1
1
2017
1682060029185_686
106-142
https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/8/304
https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/8
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز خواہ وہ جاندار ہو یا بے جان،ان کو بلا مقصد پیدا نہیں فرمایا۔ خالق کائنات ، کائنات کی ادنیٰ سے ادنیٰ چیز کو کسی مقصد کے بغیر پیدا کرنے سے بالا تر ہے ۔انسان اپنی عقل وشعور اورفہم وفراست کی بدولت اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ اشیاء کی مقصدیت کا ادراک کرلیتا ہے ۔ لیکن اگر بعض اوقات وہ اپنی کم عقلی کی وجہ سے کسی شئے کے مقصد کا ادراک کرنے سے قاصر ہو تو اس چیز کی تخلیق کو بے کار سمجھنے لگتا ہے ۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ۔[1]
ترجمہ:سو کیا تم خیال رکھتے ہو کہ ہم نے تم کو بنایا کھیلنے کو اور تم ہمارے پاس پھر کر نہ آؤ گے؟
دین اسلام نے خصوصی (معذور) افراد کی نگہداشت ،تالیف قلب اور بحالی پروگرام (Rehabilitation Program) کے ذریعے انہیں معاشرے کا جزومعطل اور بوجھ بنے بغیر اسلامی معاشرے کا ، کارآمد کارکن اور بہترین شہری بنا دیا اور وہ کسی بھی رکاوٹ اور ہچکچاہٹ کے بغیر معاشرے کے عام افراد کی طرح زندگی گزارنے کے قابل ہوگئے ۔اس کے برعکس عہد جدید کی مہذب اور ترقی یافتہ مغربی اقوام خصوصی افراد کےحوالے سے تمام کوششوں کو اپنی طرف منسوب کر رہی ہیں۔اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تویہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ دین اسلام نے معذور افراد کے مسائل کا جو حل پیش کیا ہے ،ان کی نگہداشت ،تالیف قلب اور ان کی بحالی کے سلسلہ میں ان کو جو سہولیات اور مواقع فراہم کیے ہیں ،جس طرح معذور افراد کی نگہداشت کر کے ان کو معاشرے کے دیگر افراد کے برابر لا کھڑا کیا ہے ،اس کی مثال دنیا کے کسی دوسرے مذہب میں نہیں پائی جاتی۔
معذوریت کا معنی ومفہوم ، تعریف اور اصطلاحات:
معنی ومفہوم:
معذوریت ایک جامع اور وسیع اصطلاح ہے انسانی طبیعت ومزاج کی حساسیت اور جسمانی ودماغی عوارض معذوری کے مفہوم میں شامل ہیں ۔زندگی کے معاملات وفرائض انسانی جسم کی جزوی و کلی عدم صلاحیت سے متاثر ہوتے ہیں ۔ معذور افراد معاشرے کے دوسرے افراد کے مدمقابل برابر کی سطح پر کام کرنے یا فرائض سر انجام دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔اردو زبان میں معذوری کا لفظ دماغی وجسمانی عیب اور نقص ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔معذوری عربی زبان کالفظ ہے جس کا مادہ ’’ع ذ ر“ہے ۔اور باب ’’عذر یعذر“ سے اسم مفعول ہے ۔[2] اس کا معنی عذر رکھنے والا شخص ہے یعنی دماغی یا جسمانی بندش رکھنے والا اور عارضہ رکھنےوالا فرد ۔عربی لغت کے اعتبار سے اس لفظ کا اطلاق صرف دماغی وجسمانی عیب ونقص پر نہیں ہوتا بلکہ یہ لفظ اپنے لغوی مفہوم میں معنوی وسعت اور عمومیت رکھتا ہے۔سفر،بیماری ،معذوری اور خواتین کے عوارض معذوریت کے مفہوم میں شامل ہیں ۔
اسلامی فقہ میں وہ تمام افراد جو کسی شرعی عذر (بیماری ،سفر،معذوری اور نسوانی عوارض) کی بناء پر دینی احکام پر عمل نہ کر سکتے ہوں یا انہیں دینی احکام کے باب میں کچھ رخصتيں حاصل ہوں تو انہیں ’’اہل الاعذار“ کی اصطلاح سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔معذوریت کے عالمی تناطر میں معذوری کی قابل عمل تعریف برطانوی قانون (برائے معذور افراد ) پیش کرتا ہے ۔
A physical or mental impairment which has a substantial and long term adverse effect on a person’s ability to carry out normal day to day activities.[3]
ایک ایسا جسمانی یا دماغی عارضہ جو انسان کے روزانہ کے معمولات زندگی انجام دینے کی اہلیت وصلاحیت پر گہرے اور لمبے اثرات رکھتا ہو یعنی انسان کے کام کرنے کی صلاحیت ختم یا کم کر دے ۔
ماہرین طب کے مطابق:ہر وہ شخص جس کے لئے عارضی نہیں بلکہ مستقل بنیادوں پر عام کاروبارِ زندگی میں حصہ لینا محدود بن جائے، اسے معذور کہتے ہیں۔[4]
ماہرین کے مطابق معذوری جسمانی، ذہنی اور روحانی بھی ہوسکتی ہے۔ ہر وہ شخص جس کے لئے عارضی نہیں بلکہ مستقل بنیادوں پر عام کاروبار زندگی میں حصہ لینا محدود بن جائے، اسے معذور کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق زیادہ تر واقعات میں معذوری کسی بیماری کا نتیجہ ہے۔
دوسری تعریف:
انسانی بدن کو ایسی چیز عارض ہونا جن سے اُس کے مزاج اور اعتدال میں فرق ہو اور اُس کی کارکردگی اس کی وجہ سے متاثر ہو اسے معذوری کہتے ہیں۔[5]
اقوامِ متحدہ (United Nation)کے مطابق:
اقوامِ متحدہ کے کنونشن (برائے معذور افراد کے حقوق)کے مطابق ۔۔۔۔ وہ افراد جنہیں طویل المیعاد جسمانی ،ذہی یا حسیاتی کمزوری کا سامنا ہو جس کی وجہ سے انہیں معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے میں رکاوٹ پیش آتی ہو، انہیں معذور کہا جاتا ہے۔[6]
معذوری کی تعریف:
انسانی جسم میں کسی بھی عضو یا جسم کے کسی بھی حصے یا جسمانی صحت کے بنیادی اُصول سے محرومی کے حامل افراد معذور کہلاتے ہیں۔ معذوری ذہنی بھی ہوسکتی ہے اور جسمانی بھی، پیدائشی بھی ہوسکتی ہے اور حادثاتی بھی۔[7]
تشریح وتوضیح:
معذوریت کے تناظر میں مندرجہ با لا تعریفات جامع ،موثر اور قابل عمل ہیں ۔ ان تعریفات سے وہ تمام بیماریاں مثلا شوگر ، بلڈپریشر وغیرہ جو انسان کے معمولات وفرائض زندگی متاثر کرنے کی حد تک بڑھ چکی ہوں، معذوریات شمار کی جائیں گی ۔ایسا جسمانی عارضہ یا پیدائشی نقص جو انسان کے حواس ، احساسات ، سماعت،بصارت اورسوچنے سمجھنے کی صلاحیت اس حد تک متاثر کر دے کہ انسان کے لئے اپنے وجود کوقائم رکھنا مشکل ہوجائے ،تو اسے معذوریت سے تعبیر کیا جائے گا ۔
اہم اصطلاحات :
اپاہج اور مفلوج کی اصطلاحات اب متروک الاستعمال ہیں کیونکہ یہ اصطلاحات معذور افراد کی زندگی کے لئے ایک مکمل نا کارہ پن کا فہم دیتی ہیں۔ ان اصطلاحات کے استعمال سے معذور افراد احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں ۔معذوریت کے حوالے سے مندرجہ ذیل اصطلاحات کا جاننا ضروری ہے۔
خصوصی ضروریات :
خصوصی ضروریات وہ ضروریات ہیں جن کے حصول کا معذور افراد قانونی حق رکھتے ہیں۔ جیسے معذوریت کی مختلف اقسام ہیں اسی طرح ان کی ضروریات کی بھی مختلف اقسام ہیں۔
خصوصی حقوق:
وہ حقوق جو معذور افراد کو ان کی ضروریات کی وجہ سے حاصل ہوتے ہیں۔
خصوصی افراد: خصوصی افراد سے مراد معذور افراد ہیں۔
مکمل شرکت:
مکمل شرکت سے مراد معاشرے کی تعمیروترقی میں معذور افراد کی بھرپور شرکت ہے۔
مساوات:
یعنی معذور افراد کو معاشرے میں دوسرے لوگوں کے برابر معیار زندگی فراہم کرنا ۔
خصوصی (معذور) افراد کے لیے قرآنی الفاظ :
خصوصی افراد کی معذوری کے لیے قرآن مجید میں اشارۃً وکنایۃ ً اور واضح خوبصورت اسلوب میں جو اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں ،وہ درج ذیل ہیں ۔
1. أُولِي الضَّرَرِ:
لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ ۔[8]
مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو کسی معذوری کے بغیر گھر بیٹھے رہتے ہیں اور وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتے ہیں ، دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے ۔
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺنے (کاتب وحی)حضرت زید بن ثابتؓ کو بلایا تاکہ آیت کریمہ (لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ) لکھ دیں۔ وہ دوات اور لوح لے کر آئے آپ نے فرمایا: (لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ) آپ کے پیچھے ابن ام مکتوم موجود تھے جو نابینا تھے، انہوں نے عرض کیا کہ میں تو بینائی سے محروم ہوں، مجھے یہ فضیلت کیسے ملے گی؟ اس پر لفظ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ نازل ہوا۔ اور اب آیت اس طرح ہو گئی (لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ۔) جس میں یہ بتا دیا کہ جو لوگ صاحب عذر ہیں آیت کا عموم ان کو شامل نہیں۔[9]
انگلش میں’’أُولي“کا ترجمہPersons کے لفظ سے ادا کیا جاتا ہے جبکہ ’’الضَّرَرِ“کامتبادل لفظ Difficultہے۔لہٰذا’’أُولِي الضَّرَرِ“کاصحیح انگریزی ترجمہ Persons with difficulties ہوگا۔اقوام متحدہ کی معذوریت سے متعلقہ تمام دستاویزات میں معذور افراد کو اسی لفظ کے ساتھ لکھا گیاہے۔اسکے علاوہ برطانوی قوانین میں بھی معذور افراد کے لیے یہی لفظ استعمال کیا گیا ہے۔[10]
2.الضعفاء:
لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْضَى وَلَا عَلَى الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنْفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ۔[11]
ان لوگوں پر جو کمزور ،بیمار اور جن کے پاس زادراہ نہیں تھا ،کوئی گناہ نہیں ہے بشرط یہ کہ وہ خلوص دل کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ وفادار ہوں۔
”الضُّعَفَاء“ کا اردو زبان میں ترجمہ عمر رسیدہ اور کمزور شخص ہےجبکہ انگریزی میں اس کا صحیح ترجمہ جس سے قرآن کی اصل مراد بھی واضح ہوتی ہے ،وہ یہ ہے:
Persons with difficulties/ disabilities.
3.الْمُسْتَضْعَفِينَ:
إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا فَأُولَئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَسَاءَتْ مَصِيرًا إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلَا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا فَأُولَئِكَ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَعْفُوَ عَنْهُمْ وَكَانَ اللَّهُ عَفُوًّا غَفُورًا۔[12]
جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے ان کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور و مجبور تھے ۔ فرشتوں نے کہا، کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنّم ہے اور وہ بڑا ہی برا ٹھکانا ہے ۔ ہاں جو مرد، عورتیں اور بچے واقعی بے بس ہیں اور نکلنے کا کوئی راستہ اور ذریعہ نہیں پاتے(وہ اس وعید سے مستثنیٰ ہیں)۔
’’الْمُسْتَضْعَفِين “ کی اصطلاح سورۃ النساء میں استعمال ہوئی ہےجس کا پس منظر یہ ہے کہ جن مسلمانوں نے ہجرت کا حکم نازل ہونے کے باوجود ہجرت کرنے سے گریز کیا ،اللہ تعالیٰ نے ان کو سخت وعید سنائی اور ان کا ٹھکانا دوزخ قرار دیالیکن بے بس مرد،بچے اور خواتین کو اس وعید سے مستثنیٰ قرار دیا۔ ’’الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَان“ کا اردو ترجمہ کمزور مرد،کمزور عورتیں اور کمزور بچے ہے۔کمزور سے مراد صحت کے لحاظ سے کمزور،زادراہ کی عدم دستیابی اور راستے سے بے خبری ہونا ہے۔ نابینا اورلنگڑے افراد وغیرہ بھی اس اصطلاح میں شامل ہیں۔ ’’الْمُسْتَضْعَفِين “ کا انگریزی ترجمہ Week کیا جاتا ہے ،لغوی اور لفظی اعتبار سے تو یہ ترجمہ درست ہو سکتا ہےلیکن قرآن مجید میں ’’الْمُسْتَضْعَفِين “کالفظ اصطلاح کےطورپراستعمال ہواہےلفظ Week سےقرآنی اصطلاح کی صحیح ترجمانی نہیں ہوتی۔اس اصطلاح کاصحیح ترجمہ ہے:
Person, Women and Children with difficulties/disabilities
4.الفقراء:
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ۔[13]
صدقات تو صرف حق ہے غریبوں کا ،محتاجوں کا ، جو کارکن ان صدقات ( کی تحصیل وصول کرنے ) پر متعین ہیں،جن کی دلجوئی کرنا ( منظور) ہے ، غلاموں کی گردن چھڑانے میں (صرف کیا جائے)، قرض داروں کے قرضہ ( ادا کرنے ) میں ، اللہ کے راستےمیں اور مسافروں کی (امداد ) میں، یہ حکم اللہ کی طرف سے مقرر ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے علم والے بڑی حکمت والے ہیں
مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے آٹھ مصارف بیان فرمائے ہیں۔جن میں سے پہلا مصرف ’’الفقراء “ ہے۔ عربی لغت کے اعتبار سے فقیر سے مراد وہ شخص ہے جس کی ریڑھ کی ہڈی ، کڑے اور مہرے ٹوٹ گئے ہوں۔جس شخص کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے اس کے جسم کا نچلا حصہ مفلوج و معذور ہو جاتا ہےاور وہ شخص اکتساب معاش کے قابل نہیں رہتا۔عربی لغت میں لفظ فقیر کا اصل اطلاق معذور فرد پر ہوتا ہے۔
خصوصی (معذور) افراد کے لیے قرآنی الفاظ کے معنی ومفاہیم اور اہل علم کی اصطلاحات:
1. أُولِي الضَّرَرِ:
کا مادہ "ضر "اور" ضرر" ہے جس کے معنی اہل لغت نے بدحالی ،غربت ،علم وفضل کے فقدان جسمانی تکلیف ،دائمی مرض ، بصارت کی کمزوری وغیرہ کے کیے ہیں ۔امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں:
الضر:سوء الحال؛إما في نفسه لقلة العلم والفضل والعفة؛ وإما في بدنه لعدم جارحة ونقص؛وإمافي حالة ظاهرة من قلة مال وجاه[14]وقوله: {فَكَشَفْنَامَابِهِ مِنْ ضُرٍّ}[15]
ترجمہ: ضر : کا معنی ہے ابتری حال،چاہے وہ کسی میں علم و فضل اور عفت کی کمی کے باعث ہو یا پھر بدن میں کسی عضو کے معدوم ہونے یا پھر کسی اورنقص کی وجہ سے ہو۔یا پھر ظاہری حالت میں مال وجاہ کی کمی کی وجہ سے ہو ۔ قرآن میں ہے کہ: { جو تکلیف اسے تھی هم نےاس کو دور کر دیا}۔
الضر:ما كان من سوء حال أو فقر،أو شدة في بدن.[16]وفي الكتاب الكريم: {وَ إِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْبِهِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَائِمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَنْ لَمْ
يَدْعُنَا إِلَى ضُرٍّ مَسَّهُ كَذَلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ}۔[17]
ضر کا معنی ہے ابتری حال،فقر یا کوئی بدنی مصیبت،قرآن پاک میں ہے کہ: { اور انسان (کی تنگ ظرفی اور ناشکری) کا عالم یہ ہے کہ جب کوئی تکلیف اس کو پہنچتی ہے، تو یہ (رہ رہ کر) ہم کو پکارتا ہے، لیٹے، بیٹھے اور کھڑے، (ہر حال میں) لیکن جب ہم دور کردیتے ہیں، اس سے تکلیف کو، تو یہ (اپنے غرور میں) ایسے چل دیتا ہے کہ گویا اس نے کبھی ہم کو پکارا ہی نہیں تھا، کسی ایسی تکلیف کے لئے جو اس کو پہنچی تھی، اسی طرح خوشنما بنا دیے جاتے ہیں حد سے بڑھنے والوں کے لئے ان کے وہ کرتوت جو وہ کر رہے ہوتے ہیں۔}
الضرر: الضيق{تنگی}،العلة تقعد عن جهاد، ونحوه۔[18]{ایسی بیماری (معذوری) جو جہاد وغیرہ کرنے سے روک دے ۔}
وفي التنزيل العزيز: {لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا}۔[19]
قرآن عزیز میں ہے: {مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو کسی معذوری کے بغیر گھر بیٹھے رہتے ہیں اور وہ جو اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتے ہیں، دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے ۔ اللہ نے بیٹھنے والوں کی بہ نسبت جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ بڑا رکھا ہے ۔ اگرچہ ہر ایک کے لیے اللہ نے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے، مگر اس کے ہاں مجاہدوں کی خدمات کا اجر بیٹھنے والوں سےبہت زیادہ ہے۔}
الضراء، الشدة، وفي الحديث الشريف: " ابتلينا بالضراء، فصبرنا، وابتلينا بالسراء،
فلم نصبر " يريد أننا اختبرنا بالفقر، والشدة.والعذاب، فصبرنا عليه، فلما جاءنا السراء: وهي الدنيا، والسعة۔[20]
الضراء، کا معنی ہے مصیبت ، حدیث میں ہے کہ : ہمیں مصیبت کے ذریعے سے آزمایا گیا تو ہم نے صبر کیا اورخوشحالی کے ذریعے سے آزمایا گیا تو ہم نے صبر نہ کیا ۔ مراد یہ ہے کہ ہمیں فقر و مصیبت اور عذاب کے ذریعے سے جب آزمایا گیا تو ہم نے صبر کیا اور جب خوشحالی آئی جو کہ دنیا اور کشادگی ہے ۔
ضر:الضَّرُّوالضُّرُّ لُغَتَانِ:ضِدُّالنَّفْعِ،ضَرَّه يَضُرُّه،وأضَرَّبه يُضِرُّ،وضارَه يَضِيْرُه، والضَّرَرُ:نُقْصَانٌ يَدْخُلُ في الشَّيْءِ والضَّرّاءُ:ضِدُّالسَّرّاءِ والضِّرَارُ:مَصْدَرُضارَّه في الحَدِيثِ: لاضَرَرَولاضرَارَ[21]
”الضَّرُّ“اور”الضُّرُّ“دونوں طرح سے مستعمل ہے ۔ یہ نفع کی ضد ہے ۔ ضَرَّه يَضُرُّه، وأضَرَّ به يُضِرُّ،وضارَه يَضِيْرُهاورالضَّرَرُ سے مراد وہ نقصان ہے جو کسی شے کولاحق ہوتا ہے ۔ الضَّرّاءُ، السَّرّاء کا متضاد ہے ۔ ”الضِّرَارُ“فعل”ضارَّ“ کا مصدر ہے ۔ حدیث میں ہے کہ: نہ نقصان اٹھاؤ اور نہ نقصان دو ۔
"ضُرٌّ"بِالضَّمِّ وَمَا كَانَ ضِدَّ النَّفْعِ فَهُوَ بِفَتْحِهَا وَفِي التَّنْزِيلِ {مَسَّنِيَ الضُّرُّ} [الأنبياء: 83] أَيْ الْمَرَضُ وَالِاسْمُ الضَّرَرُ وَقَدْ أُطْلِقَ عَلَى نَقْصٍ يَدْخُلُ الْأَعْيَانَ وَرَجُلٌ ضَرِيرٌ بِهِ ضَرَرٌ مِنْ ذَهَابِ عَيْنٍ أَوْ ضَنًى وَضَارَّهُ مُضَارَّةً وَضِرَارًا بِمَعْنَى ضَرَّهُ وَضَرَّهُ إلَى كَذَا وَاضْطَرَّهُ بِمَعْنَى أَلْجَأَهُ إلَيْهِ وَلَيْسَ لَهُ مِنْهُ بُدٌّ وَالضَّرُورَةُ۔ [22]
”ضُرٌّ“ کا لفظ ضاد کے ضمہ کے ساتھ ہے ۔ ضاد کے فتح کے ساتھ اگر پڑھا جائے تو یہ نفع کا متضاد ہوتاہے ۔ قرآن پاک میں ہے کہ: {مَسَّنِيَ الضُّرُّ}یعنی مرض ، اس سے اسم” الضرر“ آتاہے اور اس سے مراد وہ نقصان ہے جو اشیاء کو لاحق ہوتاہے ۔ ” رجل ضَرِيرٌ “اس شخص کو کہا جاتاہے جس میں کوئی نقص ہو مثلااس کی آنکھ خراب ہویا پھر کوئی بیماری وغیرہ ہو، ”ضارہ“ ، ”مضارۃ “اور ”ضرار“ کا معنی وہی ہے جو ”ضر“ کا ہے ۔ ” ضر“اور ” اضطر“ کو جب ” الی“ کے صلے کے ساتھ استعمال کیا جائے تو اس کا معنی ہوتا ہے کہ کسی کو کسی ایسے کام پر مجبور کردینا جو ضروری ہو اور جس کے بغیر چارہ نہ ہو ۔
المعجم الوسیط کے مطابق:
(الضّر) مَا كَانَ من سوء حَال أَو فقر أَو شدَّة فِي بدن وَفِي التَّنْزِيل الْعَزِيز {مسناوأهلناالضّر} وَقَالَ {وَأَيوب إِذْ نَادَى ربه أَنِّي مسني الضّر وَأَنت أرْحم الرَّاحِمِينَ}[23]
”الضر“ کا مطلب ہے ابتری حال ، فقر اور کوئی بدنی مصیبت، قرآن میں ہے کہ : {ہم اور ہمارے اہل و عیال سخت مصیبت میں مبتلا ہیں} ، حضرت ایوبؑ نے کہا: {یاد کرو، جبکہ اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے}۔
مفسرین اور فقہاء نے ”اولی الضرر“ میں متاثرہ بصارت ،جسمانی معذوری ،مریض اور تنگ دست افراد کو شامل کیا ہے۔
2. الضعفاء،الْمُسْتَضْعَفِينَ:
” الضعفاء “ اور” الْمُسْتَضْعَفِينَ “ كا ماده ضعف ہے جس کے معنی اہل لغت نے کمزور، ناتواں،بے بس اور متاثرہ برائے بصارت وغیرہ کیے ہیں ۔
الضعف : الضَّعْفُ في العقل والرأي، والضُّعْفُ في الجسد۔[24]
”الضعف“کا معنی ہے کوئی ایسی کمزوری جو عقل، رائے اور جسم میں ہو ۔
مفسرین اور فقہاء کرام نے ’’الضعفاء “اور ’’الْمُسْتَضْعَفِينَ “میں دائمی مریض ،ادھیڑ عمر بوڑھے ،نابینا اور ذہنی و جسمانی طور پر معذور افراد کو شامل کیا ہے ، فقہاء کرام نے اس کی تصریح کرتے ہوئے اس کا دائرہ کار وسیع بھی کیا ہے ۔امام قرطبی فرماتے ہیں :
(لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ۔[25]) لَا حَرَجَ عَلَى الْمَعْذُورِينَ، وَهُمْ قَوْمٌ عُرِفَ عُذْرُهُمْ كَأَرْبَابِ الزَّمَانَةِ وَالْهَرَمِ وَالْعَمَى وَالْعَرَجِ۔[26]
یعنی معذورین کے لئے کوئی حرج نہیں ، اور ان سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا عذر معروف ہو مثلا کسی مہلک مرض میں مبتلا ہوں یا بوڑھے ہو یا پھر انہیں اندھا پن یا لنگڑا پن لاحق ہو ۔
ابن قدامہ مقدسی (لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ) کی وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس سے مراد اہل الاعذار ہیں ،جو کہ چارہیں :العمى،والعرج،والمرض،والضعف[27]اندھاپن، لنگڑاپن بیماری ،کمزوری.
3. الفقراء:
”الفقراء“ کا مادہ ” فقر“ ہے ۔جس کے معنی اہل لغت نے تنگ دست ،مفلس ،محتاج، جس کے پاس اہل خانہ کی کفالت سے زائد رزق نہ ہو،کیے ہیں ۔اصل میں اس شخص کو فقیر کہا ہے جس کی پشت کے کڑے اور مہرے ٹوٹ گئے ہوں ۔صاحب لسان العرب اور تاج العروس فرماتے ہیں :
وَهُوَ مَا انْتَضَدَ من عِظَامِ الصُّلْب مِنْ لَدُنِ الكاهِلِ إِلى العَجْب۔[28]
اس سے مراد کندھے سے لے کر دمچی تک کمر کی ترتیب کے ساتھ لگی ہوئی ہڈیاں ہیں ۔
امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں:
الفَقِيرِ:هوالمكسورُ الْفِقَارِ۔[29] فقیر سے مراد وہ شخص ہے جسکی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہو .
مفسرین اور فقہاء نے فقراء اور مساکین دونوں لفظوں کی تعبیر وتشریح میں متعدد اقوال نقل کیے ہیں۔بعض نے معنی ومفاہیم میں اہل لغت سے موافقت بھی کی ہے ،لیکن محققین نے یہ معنی مراد لیے ہیں :ان کے ہاں فقیر نادر ہے جس کا مطلب جولوگوں سے تنگ دست ہونے کے باوجود سوال نہ کرے،حضرت ابن عباس اور حسن بصری اور جابر بن زید ،مجاہد اور امام زہری سے بھی یہی منقول ہے:
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ليس المسكين الذي يطوف على الناس ترده اللقمة واللقمتان والتمرة والتمرتان ولكن المسكين الذي لا يجد غنى يغنيه ولا يفطن به فيتصدق عليه ولا يقوم فيسأل الناس"۔[30]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺنے فرمایا: مسکین وہ شخص نہیں ہے جو لوگوں سے مانگتا پھرتا ہے اور لوگ اسے ایک لقمہ یا دو لقمہ اور کھجوریں دیتے ہیں بلکہ مسکین شخص وہ ہے جو اتنا بھی مال نہیں رکھتا کہ وہ اس کی وجہ سے مستغنی ہو اور اس کے ظاہری حالات کی وجہ سے لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ محتاج و ضروت مند ہے اسے صدقہ دیا جائے نیز لوگوں کے آگے دست سوال دراز کرنے کے لئے گھر سے نہیں نکلتا۔
قرآن کریم میں جس طرح زکوٰۃ و صدقات کی اہمیت اور فضیلت بیان کی گئی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں زکوٰۃ کے مصارف اور زکوٰۃ کے مستحقین کو بھی بیان فرمایا ہے:
} إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ۔[31] {۔
} صدقہ کا مال صرف فقیروں اور مسکینوں کے لئے ہے، اور عمال کے لئے ،اور ان لوگوں کیلئے جن کی تالیف قلب کی جائے اور غلاموں کی آزادی پرخرچ کرنے کیلئے اور قرض داروں
کے قرض ادا کرنے کیلئےاور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے اور مسافر کے لئے {۔
اس آیت میں آٹھ قسم کے لوگ بیان کیے گئے ہیں جو صدقات واجبہ مثلاً زکوٰۃ وغیرہ کا مال لینے کے مستحق ہیں ان کے سوا کسی دوسرے کو زکوٰۃ کا مال دینا جائز نہیں ہے، ان میں سے بھی حنفیہ کے نزدیک مؤلفۃ القلوب کا حصہ ساقط ہو گیا ہے ۔[32]اس لئے ان کے ہاں مستحقین زکوٰۃ کی سات قسمیں باقی رہ گئی ہیں۔ بہرحال حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس آیت میں جن مسکینوں کا ذکر کیا گیا ہے ان سے وہ مسکین مراد نہیں ہیں جو عرف عام میں مسکین کہلاتے ہیں اور جن کا کام یہ ہوتا ہے کہ مانگنے کے لئے ہر ”در“ پر مارے مارے پھرتے ہیں جس دروازے پر پہنچ جاتے ہیں روٹی کا ایک آدھ ٹکڑا ،یا آٹے کی ایک آدھ چٹکی اپنی جھولی میں ڈلوا کر رخصت کر دیے جاتے ہیں، بلکہ حقیقی مسکین تو وہ لوگ ہیں جنہیں نان جویں بھی میسر نہیں ہوتیں مگر ان کی شرافت و خودداری کا یہ عالم ہوتا ہے کہ ان کی بغل میں رہنے والا ہمسایہ بھی ان کی اصل حقیقت نہیں جانتا، وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے ، اپنی احتیاج و ضرورت کی جھولی پھیلا کر گھر گھر نہیں پھرتے بلکہ وہ اپنے اللہ پر اعتماد و بھروسہ کیے ہوئے اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں۔
معذوری کی اقسام :
ماہرین معزوری کے تین قسمیں بیان کرتے ہیں۔
1:جسمانی معذوری :==
جسمانی معذوری سے مراد انسان کے جسم میں ایسا نقص، زخم یا عیب ہو جو انسانی زندگی کے معمولات سر انجام دینے میں رکاوٹ پیدا کرتا ہو ۔
2:ابلاغی معذوری ==
قوتِ گویا ئی یا سماعت میں کمی یا مکمل طور پر اس صلاحیت کا نہ ہونا ابلا غی معذوری کہلاتا ہے۔
3:دماغی معذوری
معذوری کی یہ قسم مذکورہ تینوں اقسام میں سب سے زیادہ خطرناک تصور کی جاتی ہے۔دماغی معذوری اپنی شدت میں کم یا زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔مکمل ذہنی پسماندگی یا دماغی صلاحیتوں کا متاثر ہونا بھی دماغی معذوری میں شامل ہے۔بعض ممالک میں ایسے بچوں کو پاگل قرار دے دیا جاتا ہے۔دماغی طور پر معذور افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔دماغی طور پر معذور افراد بظاہر نارمل ہی کیوں نہ نظر آرہے ہوں ،لیکن وہ سوچنے پر مکمل طور پر قادر نہیں ہوتے۔ بعض دماغی امراض کینسر، شوگر اور بلڈ پریشر جیسی موزی امراض سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہیں ۔دماغی امراض اکثر اوقات بچپن سے لاحق ہو جاتی ہیں اور بعض دفعہ اس کا سبب زندگی میں پیش آنے والے تلخ حادثات اور واقعات بھی بن جاتے ہیں بہرحال ایسی کسی بھی صورت میں اگر بر وقت کسی اچھے معالج سے اس کا علاج کروایا جائے تو شفا یا بی ممکن ہے ورنہ دوسری صورت میں ایسے افراد معاشرے اور دھرتی پر بوجھ بن کر رہ جاتے ہیں ۔
معذور افراد کے حقوق:
معذور افراد انسانی معاشرے کا وہ حصہ ہیں جو عام افراد کی نسبت ذیادہ توجہ کے مستحق ہوتے ہیں۔عصر حاضر میں معذور افراد کے حقوق کے لیے جو کوششیں ہو رہی ہیں ان سے کہیں ذیادہ اسلام نے چودہ سو سال قبل معذور افراد کے لیے ، ان کے حقوق کے تحفظ اور نگہداشت کا اہتمام کیا ۔معذور افراد کی بحالی،تعلیم اور روز گار وغیرہ خصوصی حقوق ہیں۔خصوصی حقوق سے مراد وہ حقوق ہیں جو معذور افراد کو ضروریات کی بناء پر حاصل ہوتے ہیں،وجہ حقوق اگر صرف معذوری ہو تو وہ حق نہیں ہوتا بلکہ رحم کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔فطرت نے آپ کے دل میں جو درد انسانیت رکھا ہے اس بناء پر آپ کسی سے اچھا برتاؤ کریں۔یہ ہر انسان کے اپنے اختیار میں ہوتا ہے کہ وہ کسی سے ایسا برتاؤ کرے یا نہ کرے۔مگر حق وہ ہوتا ہے جس کے ادا کرنے پر وہ مجبور ہو ۔لہٰذا معذور افراد کی جو ضروریات ہیں ان کی بنیاد رحم وکرم پر نہیں بلکہ وہ ان کے حقیقی حقوق ہیں۔کوئی بھی مہذب معاشرہ معذور افراد کو نظر انداز کرنے یا انہیں معاشرے میں قابل احترام مقام نہ دینے کا درس نہیں دے سکتا۔اسلام احترام انسانیت کا علمبردار دین ہے۔چونکہ معذور افراد معاشرے میں اپنی شناخت اور وقار کے لیے خصوصی توجہ کے مستحق ہوتے ہیں ،اس لیے اسلام نے اس بارے میں بھی خصوصی تعلیمات دی ہیں ۔یہ بات واضح رہے کہ وہ تمام حقوق جو معاشرے کے عام افراد کو میسر ہوتے ہیں ،معذور افراد بھی برابری کی بنیاد پر ان حقوق کے مستحق ہوتے ہیں۔تاہم معذور افراد کو معاشرے کے عام لوگوں کے علاوہ اسلام نے کچھ خصوصی حقوق بھی عطا کیے ہیں، معذور افراد کی قوتوں اور صلاحیتوں کو مناسب انداز میں بروئے کار لاتے ہوئے انہیں معاشرے کا کارآمد جزو بنایا جائے۔ معذور افراد کی نگہداشت اور بحالی کے حوالے سے جو اسلامی تعلیمات ،افکار اور خدمات ہیں ،ان کا مختصر خاکہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔
خصوصی توجہ کا حق:
اسلام نے زندگی کے معاملات میں ہر فرد کو بلا تمیز رنگ ونسل یا سماجی مرتبہ کے مساوی حیثیت عطا کی ہے یہ عام معاشرتی رویہ ہے کہ معذور افراد کو زندگی کے عام معاملات اور میل جول میں نظر انداز کرنے کی روش اختیار کی جاتی ہے۔قرآن کریم نے اس روش کی مذمت کرتے ہوئے نفس انسانیت کو عزت ووقار کا مستحق قرار دیا ہے۔اسلام نے اسلامی نظام زندگی میں معذور زندگی کی حیثیت اپنے آغاز میں ہی طے کر دی تھی۔سورۃ عبس اسلام کے ابتدائی زمانہ میں نازل ہوئی،اس سورت کی ابتدائی آیات معذور افراد سے متعلق ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ دعوت دین کے پیش نظر ہر وہ آدمی اہم ہے جو طلب حق رکھتا ہو ،خواہ وہ اندھا،لنگڑا یا لولا ہی کیوں نہ ہو۔سورت عبس کی ابتدائی آیات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اپنے دامن میں معذور افراد کی زندگی کو کس قدر اہمیت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے؟
اسلامی نظام حیات ایک عمارت ہے جس طرح کہ نبی کریم ﷺنے ختم نبوت کو ایک عمارت سے تشبیہ دی ہے۔اس عمارت کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے تیار کیا اور حضور ﷺ نے اس نقشہ کے مطابق عمارت کو تیارکیا ۔اس عمارت کی تعمیر کے لیے نبی کریم ﷺ کو سریا،سیمنٹ اور ریت وغیرہ کی ضرورت تھی اور یہ چیزیں آپ ﷺ کے پاس امانت ،دیانت،عدل،ایثار،ایفائے عہد،صداقت اور ادائے حقوق کی صورت میں موجود تھیں لیکن ان تمام چیزوں کے ہوتے ہوئےپختہ اینٹوں(مضبوط ایمان والے لوگوں ) کی ضرورت تھی تا کہ عدل وانصاف پر مبنی اسلامی نظام حیات کی عمارت کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔ان پختہ اینٹوں کی تلاش میں نبی کریم ﷺنے کوشش شروع کر دی اور آپؐ کی بہت زیادہ خواہش تھی کہ مکہ کر سردار اسلام لے آئیں تو اسلام کی عمارت کو پختہ اینٹیں میسر آ جائیں گی۔لیکن مکہ کے سرداروں کا رویہ متکبرانہ تھا وہ نہ صرف آپ ﷺ کو حقارت کی نظر سے دیکھتے بلکہ جو لوگ اسلام کو دعوت کو قبول کرلیتے وہ انہیں بھی حقارت کی نظرسے دیکھتے تھے اور کہتے کہ یہ کیسا دین ہے؟ جس کے ماننے والے غریب،کمزور،نابینے اور لولے لنگڑے افراد ہیں۔ پیغمبر ﷺنے اخلاص پر مبنی اسلام کی دعوت دینے کے لیے مکہ کے سرداروں کے لیے ایک نشست کا اہتمام کیا، عین اسی وقت جب آپ ﷺسرداروں کو دعوت دے رہے تھے تو ایک نابینے صحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتوم بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور نبی کریم ﷺ کے کچھ پوچھنا چاہا ۔رسول اللہ ﷺ کو حضرت عبداللہ بن ام مکتوم کی مداخلت ناگوار گزری اور آپ ﷺنے اپنا چہرہ مبارک ان سے موڑ لیا آپ ﷺکا خیال تھا کہ میں اس وقت جن لوگوں کو اسلام کی دعوت دے رہا ہوں ، اگر ان میں سے کوئی ایک شخص بھی ہدایت پا گیا تو اسلام کی تقویت کا سبب بن سکتا ہے۔بخلافحضرت عبداللہ بن ام مکتوم کے جو ایک نابینے آدمی ہیں،اس لیے ان کو اس موقع پر مداخلت نہیں کرنی چاہیے تھی ۔ اس لیے آپ ﷺحضرت عبداللہ بن ام مکتوم کی طرف متوجہ نہ ہو سکےتو اس پر یہ آیات نازل ہوئیں:
عَبَسَ وَتَوَلَّى أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمَى وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى أَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنْفَعَهُ الذِّكْرَى أَمَّا مَنِ اسْتَغْنَى فَأَنْتَ لَهُ تَصَدَّى وَمَا عَلَيْكَ أَلَّا يَزَّكَّى وَأَمَّا مَنْ جَاءَكَ يَسْعَى َهُوَ يَخْشَى فَأَنْتَ عَنْهُ تَلَهَّى كَلَّا إِنَّهَا تَذْكِرَةٌ فَمَنْ شَاءَ ذَكَرَهُ۔[33]
وہ ( پیغبر علیہ السلام ) ترش رو ہوئے اور اپنا چہرہ مبارک موڑ لیا۔ (صرف اس لئے) کہ آپ ﷺ کے پاس ایک نابینا آیا (جس نے آپ ﷺ کی بات کو ٹوکا) اور آپ کو کیا خبر شاید وہ ( آپ کی توجہ سے مزید)سنور جاتا یا آپ کی نصیحت سنتا اور اسے نصیحت فائدہ پہنچاتی۔ جوشخص بےپروائی کرتا ہے اس کی طرف تو آپ پوری توجہ کرتے ہو ۔ حالانکہ اس کے نہ سنورنے سے آپ پر کوئی الزام نہیں ۔جو شخص آپ کے پاس دوڑتا ہوا آتا ہے اور وہ ڈر بھی رہا ہے تو اس سے آپ بےرخی برتتےہیں یہ ٹھیک نہیں,قرآن تو نصیحت کی چیز ہے جو چاہے اس سے نصیحت لے
اے پیغمبرﷺیہ اینٹیں جن کو آپ اسلام کی عمارت میں لگانا چاہتے ہیں ،یہ اسلامی نظام زندگی کی عمارت کے قابل نہیں ہیں۔مضبوط اینٹ یعنی پختہ ایمان والے لوگوں میں سے آپ نابینے شخص حضرت عبداللہ بن ام مکتوم کو ہی لے لیجئےاور اسلامی نظام زندگی کی عمارت میں لگا دیجئے اور دیکھیے کہ اس سے اسلامی نظام زندگی کی عمارت کیسے مظبوط ہوتی ہے۔جیسے ایک ماں اپنے فوت شدہ بیٹے کو دیکھ کر آہ وبکا کرتی ہوئی کہتی ہے کہ کاش میرا بیٹا میرے سامنے زندہ ہوتا ،بے شک لولا لنگڑا ہی ہو تا۔جبکہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں سے محبت ایک ماں کی محبت سے کئی گنا زیادہ ہے۔اللہ تعالیٰ کو بھی اپنے بندوں سے بہت زیادہ پیار ہے خواہ وہ لولے لنگڑے ہی کیوں نہ ہو۔اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ عبس میں بہت ہی پیار اور محبت بھرے انداز میں اپنے محبوب سے خطاب کرتے ہوئے بیان فرمایا۔مندرجہ بالا آیات مبارکہ میں پیغمبر ﷺکے واسطہ سے امت کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ :
معذور افراد دیگر افراد معاشرہ کی نسبت زیادہ توجہ کے مستحق ہیں دوسرے افراد کو ان پر ترجیح دیتے ہوئے انہیں نظر انداز نہ کیا جائے،عزت ووقار کےمرتبے کا تعین معاشرتی حیثیت کو دیکھ کر نہ کیا جائے بلکہ ذاتی کردار،تقویٰ (إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَاللَّهِ أَتْقَاكُمْ[34])اورنیکی کےجذبےکو معیاربنایاجائے۔
حق کفالت:
اسلام نے دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح معاشرتی زندگی کے لیے بھی قانون اور نظام عطا کیا ہے۔رور مرہ کے رہن سہن ، رشتہ داروں اور دوست احباب کے گھروں میں آنے جانے کے لیے واضح ضابطے عطا کیے ہیں۔تاہم یہ بات قابل غور ہے کہ قرآن کریم نے معذوروں کو ان اصول وضوابط سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ معذور افراد دماغی وجسمانی معذوریوں کی وجہ سے معاشی وکاروباری فرائض سرانجام نہیں دے سکتے اس لیے نظم حکومت اور افراد معاشرہ پر ان کا حق ہے کہ انہیں ضروریات زندگی فراہم کریں۔چنانچہ اس سلسلے میں ارشاد ربانی ہے کہ:
لَيْسَ عَلَى الْأَعْمَى حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَنْ تَأْكُلُوا مِنْ بُيُوتِكُمْ۔[35]
اندھے اور لنگڑے پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ وہ تمہارے گھروں سے بلا اجازت کھائیں۔
سید ابوالاعلی مودودی ؒ فرماتے ہیں کہ معذور آدمی کا پورے معاشرے پر حق ہے کہ معاشرہ انہیں خوراک مہیا کرے۔معذور شخص اپنی بھوک ختم کرنے کے لیے ہر گھر سے کھانا کھا سکتا ہے ۔اس کی معذوری افراد معاشرہ پر اس کا حق قائم کر دیتی ہے۔اس لیے جس گھر سے بھی اس کو کھانے کو ملے وہ کھا سکتاہے۔[36] اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک اور جگہ پر اس حق کو اس انداز میں بیان فرمایا ہے:
وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوم[37] اور انکےاموال میں سائل اورمحروم کا حق ہے۔
جہاد سے استثناء کا حق:
جہاد سے مراد وہ نہیں جو آجکل جہاد سے مراد لی جاتی ہے۔خود کش حملوں کو جہاد کو نام دے کر اسلام کے تصور جہاد کو مسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔دہشت گردی کا جہاد سے دور دور تک واسطہ تعلق نہیں ہے۔اسلام کا تصور جہاد جنگ کے تصور سے مختلف ہے۔جہاد انسانیت کی زندگی کا نام ہے جبکہ جنگ انسانیت کی موت ہے۔جہاد امن وسلامتی کی بقاء کا ذریعہ ہےجبکہ جنگ ظلم وفساد کی جڑ ہے۔نیکی،بھلائی اور انصاف کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد اور کوشش کا نام جہاد ہے،اسی لیے نبی کریم ﷺنے نیک اعمال کو جہاد سے تعبیر کیا ہے۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جہاد کے لفظ کے ساتھ ”فی سبیل اللہ“ کے الفاظ استعمال کیے ہیں،”فی سبیل اللہ“ کے معنی ہیں اللہ کی راہ۔اللہ کی راہ امن وسلامتی کی راہ ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کا نام ”السلام“ یعنی سلامتی دینے والا ہے۔قرآن کریم نے اسلامی ریاست کے فروغ اور غلبہ دین کی جدوجہد کے لیے جہاد میں حصہ لینے کو ایمان اور استقامت کی جانچ کے معیار کے طور پر بیان فرمایا اور اس بنیادی ذمہ داری سے راہ فرار اختیار کرنے کو عذاب الیم کا سبب قراردیا۔تاہم معذور افراد کو جہاد جیسی اس
کلیدی اور بنیادی ذمہ داری سے مستثنیٰ قرار دیا۔
لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا۔[38]
اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھے رہنے والے مومن برابر نہیں ۔اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھے رہنے والوں پر اللہ تعالیٰ نے درجوں میں بہت فضیلت دے رکھی ہے اور یوں تو اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو خوبی اور اچھائی کا وعدہ دیاہے لیکن مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر بہت بڑے اجر کی فضیلت دے رکھی ہے۔
جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے اور گھروں میں بیٹھ رہنے والے برابر نہیں تو حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم (نابینے صحابی) وغیرہ نے عرض کیا کہ ہم تو معذور ہیں جس کی وجہ سے ہم جہاد میں حصہ لینے سے مجبور ہیں ۔ مطلب یہ تھا کہ گھر میں بیٹھے رہنے کی وجہ سے جہاد میں حصہ لینے والوں کے برابر ہم اجر و ثواب حاصل نہیں کر سکیں گے، اس پر اللہ تعالیٰ نے (غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ) ” بغیر عذر کے“ کا استثناء نازل فرما دیا یعنی عذر کے ساتھ بیٹھے رہنے والے، مجاہدین کے ساتھ اجر میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ انہیں عذر نے روکا ہوا ہے۔ [39]
یعنی جان و مال سے جہاد کرنے والوں کو جو فضیلت حاصل ہوگی، جہاد میں حصہ نہ لینے والے اگرچہ اس سے محروم رہیں گے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے دونوں کے ساتھ ہی بھلائی کا وعدہ کیا ہوا ہے اس سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ عام حالات میں جہاد فرض عین نہیں، فرض کفایہ ہے یعنی اگر بقدر ضرورت آدمی جہاد میں حصہ لے تو اس علاقے کے دوسرے لوگوں کی طرف سے بھی یہ فرض ادا شدہ سمجھا جائے گا۔
لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْضَى وَلَا عَلَى الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنْفِقُونَ حَرَجٌ
إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ۔[40]
معذور افراد ،بیمار اور ان لوگوں پر جو ،زاد راہ نہیں رکھتے ،کوئی گناہ نہیں ہے اگر وہ خلوص دل کے ساتھ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے وفادار ہیں۔
اس آیت میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے جو واقعی معذور تھے اور ان کا عذر بھی واضح تھا مثلاً : 1۔ضعیف و ناتواں یعنی بوڑھے قسم کے لوگ، اور نابینا یا لنگڑے وغیرہ معذورین بھی اسی ذیل میں آجاتے ہیں، بعض نے انہیں بیماروں میں شامل کیا ہے، 2۔ بیمار، 3۔ جن کے پاس جہاد کے اخراجات نہیں تھے اور بیت المال بھی ان کے اخراجات کا متحمل نہیں تھا،ایسے لوگوں پر کوئی گناہ نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا۔[41] (اللہ تعالیٰ کسی کو تکلیف نہیں دیتے مگر اس کی گنجائش کے مطابق)، اللہ اور رسول کی خیر خواہی سے مراد، جہاد کی ان کے دلوں میں تڑپ، مجاہدین سے محبت رکھتے ہیں اور اللہ اور رسولﷺکے دشمنوں سے عداوت، اور حتی الا مکان اللہ اور رسولﷺ کے احکام کی اطاعت کرتے ہیں، اگر جہاد میں شرکت کرنے سے معذور ہوں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ۔جہاد کے باب میں معذور افراد کو اللہ تعالیٰ نے جوخصوصیات عطا کی ہیں ،ان کا مطالعہ سورۃ توبہ اور النساء کی مذکورہ آیات میں کیا جا سکتا ہے۔
1: جہاد سے سبکدوشی اور مال غنیمت کے حق دار
صدق نیت کی عظمت شان کا ایک مظہر و نمونہ :سو اس سے صدق نیت کی عظمت شان کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ محض صدق نیت کی بناء پر جہاد میں شریک نہ ہونے کے باوجود ایسے مخلص اور خوش نصیب لوگوں کو جہاد کے اجر و ثواب میں حصہ دار قرار دیا گیا ۔ معلوم ہوا کہ صاحب عذر ہونے کے ساتھ ساتھ دل کی نیت اور ارادہ کا درست ہونا بھی ضروری ہے۔ یعنی وہ عذر کی بناء پر خوش نہ ہوتا ہو کہ اچھا ہوا مجھے بہانہ مل گیا اور جان چھوٹ گئی۔ پس اسے دل میں اس بات کا افسوس ہو کہ میں شرکت جہاد کے شرف سے محروم رہ گیا ہوں اور اس ارادہ و نیت کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے کہ دلوں کا مالک تو وہی ہے۔ پس اس سے معاملہ بہرحال درست رکھنا چاہئے ۔ سو !اس طرح یہ لوگ اپنے اعذار کی بناء پر جہاد میں شریک نہ ہوسکنے کے باوجود جہاد کے اجر و ثواب میں شریک ہوں گے، جیسا کہ آثار و روایات میں مختلف طور پر اس کی تصریح فرمائی گئی ہے۔[42]سو یہ صدق نیت کی عظمت شان کا ایک اہم پہلو ہے کہ اس کے نتیجے میں آدمی عمل میں شریک نہ ہونے کے باوجود اس کے اجر و ثواب میں حصہ دار بن جاتا ہے۔
2: اجر وثواب اور فضائل جہاد کے حق دار
سورۃ التوبہ اور سورۃ النساء کی مذکورہ دونوں آیات میں اللہ تعالیٰ نے معذور افراد کو بشرطیکہ وہ خلوص نیت کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے وفادار ہوں،جہاد کی فضیلت اور اجروثواب سے نوازا ہے۔اسی طرح نبی کریم ﷺ نے غزوہ تبوک کے موقع پر ان لوگوں کے بارے میں فرمایا: جو کسی مجبوری کی وجہ سے جہاد میں شریک نہیں ہو سکے تھے ، کہ وہ اجروثواب میں ان لوگوں کے برابر ہیں جنہوں نے جہاد میں شرکت کی ہےکونکہ ان لوگوں کو عذر نے روکے رکھا ہے[43].
3: متبادل عمل سے سبکدوشی
اللہ تعالیٰ نےقرآن کریم میں اور نبی کریم ﷺنے حدیث نبوی میں فریضہ جہاد کا کوئی متبادل عمل بیان نہیں فرمایا،جس طرح دوسرے اعمال کے متبادل اعمال بیان کیے گئے ہیں۔ جیسے خواتین کے لیے جہاد کا متبادل عمل حج ،وضو کا متبادل عمل تیمم اور صدقہ کا متبادل عمل تسبیحات بیان کیا ہے، تاکہ جو لوگ اصل عمل نہیں کر سکتے وہ اس کا متبادل عمل کر کے اصل عمل کا ثواب حاصل کر سکیں۔
4: ظاہری معذوری سے متعلقہ القابات کا خاتمہ
سورۃ التوبہ اور النساء کی مذکورہ دونوں آیات میں اللہ تعالیٰ نے معذور افراد کو اندھے ،
لولے اورلنگڑے کےالفاظ سےمخاطب نہیں کیا بلکہ ” أُولِي الضَّرَر“ اور ”الضُّعَفَاء“ جیس مہذب الفاظ استعمال کر کے یہ درس دیا کہ معذور افراد کے بارے میں غلط تصورات رکھنا تو در کنار ، ان کو ظاہری عذر کیساتھ موسوم کرتے ہوئے اندھے ،لولے،لنگڑےجیسےالفاظ استعمال کر کے پکارنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔
معاشی حق:
اسلام معذور افراد کی معاشی بحالی کی طرف بھی توجہ دیتا ہےتاکہ وہ معاشرے پر بوجھ بننے کی بجائے خود کفیل ہو کر معاشرے کی تعمیروترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکیں۔جہاں پر یہ افراد اپنی معیشت کو مستحسن طریقے سے نہیں چلا سکتے ،وہاں پر اسلام ان کیلئے سرپرست کا تعین بھی کرتا ہےتاکہ وہ اپنے نظام کو احسن طریقے سے چلا سکیں اور سرپرست کو معذور افراد کے مال کے بہترین تصرف کا حکم دیتا ہے،شریعت کا اصل مقصد معذور افراد کو نقصان سے بچانا ہے،ارشاد ہے:
وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَامًا وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَعْرُوفًا۔[44]
متاثرہ افراد کو ان کا مال جسے اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کے لیے سبب معیشت بنایا ہے ،مت دو۔اس میں سے ان کو کھلاؤ،پہناؤ اور ان سے اچھے طریقے سے باتیں کرو۔
اگر تجارت یا کاروباری معاملہ ادھار کا ہو تو اس کو معذور فرد کی طرف سے تحریری شکل میں لانے کے بارے میں ارشاد ربانی ہے:
فَإِنْ كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْل۔[45]۔
جس شخص کے ذمہ حق ہے اگر اس کی ذہنی حالت متاثر ہو یا ضعیف ہو یا تحریر لکھوانے
کی قابلیت نہ رکھتا ہو ،تو اس کا ولی عدل کے ساتھ لکھوائے۔
گویا کہ اسلام نے معذور افراد کی معاشی اور کاروباری حق دیا ہےکہ وہ کاروبار اور سرمایہ کاری کریں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان عالیشان ہے:
لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبُوا وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبْ۔[46]
"مردوں کا اس میں حصہ ہے جو انہوں نے کمایا اور عورتیں جو کچھ کمائیں وہ ان کیلئے آمدن ہے"۔
کاروبار مرد اور عورت دونوں کا حق ہے۔” رجال “ اور ” نساء “ کے الفاظ جنس کی شمولیت کے اعتبار سے عام ہیں جو معذور مرد اور معذور عورت دونوں کو شامل ہیں۔
سیاسی حق:
اسلام معذور افراد کو ملکی تعمیر وترقی اور نظم سیاست میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے سیاسی طور پر بحال دیکھنا چاہتا ہے۔اسلام کی لازوال اور ابدی تعلیمات کی روشنی میں یہ بحالی کا نتیجہ ہی تھا کہ معذور افراد ریاست مدینہ کی تعمیر وترقی اور نظم حکومت میں معذور صحابہ کرام روشن اور مثالی کردار ادا کرنے کے قابل ہو گئے جو جدید ترقی یافتہ اقوام کے لیے ایک بنیادی کردار اور مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔حضرت عبداللہ بن ام مکتوم ایک نابینے صحابی تھے نبی کریم ﷺ نے اپنی عدم موجودگی میں انہیں ریاست مدینہ کا گورنر مقرر کیا۔
عَنْ أَنَسٍ،أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ اسْتَخْلَفَ ابْنَ أُمِّ مَكْتُومٍ عَلَى الْمَدِينَةِ مَرَّتَيْنِ۔[47]
حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے دو مرتبہ حضرت عبداللہ بن ام مکتوم کو مدینہ کا نائب مقرر کیا۔
اسی طرح حضرت عبداللہ بن ام مکتوم نے نبی کریم ﷺ کی مدینہ منورہ سے عدم
موجودگی کے دوران مسجد نبویﷺ کی امامت کے فرائض بھی انجام دیے،کیونکہ عہد اسلامی میں جس شخص کے پاس نیابت و خلافت ہوتی تھی ،امامت کا منصب بھی اسی کے پاس ہوتا تھا۔
عزت و آبرو کی بحالی:
اسلام ہر ایک شخص کی عزت وآبرو کا حکم دیتا ہے اور اپنے پیروں کاروں کو اپنی عملی زندگی میں ضابطہ اخلاق کو اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔شریعت اسلامیہ ایسے افعال کے ارتکاب سے بھی روکتی ہے جس سے کسی شخص کی دل آزاری ہو ۔آجکل معذور افراد کو جو فقرے سننے کو ملتے ہیں شریعت نے ان سے بھی منع فرمایا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ۔[48]
اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو ایمان کے بعد فسق برا نام ہے، اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں ۔
مذكوره آيت میں کسی کو برے لقب سے پکارنے کی ممانعت کی گئی ہے ۔یہ آیت مبارکہ اسلام کے ضابطہ اخلاق کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔معذور افراد کا یہ حق ہے کہ انہیں عزت واحترام
دینے کے ساتھ ساتھ ان کو اچھے انداز سے لکھا اور پکارا جائے۔
حق ضیافت:
معاشی طور پر معذور افراد کی بحالی کے لیے بنیادی ذمہ داری ریاست کی ہے۔تاہم
معاشرہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔اسی سلسلے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ، أَوْ يُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ، فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ۔[49]
حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جس شخص کو پسند ہو کہ اس کے رزق میں وسعت ہو یا اس کی عمر دراز ہو تو اسے چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔
نبی کریم ﷺنے معذور افراد کی ضیافت وخدمت کو باعث شرف اور رزق میں کشادگی کا سبب قرار دیا:
عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ الْحَضْرَمِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا الدَّرْدَاءِ،يَقُولُ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: ابْغُونِي الضَّعِيفَ، فَإِنَّكُمْ إِنَّمَا تُرْزَقُونَ وَتُنْصَرُونَ بِضُعَفَائِكُمْ۔[50]
حضرت ابو الدرداء سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺنے فرمایا: میرے واسطے تم لوگ کمزور لوگوں کی تلاش کیا کرو،کیونکہ ان کی وجہ سے تم کو روزی پہنچائی جاتی ہے اور تمہاری امداد کی جاتی ہے۔
حق احسان:
اسلام کا ضابطہ عدل بے لاگ اور عام ہے۔معذور اور غیر معذور یعنی تمام افراد حصول عدل کے حق دار اور ادائے عدل کے پابند ہیں۔معذوری کے بناء پر غیر امتیازی سلوک اسلامی نظام عدل کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان عالیشان ہے:
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَان[51]
بے شک اللہ تعالیٰ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔
مذکورہ آیت مبارکہ میں عدل اور احسان کا حکم ایک ساتھ آیا ہے۔عدل معاشرہ کے ہر
فرد کا بنیادی حق ہے جبکہ احسان صرف ان لوگوں کا حق ہے جو احسان کے مستحق ہوتے ہیں ۔احسان کے مستحق وہ لوگ ہیں جو جسمانی یا دماغی معذوری کی وجہ سے مفید زندگی گزارنے سے قاصر ہیں۔ معذور افراد کو زندگی کی تمام سہولیات مہیا کرنا ریاست کے ساتھ ساتھ افراد معاشرہ پر بھی ان کا حق احسان بنتا ہے۔جب نبی کریم ﷺسے پوچھا گيا كہ احسان کیا ہے؟تو آپ ﷺ نے فرمایا: أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ[52] یعنی اللہ کی عبادت ایسے کرو جیسے تم اللہ کو دیکھ رہے ہو، اگر تم اللہ کو دیکھنے کی اپنے اندر وہ کیفیت پیدا نہیں کرسکتے تو اللہ تعالیٰ تو تمہیں دیکھ رہا ہے ،گویا کہ اس حدیث میں حضورﷺنے احسان کو عبادت قرار دیا ہے۔ معلوم ہوا کہ جیسے عبادت فرض ہے اسی طرح معذور افراد پراحسان کرنا بھی فرض ہےاور یہ احسان بھی اسی طرح کرنا چاہیے کہ جیسے عبادت کی جاتی ہے۔
حق تیمار داری:
اسلام اخوت اور بھائی چارے کا دین ہے۔اسلام حکم دیتا ہے کہ جب کوئی بیمار ہو جائے تو اس کی تیمار داری کرنی چاہیے۔نبی پاک ﷺ کا یہ حکم عام ہے جس میں معذور اور غیر معذور دونوں شامل ہیں۔آجکل تیمارداری کے سلسلہ میں دیگر حقوق کی طرح معذور افراد کو ترجیح نہیں دی جاتی جو کہ ان کے ساتھ سراسر زیادتی ہے اور عدل وانصاف کے بھی منافی ہے۔مسلم معاشرہ ایک دیوار کی مانند ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔ پیغبر علیہ السلام نے ایک مومن کے دوسرے مومن پر چھ حقوق گنوائے ہیں اور ان میں ایک حق یہ بھی ارشاد فرمایا کہ :
يَعُودُهُ إِذَا مَرِضَ۔[53] جب وہ بیمار ہو تو وہ اس کی عیادت کرے۔
معذور افراد کی بہتری کے لیے دعا کرنا:
دیگر حقوق کی طرح معذور افراد کا یہ بھی ایک حق ہے کہ ان کی بہتری کے لیے دعا کی جائے جب کوئی معذورشخص آپ ﷺخدمت میں حاضر ہو کر معذوری سے چھٹکارہ پانے کی درخواست کرتا تو آپ ﷺ اس کے لیے دعا فرماتے۔[54]
حق تعلیم:
کسی بھی قوم کی تعمیر وترقی میں اولین کردار تعلیم کا ہوتا ہے۔تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے ۔معذور افراد میں صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں تعلیم ان صلاحیتوں میں اضافہ کرتی ہے ۔اس طرح معذور افراد بھی معاشرے کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔افراد معاشرہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ معذور افراد کو ان کے اس حق سے محروم نہ کریں ۔
رکاوٹوں کو دور کرنا:
اسلام اپنی انسانیت نواز خوبیوں کی وجہ سے روز اول سے ہی ممتاز ہے۔اسلام ہر ایسی تکلیف دہ چیز کو راستے سے دور کرنے کا حکم دیتا ہے جس سے دوسرے مسلمان کو تکلیف محسوس ہو رکاوٹوں کو دور کرنے میں جہاں عام مسلمانوں کو فائدہ ہوتا ہے وہاں معذور افراد کو بالاولیٰ فائدہ ہوگا۔اگر کوئی تکلیف دہ چیز راستے میں پڑی ہو تو ایک معذور شخص تو ضرور ہی اس سے ٹھکرا کر گر سکتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ سلیم العقل والجسم شخص بھی اچانک اس کا شکار ہو سکتا ہے۔جیسا کہ فرمان نبویﷺ ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ شَجَرَةً كَانَتْ تُؤْذِي الْمُسْلِمِينَ، فَجَاءَ رَجُلٌ فَقَطَعَهَا، فَدَخَلَ الْجَنَّةَ۔[55]
حضرت ابوہریرہسےروایت ہےکہ اللہ کے رسولﷺنےفرمایا:ایک درخت مسلمانوں کو تکلیف پہنچاتا تھا ،پس ایک آدمی آیا اور اس درخت کو اس نے کاٹ دیا اور وہ جنت میں داخل ہو گیا۔
ایک حدیث میں آپ ﷺ نے راستہ سے تکلیف دہ چیز کے اٹھانے کو صدقہ قرار دیا ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كُلُّ سُلاَمَى مِنَ النَّاسِ عَلَيْهِ صَدَقَةٌ، كُلَّ يَوْمٍ تَطْلُعُ فِيهِ الشَّمْسُ، يَعْدِلُ بَيْنَ الِاثْنَيْنِ صَدَقَةٌ، وَيُعِينُ الرَّجُلَ عَلَى دَابَّتِهِ فَيَحْمِلُ عَلَيْهَا، أَوْ يَرْفَعُ عَلَيْهَا مَتَاعَهُ صَدَقَةٌ، وَالكَلِمَةُ الطَّيِّبَةُ صَدَقَةٌ، وَكُلُّ خُطْوَةٍ يَخْطُوهَا إِلَى الصَّلاَةِ صَدَقَةٌ، وَيُمِيطُ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ صَدَقَةٌ۔[56]
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: روزانہ جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو آدمی پر ہر جوڑ کے بدلہ میں صدقہ ہے۔دو آدمیوں کے درمیان انصاف کر دو،یہ بھی صدقہ ہے۔کسی شخص کی سواری پر سوار ہونے میں مدد کر دو،یہ بھی صدقہ ہے۔اس کا سامان اٹھا کر دے دو ،یہ بھی صدقہ ہے۔کلمہ طیبہ یعنی ’’ لاالہ الا اللہ ‘‘بھی صدقہ ہے۔ہر وہ قدم جو نماز کے لیے چلے،صدقہ ہے۔راستہ سے تکلیف دینے والی چیز ہٹا دو،یہ بھی صدقہ ہے۔
حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: آپ مومنین کو آپس کی رحمت، محبت اور نرم دلی میں ایک ایسے جسم کے مشابہ پائیں گے جس کا اگر ایک عضو تکلیف کی شکایت کرے تو ساراجسم جاگ کراوربخار کےساتھ تکلیف کی شکایت کرتاہے۔[57] حضورﷺنےفرمایا: بھلائی کو حقیر نہ سمجھو ( کہ اس کی وجہ سے اسے ملتوی کر دو) راستہ میں تکلیف دینے والی چیز ہو تو اس کو ہٹادو۔[58]
معذور افراد کا ایک حق یہ بھی ہے کہ ان کی معذوری کو بحالی کے عمل کے ذریعے ختم یا کم کیا جائے اور بحالی کے ذریعے ان کے کام کرنے کی صلاحیت غیر معذور افراد کے برابر لائی جائے
تاکہ وہ اکتساب معاش کے عمل میں شریک ہو کر اپنا حصہ وصول کر سکیں۔انسانی حقوق کانظام، عدل وانصاف کے اصول پر قائم ہے۔تاہم جب معذور افراد کے حقوق کا معاملہ درپیش ہو تو اسلام کا رویہ محض عدل وانصاف تک محدود نہیں رہتا بلکہ سراسر احسان پر مبنی قرار پاتا ہے۔قرآن کریم میں والدین کے حقوق کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ : وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانا۔[59]یعنی اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آؤ،اولاد کو چاہیے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ احسان پر مبنی سلوک کریں اور انہیں اف تک نہ کہیں اور نہ ہی ان سے جھڑک کر گفتگو کریں۔گویا قرآن کریم نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتے ہوئے ان تمام افراد کے حقوق کا احاطہ کردیا ہے جو بڑھاپے (معذوری کی حالت)کو پہنچ چکے ہوں ۔معذور افراد معاشرے کی غیر معمولی توجہ کے طلب گار ہوتے ہیں کیونکہ وہ معاشرے میں بہت سے امور میں دوسرے افراد کے محتاج ہوتے ہیں۔اسلام نے صدیوں پہلے معذور افراد کیلئے احترام، وقار اور دیگر حقوق کے تحفظ کے لیے بہترین قوانین عطا کیے ، جن کے عملی نظائر سے سیرت رسول ﷺان گنت مثالوں کی حامل ہے۔
آج پوری دنیا میں معذور افراد کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ان کے حقوق کی بحالی کا ہے۔آج پوری دنیا میں جن افراد کے حقوق کا استحصال کیا جارہا ہے ،وہ خصوصی افراد ہی ہیں۔جب تک معذور افراد کو برابری کی بنیاد پر بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر احسان کی بنیاد ان کو ان کے مکمل حقوق نہیں دیے جاتے اس وقت تک وہ معاشرے کے کارآمد اور مفید شہری نہیں بن سکتے۔معذور افرادکے لیے مناسب ذریعہ معاش نہ ہونا بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔جس کی وجہ سے معذور افراد کی بےروز گاری میں بھی دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ان کی صلاحیتوں کو بھی زنگ لگ رہا ہے۔اگرچہ معذور افراد کے لیے 2 فیصد کوٹہ مقرر ہے جو کہ بہت کم ہے لیکن اس کا اطلاق بھی قابلیت اور میرٹ کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔بعض اوقات صرف اشتہارات کی حد تک ہوتا ہے عملا ً کچھ نہیں ہوتا۔اوپن میرٹ کی بنیاد پر بھی معذور افراد کی تقرری کر کے انہیں عوام کی فلاح وبہبود کے لیے خدمت کا موقع دیا جانا چاہیے۔آج کل ایک رجحان یہ بھی پایا جاتا ہے کہ معذور افراد کو اللہ والا سمجھ کر ان کو جائداد سے محروم کر دیا جاتا ہے۔لوگوں کا انکے بارے میں نظریہ یہ ہے کہ ان کو مال ودولت کی کیا ضرورت ہے؟حالانکہ اسلام نے ان کو وراثت میں حصہ دار بنایا ہے۔آج کے جدید دور میں انہیں دور جاہلیت کی طرح ان کے حق سے محروم کرنا ان کے ساتھ بہت بڑی نا انصافی ہے۔
اسلامی قانون نے معذوروں کے ناقابل برداشت ذمہ داریوں سے مستثنیٰ قرار دیے جانے کو انکا بنیادی حق قرار دیا۔اسلام کی تعلیمات سے معذور افراد کے سلسلے میں درج ذیل باتیں واضح ہوتی ہیں:
1:اسلام معذور افراد کو معاشرے کا قابل احترام اور باوقارحصہ بنانے کی تلقین کرتا ہے۔
2:اسلام اس امر کی تعلیم دیتا ہے کہ معذور افراد کو خصوصی توجہ دی جائےاور انہیں یہ احساس قطعا ًنہ ہونے دیا جائے کہ انہیں زندگی کے کسی بھی شعبے میں نظر انداز کیا جارہا ہے۔
3:معاشرتی اور قومی زندگی میں ان پر کسی بھی ایسی ذمہ داری کا بوجھ نہ ڈالا جائے جو ان کے لیے ناقابل برداشت ہو ۔
4:اسلام کے عطا کردہ جملہ حقوق کی عطائیگی میں معذوروں کو ترجیحی مقام دیا جائے تاکہ معاشرے میں ان کے استحصال یا احساس محرومی کی ہر راہ از خود مسدود ہوجائے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ معذور افراد کی بحالی کے لیے ہمیں اجتماعی طور پر ان کو معاشرے کے ہر شعبے میں مفید اور کارآمد شہری بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔تاکہ معذور افراد معاشرے پر بوجھ بننے کی بجائے معاشرے کا بوجھ تقسیم کر کے اپنے کندھوں پر اٹھانے والے بن جائیں اور ان کے ساتھ ایسا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے جس سے ان کی صلاحیتیں نکھرنے کی بجائے ان کو زنگ لگ جائے اور وہ معاشرے پر بوجھ بن جائیں۔گویا کہ معذوری کا ایک سبب معذور افراد کے ساتھ ہمارا رویہ بھی ہے۔اسلام زبانی کلامی دعوؤں کے بجائے عملی طور پر معذور افراد کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیتا ہے۔
حوالہ جات
- ↑ ۔المؤمنون115:23
- ↑ ۔ مختار ، احمد مختار عبدالحمید عمر،معجم اللغۃ العربیۃ المعاصرۃ، عالم الکتب،بیروت، 1429ھ ، ع ذر،ج2، ص1474
- ↑ ۔UK Disability Discrimination Act Nov 1995.
- ↑ ۔ https://ur.wikipedia.org/wiki/معذور
- ↑ ۔https://ur.wikipedia.org/wiki/معذور
- ↑ ۔ https://ur.wikipedia.org/wiki/معذور
- ↑ ۔ https://ur.wikipedia.org/wiki/معذور
- ↑ - النساء95:4
- ↑ ۔الطبری ابو جعفر، محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الآملی ،جامع البیان فی تأویل القرآن، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت،لبنان،1420ھ،ج9،ص87
- ↑ ۔www.um.org/on/rights/index.shtonl.
- ↑ - التوبۃ91:9
- ↑ - النساء98:4
- ↑ ۔التوبۃ60:9
- ↑ - الراغب الاصفہانی، ابو القاسم الحسین بن محمد ،المفردات فی غریب القرآن، المعروف بالراغب الاصفہانی، دار القلم، بیروت، لبنان، 1412ھ،کتاب الضاد،ضر ،ص503
- ↑ ۔الانبیاء84:21
- ↑ ۔سعدی ، ڈاکٹر سعدی ابو حبیب،،القاموس الفقہی لغۃ واصطلاحا، دارالفکر،دمشق،1408ھ، حرف الضاد،ص223
- ↑ ۔يونس12:10
- ↑ ۔ سعدی ابو حبیب،القاموس الفقہی لغۃ واصطلاحا، حرف الضاد،ص223
- ↑ ۔النساء95:4
- ↑ ۔ سعدی ابو حبیب ،القاموس الفقہی لغۃ واصطلاحا،حرف الضاد،ص223
- ↑ ۔صاحب بن عباد، ابو القاسم اسماعیل بن عباد بن العباس الطالقانی ،المحیط فی اللغۃ، مقام اشاعت،طباعت وسن اشاعت ندارد ،حرف الضاد،الضاد واللام،ج2،ص188
- ↑ ۔الفیومی، ابو العباس احمد بن محمد بن علی الحموی ،المصباح المنیر فی غریب الشرح الکبیر، المکتبہ العلمیہ،بیروت، لبنان، کتاب الضاد،ض ر ر،ج2،ص360
- ↑ ۔ مجموعۃ من المؤلفین،ابراہیم مصطفیٰ،احمد الزیات،حامد عبدالقادر،محمد النجار،المعجم الوسیط، دار الدعوہ ، باب الضاد،ص538
- ↑ ۔خلیل بن احمد الفراہیدی، ابو عبدالرحمان الخلیل بن احمد بن عمرو بن تمیم البصری،کتاب العین، دار ومکتبہ الھلال،سن اشاعت ندارد ،باب الثلاثي الصحيح من حرف العين ،باب العين والضاد والفاء معهما (ض ع ف، ض ف ع، ف ض ع مستعملات ع ض ف، ع ف ض، ف ع ض مهملات) ، ص281
- ↑ ۔التوبہ91:9
- ↑ ۔قرطبی، ابو عبداللہ محمد بن احمد بن ابو بکر بن فرح الانصاری الخزرجی شمس الدین ،الجامع لاحکام القرآن، دار الکتب المصریہ،قاہرہ،مصر، 1384ھ ،سورۃ التوبہ91:9 ،ج8، ص226
- ↑ ۔ابن قدامہ مقدسی، ابو محمد موفق الدین عبداللہ بن احمد بن محمد بن قدامہ الجماعیلی المقدسی الدمشقی الحنبلی ،الکافی فی فقہ الامام احمد بن حنبل ، دار الکتب العلمیہ،بیروت،لبنان، 1414ھ ،کتاب الجہاد،ج4،ص116
- ↑ ۔ الزبیدی، ابو الفیض محمد بن محمد بن عبدالرزاق الحسینی المقلب بمرتضیٰ الزبیدی،تاج العروس من جواہر القاموس، دار الہدایہ ،الجزء:13،ف ق ر،ج13،ص337 ،ابن منظور، ابو الفضل محمد بن مکرم بن علی جمالدین ابن منظور الانصاری الرویفعی الافریقی ،لسان العرب، دار صادر،بیروت،لبنان، 1414ھ،ر،فصل الفاء،ج5، ص61
- ↑ ۔ الراغب الاصفہانی، المفردات فی غریب القرآن ،کتاب الفاء،فقر،ص642
- ↑ ۔التبریزی، ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ الخطیب العمری ولی الدین ،مشکاۃ المصابیح، المکتب الاسلامی،بیروت،لبنان، 1985ء ،کتاب الزکاۃ،بَاب مِمَّن لَا تحل لَهُ الصَّدَقَة،رقم الحدیث1828،ج1،ص573
- ↑ ۔التوبہ60:9
- ↑ ۔ شیبانی، ابو عبداللہ محمد بن الحسن بن فرقد الشیبانی،الاصل للشیبانی، دار ابن حزم،بیروت،لبنان ،1433ھ، کتاب الزکاۃ،كتاب ما يوضع فيه الخمس والعشر ولمن يجب ،ج2،ص142
- ↑ ۔عبس1-12:80
- ↑ ۔الحجرات13:49
- ↑ ۔النور61:24
- ↑ ۔ مودودی، سید ابو الاعلی،تفہیم القرآن، ادارہ ترجمان القرآن،لاہور،پاکستان،2000ء،ج3، ص425
- ↑ ۔الذاریات19:51
- ↑ ۔النساء95:4
- ↑ ۔البخاری، ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل ،الجامع الصحيح للنخاری، دار طوق النجاۃ، 1422ھ ،کتاب الجہاد والسیر، بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: لاَيَسْتَوِي القَاعِدُونَ مِنَ المُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ،وَالمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ، فَضَّلَ اللَّهُ المُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ عَلَى القَاعِدِينَ دَرَجَةً، وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الحُسْنَى، وَفَضَّلَ اللَّهُ المُجَاهِدِينَ عَلَى القَاعِدِينَ،النساء:95،إِلَى قَوْلِهِ غَفُورًا رَحِيمًا،النساء: 23،رقم الحدیث2831،ج4، ص24
- ↑ ۔التوبہ91:9
- ↑ ۔البقرۃ286:2
- ↑ ۔البخاری، ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری الجعفی،صحیح البخاری،کتاب المغازی،بَابُ نُزُولِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الحِجْرَ ،رقم الحدیث4423،ج6،ص08
- ↑ ۔ ایضا۔
- ↑ ۔النساء5:4
- ↑ ۔البقرۃ282:2
- ↑ ۔النساء:32۔
- ↑ ۔السجستانی، ابو داؤد سلیمان بن الاشعث بن اسحاق بن بشیر بن شداد بن عمرو الازدی،سنن ابو داؤد، المکتبہ العصریہ، بیروت،كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ،بَابٌ فِي الضَّرِيرِيُوَلَّى،رقم الحدیث2931،ج3،ص131
- ↑ ۔الحجرات11:49
- ↑ ۔ البخاری، ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری الجعفی،صحیح البخاری،کتاب البیوع،باب من احب البسط فی الرزق،رقم الحدیث2067،ج3،ص56
- ↑ ۔نسائی، ابو عبدالرحمان احمد بن شعیب بن علی الخراسانی ،السنن الصغریٰ، مکتب المطبوعات الاسلامیہ،حلب، 1406ھ ، کتاب الجہاد،الاستنصار بالضعیف،رقم الحدیث3179،ج6،ص45
- ↑ ۔النحل90:16
- ↑ ۔ بحوالہ سابق،صحیح البخاری،کتاب الایمان،بَابُ سُؤَالِ جِبْرِيلَ النَّبِيَّﷺعَنِ الإِيمَانِ،وَالإِسْلاَمِ، وَالإِحْسَانِ، وَعِلْمِ السَّاعَةِ،ج1،ص19
- ↑ ۔ نسائی، ابو عبدالرحمان احمد بن شعیب بن علی الخراسانی ،سنن نسائی،کتاب الجنائز،النَّهْيُ عَنْ سَبِّ الْأَمْوَاتِ ، رقم الحدیث1938،ج4،ص53
- ↑ ۔ابن ماجہ، ابو عبداللہ محمد بن یزید القزوینی،سنن ابن ماجہ، دار احیاء الکتب العربیہ،بیروت،لبنان،سن اشاعت ندارد، كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ، وَالسُّنَّةُ فِيهَا ،بَابُ مَا جَاءَ فِي صَلَاةِ الْحَاجَةِ ،رقم الحدیث1385،ج1،ص441
- ↑ ۔ القشيری النیسابوری، ابو الحسن مسلم بن الحجاج ،صحیح المسلم، دار احیاء التراث العربی،بیروت،لبنان،سن اشاعت ندارد، كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ ،بَابُ فَضْلِ إِزَالَةِ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ ،رقم الحدیث1914،ج4،ص2021
- ↑ ۔صحیح البخاری،بَابُ مَنْ أَخَذَ بِالرِّكَابِ وَنَحْوِهِ، رقم الحدیث2989،ج4،ص56، صحیح المسلم، بَابُ عَرَقِ النَّبِيِّ ﷺ فِي الْبَرْدِ وَحِينَ يَأْتِيهِ الْوَحْيُ، رقم الحدیث2335،ج4،ص1817
- ↑ ۔صحیح البخاری، بَابُ رَحْمَةِ النَّاسِ وَالبَهَائِمِ، رقم الحدیث6011،ج8،ص10
- ↑ ۔الشیبانی،ابو عبداللہ احمد بن محمد بن حنبل بن ھلال بن اسد الشیبانی،مسند احمد بن حنبل، مؤسسۃالرسالہ،بیروت، 1421ھ، مُسْنَدُ الْمَكِّيِّين،حَدِيثُ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، رقم الحدیث15955،ج25،ص309
- ↑ ۔الاسراء23:17
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 1 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2017 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |