1
2
2020
1682060026458_744
81-94
https://islamicjournals.com/ojs/index.php/IRJIS/article/download/18/11
https://islamicjournals.com/ojs/index.php/IRJIS/article/view/18
Encyclopedia of Ahadees - Muhadiseen - Design of Arts Encyclopedia of Ahadees Muhadiseen Design of Arts
الموسوعہ: اس کا مادہ (و س ع) ہے کتاب ضخم تعالج فیہ ابواب الاداب والعلوم والفنون علی اختلافھا [1]۔ اردو میں اس کے لیے دائرۃ المعارف اور انگریزی میں اس کے لیے (Encyclopaedia)انسائیکلوپیڈیا استعمال ہوتا ہے۔ [2]== اصطلاحی تعریف : ==
کتاب یجمع معلومات فی کل میادین المعرفۃ ،او فی میدانھا مرتبۃ ترتیبا ھجائیا [3]؎
وہ جامع کتاب جس میں علم و معرفت کے تمام یا چندیا ایک موضوع سے متعلق مکمل معلومات حروف تہجی پر ترتیب دی گئی ہوں
کبھی یہ بہت سی جلدوں پر مشتمل ہوتی ہے۔
انسائیکلوپیڈیا کی تاریخ:
سب سے پہلا موسوعہ قبل المیلاد افلاطون کے شاگردوں میں سے ایک شاگرد جس کا نام سبو سیبوس (Speusippus) نے لکھا لیکن ہم تک نہیں پہنچا ۔اسی طرح روم میں بھی اسکی روایات ملتی ہیں۔جیسے موسوعہ رومانیہ اسکو بلینیوس الارشد (Pliny the Elder) نے قرن اول میں مرتب کیا تھا اسی موسوعہ کو ’التاریخ الطبعی ‘ ( Naturalis Historia)کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اسی طرح عربوں میں بھی موسوعات مرتب کرنے کی تاریخ ملتی ہے ’’کتاب العلوم‘‘ جسکو فارابی نے مرتب کیا اس کے آثار ملتے ہیں ۔بہرحال مغرب میں موسوعات کے نام سے ’’الموسوعہ الفرنسیۃ‘‘ یا ’’المعجم العقلانی للعلوم والفنون والحرف‘‘(encyclopedie ou Dictionnaire raisonne des science,des arts et des metiers)یہ موسوعہ 1751 سے 1772 کے درمیان ظاہر ہوا 28 جلدوں میں مرتب کیا گیا 1777 میں اس میں پانچ جلدوں کا اضافہ کیا گیا اور 1780 میں دو جلدیں خاص فہرست پر مرتب کی گئی1768.ء سے 1771ء کے درمیان ایک اور موسوعہ منظر عام پر آیا ’’ الموسوعۃ البریطانیکۃ ‘‘ (Encyclopaedia Britannica) تین جلدوں میں مرتب کیا گیا لیکن بعد میں اس میں اتنا اضافہ ہوا کہ آج یہ تیس جلدوں تک جا پہنچا ہے ۔اس کے بعد ایک اور علمی موسوعہ منظر عام پر آیا ’’ الموسوعۃ الامریکیۃ ‘‘ 1829ء1833.ء(Encyclopaedia America) آج تک اس کی طباعت جاری ہے ۔الموسوعۃ الایطالیہ للعلم ولادب والفن 1929(Enciclopedia italiana di scienza,lettere ed arti) ،اور الموسوعۃ السوفیاتیۃ الکبریٰ۔1926 تا 1947(Bolshaya Sovyetskaya Entsiklopediya) بہرحال علوم عربیہ میں سب سے پہلا موسوعہ ’’دائرۃ المعارف ‘‘ پطرس بستانی نے مرتب کیا ۔ 1876 تا 1883 تک اس کے ابتدائی چھ حصے مرتب ہوئے تھے ۔کافی عرصہ کے بعد آل بستانی میں سے کچھ لوگوں نے اسکو مکمل کیا۔[4]
الموسوعہ الموضوعیۃ:
ھی الکتب التی جمع فیھا مولفوھا الاحادیث من المصادر الحدیثیہ المتوفرۃ لدیھم،او المعینۃ عندھم ،ثم قاموا بترتیبھا علی الموضوعات۔[5]
ڈاکڑمحمد ابو اللیث الخیر آبادی فرماتے ہیں : موسوعۃ سے مراد ایسی کتاب جس میں تمام احادیث کی مؤلفات کوان کے مصادر کے ساتھ جمع کیا گیا ہو ،اور ان کو فقہی یا علمی ترتیب پر مرتب کیا گیا ہو جیسے موسوعۃ الحدیث ڈاکٹر عبد الملک بکر عبد اللہ ۔
تاریخ کے اوراق کی روگردانی کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسائیکلو پیڈیا لکھنے کا رواج قبل المیلاد سے ہی مشروع رہا اور مختلف زمانوں میں مختلف اہل فن نے اس میں اپنا کردار ادا کیا اورمختلف موضوعات پر انسائیکلوپیڈیا تیار کیے ۔اسی طرح اسلامی علوم میں بھی انسائیکلوپیڈیا مرتب کرنے کا رحجان بھی قدیم ہے ۔چناچہ اسلامی علوم میں بھی مختلف فنون میں انسائیکلوپیڈیا تیار ہوئے جن میں احادیث نبویﷺ کے انسائیکلوپیڈیا قابل ذکر ہیں اس کے بارے میں ڈاکٹر اکرم ضیاء عمری فرماتے ہیں :
احادیث کی موسوعات کو مرتب کرنا یہ ایک قدیم فکر رہی ہے ،اوائل محدیثین کرام کی احادیث جمع کی کوششیں مندرجہ ذیل میں نظر آتی ہیں : 1۔امام طبرانی (ف360ھ) کی معاجم ثلاثہ کبیر،اوسط اور صغیر،حاجی خلیفہ کے مطابق صرف معجم کبیر میں پچیس ہزار احادیث ہیں۔2۔ حافظ ابن اکثیر(ف774ھ) نے جامع المسانید کے نام سے صحابہ کرام کی تمام مسانید جمع کرنے کی سعی کی۔3۔ حافظ سیوطی (ف911ھ )نے الجامع الکبیر کے نام سے ایک مجموعہ تیار کیا جس میں مکررات سمیت بیالیس ہزار احادیث جمع کیں ،مکررات کو حذف کرنے کے بعد ان کی تعداد 31624 احادیث ہے ،جیسا کہ المتقی الہندی (ف975ھ) نے کنز العمال میں یہ احادیث بیان کی ہیں ۔ کنز العمال کی احادیث کی تعداد 46624 احادیث ہیں۔[6]
ان مجموعوں کے علاوہ محدثین کی کاوشیں یہ ہیں :1۔ابن اثیر (ف606ھ)جامع الاصول فی احادیث الرسول ۔احادیث کی تعداد 95232۔حافظ ابن حجر(ف752ھ) المطالب العالیہ بزوائد المسانید الثمانیہ۔احادیث کی تعداد 47023۔سیوطی (ف911ھ) الجامع الصغیر،احادیث کی تعداد 100314۔ عبد الروؤف مناوی (ف1031ھ) کنوز الحقائق فی حدیث خیر الخلائق۔احادیث کی تعداد دس ہزار5۔ عبد الروؤف مناوی (ف1031ھ) الجامع الازہر فی احادیث النبی الانور ۔احادیث کی تعدادتیس ہزار6۔محمد بن سلیمان الفاسی المغربی ( ف1093ھ) جمع الفوائد من جامع الاصول ومجمع الزوائد ۔احادیث کی تعداد 101217۔محمد ناصر الدین الالبانی ( ف 1420ھ) صحیح الجامع الصغیر وزیادتہ ۔احادیث کی تعداد80588۔محمد ناصر الدین الالبانی،ضعیف الجامع الصغیر وزیادتہ ۔احادیث کی تعداد6469 ۔[7]
موسوعہ کا مصداق :
ڈاکڑمحمد ابو اللیث الخیر آبادی اور معجم الوسیط کی تعریفات کو سامنے رکھا جائے تو اس سے احادیث کے موسوعات کی دو قسمیں بنتی ہیں ۔1۔وہ کتب جو موسوعہ کے نام سے مشہور ہیں 2۔ وہ کتب جو موسوعہ کے نام سے تو مشہور نہیں ہیں لیکن موسوعہ کی تعریف میں داخل ہیں ۔ احادیث کے چند موسوعات اور ان کا تعارف درج ذیل ہے۔
جمع الجوامع
مصنف : علامہ جلال الدین السیوطیؒ جمع الجوامع کی وجہ تسمیہ :
جمع الجوامع حدیث کی مبسوط کتابوں کی جامع ہے اس لئے یہ جمع الجوامع ااور جامع الکبیر کے نام سے بھی موسوم ہے ۔بعض قرائن سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تالیف کا آغاز 904ھ میں ہوا اور اختتام 911ھ تک ہوا جو علامہ سیوطی کا سن وفات ہے اس کی ترتیب و تدوین کا کیام جاری رہا۔جمع الجوامع کا اسلوب: جمع الجوامع دو حصوں میں منقسم ہے1۔ پہلے حصہ میں قولی احادیث کو حروف تہجی کے اعتبار سے جمع کیا گیا ہے۔2۔ دوسرے حصے میں احادیث فعلی کو صحابہ کرام کے نام کی ترتیب کے اعتبار سے جمع کیا گیا ہے۔علامہ سیوطی آغاز مقدمہ میں خود رقمطراز ہیں :
جمع الجوامع کی قولی حدیثوں کا حصہ جن میں ہر حدیث کے اول لفظ کو حروف تہجی کی ترتیب سے احادیث کو نقل کیا گیا ہے کام پائے تکمیل تک پہنچا تو باقی احادیث کو جو اس شرط سے خالی تھیں یا قول وفعل دونوں کی جامع تھیں ،یا سبب مراجعت وغیرہ پر مشتمل تھیں ،انہیں جمع کرنا شروع کیا تاکہ یہ کتا ب تمام موجود احادیث کی جامع بن جائے۔[8]
احادیث کی تعداد :
علامہ سیوطی خود فرماتے ہیں کہ میں نے اس کتاب میں حصر اور استیعا ب کا ارادہ کیا ہے
قصدت فی جمع الجوامع الحادیث النبویہ باسرھا۔
قال شارحہ المناوی: ھذا حسب ما اطلع علیہ المولف،لا باعتبار ما فی نفس الامرلتعذر الاحاطۃ بھا وانافتھا علی ما جمعہ الجامع المذکور لو تم ۔وقد اخترمتہ المنیۃ قبل اتمامہ۔
قال تاریخ ابن عساکر عن احمد : صح من الحدیث سبعمائۃ الف وکسر۔[9]
قال السید محمد بن جعفر الکتانی فی الکتا ب الراسلۃ المستطرفۃ: الجامع الصغیر فیہ علی ما قیل عشرۃ آلاف وتسعمائۃ واربعون وثلاثون حدیثا فی مجلد وسط وذیلۃ بزیادۃ الجامع وھو قریب من جمعہ۔[10]
جامع صغیر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس میں دس ہزار نو سو چونتیس احادیث ہیں ۔یہ درمیانہ سائز کی ایک جلد پر مشتمل ہے۔اس پر زیادۃ الجامع کے نام سے ایک ذیل بھی ہے جو حجم میں اس کے قریب ہے۔
جمع الجوامع کے بارے میں علمائے امت کے اقوال:
سید عبد الحی الکتانی فرماتے ہیں :
ومن اھمھا واعظمھا وھو من اکبر مننہ علی المسلمین کتابہ الجامع الصغیر ،وھو مطبوع مع عدۃ شروح علیہ اختصارات وشرح بعضھا ایضا،واکبر منہ واسع واعظم الجامع الکبیرجمع فیھا عدۃ آلاف من الاحادیث النبویۃ مرتبۃ علی حروف المعجم وھما المعاجم الوحید الآن المتداول بین المسلمین۔[11]
علامہ جلال الدین سیوطی کی اہم اور عظیم تالیفات میں سے جو مسلمانوں پر ان کے عظیم احسانات میں سے ہے ان کی کتاب جامع صغیر ہے اور اس سے زیادہ مبسوط"جامع کبیر""جمع الجوامع"ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں احادیث نبویہﷺ کو حروف معجم پر مرتب کیا ہے اور یہی دونوں وہ واحد معجم ہیں جو آج مسلمانوں میں متداول اور رواج پذیر ہیں۔
علامہ شیخ صالح عقیلی فرماتے ہیں :
لعلھا مکرمۃ ادخرھا اللہ سبحانہ لبعض المتاخرین واذا اللہ قد اکرم بذلک واھل لہ من لم یکد یر فی مثلہ ذلک الامام السیوطی فی کتابہ المسمی بالجامع الکبیر۔[12]
کوئی بھی محدث رسول اللہ ﷺ کی تمام احادیث یکجا جمع کرنے کے در پے نہیں ہوا ،یہ سعادت اللہ تعالیٰ نے بعض متاخرین علماء کے لیے مقدر فرمائی تھی اس نے یہ اعزاز وشرف علامہ سیوطی ؒ کو بخشا،انہی کو اس کا اہل بنایا،اس اہم کام میں ان کا کوئی سہیم اور شریک قریب دکھائی نہیں دیتا۔استفادہ کا طریقہ:1۔ وہ لوگ جو کبھی کبھی رات کو جاگتے ہیں اور ایک ہی حدیث میں بحث کرتے ہیں اور وہ لوگ جو حدیث میں شک کرتے ہیں اس کے درجہ کو نہیں جانتے وہ اس سے استفادہ نہیں کرسکتے ۔2۔ وہ لوگ جو حدیث کو یادرکھتے ہیں اور پھراس کے کچھ الفاظ بھول جاتے ہیں لیکن حدیث کا پہلا کلمہ یاد ہوتا ہے وہ اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ جمع الجوامع کے رموز:(بخاری(خ)،مسلم(م)ابن حبان(حب)،حاکم مستدرک(ک)،ابو داوٗد (د)ترمذی(ت)ابن ماجہ(ھ)نسائی(ن)،ابی داود طیالسی) (مسنداحمد(حم)،زیادات ابن عبد اللہ(عم)عبد الرزاق(عب)سعید ابن منصور(ص)ابن ابی شیبہ(ش)،ابن یعلی(ع)طبرانی فی الکبیر(طب)طبرانی اوسط(طس)طبرانی صغیر(طص)،دارقطنی(قط)،شعب ایمان(ھب
ان تمام کتابوں میں صحیح ،حسن،اور ضعیف بھی شامل ہیں۔جو احادیث مسند احمد میں ہیں وہ مقبول ہیں اور جو ضعیف ہیں ہو حسن کے قریب قریب ہیں ۔(عقیلی فی الضعفاء (عق)ابن عدی فی الکامل (عد) خطیب (خط) ابن عساکر (کر [13]
جمع الجوامع کے مصادر:
صحاح الستۃ ۔موطا امام مالک۔مسند شافعی۔مسند الطیالسی۔مسند احمد۔مسند عبد بن حمید۔مسند الحمیدی۔مسند ابی عمران العدنی۔معجم الغنوی
معجم ابن قانع۔فوائد سمویہ۔المختارہ للضیاء مقدسی۔طبقات ابن سعد۔ تاریخ دمشق لابن عساکر۔معرفۃ الصحابہ للباوردی۔ المصاحف الباوردی
فضائل قرآن لابن الضریس۔الزہد لابن مبارک۔الزھد لھناد سری۔المعجم الکبیر للطبرانی۔المعجم الاوسط للطبرانی۔المعجم الصغیر للطبرانی۔مسند ابی
یعلی۔تاریخ بغداد للخطیب۔الحلیۃ لابی نعیم۔الطب النبوی۔فضائل الصحابۃ لابی نعیم۔کتاب الہدی لابی نعیم۔تاریخ بغداد لابن نجار
الالقاب للشیرازی۔ الکنی لابی احمد الحاکم۔اعتلال القلوب للخرائطی۔الابانۃ لابی نصر عبد اللہ بن سعید ابن حاتم السنجزی۔الافراد للدار قطنی
الطب النبوی لابن السنی۔العظمۃ لابن الشیخ۔الصلاۃ لمحمد مروزی۔نوادر الاصول للحکیم ترمذی۔الامالی لابی القسام الحسین بن ہبۃ اللہ ابن صبری۔عمل الیوم و اللیلۃ لابن السبی۔ذم الغیبۃ لابی الدنیا۔ذم الغضب لابن ابی الدنیا۔المستدرک لابی عبد الحاکم۔السنن الکبریٰ للبیہقی
شعب الایمان ۔المعرفۃ للبیھقی۔الاسماء والصفات للبیھقی۔مکارم الاخلاق للخراطی۔مساوی الاخلاق للخراطی۔دلائل النبوۃ للبیھقی۔۔مسند الحارث لابی اسامہ۔مسند ابی بکر بن ابی شیبہ۔مسند مسدد۔مسند احمد بن منبع۔مسند اسحاق بن راہویہ۔صحیح ابن حبان۔فوائد تمام الخلیعات المخلصیات البجلاء للخطیب۔الغیلانیات۔الجامع للخطیب۔مسند الشباب القضاعی۔تفسیر ابن جریر۔مسند الفردوس۔مسند الفردوس للدیمی۔مصنف عبد الرزاق۔مصنف ابن ابی شیبہ۔الترغیب فی الذکر لابن شاہین۔[14]
کنز العمال
موٗلف:علامہ علاء الدین الشیخ علی متقی بن حسام الدین المتوفی ۹۷۵ ھ
تعارف:
کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال حضرت شیخ علی متقیؒ کا عظیم علمی اور دینی کارنامہ ہے ،احادیث نبوی کے اس مبسوط ،جامع اور مقبول ومعتمد اول کتاب کو ہر دور میں عظمت ومقبولیت اور شہرت حاصل رہی ہے ۔یہ احادیث نبوی ﷺ کا جامع ترین وہ عظیم مجموعہ ہے سے شیخ علی متقی نے علامہ جلال الدینؒ کی شہرہ آفاق کتاب ’جمع الجوامع‘ جسے ’جامع الکبیر یا’ جامع المسانید‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ،فقہی ابواب پر مرتب کیا ہے۔
جس کے بارے میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی کا بیان ہے کہ:
"حق بات یہ ہے کہ اس کتاب پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ متقی ؒ نے اس میں کیسا کام کیا ہے اور کیا خدمات انجام دیں ہیں ۔یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ سنن و احادیث کے معانی ،اس کے ادراک و ترتیب اور الفاظ کے سمجھنے میں انھیں کیسی بصیرت تھی۔[15]
کنز العمال کی عظمت :
جمع الجومع کی عظمت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس کی ترتیب ہرگز ایسی نہیں تھی کہ جس سے ہر خاص و عام کو پورا پورا فائدہ ہوسکتا ،اس سے وہی حضرات استفادہ کرسکتے تھے جنہیں حدیث کے راوی کا نام معلوم ہو یا حدیث کا ابتدائی جزء یاد ہو ،اس کے برعکس جنہیں ان باتوں کا علم نہیں وہ کما حقہ کتاب کے استفادہ سے قاصر ہیں ۔اس امر کا کما حقہ احساس ان معاصر عارف ہندی و مسند حرم شیخ علی متقی کو ہوا چناچہ انہوں نے جمع الجومع کو ابواب فقہ پر مرتب کیا ۔کنز العمال کی فقہی اسلوب میں تبویب و تدوین:
لیکن (جمع الجومع) اہم فوائد سے خالی تھی ،منجملہ ان کے یہ کہ جو کسی حدیث کے مفہوم سے واقف ہو اور وہ اسے تلاش کرنے کا خواہش مند ہو تو اس کیلئے اس متعلقہ حدیث کا نکالنا ممکن نہیں ،ہاں اگر اسے اس حدیث قولی کا وہ کلمہ جس کی اسے تلاش ہے یاد ہو ،یا راوی کا نام اگر وہ حدیث فعلی ہے تو پھر اس کی تلاش مشکل نہیں ۔اور جسے یاد نہ ہو اس کے لئے تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔[16]کنز العمال اسلوب :شیخ علی متقی ؒ نے اس کتاب کو فقہی ابواب کی ترتیب پر مرتب کیا ہے۔اور بیشترمکررات کو حذف کیا ہے ۔کنز العمال کا مرجع و ماخذ: کنز العمال کا اصل مرجع و ماخذ جمع الجوامع ہی ہے ۔
المسند الجامع
لاحادیث الکتب الستۃ ،وموٗ لفات اصحابہا الاخریٰ وموطا مالک،ومسانید الحمیدی ،واحمد بن حنبل ،وعبد بن حمید ،وسنن الدارمی،وصحیح ابن خزیمہ
محقق و مرتب:1۔الدکتور بشار عواد معروف2۔السید ابو المعاطی محمد النوری3۔احمد عبد الرزاق عید4۔أیمن ابراھیم الزاملی5۔محمود محمد خلیل
سبب تالیف:
فرماتے ہیں کہ جب ہم نے دیکھا کہ اس زمانے میں علم اٹھتا جارہا ہے اورعلم کی مباحث میں بہت زیادہ تنوع ہوتا جارہا ہے تو مسلمانوں پر واجب ہوا کہ وہ سنت رسول کو آسان کر کے طالبین علم تک پہنچائے اس اعتبار سے کہ وہ احادیث کوئی بھی ایک حدیث اگر مکرر ہو کسی ایک کتاب میں یا بہت ساری کتابوں میں تو ان سب کو ایک جگہ جمع کیا جائے جبکہ اس کام میں بہت دشواریاں بھی تھی اور کتابوں اور ان کے منہج کا اختلاف بھی سامنے تھا لیکن ہم نے کتب احادیث کے نفیس مجموعے کو اختیار کیا تاکہ وہ اس کتاب کے لئے بنیاد ہو جائے لہذا یہ کتاب تمام احادیث اور ان کے تمام طرق کو جامع ہو گئی۔[17]وجہ تسمیہ :اس کتاب کا نام المسند الجامع دو وجوہات کی بناء پر رکھا ۔1۔ تمام احادیث کو صحابہ کی ترتیب پر جمع کیا گیا ہے۔2۔ اس میں حدیث کی تمام تالیفات کو جمع کیا گیا ہے۔منہج و اسلوب:1۔ہر صحابی کی الگ الگ احادیث کو جمع کیا ہے اور اسکو حروف تہجی کے اعتبار سے لائے ہیں۔2۔ پھر ہم نے ہر صحابی کے مرویات کو فقہ کی ابواب کی ترتیب مرتب کیا جو کہ مشہور ہے جوامع و سنن میں۔لیکن جب مشہور ابواب کی ترتیب میں کچھ اختلاف پایا گیا تو ہم نے اس کتا ب کو ایک الگ ترتیب پر مدون کیا جو کہ مندرجہ ذیل ہے۔
ایمان۔ الطہارۃ ۔ الصلاۃ ۔ الجنائز۔ الزکاۃ۔ الحج ۔ الصوم۔ النکاح الرضاع۔ الطلاق۔ اللعان۔العتق۔البیوع والمعاملات۔اللقطہ۔المزارعہالوصایا۔الفرائض۔الہبہ۔الایمان۔النذور۔الحدود و الدیات۔الأقضیہ۔الأطعمہ والاشربہ۔اللباس والزینۃ۔الصید والذبائح ۔الأضاحی۔الطب والمرض۔الأدب۔الذکر والدعاء۔التوبۃ۔الرؤیا۔القرآن۔العلم۔السنۃ۔الجھاد۔الأمارۃ۔المناقب۔الزھدوالرقاق۔الفتن۔اشراط الساعۃ۔القیامۃ والجنۃ والنار۔اس کے علاوہ ہم نے ترتیب احادیث میں ہر اس بات کی رعایت کی ہے جس بات کی رعایت بخاری و مسلم اور ان کے علاوہ تمام کتابوں کے مصنفین نے احادیث کی ترتیب و طریق میں کی ہے۔
مثال کے طور پر مسند صحابی میں احادیث صلاۃ متعین ہے اسی ترتیب کی رعایت کی گئی ہے جیسے کہ ابتداء کی ہے فضائل نماز پھر مواقیت پھر اذان پھر کس پر نماز ہے اور کس طرف رخ کرکے پڑھنا ہے پھر تکبیر الی آخرہ۔اور مناقب صحابہ میں بھی ترتیب کی رعایت کی گئی ہے۔ سب سے پہلے مناقب ابو بکر،پھر عمر،پھر عثمان،پھر علی اس کے بعد تمام صحابہ کرام کو حروف تہجی کی ترتیب پر مرتب کیا ہے ۔3۔ ہم نے مسند کو تین ابواب میں تقسیم کیا ہےباب اول۔مسند صحابہ باب دوم۔ وہ صحابہ جو کنیت سے مشہور ہیں ،پھر انکی اولاد اور جو مجہول ہیں۔باب سوم۔صحابیات کی مسندات کو ذکر کیا ہے ابتداء کی ہے ان صحابیات سے جو ان میں مشہور ہیں پھر وہ جو کفو کی وجہ سے مشہور ہیں اور آخر میں غیر مشہور صحابیات کی مرو یات کو ذکر کیا ہے۔4۔ہم نے ہر اس حدیث سے ابتداء کی ہے جو صحابی سے مروی ہو ،چاہے راوی صحابی ہو یا تابعی ۔پھر حدیث کے کامل و مضبوط متن جوکہ سب سے زیادہ صحیح طرق ہے اسکو لائے ہیں چاہے صحیح ہو یا ان روایات میں سے ہو جن پر اجماع ہے۔5۔یہ بات بھی ہے کہ ہم نے المسندالجامع میں مقطوع،مرسلات،معلقات ،اور مجہول الاسم کو داخل نہیں کیا بلکہ اکتفاء کیا ہے صرف اور صرف مسند احادیث پر۔6۔ہر حدیث پراول سے آخر تک نمبر بھی لگایا ہے تاکہ افادہ آسان ہو جائے دوسرا کام یہ کیا ہے کہ ہر صحابی کی مسندات پر بھی نمبر لگایا ہے تاکہ کسی ایک صحابی کی تما م مرویات کی تعداد بھی معلوم ہوجائے ۔7۔ہر حدیث کے ساتھ اس کے مصدر کا بھی ذکر کیا ہے جیسے موطا مالک ،مسند احمد ،صحیح بخاری و مسلم وغیرہ 8۔ہر صحابی کی روایت کو مستقل حدیث کی حیثیت سے لائے ہیں چاہے روایت کرنے والا صحابی ہو یا تابعی ،اسی طرح اگر ایک صحابی سے روایت کرنے والے دو صحابی ہو تو ان کو دو حدیث شمار کی گئی ہیں ،اگر تین ہیں تو تین شمار کی گئی ہیں۔اس سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ یہ حدیث کے طرق کو بھی واضح کرتا ہے اور ساتھ ساتھ حدیث کی صحت و ضعف کو بھی واضح کرتا ہے۔9۔اس کتاب میں ہر حدیث کا حکم بھی بیان کیا ہے کہ صحیح ہے یا ضعیف ،معلل ہے تو علت کو بیان کوہے جرح و تعدیل میں تتبع پر اکتفاء کیا ہے ناکہ تقلید پر۔10۔ بعض علماء وقارئین نے اختلاف کیا ہے اس ترتیب پر لیکن ہم نے اس ترتیب پر مدون اس لئے کیا ہے کہ یہ ترتیب آسان بھی ہے اور اس میں فائدہ زیادہ ہے اسانید کو تلاش کرنے اور صحت و سقم کا فرق کرنے میں ۔[18]المسند الجامع کا ماخذ:
الموطأ: لابی عبد اللہ مالک بن ان۔المسند : لابی بکر عبد اللہ بن زبیر الحمیدی۔المسند : لابی عبد اللہ احمد بن حنبل۔المسند : لابی محمد عبد بن حمید۔السنن: لابی محمد عبد اللہ عبد الرحمان الدارمی۔الجامع الصحیح : لابی عبد اللہ بن محمد بن اسماعیل البخاری۔الادب المفرد: للبخاری ایضارفع یدین: للبخاری ایضا۔جزء القراۃ خلف الامام : للبخاری ایضا۔خلق افعال العباد : للبخاری ایضا۔ الجامع الصحیح: لابی الحسین مسلم بن الحجاج القشیری۔السنن: لابی داود سلیمان بن اشعث۔السنن: لابی عبد اللہ محمد بن یزید الربعی(ابن ماجہ)۔الجامع : لابی عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی الشمائل:للترمذی ایضا۔الزوائد:وہی ما زادہ عبد اللہ بن احمد بن حنبل۔السنن : لابی عبد الرحمان احمد بن شعیب النسائی۔عمل الیوم واللیلۃ للنسائی: للنسائی ایضا۔فضائل القرآن : للنسائی ایضا۔فضائل الصحابۃ : للنسائی ایضا۔صحیح ابن خزیمۃ :[19]
موسوعہ جامعۃ للاحادیث
الضعیفہ والموضوعۃ
مولفین:
علی حسن علی الحلبی،
الدکتور ابراھیم طہ القیسیی
الدکتور حمدی محمد مراد
موسوعۃ کی ترتیب :
اس موسوعہ کو تین مراحل میں تقسیم کیا ہے۔۱۔تمام کتب ،مولفات،جو احادیث ضعیفہ میں لکھی ہو موضوع ،مشہور کتب انتقادات وتعقبات سب کو شامل کیا ہے۔۲۔اس میں تمام کتب علل ،ضعیف،کتب تخریج و تاریخ شروحات اور احادیث ہیں۔۳۔تمام فقہی کتب ،کتب تفسیر اور دوسرے علوم شامل ہیں ۔منہج:(1) مرحلہ اولی کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔
پہلا مرحلہ : اس میں احادیث قولی اور احادیث فعلی ہیںدوسرے مرحلہ : اسمیں وہ اخبار و حکم جو صحابہ اور تابعین کی طرف منسوب ہیں ان کو حروف تہجی کے اعتبار سے مدون کیا ہے۔(2)۔تمام نصوص کو حروف تہجی کے اعتبار سے جمع کیا ہے۔جس کی ترتیب کچھ اس طرح ہے کہ: 1۔ہم نے حرف الف میں الف ممدودہ سے ابتداء کی ہے جیسے (آخر) ( آتی)2۔ہمزہ وصلی اور قطعی میں اور ہمزہ کے اعراب میں کوئی فرق نہیں کی ہے چاہے اوپر ہو یا نیچے۔3۔ ال محلی اگر کسی کلمہ کے آخر میں ہو تو اسکو بھی خاص کیا ہے جیسے(القرآن)تو اس کو حرف قاف میں ذکر کیا۔4۔ فہرست میں تاء مربوطہ کو ھا میں شمار کیا ہے ۔
(3): متشابہ نصوص میں ہم نے کامل نصوص پر اعتماد کیا ہے،اور اس کے مصدر یا مصادر کی طرف نسبت کی ہے۔ اور اگر بعض معانی یا الفاظ میں دوسرے مدلول کے ساتھ اختلاف پایا گیا تو اس کو الگ نص شمار کیا گیا ہے۔
(4): تخریج کے لیے اس موسوعہ میں ہم نے کتب کے نام کو اختصار کے ساتھ ذکر کیا
(5)اگر حدیث کے پہلے لفظ میں اختلاف ملا تو ہم نے اس کو اسی حالت پر چھوڑدیا بعض جگہوں پر حروف تہجی کے طور پر الا یہ کہ اختلاف آسان ہو تو اس کو ذکر کردیا ۔
(6) نصوص کے اطراف کے لیے آخر میں ہم نے ایک فقہی فہرست ذکر کی ہے تاکہ مرفوع اور موقوف کا بھی پتہ چل سکے۔اور موضوع اور ابواب کے تحت مرتب کیا ہے اور ہر موضوع میں ابواب کو حروف معجم کے اعتبار سے لائیں ہیں ساتھ ساتھ اس کے نمبر کوبھی ذکر کیا ہے اور جو آثار وارد ہوئے ہیں ان کے لیے علامت کے طور پر(ث) زکر کی ہے تاکہ تمیز ہوسکے۔
(7) تاکہ معلوم ہوجائے کہ حدیث کا بعض حصہ ثابت ہے اور صحیح ہے اس کا بعض حصہ بخاری میں یا مسلم میں یا ان دونوں میں یا ان کے علاوہ ہے۔
(8) تخریج کے لیے ہم نے کتاب میں نمبر ڈالے اگر اس پر بمبر تھے اور اگر نہیں تھے تو اس کے لیے صفحہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔
(9) اس میں ہم نے جمع وترتیب کا کام کیا ہے اور اعتماد صاحب مصادر موسوعہ پر کیا ہے باقی حدیث کے ثبوت کی تحقیق یہ ہمارا کام نہیں ہے یہ ایک الگ کام ہے۔
موسوعہ کے مصادر:
الآثار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ،الاباطیل والمانکیر والصحاح والمشاہیر۔اتقان ما یحسن من الاخبار الدائرۃ علی الالسن، الاحادیث التی لا اصل لھا فی کتاب "الاحیاء"، الاحادیث القدسیۃ الضعیفۃ والموضوعۃ ، احادیث القصاص ، احادیث مختارۃ من موضوعات الجورقانی وابن الجوزی،احادیث معلۃ ظاھرھا الصحۃ، الاحادیث الموضوعۃ فی الاحکام المشروعۃ ،الاخبار بما فات من احادیث الاعتبار، الاربعون الودعانیۃ الموضوعۃ ، الاسرار المرفوعۃ فی الخبار الموضوعۃ وھو"الموضوعات الکبریٰ" اسنی المطالب فی احادیث مختلفۃ الراتب، تبییض الصحیفۃ باصول الاحادیث الضعیفۃ ، تبیین العجب بما ورد فی شھر رجب ،التحدیث بما قیل : لایصح فیہ حدیث، تحذیر الخواص من اکاذیب القصاص ، تحذیر المسلین من الاحادیث الموضوعۃ علی سید المرسلین، تخریج الاحادیث الضعاف من سنن الدارقطنی، تذکرۃ الحفاظ (اطراف احادیث کتاب"المجوحین" لابن حبان)، التذکرۃ فی الاحادیث المشتھرۃ ،او اللالئ المنثورۃ فی الاحادیث المشھورۃ،تذکرۃ الموضوعات، ترتیب الموضوعات لابن الجوزی ، التعقبات علی الموضوعات ، تکمیل النفع بما لم یثبت بہ قوف لا رفع، تمییز الطیب من الخبیث فیما یدور علی السنۃ الناس من الحدیث، تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ عن الاخبار الشنیعۃ الموضوعۃ، التنکیت والافادۃ فی تخریج احادیث خاتمۃ سفر السعادۃ، التھانی فی تعقب علی موضوعات الصنعانی۔۔الموقوف علی الوقوف۔ [20]یہ تقریبا 87 کتب کا مجموعہ ہے جن کی تفصیل کے لیے موسوعہ کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔
المدونۃ الجامعۃ
للاحادیث المرویۃ عن النبی الکریم
مؤلف :زیر نگرانی حضرت مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہممصادر:اس مدونہ کے لئے جن مصادر پر ہم نے اعتماد کیا ہے ان کی تعداد 910 ہے لیکن ان تمام مصادر کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے۔۱۔ مصادر الطرف المستوعبۃ:
الطرف المستوعبۃ سے مراد وہ تمام بنیادی مصادر جنہوں نے تمام مرفوع احادیث کو ان کی تمام طرق کیساتھ جمع کیا ہے ان کہ تعداد(80) ہے اور اس قسم میں تمام صحیح ومعروف احادیث کے متن شامل ہیں ۔لہذا ہم نے تمام وہ احادیث المرفوعہ جو موجودہ طبع شدہ نسخوں میں ہو یا مخطوطات کی شکل میں ہو سب کو جمع کیا ہے ۔اس کے ساتھ ہم نے ان احادیث کا جو اپنے نسخوں میں آسانی سے میسر نہیں لیکن ان کا کوئی سوراخ مل گیا ہو ،چاہے کتب زوائد میں یا تخریج میں ہو ان سب کا اضافہ بھی کیا ہے۔رہی بات احادیث کی شروحات یا کتب فقہ وتاریخ وتفسیر وجرح وتعدیل یا کتب ادب ہو جن کی تعداد(111) ہےان کا ذکر بھی ہم نے تخریج کیلئے کیا ہے۔
۲۔مصادر الافارد المستوعبۃ:
اس سے مراد یہ ہے کہ جب باحثین نے ان تمام مصادر کو پڑھا لیکن اس میں سے ایسی معروف احادیث جو منفرد ہیں ان مصادر میں اپنی روایت کے ساتھ یا وہ قسم اول میں نہیں پائی جاتی ان کو اس مصدر میں ذکر کیا ۔
المنھج المتبع فی تبویب المدونۃ:
۱۔ اس مدونۃ میں ہم نے احادیث کو موضوعات و ابواب کی ترتیب پر جمع کیا ہے لیکن حروف تہجی کی ترتیب میں جمع نہیں کیا اس کے مختلف اسباب ہیں۔
بعض اوقات ایک حدیث اپنے متن کے ساتھ مروی ہوتی ہے لیکن اس کا پہلا حرف مختلف ہوتا ہےاور یہ خاص فعلی احادیث میں ہوتا ہے اور ایک حرف سے بحث کرنے والا بعض اوقات اس طرف خیال نہیں ہوتا کیوں کہ وہ حرف کے تحت مدرج ہوتی ہے اور احادیث سے مقصود اس پر عمل ہےجو کہ حاصل نہیں ہوتا لہذا زیادہ مناسب یہ ہے کہ اس کو ابواب کی ترتیب پر مدون کیا جائے اس لئےکہ یہ ترتیب احادیث کے معانی پر زیادہ دلالت کرتی ہے اور اس سے فائدہ زیادہ ہے۔
۲۔ اس کتاب میں ہم نے کتاب الایمان سے کتاب الفرائض تک جوامع و سنن کی ترتیب پر فہرس کو بھی شامل کیا ہے اور اس بات کا بھی الزام کیا ہے کہ ترجمۃ الابواب میں کتب ستۃ ہی کا لحاظ رکھا جائے۔یاان کے نام کے ساتھ دوسری کتب کا بھی لھاظ رکھا جائے الا یہ کہ ہمیں کوئی ترجمہ مناسب نہیں ملا تو ہم نے اسکو اپنی طرف سے وضع کیا ہے۔
۳۔مدونۃ کو مختلف کتابوں و ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے جیسے کتاب الایمان اور باب فی القدر والایمان بہ اور ان کی فروعات کو بھی شامل کیا ہے۔ جیسے ماجاء فی القلب وانہ بید اللہ یقلبہ کیف یشآء
۴۔مدونۃ کی ابتداء انما الاعمال بالنیات سے کی ہے صحیح البخاری کی اقتدا میں پھر ہم نے کتاب الایمان سے شروع کیا ہے جوامع کی ترتیب پر۔
۵۔بعض اوقات ایک حدیث کے متعلق بہت سارے ملے ان کو متعلق کردیا بنیادی موضوع کے ساتھ۔
۶۔یہاں بہت ساری جامع احادیث جو بہت کثیر موضوعات پر مشتمل ہیں لیکن کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دی جاسکتی تو اسکو ایک الگ کتاب کے عنوان کے تحت (کتاب الجامع) کے نام سے موسوم کیا ہے۔
۷۔ترجمہ کرتے وقت اس بات کا بھی خیال رکھا گیا ہے کہ وہ کسی فقہی مذہب یا کسی خاص عقیدہ کے تابع نہ ہو-
۸۔اس مدونہ میں ہم نے تمام احادیث کی اسناد کو بھی ذکر کیا ہے جبکہ کتاب فردوس الاخبار للدیلمی میں اسناد کا ذکر نہیں ہے ۔جبکہ ان کے بیٹے نے ان تمام احادیث کی اسناد کو ذکرمسند الفردوس میں کیا تھا وہ کتاب طبع نہیں ہوئی لیکن حافظ ابن حجر اور علامہ سیوطی ؒ نے مسند الفردوس کو مسند کہا ہے اور محدثین کی تعداد کو بھی ذکر کیا ہے جیسے حافظ ابن حجر ؒ اپنی کتاب (زہرالفردوس)کیا ہے۔پس اگر ہم احادیث دیلمی کی اسناد پر مطلع ہوئے یا کسی اور محدث نے اسکو ذکر کیا تو ہم نے اسکو اس کے مناسب باب میں ذکر کیا ہے۔بہرحال وہ احادیث جن کی اسنادنہیں ملی یا کسی نے ذکر نہیں کی انکو ہم نے مسند احادیث میں ذکر نہیں کیا ۔
احادیث کے اختیار کرنے کا منہج:
۱۔اس مدونۃمیں ہم نے مرفوع احادیث پر ہی اکتفاء کیا ہے اور وہ احادیث جن میں اقوال،افعال،تقریر یا صفت وحال کی اضافت نبی کریم کی طرف کی گئی ہو انکو مرفوع احادیث کہا جاتا ہے۔ اور وہ احادیث جو صحابی پر موقوف ہو ان کوذکر نہیں کیا سوائے دو حالتوں کے :
۱۔اگر کوئی حدیث مرفوع و موقوف روایت کی گئی ہو تو اسکے طرق موقوفہ کو طرق مرفوعہ کے ساتھ بیان کیا ہے۔
ب۔یا اس بات کی وضاحت ہو جائے کہ یہ حدیث موقوفہ مرفوعہ کے حکم میں ہے۔
۲۔اس مدونۃ سے مقصود یہ ہے کہ وہ تمام احادیث جو نبی کریم سے مروی ہو ان پرعالمی (common)نمبر لگایا جائے ۔ اور یہ مدونہ احادیث مرفوعہ یا حسن پر مشتمل نہیں بلکہ اس میں تمام مرویات شامل ہیں چاہے صحیح ہو یا حسن ،ضعیف ہو یا منکریا معلل حتی کہ جن احادیث کے بارے میں محدثین میں اختلاف پایا جاتا ہو یا بعض ناقدین نے ان پرکچھ کلام کے ساتھ موضوع کا حکم لگایا ہے ان کو بھی شامل کیا ہے۔
الحدیث المختار و الطریق الاجمع کی مراد:
۱۔حدیث المختار سے مراد وہ حدیث جسکو ہم نے اس کے کامل سند کے ساتھ ہر باب کے شروع میں ذکر کیا ہے ۔
الطریق الاجمع سے مراد وہ طریقہ جسکی تفصیل زیادہ ہو اس حدیث میں چاہے وہ صحابی سے مروی ہو حدیث مختار ہو یا کوئی اور ہو۔
۲۔بعض اوقات ایک حدیث کا متن بہت سارے صحابہ سے مروی ہوتا ہے اور یہ روایت محدیثین کی اصطلاح میں الگ الگ حدیث شمار کی جاتی ہے۔اسی وجہ سے ہم نے تمام صحابہ کی تمام روایات مع ان کے طرق کیا ساتھ جمع کی ہیں اور اس میں صرف اس سند کا انتخاب کیا ہے جو زیادہ قوی ہے۔اور اس کے اکثر طرق متن کے موافق ہو تو ہم نے ان کوالحدیث المختارکے باب میں ذکر کیا ہے اور کتب ستہ کی روایات کو دوسری پر مقدم رکھا ہے ۔پس اگر حدیث جو صحیحین میں ہو وہ ہمیشہ حدیث مختار ہی ہوگی۔اور اگر ان دونوں میں نہیں پائی گئی اور سنن اربع میں پائی گئی وہ حدیث مختار ہوگی ۔اور ہم نے اس بات کی بھی کوشش کی ہے کہ جو محدثین کے حکم کی بنیاد پر اقویٰ احادیث ہیں انکو اختیار کریں۔
۳۔الحدیث المختار کی تعین کے بعد ہم نے سب سے پہلے اس کے متن کو اسناد کے ساتھ لکھا ہے اور اس پر خاص نمبر لگایا ہے پھر اسی دوران اگر ہم نے احادیث مذکورہ کی تفصیل تلاش کی یا کوئی اور طرق حاصل ہوئے چاہے صحابی کی حدیث مختار ہو یا کوئی اور تو ہم نے اس کے متن کو اسناد کے ساتھ الطرق الاجمع کے عنوان کے تحت لکھ دیا۔
طرق کے ذکر کرنے کا منہج:
الحدیث المختار اور الطرق الاجمع کے ذکر کے بعد الطرق الاخریٰ لحدیث کے عنوان کے تحت ہم نے وہ احادیث جو دوسرےطرق سے دوسری کتابوں میں صحابی سے براہ راست مروی ہیں ان کو ذکر کیا ہے۔لیکن تما م طرق کے متن کو تکرار کی وجہ سے ذکر نہیں کیا اور اگر الحدیث المختار اور الطرق الاجمع کے بارے میں کوئی فائدہ محسوس کیا تو اسکو اپنے اس قول وفیہ کذا ،وفی اولہ کذا ،وفی آخرہ کذا سے شروع کیا،اور اگر اسکا اسلوب طریق المختار سے جدا ہو تو اسکو اس قول ولفظہ کذا سے ذکر کیا ہے پھر ہم نے اسناد کی جہت سے جو حکم ہے اسکو بھی ذکر کیا ہے۔
شواہد کے ذکر کرنے کا منہج:
جب کسی حدیث کا متن کسی دوسرے صحابی سے مروی ہو تو وہ متن کے اعتبار سے حدیث المختار ہے اور کسی اور جہت سے کسی دوسرے صحابی سے مروی ہو تو وہ محدثین کی اصطلاح میں مختلف حدیث ہوتی ہے۔لہذاٰ ہر ایک کو دوسرے کا شاہد اعتبار کیا جاتا ہے ۔ دونوں جہتوں کا اعتبار کرتے ہوئے ہم نے دوسرے صحابہ کی روایات کو شواہد کے عنوان کے تحت ذکر کیا ہے اور ہر صحابی کی روایت پر خا ص فرعی نمبربھی لگایا ہے۔
مثلا: انما الاعمال بالنیات مروی ہے صحیحین میں عمر بن خطابؓ سے یہ حدیث اول ہے اس مدونہ میں اور یہ حدیث مختار ہے اسکا نمبر (1)ہے۔پھر اس کے 34 طرق ذکر کئے ہیں ۔حدیث عمر بن خطاب اپنے تمام طرق کے سا تھ حدیث نمبر1 ہے ۔لیکن جب یہ حدیث ابی سعید خدریؓ سے مروی ہے حلیۃ الاولیا ءلابی نعیم میں تو اسکا نمبر1/1 اسی طرح یہ تاریخ دمشق لابن عساکر میں بھی پائی گئی ہے حضرت انسؓ سے اسکا نمبر/ 12،اسی طرح ابو درداءؓ سے روایت ہے، معجم الکبیر للطبرانی میں اسکا نمبر3/1،اسی طرح حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے حاکم کی تاریخ نیشاپوری میں اسکا نمبر4/1ہے،حضرت علی بن ابی طالب سے محمد بن یاسر الجیانی کے نزدیک ہے اسکا نمبر5/1،حضرت ہزال بن زید اسلمیؓ مروی ہے حاکم کے نزدیک اسکا نمبر6/1 ،محمد بن ابراہیم بن حارث ؒ سے مرسلا روایت ہے ابن بکار نے اسکو خصائص مدینہ میں ذکرکیا ہے اسکا نمبر7/1 ہے ۔
الحاصل یہ ہے کہ حدیث مختار اپنے تمام طرق کے ساتھ نمبر ا پر ہے اور اس کے تمام شاہد اسی نمبر کے تحت فروعی نمبر کے ساتھ ہیں۔
احادیث اور اسکے طرق کو ذکر کرنے کی ترتیب: ۱۔ترتیب احادیث چاہے عالمی نمبر ہو یا فرعی نمبر ہو کسی بھی عنوان کے تحت ہو اس میں ہم نے صحاح الستہ(صحیح البخاری،صحیح المسلم ،سنن النسائی،وسنن ابی داود،جامع الترمذی ، سنن ابن ماجہ) کو مقدم رکھا ہے ۔پھر ہم نے احادیث کو اسکے مصادرکی ترتیب کے اعتبار سے ذکر کی ہے۔
۲۔حدیث مختار و شواہد کے ذکر میں ہم نے کتاب کے مولف کا اعتبار کیا ہے سوائے کتب ستۃ کے یعنی جس مولف کی سنہ وفات مقدم ہے اسکو مقدم رکھا ہے اور جسکی موخر ہے اسکو موخر رکھا ہے مگر بعض جگہ پر ہم نے مسند کو مرسل پر یا مرفوع کو موقوف پر مقدم کیا ہے۔[21]
خلاصہ:
زمانہ قدیم سے ہی ہر فن کے اہل علم کی یہ کوشش رہی کہ وہ مختلف علوم کو کسی طرح محفوظ کریں ،اس کے لیے مختلف زمانوں میں مختلف کام ہوئے لیکن ان میں سب سے اعلی کام موسوعات کی تیاری ہے ۔اور ہر زمانہ میں مختلف فنون کے انسائیکلوپیڈیا تیار کیے گئے ۔چناچہ علوم اسلامیہ میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا اور مختلف علوم کے حوالہ سے انسائیکلوپیڈیا تیار کیے گئے ان میں زیادہ تر نمایاں احادیث کے انسائیکلوپیڈیا ہیں ۔چناچہ احادیث کی جمع وتدوین کا سلسلہ تو تیسری صدی سے ہی شروع ہو گیا تھا اور مختلف محدثین نے اس میدان میں اپنی صلاحیتوں کو صرف کیا اور احادیث کی مختلف کتابیں اور حدیث سے متعلق تمام فنون کو مدون کیا لیکن اس کے باوجود ایک اہم کام یہ تھا کہ تمام احادیث کی کتب کو ایک جگہ یکجا جائے تاکہ حدیث تلا ش کرنے میں کسی کو دقت پیش نہ آئے ،لیکن یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی اس کام کے لیے اللہ تعالی نے کچھ لوگوں کا انتخاب کیا اور انہوں نے اپنی کوشش کے مطابق تمام احادیث کے ذخیرہ کو مدون کیا ان میں سر فہرست جمع الجوامع ،کنز العمال ،المسند الجامع، موسوعہ جامعۃ للاحادیث الضعیفہ والموضوعۃ اور المدونۃ الجامعۃ شامل ہیں۔
This work is licensed under an Attribution-NonCommercial 4.0 International (CC BY-NC 4.0)
حوالہ جات
- ↑ مسعود ،جبران،الرائد معجم لغوی عصری،دارالعلم للملایین،طبعۃ جدیددۃ 1992 ص781
- ↑ کیرانوی،قاسمی وحید الدین مولانا،قاموس الوحید ،ادارہ اسلامیات لاہور،1423ھ،2001،ص 1849
- ↑ انیس ابراہیم،المعجم الوسیط، مجمع اللغۃ العربیۃ ،مکتبۃ الشروق الدولیۃ، 2004ص 1037
- ↑ vikipedia از ماخوز موسوعۃ المورد ،بعلبک منیر،دارالعلم للملائین،1980ء
- ↑ القاسمی ،الخیر آبادی،محمد ابو اللیث،تخریج الاحادیث،اتحاد بک ڈپو،1425ھ-2004ء،ص129
- ↑ عمری ،ضیاء، اکرم، بقی بن مخلد القرطبی،دار النشر السعودیہ،1404ھ-1984ء،ص478
- ↑ حسن ،سہیل،معجم اصطلاحات حدیث،ادارہ تحقیقات اسلامی بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد،2013،ص
- ↑ شائق احسان اللہ مفتی،اردو ترجمہ کنز العمال،داراالاشاعت ،2009،ج 1،ص63
- ↑ السیوطی جلال الدین علامہ،جمع الجوامع،الازہر شریف دارالسعادہ للطباعۃ 1426ھ-2005،ج1،ص38
- ↑ الکتانی ،سیدمحمد بن جعفر،الرسالۃ المستطرفۃ دارالبشائر الاسلامیۃ،1414ھ-1993،ص182
- ↑ الکتانی،عبد الحی بن عبد الکبیر،فہرس الفہارس والاثبات، دارالغرب الاسلامی بیروت،ص1017
- ↑ المقبلی،صالح بن مہدی،العلم الشامخ ،مکتبۃ شیخ الاسلام حسن حسینی آفندی،1328،ص392
- ↑ السیوطی جلال الدین علامہ،جمع الجوامع،ج1،ص44
- ↑ شائق احسان اللہ مفتی،اردو ترجمہ کنز العمال،ج1 ص51
- ↑ حوالہ سابقہ ص60
- ↑ حوالہ سابقہ،ص63
- ↑ مقدمہ المسند الجامع،دارالجیل بیروت،طبع اول 1413ھ-1993ء ج1،ص6
- ↑ حوالہ سابقہ،ص9
- ↑ حوالہ سابقہ ص6
- ↑ الحلبی علی حسن علی ،موسوعۃ الاحادیث والاثار الضعیفۃ والموضوعۃ،مکتبۃ المعارف للنشر والتوزیع الریاض،1419ھ-1999ء ج1 ص23-48
- ↑ عثمانی تقی مفتی،المدونۃ الجامعۃ ،دارالمعارف ،ج1 ص15 تا 20
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2020 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |