2
1
2018
1682060025806_880
1-26
http://www.arjish.com/index.php/arjish/article/download/26/24
http://www.arjish.com/index.php/arjish/article/view/26
Abdul Aziz Dabbagh Sub-Continent Spiritualists Mysticism Abdul Aziz Dabbagh Sub-Continent Spiritualists Mysticism.
شیخ عبدالعزیز دباغ مغرب کے مشہور صوفیا میں سے ہیں۔ آپ کی ولادت مراکش کے شہر فاس میں 1095ھ میں ہوئی ۔1 تقریبا پینتیس برس اس جہان آب و گل میں گزارنے کے بعد 1131 ھ میں آپ نے فاس میں داعی اجل کو لبیک کہا۔2 آپ نے ابتدائی تعلیم فاس اور تطوان میں حاصل کی۔ آپ کے اساتذہ ومشائخ میں سیدی عبداللہ البرناوی ،سیدی محمد اللھواج، سیدی عبداللہ برناوی، سیدی منصور، سیدی عمر خاص طور پر قابل ذکرہیں۔3 سلسلہ شاذلیہ4کےان اعیان مشائخ سےشیخ دباغ نے علوم حقیقت وطریقت سیکھے۔ابوعلی کوہن الفاسی لکھتے ہیں کہ شیخ دباغ درحقیقت امی تھے اور وہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے تاہم جو شخص آپ کی علومرتبت کو جاننا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ "الابریز"5 کا مطالعہ کرے۔ جس کو ان کے شاگرداحمد بن المبارک سلجماسی 6نے مرتب کیا ہے"الابریز" میں شیخ دباغ نے تصوف کے احوال ومعارف پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ اس مقالہ میں ان کی صوفی فکر کے اثرات کا برصغیر پاک و ہند کے حوالے سے خصوصی مطالعہ کیاجائے گا۔
شیخ عبدالعزیز دباغ کی صوفیانہ فکر کے مابعدتصوف پراثرات کا عمومی جائزہ
شیخ عبدالعزیز دباغ کا دور ایک ایسا دور تھا کہ جس میں عمومی طور پرتصوف میں عجمی، رومی و یونانی عناصر شامل ہو چکے تھے۔ صوفیا کی مقبولیت کو دیکھ کر صوفیا خام کے ساتھ ساتھ جعلی صوفیا نے بھی تصوف کا لبادہ اوڑھ لیا تھا۔ ان حالات کی وجہ سے تصوف میں بہت سے غیر اسلامی عناصر بھی شامل ہو چکے تھے۔7 شیخ عبدالعزیز دباغ نے اپنی فکر کے ذریعے ان غیر اسلامی عناصر کو دورکرنے اور ان کے اثرات کو ختم کرکے صحیح اسلامی تصوف کو اجاگر کرنے کی کوششیں کیں تاکہ جو لوگ تصوف سے بدظن ہو چکے تھے اور اسے ایک غیر اسلامی عنصر سمجھتے تھے وہ نہ صرف تصوف کی روح کو سمجھ سکیں بلکہ تصوف کو قبول کرنے والے اور اس پر عمل کرنے والے بن سکیں ان کی اس کوشش کو نہ صرف فاس میں پذیرائی حاصل ہوئی بلکہ فاس سے باہر بھی یورپ، مغرب، افریقہ، ایشیا اور برصغیر پاک و ہند میں بھی اس کے اثرات پہنچے آپ کے بعد آنے والے علماء و صوفیا نے نہ صرف ان سے استفادہ کیا بلکہ ان کی فکر کو آگے پروان چڑھایا چنانچہ بخوبی دیکھا جا سکتا ہے کہ آج اس کو پاک و صاف کرنے کی اور تطہیر و تزکی کی جتنی کوششیں کی جارہی ہیں ان کوششوں میں عبدالعزیز دباغ کا ایک واضح دخل موجود ہے دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پوری دنیا میں اس وقت احیائے تصوف کی جتنی تحریکیں چل رہی ہیں ان تمام کا ماخذ عبدالعزیز دباغ کی ذات ہے تو یہ شاید غلط نہ ہو گا کیونکہ تصوف کو اس کی روح تک لوٹانے میں سیدی عبدالعزیز دباغ کی کوششوں کا ایک واضح دخل موجود ہے ۔آپ امی صوفی بزرگ ہیں جن کی فکر پر آپ کو طریقت ،حقیقت اور معرفت پرشریعت کی گہری چھاپ با آسانی نظر آئے گی ایسے ایسے مباحث ملیں گے کہ جن سے یہ پتہ چلے گا کہ سیدی عبدالعزیز دباغ کی صوفیانہ فکر پر طریقت کی بجائے شریعت کا غلبہ تھا اور وہ شریعت کا نفاذبہت ضروری جانتے تھے اور وہ طریقت پر شریعت کو ہی مقدم سمجھتے تھے۔
ان کے ملفوظات میں آپ کو یہ بکثرت ملے گا کہ سائل ان سے جو بھی سوال کرتا ہے وہ ہر مسئلہ کا جواب طریقت و شریعت کی روشنی میں بتاتے ہیں لیکن ان کے جوابات میں سلوک و تصوف کے مشاہدات کے ساتھ شریعت کی باریکیوں کا بھی بیان پایا جاتا ہے چنانچہ ان کے جوابات میں بہت سے ایسے معارف و مسائل ، اسرار و رموز اور دقیق نکات موجود ہیں جن سے صوفیا تو کیا عامی علماء بھی واقف نہیں ہیں جن کی واضح مثالیں تلک الغرانیق ،حروف مقطعات، سوالات قبر کی زبان، جنت،جہنم،معاد،برزخ کے مباحث اوردیگر مسائل شامل ہیں اس بات کا صحیح ادراک صرف وہی شخص کر سکتا ہے جس نے ان کے ملفوظات کا بالاستیعاب مطالعہ کیا ہو۔
ابتدا سے ہی یہ وطیرہ رہا ہے کہ کسی بھی فکر سوچ خیال یا عقیدے کے مثبت اور منفی دونوں اثرات سامنے آتے ہیں کچھ لوگ اس کے سلبی پہلو پر توجہ دیتے ہیں توکچھ اس کے ایجابی پہلو کو قبول کرتے ہیں ۔یونہی شیخ عبدالعزیز دباغ کی فکر کے بھی دونوں اثرات سامنے آئے۔ کچھ لوگوں نے شیخ کی فکر سے سلبی پہلوکا استخراج کیا ان کی تعداداگرچہ بہت کم ہےلیکن بہرحال ایسے لوگ ہر دور میں موجود رہے ہیں دوسری طرف ایک خلق کثیرہے جنہوں نےان کی فکر کے ایجا بی پہلو سے استفادہ کیا اور بہت سے مسائل اور اسرار و رموز سیکھے ۔ چنانچہ درج ذیل سطور میں ان کی فکر کے سلبی اور ایجابی اثرات کو واضح کیا جا رہا ہے۔
دیوان صالحین کی گفتگو کے اثرات
بہت سے مباحث ایسے ہیں کہ جن کے بارے میں صرف شیخ نے ہی کلام کیا ہے اور ان پر گہرے اور انمٹ نقوش چھوڑے ہیں مثلا دیوان صالحین کی گفتگو کے بارے میں صرف شیخ نے ہی کلام کیا ہے۔ شیخ عبدالعزیز دباغ نے لکھا ہے کہ اولیاء اللہ کا دیوان غار حرا ء میں منعقد ہوتا ہے اس میں رسول اللہﷺ بنفس نفیس شریک ہوتے ہیں۔ نبی پاک ﷺ کی غیر موجودگی میں غوث اس مجلس کی قیادت فرماتے ہیں۔ علامہ غالب بن علی عواجی8 سیدی عبدالعزیز دباغ کی فکر کو راجع درست اور قرین صواب جانتے تھے چناچہ وہ لوگ جنہوں نے دیوان صالحین کاانکار کیا اور اور رویت النبی ﷺ کے منکر ہیں ان کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس بات کا سبب صرف اس وجہ سے ہے کہ وہ لوگ عارفین کے مقام سے واقف نہیں ہیں ورنہ وہ کبھی بھی ان باتوں کا انکار نہ کرتے اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لئے انہوں نے سیدی عبدالعزیز دباغ کے ملفوظات سے حجت پکڑی ہے۔9
یونہی ابو عبد الله محمد بن احمد بن محمد عليش المالکی نے اپنے فتوی میں شیخ کی فکر سے استفادہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ زندہ اولیاء اللہ اور مردہ اولیاء اللہ دونوں دیوان صالحین میں حاضر ہوتے ہیں لیکن زندوں کے معاملات میں جو تصرفات ہیں وہ صرف زندہ اولیاء اللہ ہی کرتے ہیں جبکہ سابقہ اولیاء اللہ سے موجودہ اولیاء آنے والی زندگی یعنی امورآخرت کے بارے میں مشورہ کرتے ہیں۔10
الدكتور صالح الرقب اور الدكتور محمود الشوبكی نے "دراسات في التصوف والفلسفة الإسلامية "میں صوفیا کے دیوان باطنی کے بارے میں کلام کیا ہے کہ اولیاء اللہ کی غار حرا میں حاضری ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ بذات خود بنفس نفیس موجود ہوتے ہیں اور دیوان کی قیادت فرماتے ہیں اور نبی ﷺ کی غیر موجودگی میں وقت کا غوث اس مجلس کی قیادت کرتے ہیں اسی طرح باقی تفصیلات بھی "الابریز" سے ہی ماخوذ ہیں یعنی لیکن ان کا ماخذ بھی شیخ عبدالعزیز دباغ کی گفتگو ہے۔11
تیونس کے مشہورمحدث ،فقيه اورصوفی بزرگ محمد بن الحاج قاسم دحمان الغساني القيرواني(المتوفی 1244ھ/1829ء )نے "دیوان الاولیاء" کے نام سے گیارہ ورقوں پر مشتمل ایک مختصر رسالہ لکھا ہے جس میں انہوں نے غار حرا میں ہونے والی اس مجلس کی تفصیلات بیان کی ہیں اس مجلس کی کیفیت ، قطب و ابدال کی نشست و برخاست، ان کے اختیارات ،تصرفات گفتگو اور دیگر باتوں کو نقل کیا ہے ۔ انہوں نے یہ تمام تفصیلات الشيخ أحمد الطائفی الشريف الحسينی سےشعبان 1218ھ میں بالمشافہ گفتگو میں حاصل کی تھی اور شیخ کی معلومات کا حصول ان کے مکاشفات تھے۔یہ رسالہ دستیاب نہیں ہو سکا اس کا ایک نسخہ تیونس میں المكتبة الوطنية میں اور اس کا اصل نسخہ المكتبة العبدلية میں موجود ہے۔12
معلوم ہوتا ہے کہ شیخ احمد بھی شیخ عبدالعزیز دباغ کی فکر سے متاثر تھے اگرچہ ان کا دعوی یہ تھا کہ ان کی معلومات کا حصول ان کے مکاشفات ہیں اور انہوں نے شیخ عبدالعزیز دباغ کے ملفوظات سے،ان کی گفتگو سےیا فکر سے استفادہ نہیں کیا لیکن پھر بھی ان معلومات کے حصول میں اور ان معلومات کے افشا کرنے میں وہ شیخ عبدالعزیز دباغ کے مرہون منت ہیں کیونکہ اس سے قبل شیخ عبدالعزیز دباغ ہی وہ واحد بزرگ ہیں کہ جنہوں نے اتنی تفصیل کے ساتھ دیوان صالحین کی گفتگو کو نقل کیا ہے اس لئے لامحالہ کہنا پڑے گاکہ شیخ احمد شیخ دباغ کی فکر سے متاثر تھے ورنہ وہ کبھی ان معلومات کا اظہار نہ کرتے کیونکہ اولیاء اللہ ان معلومات کا ظاہر کرنا پسند نہیں فرماتے۔
ان تمام باتوں سے یہ بخوبی معلوم ہوتاہے کہ شیخ عبدالعزیز دباغ نے دیوان صالحین کے بارے میں جو کلام کیا ہے وہ بڑا مفصل ہے اور بڑا معلوماتی ہے اور شیخ دباغ سے قبل کسی بزرگ نے اتنا تفصیلی کلام اس موضوع کے بارے میں نہیں کیا چنانچہ آج دیوان صالحین کے بارے میں آپ کو جتنی بھی گفتگو ملے گی ان کا مآخذ و مرجع شیخ عبدالعزیز دباغ کی ذات ہی ہوگی اور بعد میں آنے والے تمام علماء و صلحاء نے شیخ عبدالعزیز دباغ کی فکر سے جس کے مظاہر بخوبی واضح ہیں۔دوسرا یہ کہ دیوان صالحین کا معاملہ کشف و کرامات سے اور حقیقت و عرفان سے تعلق رکھتا ہے اس لیےیہ گفتگو صرف اہل عرفان اور اولیاء کاملین کےہاں ملے گی اگرچہ دیوان الصالحین میں بکثرت اولیاء شامل ہوتے رہے لیکن اس معاملے کااخفاکر نا عبدالعزیز دباغ کا خاصہ ہے اور اتنا تفصیلی کلام کسی اور بزرگ کے ہاں نہیں ملتا۔
عبدالرحمن بن عبدالخالق الیوسف13 نے اپنی کتاب "الفکر الصوفی فی ضوء الکتاب و السنة" میں جہاں دیگر صوفیانہ افکار کو تسلیم کیا وہیں انہوں نے سید ی عبدالعزیز دباغ کی اس بات کو بھی قبول کیا ہے کہ نبی ﷺ اولین و آخرین کا علم رکھتے ہیں بلکہ کامل صوفی بھی اس مقام کا اہل ہوتا ہے ۔ اس ضمن میں انہوں نے سیدی عبدالعزیز دباغ کا دعوی بیان کیا ہے۔ اسی طرح انہوں نے دیوان صالحین کی گفتگو بھی بیان کی ہے اورباقی تمام تفصیلات وہی ہیں جو "الابریز " میں سیدی عبدالعزیز دباغ نے بیان کی ہیں۔14
شیخ کی فکر کے سلبی اثرات
عصر حاضر میں جہاں شیخ عبدالعزیز دباغ کی فکر سے استفادہ کرنے والےبے شمار لوگ ہیں وہیں پر کچھ ایسے لوگ بھی ہیں کہ جنہوں نے شیخ عبدالعزیز دباغ کی اس فکر پر اعتراضات بھی اٹھائے ہیں اور اسے غیر اسلامی و غیر شرعی قرار دیا ہے مبارك بن محمد الميلي الجزائري نے اپنی کتاب رسالة الشرك ومظاهره میں شیخ کی فکر پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ اگر کوئی شخص اس بات کا معتقد ہوکہ ایک دیوان صالحین منعقد ہوتا ہے اور اس طرح کاروبار زندگی کے امور ان اولیاء کے سپرد کیے جاتے ہیں ۔لوگ ان اولیاء اللہ سے امداد و استعانت پکڑتے ہیں تو یہ عقیدہ تو حید کےمنافی ہے اور شرک کے زمرے میں آتا ہے۔14
ابوبکر محمد زکریا نے بھی اولیاء اللہ کے تصرفات کے عقیدے کو شرک قرار دیا ہے اور دیوان صالحین کی گفتگو پر بھی اعتراضات اٹھائے ہیں۔15 شيخ علوي بن عبد القادر السقاف نے بھی دیوان صالحین کی بحث کو بیان کیا ہے لیکن ان کی گفتگو کا محور بھی شیخ عبدالعزیز دباغ کے ملفوظات ہی ہیں انہوں نے جتنی بھی تفصیل بیان کی ہے وہ شیخ عبد العزیز دباغ کےملفوظات سے ماخوذ ہے۔16 اس کے علاوہ بھی کچھ لوگ ہیں جنہوں نے دیوان صالحین کی اس گفتگو پر اعتراضات اٹھائے ہیں اور شیخ کے بارے میں بازاری زبان استعمال کی ہے جو دراصل ان کی کم علمی و کم فہمی پردلالت کرتی ہے۔
دراصل اس فکر کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ یہ وہ لوگ تھے کہ جو تصوف سے واقف ہی نہیں تھے تصوف سے ناواقفیت کی وجہ سے انہیں یہ فکر غیر اسلامی محسوس ہوتی ہے اور یہ رویہ آج سے نہیں ہے بلکہ زمانہ دراز سے چلا آرہا ہے چنانچہ منصور حلاج کو اسی سوچ کی وجہ سے پھانسی پہ چڑھایا گیا اور دیگر بزرگوں بایزید بسطامی، جنید بغدادی، محی الدین ابن عربی وغیرہ پر بھی اعتراضات کیے گئے۔
برصغیر پاک و ہند میں شیخ عبدالعزیز دباغ کی صوفیانہ فکر کے اثرات کا خصوصی مطالعہ
برصغیر پاک و ہند میں شیخ عبدالعزیز دباغ کی فکر کے اثرات عمومی طور پر بہت کم ہیں جس کا بنیادی سبب یہ رہا کہ سلسلہ شاذلیہ برصغیر پاک و ہند میں فروغ نہیں پا سکا۔ اسی وجہ سے اس سلسلہ کے اثرات بھی بہت محدود رہے ہیں۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی کتاب "القول الجمیل" میں تصوف کے تین سلسلوں کے اشغال و وظائف کو بیان کیاجن میں قادریہ ،چشتیہ اور نقشبندیہ شامل ہیں لیکن انہوں نےسہروردیہ اور شاذلیہ وغیرہ کا ذکر نہیں کیا۔17یہاں تک کہ بیعت لینے کے طریقوں میں بھی صرف تین سلسلوں کا نام ذکر کیا ہے۔18 شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی ایک اور کتاب الطاف القدس میں قادریہ ، چشتیہ اورنقشبندیہ کے ساتھ ساتھ سہروردیہ19 اور اویسیہ20 کا بھی ذکر کیا ہےمگر شاذلیہ کا ذکر وہاں پر بھی مفقود ہے۔21
شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کو مذکورہ بالا تین سلسلوں قادریہ ، چشتیہ اورنقشبندیہ سے سند خلافت و اجازت حاصل تھی اسی وجہ سے انہوں نے ان تین سلسلوں کے اعمال و اشغال کو بیان کرنے پر ہی اکتفا فرمایا۔22 مفتی محمود الحسن گنگوہی صاحب نے بھی شاذلیہ کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔ انہوں نے تصوف کے چاروں مشہورسلسلوں کا ذکر کیا لیکن شاذلیہ کا نہیں کیا۔ 23
ان اعیان علماء و مشائخ کےہاں سلسلہ شاذلیہ کے ذکر کے معدوم ہونے کی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ سلسلہ شاذلیہ کے صوفیا یہاں پر تشریف نہیں لائے۔ اس لیے سلسلہ شاذلیہ یہاں پر ترویج واشاعت حاصل نہیں کر سکا اور نہ ہی اسے عوامی پذیرائی حاصل ہو سکیں جس کی وجہ سے عوام تو عوام بعض علماء بھی اس سلسلہ سے ناواقف معلوم ہوتے ہیں اس لیے ہندوستانی علماء کی کتابوں میں سلسلہ شاذلیہ کا ذکر بہت کم ہے۔حیرت کی بات تو یہ بھی ہے کہ روایت پسند علماء کے ساتھ ساتھ محققین حضرات کے ہاں بھی سلسلہ شاذلیہ سے بے اعتنائی کا رواج رہا ہے چنانچہ آج کے اس جدید دور میں جب سائنس، انفارمیشن ٹیکنالوجی ،انٹر نیٹ اور ایپلیکیشن سافٹ ویئرز کے ذریعے تحقیق قدرے آسان ہو چکی ہے سلسلہ شاذلیہ کے بارے میں یونیورسٹی کے اساتذہ بھی نا آشنا معلوم ہوتے ہیں۔لیکن ان تمام کے باوصف کچھ ایسے علماء رہے ہیں جو کہ شاذلی فکر سے متاثر تھے۔ مثلا نواب قطب الدین خان دہلوی24 سماع کے بارے میں لکھتے ہیں کہ حضرت شیخ ابوالحسن شاذلی جو سلسلہ شاذلیہ کے امام اور پیشوا ہیں فرماتے ہیں کہ " جو لوگ سماع میں مشغول ہوتے ہیں اور ظالموں کے ہاں کھانا کھاتے ہیں ان میں یہودیت کا ایک حصہ شامل ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی فرماتے ہیں۔ سماعون للکذب اکالون للسحت25 حضرت امام غزالی فرماتے ہیں کہ سماع کے کئی درجے ہیں :(1) نوجوانوں کے لئے حرام محض ہے کیونکہ نوجوانوں کے مزاج و طبیعت پر خواہشات نفسانی کا غلبہ ہوتا ہے اس لئے سماع ان کے لئے بجائے کوئی اچھا اثر مرتب کرنے کے ان کی خواہشات نفسانی میں اور زیادہ انتشار و ہیجان پیدا کرتا ہے۔ (2) اس آدمی کے لئے مکروہ ہے جو اکثر اوقات بطریق لہو و لعب کے سماع میں مشغول رہے۔ (3) اس آدمی کے لئے مباح ہے جو محض ترنم اور خوش گلوئی سے دلچسپی رکھتا ہے۔ (4) اس آدمی کے لئے مندوب ہے جس پر اللہ تعالی کی محبت کا غلبہ ہو اور سماع اس کے لئے صرف اچھے اثرات مرتب کرے ۔26 نواب قطب الدین خان دہلوی نے مختلف موضوعات کے ضمن میں شیخ کی فکر سے استفادہ کیا ہے۔27
شاہ حکیم محمد اختر صاحب مظاہر حق کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ حضرت شیخ ابوالحسن شاذلی- رحمۃ اللہ علیہ- ہمارے مشایخ نے حکم دیا ہے کہ لاحول ولا قوة إلا بالله کے برابر کوئی کلمہ حق تعالی کی طرف جھکنے اور اس کے فضل کی راہ اختیار کرنے میں معین اور مفید نہیں۔28
شاذلی بزرگوں کی یہ عادت تھی کہ وہ دوسرے صوفیا کی طرح متواضعا نہ وراہبانہ لباس پہننے کی بجائے عمدہ لباس پہننے کو ترجیح دیتے تھے مولانا اشرف علی تھانوی ان کی اس فکرو طرز عمل کے بارے میں لکھتے ہیں کہ بزرگان شاذلیہ میں بعض اقطاب کی حالت وکرامات مشہور ہیں تو ان جیسوں کو اختیار ہے کہ جیسا لباس چاہیں پہنیں ان کو کچھ ضرر نہ ہوگا مگر جس ناقص شیخ کے (دل میں) ایک کمزور سی بتی چمک رہی ہے اس کو تو ذرا سی ہوا بھی بجھادے گی (اس کو ان حضرات کی ریس نہ کرنا چاہئے) خوب سمجھ لو۔29
جب سلسلہ شاذلیہ کا ذکر ہی ہندوستانی علماء کے ہاں بہت کم ہے تو شیخ عبدالعزیز دباغ کا تو ذکر ہی کیا کرنا کیونکہ ان کا تذکرہ تو خال خال ہی نظر آئے گا بہرحال ایسا بھی نہیں کہ شیخ عبدالعزیز دباغ کے ملفوظات و احوال سے یکسر بے التفاتی و بیگانگی رہی ہو بلکہ ایسے لوگ موجود رہے ہیں کہ جنہوں نے شیخ عبدالعزیز دباغ کی فکر سے اور آپ کے احوال و آثار سے استفادہ کیا ہے۔ شیخ عبدالعزیز دباغ کی فکر سے متاثر ہونے والے لوگ دو گروہوں میں بٹ گئے کچھ لوگوں نے آپ کی فکر کو دلیل اور حجت کے طور پر پیش کیا جبکہ ایک گروہ نے آپ کی فکر پر نہ صرف اعتراضات کیے بلکہ اسے مرجوح اور غلط قرار دیا ۔شیخ عبدالعزیز دباغ صوفی بزرگ تھے اس لئے انہوں نے اپنے متعلقین کو صوفیانہ فکر و اعمال کی تلقین کی اور اسی فکر کو پروان چڑھایا برصغیر پاک و ہند کے علماء میں جو لوگ صوفیانہ فکر کے پیروکار تھے انہوں نے شیخ عبدالعزیز دباغ کی اس فکر سے نہ صرف خوب استفادہ کیا بلکہ انہوں نے اپنی فکر کو درست اور راجح قرار دینے کے لیے شیخ عبدالعزیز دباغ کے ملفوظات سے نفع اٹھایا بلکہ آپ کے ملفوظات کو دلیل اور حجت کے طور پر پیش کیا جن کی چند مثالیں درج ذیل ہیں چنانچہ مولانا احمد رضا خان نہ صرف سیدی عبدالعزیز دباغ کی تعریف و توصیف بیان کرتے ہیں بلکہ سیدی احمد بن مبارک سلجماسی کو حافظ الحدیث قرار دیا ہے اور "الابریز" کو"الابریز" شریف لکھا ہے30 اور کہیں کتاب مستطاب 31کے لقب سے یاد کیا ہے۔32 یعنی ان کے نزدیک" الابریز"، اس کا مولف اور مولف کا شیخ سبھی مبارک اور پاکیزہ ہستیاں ہیں۔
مولانا احمد رضا خان نے "الابریز" پر حواشی بھی رقم فرمائے ہیں جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ جمعیت اشاعت اہلسنت نے مولانا احمد رضا خانکے تمام رسائل و کتب چھاپنے کا ارادہ کیا چنانچہ اس سلسلے میں کوششوں کا آغاز کیا گیا کہ آپ کے تمام کام کا از سر نو جائزہ لیا جائے اور دیکھا جائے کہ کون سا کام ابھی تک طبع نہیں ہوسکا چنانچہ اسی سلسلے میں کتاب "الابریز" پر آپ کےحواشی دستیاب ہوئے مولانا احمد رضا خان کےیہ حواشی بڑے مختصر ہیں۔محقق کو بڑی تگ و دو کے بعد وہ مخطوطہ کراچی سے مفتی عطاء اللہ نعیمی صاحب سے ملا ہے جو جمعیت اشاعت اہل سنت کے صدر و بانی ہیں۔ انہوں نے ادارہ تحقیقات امام احمد رضا میں قائم کردہ لائبریری کے منتظم عبدالکریم خان صاحب کو اس مخطوطے کی دستیابی کو یقینی بنانے کا کہا اور انہی کی وساطت سے راقم کو یہ نسخہ ملا ہے افادہ عام کی غرض سے محقق نے اسے اپنے مقالے کے آخر میں لف کر دیا ہے۔
اعتقادات پر اثرات
سیدی عبدالعزیز دباغ نے اپنی فکر کے گہرے اور انمٹ نقوش چھوڑ چھوڑے ہیں ایک خلق کثیر نے ان سے استفادہ کیا ہے آپ کی فکر کے مختلف طرح کے اثرات ہوئے آپ نے اعتقادات وعقائد، سلوک و تصوف اور اخلاقیات وغیرہ کو متاثر کیا۔ ذیل میں اعتقادات پر مرتب ہونے والے اثرات کو واضح کیا جارہا ہے۔
مسئلہ استمداد
اولیاء و انبیاسے استمداد پکڑنے کے بارے میں ہمیشہ سے علماء کے درمیان اختلاف موجود رہا ہے کچھ لوگ اسے جائز قرار دیتے ہیں اور کچھ اسے ناجائز سمجھتے ہیں شیخ عبدالعزیز دباغ استمداد باولیاء اللہ کو جائز قرار دیتے تھے۔ اس لیے مولانا احمد رضا خان نے شیخ عبدالعزیز دباغ کی فکر سے اس مسئلے میں حجت پکڑی ہے۔ایک مقام پر آپ اولیاء اللہ سے استمداد کے بارے میں "الابریز" سے استناد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اولیاء کرام کو قلوب میں تصرف کی قدرت عطا ہونی کیا محل انکار ہے۔حضرت علامہ سلجماسی کتاب ابریز میں اپنے شیخ عبدالعزیز سے روایت کرتے ہیں کہ عوام جو اپنے حاجات میں اولیائےکرام مثل شیخ عبد القادر جیلانی سے استعانت کرتے ہیں نہ کہ اللہ عزوجل سے، حضرات اولیاء نے ان کو قصدا ادھر لگا لیا ہے کہ دعا میں مرا دملنی نہ ملنی دونوں پہلو ہیں، عوام (مراد) نہ ملنے کی حکمتوں پر مطلع نہیں کئے جاتے، تو اگر بالکلیہ خالص اللہ عزوجل ہی سے مانگتے پھر مراد ملتی نہ دیکھتے تو احتمال تھا کہ خدا کے وجود ہی سے منکر ہوجاتے،اس لئے اولیاء نے ان کے دلوں کو اپنی طرف پھیر لیا کہ اب اگر (مراد) نہ ملنے پر بے اعتقادی کا وسوسہ آیا بھی تو اس ولی کی نسبت آئے گا جس سے مدد چاہی تھی، اس میں ایمان تو سلامت رہے گا۔33
سوالات قبر کی زبان
قبر میں سوالات کس زبان میں کیے جائیں گے اس بارے میں علماء کی مختلف رہی ہے امام احمد رضاخان سے سوال کیا گیا سوالات قبر کس زبان میں ہوں گے۔ آپ شیخ عبدالعزیز دباغ کی فکر سے متاثر تھے اس لیے آپ جوابا کہتے ہیں کہ اس کی بابت تو کچھ حدیث میں ارشاد نہیں ہوا۔ حضرت سیدی عبدالعزیز دباغ صاحب کتاب ابریز کے شیخ فرماتے ہیں: منکر نکیر کا سوال سریانی میں ہوگا ۱ور کچھ لفظ بھی بتائے ہیں۔34
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں "الابریز" میں موجود شیخ کا کلام مکمل نقل کر دیا جائے چنانچہ شیخ احمد بن مبارک کہتے ہیں میں نے دریافت کیا : کیا قبر میں سریانی زبان میں سوال جواب ہوگا؟ کیونکہ امام جلال الدین سیوطی کی ایک نظم میں یہ شعر موجود ہے:
ومن غریب ما تری العینان أن سؤال القبر بالسریانی
انسان کے لئے حیرانگی کی بات یہ ہے کہ قبر میں میت سے سوال وجواب سریانی زبان میں ہوں گے۔
اس نظم کے شارح بیان کرتے ہیں :امام سیوطی نے اپنی تصنیف شرح الصدور میں شیخ الاسلام علم الدین البلقی کے فتاوی کے حوالے سے یہ بات نقل کی ہے کہ قبر میں سریانی زبان میں میت سے سوال جواب ہوگا۔امام سیوطی فرماتے ہیں :تاہم مجھے کسی حدیث میں یہ بات نہیں مل سکی ۔علامہ ابن حجر سے یہی سوال کیا گیا ،تو انہوں نے جواب دیا:حدیث کے الفاظ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شاید قبر میں سوال جواب ،عربی زبان میں ہوگا۔ تاہم یہ ممکن ہے کہ ہر شخص سے اس کی مخصوص زبان میں سوال جواب کیا جائے گا ۔اور یہ بات زیادہ معقول محسوس ہوتی ہے۔ حضرت سیدی دباغ نے جواب دیا :قبر میں سوال جواب سریانی زبان میں ہوگا۔کیونکہ فرشتے اور ارواح یہی زبان بولتے ہیں سوال فرشتے کریں گے اور جواب روح دے گی کیونکہ جب روح جسم سے نکل جائے تو اپنی اصل کی طرف لوٹ جاتی ہے۔اللہ تعالی جب کسی ولی کو فتح کبیر عطا فرمادے تو وہ باقاعدہ سیکھے بغیر ہی سریانی زبان میں گفتگو کرنے کی صلاحیت حاصل کرلیتا ہے کیونکہ اس وقت اس پر روح کا حکم غالب ہوجاتا ہے ۔اس لئے (روح کے غلبے کے باعث ہی) مردے کو سریانی زبان میں گفتگو کرتے ہوئے کو ئی الجھن درپیش نہیں ہوگی۔ 35
مولانا احمد رضا خانکے اس کلام سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ وہ صاحب "الابریز" کے ساتھ ساتھ سیدی عبدالعزیز دماغ کے احوال و آثار سے نہ صرف واقف تھے بلکہ انہوں نے "الابریز" کا بالاستیعاب مطالعہ بھی کر رکھا تھا ۔اور اس بات کا نقل کرنا کہ قبر میں سوال سریانی زبان میں ہوگا مولانا احمد رضا خانجیسے ثقہ عالم دین کا اسے نقل کرنا اس سے استناد وحجت پکڑنا ، نہ ہی انکار نہ کرنا اور نہ ہی نقد کرنا اس بات کابین ثبوت ہے کہ سیدی عبدالعزیز دباغ کی فکر کے گہرے اثرات مولانا احمد رضا خان پر موجود تھے جس کے بین نظائر آپ کو ان کے فتاوی میں بکثرت نظر آتے ہیں۔
منکرین تصوف کا رد
عصر حاضر میں جس مسئلے میں سب سے زیادہ افراط و تفریط پایا جاتا ہے وہ تصوف کا مسئلہ ہے ۔کہیں جعلی وبناوٹی لوگ سلوک و تصوف کی آڑ لے کر اپنے دنیاوی مفادات کو حاصل کرتے ہیں اور شرعی احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہیں تو ظاہر پسند علماء ان جعلی و بناوٹی صوفیا کے ساتھ ساتھ حقیقی صوفیہ کواور تصوف کو بھی موردالزام ٹھہرادیتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ صوفیا اور تصوف سے بدظن ہوجاتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے بر عکس ہوتی ہے۔ مولانا احمد رضا خاناسی مغالطے اور غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے ان ظاہر پسند علماء کومخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ظاہر پسند علماء کا یہ رویہ جعلی و بناوٹی صوفیا کے لئے تو درست ہے لیکن بیک جنبش قلم ان صوفیائے خام کے ساتھ ساتھ حقیقی صوفیا کو بھی مورد الزام ٹھہرانا نامناسب اور غلط ہے اس لیے کہ ان صوفیا کی فکر شریعت کے مطابق ہے اس ضمن میں انہوں نےیہاں دیگر بزرگوں کے ساتھ سیدی عبدالعزیز دباغ کا ذکر بھی کیا ہے۔ کہ ان کے اس فتوی کی زد میں کیسے کیسے اکابر علماء یا صوفیا آتے ہیں 36
علوم آدم کی بحث میں شیخ کی فکر کے اثرات
ہمیشہ سے علماء کے درمیان یہ مسئلہ بھی نزع کا باعث رہا ہے کہ حضرت آدم- علیہ الصلاۃ والسلام- کو کون کون سے علوم ودیعت فرمائے گئے تھے اور ان علوم کی کون کون سی باتیں آپ علیہ السلام کو عطا کی گئی تھیں ۔ایک دوسرے مقام پر آدم- علیہ الصلاۃ والسلام- کو ودیعت کردہ علوم کے ضمن میں مولانا احمد رضا خان سیدی عبدالعزیز دباغ کے درج ذیل کلام کو نقل کیا ہے: حافظ الحدیث سیدی احمد سلجماسی قدس سرہ، اپنے شیخ کریم حضرت سیدی عبدالعزیز بن مسعود دباغ سے کتاب مستطاب ابریز میں روایت فرماتے ہیں کہ انہوں نے آیہ کریمہ وعلم ادم الاسماء کلها37 متعلق فرمایا :کہ ہر چیز کے دو نام ہیں علوی و سفلی، سفلی نام تو صرف مسمی سے ایک گونہ آگاہی دیتا ہے۔ اور علوی نام سنتے ہی یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ مسمی کی حقیقت و ماہیت کیا ہے اور کیونکر پیدا ہوا اور کاہے سے بنا اور کس لیے بنا، آدم علیہ الصلوۃ والسلام کو تمام اشیاء کے یہ علوی نام تعلیم فرمائے گئے جس سے انہوں نے حسب طاقت و حاجت بشری تمام اشیاء جان لیں اور یہ زیر عرش سے زیر فرش تک کی تمام چیزیں ہیں جس میں جنت و دوزخ و ہفت آسمان اور جو کچھ ان میں ہے اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اور جو کچھ آسمان و زمین کے درمیان ہے اور جنگل اور صحرا اور نالے اور دریا اور درخت وغیرہ جو کچھ زمین میں ہے غرض یہ تمام مخلوقات ناطق و غیر ناطق ان کے صرف نام سننے سے آدم علیہ الصلوۃ والسلام کو معلوم ہوگیا کہ عرش سے فرش تک ہر شے کی حقیقت یہ ہے اور فائدہ یہ ہے اور اس ترتیب سے اس شکل پر ہے۔ جنت کا نام سنتے ہی انہوں نے جان لیا کہ کہاں سے بنی اور کس لیے بنی اور اس کے مربتوں کی ترتیب کیا ہے اور جس قدر اس میں حوریں ہیں اور قیامت کے بعد اتنے لوگ اس میں آجائیں گے اسی طرح نار ( دوزخ ) یوں ہی آسمان، اور یہ کہ پہلا آسمان وہاں کیوں ہوا اور دوسرا دوسری جگہ کیوں ہوا، اسی طرح ملائکہ کا لفظ سننے سے انہوں نے جان لیا کہ کاہے سے بنے اور کیونکر بنے اور ان کے مرتبوں کی ترتیب کیا ہے اور کس لیے یہ فرشتہ اس مقام کا مستحق ہوا اور دوسرا دوسرے کا۔ اسی طرح عرش سے زیر زمین تک ہر فرشتے کا حال، اوریہ تمام علوم صرف آدم علیہ الصلوۃ والسلام ہی کو نہیں بلکہ ہر نبی اور ہر ولی کامل کو عطا ہوئے ہیں، آدم کا نام خاص اس لیے لیا کہ ان کو یہ علوم پہلے ملے، پھر فرمایا کہ ہم نے بقدر طاقت وحاجت کی قید لگا کر صرف عرش تا فرش کی تمام اشیاء کا احاطہ اس لیے رکھا کہ جملہ معلومات الہیہ کا احاطہ نہ لازم آئے اور ان علوم میں ہمارے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم و دیگر انبیا علیہم الصلوۃ والسلام میں یہ فرق ہے کہ اور جب ان علوم کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ان کو مشائدہ حضرت عزت جلالہ، سے ایک گونہ غفلت سی ہوجاتی ہے اور جب مشاہدہ حق کی طرف توجہ فرمائیں تو ان علوم کی طرف سے ایک نیند سی آجاتی ہے مگر ہمارے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو ان کی کمال قوت کے سبب ایک علم دوسرے علم سے مشغول نہیں کرتا، وہ عین مشاہدہ حق کے وقت ان تمام علوم اور ان کے سوا اور علموں کو جانتے ہیں جن کی طاقت کسی میں نہیں اور ان علوم کی طرف عین توجہ میں مشاہدہ حق فرماتے ہیں اور ان کو نہ مشاہدہ حق ، مشاہدہ خلق سے پردہ ہو نہ مشاہدہ خلق مشاہدہ حق سے ، پاکی و بلندی اسے جس نے ان کو یہ علوم اور یہ قوتیں بخشیں۔38 شیخ کا یہ کلام بڑا مفصل ہے۔39 یہاں مولانا احمد رضا خان نے اس کا صرف ایک اقتباس نقل کر کے شیخ کی فکر کوواضح کیا ہے۔
الحب للہ و البغض للہ
اولیاء اللہ قرآن وسنت کی بڑی سختی کے ساتھ پیروی کرتے ہیں اور ان کا کوئی عمل بھی قرآن وسنت کے مخالف نہیں ہوتا اس لیے وہ ہر اس بات پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو قرآن و حدیث میں بیان کیا گیا ہوتا ہے ایک حدیث پاک میں کہاگیا ہے کہ:
أفضل الأعمال الحب في الله، والبغض في الله38
یعنی اعمال میں سے سب سے اچھا عمل یہ ہے کہ اگر تم کسی سے محبت کرو تو بھی اللہ کے لیے اور کسی سے نفرت کرو تو بھی اللہ کےلیے۔
شیخ کے ملفوظات میں آپ کو اس فکر کے بےشمار نمونے ملیں گے چنانچہ مولانا احمد رضا خانآپ کی اس فکر کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ بھڑ کے کاٹنے سے ایک ذرا سی آپ کو تکلیف ہوتی ہے۔ اگر کہیں اسے زمین پر پڑا دیکھیں کہ اس کا ایک پاؤں یا پر بیکار ہوگیاہے اور اس میں طاقت پرواز نہیں ہے تو اس پر رحم کیاجاتا ہے کہ پیر سے مسل دیتے ہیں تو خدا وررسول عزجلالہ وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کریں اور ان سے دشمنی وعداوت رکھیں وہ قابل رحم ہیں؟عوام کی یہ حالت ہے کہ ذرا کسی کو ننگا محتاج دیکھا سمجھے کہ قابل رحم ہے ،خواہ خدا و رسول (عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم) کا د شمن ہی کیوں نہ ہو۔حضرت سیدی عبدالعزیز دباغ قدس سرہ، فرماتے ہیں کہ ذرا سی اعانت( یعنی مدد) کافر کی کرنا حتی کہ اگر وہ راستہ پوچھے اور کوئی مسلمان بتادے اتنی بات اللہ تعالی سے اس کا علاقہ مقبولیت قطع ( یعنی اللہ تبارک وتعالی سے بندے کی مقبولیت کا تعلق ختم )کردیتی ہے ۔ 39
اولیائے کرام کی شان
اولیاء اللہ کا معمول رہا ہے کہ وہ دیگر بزرگوں کا نہ صرف خود ادب و احترام کرتے ہیں بلکہ اپنے متعلقین کو بھی ان کے ادب و احترام کی تاکید کرتے ہیں اسی طرح وہ ان کے مراتب اور مقام سے نہ صرف خود آگاہ ہو تے ہیں بلکہ دیگر بزرگوں کے مقام اور شان کو تسلیم بھی کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اولیائے کرام کے علوم کے منکر ہوتے ہیں اور کچھ لوگ اولیائے کرام کی عظمت اور شان کو تسلیم کرتے ہیں شیخ عبدالعزیز دباغ اولیاء اللہ کے لیے وہبی و کشفی علوم کو تسلیم کرتے ہیں ۔ چنانچہ مولانا احمد رضا خانسیدی عبدالعزیز دباغ کی فکر سے استفادہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیدی شریف عبدالعزیز فرماتے ہیں :
ما السموت السبع والارضون السبع فی نظر العبد المؤمن الا کحلقة ملقاة فی فلاة من الارض40
ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں مومن کامل کی وسعت نگاہ میں ایسے ہیں جیسے کسی لق و دق میدان میں ایک چھلا پڑا ہو 41
یعنی مولانا احمد رضا خان یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ جس طرح شیخ عبدالعزیز دباغ کا یہ نظریہ ہے کہ زمین و آسمان میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہوتی جو کہ اللہ کے ولی کی نظر سے پوشیدہ ہو اسی طرح ایک مسلمان کو بھی یہ نظریہ رکھنا چاہییے کہ اللہ کا ولی اللہ کی دی ہوئی طاقت سے ان مخفی علوم سے اور مخفی باتوں سے خبردار ہوتا ہے۔
علوم غیب کی بحث
شیخ عبدالعزیز دباغ انبیائےکرام و اولیائےعظام کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ رب العزت اپنے فضل سے ان مقدس ہستیاں کو غیب کے علوم سے سرفراز فرماتا ہے۔اس فکر کے بھی دو اثرات سامنے آئےمولانا اشرف علی تھانوی ایک استفسار کے جواب میں کتاب "الابریز" سے حجت پکڑ کر نبی پاک ﷺکے بارے میں علم غیب کا عقیدہ رکھنے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ سوا ول تو وہ غیر معصوم غیر مجتہد کا کلام ہے جو حجت نہیں ثانیا اس سے بھی علم متناہی ثابت ہوتا ہے اگر اس کو عام کہا جائے تو ان دلائل اقوی سے معارض ہے جن کا ذکر عبارت اولی کی تحقیق میں ہو چکا ہے من قولہ خود قرآن مجید الی قولہ معنی متواتر ہے اور اگر عام نہ کہا جائے بلکہ علم نبوت کے ساتھ خاص کہا جائے تو پھر خصم کے دعوے سے اس کو مس ہی نہ ہوگا۔42 مفتی شعیب اللہ خان مفتاحی نے التوحید الخالص کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے صوفیا ء کے علم و وجدان اور کشف و کرامات کو درست سمجھنےوالوں کو ہدف تنقید بنایا ہے ۔ اس ضمن میں انہوں نے شیخ عبد العزیز دباغ کے واقعے کو من گھڑت قرار دیا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ "اسی سلسلہ کی ایک کڑی یہ بھی ہے کہ بیماران شرک میں حضرات انبیا و اولیا کے بارے میں علم غیب کا عقیدہ بھی ایک اہم چیز ہے اور یہ لوگ اسی کو عین اسلام و توحید سمجھتے ہیں اور بشوق اس کو اولیاء کی جانب منسوب کرتے ہیں ، مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی اپنے " ملفوظات" میں کہتے ہیں:" سید احمد سلجماسی کی دو بیویاں تھیں ،سیدی عبد العزیز دباغ نے فرمایا کہ رات تم نے ایک بیوی کے جاگتے ہوئے دوسری سے ہمبستری کی ،یہ نہیں چاہیے ، عرض کیا حضور ! وہ سوتی تھی ،فرمایا کہ سوتی نہ تھی سوتے میں جان ڈالتی تھی ، عرض کیا حضور کو کس طرح علم ہوا ؟ فرمایا جہاں وہ سو رہی تھی کوئی اور پلنگ بھی تھا ؟ عرض کیا ہاں ، ایک پلنگ خالی تھا ،فرمایا اس پر میں تھا ،تو کسی وقت شیخ مرید سے جدا نہیں ہوتا ، ہر آن ساتھ رہتا ہے ۔43 لاحول ولا قوة الا بالله، اس میں ایک توایک اللہ والے پر تہمت باندھی ہے، دوسرے ایک باطل عقیدہ کو اس واقعہ کے ذریعہ گھڑ کر لوگوں کے دلوں میں بٹھا نے کی ناپاک کوشش کی ہے۔" 44
مفتی شعیب اللہ خان مفتاحی نے التوحید الخالص کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے صوفیا ء کے علم و وجدان اور کشف و کرامات کو درست سمجھنےوالوں کو ہدف تنقید بنایا ہے ۔ اس ضمن میں انہوں نے شیخ عبد العزیز دباغ کے واقعے کو من گھڑت قرار دیا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ "اسی سلسلہ کی ایک کڑی یہ بھی ہے کہ بیماران شرک میں حضرات انبیاء و اولیاء کے بارے میں علم غیب کا عقیدہ بھی ایک اہم چیز ہے اور یہ لوگ اسی کو عین اسلام و توحید سمجھتے ہیں اور بشوق اس کو اولیاء کی جانب منسوب کرتے ہیں ، مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی اپنے " ملفوظات" میں کہتے ہیں:" سید احمد سلجماسی کی دو بیویاں تھیں ،سیدی عبد العزیز دباغ نے فرمایا کہ رات تم نے ایک بیوی کے جاگتے ہوئے دوسری سے ہمبستری کی ،یہ نہیں چاہیے ، عرض کیا حضور ! وہ سوتی تھی ،فرمایا کہ سوتی نہ تھی سوتے میں جان ڈالتی تھی ، عرض کیا حضور کو کس طرح علم ہوا ؟ فرمایا جہاں وہ سو رہی تھی کوئی اور پلنگ بھی تھا ؟ عرض کیا ہاں ، ایک پلنگ خالی تھا ،فرمایا اس پر میں تھا ،تو کسی وقت شیخ مرید سے جدا نہیں ہوتا ، ہر آن ساتھ رہتا ہے ۔45 لاحول ولا قوة الا بالله، اس میں ایک توایک اللہ والے پر تہمت باندھی ہے، دوسرے ایک باطل عقیدہ کو اس واقعہ کے ذریعہ گھڑ کر لوگوں کے دلوں میں بٹھا نے کی ناپاک کوشش کی ہے ۔"46 مفتی شعیب اللہ خان مفتاحی نے مسلکی تعصب یا عقیدے کے اختلاف کی وجہ سے اس واقعے کومولانا احمد رضا خانکی طرف منسوب کیا ہے کہ انھوں نے یہ واقعہ جی سے گھڑا ہے حالانکہ یہ واقعہ "الابریز" میں موجود ہے پھر بھی وہ اسے من گھڑت قرار دے رہے ہیں۔
علامہ غلام رسول سعیدی ایک مقام پر علم غیب کی بحث بارے لکھتے ہیں کہ سید عبدالعزیز دباغ عارف کامل فرماتے ہیں : وکیف یخفی أمر الخمس علیه (صلی الله علیه وآله وسلم) والواحد من أهل التصرف من أمته الشریفة لایمکنه التصرف إلا بمعرفة هذه الخمس: رسول اللہﷺ سے ان پانچ چیزوں کا علم کیسے مخفی ہوگا، حالانکہ آپ کی امت شریفہ میں سے کوئی شخص اس وقت تک صاحب تصرف نہیں ہوسکتا جب تک اس کو ان پانچ چیزوں کی معرفت نہ ہو۔47
اخلاقیات پر اثرات
شیخ عبدالعزیز دباغ ایک بہت بڑے صوفی بزرگ تھے صوفیا کا مقصد عقائد و اعمال کی اصلاح کے ساتھ ساتھ عوام کی اخلاقیات کو بہتر بنانا اور ان میں نکھار لانا ہوتا ہے ۔اس وجہ سے شیخ عبدالعزیز دباغ نے اپنے زمانے کے لوگوں کی اخلاقیات کی اصلاح کی اور ان میں اخلاقی کمزوریوں کی نشاندہی کر کے ان کے کردار واخلاق کی اصلاح کی۔ درج ذیل سطور میں آپ کی فکر کے اخلاقیات پر مرتب ہونے والے اثرات کو واضح کیا جا رہا ہے۔
قیدیوں کے ساتھ کھانا
حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی فرماتے ہیں: ایک مرتبہ مجھے اپنے پیر ومرشد حضرت ضیاء الدین ابو نجیب سہروردی علیہ رحمۃ اللہ کے ہمراہ ملک شام جانے کا اتفاق ہوا ۔کسی مالدار شخص نے کھانے کی کچھ اشیا قیدیوں کے سروں پررکھوا کرشیخ کی خدمت میں بھجوائیں۔ان قیدیوں کے پاؤں بیڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے ۔جب دستر خوان بچھایا گیا تو آپ نے خادم کو حکم دیا:ان قیدیوں کو بلاؤ تا کہ وہ بھی درویشوں کے ہمراہ ایک ہی دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھائیں۔ لہذا ان سب قیدیوں کو لایا گیااور ایک دسترخوان پر بٹھا دیا گیا۔ شیخ ضیاء الدین ابو النجیب علیہ رحمۃ اللہ المجیب اپنی نشست سے اٹھے اور ان قیدیوں کے درمیان جا کر اس طرح بیٹھ گئے کہ گویا آپ انہی میں سے ایک ہیں۔ان سب نے آپ کے ہمراہ بیٹھ کر کھانا کھایا ۔اس وقت آپ کی طبیعت کی عاجزی وانکساری ہمارے سامنے ظاہر ہوئی کہ اس قدر علم و فضل ا ور مرتبہ و مقام کے باوجود آپ نے تکبر سے اپنے آپ کو بچائے رکھا۔ 48
کتے کے لئے راستہ چھوڑ دیا
حضرت شیخ ابو محمد عبد اللہ بن عبد الرحمن جید عالم دین اور بہت بڑے فقیہ تھے۔ ایک دن شدید بارش اور کیچڑ کے موسم میں اپنے عقیدت مندوں کی ہمراہی میں کہیں تشریف لے جارہے تھے کہ سامنے سے ایک کتا آتا دکھائی دیا، آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ دیوار کے ساتھ لگ گئے اور کتے کے گزرنے کے لئے راستہ چھوڑ دیا۔جب کتا قریب آیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نچلی طرف کیچڑ میں آ گئے اور راستے کا اوپری صاف حصہ کتے کے گزرنے کے لئے چھوڑ دیا۔ جب کتا گزر گیا توآپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے ہمراہیوں نے دیکھاکہ آپ کے چہرے پر افسوس کے آثار موجود ہیں۔انہوں نے عرض کی:حضرت!آج ہم نے ایک حیران کن بات دیکھی ہے کہ آپ نے کتے کے لئے صاف راستہ چھوڑ دیا اور خود کیچڑ میں پاؤں رکھ دیا! آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے جواب دیا:جب میں پہلے دیوار کے ساتھ لگاتو مجھے خیال آیا کہ میں نے اپنے آپ کو بہتر سمجھتے ہوئے اپنے لئے صاف جگہ منتخب کر لی ،میں ڈرا کہ میری اس حرکت کے باعث کہیں اللہ تعالی مجھ سے ناراض نہ ہو جائے ،لہذا میں وہ جگہ چھوڑ کر کیچڑ میں آگیا۔49
اسی عبارت کو مولانا اکرم اعوان صاحب نےاپنی تفسیر میں ان الفاظ میں نقل کیا ہے کہ سید عبدالعزیز دباغ فرماتے ہیں کہ ہر مومن کے دل سے ایک نور کی تار جڑی ہوتی ہے ، جو قلب اطہر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نکلتی ہے اتباع سنت اس کو مضبوط کرتا چلا جاتا ہے کہ نہر اور دریا کی مثل بھی بن جاتی ہے اور عدم اطاعت سے کمزور ہوتی چلی جاتی ہے حتی کہ ٹوٹ بھی سکتی ہے جس کی یہ تار ٹوٹ جائے وہ شخص اسلام پہ نہیں رہتا اور آج کل تو یہ کٹے ہوئے پتنگ ہر طرف نظر آتے ہیں۔50
مشیخت و بیعت پر اثرات
شیخ نے اپنی کتاب میں مشیخت و بیعت کے آداب کو بھی بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے چنانچہ وہ لوگ جو مشیخت و بیعت کے قائل ہیں انہوں نے شيخ تربیت کے آداب کے ضمن میں اکثر آپ کے کلام سے استفادہ کیا ہے چنانچہ دعوت اسلامی کی مرکزی مجلس شوری کے نگران حاجی محمد عطاری لکھتے ہیں کہ حافظ الحدیث حضرت سیدنا احمد بن مبارک مالکی سجلماسی رحمۃاللہ تعالی علیہ (متوفی 1155ھ) "الابریز" میں اپنے شیخ کریم حضرت عبد العزیز بن مسعود دباغ (متوفی 1132ھ) کایہ قول نقل فرماتے ہیں کہ کوئی بھی شیخ اپنے مرید سے کسی قسم کی ظاہری خدمت، مال دنیا یا کسی اور فائدے کا طلب گار نہیں ہوتا بلکہ اسے اپنے مرید سے صرف یہ توقع ہوتی ہے کہ اس کا مرید ہر حالت میں اپنے شیخ کو صاحب کمال، صاحب توفیق، صاحب بصیرت، صاحب معرفت اور صاحب قرب سمجھے اور پھر ساری زندگی اسی عقیدے پر قائم رہے، اس صورت میں ہر قسم کی خدمت مرید کے لیے مفید ثابت ہو گی لیکن اگر یہ خوش اعتقادی موجود نہ ہو یا اگر ہو اور پختہ نہ ہو تو مرید کا دل وسوسوں کا شکار رہے گا اور اس صورت میں مرید کچھ بھی حاصل نہیں کر سکے گا۔51
ایک دوسری جگہ حاجی محمد عمران عطاری لکھتے ہیں کہ حضرت سیدنا احمد بن مبارک مالکی سجماسی رحمۃ اللہ تعالی علیہ مزید فرماتے ہیں کہ ایک بار میں اپنے پیر و مرشد حضرت عبد العزیز بن مسعود دباغ کے ہمراہ باب الحدید کے پاس موجود تھا، اس وقت ہمارے ساتھ حضرت کا ایک اور مرید بھی موجود تھا جو ہم تمام پیر بھائیوں میں سب سے زیادہ حضرت کی خدمت کیا کرتا۔ حضرت نے اس سے دریافت فرمایا: کیا تم مجھ سے صرف اللہ عز وجل کی رضا کے حصول کے لیے محبت کرتے ہو؟ اس نے عرض کی: جی ہاں! میری محبت صرف اللہ عز وجل کے لیے ہے اور اس میں نہ تو کسی قسم کی ریاکاری شامل ہے اور نہ ہی مجھے شہرت کا حصول مقصود ہے۔حضرت سیدنا احمد بن مبارک مالکی سجلماسی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس کی یہ بات سن کر بہت غصہ آیا مگر میں حضرت کے ادب کی وجہ سے خاموش رہا۔ پھر حضرت نے اس سے دریافت فرمایا: اگر تمہیں پتہ چلے کہ میرے اندر موجود تمام اسرار ختم ہو گئے ہیں تو کیا پھر بھی تمہاری محبت باقی رہے گی؟ اس نے عرض کی: جی ہاں! آپ نے فرمایا: اگر لوگ تم سے یہ کہیں کہ میں ایک عام شخص کی طرح ہوں تو کیا تب بھی یہ محبت باقی رہے گی؟ اس نے پھر اقرار کیا تو آپ نے فرمایا: اگر لوگ تمہیں بتائیں کہ میں نے گناہوں کا ارتکاب شروع کر دیا ہے کیا پھر بھی تمہاری محبت باقی رہے گی؟ اس نے عرض کی: جی ہاں! آپ نے دریافت کیا: اگر میں کئی برس تک مثلا بیس برس تک گناہوں کی دلدل میں غرق رہوں تو پھر؟ اس نے عرض کی: پھر بھی میرے دل میں کوئی شک و شبہ داخل نہیں ہو گا۔ تو پیر صاحب نے فرمایا: عنقریب میں تمہارا امتحان لوں گا۔
حضرت سیدنا احمد بن مبارک مالکی سجلماسی کہتے ہیں کہ مجھ سے مزید صبر نہ ہو سکا اور میں بول ہی پڑا اور اپنے اس پیر بھائی سے کہا کہ ایسا مت کہو! تم سے ہر گز ایسا نہ ہو سکے گا۔ بلکہ مجھے یہ ڈر لگ رہا ہے کہیں تم راہ راست سے بھٹک نہ جاؤ کیونکہ ایک اندھا شخص کسی دانا و بینا کو کیسے امتحان دے سکتا ہے؟ لہذا تم پیر صاحب سے معافی مانگ لو اور اپنی عاجزی اور کمزوری کا اعتراف کر لو، چلو میں بھی تمہارے ساتھ معافی مانگتا ہوں۔ پھر ہم دونوں نے حضرت سے معافی مانگی لیکن تقدیر کا لکھا پورا ہو کر رہا۔ کچھ عرصہ بعد شیخ نے اسی مرید کو ایک کام کہا جو بظاہر اسے پسند نہ تھا لیکن حقیقت میں اس کے لیے فائدہ مند تھا۔ مگر وہ اس کی حکمت نہ جان سکا اور اس نے ناپسند جانتے ہوئے وہ کام نہ کیا یہاں تک کہ وہ حضرت کے متعلق بدگمانی کا شکار ہوکر بالآخرصحبت شیخ سے محروم ہو گیا۔ مزید فرماتے ہیں کہ اسرار الہی کو وہی شخص برداشت کر سکتا ہے جو پرہیز گار ہو، اس کا عقیدہ درست اور عزم پختہ ہو۔ اپنے پیر کے علاوہ کسی کی بات پر یقین نہ کرے بلکہ دیگر تمام لوگوں کی حیثیت اس کی نظر میں مردوں کی مانند ہو۔52
مولانا عبدالکریم صاحب اپنے ایک خط میں جو انہوں نے مولانا سمیع الحق صاحب کے نام رقم کیا ہے میں لکھتے ہیں کہ حضرت حافظ عبدالعزیزصاحب قدس سرہ خانقاہ یاسین زئی پنیالہ مرشد وشیخ حضرت مولانامفتی محمودصاحب سے ارادت کا تعلق تھا۔ اچھے حکیم تھے دواخانہ حقانیہ کے مالک تھے اور دکان کے شغل کیساتھ ساتھ خصوصیت یہ تھی کہ علمی ذوق رکھتے تھے مطالعہ کتب بالخصوص کتب تصوف اور تفسیر سے خاص شغف تھاعلاقہ بھر کے علماء تحقیق مسائل میں آپکے طرف رجوع کیاکرتے تھے اورآپکی تحقیق پر اعتمادرکھتے تھے۔ قلم پختہ تھا ایام مرض الموت میں معارف اولیاء الرحمان کے نام سے ایک عجیب مجموعہ مرتب فرمایاہے ماخذ اسکے فتوحات مکیہ ابریز فصوص، الیواقیت ، اور روح المعانی وغیرہ ہیں ایام مرض ہی میں ایک وصیت نامہ لکھا ہے جو آج کے علماء کیلئے قابل تقلید اقدام ہے ان کے فرزندعبدالحکیم صاحب نے اجازت دی توالحق میں اشاعت کیلئے بھیجونگا۔ اللہ تعالی انکی مغفرت فرمادیں آمین اور ہم کو حسن خاتمہ سے نوازیں۔ آمین۔ 53
مولانا عبدالحمید سواتی شیخ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ حضرت عبدالعزیز دباغ بھی نویں دسویں صدی کے بہت بڑے بزرگ ہوئے ہیں ۔ بظاہر ان پڑھ تھے مگر ان کے ملفوظات ان کے شاگرد مبارک نے اپنی کتاب "الابریز" میں جمع کیے ہیں ۔ جب بھی آپ سے قرآن وحدیث کے متعلق کوئی مسئلہ دریافت کیا جاتا تو توفیق ایزدی سے بالکل صحیح صحیح جو اب دیتے اللہ تعالی نے ایسی روحانیت اور ملکہ عطا فرمایا تھا۔54
یہاں علامہ عبدالحمید سواتی کو تسامح ہوا ہے کیونکہ شیخ بارہویں صدی ہجری کے بزرگ ہیں آپ کی ولادت 1095ھ ہے اور وفات 1132ھ ہے۔مولانا محمد اسحاق لکھتے ہیں کہ حضرت شیخ عبدالعزیز دباغ نے اپنے ملفوظات موسوم بہ ابریز میں کتنے ہی ایسے مکاشفات ظاہر فرمائے ہیں جن سے برزخ کے حالات اور مقامات عیاں ہوجاتے ہیں۔ بہرحال کشف وانکشاف ایک مستقل ذریعہ کشف قبو رہے جو سلف سے خلف تک پایا جارہا ہے۔55
مولانا محمد اکرم اعوان لکھتے ہیں کہ "الابریز" سید عبدالعزیز دباغ کے فرمودات وواقعات اور حالات کا مجموعہ ہے جو ان کے ایک فاضل شاگرد نے جمع فرما دئیے۔ اگرچہ سید صاحب خود پڑھنے لکھنے سے معذور تھے اس کا غالبا آخری واقعہ جو انہوں نے نقل فرمایا وہ یہ ہے ، وہ لکھتے ہیں میں اپنے شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بہت خوش تھا انہیں بھی خوشخبری دی کہ ظالم گورنر کو بادشاہ نے معزول کردیا ہے۔ تو فرمانے لگے یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ ابھی تو جہنم میں جو جگہ اس کے لیے بن رہی ہے اس میں اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ جس کا معنی یہ ہے کہ ابھی وہ مزید ظلم کرے گا۔ پھر بڑی حسرت سے لکھتے ہیں کہ میرے شیخ کا تو وصال ہوگیا۔ اور اس ظالم کو بادشاہ نے پھر سے بحال کردیا دیکھیں اب اس کی ناؤ کب ڈوبتی ہے۔56
مولانا محمد اکرم اعوان شیخ کے بارے لکھتے ہیں کہ شیخ عبدالعزیز دباغ مادر زاد ولی اور باطنی نسبت کے باکمال بزرگ تھے ، اللہ نے آپ کی زبان پر بڑی بڑی باتیں جاری کیں ، سید احمد شہید بریلوی کی طرح زیادہ لکھے پڑھے نہیں تھے مگر اللہ نے بڑا روشن دل عطا فرمایا تھا یہی حال حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کا ہے ظاہری علم کم تھا مگر مولانا گنگوہی اور مولانا نانوتوی جیسے لوگ آپ کے مرید تھے ، اگر یہ کہا جائے کہ گزشتہ صدی میں پوری دنیا میں اتنا بڑا ولی اللہ نہیں گزرا تو یہ بات غلط نہیں ہوگی بہرحال شیخ عبدالعزیز دباغ نے ایک نکتہ بیان کیا ہے ، فرماتے ہیں کہ جس مقام پر موسی (علیہ السلام) کی مچھلی گم ہوئی اسی مقام پر ان کا مطلوب حاصل ہوا مچھلی پیٹ کا معاملہ تھا ، تو جہاں پیٹ کا معاملہ ختم ہوا وہاں معرفت حاصل ہوگئی ، اسی طرح فرماتے ہیں کہ جب تک انسان کے ساتھ پیٹ کا دھندا غالب ہوگا ، خدا تعالی کی معرفت حاصل نہیں ہو سکتی ۔57
علامہ غلام رسول سعیدی لکھتےہیں کہ تلک الغرانیق کے مسئلے پر انھیں کافی عرصے تک اشکالات رہے لیکن پہلی بار انہیں اس مسئلے پر تحقیقی بحث پڑھنے کے لئے "الابریز"میں ملی جہاں شیخ عبدالعزیز دباغ اس پر تفصیل سے کلام فرمایا ہے اور ان احادیث کی صحت پر جرح کر کے انھیں ناقابل اعتبار ٹھہرایاہے علامہ غلام رسول سعیدی کے الفاظ میں" میرے نزدیک چونکہ یہ روایت بارگاہ رسالت کی عظمتوں کے منافی تھی، اس لئے میں نے اس کے ردا اور ابطال میں کافی تفصیل اور تحقیق سے گفتگو کی ہے۔ میں اس پر بہت عرصہ سے غور و فکر کرتا رہا ہوں۔ سب سے پہلے میں نے یہ بحث ابریز میں پڑھی جس میں سیدی غوث عبدالعزیز دباغ قدس سرہ نے اس روایت کو باطل اور موضوع قرار دیا اور سورة حج کی زیر بحث آیت : 52 کا صحیح محمل بیان کیا۔ اس کے بعد میں اس پر مسلسل مطالعہ کرتا رہا۔ میں نے اپنے معاصر علماء سے اس روایت کے بارے میں مذاکرہ بھی کیا، میں نے دیکھا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی کی اتباع میں بعض جید علمانے بھی اس موضوع روایت کو اس باطل تاویل کے سہارے اختیار کرلیا ہے جس کو ابھی ہم نے حافظ ابن حجر عسقلانی کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔ تاہم یہ علماء صحیح العقیدہ ہیں اور ان کی نیت فاسد نہیں ہے صرف روایت پرستی کے روگ کی وجہ سے انہوں نے اس روایت کو اس باطل تاویل کے ساتھ اپنی تصانیف میں درج کردیا۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے اور مصنف کے دل میں محبت رسول کو اور زیادہ کر دے۔ اے اللہ ! تو گواہ کہ میں شخصیت پرست نہیں ہوں، اللہ اور اس کے رسول کی حرمت سے بڑھ کر مجھے کسی کی حرمت عزیز نہیں ہے۔ میں نے جو یہ سعی کی ہے وہ صرف اور صرف مقام رسول کے تحفظ کی خاطر کی ہے۔ اے اللہ ! اس کوشش کو قبول فرما اور اس کو مصنف کے لئے توشہ آخرت اور مغفرت اور رحمت کا ذریعہ بنا دے، مصنف کو بیش از بیش خدمت دین کی توفیق دے اور اس کا ایمان پر خاتمہ فرما اور دین کی نعمتیں اور سعادتیں اس کا مقدر کر دے۔"58
علامہ شمس الدین افغانی نے بھی سیدی عبدالعزیز دباغ رحمۃ اللہ تعالی عنہ کی فکر سے استفادہ کیا ہے اوربکثرت اپنی کتابوں میں عبدالعزیز دباغ کی کتب سے استناد پکڑا ہے مثلا دیوان صالحین کی بحث بیان کرتے ہوئے انہوں نے وہی موقف بیان کیا ہے جو احمد بن مبارک سلجماسی نے "الابریز" میں سیدی عبدالعزیز دباغ رحمۃ اللہ علیہ کا بیان کیا ہے۔59
درود پاک کا اجر و ثواب
شیخ نے درود پاک کے اجروثواب کے بارے میں بھی بڑی تفصیل سے کلام کیا اور بتایا ہے کہ ہر شخص کا پڑھا ہوا درود قبول نہیں ہوتا یوں ہی کسی شخص کو درود پاک کے پڑھنے پر زیادہ اجر ملتا ہے اور کسی شخص کو درود کے پڑھنے پر ثواب کے حصول میں کمی کا سامنا ہوتا ہے۔ جس کا سبب بنیادی طور پر اس شخص کی اپنی کیفیت، اس کا عقیدہ ،اس کی طبعیت اور اس کا ذوق و شوق ہوتا ہےاس فرق کی وجہ شیخ نے بڑی تفصیل سے بیان کی ہے ۔شیخ کے انہی مباحث سے استفادہ کرتے ہوئے ایک مصنف لکھتے ہیں کہ اس کا سبب یہ ہے کہ پہلے شخص کی زبان سے حضور صلی اﷲ تعالی علیہ والہ وسلم پر درود غفلت کے ساتھ نکل رہا ہے اس کا دل اور بہت سی باتوں سے بھرا پڑا ہے گویا اس کی زبان سے درود شریف محض ایک عادت کی بنا پر نکل رہا ہے اسی لئے اسے کم اجر ملا ۔ اور دوسرے کی زبان سے درود شریف محبت وتعظیم کے ساتھ نکلا ہے ، محبت اس لئے کہ وہ اپنے دل میں نبی کریم صلی اﷲتعالی علیہ والہ وسلم کی جلالت و عظمت کاتصور کرتا ہے اور یہ تصور بھی کرتا ہے کہ آپ صلی اﷲتعالی علیہ والہ وسلم کائنات کے وجود میں آنے کا سبب ہیں اور ہر نور آپ ہی کے نور سے ہے اور یہ کہ آپ کائنات کے لئے رحمت اور ہدایت ہیں اور یہ کہ اگلوں پچھلوں سب کے لئے رحمت اور مخلوق کی ہدایت، آپ ہی کی طرف سے اور آپ ہی کے صدقے سے ہے ۔ پس وہ آپ علیہ السلام کی عزت وعظمت کے پیش نظر آپ صلی اﷲ تعالی علیہ والہ وسلم پر درود شریف پڑھتا ہے نہ کہ کسی اور وجہ سے جس کا تعلق آدمی کے اپنے ذاتی مفاد سے ہو۔60
ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں کہ حضرت عبد العزیز دباغ فرماتے ہیں : ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نبی پاک صلی اﷲ تعالی علیہ والہ وسلم پر درود پاک تمام اعمال سے افضل ہے اور یہ ان ملائکہ کا ذکر ہے جو اطراف جنت میں رہتے ہیں اور جب وہ حضور پرنور ص صلی اللہ تعالی علیہ والہٖ وسلم کی ذات گرامی پر درود پاک پڑھتے ہیں تو اس کی برکت سے جنت کشادہ ہوجاتی ہے۔‘‘61
مندرجہ بالا ابحاث سے پتہ چلتا ہے کہ شیخ عبدالعزیز دباغ کی فکر کے اثرات برصغیر پاک وہند پر اگرچہ کم ہیں لیکن بڑے گہرے اور انمٹ ہیں ۔ انہوں نے تصوف و روحانیت کی باریکیوں کے ساتھ ساتھ شریعت و فقہ کے دقیق و باریک مسائل کی گتھیاں بھی سلجھائیں ہیں۔ان سے استفادہ کرنے والوں میں صوفیا و مشائخ کے ساتھ ساتھ فقہا و مفتیان کرام بھی شامل ہیں۔
طریقہ محمدیہ اور شیخ عبدالعزیز دباغ کی صوفیانہ فکر
طریقہ محمدیہ سے مراد دراصل رسول اللہ ﷺ کے افعال و اعمال و اشغال ہیں جو رسول اللہ ﷺ اپنی ظاہری حیات مبارکہ میں انجام دیتے تھے اور جنہیں صحابہ کرام علیہم الرضوان اپنی آنکھوں سے ملاحظہ فرماتے تھے اوربعینہ اس کی اقتداء و پیروی کی کوشش کرتے تھے۔ دوسرے لفظوں میں جس کا نام سنت ہے اسی کو طریقہ محمدیہ کہتے ہیں۔ یعنی طریقہ محمدیہ سے مراد ہے کہ سرکارﷺ کی سنت کی پیروی کی جائے یہی بزرگان دین رحمہم اللہ کا مقصد تھا۔چنانچہ مختلف اوقات میں مختلف بزرگوں نے طریقہ محمدیہ کواختیار کیا اور لوگوں کو طریقہ محمدیہ کی پیروی کرنے کا درس دیا۔
طریقہ محمدیہ سے کیا مراد ہےاس ضمن میں شیخ عبدالعزیز دباغ کہتے ہیں طریقہ محمدیہ وہ راستہ ہے جو سالک کو روحانی معراج کے ذریعے بیداری کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچا دیتا ہے۔اس ملاقات کے نتیجے میں بندہ اپنے روشن باطن کے ذریعے علم لدنی کا خزانہ حاصل کر لیتا ہے۔62
یعنی شیخ کے نزدیک طریقہ محمدیہ فتح کے حصول کا یا سلوک میں اوج و کمال حاصل کرنے کا نام ہے۔ شیخ کے نزدیک سالک کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس طریقہ کار پر کاربند رہے تاکہ اسے فتح کا حصول آسان ہو جائے۔ شیخ نے اپنے ملفوظات میں بارہا اس بات کی تاکید کی ہے کہ سالک کے معمولات اور اشغال و اعمال شریعت سے سرمو انحراف نہ کریں ۔طریقہ محمدیہ درحقیقت شریعت سے جدا کوئی چیز نہیں ہے بلکہ سالک شریعت مطہرہ پر عمل پیرا و کاربندہو کر ہی راہ سلوک میں فتح کا گوہر مراد ہاتھ آسکتا ہے۔ اس وضاحت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ طریقہ محمدیہ کے ذریعے ایک مبتدی یا سالک فتح کے حصول میں کامیاب ہو سکتا ہے مگر قابل غور یہ امر ہے کہ طریقہ محمدیہ کس چیز کا نام ہے یا طریقہ محمدیہ کے اشغال و افعال کیا ہوں گے کونسے اوراد و وظائف پڑھنے ہوں گے کونسے معمولات سر انجام دینا ہوگا جن کے ذریعے سالک فتح کے حصول میں کامیاب ہوسکے۔ یہ تو وہ نقطہ نظر تھا جو کہ شیخ عبدالعزیز دباغ کے نزدیک تھا طریقہ محمدیہ سے کیا مراد ہے دیگر علماء کے نزدیک طریقہ محمدیہ سے کیا مراد ہے اور وہ طریقہ محمدیہ کو کیا سمجھتے ہیں اس کا ذکر سطور ذیل میں کیا جا رہا ہے:سیدی عبد الغنی نابلسی فرماتے ہیں کہ طریقہ محمدیہ سے مراد رسول اللہ ﷺ کے وہ مبارک اعمال ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کا تقاضا ہیں اور قرآن و سنت، سلف صالحین اور ائمہ مجتہدین کے کلام سے ثابت ہیں۔63
سید احمد رائے بریلوی نے بھی ایک تصوف کا سلسلہ ر ائج کیا تھا اور وہ اپنے اس سلسلے کو طریقہ محمدیہ کا نام دیتے تھے ان کے نزدیک طریقہ محمدیہ تصوف کا ایک سلسلہ ہی نہیں بلکہ زندگی کا ایک مکمل نظام تھا وہ اکثر کہتے تھے کہ طریقہ محمد یہ تو محمد ﷺ کا راستہ ہے جو اپنےمعتقدوں سے یہ تقاضہ کرتا ہے کہ زندگی کا ہر کام صرف رضائے رب العالمین کے لیے کیا جائے گھر میں ٹھہرنے، یا سفر کرنے ، چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے ، سونے جاگنے ، کھانے پینے میں مقصود احکام خداوندی کی بجاآوری اور مرضات باری تعالی کی پابندی کے سوا کچھ نہ ہو۔ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ حلال روزی کما کر خود بھی کھائے اور اپنے اہل و عیال کو بھی کھلائے۔ نماز پڑھے، روزہ رکھے،حج کرنے کے لیے مکہ معظمہ جائے وغیرہ وغیرہ۔64
شیخ عبدالعزیز دباغ سے استفسار کیا گیا کہ فتح کا حصول کس طرح ممکن ہے ۔ شیخ عبدالعزیز دباغ جواب دیتے ہیں کہ ہر شخص کے اندر 366 رگیں ہیں ہر رگ ایک نہ ایک خاصیت کی حامل ہے۔جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے صاحب بصیرت عارف ان ر گوں کو اپنی خاصیتوں میں روشن و مشتعل دیکھتا ہےچنانچہ ایک رگ جھوٹ کی ہے جواس خاصیت سے چمک رہی ہوتی ہے۔ ایک رگ حسد کی ہے جس سے وہ ہے روشن ہے ایک رگ ریا کی ہے اسی طرح ایک رنگ غدر کی ، ایک غرور کی اور ایک تکبرکی علی ہذاالقیاس۔ باقی تمام رگیں بھی اپنی اپنی خاصیت سے روشن ہوتی ہیں عارف جب ذات انسانی کو دیکھتا ہے تو وہ ہر ذات کو بمنزلہ ایک جھاڑکے دیکھتا ہےجس میں تین سو چھیاسٹھ قمقمےلگادیئے گئے ہوں اور ہر قمقمے کا جدا جدا رنگ ہو پھر ان خواص میں سے ہر ایک کی مزید تفصیل و اقسام ہیں چنانچہ مثال کے طور پر خاصیت شھوت کی کئی قسمیں ہیں فرج کی طرف شہوت کو نسبت دی جائے تو شہوت فرج ایک قسم بن جائے گی اسی طرح شہوت جاہ ایک قسم ہے ۔شہوت مال ایک قسم ہے اور طول امل ایک قسم ہے۔ اسی طرح کذب کی خاصیت ہے لہذا اگر کوئی شخص خود جھوٹ نہ بولتا ہو تو یہ ایک قسم ہوگی اور اگر کوئی دوسرے کے متعلق یہ خیال رکھتا ہوں کہ وہ سچ نہیں بولتا اور اسے اس کی باتوں میں شک گزرتا ہو اور اس کی تصدیق نہ کرتا ہوتو یہ ایک الگ قسم ہوگی جب تک بندہ ان تمام مقامات کو طے نہ کرلے اسے فتح نصیب نہیں ہوتی لہذا جب اللہ تعالی کسی بندے کے لیے نیکی کا ارادہ کرتا ہے اور اسے فتح کا اہل بناتا ہے تو اسے ان خواص سے بتدریج منقطع کرتا ہےمثلا جب کذب کی خاصیت منقطع ہو گئی تو مقام زہد میں پہنچ جاتا ہے اور جب شہوت معاصی قطع ہوگی تو مقام توبہ میں پہنچ گیا یا شہوت طول الامل جاتی رہی تو اس دھوکے کی دنیا سے بے تعلقی کے مقام پر پہنچ جاتا ہے یہی باقی مقامات کا حال ہے۔اس کے بعد اللہ تعالی اسے فتح نصیب کرتا ہے اور اس کی ذات میں سر رکھ دیا جاتا ہے۔65
عصر حاضر پر شیخ عبدالعزیز دباغ کی صوفیانہ فکرکے امکانی اثرات
پیرزادہ اقبال احمد فاروقی نے اپنی کتاب رجال الغیب میں لکھا ہے کہ بعض صالحین امت نے غار حرا میں حاضر ہوکر ان مجالس کا تذکرہ کیا ہے جس میں وہ خود شریک ہوئے تھے ان مجالس میں بعض اوقات خود سرورکائنات صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم جلوہ فرما ہوئے تھے اس ضمن میں انہوں نے عبدالعزیز دباغ کی کتاب "الابریز" کا حوالہ بیان کیا ہے اور عبد العزیز دباغ کی مجالس کا آنکھوں دیکھا حال لکھا ہے۔66
پاکستان میں ان کی فکر کو آگے بڑھانے میں مفتی ابو بکر الشاذلی کا بہت زیادہ کردار ہے جنہوں نے ابتدا شاذلیہ سلسلے میں بیعت و ارادت حاصل کی اور پھر اسکے بعد انہوں نے پاکستان میں اس سلسلے کی ترویج و اشاعت کی ۔مفتی ابو بکر الشاذلی کا تعلق کراچی سے ہے اور اس سلسلے کے اثرات کراچی میں اور اس کے اطراف کے علاقوں میں محدود ہیں ۔خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں سلسلہ شاذلیہ کا کوئی بزرگ نظر نہیں آتا۔مفتی ابو بکر الشاذلی چونکہ ایک مدرسہ کے مہتمم و مدرس ہیں اس لیے یہ سلسلہ عوام کے ساتھ ساتھ خواص اور علماء میں بھی نشوونما پا رہا ہے امید کی جاسکتی ہے کہ علما کی وساطت سے یہ سلسلہ عوام میں بہت جلدقبولیت عام کی سند حاصل کرلے گا۔
صوبہ پنجاب میں اس سلسلہ شاذلیہ کے فروغ میں احمد دباغ کاکردار بہت اہمیت کا حامل ہے شیخ احمد دباغ جو کہ شاہ عبدالعزیز دباغ کی فکر کو پوری دنیا میں عام کرنے کا مقصد لے کر اپنی مساعی جمیلہ میں مصروف ہیں ان کا اصل نام وحید احمد ہے لیکن یہ شیخ احمد دباغ کے نام سے زیادہ مشہور ہیں ۔ان کا سلسلہ نسب حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ تعالی علیہ سے ملتا ہے احمد دباغ کا تعلق کھاریاں ضلع گجرات سے ہے اور وہ سلسلہ شاذلیہ کی اشاعت کے سلسلے میں اپنی پوری تگ و دو کے ساتھ نہ صرف صوبہ پنجاب میں بلکہ پوری دنیا میں سلسلہ شاذلیہ کے فروغ کے لیے بے دریغ کام کر رہے ہیں۔ حضرت سیدنا حسن بصری کی اولاد میں سے خیرالدین اولیاء نام کے ایک شخص نے تبلیغ اسلام کی غرض سے کشمیر کی طرف ہجرت کی یہاں ان کی ملاقات بہاؤالدین زکریا ملتانی سہروردی سے ہوئی انہوں نے انہیں حکم دیا کہ آپ کھاریاں ضلع گجرات میں تشریف لے جائیں اور وہاں جاکر اشاعت اسلام کا کام کریں شیخ خیر الدین اولیاء وہاں تشریف لے گئے اور انہوں نے اس جگہ کا نام "حقیقہ" رکھا ۔ان کی تبلیغ سے متاثر ہو کرسینکڑوں لوگ آغوش اسلام میں آگئے۔ شیخ احمد دباغ انہی کی اولاد میں سے ہیں ۔آپ اپنے ننھیال سمندری میں پیدا ہوئے اور پانچ سال کی عمر میں والدین کے ساتھ ڈنمارک تشریف لے گئے۔ وہیں انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم ایشوج میں حاصل کی چھ سال کی عمر میں ناظرہ قرآن ختم کیا ۔اور سات سال تک علوم اسلامیہ کی تعلیم حاصل کرتے رہے اس کے بعد انہوں نے کئی سال تک پاکستان اور انگلینڈ میں اسلامی تعلیم حاصل کی۔ اسلامی تعلیم کی غرض سے ہی انہوں نے عراق شام اور مراکش کے کئی سفر کیے ۔احمد دباغ اپنے آپ کو اسلامی اسکالر تسلیم نہیں کرتے تاہم انہیں مختلف اسلامی فنون تفسیر حدیث اور تزکیہ میں مہارت کی اسنادو اجازت دی گئی ہیں۔ تاحال آپ مختلف اسلامی موضوعات پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں جو مختلف زبانوں میں دستیاب ہیں ۔عصری تعلیم میں انہوں نے پوسٹ گریجویٹ تعلیم یونیورسٹی آف سینٹرل لنکاشائر سے اور ایم بی اے کی ڈگری سالفورڈ یونیورسٹی مانچسٹر سے حاصل کی ہے۔ آپ کو فائنانس و مارکیٹنگ کے ساتھ ساتھ جیل اور پولیس کی اصلاحات میں مہارت حاصل ہے انہوں نے سلسلہ شاذلیہ کی تبلیغ کی غرض سے کئی ادارے انگلینڈ ،پاکستان ،بنگلہ دیش، امریکہ اور مراکش میں قائم کیے ہیں احمد دباغ تزکیہ نفس و اور خود احتسابی کے ساتھ ساتھ روح کی ارتقا پر بہت زور دیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ انسان اپنے دماغ سے تمام منفی خیالات، جذبات ،اور حرکات کو ختم کردے اور مثبت عمل اور اخلاق کے نتیجے میں وہ اپنی دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی آخرت کو بھی سنوار سکتا ہے اس طریقہ کو وہ طریقہ محمدیہ کا نام دیتے ہیں طریقہ محمدیہ کی ابتدائی تعلیم کے بعد وہ سالک کوسلوک و تصوف کی ارتقائی منازل طے کرواتے ہیں جس کے بعد سالک کا تعلق اپنے پیارے رب عزوجل سے قائم ہو جاتا ہے۔ تزکیہ نفس کا یہ عمل قرآن و سنت کی پیروی اور صحابہ و اہل بیت کی محبت پر مبنی ہے جن میں سیدنا علی بن ابی طالب،امام حسن، امام حسین ،امام زین العابدین ،امام حسن بصری، سیدنا عبد القادر جیلانی ،امام ابوالحسن شاذلی اور عظیم امی صوفی بزرگ سیدناشیخ عبدالعزیز دباغ قابل ذکر ہیں۔ احمد دباغ کو قادریہ ،شاذلیہ، رفاعیہ ،سہروردیہ، چشتیہ اور نقشبندیہ کے سلسلوں میں سندو اجازت حاصل ہے۔66
سید عبدالعزیز دباغ کے ملفوظات "الابریز" کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اردو زبان میں اس کے کم و بیش چار مختلف تراجم شائع ہو چکے ہیں اور برصغیر پاک و ہند سے تعلق رکھنے والے تقریبا ہر مکتبہ فکر کے لوگوں نے اس کا ترجمہ کرکے اسے شائع کیا ہے اور تقریبا ہر مکتبہ فکر کے لوگوں نے اس کتاب سے استفادہ کیا ہے اور اپنے متعلقین و متوسلین کو اس کتاب کے مطالعے کا درس دیا ہے اور اس کی اہمیت و قدر و قیمت کو بیان کیا ہے اور اس کتاب کی تحسین و ستائش کو بیان کیا ہے۔اوپراس کی بہت سی مثالیں ذکر کی جا چکی ہیں ان میں مولانا احمد رضا خان، علامہ اسماعیل حقی، علامہ غلام رسول سعیدی ،شیخ اشرف علی تھانوی ،شیخ خلیل احمد انبیٹھوی،مولانامحمد اکرم اعوان،مولانا عبدالحمید سواتی اور دیگر بہت سے علماء شامل ہیں ۔اردو زبان میں اس کے ہونے والے چارتراجم درج ذیل ہیں۔
اس کا پہلا ترجمہ مولانا عاشق الہی میرٹھی نے کیا ہے۔اس کے طباعت شدہ نسخے پر اس کا سن اشاعت درج نہیں ہے۔ تاہم اس ترجمے کے آخر پر مولانا عاشق الہی میرٹھی صاحب نے اس ترجمہ کی تکمیل کی جو تاریخ درج کی ہے۔ اس کے مطابق مولانا صاحب نے 20 ربیع الثانی 1357ھ میں اس ترجمہ کو مکمل کیا ہے اس ترجمہ کا نام انہوں نے "تبریز "رکھا ہے ۔اغلب گمان یہی ہے کہ یہ اردو زبان میں "الابریز" کا شائع ہونے والا پہلا ترجمہ ہے مولانا عاشق الہی میرٹھی صاحب چونکہ ایک مخصوص مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا ایک خاص نقطہ نظر تھا اس وجہ سے انہوں نے ان تمام مقامات کا ترجمہ کرنے سے احترازکیا ہےجو مقامات یا مباحث ان کے عقائد و نظریات سے میل نہ کھاتے تھے انہوں نے ان مقامات کا ترجمہ کرنے کی بجائے ان مقامات کو چھوڑ دیا ہے اس لیے اس ترجمہ کواگر نامکمل ترجمہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ غالبا پہلی بار یہ ترجمہ 1930ء کے قریب دہلی سے شائع ہوا تھا ۔پھر دوبارہ یہ پاکستان سے بھی شائع ہوا۔پاکستان میں یہ ترجمہ پہلی بار مدینہ پبلشنگ کمپنی مشہور محل میکلوڈروڈ کراچی سے شائع ہوا ہے۔ دوسری بار یہ ترجمہ مدنی کتب خانہ گنپت روڈ لاہور سے شائع ہوا ہے سوئے اتفاق سے ان دونوں تراجم پر سن طباعت درج نہیں ہے جس سے ان دونوں تراجم کی تقدیم وتاخیر کا تعین کیا جا سکے۔ اصل کتاب "الابریز" دو حصوں میں تقسیم ہے پہلے حصے میں شیخ کا تعارف ،شیخ کے مشائخ کا تعارف، شیخ کی کرامات کا بیان ، احادیث کے مطالب،قرآنی آیات کی تفسیر اورسریانی زبان کی بحث پر مشتمل ہے۔ یہ ترجمہ چونکہ کم و بیش ایک صدی قبل کا ہے لیے اس میں قدیم اردو کے بہت سے ایسے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جو کہ اب متروک ہو چکے ہیں اس لیے یہ ترجمہ عام قاری کے لیے مشکل اور ثقیل ہے پڑھتے ہوئے قاری مختلف مقامات پر الجھن کا شکار ہوجاتا ہے یا پھر متعدد مقامات پر لغت کا سہارا لینے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ بہرحال ان تمام خامیوں کے باوجود "الابریز" کا اولین ترجمہ ہونے کی وجہ سے اس کی اپنی اہمیت مسلم ہے اور ہمیشہ رہے گی۔
اس کا دوسرا ترجمہ ڈاکٹر پیر محمد حسن صاحب پرنسپل گورنمنٹ کالج راولپنڈی نے کیا تھا اوریہ 1958ء کے لگ بھگ " خزینہ معارف "کے نام سے شائع ہوا ۔انہوں نے اس ترجمہ میں بتیس کتابوں کی عرق ریزی کر کے اس کتاب کی تخریج بھی کی ہے اورحواشی بھی لکھے ہیں اور کتاب میں مذکوراہم اعلام و اماکن کا تعارف بھی کروایا ہے انہوں نے اس کتاب کومختلف چھوٹے چھوٹے عنوانات میں تقسیم کرکےاس کتاب کو جدیدتحقیقی اسلوب میں پیش کرنے کی خوبصورت کوشش کی ہے تاہم اس کتاب میں تخریج کی کافی اغلاط موجود ہیں۔ یہاں تک کہ قرآنی آیات کے حوالہ جات بھی اکثر مقامات پر غلط بیان کیے گئے ہیں۔ جنہیں درست کئے جانے کی ضرورت ہے بہرحال ان تمام باتوں کے باوجود "الابریز" کا یہ ترجمہ ایک خوبصورت ترجمہ کہا جاسکتا ہے کہ جس میں پہلی بار فاضل مترجم نے جدید تحقیقی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کتاب کے ترجمے کو پیش کیا ہے۔ان کے ترجمے کی ترتیب اور ابواب بندی کی ترتیب اصل عربی کتاب کے عین مطابق ہے چنانچہ ایک قاری بڑی آسانی کے ساتھ اصل کتاب اور ترجمے کا تقابل کر سکتا ہے اور ترجمے کے محاسن و معائب سے واقف ہو سکتا ہے۔
اس کا تیسرا ترجمہ سید مشتاق حسین شاہ صاحب نے کیا ہے جو تربیلا ڈیم کے چیف انجینئر تھے اس ترجمہ کا نام انہوں نے" امی ولی" رکھا ہے اسے ناشران قرآن لمیٹڈ اردو بازار لاہور نے شائع کیا ہے اور پہلی بار یہ ترجمہ1412ھ میں چھپا ہے۔ فاضل مترجم نے مقدمے میں ذکر کیا ہے کہ انہوں نے پیرمحمد حسن چشتی کے ترجمے سے کافی استفادہ کیا ہے ۔پیرمحمد حسن چشتی نے دو حصوں اور بارہ ابواب پر مشتمل اس کتاب میں چھوٹے چھوٹے عنوانات باندھ کر انہیں جدید طرز میں پیش کیا تھا اسی رحجان کو آگے بڑھاتے ہوئے مشتاق حسین شاہ صاحب نے اپنے ترجمے میں ابواب کی تعداد بڑھا دی ہے اور عنوانات بھی اپنی صوابدید کے مطابق بدل دیے ہیں اصل کتاب بارہ ابواب پر مشتمل ہے جبکہ اس ترجمہ میں 16 ابواب قائم کیے گئے ہیں۔ اصل کتاب کے برعکس انہوں نے ترجمے کوتین حصوں میں تقسیم کر دیا ہے اور ابواب بندی کی ایک نئی ترتیب قائم کی ہےجو کتاب کے بالکل برعکس ہے انہوں نے ترجمہ کو چالیس مختلف ابواب میں تقسیم کیاہے۔ جسے بیک وقت ترجمے کی خوبی یا خامی قرار دیا جاسکتا ہے ۔خوبی اس لحاظ سے کہ انہوں نے کتاب کو چھوٹے چھوٹے مختلف ابواب اور عنوانات میں تقسیم کر دیا ہے خامی اس لحاظ سے ہے کہ ترتیب اصل کتاب کے بالکل برعکس ہے جس کی وجہ سے قاری کو بحث کے ڈھونڈنے اور اصل کتاب سے تقابل میں دقت ہو گی کیونکہ ترتیب بے ربط ہے۔ترجمے کی زبان شستا، صاف اور مسلسل ہے جس کی وجہ سے قاری بوریت محسوس نہیں کرتا۔
اس کا چوتھا ترجمہ ابو العلاء محمد محی الدین جہانگیر نے کیا ہے جو ایک مشہور عالم دین ہیں اور اس سے قبل بھی وہ کئی کتابوں کے ترجمے کرچکے ہیں فن ترجمہ میں ان کی مہارت مسلم ہے انہوں نے اس ترجمہ کا نام اصل کتاب کے نام کی مناسبت سے "الابریز "ہی رکھا ہے یہ نوریہ رضویہ پبلی کیشنز گنج بخش روڈ لاہور سے پہلی بار شائع ہوئی ہے چونکہ مصنف ایک ماہر ترجمہ نگار ہیں اس لیے کتاب ہذا میں ان کی مہارت کا فن جگہ جگہ منہ بولتا نظر آتا ہے اس سے قبل جتنے بھی ترجمے شائع ہو چکے تھے یا تو ان کی زبان بہت مشکل تھی یا بامحاورہ ترجمہ کرنے کی بجائے لفظی ترجمہ کرنے پراکتفا کیا گیاتھا جس کی وجہ سے قاری کو نفس مضمون سمجھنے میں دقت ہوتی تھی مترجم نے اسی وجہ سےبامحاورہ ترجمہ کرنے کو ترجیح دی ہے اور زبان و بیان کی سلاست روی کا خوب خیال رکھا ہے ۔ڈاکٹرپیر محمد حسن کا ترجمہ بھی زبان وبیان کی خوبصورتی و شیریں بیانی سے محروم ہے تاہم مصنف پیر حسن جیسا تحقیقی انداز اس کتاب میں نہیں اپنا سکے اور نہ ہی انہوں نے جدید تحقیقی اصولوں کو مدنظر رکھا ہے اور نہ ہی اس کتاب کی تخریج کرنے پر توجہ دی اور نہ ہی اعلام و اماکن کا تعارف کروایا ہے پھر بھی زبان و بیان کے اعتبار سے یہ ایک خوبصورت ترجمہ ہے۔
اردو زبان کے علاوہ اس کا ترجمہ انگریزی زبان میں بھی ہو چکا ہے اس کے مترجم دو غیرمسلم John O’Kane and Bernd Radtkeاسکالر ہیں۔اسے Brill نے نیدر لینڈ سے شائع کیا ہے۔انہوں نے اس کا نام "الابریز" کی معنویت کا لحاظ کرتے ہوئے Pure Gold from the Words of Sayyidi Abd Al-Aziz Al-Dabbagh رکھا ہے۔انہوں نے اس کتاب پر 112 صفحات کا ایک بڑا وقیع مقدمہ لکھا ہے جس میں صاحب کتاب کا تعارف،ان کے حالات زندگی اور ان کے روحانی مشائخ و سلسلہ کے واقعات وتعارف پر مشتمل ہے۔ یہ ترجمہ بھی اصل کتاب کی طرح بارہ ابواب پر مشتمل ہے اور اس کی ترتیب بھی اصل کتاب کے مطابق ہے۔ فاضل مترجمین نے آیات و احادیث کا اصل متن نقل کرنے کی بجائے انگریزی زبان میں اس کا ترجمہ نقل کرنے پر اکتفا کیا ہے۔ انگریزی زبان آسان استعمال کی ہے اور ادق و شاذ الفاظ کے استعمال سے گریز کیا ہے۔ Transliteration کا استعمال بھی کثرت سے کیا گیا ہے۔ترجمہ کرنے کی بجائے ترجمانی بیان کی گئی ہے جس کی وجہ سے ترجمہ اصل کتاب معلوم ہوتا ہے۔
نتائج
متذکرہ بالا بحث سے یہ بات بخوبی معلوم ہوتی ہے کہ شیخ عبدالعزیز دباغ کے ملفوظات میں بے شمار اسرار و رموز اور معارف ومسائل پوشیدہ ہیں جس کا بخوبی اندازہ صرف وہی شخص کر سکتا ہے جس نے ان ملفوظات کا بالاستیعاب مطالعہ کیا ہو ان کے ملفوظات میں جہاں شریعت کے بے شمار مسائل کے عقدے کھلتے ہیں اور شریعت کی باریکیوں و احتیاطوں کا پتہ چلتا ہے وہیں پر طریقت و سلوک کی گرہیں بھی کھلتی ہیں اور سالک کو معلوم ہوتا ہے کہ فتح کا حصول کیسے سہل بنایا جا سکتا ہے۔
شیخ عبدالعزیز دباغ کے ملفوظات سے یہ بات بھی عیاں ہوتی ہےکہ شیخ عبدالعزیز دباغ اگرچہ ایک امی صوفی و پیدائشی ولی تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے ظاہری طور پر تمام روحانی علوم کاکسب کیا اور تیرہ سال تک مرشد کامل کی تلاش میں سرگرداں رہے تب کہیں جاکر مرشدکامل ملا اور وہ فتح کے حصول میں کامیاب ہوئے۔اس سے ظاہرہوتا ہے کہ ایک شخص چاہے وہ کتنے ہی بڑے مقام و مرتبے پر فائز ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ روحانی طور پر کسی کو اپنا رہبر و رہنما تسلیم کرے اور پھر اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ ایسے دے دے جیسے مردہ بدست زندہ یعنی سالک اپنی مرضی اپنے رہبر کی مرضی میں فنا کر دے تب کہیں جاکر وہ کسی مقام کا اہل ہوتا ہے ۔
شیخ عبدالعزیز دباغ کے تفردات میں سے ایک یہ بات بہت اہم ہے کہ وہ سریانی زبان کی فضیلت کے قائل تھے چنانچہ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ قبر میں مردے کی زبان سریانی ہو گی۔ اور سریانی کے سوا باقی تمام زبانوں میں اطناب پایا جاتا ہے اور سریانی زبان تمام زبانوں میں جاری و ساری ہے۔حضرت آدم ؈کی زبان بھی سریانی ہونے کا قول بیان کیا ہے دیوان صالحین کی زبان بھی سریانی بیان کی ہے اسی طرح انہوں نے قرآنی آیات میں موجود سریانی الفاظ کی تشریح بھی بیان کی ہے اور سریانی زبان کے حروف تہجی کے معنی اور ان کے معنی کے حساب سے واقعات کی پیش بینی بھی بیان کی ہے۔
شیخ عبدالعزیز دباغ نے اپنے ملفوظات میں سلوک کا عطر و نچوڑ اور تصوف کی روح صرف دو باتوں کوقرار دیا ہےکہ سالک اپنی جسم کی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ اپنی روح کی پاکیزگی کا بھی خیال رکھے۔ جسم کی پاکیزگی کے لیے اور ظاہری درستگی کے لیے اکل حلال، مثبت گفتگو، مثبت خیالات اور مثبت فکر کو پروان چڑھائے اور روح کی پاکیزگی کے لیے وہ اپنا تعلق نبی مکرم ﷺ سے مضبوط کرے اس امر کے لیے شیخ درود پاک کی کثرت اور سنت کی پیروی کو سالک کیلئے سب سےبڑا وظیفہ قرار دیتے ہیں ۔ اس عمل کے نتیجے میں سالک کے دل میں حب نبی ﷺکا جذبہ پروان چڑھے گا ۔ شیخ نے حب نبی کی انتہا کو ہی اصل دین و روحانیت قرار دیا ہے کہ سالک حب نبی میں فناہو کر سنت کا عملی نمونہ بن جائےتبھی وہ روحانیت کے جادہ مستقیم پر فائز و متمکن ہو سکتا ہے بلکہ ان پر مداومت اس کی فطرت ثانیہ و عادت دائمہ لازمہ متواترہ بن جائے تو روز بروز وہ روحانیت کے نئے مدارج و منازل طے کرتا رہے گا۔
حوالہ جات و حواشی
۔زرکلی،خير الدين بن محمود بن محمد بن علي بن فارس الدمشقي،(م 1396ھ)دار العلم للملايين ،الطبعة: الخامسة عشر 2002 ء)ج4ص24
2۔التلیدی، عبداللہ بن عبدالقادر، المطرب بمشاھیر اولیاء المغرب، (الرباط: دارلامان، 2000ء) ص 195، 203
3۔ الکوہن الفاسی،الحسن بن محمد ،ابو علی(م ۱۳۴۷ھ) طبقات الشاذلیۃ الکبری،تحقیق محمود الجمال،(القاہرہ : المکتبۃ التوفیقیہ ،سن ندارد)ص159، 161
4 ۔ شاذلیہ یا شاذلیہ جس کا تلفظ افریقہ میں شاد لیہ ہے۔ یہ تصوف کا ایک سلسلہ ہے ، جس نے ابو الحسن علی بن عبداللہ الشاذلی (591ھ/1195ء تا 656ھ/1258ء) کی نسبت سے یہ نام پایا ہے۔ اورالشاذلی کا لقب نور الدین ذکر کیا جاتا ہے ۔ ملک یمن کے صحرائے عیذاب میں وفات پائی ۔ تصوف کی تعلیم عبد السلام بن مشیش سے حاصل کی۔ (مزید تفصیل کے لیےدیکھیں : کحالہ،عمر رضا، معجم المؤلفين تراجم مصنفي الكتب العربية،بیروت : مكتبة المثنى - , دار إحياء التراث العربي،بدوں طبع ،ج7ص137)
5 ۔"الابریز" سیدی عبدالعزیز دباغ کے ملفوظات کا مجموعہ ہے جسے آپ کے مرید خاص احمد بن مبارک سلجماسی نے مرتب کیا ہے۔یہ دو حصوں پر مشتمل ہے پہلے حصے میں دو ابواب ہیں۔ان میں شیخ عبد العزیز دباغ کے حالات زندگی اور کشف و کرامات کا ذکر کیا گیا ہے۔اس کے بعد کتاب کا آغاز ہوتا ہے اور پہلےباب میں احادیث کے مباحث اور دوسرے میں قرآنی مباحث بیان کیے گئے ہیں۔ حصہ دوم دس ابواب پر مشتمل ہے۔ اس حصہ کےپہلے باب میں راہ سلوک میں حائل ظلمتوں اور رکاوٹوں کا بیان ہے دوسرے میں دیوان صالحین، تیسرے میں پیری مریدی ، چوتھے میں شیخ تربیت ،پانچویں میں اولیاء کے کلام کی تسہیل ، چھٹے میں پیدائش آدم کے مدارج ، ساتویں میں فتح ظلمانی اور نورانی کا فرق، آٹھویں میں برزخ میں روح کی کیفیت ، نویں میں جنت اور دسویں میں جہنم کا بیان کیا گیا ہے۔
6 ۔ نام احمد بن مبارک بن محمد بن علی المطی البکری الصدیقی اللمطی ہے۔ آپ کو لمط علاقہ کی طرف منسوب کیے جانے کی وجہ سے لمطی کہا جاتا ہے۔ اور لفظ لمط لام اور میم کے فتح کے ساتھ پڑھاجاتاہے۔معجم المؤلفین میں ان کی نسبت سجلماسی بیان کی ہے۔فقہ مالکی کے پیروکار تھے ۔ تصوف میں نمایاں مقام حاصل تھا۔۱۰۹۰ھ میں سجلماسہ میں ولادت ہوئی۔ فاس مسند تدریس پر فائز رہے، علم البیان، فقہ، اصول، حدیث، قرأت اور تفسیر کے عالم تھے۔مقام ولادت کے تعلق سے سجلماسی کے لقب سے معروف ہوئے۔(دیکھیں: الزرکلی ،خیر الدین بن محمود بن محمد بن علی بن فارس، الدمشقی، الاعلام، ج۲، ص۱۵۴ دار العلم للملایین، ۱۵ مئی ۲۰۰۲ء)
7۔تفصیل کے لیے دیکھیں: یوسف سلیم، چشتی،پروفیسر،اسلامی تصوف میں غیر اسلامی نظریات کی آمیزش، مکتبہ مرکزی انجمن خدام القرآن سمن آباد لاہور، ط اول، اشاعت1392ھ/1976ء،ص 9،
8 ۔یہ مدینہ منورہ کے رہنے والے ہیں ۔عرب کے مشہور عالم دین ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔
9 ۔ملاحظہ ہو: عواجي ، غالب بن علي ، فرق معاصرة تنتسب إلى الإسلام وبيان موقف الإسلام منها،الناشر: المكتبة العصرية الذهبية للطباعة والنشر والتسويق، جدة،الطبعة: الرابعة، 1422 ھ / 2001 ء، ج3ص941
10۔علیش، محمد بن أحمد بن محمد، أبو عبد الله المالكي ،م: 1299ھ، فتح العلي المالك في الفتوى على مذهب الإمام مالك،الناشر: دار المعرفة،الطبعة: بدون طبعة وبدون تاريخ،ج1ص208،
11 ۔الدكتور صالح الرقب- الدكتور محمود الشوبكی، دراسات في التصوف والفلسفة الإسلامية، الجامعة الإسلامية- غزة،الطبعة الأولى 1427ھ/2006ء،ج1ص135،
12 ۔محمد محفوظ ،م 1408 ھ،الكتاب: تراجم المؤلفين التونسيين،الناشر: دار الغرب الإسلامي، بيروت – لبنان،الطبعة: الثانية، 1994 ء، ج2ص293
13۔یہ 5نومبر 1939ء میں مصر کے علاقہ منوفیہ میں پیدا ہوئے ۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے فارغ اتحصیل ہیں۔ پھر انہوں نے کویت میں 1965ء سے 1990ء تک مدرس رہے۔احیاء التراث الاسلامی میں بھی خدمات سر انجام دیں۔ مختلف علوم میں ساٹھ سے زیادہ کتب تحریر کی ہیں۔
14 ۔اليوسف،عبد الرحمن بن عبد الخالق ، الفكر الصوفي في ضوء الكتاب والسنة، الناشر: مكتبة ابن تيمية، الكويت،الطبعة: الثالثة، 1406 ھ/ 1986 ء،ج1ص70-269،
15۔ملتقطا، المیلی، مبارك بن محمد ، الجزائري،م 1364ھ، رسالة الشرك ومظاهره، تحقيق وتعليق: أبي عبد الرحمن محمود،الناشر: دار الراية للنشر والتوزيع،الطبعة: الأولى1422ھ/ 2001ء،ج1ص282،ج1ص447،
16 ۔ملاحظہ ہو : أبو بكر محمد زكريا، الشرك في القديم والحديث، أصل هذا الكتاب: رسالة علمية نال بها الباحث درجة الماجستير بتقدير ممتاز من شعبة العقيدة بالجامعة الإسلامية، بإشراف الأستاذ الدكتور أحمد بن عطية الغامدي،الناشر: مكتبة الرشد للنشر والتوزيع، الرياض - المملكة العربية السعودية،الطبعة: الأولى، 1421 ھ/ 2000 ء،ج2ص938،
17۔السقاف ،الشيخ علوي بن عبد القادر ، موسوعة الفرق المنتسبة للإسلام، الناشر: موقع الدرر السنية على الإنترنت dorar.net،ج7ص286
18 ۔مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: ولی اللہ، دہلوی، شاہ، 1176ھ،شفا العلیل ترجمہ القول الجمیل ، سعید اینڈ کمپنی ادب منزل پاکستان چوک کراچی،ط دوم، اشاعت1970ء،ص99-47،
19۔ایضا، ص35-34،
20۔ولی اللہ، دہلوی، شاہ، 1176ھ، الطاف القدس فی معرفۃ لطائف النفس،مترجم سید فاروق الحسن قادری،تصوف فاؤنڈیشن،سمن آباد لاہور، اشاعت 1998ء/1419ھ،ص66
21۔ایضا، ص74
22۔دیکھیں : ولی اللہ، دہلوی، شاہ، 1176ھ، الطاف القدس فی معرفۃ لطائف النفس،
23۔ملاحظہ ہو : ولی اللہ، دہلوی، شاہ، 1176ھ، انفاس العارفین، مترجم سید فاروق الحسن قادری،فرید بک سٹال اردو بازار لاہور، ط اول 1428ھ/2007ء،ص179
24۔گنگوہی،محمود الحسن،مفتی،فتاوی محمودیہ،ج6ص85-284،ج 6ص223، ج 6ص 263
25 ۔۱۲۱۹ھ میں پیدا ہوئے علوم شرعیہ شاہ اسحق دہلوی سے حاصل کیے متعدد حج کیے صاحب تصانیف کثیرہ ہیں۔ آپ کی اردو شرح مشکوۃ"مظاہر حق"مشہورخلائق ہے۔ستر سال کی عمر پائی اور ۱۲۸۹ھ میں وفات پائی۔(دیکھئے حدائق الحنفیہ ص۵۰۵)
26۔سورۃ المائدۃ،5:42
27۔دہلوی، قطب الدین،خان، نواب،مظاہر حق، دار الاشاعت اردو بازار کراچی، اشاعت 2009ء،ج1ص906،
28۔ملاحظہ ہو :دہلوی، قطب الدین،خان، نواب،مظاہر حق ،مکتبۃ العلم اردو بازار لاہور، ط ۔ن م ،ج2ص258، ج2ص585، ج2ص11-610، ج4ص685،
29۔محمد اختر،حکیم، شاہ، کشکول معرفت، کتب خانہ مظہری،گلشن اقبال، بلاک نمبر۲،کراچی، پاکستان،اشاعت 2016ء/1438ھ،ص215
30۔حبان رحیمی ، محمد ادریس ، حضرت مولانا ڈاکٹر حکیم، افادات حکیم الامت ،ناشررحیمیہ شفاخانہ میسور روڈ بنگلور، ص77،
31۔رضا خان، احمد، مولانا، م،فتاوی رضویہ، رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور، اشاعت1426ھ/2005ء،ج29ص470
32۔مستطاب کے معنی ہیں پاک، مبارک، سعید، خوش بخت وغیرہ۔ (دیکھیں قاموس الوحید،المنجد،وغیرہ)
33۔رضا خان، احمد، مولانا، م،فتاوی رضویہ، رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور، اشاعت1426ھ/2005ء،ج29ص462
34۔رضا خان، احمد، مولانا، م،فتاوی رضویہ، رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور، اشاعت1426ھ/2005ء،ج21ص383،
35۔رضاخان، مصطفے، علامہ، ملفوظات اعلی حضرت،مکتبۃ المدینہ پرانی سبزی منڈی کراچی، اشاعت 2014ء/1435ھ،ص446
36۔سلجماسی، احمد بن مبارک، م1156ھ، الابریز من کلام العارف باللہ تعالی سیدی عبدالعزیز الدباغ، ص243
37۔رضا خان، احمد، مولانا، م،فتاوی رضویہ، رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور، اشاعت1426ھ/2005ء،ج29ص480،
38۔القرآن، سورۃ البقرۃ،2:31،
39۔رضا خان، احمد، مولانا، م،فتاوی رضویہ، رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور، اشاعت1426ھ/2005ء،ج29ص65-462،
40۔سلجماسی، احمد بن مبارک، م1156ھ، الابریز من کلام العارف باللہ تعالی سیدی عبدالعزیز الدباغ، ص49-539،
41۔ابو داؤد، سلیمان بن اشعث، م275ھ، سنن ابو داؤد،باب مجانبة أهل الأهواء وبغضهم، حدیث4599،ج4ص198،
42۔رضاخان، مصطفے، علامہ، ملفوظات اعلی حضرت،مکتبۃ المدینہ پرانی سبزی منڈی کراچی، اشاعت 2014ء/1435ھ،ص165،
43۔سلجماسی، احمد بن مبارک، م1156ھ، الابریز من کلام العارف باللہ تعالی سیدی عبدالعزیز الدباغ، ص471
44۔رضاخان، مصطفے، علامہ، ملفوظات اعلی حضرت،مکتبۃ المدینہ پرانی سبزی منڈی کراچی، اشاعت 2014ء/1435ھ، ص510،
45۔تھانوی، اشرف علی، بوادرالنوادر،ص685،
46۔سلجماسی، احمد بن مبارک، م1156ھ، الابریز من کلام العارف باللہ تعالی سیدی عبدالعزیز الدباغ، ص560
47۔مفتاحی، مفتی شعیب اللہ خان، التوحیدالخالص،ناشر: مکتبہ مسیح الامت دیوبند و بنگلور،تاریخ اشاعت : صفر المظفر ۱۴۳۷ھ مطابق دسمبر ۲۰۱۵ء،ص277،
48۔سلجماسی، احمد بن مبارک، م1156ھ، الابریز من کلام العارف باللہ تعالی سیدی عبدالعزیز الدباغ، ص560
49۔مفتاحی، مفتی شعیب اللہ خان، التوحیدالخالص،ناشر: مکتبہ مسیح الامت دیوبند و بنگلور،تاریخ اشاعت : صفر المظفر ۱۴۳۷ھ مطابق دسمبر ۲۰۱۵ء،ص277،
50۔مجلس المدینۃ العلمیۃ(شعبہ اصلاحی کتب )،تکبر کی تباہ کاریوں ،علامات اور علاج کا بیان،مکتبۃ المد ینہ باب المد ینہ کراچی، سن طباعت: ۶ذوالقعدۃ الحرام ۱۴۳۰ھ بمطابق 26اکتوبر2009ء،ص49
51۔مجلس المدینۃ العلمیۃ(شعبہ اصلاحی کتب )،تکبر کی تباہ کاریوں ،علامات اور علاج کا بیان، ص50
52۔عطارقادری،محمد الیاس، مولانا،پیٹ کا قفل مدینہ، مکتبۃ المد ینہ باب المد ینہ کراچی،ص648،
53۔مولانا محمد اکرم اعوان،تفسیر اسرار التنزیل،آل عمران92،retrieved from
http://knooz-e-dil.blogspot.com/2014/03/blog-post.html?m=1
54۔عطاری، محمد عمران، حاجی،پیر پر اعتراض منع ہے، مکتبۃ المد ینہ باب المد ینہ کراچی، ص17-20
55۔عطاری، محمد عمران، حاجی،پیر پر اعتراض منع ہے، مکتبۃ المد ینہ باب المد ینہ کراچی، ص43
56۔سمیع الحق، مولانا،مکتوبات مشاھیر بنام مولانا سمیع الحق صاحب،(مہتمم جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک)،مؤتمر المصنفین دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک پاکستان، ط ندارد،ج4ص499،
57۔سواتی، مولانا ،صوفی عبدالحمید، تفسیر معالم العرفان فی دروس القرآن،مکتبہ دروس القرآن فاروق گنج گوجرانوالہ ،اشاعت سیزدھم 1429ھ/2008ء ،زیر آیت سوررۃ فاتحہ آیت4،ج1ص141،
58۔محمد اسحاق،مولانا، تفسیر گلدستہ تفاسیر ،سورۃ البقرۃ154،
59۔مولانا محمد اکرم اعوان،تفسیر اسرار التنزیل،النساء163،
60۔سواتی، مولانا ،صوفی عبدالحمید، تفسیر معالم العرفان فی دروس القرآن،مکتبہ دروس القرآن فاروق گنج گوجرانوالہ ،اشاعت یازدھم 1429ھ/2008ء ،زیر آیت سورۃ کھف65،ج12ص81-480،
61۔سعیدی، غلام رسول،علامہ، م2016ء،تبیان القرآن، فرید بک سٹال، اردو بازار لاہور، ط ثالث1426ھ/2005ء،ج7ص785،
62۔دیکھیں :الأفغاني، أبو عبد الله شمس الدين بن محمد بن أشرف بن قيصر ، م 1420ھ،جهود علماء الحنفية في إبطال عقائد القبورية،الناشر: دار الصميعي (أصل هذا الكتاب رسالة دكتوراة من الجامعة الإسلامية)،الطبعة: الأولى - 1416 ھ - 1996 ء،ج2ص760
63۔مجلس المدینہ العلمیہ، گلدستہ درود و سلام،مکتبۃ المدینہ پرانی سبزی منڈی کراچی، ص264
64۔مجلس المدینہ العلمیہ، گلدستہ درود و سلام،مکتبۃ المدینہ پرانی سبزی منڈی کراچی، ص340
65۔ماخوذ: سلجماسی، احمد بن مبارک، م1156ھ، الابریز من کلام العارف باللہ تعالی سیدی عبدالعزیز الدباغ، ص560
66۔نابلسی،عبدالغنی بن اسماعیل،علامہ،م1143ھ، الحدیقۃ الندیہ شرح الطریقۃ المحمدیۃ،ترجمہ بنام اصلاح اعمال،مکتبۃ المدینہ کراچی،اشاعت1431ھ/2010ء،ص225
67۔معین الدین،احمد خان، ڈاکٹر،طریقہ محمدیہ کا ایک تجزیاتی مطالعہ، در مشمولہ فکر و نظر، والیم 6نمبر 12، اشاعت1969ء، ص921،
68۔سلجماسی، احمد بن مبارک، م1156ھ، الابریز من کلام العارف باللہ تعالی سیدی عبدالعزیز الدباغ، ص85-384،
69۔فاروقی،اقبال احمد، پیرزادہ، رجال الغیب، مکتبہ نبویہ گنج بخش روڈ لاہور،ط1428ھ/2007ء، ص80
70۔دباغ، شیخ احمد،ذاتی انٹرویو، (انٹرویو کنندہ : محمد رمضان سعیدی )بتاریخ 10فروری2019ء، بوقت 10بجے دوپہر،وکتابچہ تعارف شیخ احمد دباغ،ص3-4،ناشر و طبع ندارد،
حوالہ جات
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 2 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2018 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |