Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 3 Issue 1 of Rahat-ul-Quloob

بچوں کے عمرانی مسائل: اسلامی تعلیمات اور بین الاقوامی قوانین کے تناظر میں ایک جائزہ |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

نبی اکرم کی بعث سے قبل دنیا میں انسانی حقوق کی صورتحال انتہائی گھمبیر تھی ۔ریاستوں میں بادشاہت کے لا محدود اختیارات تھے جب کہ رعایا کی حیثیت غلاموں سے زیادہ نہ تھی ۔حقوق و فرائض کی کوئی تقسیم نہ تھی بلکہ عرب کی حقوق انسانی کے معاملے میں حالت باقی دنیا کی نسبت زیادہ بھیانک تھی جہاں غلاموں کے حقوق نہ تھے ،عورتوں کی تذلیل کی جاتی تھی ،بچیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا ایسے وقت میں نبی اکرم نے انسانیت کو ظلم و زیادتی کی دلدل سے نکال کر رشد و ہدایت کے راستے پر ڈالا، جہاں انسانی حقوق کا احترام نظر آتا ہے ۔ انسانیت کی اہمیت کے درس دیتے ہوئے عرب معاشرے کو ایسے مقام پر لا کھڑا کیا جہاں باقی دنیا آپ کے تیار کردہ افراد کی تربیت کو داد دیے بغیر نہ رہ سکی بلکہ آپ نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے انسانی حقوق کی ادائیگی کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں ۔ایک غلام کو اپنا بیٹا بنا لیا ،ایک حبشی غلام کو کعبہ کی چھت پر کھڑا کر کے اذان الہی دلوائی جس کو مکہ کے لوگ اپنے پاس بیٹھانہ پسند نہیں کرتے تھے اور ایسا مقام عطا کیا کہ سب ان کو سیدنا بلالؓ کہہ کر پکارنے لگے۔وہی عورتیں جن کی معاشرے میں عزت نہ تھی ان کے مقام کا عالم یہ ہو گیا کہ لوگ ماں کی خدمت کو حج اور جہاد کرنے پر ترجیح دینے لگے۔انہی انسانی حقوق کا پرچار نبی اکرم اپنی زندگی میں مختلف مقامات اور اوقات میں قولی اور عملی شکل میں بیان کرتے رہتے ۔انہی میں سے کچھ کا تعلق بچوں کے ساتھ بھی ہے ۔وقت کے ساتھ ساتھ بچوں کے متعلق کچھ ایسے مسائل پیدا ہو رہے ہیں جو نہ صرف خاندانوں کیلئے نقصان دہ ہیں بلکہ معاشرتی خرابیوں کا ایک اہم سبب ہے جن میں بنیادی طور پر (Child Lab our)چائلڈ لیبر (Street child)ایسے بچے جن کا کوئی پرسان حال نہ ہو اور (Education of child)بچوں کی تعلیم کے مسائل ہیں ۔یہاں ہم انہی مسائل کو زیر بحث لاہیں گے اور اسلامی تعلیمات اور موجودہ بین الاقوامی قوانین کے زیر اثر ان کا حل پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔

 

بچے کی بلوغت کا مفہوم:

لغت عرب میں بچے کیلئے مختلف الفاظ استعمال ہوتے ہیں بلکہ ان میں سے کچھ تو قرآن مجید میں بھی استعمال ہوئے ہیں: الفطیم ،الصبی ، الرضیع ، الطفل ،الغلام ، المراھق، الولید

 

الفطیم:

 

فطیم کا لفظ بچے کے لیے بولا جاتا ہے:

 

فطام الصبی فصالہ عن امہ یقال فطمت الام ولدھا تفطمہ بالکسر فطاماً فھو فطیم۔[1]

 

فطام الصبیکا معنی بچے کا دودھ چھوڑنے کی وجہ سے اپنی ماں سے جدا ہونا ہے اور یہ کہا جاتا ہے " فطمت الام ولدھا" ماں نے اپنے بچے کو دودھ چھڑا کردور کر دیا ۔ اس سے لفظ فطیم آتا ہے جس کا مطلب دودھ چھوڑنے والا بچہ۔

 

الرضیع: رضیع کی تعریف ابن سلام کچھ یوں کرتے ہیں:

 

ان الذی اذا جاع کان طعامہ الذی یشبعہ اللبن انما ھو الصبی الرضیع۔[2]

 

ترجمہ:رضیع سے مراد وہ بچہ جس کو جب بھوک لگے تو اس کی خوراک صرف دودھ ہوجس سے وہ سیر ہو جاتا ہے ۔

 

الطفل:

 

طفل کی تعریف ابن منظور یوں کرتے ہیں:

 

اطفل والطفلۃ:الصغیران والطفل، الصغیر من کل شئی۔[3]

 

ترجمہ:طفل اور طفلۃ سے مراد چھوٹے بچے ہیں اور طفل سے مراد ہر شے کا چھوٹا حصہ۔

 

غلام:

 

غلام بھی طفل کے معنی میں استعمال ہوتا ہے:

 

غلام :ابن الصغیروقال الازھری وسمعت العرب تقول للمولود حین یولد دگرًا غلام۔[4]

 

ترجمہ:غلام چھوٹے بچے کے لیے بولا جاتا ہے ،شیخ ازہری کہتے ہیں میں نے اہل عرب سے سنا ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کو غلام کہتے ہیں قرآن نے بھی یہ لفظ استعمال کیا ہے:

 

قَالَ رَبِّ أَنَّیَ یَکُونُ لِیْ غُلاَمٌ وَقَدْ بَلَغَنِیَ الْکِبَر۔[5]

 

ترجمہ:بولا اے میرے رب میرے لڑکا کہاں سے ہو گامجھے تو پہنچ گیا بڑھاپا۔

 

الصبی:

 

ابن منظور کے مطابق :

 

من لدن یولد الی ان یفطم۔[6]

 

ترجمہ:بچے کے پیدا ہونے سے لیکر دودھ چھوڑنے کی عمر تک "صبی " کہتے ہیں ۔

 

قرآن نے یہ لفظ کئی جگہ استعمال کیا ہے :

 

یَا یَحْیَی خُذِ الْکِتَابَ بِقُوَّۃٍ وَآتَیْنَاہُ الْحُکْمَ صَبِیّاً۔[7]

 

ترجمہ:اے یحییٰ کتاب مضبوط تھام اور ہم نے اس کو بچپن میں ہی نبوت عطا کی۔

 

ولد:

 

یہ لفظ بھی عرب میں بچے کے لیے بولا جاتا ہے ۔

 

الولد بالکسر لغۃ فی الولد والولیہ الصبی والعبد۔[8]

 

ترجمہ:ولد اور والیہ کا معنی بچہ اورغلام ہے۔

 

یہ لفظ بھی قرآن میں آیا ہے۔ارشاد ربانی ہے کہ:

 

قَالَتْ رَبِّ أَنَّی یَکُونُ لِیْ وَلَدٌ وَلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ۔[9]

 

ترجمہ:بولی اے میرے رب میرے بچہ کہاں ے ہو گا مجھے تو کسی بشر نے چھوا بھی نہیں ہے۔

 

المراھق: مراھق کا لفظ لڑکپن کی عمر کے لیے بولا جاتا ہے۔ابن منظور لسان العرب میں لکھتے ہیں کہ:

 

الغلام الذی قد قارب الحلم و جاریۃ مراھقۃ ویقال جاریۃ راھقۃو غلام راھق،ذلک ابن العشر الی احدی عشر۔[10]

 

مراھق سے مراد وہ بچہ ہے جو بلوغ کے قریب ہو اور اسی طرح وہ بچی جو قریب البلوغ ہو اس کو جاریۃ مراھقۃ کہا جاتا ہے، لڑکےکیلئےراھقۃ اور لڑکےکیلئےراھق بولا جاتا ہے ۔یہ عمر ہے جب بچہ دس یا گیارہ سال کا ہو۔ہم یہاں راھق کی گفتگو کو زیر بحث لائیں گے یعنی وہ بچہ جو بلوغت کے قریب ہے ،ابھی نہ سمجھ دار ہوا ہے اور نہ ہی اس قابل کہ اچھائی اور برائی کا فیصلہ کر سکے ۔وہ مسائل جو اس عمر کے بچوں کو پاکستانی معاشرے میں درپیش ہیں ہماری گفتگو کا حصہ ہوں گے۔

 

کم عمری میں مزدوری:(Child lab our)

چائلڈ لیبر سے مراد دراصل بچوں کا چھوٹی عمر میں کام پر لگ جانا ہے جب کہ یہ عمر ان کی تعلیم اور سیر و تفریح کی ہوتی ہے ۔تیسری دنیا کے ممالک میں چائلڈ لیبر کی شرح بہت زیادہ ہے اور یہ بچوں کے مسائل میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور اعلیٰ سطح پراس کے اعداد و شمار کافی تشویشناک ہیں ۔انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) اس بارے میں کچھ یوں رپورٹ کرتی ہے:

 

An estimated 246 million children are engaged in child lab our. Of those, almost three quarters (171 million) work in hazardous situations or conditions, such as working in mines, working with chemicals and pesticides in agriculture or working with dangerous machinery. They are everywhere but in visible, toiling as domestic servants in homes, laboring behind the walls of workshops, hidden from view in plantations. Millions of girls work as domestic servants and unpaid household and are especially vulnerable to exploitation and abuse. Millions of others work under horrific circumstances. They may be trafficked (1.2 million) force into debt bondage or other forms of slavery (5, 7 million), into prostitution and pornography (1.8 millions), into participating in armed conflict (0.3millions) or other illicit activities (0.6 millions). ([11])

 

ایک اندازے کے مطابق چوبیس کروڑ ساٹھ لاکھ بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں ان بچوں میں سے تقریباً تین چوتھائی(سترہ کروڑدس لاکھ) سخت مشقت والے کام کرتے ہیں جیسے کہ کانوں میں کام کرنا،کیمیکلز کے ساتھ کام کرنا، کھیتی باڑی اور خطرناک قسم کی مشینری کے ساتھ کام کرنا۔ایسے بچے ہر جگہ پر ہیں لیکن ان کی مشقت گھریلو مازم کی طرح نظر آتی ہے ،ورکشاپس کی دیواروں کے پیچھے کام کرتے نظر آتے ہیں ،آنکھ سے چھپے ہوئے کھیتوں میں کام کرتے نظر آتے ہیں ۔لاکھوں بچیاں گھریلو ملازم کے طور پر کام کرتی ہیں جن کو کوئی معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا اور خاص طور پر یہ آسانی سے زیادتی کا نشانہ بھی بن جاتی ہیں ۔اسی طرح کئی لاکھ بچیاں خوف کی حالت میں کام کرتی ہیں ان میں سے لاکھوں کو زبردستی مختلف مقامات پر سمگل کر دیا جاتا ہے ،(بارہ لاکھ تقریباً)جہاں ان سے زبردستی کام لیا جاتا ہے یا پھر غلامی کی دوسریصورت اختیار کی جاتی ہے (ستاون لاکھ تقریباً)جس میں ان کو پیشہ ور بدکاری اور فحش فلمیں بنانے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے(تین لاکھ تقریباً)۔یا پھر دوسری ممنوعہ سرگرمیوں میں شامل کیا جاتا ہے (چھ لاکھ تقریباً)۔

 

چائلڈ لیبر ،اسلامی نقطہ نظر کے مطابق:

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر جو احکام نازل کیے اس میں تدبر کرنے سے یہ اصول سامنے آتا ہے کہ وہ کسی بندے پر اس کی حیثیت سے زیادہ اور طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا،جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:

 

لاَیُکَلِّفُ اللّہُ نَفْساًإِلاَّ وُسْعَہَالَہَا۔[12]

 

ترجمہ:اللہ کسی جان پر بوجھ نہیں ڈالتا مگر اس کی طاقت بھر۔

 

پس بچے کو اس کی صلاحیت اور طاقت کے بر خلاف ایسے کام کروانا منشاء الہی کے خلاف ہے ۔مشقت والا کام لینا بچے کے ساتھ زیادتی ہے کیونکہ اس کی ظاہری جسامت اور خاص طور پر ذہنی پختگی اس قابل نہیں ہے کہ وہ کوئی سخت کام کر سکے اس لیے حضرت عثمان غنیؓ نے فرمایا:

 

ولا تکلفو االصغیر الکسب۔[13]

 

ترجمہ:اور تم بچے کو مزدوری کرنے کا پابند نہ ٹھراؤ۔

 

اس گفتگو سے یہ بات واضح ہوئی کہ بچے سے کوئی ایسا کام کروانا جس میں مشقت ہو اور اسکے بنیاد حقوق کے منافی ہو یا اس کی تعلیم اور سیر و تفریح کے معاملات کا حرج ہوتا ہو،ایسے کام لینا شریعت کی رو سے جائز نہیں ۔لیکن اگر کسی فن یا ہنر کو سیکھنے کے عمل میں بچے کو مصروف کیا جائے اور اس کا مقصد مستقبل میں اپنے قدم پر کھڑا ہونا ہو تو ایسے میں شریعت اجازت دیتی ہے لیکن وہ فن بچے کی تربیت یا جسمانی ورزش یا اس کو معاشرے میں کا مہذب فرد بنانے میں مدد دے ۔امام کاسانی بیان کرتے ہیں کہ:

 

ان فی ایحجارہ دی الصنائع من باب التھذیب والتادیب والریاضۃ وفیہ نظر للصبی۔[14]

 

ترجمہ:بلاشبہ کسی فن اور کاریگری کے کام میں بچے کو اجارہ کروانا اسے مہذب بنانے ،اس کی تربیت کرنے اور جسمانی ورزش کے باب میں سے ہے ۔

 

اس کی دلیل حضرت انسؓ کا بچپن میں نبی اکرم کی خدمت میں رہنا ہے جو کہ حضرت انس خود فرماتے ہیں کہ:

 

خدمت النبیعشر سنین بالمدینۃ وان غلام لیس کل امری کما یشتھی صاحبی ان یکون علیہ ما قال

 

لی فیھا اف قط وما قال لی لم فعلت ھذا او الا فعلت ھذا۔[15]

 

میں نے نبی اکرم کی مدینہ میں دس برس خدمت کی حالانکہ میں ایک لڑکا تھا ۔میرے سارے کام اس طرح نہیں ہوئے تھے جس طرح میرے صاحب (رسول اللہ )چاہتے تھے ،اس سارے عرصہ میں آپنے مجھے کبھی اف تک نہ فرمایا اور نہ ہی یہ فرمایا کہ تو نے یہ کام کیوں کیا ہے یا کیوں نہیں کیا ہے؟ڈاکٹر محمد راشد بچوں کی مزدوری کے جائز پہلوؤں اور ناجائز صورتوں کے بیان کرنے کے بعد اس کے نتیجے کے طور ر پر کچھ یوں لکھتے ہیں کہ:"یاد رہے کہ ایسی محنت و مشقت جو بچوں کی استعداد کے مطابق ہو اور ان کی تعلیم و تربیت کو متاثر نہ کرے درست ہے ۔سو آج کے دور میں بچے کی ذات کا اجارہ (چائلڈ لیبر) جائز ہے ۔مختلف ٹیکنیکل اور فنی مہارت کے حصو ل کیلئے ضرری ہے ۔ یہ ایسی چائلڈ لیبر ہے جس سے بچے کو جسمانی ورزش ، تہذیب اور تادیب حاصل ہے"[16]

 

چائلڈ لیبر پر یورپی یونین کے اقدامات:

یورپین یونین کے کم عمر بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی ہے اورcharter of fundamental rights of European union میں چائلڈ لیبر پر پابندی عائد کی ہے ۔اس چارٹر کے آرٹیکل 32 کوprohibition of child labor کا نام دیا ہے اس میں بیان کیاہےکہ:

 

The employment of children is prohibited. The minimum age of admission to employment may not be lower than minimum school - living age.[17]

 

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے اپنی قوانین میں چائلڈ لیبر کے لحاظ سے آرٹیکل دس میں کچھ پوائنٹ یوں بیان کیے ہیں جن میں کم عمری کی مشقت کے لحاظ سے مباحث موجود ہیں اور کن کن معاملات کو مدنظر رکھنا ظروری ہے زیر بحث کاہیں گے جیسا کہ مختلف پارٹیوں سے حلف نامہ لیا گیا ہے جس کا مقصد بچوں کے حقوق کی عملی شکل کو لاگو کرنا ہے۔

 

The minimum age of admission to employment shall be 15 years, subject to exceptions for children employed in prescribed light work without harm to health, morals or education. The minimum age of admission shall be 18 years with respect to prescribed occupations regarded as dangerous or in health. The working hours of persons under 18 years of age shall be limited in accordance with the needs of their development and particularly with their need for vocational training. The persons under 18 years of age shall not be employed in night work with the exception of certain occupations provided for by nationals laws or regulations.([18] )

 

بے سرو سامان بچے:((Street Children
اس وقت دنیا میں بے شمار ایسے بچے ہیں جن کو اپنے رشتہ داروں یا والدین کا علم ہی نہیں ہے اور وہ بغیر گھروں کے ادھر ادھر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ان بچوں کا ان حالات میں پہنچنے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں ۔بعض اوقات کچھ بچے کسی زلزلے،حادثے، طوفان یا بیماریوں کی وجہ سے اپنے والدین سے بچھڑ جاتے ہیں اور بعض اوقات ایسے بچے اغوا کر لیے جاتے ہیں اور اغوا کرنے کے بعدسمگل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔اس دوران اگر کوئی بچہ بچ کر نکل جائے تو وہ چائلڈ ویلفیر کے اداروں تک پہنچ جاتا ہے اور اس کو اپنے خاندان یا اپنے شہر کا بالکل پتہ نہیں ہوتا۔بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ بچے جنگی گروپوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور موقع پانے پر بھاگ جاتے ہیں انہی بچوں کے حوالے سے جیوگرافک کی ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے۔

 

Of the 35 million people who have had free their homes in the face of persecution and armed conflict, more than 17 millions are children close to 8 million of them live in camps supported by the United Nations High commissioner of refugees (UNHCR).The rest are living on the out skirts of cities, in villages or in extremely remote areas of the countryside.[19]

 

تین کروڑ پچاس لاکھ لوگ جنہیں اپنے گھروں سے مسلح تصادم اور ظلم کی وجہ سے بھاگنا پڑا ان میں سے ایک کروڑ ستر لاکھ سے زائد بچے تھے ۔انہی میں سے 80 لاکھ مہاجر کیمپوں میں رہتے تھے ،باقی شہروں کے مضافاتی علاقوں اور گاؤں میں رہتے ہیں۔بعض اوقات ممالک کی آپس کی جنگوں میں بھی بچے خاندانوں سے دور ہو جاتے ہیں بلکہ یہاں تک کہ کبھی کبھی ترک الوطنی کی شکل بھی پیدا ہو جاتی ہے اور ایسی کئی رپورٹس سامنے آئیں ہیں کہ جن ممالک میں جنگ و قتال جاری رہتا ہے ان ممالک کے بچے انہی لڑائیوں کی بدولت دوسرے ممالک میں مہاجرین بن کر جا چکے ہیں ،خصوصاً ان میں افغانستان، ایتھوپیا ،سوڈان اور صومالیہ کے بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔

 

Ethnic wars target children as they represent the future and in the last 10 years alone 1.5 million children have died in wars. Long after war is over children continue to be traumatized by their brutal experience and to be at risk as the hundreds of thousands of landmines left as a deadly legacy of war continue to main or kill 800 children each month. Millions of children live their entire childhood in refugee camps.[20]

 

نسلی جنگوٓں میں دشمنوں کے بچوں کو مستقبل کا دشمن سمجھتے ہوئے نقصان پہنچایا جاتا ہے ۔گزشتہ دس سالوں میں نسلی جنگوں میں 15 لاکھ بچے مر چکے ہیں ۔جنگ ختم ہونے کے بعد بھی بچوں پر یہ خوف طاری رہتا ہے ۔ ہر ماہ آٹھ سو بچے بارودی سرنگوں کا شکار ہوتے ہیں اور کئی ملین بچوں کو اپنا تمام بچپن مہاجر کیمپس میں گزارنا پڑتا ہے ۔بہت سے بچے اپنے والدین کے مارنے یا تشدد کرنے کی وجہ سے بھی گھروں کو چھوڑ کر گلیوں میں وقت گزارنے پر مجبو ر ہوتے ہیں جہاں ان کی زندگی غیر محفوظ ہوتی ہے اور اسی طرح بعض اوقات غلط لوگوں کی صحبت ان کو پیشہ ور مجرم بنا دیتی ہے یا کسی پیشہ وارانہ گینگ کے ہتھے چڑھنے سے اپنا مستقبل خراب کر لیتے ہیں ۔اس وقت ایسے بے گھر بچوں کی تعداد کافی زیادہ ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق:

 

100 million homeless children living in the streets around the world.[21]

 

بے سرو سامان بچوں کے بارے اسلامی تعلیمات۔

اسلامی تعلیمات میں بے گھر بچوں کیلئے کوئی واضح حکم نہیں ہے لیکن اتنا اچارہ ملتا ہے کہ اگر کوئی مہاجر بن کر تمہارے گھروں میں آ جائے تو اس کی مدد کرنا فرض ہے :

 

إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَہَاجَرُواْ وَجَاہَدُواْ بِأَمْوَالِہِمْ وَأَنفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَالَّذِیْنَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُوْلَءِکَ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ وَلَمْ یُہَاجِرُواْ مَا لَکُم مِّن وَلاَیَتِہِم مِّن شَیْءٍ حَتَّی یُہَاجِرُواْ وَإِنِ اسْتَنصَرُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ فَعَلَیْْکُمُ النَّصْرُ إِلاَّ عَلَی قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُم مِّیْثَاقٌ وَاللّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیْر۔[22]

 

ترجمہ:بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے (اللہ کیلئے) وطن چھوڑے ،اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے ان کو جگہ دی اور ان کی مدد کی وہی لوگ ایک دوسرے کے وارث ہیں اور جو لوگ ایمان لائے مگر انہوں نے گھر بار نہ چھوڑا تو تمہیں ان لوگوں کی دوستی سے کوئی سروکا ر نہیں ۔یہاں تک کہ وہ ہجرت کریں اور اگر وہ دین میں تم سے مدد چاہیں تو تم پر مدد کرنا واجب ہے ۔مگر اس قوم کے مقابلہ میں (مدد نہ کرنا) کہ تمہارے اور ان کے درمیان( صلح و امن کا) معاہدہ ہو اور اللہ تعالیٰ ان کاموں کو جو تم کر رہے ہو خوب دیکھنے والا ہے۔

 

اور اس قربانی کی مثال ہجرت مدینہ کے موقع پر انصار کے ہاں نر آتی ہے جنہوں نے مہاجرین کیلئے کسی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہ کیا ۔اس لیے اگر مہاجر بچے(بے گھر بچے) آ جائیں تو ان کی مدد کرو۔ان کی تربیت میں اپنا حصہ ڈال کر ان کو معاشرے کا اچھا شہری بننے میں اپنا کردار ادا کرو۔اسی طرح اقوام متحدہ نے بھی ایسے بچے جو گھریلو مسائل یا ماحول سے تنگ آ کر اپنے گھروں کو چھوڑ کر گلیوں میں پناہ لیتے ہیں یا ممالک میں ہجرت کرتے ہیں ان کے مسائل کو حل کرنے کیلئے (Refugee commission) قائم کیا ہے اور تمام ممبر ممالک پر زور دیا ہے کہ مہاجر بچوں کے مسائل کا حل کریں:

 

Article22: states parties shall take appropriate measures to ensure that a child who is seeking refugee status or who is considered a refugee in accordance with applicable international or domestic law and procedures shall, whether unaccompanied or accompanied by his or her parents or by any other person, receive appropriate protection and humanitarian assistance in the enjoyment of applicable rights set forth in the present convention.[23]

 

فریق ریاستیں اس امر کو یقینی بنانے کیلئے مناسب اقدامات کریں گی کہ بچہ جب درجہ معاشرت کا متلاشی ہو یا جسے مروجہ بین الاقوامی یا ملکی قوانین اور ضوابط کے تحت مہاجر قرار دیا گیا ہو خوا وہ تنہا ہو یا اپنے والدین کے ساتھ یا کسی اور فرد کے ساتھ ،اسے مناسب تحفظ اور انسانی بنیادوں پر امداد مہیا کی جائے تا کہ وہ ان حقوق سے استفادہ کر سکے جو اس میثاق میں طے کیے گئے ہیں۔

 

بچوں کی تعلیم۔(Children education) 

 

نسل انسانی کی متاع میں بچہ ہی وہ وجود ہے جسے آگے چل کر ماں یا باپ کے روپ میں ڈھلنا ہوتا ہے ۔یقیناً یہی وجہ ہے کہ

 

اسے انسانی معاشرے میں کبھی نا امیدی کی علامت نہیں سمجھا گیا بلکہ ہمیشہ امید کا استعارہ جانا گیا ہے اس کے وجود کو انسانی معاشرے میں کہیں بھی اور کبھی بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اوریہی رویہ اس کے وجود کی اہمیت کاآئینہ دار ہے۔ایک صحت مند جمہوری معاشرے کی داغ بیل ڈالنے میں ان بچوں کی تربیتو تعلیم کی درست نشوو نما ایک ضمانت کا درجہ رکھتی ہے۔ معاشرتی تعلیم کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ بچوں اوراساتذہ کے ساتھ والدین کا بھی آپس میں ایسا رابطہ ہونا چاہیے جس کی بنیاد باہمی تعاون پر ہوتا کہ حصول مقاصد تک آسانی سے رسائی حاصل ہو اور تعلیم کی بنیاد پر اس بچے کو ایک اچھے شہری بنانے میں مدد حاصل ہو۔اسلام نے بھی علم حاصل کرنے پر بہت زور دیا ہے۔ صرف اس کی اہمیت ہی بیان نہیں کی بلکہ مردوعورت پر اس کا حاصل کرنا فرض قرار دیا ہے۔

 

طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم۔[24]

 

ترجمہ:علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔

 

بچوں کی تعلیم کا بندو بست کرنا نہ صرف والدین کا فریضۃ ہے بلکہ یہ حکومت وقت کی ذمہ داری میں شامل ہے کہ ایسے انتظامات کیے جائیں کہ کوئی بچہ بھی کم از کم بنیادی تعلیم سے محروم نہ رہ سکے ۔اس اکیسویں صدی میں بھی بہت سے ایسے بچے موجود ہیں جو تعلیم کے بنیادی حق سے ابھی تک محروم ہیںConvention on the rights of the child کے آرٹیکل 28 میں یہ واضح طور پر لکھا ہے ۔

 

State parties recognize the right of the child to education and with a view to achieving this right progressively and on the basis of equal opportunity, they shell in particular:

 

(a) Make primary education compulsory and available free to all.

 

(b) Encourage the development of different form of secondary education, in clouding general and vocational education make them available and accessible to every child.[25]

 

ترجمہ:فریق ریاستیں بچے کی تعلیم کے حق کو تسلیم کرتی ہیں اور اس حق کو ترقی پسندانہ طریقے سے حاصل کرنے کیلئے سب کیلئے یکساں مواقع کی بنیاد پر درج ذیل اقدامات کریں گی۔

 

الف: پرائمری تعلیم لازمی اور سب کیلئے مفت مہیا کی جائے گی۔

 

ب: سکینڈری تعلیم کی مختلف صورتوں کی حوصلہ افزائی کریں گے جن میں عمومی اور پیشہ وارانہ تعلیم دونوں شامل ہیں ۔ان کو ہر بچے کیلئے اس طرح مہیا کریں گے کہ ان کی پہنچ میں ہو۔

 

اسلام بھی بچے کی تعلیم پر اسی طرح زور دیتا ہے جس کی عملی مثال ہمیں ریاست مدینہ کے ابتدائی دور میں نظر آتی ہے ۔جہاں نبی اکرم نے ریاست مدینہ کے بچوں اور بڑوں کیلئے سرکاری سطح پر تعلیم کا اہتمام کیا ۔مقام صفہ کو تعلیم کیلئےخاص کر دیا گیا اور ایک مدرسے (سکول) کی شکل دے دی گئی جہاں پر وقت تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری رہتا تھا ۔اسی طرح غزوہ بدر کے بعد قریش کے کچھ لوگ قیدی ہو کر آئے تو ان کی رہائی کیلئےچالیس اوقیہ چاندی مقرر کی گئی پس جس کے پاس یہ چاندی نہیں تھی اس کے بارے میں رسول اللہ نے یہ فیصلہ فرمایا جس کو حضرت عامرؓ نے یوں روایت کیا ہے۔

 

ئاسررسول اللہﷺیوم بدرسبعین اسیراوکان یغادی بھم علیٰ قدراموالھم وکان اھل مکۃ یکتوبون و اھل مدینۃ لا یکتوبون،فمن لم یکن لہ فداء دفع الیہ عشرۃ غلمان من غلمان المدینۃ فعلمھم فاذاحذقو فداؤہ۔[26]

 

ترجمہ:رسول اکرم نے بدر کے ستر کفار قیدی بنائے اور ان کا فدیہ ان کے اموال کے مطابق مقرر فرمایا ۔اہل مکہ لکھنا جانتے تھے مگر اہل مدینۃ نہیں جانتے تھے ،پس جس کے پاس فدیہ نہیں تھا اس کو مدینۃ منورہ کے دس بچے دیے گئے پس ان قیدیوں نے ان بچوں کو تعلیم دی یہاں تک کہ یہ بچے تعلیم میں ماہر ہوگئے تو یہ(بچوں کو پڑھانا) ان قیدیوں کا فدیہ بن گیا ۔

 

لیکن اس سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں عالمی سطح پر خواندگی کے حوالے سے یونیسیف نے جو رپورٹ مرتب کی ہے وہ افسوس ناک ہے ۔

 

UNICEF estimate that worldwide, same 117 million children are still out of school, 62 million of them girls. Outside of the industrialized countries, only 76 persent of all boys and 72 persent of all girls attend primary school at the official primary school age. Attendance rates are lowest in sub-Saharan Africa, where only 60 percent of boys and 57 percent of girls are in school.[27]

 

ترجمہ:یونیسف کے اندازے کے مطابق گیارہ کروڑ ستر لاکھ(111700000) بچے ابھی بھی سکولوں سے باہر ہیں ان میں سے چھ کروڑ بیس لاکھ بچیاں ہیں ۔غیر صنعتی ممالک میں صرف 76فیصد بچے اور 27فیصد بچیاں سکول جاتیں ہیں ۔افریقہ میں حاضری کا تناوسب انتہائی کم ہے جہاں صرف 60 فیصد لڑکے اور 57 فیصد لڑکیاں سکول جاتیں ہیں ۔

 

یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق اکیسویں صدی میں افریقہ کے ساتھ ایشیاء میں بھی کئی ممالک ایسے ہیں جہاں بچوں کے سکول جانے کا تناسب 60 فیصد سے کم ہے یعنی 40 فیصد سے زائد بچے سکول نہیں جاتے ۔پاکستان:56فیصد،افغانستان:53 فیصد۔اور بعض ممالک میں بچیوں کی سکول میں حاضری کا تناسب بچوں کی نسبت کم ہے اس میں سب سے کم افغانستان اور اس کے بعد پاکستان آتا ہے:افغانستان:63:120،پاکستان:57:80۔[28]لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ فروغ علم کیلئے عالمی سطح پراچھے اقدامات کیے جا رہے ہیں ۔ان میں سے ایک اہم قدم یہ ہے کہ تمام معاہدہ جات میں بچوں کے تعلیم کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔

 

Children's right, as provided for in the 1989, UN convention on the rights of child, can be justified by the right to education. For children to be able to exercise their right to education, they must have adequate medical care, nutrition and housing. Also, children's rights guarantee non authoritarian forms of education by providing the right to free access to information and freedom of thought.[29]

 

ترجمہ:بچوں کے حقوق ، جیسا کہ اقوام متحدہ کے 1989ء کے قانون میں بچوں کوحقوق مہیا کیے گئے ہیں جن میں حق تعلیم کو پایا جا سکتا ہے ۔بچوں کے اپنے حق تعلیم کے استعمال کرنے کے قابل ہونے کیلئے انہیں مناسب طبی سہولت، مناسب غذا اور رہائش کی سہولیات مہیا ہونی چاہییں۔مزید بچوں کو سوچ کی آزادی کا حق اور معلومات تک رسائی کے ذریعے غیر مطلق العنان طرز تعلیم کی ضمانت مہیا کرتے ہیں ۔

 

جب ہم اپنے معاشرے کے گرد نظر دوڑاتے ہیں تو بچوں کی تعلیم سے محرومی کے کچھ ایسے اسباب دکھائی دیتے ہیں کہ اگر جن کو حکومت وقت کم کرنے کے اقدامات کرے تو تعلیم کے مسائل میں بھی کمی واقع ہو سکتی ہے جن میں سےچند درج ذیل ہیں :

 

غربت:

بچوں کی تعلیم سے دوری کا سب سے بڑا سبب ان کے والدین کی معاشی حالت ہے کیونکہ تیسری دنیا کے ممالک کی حکومتیں اس طرف توجہ نہیں دیتیں جس کی بدولت امراء طبقہ پیسے کی بناء پر اپنے بچوں کو اعلیٰ سکولوں اور کالجوں میں تعلیم دلواتے ہیں جب کہ غریب انسان اس کی طاقت نہ رکھتے ہوئے بچوں کو اپنے ساتھ مزدوری کے کام میں شامل کر لیتے ہیں ۔

 

معاشرے کی طبقاتی تقسیم:

ہمارے پاکستانی معاشرے میں پائی جانے والی خصوصی طور طبقاتی تقسیم بچوں کو تعلیم سے دور رکھنے کا دوسرا اہم سبب ہے جس کی بدولت غرباء کے بچے اپنے حق تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں ۔کسی علاقہ کے جاگیر داراور وڈیرے اپنے بطوں کو غرباء کے ساتھ پڑھنے کی اجازت نہیں دیتے اور ان کو پڑھنے کے لیے اعلیٰ شہروں اور اولیٰ اداروں میں بھیج دیتے ہیں جس کی بدولت ان علاقوں میں تعلیم کے بنیادی اسباب تقریباً نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں اور وہ جاگیدار اپنے علاقوں میں تعلیمی اداروں کو ترقی اس بناء پر نہیں کرنے دیتے کہ اگر غرباء کے بچے پڑھ لکھ گئے تو ان کے کام کون کرے گا؟ تو اس بناء پر غرباء کے بچے تعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم رہ جاتے ہیں ۔

 

امن و امان کا فقدان:

تیسری دنیا کے ان ممالک کا اگر جائزہ لیا جائے جہاں پر تعلیم کا تناسب اور میعار انتہائی کم ہے تو وہاں کی ناخوادگی کا ایک سبب وہاں پر امن و امان کا فقدان ہے ۔جہاں امن و امان اور سیاسی و اقتصادی سکون ہوتا ہے وہاں تعلیمی فروغ میں وسعت پائی جاتی ہے۔

 

حکومت کی عدم دلچسپی:

بعض ایسے ممالک ہیں جن میں غربت کے باوجود تعلیمی مسائل کم ہیں ۔ اس کی وجہ دراصل اس ملک کی حکومت کا تعلیم کو ترجیحات میں رکھنا ہے اور جس بناء پر وہ اپنی شرح خواندگی بڑھا لیتے ہیں۔ جب کہ اس کے برعکس بعض دوسری حکومتیں تعلیم کی بجائے

 

دیگر امور میں دلچسپی ظاہر کرتیں ہیں اور تعلیم کو نظر انداز کر دیتی ہیں جس کا نتیجہ تعلیمی پستی کی شکل میں ظاپر ہوتا ہے۔

 

والدین کی جہالت اور معاشرتی شعور کی کمی:

ہمارے معاشرے کے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ تعلیم دراصل روزگار کے حصول کا نام ہے ۔لہذا جب ان کے معاشی حالات بہتر ہوں تو تعلیم دلوانے کی ضرورت کیا ہے ؟ یہ عمل معاشرے میں شعور کی کمی عکاسی کرتا ہے ۔ان کے مطابق جب ہم نے سرکاری نوکریاں نہیں کرنی اور تعلیم کو روز گار بنانے کا ذریعہ نہیں بنانا تو پھر تعلیم حاصل کیوں کریں ؟حالانکہ تعلیم انسان کو شعور عطا کرتی ہے ،تہذیب و تمدب سے آشکار کرتی ہے ،زندگی گزارنے کے بہترین اصولوں کا تعین کرتی ہے ۔لیکن کچھ معاشروں میں تعلیم کو صرف روزگار کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے جس بناء پر وہ معاشرے تعلیمی اور تہذیبی پستی کا شکار ہیں ۔

 

ارد گرد کا ماحول اور معاشرہ:

بعض اوقات سکول اور آپ کے ارد گرد کا ماحول بھی بچوں کی تعلیم میں رکاوٹ کا سبب بنتے ہیں حتیٰ کہ ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بچے سکول جانے سے گریز کرتے ہیں ۔

 

Children have no choice over their education, you tell us but for as many as 150,000 home educated children, this is not true. These children don't want any kind of school. School is a training ground for bullies and victims.[30]

ترجمہ:تعلیم میں بچوں کی اپنی مرضی اور اختیار نہیں ہے ۔آپ ہمیں بتاہیں اس وقت گھر میں پڑھنے والے ایک لاکھ پچاس ہزار طلبہ کی وجہ کیا ہے؟ یہ بچے دراصل کسی بھی سکول میں پڑھنے کو تیا رنہیں ہیں کیونکہ تعلیمی ادارے دھمکانے والوں اور شکار رہنے والوں کے لیے تربیت گاہ ہیں ۔

 

مخلوط نظام تعلیم:
مخلوط تعلیم بھی تعلیم خواندگی کا ایک سبب ہے ۔ مغربی ممالک میں لڑکے اور لڑکیوں کا آزادانہ ملاپ کے اثرات اس قدر برے ہیں کہ وہاں لڑکیوں کے لیے تعلیم حاصل کرنے میں دشواری ہوتی ہے اور اسلامی ممالک میں بچیوں کے لیے علیحدہ ادارے یا اعلیٰ تعلیم کے لیے یونیورسٹیوں کا فقدان ہے جس کی وجہ سے ایسے ممالک میں بچیوں کے والدین ان کو تعلیم دلوانے کے لیے راضی نہیں ہوتے۔جس کی وجہ سے لڑکیاں اپنی تعلیم کو جاری نہیں رکھ پاتیں۔

 

تجاویز

1: اسلامی تعلیمات اور اقوام متحدہ کےت کنونشن میںجو حقوق بیان کیے گئے ہیں ان تمام قوانین کو فی الفور ملکی قوانین کا حصہ بنایا جائے۔ان پر سختی سے عمل کروایا جائے اور عمل نہ کرنے والون کے خلاف سخت سے سخت ایکشن لیا جائے۔

 

2: بچوں کی جان کو لاحق خطرات بالخصوص بچوں کا جنگ میں استعمال،مخاف فریق کی طرف سے ان کا بے دریغ قتل،بچوں کا

 

جنسی اور جسمانی تشدد کے مرتکب افراد اور سمگللنگ میں ملوث لوگوں کو سخت سزائیں دی جائیں تا کہ بچے محفوظ رہ سکیں۔

 

3: اقوام متحدہ غریب ممالک کے بچوں کو ترقی یافتہ ممالک کے بچوں کے برابر سہولیات فراہم کرنے کے لیے اقدامات کرے۔

 

4: بچوں کی تعلیم اور صحت کے لیے با اثر اقدامات کیے جائیں اور اقوام متحدہ ان پر عمل درآمد کے لیے تمام ممالک میں مختلف کمیٹیاں تشکیل دیں۔ان دونوں بنیادی حقوق کی بجا آوری کے لیے ایک خاص لائحہ عمل ترتیب دیا جائےاور ترقی پذیر ممالک میں ان پہلوئوں کے لحاظ سے فنڈنگ کو بڑحایا جائے۔

 

5: بچوں کے کئی ایسے حقوق ہیں جو اسلامی تعلیمات میں تو موجود ہیں مگر نہ تو مغربی قوانین کا وہ حصہ ہیں اور نہ ہی اقوام متحدہ نے اپنے چارٹر میں ان کو شامل کیا ہے جیسا کہ حق نسب ،حق تربیت،حق عقیقہ،حق رضاعت، حق محبت و شفقت اور مساوات وغیرہ۔یقیناً ان تمام حقوق کو بحی بین الاقوامی سطح پر لاگو کیا جانا چاہیے۔

 

6: اس وقت بچوں کو جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ ناخواندگی کا ہے۔بہت سے بچے دنیا میں ناخواندگی کا شکار ہیں۔خاص طور پر ایشیا اور افریقہ میں اس کا تناسب بہت زیادہ ہے،تمام ممالک کو اس پر نہ صرف خصوصی توجہ دینا ہو گی بلکہ اس کے لیے اقداما ت کرنا ہوں گے۔

 

7: بچوں کو درپیش معاشرتی مسائل میں سے ایک مسئلہ چائلڈ لیبر کا بھی بڑی شدت سے اختیار کیا جا رہا ہے۔گریب ممالک جن میں خصوصی طور پر افریقی ممالک شامل ہیں بچوں کی مزدوری کے معاملات بہت عام ہیں۔اسلام میں بھی مزدوری کی کوئی پابندی نہیں ہے لیکن اگر بچوں کا کائی بنیادی حق ضائع ہو رہا ہو تو یہ عمل جائز نہیں۔اسلام مختلف ہنر کے سیکھنے کے عمل کو چائلڈ لیبر میںشمار نہیں کرتا۔اس لیے حکومت وقت کو چاہیے کہ تعلیم کے ساتھ ایسے اقدامت کیے جائیں کہ جہاں بچے کوئی ہنر بھی سیکھ سکیں اور ایک خاص مقدار میں ان کا وظیفہ بھی لاگو کیا جائے ۔

 

8: بچے کے نسب کی اہمیت کو اجاگر کیا جانا چاہیے۔اسلامی قوانین کی طرح مغربی قوانین میں بھی اس عمل شامل کرنے کی کوشش کی جائے کہ بچوں کو ان کے حقیقی باپ کی طرف نسبت کی جائے تا کہ بچوں کی ممکنہ حفاظت ہو سکے۔

 

9: جو بچے بغیر شادی کے پیدا ہوتے ہیں وہ وقت کے ساتھ کئی قسم کے معاشی، سماجی ،ذہنی،نفسیاتی اور اخلاقی مسائل کا شکار ہوتے ہیں لہذا عالمی سطح پر ایسے بچوں کی پیدائش کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات کیے جانے چاہییں۔

 

10: جہاں تک ممکن ہو بچوں کو Foster care homesیا یتیم خانوں مین بھیجنےکی بجائے والدین خود ان کی تربیت کریں، وقت رضاعت کو مکمل کریں تا کہ بچوں مین کسی قسم کی احساس کمتری پیدا نہ ہو سکے۔

 

ان مذکورہ بالا تجاویز کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اپنا کربچوں کو ان کے حقیقی حقوق سے آ شنا کیا جا سکتا ہے۔بچے بہتر تعلیم و تربیت حاصل کر کے ہی دنیا کی پیشوائی اور قیادت کر سکتے ہیں اور معاشرے میں فعال اور مئوثر کردار ادا کر سکتے ہیں ۔

 

خلاصہ بحث:

دین اسلام کا یہ خاصہ ہے کہ اس نے دنیا ئے زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہیں چھوڑا جس میں اس سے رہنمائی حاصل نہ کی جا سکتی ہو۔جہاں غلاموں اور عورتوں کے حقوق کی بات کرتا ہے وہی مزدور طبقہ کے حقوق بھی بیان کرتا ہے ۔لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشروں میں بچوں کی بابت مختلف مسائل پیدا ہونے لگے ۔کبھی تو کم عمری میں مزدوری کا بوجھ ڈال دیا گیا تو کہیں بچوں کو جسمانی و جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جا نے لگا،کہیں بچوں کو کم عمری میں فوج میں بھرتی کرکے جنگوں میں استعمال کیا جا رہا ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ دنیا کے تمام ممالک میں یہ مسائل شدت اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں ۔حالانکہ قوانین بھی موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہو پا رہا ۔اسی طرح مزدوری کے معاملے میں اسلام بچوں کو نہ تو اس کا پابند کرتا ہے اور نہ ہی اجازت دیتا ہے ۔لیکن اگر حالات اور معاملات کی بناء پر بچوں کی تعلیم و تربیت سے محرومی نہ ہو تو اس صورت میں کسی ہنر یا ٹیکنیکل کا م کے سیکھنے میں چائلڈ لیبر کا کوئی حرج نہیں ہے ۔حرج اس وقت اثر انداز ہوتا ہے جب انسانیت کے بنیادی تقاضوں کو پور ا کیے بغیر بچوں کی حیثیت سے زیادہ بوجھ ڈال دیا جاتا ہے ۔نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں کئی ایسے ممالک ہیں جہاں بچوں کی نا خواندگی کا مسئلہ عروج پر ہے ۔خاص طور پر ایشیا اور افریقہ میں نا خواندگی کا تناسب بہت زیادہ ہے اس پر توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے ۔اس طرف خصوصی توجہ پہلی دفعہ 1800ءمیں دی گئی جب (Orphan Train) کے ذریعے بچوں کے حقوق کی تحریک کا آغاز ہوا اور 1890ء میں (The National child lab our committee) نے چائلڈ لیبر کے خاتمے کی کوشش کی ۔اقوام متحدہ کے مختلف کنونشن میں بارہا دفعہ تمام ممالک پر زور دیا جاچکا ہے کہ بچوں کے حقوق کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں ۔مختلف قوانین بنائے جاتے ہیں لیکن کوتاہی ان کے عمل درآمد میں ہوتی رہی ہے جو کہ اب بھی جاری ہے ۔اقوام متحدہ یا یونسیف جیسی دوسری جتنی بھی تحریکیں بچوں کے معاملات میں کام کر رہی ہیں ان کو اب بچوں سے متعلقہ تمام قوانین کو دنیا کے سب معاشروں میں عملی طور پر نافذ کرنے کی نہ صرف ضرورت ہے بلکہ ان کے نفاذ کیلئے اپنا کردار اداکریں ۔ہمارے ملک پاکستان میں بھی چائلڈ لیبر کیلئے 18 سال کی قید قانونی طور پر موجود ہے لیکن اس کے باوجود غربت و افلاس ، تعلیم کی کمی اور کئی ایسے معاشرتی معاملات ہیں جن کی بدولت والدین بھی بچوں سے گھر کے چولہے کے جلانے کیلئے کام کروانے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔بہرحال جو قوانین بین الاقومی سطح پربنائے جاتے ہیں ان کو حکومتی سطح پر لاگو کرنے کیلئے بامقصد پالیسیز تیار کی جائیں تا کہ بچوں کو ان کے حقوق دئیے جاسکیں اور معاشرے کو مستحکم کیا جا سکے۔

حوالہ جات

  1. الرازی، محمد بن ابی بکر عبد القادر، مختار الصحاح،دار احیا ء التراث العربی، بیروت، ج1،ص212
  2. ابن سلام، القاسم الھروی ابو عید،امام، الغریب الحدیث، دالرالکتاب العربی، بیروت،ج2،ص149
  3. ابن منظور افریقی،محمد بن مکرم، امام، لسان العرب،دار صادر ، بیروت، ج11،ص402
  4. المقری الفیومی، احمد بن محمد بن علی، امام،المصباح المنیر،منشورات دار الھجرۃ، قم ،ایران،ج2،ص452
  5. العمران40:3
  6. ابن منظور افریقی، لسان العرب،ج14،ص452
  7. مریم12:19
  8. الرازی، محمد بن ابی بکر عبد القادر، مختار الصحاح، ج1،ص206
  9. العمران47:3
  10. ابن منظور افریقی، لسان العرب،ج10،ص120
  11. Child lab our country Data, UNICEF STATISTICS, Last update, May 2006
  12. البقرۃ286:2
  13. مالک بن انس،موطاامام مالک، کتاب الجامع ، باب الامر بالرفق با لمملوک،دار احیا ء التراث العربی، بیروت،رقم الحدیث1553
  14. کاسانی، علاؤالدین ابوبکر، امام، بدائع الصنائع،دارالکتاب العربی، بیروت، ج1،ص351
  15. ابو داؤد، سلیمان بن اشعث، امام سنن ابی داؤد،دارالسلام، ریاض،رقم الحدیث4774
  16. محمد ارشد، ڈاکٹر، پروفیسر، معاشی اور معاشرتی زندگی میں ولایت کا کردار،اسلامی اور مروجہ قوانین کی روشنی میں ،تحقیقی مقالہ برائے پی۔ایچ۔ ڈی، علوم اسلامیہ، شیخ زید اسلامک سنٹر ، پنجاب یونیورسٹی، لاہور، ص180
  17. Charter of fundamental rights of the European Union...... Prohibition of child labour and protection of young people at work.....www.europarl.europa.eu/charter/pdf/ texted .pd
  18. Convention No: 138 of the ILO, of 26 June 1973 concerning the minimum age for admission to employment. Convention No:182 of the ILO, of 17 June 1999 on the worst forms of child labor Council of Europe, European social charter,( ETS No.163) of 3 May 1996(revised) 
  19. Refugee children, victims of war and want refugee children, Hillary Mayell for National Geographic News. June 19, 2003. View a photo gallery of refugee children's lives.News.News.nationa geographic.com/news/2003/06/0619_030318_refugeechildren.htm
  20. women aid international 3 white hall court London sw1a2el www.wananaid.org/volunteermain.htm
  21. Women aid international 3 white hall court London sw1a2el (www.wananaid.org/volunteermain.htm)  
  22. الانفال72:8
  23. United nations convention on the rights of child 1989 
  24. ابن ماجہ، محمد بن یزید، امام، سنن ابن ماجہ، (المقدمہ) ،دارالسلام، ریاض ،رقم الحدیث220
  25. Convention on the rights of child, Adopted and opened for signature, rectification and accession by General assembly resolution 44/25 of 20 November 1989, entry into force 2 September 1990, in accordance with article 49. 
  26. محمد بن سعد، امام ، طبقات الکبریٰ،مطبوعۃ صادر بیروت،1388ھ،ج2،ص22
  27. UNICEF, Basic education , the challenge , primary school enrollment and Attendance, survival rate, to grade 5, Adult literacy, last update, Jan,2006.Http//www.childinfo.org /areas/education/
  28. As above
  29. Joel spring, the universal right to Education: justification, Definition & Guidelines. P55 
  30. Bob franklin, The new hand book of children's right comparative policy and practice, London and New York, p,5 www.care.org.uk// 6
Loading...
Issue Details
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
About Us

Asian Research Index (ARI) is an online indexing service for providing free access, peer reviewed, high quality literature.

Whatsapp group

asianindexing@gmail.com

Follow us

Copyright @2023 | Asian Research Index