2
2
2018
1682060029185_614
33-54
https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/35/332
https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/35
Arabic Literature’s Research Review Effects Sub-Continent Region Arabic Literature’s Research Review Effects Sub-Continent Region
برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کے ساتھ اور انکے یہاں بسنے کی وجہ سے عربی زبان بھی یہاں رائج ہوگئی اور اسی طرح اسکی نشرواشاعت اور سیکھنے سکھانے کا مرحلہ بھی شروع ہوگیا۔چونکہ دین اسلام کے احکامات اور شرعی مآخذ یعنی قرآن و سنت عربی زبان میں ہیں اس لئے ضروری ہے کہ اسلامی احکامات سیکھنے کیلئے عربی زبان کو سیکھا جائے۔یہی وجہ ہے کہ علوم شرعیہ کے حصول اور اس میں مہارت تامہ کے ساتھ ساتھ بر صغیر کے باشندوں نے علوم عربیہ مثلاً علم لغت و ادب، علم الصرف وا لنحو، علم ا لا شتقاق و علم البلاغۃ و غیرہ میں بھی مہارت تامہ حاصل کی۔
یہ بھی واضح رہے کہ علماء بر صغیر نے علوم عربیہ میں اپنی مہارت کے ایسے جوہر دکھائے کہ علما ء عرب بھی انکی اس مہارت کے قائل ہوگئے۔علماء برصغیر کے عربی زبان کی خدمت کا ایک بنیادی پہلو یہ بھی ہے کہ انہوں نے اسکی خدمت محض زبان دانی کیلئے نہیں کی بلکہ خدمت دین اور اسکی ترجمانی اور اسکی ترویج و اشاعت اور اسلام سے روشناسی کیلئے خدمت اور اسکے لئے انتھک محنت و کوشش کی، اور اس خدمت و کوشش کا نتیجہ یہ نکلا اور اس کے اثرات یہ ظاہر ہوئے کہ بلا دبر صغیر و عجم میں بھی دین اسلام کا سورج اپنی اس آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے اور اسکی کرنیں ہر چار سو پھیل رہی ہیں، جس طرح بلا و عرب میں اسلام کا سورج چمک رہا ہے اور دین اسلا م علماء بر صغیر کی علوم عربیہ و ادب میں محنت و کوشش سے بر صغیر میں بھی اپنی اصل صورت و شکل میں محفوظ ہے اور اسکی اشاعت ہور ہی ہے۔چونکہ دین اسلام تا قیامت جاری و ساری اور محفوظ رہے گا اور اسکی خدمت کر نے والے پیدا ہوتے رہیں گے۔اس طرح تا قیام قیامت علوم عربیہ و ادب کی نشرو اشاعت کرنے والے بھی پیدا ہوتے رہیں گے اور علوم عربیہ کواپنی اصل شکل و صورت میں محفوظ کرتے رہیں گے اور اسکی خدمت کرنے والے ہمیشہ زندہ و جاوید رہیں گے۔
عربی زبان کی اہمیت اور اسکی فضیلت:
زیر نظر مقالہ ”بر صغیر میں عربی ادب کا تحقیقی جائزہ اور اسکے اثرات“ کی ابتداء سے پہلے عربی زبان و ادب کی اہمیت اور اسکی فضیلت بیان کرناضروری سمجھتے ہیں تاکہ عربی ادب کی اہمیت اور اسکی ضرورت معلوم ہوسکے۔دنیا میں جتنی اس زبان کی خدمت ہر میدان میں کی گئی ہے اتنی دوسری زبان کی خدمت نہیں کی گئی عرب تو عرب، عجمیوں نے بھی اس زبان کی دل و جان سے خدمت کی ہے۔بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ عجمی علماء نے اس زبان کی خدمت احسن طریقے سے کی ہے اور عرب علماء پر سبقت لے گئے تو مبالغہ نہ ہوگا ۔ان شاء اللہ ہم تفصیلاً ان علماء کی خدمات کا ذکر کریں گے۔
عربی زبان کی اہمیت اور فضیلت محتاج بیان نہیں، کیونکہ عربی زبان مسلمانوں کی دینی اور اسلامی زبان ہے اور دین شریعت کے مآخذ عربی زبان میں ہیں۔چنانچہ مولانا محمد یوسف بنوری رحمتہ اللہ لکھتے ہیں:
”اسلا م اور عربی زبان کا جو باہمی محکم رشتہ ہے، وہ محتاج بیان نہیں، اسلام کا قانون عربی زبان میں ہے۔اسلام کا آسمانی صحیفہ قرآن حکیم عربی زبان میں ہے ۔اسلام کے پیغمبر خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺکی مادری زبان عربی ہے۔حضرت رسالتِ ما ۤب ﷺکی تمام تر تعلیمات،
ہدایات اور ارشادات کا پورا ذخیرہ عربی زبان میں ہے“[1]
یہی وجہ ہے کہ عربی زبان و ادب کو اہمیت نہ صرف عرب ممالک بلکہ بر صغیر سمیت پوری دنیا میں دی جاتی ہے چونکہ شریعت اسلامیہ کے مآخذ اور اس کا منبع عربی زبان میں ہے اسلئے اس کا جاننا نہایت ضروری بلکہ واجب ہے کیونکہ قرآن و حدیث کا سمجھنا فرض ہے اور وہ بغیر لغت عربیہ کے نہیں سمجھا جا سکتا اور جو چیز تحصیل واجب کا ذریعہ ہو وہ واجب ہوتی ہے۔
واضح ہے کہ علوم عربیہ کئی اقسام پر مشتمل ہے جس میں علم عربی ادب کو خصوصی اہمیت حاصل ہے چونکہ زیر نظر مقالہ عربی ادب پر ہے لہٰذا ہم مختصراً عربی ادب اور اسکے بارے میں چند بنیادی باتیں اور عربی ادب کی تاریخ ذکر کریں گے۔
عربی ادب کی اکملیت:
عربی ادب کا سرمایہ متعدد وجوہ کی بناء پر بڑی وسعت اور عظیم اہمیت رکھتا ہے اس نے قدیم زمانہ میں دنیاکی تمام ترقی پسند اقوام کے علوم و فنون وادب کو نہایت کشادہ ظرفی سے اپنے اندر محفوظ کر لیا تھا اور آج بھی یہ دنیا کی جدید علمی تحقیقات اور ادبی تصانیف کو اپنے اندر جذب کر لینے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کر رہا ہے۔دنیا کی تمام زبانوں میں نہ صرف عربی زبان ہی کو یہ مقام حاصل ہے کہ وہ بیک وقت علوم قدیمہ و جدیدہ کا تمام ضروری کارآمد سرمایہ اپنے ا ندر رکھتی ہے۔دین اسلام کا تمام بنیادی سرمایہ صرف اسی ایک زبان میں ہے اور دنیا کی کوئی دوسری زبان اس فضیلت میں اسکی شریک و سہیم نہیں بن سکتی یہی وجہ ہے کہ عربی زبان کو قدرت نے بے شمار لفظی و معنوی محاسن و فضائل سے نوازا ہے۔
عربی ادب کی تعریف:
اد ب کیا ہے؟اسکا جواب مختلف علماء مختلف پہلوؤں میں دیتے چلے آئے ہیں۔پہلے سمجھا
جائے کہ ادب نام ہے ایک آمیزہ کا جسمیں زبان سے متعلق جملہ علوم ہوں مثلاً صرف و نحو، معانی و بیان و بدیع، لغت و اشتقاق، خط و تحریر، عروض و قافیہ، شعر و نثر وغیرہ۔
علماء عرب کا ایک گروہ اس سے آگے بڑھ کر ادب کی تعریف میں کہتا ہے کہ یہ ان تمام علوم و معارف اور جملہ معلومات پر حاوی ہے جو انسان تعلیم و تدریس کے ذریعہ حاصل کرتا ہے اور اس میں صرف و نحو، علوم بلاغت، شعرو نثر، امثال و حکم، تاریخ و فلسفہ، سیاسیات و اجتماعیت سب ہی شامل ہیں۔ادب کے ضمن میں علماء یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ کوئی ایسا لفظ نہیں جس کے معنی معین و محدود ہوں بلکہ اسکا اطلاق ہر اس لفظ پر ہوجاتا ہے جس کے ذریعے انسان اخلاق و آداب تعلیم و تربیت حاصل کرنے اور اپنے نفس کو شائستہ بناکر کردار کی بلندی پیدا کرے۔ (لہٰذا) قرآن مجید عربی ادب کی بلند ترین مثالی کتاب ہے قرآن مجید نے ادب میں حریت فکر، وسعت نظر، پاکیزگی تخیل، بلندی معنی پیدا کئے ادب عربی قرآن مجید سے قبل لفظی حسن و شوکت کے ساتھ بیشتر جذبات سافلہ کی ترجمانی میں لگا ہوا تھا۔قرآن مجید نے آکر ادب عربی کو لفظی و معنوی حسن کے ساتھ جذبات عالیہ کی ترجمانی کے آداب سکھائے اور یہ قرآن مجید کی تعلیم ہی کا فیضان ہے کہ آج عربی زبان تمام دنیا کے علوم و افکار سے بھری پڑی ہے۔نیزکسی زبان کے شعراء و مصنفین کا وہ نادر کلام، جس میں نازک خیالات و جذبات کی عکاسی اور باریک معانی و مطالب کی ترجمانی کی گئی ہو، اس زبان کا ادب کہلاتا ہے، اسی ادب کی نفس انسانی میں شائستگی، اسکے افکارو خیالات میں جلائ، اسکے احساسات میں نزاکت و حسن اور زبان میں سلاست و زور پیدا ہوتا ہے۔ادب کا اطلاق ان تصانیف پر بھی ہوتا ہے جو کسی علمی یا ادبی شعبے میں تحقیق کا نتیجہ ہوں۔
ادب کی تاریخ:
کون سی زبان کتنے متفرق ادوار سے گزری، مختلف زمانوں میں اسے ادباء و شعراء نے کسی
قدر نظم و نثر کا ذخیرہ دیا اور وہ کون سے اسباب تھے جو اسکی ترقی اور تنزلی اور تباہی کے باعث بنے ؟یہی وہ علمی مبحث ہے جسے ہم اس زبان کے ادب کی تاریخ کہتے ہیں۔[2]
یہ عربی زبان کی اہمیت و ادب کا بیان اور مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے ورنہ عربی زبان و ادب کی اہمیت اور اسکے تعارف کیلئے کئی اوراق درکار ہیں۔چنانچہ عربی زبان و ادب کی اہمیت کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”میں نے علم حدیث حاصل کرنے میں چالیس ہزار دینار خرچ کئے اور علم عربیت کو حاصل کرنے میں ساٹھ ہزار دینار خرچ کئے اور کاش جو میں نے علم حدیث میں خرچ کئے علم ادب میں خرچ کرتا، لوگوں نے کہا یہ کیسے؟تو فرمایا عربیت کی غلطی کفر تک پہنچا دیتی ہے۔“[3]
یہی وجہ ہے کہ عربی زبان شریعت اسلامیہ کا مآخذ ہونے کی حیثیت سے اور اپنی غیر معمولی اہمیت کی بناء پر ہر دور میں قابل توجہ ہی رہی ہے۔جب اسلام کا سر چشمئہ حیات عرب کی سر زمین سے پھوٹ کر اکناف عالم میں پھیل گیا تو صحابہ کرام ؓ اور تابعین کے زمرہ میں شامل فاتحین جو اسلامی فتوحات کے سلسلے میں سندھ و ہند، افغانستان و بخارا سے لے کر اسپین تک نہ صرف پھیل گئے تھے بلکہ ان ملکوں کو اپنا وطن بھی بنا لیا تھا اور ان کے ذریعے ان ملکوں میں عربی زبان بھی پہنچ گئی اور اسی وقت سے بر صغیر میں عربی زبان کی خدمت اور اسکے پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے چنانچہ مقدمہ تاریخ ادب عربی میں مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒلکھتے ہیں کہ:
”ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد اور مسلمانوں کے سکونت و استقلال کے بعد سے عربی زبان و ادب کے پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ جاری ہے، اسلام اور عربی زبان کا ایسا لازوال رشتہ ہے کہ وہ کسی عہد اور کسی ملک میں بھی منقطع نہیں ہوسکتا۔عربی زبان میں قرآن مجید کے نزول نے اسکی ابدیت اورجہاں گیری پر آخری مہر لگا دی ہے اور اب اس میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ہندوستانی مسلمانوں نے نہ صرف یہ کہ عربی زبان کی اہمیت محسوس کی اور اسکو ہر دور میں سینے سے لگائے رکھا بلکہ اسکی خدمت و اشاعت اور توسیع کی بلکہ کبھی کبھی انکی رہنمائی اور رہبری کا فرض بھی انجام دیا اور نہ صرف یہ کہ اہل زبان کی ہم زبانی اور ہم نوائی کی جرأت کی جو ایک عجمی قوم کیلئے سرمایہ فخر و مباہات ہے بلکہ کبھی کبھی جدت و اجتہاد سے بھی کام لیا شاہرا ہ عام سے ہٹ کر نئی روشیں پیدا کیں اور قصر ادب میں بعض نئے نئے دریچے اور نئے روزن بھی کھولے، مثال کے طور پر اس جدت و جرأت کا سہرا ایک ہندوستانی عالم ہی کے سر ہے اس نے ایک مستند ترین معجم (لغت) کی شرح کا بیڑا اٹھایا اور اس میں زبان کی ایسی ادا شناسی اور نکتہ سنجی کے نمونے پیش کئے کہ اہل زبان نے بھی اسکی زبان دانی اور دقیقہ ر سی کا اعتراف کیا میرا اشارہ علامہ مجد الدین فیروز آبادی کی شہرہ آفاق لغت”القاموس المحیط“کی عربی شرح ”تاج العروس“کی طرف ہے جو تیرھوی صدی ہجری کےمشہور ہندوستانی فاضل علامہ سید مرتضیٰ بلگرامی معروف بزبیدی (1205ھ) کےقلم سےدس ضخیم جلدوں میں نکلی ہےاورپانچ ہزارصفحات پرمشتمل ہے۔میرےعلم میں نہ صرف عربی زبان بلکہ کسی دوسری زبان میں بھی کسی عظیم وضخیم لغت کی شرح کی مثال نہیں ملتی اسی طرح مختلف علوم و فنون کی اصطلاحات پرسب سےزیادہ مستند اورمفصل کتاب ایک ہندی ہی عالم کے قلم ” کشاف اصطلاحات الفنون“کے نام سے نکلی ہے اورپوری علمی دنیا میں مقبول ہوئی اور اس کے مصنف قاضی محمد علی تھانوی بارھوی صدی کےعلماء میں ہوئے ہیں۔
عربی لغت و معاجم کے میدان میں اس خدمت کے ماسوا ہندوستانی علماء نے اور میدانوں میں بھی اپنی اپنی ذہانت قوت ایجاد و اختراع سے کام لیا، مولانا سید عبد الجلیل بلگرامی اور انکے نامور نواسے سید غلام علی آزاد بلگرامی نے فن بلاغت وبدیع اور فن عروض میں نئے اضافے کئے اور عربی شاعری میں ہندوستانی موزونیت طبع اور ہندی و فارسی شاعری کے پیوند لگا کر ذہن و ذوق میں نئی تحریک اور جمود و تقلید کی ساکن سطح میں نیا تیموج پیدا کیا، جسٹس کرامت حسین لکھنوی اور مولانا سید سلیمان اشرف بہاری نے فقہ اللسان اور المبین کے ذریعے عربی زبان کے فلسفہ لغت اور نحو و اشتقاق کے بہت سے اسرار کی نقب کشائی کی اور اپنی سلامت ذوق اور جودت طبع کے نادر نمونے پیش کئے“۔[4]
مولاناابوالحسن علی ندویؒ نےبارہویں صدی ہجری کےعلماء کاتذکرہ کیااورعربی ادب کے حوالےسےانکی خدمات کاتذکرہ کیاوہیں برصغیرمیں خودچودہویں صدی ہجری میں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ کا نام نامی سر فہرست ہے، انہوں نے عربی ادب پر نہ صرف بڑوں اور علماء کی علمی پیاس بجھانے کے لئے کام کیا وہیں انہوں نے عربی ادب پر بچوں کی ذہن سازی اور انکی درستگی اخلاق و عقل کیلئے بھی بہترین کام سر انجام دیا انکی کتاب قصص النبیین بچوں کے لئے عربی ادب پر ان کا بہترین شاہکار ہے جو بچوں میں مذہبی ذہن سازی اور درستگی اخلاق پر بہترین کتا ب ہے۔چنانچہ مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ اپنے بھتیجے کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
”میرے پیارے بھتیجے! میں تمہیں اور تمہارے ہم عمربچوں کو قصے کہانیوں کا دلدادہ پاتا ہوں تم بہت شوق سے سنتے اور انہیں پڑھتے ہو، لیکن مجھے ا س بات پر افسوس ہے کہ تم جو کہانیاں پڑھتے ہو وہ کتے، بلی، شیر، بھیڑیوں وغیرہ کے قصے ہوتے ہیں اور تمہاری عربی کی تعلیم شروع ہوچکی ہے جو قرآن اور رسول اللہ ﷺاور دین اسلام کی زبان ہے اسکی طرف تمہاری رغبت کم ہے، لیکن میں خود شرمندہ ہوجاتا ہوں کہ تمہاری عمر کے اعتبار سےحکایات و قصص کی صورت میں عربی ادب پر (درستگی اخلاق کے اعتبار سے) کوئی کتاب موجودنہیں سوائے حیوانات، جادوگروں اورخرافات کہانیوں کے، سو میں نے تمہارے اور تمہارے ہم عمر بچوں کیلئے انبیاء اور رسولوں کے قصے (بزبان عربی) آسان انداز میں تمہارے ذوق کے مطابق تحریر کئے ہیں اور یہ تمہارے لئے تحفہ ہیں۔“[5]
اس مذکورہ تحریر سے اندازہ لگایاجاسکتاہےکہ برصغیر میں علماء ہند نے باوجودعجمی ہونے کےعربی ادب پر اس طرح کام کیا کہ کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا اور یہ بات قابل تحسین ہے کہ علماء ہند نے عربی ادب کے حوالے سے مثبت اور تعمیری انداز میں کام کیا، یہ بھی واضح رہے کہ مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ نے نوجوانوں اور خصوصاً عربی مدارس میں پڑھنے والے نوجوان طلباء کیلئے علمی تشنگی بجھانے اور درستگی اخلاق کیلئے عربی ادب پر ”مختارات من ادب العربی“کے نام سے ایک کتاب لکھی جو کہ اسلوب کے اعتبار سے قدیم عربی ادب کے اسلو ب سے الگ ہے جس میں مفید اصلاحی ومعلوماتی حکایات کو جمع کیا ہے تا کہ عربی زبان و ادب میں مہارت تامہ حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمان بچوں اور نوجوانوں میں اخلاق حمیدہ بھی پیدا ہوں۔چنانچہ مولانا ندوی ؒ لکھتے ہیں:
(استاد علی الطنطا وی مختارات کے بارے میں لکھتے ہیں کہ) ہم ثانویات شرعیہ کے طلبہ کیلئے مختارات ادبیہ کی کتب کی تلاش میں تھے کہ عربی ادب پر ان طلبہ کو کونسی کتاب پڑھائی جائے، مجلس مشاورت کے تمام ارکان نے بحث و مباحثہ کے بعد مختارات ابی الحسن (مختارات من ادب العربی) کو تمام پڑھائی جانے والی مختارات میں بہترین کتاب اور فن کے اعتبار سے جامع اور بیان کے اعتبار سے متلون ہونے کی بناء پر طلبہ کو پڑھانے کیلئے داخل نصاب کر لیا۔[6]
مولاناابوالحسن علی ندویؒ نےنثرمیں عربی ادب پربچوں کیلئے ایک اورکتاب”القراءۃ الراشدہ“کےنام سےتحریرفرمائی ہے، اس کامقصدبھی یہ ہےکہ بچوں کوادب عربی سے روشناس کرانےکےساتھ ساتھ اخلاق حمیدہ کا خوگر بنایا جائے اور اپنی اس کتاب کو ایسے اسلوب پر رکھاجس کوحاصل کرنےمیں بچوں کو دشواری اور اکتاہٹ نہ ہو، جب قصص النبیین لکھ لی تو انہوں نے خیال کیا کہ یہ سلسلہ نہ رکے تو انہوں نے القراء ۃ الراشدہ تحریر کی چنانچہ فرماتے ہیں کہ:
”مؤلف کی رائے میں یہ طے ہوا کہ قراء ۃ الراشدہ کایہ سلسلہ مسدود نہ ہو جو کہ عربی سے
روشناس کرانے کو شامل ہے اور ادب کو اس قسم کے اسلوب پرلکھا کہ تدریجاً اسکو بڑھایا جائے، ہندی مسلمانوں کے ذوق کے مطابق آسان اسلوب اختیار کیا گیا اور اسکو اجزاََء تحریر کیا اور اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ:
1: ادبی دینی لغت ہوجس میں کتاب وسنت کےادب کی خوبصورتی جھلکتی ہو۔
2: جدیدکلمات کااستعمال جس کااصل مادہ اوراشتقاق عربی میں ہواورعجمی زبان کےالفاظ اس میں داخل نہ ہوں۔
3: عربی مفردات کی تکرارکی ہےتاکہ طالبعلم کی مشق ہوجائے۔
4: انواع واقسام کےموضوعات رکھےتاکہ طالبعلم کودرس کےساتھ علمی فائدہ ہواورنئی معلومات اور تاریخی واقعات وحکایات سےواقفیت حاصل ہو۔
5: حدیث میں وارد ہونے والی حکایات کو آسان لغت میں حکایات کہانی کی طرزپر لکھا گیا ہے تاکہ بچوں کو سمجھنا آسان ہو۔
6: مہذب اوراخلاقی اسباق لکھےہیں تاکہ زندگی کےمختلف مراحل یاشعبوں میں آداب اسلامی سےواقفیت حاصل ہو۔
7: اورایسےاسباق بھی شامل کئےگئےہیں جوادعیہ ماثورہ اوردینی آداب پرمشتمل ہیں۔
8: اوراس کتاب میں دینی اسباق کےساتھ ساتھ معلوماتی اسباق مثلاًنباتات، طبیعیات، حیوانیات اور جدید ایجادات پر مشتمل اسباق شامل ہیں“۔[7]
برصغیرمیں عربی ادب کے حوالےسےجس نےتعمیری، فکری اورمثبت اندازمیں کام کیاان میں شیخ الادب مولانااعزازعلیؒ کانام بھی شامل ہے، جس نےعربی ادب پرنفحۃ العرب کےنام سے کتاب لکھی، جس میں سبق آموز حکایات وقصص اور آیات و احادیث کاتذکرہ آسان اسلوب و
لغت عربی میں دلنشین انداز میں کیا ہے۔چنانچہ مولانا اعزاز علی صاحب ؒ فرماتے ہیں:
”میں نے (نفحۃ العرب میں) متقدمین کی کتب سے نوادرات جمع کئے ہیں اور میں نے ارادہ کیا کہ میں اسکو طالب علموں کے سامنے پیش کروں اور میرا ان اوراق اورحکایات لکھنے کا مقصد تحصیل اخلاق حمیدہ و فضائل ہے اسلئے کہ بچوں کے دل خالی لوح کی طرح ہوتے ہیں ان پر جو بھی نقش کر دیا جائے نقش ہوجاتا ہے۔“[8]
برصغیر میں مسلمانوں کو عربی دانی سکھانے کیلئے علماء ہند نے مختلف کتابیں بھی تحریر کی ہیں، اس سلسلے میں آج کے دور میں درس نظامی میں پڑھائی جانے والی کتاب ”الطریقہ العصریۃ“ قابل ذکر ہے جو کہ مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر صاحب کی تحریر کردہ ہے۔چنانچہ وہ پاکستان میں طریقہ تعلیم عربی اور اپنی کتاب الطریقہ العصریۃ کی وجہ تصنیف کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
”پاکستان میں عربی زبان کو عربی میں پڑھانے کا جامع پروگرام ہمارے استاد ڈاکٹر امین مصری ؒ نے 1954ء میں دارالعلوم کراچی کے تعاون سے بنایاانہوں نے کراچی کے مختلف علاقوں میں بیس سے زائد عربی کی شبینہ کلاس کھولیں اور استاد موصوف کا طریقہ کار یہ تھا کہ شبینہ کلاس کیلئے درس تیار کرتے اور اساتذہ کے سامنے عملی طور پر اساتذہ کے سامنے پڑھاتے اور اساتذہ کو مشق کرواتے، انہی اسباق کا مجموعہ آخر میں (الطریقہ الجدیدۃ) کے نام سے طبع ہوکر سامنے آیا۔مجھے ابتداء ہی سے اس کتاب کو پڑھانے کا موقع ملا اور مسلسل کئی برس تک پڑھاتا رہا۔پاکستانی طلبہ کو پڑھانے کے دوران بہت سے نئے تجربات ہوئے اور مفید چیزیں سامنے آئیں جن کو میں نوٹ کرتا رہا اور انکی روشنی میں (الطریقۃ الجدیدۃ) کی طرز پر ایک نیامجموعۃ درس مرتب کرتاگیا، یہاں تک کہ میرے پاس ان اسباق کا ایک مجموعہ تیار ہوگیااور طلبہ کی سہولت کیلئے 1926ء میں اسٹینسل و پیپر سے چھاپ دیا اور اس طرح (الطریقۃ العصر بۃ) کے نام سے ایک کتاب سامنے آگئی“۔[9]
اسی طرح عربی زبان کےقواعدآسان طریقےپرعربی سےاردواوراردوسےعربی جملوں میں استعمال اوراسکےسکھانےکیلئےمولاناعبدالستارخاں نےعربی کامعلم کےنام سے6حصوں پرمشتمل کتاب تحریر کی۔چنانچہ وہ اپنی کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
”ہندوستان کےہرصوبےکےعلمائےکرام اورمعتمدجرائدورسائل اورشیدایان عربی نےاس کتاب کی نسبت جو خیالات ظاہر فرمائے ہیں ان کا خلاصہ یہی ہے کہ تسہیل عربی کیلئے جس قدر کوششیں کی گئیں ہیں ان سب میں یہ کوشش زیادہ کامیاب ہے یہ کتاب اس قابل ہے کہ اسے سرکاری وغیرسرکاری مدارس میں داخل نصاب کردیاجائے تاکہ عربی کی تعلیم زیادہ آسان ہو جائے۔“[10]
مذکورہ بالادوحوالوں سےیہ بات باآسانی سمجھ آسکتی ہےکہ علماء برصغیرنےعلوم عربیہ لغات وادب اورعربی زبان کےقواعدکی ترویج واشاعت اوراس کوسیکھنےسیکھانے، پڑھنےپڑھانے کیلئےکس طرح اپنی خدمات انجام دی ہیں اور پڑھنےپڑھانےکےساتھ عربی ادب ولغات اورعربی قواعد پر گراں قدر کتابیں بھی تصنیف کی ہیں۔عبد الرحمن طاہر سورتی لکھتے ہیں:
”اسی طرح ہندوپاکستان کے بہت سے علماء جنہوں نے ان ملکوں میں علوم عربیہ کی بیش بہا خدمات انجام دیں اس قابل ہیں کہ ان کا تذکرہ عربی ادب میں جگہ پائے سر دست میں اپنے والد مرحوم کےمختصرسےتذکرےکےساتھ اس کتاب کوختم کررہاہوں، ابوعبداللہ محمدبن یوسف سورتی 1307ھ میں ضلع سوات کےایک گاؤں سامرودمیں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہوئی، 7برس کی عمر میں قرآن مجیدختم کیاپھرفارسی اورعربی سیکھی۔علوم عربیہ ودینیہ بالخصوص لغت سینکڑوں نادرعربی قصائد ہزاروں عربی اشعار اور لغات و انساب نوک زبان تھے“۔[11]
اسی طرح جامع ترین عربی اور اردولغت پربرصغیرہندمیں جنہوں نےکام کیاان میں مولانا
وحیدرالزماں قاسمی کیرانوی (استاذو حدیث و عربی ادب دارلعلوم دیوبند) بھی مشہور و معروف ہیں انہوں نے عر بی اردو لغت پر جامع ترین لغت بنام القاموس الوحید تحریر کی ہے جو کہ کم و بیش ایک لاکھ قدیم اور جدید عربی الفاظ کا عظیم ترین ذخیرہ ہے، جدید الفاظ، اصطلاحات، محاورات ضرب الامثال، مترادفات اور زندہ اسا لیب کا ایک خزانہ جس سے کوئی درسگاہ، کتب خانہ، استاد یا طالب علم مستغنی نہیں ہوسکتا، چنانچہ مولانا عمید الزمان قاسمی جوکہ مولانا وحید الزمان قاسمی کیرانوی کے برادر حقیقی ہیں وہ مولانا کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
”برادر مرحوم مولانا وحید الزماں کیرانوی ضلع مظفر نگر یوپی کے معروف و مشہور قصبے ”کیرانہ“میں پیدا ہوئے۔قدرت نے عربی زبان کی تعلیم و تدریس کا انہیں خاص ملکہ عطا فرمایا تھا۔دارالعلوم اور دیوبندکے روایتی ماحول میں عربی زبان و ادب سے دلچسپی پیدا کرنا اور عربی زبان پر تقریر و تحریر پر قدرت رکھنے والی ایک نسل تیار کر دینا مولانا مرحوم کا ایک ایسا کارنامہ ہے، جس نے ان کو ایک منفرد شناخت عطاء کی ہے چناچہ مولاناسید فخر الدین ؒ شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند نے ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: ”دارالعلوم کے دامن پر عربی سے ناواقفیت کا جو داغ تھا وہ آپ نے اپنی محنت اور جدوجہد سے دھو دیا ہے“۔دارالعلوم میں ان کی تدریس کا دور تقریباً تیس سالوں پر محیط ہے اس دوران کتب حدیث میں طحاوی شریف اور نسائی شریف جیسی کتابیں ان کے زیرتدریس رہیں، لیکن عربی زبان و ادب کی تعلیم و تدریس سے ان کا تعلق زیادہ رہا اسی عرصے میں القاموس الجدید اردو، عربی کے بعدالقاموس الجدید عربی اردو منظر عام پر آئی اور القراۃ الواضحۃ کے ہرسہ اجزاء شائع ہوئے، جو دارالعلوم دیوبند کے علاوہ بر صغیر ہند و پاک کے بے شمار دینی مدارس، متعدد سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں میں باقاعدہ داخل نصاب ہیں“۔[12]
مولاناوحیدالزماں قاسمی کیرانویؒ کاایک گراں قدرکارنامہ یہ ہےکہ انہوں نےجدید
عربی الفاظ اوراردوالفاظ کےہم معنی مفہوم کوجدیدعربی میں منتقل کئے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ:
”ہندوستان میں عربی زبان سےدلچسپی رکھنے والے حلقوں میں عرصے سے ایک ایسے معجم کی ضرورت شدت کےساتھ محسوس کی جارہی تھی جس میں اردو الفاظ کا مفہوم موجودہ عربی، زبان میں منتقل کیاجائےجس سےاردو داں بالخصوص طلبہ مدارس کیلئے نہ صرف عربی زبان دانی سہل ہوجائے بلکہ انہیں موجودہ عربی کے ضروری الفاظ، اصطلاحات اور تعبیرات سے اس حد تک واقفیت ہوجائے کہ انہیں ترجمہ و انشاء اور اپنے مافی الضمیر کی ادائیگی میں کوئی دشواری پیش نہ آئے“۔[13]
نیزعلماء برصغیر پاک و ہندنےعربی زبان میں لغات القرآن وقوامیس اورمعاجم و کتب احادیث و کتب فقہ پر بھی بے شمار کتابیں لکھ کر دینی گراںقدر خدمات انجام دی ہیں جو کہ عربی ادب پر بہترین شاہکار ہیں۔چنانچہ لغات القرآن پر قاضی زین العابدین سجاد (میرٹھ) کی قاموس القرآن مشہور و معروف ہے جس میں تمام الفاظ قرآنی کا صحیح اردو ترجمہ اور ان کی مکمل صرفی و نحوی تشریح نیز جملہ وضاحت طلب الفاظ پر سھل زبان میں مختصر جامع اور مستند نوٹ لکھے ہیں۔چنانچہ قاضی صاحب قا موس القرآن کی وجہ تالیف تحریر فرماتے ہیں:
”اردو زبان میں جب تصنیف و ترجمہ کا دور شروع ہوا اور حضرت شاہ عبد القادر محدث دہلوی ؒ نے اردوئے معّٰلی کے آئینہ خانے میں قرآن کریم کے معانی و مطالب کے لعل و جواہر سجائے اور اپنا پہلا بامحاورہ اردو ترجمہ قرآن کریم مرتب کیا تو لغات قرآن کے موضوع پر بھی ایک مختصر کتاب ترتیب دی، کتاب بہت مختصر تھی جس میں الفاظ کے معانی اور ان کی مختصر لفظی تشریح درج کی گئی تھی۔شاہ صاحب کے اس بنیادی کام پر بعض دوسرے اہل علم نے اضافے بھی کئے اور کئی کتابیں طبع ہوکر بازار میں آئیں مگر الفاظ قرآنی کی صرفی و نحوی تشریح سے ان کا قلم آگے نہ بڑھ سکا۔میں ایک ایسی لغات القرآن کی ضرورت محسوس کر رہا تھا، جس میں مہمات قرآن کریم کی تشریحات، تھکا دینے والے طویل اور خشک مضامین کی صورت میں نہ ہوں، بلکہ اختصارو جامعیت کے ساتھ سادہ و شیریں زبان میں ضرورت کی ہر بات بیان کردی جائے“۔[14]
اسی طرح لغات القرآن پرایک اورکتاب جس کوسندھ کےمشہورعالم عارف باللہ مولاناحماداللہ ھالیجویؒ نےتالیف کیاہےاسک ا نام لغات القرآن المسمٰی بہٖ الیاقوت و المرجان ہے، عربی زبان میں ہے جو کہ حروف تہجی کے اعتبار سے مشکل الفاظ قرآن کے معانی و مفاہم درج ہیں عاف باللہ حضرت مولانا حماد اللہ ھالیجوی ؒ محقق بلند پایہ عالم دین ماہر علوم عربیہ اور صوفی بزرگ تھے، چنانچہ اس کتاب کے مقدمہ میں حضرت مولانا یوسف بنوری ؒ تحریر فرماتے ہیں:
”قرآن مجید کو سمجھنے کیلئے قرآن کی لغت کو سمجھنا بنیادی نقطہ ہے، فہم قرآن کیلئے سب سے اول مرحلہ یہی ہے پھر اسکی تاویل و تفسیر کو سمجھنا، صرفی، نحوی تحقیق کی سمجھ حاصل کرنے اور علوم بلا غت اور ادبی حقائق کو سمجھنے کا مرحلہ بعد میں آتا ہے اس وجہ سے علمائے اسلام اور ائمہ لغت عربیہ نے قرآنی لغات اور اسکے عجائبات کی تشریح اور مشکلا ت کی وضاحت اور اسکو حل کرنے کی طرف خصوصی توجہ دی ہے۔“[15]
مذکورہ بالا حوالوں سے اتنا تو معلوم ہوچکا ہے کہ بر صغیر میں اسلام کی آمد کے بعد ہی سے عربی زبان کی تشریح و اشاعت کا کام شروع ہو چکا تھا اور اسلامی احکامات کو سمجھنے کے لئے عربی زبان سیکھی جانے لگی اور مندرجہ بالا سطور میں گزر چکاہے کہ اسلامی احکامات سیکھنے اور اسکی نشرواشاعت کے ساتھ ساتھ عربی زبان (جوکہ شریعت اسلامیہ کا بنیادی ماخذ ہے کی ترویج اور اسکی نشرواشاعت لغات، قوامیس، معاجم کتب تفاسیر و احادیث وفقہ کی صورت میں کی جانے لگی اور اس سلیقے، محنت و لگن اور بہترین طریقے پر یہ کام کیا کہ علماء عرب کی گردنیں جھکا دیں اور اپنی علمیت اور مہارت فی العلوم العربیہ کا لوہا منوایا جسکے شواہد سپردقرطاس کئے جا چکے ہیں۔
اصول تفسیرپر بھی عربی زبان میں برصغیر کے بہت سے علماء نے کتابیں لکھی ہیں ان میں سے ایک دو کتابوں کا تذکرہ کریں گے۔اصول تفسیر پر ایک کتاب حضرت علامہ مولانا محمد یوسف بنوری ؒ نے عربی زبان میں بنام یتیمتہ البیان فی شئی من علوم القرآن تحریر کی ہے، جسکو مولانا حبیب اللہ مختار شہید ؒ نے قیمتی موتی اور عظیم خزانے سے تعبیر کیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
”اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں توفیق عطاء فرمائی کہ ہم اس قیمتی موتی اور عظیم خزانے کو علماء طلبہ کے سامنے پیش کریں جوکہ یتیمتہ البیان فی شئی من علوم القرآن کے نام سے موسوم ہے۔“[16]
برصغیرپاک وہندکےعجمی علماءنےاپنی عربیت کاعرب سےلوہامنوایااورانہوں نےعربیت اورجلالت علمیت سےعرب علماء کےسرجھکادیئےاوربالآخرانہوں نےان عجمی علماء کی علمیت کےسامنےسرتسلیم خم ۔برصغیر کےعلماء نے نہ صرف عربی زبان میں کتب تحریر کی بلکہ بہت سی فارسی اور اردو کی کتابوں کو عربی زبان میں اس شائستگی سے منتقل کیا گویا کہ وہ کتاب کسی عرب نے لکھی ہو، الفوز الکبیرفی اصول التفسیر حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کی فارسی زبا ن میں لکھی ہوئی کتاب ہے جسکو شستہ اور فصیح عربی زبان میں دارالعلوم دیوبند کے استاذ الحدیث مولانا سعید احمدپالن پوری مدظلہ نے منتقل کیا ہے۔چنانچہ اس کتاب کو عربی میں لکھنے کی وجہ تحریر کرتے ہیں:
”اس کتاب سے قبل عربی زبان میں اس کو منتقل کیا گیا تھا لیکن ان تراجم میں تسامح اور عربی عبارات میں فارسی عبارات کے مقابلے میں تبدیلی آگئی تھی تو میں نے اس عبارت کے خلل اور تعبیر کی غلطی اور تسامح کو دور کرنے کی وجہ سے اسکا ترجمہ کیا اور تشریح میں ان تسامحات کی وضاحت بھی کی اور (عربی ترجمہ) میں فارسی عبارت کو تبدیل نہیں کیا گیا“[17]۔
برصغیرکےعلماء میں سےایک عالم جنہوں نےاحادیث پرعربی زبان میں ایک مجموعہ تیارکیاجس کانام آثارالسنن ہے، سےان کی علوم عربیت میں مہارت نظرآتی ہے۔چنانچہ اس کتاب
کے بارے میں لکھتے ہیں:
”نوی صدی ہجری کے بعد جب بلادعربی میں علوم حدیث کے ساتھ شغف میں ضعف ظاہر ہونے لگاتو غیر منقسم ہندوستان کے علماء نے علم حدیث کی طرف خصوصیت اور اہتمام کے ساتھ توجہ کی اور علوم حدیث میں جلیل القدر کتابیں تالیف کیں، جن کی افادیت اور علوم نبوت کی روشنی ہمیشہ زمانہ کی جبین پر باقی رہے گی، پھر ان میں سے ایک جماعت نے امہات کتب حدیث و سنت کے احادیث صحیح کے ذوق حدیث اور اسکی فقہ بالخصوص مذہب حنفی کے ساتھ تطبیق میں امتیاز حاصل کیا انہی علماء میں سے ایک عظیم بزرگ شیخ ظہیر احسن نیموی بہاری ؒ ہیں۔انہوں نے کتاب العمدۃ للمقدسی، المنتقی لابن تیمیہ بلوغ المرام للحافظ ابن حجر اور انکی طرح اور کتب مؤلفہ دربارہ احکام کے طرز کی کتاب تالیف کی جس میں امام اعظمؒ کے مذہب کے مطابق صحیح روایات کا اہتمام کیا گیا اور اسکا نام ”آثار السنن“ رکھا“۔[18]
اسی طرح عربی زبان میں مولانایوسف بنوریؒ نےسنن ترمذی کی شرح بنام معارف السنن لکھی ہےجس کےبارےمیں مولانا حبیب اللہ مختار شہیدؒ مقدمہ میں لکھتے ہیں:
”یہ کتاب جامع ترمذی کی عظیم شرح ہے (اس کتاب کی تالیف کے ذریعے) سنت نبویہ اور حدیث شریف اور مذہب حنفیہ اور دین کی (عظیم) خدمت کی گئی ہے اور اس کتاب میں اپنے استاد علامہ انور شاہ کشمیری ؒ کے لطیف مباحث اور دقیق معلومات کو جمع کیا اور اس کتاب کے ذریعے امت محمد یہ صلی اللہ علیہ وسلم اور طلبہ علوم نبویہ اور اساتذہ علم حدیث کو نفع عظیم پہنچایا ہے “[19]۔
اسی طرح فقہ میں بھی عربی زبان میں کتب تحریرکی ہیں جن میں فقہ کی کتاب”الفقہ المیسر“' کا ذکر کریں گے جس کو عربی زبان میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے مدّرس مولانا شفیق الرحمن الندویؒ نے اسلامی احکامات کو فقہی انداز میں چھوٹے بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق تحریر کیا
ہے۔چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
”اس مختصر کتاب میں احکام فقہ مثلاً ابواب الطھارۃ والصلوٰۃ و الصوم والزکوٰۃ والحج والاضحیۃ کو امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کے مسلک کے مطابق جمع کیا ہے، دراصل یہ کتاب شیخ حسن بن عمار الشرنبلالی مصری حنفی کی کتاب ”نور الایضاح“کی طرز پر ہے اور مسائل اسی میں سے اکٹھے کئے گئے ہیں اور دیگر کتب فقہ سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔لیکن یہ کتاب ابتدائی عربی پڑھنے والے چھوٹے بچوں کے ذہن کے مطابق آسان اسلوب میں تحریر کی ہے تاکہ ذہن کسی تشویش میں مبتلا نہ ہو اور اسکوآسانی سے سمجھ سکیں “۔[20]
اسی طرح برصغیرپاک وہندکےعلماء نےفلکیات، منطق، اورعلم العروض والقوافی پربھی عربی زبان میں کتب تحریر فرمائی ہیں جو کہ عربی ادب پر ایک شاہکار ہیں۔چنانچہ علم فلکیات کے موضوع پرعربی زبان میں حضرت مولانا محمد موسیٰ روحانی بازی رحمتہ اللہ نے تحریر فرمائی ہے جو الھئیۃ الوسطٰی کے نام سے موسوم ہے پھر اس کے بعد عربی زبان میں ہی الھئیۃ الکبریٰ تحریر فرمائی ہے، چنانچہ مولانا محمد موسیٰ ؒ روحانی بازی لکھتے ہیں کہ:
”یہ کتاب حجم کے اعتبار سے چھوٹی ہے لیکن علم فلکیات، کہکشاؤں اور ان کے مدار کے بیان میں بڑی (عظیم الشان) کتاب ہے جس کو اکابر علماء و فضلاء کی درخواست پر تحریر کیا گیا ہے۔اور یہ کتاب اس علم کی طرف رغبت کرنے والوں کے سینوں کو کھولنے کا آلہ اور چراغ ہے“[21]۔
ساتھ ساتھ یہ بھی تذکرہ کرتےچلیں کہ مولانامحمدموسی روحانی البازیؒ جن کی کتاب کاتذکرہ مذکورہ بالاسطورمیں ہواان کوعلوم عربیہ ولغت عربی میں خصوصی مہارت حاصل تھی ان کو علوم عقلیہ و نقلیہ، علم حدیث و التفسیر اور علم فقہ، علم اصول تفسیر و علم اصول حدیث، اصول فقہ، علم عقائد وادب سمیت مختلف علوم، علم لغت عربی و علم الادب العربی جو کہ 12علوم و فنون پرمشتمل
ہے کمال کی دسترس حاصل تھی۔مولانا محمد موسیٰ روحانی بازی خود تحریر فرماتے ہیں کہ:
”اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و احسان میں سے ایک احسان یہ بھی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس عاجز کو علوم نقلیہ و عقلیہ میں تبحروّدسترس عطا فرمائی ہے۔مثلاً: علم الحدیث و علم التفسیر، علم فقہ و اصول فقہ و اصول التفسیر و اصول الحدیث، علم العقائد والتاریخ اور مختلف علوم مثلاً علم لغت عربی و ادب و علم الصرف، علم اشتقاق، علم النحو، علم المعانی و بیان و علم بدیع و (علم قرض) شعر. . . . . . الخ“[22]
اسی طرح پروفیسر علی محسن صدیقی جنہوں نے عربی قصیدہ یعنی قصیدہ بردہ کااردو ترجمہ اور اسکی تشریح کی ہے اور بہتر انداز میں اسکے مطالب کو لغوی، صرفی و نحوی تحقیق کے ساتھ مختصر مطلب کے ساتھ سمجھایا گیا چونکہ عربی قصیدہ پر وہ مشہور و معروف ہے اسلئے انکے متعدد تراجم کئے گئے ہیں جن میں سے ایک ترجمہ بردۃ المدیح کے نا م سے پروفیسر علی محسن صدیقی کا لکھا ہے۔چنانچہ پروفیسر صاحب قصیدہ بردہ کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:
”مسلمانوں کو حضرت محمد مصطفی ﷺکی ذات اقدس کے ساتھ جو وابستگی ہے، اسکے نتیجے میں ان کے شعری ادب میں نعتِ رسول ﷺکا معتدبہٖ اور گراں قدر ذخیرہ جمع ہوگیا ہے۔قریب قریب ہر اسلامی زبان کے شعری مجموعے کا ایک بڑا مجموعہ نعتیہ کلام پر مشتمل ہے۔عربی زبان جو اسلامی خیالات کا سر چشمہ اور قرآن مجید کی زبان ہونے کے باعث ایک مقدس زبان ہے نعتیہ اشعار کا ایک ایسا بحر ذخاّراپنے جلومیں رکھتی ہے۔جس کی زبان کے آگے دوسری زبانوں کے نعتیہ کلام کیفیت و کمیت کے لحاظ سے جوئے کم آب سے زیادہ نہیں۔آغاز اسلام سے تاحال عربی شعراء نعت رسول اکرم ﷺکے ُدرّہائے شہوار سے اس زبان کے دامن کو مالا مال کرتے رہے ہیں۔عربی نعت گو شعراء میں حضرت حسان بن ثابت ؓ کے بعد جس شاعر کے کلام کو سب سے زیادہ شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بار ملاوہ امام محمدبن سعید بوصیری ہیں۔بوصیری نے متعدد نعتیہ قصائد لکھے۔ ان کے مجموعہ اشعار کا عنصر غالب یہی صنف سخن ہے، مگر جس قصیدے نے انہیں روشناس خاص و عام کیا وہ ان کا مشہور قصیدہ بردہ ہے“ ۔[23]
اسی طرح علم منطق پر نہایت آسان اسلوب اور عربی لغت و ادب کے پہلو کو مدِ نظر رکھتے ہوئے علم منطق پر مولانا انوربدخشانی نے تسھیل المنطق کے نام سے کتاب لکھی ہے جس میں علم منطق کی افادیت و اہمیت کو دلنشین انداز میں بیان کیا گیا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں کہ:
”خلاصہ کلام یہ ہے کہ علم عقیدہ اور علم اصول فقہ یہ دونوں بنیادی علوم ہیں، علم منطق کی اصطلاحات اور اسکے قواعد کی رعایت کئے بغیر ان دونوں علوم کی کتب کی تعلیم اور اس سے استفادہ ممکن نہیں ہے۔علم منطق سےمحروم شخص ان دونوں علوم سے محروم رہتا ہے، مجھے1407ھ میں علم منطق کی تدریس کی ذ مہ داری مختلف بیرونی ممالک سے جامعہ علوم اسلامیہ میں آئے طلبہ کو پڑھانے کی سونپی گئی جو پاکستان میں رائج زبان اردو سے نا واقف تھےاوران کوعربی زبان میں دی جاتی تھی، چنانچہ میں نےارادہ کیاکی میں ان کیلئےعربی زبان میں منطق پرکتابچہ تحریرکروں“۔[24]
یہ بات بھی واضح رہےکہ برصغیرپاک وہندکےعلماء نے عربی انشاء پربھی گراں قدر نمایاں خدمات انجام دیئےہیں، اسی سلسلےکی ایک کڑی معلم الانشاء ہےجس میں صرفی ونحوی ضروری قواعدکےساتھ اردوسےعربی، عربی سےاردوجملوں اورمضامین ومقالہ جات عربی زبان میں تحریر کرنے اور عربی تحریر میں پختگی و شائستگی پیدا کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے، چنانچہ مولانا ابو لحسن علی ندوی ہے تحریر فرماتے ہیں کہ:
”انشاء تمام زبانوں کا ایک اہم مضمون ہے۔موجودہ جمہوری دور اور صحافتی و مجلسی زندگی نے اسکی اہمیت کو اور روشن کر دیا ہے، دعوت تبلیغ کے تقاضوں، ملکوں اور قوموں کے ارتباط و تعلق نے اسکو نہ صرف اجتماعی و ادبی بلکہ دینی اہمیت بھی بخش دی ہے۔ان حقائق و واقعات نے انشاء کے ایک ایسے سلسلے کی ترتیب کی طرف متوجہ کیا جو عربی مدارس کے اساتذہ کی پوری راہ نمائی کر سکے اور عربی مدارس میں تعلیم و انشاء کا نصاب بن سکے ۔اسی طرح وہ بچوں کے ضروری قواعد کو عملی مشق و تمرین اور اجراء کا ذریعہ بن سکے، وہ انشاء اور تحریر کے جدید ترین اصولوں اور تجربوں مطابق ہونے کے ساتھ اسلامی و دینی روح کا حامل ہو“[25]۔
مذکورہ بالا تحریر اور حوالہ جات سے ثابت ہوگیا کہ برصغیر میں علوم عربیہ پر تحقیق اور اسکی خدمت محض زبان دانی کیلئے یا کسی دنیاوی مقاصد یا مراعات کے حصول کیلئے نہیں ہے بلکہ دین و شریعت کے بنیادی مآخذ عربی زبان میں ہونے کی وجہ سے علماء بر صغیر نے اپنی گراںقدر نمایاں خدمات پیش کیں اور عربی ادب پرکتب محض عربی زبان پر عبور اور اسمیں مہارت تامہ کے حصول کیلئے نہیں لکھی گئیں (اگرچہ مقصد یہ بھی ہے) بلکہ اسکے ساتھ ساتھ مسلمان نوجوانوں اور بچوں میں دینی و اخلاقی شائستگی اور معلومات اور اسلامی احکامات سیکھنے اور ان کی واقیت کا پہلو بھی ہمیشہ مد نظر کھا۔یہی وہ پہلو ہے جس نے علماء بر صغیر کو عالم اسلامی میں ایک نمایاں تشخص حاصل ہوا اور علماءعرب نے انکی خدمات کو قابل تحسین سمجھا اور انکی علوم عربیہ میں مہارت کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا اور انکی تصنیف کردہ کتب کو اپنی درسگاہوں میں داخل نصاب بھی کر دیا۔
حوالہ جات
- ↑ اساتذہ مدرسہ عائشہ صدیقہ البنات، لسان القرآن، مدرسہ عائشہ صدیقہ للبنات، کراچی، 2000ء، ج1، ص5
- ↑ زیات، استاد احمد حسن، مترجم عبد الرحمن طاہر سورتی، تاریخ ادب عربی، غلام علی بھٹی پرنٹر، لاہور، ص21-22
- ↑ بحوالہ بالا، لسان القرآن، ج1، ص4
- ↑ ندوی، ڈاکٹر عبد الحلیم، تاریخ ادب عربی، ترقی اردو بورڈ، دہلی، 1979ء، ص13
- ↑ ندوی، مولانا ابوالحسن علی، قصص النبیّن، مجلس نشریات اسلام، کراچی، 2008ء، الجزء الاوّل، ص 100
- ↑ ندوی، مولانا ابوالحسن علی، مختارات من ادب العربی، دار ابن کثیر، بیروت، 1383ھ، ص 5
- ↑ الندوی، ابوالحسن علی الحسینی، القراء ۃ الراشدہ، مجلس نشریات اسلام، کراچی، 2016ء، ص11-12
- ↑ مولانا اعزا ز علی، نفحۃ العرب، المصباح، لاہور، س ن، ص 7
- ↑ اسکندر، مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق، مقدمہئ الطریقہ العصریۃ، مکتبہ رحمانیہ، لاہور، الطبعۃ التاسع، 1996ء، ص4-5
- ↑ مولانا عبد الستار خان، عربی کا معلم، قدیمی کتب خانہ آرام باغ، کراچی، س ن، ج1، ص6
- ↑ بحوالہ بالا، زیات، استاد احمد حسن، مترجم بالا ردو یہ عبد الرحمن طاہر سورتی، تاریخ ادب عربی، ص607-608
- ↑ قاسمی، مولانا وحیدالزمان، القاموس الوحید، دارالاشاعت، لاہور، 2001ء، ، ص81، 84، 87
- ↑ کیرانوی قاسمی، مولانا وحیدالزماں، القاموس جدید، ادارہ اسلامیہ، لاہور، 1990ء، ، ص7
- ↑ میرٹھی، قاضی زین العابدین سجاد، قاموس القرآن، دارالاشاعت، کراچی، 1994ء، ص 10-11
- ↑ ھالیجوی، مولاناحماداللہ، لغات القرآن المسمی بہٖ الیاقوت والمرجان، مجلس تعاون اسلامی، پاکستان، 2001ء، ص5
- ↑ بنوری، مولانامحمد یوسف، (مقدمہ) مولاناحبیب اللہ، یتیمۃ البیان فی شئی من علوم القرآن، جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن، کراچی، 1418ھ، ص5
- ↑ دہلوی، شاہ ولی اللہ، الفوز الکبیر فی اصول التفسیر، تعریب و تعلیق، مولانا سعید احمد پالن پوری، المصباح، لاہور، ص9
- ↑ حقانی، مولاناعبدالقیوم، توضیح السنن شرح آثار السنن، القاسم اکیڈمی، سرحد2007ء، ص66
- ↑ بنوری، مولانامحمد یوسف، معارف السنن، مجلس دعوۃ التحقیق الاسلامی، علامہ بنوری ٹاؤن، کراچی، ج1، ص 49
- ↑ الندوی، مولانا شفیق الرحمن، الفقہ المیسّر، مجلس نشریات اسلام، کراچی، 1996ء، ص7
- ↑ بازی، مولانا محمد موسی روحانی، الھیۃ الوسطٰی، مکتبۃ الحرمین، لاہور، س ن، ص1
- ↑ بازی، مولانا محمد موسی روحانی، البرکات المکیۃ فی الصلوٰت النبویہ، ستارہ کیمیکل انڈسٹریز، فیصل آباد، س ن، ص11
- ↑ صدیقی، پروفیسرعلی محسن، بردۃ المدیح، طاہرسنز، کراچی، 2012ء، ص5-6
- ↑ بدخشانی، مولانامحمدانور، تسھیل المنطق، بیت العلم، کراچی، س ن، ص1-3
- ↑ ندوی، مولاناعبدالماجد، معلم الانشاء حصہ دوم، مجلس نشریات اسلامیہ، کراچی، 2015ء، ص15-16
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 2 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2018 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |