1
1
2017
1682060025806_707
20-33
http://www.arjish.com/index.php/arjish/article/download/10/7
قمار کا لغوی واصطلاحی مفہوم
اردو زبان میں ہم جس کو جوا کے نام سے پہچانتے ہیں عربی زبان میں اس کے لیئے دولفظ استعمال ہوتے ہیں1:قمار 2: میسر ۔قرآن مجید میں جو ا کو "میسر" کے نام سےپکارا گیاہے اورحدیث رسول میں جو ا کو "قما ر" اور"میسر" دونوں ناموں سےبیان کیا گیا ہے۔
لفظ قمار کا مادہ ق ،م ،ر ۔ہے ۔ اور لفظ قمر۔عربی میں چاند کو کہتےہیں۔
علامہ ابن عابدین (علامہ شامی ) جو ا کو قمار نام رکھنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"قمار قمر سے مشتق ہے ،قمار بھی قمر(چاند) کی طرح مال کو بڑھاتاہے اور گھٹاتاہے ،اس وجہ سےجوا کو قمار کہاجاتاہے کیونکہ جواری کا مال بھی جوا کے سبب چاند کی طرح کبھی بڑھتاہے توکبھی گھٹتاہے"۔[1]
میسر :لفظ میسر مفعل کےوزن پر مصدرمیمی ہے مرجع کی طرح ۔
علامہ فخر الدین رازی ؒ لفظ میسر کی وضاحت کرتے ہوئے قمار کا میسر نام رکھنےکی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتےہیں :
"میسر موعد کےکےوزن پر لفظ یسر سے مصدر کا صیغہ ہے ،اور لفظ یسر کے معنی ٰ ہے آسانی ۔جواکو میسر اس وجہ سے کہاجا تاہے چونکہ ایک انسان دوسرے انسان کا بغیر کسی تکلیف اور مشقت کے آسانی سے مال ہضم کرکے لےجاتا ہے ۔اس وجہ سے اس جوا کومیسر کہا جاتاہے"۔2
قمار کی اصطلاحی تعریف
مشہور ماہر معاشیا ت علامہ شرباصی نے اپنی کتاب "المعجم الاقتصادا لاسلامی " میں قمارکی تعریف حسب ذیل نقل کی ہے :
القمار:هو أن یأخذ من صاحبه شیأ فشیئا فی اللعب، والقمار فی لعب زماننا کل لعب یشترط فيه غالبا من المتغالبین شئ من المغلوب۔[2]
"قمار اس چیز نام ہے کہ کسی کھیل کے دوران کسی سے کوئی چیز تھوڑی تھوڑی کرکے لی جائے ۔اور ہمار ے زمانے کے کھیل میں قمار یہ ہے کہ ہر ایسا کھیل کہ جس میں غالب ہونے والا مغلوب سے کسی چیز کے لینے کی شرط قرار دے "۔
لیکن قمار کی ذکر کردہ بالا تعریف سے قمار کا مکمل مفہوم واضح نہیں ہورہاہے ، کیونکہ اس تعریف سے بظاہر یہ معلوم ہورہا ہے کہ قمار صرف کھیل کھود کے ساتھ ہی خاص ہے کھیل کود کے علاوہ د یگر معاملات میں قمار کا وجود نہیں ہوتا ۔حالانکہ حقیقت اس کےبرعکس ہے کہ قمار صرف کھیل ہی میں نہیں ہوتا بلکہ کھیل کود کے معاملات کی طرح انسانی زندگی کے دیگر معاملات میں بھی اس کا وجود پایا جاتاہے ۔جیساکہ آج کل قمار کی متفرق صورتیں ایسی ہیں جو کھیل کود سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ کاروبار اور تجارت سے متعلق ہیں وہ قمار کی ذکر کردہ بالا تعریف میں شامل نہیں ہوتیں ۔
اس وجہ سے قمارکی مناسب اور جامع تعریف وہ ہے جومفتی محمد تقی عثمانی نے بیان کی ہے :
"قمار ایک سے زائد فریقوں کے درمیان ایک ایسا معاہدہ ہے جس میں ہر فریق نے کسی غیر یقینی واقعے کی بنیاد پراپنا کوئی مال(یاتو فوری ادائیگی کرکے یاادائیگی کا وعدہ کرکے ) اسطرح داؤ پر لگایاہوکہ یا تو وہ مال بلا معاوضہ دوسرے فریق کےپاس چلاجائے گا ،یا دوسرے فریق کا مال پہلے فریق کے پاس بلا معاوضہ آجائے گا "۔[3]
درج بالا تعریف میں قمار کی تمام صورتیں آجاتی ہیں ،اس میں وہ صورتیں بھی ہیں جو کھیل کھود سے تعلق رکھتی ہیں اور وہ صورتیں بھی ہیں جو کھیل کھود کے علاوہ دیگر معاملات میں پائی جاتی ہیں ۔
قمار کی اس تعریف سے ملتی جلتی تعریف ڈاکٹر نزیہ حماد نے "معجم المصطلحات المالیہ والاقتصاد یہ فی لغۃ الفقہاء "میں تحریر فرمائی ہے:
"وحقیقته مراهنة علی غرر محض، وتعلیق للملک علی الخطر فی الجانبین، وعلی ذلک عرفه ابن تیمية بأنه أخذ مال الإنسان وهو علی مخاطرة، هل یحصل له عوضه أو لا یحصل؟وقال غیره هوتعلیق استحقاق المال بالخطر"۔[4]
"اس قمار کی حقیقت یہ ہےکہ اس کی بنیاد صرف دھوکہ پر مبنی ہے اور ملکیت کو دونوں طرف سے غیر یقینی کیفیت پر لٹکایا جاتاہے ۔اسی وجہ سے علامہ ابن تیمیہ نے قمار کی تعریف اسطرح کی ہے "دوسرے انسان کا مال دھوکہ کے ساتھ حاصل کرنا چاہے وہ کسی عوض کے ساتھ ہو یا بغیر عوض کے ۔اور بعض حضرات نے قمارکی یہ تعریف کی ہے کہ مال کی ملکیت کے استحقاق کو غیر یقینی کیفیت کے ساتھ منسلک کرنے کو قمارکہاجاتاہے" ۔
حضرت عاصمؒ ابن سیرینؒ سے روایت کرتے ہیں کہ: ہر ایسا معاملہ جس میں غیر یقینی کیفیت ہو تو وہ میسر(جوا) میں شمار ہوتاہے[5]۔
درج بالا تعریفات سے یہ بات واضح ہوتی ہےکہ قمار کسی ایک خاص متعین صورت کا نام نہیں ہے بلکہ ہر وہ چیز قمار کے مفہوم میں داخل ہے جس میں مال کے حصول کو یاکسی سے مال کی وصولی کو کسی غیر یقینی کیفیت کے ساتھ منسلک کیاجائے چاہے وہ مال کسی چیز کے بدلے لیاجائے یا بغیر کسی عوض کے لیاجائے۔
قمار کےاجزائے ترکیبی
قمارکی درج بالا تعریفات کو سامنےرکھتےہوئے یہ بات واضح ہوجاتی ہےکہ قمار کےعناصر درج ذیل اجزاہیں:
1۔ قماردو یادوسےزیا دہ فریقین کے درمیان ہوتاہے ۔ لہذا اگر ایک طرف سےمعاملہ ہوگا تو پھر وہ قمار میں شمار نہ ہوگا۔
2۔قمار میں کسی دوسرے انسان کا مال حاصل کرنے کی غرض سےاپنا مال داؤپر لگایاجاتاہے ۔
3۔ قمارمیں جانبین میں سے ہر فرد کا مال ایک ایسی غیریقینی کیفیت اور غیر اختیاری واقعے پر موقوف کیاجاتاہے جس کے پیش آنے اور نہ آنے کا احتمال موجود ہوتاہے ۔
4۔قمار میں جو مال داؤ پر لگایا جاتاہے وہ دوسرے کے پاس بغیر کسی معاوضہ کےچلاجاتاہے یا پھر دوسرےانسان کامال اس فرد کےپاس بغیر کسی معاوضہ کےآجاتاہے ۔ دو نوں فریقین میں سےکسی ایک کا نقصان یقینی ہوتاہےاودوسرے کا فائدہ ہوتاہے ۔
قمار کے یہ چارعناصرہیں جس معاملہ میں یہ چارعناصرموجود ہوں گے وہ قمارمیں شمار ہوگا ۔ اگر ان عناصر میں سےکوئی ایک عنصر بھی موجود نہ ہوگا تو وہ معاملہ قمارمیں شمار نہ ہوگا۔
اسلام کی آمد سے پہلے معاشرے میں جوا کی کثرت
اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں جو ا ،سود اور قتل وغارت گری عرب میں عام تھی ، ان چیزوں کوعیب اور برا ئی بھی تصور نہ کیاجاتا تھا بلکہ ایسے غلط کاموں کے کرنے پر شرمندگی تو کیا ہوتی الٹا اس پر وہ اپنی مجالس میں فخر بھی کرتےتھے اور اپنے اشعارمیں ،نجی او رعام محفلوں میں ایسی امور کا ذکر کرکےان پر فخر کرکے اس کو اپنی بھادری تصور کرتے تھے ۔صرف اس پر اکتفاء نہیں کرتے تھے بلکہ جوشخص ایسے غلط کاموں سے دوری اختیار کرتاتھا تو اس کو بخل اوربزدلی کے طعنے دیئے جاتے تھے ۔ان میں جو ا کی کثرت کا یہ حال تھاکہ لوگ اپنےاہل وعیال کو بھی جو ا کےداؤپر لگاتےتھے۔جیساکہ"محیط برھانی" میں ہے :
قال ابن عباس إن المخاطرة قمار وإن أهل الجاهلیة کانوا یخاطرون علی المال والزوجة وقد کان ذلک مباحا إلی أن ورد تحریمه وقد خاطر أبوبکر الصدیق المشرکین حین نزلت (الم غلبت الروم ) وقال له النبی صلی الله علیه وسلم زد فی الخطر وأبعد فی الأجل ثم حظر ذلک ونسخ بتحریم القمار ولاخلاف فی حظره۔[6]
"حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غیر یقینی کیفیت پر مال کو داؤپر لگانا قمار ہے ،اہل جاہلیت اپنے مال او راور اپنی بیوی اور اولاد پر بھی قمار کھیلتےتھے ۔حضرت ابوبکر نے مشرکین کے ساتھ شرط لگائی کہ جب سورۃ روم نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مال کی مقدار بڑھادو اور مدت بھی بڑھادو : پھر اس جو ا کو بعد میں حرام کردیا گیا اب اس کی حرمت پر کو ئی اختلاف نہیں ہے"۔
حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب "حجۃ اللہ البالغۃ" اہل عرب میں سود اورقمار کی کثرت کو بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتےہیں:
" جو ا اور سودی معاملات اہل عرب میں زیادہ تھے جن کے سبب ان میں عام طورپر مسلسل جھگڑے اورنہ ختم ہونے والی جنگیں جاری رہتی تھیں ،جوا اور سودکی تھوڑی سی مقدار اپنی طرف زیادہ چیزکو لےکرآتی ہے، سب سےبہتر بات یہ ہے کہ ان دونوں کی برائی کےپہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے کر ان سے مکمل اجتناب کیاجائے "۔[7]
ہمارےمعاشرے میں جوا کی چندرائج عام صورتیں
عصر حاضر میں جہاں خرید وفروخت کی نت نئی شکلیں متعارف ہوئی ہیں تو وہاں قمار بھی اپنی جدید شکلوں اور متفرق صورتوں کے ساتھ نمودار ہواہے ، جن میں کچھ صورتیں اگرچہ قمار اور جوئے کے نام سے بھی مشہور نہیں ہے، لیکن درحقیقت ان میں جوا کا عنصر موجود ہے، یہ سب در پردہ جوا ہی کی مزین شکلیں ہیں جو ہمارے معاشرے اور معیشت کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہیں ،ایک غریب انسان کا چولھا بجھانے میں اہم کردارادا کررہی ہیں اورمفلوک الحال انسان کو غربت کےدلدل میں ڈال رہی ہیں جن میں سے چند صورتوں کی وضاحت حسب ذیل ہے ۔
مقابلےاور ریس کی متفرق صورتیں
تاش کھیلنا، مرغے لڑا نا اورگاڑیوں کی آ پس میں ریس لگاکر شرط کرنایا اس طرح گاڑیوں کی آپس میں ریس لگانااور شرط ٹہرانا۔یہ سب صورتیں قمار اور جو ا کے زمرے میں آتی ہیں ۔[8]
متفرق انعامی اسکیمیں
آج کل مختلف اخبارات مثلا جنگ اخبار ،مختلف موبائل کمپنیوں کی طرف سے متفرق انعامی اسکیمیں متعارف کروائی گئیں ہیں ، ٹی وی کے مختلف پر وگروموں اور متفرق رسائل میں مختلف قسم کے سوالات کا حل پوچھا جاتاہے س کےساتھ اس کی فیس بھی رکھی جاتی ہے کہ جو شخص درج تمام سوالات کے صحیح جوابات حل کرکے بھیجے گا،اس کےساتھ اس کی اتنی فیس بھی بھیجے گا تو پہلے نمبر پر آنے والےفردکو اتنا انعام دیا جائےگا،دوم اورسوم نمبر آنے والے افرادکو اتنا اتنا انعام دیا جائے گا ۔پھر اول ،دوم اور سوم نمبرز کا انعام ان کے درجے کے اعتبار سے ان تمام افراد میں قرعہ اندازی کے ذریعے تقسیم کیاجاتاہے جن کے مکمل جوابات درست ہوتے ہیں ،لوگ ا س انعام کی لالچ میں آکر ان سوالات کو حل کرکے اس کی فیس بھی روانہ کردیتے ہیں اپنی قسمت آزمانے کے لیئے کہ شایدوہ مقرر انعام مل جائے ،شاید اس قرعہ اندازی میں ہمارا بھی نام نکل آجائے اور اس تھوڑی سی فیس کے عوض شاید ہمیں زیادہ رقم ملے اور ہمارا بھی انعام نکل آئے ۔کچھ لوگ مستقل ایسے مواقع کی جستجواور انتظار میں رہتے ہیں ۔
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی ؒ قمار کی اس صورت کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:
"یہ معمہ بازی اس وجہ سےبھی زیادہ سخت گناہ کا کام ہے کہ اس میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف لوگوں کو باقاعدہ دعوت دی جاتی ہے اور اشتہار دیاجاتاہے ۔ جس کی وجہ سے لاکھوں اور کروڑوں لوگ اس میں شامل ہوجاتے ہیں ،اور اس کو گناہ بھی تصور نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے اس گناہ کی قباحت اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔اس لیئے اس میں جتنے بھی لوگ شامل ہونگے ان سب کا گنا ہ ان پر ہوگا جو اس کا اہتمام کر تے ہیں "۔[9]
شرط لگانا
ہمار ے ملک میں انڈیا اور پاکستان کا کرکٹ میچ جب بھی کھیلا جاتاہے کروڑوں کا پیسہ داؤپر لگاکر جوا کے ذریعے جیتا اور ہرایاجاتاہے ۔ اسی طرح مختلف ریس اور دوڑ کے مقابلوں میں شرط لگاکر پیسے جیتے اور ہرائے جاتے ہیں سینکڑوں افراد تھوڑی سی دیر میں اپنی جمع شدہ پونجی ضائع کرکے اپنی دولت کو گنوابیٹھتے ہیں اور غربت کے گڑھے میں گر تے ہی چلے جاتےہیں ۔ اسی طرح مروج تاش کھیلنا ااور مرغوں کی آپس میں لڑائی کرواکے ہزاروں روپے داؤپر لگاکر شرط لگا تے ہیں ۔یہ سب صورتیں بھی قما ر میں داخل ہیں ۔
قمار نصیب آزمانے کےنام سے ۔
اپنا نصیب اور قسمت آزمانے کے نام سے مختلف صورتیں جوا کی بازا ر میں رائج ہیں ۔
ایک صورت یہ بھی ہے کہ حلقہ نما کڑا چند روپوں کے عوض کرائے پر حاصل کیاجاتاہے پھر اس حلقہ نما کڑے کو ٹیبل پر مختلف مالیت کے موجود سامان کے او پر پھینکا جاتاہے جس سامان پرگرتاہے وہ سامان اس فرد کی ملکیت ہوجاتاہے جس نے خرید کراس کو گرایا تھا۔
بچوں کے مختلف کھیل
بچوں کے مختلف کھیل: جیسے کانچ کی گولیوں کےساتھ کھیل ،پتنگ بازی ،کبوتربازی اور دیگر کھیل، اگر شرط لگا کر ہوں، بھی قمار میں داخل ہیں ۔
کمیٹی کی ایک خاص صورت
پیسےجمع کرنے کی غرض سے چند شرکا ملکر پیسے اکٹھے کرتے ہیں اور ہر ماہ قرعہ اندازی کے ذریعے جمع شد ہ رقم نام نکل آنے والے فرد کو دی جاتی ہے ۔ کمٹی کی یہ صورت تو قمار نہیں ۔البتہ کمیٹی کی وہ خاص صورت جس میں ممبران ہر ماہ لے کر پیسے قرعہ اندازی کرتے ہیں اور یہ طے کرتے ہیں کہ جس ممبر کا قرعہ اندازی میں نام نکل آئے گا نکل آنے والی رقم اس کے حوالے کردی جاتی ہے اوروہ فرد آئندہ کے لیئے قرعہ اندارزی سے نکل جائے گا اور آئندہ قسطیں بھی نہیں دے گا۔ یہ صورت قمار میں داخل ہے۔
اسٹاک ایکسچینج (Stock Exchange)
اس دور میں اسٹاک ایکسچینج کا کاروبار کافی اہمیت اختیا رکرگیا ہے جہاں پر مختلف کمپنیوں کے شیئرز کی خرید و فروخت ہوتی ہے اور مختلف طریقوں سے کاروبار ہوتاہے ، جس میں صحیح کاروبار بھی ہوتے ہیں اور غلط سودے بھی ہوتے ہیں،جس میں ایک صورت سٹہ کی ہوتی کہ انسان کا مقصد کاروبار کرنا نہیں ہوتا بلکہ بلکہ صرف قیمت کا فرق برابر کرکے نفع کمانا ہوتاہے ۔
اس طریقہ کار میں ایک تو ایسی چیز کی خرید وخروخت ہوتی ہے جو فی الحال مارکیٹ میں موجود نہیں ہوتی اور اس پر قبضہ کیئے بغیر آگے اس کو فروخت کیاجاتاہے ۔
دوسری خرابی یہ ہے کہ اس میں چونکہ قبضہ نہیں ہوتاہے تو ملکیت بھی شرعی اعتبارسے ثابت نہیں ہوتی جس کی وجہ سے ایسی چیز کو بیچاجاتاہے جس پر ابھی ملکیت ثابت نہیں ہوتی جو شریعت میں ناجائز ہے ۔
دوسری خرابی یہ ہے کہ اس میں قمار بھی ہے کیونکہ اس کا مقصد خرید وفروخت نہیں۔
یہ بھی قمار ہی کی ایک قسم ہے کہ جس میں نفع موہومہ کے پیش نظر انسان سودا کرتاہے پھر اس سودے میں اس کو نفع اور نقصان دونوں کا اندیشہ ہوتاہے خرید وخروخت کرنے والے شخص کا مقصد صرف نفع کمانا ہوتاہے
انشورنس (Insurance)
پاکستان اوردیگراسلامی ممالک میں انشورنس کو و تعاونوا علی البروالتقویٰ کے اصول کے تحت ایک دوسرے کےساتھ تعاون کرنے کا نام دے کر اس کوجائزقراردےکر شرعی لباس پہنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
حالانکہ یہ قمار کی ایک ہی قسم ہے کیونکہ انشورنس میں یہ شرط لگائی جاتی ہے کہ اگر معین مدت کے دوران وہ چیز تلف ہوگئی تو اصل رقم کے اضافی بونس کی شرح زیادہ ہوجائے گی اور اگر متعینہ مدت گذر گئی وہ چیز تلف نہ ہوئی تو پھر اس بونس کی شرح کم ہوگی ۔یہی قمار ہے کیونکہ ان دونوں میں سے کوئی ایک صورت متعین نہیں کی گئی ۔
درج بالاصورتوں کے ذریعے جو ا کی تمام شکلوں کو بیان کرنا مقصد نہیں ہے بلکہ جو ا کی تعریف کی روشنی میں اس کی چند مثالیں بیان کرنا مقصد ہے کیونکہ ہر دور میں جو اکی مشکلیں بدلتی رہتی ہیں ۔
جوا کے نقصانات
جوا میں اگر چہ ایک دو افراد کا فائدہ ہے لیکن ہارنے والے انسان اور دیگر انسانوں پر اس کےپڑنےوالے اثرات بد کے پورے معاشرےپر جو منفی اثرات پڑتےہیں وہ اس کے فوائد سے کہیں زیادہ ہیں ۔ جن میں چند اہم مفاسد کو بیان کیاجاتاہے ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں شراب اورجوئےکواکٹھے ذکر فرماکر بتلادیاکہ ان دونوں کے ایک ہی جیسے نقصانات ہیں ۔ شراب کے نقصان کو سب لوگ بلا کسی فرق کے تسلیم کرتے ہیں اور اس کے معاشرے پر پڑنے والے نقصانات سب کے سامنے واضح ہیں ا ن کومنوانے کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ۔
شراب کی طرح قمار بھی اسی طرح کی نقصان دہ ہے ،اس کےبھی معاشرے اور معیشت پر منفی اثرات پڑتے ہیں ۔ شراب کی طرح جوا کی بھی متفرق صورتیں معاشرے کے بگاڑنےمیں اورنیکی سےدور کرنے میں اہم کردار کرتی ہیں ،بلکہ دوسرےکتنے ہی گناہوں کاذریعہ بنتے ہیں ۔ جیسے : لوٹ ما ر،گالم گلوچ، دنیا سے محبت اور آخرت سے بے فکری ،بغض و حسد ،آپس میں لڑائی اور قتل وقتال تک جیسے برے افعال بھی ان کی سبب نمودار ہوتےہیں ۔
بدترین بات یہ ہےکہ قانون وآئین کی نظر میں بری چیز ہونے کے باوجود اس کو کوئی روکنے پر قادر نہیں اب مزید ظلم یہ ہے کہ اس کی برائی کا احساس بھی مسلمانوں کی نظر سے محوہورہاہے ۔
مزید برآں یہ ہے کہ قمار جوئے کے نام سے متعارف نہیں کہ اس کو آسانی کے ساتھ پہچاناجائے بلکہ زمانہ حاضر میں اس کی متفرق شکلیں او ر مسلمانوں کی بےخبری کی وجہ سے کہیں اس کو انعام تو کہیں قسمت آزمائی کے عنوان سے تعبیر کیاجاتاہے ۔
قمار کے دینی نقصانات
جوا کے ذریعےانسان اللہ تعالی کی نافرمانی کر کے اپنے ر ب کریم کوناراض کرتاہے جوایک مسلمان کے واسطے قابل افسوس ہے۔
قمار اللہ تعالیٰ کے ذکر،نماز،تلاوت قرآن کریم اور دیگر عبادات سےغافل کرنے کا ذریعہ ہے۔ ظاہرہے جو شخص جو ا میں منہمک ہوجاتاہے،اس پر صرف اپنی ذاتی غرض اور اپنا فائدہ پیش نظر رہتاہے صرف دنیا ہی کی فکر سوار ہوجاتی ہے ۔ وہ اپنےگھروالوں سےغافل اور دوسرے کی دنیا سے بےخبر ہوجاتاہے ،ایساانسان اپنےرب کریم کو بھی بھلاد یتاہے ۔جوا کھیلنے والا بہتر اخلاق مثلا سخاوت،ایثار اور محبت سےدور ہوتاہے۔اس کےساتھ ساتھ جوا کھیلنے والا سخت دل ، دھوکے باز ،بد کردار اور زبان دراز ہو جاتاہے۔ بغض ، عداوت،اور دوسروں کےلیئے کینہ پرور ہوتاہے اور ان صفات مذمومہ کے بغیر وہ قمار میں کامیابی بھی حاصل نہیں کرسکتا ہے ۔
قمار کے ذریعے دوسرے کےمال پر ناجائز قبضہ ہوتاہے۔
قمار میں ایک انسان کا مال دوسری کی اجازت اور رضامندی کے بغیر لیاجاتاہے ،جبکہ شریعت کے اندردوسرے انسان کا مال لینے کا یہ طریقہ سراسر ناجائز ہے۔ جیساکہ قرآن کریم کی آیت مبارکہ ہے :
یایها الذین آمنوا لاتاکلوا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارة عن تراض منکم[10]
"اے ایمان والو ! ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ مگر یہ کہ باہمی رضامندی کی تجات کے ساتھ ہو "۔
اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :
لا یحل مال امرء إلا بطیب نفس منه[11]
"کسی انسان کامال اس کی رضامندی کےبغیر لینا جائز نہیں ہے "۔
قمار میں انسانیت کو دھوکہ دیاجاتاہے
قمار کے اندردوسری خرابیوں کےساتھ ساتھ ایک خرابی یہ ہےکہ دوسرے انسان کا مال دھوکہ دےحاصل کر لیاجاتاہے، اوردھوکہ کےسبب ایک انسان دوسرےپر غلبہ حاصل کرتاہے۔حالانکہ اسلام میں دھوکہ لینا اوردینا دونوں منع ہیں ۔جیساکہ ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :
"جس نےہم (مسلمانوں )کو دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے"۔[12]
جبکہ جوئے کے اند ر ساراکام دھوکہ دہی پر مبنی ہوتاہےکیونکہ جوا میں فریقین میں سےہر فریق دوسرےکوشکست دے کر اپنی برتری اور کا میابی چاہتاہےاوروہ بھی محنت او ر مشقت کےبغیر صرف دوسرے کو دھوکہ دےکر۔
مولانا عبدالماجد دریاآبادی ؒجو ا کی قباحت اپنی کتاب "تفسیر ماجدی" میں درج ذیل الفاظ میں تحریر فرماتےہیں :
"قمار بازی کی لائی ہوئی مصیبتیں کچھ کم ہیں ؟فرنگستان کے سب سے بڑے قمار خانے مونٹے کارلومیں میں ہرسال کتنی بےشمار دولت تلف ہوتی رہتی ہے دیوالی اور جمگھٹ کی راتوں کوہندوستاں کے اندر کیاکچھ نہیں ہوتا؟اور پھر جوئے کی جدید ترین شکلوں، بیمہ کمپنیوں کے جوئے ،گھر دوڑکے جوئے ،چٹھیوں (لاٹریوں کےجوئے )سٹے وغیرہ کو کون کہاں تک شمار کرے ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رہی قمار بازی سواس باب میں قانون اسلام سے باغی ومنحرف ہوکر یورپ اپنےہاتھوں اپنا جوا حلال کررہاہے ،وہ عالم آشکارہے۔ خود کشی اوراقدام خود کشی کے کتنے واقعات مے نوشے اورقمار بازی ہی کا نتیجہ ہیں !پھر مالی ابتری کا اندازہ اس سےکیجئےکہ یورپ کی پہلی جنگ عظیم سے قبل اکیلےملک انگلستان سے متعلق تخمینہ ہے کہ کم از کم دس کروڑپونڈ سالانہ کی رقم اپنے مالکوں سے نکل کر جواریوں کے ہاتھ پہنچتی رہتی ہے "[13]
مفتی محمد تقی عثمانی صاحب فرماتےہیں:
"چونکہ قمار بازی ایک گناہ کبیرہ ہے ،اور اس کی بعض صورتیں نہایت سنگین بھی ہوسکتی ہیں اس لئے مناسب یہ ہے کہ اس کی سزا کی انتہائی مقدار میں جو اس وقت دفعہ 294 کی رو سے چھ ماہ کی قید ہے،مناسب اضافہ کیاجائے "۔[14]
اسی طریقہ سے مشہور محدث ،مفسر ، ماہر معاشیا ت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ جو ا کے متعلق تحریر فرماتے ہیں :
اعلم أن المیسر سحت باطل، لأنه اختطاف لأموال الناس عنهم معتمدا علی اتباع جهل وحرص و أمنیة باطلة رکوب غرر تبعثه هذه علی الشرط، ولیس له دخل فی التمدن والتعاون، فإن سکت المغبون سکت علی غیظ وخیبة، وإن خاصم فیما التزم بنفسه واقتحم فیه بقصده والغابن یستلذه ویدعوا قلیله إلی کثیره، ولا یدعه حرصه أن یقلع إهمال لارتفاعات المطلوبة، وإعراض عن التعاون المبنی عليه التمدن والمعاینة تغنیک عن الخير هل رأیت من أهل القمار إلا ما ذکرناه؟[15]
"اس تمدنی زندگی کی بنیاد تعاون پر ہے لہذ اترقی اموال کے وہ تمام ذرائع جو تعاون کی روح سے خالی ہوں اصول فطرت انسانی کے لحاظ سے بالکل ناجائز اور تمدن کے منافی ہیں جیسے قماربازی اورسٹہ جن میں اگرچہ مبادلہ ہوتاہے لیکن وہ کسی منفعت بخش چیز کےپورے معاوضے کے بدلے میں نہیں ہوتا ،بلکہ قمارباز اپنی جہالت اورلالچ کے باعث اس جھوٹی امید پر کہ ایک ہی داؤ میں مجھے بہت ساری دولت ہاتھ آجائے گی،ایک کثیررقم کی شرط بدلیتاہے۔ ظاہرہے کہ اس ذریعہ اکتساب میں تعاون کو کوئی دخل نہیں ہے ۔ اگر وہ شرط ہارگیاتو اسے قہر درویش بجان درویش کےمطابق خاموش جاناپڑے گا اور جیت گیا تو اس کی یہ کمائی کسی خدمت کے بغیر ہوگی۔ معاشرت میں ایسے پیشے اصول انسانیت کے خلاف ہیں ۔"
حجۃ اللہ البالغہ میں ایک مقام پر حضرت شاہ صاحب تحریر فرماتےہیں :
فإن کان الاستنماء فیها بما لیس له دخل فی التعاون،کالمیسر أو بما هو تراض یشبه الاقتضاب کالربا، فإن المفلس یضطر إلی التزام ما لا یقدر علیٰ إیفائه ولیس له رضاه رضا فی الحقیقة، فلیس من العقود المرضیة ولا الأسباب الصالحة وإنما هو باطل وسحت بأصل الحکمة المدنیة۔[16]
"اگرمال کی بڑھوتری ایسے طریقوں سے ہوئی جن کو انسانیت کے تعاون میں دخل نہیں ہے جیسے جوا ۔یا وہ ایسے پیشےہوں جن میں اگرچہ ظاہر ی رضامندی پائی جاتی ہو لیکن حقیقت میں نہ ہو جیسے سود ،کیونکہ سود میں سود لینے والا اپنی مجبوری کےپیش نظر زیادہ دینے پر اگر چہ اپنی رضامندی ظاہر کرتاہے لیکن درحقیقت وہ اس پر راضی نہیں ہوتا۔یہ دونوں جوااو سود پسندیدہ کاموںمیں سے نہیں ہے،ایسا کرنا باطل اورحرام ہے شہری حکمت اور مصلحت کے تحت" ۔
قمار کے معاشرتی نقصانات
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جتنی بھی اشیا ء تخلیق فرمائی ہیں ان اشیا ء میں منفعت اور مضرت دونوں پہلو ہوتے ہیں ،کسی میں نفع زیادہ ہوتاہے تو اس میں نقصان بھی ہوتاہے لیکن نقصان کے مقابلے میں نفع کی مقدار زیادہ ہوتی ہے ،اسی طر ح سے اگر کسی شیء میں بظاہر نقصان نظر آتاہے تو اس میں فائد ہ بھی ہوتاہے لیکن نقصان فائدے سےبھاری ہوتاہے،اس وجہ سے اس کو نقصان والی چیز شمار کیاجاتاہے ،دوسری اشیاء کی طرح قمار میں بھی بظاہر کسی انسان کا فائدہ بھی نظر آتاہے کہ جو انسان جیت تاہے اس کو تو اس جوا سے فائدہملتاہے کہ وہ بیٹھے بیٹھے بہت ساری دولت کا مالک من جاتاہے ،اگر وہ امیر ہےتو جلدہی امیر بن جاتاہے ۔
ہر کاروبار اورہر معاملہ میں نفع اور نقصان دونوں کا احتمال موجودہوتاہے ، جوا میں بھی فائدہ اورنقصان دونوں کا احتمال موجود رہتا ہے، لیکن اس میں ایک شخص کا فائدہ دوسرے کےنقصان کے ساتھ وابستہ ہوتاہے ،دوسرے شخص کو نقصان دیئے بغیر فائدہ حاصل کرنا مشکل ہے، اس وجہ سے اسلام نے ہر ایسا معاملہ کرنے کی سرے سے ممانعت فرمائی ہے جس میں دوسرے انسان کونقصان دےکر اپناذات کو فائدہ پہنچایاجائے ۔ذی شعور انسانوں میں سےکوئی بھی ایسے فعل کو اچھی نظرسے نہیں دیکھتاکہ دوسرےکا چولھا بجھاکر اپنا چولھا جلا ئے اور دوسرے انسان کا پیٹ کاٹ کر صرف اپناہی پیٹ بھراجائے ۔جبکہ اس کے بالمقابل اسلام کی ابدی تعلیمات یہ ہیں کہ اپنی ضروریات کو مؤخرکرکے دوسرے انسان کی ضروریات پوری کرنےکی کوشش کی جائے ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی سیرت ایسے واقعات سےبھری پڑی ہےکہ اپنے آپ کو بھوکا ررکھ کردوسرے حاجت مندکی ضروریات کو پورا کیا ہے ، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کو ایثارکے نام تعبیر کیاجاتاہے جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ویؤثرون علی انفسهم ولو کان بهم خصاصة[17]
"اور وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتےہیں اگرچہ خو د ان کو اس کی ضرورت ہو"۔
جوا انسان میں محنت اور مشقت کی عادت کو ختم کرتی ہے
قوموں کی ترقی کا راز محنت اور جدوجہد میں پوشیدہ ہے ،کسی قوم کی معاشی تباہی کا بڑا سبب جتماعی کاہلی ، سستی کا ہوناہے۔ محنت اور مشقت کسی قوم کا زیور ہوتاہے ۔ حضرات انبیائے کرام نے اپنےقول وعمل کی تعلیمات سے انسانیت کو محنت کی عظمت کا درس دیا اور محنت کرنے والے انسان کی حوصلہ افزائی فرمائی اورایسے انسان کو اللہ کا دوست اور محبوب بتایا ۔جبکہ جوا کے عمل میں جواری انسان دوسرے انسان کا مال بلا محنت اور مشقت کے مفت دولت حاصل کرتاہے ، جس انسان میں مفت دولت حاصل کرنے کی عادت پڑجائے وہ کبھی بھی محنت ومشقت والے کام کرکے روزی حاصل نہیں کرے گا وہ ہمیشہ گھر بیٹھے بیٹھے دولت کمانےکی کوشش کرےگا۔
جوا باہمی لڑائی او رجھگڑے کا سبب بنتی ہے
جوا کے ذریعے لڑا ئی اور جھگڑا معمول ہے اور یہ روز مرہ کا تجربہ ہے کہ جو انسان جوا ہار جاتاہے وہ جیتنے والے فرد کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا اور اپنے دل میں اس کے خلاف بغض وعداوت رکھتاہے بسااوقات کسی بات میں اختلاف دو افراد میں لڑائی پیداکردیتاہے اورپھر یہ لڑائی دوافراد سےہوتےہوئے دونوں خاندانوں میں منتقل ہوجاتی ہے اور قتل وقتال تک بھی نوبت آجاتی ہے اور قوموں کی تباہی اور سکون ختم کرنے کا سبب بن جاتی ہے ،یوں پورے معاشرے کا امن اور سکون برباد ہوجاتاہےاور انسان معاشرتی زندگی کے لطف سے محروم ہوجاتاہے ۔
قمار کے معاشی نقصانات
قمار کی برائیوں کےلیئے دلائل بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہےکیونکہ قمار کے اندر ایک دو نہیں، بلکہ بےشمار خرابیوں کا انبار ہے جو ایک مستقل موضوع ہے لیکن ان میں سےچنداہم خرابیوں کا ذکر کیاجاتاہے ۔
قمار معاشرے میں غربت پیداکرنے کاسبب ہے
قمار معاشرے کے اندر معاشی بد حالی پیدا کرتاہے کیونکہ قمار کے ذریعے سے ہرانے والا شخص اگر غریب ہے تو وہ مزید معاشی بدحالی کا شکار ہو جاتاہے اور اس کے گھر کا چھولا بجھ جاتاہے، اگر وہ متوسط یا متول طبقے سے تعلق رکھتاہے تب بھی ہرانے کی صورت میں اس کی دولت میں زوال آجاتاہے ۔پھر انسانیت کی معاشی بدحالی اس کو دیگر سنگین جرائم میں مبتلا کردیتی ہے کیونکہ جس کو جوا کی عادت پڑجائے تو اس سےجان چھڑانا مشکل ہوجاتاہے ۔ وہ اپنی ناجائز تسکین پوری کرنےکے لیئے چوری،ڈکیتی جیسے گھٹیا کا موں کی طرف رخ کرکے پورے معاشرے کو خراب کردے تاہے ۔
قمار کی وجہ سے تقسیم دولت کا طبعی نظام موثرہوجاتاہے
قمارکے سبب دولت پورے معاشرے سے سکڑ کر چند لوگوں کے پاس جمع ہو کررہ جاتی ہے حالانکہ اسلام کا اصول یہ ہےکہ دولت کسی ایک خاندان یاکسی خاص طبقہ میں جمع نہ ہونے پائے بلکہ دولت پورے معاشرے میں گردش کرتی رہے اور دولت میں ایک خاص قسم کا توازن رہے یوں وہ دولت امیر وغریب کے درمیان تفاوت ختم کرکے کسی ایک طرف دولت کا رخ نہ رہے جیساکہ باری تعالی ٰ کا ارشادہے :
کی لایکون دولة بین الاغنیاء منکم[18]
"تاکہ وہ دولت صرف ان کے مالداروں ہی میں گردش نہ کرے "۔
جبکہ حقیقت یہ ہےکہ قمارکی وجہ سے معاشرے میں تقسیم دولت کے نظام میں تفاوت پیدا ہوجاتاہے ،دولت ایک جگہ سکڑکر رہ جاتی ہے جس کے سبب معاشرے کا امیر انسان مزید امیر تر ہوجاتاہے اورمعاشرے کا نچلا طبقہ مزید غریب تر ہوتا رہتاہے ۔
قمار کی وجہ سےعیاشی اور فضول خرچی کا دروازہ کھلتاہے
قمار کی وجہ سے انسان میں فضول خرچی اور اسراف کی عادت پڑجاتی ہے کیونکہ جب انسان کو جو ا کے ذریعے بلامشقت مال حاصل ہوتاہے تو اس دولت کی انسان قدر نہیں کرتا اور بے موقع اور بلاضرورت خرچ کردیتاہے ۔ او رفضول خرچی اور عیاشی کی عادت پڑجانےسے دولت ایسی چیز کے خریدنے پر خرچ کرتاہے جو اس کی ضروریات میں شامل نہیں ہوتی۔ ایسا انسان قناعت ،صبراورشکر جیسی صفات حمیدہ سے محروم ہوجاتاہے۔
قمار کے متعلق قرآنی تعلیمات
ارشاد باری تعالی ہے:
یسئلونک عن الخمر والمیسر قل فيهما اثم کبیر ومنافع للناس واثهما اکبر من نفعهما[19]
"(اے پیغمبر ) لوگ تم سے شراب اور جوئےکا حکم پوچھتےہیں ۔آپ کہدوکہ ان چیزوںمیں بڑا نقصان ہے اگرچہ اس میں کچھ فائدے بھی ہیں ۔لیکن ان کےنقصانات اس کے فائدوں سے زیادہ ہیں" ۔
قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ نازل ہونے کے بعد اللہ نے اسی شراب اورقمار کے متعلق دوسری آیات بھی نازل فرمائیں:
یايها الذین آمنوا انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطن فاجتنبوه لعلکم تفلحون انما یرید الشیطن ان یوقع بینکم العداوة والبغضاء فی الخمر والمیسر ویصدکم عن ذکر الله وعن الصلوٰة فهل انتم منتهون[20]
"اے ایمان والو! شراب ،جوا ،بت اور پاسے (یہ سب )ناپاک کام شیطان کے سے ہیں سوان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پاؤ۔شیطان تو یہ چاہتاہے کہ شراب اورجوئے کے سبب تمہارے آپس میں دشمنی اور رنجش ڈلوادے اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نماز سےروک دے توتم کو (ان کاموں سے )باز رہنا چاہیئے "۔
دین اسلام جو انسانیت کے لیئے باعث رحمت بن کر آیاتھا ،جس دین کے پیغمبر کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمۃ اللعالمین کا خطاب دے کر پکارا گیا، اس دین میں ایسے پیشے کی کیسے گنجائش ہوسکتی ہے جس میں انسانیت کےلیئے سراسر نقصان ہے، چونکہ اس دین کے حامل افرادکو یہ تعلیمات دی گئی ہےکہ وہ نہ تو خودنقصان برداشت کرے اور نہ ہی کسی اورفرد کو نقصان پہنچائیں جبکہ قمار ایسا قبیح فعل ہے جس میں صر ف کسی ایک فرد کا نقصان نہیں بلکہ پورے معاشرا اس سے متاثر ہوتاہے ،ہزاروں گھر اس کی بدولت ویران ہوتےہیں،کئی خاندان اجڑتےہیں ،لڑائی جھگڑا اس کا خاصہ ہے اور غربت اس شجر ممنوعہ کا سایہ ہے ۔
قمار کے متعلق نبوی تعلیمات
قمار کی خرابیوں کے پیش نظر دور رس نبوی نگاہوں نے اس کے خطرات کومحسوس کرتےہوئے سختی سے اس کا م سےروکا کیونکہ اس کے نقصانات صرف ایک فرد یا دایک گھر تک محدود نہیں ہوتے بلکہ اس قبیح کا م کے چھینٹے اوراس کے اثرات دور دراز مقامات تک پڑتے ہیں جس سے کئی خاندان متاثر ہوتے ہیں ، اس لئے نبوی تعلیمات میں ایسے عمل سے سختی سے منع کیا گیا ہےاور اس عمل بد سے باز رکھنے کےلیئے نبوی زبان سے سخت الفاظ استعمال کیئے گئے ہیں ۔
جیساکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قمارکی مذمت بیان کرتےہوئے ارشاد فرمایا :
من لعب بالنرد شیر فکأنم اغمس یده فی لحم خنزیر ودمه[21]
"جس نے چوسر کھیلا گویا اس نے اپنے ہاتھ ڈبوئے خنزیر کےگوشت اور اس کے خون میں"۔
ایک مقام پر آنحضرت ﷺ نے قمار کی مذمت بیان کرتےہوئےارشاد فرمایا :
من حلف منکم فقال فی حلفه باللات والعزی فلیقل لا إله إلا الله ومن قال لصاحبه تعال أقامرک فلیتصدق[22]
"جس شخص نے قسم کھائی لات اور عزی ٰ کی تو اس کو چاہئے کہ وہ لا الہ الا اللہ کہے ۔اور جس نے اپنے ساتھی سےکھاکہ "آؤ جوا کھیلیں"تو اس کو چاہیئے کہ وہ صدقہ کرے" ۔
صرف جو ا کھیلناہی گناہ نہیں بلکہ جو ا کو دیکھنا بھی بہت بڑا گناہ ہے:
رسو ل اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
عن حیة بن مسلم أن رسول الله علیه وسلم قال: الشطرنج ملعونة ملعون من لعب
بها والناظر إلیها کأکل لحم الخنزیر[23]
"حیۃ بن مسلم فرماتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : شطرنج پر لعنت ہے اوراس شخص پر جو شطرنج کھیلتاہے اوراس شطرنج کے کھیل کو دیکھنے والا فرد بھی ایسا ہے گویااس نے خنزیر کا گوشت کھایا ہے "۔
عن عبد الله بن عمرو قال: من لعب بالنرد قمارا کان کأکل لحم الخنزیر، ومن لعب بها غیر قمار کان کالمدهن بودک الخنزیر[24]
"حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ جس شخص نے چوسر قمارکے طورپر کھیلا وہ خنزیر کا گوشت کھانے والے کی طرح ہے اور جو چوسر جوئے طور پر نہیں کھیلتاہے تو اس کی مثال خنزیر کی چربی کا تیل استعمال کرنے والے طرح ہے "۔
نتیجہ:
جب کسی کام سے اللہ تعالیٰ او ر اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم روکیں تو اس کام میں خیر کیسے ہوسکتی ہے ؟ کیونکہ اللہ تعالی سے بڑھ کر انسان سےاور دوسرا کوئی محبت نہیں کرسکتا،وہ تو اپنے بندے کےساتھ اپنی سگی ماں سے بھی ستر گنا زیادہ محبت کرتاہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر اس دنیا میں اور کون ہمدر د اورشفیق ہوسکتاہے؟لہذ ا جو ا اپنی تمام شکلوں کے ساتھ دین اسلام میں حرام اور ممنوع ہے ۔
آج کل جدید دورمیں جوا اپنی شکلیں بدل کراپنا نام بھی بدل چکاہے جس کی کچھ صورتیں تو ا انعامی اسکیم کے نام کے سے تو کچھ صورتیں دیگر ناموں کے ساتھ مشہور ہیں لیکن درپردہ یہ سب کچھ جو ا کے مختلف اقسام ہیں کیونکہ کسی کا نام بدلنے سےاس چیز کی حقیقت نہیں بدل جاتی ۔جو ا آج جس نام اور جس صورت میں موجو د ہے مقصد ان سب کا ایک ہی ہےکہ دوسرے انسان کو دھوکہ دےکر اس کی جیب سے بلا استحقاق پیسے نکال کر اپنی جیب میں ڈالنا ،دوسرے انسان کودھوکہ دےکر اس کی دولت پر قبضہ کرتےہوئے اس کی تھوڑی بہت قو ت خرید بھی ختم کر کے اپنی قوت خرید کو مضبوط کرنا اور معاشی اعتبارسےدوسرےکوکمزور کرنا اگرسادہ الفاظ میں جو ا کو بیان کیاجائےتو لوٹ مار اورڈکیتی کی ایک مہذب اور انوکھی قسم ہے جس کو جدید دور کے اعتبار سے مختلف نام دیئےگئے ہیں یہی وجہ ہے کہ قدیم جو ا اورجدید جوا اپنی تمام اقسام سمیت مقصد کے اعتبارسے ایک ہی چیز ہے کہ دوسرے کے مال پر قبضہ کرنا ۔جوا کی کونسی بھی قسم ہو اللہ تعالی نے قرآن کریم میں اور پیغمبر علیہ السلام نے واضح طور پر اپنی احادیث مبارکہ میں اس سے سختی سے منع فرمایا ہے جس کے برے اثرات دوافراد تک محدود نہیں ہوتے بلکہ پوری سوسائٹی پر پڑتے ہیں ۔
درج با لا قرآنی آیات،احادیث طیبہ ،فقہاءکرام اور ماہرین معاشیات کے اقوال سے درج ذیل نتائج حاصل ہوتے ہیں۔
قمار کی جدیداور قدیم صورتیں شرعاوعقلا منع ہیں ۔
جو ا میں دوسرے انسان کے مال پر ناجائز قبضہ کرکے حاصل کیاجاتاہے جو سراسرناجائز ہے ۔
قمار نہ صرف خود براہے بلکہ خود براہونے کے ساتھ ساتھ دیگر معاشرتی خرابیوں کوبھی جنم دیتاہے جیسے: باہمی گالم گلوچ آپس میں لڑائی جھگڑااور اختلافات ،باہمی بغض وعناد ،اور قتل وقتال تک بھی نوبت پہنچ جاتی ہے۔
قمارکےذریعےانسان سے انسانی صفات حمیدہ رخصت ہوجاتی ہیں جیسے ایثار،عفوودرگذر،قناعت،سخاوت اور رحم و کرم و غیرہ۔
جوا انسان کی معاشرتی اورمعاشی زندگی سے صفت اعتدال کو ختم کردیتی ہے ۔
قمار کی وجہ سےانسان میں عیاشی اور فضول خرچی کی عادت پڑجاتی ہے ۔
قمار کے ذریعےدولت ایک جگہ سمٹ کر رہ جاتی ہے اور چند افراد میں ہی محصور ہو جاتی ہے جبکہ شریعت کا تصور یہ کہ دولت پورے معاشرے میں گردش کرے ۔
دولت اللہ تعالی کی نعمت ہے اس کا احترام کر نا اس نعمت کی قدردانی اور شکر ہم پر ضروری ہے ،جبکہ قمار میں اس دولت کو بلاوجہ ضائع کیاجاتاہے جو اس نعمت کی ناقدری اور ناشکری ہے۔
قمار کےسبب دولت کا غیر منصفانہ عمل شروع ہوجاتاہے جس کے سبب معاشرے میں غربت بڑھتی ہے ۔
دولت چند خاندانوں میں محصور ہونےکے سبب معاشرے میں گرانی بڑھتی ہے ۔
قمار میں چونکہ انسان کو بلا محنت اورمشقت کےدولت حاصل ہوتی ہے اس وجہ سے انسان میں سستی پیدا ہوجاتی ہےاور انسان سے محنت ومشقت کی عادت ختم ہوجاتی ہے ۔
قمار کےسبب انسان دولت کے ساتھ بےانتہا محبت، حرص اورحوس پیدا کرتاہے ۔
جو ا اپنی متفرق شکلوں کے ساتھ ایک غریب آدمی کو مزید غریب تر ا ور امیر کو امیر تر بنادیتی ہے۔
جو ا انسان کو اخلاقی ،معاشرتی اور معاشی فرائض سے غافل کرکے دین سےدور کرکے روحانی اعتبار سے
اندھابنادیتی ہے
حوالہ جات
- ↑ ۔شامی،محمدامین ابن عابدین،علامہ،"الردالمحتار"(فتاویٰ شامی) ص:577 ج:9۔الریاض :دارعالم الکتب،2003
- ↑ === ۔الشربا صی،احمد"المعجم الاقتصاد الاسلامی"ص:۳۷۰، بیروت:دارالجیل(1981) ===
- ↑ ۔عثمانی، محمد تقی،مفتی" اسلام اور جدید معاشی مسائل" ص :358 ج:3 ،ادارہ اسلامیات (2008 )
- ↑ ۔ الدکتور،نزیہ حماد"معجم المصطلحات المالیہ ولاقتصایہ فی لغۃ الفقہاء" ص : 370 ۔دمشق ،دار القلم (2008)
- ↑ ۔ابوبکر،عبداللہ بن محمد بن ابی شیبۃ "المصنف لابن ابی شیبۃ" ص: ۵۲۷ ج :۸
- ↑ ۔ برہان الدین ،ابوالمعالی ،محمود بن صدالشریعۃ "المحیط البرھانی ص:15 ج:8۔کراچی ،ادارۃ القرآن ولعلوم الاسلامیۃ
- ↑ ۔دہلوی،ولی اللہ،شاہ ،محدث "حجۃ اللہ البالغۃ"،ص: 165 جلد:۱ بیروت ،دارالجیل
- ↑ === ۔ لدھیانوی ،محمد یوسف،مولانا"آپ کے مسا ئل اورا ن کاحل"ص :۲۶۰ ۔ج ۶ کراچی مکتبہ لدھیانوی ===
- ↑ ۔ثمانی،محمد شفیع،مفتی"جواہر الفقہ" ص:۳۵۱ ج:۲۔کراچی مکتبہ دار العلوم ۔
- ↑ ۔ القرآن ،پارہ :2 سورۃ البقرۃ الآیۃ :188
- ↑ ۔الدارقطنی،علی بن عمر(306 -385 ھج)ص:619: بیروت،دارابن حزم(1432 ھ سنہ اشاعت)
- ↑ ۔النیشاپوری، ایضا ،ص: 67ج:1 کتاب الایمان۔ سعودیہ،بیت الافکار الدولیۃ (1998)
- ↑ === ۔دریا با دی،عبدالماجد،مولانا"تفسیر ماجدی "ص :۱۱۳۔لاہور ،پاک کمپنی۔ ===
- ↑ ۔عثمانی ،محمد تقی،مفتی "اسلام اورجدید معاشی مسائل" ص:366ج:3 ادارہ اسلامیات (2008 )
- ↑ ۔ دہلوی ،ولی اللہ،شاہ ،محدث " حجۃ اللہ البالغۃ" ص :164 با ب ابتغاء فضل الرزق ،مکتبہ دار الجیل
- ↑ == ۔ایضا ، ص :160 ==
- ↑ ۔القرآن ،پارہ :28 ،سورۃ الحشر :الآیۃ :9
- ↑ ۔القرآن ،پارہ :28 ،سورۃ الحشر :الآیۃ :7
- ↑ === ۔القرآن ،پارہ :۲ سورۃ البقرۃ الآیۃ :۲۱۹ ===
- ↑ === ۔القرآن ،پارہ: ۷ سورۃ المائدۃ الآیۃ :۹۰ ۔۹۱ ===
- ↑ ۔ ابوبکر،عبداللہ بن محمد بن ابراہیم"المصنف لابن ابی شیبۃ"کتاب الادب،ص: 524:ج:8بیروت،الفاروق الحدیثہ للطباعۃ والنشر
- ↑ === ۔ بخاری،ابوعبداللہ،محمدابن اسماعیل"الادب المفرد" ص:۳۲۵۔القاھرۃ ،المکتبۃ السلفیۃ ===
- ↑ ۔الاند لسی ، ابو محمد ،علی بن احمد سعید بن حزم "المحلی با الآثار "ص :568 ج:7 ،بیروت ،لبنان دارالکتب العلمیۃ سنہ :2003
- ↑ ۔ابوبکر،عبداللہ بن محمد بن ابراہیم "المصنف لابن ابی شیبۃ"کتاب الادب ص: 524ج:8 ، بیروت، الفاروق الحدیثہ اللطباعۃ والنشر
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |