1
2
2017
1682060025806_843
13-20
http://www.arjish.com/index.php/arjish/article/download/17/15
http://www.arjish.com/index.php/arjish/article/view/17
Social life Reform Family Peace of society Rights Social life Reform Family Peace of society Rights.
تعارف
انسان انسانیت کا نام ہے اور اللہ پاک نے انسان کا مقام بلند کرکے اس کو احسن تقویم جیسے خطاب سے نواز کر اس کو علم کی دولت سے مالا مال فرماکے زمین میں اس کو خدا کا خلیفہ بنایا ۔ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس قدر عظمت بخشی ہے تو اس کے ساتھ انسان کے ذمے کچھ حقوق وواجبات بھی لگائے ہیں تاکہ انسان ان کی ادائیگی کے بعد قیامت کے دن خدا کے سامنے سرخرو ہوسکے۔
اسلام میں ایمان کے کمال کا معیار جس چیز کو ٹھرایا گیا ہے وہ حسن اخلاق ہے ۔ اسی سے باہم انسانوں میں درجے اور رتبے نمایاں ہوتے ہیں۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے " تم میں سب سے اچھا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں "۔
آپ ﷺ نے اس نظام پر محنت کی اور صحابہ کرام نے اس زندگی کو قبول کیا اور اس کا عملی نمونہ امت کے سامنے پیش کیا اور اس سے اسلامی معاشرہ اور اصلاح اور خیر خواہی پر مبنی معاشرہ وجود میں آیا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس معاشرے کو لے کر جہان میں پھیل گئے اور لوگوں کی زندگیاں تبدیل ہوئیں۔ صحابہ کرام جہاں وہ گئے وہاں انھوں نے لوگوں کی زندگیاں ، معاشرہ ، اخلاق حتی کہ لوگوں کی لغات تک کو تبدیل کردیا جس کے باعث جابجا اسلامی معاشرے کی برکات دیکھنے میں آنے لگی،لیکن جیسے جیسے وقت گذرتا گیا، عہد نبوت سے دوری ہوتی گئی اور مختلف اقوام اور افراد اسلام میں داخل ہوتے گئے تو بہت سی رسوم ، رواج اور بے بنیاد باتیں اسلامی معاشرے میں داخل ہوتی گئیں ، جن کا اسلامی معاشرے اور آپ ﷺ کی تعلیمات سے کوئی دور کا تعلق بھی نہ تھا۔ جب تک افراد امت تعلیمات نبوی سے توانائی اور رہنمائی حاصل کرتے رہے تب تک معاشرہ خود بھی درست راہ پر گامزن رہا، اور دوسرے معاشروں کے لیے ہدایت اور رہنمائی کا کام کرتا رہا، لیکن مسلمان جب اسلامی تعلیمات کو چھوڑ کر نفس پرستی اور اغیار کے پیچھے چلے تو معاشرہ طرح طرح کی برائیوں مثلا خود غرضی،انائیت ،تکبر،غرور،جھوٹ، رشوت اور سماجی برائیوں وغیرہ میں مبتلا ہوگیا ۔
تاریخی پس منظر
عرب بعثت رسول ﷺ کے وقت ایک ان پڑھ قوم تھی جس میں آپس کی جنگ و جدل نے خوب تباہی مچائی تھی اور دوسری طرف یہودیوں کی معاشی استحصال نے انہیں معاشی طور پر بالکل کھوکھلا کرکے رکھ دیا تھا ۔ دنیا کا ہر شرعی عیب ان میں تھا ۔ اخلاقیات کا ان میں نام و نشان نہ تھا اور کسی قسم کی الہامی تعلیمات سے وہ بالکل ناواقف تھے کیونکہ ان کے ہمسایہ یہودی کسی قسم کی تبلیغی سرگرمی نہ کرتے تھے کیونکہ اس طرح ان کے معاشی مفادات کو زد پہنچتی تھی ۔[1]
انسانی حقوق کے لئے کوئی ضابطہ نہ تھا اور نہ ہی ایسے حقوق کو صحیح مرکز پر لانے کے لئے کوئی قانون تھا ۔ قتل انسان ، قید، ناجائز قبضہ اور دوسرے کے امور میں مداخلت جیسے معاشرتی جرائم ان میں عام تھے ۔ قتل کا انتقام لینے کے لئے قتل و غارت کا ایک لامتنا ہی سلسلہ چل پڑتا تھا جس میں خاندان کے خاندان مٹ جاتے تھے ۔
لباس اور برہنگی محض زینت اور موسمی اثرات ہی کے لئے ضروری جانتے تھے ۔ شرم وحیا کا کوئی تصور نہ تھا ۔ اپنا ستر دوسروں کے سامنے کھول دینا ، سر عام نہا لینا ، راہ چلتے قضائے حاجت کے لئے بیٹھ جانا ان کے شب وروز کے معمولات تھے ۔ حد یہ تھی کہ حج میں طواف بھی برہنہ کر لیتے تھے ، اس طواف کے معاملے میں عورتیں مردوں سے زیادہ بے حیا تھیں اور اس بے شرمی کا ایک مذہبی فعل اور نیک کام جانتے تھے ۔ [2]
بعثت رسول اکرم ﷺ کے وقت دنیا میں قابل ذکر اقوام کی اخلاقی حالت کا بیان ختم ہوتا ہے ۔ یہ بات نہایت اہم اس لئے بھی ہے کیونکہ کسی بھی تحریک اور اس کے برپا کرنے والی ہستی کے اصلاحی کام کی صحیح نوعیت کبھی سامنے نہیں آسکتی جب تک وہ حالات ہماری نظر میں نہ ہوں جن میں وہ مصلح اور اس کی تحریک کام کرتی تھی کہ کن حالات سے اسے سابقہ تھا ۔ حالات کتنے برے تھے اور ان کی اصلاح کس حد تک اور کس وقت میں کی گئی ۔ جس قدر برے حالات میں کوئی تحریک برپا ہوتی ہے اور اصلاح کرتی ہے اتنا ہی بڑا مقام اس تحریک کو حاصل ہوتا ہے ۔ اوپر دی گئی تفصیلات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مجوسی ، ہندومت اور عربوں کے پاس تو کوئی اخلاقی پس منظر تھا ہی نہیں ، محض آبا واجداد اور مذہبی ٹھیکیداروں کی آلائیشیں تھیں ۔ جب کہ دوسری طرف عیسائی اور یہودی بے شک حاملان کتاب اللہ تھے لیکن انہوں نے تعلیمات خداوندی میں اس قدر تحریف کر رکھی تھی کہ وہ تعلیمات خداوندی نہیں بلکہ ان کے مذہبی پیشواؤں کی گمراہ کن تعلیمات تھیں ۔
ایسے زمانے میں اللہ تعالیٰ نے خاتم النبین ﷺ کو مبعوث فرمایا اور انہوں نے 23 سالہ دور نبوت میں عربوں کو ایک ایسے مقام پر پہنچادیا جو اخلاقیات کا معراج تھا۔[3]
سماجی زندگی اور قرآنی تعلیمات
انبیاء علیہم السلام کے بھیجنے کے مقاصد میں اگر غور اور فکر کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بعض انبیاء علیہم السلام کے بعثت کا مقصد اخلاق و معاملات کی خرابیوں کو دور کرنا تھا ۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم ناپ اور تول میں کمی کرنے کی عادی تھی ۔ حضرت شعیب علیہ السلام کو ان کی اس برائی کو دور کرنے کے لیے مبعوث فرمایا گیا تھا ۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے قوم کو خطاب کرکے فرمایا:
"يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ وَلاَ تَنقُصُواْ الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ"[4]
یعنی اللہ اکیلے کی عبادت کرو جس کا کوئی مثل نہیں اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو۔
حضرت لوط علیہ السلام کی قوم بے حیائی اور بدفعلی میں مبتلا تھی اور ان کو اس عمل بد سے نکالنے کے لیے بھیجا گیا تھا ۔ قرآن مجید نے حضرت لوط علیہ السلام کا قوم کو خطاب ان الفاظ میں ذکر فرمایا:
"أَتَأْتُونَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعَالَمِينَ وَتَذَرُونَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ عَادُونَ"[5]
ترجمہ: کیا تم جہان والوں کے مردوں برائی کرتے ہو اور اللہ تعالی نے تمہارے لیے جو عورتیں پیدا فرمائی ہیں ان کو چھوڑتے ہو بلکہ تم تو حد سے تجاوز کرنے والے افراد میں ہو۔
امت محمدیہ ؐ کےعلاوہ دیگر امتوں میں طے کردہ عبادت اور عقیدہ کو دین کہا گیا ہے لیکن امت محمدیہؐ کے لیے دین صرف ان پہلوں کو نہیں بلکہ زندگی کے تمام پہلو مثلا معاملات ،عبادات، معاشرت ،اخلاق ، آداب ، عقائد وغیرہ سب کو شامل ہے۔ قرآن مجید میں ہم کو ان مذکورہ امور کے متعلق باربار توجہ دلائی گئی ہے۔ ان میں سے سورۃ الحجرات ، سورت لقمان، سورت بنی اسرائیل سورت نساء ، سورۃ طلاق میں متعدد اخلاقی اور اجتماعی آداب اور اخلاق حسنہ سے مزین ہونے کی دعوت دی گئی ہے۔
مولانا محمد رابع ندوی "اصلاح معاشرہ "کے مقدمہ میں رقمطراز ہیں:
"اجتماعی زندگی اور انفرادی اخلاق اور اہل تعلق کے حقوق اور انسانی خصوصیات کا بہتر طریقہ اختیار کرنے سے جو معاشرہ وجود میں آتا ہے وہ بلند کردار انسانی معاشرہ بنتا ہے۔ جس میں سب کو راحت حاصل ہوتی ہے اور ہمدردی اور آپس کا تعاون اور اخلاقی برتاؤ اور خیر پسندی کی صفات عمل میں آتی ہیں۔"[6]
ہمارے معاشرے میں بھی یہ دو برائیاں یعنی ایک مال کی حد سے بڑھی ہوئی محبت اور دوسری بے حیائی بڑی حد تک پائی جاتی ہیں۔ یہ دو بیماریاں دوسری ہزاروں برائیوں سود، جھوٹ ، رشوت ، وعدہ خلافی ، بد عہدی ، حلق تلفی ،قتل و غارت گری وغیرہ کا سبب ہیں۔قرآن مجید نے ان دونوں برائیوں کو پرزور انداز سے منع فرمایاہے،قرآن مجید میں ارشاد ہے :
"إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ "[7]
ترجمہ: جو لوگ ایمان والوں میں بدکاری کا پھیلانا پسند کرتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں ۔
اس طرح اسلام مال کی محبت سے روکتا ہے اور اس میں غلو کرنے اور زیادہ مال جمع کرنے کی حرص کی مذمت فرماتا ہے ،البتہ ضرورت کے بقدر مال حاصل کرکے اس کےحقوق ادا کرنا اس سے مستثنی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
"والَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ"[8]
ترجمہ: جو لوگ سونا اور چاندی کا ذخیرہ کر کے رکھتے ہیں اور اللہ کے راستے میں نہیں خرچ کرتے تو ان کو دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ۔
سماجی زندگی کی اصلاح میں آپﷺ کی تعلیمات
اسلامی تعلیمات معاشرے کے ہر ایک فرد کو اپنے حقوق اور ذمہ داریاں ادا کرنے کا حکم دیتی ہیں، آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
"كلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته الإمام راع ومسئول عن رعيته والرجل راع في أهله وهو مسئول عن رعيته والمرأة راعية في بيت زوجها ومسئولة عن رعيتها والخادم راع في مال سيده ومسئول عن رعيته قال وحسبت أن قد قال والرجل راع في مال أبيه ومسئول عن رعيته وكلكم راع ومسئول عن رعيته"[9]
مطلب کہ ہر ایک سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا امام سے رعیت کے بارے میں ، آدمی سے بیوی بچوں کے بارے میں، عورت سے گھر کے بارے میں ، خادم سے آقا کے مال کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی۔
اصلاح معاشرہ کے بارے مولانا شمشاد ندوی فرماتے ہیں: "معاشرے میں جب ہرفرد، خاندان اپنی ذمہ داری احسن طریقہ سے پوری کریگا تو اس عمل سے پاکیزہ معاشرہ وجود میں آئیگا، اس پاکیزہ معاشرہ میں نیکیوں کی رغبت، حوصلہ افزائی اور برائیوں،گناہوں سے نفرت وحوصلہ شکنی کا ماحول پایا جائے گا، پھر اچھی باتوں کی تلقین وترغیب اور بری باتوں سے نفرت اور دوری اس مثالی معاشرے کی پہچان بن جاتی ہے ۔[10]
مولانا معین الدین ندوی فرماتے ہیں ، "مسلمانوں کی معاشرتی زندگی کے مسائل جن کو عائلی قوانین یا مسلم پرسنل لاء کہا جاتا ہے ، قرآن و حدیث میں دوسرے بہت سے احکامات کی طرح اس کو بڑی تفصیل اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جیسے نکاح و طلاق کے متعلق احکام قرآن پاک کی پانچ سورتوں " بقرہ ، نساء، نور ،احزاب اور طلاق " وغیرہ کی متعدد آیات میں بیان کئے گئےہیں ، اور وہ احادیث ِ صحیحہ جں میں مذکورہ احکام بتائے گئے ہیں ان کا شمار مشکل سے ہی ہو ، یہی حال وراثت کی تقسیم کا ہے ،افسوس کہ خود مسلمانوں ایک بڑا طبقہ ان مسائل سے ناواقف ہے۔"[11]
سماجی زندگی میں ایک کارگر اصول
اچھائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا اہل ایمان کا شیوہ ہے لیکن بہت سے لوگ یہ نہیں جانتے کہ کس وقت یہ تبلیغ کرنا ضروری ہے اور کس وقت اس تبلیغ کرنے سے اصلاح کے بجائے فساد پیدا ہوتا ہے۔ اسلامی تعلیم یہ ہے کہ اگر کسی آدمی کو برائی میں مبتلا دیکھے اور امید ہوکہ مخاطب بات کو مان لےگا اس وقت بات کہنا فرض ہے اور اگر اس کو اندیشہ ہو کہ مخاطب بات نہیں مانے گا بلکہ کہ وہ دین اور دین داروں کی مذاق اڑائیگا اس وقت امر بالمعروف فرض نہیں رہے گا۔مفتی محمد تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں :
"جب بھی دوسرے سے دین کی بات کہنی ہو تو صحیح طریقے سے بات کہو ، پیار، محبت اور خیر خواہی سے بات کہو تاکہ اس کی دل شکنی کم سےکم ہو اوراس انداز سے کہو کہ اس کی سبکی نہ ہواور لوگوں کے سامنے اس کی بے عزتی نہ ہو ۔شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمدعثمانی رحمۃ اللہ علیہ ایک جملہ فرمایا کرتے تھےجو میرے والد ماجدحضرت مولانا مفتی محمدشفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے کئی با ر ہم نے سنا وہ یہ کہ حق بات حق طریقے اور حق نیت کے ساتھ جب بھی کہی جائے گی وہ کبھی نقصان دہ نہ ہوگی لہذا جب بھی تم دیکھو کہ بات کہنےکےنتیجے میں کہیں لڑائی جھگڑا ہوگیا یا نقصان ہو گیا یا فساد ہو گیا تو سمجھ لو کہ ان تین باتوں میں سے ضرور کوئی بات نہیں تھی،یا تو بات حق نہیں تھی اور خواہ مخواہ اس کو حق سمجھ لیا تھا یا بات تو حق تھی لیکن نیت درست نہیں تھی یا بات بھی حق تھی نیت بھی درست تھی لیکن طریقہ حق نہیں تھا۔"[12]
قرآن مجید میں دعوت کاعظیم اسلوب اورطریقہ کار بتایا گیا ہے ،چنانچہ ارشاد ہے:
"ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ"[13]
یعنی حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ ان کو اللہ کے راستے کی طرف بلاؤ اور ان کو اچھے طریقے پر الزام دو
بلا اپنے رب کی راہ پر پکی باتیں سمجھا کر اور نصیحت سنا کربھلی طرح اورالزام دے ان کوجس طرح بہتر ہو ۔
آیت مذکورہ کے بارے میں شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
"ادع الی سبیل الخ سے خود پیغمبر علیہ السلام کو تعلیم دی جا رہی ہے کہ لوگوں کو راستہ پر کس طرح لانا چاہئے، اس کے تین طریقے بتائے، حکمت، موعظتِ حسنہ، جدال بالتی ہی احسن ۔ حکمت سےمراد یہ ہے کہ نہایت پختہ اٹل مضبوط دلائل وبراہین کی روشنی میں حکیمانہ انداز سے پیش کئے جائیں، جن کو سن کر فہم وادراک اور علمی ذوق رکھنے والا طبقہ گردن جھکا سکے ۔دنیا کے خیالی فلسفے ان کے سامنے ماند پڑ جائیں اور کسی قسم کی علمی ودماغی ترقیات وحی الٰہی کی بیان کردہ حقائق کا ایک شوشہ بھی تبدیل نہ کرسکیں۔موعظتِ حسنہ موثر اور رقت انگیز نصیحتوں سے عبارت ہے جن میں نرم خوئی اور دلسوزی کی روح بھری ہوئی ہو۔اخلاص، ہمدردی اور شفقت و حسن اخلاق سے خوبصورت اور معتدل پیرایہ میں جو نصیحت کی جاتی ہے بسا اوقات پتھر دل بھی موم ہو جاتے ہیں ۔ہاں دنیا میں ہمیشہ سے ایک ایسی جماعت بھی موجود رہی ہے جس کا کام ہر چیز میں الجھنا اور بات بات میں حجتیں نکالنا اور کج بحثی کرنا ہے ، اس لیے "وجادلهم بالتی هی اَحسن" فرمادیا کہ اگر ایسا موقع پیش آئے تو بہترین طریقہ سے تہذیب، شائستگی ،حق شناسائی اور انصاف کے ساتھ بحث کرو ، اپنے حریف مقابل کو الزام دو تو بہترین اسلوب سے دو۔"[14]
آپ ﷺ نے اپنی پوری زندگی اس طریقہ پر اپنی پوری زندگی عمل کیا اور امت کے لیے اپنے قول اور فعل سے اس کی وضاحت فرمائی۔ ترمذی شریف کی حدیث میں ہے کہ ایک دیہاتی آدمی مسجد میں پیشاب کرنے لگے تو لوگ اس کی طرف دوڑے ، آپ ﷺ نےانلوگوں کو روکا اور ارشاد فرمایا "اِنما بعثتم ميسرين ولم تبعثوا معسرين"[15] یعنی تم آسانیاں پیدا کرنے کے لیے بھیجے گئے ہو تنگی کرنے کے لیے نہیں۔ یعنی جو کام اس کو کرنا تھا وہ کر گذرا ، اس لیے اس کو چھوڑ دو۔اس کے بعد آپ ﷺ نے اس دیہاتی کو نہایت شفقت سے سمجھایا۔
اصلاح کی ابتدا کہاں سے ہو
آج ہماری ایک کوتاہی یہ ہے کہ ہر ایک کو دوسرے کی اصلاح کی فکر ہوتی ہے ، جس کے لیے دوسروں کو ٹوکنے اور کوسنے کو ہی "اصلاح ِعظیم "سمجھا جاتاہے مگر اپنی ذات اور اپنے اخلاق سے غفلت ہوتی ہے۔ ہر ایک تحریر ،تقریر اور نصیحت دوسروں کے لیے ہوتی ہے ۔ ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ اصلاح کی ابتدا دوسرے کے گھر سے شروع ہو، رسم و رواج کے خلاف کوئی دوسرا آدمی کھڑا ہو، حالانکہ اسلام اور انبیاء علیہم السلام کی تعلیم یہ ہے کہ اصلاح کی ابتدا اپنی ذات اور اپنے گھر سے ہو ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
"يايها الذين آمنوا قوا انفسكم واهليكم نارا"[16]
ترجمہ : اے ایمان والو خود کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ۔
سورہ طہ میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
"وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا"[17]
ترجمہ: اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور خود بھی اس پر ثابت قدم رہو ۔
حضور ﷺ کو اللہ کی طرف سے حکم آیا:
"واَنْذِر عَشِيرَتَكَ الاَقْرَبِينَ"[18]
ترجمہ: اور ڈر سنادے اپنے قریب کے رشتہ داروں کو۔
حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
"خاندان كے لوگوں كی تخصیص كی ایك وجہ یہ بھی ہے كہ اس میں تبلیغ ودعوت كو آسان اورمؤثر بنانے كا ایك خاص طریقہ بتلایا ہے،جس كے آثار دور رس ہیں قریبی رشتہ دار جب كسی اچھی تحریك كے حامی بن جائیں تو ان كی اخوت وامداد پختہ بنیاد پر قائم ہوتی ہےاور خاندانی جمعیت كے اعتبار سے بھی ان كی تائید پر مجبور ہوتے ہیں اور جب قریبی رشتہ داروں، عزیزوں كا ایك ماحول حق وصداقت كی بنیادوں پر تیار ہوگیا تو روزمرہ كی زندگی میں ہر ایك كو دین كےاحكام پر عمل كرنےمیں بہت سہولت ہوجاتی ہے اورپھر ایك مختصر سی طاقت تیار ہوكر دوسروں كو دعوت وتبلیغ كرنے میں مدد دیتی ہے۔"[19]
ایک درست اسلامی معاشرہ کی ابتدا اور بنیا د کہاں سے شروع ہوتی ہے ، اور اس معاشرے کی کیا کیا خصوصیات ہیں اس کے بارے میں مولانا شمشاد ندوی صاحب فرماتے ہیں :
"جب عمدہ صفات ، اخلاق و کردار ، فکر و عقیدہ میں پاکیزگی اور درستگی آجائے اور بندہ کو عبادت اور ذکر سے لگاؤ وشغف پیدا ہو جائے تو اس کو "صالح فرد" کہا جائے گا اور ایسے صالح افراد سے متوازن و صالح خاندان و جود میں آتا ہے اور اس خاندان میں اسلامی تہذیب و تمدن ، بڑوں کا ادب و احترام اور چھوٹوں پر شفقت،عورتوں کے ساتھ حسن سلوک ، اولاد اور خدام پر شفقت اور محبت اور ان کی صحیح تربیت سامنے آتی ہے۔ "[20]
اسلام میں خاندان کی ابتدا آسانی سے
فضول خرچی کی وجہ سے معاشرہ تباہ ہو جا تا ہے اور معاشی زندگی میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے ۔وہ مال جو سماجی، رفاہی اور فلاحی کاموں میں استعمال ہونا ہوتا ہے وہ رشوت ، شادی برات اور جہیز وغیرہ کے نذر ہو جاتا ہے ۔ مشکوٰۃ شریف کی حدیث ہے:
"إن أعظم النكاح بركة أيسره مؤنة"[21]
ترجمہ : سب سے بڑا نکاح برکت والا وہ ہے جس میں کم سے کم خرچ ہو ۔
علامہ سید ابو الحسن علی ندوی رح فرماتے ہیں :
"مسلمانوں میں اسراف کی جو وبا آئی ہوئی ہوئی ہے، شادیوں اور دیگر تقریبات میں جس طرح اسراف و تبذیر جاری ہے، غیر اسلامی رسومات کی پابندی کی جارہی ہے وہ کسی بھی قوم و ملت کے لیے تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ہے ۔جس قوم کے لاکھوں لوگ جو کی روٹی کے محتاج ہوں اور ستر پوشی کے لباس سے عاری ہوں ، اہل ثروت اللہ کی عطا کردہ دولت کا بے جا استعمال کر رہے ہوں ، ایسی صورت میں اس قوم کا مستقبل کا کیا ہوگا؟"[22]
نتائج
1۔ اسلام کے یہ آفاقی اصول اور اخلاق ہی مسلمانوں کی زبوں حالی کا خصوصا اور دنیا کی اخلاقی حالت کا عموما وا حد علاج ہیں اور اس حقیقت کا معترف تاریخ انسانی کا ہر طالب علم ہے ۔ اسلام ان الہامی اور آفاقی اصول وضوابط اخلاق پر جو بھی عمل کرے گا ، ان کے فوائد وبرکات سے ضرور بھرہ مند ہو گا ۔ اگر مغربی معاشرہ ان اصولوں پر عمل کرکے حیرت انگیز فوائد سے بہرہ مند ہوسکتا ہے تو ہم مسلمان ایک مکمل نظام کے تحت ان اخلاقی ضوابط کو اسلام کی سیاسی تعلیمات پر عمل کرکے بہت بہتر نتائج حاصل کرسکتے ہیں ۔
2۔ اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان انسان اور سماج کو ظلم اور ہر قسم کے نقصان سے بے خوف کردیتا ہے ۔
3۔آج مسلمانوں نے اپنے دین اور پیارے رسول ﷺ کی سنتوں کو ترک کرکے غیروں کے طریقوں پر اپنی زندگی کو ضائع کرنا شروع کردیا ہے ، جس کے باعث اسلامی معاشرے میں جو محبت ،اخوت ، ہمدردی اور ایثار کے پہلو جا بجا دیکھنے میں آتے وہ نا پید ہوگئے ہیں۔ ان اخلاق حسنہ کے بجائے ہمارا معاشرہ رذائل اسراف ، فضول خرچی، جوا، سود ، جھوٹ، منگنی، تلک، جہیز، تاخیرِ نکاح، بیوہ کی شادی کو معیوب جاننا، لڑکی کو میراث سے حصہ نہ دینا وغیرہ عیوب کا شکار ہونے کے باعث ہمارا معاشرہ اسلام کی حقیقی برکات سے محروی کا شکار ہے ۔
حوالہ جات
- ↑ صدیقی، عرفان حسن ، اسلام کی اخلاقی تعلیمات ، اشاعت اول مئی 1994 ء ، لاہور ناشر اسلامک پبلیکیشنز ( پرائیویٹ) لمیٹڈ، ص ـ80
- ↑ ایضا ، ص 86
- ↑ ایضا ، ص 91
- ↑ سورۃ ھود( 11)، آیت : 8
- ↑ سورہ الشعراء( 26)، آیت 165، 166
- ↑ ندوی بلال عبدالحی حسینی: اصلاح معاشرہ سورہ حجرات کی روشنی میں ، رائے بریلی سعید احمد شہید اکیڈمی دار عرفات ، طبع اول 1430ھ، ص 9
- ↑ سورہ نور(24)، آیت:20
- ↑ سورہ التوبہ (9) ،آیت:34
- ↑ البخاري محمد بن إسماعيل : صحیح البخاری ،بیروت دار طوق النجاة، طبع اول 1422 ھ، ج2،ص 5
- ↑ ندوی، محمد شمشاد: اصلاح معاشرہ اور اسلام، محولہ، ص 23
- ↑ مدنی ،معین الدین اکرمی ندوی: اسلامی قانونِ معاشرت، بھٹکل کرناٹک مرکزی خلیفہ جماعت المسلمین، 1425ھ، ص 16
- ↑ ملتانی، محمد اسحاق: معاشرتی حقوق و فرائض از افادات شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی ، ملتان ادارہ تالیفاتِ اشرفیہ ، محرم الحرام 1426ھ، ،ص 290
- ↑ سورہ النحل (16) آیت: 125
- ↑ عثمانی، شبیر احمد :تفسیر عثمانی ، کراچی دارالاشاعت ، ص 844، 845
- ↑ ترمذی، محمد بن عیسیٰ : الجامع الصحیح سنن الترمذی،بیروت دارابن کثیر، 1409ھ، ص 64
- ↑ سورہ التحریم(66)، آیت :6
- ↑ سورہ طہ (20)، آیت 132
- ↑ سورہ الشعراء(26) ،آیت :224
- ↑ عثمانی ،محمد شفیع مفتی :معارف القرآن ،کراچی مکتبہ معارف القرآن ، ج6، ص 160
- ↑ ندوی ،محمد شمشاد بن محمد یونس ، مذکورہ بالا ماخذ ص 22
- ↑ التبريزي ،محمد بن عبد الله الخطيب: مشكاة المصابيح، بيروت المكتب الإسلامي ، طبع ثالث، 1405ھ، ج2، ص202،
- ↑ ندوی ،محمد شمشادمولانا: اصلاح معاشرہ اور اسلام، محولہ ، ص 34
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 1 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2017 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |