Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 3 Issue 1 of Rahat-ul-Quloob

نظم وضبط میں تنظیم وقت کا کردار: اسلامی تعلیمات کی روشنی میں |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

 

نظم و ضبط کیا ہے؟
ن + ظ + م’’نظم ‘‘تین حروف کا مجموعہ ہے لیکن معنی میں بے پناہ وسعت ہے۔ یعنی کلام موزوں، خوبصورت آہنگ کا مالک توازن کا مجموعہ جو تمام حیات پر حاوی ہے جس کے بغیر زندگی بے ڈھنگی اور بد صورت ہے۔ ض + ب + ط ’’ضبط‘‘تین حروف کا مجموعہ جس کا مطلب ہے قید، پابندی ، غلامی جو تمام بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں کو کنٹرول میں رکھتا ہے ۔ضبط سے مراد پاسبانی ، حفاظت ، نگہبانی ، ہوشیاری، بندوبست ، حکومت ، راج، پابند، قبضہ سرکار کو کہتے ہیں جبکہ نظم سے مراد لڑی، موتیوں کو دھاگے میں پرونا، انتظام کرناوغیرہ[1]۔عربی اردو لغت کےمطابق ضبط سےمرادتحمل،برداشت،دستورالعمل،قاعسہ قانون جبکہ نظم سےمرادحسن ترتیب انتظام ، سلیقہ ۔ نظم و نسق بھی نظم و ضبط کے تحت ہی آتا ہے یعنی ضابطے قاعدے قانون کا احترام۔[2]

 

نظم وضبط میں تنظیم وقت کا کردار :
ایک شخص نے اپنے دوست سے سوال کیا، ’’دنیا کی چیزوں میں سے کون سی چیز ہے جو سب سے زیادہ طویل ہے مگر مختصر

 

بھی، سب سے تیز رفتار بھی ہے اور سست ترین بھی ، سب سے زیادہ تقسیم ہونے والی بھی ہے اور سب سے زیادہ کھنچ جانے والی بھی ہے ، سب سے زیادہ نظر انداز بھی کی جاتی ہے مگر اس کا افسوس بھی سب سے زیادہ ہوتا ہے ، ایسی چیز جس کے بغیر کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا ، جو معمولی چیزوں کو ختم کر دیتی ہے مگر معمولی چیزوں کو دوام بخش دیتی ہے۔ دوست کا جواب تھا: وقت ۔۔۔۔ وقت سے زیادہ طویل کوئی چیز نہیں ، کیوں کہ یہ ابدیت کا پیمانہ ہے ۔ وقت سے مختصر کوئی شے نہیں ، کیوں کہ یہ ہماری آرزوں اور منصوبوں کی تکمیل کیلئے ہمیشہ کافی ثابت ہوتا ہے وقت سے زیادہ سست رفتار کوئی چیز نہیں ، اس کے لئے جو کسی امید اور انتظار میں ہو ۔ وقت سے زیادہ تیز رفتار کوئی چیزنہیں اس کیلئے جو خوشی اور مسرت کے لمحات میں ہو ۔ وقت طول میں ابدیت تک جا پہنچتا ہے اور چھوٹا ہونے کی بات ہو تو سیکنڈ کے ہزارویں کیا کروڑوں اربوں حصوں میں تقسیم ہو سکتا ہے ۔ہر شخص اسے نظر انداز کرتا ہے اور سب ہی اس کے ضائع ہونے پر افسوس کرتے ہیں۔ وقت کے بغیر کچھ نہیں کیا جا سکتا ہر معمولی واقعے کو آئندہ نسل میں منتقل ہونے سے قبل ہی طاق نسیاں کےحوالےکر دیتا ہے اور ہر ایسے عمل کو لا فانی بنا دیتا ہے جو واقعی عظیم ہو۔‘‘ [3]

 

وقت ایک بہتا ہوا دریا ہے ، جس طرح دریا کی گزری ہوئی لہریں واپس نہیں ہو سکتیں،اسی طرح گیا ہوا وقت بھی کھبی دوبارہ ہاتھ نہیں آ سکتا ۔ وقت چلچلاتی دھوپ میں رکھی کسی برف کی سل کی مانند ہے جو ہر آن پگھلتی ہی چلی جا رہی ہے، اور ایک سفر مسلسل کی طرح رواں دواں ہے کہ کہیں کوئی پڑاو یا ٹھراونظر نہیں آتا ۔یا اسے یوں تعبیر کریں کہ، وقت ، روئی کے گالوں کی طرح ہے، عقل و حکمت کے چرخے میں کات کر اس کے قیمتی پارچہ جات اگر بنا لئے گئے تو وہ کام میں آ جائیں گے ، ورنہ غفلت و جہالت کی آندھیاں اسے اڑاکر کہیں کا کہیں پھینک دیں گے۔

 

وقت اور اس کی خصوصیات:

 

وقت بڑی تیزی کے ساتھ گزر جاتا ہے ۔ وقت ایک تندو تیز ہوا کی مانند ہے جو بادل کی طرح تیزی سے گزر جاتا ہے ۔ کبھی یہ خوشی کے ساتھ گزر جاتا ہے تو کبھی یہ غم کے ساتھ ۔ وقت ایک ایسی چیز ہے جسے نہ ہم دیکھ سکتے ہیں اور نہ چھو سکتے ہیں،اسے نہ ہم خرید سکتے ہیں اور نہ ہی فروخت کر سکتے ہیں۔وقت ایسی کوئی مادی چیز بھی نہیں ہے جسے ہم بعد میں استعمال کرنےکیلئےریفریجریٹر یا ڈیپ فریزر میں رکھ کر بعد میں گرم کر کے استعمال کر سکیں اسے اگر استعمال نہ کیا گیا تو یہ بغیر کسی حرکت اور عمل کے ضائع ہو جائے گا۔وقت کو بچا بچا کر بھی استعمال نہیں کر سکتے بلکہ انسان میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ جو وقت اسے میسر ہو اسے بہترین طریقے سے استعمال کر سکے۔ اسے نہ ہم کرایہ پر لے سکتے ہیں اور نہ ہی زندگی کے مقررہ وقت سے زیادہ استعمال کر سکتے ہیں۔وقت کی رسد غیر لچک دار ہے اور یہ رسد طلب کے مطابق نہیں مل سکتی۔وقت کی کوئی بھی قیمت نہیں ہے البتہ اس وقت میں فراہم کی جانے والی خدمات کا معاوضہ دیا جاتا ہے ۔ وقت کا کوئی بھی نعم البدل بھی نہیں ،وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا،انسان کے ہاتھ میں سب سے زیادہ قیمتی چیز وقت کی صورت میں ہی ہے۔ ہر کام اور ہر عمل کے لئے وقت درکار ہے اورانسان کو ہمیشہ اس بات کی شکایت رہتی ہے کہ۔۔۔۔ وقت فرصت ہے کہاں۔ کام

 

ابھی باقی ہے۔[4]

 

وقت کی اقسام:
یہ ہماری خام خیالی ہے کہ ہمارے پاس روز کے 24 گھنٹے ہیں جنھیں ہمیں استعمال کرنا ہوتا ہے۔ اگر ہم مندرجہ ذیل پر غور کریں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ہمارے پاس صرف 10 تا 11 گھنٹے ہیں جنہیں ہم استعمال کرنے کے سلسلے میں کوئی صوابدیدی یا اختیاری عمل کر سکتے ہیں۔کمٹڈ ٹائم ، اسکول ، ورک، خاندان، مقاصد کیلئے، آپ کو روزانہ تعلیم کے لئے سکول ، کالج یا یونیورسٹی جانا ہے۔ مین ٹیننس ٹائم، زندگی کی بقاء ، آرام، ضروریات کیلئے وقت۔اختیاری وقت، وہ وقت جو آپ دفتر یا روزگار کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی حد تک صوابدیدی انداز سے استعمال کرتے ہیں۔[5]

 

وقت کی اہمیت:
وقت کی قدروقیمت کے حوالے سے جو بات کہنی ہے وہ یہ کہ وقت ایک بے مثال ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ یہ ایک Unique Resource ہے۔ یہ فوری ضائع ہونے والی ایسی چیز ہے جسے نہ چھوا جا سکتا ہے اور نہ دیکھا جا سکتا ہے اور نہ اسے کسی طریقے سے محفوظ اور ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ وقت ایک ایسی نعمت ہے جسے نہ کرایہ پر لیا جا سکتا ہے اور نہ کرایہ پر دیا جا سکتا ہے۔وقت گزرنے کے بعد بھی استعمال نہیں کیا جا سکتا اور نہ وقت آنے پر بیشتر استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ گزرے ہوئے لمحات کو پکڑا نہیں جا سکتا۔ دو اوقات کے درمیان کوئی رکاوٹ پیدا کر کے ان میں فاصلہ پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ یہ تسلسل کے ساتھ آرہا ہے اور تسلسل کے ساتھ جا رہا ہے۔ جس انداز سے سورج اور چاند کو ان کے امور سے اور ان کی گردش سے روکا نہیں جا سکتا ، اسی انداز سے وقت کے تسلسل کو روکا نہیں جا سکتا۔

 

انسان چاہے امیر ہو یا غریب ہو، وہ جب روزانہ اٹھتا ہے تو اسے 1440 منٹ کی تھیلی دے دی جاتی ہے جو اس وقت کو جتنے اچھے اور بہتر انداز میں استعمال کرتا ہے وہ اتنا ہی کامیاب ہوتا ہے ۔ جس نے اسے استعمال نہیں کیا اس کا وقت خرچ ہو جاتا ہے اور جو وقت خرچ ہو جاتا ہے وہ واپس لوٹ کر نہیں آتا اور نہ ہی اس سے فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ جو وقت آیا ہی نہیں ہے اس کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے ،اس کی منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے مگر اسے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

 

وقت کی سپلائی یعنی اس کی رسد مقرر ہے یعنی جتنی زندگی ہے اتنا ہی وقت دیا گیا ہے ہر چیز کے لئے وقت کی ضرورت ہے ہر کام کسی نہ کسی وقت پر ہوتا ہے۔ ہر کام اور ہر سرگرمی کے لئے وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسان کے پاس وقت کو بہتر استعمال کرنے کے وسائل بھی بہت کم ہیں اسے ہمیشہ وقت کی کمی کی شکایت رہتی ہے ۔ وہ بہت سارے کام فرصت کے اوقات میں کرنا چاہتا ہے لیکن اسے اپنی زندگی میں کبھی فرصت نہیں ملتی۔ فرصت تو شاید قبر میں ملے، لیکن قبر عمل کی جگہ نہیں ہے۔ہم نے اپنے آپ کو دنیا کے کاموں میں اتنا الجھایا ہوا ہے کہ ہمیں دنیا کی چیزوں کے علاوہ اور کوئی شے نظر نہیں آتی جبکہ حال یہ ہے کہ ہم ہر اگلےلمحے اپنی زندگی کو کم کرتے جا رہے ہیں۔ اور ہمیں موت کا بھی احساس نہیں ہے۔ اگر انسان اپنی زندگی کے ہر دن کو آخری دن سمجھے اور ہر لمحے جواب دہی کے احساس کے ساتھ وقت کو گزارنےکی کوشش کرے تو بہت سارے کام اس احساس کے باعث قوت عمل پیداہونے کی وجہ سے پورے ہو جائیں گے۔وقت ایک ایسی چیز ہے جسے ذخیرہ نہیں کیا جا سکتا اسے بازار میں پھلوں اور سبزیوں کی طرح خرید کر فریج میں نہیں رکھا جا سکتا یہ جیسے ہی آتا ہے اسے استعمال کیا جا سکتا ہے ، گھڑی کی طرف دیکھیے کتنی تیزی کے ساتھ زندگی کے لمحات گزر رہے ہیں ذرا سوچئے تو سہی ، آج صبح اٹھے تھے اور اب تک کتنے گھنٹے ، کتنے منٹ اور کتنے سیکنڈ خرچ ہو چکے ہیں۔ اور ہم ہیں کہ موت کی طرف جا رہے ہیں اور آخرت کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں اس کے لئے ہم نے کتنی تیاری کی ہے اس کا احساس شاید ہمیں نہیں ہے۔

 

ہر انساس کے پاس جو زندگی ہے وہ آج کی زندگی ہے یعنی بس آج کا دن ہے ۔ لیکن آج کے دن کو تو ہم نے دفتر ، کاروبار،ٹی وی اور دولت کے سمیٹنے پر لگا رکھا ہے ۔ ہم میز کرسیوں ، نوٹس ، فائلوں، خلاصوں اور خرید و فروخت کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں کہ یہ زندگی ہے حالانکہ زندگی اس سے آگے بھی بہت کچھ ہے۔[6]

 

وقت کی تہہ میں افراد اور قوموں کی ترقیوں کا راز مضمر ہے:

 

وقت زندہ قوموں کی زندگی میں بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ وقت افراد اور قوموں کا سرمایہ ہے ، ترقی کی وہ راہیں جو اس سرمایہ کے ٹھیک استعمال ہی کی بدولت طے ہو سکتی ہیں اور انہی اقوام کی رہ گزر بن سکتی ہیں جو اس گرانمایہ پونجی کو صحیح استعمال کرتی ہیں فرد و معاشرے کا جزو ہے اور افراد ہی کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر ہوتی ہے[7]۔بقول اقبالؒ:

 

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ [8]

 

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ قوموں کے عروج و زوال میں وقت نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے جو قومیں وقت کے ساتھ دوستی رچاتی ہیں اور اپنی زندگی کے شام و سحر کو وقت کا پابند کر لیتی ہیں ، وہ ستاروں پر کمندیں ڑال سکتی ہیں، صحراوں کو گلشن میں تبدیل کر سکتی ہیں، فضاوں پر قبضہ جما سکتی ہیں، عناصر کو مسخر کر سکتی ہیں، پہاڑوں کے جگر پاش پاش کر سکتی ہیں اور زمانے کے زمام قیادت سنبھال سکتی ہیں۔ مسلمانوں کی درخشاں تاریخ اس پر گواہ ہے[9]۔بقول اقبالؒ:

 

نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں

 

قلندرانہ ادائیں سکندرانہ جلال یہ امتیں ہیں جہاں میں برہنہ شمشیریں[10]

 

لیکن جو قومیں وقت کو ایک بیکار چیز سمجھ کر یوں ہی گنواتی رہتی ہیں تو وقت انہیں ذلت کی اتھاہ گہراہیوں میں ایسا دھکیل دیتا ہے کہ دور دور تک کھوجنے سے ان کا نام و نشان نہیں ملتا۔ پھر وہ غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ اور وقت کا ضیاع ان کے ہاتھوں میں کشکول گدائی تھما دیتا ہے ۔ آج امت مسلمہ کی حالت زار بھی ڈکھی چھپی نہیں ہے۔ بقول اقبالؒ:

 

وائے نا کا می متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زباں جاتا رہا [11]

 

بعض علماء فرماتے ہیں کہ زندگی چند گنے ہوئے سانسوں کا نام ہے۔ جب ان میں سے ایک سانس گزر جاتا ہے تو عمر کا ایک جزء

 

کم ہو جاتا ہے۔حق تعالی نے ہر انسان کو اس کی عمر کے اوقات عزیز کا بے بہا سرمایہ دے کر ایک تجارت پر لگا دیا ہے کہ وہ عقل و شعور سے کام لے اور اس سرمایہ کو خالص نفع بخش کاموں میں لگائے تو اس کے منافع کی کوئی حد نہیں رہتی اور اگر اس کے خلاف کسی مضرت رساں کام میں لگا دیا تو نفع کی تو کیا امید ہوتی، یہ راس المال بھی ضائع ہو جاتا ہے اور صرف اتنا ہی نہیں کہ نفع اور راس المال ہاتھ سے جاتا رہا، بلکہ اس پر سینکڑوں جرائم کی سزا عائد ہو جاتی ہے اور کسی نے اس سرمایہ کو نہ کسی نفع بخش کام میں لگایا نہ مضرت رساں میں، تو کم سے کم یہ خسارہ تو لازمی ہی ہے کہ اس کا نفع اور راس المال دونوں ضائع ہو گئے۔ [12]

 

وقت کی اہمیت قرآن کی روشنی میں:
وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُورًا۔[13]

 

ترجمہ:اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایسا بنا یا کہ وہ ایک دوسرے کے پیچھے چلےآتے ہیں(مگر یہ ساری باتیں) اس شخص کے لیے (کارمد ہیں )جو نصیحت کا ارادہ رکھتا ہو یا شکر بجالانا چاہتا ہو۔

 

علامہ ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

 

اللہ تعالیٰ نے دن ورات کو اپنے بندو ں کی عبا دت کی خاطر ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے بنایا ؛کہ اگر رات کو کوئی عمل اس سے چھوٹ جائے تو پھر دن کو وہ کرسکے اور اگر دن کو چھوٹ جائے تورات کو وہ کرسکے۔[14]

 

جس کاحاصل یہ ہے کہ انسان کو چاہیے دن ورات کو عمل میں لگا ئے اگر کبھی دن کی فرصت ہاتھ سےفوت ہوجائے تو رات کو اس کمی کا ازلہ کرے اور اگر رات کو فوت ہو جائے توپھر دن میں اس کا ازالہ کرے۔علامہ زمحشری ؒ’’الکشاف‘‘میں اس آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ:’’انسان کو چاہیے کہ ہروقت اللہ کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرتا رہے :رات کو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو چین و سکون کا ذریعہ بنا یا اور دن کو اس لیے کہ اس کو تصرف اور عمل کیلئے مقرر کیا ‘‘[15]۔حاصل یہ کہ دن ورات دونوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھے اور ضائع ہونے نہ دیا جائے ۔

 

وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا۔ وَالْقَمَرِ إِذَا تَلَاهَا۔وَالنَّهَارِ إِذَا جَلَّاهَا۔وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَاهَا۔ [16]

 

ترجمہ:قسم ہے سو رج کی اور اس کی پھیلی ہو ئی دھوپ کی ،اور چاند کی جب سورج کے پیچھے پیچھے آئے ،اور دن کی جب وہ سو رج کا جلوہ دکھائے ،اور رات کی جب وہ اس پر چھاکر اس کو چھپا لے۔

 

وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى۔وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى ۔ [17]

 

ترجمہ:قسم ہے رات کی جب وہ چھا جائے ،اور دن کی جب اس کااجالا پھیل جائے ۔

 

وَالضُّحٰى وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى۔[18]

 

ترجمہ:(اے پیغمبر۔۔!) قسم ہے چڑھے دن کی روشنی کی ،اور رات کی جب اس کا اند ھیرا بیٹھ جائے ۔

 

وَالْعَصْرِ ۔ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ ۔[19]

 

ترجمہ:قسم ہے زمانہ کی،انسان درحقیقت بڑے گھاٹے میں ہے ۔

 

دیکھئے ۔۔! مذکورہ بالا چار آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مختلف اوقات کی قسم کھائی ہے :دن کی قسم ،رات کی قسم ،چاشت کے وقت کی قسم اور زمانہ کی قسم وغیر ہ ۔یہ قسمیں وقت کی اہمیت اور عظمت اجاگر کرتی ہیں اور پکار پکار کر انسان کو عمرِعزیز کی گزرتی لہروں سے نفع اٹھانے کی طرف تو جہ دلاتی ہیں۔

 

وقت کی اہمیت احادیث کی روشنی میں:
عن عمرو بن ميمون أن النبي قال لرجل :إغتنم خمسا قبل خمس:حياتك قبل موتك،وفراغك قبل شغلك ، وغناك قبل فقرك ، وشبابك قبل هرمك ، وصحتك قبل سقمك۔[20]

 

ترجمہ:پانچ کو پانچ سے پہلے غنیمت سمجھئے۔۔! موت سے پہلے زندگی کو، بیماری سے پہلے صحت کو، مشغولیت سے پہلے فراغت کو،بڑھا پے سے پہلے جوانی کو اور فقر سے پہلے مالداری کو۔

 

پانچ چیزوں کی قدر کریں:

زندگی کی قدر کریں۔۔۔!موت و حیات دونوں اگر چہ اللہ کی طرف سے ہیں ،لیکن زندگی ایسی نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے فی الحال انسان کو عطاکر رکھاہےاور جب تک یہ روح انسان کے جسم میں رواں دواں ہو اس وقت تک انسان ہر دلعزیز ہوتا ہے لیکن جیسے اس کی روح پر واز کر جاتی ہے تو اس ہڈیوں کے ڈانچے کو خونی اور قریبی رشتہ دار بھی گھر میں دیر تک رکھنے کو تیار نہیں ہو تے ہیں اور ہر ایک کی یہ کو شش ہوتی ہے کہ جلد سے جلد اس کا جنا ز نکال کر قبر تک پہنچا یا جائے۔۔۔ لہذ ا انسان کو چاہیے کہ موت آنے سے پہلے پہلے اس مختصر سی زندگی کو اعمال ِ صالحہ ،آخرت کی تیاری، اصلاحِ امت ،اقامت ِ دین اور فلاح ِ دارین میں صرف کرے کیونکہ جب موت آئے گی تو انسان تمام اعمال سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجاتا ہے ۔پھر یہ ندامت اور پچھتاوا کچھ کام نہیں دے گا۔

 

صحت کی قدر کریں۔۔۔!صحت ایک ایسی دو لت اور نعمت ہے جس کی کوئی قیمت نہیں لگا ئی جاسکتی ہے اور اس کی قدر انسان کو اس وقت معلوم ہوجاتی ہے جب وہ (اللہ نہ کرے) کسی ایسی بیمار ی کا شکار ہوجائے کہ اٹھنے بیٹھنے،کھانے پینے اور حاجت پوری کرنے میں دوسر وں کا محتاج ہو جائے یا ہسپتال میں پڑے کنسر ،شوگر ،یرقان اور ٹی بی کے مریضوں کو دیکھ لے ،لیکن عقلمند اور ہو شیار انسا ن وہ ہے جو بیماری سے پہلے پہلے اس سے فائدہ اٹھائے اور اس کو آخرت کی تیاری ،اصلاح ِ امت اور خدمت ِ دین کے لیے وقف کرے۔

 

فراغت کی قدر کریں۔۔۔!یہ انسان کے لیے ایک بیش بہا ، گرانقد ر اور سبق آموز نصیحت ہےکہ انسان کو چا ہئے کہ فراغت اور یکسوئی کو قدر کی نگاہ سے دیکھے اور اس کو اللہ کی طرف سے ایک عظیم نعمت سمجھ کر پھونک پھو نک کر خرچ کرے ۔

 

انسا ن کو چا ہیے کہ بڑھاپے سے پہلے پہلے اپنی جوانی کو غنیمت سمجھے۔زندگی میں ’’جوانی ‘‘عمر کا ایک ایسا حصہ ہے جس میں اللہ

 

تعالیٰ کی طرف سے دی ہو ئی نعمتیں کمال کو پہنچی ہو ئی ہو تی ہیں اور اس عمر میں انسا ن ہر میدان میں قد م رکھنے کا اہل ہو تا ہے ۔آپ تاریخ اٹھا کر دیکھے تو دنیا میں بڑے بڑے کارنامے انجام دینے والے آپ کو نوجوان ہی ملیں گے چنا نچہ حضرت ابوبکر الصدیق کی عمر اڑتالیس سال ،حضرت عمر فارو ق کی عمر ستا ئیس سال ، حضر ت علی کی عمر دس سال ۔۔۔یہ نوجوانوں کی ایک جماعت ہے جہنوں پوری دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔آپنے اپنی آخر ی عمر میں جو لشکر تیار کیا اور اس پر جس صحابی کو امیر مقرر کیاتھا ،وہ تھے اسامہ بن زید،اور اس وقت ان کی عمر تھی اٹھارہ سال اور اسی طر ح محمد بن قاسم نے سترہ سال کی عمر میں ایک بڑ ے علاقوں کو فتح کیا، ان اٹھارہ اور سترہ سا ل کے بچے نے فوج کو سنبھالا اور سینکڑوں میل تک اسلام پھیلایا ،کیا آج سترہ سال کا کوئی بچہ گھر سنبھال سکتا ہے ۔۔۔۔؟؟؟

 

مالداری کی قدر کریں۔۔۔!ازروئے شر یعت مال کمانا کوئی ممنوع کام نہیں،البتہ مال کی محبت مذموم اور منع ہے کہ انسان جب "حب ِمال" کے مرض میں مبتلا ہوجاتاہے تو پھر وہ نہ حقوق العبا د(قرض،بیوی نفقہ واجبہ وغیرہ ) کی ادا ئیگی کا خیال رکھتا ہے اور نہ حقوق اللہ (زکوٰۃ،حج وغیرہ)کی ادائیگی کا سو چتاہے، بلکہ اس کی نظر صرف مال و دولت بڑھانے پر ہوتی ہے اور ہمیشہ سرمایہ کاری کے منصوبے سو چتارہتا ہے ،حالانکہ انسان کو چاہیئے تھاکہ یہ اللہ کا دیاہوا رزق اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرتا اور اس مالداری کی قدر کرتا ، کیونکہ غنی کو معلوم نہیں کہ وہ کب تک غنی بن کر زند گی گزار ے گا؟ اور کب تک یہ مال ،یہ گاڑی ،یہ بنگلہ اور یہ راحت وآرام کا سامان چلے گا ؟ اور فقیر کو معلوم نہیں کہ وہ کب فقر و فاقہ اور غربت و تنگدستی کے جال سے نکل کر غنی بن جائے گا؟ لہذا جن لو گوں کو اللہ تعالیٰ نے مال دیاہو اہےان کو چاہیئے کہ وہ اپنے ما ل کو اشاعتِ خیر ،ترویج ِ دین ،جہاد فی سبیل اللہ ،مدارس کے قیام ،مساجد کی تعمیر اور غریبوں کی مدد میں خر چ کرنے کو سعادت سمجھیں۔

 

نعمتان مبغون فیھما کثیر من الناس:الصحۃ والفراغۃ۔[21]

 

ترجمہ:دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں بہت سارے لوگ دھوکے کا شکار ہیں:ایک صحت اور دوسری فراغت۔ یعنی ان دو چیزوں کو وہ نعمت سمجھتے ہی نہیں نہیں۔

 

كان ابن عمر يقول: إذا أمسيت فلا تنتظر الصباح، وإذا أصبحت فلا تنتظر المساء، وخذ من صحتك لمرضك،ومن حياتك لموتك ۔[22]

 

ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عمر فر ماتے ہیں:جب شام ہوجائے تو آپ صبح کا انتظار نہ کرے اور جب صبح ہو جائے تو پھر شام کا انتظار نہ کرے اور بیماری سے پہلے پہلے صحت سے فائدہ اٹھا ئے اور مرنے سے پہلے پہلے زندگی کی قدر کرے۔

 

مطلب یہ کہ جب شام ہوجائے تو اس کو غنیمت سمجھتے ہوئے اعمال کرے صبح کا انتظار نہ کرے کہ کل صبح میں فلان کام کروں گاکیونکہ معلوم نہیں کہ کس گلی میں زندگی کی شام ہوجائے اور اسی طرح جب صبح ہو جائے تو اسی میں اعمال کا سلسلہ شروع کرے شام کے انتظار میں نہ بیٹھے ۔

 

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- لاَ تَزُولُ قَدَمَا عَبْدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ عُمْرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ وَعَنْ عِلْمِهِ فِيمَا فَعَلَ وَعَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَا أَنْفَقَهُ وَعَنْ جِسْمِهِ فِيمَا أَبْلاَهُ ۔[23]

 

ترجمہ:قیامت کے دن انسان کے قد م اس وقت تک اپنی جگہ سے نہیں اٹھ سکتے ہیں جب تک اس سے (پانچ چیزوں کے بارے میں نہ پو چھاجائے کہ زندگی کہاں گزاری۔۔۔۔۔۔۔۔

 

وقت کی اہمیت صحابہ کرام کی نظر میں:
حضرت ابوبکرالصدیق رضی اللہ عنہ یہ دعاء کیا کر تے تھے:

 

الّلھم لاتدعْنا فی غمر ۃٍ ولاتاخذْنا علی غرّۃٍ ولاتجْعلْنا مِن الغافلین۔[24]

 

ترجمہ: اے اللہ ۔۔! ہمیں شدت میں نہ چھوڑیئے اور ہمیں غفلت کی حالت میں نہ پکڑے اور ہم کو غفلت والو ں میں سے نہ بنا ئے۔

 

حضرت عمر فارو ق رضی اللہ عنہ یہ دعاء مانگا کر تے تھے:

 

الّلھم اِنّا نسالک صلاحَ السّاعات والبر کۃَ فی الاوقات۔[25]

 

ترجمہ: اے اللہ ۔۔! ہم آپ سے زندگی کی گھڑیوں درستگی اور اوقات میں برکت کا سوال کر تے ہیں۔

 

حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ جملہ ارشاد فر ماتے تھے:

 

الایّام صحائفُ اعمارکم فخلِّدُو ھا صالح اعمالکم۔

 

ترجمہ: یہ دن تمہاری عمر وں کے صحیفے ہیں ،اچھے اعمال سے ان کو دوام بخشو۔[26]

 

وقت کی اہمیت ائمہ عظام کی نظر میں:
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فر ماتے ہیں:

 

یا ابن اٰدم اِنّما انتَ ایّام ،فاذا ذاھبٌ یومٌ ذھبَ بعضک۔

 

ترجمہ:اے ابن آدم۔۔۔! تودنوں ہی کا مجموعہ ہے جب ایک دن گز ر جائے تو یوں سمجھ کہ تیرا ایک حصہ بھی گزر گیا۔

 

علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ اپنے صاحبزادوں نصیحت کر تے ہو ئے لکھتے ہیں :

 

اِنّ الایام تبسط ساعاتٍ والساعاتُ تبسط انفاساً و کلّ نفسٍ خزانۃٌ فاحذر ان یذھبَ نفسٌ بغیر شیئٍ۔

 

ترجمہ:زندگی کے دن چند گھنٹوں اور گھنٹے چند گھڑیوں کے نام ہیں،زندگی کا ہر سانس ایک بیش بہا خزانہ ہے لہذا ایک ایک سانس کی قدر کیجئے کہ کہیں بغیر فائدہ کے نہ گزرے۔[27]

 

اب تک کی تحریر سے ہمیں بخوبی اندازہ ہو گیا کہ اگرہم نے دنیا آخرت کی کامیابیاں حاصل کرنی ہیں تو ہمیں اپنے وقت کی

 

تنظیم کرنی ہو گی ۔ کیونکہ زندگی میں نظم و ضبط کے لئے وقت کی تنظیم لازمی ہے۔

 

تنظیم وقت (ٹائم منیجمنٹ ) کیا ہے؟
تنظیم وقت کا مطلب ہے کہ بڑی منزل اور مستقبل کی تصویر کی روشنی میں زندگی کی مصروفیا ت میں ترجیحات کا تعین کر کے ان پر عمل کے لیے پرعزم رہنا۔

 

تنظیم وقت (ٹائم منیجمنٹ ) کی ضرورت:
تنظیم وقت کی ضرورت کو سمجھنے کیلئے آپ کے سامنے ایک مثال پیش کرتے ہیں کہ:فرض کریں ایک تالاب ہےاور جب تالاب کی بات ہوتی ہے تو یہی تصور ہوتا ہے کہ وہ پانی سے بھرا ہوا ہے ۔ یہاں دو افراد ہیں مسٹر اے اورمسٹر بی ان میں سے ایک کو تیرنا آتا ہے اور ایک کو تیرنا نہیں آتا۔ تالاب کوعبور کر کے دوسرے کنارے پر پہنچنا ہے ۔ اب ان میں سے کون پہلے پہنچے گا؟ بلاشبہ دوسرے کنارےتک پہلے وہی پہنچے گا جس کو اس کی تربیت حاصل ہے اور دوسرا شخص جو تربیت یافتہ نہیں ہے شاید درمیان میں ہی رہ جائے۔ یہ ہے ٹائم مینجمنٹ کی تربیت کی ضرورت۔[28]

 

تنظیم وقت (ٹائم منیجمنٹ )کی تربیت:
جو لوگ ٹائم مینجمنٹ کی تربیت حاصل کرتے ہیں ۔ دیکھاگیا ہے کہ عموما انہیں اپنی عادات بدلنے میں30 دن لگتے ہیں پھر جو لوگ ٹائم مینجمنٹ کی تربیت حاصل کر لیتے ہیں اور اس تربیت کو اپنی زندگی میں عملا بھی اپنا لیتے ہیں انہیں اس کے فوائد بہت زیادہ ملتے ہیں۔ وہ کس طریقے سے؟؟؟اس کی مثال دی جاتی ہے چائینز بانس کے پودے یا درخت سے بانس کے ان پودوں کی کاشت کے لئے چار سال تک پانی دینے کے باوجود پودوں کاقد صرف ایک فٹ بڑھتا ہے لیکن پانچویں سال میں جا کر80 فٹ طویل تنے نکلتے ہیں ، تو جو لوگ ٹائم مینجمنٹ کی تربیت حاصل کرتے ہیں وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس سے فائدہ کیا ہو گا ؟ شروع کے چند ایام میں یا چند ہفتوں میں آپ کو یہ محسوس ہو گا کہ کوئی فائدہ نہیں ہو رہا اور محنت تکلیف دہ ہے لیکن اس کے بعد آپ کی زندگی منظم ہو جائے گی اور آپ کی زندگی میں نظم وضبط آ جائے گا تو آپ دیکھیں گے کہ اس کے فوائد آپ کو بہت بڑے انعامات کی صورت میں ملیں گے۔[29]

 

تنظیم وقت کے فوائد:
ٹائم منیجمنٹ کی تربیت سے پہلا فائدہ جو آپ کو نظر آئے گا یہ کہ آپ میں دستیاب وقت کو موثر طور پر استعمال کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے گی۔ہمارے پاس ہر روز 1440 منٹ ہوتے ہیں ۔ اس وقت کو ہم بہتر اور اچھے طریقے سے استعمال کر سکیں گے۔ یہ ہے پہلا فائدہ ٹائم منیجمنٹ کا۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ روزانہ کی زندگی میں ہمارے پاس جو وقت دستیاب ہوتا ہے اس کو بہتر طریقے سے استعمال کر کے بڑھا سکتے ہیں۔ رہیں گے تو 24 گھنٹے ہی، لیکن اس کی تربیت کے ذریعے ہم بہت سارا وقت جو یہاں وہاں ضائع کرتے ہیں بچا لیں گے۔ جیسے آپ کو اگر روز کی خرچی ( پاکٹ منی ) ملتی ہے تو خرچی ملنے کے بعد آپ اسے مختلف کھیل تماشوں میں اور لاٹریوں میں خرچ کر دیتے ہیں ،لیکن اس رقم کو اگر آپ بچالیں تو اس رقم کو آپ کھانے پینے کی چیزوں پر اور کتابوں کے خریدنے پر لگا سکتے ہیں ۔ اس انداز سے اس تربیت کے ذریعے اور اس پروگرام کے ذریعے سے آپ کی یہ تربیت ہو جائے گی کہ آپ اپنے وقت کو فضول چیزوں سے بچا کر اچھی چیزوں میں لگائیں گے اور آپ کو احساس ہو گا کہ آپ کا وقت اچھے اور بہتر طریقے سے استعمال ہو رہا ہے۔ تیسرا فائدہ یہ کہ ٹائم منیجمنٹ کے اصول سیکھ کر اپنی زندگی کو منظم کر کے ، اپنے آپ کو منظم ( سیلف آرگنائز ) کر کے آپ اپنی زندگی کے جومقاصد (Goals) اور اہداف (Deadlines) ہیں، وہ بہت آسانی کے ساتھ حل کر سکیں گے۔ اس لئے کہ آپ کی تربیت ہو جا ئے گی اس تیراک کی مانند، جس کو تیرنا آتا تھا اور اس کو منزل پر پہنچنا آسان ہو گیا۔ اور جس کو تیرنا نہیں آتا تھا وہ ڈوب گیا۔ چوتھا فائدہ ٹائم منیجمنٹ کا یہ ہے کہ آدمی کو ایک سکون ملتا ہے ٹینشن اور اسٹریس کی کمی ہو جاتی ہے۔ ورنہ عام زندگی میں انسان کی زندگی ایسی گزر رہی ہے جیسے دماغ کے ٹکڑے Pieces of Mind ہو رہے ہوں۔ اس بات کی امید ہے کہ ٹائم منیجمنٹ کے ذریعے سے آپ کو سکون Peace of Mind نصیب ہو جائے گا اور نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ اپنے ارد گرد کے ماحول میں ایک موثر شخصیت کے طور پر ابھریں گے۔ ایک ایسے فرد کے طور پر جو اپنے نصب العین کو، اپنے مقاصد اور اہداف کو لے کر آگے بڑھ رہا ہے اور اپنی زندگی کے مقاصد حاصل کر رہا ہے اورجو بھی کام وہ کر رہا ہے وہ نتیجہ خیز( Productive) ثا بت ہو رہے ہیں۔ اور یہ بھی ایک نتیجہ ہو گا ٹائم منیجمنٹ کا کہ آپ کو سکون ملے گا ، آپ کے ادارے یا تنظیم کے اندر ( Productivity ) آئے گی۔ آپ طالب علم ہے تو آپ ٹائم کو بہتر اور اچھے طریقے سے استعمال کریں گے اس بات کے کافی امکانات ہیں کہ آپ کا مطالعہ اور بھی زیادہ مربوط و منظم(Structured) ہو گا۔ اگر آپ خاتون ہیں تو آپ کو بھی آگے بڑھنے کی تیاری کا وقت مل جائے گا اور خوشی کی صورت میں نتیجہ سامنے آئے گا۔ آپ کا ٹینشن ( ذہنی اضطراب ) کم ہو گا۔ آپ اپنے آپ پر ، اپنے گھر پر اور اپنی آرگنائزیشن میں اچھی طرح کنٹرول کر سکیں گے۔ [30]

 

تنظیم وقت کے مراحل:
پہلا مرحلہ: جائزہ لینا:
تنظیم وقت کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں کہ ہمارا وقت کہاں ضائع ہو رہا ہے ذیل میں ہم چند چیزوں ، مقامات و شخصیات کا ذکر کرتے ہیں جو وقت کے ضیاع کا سبب بنتے ہیں۔

 

وقت ضائع کرنے والے چند بڑےعوامل:

 

بہت سے کام بیک وقت کرناانکار کرنے کی صلاحیت کا نہ ہونا۔غیر متوقع مہمان،عدم احتساب،منصوبہ بندی کی کمی،عملہ کی کمی،نا مکمل معلومات ،غیر موثرتفویض،کام ادھورا چھوڑنا،بحران پیدا کر کے کام کرنا،دفتری اجلاس،کاغذی کاروائی،ذاتی زندگی میں بے ترتیبی، غیر موثر ابلاغ،سستی، کاہلی اور ٹال مٹول،میل جول کا حلقہ،ٹیلی فون یا موبائل فون،بلا ضرورت س،ر۔سماجی تقریبات کا دیر سے آغاز، احساس برتری،غیر ضروری سماجی تقریبات،ترجیحات کا تعین نہ کرنا،وقت پر چیزوں کا نہ ملنا،کام کو خود اور اپنے طریقے سے کرنے پر اصرار کرنا،توجہ سے نہ سننا،ہر کام میں شرکت کرنا،مصروفیات طاری رکھنا،احساس کا نہ ہونا،اوج کمال کے متلاشی لوگ،اپنی ہی آواز سے مسحور لوگ،طاقت و اختیار سے متاثر ہونا،انا پرست،توجہ کی کمی،اسٹڈی کرنے کے طریقے کا نہ آنا،امتحانی پرچہ حل کرنے کا سلیقہ نہ آنا،بے کار چیزوں کا مطالعہ کرنا،مطالعے کے نوٹس تیار نہ کرنا،منفی انداز فکر۔،اپنی زندگی میں امنگ کی کمی، متحرک ہونے کی کمی،گھریلو تنازعات اور گھریلو جھگڑے،غیر معیاری بنیادی ڈھانچہ،کسی بھی کام میں ممکنہ نقصان کا پہلے سے اندازہ کرنا،اداروں، شعبوں اور تنظیموں کی سظطح پر اختیارات کی تفویض کی کمی،افراد کی مناسب تربیت نہ ہونا،ضرورت سے زیادہ منتظم،فیصلہ تبدیل کرتے رہنے والے زمہ دار،چند انسانی صفات اور وقت کا ضیاع،دیر سے پہنچنا،وعدوں کا پورا نہ کرنا،لوگوں کے اندر خامیاں نکالنا،لوگوں کا مزاق اڑانا،حجت بازی، لوگوں سے بحث کرنا،عجب اورتکبر یعنی لوگوں کو کمتر سمجھنا،دوسروں کے معاملات میں مداخلت،بے ہنری یا فن کا نہ آنا،جذباتی پن اور غصہ پن، بات بات پر جذبات میں آجانا،فواحشات اور گندی باتیں،شیخی بگھارنا۔[31]

 

تنظیم وقت کا دوسرا مرحلہ: زندگی کے نصب العین کا تعین کرنا۔

زندگی کیا ہے؟

 

اس سوال کا جواب مختلف لوگوں نے مختلف دیا ہے ۔ میرے نزدیک زندگی پیدائش سے لے کر موت تک کے وقت کا نام ہے اس وقت میں عمل کرنا اور آخرت میں نتائج کا ملنا زندگی ہے۔

 

نصب العین کیا ہے؟

 

نصب العین زندگی کے اس تصویر کو کہتے ہیں جو آپ مستقبل میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

 

نصب العین کی اقسام:

 

نصب العین کی دو قسمیں ہیں۔ نصب العین حتمی۔ نصب العین عارضی۔

 

نصب العین حتمی کیا ہے؟ :

 

اخروی زندگی کی تصویر جو آپ دیکھنا چاہتے ہیں جو وقت کی قید سے آزاد ہو اور درست ہو۔ وقت کی قید سےآزاد ہونے کا مطلب ہے کہ اس کیلئے کوئی وقت مقرر نہ ہو بلکہ پوری زندگی اس کو حاصل کرتے کرتے ختم ہو جائے اور درست ہونے کا مطلب ہے کہ وہ قرآن کے بتائے ہوئے نصب العین کے مطابق ہو۔قرآن میں اللہ تعالی نے انسان کی زندگی کا نصب العین عبادت کو ٹھرایا ہے۔

 

وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون۔[32]

 

ترجمہ: اور میں نے انسان اور جنات کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔

 

اس آیت میں اللہ تعالی نے ہماری زندگی کا حتمی نصب العین ہمیں بتا دیا کہ تمہاری زندگی کا مقصد و نصب العین عبادت ہے ۔ پھر عبادت کی دو قسمیں ہیں۔ایک براہ راست عبادت جیسے نماز، روزہ، زکوۃ ، حج وغیرہ ۔دوسرا بلواسطہ عبادت جیسے حلال روزی کمانا، کھانا، پینا، لباس پہننا وغیرہ ۔ یہ اعمال اس وقت عبادت بنتے ہیں جب یہ سب حضورکے طریقےکے مطابق اخلاص سے کیے جائیں۔ گویا انسان کی 24 گھنٹے کی زندگی عبادت بن سکتی ہے صرف زاویہ نگاہ بدلنے کی ضرورت ہے۔ جب ہمارے نصب العین کے پیچھے ایسی زندگی ہو گی جو قرآن نے بتائی ہے اور جب ہم اس حتمی نصب العین کے مطابق زندگی گزاریں گے تو ہماری اخروی زندگی کی تصویر خود بخود ٹھیک ہو جائےگی۔ اگر کسی کا حتمی نصب العین صرف پیسہ کمانا ہے ،عیش و عشرت ، مزے کرنا ہے جس میں حلال و حرام کا تصور نہ ہو تو یہ حتمی نصب العین غلط ہو گا۔

 

عارضی نصب العین کیا ہے؟

 

دنیوی زندگی کی وہ تصویر جو آپ مستقبل میں دیکھنا چاہتے ہیں جو کسی نہ کسی وقت کے ساتھ مقید ہو اور درست ہو ۔ اس دنیا میں بھی انسان اپنی زندگی کو اچھا سے اچھا کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے وہ اپنی مستقبل کی زندگی میں اچھی تصویر دیکھنا چاہتا ہے۔ جس کے لئے وہ تعلیم حاصل کرتا ہے ، نوکری یا کاروبار کرتا ہے ، شادی کرتا ہے ، بچوں کی پرورش کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اگر دیکھا جائے تو ان میں سے ہر کام کسی نہ کسی وقت کے ساتھ مقید ہے ۔ عارضی نصب العین کا مطلب ہےکہ ان سب کاموں کیلئے اچھے سے اچھے منازل متعین کرنا۔ہمارے معاشرےمیں جب نصب العین کی بات ہوتی ہے ۔ تو اکثر لوگ تو اس کو جانتے نہیں اور جو جانتے ہیں وہ سمجھتےہیں کہ نصب العین صرف اس دنیوی زندگی کا ہوتا ہے اور وہ بھی صرف تعلیم ، نوکری یا کاروبار کا ہوتا ہے ۔ زندگی کے باقی شعبہ جات انسان کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر انسان پریشانی کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں ۔[33]

 

انسانی زندگی کےسات بنیادی شعبے ہیں۔1: ذہن 2 : جذبات 3: بدن 4:روح 5:تعلقات 6:کام/ کیریر ، اور7:پیسہ۔ اپنی زندگی کے ان ساتوں شعبوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا عارضی نصب العین متعین کرنا ضروری ہے تاکہ زندگی متوازن ہو سکے، کیوں کہ غیر متوازن زندگی بیش تر مسائل کی جڑ ہے۔[34]

 

جب کہا جاتا ہے کہ اپنی زندگی کا نصب العین متعین کریں تو لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیسے متعین کریں تو اس جواب کیلئے ایک مثال کو سمجھنا ہوگا۔ ایک شخص کے ان 7 سات شعبوں میں نصب العین کا تعین کرتے ہیں ۔

 

1:ذہن /علمی زندگی: پی ایچ ڈی (اسلامیات) کرنا۔

 

2: جذبات، رویے/ عادات: اپنے تمام برے جذبات اور عادات کو ختم کرنا یا کنٹرول کرنا اور اس کی جگہ اچھے عادات اور جذبات لانا۔ جیسےغصہ ، نا شکری، نا امیدی اور سستی وغیرہ کی جگہ صبر، شکر، امید اور چستی لانا۔

 

3: بدن/جسمانی زندگی : مکمل تندروست و توانا ہونا۔

 

4:روح/ روحانی زندگی : تمام فرض عبادات کا مکمل کرنا اور ساتھ ساتھ نوافل اور تلاوت و ذکر کرنا۔

 

5: تعلقات/ خاندان ، معاشرہ :ایک بہترین اور خوشگوار گھریلو زندگی کے ساتھ ساتھ معاشرہ میں عزت کا مقام حاصل کرنا۔

 

6: کام ،پیشہ/ معاشی زندگی: پروفیسر بننا۔

 

7: پیسہ، آمدن : ماہانہ ڈیڑھ لاکھ روپے ہونا۔

 

لہذامذکورہ بالا فرضی مثال کو سامنے رکھ کر اپنی زندگی کے نصب العین متعین کرنا چاہئے۔

 

تنظیم وقت کا تیسرا مرحلہ: نصب العین کے حصول کے لئے منازل کا تعین کرنا:
جب آپ نے زندگی کے تمام شعبہ جات میں نصب العین متعین کر لیا اب آپ ہر شعبہ کیلئے منازل کی نشاندہی کریں ۔ منازل کی مثال سفر کے دوران مائل اسٹون کی طرح ہے جو آپ کو آپ کی رفتار اور نصب العین کی دوری کے بارے میں آگاہی دیتے ہیں نصب العین کے حصول کے لئے آپ اپنے آپ سے سوالات کیجیے۔آپ اپنی تعلیمی ، روحانی، خاندانی ، معاشی، جسمانی زندگی میں اگلے 5 سال تک کہاں پہنچے ہوں گے کیلنڈر کو سامنے رکھتے ہوئے ان کو اوقات کا پابند بنائیں ۔ آ پکی عمر کتنی ہو گی؟ آپ کے بچوں کی عمریں کیا ہوگی؟ فرض کریں آپ پی ایچ ڈی کرنا چاہتے ہیں تو اگلے سال بعد آپ کس کلاس میں ہوں گے ؟ آپ کے مضامین کیا ہوں گے ؟ اگر آپ حج کرنا چاہتے ہے تو آپ نے ااس کے لئے رقم کا کتنا بندوبست کر لیا؟اگلے سال تک کتنا کریں گے؟ آپ کی شادی ہوگئی ہو گی یا نہیں؟ وغیرہ وغیرہ تمام شعبہ جات میں اس طرح کے منازل متعین کرنے سے آپ کو اپنا احتساب کرنے میں آسانی ملے گی اور نصب العین کے قریب پہنچنے یا اس سے دوری کا بھی ادراک ہو گا۔

 

تنظیم وقت کا چوتھا مرحلہ:
اپنی ذات میں تبدیلی لائیں اور سیکھیں:اپنی سوچ اور انداز فکر کا جائزہ لیں اور اس میں تبدیلی لانے کی کوشش کریں اور اسے نصب العین اور منازل زندگی کے مطابق کرنے کی کوشش کریں۔اپنے رویہ کا جائزہ لیں او اسے تبدیل کرنے کی کوشش کریں اور اسے نصب العین اور منازل زندگی کے مطابق کرنے کی کوشش کریں۔

 

اپنی عادات کا جائزہ لیں اور اسے بہتر بنانے کی کوشش کریں۔اپنی صلاحیتوں کا جائزہ لیں۔ انہیں دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق کرنے کی کوشش کریں۔اپنے تعلقات کا جائزہ لیں اور اپنے نصب العین اور منازل زندگی کے مطابق کرنے کی کوشش کریں۔

 

اپنے اخلاق کو سنوار کر تمام میدانوں میں ہر دلعزیز بننے کی کوشش کریں۔اپنے معاملات کے حوالے سے قابل اعتماد بنیں کہ آپ پر بھروسہ کیا جا سکے۔نصب العین اور منازل کو سامنے رکھتے ہوئے کام کریں۔روزانہ چند لمحات تنہائی کے حاصل کیجیے۔ یہ احتساب کے اور اپنی ذات سے ملاقات کے لمحات ہیں۔[35]

 

تنظیم وقت کا پانچواں مرحلہ: عمل کرنا ،آگے بڑھنا اور جائزہ لیتے رہنا:
جب آپ نے اپنی زندگی کا نصب العین اور منازل متعین کر لیے اور اس کے حصول کیلئے جس سوچ ، صلاحیتوں اور عادتوں کی ضرورت تھی وہ سیکھنے کی فہرست بنالیں اب عمل کا وقت آتا ہے ۔اب عمل کیسے شروع کریں گے ؟اس کیلئے دو کام کرنے لازمی ہیں۔

 

1:جیبی مذکرہ لینا۔ 2: قائمۃ الاعمال بنانا۔

 

جیبی مذکرہ:

 

اس سے مراد جیبی سا ئز چھوٹی ڈائری ہے جو ہر وقت جیب میں رکھی جا ئے۔اور اس میں ذہن میں آنے والے مختلف افکار اور خیالات اور ذہن میں ڈالی جا نے والی یا داشتیں ڈال دی جا ئے اور ذہن کو فا رغ رکھا جا ئے گویا جیبی مذکرہ یا جیبی ڈائری ذہن کو انتشار سے بچا نے کا ایک بہترین نسخہ ہے۔اس جیبی ڈائری میں درجہ ذیل چیزوں کو لکھا جا ئے۔فون نمبر اور پتے اضا فی معلومات کے ساتھ ،عام یا دہانیاں جیسے گھڑی کے لئے بیٹری اور آفس کے لئے سٹپلر لینا،لوگوں سے ملا قات کی یاددہانی ،سامان کی فہرست ۔روزانہ کاخرچ،ٹریفک میں پھنسے ہوئے آنے والے قیمتی آئیڈیاز ،کوئی اچھی کہاوت یا شعر ،تجاویزاورمنصوبے۔اس کے بعد یہ جیبی مذکرہ سے متعلقہ فائل میں منتقل کرنا چا ہئےیہ رکھنے کی چیز نہیں ہیں،اس کی مثال اس ٹوکری کی ہے جس میں با زار سے سامان لا تے ہیں اور پھر متعلقہ جگہوں میں منتقل کردیا جا تا ہے۔تو جیبی مذکرہ سے 1:فون ڈائری۔ 2:کرنے کے کاموں کی فہرست۔3:تجاویز کی فا ئل میں منتقل کردیں اور مذکرہ سے کا ٹ دیں۔ اس پر کراس کا نشان لگا دیں ۔مذکرہ ہر دن خا لی ہونا چا ہئے۔

 

قا ئمۃ الا عمال:

 

کئے جا نے والے کا موں کی پانچ فہرستیں ہوتی ہیں۔

 

1:مرکزی فہرست:اس سےمراد آپ کے ذہن میں اپنی زندگی میں جتنے کام کرنے ہیں اور جو چیزیں آپ نے خریدنی ہے یا کچھ منصوبے ہیں جن کو کرنا ہے لیکن وقت ابھی تک متعین نہیں کیاتو ایسے تمام کا م اور منصوبے اس فہرست میں لکھے جا ئیں گے۔

 

2:سالانہ فہرست:سال کے آغاز میں منصوبہ بندی ہوگی ۔جو کام اور منصوبے اس سال کیلئےطے ہوچکے ہیں ان کو اس فہرست میں ڈال دیا جا ئے۔

 

3:ما ہا نہ فہرست:ماہ کےآغاز میں منصوبہ بندی ہوگی جو کام اور منصوبے اس ماہ کیلئےطے ہوچکے ہیں انہیں یہا ں درج کیا جائے۔

 

4:ہفتہ وار فہرست:ہفتے کے آغاز میں ہفتے کی پلاننگ کریں اوراس ہفتے کے کا موں اور منصوبے اس فہرست میں ڈالے جا ئے۔

 

5:یومیہ فہرست:آج کے دن عام معمول سے ہٹ کر کرنے کے وہ کا م جو ذہن سے نکل سکتے ہیں یہاں لکھ لئے جا ئیں۔

احمر،محمد سلیمان،مبنی بر حکمت تنظیم وقت ٹریننگ مینول، ص15-16
دن کے آغاز سے قبل ، چاہے رات کو یا صبح سویرے دن کے کاموں کی فہرست بنالی جائے اپنے کاموں کی ترجیحات بنالیں اور ان پر عمل کرنے کے لئے ترتیب کے نمبر بھی ڈال لیں ۔اور اس میں تین جگہوں سے کام آرہے ہوں گے۔اگر ”کرنے کے کام“ کے اصول پر عمل کرلیا جائے تو کوئی کام بھول نہیں سکتے کیوں کہ تمام ”کرنے کے کام“ پر باربار نظر پڑے گی اور اس اصول پر عمل کرنے کی وجہ سے وعدے نہیں توڑیں گے۔روزانہ کے منصوبے کے لیے اوسطاً 45 منٹ چاہیے، جو کم زیادہ ہوسکتے ہیں۔ ذمہ داریوں اور معمولات کے حساب سے وقت لگتا ہے اگر یہ 45 منٹ کو پکڑ لیا جائے تو عمل آسان ہوجائے گا۔یہ 45 منٹ کون سے ہوں یہ ہر آدمی اپنے وقت کے حساب سے کرسکتا ہے ہاں صبح سویرے یعنی فجر سے پہلے کیا جائے کیوں کہ فجر کے بعد عمل شروع ہوتا ہےپھر دن گزارنے کی ترتیب بھی رسول اللہ ﷺ والی ہو۔

حوالہ جات

  1. کوثر،پروفیسر شاہین کوثر،مقالات سیرت،اسلام آباد،وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی،1438ھ/2016ء،اسلامی ریاست میں عوام الناس کو نظم و ضبط کا پابند بنانے کے طریقے،ص942
  2. ایضا،ص943
  3. احمد،سید عرفان،آسان ٹائم مینجمنٹ، کامیابی ڈائجسٹ،کراچی،1435ھ/2014ء،ص5
  4. جمعہ،محمد بشیر جمعہ،ترقی اور کامیابی بذریعہ تنظیم وقت، ٹائم مینجمنٹ کلب،کراچی،1435ھ/2014،ص38
  5. ایضاً،ص41
  6. جمعہ،محمد بشیر ،وقت اور زندگی کی تنظیم، ،ص15 تا 17
  7. معاویہ،مولانا ہارون،وقت کی قدر کیجیے، بیت العلوم،لاہور، 1435ھ/2014،ص112
  8. میر،غلام رسول،مطالب کلام اردو، شیخ غلام علی اینڈ سنز،لاہور،1997ء
  9. قادری،محمد افروز،وقت ہزار نعمت ہے، فیض گنج بخش بک سینٹر،لاہور،2011ء،ص19
  10. علامہ،محمد اقبال،کلیات اقبال اردو، ارمغان حجاز الفیصل،لاہور،س ن،ص563
  11. ایضا ً،ص145
  12. عثمانی،محمد شفیع،معارف القرآن،ادارۃ المعارف،کراچی،1982ء،ج8،ص812
  13. الفرقان:63
  14. تفسیر ابن کثیر بحوالہ مفتی سمیع اللہ ، ٹائم مینجمنٹ کورس، مکتبہ محمد،کوئٹہ،2017،ص4
  15. الکشاف بحوالہ مفتی سمیع اللہ ، ٹائم مینجمنٹ کورس، مکتبہ محمد،کوئٹہ،2017،ص5
  16. الشمس:1،2،3
  17. اللیل:1،2
  18. الضحی:1،2
  19. العصر:1،2
  20. مصنف لابن ابی شیبہ ،ص134، بحوالہ مفتی سمیع اللہ ، ٹائم مینجمنٹ کورس، ص7
  21. صحیح البخاری،کتاب الرقاق
  22. بخاری، بحوالہ مفتی سمیع اللہ ، ٹائم مینجمنٹ کورس، ص7
  23. ترمذی، بحوالہ مفتی سمیع اللہ ، ٹائم مینجمنٹ کورس ،ص8
  24. جمعہ،محمد بشیر ،وقت اور زندگی کی تنظیم، ٹائم مینجمنٹ کلب،کراچی،1435ھ/2014،ص27-35
  25. ایضا ً
  26. ایضا ً
  27. ایضا ً
  28. ایضا ً
  29. ایضا ً،ص38
  30. ایضا ً،ص51-86
  31. ایضا ً
  32. الذاریات:56
  33. احمر،محمد سلیمان،مبنی بر حکمت وژن ٹریننگ مینول، ٹائم لینڈر کمپنی،کراچی،1437ھ/2016،ص 45
  34. احمد،سید عرفان،آسان ٹائم مینجمنٹ، کامیابی ڈائجسٹ،کراچی،1435ھ/2014ء،ص13
  35. جمعہ،محمد بشیر جمعہ،ترقی اور کامیابی بذریعہ تنظیم وقت، ٹائم مینجمنٹ کلب،کراچی،1435ھ/2014،ص52
Loading...
Issue Details
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
About Us

Asian Research Index (ARI) is an online indexing service for providing free access, peer reviewed, high quality literature.

Whatsapp group

asianindexing@gmail.com

Follow us

Copyright @2023 | Asian Research Index