2
1
2018
1682060025806_732
1-20
http://www.arjish.com/index.php/arjish/article/download/25/23
http://www.arjish.com/index.php/arjish/article/view/25
Islam Sunnah Inward reform Controversial Devout Islam Sunnah Inward reform Controversial Devout.
پیدائش و تعلیم
حضرت حماد اللہ بن محمود بن حماد اللہ انڈھڑ سن 1301ہجری الموافق 1883ء میں ایک چھوٹے گاؤں ہالیجی شریف تحصیل پنو عاقل ضلع سکھر میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباء و اجداد بہاولپور ریاست سے ہجرت کرکے ہالیجی شریف میں آباد ہوئے۔1 آپ کا خاندان درویش صفت اور اللہ لوک فقیروں کا خاندان تھا۔آپ کے والد اور دادا نیک صالح باعمل انسان تھے۔ نیک ماحول میں پرورش پانے کی وجہ سے بچپن ہی سے آپ نیک سیرت تھے۔ آپ جب پڑھنے کی عمر کو پہنچے تو مدرسہ بستی ابراہیم میں آخوند ابراہیم انڈھڑؒ کے پاس قرآن مجید کی تعلیم کے حصول کے لیے بٹھائے گئے۔ وہاں مولانا محمد واصل بروہی صاحبؒ (وفات1955) سے بھی پڑھتے رہے۔ آپ کے ماموں حبیب اللہ انڈھڑؒ نے آپ کو قرآن مجید پختہ کرادیا اور آپ نے نام حق بھی انہی سے پڑھی۔ فارسی کی تعلیم آخوند حبیب اللہ انڈھڑؒ اور مفتی عبدالکریم کلہوڑو خیرپوریؒ کے والد بزرگوار آخوند عبدالرحیمؒ اور مولانا نور محمد عادل پوریؒ (1229ھ ـ 1363ھ) سے حاصل کی۔2 عربی کی تعلیم کے سلسلے میں آپ کو دور کا سفر کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑی۔ آپ ہی کی قوم کے ایک علامہ آپ کے گاؤں کے قریب جامع مسجد گھوٹکی میں موجود تھے۔ آپ ان کی خدمت اقدس میں عربی علوم کی تحصیل کے سلسلے میں حاضر ہوگئے۔ یہ بزرگ عالم مولانا قمر الدین انڈھڑ ؒتھے۔3 جن کو استاد العلماء کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔4 آپ نے درس نظامی کی ساری کتب انہی بزرگ کے پاس پڑھیں۔5 علم الحدیث کے حصول کے سلسلے میں پیر جھنڈو میں مولانا عبیداللہ صاحبؒ کے پاس حاضر ہوئے۔ وہاں پر استاد الکل مولانا محمد لغاریؒ (وفات1952ء) کے پاس بھی پڑھتے رہے۔6
درس و تدریس
تعلیم کے حصول سے فراغت کے بعد آپ تدریسی خدمت میں لگ گئے۔ آپ کو مطالعے، کتب بینی اور تدریس کا اتنا شوق تھا کہ چوبیس گھنٹوں میں سے تھوڑا سا وقت آرام کرتے ورنہ سارا وقت علمی خدمت میں گزارتے تھے۔7 مولانا مفتی عبدالکریم خیرپوری صاحب، مولانا حبیب اللہ، مولانا عزیزاللہ ٹھیڑھی والے، مولانا امیر احمد کھہڑا والے، مولانا نور محمد گھوٹکی والے، مولانا عبیداللہ انڈھڑ ہالیجوی شریف والے اور مولانا عطاءاللہ انڈھڑ ماتلی والے آپ کے خاص شاگردوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔8 آپ ہالیجی شریف اورٹھیڑھی میں تدریسی خدمات پر مامور رہے۔آپ شریعت کے ظاہری علوم کی اشاعت میں اتنا مشغول و مستغرق رہے کے علم تصوف کی طرف کوئی دھیان نہ دے سکے۔ آپ شرعی نقطہ نظر سے قادری سلسلے کے جہری ذکر پر اعتراض بھی کیا کرتے تھے۔
آپ نے اپنے گاؤں ہالیجی میں پڑھایا پھر قاضی عبداللہؒ کے اصرار پر جامعہ دارالھدی ٹھیڑھی میں تدریس کی خدمت کرتے رہے۔عشق رسولﷺ آپ کے دل میں ایسا رچ بس گیا کہ تدریس کے دوران میں شدت محبت رسول ﷺ کی وجہ سے آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے اور کتاب پر ٹپکتے رہتے تھے۔ آپ نے 1353ھ میں پنوعاقل میں مدرسہ مدینۃ العلوم کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا جو بڑی کامیابی سے چلتا رہا اور چل رہا ہے۔ آج بھی وہ مدرسہ قائم ہے جس میں بڑی دور دور سے علم کے پیاسے اپنی علمی پیاس بجھانے کے لئے حاضر ہو کر اپنی پیاس بجھاتے رہتے ہیں۔ آپ کو قرآن مجید سے بے حد شغف اور لگاؤ تھا۔ قرآن مجید کی تعلیمات پر زیادہ زور دیا کرتے تھے۔ آپ قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔ آپ کے ملفوظات بھی اس سے بھرے پڑے ہیں۔ آپ کے مرشد تاج الاولیاء سید تاج محمود امروٹی صاحبؒ(1859ء ـ 1929ء) کا قرآن مجید کا ترجمہ سلیس سندھی زبان میں بے حد مقبول رہا۔ مرشد کا اثر اپنے مریدین پر ہوتا ہے۔ آپ بھی قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ آپ کا وعظ اور تقریر قرآن مجید کی آیات کی تفسیر پر مشتمل ہوا کرتا تھا ۔ آپ کا معمول تھا کہ جمعہ کے دن قرآن مجید کے کسی بھی مقام سے ایک رکوع تلاوت فرما کر اس کی تشریح کے متعلق بیان کیا کرتے۔ آپ کی ہر تقریر اور واعظ کا اکثر موضوع قرآن مجید ہی ہوا کرتا تھا۔ آپ قرآن مجید کے ایک رکوع کی تلاوت فرما کر اس کا ترجمہ اور تشریح کرتے تھے۔ آپ کے خطبات جو "خطبات ہالیجوی" سے موسوم ہیں میں بھی یہی ترتیب ہے۔ گویا آپ کی ہر تقریر اور وعظ درس قرآن ہوا کرتا تھا۔
درس قرآن کی خصوصیات
آپ کے درس قرآن کی کچھ خصوصیات اس طرح ہیں:
1۔ شان نزول کا بیان۔ 2۔ ہر رکوع کا پہلے والے رکوع سے ربط۔ 3۔ آیتوں کی مناسبت سے عربی، فارسی اور سندھی ابیات۔ 4۔ تاریخی واقعات کا بیان جن کا تعلق قران کی آیات سے ہے۔ 5۔ تفسیر میں عوام کا زیادہ خیال رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے صرفی اور نحوی تحقیق نہیں بتائی۔ 6۔ توحید کی پرچار، ردبدعت، روحانیت اور تعلق باللہ کا خصوصی لحاظ۔ 7۔ احادیث نبوی کا ذکر آیات قرآنی کی مناسبت سے۔
بیعت و ارشاد
ٹھیڑھی سے تھوڑا دور فقیر عبدالغنی پلھؒ رہا کرتے تھے جو حضرت سید تاج محمود امروٹی ؒکے مرید تھے اور اہل دل درویش تھے۔9 عبدالغنی صاحب نے آپ سے ملاقات کا سلسلہ شروع کیا اور آہستہ آہستہ آپ کو ذکر و اذکار کا قائل کرنا شروع کیا۔ جب آپ ذکر و اذکار کے قائل ہو چکے تو آپ ان کی رفاقت میں سید تاج محمود امروٹی کی خدمت اقدس میں پہنچ گئے۔ سید تاج محمود امروٹی صاحب کی خدمت میں پہنچتے ہی آپ کی حالت بدل گئی۔ آپ سید تاج محمود امروٹی صاحب سے دست بیعت ہوئے۔ فقیر عبدالغنی نے جب واپسی کی اجازت طلب کی تو فرمایا کہ مولوی صاحب (حماداللہ) کو جو کچھ پڑھانا تھا یا دینا تھا میں نے دے دیا۔ حالانکہ ظاہری طور پر کچھ بھی تعلیم نہ دی، صرف ابتداء آیت الکرسی اور درود شریف کی تعلیم دی۔ پھر آمد اور تعلیم کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ آپ باطنی علم حاصل کرنے اور ریاضتیں کرنے میں لگ گئے۔ آپ حضرت تاج محمود امروٹی ؒ کے محبوب خلفاء میں سے تھے۔ آپ سید تاج محمود امروٹی سے قادری سلسلے میں بیعت ہوئے۔ قادری سلسلے کی سند کچھ یوں ہے۔
1۔ سیدنا خاتم الانبیاء امام المرسلین حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی 11 ھ
2۔ سیدنا امیرالمؤمنین حضرت علی المرتضی بن ابی طالب رضي الله عنہ 40ھ
3۔ حضرت حسن بن یسار البصری التابعی ؒ 110ھ
4۔ حضرت حبیب " ابو محمد" العجمی ؒ 156ھ
5۔ حضرت خواجہ داؤد بن نصیر الطائی ؒ165ھ
6۔ حضرت خواجہ معروف بن فیروز الکرخی ؒ ابو محفوظ 200ھ
7۔ حضرت خواجہ السری بن المفلس ؒ " ابوالحسن" السقطی 253ھ
8۔ حضرت خواجہ الجنید بن محمد البغدادی ؒ 298ھ
9۔ حضرت خواجہ ابوبکر دلف بن جحدر الشبلی ؒ 334ھ
10۔ حضرت خواجہ ابوالفضل عبدالواحد بن عبدالعزیز تمیمی ؒ
11۔ حضرت شیخ ابوالفرح محمد بن عبداللہ طرطوسی ؒ 425ھ
12۔ حضرت شیخ ابوالحسن علی بن محمد یوسف القرشی ؒ۔ ہنکاری 447ھ
13۔ حضرت خواجہ ابوسعید مبارک بن اعلی المخزومی ؒ
14۔ حضرت سید عبدالقادر بن موسی بن عبداللہ الجیلانی ؒ
15۔ حضرت سید سیف الدین عبدالوھاب الجیلانی ؒ 486ھ
16۔ حضرت صوفی صفی الدین عبدالسلام الجیلانی ؒ (نصراللہ) 513ھ
17۔ حضرت حمید الدین احمد ابوالعباس ؒ
18۔ حضرت محی الدین مسعود الجیلانی ؒ 561ھ
19۔ حضرت ضیاء الدین علی الجیلانی ؒ ( ابوالحسن) 593ھ
20۔ حضرت سراج الدین شاہ میر الجیلانی ؒ
21۔ حضرت شمس الدین محمد اعظم الاول الجیلانی ؒ 611ھ
22۔ حضرت سید محمد غوث ابو عبداللہ الجیلانی ؒ 630ھ
23۔ حضرت سید عبدالقادر الثانی الجیلانی ؒ اچ شریف والے 660ھ
24۔ حضرت سید عبدالرزاق الجیلانی ؒ 715ھ
25۔ حضرت سید حامد محمد شاہ الاول الجیلانی ؒ 766ھ
26۔ حضرت سید عبدالقادر الثالث الجیلانی ؒ 834ھ
27۔ حضرت سید شمس الدین الثانی الجیلانی ؒ 923ھ
28۔ حضرت سید عبدالقادر الرابع الجیلانی ؒ 940ھ
29۔ حضرت سید شمس الدین الثالث الجیلانی ؒ 942ھ
30۔ حضرت سید حامد محمد الثانی الجیلانی ؒ 978ھ
31۔ حضرت سید شمس الدین الرابع الجیلانی ؒ اچ شریف
32۔ حضرت سید عبدالقادر آخری الجیلانی ؒپیر کوٹی 1191ھ
33۔ حضرت سید محمد بقا شاہ ؒ شھید بھٹ دھنی 1198ھ
34 ۔ حضرت سید محمد راشد حسینی ؒروضے دھنی 1233ھ
35۔ حضرت سید حسن شاہ جیلانی ؒ تنبو دھنی 1254ھ
36۔ حضرت حافظ محمد صدیق ؒ بھرچونڈی والے 1308ھ
37۔ حضرت مولانا سید تاج محمود امروٹی ؒ 1348ھ
38۔ حضرت مولانا حماداللہ ہالیجوی ؒ 1381ھ10
آپ نے تھوڑے ہی وقت میں سلوک کے بہت بڑے درجے حاصل کرلیے۔ سید تاج محمود امروٹی فرمایا کرتے تھے کہ مکھن سارا حماداللہ لے گیا ہم باقی لسی بانٹ رہے ہیں۔ آپ نے شریعت مطہرہ کے ظاہری علوم پر عبور حاصل کیا تھا۔ آپ کو جس طرح ظاہری علوم حاصل کرنے کے لیے استاد العلماء کی شاگردی نصیب ہوئی ویسےہی باطنی علم حاصل کرنے کے لئے قطب الاقطاب، غوث وقت حضرت حافظ محمد صدیق بھرچونڈی شریف (وفات1308ھ) والوں کے خلیفہ ارشد تاج الاولیاء سید المجاہدین حضرت تاج محمود امروٹی کی بیعت اور تعلق نصیب ہوا۔ مشقت و ریاضت میں آپ پہلے سے ہی ماہر تھے۔ آپ کے لیے ذکر و اذکار اور ریاضت کوئی مشکل کام نہ تھا۔ آپ نے سلوک کی منازل طے کرنے میں جو ریاضتیں کیں وہ بھی قابل تعریف و قابل تعجب تھیں۔ آپ کو قرآن مجید کا وعظ کرتے دیکھا جاتا تو علم کے سمندر سے انمول موتی نکال کر لانے والا پاتے، اگر آپ کو عبادات میں دیکھتے تو کئی کئی گھنٹے مصروف رہنے والا پاتے تھے۔نفی و اثبات کے ورد میں تو ایسے مستغرق ہو جاتے کہ نیند میں بھی وہ مشقیں جاری رہتی تھیں۔ جو اعلی صفات آپ کی ذات میں موجود تھیں وہ شریعت پر استقامت، شطحیات سے اجتناب، سلوک کے اعلی اسرار کہ کبھی بھی راز کے بارے میں زبان نہ کھولنا خاموش رہنا تھا۔ یہ ایک اعلی صفت ہے جو ہر سالک کو نصیب نہیں ہوتی۔ اس لیے بڑے ظرف، بڑے مقام اور بڑے مرتبے کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ عام طرح سے اگر کسی پر باطنی انکشافات کا معمولی سا راز بھی کھل جائے تو وہ ضبط نہیں کر سکتا۔ آپ وقت کے بڑے شیخ اور عارف باللہ تھے۔ آپ نے اپنی زندگی میں ہی اللہ والوں کا ایک بڑا حلقہ تیار کرلیا تھا۔
وفات
موت برحق ہے۔ جب آپ نے 12 ذوالقعد 1381ھ الموافق 18 اپریل 1961ء بروز بدھ وقت نماز فجر اپنی رہائش گاہ پر داعی اجل کو لبیک کہا11 تو مریدین، معتقدین اور شاگرد غم و الم سے ہمکنار تھے۔ آپ کو چار بیٹوں کی اولاد ہوئی جو عالم فاضل بنی۔1۔ میاں محمود الحسن 2۔ مولانا محمود حسین 3۔ حاجی محمود الحسن 4۔ حافظ محمود اسعد (1926ـ1990)۔12
معاشرے پر تعلیمات کا اثر
سید تاج محمود امروٹی سندھ کے بڑے بڑے اکابر علماء کو امروٹ شریف میں بلوا کر جہاد کی تبلیغ اور اصلاح کے منصوبے بناتے تھے۔ آپ کی رہنمائی میں مشاورت ہوتی تھی۔محمود المطابع نامی پریس قائم کرکے دینی کتب کی اشاعت کرکے دینی تعلیمات کو عام کیا۔ ہدایت الاخوان اخبار کی اشاعت کی۔سلیس سندھی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کیا، اس کو چھپوا کر عام کیا وغیرہ۔ آپ کی ان سرگرمیوں کا نتیجہ یہ نکلا کے سندھ کے اندر دینی بیداری پیدا ہوئی۔ عوام کے اندر دینی تعلیمات عام ہوئیں۔ حضرت تاج محمود امروٹی کے بعد سندھ کے اندر اس دینی سلسلے کو اسی تسلسل کے ساتھ حضرت حماداللہ ہالیجویؒ نے اسی روح اور جذبے کے تحت قائم رکھا۔ ہالیجی شریف جو مرجع خلائق تھی وہاں پر آنے والے لوگ جو صحبت اور تعلق میں آئے ان کی قال اللہ وقال رسولﷺ کی گونجوں میں تربیت کی۔ آپ کی مجالس ہمیشہ آپ کے ملفوظات اور خطبات سے سرسبز رہتی تھیں۔ سندھ کے ہر علاقے میں جہاں بھی دیہاتوں میں، گاؤں میں یا شہروں میں آپ کے متعلقین پیدا ہوئے ان کے ذمے لگایا کہ وہاں پر دینی مدرسہ قائم کیا جائے۔ علماء و حفاظ مقرر کئے جائیں۔ دروس شروع کروائے جائیں اور اپنی اولاد کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کے سینکڑوں کی تعداد میں مدارس کا ایک سلسلہ چل پڑا جہاں قال اللہ وقال رسول ﷺ کی صدائیں بلند ہوئیں۔قرآن مجید کی نسبت سے دین کے ساتھ نسبت پکی اور پختہ ہوئی۔ جمعہ کی نماز سے پہلے خطبہ کی صورت میں درس قرآن کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس درس میں قرآنی احکامات،تعلق باللہ، فکر آخرت، عقیدہ، توحید، اتباع سنت اور حب دین کی تبلیغ ہوتی رہی۔ ان دروس میں لوگ دور دور سے آکر شریک ہوتے تھے۔ ان دروس سے لوگوں کے دل اللہ تعالی کی عظمت اور محبت سے منور ہو جاتے تھے۔ جمعہ کی نماز کے بعد آنے والے مہمان اور متعلقین کے ساتھ مجلس ہوا کرتی تھی جس میں ان سے حال و احوال کئے جاتے تھے۔ اللہ رب العزت کے احکامات اور سنت رسول ﷺ پر عمل کرنے کی تلقین اور ہدایات دی جاتی تھیں۔ جو مدارس شروع کروائے اور علماء وحفاظ مقرر کروائے ان کی خبر چار پوچھتے اور ہدایات جاری کرتے۔ اس مجلس سے معتقدین اور مریدین کے کاموں کو منظم کیا جاتا تھا اور وہ جب واپس جاتے تھے تو پرعزم اور پرجوش ہوتے تھے۔ نئے جذبات اور نئے منصوبوں کے ساتھ واپس ہوتے تھے۔ جس کے نتیجے میں زیادہ کام کر کے زیادہ سعادت حاصل کرنے کی سعی کی جاتی تھی۔ اس طرح پیغام الہی کو عام کیا۔ آپ کے بعد آپ کے ملفوظات اور خطبات کو مرتب کرکے کتابی شکل میں شائع کیا گیا۔ جس کی وجہ سے آپ کی تعلیمات نئے لوگوں تک پہنچیں اور پرانے لوگوں کی تجدید کی صورت بنے۔ اس طرح آپ کا فیض عام ہوا اور آپ کی تعلیمات زیادہ عوام تک پہنچیں اور اپنا نورانی اثر کرتی رہیں۔ آج اس ملک اور خطے میں جو توحید اور سنت کا نور نظر آتا ہے، دینی علم کے مراکز جو خاص کرکے حمادیہ کے تشخص کے ساتھ پھیلے ہوئے ہیں یہ آپ ہی کے فیض کا نتیجہ ہے۔
معمولات
آپ بڑے عابد، زاہد، بردبار، باوقار، ریاکاری سے دور، مریدین اور طلباء کے لیے بہت ہی حلیم اور صحیح کشف والے تھے۔ خلق خدا کو نفع پہنچانے میں بہت حریص تھے ۔ علماء و صلحاء سے محبت رکھنے والے تھے۔ دنیادار، امیر اور آفیسر لوگوں کی دولت یا عہدے کی وجہ سے آپ کی دل میں کوئی فرق نہ آتا تھا اور دنیا کی لذتوں سے دور اور کھانے پینے کے لطف سے بھی دور رہتے تھے۔ آپ کا معمول تھا کہ فجر پڑھنے کے بعد مسجد ہی میں تشریف فرما رہتے تھے۔ گیارہ بجے تک یاد الہی، ذکر و تبلیغ اور اپنے مریدین کو اسباق دینے میں مشغول رہتے تھے۔ اس دوران کوئی بھی چیز بطور ناشتہ وغیرہ استعمال نہ کرتے اور نہ ہی گھر میں اس کا کوئی انتظام ہوتا تھا۔ گیارہ بجے کے بعد گھر جاتے تھے۔ وہاں عورتوں کے ساتھ پردے کے پیچھے بیٹھ کر مجلس کیا کرتے تھے۔ اس مجلس میں ان کو ذکر کے اسباق دیتے اور تبلیغ فرماتے تھے۔ اس سے فارغ ہو کر ایک دو بجے جوئر کی روٹی لسی کے ساتھ کھاتے تھے۔ یہی آپ کا کھانا ہوا کرتا تھا۔ آپ صبر و شکر جیسے اوصاف سے بھرپور تھے، جو ملا اس پر صبر اور شکر ادا کرتے تھے۔ تکبر، فخر، بڑائی اور تصنع سے بالکل عاری تھے۔ ان کو بندے کے حق میں عیب سمجھتے تھے۔ وصیت میں فرمایا: "اس بندے کے لیے دعا کرتے رہنا کہ اللہ تعالی مغفرت فرمائے۔ اس کی بارگاہ میں عرض رکھنا کہ اس بندے کو ہم نے سارا وقت مسجد میں بیٹھا ہوا دیکھا۔ اخلاص سے یا ریاکاری سے مگر یا اللہ اس بندےکو معاف فرما۔"
آپ نے اپنی زندگی علم دین کی اشاعت اور وصال محبوب حق کی روحانی تربیت کرنے میں صرف کی۔ جس میں سے ہزاروں انسان راہ حق کے رہبر اور لاکھوں لوگ فیض یافتہ ہو گئے۔ کچھ لوگوں کو آج بھی یہ سعادت نصیب ہے کہ وہ اس پیغام توحید اور روحانی شمع کو روشن رکھتے ہوئے آ رہے ہیں۔ ظہر کی نماز سے نماز عصر تک کسی سے بھی بات کرنے سے پرہیز کیا کرتے تھے۔ کیوں کہ یہ وقت آپ کے خصوصی ذکر و حضور کا ہوتا تھا۔ جس میں اکثر کلمہ تمجید کا ورد کیا کرتے تھے۔13 عصر کے بعد خطوط سنتے ان کے جوابات لکھتے اور مسائل کا حل اور فتوی لکھتے یا کسی اور سے لکھوا کر اس پر اپنے دستخط کرتے تھے۔ مغرب تک یہ سلسلہ چلتا تھا۔ مغرب کے بعد لوگوں کی طرف چہرہ کرکے بیٹھ جاتے تھے اور لوگ حلقہ بنا کر بیٹھ جاتے تھے۔ قادری طریقے کا ذکر کرتے اور لوگ آپ کی اتباع کرتے۔ عشاء تک یہ سلسلہ چلتا تھا۔ عشاء پڑھ کر فقیروں کو فرماتے کہ مہمانوں کو کھانا کھلاؤ اور بستر مہیا کرو۔ پھر آپ گھر چلے جاتے تھے۔ آپ کا یہ معمول تاحیات باقاعدگی سے چلتا رہا۔ مطلب کہ حضرت ہالیجویؒ دین کے ہر شعبے میں اپنی مثال آپ تھے۔ پوری زندگی اسلام کی خدمت کے لیے وقف کردی تھی۔
آپ بڑے عارف، علوم و معرفت میں محقق اور ذکر کے اسرار و رموز سے واقف تھے۔ آپ بڑے حاذق حکیم بھی تھے۔ لوگ اپنی جسمانی بیماریوں کے سلسلے میں بھی کثرت سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ آپ کا ہر کام سنت رسولﷺ کا نمونہ تھا۔ عشق رسول ﷺ تو آپ کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا تھا۔ تصوف کی تعلیمات سے بھی پہلے تدریس کے دوران بھی عشق رسول ﷺ میں آپ کی آنکھوں سے آنسو ٹپکتے تھے۔ آپ عشق رسول ﷺ میں بہت رویا کرتے تھے۔ آپ تبلیغ کے سلسلے میں اونٹھ پر جا کر دور دراز کے علاقوں میں کافی وقت تبلیغ کیا کرتے تھے۔ خلافت تحریک، لواری والے جڑتو حج کے خلاف تحریک اور دوسری ملکی اور دینی تحریکوں میں حصہ لیتے رہتے تھے۔ ہالیجی شریف میں بیٹھ کر آپ نے جتنا قوم کی اقتصادی و عملی اصلاح کی ہے وہ شاید ہی کسی نے کی ہو۔ شرعی پردہ کی پابندی رائج کی۔ اس پر سختی سے عمل کیا۔ توحید کے بڑے متوالے تھے۔ توحید کا اتنا درس دیا کہ سندھ کے ایک بڑے حصے کو موحد بنایا۔
1368ھ میں آپ نے حرمین شریفین کی طرف سفر کیا اور حج کی سعادت بھی حاصل کی۔ آخری عمر میں جماعت کے اصرار پر جمعہ کی نماز کے بعد تفسیری رنگ میں تقریر الحمد سے شروع کی۔ یہ تقریریں مجلس علمی بول چال مدرسہ دارالھدی ٹھیڑھی کی طرف سے باقاعدہ قلمبند کرائی گئیں۔ بعد میں یہ تقاریر خطبات ہالیجوی کے نام سے شائع کی گئی ہیں۔
خلفا
آپ کے خلفاء میں سے مولانا خلیفہ احمد الدین جرارؒ پہوڑ والے، مولانا فیاض نور زمانؒ کراچی والے، مولانا عبدالعزیز بھانڈویؒ بھانڈو قبو والے، مولانا عبدالکریم قریشی ؒبیر شریف والے(1923ـ1999)، مولانا محمد یعقوب مہر سومرانی ؒشکارپور والے،مولانا حافظ محمود اسعد ہالیجویؒ آپ کے چھوٹے بیٹے، مولانا محمدعمرسہندڑوؒ شکارپور والے، مولانا عبدالمجید لنجارؒ لنجاری شریف والے اور مولانا محمدحسنؒ شاہ پور چاکر والےسر فہرست ہیں۔
اوصاف
آپ وقت کے بڑے قطب اور عارف کامل تھے۔ آپ کی صحبت میں جو بھی بیٹھتا تھا، اس کو اللہ رب العزت یاد آجاتا تھا۔ آپ کی نظر اور چہرے میں نورانیت اور زبردست کشف اور جذب ہوتا تھا۔گفتگو میں میٹھاس بھری ہوئی ہوتی تھی۔ آپ کی فصاحت و بلاغت اور سلاست و حکمت کو دیکھ کر بڑے بڑے علماء کرام متعجب ہو جاتے تھے۔ آپ صاحب معرفت، صاحب ولایت اور صاحب کرامت بزرگ تھے۔ آپ ایک جید عالم، علوم اسلامیہ کے زبردست ماہر، قرآن مجید، حدیث، عربی ادب، لغۃ اور تاریخ کا بہت زیادہ علم رکھنے والے تھے۔ آپ کی علمی و تصوفی خدمات کا فیض عام ہوا۔ آپ مرجع الخلائق تھے۔ برصغیر پاک و ہند کی بڑی بڑی علمی شخصیات ہالیجی شریف آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا کرتی تھیں۔ جن میں مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ (1879ـ1957)، مولانا سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ (1884ـ1961)، مولانا احمد علی لاہوریؒ (1887ـ1963)، مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ (1908ـ1977)، علامہ غلام مصطفی قاسمیؒ (1924ـ2003)، مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ (1919ـ1980)، سید ابوالاعلی مودودیؒ(1903ـ1979)، ڈاکٹر علامہ غلام مصطفی خانؒ (1912ـ2005) حیدرآباد والے، مخدوم محمد زمان طالب المولیؒ (1919ـ1993) ہالا والے اور خان بہادر حاجی مولا بخش سومروؒ (1900ـ1943) سرفہرست ہیں۔ آپ کی شخصیت جامع شخصیت تھی۔ آپ ظاہری اور باطنی علوم، معقول و منقول، شریعت و معرفت، تبلیغ و روحانیت، ذکر و جہاد، عبادت اور سیاست کے میدان میں اپنی مثال آپ تھے۔ آپ سے ملنے کے لیے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے علماء کرام، حفاظ، زمیندار، چودھری، سردار، آفیسر، غریب، جج، سیاستدان وغیرہ سب کے سب خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ آپ کے متعلقین اور مریدین کی جماعت کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ گویا سب کے سب عالم و فاضل ہیں۔ آپ کی زیارت کے لیے آنے والے لوگوں کی تعداد 300 کے قریب ہوا کرتی تھی۔کبھی کبھی یہ تعداد 500 سے بھی تجاوز کر جاتی تھی۔ حد درجے کے سخی کامل تھے اور خدمت خلق کا جذبہ آپ کی زندگی میں رچا ہوا تھا۔ ہر آنے والے مہمان اور معتقدین اور مریدین کو وقت پر کھانا لازمی کھلایا جاتا تھا۔ ہالیجی شریف آپ کی مہمان نوازی کی وجہ سے بھی کافی مشہور تھی۔ وقت کے بڑے علماء اور مفتی صاحبان دین کے الجھے ہوئے مسائل لے کر آتے تھے اور تھوڑے سے ہی وقت میں حل حاصل کر کے واپس چلے جاتے تھے۔ آپ کا فیض آپ کے مریدین کی صورت میں سندھ، پنجاب، سرحد، بلوچستان، ایران، افغانستان، ہندوستان اور سموری عرب میں پھیلا ہوا ہے۔14 آپ نے پورے ملک میں مدارس کا جو سلسلہ شروع کیا اور اس کے نتیجے میں جو مدارس قائم ہوئے یہ اشاعت دین اور علوم دین کی احیاء کا بڑا سبب بنے۔
آپ نے پیروں فقیروں کی بےجا تعریفات، شہرت، مرشد کے آگے جھکنا، پاؤں پڑنا، مرشد کی آمد پر کھڑے ہو کر استقبال کرنا، جوتیاں اٹھانا، ہاتھ چومنا وغیرہ جیسے غیر مناسب کاموں سے نفرت کا اظہار کرکے پیر پرستی کا خاتمہ کرکے حقیقی خدا پرستی کی بنیاد ڈالی۔
نہ آنے والوں کا استقبال، نہ جانے والوں کے پیچھے لگنا، نہ کپڑا بچھانا، نہ جتیاں اٹھانا، نہ پاؤں پڑنا، نہ جھکنا، نہ نعرے بازی اور ذکر میں مستی کرنا، نہ خود کو بالاتر سمجھنا، نہ اپنی تعریف کرنا، نہ دوسرے کو حقیر جاننا، نہ کسی کی غیبت کرنا، نہ شکوہ نہ شکایت کرنا، نہ کشف و کرامات کا ذکر کرنا، نہ اٹھنے بیٹھنے میں تکلف سے کام لینا، نہ مریدین سے بےجا خدمت لینا، لباس بالکل سادہ مگر صاف، گھر بھی سادہ، بستر بھی سادہ، کم کھانا، نہ اونچی آواز میں بولنا، نہ کوئی مستقل سواری رکھنا، نہ خادم، نہ ملازم یہی آپ کی پہچان ہوا کرتی تھی۔
علمی مقام
آپ کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ آپ نے پہلے اسلام کے ظاہری علوم میں مہارت کا مقام حاصل کیا۔ تحصیل علم سے فراغت کے بعد تدریس میں مصروف رہے۔ اس تدریس نے آپ کی شخصیت کو اور زیادہ نکھارا۔ اس دوران آپ کلام اللہ اور احادیث رسول ﷺ، سنت رسول ﷺ اور سیرت رسول ﷺو سیرت صحابہ رضی اللہ عنہم کا گہرا مطالعہ کیا۔ قرآن مجید کی عربی زبان میں قدیم و جدید تفاسیر کا مطالعہ کیا۔ خاص طرح تفسیر کبیر، تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی، تفسیر مدارک اور تفسیر روح المعانی وغیرہ کا مطالعہ کیا۔ اس کے ساتھ اردو زبان کی ہمعصر علماء کی تفاسیر تفسیر بیان القرآن، معارف القرآن، تفسیر عثمانی بھی نظر سے گزرتی رہیں۔ علوم قرآنی میں آپ کی صلاحیت، استعداد اور گہرا شعور اجتہاد کے مقام پر فائز ہو چکا تھا۔ احادیث رسولﷺ پر آپ کی دقیق نظر تھی۔ بہت گہرا مطالعہ رکھتے تھے۔ فقہ حنفیہ کی کافی کتب آپ کو ازبر یاد تھیں۔ فنی علوم جیسے صرف، نحو، منطق، ادب اور فلسفے وغیرہ پر آپ کو عبور حاصل تھا۔ اکثر کتابوں کے متون اور عبارات کے حافظ تھے۔کتاب دیکھے بنا شاگردوں کو پڑھایا کرتے تھے۔ آپ علوم اسلامیہ کے مستند عالم دین تھے۔ بحرالعلوم عالم اور باعمل بزرگ تھے۔ آپ کے شاگرد آپ ہی کی زندگی میں شیخ الحدیث، شیخ التفسیر، مفتی اور علامہ بنے۔ عوام کے لئے مرجع اور مقتدی بنے۔ ان کی سرپرستی میں دینی علوم کی جامعات وجود میں آئیں۔ ایسے شاگردوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ آپ کو علوم اسلامیہ سے گہری وابستگی تھی۔ وحی الہی کے رموز سے واقف تھے۔ اللہ رب العزت کی طرف سے اپنے خاص بندوں کو عنایت کردہ علوم سے آپ کا سینہ بھی پر تھا۔ آپ نے اپنی زندگی کا مقصد اسلامی تعلیمات کا احیاء اور اشاعت ہی بنا دیا تھا۔ اس لئے دینی علوم کی اشاعت کی طرف خاص توجہ دی۔ فرائض نبوت میں تلاوت آیات، تعلیم کتاب و حکمت اور تزکیہ نفس شامل ہیں اور ان امور کو سرانجام دینا امت مسلمہ پر لاگو ہے۔علم نبوت کے وارث علماء کرام ہیں۔ اس لیے ان پر علوم نبوی کا احیاء اور اشاعت لازمی ہے۔ آپ نے بھی اپنے اس فرض کو بخوبی سرانجام دیا اور اس مشن میں اپنی زندگی صرف کردی۔
تصوف میں کردار
تصوف و سلوک کے سلسلے اور تزکیہ نفس کی باطنی دنیا میں جب ایک صاحب علم انسان داخل ہوتا ہے تو اس کو سوچ و فکر میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔ اس سلسلے کی گہرائی کو سمجھنے کے بعد کچھ درجات حاصل کرتا ہے۔ سلسلہ قادریہ میں آپ جیسے صاحب علم انسان کی آمد کے بعد تصوف کے لیے تجدید کا تکوینی امر ہی تھا۔ آپ نے تصوف کی پرانی اصطلاحات کو چھوڑ کر قرآن وسنت کی اصطلاح احسان کو رائج کیا اور اس کو زیادہ استعمال کیا۔ حدیث مبارک میں ہے:
عن أبي هريرة قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم بارزا يوما للناس فأتاه جبريل فقال: ما الإيمان؟ قال:الإيمان أن تؤمن بالله وملائكته وبلقائه ورسله وتؤمن بالبعث قال: ما الإسلام؟ قال: الإسلام أن تعبد الله ولا تشرك به شيئا، وتقيم الصلاة، وتؤدي الزكاة المفروضة، وتصوم رمضان، قال: ما الإحسان؟ قال: أن تعبد الله كأنك تراه فإن لم تكن تراه فإنه يراك، قال: متى الساعة؟ قال: ما المسئول عنها بأعلم من السائل، وسأخبرك عن أشراطها إذا ولدت الأمة ربها، وإذا تطاول رعاة الإبل البهم في البنيان في خمس لا يعلمهن إلا الله، ثم تلا النبي صلى الله عليه وسلم: إن الله عنده علم الساعة، ثم أدبر فقال: ردوه، فلم يروا شيئا، فقال: هذا جبريل، جاء يعلم الناس دينهم، قال أبو عبد الله: جعل ذلك كله من الإيمان۔15
ترجمہ: ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں تشریف فرما تھے کہ آپ کے پاس ایک شخص آیا اور پوچھنے لگا کہ ایمان کسے کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پاک کے وجود اور اس کی وحدانیت پر ایمان لاؤ اور اس کے فرشتوں کے وجود پر اور اس( اللہ ) کی ملاقات کے برحق ہونے پر اور اس کے رسولوں کے برحق ہونے پر اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے پر ایمان لاؤ۔ پھر اس نے پوچھا کہ اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر جواب دیا کہ اسلام یہ ہے کہ تم خالص اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور نماز قائم کرو۔ اور زکوۃ فرض ادا کرو۔ اور رمضان کے روزے رکھو۔ پھر اس نے احسان کے متعلق پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا احسان یہ کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اگر یہ درجہ نہ حاصل ہو تو پھر یہ تو سمجھو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔ پھر اس نے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے بارے میں جواب دینے والا پوچھنے والے سے کچھ زیادہ نہیں جانتا (البتہ) میں تمہیں اس کی نشانیاں بتلا سکتا ہوں۔ وہ یہ ہیں کہ جب لونڈی اپنے آقا کو جنے گی اور جب سیاہ اونٹوں کے چرانے والے (دیہاتی لوگ ترقی کرتے کرتے ) مکانات کی تعمیر میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کریں گے(یاد رکھو) قیامت کا علم ان پانچ چیزوں میں ہے جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی کہ اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے کہ وہ کب ہو گی ( آخر آیت تک) پھر وہ پوچھنے والا پیٹھ پھیر کر جانے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے واپس بلا کر لاؤ۔ لوگ دوڑ پڑے مگر وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جبرائیل تھے جو لوگوں کو ان کا دین سکھانے آئے تھے۔ ابوعبداللہ(امام بخاری رحمہ اللہ) فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام باتوں کو ایمان ہی قرار دیا ہے۔
یہی احسان پورے دین کا مغز اور خلاصہ ہے۔ اس کے حامل ہونے کے بعد انسان کو اللہ رب العزت کا خصوصی قرب نصیب ہو جاتا ہے۔16 اس کو طریقت کہتے ہیں۔
اس حدیث میں ایمان اور احسان کی اصطلاحی بتائی گئی ہیں۔ تصوف و سلوک کے روحانی سلسلے میں بنیادی چیز تزکیہ نفس ہے۔ قدافلح من تزکی۔ و ذکر اسم ربهٖ فصلی۔17 ترجمہ: بیشک اس نے فلاح پائی جو پاک ہوگیا ۔ اور جس نے اپنے رب کا نام یاد رکھا اور نماز پرھتا رہا ۔
اخلاص، تقوی، دنیا سے بے رغبتی، ہر وقت آخرت کی فکر، نفس پر کنٹرول، عبادت اور ذکر و اذکار میں انہماق، صبر، شکر، توکل اور مخلوق خدا سے ہمدردی، عجز، انکساری، ایثار اور برداشت وغیرہ یہ وہ اوصاف ہیں جو تصوف کی تعلیم کا معراج ہیں۔ یہ سب اوصاف احسان کی کیفیت سے مربوط ہیں۔ تصوف کی جگہ احسان کا استعمال ایک نعم البدل ہے بلکہ تعلیم رسول ﷺکے عین مطابق ہے۔ آپ بیعت میں یہی سبق دیتے تھے کہ: "یا اللہ مجھے دنیا میں اسلام، ایمان اور احسان پر قائم رکھ اور اس دنیا سے اسلام، ایمان اور احسان کامل سے میرا خاتمہ بالخیر ہو۔" آپ نے تزکیہ نفس اور باطنی اصلاح کے جو بھی اسباق پڑھائے وہ سب کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺکے ظاہری نصوص کے عین مطابق تھے۔ بیعت اور ذکر میں بھی کوئی ایسا جملہ یا بات شامل نہ تھی جو قرآن و سنت کے خلاف ہو۔ آپ توحید کی تعلیم اور اتباع سنت پر زیادہ زور دیتے تھے۔ شرک و بدعت سے بچنے کی سختی سے تلقین کیا کرتے تھے۔ رسم و رواج و ظاہری ادب اور جھکنے سے منع فرماتے تھے۔ آپ قرآن مجید پر عامل، سنت رسولﷺ کی مثال اور سلف صالحین کے اوصاف سے آراستہ تھے۔ آپ کی عملی زندگی خود ایک تجدیدی کارنامہ تھی۔
سلوک و تصوف میں سالک کی ابتدائی تربیت کے سلسلے میں مرشد کی محبت، کلی اطاعت اور تصور شیخ جیسے نظریات کی زیادہ مشق کروائی جاتی ہے۔ قادری سلسلہ میں بھی تصور شیخ کا نظریہ ہوتا ہے۔ پر آپ نے اس نظریے کو مکمل طور پر ترک کردیا۔ آپ نے سالک کو براہ راست اللہ رب العزت سے وصال کا سبق دیا۔ فنا فی الشیخ سے زیادہ فنا فی اللہ کی تعلیم دی۔ دوسرے راستوں کو چھوڑ کر اللہ رب العزت کی معرفت، محبت اور اس مقدس ذات میں مستغرق ہوجانے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔18 اس سلسلے میں قرآن مجید کی آیت والذین امنوا اشدحبا لله۔19 ترجمہ: اور ایمان والے اللہ کی محبت میں سخت ہوتے ہیں۔ آپ کے سامنے ہوا کرتی تھی۔ آپ کو یہ کمال علوم اسلامیہ کے طفیل نصیب ہوا۔ آپ انسان ذات کو غیر اللہ سے دور کرکے سب واسطوں، رشتوں اور نسبتوں سے ہٹا کر صرف اللہ رب العزت کے وصال میں مستغرق کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ آپ نے اپنے وجود کو بھی اللہ کی وصال میں حجاب سمجھ کر دور کردیا تھا۔ آپ ذکر و اذکار کی جو تعلیم دیتے تھے وہ قادری سلسلہ کے مطابق جہری ہوتا تھا۔ مقررہ وقت میں ذکر پورا کرنے کے بعد روزانہ اللہ! اللہ! اللہ! 8000 دفعا کرنے کا سبق دیتے تھے۔ یہ ذکر انسان کو براہ راست اللہ رب العزت سے مربوط کرتا ہے۔ فرماتے تھے کہ ذکر کرتے وقت ان چار چیزوں کا خیال اور ارادہ رکھیں:
1۔ نفس اور شیطان کو جواب دینا۔ انسان کو نفس اور شیطان اپنی طرف کھینچتے ہیں کہ اے انسان ہمارا ہوجا۔ بندہ ان کو جواب دیتا ہے اللہ! اللہ! اللہ! اللہ! میرے لئے اللہ تعالی کافی ہے۔تمہاری مجھے کوئی بھی ضرورت نہیں۔
2۔ رضائے الہی۔ بندہ جب بولتا ہے اللہ! اللہ! اللہ! اللہ! تو اس کا خیال ہو کہ میں اپنی محبوب ہستی کا نام لے رہا ہوں تاکہ وہ مجھ سے راضی ہو جائے۔
3۔ تبتل۔ پوری دنیا سے منہ موڑ کر اور صرف اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہو کر بولے اللہ! اللہ! اللہ! اللہ! میں صرف اسی کا ہی ہوں، دوسرے کسی کا بھی نہیں۔
4۔ فلاح۔ یایها الذین امنوا اذکروا الله ذکرا کثیرا۔20 ترجمہ:اے مومنوں!اللہ تعالی کا ذکر بہت کرو ۔
زیادہ یاد کرو اللہ کو تاکہ آپ آخرت میں کامیاب ہو جاؤ۔ بندہ بولتا ہے اللہ! اللہ! اللہ! اللہ! یعنی صرف اس مقدس نام میں ہی میری کامیابی مقدر ہے۔ آپ ان پڑھ لوگوں کو بلکل آسان وظائف بتایا کرتے تھے۔
سادگی
آپ لباس بالکل سادہ پہنتے تھے۔ لنگی، کرتا اور چھوٹی پگڑی آپ کا لباس ہوا کرتا تھا۔ کبھی کرتے کی جگہ صدری ( کپڑے کی کوٹی) پہنتے تھے۔ کھانا بھی صرف زندہ رہنے کے لیے ہی کھاتے تھے، سردی اور گرمی سے بے نیاز رہتے تھے، سردی گرمی سے بچنے کا اہتمام ناکافی تھا۔ اس زمانے میں نہ بجلی نہ پنکھا نہ ہیٹر ہوا کرتا تھا۔ جب بھی دیکھا اللہ والے کو مسجد میں اپنے رب سے راز و نیاز کی باتیں کرتے ہی دیکھا یا لوگوں کے بیچ میں ان کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات پر عمل کرنے کی تلقین، نیک کام کرنے کی ترغیب، گناہ سے اپنے دامن بچانے کے راستے پر چلنے کی ہدایت، قرآن مجید سے دل لگانا، اپنے رب سے راز و نیاز کی باتیں کرنا، اپنے رب سے ناتا جوڑنے کی تلقین ہی کرتے دیکھا۔ ان دنوں سہولیات کی کمی کے باعث نہ سردی میں کوئی جیکٹ یا سویٹر یا کوٹ یا اونی چادر،گرمی سے بچنے کے لیے نہ پنکھا نہ کچھ اور انتظام ہوتا تھا۔ کھانے میں جوئر کی روٹی اور ایک پیالا لسی۔ یہ کھانا جماعت اور متعلقین اور مریدین کے لئے یکساں ہوتا تھا۔ خود گھر میں بھی یہی کھانا کھایا کرتے۔ کوئی مہمان آ جاتا تو “اکرموا منازلہم ” پر عمل کی نیت سے دال کا انتظام کیا جاتا۔
عجز و انکساری کی ایک مثال
سندھ کے استاد القرآ حضرت مولانا قاری محمد ڈیروؒ (1919تا1995) نے علم تجوید کو عام کیا۔یہ قاری صاحب کا ایک عظیم اور تجدیدی کارنامہ تھا۔ قاری صاحب مختلف مدارس میں تدریسی خدمت کے ساتھ ہر سال مختلف مدارس اور مختلف شہروں میں علم تجوید کے دورے منعقد کروا کر پڑھایا کرتے تھے۔ قاری صاحب جب تھریچانی میں دورہ پڑھانے آئے تو حضرت ہالیجویؒ نے اپنے بیٹوں ، پوتوں، شاگردوں اور مریدوں کو بھی اس دورہ میں شریک ہو کر قرآن مجید تجوید کے ساتھ پڑھنے کی سعادت حاصل کرنے کا فرمایا۔ دورہ کے اختتام پر آپ نے اپنے (سوتیلے) بیٹے میان شفیع محمد سے سوال و جواب کی صورت میں استفادہ کیا۔ بعد میں جب قاری محمد صاحب ایک بار ہالیجی شریف آئے تو آپ نے ان کا استقبال کیا اور بہت زیادہ عزت و اکرام کیا۔ قاری صاحب کو اپنے ساتھ بٹھایا۔ باتوں کے دوران آپ نے فرمایا کہ حضرت اپنے شاگرد کا قرآن مجید (تجوید) سنیں۔ قاری صاحب سمجھے کہ کسی مرید یا رشتیدار کے بارے میں فرمایا ہوگا۔ مگر آپ خود قرآن مجید کی تلاوت سنانے لگے۔ آپ کے بعد آپ کے بیٹے حافظ محمود اسعد نے بھی قرآن مجید سنایا۔21 قاری صاحب حیران ہوگئے۔فرمانے لگے کہ الحمد للہ آپ نے بہت بہترین انداز سے تجوید کے ساتھ تلاوت کی ہے۔ اس کے بعد آپ نے ان کو بتایا کہ کیسے آپ کے بیٹے آپ قاری صاحب کے پاس تجوید پڑھ کر آئے اور آپ نے کیسے سوال و جواب کی صورت میں استفادہ کیا۔پھر فرمایا کہ : تو آپ کا شاگرد ہوا نہ۔۔۔۔؟22
یہ تھی آپ کی انکساری اور عجز۔ قاری صاحب آپ سے عمر میں کافی چھوٹے تھے اور بعد میں آپ سے بیعت ہو کر مرید بھی بنے تھے۔ آپ نے باقاعدہ قاری صاحب سے نہیں پڑھا تھا صرف سوال و جواب کی صورت میں سیکھا پھر بھی اپنی نسبت شاگرد کے شاگرد کی طرف کی۔
سیاست میں حصہ
آپ حضرت مولانا تاج محمود امروٹی کے خلیفہ تھے۔ جس وجہ سے جہاد آپ کو اپنے مرشد سے میراث میں ملا تھا۔ 1942ء میں حیدرآباد میں جمیعت علماء ہند کا اجلاس آپ کی شخصیت کی وجہ سے ہوا۔ انگریز کے دؤر میں اپنی پوری زندگی جمعیت علماء ہند کے پلیٹ فارم سے انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرتے گذاری۔ ہندستان کی تقسیم کے بعد جمعیت علماء اسلام کی تجدید نو کے بعد جمعیت علماء اسلام میں شریک ہوئے۔ جمعیت علماء اسلام سے مکمل تعاون اورحمایت فرماتے اور اپنے متعلقین اور مریدین کو بھی اس میں حصہ لینے کی تاکید فرماتے تھے ۔ آپ نے اپنی سیاسی خدمت کا آغاز خلافت تحریک میں شمولیت سے کیا۔ آپ نے اس تحریک میں بڑے جوش و جذبے سے کام کیا۔ آپ دوسرے علماء کی طرح خلافت تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ اس تحریک کی ہر طرح سے مدد و حمایت کرتے رہے۔ آپ نے اپنی اخلاقی و مالی خدمات پیش کیں۔ جب خلافتی علماء نے غیر ملکی کپڑے کے استعمال کو ناجائز بنا کر فتوی جاری کیا تو آپ نے بھی اس کی تصدیق کی۔ آپ جمعیت علمائے ہند کے ممبر بھی تھے۔ آپ جمعیت کے جلسوں میں بھی شریک ہوتے تھے اور بڑے جوش سے تقریر بھی کرتے تھے آپ نے جمعیت علمائے سندھ کے ضلع صدر بھی رہے۔23 1944ء میں حیدرآباد کے تاریخی قلعے میں جب قاری محمد طیب صاحب (1898ـ1983) کے زیر صدارت جمعیت علماء سندھ کا جلسہ ہوا تو آپ بھی اس میں شریک تھے۔ آپ آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیتے رہے۔24 پاکستان کے قیام کے بعد جمعیت علماء اسلام کے ساتھ کام کرتے رہے۔
کچھ نمایاں کارنامے
1۔ آپ نے توحید وسنت کی تعلیمات پر کاربند رہ کر احسان کی عظیم صفت سے اہل ایمان کو متعارف کروایا۔موحدین اور مخلصین کی ایک ایسی جماعت تیار کی جو واصل بالحق تھی۔ جس کا مقصد صرف اور صرف اللہ رب العزت کی ہی رضا کا حصول تھا۔ جو غیراللہ سے منہ موڑ کر عشق الہی کو اپنا نصب العین بنا چکی تھی۔ ایسی پاکیزہ جماعت کا قیام آپ کا ایک نمایاں کارنامہ تھا۔
2۔ مساجد اللہ کے گھر ہوتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں فرمایا : وان المسجد لله فلا تدعوا مع الله احدا.25
ترجمہ: اور یہ کہ مسجدیں صرف اللہ ہی کے لئے خاص ہیں پس اللہ تعالی کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔
اپنے اس مشن کے لیے اپنے معتقدین اور مریدین کی تربیت کی کہ وہ اپنے علاقے کی ہر مسجد میں ایک عالم اور حافظ مقرر کریں جو قرآن مجید کی تعلیم کو عام کریں۔ ہر مسجد میں درس قرآن صبح و شام ہوتا رہے۔ ہر مسجد میں ذکر اللہ کی آواز گونجتی رہے۔ ہر مسجد میں قرآن مجید سیکھنے کی تعلیم عام ہو۔ ہر مسجد سے قال اللہ اور قال رسولﷺ کا پیغام ملتا ہو۔ اپنے بچوں کو بھی اس میں شامل کریں، خود بھی شامل ہوں اور اپنے رشتے داروں اور دوستوں کو بھی شامل کرنے کی کوشش کریں۔ یہ کام بھی آپ کا ایک نمایاں کارنامہ تھا۔
3۔ آپ نے ہر علاقے کے کچھ معتقدین اور مریدین کے ذمے یہ کام لگایا کہ وہ مل کر اپنے گاؤں، قصبے یا محلے میں ایک مدرسہ قائم کریں۔ اس مدرسے کے ذریعہ قرآن مجید اور احادیث رسول ﷺ کی تعلیمات کو عام کریں۔ ان مدارس میں علماء و حفاظ مقرر کریں۔ اس طرح پورے ملک کے کئی علاقوں میں مدارس کا ایک سلسلہ شروع کرایا۔ اس کے نتیجے میں مدرسہ حمادیہ یا مدرسہ الحماد وغیرہ کے نام سے موسوم مدارس کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ گئی۔ یہ مدارس کا یہ سلسلہ بھی آپ کا ایک نمایاں کارنامہ تھا۔
4۔ آپ نے بندوں کا اللہ رب العزت اور رسول اللہ ﷺ سے تعلق جوڑنے کے لیے ایک مرکز بنانے کا پروگرام سوچا۔ یہ مرکز مسجد کے علاوہ اور بھلا کیا ہو سکتا تھا کیونکہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ میں تشریف لائے تو امت مسلمہ کو اللہ اور اس کے رسولﷺ سے جوڑنے کے لئے سب سے پہلے یہ کام مسجد کی تعمیر کا کیا۔آپ تو تھے ہی متبع سنت رسول ﷺ۔ لقد کان لکم فی رسول الله اسوة حسنة لمن کان یرجوا الله والیوم الاخر وذکر الله کثیرا۔26
ترجمہ: یقینا تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ( موجود ) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالی کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالی کی یاد کرتا ہے ۔
سیرت رسول کی روشنی میں اپنے اس مشن کو پورا کرنے کی کوشش کی۔ آپ نے امت کو جوڑنے اور اللہ اور رسول ﷺ سے تعلق قائم کرنے کے کے لیے مساجد جیسے مراکز بنانے کا مشن اپنے مریدین کے سامنے رکھا۔جس بھی علاقے، شہر یا گاؤں کا کوئی ایک بندہ بھی آپ سے تعلق قائم کرتا تو آپ کی صحبت میں وہ احسان کے رنگ میں رنگ جاتا تھا تو اس کو فرمایا کرتے تھے کہ: "بیٹا اپنے گاؤں یا محلے میں ایک مسجد بنانے کی کوشش کرو۔ اس میں کوئی عالم رکھو۔ حافظ رکھو۔ جب گاؤں میں دین کا ایک مرکز قائم ہوا تو قرآن مجید کی نورانی آواز اور رحمت سے بھرپور تجلیات اس گاؤں یا محلے پر پڑیں گیں"۔ اس طرح مساجد بنانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ جس کے نتیجے میں سینکڑوں مساجد تعمیر ہوئیں۔ یہ بھی آپ کا ایک نمایاں کارنامہ تھا۔
5۔ آپ روزانہ اپنی رہائش گاہ ہالیجی شریف کی مسجد میں بیٹھ کر آنے والے سینکڑوں لوگوں کو درس قرآن دیا کرتے تھے۔ تقاریر کیا کرتے تھے۔ بیانات میں بھی آپ کا موضوع قرآن مجید کی تعلیم اور ورد ہوا کرتا تھا۔ حدیث شریف کا درس دیتے تھے۔ آپ کی یہ کوشش تھی کہ آپ کے مریدین اور معتقدین کو علم نصیب ہو۔ وہ محض اندھی تقلید نہ کریں بلکہ علم کے زیور سے آراستہ ہوکر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے پیغام کو سمجھ سکیں۔ علم کی روشنی میں اپنی اور دوسروں کی اصلاح کریں۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات اور احکامات کو عام کریں۔ ان پر علم کی روشنی میں خود بھی عامل بنے اور دوسروں کو بھی عمل کرنے کی ترغیب دیں۔ آپ کی تعلیمات کا اثر یہ ہوا کہ ہزاروں لوگ داعی اور مبلغ بن گئے۔ ایسا لگتا تھا جیسے آپ کا ہر مرید ایک عالم ہو۔ آپ کو اس میں رہ کر شریعت کا علم ہو جاتا تھا۔ یہ بھی آپ کا ایک نمایاں کارنامہ ہے۔
6۔ آپ سارا دن مسجد میں بیٹھ کر عوام کی اصلاح اور ان کا تزکیہ کیا کرتے تھے۔ آپ کا سارا وقت لوگوں کو قرآن مجید اور سنت رسول ﷺ کی تعلیم دینے میں صرف ہو جاتا تھا۔ آپ کو تصنیفی میدان میں خدمت کرنے کا احساس بھی تھا۔ تصنیف کے لیے یکسوئی کے ساتھ کافی وقت بھی درکار ہوتا ہے۔ آپ کی مصروف ترین زندگی سے وقت نکال پانا یہ کسی کرامت سے کم نہیں۔ یہ آپ کی قرآن مجید سے دلی لگاؤ کی ہی برکت تھی کہ آپ نے تصنیفی میدان میں بھی اپنی خدمات سرانجام دیں۔آپ نے الیاقوت والمرجان فی شرح لغات القرآن، الیاقوت والمرجان فی شرح فی غریب القرآن، الاشارات الحمادیہ جیسی علمی اور نادر تصنیفات کیں۔ جن کا فیض اہل علم اور جو قرآن مجید کو سمجھنا چاہتا ہو کو ملتا رہیگا۔آپ کی اتنی مصروفیات کے باوجود یہ علمی تصنیفات آپ کا نمایاں کارنامہ ہے۔
7۔ آپ نے عوام کی اصلاح کے لئے اہل اللہ کی ایک ایسی کھیپ تیار کی جو اصحاب صفہ کے نقش قدم پر چلنے والی تھی۔ آپ نے ہالیجی شریف میں حاضر ہوکر صحبت اٹھانے والے معتقدین اور مریدین کی اصلاح فرمائی۔ ان کو اس مشن کے لیے تیار کیا۔ ان کی تربیت بہترین انداز میں کی۔ ان کے دلوں میں اللہ رب العزت اور رسول اللہ ﷺ کی محبت کی جوت جلائی۔ یہ وہ لوگ تھے جو ہالیجی شریف میں روکھی سوکھی کھاکر پانی پی کر اپنے مربی کے در پر پڑے رہے۔ ان سے تصوف و سلوک کے اسباق لیتے رہے، اپنے باطن کی اصلاح کرتے رہے، اپنے دلوں کو ذکر کے نور سے روشن کرتے رہے، اصلاحی مشن کے لئے تیار ہوتے رہے، لوگوں کے دلوں میں اللہ کی محبت اور رسول اللہ ﷺ کے عشق جگانے کی جستجو میں لگ گئے۔ ان میں سے جو علمائے کرام تھے وہ اپنے علاقوں میں جا کر قرآن مجید کی تعلیمات کو عام کرنے لگے۔ اصلاحی بیان کرتے اور درس قرآن دیتے رہے۔ اپنی مجلسوں کو احادیث رسول ﷺ سے منور کرتے رہے۔ خود قرآن و حدیث پر عامل رہے اور دوسروں کو اس کی طرف بلاتے رہے۔ جو غیر عالم تھے انہوں نے پہلے قرآن مجید سیکھا پھر اس کا ترجمہ اور تفسیر پڑھا۔ اپنے دلوں کو تقوی اور زہد جیسی نعمتوں سے مالا مال کر کے اپنے علاقوں میں لوگوں کو قرآن مجید کا ترجمہ پڑھانے سمجھانے اور قرآن مجید کی تفسیر کتاب کھول کر بیان کرنے لگے۔ انہوں نے راستے کی ہر رکاوٹ کو اللہ رب العزت کی رضا کی خاطر برداشت کیا۔ فکر معاش سے بے پرواہ ہو کر اپنی لگن میں لگے رہے۔ دیکھتے دیکھتے ایک ایسی جماعت تیار ہوگی جو سندھ کے گاؤں، دیہاتوں شہروں اور قصبوں میں پھیل گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سندھ کے کونے کونے میں توحید کی تعلیمات شروع ہوگئی۔ گھروں میں دینی ماحول پیدا ہونے لگا۔ گھروں میں چھوٹے، بڑے، بوڑھے، جوان، بچے، بچیاں، مرد اور عورت سب کی زبانوں پر اللہ رب العزت کا ذکر جاری ہوا اور ذکر کی حلاوت محسوس کرنے لگے۔ ذلک فضل الله یؤتیه من یشاءؕ و الله ذو الفضل العظیم۔ 27 ترجمہ: یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے اپنا فضل دے اور اللہ تعالی بہت بڑے فضل کا مالک ہے ۔
آپ کا اس مشن کے لیے ایسی جماعت تیار کرنا ایک نمایاں کام تھا۔
تفسیر قرآن کے کچھ نکات
آپ نے فرمایا کے صبر کی تین قسمیں ہیں، 1۔ صبرعلی الطاعۃ 2۔ صبر عن المعصیۃ 3۔ صبرعلی المعصیۃ۔ صبر علی الطاعۃ یہ ہے کہ عبادات (نماز، روزہ، حج، زکات، جہاد) کی ادائیگی میں جو تکلیف پہنچے اس پر صبر کرے اور عبادات کو کماحقہٗ ادا کرے۔ صبر عن المعصیۃ یہ ہے کہ جو خواہش بھی خلاف شریعت ہو اس سے سے باز رہے اور اور صبرعلی المعصیۃ یہ ہے کہ جو تکلیف بھی (بیماری، تنگی وغیرہ) آئے اس پر جزع فزع اور واویلا نہ کرے اور انا للہ پڑھتا رہے۔
آیت اﷲ نور السموات و الارض ۔۔۔۔۔۔ کی تفسیر میں فرمایا کہ: "طاق سے مراد بندہ مومن کا سینہ اور شیشہ سے مراد مومن کا دل ہے اور چراغ سے مراد لطیفہ قلبی ہے جو کہ رکھا ہوا ہے شیشہ قلب کے اندر اور زیت (تیل) سے مراد ذکراللہ ہے جس سے قلب مومن منور ہو جاتا ہے۔ جب ذکر اللہ سے قلب مومن منور ہو جاتا ہے تو تجلیات حق تعالی مومن کے قلب منور پر متجلی ہوتی ہیں یہی نورعلی نور ہے۔"28
حلیہ
قد لمبا، جسم چوڑا، چہرا نورانی، گندمی رنگ، رعبدار اور بڑی آنکھیں، نگاہ میں محبت، کشش اور عشق الہی کے آثار، داڑھی مبارک گھنی، بھنویں جڑواں (آپس میں ملی ہوئیں)، حج کے بعد سر بلکل صاف رکھتے تھے، سر پر سفید ٹوپی پر دو چار وال پگڑی اور دھوتی ٹکھنوں سے اوپر،گرمیوں میں چھوٹے بازو والی صدری یا باریک کرتا، سردی میں کھدر کا موٹا کرتا اور موٹی دھوتی اور حج سے پہلے زیادہ تر کالی پگڑی باندھتے تھے۔29
آپ کے بارے میں ہمعصر علمائے کرام کے تاثرات
مولانا محمد یوسف بنوریؒ
مولانا بنوری فرماتے ہیں کہ: "وهذا من ما یورث الحیرة والعجب رجل ینشا فی هذه البلاد ویتعلم فی هذه المدارس الدینیة ویعیش فی رجال لامساس لهم بالأذواق الأدبیة ولا دقائق اللغة ثم لا یشتغل کثیرا بالکتب الأدبیة ویصل إلی هذه الدرجة والمزیة فینا علی شخصیة فذة و عبقریتة کاملة ذلک فضل الله یعطیه من یشآء والله ذوالفضل العظیم." ترجمہ: یہ حیرت انگیز اور تعجب کی بات ہے کہ ایک شخص اس دیار میں پیدا ہوا اور تعلیم بھی یہاں کے مقامی مدارس سے حاصل کی اور پوری زندگی بھی یہاں کے مقامی لوگوں کے ساتھ گذاری، جن کو عربی ادب اور لغۃ کا کوئی ذوق نہیں اور نا ہی اس شخص نے عربی ادب کی زیادہ کتب ہی پڑھی ہیں۔ اس کے باوجود قرآن مجید کی لغات کا بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ اعلی معیار پر حل کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ کوئی عبقری اور نادر روزگار شخصیت ہے اور یہ ایک وہبی علم ہے۔ یہ اللہ کا فضل ہے جس کو چاہے عطا فرمائے۔29
حضرت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاریؒ
امیر شریعت حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری نے فرمایا: "حضرت ہالیجوی کے قلب مبارک میں گناہ کا تصور بھی نہیں آسکتا۔ کیوں کہ حضرت کا دل مبارک اللہ تبارک و تعالی کی محبت اور اس کی یاد میں مشغول ہوتا ہے۔اس لیے ان کے دل میں گناہ کا تصور کیسے آسکتا ہے".30
شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خانؒ
شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان صاحب نے فرمایا کہ: میں نے دو شخصوں کو دیکھا کہ وہ عالم کے ساتھ عارف کامل بھی ہیں۔ایک پنجاب میں دوسرے سندھ میں مگر ہالیجوی معرفت میں پنجاب والے بزرگ سے بہت بلند وبالا ہیں۔31
آپ کے مرشد حضرت مولانا تاج محمود امروٹیؒ
تاج الاولیا حضرت مولانا تاج محمود امروٹی نے فرمایا کہ: "سارا مکھن حماداللہ لے گیا اب ہم صرف لسی ہی بانٹ رہے ہیں".
علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ
مولانا حماداللہ ہالیجوی نے جامعہ دارالھدی ٹھیڑھی کے سالیانی کانفرنس میں سورۃ الفاتحہ کی تفسیر بیان فرمائی۔ سورۃ فاتحہ کی معنی اور مفہوم پر دو گھنٹے علمی تقریر فرمائی۔ خطاب کے اختتام پر علامہ شبیر احمد عثمانی نے آپ کے متعلق فرمایاکہ: "ہم کو اس سے پہلے یہ معلوم تھا کہ یہ شخص اللہ تبارک و تعالی کا نیک بندہ، بزرگ اور کامل ولی اللہ ہے پر آج تقریر سننے کے بعد یہ پتا چلا کہ حضرت ہالیجوی علم کے سمندر بھی ہیں"۔
مولانا بدر عالم میرٹھی مدنی ؒ
مولانا میرٹھی (1316ـ1385)نے فرمایا: "حضرت حماداللہ کو عارف باللہ تو پورا عالم تسلیم کرتا ہے پر ظاہری علوم میں بھی ان کے پایے کا کوئی عالم نہیں"۔32
مولانا حسین احمد مدنی ؒ
1942ء میں پنوعاقل میں جمعیت علماء ہند کا اجلاس منعقد ہوا۔ اس میں مولانا حسین احمد مدنی بھی شریک تھے۔ اس اجلاس میں حضرت ہالیجوی سے ملاقات کرتے وقت فرمایا: "اگر آپ ہمارے ساتھ دیوبند چلیں تو یہ اللہ تبارک و تعالی کا بڑا احسان ہوگا۔ ہم آپ سے معرفت الہی اور تعلق باللہ کے اسباق سیکھ لیں گے۔"33
نتائج
حضرت ہالیجویؒ کی شخصیت ہمہ جہت شخصیت تھی۔ آپ ایک ہی وقت میں شیخ القرآن، محدث، فقیہ، عارف، مصلع، عابد، زاہد، متقی، مبلغ، سیاستدان، محقق، حکیم، دانشور، مطبع سنت و عامل سنت اور کامل ولی اللہ تھے۔ اللہ رب العزت نے آپ کے اندر یہ سب صفات اعلی درجے کی ودیعت فرمادی تھیں۔ آپ شریعت کے ظاہری علوم کے ماہر ہونے کے ساتھ باطنی علوم کے اسرار و رموز کے بھی عالم باعمل تھے۔ شریعت کے ان دونوں علوم کے امتزاج نے آپ کی شخصیت کو نکھارہ۔ ایسی شخصیات قابل تقلید ہوتی ہیں۔ آپ کی شخصیت وفی ذلک فلیتنافس المتنافسون۔34 ترجمہ: سبقت لے جانے والوں کو اسی میں سبقت کرنی چاہیے، کی حقیقی مصداق تھی۔ ایسی شخصیات کی صحبت میں بیٹھنا بھی عبادت میں شمار ہوتا ہے۔
حوالہ جات
- سجاولي، محمد حسين شاھ، ماهوار الفاروق، سلسلو 227، سال ارڙهون، نمبر چوٿون،(م سنڌ جا سپوت) ص 24، مئي 2015.
- مقبول احمد، تحقیقی مقالہ برائے پي ايچ ڈی، برصغير پاک و ہند کے چند ممتاز علماء کی علمی اور دينی خدمات 1857 تا 1947ع، جامشورو، شعبہ تقابل ادیان و ثقافت اسلامیہ سندھ يونيورسٹی 1999 باب چہارم کے بقیہ عنوانات ضمیمہ، ص9۔
- انڈھڑ، عبدالوحید، ڈاکٹر، انڈھڑ قبیلہ تاریخی تناظر میں ، ص 119، رحیم یار خان، الغازی پبلیکیشن بھونگ شریف، اشاعت اول، 2015.
- قاسمي، غلام مصطفى، علامه، مقالات قاسمي، ص487، مرتب پروفيسر ڊاڪٽر مظهر الدين سومرو، نظير احمد قاسمي، حيدرآباد، نفيس پرنٽنگ پريس، ڇاپو پهريون2000.
- قاسمي، غلام مصطفى،علامه، چونڊ سوانحي خاڪا، ص240، حيدرآباد، انٽيل ڪميونيڪيشنز،9 ربي چيمبرز حيدرچوڪ2012.
- سومرو،محمد قاسم،مولانا، سوانح حضرت سائين ٻير وارا، ص414، ڪنڊيارو، روشني پبليڪيشن،ڇاپو ٽيون 2018.
- هاليجوي، عبدالصمد، مولانا، خطبات هاليجوي، ص21، ڪراچي، آزاد ڪميونيڪيشن، نئون ڇاپو2012.
- انڈھڑ، محمد حسن، تاریخ قبیلہ انڈھڑ ، ص 196، رحیم یار خان، افشاں پرنٹنگ پریس 1997.
- قاسمي، غلام مصطفى، علامه، چونڊ سوانحي خاڪا،ص 240، حيدرآباد، انٽيل ڪميونيڪيشن، ڇاپو پهريون2012.
- سومرو،محمد قاسم،مولانا، سوانح حضرت سائين ٻير وارا،ص 411،410، ڇاپو ٽيون 2018.
- بخاري، سيد محمود شاھ، پروفيسر، آزاديء جو امام، ص352، ڪراچي، سنڌيڪا اڪيڊمي، نئون ڇاپو2016.
- انڈھڑ، محمد حسن، تاریخ قبیلہ انڈھڑ ، ص 196، رحیم یار خان، افشاں پرنٹنگ پریس 1997.
- عباسي، نجي الله، تاريخ و تعريف تصوف ۽ تذڪره علامء تصوف، ڇاپو پهريون. ص229، ڪراچي، نئون نياپو اڪيڊمي 1425ھ.
- انڈھڑ، عبدالوحید، ڈاکٹر، انڈھڑ قبیلہ تاریخی تناظر میں ، ص 120، رحیم یار خان، الغازی پبلیکیشن بھونگ شریف، اشاعت اول، 2015.
- بخاری، محمد بن اسماعیل،صحیح بخاری،کتاب الایمان، باب حضرت جبرائیل علیہ السلام کا آنحضرت سے ایمان، اسلام، احسان اور قیامت کے علم کے بارے میں پوچھنا۔ حدیث نمبر 50
- اعظمی، اعجاز احمد، مولانا، تصوف ایک تعارف، ص9، مرتب مولانا ضیاء الحق خیرآبادی، یوپی انڈیا، مکتبہ ضیاء الکتب، خیرآباد، ضلع مئو
- الاعلی: 14،15
- بخاري، سيد محمود شاھ، پروفيسر، آزاديء جو امام، ص350، ڪراچي، سنڌيڪا اڪيڊمي، نئون ڇاپو2016.
- البقرۃ: 165
- الاحزاب: 41
- هاليجوي، غلام الله، مولانا، فڪر الحماد هاليجي شريف، ڪتاب نمبر8، ص28، نومبر2006.
- ڦلپوٽو، محمد رمضان، مولانا، مرد مجاهد، استاد الڪل، فقيه العصر، حضرت مولانا سائين غلام محمد پنهورؒ (حيات، خدمات، افادات)، 89، خيرپورميرس، مدرسه عربيه دارالعلوم حماديه، ڇاپو پهريون2014.
- سومرو، مظهرالدين، ڊاڪٽر، تحريڪ آزاديء ۾ سنڌ جي عالمن جو حصو، ص 292، ڪراچي،نقش پبليڪيشنز2008.
- روزانہ آزاد کراچی، مؤرخہ 21 اپریل 1944ء ص2۔
- الجن: 18
- سورۃ الاحزاب : 21
- الجمعۃ: 4
- بخاری، محمد اکبر شاہ، حافظ، تذکرہ اولیائے دیوبند، ص415، لاہور، لٹل سٹار پرنٹرز2001۔
- بخاري، سيد محمود شاھ، پروفيسر، آزاديء جو امام، ص350، ڪراچي، سنڌيڪا اڪيڊمي، نئون ڇاپو2016.
- بخاری، محمد اکبر شاہ، حافظ، تذکرہ اولیائے دیوبند، ص412، لاہور، لٹل سٹار پرنٹرز2001۔
- کهڙو، شعيب الرحمن، مولانا، اسان جا اسلاف،ڇاپو پهريون، ص54، کهڙا، جامعه حماديه2002.
- هاليجوي، غلام الله، مولانا، فڪر الحماد هاليجي شريف،خصوصي شمارص، تعليمات حضرت حمادالله هاليجوي، ص201، پنو عاقل، جامعہ حماديہ مدينة العلوم ذوالحج 1427ھ، محرم الحرام 1428ھ.
- ايضا
- کهڙو، شعيب الرحمن، مولانا، اسان جا اسلاف،ڇاپو پهريون، کهڙا، جامعه حماديه2002.
- المطففین: 26
حوالہ جات
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |