لوگ تو اپنے نوٹوں کو سونے میں تبدیل کرانے کا مطالبہ کرنے سے محروم ہوگئے، اس لئے کہ اس زمانے میں یہ مقدار اتنی زیادہ تھی کہ بہت کم لوگ اتنی مقدار کے مالک ہوتے تھے ،لیکن اس قانون کی انہوں نے اس لئے کوئی پرواہ نہیں کی کیونکہ یہ کاغذی نوٹ زرقانونی بن گئے تھے اور ملکی معاملات میں بالکل اسی طرح قبول کئے جاتے تھے جس طرح اصلی کرنسی قبول کی جاتی تھی، اور اسی کے ذریعے اندرون ملک تجارت کرکے اسی طرح نفع حاصل کیا جاتا تھا جس طرح نفع حاصل کیا جاتا تھا جس طرح دھاتی کرنسی کے ذریعے تجارت کرکے نفع حاصل کیا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ اس شخص کے لئے بھی جو سترہ سو پونڈ (١٧٠٠) کو سونے میں تبدیل کرانے کا مطا لبہ کرے اور لوگوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ سونے کے بجائے صرف ان نوٹوں پر اکتفا کریں اور اپنے تمام کاروبار اور معاملات میں اسی کا لین دین کریں لیکن حکومتوں نے آپس میں ایک دوسرے کے حق کے احترام کو برقرار رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے نوٹوں کو سونے میں تبدیل کرنے کے قانون کو برقرار رکا۔ چنانچہ اندرون ملک اگرچہ ان نوٹوں کو سونے میںتبدیل کرانے کی ممانعت تھی لیکن ہر حکومت نے یہ التزام کیا تھا کہ اگر اس کی کرنسی دوسرے ملک میں چلی جائے گی اور دوسری حکومت اس کرنسی کےبدلے میں سونے کا مطالبہ کرے گی تو یہ حکومت اپنے کرنسی نوٹوں کے بدلے میں اس کو سونا فراہم کرے گی، مثلاً امریکا کے پاس برطانیہ کے اسٹرلنگ پونڈ آئے اور وہ اب ان کے بدلے میں برطانیہ سے سونے کا مطالبہ کرے تو برطانیہ پر لازم ہے کہ وہ ان کے بدلے امریکا کو سونا فراہم کرے، اس نظام کو"سونے کی مبادلت کا معیار" (Gold exchange standard) کہا جاتا ہے۔اسی اصول پر سالہا سال تک عمل ہوتا رہا، حتیٰ کہ جب ریاستہائے متحدہ امریکا کو ڈالر کی قیمت کی کمی کے باعث سخت بحران کا سامنا کرنا پڑا اور ١٩٧١ء میں سونے کی بہت قلت ہوگئی تو امریکی حکومت اس بات پر مجبور ہوئی کہ دوسری حکومتوں کے لئے بھی ڈالر کو سونے میں تبدیل کرنے کا قانون ختم کردے۔ چنانچہ ١٥ اگست ١٩٧١ء کواس نے یہ قانون نافذ کر دیا، اور اس طرح کاغذی نوٹ کو سونے سے مستحکم رکھنے کی جو آخری شکل تھی وہ بھی اس قانون کے بعد ختم ہوگئی۔ اس کے بعد ۱۹۷۴ء میں (IMF)نے سونے کے بدل کے طور پر ایک زرمبادلہ نکلوانے کے حق(Special drawing right) کا نظریہ پیش کیا۔ اس نظریہ کا حاصل یہ تھا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ممبران کو اس بات کا اختیار حاصل ہے کہ وہ مختلف ممالک کی کرنسی کی ایک معین مقدار غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لئے نکلوا سکتے ہیں اور مقدار کی تعیین کے لئے ٦٧٦، ٨٨، ٨گرام سونے کو معیار مقرر کیا گیا۔ (کہ اتنی مقدار کا سونا جتنی کرنسی کے ذریعے خریدا جا سکتا ہو،ا تنی کرنسی ایک ملک نکلوا سکتا ہے، لہٰذا اب صورتحال یہ ہے کہ زرمبادلہ نکلوانے کا یہ حق جسے اختصار کےلئے ایس۔ ڈی۔ آر کہا جاتا ہے سونے کی پشت پناہی کا مکمل بدل بن چکا ہے۔ اس طرح اب سونا کرنسی کے دائرے سے بالکل خارج ہو چکا ہے اب سونے کا کرنسی سے کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔ اور نوٹوں اور "زرعلامتی" (یعنی کم قیمت کے سکوں) نے پوری طرح سونے کی جگہ لے لی ہے۔اب نوٹ نہ سونے کی نمائندگی کرتے ہیں، نہ چاندی کی، بلکہ ایک فرضی قوت خرید کی نمائندگی کر رہے ہیں،لیکن چونکہ اس نظام میں ایک مستقل اور ابدی نظام کی طرح اب تک مضبوطی اور جماؤ پیدا نہیں ہوا، اس لئے کہ تقریباً تمام ممالک میں اس بات کی تحریک چل رہی ہے کہ پہلے کی طرح پھر سونے کو مالی نظام کی بنیاد مقرر کیا جائے، یہاں تک کہ دوبارہ سونے کی سلاخوں کے نظام کی طرف لوٹنے کی آوازیں لگنے لگی ہیں۔ اس لئے دنیا کے تمام ممالک اب بھی اپنے آپ کو سونے سے بے نیاز اور مستغنی نہیں سمجھتے، بلکہ ہر ملک اب بھی احتیاطی تدبیر کے طورپر زیادہ سے زیادہ سونے کے ذخائر جمع رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ تاکہ زمانے کے بدلتے ہوئے حالات اور انقلابات میں یہ سونا کام آئے۔ لیکن سونے کی بڑی سے بڑی مقدار کا یہ ذخیرہ صرف ایک احتیاطی تدبیر کے طور پر ہے۔ اس کا موجود دور میں رائج کرنسی کے ساتھ کوئی قانونی تعلق نہیں ہے۔ خواہ وہ کرنسی نوٹ کی شکل میں ہو یا دھاتی سکوں کی شکل میں٩۔

نتائج

مندرجہ بالا فقہاء کی آراء سے یہی بات معلو م ہوئی کہ کرنسی کی نگہداشت اور اسکے اتار چڑھاؤ پر کنٹرول رکھنا اور اسکو چھاپنے کی ذمہ داری حکومتِ وقت کی ہے اور ہر عام وخاص کو اسکی اجازت دینا خود ایک بے اصول بات ہے جس سے معا شرے میں بہت ساری خرابیاں پیدا ہونگی ان ساری خرابیوں سے بچنے کیلئے حکومت کی نگرانی وعمل دخل انتہا ئی لازمی وضروری ہے اور اس سے عام مراکز ِ تجارت میں بھی طلب ورسد کی بے توازنیوں سے چھٹکارا مل جا ئیگا ۔

حواشی و حوالہ جات

1 ۔ السلمی، عمر بن محمد ، دارالمعرفۃ بیروت لبنان ١٩٩٠، نصاب الاحتساب ۲۳۱

2 ۔ الترکمانی، الدکتور عدنان ، مؤسسۃ الرسالۃبیروت، السیاسۃ النقدیۃ والمصرفیۃ ٦٧

3۔ الفراء، ابو یعلی محمد بن حسین ،مطبع مصطفی البابی الحلبی مصر ١٩٦٦،الاحکام السلطانیۃ ١٨١

4۔ الزحیلی، وہبۃ ،دارالفکر بیروت،المعاملات المالیۃ المعاصرۃ ١٥١

5۔عبد اللہ بن سلیمان بن منیع،مطبع الفرزدق التجاریۃریاض سعودی عرب ١٩٨٤،الورق النقدی تاریخہ حقیقتہ قیمتی حکمہ ٢٦

6۔ابن بطوطہ ،دار صادربیروت لبنان ١٩٨٤،تحفۃ النظائر فی غرائب الامصار وعجائب الانظار ٦٢٩

7۔ عثمانی، مفتی محمد تقی ،مکتبہ دارالعلوم کراچی،قضایہ فقہیہ معاصرہ ،۱/۱۴۸

8۔عبد اللہ بن سلیمان بن منیع ،مطبع الفرزدق التجاریۃریاض سعودی عرب ١٩٨٤،الورق النقدی تاریخہ حقیقتہ قیمتی حکمہ ۲۶

9۔مارکو پولو،مترجم :عاصم بٹ، ادارہ تخلیقات لاہور ٢٠٠٥،سفرنامہ مارکو پولو ١٢٨،١٢٩

10۔عبد اللہ بن سلیمان بن منیع ،مطبع الفرزدقق التجاریۃ ریاض سعودی عرب ١٩٨٤ء،الورق النقدی تاریخہ حقیقتہ قیمتی حکمہ ص٢٧

11۔عثمانی، محمد تقی ،میمن اسلامک پبلشرزکراچی،فقہی مقالات١/۱۸،۱۹،۲۰،۲۱،۲۲

Loading...
Issue Details
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
About Us

Asian Research Index (ARI) is an online indexing service for providing free access, peer reviewed, high quality literature.

Whatsapp group

asianindexing@gmail.com

Follow us

Copyright @2023 | Asian Research Index