2
2
2018
1682060029185_1079
216-228
https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/43/340
https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/43
Reformation Jurisprudence Services Commentary Qari Muhammad tayyab scholar Writer preacher
حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ[https: //ur. wikipedia. org/wiki/1315%DA%BE 1315ھ]، مطابق[https: //ur. wikipedia. org/wiki/1898%D8%A1 1898ء]میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تاریخی نام مظفرالدین ہے۔7سال کی عمر میں دار العلوم میں داخل ہوئے، ممتاز بزرگوں کے عظیم الشان اجتماع میں مکتب نشینی کی تقریب عمل میں آئی۔ دوسال کی قلیل ترین مدت میں قرآن مجید قرأت وتجوید کے ساتھ حفظ کیا، پانچ سال فارسی اور ریاضی کے درجات میں تعلیم حاصل کرکےعربی کا نصاب شروع کیا ۔ دوران تعلیم میں امام المحدثین علامہ [https: //ur. wikipedia. org/wiki/%D8%A7%D9%86%D9%88%D8%B1_%D8%B4%D8%A7%DB%81_%DA%A9%D8%B4%D9%85%DB%8C%D8%B1%DB%8C انور شاہ کشمیر]یؒ اور پھر حکیم الامت مولانا [https: //ur. wikipedia. org/wiki/%D8%A7%D8%B4%D8%B1%D9%81_%D8%B9%D9%84%DB%8C_%D8%AA%DA%BE%D8%A7%D9%86%D9%88%DB%8C اشرف علی تھانوی]ؒ نے اعلی پیمانے اور مخصوص طریق پرآپ کی تعلیم وتربیت کی، حدیث کی خصوصی سند آپ کو وقت کے مشاہیر علما و اساتذہ سے حاصل ہوئی ۔[https: //ur. wikipedia. org/wiki/1931%D8%A1 1931ء]میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ سے خلافت حاصل ہوئی۔اساتذہ میں مشہور علمائے دین علامہ [https: //ur. wikipedia. org/wiki/%D8%A7%D9%86%D9%88%D8%B1_%D8%B4%D8%A7%DB%81_%DA%A9%D8%B4%D9%85%DB%8C%D8%B1%DB%8C انور شاہ کشمیری]ؒ، عزیزالرحمٰن عثمانیؒ، حبیب الرحمٰن عثمانیؒ، علامہ [https: //ur. wikipedia. org/wiki/%D8%B4%D8%A8%DB%8C%D8%B1_%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%AF_%D8%B9%D8%AB%D9%85%D8%A7%D9%86%DB%8C شبیراحمدعثمانی]ؒ اورمولانااصغر حسینؒ جیسےجیدعلماء شامل ہیں۔علوم کی تکمیل کے بعد آپ نے[https: //ur. wikipedia. org/wiki/%D8%AF%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D9%84%D8%B9%D9%84%D9%88%D9%85_%D8%AF%DB%8C%D9%88%D8%A8%D9%86%D8%AF دارالعلوم دیوبند]میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا، ذاتی علم و فضل، ذہانت و ذکاوت اور آبائی نسبت و وجاہت کے باعث بہت جلد طلبہ کے حلقے میں آپ کے ساتھ گرویدگی پیدا ہو گئی، اوائل 1341ھ مطابق[https: //ur. wikipedia. org/wiki/1924%D8%A1 1924ء]میں نائب مہتمم کے منصب پر آپ کا تقرر کیا گیا، [https: //ur. wikipedia. org/wiki/1928%D8%A1 1928ء]تک آپ اپنے والد ماجد مولانا محمد احمدؒاور مولانا حبیب الرحمٰنؒ کی زیر نگرانی ادارۂ اہتمام کے انتظامی معاملات میں حصہ لیتے رہے، [https: //ur. wikipedia. org/wiki/1929%D8%A1 1929ء]میں مولانا حبیب الرحمٰن ؒکے انتقال کے بعد آپ کومہتمم بنایا گیا۔ سابقہ تجربۂ اہلیت کار اور آبائی نسبت کے پیش نظر یہ ثابت ہوچکا تھا کہ آپ کی ذات میں اہتمام دار العلوم کی صلاحیت بدرجۂ اتم موجود ہے۔ چنانچہ مہتمم ہونے کے بعد آپ کو اپنے علم و فضل اور خاندانی وجاہت و اثر کی بنا پر ملک میں بہت جلد مقبولیت اور عظمت حاصل ہو گئی، جس سے دار العلوم کی عظمت و شہرت کو کافی فوائد حاصل ہوئے۔ آپ حدیث کی اونچی اونچی کتابیں پڑھاتےتھے۔1339ھ میں آپ شیخ الہند مولانا[https: //ur. wikipedia. org/wiki/%D9%85%D8%AD%D9%85%D9%88%D8%AF_%D8%A7%D9%84%D8%AD%D8%B3%D9%86 محمود الحسن]ؒ سے بیعت ہوئے۔ ان کےوصال کےبعد 1350ھ میں حکیم الامت مولانا[https: //ur. wikipedia. org/wiki/%D8%A7%D8%B4%D8%B1%D9%81_%D8%B9%D9%84%DB%8C_%D8%AA%DA%BE%D8%A7%D9%86%D9%88%DB%8C اشرف علی تھانوی]ؒ نے آپ کو خلافت سے نوازا۔
آپ نے اپنی زندگی کے آخری ایام تک ملت اسلامیہ کےلیے خدمات انجام دیں۔ [https: //ur. wikipedia. org/wiki/1980 1980ء]میں جشن آغاز دار العلوم دیوبند کے بعد حکیم الاسلام قاری محمد طیب ؒکی صحت بہت تیزی سے بدلنے لگی۔ پیرانہ سالی اور ضعف کے باوجود آپ اپنی قیام گاہ پر لوگوں سے ملاقات فرماتے تھے۔ بالآخر یوم اجل آ گیا او1980ءر 17[https: //ur. wikipedia. org/wiki/%D8%AC%D9%88%D9%84%D8%A7%D8%A6%DB%8C جولائی] [https: //ur. wikipedia. org/wiki/1983%D8%A1 1983]مطابق 6[https: //ur. wikipedia. org/wiki/%D8%B4%D9%88%D8%A7%D9%84 شوال][https: //ur. wikipedia. org/wiki/1403%DA%BE 1403ھ] بروز اتوار آپ اپنے اعمال حسنہ کی جزاء پانے کےلیے داعئ اجل سے جاملے۔ آپ کی نماز جنازہ دار العلوم دیوبند کے احاطہ میں آپ کے صاحبزادے حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی نے پڑھائی۔آپ کے جسد خاکی بانئ [https: //ur. wikipedia. org/wiki/%D8%AF%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D9%84%D8%B9%D9%84%D9%88%D9%85_%D8%AF%DB%8C%D9%88%D8%A8%D9%86%D8%AF دارالعلوم دیوبند]حجۃالاسلام مولانا[https: //ur. wikipedia. org/wiki/%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF_%D9%82%D8%A7%D8%B3%D9%85_%D9%86%D8%A7%D9%86%D9%88%D8%AA%D9%88%DB%8C محمد قاسم النانوتوی]ؒ کےقریب سپردخاک کیا گیا[1]۔
خطابت و تقریرکی طرح تحریر و تصنیف پر بھی کمال قدرت حاصل تھی، آپ کی تصانیف کی تعداد کافی ہے۔ جن میں التشبہ فی الاسلام، مشاہیر امت، کلمات طیبات، اطیب الثمرفی مسئلۃ القضاء والقدر، سائنس اور اسلام، تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام، مسئلۂ زبان اردو ہندوستان میں، دین و سیاست، اسباب عروج و زوال ِ اقوام، اسلامی آزادی کا مکمل پروگرام، الاجتہاد والتقلید، اصول دعوتِ اسلام، اسلامی مساوات، تفسیر سورۂ فیل، فطری حکومت وغیرہ کافی مشہور ہیں۔ اس مقالے میں ہم قاری محمد طیبؒ کے سیرت کے حوالے سے خدمات کا جائزہ لیتے ہیں۔
سیرت نبوی ﷺکی صحیح تعریف کے حوالے سے حکیم الاسلام ؒ لکھتے ہیں کہ: 12ربیع الاول کو ایک ذات مقدس کو اللہ تعالیٰ نے نمایاں کیا کہ اس سے زیادہ حسین و جمیل ذات نہ پہلے عالم میں پیدا ہوئی تھی نہ بعد میں پیدا ہوگی ۔ایک کامل نقشہ انسانیت کا ایسا پیش کیا گیا کہ اس زیادہ حسین و جمیل نقشہ دوسرا نہیں ہے اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جیسا سانچہ ہوتا ہے ویسی ہی اس میں چیز ڈھلی ہوتی ہے، سانچہ مکمل ہے تو جو چیز ڈھلے گی وہ بھی مکمل ہوگی، سانچہ اگر بے پیندہ کا ہے تو جو اس میں ڈھالو گے وہ بھی بے پیندہ کا ہوگا تو جب سراپا قدوقامت اور نقشہ، قلب مکمل تھا تو حقیقت بھی تو اتنی ہی مکمل آنی چاہئے تھی، اس لئے جیسا جمال بے نظیر تھا، ویسا ہی کمال جو اس میں بھراہواتھا، وہ بھی بے نظیر تھا ۔اس کمال ہی کا نام سیرت نبوی ﷺ ہے، اسی کمال سے آپ ﷺ کی عادتیں آپ ﷺ کے افعال، آپ ﷺ کے خصائل پیداہوئے ۔تو ایک ہے شمائل، شمائل کہتے ہیں ظاہری خصائل کو اور خصائل کہتے ہیں باطنی خصلتوں کو، یعنی اخلاق کو، عادات کو، کمالات کو، تو جب شمائل اعلیٰ ہوگے، نقشہ بے نظیر تھا تو جو چیز ڈھلی ہوئی تھی وہ بھی بے نظیر تھی، تو جیسے صورت اعلیٰ تھی، سیرت بھی اعلیٰ تھی، اس واسطے میں نے عرض کیا صورت خود مقصود نہیں ہوتی، صورت سیرت کے دکھلانے کا آئینہ ہوتی ہے، صورت پہچاننے کا ذریعہ ہو تی ہے، کسی شخص کو دیکھ کر جب آپ پہچانتے ہیں تو صورت دیکھ کر ہی پہچانتے ہیں کہ یہ کون شخص ہے یعنی اس کی حقیقت کیسی ؟تو پہلا ذریعہ پہچاننے کا صورت ہے تو ذریعہ تعارف ہے صورت، حقیقت میں جو چیز پہچاننے کی ہے، وہ ہے جو صورت کے اندر ڈھلی ہوتی ہے، اس کا نام سیرت ہے تو صورت محمدی ﷺ سیرت محمدی ﷺ کا پہچاننے وسیلہ بنی، دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہئے کہ ولادت جسمانی زریعہ بنی، ولادت روحانی پہچاننے کا کہ اس ذات کو ظاہرکیا جائے، اس ذات سے دنیا کے لئے پھر کمالات نمایاں ہوں تاکہ دنیا ان کمالات پر چل کر خود سعادت حاصل کرے ۔
حضور ﷺ کی ولادت طیبہ کا ذکر حقیقۃً عین عبادت ہے، اور اللہ کے نزدیک بڑی بھاری اطاعت اور قربت ہے اور سارے کمالات وبرکات کا سرچشمہ ہے، اس لئے میلاد النبی ؐکا تذکرہ ایک عظیم نعمت ہے، جو مسلمان کو عطا کی گئی۔ لیکن میں ولادت کے بجائے حضورﷺ کی دو ولادتوں کا ذکر کروں گا۔ممکن ہے کہ آپ کو یہ سن کر حیرت ہو کہ ولادت تو ایک ہی ہوتی ہے، پیدائش ایک مرتبہ ہوتی ہے تو دو ولادتیں کیسی؟ لیکن میری گزارشات کے بعد آپ کو معلوم ہوگا کہ حقیقۃ نبی کریم ﷺ کی دو ہی ولادتیں ہوگئیں۔ ایک ولادت باسعادت تو 12 یا 8، ربیع الاول کو علی اختلاف الاقوال ہوئیں، اور ایک ولادت حضورﷺ کی چالیس برس کے بعد ہوئی، یعنی روحانی ولادت، جب سے آپ نبی اور پیغمبر کی حیثیت سے دنیا میں ظاہر ہوئے، 12 ربیع الاول کو ولادت جسمانی ہوئی اور 40برس بعد ولادت روحانی ہوئی جس کو ہم نبوت سے تعبیر کریں گے12ربیع الاول کو حضورﷺ کا جمال دنیا میں ظاہر ہوا اور چالیس برس کے بعد حضورﷺ کا کمال دنیا میں ظاہر ہوا ۔ تو ایک جمال کی حیثیت سے ولادت ہے اور ایک کمال کی حیثت سے ولادت ہے، دونوں ولادتوں میں ہمارے لئے ان کا ذکر عبادت اور طاعت ہے، حضورﷺ کا دنیا میں جمال ظاہر ہونا یہ بھی عالم کیلئے عظیم ترین نعمت ہے، اور آپ ﷺ کا کمال دنیا میں ظاہر ہونا یہ اس سے بھی بڑی نعمت ہے جو اللہ نے ہمیں عطاء فرمائی ہیں ۔تو جمال محمدی وہ بھی ایک ایسی امتیازی شان رکھتے ہیں کہ دنیا میں اتنا بڑا جمیل اور صاحب جمال پیدا نہیں ہوا جتنا کہ نبی کریم ﷺ جمال والے تھے، اور اتنا بڑا باکمال بھی کوئی پیدا نہیں ہوا کہ جتنے کمال والے آپ ﷺ تھے، تو دونوں ولادتیں امتیازی شان رکھتی ہیں، نہ ولادت، جسمانی کی نظیر ہے، نہ ولادتِ روحانی کی نظیر ہے، فرق اتنا ہے کہ 12ربیع الاول کو ہمارے سامنے ظہور ہوا محمد بن عبداللہ کا اور40 برس کے بعد ظہور ہوا محمد رسول اللہﷺ کا، اس وقت آپ ابن عبداللہ کی حیثیت سے دنیا میں آئے اور چالیس برس کے بعد رسول اللہ کی حیثیت سے دنیا میں تشریف لائے[2]۔
نفس میلاد شریف کا ذکر تو سراپا خیروبرکت کا باعث ہے اللہ تعالی کی جانب سے اجر وثواب کی قوی امید بھی ہے اس پر ذکر میلاد تو اپنی جگہ پر ہمارے (علماء دیوبندکے) نزدیک تو آپ ﷺکےنعلین اورخاک پاکاذکربھی زبردست اجروثواب کاباعث ہےچنانچہ قاری صاحؒب میلاد النبی ﷺ کی حقیقت میں رقم طراز ہے کہ:
میری حیرت کی اس وقت کوئی انتہاء نہیں رہتی جب دیکھتا ہوں کہ میلاد نبوی جوعبدیت کاملہ کی ایک کھلی دلیل تھی یا ذکرمیلادجو آپ کی ذکر عبدیت کاواقعی مرادف تھاقوم نے آج اسی ذکر کو آپ کی الوہیت کے اثبات کا ذریعہ بنالیا اور بعض مجالس میلاد میں آپ کے ایسی صفات ثابت کرنی شروع کردیں جو آپکو عبودیت سے نکال کر معبودیت کے رنگ میں نمایاں کردیں تعجب ہے جو چیز اظہار عبودیت پر ایک واضح دلالت تھی آج اسی چیز کو اظہار معبودیت کا ذریعہ بنایا جارہاہے پھر جب کہ اس قوم نے آپ کے لئے اوصاف معبودیت ثابت کرنے کا ارادہ کیاتوانہیں لامحالہ ذکر میلاد میں اپنی طرف سے ایسی قیود وشرائط بھی اضافہ کرنے پڑے جس سے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں کیونکہ نفس ذکر میلادبلاکسی اختراعی قید وشرط کے کسی بھی طرح آپ کی معبودیت کی دلیل نہیں بن سکتا بلکہ صرف عبدیت کی ۔رہامطلقا ذکر میلاد جو ان قیود وشروط سے مبرا ہواجروثواب سے خالی نہیں بلکہ ایک زبردست فضیلت ہے اور آپ کےمیلاد کا ذکر تو بہت بڑی چیز ہے ہمارے نزدیک تو آپ کی نعلین اور خاک پاکا ذکر بھی بڑے بڑے اجور وثواب کےذخیرے اپنے اندر رکھتا ہے [3]۔
ولادت جسمانی کا راز:
قاری صاحبؒ نے آپ کے ولادت شریفہ کو دو اقسام پر تقسیم کیا ہے ۔ولادت جسمانی اورولادت روحانی۔ ولادت جسمانی کا مقصد جہاں ایک طرف آپ کے ولادت روحانی کے لئے ایک تمہید اور مقدمہ کی حیثیت رکھتی ہیں وہی اس ولادت جسمانی کے ذریعے مخلوق خدا کے ذہنوں میں آپ کے مخلوقیت عبدیت اور بشریت کی حیثیت کو راسخ کرنا تھا اس لئے کہ آنحضرتﷺکی ولادت شریفہ اگر اگر مافوق العادت کسی طریقہ پر ہوتی یا آپ کے ساتھ کسی امتیازی سلوک کا برتاؤ کیا جاتا تو آپ ﷺ کو یہ مخلوق حضرت عیسیٰ ؑکی طرح خداکا بیٹا یا اللہ تعالیٰ کی صفات میں شریک بتاتے اس لئے آنحضرت ﷺ کی ولادت کو عام انسانی ولادت کی طرح رکھا گیا اس لئے کہ دنیا میں تلاش وتتبع بسیار کے بعد جن حضرات کے ساتھ الوہیت کا زعم باندھا گیا وہ اس وجہ سے تھا کہ ان کی پیدائش کسی غیر عادی طریقے سے ہوئی تھی جیسے حضرت عیسی ٰ ؑ، کہ ان کی ولادت اللہ تعالی نے عام عادی طریقہ کے بجائے غیر عادی طریقہ پر کیاس قوم نصاری آپ کے الوہیت کے دعویٰ دار بن گئے یا بعض لوگوں نے حضرت حواکے غیر عادی پیدائش کو دیکھ عورت کو لائق پرستش جاناکب ان بندگان خداکو جب کہ یہ بعض صفات کمال کا مظہراتم تھے ان پرالوہیت کا دعوی کیا گیا تو آپ ﷺ جو اللہ تعالی کے تمام صفات کمال مظہر اتم ہیں آپ ﷺ کے بارے میں بطریقہ اولیٰ اس بات کا احتمال تھا کہ اگر آپ کی ولادت کسی غیر عادی طریق پر ہوتی تو آپ مسجود ومعبود خلائق ہوتے اس لئے کہ ایک طرف تو آپ اللہ جل جلالہ کے صفات کمال کا مظہر اتم تھے اور آپ ﷺ کی یہ فرامین عالیہ ہوتے کہ: اول ما خلق نوری کنت نبیا وآدم بین الماء والطین[4] یا اناسید ولد آدم ولا فخر[5] اور دوسری طرف آپ کی ولادت باسعادت کسی غیرعادی طریقہ کے ذریعہ ہوتی تو یقیناًآپ کی قوم نے آپ کو معبود اور خالق سمجھ لینا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ولادت جسمانی کے ذریعہ آپ کی عبدیت، مخلوقیت اور بشریت کے صفات نمایاں کئے اور آنحضرت ﷺ سے بھی مختلف مواقع پر اس کا اظہار کرایا گیا اور خود اللہ جل جلالہ نے بھی قران کریم میں آپ کو جابجا عبد کے صفت سے متصف کیا ہے۔چنانچہ قاری صاحبؒ رقم طراز ہےکہ: آنحضرت ﷺ کے عالم میں دوظہور ہوئے ایک من حیث الانسانیت اسی کو میلادجسمانی کہاجاتا ہے ایک من حیث الرسالت اس کو ہم نے میلاد معنوی یاشرعی سے تعبیر کیا ہے جو میلاد جسمانی کی غایت اور غرض ہے اور میلادکی وجہ واضح کرچکے کہ آپ کیلئے مخلوقیت عبدیت اور بشریت کا اثبات تھا ورنہ آپ کی ذات عبدیت اورمعبودیت کے درمیان ایک نقطہ اشتباہ بن جاتی جس سےتوحیدکےبجائےشرک کی جڑیں اورزیادہ مضبوط ہوجانےکا احتمال تھا[6]۔
ولادت روحانی کا راز:
میلاد معنوی یا میلاد شرعی یعنی آنحضرت ﷺ کا دنیا کی طرف مبعوث ہونا اس کا مقصد یہ ہے کہ عالم انسانیت کی اصلاح اور تہذیب نفس اور خالق اور مخلوق کے درمیان تعلق کو قائم کرنا یہ جب ہی ممکن ہے کہ لوگوں کے دلوں میں آنحضرت ﷺکی محبت اور عظمت قائم اور عالم انسانیت آپ ﷺکی کامل اطاعت کرے اور آنحضرت ﷺکی ہربات کوبلا چون وچرا تسلیم کرے اس سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺکیلئےمطاعیت اور مخدومیت کا پیغام یہی دوسری ولادت یعنی بعثت کے ذریعہ دیا گیا ہے آپ ﷺمن حیث الانسان واجب الاتباع نہیں ہے بلکہ من حیث الرسالت آپ ﷺکی اتباع اور اطاعت واجب ہے محض ذاتی حیثیت سے صرف حق تعالی جل مجدہ کی ذات ہی واجب الاطاعت ہے اس لئے قرآن کریم میں جب انسانیت کو دین کی اطاعت پر برانگیختہ کیا تو تین قسم کی اطاعتوں کا حکم انسانیت کو دیا گیا ارشاد ربانی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأمْرِ مِنْكُمْ ۔[7]
ترجمہ: اے ایمان والوں اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اللہﷺ کی اطاعت کرو اور اولوالامر لوگو ں کی اطاعت کرو۔
اس آیت مبارکہ میں تین قسم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہیں ایک اللہ تعالیٰ کی اطاعت کہ من حیث الذات جو ذات مطاع مطلق کی حیثیت رکھتا ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات عالی ہے اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت بھی من حیث الرسالت واجب ہے کہ جب آنحضرت ﷺکو رسالت ملی تو اب آپ ﷺ کی اتباع تمام انسانیت پر واجب ہیں البتہ رسالت سے پہلے آپﷺکی اطاعت واجب نہیں ہے رسالت ملنے کے بعد بھی اگر آپﷺ نے ذاتی حیثیت سے کوئی مشورہ دیا تو واجب الاطاعت نہیں ہے جس کا ذکر آپ ﷺ نے بار بار احادیث مبارکہ میں کیا اور تیسری اولوالامر کی اطاعت (علماء ربانین اور حکام) کی اطاعت اس حثییت سے واجب ہیں کہ وہ احکام الہیہ کی تنفیذ اور اشاعت کا کام کرتے ہو چنانچہ حضرت قاری صاحب فرماتے ہیں: حاصل یہ کہ رسول اللہﷺکے حقوق جو امت پر عائد ہوتے ہیں تین حقوق بنیادی ہیں محبت عظمت اور متابعت اگر انسان عاشق رسول ہے مگر عظمت نہیں رکھتا تووہ یقینااتلاف حقوق کا مرتکب ہے عظمت وبڑائی رکھتا ہے مگر محبت نہیں رکھتا تو وہ بھی حق تلف ہے اور اگر محبت وعظمت رکھتا ہے اور متابعت نہیں رکھتا تو وہ بھی حق تلف ہے ادائے حقوق کی صورت اس کے سوا اور کوئی نہیں کہ حضورﷺ کی محبت، عظمت اور متابعت سے بیک وقت اس کا قلب اور قالب منور ہو اور اسکی صورت یہی ہوسکتی ہے کہ ذکررسول ﷺ کے سلسلے میں وہ محض ذکر ولادت جسمانی پر قناعت کرکے نہ بیٹھ جائے بلکہ ذکر ولادت روحانی اس سے زیادہ کرے تاکہ طریقہ نبوت کا عملی پروگرام ہمہ وقت اس کے سامنے رہے اس کا مطلب ذکرمیلاد جسمانی کرے تو اپنی طرف سے اختراعی قیود کو لازم نہ کرے سادگی سے ذکر ولادت کرے[8]۔
آفتاب نبوت قار ی صاحبؒ کی ایک تصنیف ہے جوآپ نے آ نحضرت کی سیرت کے سلسلے میں تحیریر فرمائی ہیں ۔یہ کتاب، آیت وَدَاعِيًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِه وَ سِرَاجًا مُّنِيْرًا[9]میں سِرَاجًا مُّنِيْرًا کی تفصیلات ہیں یعنی ان دولفظوں سے سیرت کے تمام مقامات کو کھول کر بیان کیا گیا ہے یہ آیت تمام مقامات سیرت اور تفصیلات سیرت کیلئےبنیاد اورمحور ہے جس طرح کہ: [https: //www. facebook. com/%D9%88%D9%8E%D9%85%D9%8E%D8%A7-%D8%A2%D9%8E%D8%AA%D9%8E%D8%A7%D9%83%D9%8F%D9%85%D9%8F-%D8%A7%D9%84%D8%B1%D9%91%D9%8E%D8%B3%D9%8F%D9%88%D9%84%D9%8F-%D9%81%D9%8E%D8%AE%D9%8F%D8%B0%D9%8F%D9%88%D9%87%D9%8F-%D9%88%D9%8E%D9%85%D9%8E%D8%A7-%D9%86%D9%8E%D9%87%D9%8E%D8%A7%D9%83%D9%8F%D9%85%D9%92-%D8%B9%D9%8E%D9%86%D9%92%D9%87%D9%8F-%D9%81%D9%8E%D8%A7%D9%86%D9%92%D8%AA%D9%8E%D9%87%D9%8F%D9%88%D8%A7-171224506412155/?hc_ref=ARSKYRvRWY-cXCQtSJrE7a_ddDc8zjQ7yrzGlZGMpjXfb8uDYCctiFUwgRX6M8fl4xU&fref=nf وَمَا آَتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا][10]والی آیت محدثین کےنزدیک اوامر اور نواہی کے تمام احکام کے لئے بنیاد ہے اور تمام احکام کی ساری روایتیں اس ایک آیت کی تشریح اور بیان بن کر واقع ہو رہی ہیں اسی طرح وَدَاعِيًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِه وَ سِرَاجًا مُّنِيْرًا[11]کی آیت بھی تمام تر مقامات سیرت احادیث سیرت اور واقعات سیرت کیلئےمتن اور مأخذ کی حیثیت رکھتی ہیں یہ آیت ان تمام مقامات سیرت کیلئےبمنزلہ تخم کے ہے جن پر سیرت طیبہ کا شجرہ طیبہ سمایا ہوا ہے چونکہ حضرت عائشہؓ کے بقول جب آپ سے کسی نے آنحضرت ﷺ کے اخلاق فاضلہ کے بارے سوال کیا تو آپؓ نے جواب میں ارشاد فرمایا کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰنَ[12]، کہ آپ کے اخلاق قران ہے اور قرآن کریم کی شان لاتنقضی عجائبہ یعنی آپ کی سیرت اور قرآن کریم دونوں فی الواقع یک جان دو قالب کی مانند ہیں تو قراں کریم کی طرح آپ ﷺ کی سیرت کے عجائبات بھی ختم نہیں ہونگے جس طرح قیام قیامت تک امت مسلمہ قرآن کریم کی تفسیر و تشریح پر طبع آزمائیاں کرتی رہیں گی، اور ہر تفسیر میں اس کی نئی شان جلوہ گر ہونگے نئے نئے عجائبات امت مسلمہ کے سامنے کھلتے جائینگے اسی طرح سیرت مبارکہ میں قیامت تک طبع آزمائیاں ہوتی رہیں گی اور نئی نئی راہیں کھلتی محسوس ہوتی رہیں گی کہ یہ قرآن کریم اور آپ ﷺ کا ایک کھلا معجزہ ہے۔قاری صاحب کے نزد یہ آیت سیرت کی تمام تفصیلات کے لئے بنیاد اور مأخذ ہے اس آیت میں ایک طرف تو سیرت طیبہ کی تمام تر تفصیلات آجاتی ہیں اور دوسری طرف جن وجوہات کی وجہ سے آپ ﷺ کی سیرت کو سابقہ تمام مقدس انبیاء علیہم السلام کی سیرتوں پر برتری اور فوقیت حاصل ہے وہ تمام وجوہات اس آیت مبارکہ میں موجود ہے۔ قاری صاحبؒ کے نزدان مقامات سیرت اور سیرت طیبہ کی امتیازی خصوصیات کو قرآن کریم سے نکلتا ہوا دکھلانا اور قران کریم کی ایک مختصر آیت کی تمام تفصیلات سیرت کے لئے بنیاد اور مأخذ ہے۔ آپ کے نزد قرآن کریم صرف احکام اور اصول کیلئے دستور اور اساس نہیں ہے بلکہ سیرت اور مقام نبوت اور اخلاق نبوت کے لئے بھی بنیاد اور اساس ہے جس طرح احکام کی روایتیں آیات احکام کے لئے بیان واقع ہورہی ہیں اسی طرح سیرت طیبہ کی روایتیں اس آیت کے لئے توضیح اور بیان بن کر واقع ہورہی ہیں جب حضورﷺ کی سیرت کا مأخذ اور بنیاد قرآن کی آیت بن گئی ہے اور واقعات کا دلالت قرآنی کے نیچے آجانے سے سیرت کے تمام پہلووءں کی محض تاریخی حیثیت نہیں رہتی بلکہ ان میں قرآنی دلالت سے ایک گونہ قطعیت کی ایک شان آجاتی ہے، جس سے وہ تاریخ کی سطح سے بلند ہوکر استناد حجیت کے اعلےٰ مقام پر پہنچ جاتے ہیں، جو منکرین سیرت اور منکرین حدیث پر حجت بن جائیں گے اور عاشقان سیرت نبوت کیلئے انشراح کامل اور انبساط کا ذریعہ ثابت ہونگے اور ادھر قرآن کریم اعجازی شان اور اس کے معجزانہ بیان کی ایک بلیغ ترین مثال بھی سامنے آجائے گی، جس سے واضح ہو گا کہ قرآن کریم ان بے شمار حقائق کے ذخیروں کو جو دفترو ں میں نہیں سماسکتے وہ قرآن کریم کے ایک چھوٹے سے جملہ میں سماگئے ہیں اور بھی اس شان کے ساتھ کہ روایتی تفصیلات مل کر بھی مقصود کا وہ احاطہ نہیں کر سکتی جو قرآن کریم کا یہ اعجازی اجمال مدعا کو جامعیت کے ساتھ پیش کرنے میں اپنی شان دکھا دیتا ہے۔ قاری صاحؒب نے ان مقامات سیرت کو اس ایک آیت سے کس طرح کھول کر بیان کیا ہے۔ اس آیت میں اللہ جل جلالہ نے آنحضرت ﷺ کو عالم کا سب سے بڑا داعی بناکر پیش کیا ہے اور آپکی ساری داعیانہ کمالات اور تاریخ پر روشنی ڈالی ہے یعنی اس آیت میں اصل مقصود کلمہ دَاعِيًا اِلَى اللّٰهِہے اور باقی کلمات شاھد، مبشر، نذیر اس کے مبادی کے طور پر ذکر کی گئی ہیں جس میں سار ی سیرت نبوت پنہاں ہے کیونکہ دعوت میں بنیادی طور پر داعی کی ذات آتی ہیں کہ وہ صفت اور سند ہو اس کا ہر قول فعل کردارگفتار، اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، رہن سہن، رلنا ملنا معاشرت معاملات وغیرہ سب حجت اور معیار کامل ہو اس کے بغیر اس کی دعوت حجت نہیں ہوسکتی گویا دعوت داعی کی ذاتی عظمت و کمال کے بغیر وجود پذیر نہیں ہوسکتی سو اس ذاتی کردار اور عظمت اور اس کی حجت کےتمام مقامات تو شاھد ان کے نیچے درج ہیں جن پر دعوت الی اللہ کی عمارت کھڑی ہوتی ہے پھر خود دعوت کے بھی کچھ اصول اور ارکان ہیں جن کے بغیر دعوت مکمل اور مؤثر نہیں ہوسکتی اور وہ ترغیب وترہیب ہے جس کے بغیر دعوت کی تاثیرقوی نہیں ہوسکتی کہ مخاطبین دعوت اس دعوت کا اثر قبول کریں اور یہ سارے مؤثرات دعوت مبشر اور نذیر کے نیچےدرج ہیں جن پر دعوت کی تکمیل اور تأثیر موقوف ہے اس لئے دَاعِيًا اِلَى اللّٰهِسے پہلے شَاھِداً اور مبَشراًوَنَذِیراًکے کلمات لاکر دعوت الی اللہ کے ان دو مقاموں داعی کی ذاتی عظمت وشان اور یعنی انکا شاہد وحجت ہونا اور خود دعوت کےاصول اور ارکان یعنی بشیری ونذیری سے ترغیب وترہیب کی طرف راہنمائی کی گئی ہے تا کہ داعی الی اللہ کی داعیانہ زندگی کے اصول ومبادی کی مکمل تصویر سامنے آجائےپھر دعوت کے ان اساسی کلمات شاہد مبشر نذیر کو بلاکسی شرط وقید کے علی الاطلاق لاکر اس دعوت کی عمومیت اور ہمہ گیریت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو در حقیقت ختم نبوت کا موضوع ہے اور آخر میں داعی اور دعوت کے ان ہمہ گیر پہلؤوں کو جو ان کلمات میں دریا بکوزہ کی مانندسمائے ہوئے ہیں سِرَاجًا مُّنِيْرًا کاکلمہ لاکر ان کے کھولنے کی راہ دکھلائی گئی ہیں جس سے سیرت ختم نبوت کے ان سارے پہلؤوں کا نقشہ اک دم سامنے آجاتا ہے پس آیت کا عمودی کلمہ جس پر اس آیت کے سارے مضامین گھوم رہے ہیں دَاعِيًا اِلَى اللّٰهِ ہے اور آیت کا تفہیمی اور تشریحی کلمہ جس سے یہ مضامین کھلتے ہیں سِرَاجًا مُّنِيْرًا ہے۔[13]
خلاصہ یہ کہ قاری محمدطیبؒ نے اصلاحی تقاریر کے ذریعے ہزاروں افراد کی اصلاح کی اور اپنے فیض علمی وروحانی سے ہزاروں لوگوں کو مستفیض ومستفید کیا۔ آپ کے بیان میں ٹھوس علمی مواد کے ساتھ حقائق واسرار شریعت اور تخلیق وایجاد مضامین آپ کا خاص حصہ رہے، جسے آپ کے اکابر واساتذہ بھی تسلیم کرتے تھے۔آپ نے تدریسی، تبلیغی واصلاحی خدمات کے ساتھ علمی وتصنیفی خدمات بھی سرانجام دیں۔ آپ کے قلم فیض رقم سے سینکڑوں مقالات اور بہت سی تالیف منظر عام پر آئیں، جن میں سیرت بھی خاص موضوع رہاہے۔ الغرض آپ نے تدریس تبلیغ، تقریر، تحریر اور تصنیف وتالیف میں گرا نقدر خدمات انجام دی ہیں جوناقابل فراموش ہیں۔ آپ ایک عظیم محدث ومفسر، خطیب وادیب، متکلم ومنتظم، محقق ومدبر اور ایک عارف وشیخ کامل تھے، ساری حیات اپنے شیخ ومرشد حضرت حکیم الامت تھانوی ؒ قدس سرہ کی تعلیمات وارشادات کے مطابق گزاری اور انہی کے مسلک ومشرب پر کاربندرہے۔ سیاسی نظریات میں بھی اپنے شیخ معظم حضرت تھانوی قدس سرہ کے پیروکار تھے، اسی لئے دو قومی نظریہ اور تحریک پاکستان کی تائید وحمایت فرماتے رہے۔
حوالہ جات
- ↑ بخاری، حافظ اکبرشاہ، پچاس جلیل القدرعلماء، المیزان ناشران وتاجران کتب، لاہور، 2006ء، ص127
- ↑ قاری محمد طیب، میلادالنبی ﷺکی حقیقت، مجموعہ رسائل حکیم الاسلام، لاہور، در الحسنی مکتبہ الاحرار، لاہور، اپریل 2011ء، ص 183
- ↑ ایضاً، ص 192
- ↑ ان الفاظ کے بارے میں محدثین نےلا اصل لہفرمایاہے، یعنی ان الفاظ کے ساتھ اس حدیث کی کوئی صحیح کیا غلط سند تک نہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں کہ ابوہریرہ کی حدیث"وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ"حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ یہی وہ مشہورحدیث ہے جس کی تشریح میں بعض حضرات حدسے زیادہ غلو کا شکار ہوئے ہیں حتی کہ دیگرانبیاء علیہم السلام کی تنقیص تک بات جاپہنچی ہے، حالانکہ اس میں صرف اتنی بات بیان ہوئی ہے کہ آدم ؑ کی پیدائش سے پہلے میرے لیے نبوت کا فیصلہ (بطورتقدیر) کردیاگیا تھا، ظاہربات ہے کہ کسی کیلئےکسی بات کا فیصلہ روز ازل میں اللہ نے لکھ دیا تھا، اورروز ازل آدم ؑ پیدائش سے پہلے۔اس حدیث کے ثابت الفاظ یہی ہیں باقی دوسرےالفاظ ثابت نہیں ہیں جیسےکنت نبیاوآدم بین الماءوالطیناسی طرحکنت نبیاولاماء ولاطینوغیرہ۔
- ↑ ترمذی، محمد بن عیسیٰ بن سورہ، الجامع للترمذی، دار احیاء التراث، بیروت، باب فی فضل النبیﷺ، حدیث 3615
- ↑ قاری محمد طیب، میلادالنبی ﷺ کی حقیقت، ص 193
- ↑ النساء 58: 4
- ↑ قاری محمد طیب، میلادالنبی ﷺ کی حقیقت، ص198
- ↑ الاحزاب46: 33
- ↑ الحشر7: 59
- ↑ الاحزاب46: 33
- ↑ حنبل، احمدبن حنبل، مسند، جلد 8صفحہ 144
- ↑ قاری محمد طیب، آفتاب نبوت، ادارہ اسلامیات، کراچی، 1980ء، ص 10-11
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |