ڈاکٹر وہبہ الزحیلی1932ءمیں دمشق شام کے علاقے دیر عطیہ
[1]میں پیدا ہوئے۔ان کے والد مصطفٰی الزحیلی کےحصول معاش کا ذریعہ تجارت اور کاشتکاری تھا۔ڈاکٹر وہبہ الزحیلی نےاپنی ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں دیر عطیہ میں حاصل کی۔اس کے بعد وہ دارالخلافہ دمشق گئےاور دمشق یونیورسٹی
[2]میں داخلہ لیا۔اور دمشق میں الکلیتہ الشرعیتہ سے 1952ءمیں شرعی علوم میں چھ سال کا ثانویہ کیا۔بعد ازاں مزید تعلیم کیلئےازہر یونیورسٹی
[3]مصرتشریف لے گئے۔1956ءمیں ازہر یونیورسٹی سےاپنی تعلیم مکمل کی اور ہر مرحلے میں پہلی پوزیشن آپ کا امتیاز رہی۔علم کی تشنگی مزید بڑھ جانے اور قانون کی طرف ذہنی میلان کی وجہ سے آپ نے لاءفیکلٹی عین شمس
[4]یونیورسٹی سے ایل۔ایل۔بی کیا۔آپ نے 1959ءمیں قاہرہ یونیورسٹی
[5]سے ایم۔اے کی ڈگری حاصل کی۔اور پھر اسی یونیورسٹی سے1963ءمیں اسلامی شریعت بالخصوص قانون میں پی ایچ ڈی کی۔آپ کا پی ایچ ڈی کا مقالہ بعنوان "آثارالحرب فی الاسلام:مقارنتہ بین المذاہب الثمانیۃ والقانون الدولی"
[6]دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھاگیا اوربڑےبڑے علماءومفکرین نے اسے خراج تحسین پیش کیا۔
خدمات:
ڈاکٹر وہبہ الزحیلی جب تک طالب علم رہے پڑھائی اورمطالعے کے دلچسپ مشغلےسے اپنےآپ کو کبھی فارغ نہیں ہونے دیا اور جب زندگی کےعملی میدان میں آئے تو محیرالعقول کارنامےسرانجام دیے۔انھوں نے اعلی تعلیمی عہدوں پرجلد اپنے قدم جما لیے اوراپنےعملی تدریسی دورکی ابتداء1963ءدمشق یونیورسٹی سےکی۔اسکےبعدوہ اسی یونیورسٹی کےوائس ڈین مقررکیے گئے۔1972ء میں لیبیا کی بنغازی یونیورسٹی
[7]میں دوسال تک قانون کےاساتذہ کوماہر تعلیم کی حیثیت سےتربیت دیتے رہے۔انھوں نے متحدہ عرب امارات کی الامارات یونیورسٹی
[8]میں شریعہ اور لاء فیکلٹی میں پا نچ سال تک کام کیا۔الزحیلی نے خرطوم یونیورسٹی
[9]،ریاض کی اسلامک یونیورسٹی
[10]اور سوڈان یونیورسٹی
[11]میں پروفیسرکی حیثیت سے کام کیا۔آپ نے پا کستان
[12]،سوڈان اوردیگر مما لک میں طلباء کو کئی مختلف تربیتی لیکچرزدیے۔الزحیلی اہل بیت فاونڈیشن جرڈان
[13]کے کافی عرصہ تک ممبر رہے۔آپ مجمع الفقہ الاسلامی جدہ
[14]شام کی اسلامک کونسل
[15]فقہ اکیڈمی سوڈان،اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا
[16]اور دیگر کئی مما لک کی مختلف اکیڈمیزاور سینٹرزکے فعال اور اہم ممبر رہےاور کئی جگہ صدارت کے فرائض بھی بحسن وخوبی انجام دئیے۔آپ شریعہ کے دیگراہم علمی میدانوں میں نمایاں کردار ادا کرتے رہےجیسے کہ اسلامک فنانس اوراسلامک بینکنگ آرگنائزیشن کے صدر رہے۔اس کے ساتھ شریعہ اسلامک بینک کے بورڈمیں ایک انفرادی اور کلیدی اسامی پر فائز رہے۔ دنیا ئےاسلام کے عظیم مبلغ کی حیثیت سے ٹی وی اور ریڈیو کے کئی پروگراموں میں شمولیت اختیار کی اور اپنے خیالات کا آزادانہ اظہار کیا۔آپ "عثمان مسجد"
[17]دمشق اور "بدر مسجد"دیر عطیہ میں خطیب کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔المختصر یہ کہ آپ کا تعارف کسی ایک مخصوص میدان سے جوڑنا مشکل بلکہ انصافی کے منافی ہےوہ بیک وقت کئی علمی کا موں میں اپنا اہم کردار ادا کر تے رہے۔ان کی شخصیت کی غیر معمولی خصوصیات اور خدمات انسا نیت کے لیے قابل رشک ہیں۔
تصانیف:
ڈاکٹر وہبہ الزحیلی نے کئی کتب تصنیف کیں۔ان میں ذیادہ تر اسلامی قانون اوراسلامی فقہ پر ہیں۔ فقہ اسلامی میں آپ کا کام کافی وسیع اور اہم ہے۔فقہ پر آپ کی متعدد کتابیں ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
الفقہ الاسلامی وادلتہ، تجدید الفقہ الاسلامی
[18]،آثار الحرب فی الفقہ الاسلامی
[19]،اصول الفقہ الاسلامی
[20]،الفقہ الحنفی المیسر
[21]،الفقہ الشافعی المیسر،قضایا الفقہ والفکر المعاصر
[22]،الفقہ الاسلامی علی المذہب المالکی
[23]،الوجیز فی الفقہ الاسلامی
[24]،الفقہ الاسلامی فی اسلوبہ الجدید
[25]،العلاقات الدولیۃ فی الاسلام
[26]،حقوق الانسان فی الفقہ الاسلامی
[27]، الاسلام دین الشوری و دیمو قراطبۃ
[28]،التفسیر المنیر
[29]،الفقہ الاسلامی والقضایا المعاصرہ
[30]،التفسیر الوجیز
[31]،التفسیر
الوسیط[32] ،نظریۃ الضمان[33]، Financial Transaction in Islamic Jurisprudence [34]
وفات: ڈاکٹر وہبہ الزحیلی نے اپنے تحقیقی کام کےذریعے نا قابل یقین حد تک لوگوں کو متاثر کیا ہے۔انھوں نے بھی شام کے
دوسرے محققین ابن قیم،النووی،ابن کیثراورسعید رمضان البوطی کی طرح بلند پایہ کام کیےاور اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ڈاکٹر وہبہ الزحیلی نے اس عارضی دنیا سے8اگست2015ءبروز ہفتہ دمشق میں کوچ کیا۔انھوں نے فہم وفراست اور دانش مندی کاایک بڑا ورثہ اسلام اور اہلیان اسلام کیلئےچھوڑا۔ان پر اللہ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتوں کا نزول ہو!آمین۔
الفقہ الاسلامی وادلتہ:
علوم اسلامیہ میں فقہ اور اصول فقہ کودیگر تمام علوم سے برتری اور فوقیت حاصل ہے۔انسان اورعلم فقہ آپس میں لازم و ملزوم ہیں اس لیے حالات و واقعات اور لوگوں کے مزاج اور طبائع کے باعث ہر دور کے فقہاء نے تدوین فقہ کو ضروری سمجھا۔انہی فقہاء میں بیسویں صدی کے عظیم فقیہ ڈاکٹر وہبہ الزحیلی اس لحاظ سے خاص اہمیت کے حامل ہیں کہ ان کا کام فقہ و اصول فقہ پر کافی وسیع اور پھیلا ہوا ہے۔
نام و تعارف کتاب:
ڈاکٹر وہبہ الزحیلی بیسوی صدی کے ایک نامور عالمِ دین ،ماہرقانون اور عظیم فقیہ تھے۔انھو ں نے فقہ کے میدان میں اپنی غیر معمولی خدمات پیش کیں۔فقہ اسلامی میں آپ کا کام کافی وسیع اور اہم ہے۔آپ کی زندگی کا سب سے اہم اور گراں قدرعلمی کارنامہ "الفقہ الاسلامی وادلتہ"ہے۔یہ فقہ مقارن پر ایک انوکھا اور منفرد کام ہے ،فقہ مقارن کے میدان میں کی جانے والی قدیم وجدید سعی کا ایک بے مثال سنگم ہے۔
اس کتاب کا مقصد تالیف یہ ہےکہ مجمع الفقہ الاسلامی کے چوتھے
[35]اجلاس میں فقہ کو آسان زبان میں مرتب کرنے کے ایک منصوبے کی منظوری دی گئی،چنانچہ علامہ وہبہ الزحیلی نے اس عظیم کام کو سرانجام دینے کا پختہ ارادہ کر لیا۔اور ایک جماعت کا کام اکیلے ڈاکٹر وہبہ الزحیلی نے سرانجام دیا یہ ان کی قابلیت اور علمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ایک اور اہم سبب یہ ہے اہل یورپ کے ریاستی قوانین کے آگے ہاتھ پھیلانے کے بجائے مختلف فقہی مذاہب سے استفادہ کیا جائے،اسی ضرورت کے پیش نظر مصنف نے قوانین شرعیہ کایہ عظیم ذخیرہ مرتب کیا ہے۔اس کے ساتھ اس کتاب کا اہم پیغام یہ ہےکہ فقہ آسانی کا نا م ہے اگر کوئی تمام فقہ میں سے دلائل کے ساتھ آسان احکام تلاش کرنا چاہے تو اس میں کو ئی حرج نہیں ہے۔
جلدیں اور ابواب:
"الفقہ الاسلامی وادلتہ "عظیم فقہی سرمایہ اور فقہی انسائیکلوپیڈیا ہے،یہ فقہی مجموعہ گیارہ(11)ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔آخری جلد میں فہرست دی گئی ہے بقیہ دس جلدیں فقہی مباحث سے معمور ہیں۔اس کتاب کی ترتیب انوکھی اور دلکش ہے۔ مصنف نے فقہی مباحث کو اولاًاقسام میں تقسیم کیا ہے،پھر ہر قسم کو ابواب پر اور ہر باب کو مختلف فصول پر تقسیم کیا ہے،ہر فصل کے تحت مباحث اور مباحث کے ذیل میں انواع اور مقاصد کو بسط و تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔چنانچہ علمی اور فقہی ذوق رکھنے والے کیلئے
یہ ترتیب عمدہ و دلکش اور دماغ کو اپنی طرف موہ لینے والی ہے۔
مصادرومراجع:
مصنف نے تمام فقہی آراء کو متعلقہ مذاہب کے مراجع اصلیہ اور قابل اعتماد کتب فقیہ
[36] سے لیا ہے اور یہ ایسی کتب ہیں جن پر اس مذہب کی بنیاد ہے۔اس کے ساتھ تفاسیر ،قواعد فقہ اور احادیث کے مصادر اور حوالے بھی دیے ہیں۔اور سب سے اہم یہ کہ اس علمی ذخیرہ میں احادیث کی تحقیق و تخریج بھی شامل ہے۔
حواشی:
مصنف مختلف مشکل اصطلاحات کی وضاحت حواشی وحوالہ میں کرتے ہیں۔اور جن معاصرین سے استفادہ کرتے ہیں ان کے نام اور تصانیف کا بھی ذکر کرتے ہیں ۔حواشی میں مختلف فقہی مباحث جن کی تفصیل ضروری ہو وہ بھی بیان کرتے ہیں۔
تخریج احادیث و آیات:
ڈاکٹر وہبہ الزحیلی چونکہ علم حدیث و تفسیرمیں ایک مخصوص مقام رکھتے ہیں اس لیے ان کی اس تصنیف میں محدثانہ اور مفسرانہ رنگ بھی ہے۔ ہر مسئلہ میں حدیث و آیات کو پیش کرتے ہیں ۔الفقہ الاسلامی وادلتہ موجود تمام قولی،فعلی اور تقریری احادیث مبارکہ کی حدیث کی امہات کتب
[37]سے تخریج کی گئی ہے ۔اور حوالہ دینے کےلیے جدید تحقیقی دنیا میں مروج اصولوں کو اپنایا گیا ہے۔لیکن احادیث کی تخریج میں صرف کتاب کا نام ذکر کیا گیا ہے۔اس کے ساتھ آیات کی تخریج بھی کی گئی ہے۔
الفقہ الاسلامی وادلتہ کی خصوصیات:
ہر تصنیف کی کچھ خوبیاں اور خصوصیات ہوتی ہیں جو اس تصنیف کو دیگر کتب سے ممتاز کرتی ہیں "الفقہ الاسلامی وادلتہ" ڈاکٹر وہبہ الزحیلی کی ایسی تحریر ہے جوخصوصیات و خوبیاں کی ایک جامع تصنیف ہے۔یہ تحریر تحقیق وعلم اور فکر و نظر کے ساتھ ساتھ اصلاح انسان اور معرفت فقہ و شریعت کا حسین امتزاج ہے۔اس کتاب میں فقہی علمی مضامین اور مسائل کو بطریق احسن پیش کیا گیا
ہے۔اگر اس تصنیف کوفقہ کی تمام کتب کاماحاصل اور انسائیکلوپیڈیا کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔
فقہ مقارن پر منفردکام:
فقہ مقارن یا تقابل فقہ اسلامی فقہ کا ایک نہایت اہم پہلو ہے۔اس موضوع پر فقہاء نے بہت کام کیا۔اس موضوع پر کتابوں کا ایک سلسلہ لکھا گیا جس میں تمام فقہ کا تقابلی مطالعہ کرنا مقصود تھا۔لیکن فقہ مقارن پر منفرد کام ڈاکٹر وہبہ الزحیلی کا ہے۔ڈاکٹر وہبہ الزحیلی فقہ کی معرفت کو شرعی علوم کا خلاصہ اور مغز قرار دیتے ہیں ۔انھوں نے فقہ کو آسان مگر بہت جامع اور مفید رنگ میں بیان کیا ہے۔ الفقہ الاسلامی وادلتہ دراصل فقہ مقارن پر ایک وسیع،اہم اور منفرد کام ہے ۔ اس کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ اتنی جامع اور اتنی بہترین ہےکہ اس نے فقہ مقارن کی بقیہ کتب کی اہمیت کو کم کر دیا ہے۔ یہ فقہ مقارن کے میدان میں کی جانے والی قدیم وجدید
تاریخ میں یہ سب سے عمدہ پیشکش ، عظیم کارنامہ اور جا مع ذخیرہ ہے۔
اپنی افادیت کے اعتبار سے اس کتاب کو فقہ مقارن کا دوسرا بڑا علمی ذخیرہ مانا جاتا ہے۔اس میں موضوعات اور مضامین کو نہ صرف جا معیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہےبلکہ مسالک اور ائمہ کا احاطہ بھی زبردست انداز سے کیا گیا ہے۔
مسائل شرعیہ کا بیان:
مصنف نے تمام شرعی مسائل کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ایک ہی باب کےمتعلق جملہ مسائل کو یکجا کیا ہے۔مسائل کے استدلال میں اولاًآیات بینات کو بیان کیا ہےان کے بعد احادیث کو اور پھر مسائل کومسالک کی روشنی میں واضح کیا ہے۔ڈاکٹر وہبہ الزحیلی شافعی ہیں لیکن ان کا انداز استدلال واضح ،فیصلہ کن اور عادلانہ ہے۔مصنف نے حقیقی اور واقعی مسائل پر اعتماد کیا ہے اورسابقہ کتب کی طرح فرضی مسائل سے اجتناب کیا ہے ۔
[38]استنباط مسائل میں ان کی کوششیں اپنی مثال آپ ہیں۔
مختلف فقہی اصطلاحات اور پیمانے :
الفقہ الاسلامی وادلتہمیں مصنف نے مختلف عام فقہی اصطلاحات کو بیان کیا ہے،جو مشہور و معروف ہیں،یعنی فرض،واجب، مندوب ،حرام،مکروہ،مکروہ تحریمی ،مکروہ تنزیہی اورمباح وغیرہ۔اس کے ساتھ مختلف فقہی مذاہب کی کچھ خاص اصطلاحات کو بھی واضح کیاگیا ہے۔[39]اس کے ساتھ مختلف پیمانوں (لمبائی،ماپنے،تولنے اور نقدی کے پیمانے) کی وضاحت بھی کی گئی ہے۔[40]ان میں لمبائی کے پیمانوں میں قصبہ ،جریب،برید، فرسخ اور ماپنے کے پیمانوں میں صاع،رطل، اورکر اور تولنے اور نقدی میں دینار،مثقال اور قیراط وغیرہ کو بالتفصیل بیان کیا ہے۔
عصر حاضر کے مسائل:
ڈاکٹروہبہ الزحیلی نے عصر حاضر کے مسائل کو بڑے احسن انداز سے بیان کیا ہے۔ اور ان مسائل پر محققانہ بحث کی ہے۔ان مسائل کا حل مختلف فقہی مسالک کی روشنی میں نہایت عمدگی سے پیش کیا ہے۔اور جدید مسائل کا حل تلاش کرنے کےلئے فقہ کو نہایت معروضی اور نتیجہ خیز انداز میں بیان کیا ہے۔ان جدید مسائل میں بینک کاری،انشورنس،حصص کی خریدو فروخت،سود، بانڈز اور مروجہ طبی علاج معالجے وغیرہ شامل ہیں۔وہ مسائل پر جامع بحث کر کے دلائل کی روشنی میں رائے قائم کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ عصر حاضر کے قوانین پر بھی بحث کی ہے۔
مختلف مسالک کا بیان:
الفقہ الاسلامی وادلتہ میں مصنف نے اہم فقہی مذاہب کے فقہاء
[41] کااور ان کی اہم کتب کا ذکر کیا ہے۔ان فقہاء کا
تعارف و مختصر حالات زندگی اور اہم واقعات کو مصنف نے کتاب کے ابتدائی حصہ میں ذکر کیا ہے۔اس کے ساتھ وہ جس جس مذہب کے بانی ہیں اسکی وضاحت بھی کر دی گئی ہے۔ان فقہاء کے اہم تلامذہ کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔مصنف نے اس کتاب میں چار مشہور مذاہب کے ساتھ دوسرے مسالک جعفریہ ،زیدیہ،اباضیہ اور ظاہریہ کے ائمہ کی آراء کو سامنے رکھتے ہوئے مسائل کا استنباط کیا ہے۔مصنف نے اپنی رائے کے مطابق فقہی مسئلہ میں مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک مذاہب کو راجح قرار دیا ہے۔عموما اولاََ حنفیہ کی رائے کو بیان کیا ہے ،ثانیا مالکیہ ، ثا لثا شافعیہ اور رابعا حنابلہ کی رائے اس کے بعد دوسرے مذاہب کی آراء کو بیان کیا ہے۔مصنف نے فقہی مباحث میں جہاں بھی فقہاء کا اختلاف آیا ہے اسے بالاستیعاب بیان کیا ہے۔ہر مذہب ورائے کو مدلل اور محقق انداز سے بیان کیا گیا ہے۔ائمہ کی آراء کو بیان کرنے کے بعد مصنف اپنی رائے اور موقف کو بھی وضاحت سے بیان کر تے ہیں۔
مجمع الفقہ الاسلامی کے اجلاس :
مجمع الفقہ الاسلامی منتظمہ المؤتمرالاسلامی (آرگنا ئزیشن آف اسلامک کانفرس)کے زیرتحت قائم ہونے والا ادارہ ہے۔اس ادارے کی جنرل کونسل کے تحت مختلف موضوعات پر اجلاس اور قراردادیں منعقد ہوئیں۔ یہ قراردادیں متفقہ فیصلے اور فتاویٰ ہیں جو نہایت اہمیت کے حامل ہیں جن کو مجمع کے اراکین کی اجتماعی تحقیق و جستجو سے اخذ کیا ہے۔ مصنف نےمجمع الفقہ الاسلامی کے منعقدہ اجلاسات کی کاروائیاں بھی الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ذکر کی ہیں۔ان اجلاسات میں مختلف جدید فقہی مسائل پربحث کی گئی ہے،اور ان مسائل کی سفارشات وتجاویز کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ان اجلاسات میں ہر قسم کے مسائل کو زیر بحث لایا جاتا تھا۔ ان تمام مسائل کی متعلقہ کاروائیوں کو ڈاکٹر وہبہ الزحیلی نے بالتفصیل بیان کیاہے۔ان اجلاسات و قراردادوں میں کسی ایک ٹاپک یا مسئلہ کو بیان کیا جاتا تھا پھر تمام اراکین اور علماء وفقہاءاس مسئلہ پر غوروحوض کرتے اورمفصل بحث ومباحثہ کے بعد اگر اس مسئلہ کا حل مل جاتا تووہ تجویزکردیا جاتا وگرنہ اس مسئلہ کوآئندہ اجلاس تک ملتوی کر دیا جاتااور اس موضوع پرتمام تحقیقات،مقالات اور قراردادوں کا خلاصہ تیار کروایا جاتا تاکہ مسئلہ کی اصل حقیقت معلوم ہو اور اس کے مطابق شرعی حل تجویز ہو ۔جیسے اس ادارے کی جنرل کونسل کے اجلاس
[42] میں انشورنس ، بیمہ اور ری بیمہ کے موضوع پربحث کی گئی ،اور بیمہ کی تمام اقسام کی رائج صورتوں اور اس کے بنیادی اصول وضوابط اور اس کے مقاصد پر غور وخوض کیاگیا،اور اس موضوع پر فقہی اکیڈمیوں اورعلمی اداروں کی طرف سے جوکام سامنے آیا اس پر غوروحوض کیا گیا۔بحث و مباحث کے بعد قرار داد میں انشورنس،بیمہ اور ری بیمہ کی جائز وناجائزصورتوں کو وضاحت سے بیان کر دیا گیا۔ڈاکٹر وہبہ الزحیلی نے ان قراردادوں کی علمی اہمیت اور عصری ضرورتوں کے پیش نظر ان کو کتاب کاحصہ بنایا ہے ۔
[43] اگرچہ یہ قراردادیں اور سفارشات مستقلاً چھپی ہوئی ہیں۔اور چونکہ ڈاکٹر وہبہ الزحیلی مجمع کے تمام اجلاسات میں شریک رہے اور مجمع کے تین بنیادی ارکان میں سے تھے اس لیے لوگ باربار ان فیصلہ جات کے متعلق ان سے پوچھتے تھے اس لیے انھوں نے ان اجلاسات اور قراردادوں کو کتاب میں شامل کرنا ضروری سمجھا تاکہ ان تک رسائی آسان ہو جائے ۔
مختلف فقہی نظریات کی تفصیل:
الفقہ الاسلامی وادلتہمیں ڈاکٹر وہبہ الزحیلی نے مختلف فقہی نظریات سے مفصل بحث کی ہے۔ان نظریات میں نظریہ
حق،نظریہ عقد،نظریہ اموال،نظریہ ملکیت،نظریہ ضمان اور نظریہ فسخ وغیرہ شامل ہیں۔ڈاکٹر وہبہ الزحیلی نے ان نظریات کے مصادر،اصول اورقواعد کو شریعت کے اصولوں سے اخذ کیا ہے۔اور انہیں اجتہاد کا روشن چراغ قرار دیا ہے۔مصنف نے ان نظریات کو وضاحت سے بیان کیا ہے[44]اور ان سے نکلنے والے جزئی مسائل کو بھی بیان کیا ہے۔اور احکام کو بھی واضح کیا ہے جو قانون سے متفق ہوتے ہیں اور جو قانون سے مختلف ہوتے ہیں۔
تخریج احادیث :
الفقہ الاسلامی وادلتہکی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں موجود تمام احادیث کی تخریج کی گئی ہے۔جبکہ احادیث کی تخریج اکثر اس طرح کی کتب میں نہیں پائی جاتی۔اور تخریج احادیث میں معتبر کتب سے استفادہ کیا ہے۔
فہرست احادیث و موضوعات:
الفقہ الاسلامی وادلتہمیں موضوعات اور مسائل کی جامع فہرست پیش کی گئی ہے۔ ابواب اور فصلوں کی فہرست ہر جلد کے شروع میں بھی موجود ہے اور ایک پوری جلد میں بھی صرف موضوعات اور فقہی مسائل کی جامع فہرست دی گئی ہے۔اور آخری جلد میں ہی کتاب میں شامل تمام احادیث کی فہرست بھی موجود ہے جو کہ بیش بہا علمی ورثہ ہے۔
خلاصہ:
ڈاکٹر وہبہ الزحیلی کے انداز تحریر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہر مسئلہ اور بحث کےمتعلق ائمہ کا موقف بیان کرنےاور تمام پہلوؤں کی تفصیل اور تبصرہ کے بعد اختتام پر خلاصہ پیش کرتے ہیں جس میں وہ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں اور مسئلہ کے متعلق وضاحت کرتے ہیں ۔اور اخذ کردہ نتائج سامنے لاتے ہیں
[45]ڈاکٹر وہبہ الزحیلی کی اس کتاب سےقاری فقہ،اصول فقہ اورقواعد فقہ کے ساتھ دیگر تمام احکام شرعیہ کے وافر ذخیرے سے مستیفض ہو تا ہے۔اس کےعلاوہ اس کتاب میں قرآن،احادیث اور تاریخ و سیرت کی بھی وسیع اور مستند معلومات پائی جاتی ہیں۔
الفقہ الاسلامی وادلتہ کے مضامین:
ڈاکٹر وہبہ الزحیلی کی علمی سطح ،دینی معلومات ،فقہی بصیرت اور تجدید فقہ کی کاوشوں کاصحیح طور پر احاطہ ان کی اس کتاب "الفقہ الاسلامی وادلتہ"سے کیا جا سکتا ہے۔مصنف نے اس کتاب کو تصنیف کرتے ہوئے طالبانہ انداز کو بھی سامنے رکھا ہے اور محققانہ انداز کو بھی،اور اپنی اجتہادی قوتوں کوبھی صرف کیا ہے۔آپ نے الفقہ الاسلامی وادلتہمیں مضامین کو بیان کرنے میں انتہائی دلکش انداز اپنایا ہے۔انھوں نے فقہی مباحث کو اولاً اقسام میں تقسیم کیا ہے،پھر ہر قسم کے ابواب بیان کیے ہیں، اس کے بعد ہر باب کو مختلف فصول میں تقسیم کیا ہے۔پھر ہر فصل کے تحت مختلف مباحث لائی گئی ہیں،اور مباحث کے ذیل میں انواع و مقاصد کو بسط و تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔چنانچہ مضامین کی ترتیب بہت منفرد اور دلکش ہے اور پڑھنے والے کو اپنی طرف راغب کرتی ہے۔
فقہ العبادات:
فقہ العبادات میں مصنف نے دس ابواب بیان کے ہیں۔پہلاباب طہارت ،دوسراباب نماز،تیسراباب روزے اور اعتکاف،چوتھاباب زکٰوۃ،پانچواں باب حج وعمرہ،چھٹا باب قسم،نذر اور کفارات،ساتواں باب ممنوع اور مباح،آٹھواں باب قربانی، عقیقے اورختنے وغیرہ،نواں باب ذبیح اور شکار،دسواں باب جہاد
مختلف فقہی نظریات:[46]
فقہی نظریات کے تحت درج ذیل فصول بیان کی گئی ہیں۔پہلی فصل نظریہ حق،دوسری فصل اموال،تیسری فصل ملکیت اور اس کی خصوصیات،چوتھی فصل عقد کا نظریہ،پانچویں فصل مؤیدات شرعیہ،چھٹی فصل نظریہ فسخ،ساتویں فصل نظریہ ضرورت شرعیہ اور خود ساختہ قانون کا موازنہ
فقہ المعاملات:[47]
فقہ المعاملات میں دو ابواب ہیں ۔پہلا باب عقود ،دوسرا باب اسلامی نظام معیشت۔باب العقودکو درج ذیل فصول کے ضمن میں تفصیلا بیان کیا گیا ہے۔پہلی فصل بیع کی مختلف انواع(یعنی بیع سلم،استنصاع،جزاف،سود،مرابحہ،تولیہ،وضیعہ اور اقالہ،دوسری فصل قرض،تیسری اجارہ،چوتھی جعالہ،پانچویں شرکت،ساتویں ودیعت،آٹھویں عاریت،نویں وکالت،دسویں کفالت،گیارھویں حوالہ،بارھویں رہن،تیرھویں صلح،چودھویں ابراء،پندرھویں استحقاق،سولہویں مقاصہ،سترھویں اکراہ اوراٹھارہویں فصل حجر۔
ملکیت اور اس کے متعلقات:[48]
اس قسم کے ضمن میں دو ابواب ہیں۔پہلا باب ملکیت اور اس کی خصوصیات،دوسرا باب ملکیت کے توابع۔
باب اول ملکیت اور اس کی خصوصیات:
اس باب میں چھ فصلیں ہیں۔پہلی فصل ملکیت اور ملک کی تعریف کا بیان ،دوسری فصل تملک کے لیے مال کی قابلیت اور عدم قابلیت،تیسری فصل ملک کی مختلف انواع ،چوتھی فصل ملک ناقص کی انواع،پانچویں فصل ملک تام کے مختلف اسباب ،چھٹی فصل طبیعت ملک یعنی ملکیت خاصہ شریعت اسلامیہ میں مطلق ہے یا مقید
باب دوم ملکیت کے توابع:[49]
اس باب کی بارہ فصول ہیں۔پہلی فصل احکام اراضی،دوسری احیاءالموات،تیسری معدنیات،حمیٰ اور اقطاع کے احکام، چوتھی نفع اٹھانےکےحقوق،پانچویں زمین کی سرمایہ کاری کےعقود،چھٹی تقسیم(اعیان ومنافع)،ساتویں غصب اور اتلاف،آٹھویں
حملہ آور سے دفاع،نویں لقطہ ،دسویں مفقود کا بیان،گیارھویں مسابقہ اورمناضلہ، بارھویں شفعہ۔
الفقہ العام:
یہ قسم چھ ابواب پر مشتمل ہے:پہلا باب شرعی حدود،دوسراباب تعزیر،تیسرا باب جنایات (جرائم)اوران کی سزائیں
چوتھا باب جہاد اور جہاد کے توابع،پانچواں باب قضاء اور اثبات حق کے طریقے،چھٹا باب اسلام میں نظام حکم
باب اول شرعی حدود:[50]
یہ باب ایک تمہیداور چھ فصلوں پر مشتمل ہے:پہلی فصل حد زنا،دوسری فصل حدقذف،تیسری فصل حد سرقہ ،چوتھی فصل حد صرابہ(رہزنی)،پانچویں فصل حد شرب اور حد سکر ،چھٹی فصل حد ردت(مرتد ہونے کی سزا)۔
باب دوم تعزیر:[51]
اس باب میں دو فصلیں ہیں۔پہلی فصل تعزیر کی تعریف،کیفیت،شرائط اورمقدار و صفات،دوسری فصل حق تادیب ۔
باب سوم جرائم اور سزائیں:
یہ باب چار فصول پر مشتمل ہے۔پہلی فصل نفس انسانی پر جنایت (قتل اور اس کی سزا)، دوسری فصل نفس کے علاوہ جنایت تیسری فصل نامکمل نفس پرجنایت،چوتھی فصل حیوان اور ٹیڑ ھی دیوار کی جنایت
باب چہارم جہاد:
اس باب میں یہ فصلیں ہیں۔پہلی فصل جہاد کاحکم اور اس کے قواعد،دوسری فصل قبول اسلام یا معاہدہ کے ذریعہ جنگ کی انتہاء،تیسری فصل اموال غنیمت کا حکم،چوتھی فصل قیدوں کا حکم۔
باب پنجم قضاء اور اثبات حق کے مختلف طریقے:
اس باب کے ذیل میں تین فصلیں ہیں۔پہلی فصل قضاء اور اس کے آداب،دوسری فصل دعوٰی اور بینات(شہادت اور دلیل)، تیسری فصل اثبات کے طریقے۔
باب ششم اسلام میں نظام حکومت:[52]
اس باب کی تین فصلیں ہیں۔پہلی فصل اسلامی حکومت میں قانون سازی اور شریعت سازی کااختیار،دوسری فصل اعلیٰ انتظامی اختیارات(امامت وحکمرانی)، تیسری فصل اسلامی حکومت۔
اصول شخصیہ (عائلی قوانین): یہ قسم چھ ابواب پر مشتمل ہے۔
باب اول نکاح اور اس کے اثرات:[53]
اس باب میں سات فصلیں ہیں۔پہلی فصل شادی سے پہلے امور،دوسری شادی کا بندھن باندھنا(یعنی نکاح کی تعریف،حکم
اور عقد وغیرہ)،تیسری محرمات نکاح،چوتھی عقد نکاح میں اہلیت،ولایت اور وکالت،پانچویں نکاح میں کفو کا اعتبار،چھٹی نکاح کے اثرات،ساتویں نکاح کے حقوق و فرائض۔
باب دوم نکاح کا خاتمہ اوراس کے اثرات:[54]
اس باب میں چار فصلیں ہیں۔ پہلی فصل طلاق ،دوسری خلع ،تیسری عدالتی کاروائی (قاضی کا ذوجین کی علیحدگی کا فیصلہ)، چوتھی فصل عدت۔
باب سوم اولاد کے حقوق:[55]
یہ باب پانچ فصول پر مشتمل ہے۔پہلی فصل نسب ،دوسری رضاعت ،تیسری حضانت (اولاد کی پرورش)، چوتھی ولایت، پانچویں فصل اخراجات ۔
باب چہارم وصیتیں :
اس باب میں تین فصلیں ہیں۔پہلی فصل وصیت کے بیان میں ،دوسری مرض الموت کے تصرف کے بیان میں،تیسری فصل وصایہ کا بیان۔
باب پنجم وقف:
اس باب کےدس فصول ہیں۔پہلی فصل وقف کی تعریف،مشروعیت،صفت اور رکن،دوسری وقف کی اقسام اورمحل، تیسری وقف کا حکم اور ملکیت،چوتھی وقف کی شرائط،پانچویں شرعااورقانوناوقف کا اثبات،چھٹی وقف باطل کرنے والی چیزیں، ساتویں وقف کے اخراجات،آٹھویں وقف کو تبدیل کر نے اور فروخت کر نے کی صورت،نویں مرض الموت میں وقف،دسویں فصل وقف کا نگران اور متولی۔
باب ششم میراث: [56]
اس باب کی انیس فصول ہیں۔پہلی فصل علم میراث کی تعریف،مبادی اور اصطلاحات،دوسری میراث کے ارکان، تیسری وراثت کے اسباب،چوتھی وراثت کی شرائط،پانچویں وراثت سے مانع امور،چھٹی ترکہ سے متعلق امور، ساتویں وارثوں کی قسمیں اور تعداد،آٹھویں اصحاب الفروض،نویں عصبات،دسویں شاذمسائل،گیارھویں حجب،بارھویں عول،تیرھویں ذوالفوض پر رد، چودھویں حساب اورفروض کے مخارج،پندرھویں ذوالارحام کی تقسیم میراث،سولہویں باقی وارثوں کی میراث، سترھویں مختلف نو عیت کے احکام،اٹھارہویں مناسخہ،انیسویں تخارج یا مخارجہ۔
جدید فقہی معاملات:
الفقہ الاسلامی وادلتہ کی یہ قسم تین ابواب پر مشتمل ہے۔
باب اول ضمان کا نظریہ عام :
اس میں تین فصلیں ہیں۔پہلی ضمان کے اساسی مقومات ، دوسری ضمان کے مختلف گوشے،تیسری ضمان کے متعلق قواعد۔
باب دوم دیوانی مسؤلیت :[57]
اس باب میں چار فصول ہیں۔پہلی عقدی مسؤلیت ،دوسری تقصیری مسؤلیت ،تیسری مسؤلیت کے عوارض ،چوتھی مسؤلیت کا اثبات ۔
باب سوم تعزیراتی مسؤلیت: [58]
اس باب میں تین فصلیں ہیں۔پہلی فصل اسلام میں تعزیراتی مسؤلیت کے مبادی،دوسری فصل انسانی جان کا ضمان،تیسری فصل جرائم کے سبب ضمان ۔
الفقہ الاسلامی وادلتہکےتمام ابواب کی ہرفصل کےعنوان وموضوع کےمعنیٰ، تعریف، اہمیت، شرائط، اقسام، مقدار، طریقہ،ذرائع،مستحبات،سنتیں،مکروہات،نواقض،حکم،اوصاف و فوائد،محل،مدت اور احکام کو ابحاث،انواع اور مقاصد کے ضمن میں مفصلاًذکر کیا گیا ہے۔ڈاکٹر وہبہ الزحیلی کی یہ کتاب الفقہ الاسلامی وادلتہوہ عظیم کتاب ہے جو فقہ کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے،مختلف فقہی مذاہب بالخصوص مذاہب اربعہ کے موقف اور دلائل بیان کرنے ،تطبیق وتلفیق کرنے،اور اس کے ساتھ شرعی پیمانوں کو جدید پیمانوں میں ڈھالنے پر مشتمل ہے۔یہ کتاب علمی اور فقہی ذوق رکھنے والوں کو اپنی طرف کھینچنے والی ہے۔یوں تو یہ کتاب
بہت سی خصوصیات پر مشتمل ہے لیکن اس کے اسلوب ومنہج سے اس کی دلکشی اور خصوصیت اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔
الفقہ الاسلامی وادلتہ کا منہج واسلوب:
اس کتاب کا اسلوب واضح ،آسان،سادہ اور بالتفصیل ہو نے کےساتھ ساتھ نہایت شستہ بھی ہے جس سے مراد و مفہوم میں کوئی دقت باقی نہیں رہتی۔یہ فقہ اسلامی کی ایک ایسی کتاب ہے جو قرآن وسنت کے علاوہ عقلی دلائل اور فقہ الرائے پر بھی مشتمل ہے۔اسلامی فقہ کی یہ شان اور خصوصیت ہے کہ اس میں بیان کردہ احکام اور اصول تسلیم شدہ ہوتے ہیں،دلائل اور نصوص سے ثابت شدہ ہو تے ہیں ،محض عقل پر اکتفا نہیں کیا جاتا اور نہ ہی صرف نفسانی راحت کا سامان ہوتا ہے۔اور جو اصول اور قواعد یا مسائل بغیر دلیل کے بیان کیے جائیں وہ معلم ،متعلم بلکہ کسی بھی طبقہ کیلئےاطمینان قلب کا با عث نہیں بنتے ۔ الفقہ الاسلامی وادلتہکا منہج و اسلوب کہ ایسا ہے ہر طبقہ اپنے ذوق کے مطابق اس سے استفادہ کر سکتا ہے ۔مصنف نے کتاب میں تعلیم و تعلم کے انداز کو بھی سامنے رکھا ہے اور محققانہ انداز کو بھی اور اس کے ساتھ اپنی اجتہادی قوت کو بھی صرف کیا ہے،اور اس کیلئےانھوں نے قرآن و سنت سے استفادہ کیا ہے۔کیونکہ قرآن و سنت سے راہنمائی لیے بغیر اور فقہی و شرعی احکام کی پہچان کے بغیر ایک مجتہد کا کوئی بھی عمل قابل قبول نہیں ہوتا۔
فقہی مباحث کی ترتیب:
الفقہ الاسلامی وادلتہمیں فقہی احکام اور فقہی مباحث کو اس تر تیب اور انداز سے بیان کیا گیا ہے کہ قاری کو اپنا گرویدہ
بنا لیتی ہے۔مصنف فقہی مباحث کو مفصلاً بیان کرتے ہیں۔مصنف نے سب سے پہلے فقہی مباحث کو اقسام میں بیان کیا ہے۔اس لحاظ سے اس کتاب میں چھ اقسام ہیں [59]۔اس کے بعد ہر قسم کو مختلف ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔[60]پھر ہر باب کو مختلف فصول ،ہر فصل کو بہت سے مباحث اور پھر ہر بحث کے ذیل میں انواع و مقاصد کو بسط و تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔چنا نچہ علمی اور فقہی اعتبار سے یہ ترتیب اور مواد بیش بہا خزانہ ہے ۔اس وجہ سے اس کتاب کو عظیم فقہی سرمایہ اور فقہی انسائیکلوپیڈیا کا نام دیا جاتا ہے۔
ماخذ:
ڈاکٹر وہبہ الزحیلی نے اس کتاب کی ترتیب و تشکیل میں سینکڑوں کتب سے استفادہ کیا ہے۔جن میں سے چند ماخذ یہ ہیں۔
کتب تفاسیر:
تفاسیرمیںتفسیر الکشاف زمحشری،احکام القرآن لابن العربی،تفسیرابن کثیر،تفسیرالمنار ،تفسیر طبری، تفسیرالقرطبی،تفسیر الالوسی وغیرہ۔
کتب احادیث:
کتب احادیث میں صحاح ستہ،موطا امام مالک،صحیح ابن حبان،مستدرک للحاکم،سنن دارقطنی،مسند
امام شافعی،ریاض الصالحین،مجمع الزوائد وغیرہ۔
کتب جرح وتعدیل:
نصب الرایۃ فی تخریج احادیث الہدایۃ للزیلعی،نیل الاوطار للشوکانی،سبل السلام للصنعانی،الجامع الصغیر والجامع الکبیر للسیوطی،تنویر الحوالک شرح موطا مالک۔
کتب فقہ و اصول فقہ:
الخراج لابی یوسف ،شرح السیر الکبیر للسرخسی،فتح القدیر مع الھدایۃ،ردالمحتار علی در المختار،البدائع للکاسانی،تبیین الحقائق للزیلعی،بدایۃالمجتہد لابن رشد،اور دیگر کئی کتب فقہ ۔
کتب قواعد فقہ:
الاشباہ والنظائرلابن نجیم،الاشباہ والنظائرللسیوطی،قواعدالاحکام لابن عبدالسلام،شرح المجلۃ للاتاسی القواعد الفقہیہ للحمزاوی،القوانین الفقہیۃ لابن جزی وغیرہ۔ان کتب کے علاوہ وہبہ الزحیلی نے اپنی دوسری تصانیف سے بھی استفادہ کیا ہے اور ان کے حوالے بھی اس کتا ب میں موجود ہیں۔
[61]
فقہی مباحث کا بیان:
ڈاکٹر وہبہ اس کتاب کا مقدمہ تحریرکرنے کے بعداور احکام شرعیہ پر بحث کرنے سے پہلے فقہ کے ضروری مباحث پر
روشنی ڈالتے ہیں۔ ان مباحث میں سے کچھ درج ذیل ہیں:فقہ کے معنی اور خصوصیات [62]،اہم فقہی مذاہب کے فقہاء اور ان کی کتب[63]،فقہاء اور کتب فقہ کے مراتب[64]،فقہاء کے اختلافات کے اسباب اورآسان مذہب کے قواعد و ضوابط اور شرائط[65]۔
جرح و تعدیل:
ڈاکٹر وہبہ الزحیلی فقہی ہو نے کے ساتھ ایک بلند پایہ محدث بھی تھے۔اس لیے انھوں نے محدثانہ طرز کو اپناتے ہوئے اس کتاب میں احادیث کی صحت کو بیان کرنے کا التزام کیا ہے۔اور جن احادیث سے فقہاء نے استدلال کیا ہے ان کی تحقیق و تخریج کی ہے۔تاکہ قاری کو حدیث کی سند کا حال معلوم ہو جائے اور وہ اپنی عقل سے درست رائے کا انتخاب کرے۔آپ نقد و جرح کے اصولوں کو بروئے کار لاتے ہوئے صحیح مرویات پیش کرتے ہیں اور ضیعف احادیث کی نشان دہی کرتے ہیں۔ جیسےکہ آپ وضو کے فضائل و آداب کی بحث میں وضو کے بعد تولیے یا رومال سےخشک کرنے کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ احنا ف،حنابلہ اور شوافع کے ہاں وضو کے بعد اعضاء کو خشک نہ کرنا مستحب ہے اوراس کی دلیل وہ یہ پیش کرتے ہیں ،"نبی کریمﷺکے غسل فرمانے کے بعدحضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا تولیہ لے کر آئیں تو آپﷺنے واپس کر دیا اور پانی کو ہاتھ سے صاف کرتے ہو ئے فرمایا کہ ایسے ہی پو نچھنا ہے"اس کے حوالہ میں شیخین کا ذکر کرتے ہیں۔
[66]اسکے بعد لکھتے ہیں ما لکیہ تولیے اور رومال وغیرہ سے خشک کرنا جائز قرار دیتے ہیں اور دلیل میں یہ حدیث بیان کرتے ہیں حضرت قیس بن سعد روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺایک مرتبہ ہمارے گھر تشریف لائےحضرت سعد نے آپﷺکے نہانے کے لئے پانی رکھوایا آپﷺنے غسل فرمایا پھرحضرت سعد نے آپﷺ کو زعفران یا ورس میں رنگا ہوا لپیٹنے کاکپڑا دیا آپﷺنے اس کو لپیٹ لیا۔ڈاکٹر وہبہ الزحیلی اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں"رواہ احمد وابن ماجہ وابو داؤد والنسائی ،واختلف فی وصلہ وارسلہ و ذکرہ النووی فی فصل الضیعف"
[67]۔مصنف جب کسی حدیث کاضعف یا صحت ذکر نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حدیث ان کے نزدیک فی نفسہ قابل استدلال اور قابل حجت ہے۔
فقہی مذاہب کی روشنی میں مسائل کا بیان:
ڈاکٹر وہبہ الزحیلی کی یہ کتاب صرف ایک مذہبی اور فقہی کتاب نہیں بلکہ یہ چاروں مذاہب کا تقابلی مطالعہ بھی ہے۔بلکہ اس
میں مذاہب اربعہ کے علاوہ دوسرے مذاہب[68] کا بھی ذکر ہے۔آئمہ اور فقہاء کا موقف بیان کرتے ہوئے وہبہ الزحیلی نے اس مذہب کے مصادر اصلیہ اور معتبر کتب کا سہارا لیا ہے۔اس کتاب میں مذموم تقلید سے نکلنے اور محمود تقلید کے اپنانے پر زور دیا گیا ہے۔ مذاہب کی آراء کو بیان کرتے ہوئے ممکن حد تک ان شرائط کے لکھنے پر اتفاق کیا ہے جن میں مذاہب کی وحدت ظاہر ہو، اور اس کے بعد جو آراء مختلف ہوں ان کو بیان کرتے ہیں۔
اختلاف فقہاء کا بیان:
مصنف فقہی مباحث کو بیان کرتے ہوئے فقہاء کے اختلاف کو بالاستیعاب واضح کرتے ہیں،آپ سب سے پہلے احناف کا
موقف بیان کرتے ہیں، پھر مالکیہ کی آراء کو واضح کرتے ہیں ،اور اس کے بعد شافعی مسلک اور اس کے بعد حنبلی مسلک کی رائے کو بیان کرتے ہیں ۔اس کے بعد اگر کسی مسئلہ میں دیگر مذاہب(شیعہ ،اباضیہ وغیرہ) کی آراء ہوں تو ان کو بیان کرتے ہیں۔ مذاہب کی ترتیب میں زمانہ کی تقدیم و تاخیر کوپیش نظر رکھا ہے۔ہر مذہب اور رائے کو محققانہ اور مدللانہ انداز سے واضح کیا ہےتا کہ قاری کو کوئی تشنگی باقی نہ رہے۔اکثر و بیشتر آپ مسائل میں تر جیح کو بیان نہیں کرتے تاکہ پڑھنے والے بغیر کسی مذہبی تعصب کے کسی بھی رائے کو اختیار کر لے۔لیکن کبھی کبھی مصنف بیان کردہ فقہی آراء میں تر جیح کا اصول اپنا کر قوی مؤقف کو اپنانے پر ابھارتے ہیں ۔اور جہاں تر جیح کا ذکر نہیں کرتے وہاں ان کے نزدیک اس رائے پر عمل کرنا بہتر ہے جس کو جمہور نے راجح قرار دیاہو۔مصنف نے مذاہب میں سے آسان تر مؤقف اپنانے کی رخصت اس وقت دی ہے جب اس کی شدیدضرورت یا کوئی خاص مصلحت ہو۔لیکن اگر نفسانی خواہشات کا غلبہ ہوتو پھر جائز نہیں ۔
استدلال مسائل کا اسلوب:
ڈاکٹر وہبہ الزحیلی نے مسائل کے استدلال میں یہ اسلوب اختیار کیا ہے:کسی مسئلہ میں اولاً آیات کریمات اور اس کے بعد
احادیث کو بیان کیا ہے ،اور پھر ائمہ کرام کی آراء اور عقلی دلائل سے وضاحت کی ہے۔جیسے کہ آپ بیع کی مشروعیت کے متعلق لکھتے ہیں کہ بیع جائز ہے اور اس کے جواز پر کتاب و سنت اور اجماع کے دلائل شاہد ہیں۔[69]
قرآن سے دلائل:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ[70]۔ اور اللہ تعالی نے بیع کو حلال کیا ہے ۔
وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ[71]۔ اور جب تم آپس میں خرید وفروخت کرو تو گواہ بنا لیا کرو۔
سنت سے استدلال:
بیع کے جائز ہونے پر آپ درج ذیل احادیث بیان کرتے ہیں :"حضور نبی کریم ﷺسے سوال کیا گیا کہ کون سی کمائی سب
سے افضل ہے ؟ آپﷺنے فرمایا: جسے آدمی اپنے ہاتھ سے کمائے اور ہر وہ بیع جو مبرور ہو[72]۔آپﷺکا ارشاد ہے: "سچا اور امانتدار تاجر نبییوں،صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا۔[73]
عقلی دلائل:
آپ لکھتے ہیں حکمت جواز بیع کا تقاضہ کرتی ہے اور چونکہ انسان ایک دوسرے کی چیزوں کے محتاج ہوتے ہیں ،اور بغیر عوض
کے وہ ایک دوسرے کو اپنا مال دینے پر رضا مند نہیں ہوتے ،اسلیے خرید فروخت کے طریقہ میں ہر شخص کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے اور ایک دوسرے سےتعاون کے بغیر زندگی گزارنا مشکل و ناممکن ہے[74]اسکے بعد آپ اجماع اور فقہاء کے دلائل پیش کرتے ہیں۔
لغوی اور اصطلاحی تعریف اور مفہوم:
ڈاکٹر وہبہ الزحیلی لغوی اور اصطلاحی تعریفات بھی تحریر کرتے ہیں۔لغت عرب اوراقوال عرب سے بھی استدلال کرتے ہیں۔ جیسے بیع کی ہی آپ لغوی اور صطلاحی تعریف کرتے ہو ئے لکھتے ہیں:
لغوی تعریف:
"مقابلۃشیءبشیء"[75] ایک چیز کا دوسری چیز سے تبادلہ کرنا۔
اصلطلاحی تعریف:
"مبادلۃ مال بمال علیٰ وجہ مخصوص"[76]مخصوص طریقہ سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا۔
اس کے علاوہ بھی دیگر تعریفات ذکر کرتے ہیں اور معنی کی وضاحت اور مفہوم بھی بیان کرتے ہیں۔ائمہ وفقہاء کے حوالے سے اختلافات جو کہ تعریف میں ہوں بیان کرتے ہیں۔
قواعد فقہ سے استدلال:
ڈاکٹر وہبہ الزحیلی مسائل کے استنباط اور حل میں قواعد فقہ سے بھی استفادہ کرتے ہیں اور قواعد کلیہ سے استدلال کرتے ہوئے مختلف اسلوب اپناتے ہیں۔کہیں تو آپ باقاعدہ عنوان
[77]قائم کرتے ہو ئے ان قواعد کا ذکر کرتے ہیں۔ کہیں آپ مسئلہ کی وضاحت کے دوران قواعد فقہ سے استدلال کرتے ہیں ۔اور کبھی نہ تو عنوان قائم کرتے ہیں اور نہ ہی مسئلہ میں ان کی وضاحت کرتے ہیں بلکہ آپ بحث کو اس انداز سے بیان کرتے ہیں کہ اس میں اشارتا قواعد فقہ سے استدلال ہوتا ہے۔
جدید اور حقیقی مسائل کا ذکر:
اس کتاب میں عموماً ان مسائل کے بارے میں بحث کی گئی ہے جوکہ عملی اور حقیقی زندگی میں پیش آتے ہیں ۔فرضی اور ایسے مسائل سے اجتناب کیا گیا ہے جن کا پایا جانا دور دور تک ناممکن ہو مثلاً غلاموں اور لونڈیوں کے مسائل وغیرہ۔لیکن ایسے مسائل جن کا دارومدار ہی غلاموں پر ہو وہاں مصنف نے غلام کی مثال ذکر کی ہے۔
مصنف نے ایک ہی باب کے متعلق جملہ مسائل یکجا کیے ہیں ،اس لیے بسا اوقات عبارات کے اعادہ کی ضرورت پڑی ہے۔ بعض مسائل میں منفردانہ رائے بھی قائم کی ہے لیکن بحث کے تمام مقاصد کو مفصل بیان کیا ہے ،اور اس کے بعد اپنی رائے کا اظہار بھی کیا ہے۔مصنف نے اس بات کا خیال بھی رکھا ہے کہ وہ مسائل کی نقلی دلیل کے ساتھ ساتھ عقلی دلائل بھی پیش کرتے ہیں۔ مسائل کے تفصیل اور فقہاء کی آراء کو اس وضاحت سے بیان کرتے ہیں کہ پڑھنے والے کو درست حکم جاننے میں دشواری نہیں ہوتی۔
عصر حاضر کے مسائل کا ذکر:
مصنف نے دور حاضر کے جدیدفقہی مسائل کا ذکر بھی کیا ہے ۔جدید مسائل کی وضاحت کرتے ہوئے آپ نے ان مسائل
پر محققانہ بحث کی ہے، اور ان مسائل کے حکم کی تفصیل قوت ادلہ کی بناء پر کی ہے۔ان جدید مسائل میں بینک کاری،انشورنس حصص کی خرید و فروخت،بانڈز،مروجہ طبی علاج معالجے وغیرہ شامل ہیں۔
انشورنس :
وہبہ الزحیلی لکھتے ہیں کہ انشورنس ایسا عقد ہے جو کو ئی شخص کسی معین کمپنی کے ساتھ اس کی مخصوص شرائط پر کرتا ہے اورایک مقرر مقدار میں مال جمع کرواتاہے
[78]۔انشورنس کے بارے میں لکھتے ہی ہیں کہ انشورنس کمپینوں کے ساتھ لین دین جائز نہیں لیکن اگرسرکاری سطح پر انشورنس لازمی قرار دی جائے تو اضطراری طور پر انشورنس جائز ہے اس میں بھی شرائط ہیں کہ انشورنس تعاونی ہو یا اجتماعی ہو،اور ثابت شدہ اقساط والی نہ ہو
[79]۔
شئیرز اور بانڈز:
بانڈز اور شئیرز کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ شئیرز جائز ہے جبکہ بانڈز جائز نہیں
[80] ۔شئیرز اور بانڈز میں بنیادی فر ق واضح کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں کہ شئیر کمپنی میں ایک حصہ کی نمائندگی کرتا ہے یعنی حامل کسی وقت بھی کمپنی میں شریک ہوتا ہے ،جبکہ بانڈز کمپنی پر ایک قسم کا دین (قرض) ہوتا ہے یعنی بانڈز ہولڈر مقروض یا دائن (قرض دہندہ)ہوتا ہے۔اس لیے جب کمپنی کو فائدہ ہوتا ہے تو شئیر ہولڈر کو منافع ملتا ہے لیکن بانڈز ہولڈر متعین فائدہ لیتا ہے جوسالانہ ہوتا ہے چاہیے کمپنی کو فائدہ ہو یانقصان
[81]۔اسی طرح آپ کمپینوں کے شئیرز،حصص اور ان کی خرید وفروخت ،حصص کی زکوٰۃ اور اس کی اقسام پر تفصیلی بحث کرتے ہیں۔
[82]
مجمع الفقہ الاسلامی کے اجلاسات کا بیان:
ڈاکٹر وہبہ الزحیلی نے اس کتاب میں مجمع الفقہ الاسلامی کے منعقدہ اجلاسات ،قراردادیں اور سیمنار بھی ذکر کیے ہیں۔ان اجلاسات میں مختلف جدید فقہی مسائل پر بحث موجود ہے۔اگرچہ یہ قراردادیں مستقل چھپی ہوئی ہیں لیکن ڈاکٹر وہبہ الزحیلی نے ان کو اپنی کتاب میں شامل کیا ہے اور زیادہ تر جدید اور عصری مسائل کو بالتفصیل بیان کیا ہے۔
[83]
خلاصہ کلام یہ ہے کہ وہبہ الزحیلی ایک بلند پایہ کے فقیہ ،محدث اور مفسر ہونے کے ساتھ وسیع معلومات کا خزانہ بھی تھے۔انھوں نے تحقیق اور دقت نظر سے اس کتاب کو مرتب کیا۔ جو قیمتی معلومات کا گنجینہ اور گراں بہا فقہی کارنامہ ہے۔علم شرعیہ اور علم فقہ کے متلاشی کے لیے بہترین انسائیکلوپیڈیا ہے جس میں سابقہ فقہی ذخیرہ جمع کر دیا گیا ہے۔
حوالہ جات
- ↑
دِیر عطیہ یا دَیر عطیہ شام کا ایک شہر ہے اور یہ قالمون اور مشرقی لبنان کی پہاڑوں کے سلسلہ میں واقع ہے اور دارالخلافہ دمشق سے 88 کلو میٹرشمال میں ہے
- ↑
دمشق یونیورسٹی نہ صرف شام کے پانچ بڑے اداروں میں سے ہےبلکہ اس کے شا ئقین کے لیے اہم چیز یہ ہےکہ یہ یونیورسٹی بیسویں صدی میں تجدید نو کے مراحل سے گزری۔مزید معلو مات کیلئے: (
https://www.damascusuniversity.edu.sy)
- ↑
الازہریونیورسٹی قاہرہ میں 970ءمیں قائم ہوئی۔اور یہ خطہ ارض کا سب سے نامور تعلیم ادارہ ہے۔جس میں علوم اسلامیہ خاص طور پر توجہ کا مرکز ہیں۔ مزید معلومات کیلئے:(
http://www.azhar.edu.eg/en/u.htm)
- ↑
عین شمس یونیورسٹی1950ءمیں قائم ہوئی۔یہ موجود وقت میں مصر کا تیسرا بڑا ادارہ ہے۔جس کے ذیل میں پندرہ مختلف شعبہ جات کام کر رہے ہیں۔مزید معلومات کیلئے:(
http://www.asu.edu.eg)
- ↑
قاہرہ یونیورسٹی مصر کی سب سے بڑی سرکاری یونیورسٹی ہے۔جو کہ گیزہ کے علاقے اور دریائےنیل کے ساحل کیساتھ واقع ہے۔یہ 21دسمبر2 190ءمیں قائم ہوئی۔مزید معلومات کیلئے:(
http://www.cu.edu.eg)
- ↑
آثارالحرب فی الفقہ الاسلامی دراستہ مقارنتہ بین المذاہب الثمانیتہ والقانون الدولی العام
- ↑ 7بنغازی یونیورسٹی ایک سرکاری ادارہ ہےجوکہ لیبیابنغازی میں ہےاور لیبیا کے اعلی تعلیمی اداروں میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔1955ءمیں اسے لیبیا یونیورسٹی کے طور پر قائم کیا گیا۔مزید معلومات کیلئے:(http://www.uob.edu.ly/en)
- ↑ 1976ء میں شیخ زید النہیان کی طرف سےقائم کیا گیا ایک ادارہ ہے۔ اور اسے ایک جامع تحقیقی یونیورسٹی بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔یونیورسٹی میں اس وقت تقریباًچودہ ہزارطلباءتعلیم حاصل کررہےہیں۔مزیدمعلومات کیلئے:(http://www.uaeu.ac.ae/en)
- ↑ خرطوم یونیورسٹی ایک سر کا ری یو نیورسٹی ہے۔جو وسیع میدانوں اور مخلوط نظام تعلیم کی حامل ہے۔یہ سوڈان کا سب سے اہم اور بڑاتعلیمی ادارہ ہے۔مزید معلومات کیلئے:(http://www.uofk.edu)
- ↑ یہ 1957ءمیں قائم ہو ئی۔یہ یونیورسٹی سعودی عرب کے اعلی ترین تعلیمی اداروں میں سے ہے۔اور علاقے کے تین بڑےاہم اداروں میں سے ایک ہے
- ↑
سوڈان کی بین الاقوامی یونیورسٹی 1990ءمیں ایک نجی ادارے کے طور پر بنائی گئی۔یہ اپنےذہن اسکالرز اور دنیا بھر میں پہچاننے جانے والے اصولوں کی عکاس ہے۔
- ↑
پا کستان میں انٹرنیشنل اسلامک یو نیورسٹی میں انھوں نے کئی دورے کیےاورطلباء کو علمی خطبات سے نوازا۔
- ↑
- ↑ اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ سعودی عرب کے صف اول کے تعلیمی اداروں میں سے ہے۔اوردیگر روایتی علوم کے علاوہ ثقافت،سائنس ،اورمعاشی علوم سے متعلق راہنمائی فراہم کر تا ہے۔مزید معلومات کیلئے:(http://www.iifa-aifi.org)
- ↑ اسلامی کو نسل (المجلس الاسلامی السوریہ)وہ ادارہ ہے جو مختلف مذاہب میں مزاحمت کو کم کر رہا ہے۔اس ادارے کا افتتاحی اجلاس استنبول میں11،12 اپریل کو منعقد ہوا۔اس کا فرض اولین مختلف مذہبی گروہوں اور کونسلوں کےساتھ جو کی مختلف اقوام میں پھیلے ہوئے ہیں اور تارکین وطن اور مہاجرین کے ساتھ گفت وشنید کر نا ہے۔
- ↑ اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا 1988ء میں نئی دہلی میں قائم کی گئی۔اور یہ مشہور علماءوفقہاءکے زیر نگرانی اپنے فرائض سر انجام دیے رہی ہے۔1990ءمیں اسے ایک سود مند ادارے کے طور پر متعارف کرایا گیا۔قاضی مجاہد الاسلام قاسمی اسکے بانی اور سیکرٹری جنرل تھے۔وہ تادمِ واپسی اس ادارے میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔مزید معلومات کیلئے:(http://www.ifa-india.org)
- ↑
- ↑
دمشق ،دارالفکر،2012ء
- ↑
دمشق ، دارالفکر،1963ء
- ↑
بیروت ،دارالفکر،1986ء
- ↑
دمشق، دارالفکر،2007ء
- ↑
دمشق،دارالفکر،2006ء
- ↑
بیروت ،دارالفکر،2009ء
- ↑
دمشق ،دارالفکر،2005ء
- ↑
دمشق ،مکتبہ الحدیث،1967ء
- ↑
بیروت،مؤسسہ الرسالہ،1987ء
- ↑
دمشق، دارالفکر،1993ء
- ↑
دمشق، دارالفکر،1994ء
- ↑
دارالفکر،دمشق،1991ء
- ↑
دمشق، دارالفکر،2010ء
- ↑
دمشق، دارالفکر،1996ء
- ↑
دمشق،دارالفکر،2001ء
- ↑
دمشق ،دارالفکر،1970ء
- ↑
دمشق، دارالفکر،2001ء
- ↑
مجمع الفقہ الاسلامی کی جنرل کونسل کے چوتھا اجلاس جدہ میں 18 تا 23 جمادی الثانی بمطابق 6 تا 11فروری 1988ءکو منعقد ہوا۔
- ↑
جیسے کہ:الخراج لابی یوسف،المبسوط للسرخسی،الفروق للقرافی،الام للامام شافعی،المغنی لابن قدامۃ الحنبلی،المحلی لابن حزم، مجموع الفقہ للامام زید،وغیرہ۔
- ↑
جیسے کہ:صحیح بخاری،صحیح مسلم اور دیگرصحاح ستہ، نصب الرایۃ فی تخریج احادیث الھدایۃ للزیلعی،تنویر الحوالک شرح موطا مالک، مجمع
الزوائد للھیثمی
- ↑
مثلاََ بیع و شراء کی جہاں کہیں بھی مثالیں دی ہیں وہ جدید مروجہ اشیاء سے دی ہیں قدیم طرز کےمفروضات اور امثلہ سے اجتناب کیا ہے۔
- ↑
مزید تفصیل کیلئے:الزحیلی،الفقہ الاسلامی وادلتہ،ج1،ص62 تا 75
- ↑
مزید تفصیل کیلئے: الزحیلی،الفقہ الاسلامی وادلتہ ،ج1،ص123 تا 127
- ↑
43ان میں امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت ،امام مالک بن انس،محمد بن ادریس الشافعی ،احمد بن حنبل الشیبانی،ابو سلیمان داؤد بن علی الاصفہانی، زید بن علی زین العابدین بن الحسین ،الامام ابو عبداللہ جعفر الصادق اورابو الشعشاء جابر بن زید کا ذکر ہے۔
- ↑
مجمع الفقہ الاسلامی کی جنرل کونسل کا دوسرا اجلاس جدہ میں مورخہ10تا16ربیع الثانی بمطابق 22تا28دسمبر 1985کومنعقد ہوا۔ مزید معلومات کیلئے: الزحیلی، الزحیلی،الفقہ الاسلامی وادلتہ ،ج8،ص480
- ↑
یہ اجلاسات اور قراردادیں الفقہ الاسلامی وادلتہکی جلد نمبر 8 میں بالترتیب موجود ہیں۔
- ↑
ڈاکٹر وہبہ الزحیلی نے نظریات کو بیان کر تے ہوئے انکی تعریف،ارکان،قسمیں،اسباب اور پھر احکام کو مفصل بیان کیا ہے۔
- ↑
مزید تفصیل دیکھیے: الزحیلی،الفقہ الاسلامی وادلتہ
- ↑
الزحیلی، الزحیلی،الفقہ الاسلامی وادلتہ ،ج9،ص45
- ↑
الزحیلی ، الفقہ الاسلامی وادلتہ ،ج4،5،ص283
- ↑
ایضاً،ج5،ص55
- ↑
ایضاً ،ج5،ص48
- ↑
ایضاً
- ↑
ایضاً،ج6،ص481
- ↑
ایضاً
- ↑
الزحیلی ، الفقہ الاسلامی وادلتہ ،ج7،ص333
- ↑
ایضاً
- ↑
الزحیلی ، الفقہ الاسلامی وادلتہ ، ج7،ص400
- ↑
ایضا،ج8،ص48
- ↑
ایضا،ج9،ص77
- ↑
ایضا، ج9،ص154
- ↑
قسم اول عبادات،قسم ثانی فقہی نظریات،قسم ثالث معاملات،قسم رابع ملکیت اور اس کے متعلقات،قسم خامس فقہ عام اور قسم سادس اصول شخصیہ۔
- ↑
جیسے قسم اول عبادات میں باب اول طہارت،باب دوم صلوۃ،باب سوم روزے اور اعتکاف،باب چہارم زکوٰۃ،باب پنجم حج اور عمرہ،باب ششم قسم،نذراور کفارہ،باب ہفتم ماکولات اور مشروبات کا بیان،باب ہشتم قربانی،عقیقہ اور ختنہ،باب نہم شکار اور ذبح کے احکام شامل ہیں ۔اور اسی طرح دیگر ابواب بیان کیے
گیے ہیں۔
- ↑
جیسے کہ:آثار الحرب فی الفقہ الاسلامی،اصول الفقہ الاسلامی،العلاقات الدولیۃ فی الاسلام ،نظریۃ الضرورۃ الشرعیۃ
- ↑
الزحیلی ، الفقہ الاسلامی وادلتہ ،ج1،ص30 تا 41
- ↑
ایضاً،ص42 تا58
- ↑
ایضاً،ص58 تا61
- ↑
ایضاً،ص80
- ↑
ایضا ،ج1،ص349
- ↑
ایضا،ج1،ص350
- ↑
فقہ ظاہریہ،فقہ اباضیہ،فقہ شیعہ امامیہ،فقہ شیعہ زیدیہ
- ↑
الزحیلی ، الفقہ الاسلامی وادلتہ ،ج4،ص 111
- ↑
البقرہ 275:2
- ↑
البقرہ 282:2
- ↑
بیع مبرور وہ ہوتی ہے جس میں دھوکا اور خیانت نہ ہو۔ (الزحیلی، الفقہ الاسلامی وادلتہ،ج4،ص113)
- ↑
الزحیلی ، الفقہ الاسلامی وادلتہ ،ج 4،ص 113(ڈاکٹر وہبہ الزحیلی اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: قال الترمذی ھذا حدیث حسن)
- ↑
ایضاً
- ↑
ایضاً،ص111
- ↑
ایضاً
- ↑
مزید تفصیل کیلئے: الزحیلی ، الفقہ الاسلامی وادلتہ ،ج9
- ↑
ایضاً،ص566
- ↑
ایضا،ج9،ص566،،567
- ↑
ایضا ،ج2 ،ص 684:ج4، ص73، 74
- ↑
ایضا،ج3،ص684
- ↑
ایضاً،ج4،ص74 تا 86
- ↑
ایضا،ج8 ص64