3
1
2019
1682060029185_1202
42-55
https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/54/351
https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/54
Employment employee Sharia Orders society employment employee Sharia Orders society
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حلال کمائی کی تلاش ایک فرض کے بعد دوسرا فرض ہے ۔
کی مکروہ(مرقاۃ )تلاش سے مراد جستجو کرنا اور حاصل کرنا ہے۔ عبادات فرضیہ کے بعد یہ فرض ہے کہ اس پر بہت سے فرائض موقوف ہیں خیال رہے کہ یہ حکم سب کیلئے نہیں ،صرف ان کیلئے ہے جن کا خرچ دوسروں کے ذمّہ نہ ہو بلکہ اپنے ذمّہ ہو ،اور اس کے پاس مال بھی نہ ہو ،ورنہ خود مالدار پر اور چھوٹے بچوں پر فرض نہیں ،یہ خیال رہے کہ بقدر ضرورت معاش کی طلب ضروری ہے،صرف اکیلے کو اپنے لائق بال بچوں والے کو ان کے لائق کمانا ضروری ہے بَعْدَ الْفَرِیْضَۃِ فرمانے سے معلوم ہوا کہ کمائی کی فرضیّت نماز روزہ کی فرضیّت کی مثل نہیں کہ اس کا منکر کافر ہو اور تارک فاسق ۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کے بنیادی وسائل معاش چاررکھے ہیں۔ ملازمت ، تجارت ،زراعت اور صناعت ،لیکن ان چار میں سے ملازمت سےلوگوں کو زیادہ واسطہ پڑتا ہے اورلوگوں کی معتدبہ تعداد ملازمت سے وابستہ ہے بلکہ اقتصادی نظام کی ترقی ،برتری کارازسب سے زیادہ ملازمت کی بہتری وترقی میں منحصر ہے جوقوم یاملت جس قدراس کو بہتر کرنے میں دلچسپی لیتی ہے وہ اسی قدراپنی اقتصادی بہبودکی کفیل بنتی ہے ۔ معاش کے دیگرتین ذرائع بھی کسی نہ کسی شکل میں ملازمت سے منسلک ہوتے ہیں .ایک عام سے عام آدمی کوبھی نوکر ومزدور کی ضرورت پڑتی ہے۔لہٰذا انسانی زندگی کے شعبوں میں سے اگر ملازمت میں اسلامی اقدارکافروغ اوردینی احکام زندہ ہوجائیں تودیگرشعبوں پربھی اسکے اثرات ضرورپڑیں گے۔اسلئےملازمت کے شعبے میں دین کےاحیاء کوبھی باقی شعبوں کی طرح سے مقدم رکھا گیاہے۔یہاں ایک ملازم پیشہ مسلمان کے لئے مکمل رہنمائی فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جس کے ذریعہ نہ صرف یہ کہ ملازم حضرات اپنی ملازمت میں دین کو زندہ کرسکیں گے، بلکہ انسانیت کو اسلام کی طرف راغب کرنے کا ذریعہ بھی بن سکیں گے۔
ترجمہ :اُنہوں نے( موسٰی سے) کہا کہ میں چاہتا ہوں اپنی دو بیٹیوں میں سے ایک کو تم سے بیاہ دوں اس عہد پر کہ تم آٹھ برس میری ملازمت کرو اور اگر دس سال پورے کر دو تو تمہاری طرف سے (احسان) ہے اور میں تم پر تکلیف ڈالنا نہیں چاہتا۔ مجھے انشاء الله نیک لوگوں میں پاؤ گے۔
ہمارے معاشرے میں ایک بڑی تعداد میں افراد کا تعلق ملازمت سے ہے ، وزیر اعظم، صدر مملکت، چیف آف آرمی سٹاف،جرنیل، جیف جسٹس، وزیر اعلی ،گورنر، وزرا ، سیکرٹری ، ڈاکٹر اور پروفیسر وغیرہ سے لیے کر ایک کلرک ، سپاہی ، چوکیدار اور چپڑاسی تک سب کے سب ملازم ہی ہے اور ہمارے اکثر معاشرتی مسائل کا تعلق ان ہی کے ساتھ ہے اگر سب کے سب اپنی ڈیوٹی صحیح
طریقے سے کریں تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔
ذیل میں ملازم پیشہ شخص کے لئے ملازمت کے متعلق درپیش مسائل کا اسلام کی روشنی میں تحقیقی جائزہ لیا گہا ہے ۔ اور بطور رہنمائی کے ایک سرکاری اور نجی ملازم کے لئے ایک لائحہ عمل بنایا تاکہ ایک ملازم پیشہ شخص حلال روزی کما سکے اور اور ایک اچھا معاشرہ تشکیل دینے میں معین اور مدد گار ثابت ہو سکے۔
ملازمت کی لغوی تعریف:
ملازمت کی اصطلاحی تعریف :
ترجمہ: اجیر(ملازم) کی دوسری قسم اجیر خاص ہے اور اس کو اجیر واحد بھی کہتے ہیں اور اجیر خاص یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایک شخص کے لئے کوئی مقررہ کام کرے اور اس میں اجارہ کا وقت بھی طے کر لیا جائے جیسے ہی اجیر مدتِ اجارہ کے اندر اندر اپنےآپ کو (مستاجر) کے سپرد کردے گا ، تو وہ مقررہ اجرت کا مستحق ہو جائےگا اگرچہ اس نے کام نہ کیا ہو ،جیساکہ کسی شخص نے ایک آدمی کو اپنی خدمت کے لئے ایک مہینہ کے واسطے اجرت پر رکھے، یا ایک مہینہ کے لئے کسی شخص کو بکریاں چرانے کے لئے مقررہ اجرت پر رکھے۔
ضروری اصطلاحات:
اجرت: اجرت تنخواہ اور کرایہ کو کہتے ہے .
اجیر : اجیرملازم کو کہتے ہیں یا اجیر اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے آپ کو اجرت پر دے دے۔
مستاجر:اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی کو ملازمت پر رکھے یا اجرت پر کسی بھی چیز کو لینے والا بھی مستاجر کہلاتا ہے ۔
موجر:اجارے پر کسی چیز کو دینے والا ۔
ملازم کے ساتھ معاہدہ اور اس کی اہمیت:
ملازم کے ساتھ بہتر تعلق اورمستقبل میں کسی قسم کے اختلاف سے بچنے کیلئےضروری ہے کہ ملازمت کے وقت ملازم سے اسکی ذمہ داریوں اور ادارے کی پالیسوں سے متعلق معاہدات کو واضح کر لیا جائے ، عموماً ہوتا یوں ہے کہ ملازمت کے وقت نہ تو ادارہ اس بات کو اہمیت دیتاہے کہ کوئی معاہدہ واضح طور پر طےکیاجائے اورچونکہ ملازمت کا متلاشی ضرورت مندہوتا ہے اسلئےوہ بھی معاہدات کو واضح کرنے کا مطالبہ نہیں کرتا ،یہی وجہ ہے جس کی بنیاد پر مستقبل میں نت نئے مسائل، جھگڑے اور ٹریڈ ولیبر یونین کی بنیا د پڑتی ہے، شریعت اسلامی نے اسی حکمت کے پیش نظر ہر اس معاملے کو فاسد قرار دیا جو مفضی الی النزاع (یعنی جھگڑے کی طرف لے جانے والا ہو)، لہٰذا کسی ادارے کے لئے جس طرح انتظامی اعتبار سے ضروری ہے کہ وہ ملازم کے ساتھ اپنی پالیسیوں اور معاہدات کو واضح کرے اسی طرح شرعی اعتبار سے بھی اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے ہر معاملے کو اس طرح واضح کرے کہ جھگڑے اور اختلاف کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی نہایت اہم اور ضروری ہے کہ معاہدات میں کوئی ایسی پالیسی اور معاہدہ اختیار نہ کیا جائے جو شرعی اعتبار سے ناجائز ہو ایسی صورت میں ناجائز معاہدے کا گناہ ملازم اور مالک دونوں پر ہو گا، اور ادارے نے کسی خلاف شرع پالیسی کو زبردستی اپنے ملازمین پر لاگو کیا ہے تو اس کا وبال الگ ہو گا۔
موجودہ زمانہ میں ملازم کے ساتھ ایک ناجائز معاہدہ:
ملازم کی اقسام:
٭ اجیر خاص (ملازم)٭اجیر مشترک (پیشہ ورانہ اجیر(ملازم )
اجیر خاص :
چند افراد کا ملازم بنے تو پھر وہ اس مخصوص وقت میں کسی اور کاملازم نہیں ہوسکتا ، مثلاً زید نے ایک آدمی کو اپنے ادارے میں کسی پوسٹ پر ملازم رکھ لیا اور اس سے ملازمت کی تما م تفصیلات تنخواہ اور وقت وغیرہ سے متعلق طے کرلیں اور یہ بھی طے ہوگیا کہ اب وہ کسی اور کا کام نہیں کریگا تو اب یہ شخص زید کا اجیر خاص ہے ۔ یہ اجیر (ملازم) اب اپنے ملازمت کے اوقات میں کسی دوسرے شخص کا کام اپنے مستاجر (ملازم رکھنے والے یا مجاز افسر ) کی اجازت کے بغیر نہیں کرسکتاکیونکہ اس ملازم نے اپنے ملازمت کے اوقات مستاجر کے ہاتھ فروخت کردیئے ہیں ، اس لئے اجیر خاص اسی وقت سے اجرت کا مستحق ہوگا جس وقت سے اجیر نے اپنے آپ کو موجر کے سپرد کردیاہے، اگر مستاجر اس اجیر خاص سے کوئی کام نہ لے اور اسے بیکار بیٹھائے رکھے توبھی موجر کے لئے اجیر خاص کو اجرت دینا ضروری ہوگا ، کیونکہ اجیر خاص نے اپنے اوقات مستاجر کے ہاتھ فروخت کردئے ہیں اب اگر مستاجر اس اجیر خاص سے کام نہیں لیتا تو اسمیں اجیر کا کوئی قصور نہیں ہے اور اجیر اسی وقت سے اجرت کا مستحق ہوگا جب سے اجیر خاص نے مستاجر کے پاس حاضری دی ہے ۔
اجیر خاص (ملازم)کی اقسام:
(1) مزدور (2) نجی ملازم (3) سرکاری یا مسلمانوں کے اجتماعی ادارے کا ملازم
1:مزدو تو اس قدر کا م کرتاہے اور اتنا عرصہ کام کرتاہے جس کیلئے اس مزدوری پر رکھاجاتاہے ، جیسے ہی کام مکمل ہو ا اس کااجارہ بھی ختم ہوجاتاہے ۔
2: نجی ملازم کسی شخص یا اشخاص کو جواب دہ اور ان کی طرف سے ملازمت پر رکھا جاتاہے اور کام میں کوتاہی کی صورت میں ان اشخاص سے معاف کرالینے سے معافی ہوجاتی ہے۔
3:سرکاری یا مسلمانوں کے اجتماعی ادارے کے ملازم کا معاملہ سنگین ہوتاہے ، وہ جواب دہ اپنے ذمہ داروں کوہوتاہے ، اسی طرح کام میں کوتاہی یا کسی خرد برد وبد عنوانی کی صورت میں افسران بالا سے تو معاف کراسکتاہے ،لیکن عام مسلمانوں سے وہ کیسے اپنی کوتاہی وخردبرد معاف کرائے گا؟چنانچہ اپنی ملازمت کے دوران مذکورہ دونوں اقسام کے ملازموں سے زیادہ احساس ذمہ داری اوردیانت سے کا م کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ، کیونکہ اسکے پاس اپنی کوتاہی وخردبرد کو عام مسلمانوں سے معاف کرانے کی کوئی صورت نہیں ہوتی۔
اجیر مشترک:
ملازمت کے حصول کا اسلامی طریقہ کار:
کسی نئی ملازمت تلاش کرنے یا شروع کرنے کیلئے مندرجہ ذیل امورملحوظ رکھنے چاہیں :
1:نیت کی درستگی (یعنی کسی مسلمان ملازم کو نئی ملازمت شروع کرتے وقت عوام الناس کی خدمت اور ان کی نفع رسانی نیزکمائی کرکے اپنے آپ کو سوال سے بچانے ،اپنے اہل وعیال پرخرچ کرنے اور قرابت داروں اور پڑوسیوں سے حسن سلوک ومالی معاونت کرنے کی نیت کرنی چاہیے)۔2:صلٰوۃ الحاجت :صلٰوۃ الحاجت پڑھ کر اللہ تعالٰی سے مانگنا شروع کرے ۔ فانہ میسر کل عسیر و انہ علی کل شی ء قدیر(بلاشبہ وہ ہر مشکل کو آسان بنانے والاہے اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت اور دسترس رکھتاہے )۔3:مشورہ کرنا۔4: استخارہ کرنا۔ 5:اللہ تعالیٰ کے بھروسہ پر دستیاب ملازمت کا آغاز۔6: ثابت قدمی اور پُر امیدی ۔7:جو ملازمت دستیاب ہوجائے اس پر اللہ کا شکر ادا کرے ۔ 8:ملازمت کے حصول کے لئے جائز اسباب کا اختیار کرنا اور ناجائز سے بچنا۔
معیاری ملازم کی صفات:
ملازم سے متعلق اہم مسائل:یہاں چند ایسے اہم مسائل شرعیہ کا ذکر کیا جاتا ہیں جن کا ہر ملازم پیشہ شخص کو ضرورت پڑھتی ہیں۔
1:جعلی ڈگری اور امتحانات میں نقل کر کے ملازمت کا حصول:
2:سفارش کے ذریعےملازمت کا حصول:
3:تحصیل ملازمت کے لئے ستر کھولنا:
”لہذا یہ کوئی ایسی ضرورت نہیں جس کی بناء پر کسی کے سامنے ستر کھولنے کی اجازت ہو ۔ تعجب اور افسوس کا مقام ہے کہ جن لوگوں کو مذہبی تعلیم کے لئے لیا جارہا ہے ان کو مذہب کے خلاف کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے ، جو لوگ ملازمت کے لئے ایسے گناہ کبیرہ اور حرام کے ارتکاب پر تیار ہوں کے وہ مذہب کی تعلیم جو کچھ دیں گے وہ ظاہرہے ، ایسے لوگوں سے مذہب کو فائدہ پہنچنے کی بجائے نقصان ہی پہنچےگا ۔بہر کیف بلاضرورت کسی کو ستر دکھانا اور دیکھنا سخت گناہ اور حرام ہے اور مذکورہ صورت شدیدہ میں داخل نہیں“ ۔[9]
4:غلط اوور ٹائم لکھوانا اور اس کی تنخواہ لینا :
5:اپنی ڈیوٹی پر دوسرے کو بھیجنا:
کسی بھی ادارے میں متعین ملازم کے لئے شرعاً اور قانوناً یہ ضروری ہےکہ وہ خود اپنی ذمہ داری اور فرائض ادا کرے ، لہذا اس کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی جگہ ددسرے شخص کو ڈیوٹی پر بھیج کر خود اپنے آپ کو فارغ کر لے اور تنخواہ دونوں آپس میں تقسیم کر لیں، البتہ سرکاری قانون کی رو سے اس ملازم کے لئے اجازت ہو کہ وہ کسی اور شخص کو اپنی جگہ مقرر کر سکتا ہے تو پھر ایسا کرنا درست ہے اور نائب شخص سے جس طرح طے ہو ، اس کو اجرت دے کر باقی تنخواۃ خود لے سکتا ہے ۔[11]
6:ملازمت سے رخصت لےکر دینی کام میں مشغول ہونا:
اگر سرکاری ملازم کی چھٹی قانونی طور پر منظور ہوتی ہے تو چھٹی کے ان ایام میں وہ کوئی بھی کام کر سکتا ہے ، چاہےاصلاحِ نفس،تبلیغ ،تعلیم ، جہاد وغیرہ سے متعلق ہو، چاہے کوئی اور کام ہو۔ تعطیلات کے دوران چونکہ ملازم اپنےذمہ سپرد کام کا پابند نہیں ہوتا لہذا اگر اس فارغ وقت کو اپنے کسی بھی کام میں لگائے تو اس کی شرعاً گنجائش ہے بشرط یہ کہ ملازم اور حکومت کے درمیان طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی لازم نہ آئے۔[12]
7:ملازم کا اپنے ادارے کے لئے خرید و فروخت کے معاملے میں کمیشن لینا:
8:دوران سفرملازم کے لئے قصر نماز کے احکام:
9:جا ئے ملازمت جب وطن اقامت بن جائے پھر جب تک وہ جگہ چھوڑا نہ ہو پوری نماز پڑھی جائے گی:
اگر اس ملازم کا اس مقام ملازمت میں بود باش کا ضروری سامان موجود ہو تو یہ شخص ایک دفعہ پندرہ دن اقامت کی نیت سے
دیگر دفعات میں یہ مقام ، مقام اقامت شمار کرے گا ، خواہ یہاں پندرہ دن رہے یا پانچ دن رہے (اسے پوری نماز ہی ادا کرنی ہوگی ) بہر حال وطن اقامت سفر سے اس وقت باطل ہوتا ہے جبکہ اس شخص کا سامان اس وطن اقامت میں نہ ہو۔ [15]
10:ملازم یا کسی عہدے دار کا تحائف یا دعوت قبول کرنا:
ایک شخص کسی محکمہ میں بڑا افسر لگا ہوا ہے اسکے ماتحت بہت سے افسران و ملازم حضرات اور دوسرا عملہ کام کرتا ہے ، وہ لوگ وقتاً فوقتاً اس کو تحفے دیتے ہیں ۔ جن میں برتن ، مٹھائیا ں ، وغیرہ ہوتی ہیں۔ اس بارے میں حکم یہ ہے کہ جو لوگ ذاتی تعلق و محبت کے طور پر اسکو ہدیہ پیش کرتے ہیں وہ توہدیہ ہے اور اسکااستعمال جائز اور صحیح ہے اور جو لوگ اس کے عہدہ کی وجہ سے منفعت کی توقع پر ہدیہ پیش کرتے ہیں یعنی ان کواس عہدہ کی وجہ سے نفع پہنچاہے یا آئندہ توقع ہے تو یہ رشوت ہے اس کا قبول کرناجائز نہیں اس کا معیار یہ ہے کہ اگر وہ شخص اس عہدے پر نہ ہوتا یا عہدے سے سبکدوش ہوجائے تو کیا پھر بھی یہ لوگ اس کو ہدیے دیاکریں گے؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہو تو یہ ہدیہ رشوت ہیں اور اگر ان ہدیوں کا تعلق منصب اور عہدے سے نہیں تویہ ہدیے اس کے لئے جائز ہیں۔[16]
11:وردی (Uniform) کے متعلق احکا م:
ترجمہ: اے نبی آدم ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈھانکے اور (تمہارے بدن کو) زینت (دے)۔
12: ملازم کا پینٹ شرٹ کا استعمال:
13:ہڑتال کا حکم:
14:ملازم کے تنخواہ پر زکوۃ کا حکم:
ملاکر مذکورہ بالا مقدار نصاب اکٹھا ہو جائےتو اس کے حساب سے زکوۃ واجب ہوگی“۔[21]
15:ملازم کے تنخواہ قربانی اور صدقہ الفطرکے احکام:
16:تنخواہ قربانی اور صدقہ الفطر کانصاب :
تنخواہ کی جو رقم اس وقت( بقرہ عید کے دنوں میں ) موجود ہو اسے بھی حساب میں شامل کر لیا جائے خواہ بقر عید کے بعد انہیں ضروریات میں خرچ کرنا ہو ۔[23]
17:خواتین کی ملازمت شریعت کی نظر میں:
سوال یہ ہے کہعورت کام کاج کے لئے باہر نکل کر اور محنت ومشقت میں مردوں کی برابری کر کے اپنی اصل ذمہ داری بحسن وخوبی نبھا سکتی ہے اور اپنے گھر اور شوہر کا پورا حق ادا کر سکتی ہے ؟ کام کاج کرنے والی حواتین کی صورت حال دیکھ کر تو اس کا جواب نفی میں ملتا ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت کو گھر سے باہر کا کاج نہیں کرنا چاہیئے اور اسے چاہے کہ اپنے گھر کی چار دیواری تک محدود رہے؟نہیں ، ہرگز اس کا مطلب نہیں بلکہ اسلام خواتین کو کام کاج ( ملازمت و تجارت وغیرہ) جی اجازت دیتا ہےاوراسےاس کا حق قراردیتا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ جب اسے واقعتاًاس کی اشدضرورت ہو اور اس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو ، ورنہ نہیں۔ کیونکہ اسلام نے پہلے ہی اس کی ضرورتیں پورا کرنے کی ذمہ داری مرد کو سونپ دی ہے اورعورت کے ذمہ گھریلو فرائض ادا کرنے کی پابندی عائد کی ہے سب کی اپنی اپنی ذمہ داریاں ہیں جو بلا وجہ آپس میں تبدیل نہیں کی جاسکتیں۔ تو جہاں اسلام نے عورت کو اس کا پابند کیا کہ وہ گھریلو کام کاج کیا کریں اور ہر جائز طریقہ پر اپنے خاندارن کے سکون وا راحت کا سامان کریں تاکہ زندگی خوشگوار ہو وہاں اسلام نے اسے بہت سی شرعی پابندیوں سے معاف بھی رکھا ہے مثلاً جہاد ، باجماعت نماز ، نماز جمعہ اور ماہواری کے دنوں میں نماز و روزکوۃ وغیرہ ۔ یہ رعایتیں اس لئے ہیں کہ خواتین کو جو ذمہ داری سونپی گئی ہے وہ اسے اچھی طریقے سے ادا کریں۔ [24]
18:سرکاری گاڑی کے بے جااستعمال:
19:طبّی امداد کا بے جااستعمال:
20:کمپنی کی کوئی چیز استعمال کرنا:
21:مقررہ مدت سے پہلے ملازمت چھوڑنے پر مالی جرمانہ:
22:ملازمت کی جدیدصورتیں :
حوالہ جات
- ↑
الخطیب التبریزی ، محمد بن عبد اللہ، مشکوۃ المصابیح ، کراچی،مکتبۃ البشری ، 1431ھ، کتاب البیوع ، باب الکسب وطلب الحلال ،الفصل الثالث ، حدیث نمبر 2781، ج 3، ص 90
- ↑
القرآن 28: 27
- ↑
الحصکفی،علاؤ الدین محمد بن علی بن محمد الحنفی الدمشقی ، رد المحتار علی الدر المختار، چمن بلوچستان ،مکتبہ علوم اسلامیہ ،1428ھ ،کتاب الاجارۃ ،ج9 ،ص 117
- ↑
دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن 27 محرم 1434 ھ، فتوی نمبر 478
- ↑
بحوالہ بالا،حصکفی، محمد بن علی بن محمد الملقب بعلاؤ الدین الحنفی الدمشقی ، رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الاجارۃ ،ج9 ،ص 108
- ↑ عثمانی ،زبیر اشرف،جدید معاشی نظام میں اسلامی قانون اجارہ ، کراچی ، ادارۃ المعارف، 2013ء باب الاجارۃ العمل ،ص81
- ↑
دار الافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی، فتویٰ نمبر1449/42
- ↑
دار الافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی، فتویٰ نمبر1449/42
- ↑
مفتی رشید احمد ، احسن الفتاوی، کراچی،ایچ ایم سعید کمپنی ، 1435ھ، کتاب الحظر و الاباحۃ، ج8 ،ص 188
- ↑
لدھیانوی ، محمد یوسف شہید،آپ کے مسائل اور ان کاحل، کراچی،مکتبۃ لدھیانوی،فصل معاملات، 1989ء،ج7،ص 292
- ↑
عمر فاروق،آسان فقہی مسائل ، کراچی، بیت العلم، 2010 ء ،ص 566
- ↑
میڈکل سائنس سے متعلق جدید مسائل فقہ، ص 289
- ↑
بحوالہ بالا،لدھیانوی،محمد یوسف شہید،آپ کے مسائل اوران کاحل، فصل خریدفروخت کے مسائل ،ج 7 ، ص 282
- ↑ گنگوہی، محمود حسن، فتاوی محمودیہ ، کراچی،ادارۃ الفاروق ،2009ء،باب صلاۃ المسافر ،ج 7 ،ص 480
- ↑
مفتی محمد فرید،فتاویٰ فریدیہ،اکوڑہ خٹک، 1430 ھ ،فصل فی السفر التی تتغیر بہ الاحکام، ج3،ص 49
- ↑
بحوالہ بالا،لدھیانوی،محمد یوسف شہید،آپ کے مسائل اوران کاحل، فصل رشوت، ج7،ص 230
- ↑
[javascript:void(0) القران 7: 26]
- ↑
السجستانی ، ابو داودسلمان بن الاشعث، سنن ابی داود ، کراچی،قدیمی کتب خانہ ،س ن ،کتاب اللباس ، باب فی لبس الشھرۃ ، ج 4، ص 204
- ↑
عثمانی، محمدتقی عثمانی، تکمیلہ فتح الملہم ، بیروت ، دار احیاء التراث العربی ،1426ھ ، کتاب الباس و الزینۃ ج 4 ، ص76
- ↑
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی، 776/46
- ↑ www.Darululoomdeoband.com
- ↑
مفتی ،محمد انعام الحق ،قربانی کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا ، کراچی،مکتبہ بیت العمار ، 2014ء،ص 122
- ↑ www.Darululoomdeoband.com
- ↑
عبد الرب آل نواب ، عمل المرءۃو موقف الاسلام منہ، ص157
- ↑ بحوالہ بالا،لدھیانوی،محمد یوسف شہید،آپ کے مسائل اوران کاحل، فصل معاملات،ج8،ص 278
- ↑
ایضاً، ص 279
- ↑
ایضاً، ص 277
- ↑ مفتی رشید احمد ،احسن الفتاوی، کراچی،ایچ ایم سعید کمپنی، 1435ھ ، کتاب الاجارہ ،ج 7 ،ص 318
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 1 | 2019 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |