Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 3 Issue 1 of Rahat-ul-Quloob

ملازمت کے شرعی احکام: ایک تحقیقی جائزہ |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060029185_1202

Pages

42-55

DOI

10.51411/rahat.3.1.2019.54

PDF URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/54/351

Chapter URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/54

Subjects

Employment employee Sharia Orders society employment employee Sharia Orders society

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اپنے ہاتھ کی کمائی کو اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا والے کام ہمارے لئے عبادت ہے۔ اگر کوئی اپنے اور اپنے بچوں کے لئے حلال کمائے تو یہ کمانا بھی ہمارئے لئے عبادت ہی ہے۔ اس کے متعلق حدیث میں ذکر موجودہے کہ:

 

”قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلّی اللہ علیہ وسلّم طلَبُ کسْبِ الحَلالِ فَریضۃٌ بعدَ الفریضۃِ“۔[1]

 

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حلال کمائی کی تلاش ایک فرض کے بعد دوسرا فرض ہے ۔

 

کسب بمعنی مکتسب ہے یعنی پیشہ اور حلال حرام کا مقابل بھی ہے اور مشتبہات کا بھی کیونکہ حرام کمائی کی تلاش حرام ہے اور مشتبہ

 

کی مکروہ(مرقاۃ )تلاش سے مراد جستجو کرنا اور حاصل کرنا ہے۔ عبادات فرضیہ کے بعد یہ فرض ہے کہ اس پر بہت سے فرائض موقوف ہیں خیال رہے کہ یہ حکم سب کیلئے نہیں ،صرف ان کیلئے ہے جن کا خرچ دوسروں کے ذمّہ نہ ہو بلکہ اپنے ذمّہ ہو ،اور اس کے پاس مال بھی نہ ہو ،ورنہ خود مالدار پر اور چھوٹے بچوں پر فرض نہیں ،یہ خیال رہے کہ بقدر ضرورت معاش کی طلب ضروری ہے،صرف اکیلے کو اپنے لائق بال بچوں والے کو ان کے لائق کمانا ضروری ہے بَعْدَ الْفَرِیْضَۃِ فرمانے سے معلوم ہوا کہ کمائی کی فرضیّت نماز روزہ کی فرضیّت کی مثل نہیں کہ اس کا منکر کافر ہو اور تارک فاسق ۔

 

اللہ تعالیٰ نے انسان کے بنیادی وسائل معاش چاررکھے ہیں۔ ملازمت ، تجارت ،زراعت اور صناعت ،لیکن ان چار میں سے ملازمت سےلوگوں کو زیادہ واسطہ پڑتا ہے اورلوگوں کی معتدبہ تعداد ملازمت سے وابستہ ہے بلکہ اقتصادی نظام کی ترقی ،برتری کارازسب سے زیادہ ملازمت کی بہتری وترقی میں منحصر ہے جوقوم یاملت جس قدراس کو بہتر کرنے میں دلچسپی لیتی ہے وہ اسی قدراپنی اقتصادی بہبودکی کفیل بنتی ہے ۔ معاش کے دیگرتین ذرائع بھی کسی نہ کسی شکل میں ملازمت سے منسلک ہوتے ہیں .ایک عام سے عام آدمی کوبھی نوکر ومزدور کی ضرورت پڑتی ہے۔لہٰذا انسانی زندگی کے شعبوں میں سے اگر ملازمت میں اسلامی اقدارکافروغ اوردینی احکام زندہ ہوجائیں تودیگرشعبوں پربھی اسکے اثرات ضرورپڑیں گے۔اسلئےملازمت کے شعبے میں دین کےاحیاء کوبھی باقی شعبوں کی طرح سے مقدم رکھا گیاہے۔یہاں ایک ملازم پیشہ مسلمان کے لئے مکمل رہنمائی فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جس کے ذریعہ نہ صرف یہ کہ ملازم حضرات اپنی ملازمت میں دین کو زندہ کرسکیں گے، بلکہ انسانیت کو اسلام کی طرف راغب کرنے کا ذریعہ بھی بن سکیں گے۔

 

ملازمت کا ثبوت ہمیں قرآن سے بھی ملتا ہےجس میں حضرت شعیب علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آٹھ سال کی ملازمت پر رکھا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

 

”قَالَ اِنِّىْٓ اُرِيْدُ اَنْ اُنْكِحَكَ اِحْدَى ابْنَتَيَّ ہٰتَيْنِ عَلٰٓي اَنْ تَاْجُرَنِيْ ثَمٰنِيَ حِجَجٍ۰ فَاِنْ اَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِكَ۰ وَمَآ اُرِيْدُ اَنْ اَشُقَّ عَلَيْكَ۰ۭ سَتَجِدُنِيْٓ اِنْ شَاءَ اللہُ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ “۔[2]

 

ترجمہ :اُنہوں نے( موسٰی سے) کہا کہ میں چاہتا ہوں اپنی دو بیٹیوں میں سے ایک کو تم سے بیاہ دوں اس عہد پر کہ تم آٹھ برس میری ملازمت کرو اور اگر دس سال پورے کر دو تو تمہاری طرف سے (احسان) ہے اور میں تم پر تکلیف ڈالنا نہیں چاہتا۔ مجھے انشاء الله نیک لوگوں میں پاؤ گے۔


ہمارے معاشرے میں ایک بڑی تعداد میں افراد کا تعلق ملازمت سے ہے ، وزیر اعظم، صدر مملکت، چیف آف آرمی سٹاف،جرنیل، جیف جسٹس، وزیر اعلی ،گورنر، وزرا ، سیکرٹری ، ڈاکٹر اور پروفیسر وغیرہ سے لیے کر ایک کلرک ، سپاہی ، چوکیدار اور چپڑاسی تک سب کے سب ملازم ہی ہے اور ہمارے اکثر معاشرتی مسائل کا تعلق ان ہی کے ساتھ ہے اگر سب کے سب اپنی ڈیوٹی صحیح

 

طریقے سے کریں تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔

 

ذیل میں ملازم پیشہ شخص کے لئے ملازمت کے متعلق درپیش مسائل کا اسلام کی روشنی میں تحقیقی جائزہ لیا گہا ہے ۔ اور بطور رہنمائی کے ایک سرکاری اور نجی ملازم کے لئے ایک لائحہ عمل بنایا تاکہ ایک ملازم پیشہ شخص حلال روزی کما سکے اور اور ایک اچھا معاشرہ تشکیل دینے میں معین اور مدد گار ثابت ہو سکے۔

 

ملازمت کی لغوی تعریف:

 

ملازمت باب (لاَزَمَ،یُلَازِم،ملازمۃً) کا مصدر ہے ،جس کےمعنی ہیں چمٹے رہنا اور جدانہ ہونا،لازم رہنا ،لہذا ملازمت کے معنی ہوگئے منافع کےحصول کی غرض سے کسی کے ساتھ لازم رہنا ۔

 

ملازمت کی اصطلاحی تعریف :

”والثانی وھو الاجییر الخاص و یسمی اجیر واحد و ھو من یعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصیص و یستحق الاجیر بتسلیم نفسہ فی المدۃ و ان لم یعمل کمن استوجر شھرا للخدمۃ او شھرا لرعی الغنم المسمی باجر مسمی“۔[3]

 

ترجمہ: اجیر(ملازم) کی دوسری قسم اجیر خاص ہے اور اس کو اجیر واحد بھی کہتے ہیں اور اجیر خاص یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایک شخص کے لئے کوئی مقررہ کام کرے اور اس میں اجارہ کا وقت بھی طے کر لیا جائے جیسے ہی اجیر مدتِ اجارہ کے اندر اندر اپنےآپ کو (مستاجر) کے سپرد کردے گا ، تو وہ مقررہ اجرت کا مستحق ہو جائےگا اگرچہ اس نے کام نہ کیا ہو ،جیساکہ کسی شخص نے ایک آدمی کو اپنی خدمت کے لئے ایک مہینہ کے واسطے اجرت پر رکھے، یا ایک مہینہ کے لئے کسی شخص کو بکریاں چرانے کے لئے مقررہ اجرت پر رکھے۔

 

ضروری اصطلاحات:

اجرت: اجرت تنخواہ اور کرایہ کو کہتے ہے .

 

اجیر : اجیرملازم کو کہتے ہیں یا اجیر اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے آپ کو اجرت پر دے دے۔

 

مستاجر:اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی کو ملازمت پر رکھے یا اجرت پر کسی بھی چیز کو لینے والا بھی مستاجر کہلاتا ہے ۔

 

موجر:اجارے پر کسی چیز کو دینے والا ۔

 

ملازم کے ساتھ معاہدہ اور اس کی اہمیت:

ملازم کے ساتھ بہتر تعلق اورمستقبل میں کسی قسم کے اختلاف سے بچنے کیلئےضروری ہے کہ ملازمت کے وقت ملازم سے اسکی ذمہ داریوں اور ادارے کی پالیسوں سے متعلق معاہدات کو واضح کر لیا جائے ، عموماً ہوتا یوں ہے کہ ملازمت کے وقت نہ تو ادارہ اس بات کو اہمیت دیتاہے کہ کوئی معاہدہ واضح طور پر طےکیاجائے اورچونکہ ملازمت کا متلاشی ضرورت مندہوتا ہے اسلئےوہ بھی معاہدات کو واضح کرنے کا مطالبہ نہیں کرتا ،یہی وجہ ہے جس کی بنیاد پر مستقبل میں نت نئے مسائل، جھگڑے اور ٹریڈ ولیبر یونین کی بنیا د پڑتی ہے، شریعت اسلامی نے اسی حکمت کے پیش نظر ہر اس معاملے کو فاسد قرار دیا جو مفضی الی النزاع (یعنی جھگڑے کی طرف لے جانے والا ہو)، لہٰذا کسی ادارے کے لئے جس طرح انتظامی اعتبار سے ضروری ہے کہ وہ ملازم کے ساتھ اپنی پالیسیوں اور معاہدات کو واضح کرے اسی طرح شرعی اعتبار سے بھی اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے ہر معاملے کو اس طرح واضح کرے کہ جھگڑے اور اختلاف کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی نہایت اہم اور ضروری ہے کہ معاہدات میں کوئی ایسی پالیسی اور معاہدہ اختیار نہ کیا جائے جو شرعی اعتبار سے ناجائز ہو ایسی صورت میں ناجائز معاہدے کا گناہ ملازم اور مالک دونوں پر ہو گا، اور ادارے نے کسی خلاف شرع پالیسی کو زبردستی اپنے ملازمین پر لاگو کیا ہے تو اس کا وبال الگ ہو گا۔

 

موجودہ زمانہ میں ملازم کے ساتھ ایک ناجائز معاہدہ:

موجودہ زمانہ میں تقریباً ہر ادارہ اور کمپنی میں معاہد ہ ملازمت میں ایک شق لازمی طور پر ہوتی ہے کہ "فریقین میں سے ہر ایک کو لازم ہے کہ وہ معاہدہ ختم کرنے یا ملازمت چھوڑنے سے ایک ماہ پہلےاطلاع دیدے، اگر ادارہ یا کمپنی نے اطلاع دیئے بغیر نکال دیا تو ایک ماہ کی اضافی تنحواہ ملازم کو دیں گے اور اگر ملازم نے ایک ماہ پہلے بتائے بغیر ملازمت چھوڑ دی تو اسے جاری مہینے یا آخری ایک مہنے کی تنخواہ نہیں دی جائے گی“۔اس معاہدہ کا شرعی حکم یہ ہے کہ:

 

مذکورہ شق میں ایک ماہ پہلے اطلاع نہ دینے کی صورت میں ملازم کو ایک ماہ کی تنخواہ نہ دینے کی شرط کسی قاعدہ شرعیہ پر منطبق نہیں آتی،کیونکہ جب ملازم نے اس آخری مہینے میں کام کیا ہے تو وہ اپنے عمل یا تسلیم ِنفس ( اپنے آپ کو سپرد کر دینے ) کی بناء پر اس اجرت کا مستحق ہو چکا تھا اب اس کو اجرت کو نہ دینا ایک قسم کی (تعزیرِ مال) یعنی مالی جرمانہ ہے اور اجارہ کے معاہدہ میں اس تعزیر ِ مالی کو لازم قرار دینا عقد کو فاسد کر دیتا ہے۔البتہ ملازم پر یہ شرط رکھی جاسکتی ہے کہ ملازمت ترک کرنے سے ایک ماہ پہلے اطلاع دینا ہوگی ورنہ اطلاع نہ دینے کی صورت میں ایک ماہ اصالۃً یا نیابۃ ً( یعنی خود یا کسی نائب کے ذریعے) کام کرنا لازم ہوگا۔اور جہاں تک کمپنی کی طرف سے اطلاع دیئے بغیر نکالنے کی صورت میں ایک ماہ کی تنخواہ کی ادائیگی لازم ہونے کی شرط بھی مفسد عقد ہے البتہ اگر کمپنی اپنےطرف سے بغیر لزوم کے بطور تبّرع اور احسان ایک ماہ کی تنخواہ ملازم کو دے تو گنجائش ہے۔ [4]

 

ملازم کی اقسام:

اجیر( ملازم)کی دو قسمیں ہیں ۔

 

٭ اجیر خاص (ملازم)٭اجیر مشترک (پیشہ ورانہ اجیر(ملازم )

 

اجیر خاص :

 

اجیر خاص اس ملازم کوکہا جاتاہے جو کسی ایک یا کچھ افراد کا خاص طور پر ملازم ہو ، ایسے ملازم کیلئے ضروری ہے کہ جب وہ ایک یا

 

چند افراد کا ملازم بنے تو پھر وہ اس مخصوص وقت میں کسی اور کاملازم نہیں ہوسکتا ، مثلاً زید نے ایک آدمی کو اپنے ادارے میں کسی پوسٹ پر ملازم رکھ لیا اور اس سے ملازمت کی تما م تفصیلات تنخواہ اور وقت وغیرہ سے متعلق طے کرلیں اور یہ بھی طے ہوگیا کہ اب وہ کسی اور کا کام نہیں کریگا تو اب یہ شخص زید کا اجیر خاص ہے ۔ یہ اجیر (ملازم) اب اپنے ملازمت کے اوقات میں کسی دوسرے شخص کا کام اپنے مستاجر (ملازم رکھنے والے یا مجاز افسر ) کی اجازت کے بغیر نہیں کرسکتاکیونکہ اس ملازم نے اپنے ملازمت کے اوقات مستاجر کے ہاتھ فروخت کردیئے ہیں ، اس لئے اجیر خاص اسی وقت سے اجرت کا مستحق ہوگا جس وقت سے اجیر نے اپنے آپ کو موجر کے سپرد کردیاہے، اگر مستاجر اس اجیر خاص سے کوئی کام نہ لے اور اسے بیکار بیٹھائے رکھے توبھی موجر کے لئے اجیر خاص کو اجرت دینا ضروری ہوگا ، کیونکہ اجیر خاص نے اپنے اوقات مستاجر کے ہاتھ فروخت کردئے ہیں اب اگر مستاجر اس اجیر خاص سے کام نہیں لیتا تو اسمیں اجیر کا کوئی قصور نہیں ہے اور اجیر اسی وقت سے اجرت کا مستحق ہوگا جب سے اجیر خاص نے مستاجر کے پاس حاضری دی ہے ۔

 

اجیر خاص (ملازم)کی اقسام:

اجیر خاص کو مندرجہ ذیل تین اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

 

(1) مزدور (2) نجی ملازم (3) سرکاری یا مسلمانوں کے اجتماعی ادارے کا ملازم

 

1:مزدو تو اس قدر کا م کرتاہے اور اتنا عرصہ کام کرتاہے جس کیلئے اس مزدوری پر رکھاجاتاہے ، جیسے ہی کام مکمل ہو ا اس کااجارہ بھی ختم ہوجاتاہے ۔

 

2: نجی ملازم کسی شخص یا اشخاص کو جواب دہ اور ان کی طرف سے ملازمت پر رکھا جاتاہے اور کام میں کوتاہی کی صورت میں ان اشخاص سے معاف کرالینے سے معافی ہوجاتی ہے۔

 

3:سرکاری یا مسلمانوں کے اجتماعی ادارے کے ملازم کا معاملہ سنگین ہوتاہے ، وہ جواب دہ اپنے ذمہ داروں کوہوتاہے ، اسی طرح کام میں کوتاہی یا کسی خرد برد وبد عنوانی کی صورت میں افسران بالا سے تو معاف کراسکتاہے ،لیکن عام مسلمانوں سے وہ کیسے اپنی کوتاہی وخردبرد معاف کرائے گا؟چنانچہ اپنی ملازمت کے دوران مذکورہ دونوں اقسام کے ملازموں سے زیادہ احساس ذمہ داری اوردیانت سے کا م کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ، کیونکہ اسکے پاس اپنی کوتاہی وخردبرد کو عام مسلمانوں سے معاف کرانے کی کوئی صورت نہیں ہوتی۔

 

اجیر مشترک:

” الاجراء علی ضربیین: مشترک،وخاص ِ فالاول من یعمل لا لواحد کالخیاط ونحو (الی ان قال) ولا یستحق المشترک الاجر حتی یعمل کالقصار و نحوہ “۔ [5]

 

ترجمہ: اجیر کی دو قسمیں ہیں: مشترک اور خاص ، پس اول ( یعنی اجیر مشترک ) وہ ہے جو کہ کسی ایک کیلئے کام نہ کرے

 

جیسا کہ درزی وغیرہ ہیں ، اور اجیر مشترک اجرت کا مستحق نہیں ہوتا یہاں تک کہ وہ اپنا کام مکمل نہ کرلے ، جیسا کہ دھوبی وغیرہ۔

 

اجیر مشترک اس کو کہاجاتاہے کہ جو کسی ایک شخص کا اجیر نہ ہو بلکہ وہ ہر کسی کا کام کرتاہو مثلاً دھوبی ،درزی وغیرہ کہ یہ کسی ایک فرد کے ملازم نہیں ہوتے بلکہ یہ ہر کسی کا کام اجرت پر لے کر کرتے ہیں ۔ اجیر مشترک کا م کرکے اجرت کا مستحق ہوتاہے، محض اپنے آپ کو سپرد کردینے سے اجرت کا مستحق نہیں ہوتا، چنانچہ مثلاً درزی کو کپڑا سینے کے لئے دیا تو جب تک وہ کپڑا سی نہ لے وہ اجرت کا مستحق نہیں ہوگا[6]۔ واضح رہے کہ اجیر کے اقسام میں سے ہماری بحث صرف اجیر خاص سے ہے۔

 

ملازمت کے حصول کا اسلامی طریقہ کار:

کسی نئی ملازمت تلاش کرنے یا شروع کرنے کیلئے مندرجہ ذیل امورملحوظ رکھنے چاہیں :

 

1:نیت کی درستگی (یعنی کسی مسلمان ملازم کو نئی ملازمت شروع کرتے وقت عوام الناس کی خدمت اور ان کی نفع رسانی نیزکمائی کرکے اپنے آپ کو سوال سے بچانے ،اپنے اہل وعیال پرخرچ کرنے اور قرابت داروں اور پڑوسیوں سے حسن سلوک ومالی معاونت کرنے کی نیت کرنی چاہیے)۔2:صلٰوۃ الحاجت :صلٰوۃ الحاجت پڑھ کر اللہ تعالٰی سے مانگنا شروع کرے ۔ فانہ میسر کل عسیر و انہ علی کل شی ء قدیر(بلاشبہ وہ ہر مشکل کو آسان بنانے والاہے اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت اور دسترس رکھتاہے )۔3:مشورہ کرنا۔4: استخارہ کرنا۔ 5:اللہ تعالیٰ کے بھروسہ پر دستیاب ملازمت کا آغاز۔6: ثابت قدمی اور پُر امیدی ۔7:جو ملازمت دستیاب ہوجائے اس پر اللہ کا شکر ادا کرے ۔ 8:ملازمت کے حصول کے لئے جائز اسباب کا اختیار کرنا اور ناجائز سے بچنا۔

 

چنانچہ جوشخص ملازمت کرنا چاہتا ہے اس کو چاہیے کہ مذکورہ بالا امور کا لحاظ کرتے ہوئے ملازمت کے حصول کے لئے کوشش کرے اور اچھی طرح دیکھ بھال سے مناسب ملازمت شروع کرلے ، اور پھر اس کوپوری ذمہ داری و اہتمام سے سر انجام دے۔

 

معیاری ملازم کی صفات:

نماز، روزہ اور عبادات پر چلنے کے لئے انسان کو ایمان کی جس قوت کی ضرورت ہے معیشت اور معاملات میں درست طور چلنےکے لئے اس سے کہیں زیادہ مضبوط قوت ایمانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ قانون اور اخلاق کی ضرورت مسجد اور مدرسہ اور خانقاہ میں بہت محدود ہوتی ہے ، جبکہ اخلاقیات اور روحانی اقدار کی ضرورت بازار، معاملات ، معیشت اور مختلف شعبوں میں زیادہ ہوتی ہے ۔ ذیل میں چند صفات کا ذکر کیا جاتا ہے ۔

 

1:اللہ پاک کی ذات پر یقین اور نبی کریم ﷺ کی محنت و اتباع۔2: ملازموں کااپنے شعبے سے متعلق علم دین سیکھنا۔ 3:امانت و دیانت۔4: احساس ذمہ داری اور مفوضہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کو اہتمام۔5: اجتماعی اورسرکاری اشیاء کے استعمال میں احتیاط 6: ادارے کی خیر خواہی۔7: اپنی ڈیوٹی صحیح ادا کرنا۔8: اجتماعی مصلحت کے بغیر عہدے کاطالب نہیں ہوگا اورنہ منصب کاحریص ہو۔

 

ملازم سے متعلق اہم مسائل:یہاں چند ایسے اہم مسائل شرعیہ کا ذکر کیا جاتا ہیں جن کا ہر ملازم پیشہ شخص کو ضرورت پڑھتی ہیں۔

 

1:جعلی ڈگری اور امتحانات میں نقل کر کے ملازمت کا حصول:

امتحان میں نقل کر نا یاجعلی سند بنوانا خواہ نوکری حاصل کرنے کی غرض سے ہو یا کسی اور غرض سے شرعاًحرام اور ناجائز ہے اس سے توبہ کرنا واجب ہے،نیز جعلی سند کی بنیاد پر نوکری حاصل کرنا بھی درست نہیں، (اس لئے کہ اس میں جھوٹ اور دھوکہ کاگناہ ہے ) اور جس میں ملازمت کی صلاحیت واہلیت نہ ہو اورملازمت کے سلسلے میں عائدہونے والی ذمہ داریوں کو دیانتداری کے ساتھ صحیح طریقے سے پورا نہیں کرسکتاتو اس کیلئے تنخواہ لینا بھی جائز نہیں ۔[7]

 

2:سفارش کے ذریعےملازمت کا حصول:

اگر کسی شخص میں کسی ملازمت کی اہلیت اورصلاحیت ہے تو اس کے لئے ملازمت کے حصول کے لئے کسی سے سفارش کروانا جائز ہے اور اگر اہلیت اور صلاحیت موجودنہ ہو تو محض سفارش کی بنیاد پر ملازمت حاصل کرنا جائز نہیں اور ایسی ملازمت کی تنحواہ حاصل کرنا جائز نہیں ہے ۔[8]

 

3:تحصیل ملازمت کے لئے ستر کھولنا:

بعض حکومتی اداروں میں بھرتی کے وقت طبی معاینہ کروانا ضروری ہے جس میں ستر کھولنا لازمی ہوتا ہے حتی کہ بعض اداروں میں مذہبی تعلیم کے سلسلے میں علماءکو بھی بھرتی کرنے کے لئےیہ شرط لازمی ہے۔مفتی رشید احمد ؒفرماتے ہیں کہ:

 

”لہذا یہ کوئی ایسی ضرورت نہیں جس کی بناء پر کسی کے سامنے ستر کھولنے کی اجازت ہو ۔ تعجب اور افسوس کا مقام ہے کہ جن لوگوں کو مذہبی تعلیم کے لئے لیا جارہا ہے ان کو مذہب کے خلاف کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے ، جو لوگ ملازمت کے لئے ایسے گناہ کبیرہ اور حرام کے ارتکاب پر تیار ہوں کے وہ مذہب کی تعلیم جو کچھ دیں گے وہ ظاہرہے ، ایسے لوگوں سے مذہب کو فائدہ پہنچنے کی بجائے نقصان ہی پہنچےگا ۔بہر کیف بلاضرورت کسی کو ستر دکھانا اور دیکھنا سخت گناہ اور حرام ہے اور مذکورہ صورت شدیدہ میں داخل نہیں“ ۔[9]

 

4:غلط اوور ٹائم لکھوانا اور اس کی تنخواہ لینا :

آج کل خا ص طور پر سرکاری دفاتر میں یہ بیماری عام ہے کہ لوگ بوگس اوور ٹائم اور بوگس ٹی اے حاصل کرتے ہیں جس سے گورنمنٹ کو کروڑوں روپے سالانہ نقصان ہوتا ہے ، اس طرح بعض لوگ مہینے میں 8 یا 10 دن دفتر آتے ہیں مگر تنخواہ پورا مہینہ حاص کرتے ہیں، تو واضح رہے کہ معاوضہ صرف اتنےوقت کا حلال ہے جس میں کام کیا ہو، اس سے زیادہ وقت کا رجسٹر میں اندراج کرنا جھوٹ اور بد دیانتی ہے ، او ر اس کا معاوضہ وصول کرنا قطعی حرام ہے ۔[10]

 

5:اپنی ڈیوٹی پر دوسرے کو بھیجنا:

کسی بھی ادارے میں متعین ملازم کے لئے شرعاً اور قانوناً یہ ضروری ہےکہ وہ خود اپنی ذمہ داری اور فرائض ادا کرے ، لہذا اس کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی جگہ ددسرے شخص کو ڈیوٹی پر بھیج کر خود اپنے آپ کو فارغ کر لے اور تنخواہ دونوں آپس میں تقسیم کر لیں، البتہ سرکاری قانون کی رو سے اس ملازم کے لئے اجازت ہو کہ وہ کسی اور شخص کو اپنی جگہ مقرر کر سکتا ہے تو پھر ایسا کرنا درست ہے اور نائب شخص سے جس طرح طے ہو ، اس کو اجرت دے کر باقی تنخواۃ خود لے سکتا ہے ۔[11]

 

6:ملازمت سے رخصت لےکر دینی کام میں مشغول ہونا:

اگر سرکاری ملازم کی چھٹی قانونی طور پر منظور ہوتی ہے تو چھٹی کے ان ایام میں وہ کوئی بھی کام کر سکتا ہے ، چاہےاصلاحِ نفس،تبلیغ ،تعلیم ، جہاد وغیرہ سے متعلق ہو، چاہے کوئی اور کام ہو۔ تعطیلات کے دوران چونکہ ملازم اپنےذمہ سپرد کام کا پابند نہیں ہوتا لہذا اگر اس فارغ وقت کو اپنے کسی بھی کام میں لگائے تو اس کی شرعاً گنجائش ہے بشرط یہ کہ ملازم اور حکومت کے درمیان طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی لازم نہ آئے۔[12]

 

7:ملازم کا اپنے ادارے کے لئے خرید و فروخت کے معاملے میں کمیشن لینا:

ایک شخص جو کسی ادارہ یا محکمہ کا ملازم ہے اور وہ اپنے ادارے یا محکمے کے لئے ایک کمپنی سے سامان خریدتا ہے چونکہ وہ خریدنے والے ادارے کا وکیل اور نمائندہ ہے اس کے لئے کمپنی سے کمیشن وصول کرنا جائز نہیں ہے بلکہ کمپنی کی طرف سے اس کو جتنی رعایت (کمیشن کی شکل میں ) دی جائے گی وہ اس ادارے یا محکمے کا حق ہے جس کا یہ وکیل اور نمائندہ بن کر مال خرید نے کے لئے آیا ہے مختلف مقامی یا بین الاقوامی کمپنیوں کی جانب سے جو رعایت یا کمیشن دیا جاتا ہے اس کو سرکاری ملازمین افسران یا وزیروں کا خود ہضم کرانا شرعاً غبن اور خیانت ہے اس لئے اس لئے ان کا اپنے ادارے کے لئے خریدی ہوئی چیز میں کمیشن وصول کرکے اسے خود ہضم کرنا کسی طرح جائز نہیں بلکہ قومی خزانے میں خیانت اور حرام ہے ۔[13]

 

8:دوران سفرملازم کے لئے قصر نماز کے احکام:

تین دن کی مسافت (48 میل یا 78 کلومیٹر) کا قصد کرکے جو شخص اپنی جائے اقامت سے نکلے گا وہ قصر کرے گا اور اس جگہ اگر پندرہ یوم سےکم ٹھہرنے کا ارادہ ہے تو وہاں پہنچ کربھی قصر کرلے گا ، اگر پندرہ یوم یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ ہے تو قصر نہیں کرے گا ۔رشتہ داری کا کوئی اثر قصر پرنہیں ، البتہ اگر وہاں شادی کی ہے اور ہمیشہ کے لئے وہیں رہنا شروع کر دیا ، یا بیوی سے یہاں رہنے کی شرط کر لی گئی ہے غرض کہ اس کو وطن بنا لیا تو وہ بمنزلہ وطن کے ہے وہا ں قصر نہیں کرے گا۔ [14]

 

9:جا ئے ملازمت جب وطن اقامت بن جائے پھر جب تک وہ جگہ چھوڑا نہ ہو پوری نماز پڑھی جائے گی:

اگر اس ملازم کا اس مقام ملازمت میں بود باش کا ضروری سامان موجود ہو تو یہ شخص ایک دفعہ پندرہ دن اقامت کی نیت سے

 

دیگر دفعات میں یہ مقام ، مقام اقامت شمار کرے گا ، خواہ یہاں پندرہ دن رہے یا پانچ دن رہے (اسے پوری نماز ہی ادا کرنی ہوگی ) بہر حال وطن اقامت سفر سے اس وقت باطل ہوتا ہے جبکہ اس شخص کا سامان اس وطن اقامت میں نہ ہو۔ [15]

 

10:ملازم یا کسی عہدے دار کا تحائف یا دعوت قبول کرنا:

ایک شخص کسی محکمہ میں بڑا افسر لگا ہوا ہے اسکے ماتحت بہت سے افسران و ملازم حضرات اور دوسرا عملہ کام کرتا ہے ، وہ لوگ وقتاً فوقتاً اس کو تحفے دیتے ہیں ۔ جن میں برتن ، مٹھائیا ں ، وغیرہ ہوتی ہیں۔ اس بارے میں حکم یہ ہے کہ جو لوگ ذاتی تعلق و محبت کے طور پر اسکو ہدیہ پیش کرتے ہیں وہ توہدیہ ہے اور اسکااستعمال جائز اور صحیح ہے اور جو لوگ اس کے عہدہ کی وجہ سے منفعت کی توقع پر ہدیہ پیش کرتے ہیں یعنی ان کواس عہدہ کی وجہ سے نفع پہنچاہے یا آئندہ توقع ہے تو یہ رشوت ہے اس کا قبول کرناجائز نہیں اس کا معیار یہ ہے کہ اگر وہ شخص اس عہدے پر نہ ہوتا یا عہدے سے سبکدوش ہوجائے تو کیا پھر بھی یہ لوگ اس کو ہدیے دیاکریں گے؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہو تو یہ ہدیہ رشوت ہیں اور اگر ان ہدیوں کا تعلق منصب اور عہدے سے نہیں تویہ ہدیے اس کے لئے جائز ہیں۔[16]

 

11:وردی (Uniform) کے متعلق احکا م:

مسلمان کے لئے افضل تو یہ ہے کہ وہ مسنون اور اسلامی لباس کو پہنے اور اس پر فخر کرے اور غیروں کے طرز کے لباس سے اجتناب کرنے کی کوشش کرے ۔ البتہ ہمارے ہاں عام طور پر کمپنیز، بینک،مالیاتی اداروں وغیرہ کی طرف سے پینٹ شرٹ پہننا لازمی ہوتا ہے بلکہ بہت سے اداروں میں خاص طور پر بینکوں کے اندر ٹائی پہننا بھی ضروری قرار دیا جاتا ہے اور شلوار قیمص پہننے پر قطعاً پابندی عائد کردی جاتی ہے ۔یہ بات درست ہے کہ اصولی طور پر شریعت نے کوئی مخصوص قسم کا لباس لازم نہیں لیا لیکن لباس کے متعلق اصولی رہنمائی فرمائی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ لباس کہ پابنیادی میں عام طور پر تین مقاصد ہیں ۔

 

1۔ شرمگاہ کا چھپانا 2 ۔ زینت 3 ۔ غیر مسلموں کسے مشابہت نہ ہونا

 

پہلے دو مقاصد کو قرآن مجید میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے ۔

 

”يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًا “۔ [17]

 

ترجمہ: اے نبی آدم ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈھانکے اور (تمہارے بدن کو) زینت (دے)۔

 

تیسرا اصول ایک حدیث سے مستنبط ہے ، کہ مسلمانوں کےلئے غیر مسلم قوموں کی مشابہت اختیار کرنا جائز نہیں۔

 

”من تشبہ بقوم فھو منہم “۔ [18]

 

ترجمہ :جس نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی ، وہ اسی میں سے ہے ۔

 

12: ملازم کا پینٹ شرٹ کا استعمال:

 

موجودہ حالات میں بہت سے علماء عصر کہ کہنا ہے ہ اب پینٹ شرٹ میں غیر مسلموں کے ساتھ مشابہت کا پہلو معدوم ہو چکا ہے ، اس لئے کہ اب یہ بکثرت اسلامی مملاک کے مسلمانوں کا لباس بھی بن چکا ہے۔ اگرچہ ابتداءً تو یہ لباس غیروں ہی کا ہے پھر بھی پہلی شرط کا لحاظ بہر حال ضروری ہے جس کا حال یہ ہے کہ لباس شرمگاہ کو مکمل طور پر چھپانے والا ہو ، اتنا باریک یا چست ہو کہ جس کی وجہ سے جسم کے وہ ابھارجن کا چھپانا فرض ہے ، محسوس ہو رہے ہوں ۔ لہذا ایسی پینٹ پہننے کی گنجائش ہے جو چست نہ ہو بلکہ اتنی ڈھیلی ڈھالی ہوکہ جسم کے پوشدہ اعضاء نمایاں نہ ہوں لیکن ایسی پینٹ شرٹ جو چست ہو اور اس کی وجہ سے جسم کے وہ ابھار جن کا چھپانا فرض ہے ، واضح ہورہے ہوں ، پہننا ہرگز جائز نہیں۔[19]

 

13:ہڑتال کا حکم:

ملازم پیشہ لوگوں کے طرف سے حکومت سے مطالبات منوانے یا کسی حادثہ پر غیظ و غضب کے لئے آج کل ہڑتالوں کاجو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے ، اگر اس میں معاملہ صرف اس حد تک ہوتاکہ لوگ اپنی خوشی سے احتجاج کے طور پر کاروبار بند کردیں ، تو دوسرے مفاسد کی عدم موجودگی میں اسے ایک مباح تدبیر کہا جاسکتا تھا ، لیکن ایسی ہڑتال جو لوگوں نے کلیۃً اپنی خوشی سے کی ہو، آج عملاً دنیا میں اس کاوجود نہیں ، یا بالکل شاذ نادر ہے ۔

 

”اکثر و بیشتر تو لوگوں کو ان کی خواہش اور رائے کے خلاف ہڑتال میں حصہ لینے پر مجبور کیا جاتا ہے ، اگر کوئی حصہ نہ لے ، تواس کی اس کوجسمانی اور مالی اذیتیں دی جاتی ہیں ، سنگ باری اورآتشزنی ہڑتال کا ایک لازمی حصہ بن گئے ہیں ، سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے لوگوں کے لئےاپنی ضرورت سے چلنا پھرنا مسدود کردیا جاتا ہے ، چلتی ہوئی گاڑیوں پر پتھراؤ کیا جاتا ہے ، بہت سے لوگ اس قسم کی ایذاء رسانیوں کے خوف سے اپنا ضروری کاروبار بند رکھتے ہیں ، اور جو ضرورت مند شخص باہر نکلنے پر کسی وجہ سے مجبور ہو وہ ہر وقت جانی و مالی نقصان کے خطرے میں رہتا ہے ، اور بسا اوقات کوئی بے گناہ مارا جاتا ہے ، بعض مرتبہ مریض علاج کو ترس ترس کر رخصت ہو جاتے ہیں۔ اور بہت سے لوگ فاقہ کشی کاشکار ہو جاتے ہیں ، یہ تمام باتیں ہڑتال کا ایسا لازمی حصہ بن کر رہ گئی ہیں کہ اس کے بغیر کسی کا میاب ہڑتا ل کا تصور بھی نہیں ہوتا ،ظاہر ہے کہ یہ تمام امور شرعاً ناجائز اور حرام ہیں ، اور جو چیز ان حرام اور ناجائز باتوں کا لازمی سبب بنےوہ بھی ناجائز ہی ہوگی “۔[20]

 

14:ملازم کے تنخواہ پر زکوۃ کا حکم:

ملازم کے تنخواہ پر زکوۃ کے بارے میں دارالعلوم دیوبند کے ویب سائٹ پر حکم بیا ن کیا گیا ہے ۔

 

”ملازم کے تنخواہ پر زکوۃ نہیں ہیں بلکہ جس شخص کے پاس سونا ،چاندی، مال تجارت اور نقدی میں سے دو یا دو سے زائدچیزوں کی مالیت جب چاندی کے نصاب (سا ٹے باون 52.5 تولہ چھ سو بارہ 612 گرام پینتیس35 ملی گرام چاندی) کی قیمت کے برابر ہو اور اس پر سال گزر جائے تو اس پر ٪ 2.5 زکوۃ واجب ہے ۔ اب اگر کسی کے پاس تنخواہ وغیرہ سے بچ کر ، نیزسونا، چاندی، بینک بیلنس وغیرہ

 

ملاکر مذکورہ بالا مقدار نصاب اکٹھا ہو جائےتو اس کے حساب سے زکوۃ واجب ہوگی“۔[21]

 

15:ملازم کے تنخواہ قربانی اور صدقہ الفطرکے احکام:

عید الفطر کی صبح جس شخص کے پاس نصاب کے بقدر مال ہو اس پر صدقہ فطر واجب ہے اور بقرہ عید کے دنوں میں جس کے پاس نصاب کے بقدر مال ہو اس پر قربانی واجب ہے ۔

 

16:تنخواہ قربانی اور صدقہ الفطر کانصاب :

 

جس شخص کے پاس سونا ،چاندی، مال تجارت نقدی اور ضرورت سے زاہد سامان اور رہائش سے زاہد مکانات یا جائیدادیوں کی قیمت بھی، ان پانچ میں دو یا دو سے زائدچیزوں کی مالیت جب چاندی کے نصاب ( سا ٹے باون 52.5 تولہ چھ سو بارہ 612 گرام پینتیس35ملی گرام چاندی) کی قیمت کے برابر ہو اور اس پر قربانی اور صدقہ الفطر واجب ہے۔[22]

 

تنخواہ کی جو رقم اس وقت( بقرہ عید کے دنوں میں ) موجود ہو اسے بھی حساب میں شامل کر لیا جائے خواہ بقر عید کے بعد انہیں ضروریات میں خرچ کرنا ہو ۔[23]

 

17:خواتین کی ملازمت شریعت کی نظر میں:

سوال یہ ہے کہعورت کام کاج کے لئے باہر نکل کر اور محنت ومشقت میں مردوں کی برابری کر کے اپنی اصل ذمہ داری بحسن وخوبی نبھا سکتی ہے اور اپنے گھر اور شوہر کا پورا حق ادا کر سکتی ہے ؟ کام کاج کرنے والی حواتین کی صورت حال دیکھ کر تو اس کا جواب نفی میں ملتا ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت کو گھر سے باہر کا کاج نہیں کرنا چاہیئے اور اسے چاہے کہ اپنے گھر کی چار دیواری تک محدود رہے؟نہیں ، ہرگز اس کا مطلب نہیں بلکہ اسلام خواتین کو کام کاج ( ملازمت و تجارت وغیرہ) جی اجازت دیتا ہےاوراسےاس کا حق قراردیتا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ جب اسے واقعتاًاس کی اشدضرورت ہو اور اس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو ، ورنہ نہیں۔ کیونکہ اسلام نے پہلے ہی اس کی ضرورتیں پورا کرنے کی ذمہ داری مرد کو سونپ دی ہے اورعورت کے ذمہ گھریلو فرائض ادا کرنے کی پابندی عائد کی ہے سب کی اپنی اپنی ذمہ داریاں ہیں جو بلا وجہ آپس میں تبدیل نہیں کی جاسکتیں۔ تو جہاں اسلام نے عورت کو اس کا پابند کیا کہ وہ گھریلو کام کاج کیا کریں اور ہر جائز طریقہ پر اپنے خاندارن کے سکون وا راحت کا سامان کریں تاکہ زندگی خوشگوار ہو وہاں اسلام نے اسے بہت سی شرعی پابندیوں سے معاف بھی رکھا ہے مثلاً جہاد ، باجماعت نماز ، نماز جمعہ اور ماہواری کے دنوں میں نماز و روزکوۃ وغیرہ ۔ یہ رعایتیں اس لئے ہیں کہ خواتین کو جو ذمہ داری سونپی گئی ہے وہ اسے اچھی طریقے سے ادا کریں۔ [24]

 

مرد ہو یا عورت ان پر ملازمت اختیار کرنے کے سلسلے میں چند شرعی حدود عائد ہیں،جن میں تین اہم اصول درج ذیل ہیں۔

 

1: وہ ایسی ملازمت اختیارنہ کرے جو شرعی نقطہ نظر سے ناجائز ہو ، جیسے بینک کی ملازمت ، شراب اور جوئے کا کاروبار اس نوعیت کے دوسرے کام جن کی حرمت قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔

 

2: عورت کو اس کے ولی یا شوہر کی اجازت حاصل ہو۔

 

3: عورت اور مرد کا اختلاط نہ ہو۔

 

18:سرکاری گاڑی کے بے جااستعمال:

بعض ملازمین کو عہدہ اور تنخواہ کے لحاظ سے گاڑی رکھنے کاحق حاصل ہوتا ہے اور حکومت کی طرف سےکار الاؤنس بھی ماہوار ملتا ہے ، لیکن پھر بھی وہ ملازمین ،دفتر آنے جانے کےلئے سرکاری گاڑی استعمال کرتے ہیں ، اس طرح سرکاری گاڑی کے استعمال پر مزید ماہوار خرچ آتا ہے ، تو اس کا اصول یہ ہے کہ سرکاری املاک کو انہی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے ، جن کی سرکارکی طرف سے اجازت ہے ۔ لہذا سرکاری گاڑی استعمال کو اس اُصول پر منطبق کر لیا جائے ، اگر کارالاؤنس کے ساتھ ملازم کو سرکاری گاڑی کے استعمال کی اجازت نہیں تو یہ استعمال غلط اور لائق مؤاخذہ ہے۔[25]

 

19:طبّی امداد کا بے جااستعمال:

اکثر سرکاری اور نجی اداروں میں دوسری سہولتوں کے ساتھ طبی سہولت بھی مفت فراہم کی جاتی ہے ، اور دیکھنے میں آیا ہے کہ ملازمین ان سہولتوں کا بے جااستعمال ، خصوصاً طبی سہولت کا ، اس طرح کرتے ہیں کہ اپنی غلط بیانی سے بیماری سے بتا کر یا پھر ڈاکٹر کو بھی اس اسکیم میں شامل کرکے اپنے نام بہت ساری دوائیاں لکھوالیتے ہیں ، اور پھر ان دوائیوں کو میڈیکل اسٹور والوں کو ہی بیچ کر سستے داموں میں ہی اپنی ضرورت کی کچھ اور چیزیں خرید لیتے ہیں ، اور یہ کام اتنی حجت سے کیا جاتا ہے کہ اکثر ملازمین اسے اپنا حق سمجھتے ہیں اور اسے برائی کہنا ان کے لئے گالی دینے کے برابر بن جاتا ظاہر ہے کہ سرکاری یا نجی اداروں نے جو طبی سہولتیں فراہم کی ہیں وہ بیماروں کے لئے ہیں ، اب جو شخص بیمار ہی نہیں اس کا ان مراعات میں کوئی حق نہیں ،اگر وہ مصنوعی طور پر بیمار بن کر علاج کے مصارف وصول کرتا ہے تو چند کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرتاہے ۔

 

1: جھوٹ اور جعل سازی ۔

 

2: ادارے کو دھوکا اور فریب دینا ۔

 

3: ڈاکٹر کو رشوت دے کر اس گناہ میں شریک کرنا ۔

 

4: ادارے کاناحق مال کھانا، اوران چاروں چیزوں کے حرام اور گناہِ کبیرہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں اور جس کمائی میں یہ چارگناہ شامل ہوں گے اس کے ناپاک،ناجائزاوربےبرکت ہونے میں کیا شک ہے ۔۔۔۔؟ اللہ پاک ہمارے مسلمان بھائیوں کو عقل اور ایمان نصیب فرمائے کہ وہ حلال کوبھی حرام کرکے کھاتے ہیں ۔[26]

 

20:کمپنی کی کوئی چیز استعمال کرنا:

کوئی شخص جس کمپنی میں کام کرتا ہو ، وہاں سے کاغذ ، پنسل، رجسٹر یا کوئی ایسی چیز جو آفس میں اس کے استعمال کی ہو ،گھر لے جائے اور ذاتی استعمال میں لے آئے ، یا آفس میں ہی اسے ذاتی استعمال میں لائے ، یا گھر میں بچوں کے استعمال میں لائے ، یا آفس کے فون کو ذاتی کاروبار ، یا نجی گفتگو میں استعمال کرے ، یا آفس کے اخبار کو گھر لے جانا وغیر ہ تو واضح رہے کہ اگر کمپنی کی طرف سے اس کی اجازت ہے تو اجازت ہے توجائز ہے ، ورنہ جائز نہیں ، بلکہ چوری اور خیانت ہے ۔[27]

 

21:مقررہ مدت سے پہلے ملازمت چھوڑنے پر مالی جرمانہ:

ایک کمپنی اپنے ملازمین کو مقررہ تنخواہ کے علاوہ کچھ رقم دیتی ہے ، اس شرط پر کہ پانچ سال یہاں ملازمت کرنا پڑے گی ، اگر ملازم میعاد سے قبل چلا گیا تو پانچ سال کی رقم بحساب مقرر دیکر جائے گا، اگر کمپنی نے نکال دیا تو پانچ سال کی رقم پوری کی پوری دے دیگی چاہے ایک سال کے بعد نکال دے ۔تو یہ زاہد رقم بھی تنخواہ میں داخل ہے اور میعاد سےقبل چھوڑنے کی صورت میں اس کی واپسی کی شرط مفسد اجارہے اس لئے کہ یہ مقتضی عقد کے خلاف ہے اور اس میں دونوں میں سے کسی ایک کا نفع ہے ۔لہذا جانبین پر توبہ اور اس عقد کا فسخ کرنا فرض ہے ، ملازم نے جتنی مدت کام کیا اس کو اس کااجر مثل ملے گا جو مقرر تنخواہ مع اضافہ سے زائد نہ ہو گا۔[28]

 

22:ملازمت کی جدیدصورتیں :

مسلمان ملازم کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ملازمت حاصل کرتے وقت اس بات پربھی غورکرے کہ جس ملازمت کے حصول کے لئے وہ کوشش کرہاہے آیاوہ جائزہے یاناجائز، ایسانہ ہو کہ لاعلمی میں ایسی ملازمت کواختیار کربیٹھے کہ جوشرعاجائزنہ ہو اور ملازمتوں کواختیارکرنے سے بچاجائے ، کیونکہ جوملازمت جائز نہیں ہے اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی جائزنہیں ہے ، ان ملازمتوں کے علاوہ کی جائے توان سے متعلق بھی علماء کرام سے ضرور مشورہ کیاجائے تاکہ ناجائز ملازمت اختیار کرنے سے بچاجاسکے۔ ملازمت کے جائز یا نا جائز ہونے کے بارے میں ایک اصولی بات یہ ہے کہ:

 

اگر ادارے کی طرف سے ملازم کے ذمے کئی کام ہیں ، جن میں اکثر اگر جائز ہوں تو مجموعی اعتبار سے ایسی ملازمت جائز ہے ، البتہ جتنا کام جائز ہوگا، اس کے بقدر تنخواہ لینا بھی حلال ہوگا اور جتنا کام نا جائز ہوگا ، اس کے بقدر تنخواہ بھی حرام ہوگی ، لیکن ادارے کی طرف سے ملازم کے ذمے صرف ناجائز کام ہو یا اکثر ناجائز ہو تو ایسی ملازمت ناجائز ہے اور اس کی تنخواہ حرام ہے ۔
عمر فاروق،آسان فقہی مسائل ، کراچی،بیت العلم، 2010 ء، ص 567

حوالہ جات

  1. الخطیب التبریزی ، محمد بن عبد اللہ، مشکوۃ المصابیح ، کراچی،مکتبۃ البشری ، 1431ھ، کتاب البیوع ، باب الکسب وطلب الحلال ،الفصل الثالث ، حدیث نمبر 2781، ج 3، ص 90
  2. القرآن 28: 27
  3. الحصکفی،علاؤ الدین محمد بن علی بن محمد الحنفی الدمشقی ، رد المحتار علی الدر المختار، چمن بلوچستان ،مکتبہ علوم اسلامیہ ،1428ھ ،کتاب الاجارۃ ،ج9 ،ص 117
  4. دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن 27 محرم 1434 ھ، فتوی نمبر 478
  5. بحوالہ بالا،حصکفی، محمد بن علی بن محمد الملقب بعلاؤ الدین الحنفی الدمشقی ، رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الاجارۃ ،ج9 ،ص 108
  6. عثمانی ،زبیر اشرف،جدید معاشی نظام میں اسلامی قانون اجارہ ، کراچی ، ادارۃ المعارف، 2013ء باب الاجارۃ العمل ،ص81
  7. دار الافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی، فتویٰ نمبر1449/42
  8. دار الافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی، فتویٰ نمبر1449/42
  9. مفتی رشید احمد ، احسن الفتاوی، کراچی،ایچ ایم سعید کمپنی ، 1435ھ، کتاب الحظر و الاباحۃ، ج8 ،ص 188
  10. لدھیانوی ، محمد یوسف شہید،آپ کے مسائل اور ان کاحل، کراچی،مکتبۃ لدھیانوی،فصل معاملات، 1989ء،ج7،ص 292
  11. عمر فاروق،آسان فقہی مسائل ، کراچی، بیت العلم، 2010 ء ،ص 566
  12. میڈکل سائنس سے متعلق جدید مسائل فقہ، ص 289
  13. بحوالہ بالا،لدھیانوی،محمد یوسف شہید،آپ کے مسائل اوران کاحل، فصل خریدفروخت کے مسائل ،ج 7 ، ص 282
  14. گنگوہی، محمود حسن، فتاوی محمودیہ ، کراچی،ادارۃ الفاروق ،2009ء،باب صلاۃ المسافر ،ج 7 ،ص 480
  15. مفتی محمد فرید،فتاویٰ فریدیہ،اکوڑہ خٹک، 1430 ھ ،فصل فی السفر التی تتغیر بہ الاحکام، ج3،ص 49
  16. بحوالہ بالا،لدھیانوی،محمد یوسف شہید،آپ کے مسائل اوران کاحل، فصل رشوت، ج7،ص 230
  17. [javascript:void(0) القران 7: 26]
  18. السجستانی ، ابو داودسلمان بن الاشعث، سنن ابی داود ، کراچی،قدیمی کتب خانہ ،س ن ،کتاب اللباس ، باب فی لبس الشھرۃ ، ج 4، ص 204
  19. عثمانی، محمدتقی عثمانی، تکمیلہ فتح الملہم ، بیروت ، دار احیاء التراث العربی ،1426ھ ، کتاب الباس و الزینۃ ج 4 ، ص76
  20. دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی، 776/46
  21. www.Darululoomdeoband.com
  22. مفتی ،محمد انعام الحق ،قربانی کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا ، کراچی،مکتبہ بیت العمار ، 2014ء،ص 122
  23. www.Darululoomdeoband.com
  24. عبد الرب آل نواب ، عمل المرءۃو موقف الاسلام منہ، ص157
  25. بحوالہ بالا،لدھیانوی،محمد یوسف شہید،آپ کے مسائل اوران کاحل، فصل معاملات،ج8،ص 278
  26. ایضاً، ص 279
  27. ایضاً، ص 277
  28. مفتی رشید احمد ،احسن الفتاوی، کراچی،ایچ ایم سعید کمپنی، 1435ھ ، کتاب الاجارہ ،ج 7 ،ص 318
Loading...
Issue Details
Showing 1 to 20 of 20 entries
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Volume 3 Issue 1
2019
Volume 3 Issue 1
2019
Volume 3 Issue 1
2019
Volume 3 Issue 1
2019
Volume 3 Issue 1
2019
Volume 3 Issue 1
2019
Volume 3 Issue 1
2019
Volume 3 Issue 1
2019
Volume 3 Issue 1
2019
Volume 3 Issue 1
2019
Volume 3 Issue 1
2019
Volume 3 Issue 1
2019
Volume 3 Issue 1
2019
Volume 3 Issue 1
2019
Volume 3 Issue 1
2019
Volume 3 Issue 1
2019
Volume 3 Issue 1
2019
Volume 3 Issue 1
2019
Volume 3 Issue 1
2019
Volume 3 Issue 1
2019
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Showing 1 to 20 of 20 entries
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
About Us

Asian Research Index (ARI) is an online indexing service for providing free access, peer reviewed, high quality literature.

Whatsapp group

asianindexing@gmail.com

Follow us

Copyright @2023 | Asian Research Index