1
1
2017
1682060029185_585
13-30
https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/5/301
https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/5
==ریاست کامفہوم: ==
ریاست کامفہوم ہم اپنے الفاظ میں کچھ اس طرح بیان کرسکتے ہیں کہ:
”ریاست لوگوں کاایک ایسا گروہ ہےجن کےپاس ایک مخصوص علاقہ یا خطہ زمین ہوجن کی ایک منظم حکومت ہو،جسےاس گروہ کےتمام لوگ اورتنظیمیں تسلیم کرتی ہوں اورہرقسم کےبیرونی دباؤاورطاقت سےآزاد ہوں“[1]
ریاست کی تعریف کرتے ہوئے وڈروولسن(Widrow Wilson)لکھتے ہیں:
”ریاست سےمراد انسانوں کی وہ جمعیت ہےجوعموماًزمین کےایک حصہ پرموجودہو، جس میں اکثریت کی رائے اقلیت پرفوقیت رکھتی ہو“[2]
اسی طرح شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں :
واعنی بالمدینة جماعة تقاربة تجری بینہم المعاملات ویکونون اھل منازل شتی،والاصل فی ذلک ان المدینة شخص واحد من جھة ذلک الربط مرکب من اجزء وھیئة اجتماعیة۔[3]
ترجمہ:اہل مدینہ(ریاست) سے وہ جماعتیں مرادہیں جوقریب قریب آبادہوں، ان میں باہم معاملات ہوتےہیں اورجداجدامکانوں میں بودوباش رکھتے ہوں،سیاست مدن میں اصل امریہ ہے کہ تعلقات کی وجہ سےشہرگویا ایک شخص ہواکرتاہےجس کی ترکیب اجزاء اور مجموعی ہیئت سےہوتی ہے۔
اسی طرح اسلامی ریاست سےمراداعلیٰ معاشرتی ادارہ ہےجس میں تمام لوگوں کے دینی
اور دنیاوی معاملات اللہ تعالیٰ کے دئے ہوئے قوانین کےمطابق طےکئےجائیں ۔
ریاست کی ضرورت واہمیت:
انسان فطرتاً اجتماعی زندگی کامحتاج ہے،لیکن اپنی خواہشات کی پیروی میں بعض ایسےحرکات کامرتکب ہوتاہےجس سےانفرادی اخلاق خراب ہونےکےساتھ ساتھ معاشرتی نظام میں بھی خلل پیدا ہونےکاخدشہ لگارہتاہےاوراپنی خودغرضی کی بناءپردوسروں کونقصان پہنچانےسےدریغ نہیں کرتا اس لئےایک ایسی قوت کی ضرورت ہےجو انسان کی انفرادی اوراجتماعی زندگی کونقصان پہنچانےسے بچانے کی ضامن ہو،اسی قوت کانام ریاست وحکومت ہے ۔ریاست وحکومت کاکام یہ ہےکہ معاشرتی تعلقات،معاشی معاملات،تمدنی احوال،غرض زندگی کےہرشعبہ کواستوارکرے اوراس کی حفاظت و نگرانی کی ذمہ داررہے۔ریاست وحکومت کایہ بھی کام ہےکہ وہ افرادکی ضروریات مثلاًخوراک، عدل، تعلیم اورصحت وغیرہ کےلئےسہولتیں پیدا کرےنیز بحیثیت مجموعی ملک کےاستحکام اورحفاظت کےلئے جن چیزوں کی ضرورت ہواکرتی ہےان سےآراستہ رہے ۔ مولانامحمد ادریس ریاست کی ضرورت واہمیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”بہت سےافراد ایسےہیں جوخودغرضی اورشہوت پرستی سےخالی نہیں اورخودغرضی اور شہوت پرستی ہی تمام فتنوں اوربرائیوں کی جڑہے،جس کاعقلاًً وشرعاً انسدادضروری ہے،اس لیےکہ قتل اورخونریزی اورچوری ورہزنی اور غارتگری سب اسی خودغرضی اورشہوت پرستی سےپیدا ہوتےہیں،اسلئےضرورت ہوئی کہ ان مفاسدکےانسدادکےلیےایک اجتماعی قوت ہونی چاہیےجو ملک کے افرادکو باہمی ظلم اورزیادتی سےمحفوظ رکھ سکے اوراندرون ملک مظلوم کاظالم سےحق دلاسکےاورکسی زورآورکی یہ مجال نہ ہوکہ وہ کسی کمزورکودباسکےاور باہر سے اگرکوئی دشمن حملہ آور ہوتویہ اجتماعی قوت اس کامقابلہ اورمدافعت کرسکے،سو اس اجتماعی قوت کا نام حکومتاورسلطنت ہے،جوملک کےاندرونی اوربیرونی فتنہ کا انسدادکرسکے “[4]
مختلف نظام ہائےسیاست:
اس وقت تک دنیامیں جونظام ہائےسیاست معروف رہے ہیں،ان کواس طرح تقسیم کیا جاسکتاہے:(1)اسلامی نظام سیاست(2)بادشاہ (3)اشرافیہ (4)جمہوریت (5)اشتراکیت وغیرہ۔
(1)اسلامی نظام سیاست وحکومت:
اسلامی حکومت وہ ہےکہ جس حکومت کانظام شریعت اسلامیہ کےقانون کےماتحت ہو، یعنی ایسی حکومت جواپنے آپ کو مسلمان کہتی ہواورمن حیث الحکومت اپنامذہب اسلام بتاتی ہو، یعنی یہ اقرارکرتی ہوکہ حکومت کامن حیث الحکومت مذہب اسلام ہے اورقانون شریعت کی پیروی واتباع کواپنےلیے دل اورزبان سےلازم اورضروری سمجھتی ہو توایسی حکومت حکومت اسلامیہ ہے ۔
(2)بادشاہت:
شایدتاریخ عالم میں سب سےزیادہ جاری اورنافذرہنےوالاسیاسی نظام بادشاہت کانظام ہےجواپنی مختلف صورتوں میں شروع سے لےکرآج تک نافذچلاآتاہےاورتاریخ کےبیشترحصوں میں اس کاعمل دخل زیادہ رہاہے،کہنےکوبادشاہت ایک لفظ ہےجس کےمعنی یہ ہیں کہ سربراہ حکومت بادشاہ کہلاتاہے،وہ شخصی طورپرحکومت کرتاہےاوراس کی حکومت شخصی حکومت ہوتی ہے،لیکن اس کی شکلیں مختلف ادواراورمختلف ممالک میں مختلف رہی ہیں،ایک جیسی نہیں رہیں، دوسرےالفاظ میں بادشاہت کی بھی بہت سی قسمیں ہیں: مثلاًمطلق العنان ،شورائی،مذہبی اور دستوری بادشاہت ۔
(3) اشرافیہ کانظام:
اشرافیہ ایک گھڑا ہوا لفظ،اشراف سےنکلاہے،اشراف کہتےہیں شریف لوگوں کو یعنی ایسےلوگ جومعاشرےمیں عظمت کاکوئی مقام رکھتے ہوں،ان کواشراف کہاجاتاہے،اس نظام کا خلاصہ یااس نظام کے پیچھےنظریہ یہ ہےکہ حکومت کرناہرانسان کےبس کا کام نہیں ہےاورنہ ہی اس کاحق ہر انسان کو پہنچتاہے،بلکہ حکومت کرنے کاحق کچھ منتخب لوگوں کوحاصل ہوتاہےجوکچھ مخصوص حسب ونسب کےمالک ہوں،یامخصوص اوصاف کےحامل ہوں جنکوطبقہ اشرافیہ کہتے ہیں، اشراف کےطبقےکایہ حق ہےکہ وہ حکومت کرے۔
(5)جمہوریت:
جمہوریت کالفظ درحقیقت ایک انگریزی لفظ Democracy کاترجمہ ہے،جس کابنیادی تصوریہ ہےکہ حاکمیت کاحق عوام کو حاصل ہے،لہذا جمہوریت کےمعنی یہ ہوئے،ایسانظام حکومت جس میں عوام کی رائےکو کسی نہ کسی شکل میں حکومت کی پالیسیاں طے کرنےکیلئےبنیادبنایا گیاہو.[5]
(۵) اشتراکیت:
اشتراکیت کوانگریزی میں سوشلزم کہتےہیں،جوسوسائٹی سےنکلاہےاوراس کامآخذسوشل ہےجسکےمعنی ہیں”سماجی یامعاشرتی“سیاسیات اورمعاشیات کی اصطلاح میں سوشلزم کی تعریف یہ ہےکہ: ”وہ نظام جس میں کسی ملک کےتمام ذرائع پیداوارکسی ایک فردیاچندافراد کی ملکیت میں ہونےکی بجائےپورےمعاشرےکی ملکیت قراردئےجاتےہیں اوراس کا مقصدمعاشرے اورفرد دونوں کی فلاح وبہبوداورفردکوزندگی کی بنیادی ضروریات کی فکرسےنجات دلانا سمجھاجاتا ہے۔[6]
اسلامی حکومت کاقیام:
دنیا کےکئی مذاہب ایسےہیں جنہیں سیاست سےکوئی تعلق نہیں،یہی وجہ ہےکہ سیاست اور مذہب ہمیشہ ایک دوسرےکےلئے علیحدہ علیحدہ رہےاوراگرکبھی دونوں میں توافق پیداہوابھی توبرائےنام اورعارضی،اس کےبرخلاف مذاہب عالم میں صرف اسلام ہی کویہ امتیازحاصل ہےکہ جس طرح مسلمان کی زندگی کاکوئی پہلومذہب سےعلیحدہ نہیں ہوسکتا،اسی طرح اسلامی سیاست بھی دین اسلامسےعلیحدہ نہیں ہوسکتی ،چناچہ کنزالعمال میں بیان کیاگیاہےکہ:
اِلاسلَامُ وَالسُّلطَانُ اَخوَانِ توَامانِ لَایصلِح وَاحِدمِّنہُمَااِلَّا بِصَاحِبِہ فَالاِسلَامُ اسّ وَ السُّلطَانُ حَارث وَمالَا اسّ لہ یھدِمُ وَمَالَا حَارِث لَہ ضَائِع .[7]
ترجمہ:اسلام اورحکومت وریاست دوجڑواں بھائی ہیں،دونوں میں سےکوئی ایک دوسرے کےبغیردرست نہیں ہوسکتا،پس اسلام کی مثال ایک عمارت کی ہےاورحکومت گویااسکی نگہبان ہے،جس عمارت کی بنیادنہ ہووہ گرجاتی ہےاورجس کانگہبان نہ ہووہ لوٹ لیاجاتاہے۔
اسلامی فکرکےتمام مکاتب خیال اس امرپرمتفق ہیں کہ ملت اسلامیہ کےلئےنصب امامت لازمی ہے۔خلیفہ اورامام کاتقرر واجب ہے،کیونکہ نظم ملت،قیام امن،حصول نفع ودفع ضرراورنفاذ احکام شریعت،امامت وخلافت کےقیام کےبغیرممکن نہیں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہےجس پرپوری امت کا اجماع ہے۔اختلاف اگرہےتوتقرروانتخاب کی تفاصیل وجزیات میں،یا اس کےطرق وشرائط میں ہے،لیکن نصب امامت کےوجوب پرکوئی اختلاف نہیں۔ یہ سب کی نگاہ میں لازمی اورضروری ہے،اسی لئے کہ جب تک اسلامی معاشرہ اوراسلامی ریاست قائم نہ ہو،مسلمان اپنےایمان کےتقاضےپورےنہیں کرسکتے،اللہ تعالیٰ کےقانون کی بالادستی قائم کئےبغیربحیثیت مسلمان زندگی نہیں گزاری جاسکتی،یہ ہمارا ایمانی تقاضا ہےکہ اسلامی ریاست تشکیل پائے،اسلامی حکومت ہو اورزندگی کےتمام معاملات خدائی قانون کےمطابق طےہوں، ہجرت مدینہ سے پہلے خودخداوندتعالیٰ نےآنحضرتﷺکی زبان اقدس سےیہ دعامنگوائی:
وَقُل رَّبِّ اَدخِلنِی مُدخَلَ صِدقٍ وَّاَخرِجنِی مُخرَجَ صِدقٍ وَّاجعَل لِّی مِن لَّدُنکَ سُلطَاناً نَّصِیراً ۔[8]
ترجمہ:اوردعاکیاکریں کہ اےمیرےپروردگار مجھےجہاں لےجااچھی طرح لےجا اورجہاں سے نکال اچھی طرح نکال اورمیرےلیے اپنےپاس سےغلبہ اورامدادمقررفرمادے۔
یعنی یاتوخودمجھےاقتداردے یاکسی حکومت کومیرامددگاربناتاکہ میں اس کی مددسےتمام گناہوں کاسدباب کرسکوں ۔ لہذا علماءکی نظرمیں عقلاًوشرعاًمسلمانوں پریہ فرض ہےکہ اپنےلیے کوئی امیرمقررکریں جوان کےدین کااوران کی دنیاکاقانون شریعت کےمطابق انتظام کرسکےاور ناموس اسلام کی حفاظت کرسکے،صحابہ کرام ؓ نےآنحضرتﷺ کی وفات کےبعدتجہیزوتکفین سےپہلےاپناایک امیرمقررکیاجوملک کاانتظام کرسکے،جس سےمسلمانوں کےدین ودنیاکاتحفظ ہو سکے،ملک کی دینی اوردنیوی ترقی اورظالموں کی سرکوبی اورمظلوموں کی داد رسی اورفریاد رسی اور عدل وانصاف کاقیام اورسرحدوں کی حفاظت بغیرامیرکےممکن ہی نہیں،نیزمسلمانوں پرمن حیث الاسلام ناموس اسلام کا تحفظ فرض ہےجوبغیرحکومت اورسلطنت کےممکن نہیں ۔
اسلامی تصور ریاست کی بنیاد:
اسلام نے ریاست وحکوت کاجو تصور پیش کیاہے وہ اس اہم اوربنیادی اصول پرمبنی ہے کہ اس کائنات پراصل حاکمیت اللہ تبارک وتعالیٰ کو حاصل ہے اوردنیا کے حکمران اس حاکمیت کے تابع ہی حکومت کرسکتے ہیں۔یہ اسلامی ریاست کے دستورکی سب سے پہلی اوربنیادی دفعہ ہے جو قرآن کریم نے مختلف الفاظ میں دوٹوک اندازسے بیان فرمائی ہے :
اِن الحکمَ اِلَّا لِلّٰہِ ۔[9] ”حاکمیت اللہ کے سواکسی کی نہیں ہے“
یہ آیت اوراس طرح کی دیگرآیات اس حقیقت کو واضح کررہی ہیں کہ حاکمیت اس کائنات میں صرف اللہ تعالیٰ کی ہے ،جبکہ سیکولرجمہوریت میں حاکمیت کا حق عوام کے لیے تسلیم کیاگیاہے حاکمیت کے معنی ہیں کسی دوسرے کاپابند ہوئے بغیرحکم جاری کرنے اورفیصلے کرنے کاکلی حکم ،یہ حق سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو حاصل نہیں ہے اوراگرکوئی شخص کسی اورکو اس معنی میں حاکم قراردیتاہے تودرحقیقت وہ شرک کا ارتکاب کرتاہے ۔
غرض اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کااقرار ہی وہ بنیادہے جواسلام کے تصور سیاست کو سیکولر جمہوریت سے بالکل الگ کردیتی ہے ،سیکولر جمہوریت میں عوام کی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے پارلیمنٹ اتنی مختارمطلق ہے کہ وہ جوچاہے قانون منظورکرسکتی ہے ،اگر کسی ملک کے دستور نے پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیارات پرکوئی پابندی عائد کی ہوئی ہوتواس پابندی کو بھی دستور میں ترمیم کرکےوہ جب چاہےہٹاسکتی ہے،اس کےبرخلاف اسلامی حکومت کاناقابل تبدیلی دستور قرآن وسنت ہےجن سے ہٹ کر نہ وہ کوئی قانون بناسکتی ہے اورنہ دستور کی کوئی ایسی دفعہ منظور کرسکتی ہے جو قرآن وسنت کے کسی حکم کے خلاف ہو۔[10]
اسلامی ریاست کی خصوصیات :
ایک اسلامی ریاست میں بہت سی خصوصیات پائی جاتی ہیں ،جن میں سے اہم درج ذیل ہیں :
1:اصولی اور نظریاتی ریاست :
اسلامی ریاست کی سب سے پہلی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک اصولی اور نظریاتی ریاست ہے، اس ریاست کی بنیاد نہ نسل پر ہے اور نہ رنگ پر،نہ زبان پر ہے اور نہ وطن پر، نہ محض معاشی مفاد کا اشتراک اس کی اساس ہے اور نہ محض سیاسی الحاق۔ اس ریاست کی اصل بنیاد یہ ہے کہ یہ اسلامی نظریہ حیات کی علم بردار، اس کی تابع اور اس کو قائم کرنے والی ہے۔ جو ریاست خدا کی سیاسی حاکمیت کا اعلان کرے اور اس کے قانون کو نافذ کرنے والی بنے، وہ اسلامی ریاست ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ہر ریاست کی طرح اسلامی ریاست کے لئے بھی ایک متعین علاقہ اورآبادی ہونا ضروری ہے اوراس سر زمین کی حفاظت اور اس کے باشندوں کی فلاح و بہبود ہر لمحہ اس کے سامنے رہتی ہےلیکن اسلامی ریاست کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایک نظریاتی ریاست ہے۔
اسلام میں قانون حکومت و ریاست پر فوقیت رکھتا ہے اور خود حکومت خدا کے قانون کی پابند اور اس کے تابع ہوتی ہے ۔ریاست کلی اختیارات کی حامل نہیں، بلکہ یہ اپنے اختیارات خدا کے قانون سے حاصل کرتی ہے اورا س کی پابند و ما تحت ہے۔ریاست کی وفاداری اسی وقت تک ہے جب تک وہ خدا اور اس کے رسول کی وفادارر ہے اور اس ریاست میں احکام الٰہی نافذ ہوں، اگر شریعت کے خلاف احکام نافذ ہوں تو وہ ایک مسلمان کے لئے نا قابل قبول ہوں گے، اس پر ایسے احکام کا انکار کرنا لازمی ہو گا۔ اس بارے میں حضور ﷺ کا یہ جامع ارشاد ہے ۔
لَاطَاعَةَ لِلمَخلُوقِ فِی مَعصِیَةِ الخَالِقِ[11]
”خالق کی نا فرمانی میں کسی مخلوق کے لئے کوئی اطاعت نہیں “
یہی وجہ ہے کہ اسلامی ریاست کا اقتدار اعلیٰ کا مسلمان ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔غیر مسلم سے اسلامی احکام کےنفاذ کی توقع رکھناسرے سے ہی غلط ہے،اس لئے کہ نہ وہ اسلامی احکام سے خلوص رکھتا ہے اور نہ اسلام کی ترقی اس کے بیش نظر ہے ۔مسلمانوں پر لازم ہے کہ صرف ایسے مسلمان حاکم کی اطاعت کریں جو اسلام کے مطابق احکام صادر کرتا ہو، ایسا حاکم ہی اولی الامر کی تعریف میں آتاہے
2: شورائی اور جمہوری ریاست :
اسلامی ریاست کا مزاج نہ آمریت کو گوارا کر سکتا ہے اور نہ مورثی شہنشاہیت کو، اس کا مزاج خالص جمہوری اور شورائی ہے ۔اسلامی جمہوریت کی پہلی بنیاد انسانی مساوات ہے ،ارشادہے:
یٰٓاَ یُّھَاالنَّاسُ اِنَََّاخَلَقنٰکُم مِّن ذَکَرٍ وَّ اُنثٰی وَجَعَلنٰکُم شُعُوبًا وَّ قَبآئِلَ لِتَعَارَفُوا اِنَّ اَکرَمَکُم عِندَ اللّٰہِ اَتقٰکُم اِنَّ اللّٰہَ عَلِیم خَبِیر .[12]
ترجمہ:اے لوگو ! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو مختلف قومیں اور مختلف خاندان بنایا تا کہ ایک دوسرے کو شناخت کر سکو ۔ اللہ کے نزدیک تم سب میں بڑا شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو ،اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا اور پورا خبردار ہے “۔
نبی اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ:”عربی کو عجمی پر ،عجمی کو عربی پر ،سفید کو سیاہ پر اور سیاہ کو سفید پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے، بجز تقویٰ کے“[13]
قانون کی نگاہ میں سب برابرہیں ،حاکم اورمحکوم ،صاحب امراورمامور میں اسلام کوئی تمیز نہیں کرتا ،قانون سب کیلئے ایک ہی ہے ۔ ایک بارایک معزز خاتون کوچوری کی سزامیں قطع یدکی سزا دی جانےوالی تھی ،کچھ صحابہؓ نے حضور ﷺ سےسفارش کی،آپ نےسفارش کوغصہ سےردکردیا اورفرمایا:
والّذی نفس محمد بیدہ لوسرقت فاطمة بنت محمد لقطعتُ یدہا.[14]
ترجمہ:اس ذات کی قسم جس کی مٹھی میں محمد کی جان ہےاگرفاطمہ بنت محمد نے بھی چوری کی ہوتی تومیں اس کابھی ہاتھ ضرور کاٹ دیتا۔
یہ ہے وہ معیاری قانون اورمعاشرتی مساوات جس کاتصور کیاجاسکتاہے ۔اسلامی جمہوریت کی دوسری بنیاد ارباب اختیار کامعتمد علیہ ہوناہے ،یعنی یہ کہ ریاست کی ذمہ داریاں ان کوسونپی جائیں جواس کام کےاہل ہوں اورجن پرلوگوں کواعتمادہو،رسول اللہ ﷺ کاارشادہے:
”تمہارے بہترین امام اورقائد وہ ہیں جن کوتم چاہتے ہواوروہ تم کو چاہتے ہو ں اورتم ان کودعائیں دیتے اوروہ تم کودعائیں دیتے ہوں اورتم میں بدترین رہنماوہ ہیں جن کو تم ناپسندکرتے ہو اوروہ تم کوناپسند کرتے ہوں اوروہ تم پرلعنت بھیجتے ہوں اورتم ان پرلعنت بھیجتے “[15]
اسلامی جمہوری ریاست کی تےسری بنیاد شوریٰ ہے، یعنی مسلمانوں کے معتمد علیہ افراد تمام امور سلطنت کو خدا اور اس کے رسول کے احکام کے مطابق مسلمانوں کے مشورے کی روشنی میں طے کریں۔ اللہ تعالیٰ خود اپنے نبی ﷺ سے فرماتے ہیں:
وَ شَا وِرھُم فِی الاَمرِ .[16]”اور ان سے معاملات میں مشورہ کرو “
اور اولیِ الامر کے بارے میں یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
وَ اَمرُھُم شُورَیٰ بَینَھُم[17] ”اور جن کا ہر کام مشورہ سے ہوتا ہے “
نبی کریم ﷺ نے بھی اپنے قول و عمل سے مسلمانوں کو شوریٰ کی اہمیت و ضرورت سے آگاہ کیا ہے، حضرت علی ؓ سے روایت ہے :
”فرماتے ہیں میں نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ اگر ہمارے درمیان کوئی واقعہ پیش آ جائے جس کے بارے میں نہ کوئی حکم قرآن میں نازل ہو نہ حدیث میں کوئی بیان ہو، تو ایسے واقعہ کے متعلق آپ ﷺ کا کیا ارشاد ہے فرمایا !اس بارے میں عبادت گزار اور دیانت دار ماہرین شریعت سے مشورہ لیا کرو، انفرادی رائے اختیار نہ کرو “[18]
اسی طرح حضرت ابو ہرےرہ ؓسے روایت ہے :
مَارَاَیتُ اَحَد ًااَکثَر مَشُورَةً لِاَصحَابِہ مِن رَّسُولِ اللّٰہِ ﷺ [19]
ترجمہ:میں نے ایسا شخص نہیں دیکھا جو رسول اللہ ﷺ سے زیادہ اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرنے والا ہو۔
مشاورت کا حکم ہراہم معاملے اور اس کی ہر منزل کے لئے ہے ،اس کی شکل کیا ہو ؟ اس کا تعین ہر زمانے کے حالات کے مطابق کیا جائے گا ، لیکن اس کی روح یہ ہے کہ مشورہ ان لوگوں سے کیا جائے جو اہل حل وعقد ہوں، فہم و بصیرت رکھتے ہوں اور لوگوں کے معتمد علیہ ہوں ،مسلمانوں کے تمام اجتماعی کام مشورے سے طے ہوں اور کوئی شخص اپنی من مانی نہ کرے ، کوئی اجتماعی کام جتنے لوگوں سے متعلق ہو،مشورہ میں ان سب کو یا ان کے نمائندوں کو شریک کیا جائے اور مشورہ آزادانہ ،بے لاگ اور مخلصانہ ہو،اگر یہ چیزیں موجود ہوں تو شوریٰ کا حق ادا ہو جاتا ہے،خواہ اسکی شکل کوئی بھی تجویز کی جائے ۔
3: فلاحی ریاست :
اسلامی ریاست کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک فلاحی اور خادم خلق ریاست ہے۔ اسلام کی نگاہ میں حکومت کا کام صرف امن و امان کا قیام اور ملکی دفاع نہیں ہے ،بلکہ اس کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کی خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم بنیادی ضروریات کی فراہمی کی ضمانت دے ،اگر اسلامی ریاست کی حدود میں کہیں بھی فقروفاقہ غربت و افلاس ہے، ظلم وجور ہے، تو اس کا قلع قمع کرے اور اپنی تمام قوتیں ان انسانی مسائل کو حل کرنے کے لئے وقف کر دے
اسلام ہرفردمیں معاشی جدوجہد کا جذبہ پیدا کرتا ہے اور اسے دعوت دیتاہے کہ اپنی محنت سے روزی حاصل کرے ، محنت کی روزی اور پاک کمائی پر قرآن و حدیث میں غیر معمولی زور دیا گیا ہے۔ اسلام ا نفرادی ملکیت کی بھی اجازت دیتا ہے، لیکن اس کے ساتھ اس نے یہ تصور بھی پیدا کیا ہے کہ یہ ملکیت ایک امانت کی طرح ہے جسے جائز اور صحیح راستوں ہی پر صرف کرنے کا اختیار ہے ،نیز ہر شخص کی دولت میں اس کے اپنے حق کے علاوہ خدا اور اس کے بندوں کا حق بھی ہے ۔ضروری ہے کہ ہر شخص اپنی جائز ضرورتوں کو پورا کرنےکےساتھ ساتھ ریاست اور دوسرے
انسانوں کے حقوق کو بھی ادا کرے ۔[20]
اسلامی ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ ان تمام افراد کی کفالت کا بندوبست کرے جو مجبور ہوں یا اپاہج ہوں ،لاچار ہوں یا رزق سے محروم رہ گئے ہوں ،ارشادنبوی ﷺ ہے :
السلطان ولی من لاولی لہ [21]۔
”حکومت ہراس شخص کاولی (دست گیرومددگار) ہے جس کاکوئی ولی نہ ہو“۔
اس سرپرستی میں بنیادی ضروریات کے علاوہ ،بشرط گنجائش افراد کی دوسری ضروریات کی تکمیل بھی داخل ہوجاتی ہے ۔ عہدنبوی میں فتوحات کے بعدجب بیت المال میں کافی مال آنے لگا تونبی کریم ﷺ نے یہ اعلان فرمادیا کہ جولوگ مقروض ہوں اوروفات پاجائیں ،ان کے قرضے اسلامی ریاست کے خزانے سے اداکئے جائیں گے ،فرمایا:
انا اولی بالمؤمنین من انفسہم فمن توفّٰی وعلیہ دین فعلیَّ قضاہ[22]
ترجمہ:مجھ سے مسلمانوں کواپنی جانوں سے بھی زیادہ لگاؤ ہے ،پس جو مقروض وفات پائے ، اس کے قرض کی ادائیگی میرے ذمہ ہوگی ۔
اسی طرح ایک دوسری روایت سےمعلوم ہوتاہےکہ آپ ﷺ نےقرض کےعلاوہ مرنےوالے کی چھوڑی ہوئی دوسری ذمہ داریوں مثلاً بے سہارا اہل واولاد کی کفالت کے سلسلہ میں بھی یہی اعلان فرمایاتھا :
وَمَن ترکَ مالاً فلِاہلِہ ومن ترک دیناً اوضیاعاً فَاِلیّ وعلیَّ[23]
ترجمہ:اورجوشخص مال چھوڑ جائے پس وہ اس کے ورثاءکے لیے ہے اورجو قرض یامحتاج اہل وعیال چھوڑکرجائے تو (قرض کی ادائیگی ) میرے ذمہ داری اور(بچوں کی نگرانی کا فریضہ) مجھ پر ہے۔
نبی کریم ﷺ کے بعد جو افراد اسلامی ریاست کی صدارت کے منصب پرفائزہوئے ، انہیں ان وسیع ذمہ داریوں کاپوراشعور تھا ،اس حقیقت پرخلافت راشدہ کی پوری تاریخ گواہ ہے ، خصوصاً کفالت عامہ کی ذمہ داری کے بارے میں حضرت عمر ؓ کاتصور اتناوسیع اورہمہ گیرتھا کہ آپؓ فرمایاکرتے تھے کہ اگر دار الاسلام کے حدودکے اندر کوئی جانور بھی بھوک سے مرگیا تومجھے اندیشہ
ہے کہ اللہ کے حضور مجھے اس کے لیے جواب دہ ہونا پڑے گا ۔
والَّذِی بعث محمداً صلی اللّٰہ علیہ وسلم بالحق لو اَنَّ جَمَلاً ضیاعاً بشط الفرات لخشیتُ ان یسالنی اللّٰہ عنہ۔[24]
ترجمہ:اس ذات کی قسم جس نے محمد ﷺ کوبرحق رسول بناکربھیجا ،اگردریائے فرات کے کنارے کوئی اونٹ ناحق ہلاک ہوجائے تومجھے اندیشہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مجھ سے اس بارے میں بازپرس کرے گا ۔
4:معلم اور داعی ریاست :
اسلامی ریاست کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے سپرد محض معاشی کفالت کی ذمہ داریاں ہی نہیں ہیں، بلکہ اخلاقی تعلیم اور تہذیب و تمدن کی ترویج بھی اس کے ذمہ ہے۔ مسلمانوں کی پوری تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ:
==1۔ == تعلیم کو ہمیشہ غیر معمولی اہمیت دی گئی اور حکومت اور اہل ثروت نے اس کی دل کھول کر سر پرستی کی ۔
==2۔ == تعلیم کے نظام میں اولین اہمیت علوم دین کو دی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ ان تمام علوم کی ترویج کی گئی جو دفاع دین اور قیام حیات کے لئے ضروری ہیں ۔
==3۔ == تعلیم ہر دور میں مفت رہی ۔
==4۔== تعلیم کے ساتھ کردار سازی اور اخلاقی تربیت ایک جزءلا ےنفک کی طرح موجود رہی ۔
پھر یہ ریاست صرف اپنے شہریوں ہی کی تعلیم کا بندوبست کر کے مطمئن نہیں ہو جاتی ، بلکہ پوری دنیا کے سامنے اسلام کی دعوت کو اپنے قول و عمل سے پیش کرتی ہے ۔ قرآن کا ارشاد ہے :
کُنتُم خَیرَاُمَّةٍ اُخرِجَت لِلنَّاسِ تَامُرُونَ بِالمَعرُوفِ وَ تَنھَونَ عَنِ المُنکَرِ[25]
ترجمہ:تم بہترےن امت ہو جولوگوں کے لیے پیداکی گئی ہے کہ نیک کام کرنے کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو ۔
بہر حال اسلامی ریاست ایک معلم کی طرح ہے ،اسے اپنے تمام شہریوں کی تعلیم و تربیت کا بندوبست بھی کرنا ہے اور دنیا کے سامنے اسلام کی دعوت کو پیش بھی کرنا ہے ۔
اسلام ، اشتراکیت اور جمہوریت :
ذیل میں یہ جائزہ پیش کیا جاتا ہے کہ اسلام کا سیاسی نظام اشتراکی امریت اور مغربی طرز کی جمہوریت دونوں سے مختلف ہے ۔
اشتراکیت اور اسلام :
==1۔ ==اشتراکیت مذہب سے بیگانہ ہے اور اسلامی ریاست قانون الٰہی کی پابند ہے ۔
==2۔== اشتراکیت فرد کی مستقل اور جداگانہ شخصیت کو نہیں مانتی اور اسے طبقے میں ضم کر دیتی ہے، جبکہ اسلامی فرد کی شخصیت کو مستحکم کرنے اور ترقی دینے کے مواقع فراہم کرتا ہے، وہ طبقات کی نفی کرتا ہے اور تمام انسانوں کو مساوی قرار دیتا ہے۔
==3۔ ==اشتراکیت کا نظام آمرانہ ہے جبکہ اسلام کا نظام شورائی ہے ،اس میں تمام امور لوگوں کی مرضی کے مطابق طے ہوتے ہیں ،ان پر اوپرسے تھوپے نہیں جاتے ۔
==4۔== اشتراکی نقطہ نظر سے ایک ریاست کو مطلق العنانی حاصل ہے ، اس لئے شخصی آزادی اس میں نا پید ہے ۔ اسلام میں ریاست کے اختیارات محدود ہیں اور حاکم کی معصیت کی صورت میں مسلمانوں کو اس کی اطاعت سے باز رہنے کی ہدایت کرتا ہے، وہ حکومت کو مسؤل بناتا ہے اور اسے عوام کے مشورے کا پابند بھی کرتا ہے ، نیز شخصی اور سیاسی آزادی کی حقیقی ضمانت دیتا ہے ۔
==5۔== اسلامی حکومت مذہب کےفطری قوانین کو انسان کی بہتری کےلئے اٹل قراردیتی ہےجبکہ اشتراکیت مذہب اخلاق اورابدی صداقتوں کوختم کردیتی ہے اورانہیں جدید بنیادپربھی استوارنہیں کرتی ۔
==6۔==اسلامی حکومت محدودشخصی ملکیت کوجائز سمجھتی ہے ،مناسب حدتک راس المال رکھنے کی اجازت دیتی ہے، زائدسرمایہ کے لیے ملی بیت المال قائم کرتی ہے ،اس میں سب کااشتراک تسلیم کرتی ہے اوراس سرمایہ کی تقسیم سے سرمایہ وغربت کے درمیان توازن اورمساوات کوبحال رکھتی ہے ۔ جبکہ اشتراکیت میں شخصی ملکیت سب سے بڑافساد ہے اورقانوناً ناجائز ،ہرسرمایہ اورہر پیداوار (سرمایہ کا ہر حصہ) اجتماعی ملک ہے ،تمام سرمایہ حکومت کی امانت میں رہتاہے اوراشتراکی بیت المال میں جمع ہوتاہے ، اس سرمایہ میں سب کااشتراک ہے اورسب کو اس سے برابرکا حصہ ملتاہے ۔ان وجوہ کی بناپراسلامی ریاست اشتراکی آمریت سے بالکل مختلف ہے ۔
مغربی جمہوریت اور اسلام :
اسلامی ریاست مغربی جمہوریت سے بھی درج ذیل وجوہ کی بناءپر مختلف ہے ۔
1مغربی جمہوریت میں حاکمیت اعلیٰ کے اختیارات انسان کو حاصل ہوتے ہیں اور اسلامی طرز حکومت میں اقتدار اعلیٰ اللہ تعالیٰ اور اس کے قانون کو حاصل ہیں ،انسان بحیثیت نائب خدا صرف اسی کے احکام نافذ کرتا ہے ۔ جمہوریت کے قوانین دن بدن بدلتے رہتے ہیں ،اس کے برخلاف قرآن و سنت کے احکام اٹل اور نا قابل تغیر ہیں ۔ جن امور میں قرآن اور حدیث خاموش ہیں ،وہاں اسلام کی تعلیمات اور اس کی روح کو پیش نظر رکھ کر قوانین بنائے جا سکتے ہیں۔
2اسلام جاہ پسند ، مطلب پسند اور عہدوں کے آرزد مند اشخاص کو پسند نہیں کرتا، بلکہ وہ چاہتا ہے کہ ذمہ داری کے مناصب ان کو لوگوں کو دئیے جائیں جو ان کی طمع نہ رکھتے ہوں، نیز وہ عہدیداروں اور ارباب امر کے لئے اخلاقی صفات بھی تجویز کرتا ہے ،جبکہ جمہوریت ان چیزوں کی کوئی فکر نہیں کرتی۔
3جمہوریت جغرافیائی قومیت کے ساتھ وابستہ ہو گئی ہے، جبکہ اسلامی ریاست ایک اصولی اور نظریاتی ریاست ہے اور اس کا پیغام عالم گیر ہے۔
4اسلامی حکومت کے لیے مذہب بنیادی قانون کادرجہ رکھتاہے ،اسلامی حکومت مذہب اسلام کوعام انسانی فائدے کے لیے تمام انسانوں کا مطمح نظربنانے پرزوردیتی ہے ،لیکن دوسرے مذاہب کے ماننے والے افراد کوعقیدہ کی آزادی کاحق بھی دیتی ہے۔جبکہ جمہوری حکومت کاکوئی سرکاری مذہب نہیں ہوتا ، جمہوری حکومت نہ مذہبی ہے اورنہ مذہب کی دشمن ،ہر جمہوریت اپنے جمہور کوعقیدہ اورعمل کی آزادی کاپورا پورا حق دیتی ہے ۔
5اسلامی حکومت امامت ،خلافت اورامارت شوریٰ کانام ہے ،اس حکومت میں خداکی مرضی اصل ہے ،جمہور کااختیار منجانب اللہ ہے اورنیابتی ذمہ داری کے طورپرہے ،جبکہ جمہوری حکومت نام ہے، جمہور کی حکومت کا، جمہوریت میں حکم سرچشمہ مرضی جمہور ہے، جمہور اپنی حکومت نظام حکومت ، قانون حکومت سب کچھ خود بناتے ہیں اورخدا کے حکم کی پروانہیں کرتے، جمہور حکومت بناسکتے ہیں اورہرنظام حکومت کو بدل بھی سکتی ہیں ۔
حوالہ جات
- ↑ شاہین،محمداشرف قیصرانی ،اسلام کی معاشی وسیاسی تعلیمات ،کوئٹہ ،نیوکالج پبلی کیشنز،ص 231
- ↑ خالدعلوی ،اسلام کامعاشرتی نظام ،لاہور،الفیصل ،2009ء،ص 276
- ↑ شاہ ولی اللہ ،حجة اللہ البالغة ،کراچی ،قدیمی کتب خانہ ،باب 103:123
- ↑ مولانامحمدادریس کاندھلوی ،دستوراسلام ،لاہور ،مکتبہ عثمانیہ ،ص 12-13
- ↑ تقی عثمانی ،اسلام اورسیاسی نظریات ،کراچی ،مکتبہ معارف ،2012ء،ص25-80
- ↑ مولا ناگوہررحمن ،اسلامی سیاست ،مردان ،تفہیم القران،1989ء،ص 85
- ↑ الھندی،علاؤ الدین علی المتقی،کنز العمّال فی سنن الاقوال والافعال،کتاب الامارة ، ج6:ص10
- ↑ الاسراء80:17
- ↑ الانعام 57:6
- ↑ تقی عثمانی ،اسلام اورسیاسی نظریات ،ص 173-176
- ↑ کنز العمال للہندی ، کتاب الخلافة مع الامارة ،ج5،ص792
- ↑ الحجرات49:13
- ↑ محمد بن سلیمان الفاسی،جمع الفوائد، کتاب المناسک،باب التکبیر فی ایام التشریق
- ↑ بخاری،محمدبن اسمعیل،الجامع الصحیح،باب الکراہة الشفاعة فی الحداذارُفع الی السّلطان
- ↑ مسلم بن الحجاج ،الجامع الصحیح،کتاب الامارة ،باب خیار الائمة واشرارہ
- ↑ ال عمران159:3
- ↑ الشوریٰ 38:42
- ↑ کنزالعمال للہندی ، کتاب الخلافة مع الامارة ،ج5،ص812
- ↑ ترمذی،محمد بن عیسی،السنن، ابواب الجہاد ،حدیث 1714
- ↑ خورشیداحمد ،اسلامی نظریہ حیات ،کراچی ،کراچی یونیورسٹی ،1981ء،ص 496
- ↑ السنن للترمذی ،ابواب النکاح ،باب ماجآءلانکاح الا بولی
- ↑ ابوعبیدالقاسم بن سلام،کتاب الاموال ،بیروت ،دارالفکر،1979ءص 233
- ↑ الجامع الصحیح للمسلم ،کتاب الجمعة ،باب تخفیف الصلوٰة والخطبة
- ↑ ابن الاثیر،ابوالحسن علی بن ابی الکرم ،الکامل فی التاریخ،بیروت،دارالفکر،ج3،ص 56
- ↑ اٰل عمران110:3
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 1 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2017 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |