1
2
2017
1682060029185_687
82-106
https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/16/312
https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/16
Abu Nauman Saifullah Khalid Tafseer Bilmasur Tafseer Dawat-Ul-Quran Distinguishing characteristics
تعارف:
تاریخ اسلام میں بہت سے علماء کرام ایسے پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے دین اسلام کی خدمت کی ہے اور انہوں نے علوم اسلامیہ کے ہر موضوع پر قلم اٹھایا۔ان علوم میں سے ایک علم قرآن مجید کا ہے۔جس کو سمجھنا ہر مسلمان مردوعورت کے لیے لازم و ضروری ہے لہذا اس کو سمجھنے کے لیے مفسرین نے اپنے اپنے انداز کے ساتھ قرآن مجید کی تفسیر کی ہےتاکہ لوگ اس سے فائدہ حاصل کر سکیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نےاپنے دین کی حفاظت کے لیے جن عظیم انسانوں کا انتخاب کیا ہے ان کی فہرست تو اتنی طویل ہے کہ ان کا شمار بھی ناممکن ہے۔اس فہرست میں ایک نام"ابونعمان سیف اللہ خالد " کا ہے جنہوں نے دین اسلام کی سر بلندی کے لیے کتاب اللہ کی تفسیر لکھی ہے۔ان کی تفسیر کانام" تفسیر دعوۃالقرآن"ہے ۔یہ کتاب مکتبہ دار الاندلس لاہور سے سن 2010ء میں چھپی ہے۔یہ کتاب پانچ جلدوں اور3837صفحات پر مشتمل ہے ۔اس کتاب پر تاحال کسی بھی جامعہ سےکوئی تحقیقی کام نہیں ہوا اس لیے میں نے اس مضمون میں اس تفسیر کے امتیازات و خصائص کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
تفسیر دعوۃ القرآن کے امتیازات و خصائص:
ابو نعمان سیف اللہ خالد نے اپنی تفسیر کا نام "تفسیر دعوۃ القرآن" رکھا ہے۔"تفسیر دعوۃ القرآن "تفسیر بالماثور کی بہترین تفاسیر میں سے ایک ہے۔مفسر نےاپنی تفسیر میں قرآن حدیث اور اقوال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی روشنی میں قرآن کریم کی تفسیر کی ہے اور موضوع و من گھڑت روایات سے اجتناب کیا ہے۔اسی طرح آپ نے اپنی رائے و قیاس سے بھی اس تفسیر کو دور رکھا ہے تاکہ خالص کتاب و سنت کی دعوت امت مسلمہ تک پہنچائی جائے۔بنیادی طور پر یہ تفسیر مندرجہ
ذیل خصوصیات کی حامل ہے:
1: ترجمۃ القرآن:
اس تفسیر میں قرآن مجید کا جو ترجمہ دیا گیا ہےوہ فضیلۃ الشیخ محترم حافظ عبد السلام بن محمد حفظہ اللہ کا ہے۔تفسیر کے ضمن میں موجود آیات میں بھی ترجمے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ ترجمہ علماء و طلباء اور عوام الناس کے ہر طبقہ کے لیے مفید ہے ،چاہے وہ طبقہ عالم ہو یا کوئی عام آدمی سب کے لیے یکساں راہنمائی کرتا ہے۔مثلاً وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا[1].
ترجمہ:اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تم تفرقہ میں نہ پڑو۔[2]
اس میں قدیم اور بہت پرانے الفاظ و محاورات اور اصطلاحات سے اجتناب کیا گیا ہے۔کیونکہ ان الفاظ و محاورات اور اصطلاحات کو سمجھنا ہر آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔اسی خدشہ سے ان سے گریز کیا گیا ہے۔ہر لفظ کے ترجمے کا اہتمام کیا گیا ہے یا دوسرے الفاظ میں اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اس میں لفظی ترجمہ کو ترجیح دی گئی ہے۔بعض اردو تراجم میں کئی ایک قرآنی الفاظ و حروف کے معانی نہیں ملتے ،جبکہ اس ترجمہ کی شان و خوبی یہ ہے کہ اس میں ہر لفظ ،حتی کہ تنوین تک کا معنی بھی واضح کیا گیا ہے۔پھر ترجمہ پڑھتے وقت قاری مشکل محسوس نہیں کرتا ،بلکہ آسان الفاظ میں ترجمہ کیا گیا ہے تاکہ ایک عام قاری بھی اس کو سمجھ سکےاوراس سے فائدہ حاصل کر سکے،دنیا اور آخرت کو بہتر بنا سکے۔آسان ترجمہ کرنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ قاری تسلسل کے ساتھ پڑھتا جائے اور سمجھتا چلا جائے۔
2: قرآن کی تفسیر قرآن کے ساتھ:
قرآن مجید میں بہت سی آیات ایسی ہیں کہ اگر وہ ایک موقع پر مختصر ہیں تو کسی دوسرے
موقع پر مفصل، لہذا اس تفسیر میں ممکن ایک آیت کی تفسیر دوسری جگہ وارد تفصیلی آیات ہی سے کی
گئی ہے۔مثلاً اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ- صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ [3]
ترجمہ:ہمیں سیدھے راستےپرچلا ان لوگوں کے راستےپر جن پر تو نے انعام کیا۔ جن پر نہ غصہ کیا اور نہ وہ گمراہ ہیں۔[4]
اس کی تفسیر"سورۃالنساء" کی درجِ ذیل آیت میں کی گئی ہے:
وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا[5]
ترجمہ:اورجو اللہ اور اس کے رسول کی فرمابرداری کرےتویہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گےجن پر اللہ نے انعام کیا نبیوں،صدیقوں،شہداءاور صالحین میں سے اور یہ لوگ اچھے ساتھی ہیں۔[6]
3:صحیح احادیث سے تفسیر:
بعض کتب تفا سیر میں احادیث کی صحت اور ضعف کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا،جبکہ اس تفسیر کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ اس میں صرف اور صرف صحیح اور حسن احادیث ہی سے قرآن کی تفسیر کی گئی ہے، کیونکہ ساری صحیح و حسن احادیث یا تو قرآنی آیات کے مضمون کی تائید کے طور پر ہیں یا قرآن کی تفسیر کے طور پر ہیں۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ بعض صحیح احادیث قرآن کی آیتوں کے مضمون کے مخالف ہیں ،تو جب ان سے اسی طرح کی احادیث پیش کرنے کو کہا جائے تویہ اپنے قول کی تائید میں ایک بھی صحیح حدیث پیش نہیں کر سکتے۔حقیقت یہ ہے کہ کوئی صحیح حدیث کبھی قرآن کے مخالف نہیں ہوتی، ہاں ہماری سمجھ میں نہ آ سکے تو اس میں ہماری عقل کا قصور ہے اور اس میں قرآن و حدیث کا تو کوئی قصور نہیں ہے۔بہر حا ل اس تفسیر میں اس بات کا التزام کیا گیا ہے کہ صرف صحیح اور حسن احادیث بیان کی جائیں،تاکہ تفسیر پڑھتے وقت ہر شخص یہ اطمینان اور سکون محسوس کرئے کہ وہ جو کچھ پڑھ رہا ہے وہ یقینا صحیح اور درست ہے،بلکہ تفسیری احادیث میں بیشتر کا تعلق تو صحیح بخاری و صحیح مسلم سے ہے۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ان دونوں کتابوں کے بارے میں فرماتے ہیں:
"صحیح بخاری و صحیح مسلم کے بارے میں محدثین کا اتفاق ہے کہ ان میں جتنی بھی متصل و مرفوع احادیث ہیں ، وہ قطعی طور پر صحیح ہیں اور وہ اپنے مصنفین تک متواتر ہیں ،نیز یہ کہ جو شخص بھی ان دونوں (صحیح بخاری و صحیح مسلم) کی شان گھٹاتا ہے، وہ بدعتی ہے اور مومنوں کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے کا پیر و کار ہے۔"[7]
تفسیر دعوۃ القرآن میں قرآن مجید کی تفسیر صحیح احادیث کے ساتھ بھی کی گئی ہے۔مثلاً
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ[8]
ترجمہ:محمد تمہارے مردوں میں کسی کا باپ نہیں اور لیکن اللہ کے رسول اورتمام نبیوں کا ختم کرنےوالا ہے۔[9]
یہ آیت کریمہ نص ہےکہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔نبی اکرمﷺکے آخری نبی ہونے کے بارے میں بہت سی متواتر احادیث موجود ہیں۔ تفسیر دعوۃ القرآن میں مذکورہ بالا آیت کی تفسیر مندرجہ ذیل حدیث مبارکہ کے ساتھ کی گئی ہے۔
عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي بِالْمُشْرِكِينَ وَحَتَّى يَعْبُدُوا الْأَوْثَانَ وَإِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ كَذَّابُونَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي[10]
ترجمہ:سیدنا ثوبان بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نےفرمایا :میری امت
میں تیس جھوٹےہوں گےاور ہر ایک دعویٰ کرئے گا کہ وہ نبی ہے،حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعدکوئی نبی نہیں۔
4: اقوال صحابہ کرام رضی للہ عنھم سے تفسیر:
تفسیر قرآن میں خلفائے راشدین کا مقام بہت بلند ہے، ان کے علاوہ بھی رسول کریم ﷺنے صحابہ کرام کی ایک جماعت اس عظیم مشن کے لیے تیار کر دی تھی۔
ذَكَرَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ فَقَالَ لَا أَزَالُ أُحِبُّهُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ خُذُوا الْقُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَسَالِمٍ وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ[11]
"سیدنا عبد اللہ بن عمرو نےعبداللہ بن مسعود کا ذکر کرتے ہوئے کہا:اس وقت سے ان کی محبت میرے دل میں گھر کر گئی جب سے میں نے رسول کریم ﷺکو فرماتے ہوئے سنا:قرآن مجید چار آدمیوں سے سیکھو :سیدناعبد اللہ بن مسعود،سیدناسالم (سیدنا حذیفہ کے آزاد کردہ غلام) ، سیدنامعاذ بن جبل ، ابی بن کعب رضی اللہ عنہم۔"
تفسیر میں حسب ضرورت کئی جگہ صحابہ کرم کے صحیح اور مستند اقوال بھی ذکر کیے گئے ہیں۔ جس طرح نبی اکرمﷺ،صحابہ کرام کو قرآن کی آیتیں پڑھنا سکھاتے تھے، اسی طرح ان آیات کا مطلب اور تفسیر بھی سکھاتے تھے ،یہی وجہ تھی کہ قرآن کی ایک ایک آیت سیکھنے کے لیے انہیں طویل سفر بھی کرنا پڑے تو بھی گریز نہ کرتے تھے۔ جیسا کہ:
1: عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ لَمَّا قَدِمْتُ نَجْرَانَ سَأَلُونِي فَقَالُوا إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ يَااُخْتَ هَارُونَ وَمُوسَى قَبْلَ عِيسَى بِكَذَا وَ كَذَا فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِﷺ
سَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَمُّونَ بِأَنْبِيَائِهِمْ وَالصَّالِحِينَ قَبْلَهُمْ[12]
ترجمہ:سیدنا مغیرہ بن شعبہ بیان کرتے ہیں کہ جب میں نجران آیا تو وہاں کے لوگوں (نصاریٰ)نے مجھ سے سوال کیا کہ تم یہ پڑھتے ہو :(يَا أُخْتَ هَارُونَ)[13](مطلب یہ کہ یہاں مریم علیہ السلام کو ھارون علیہ السلام کی بہن کہا گیا ہے، حالانکہ ہارون موسیٰ کے بھائی تھے) اور موسیٰ عیسیٰ سے اتنی مدت پہلے تھے تو پھر مریم ھارون کی بہن کیسے ہو سکتی ہے؟وہ فرماتے ہیں : میں نے سفر کر کے (مدینہ منورہ پہنچ کر ) نبی اکرمﷺسے یہ بات بیان کی ۔ جس پر آپ ﷺنے فرمایا:"(یہ وہ ہارون نہیں ہے جو موسیٰ کے بھائی تھے،بلکہ)بنی اسرائیل کی یہ عادت تھی کہ وہ پیغمبروں اور اگلے نیک لوگوں کے نام پر نام رکھتے تھے۔
2: عَبْدُ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ مَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ إِلَّا أَنَا أَعْلَمُ أَيْنَ أُنْزِلَتْ وَلَا أُنْزِلَتْ آيَةٌ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ إِلَّا أَنَا أَعْلَمُ فِيمَ أُنْزِلَتْ وَلَوْ أَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنِّي بِكِتَابِ اللَّهِ تُبَلِّغُهُ الْإِبِلُ لَرَكِبْتُ إِلَيْهِ[14]
ترجمہ:سیدنا عبد اللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں ،اس اللہ تعالیٰ کی قسم، جس کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں !کتاب اللہ میں نازل ہونے والی ہر سورت کے بارے میں میں یہ جانتا ہوں کہ وہ کہاں نازل ہوئی اور کتاب اللہ کی نازل شدہ ہر آیت کے متعلق میں جانتا ہوں کہ یہ کن کن کےبارے میں نازل ہوئی۔اگر مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ کسی کو کتاب اللہ کا مجھ سے زیادہ علم ہے تو میں اس کی خدمت میں حاضر ہونے سے قطعا دریغ نہیں کروں گا، خواہ کتنا ہی طویل سفر کر کے کیوں نہ جانا پڑے۔
تفسیر دعوۃ القرآن میں قرآن کریم کی تفسیر صحابہ کرام کے اقوال کی روشنی میں بھی کی گئی ہے۔مثلاً وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ[15] "اور بلاشبہ یقیناً تو ایک بڑے خلق پر ہے۔"[16]
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں سیدہ عائشہ کا ایک قول منقول ہے:
سعد بن ہشام رحمۃاللہ نے سیدہ عائشہ سے رسول کریم ﷺکے اخلاق کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: أَلَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟ قُلْتُ بَلَى قَالَتْ فَإِنَّ خُلُقَ نَبِيِّ اللَّهِ ﷺ كَانَ الْقُرْآنَ[17]
ترجمہ:کیا آپ قرآن مجید کو نہیں پڑھتے؟انہوں نے عرض کی،کیوں نہیں؟تو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول کریم ﷺ کا اخلاق قرآن ہی ہے۔
5: ضعیف اور موضوع روایات سے اجتناب:
موضوع اس حدیث کو کہتے ہیں جو کلام نبی نہ ہو بلکہ لوگوں میں سے کسی نے حدیث کے نام سے وہ الفاظ بنائے ہوں ایسے شخص کے متعلق حدیث رسول ﷺمیں ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ تَسَمَّوْا بِاسْمِي وَلَا تَكْتَنُوا بِكُنْيَتِي وَمَنْ رَآنِي فِي الْمَنَامِ فَقَدْ رَآنِي فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَتَمَثَّلُ فِي صُورَتِي وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ[18]
ترجمہ:سیدنا ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:جس نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ منسوب کیا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے ۔
عَنْ سَلَمَةَ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ يَقُلْ عَلَيَّ مَا لَمْ
أَقُلْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّار[19]
ترجمہ: سلمہ بن اکوعبیان کرتےہیں کہ میں نےنبیﷺکویہ فرماتےہوئے سنا کہ جو کوئی میری نسبت وہ بات بیان کرئے جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانا آگ میں تلاش کر لے۔
ضعیف اور موضوع روایات نے دین پر عمل کرنے کے معاملے میں مسلمانوں میں بہت سی مشکلات اور الجھنیں پید ا کر دی ہیں ۔موضوع روایات نے تو امت میں ایسے گمراہ فرقوں کو جنم دیا ہےجنہوں نےا مت مسلمہ کو بڑے بڑے فتنوں سے دو چار کر دیاہے۔ حالانکہ نبی اکرمﷺنے فرمایاکہ:
يَكُونُ فِي آخِرِالزَّمَانِ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ يَأْتُونَكُمْ مِنْ الْأَحَادِيثِ بِمَالَمْ تَسْمَعُواأَنْتُمْ وَلَاآبَاؤُكُمْ فَإِيَّاكُمْ وَإِيَّاهُمْ لَايُضِلُّونَكُمْ وَلَايَفْتِنُونَكُمْ[20]
ترجمہ:آخری زمانے میں ایسے دجال اور جھوٹے لوگ پید اہوں گے جو تمہارے پاس ایسی حدیثیں لے کر آئیں گے جو نہ تم نے سنی ہوں اور نہ تمہارے باپ ،دادانے سنی ہوں گی، پس تم خود کو ان سے اور ان کو اپنے سے دور رکھو ،تاکہ وہ تمہیں گمراہ نہ کرنے پائیں ۔اور فتنوں میں مبتلا نہ کریں ۔
لہذا جہاں تک موضوع روایات کا تعلق ہے انہیں تو بلا تامل اس تفسیر سے خارج رکھا ہے۔ ضعیف روایات کے بارے میں اگرچہ بعض اہل علم میں یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ ترغیب و ترہیب اور فضائل و مناقب جیسے موضوعات میں ان پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اس تفسیر میں درج ذیل وجود کی بنا پر ان سے بھی اعراض ہی برتا ہے۔
1) ضعیف روایات سے استفادہ کا دروازہ اگر ایک دفعہ کھول دیا جائے خواہ اس کی وجہ بظاہر بے ضرر ہی کیوں نہ ہو تو پھر اسے بند کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اس لیے امت میں پیدا ہونے والے بگاڑ کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہےکہ اس دروازے کو سرے سے کھولا ہی نہ جائے۔اور اسے مکمل طور پر بند ہی رہنے دیا جائے ۔
2) دوسری بات یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر و تفہیم میں صحیح احادیث اس کثرت کے ساتھ موجود ہیں
کہ اگر ایک عام انسان ان پر پوری طرح عمل کر لے تو اس کی نجات کے لیے ان شاء اللہ وہی کافی ہیں ،لہذا صحیح احادیث کی موجودگی میں ضعیف روایات لینے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے؟
6: اسرائیلی روایات کے سلسلہ میں احتیاط:
اسرائیلی روایات ایسی روایات کو کہتے ہیں جویہودیوں اور عیسایوں سے ہم تک پہنچی ہیں۔ایسی روایات کی تین قسمیں ہیں اور ہر قسم کا حکم علیحدہ ہے۔
1) پہلی قسم وہ اسرائیلی روایات جن کی تصدیق دوسرے خارجی دلائل سے ہو چکی ہے،مثلاً فرعون کا غرق ہو جانا،سیدنا موسیکا جادوگروں سے مقابلہ،آپ کا کوہ طور پر جانا وغیرہ،ایسی روایات اس لیے قابل اعتبار ہیں کہ قرآن مجید اور صحیح احادیث نے ان کی تصدیق کر دی ہے۔
2) دوسری قسم وہ اسرائیلی روایات ہیں جن کا جھوٹا ہونا خارجی دلائل سے ثابت ہو چکا ہے،مثلاً یہ کہانی کہ سیدنا سلیمان آخری عمر میں(معاذ اللہ)بت پرستی میں مبتلا ہو گئے تھے۔یہ روایت اس لیے قطعاً باطل ہےکہ قرآن مجید نے اس کی صراحت کے ساتھ اس کی تردید فرمائی ہے۔
3) تیسری قسم ان اسرائیلی روایات کی ہے جن کے بارے خارجی دلائل سے نہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ سچی ہیں اور نہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ جھوٹی ہیں،مثلاً تورات کے احکام وغیرہ ،[21] ایسی اسرائیلی روایات کے بارے میں نبی کریم ﷺکا ارشاد یہ ہے کہ:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ أَهْلُ الْكِتَابِ يَقْرَءُونَ التَّوْرَاةَ بِالْعِبْرَانِيَّةِ وَيُفَسِّرُونَهَا بِالْعَرَبِيَّةِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُصَدِّقُوا أَهْلَ الْكِتَابِ وَلَا تُكَذِّبُوهُمْ وَقُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا[22]
ترجمہ:سیدنا ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اہل کتاب تورات کو عبرانی زبان میں پڑھتے اور مسلمانوں کے لیے اس کی تفسیر عربی میں کرتے تھے تو نبی اکرمﷺنے فرمایا:"اہل کتاب کو سچا کہو نہ جھوٹا،بس کہو: قُلْ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا [23]"ہم ایمان لائے اس پر جو ہماری طرف نازل کیا گیا۔"
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ كَانَ أَهْلُ الْكِتَابِ يَقْرَءُونَ التَّوْرَاةَ بِالْعِبْرَانِيَّةِ وَ يُفَسِّرُونَهَا بِالْعَرَبِيَّةِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُصَدِّقُوا أَهْلَ الْكِتَابِ وَلَا تُكَذِّبُوهُمْ وَقُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ[24]
ترجمہ:سیدنا ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:جب اہل کتاب تم سے بیان کریں تو نہ ان کی تصدیق کرو اورنہ ان کی تکذیب کرو بلکہ کہو: آمَنَّا بِالَّذِي أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَأُنْزِلَ إِلَيْكُمْ[25] "ہم ایمان لائے اس پر جو ہماری طرف نازل کیا گیا ہے اور تمہاری طرف نازل کیا گیا ۔"
لہذاتفسیر دعوۃ القرآن میں ایسی اسرائیلی روایات جن کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ صحیح ہیں،کتاب و سنت ان کے صحیح ہونے کی شہادت دیتے ہیں تو انہیں اس تفسیر میں بیان کیا گیا ہے۔تاہم جن کے بارے میں معلوم ہوا کہ یہ جھوٹی روایات ہیں اور کتاب و سنت سے ان کا جھوٹ ہونا ثابت ہے تو ان روایات سے اس تفسیر کو بچایا گیاہے۔اور جن روایات کے بارے میں کتاب و سنت خاموش ہیں،تو اس کی تصدیق بھی نہیں کی گئی اور تکذیب بھی نہیں کی گئی۔
7:تفسیر بالرائے کی بجائے تفسیر بالماثور:
تفسیر دعوۃ القرآن ایسی تفسیر ہے جوتفسیر بالماثور ہے۔مثلاً الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ[26]
ترجمہ:سب تعریفیں اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے۔[27]
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی تعریف کابیان ہے کہ تمام تعریفات اسی اللہ کے لیے
خاص ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والاہے۔اللہ تعالیٰ کی تعریف سب سے اہم ہے فرشتے بھی اللہ تعالی
کی حمد بیان کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَتَرَى الْمَلَائِكَةَ حَافِّينَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَقِيلَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ[28]
ترجمہ:اور تو فرشتوں کو دیکھے گا عرش کے گرد گھیرا ڈالے ہوئےاپنے رب کی حمد و ثناء کے ساتھ تسبیح کر رہے ہیں اور ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور کہا جائے گاکہ سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔[29]
سیدنا عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:
وَلَا أَحَدَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْمِدْحَةُ مِنْ اللَّهِ فَلِذَلِكَ مَدَحَ نَفْسَهُ[30]
ترجمہ:ایسا کوئی نہیں جس کو اللہ سے زیادہ اپنی تعریف پسند ہو،اسی لیے اللہ نے خود بھی اپنی تعریف کی ہے۔
نبی اکرمﷺبھی اللہ تعالیٰ کی تعریف کرتے تھے۔جیسا کہ سیدنا ربیعہ بن کعب الاسلمی بیان کرتے ہیں کہ :
كُنْتُ أَبِيتُ عِنْدَ بَابِ النَّبِيِّ ﷺ فَأُعْطِيهِ وَضُوءَهُ فَأَسْمَعُهُ الْهَوِيَّ مِنْ اللَّيْلِ
يَقُولُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ وَأَسْمَعُهُ الْهَوِيَّ مِنْ اللَّيْلِ يَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ[31]
ترجمہ:میں نبی اکرمﷺکے دروازے کے قریب سویا کرتا تھا،کیونکہ میں آپ کے وضو کے لیے پانی مہیا کیا کرتا تھا،میں سنتا تھا کہ آپ ﷺرات کو دیر تک(سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ) اور(الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ) پڑھتے رہتے تھے۔
اس تفسیر میں مفسر نے اپنی رائے سے کتاب اللہ کی تفسیر نہیں کی ہے۔شیخ الاسلام امام
ابن تیمیہ رحمۃاللہ اپنی کتاب اصول التفسیر میں فرماتے ہیں :کہ صرف رائے کے ساتھ قرآن مجید کی تفسیر کرنا حرام ہے[32]،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ[33]"اور اس چیز کا پیچھا نہ کرو جس کا تجھے علم نہیں ۔"
عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ لَا يَنْزِعُ الْعِلْمَ بَعْدَ أَنْ أَعْطَاكُمُوهُ انْتِزَاعًا وَلَكِنْ يَنْتَزِعُهُ مِنْهُمْ مَعَ قَبْضِ الْعُلَمَاءِ بِعِلْمِهِمْ فَيَبْقَى نَاسٌ جُهَّالٌ يُسْتَفْتَوْنَ فَيُفْتُونَ بِرَأْيِهِمْ فَيُضِلُّونَ وَيَضِلُّونَ[34]
ترجمہ:سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ علم کو ، اس کے بعد کہ تمہیں دے دیا ہے ،ایک دم سے اٹھا لے گا ،بلکہ اس کو اس طرح اٹھا لے گا کہ علماء کو ان کے علم کے ساتھ اٹھالے گا،پھر جاہل لوگ باقی رہ جائیں گے ،ان سے فتوی پوچھا جائے اور وہ فتوی اپنی رائے کے مطابق دیں گے۔پس وہ لوگوں کو گمراہ کریں گے اور خود بھی گمراہ ہوں گے۔
ابو وائل ؒبیان کرتے ہیں کہ سید نا سہل بن حنیف نے (جنگ صفین کے موقع پر )کہا:
يَاأَيُّهَاالنَّاسُ اتَّهِمُوارَأْيَكُمْ عَلَى دِينِكُمْ لَقَدْرَأَيْتُنِ يَوْمَ أَبِي جَنْدَلٍ وَلَوْ اَسْتَطِيعُ أَنْ أَرُدَّ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ عَلَيْهِ لَرَدَدْتُهُ وَمَا وَضَعْنَا سُيُوفَنَا عَلَى عَوَاتِقِنَا إِلَى أَمْرٍ يُفْظِعُنَا إِلَّا أَسْهَلْنَ بِنَا إِلَى أَمْرٍ نَعْرِفُهُ غَيْرَ هَذَا الْأَمْرِ قَالَ وَقَالَ أَبُو وَائِلٍ شَهِدْتُ صِفِّينَ وَبِئْسَتْ صِفُّونَ[35]
ترجمہ: لوگو! اپنے دین کے معاملے میں اپنی رائے کو بے حقیقت سمجھو(سیدنا سہل مزید کہتے ہیں کہ )میں نے اپنے آپ کو ابو جندل کا واقعہ کے دن (صلح حدیبیہ کے موقع پر) دیکھا اگر میرے اندر نبی اکرمﷺکے حکم سے ہٹنے کی طاقت ہوتی تو میں (اس دن )آپ سے
انحراف کرتا(اور کفار قریش کے ساتھ ان شرائط کو قبول نہ کرتا۔)"
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مسئلہ میں جب تک کتاب و سنت سے کوئی دلیل نہ ہو تو اپنی رائے کو صحیح نہ سمجھو اور صرف رائے پر فتوی نہ دو ،بلکہ کتاب و سنت میں غور کر کے اس میں سے اس کا حکم نکالو ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرمﷺبھی کوئی مسئلہ محض رائے یا قیاس سے نہ بتلاتے تھے،بلکہ جب آپﷺسے کوئی ایسی بات پوچھی جاتی جس میں وحی نہ اتری ہوتی تو آپ ﷺفرماتے:((لَا أَدْرِي))" میں نہیں جانتا "یا وحی اترنے تک خاموش رہتے ،جیسا کہ:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ بَيْنَا أَنَا أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي خَرِبِ الْمَدِينَةِ وَهُوَ يَتَوَكَّأُ عَلَى عَسِيبٍ مَعَهُ فَمَرَّ بِنَفَرٍ مِنْ الْيَهُودِ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ سَلُوهُ عَنْ الرُّوحِ وَقَالَ بَعْضُهُمْ لَا تَسْأَلُوهُ لَا يَجِيءُ فِيهِ بِشَيْءٍ تَكْرَهُونَهُ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لَنَسْأَلَنَّهُ فَقَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ فَقَالَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ مَا الرُّوحُ فَسَكَتَ فَقُلْتُ إِنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ فَقُمْتُ فَلَمَّا انْجَلَى عَنْهُ قَالَ وَيَسْأَلُونَكَ عَنْ الرُّوحِ قُلْ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي[36]
" سیدنا عبد اللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نبی اکرمﷺکیساتھ ایک کھیت میں چل رہا تھا۔ آپ ﷺکجھور کی ایک چھڑی کے سہارے چل رہے تھے اتنے میں کچھ یہودی سامنے سے گزرے ۔ وہ آپس میں کہنے لگے، ان سے پوچھو !روح کیا چیز ہے؟پھر کسی نے کہا ،کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کوئی ایسی بات کہیں جو تم کو نا گوار گزرے ۔مگر ان میں سے بعض نے کہا کہ ہم ضرور پوچھیں گے،تو ان میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ اے ابو القاسم !روح کیا چیز ہے؟آپ کچھ دیر خاموش رہے ،ان کو کوئی جواب نہیں دیا ،میں سمجھ گیاکہ آپ ﷺپر وحی آرہی ہے تو میں اپنی جگہ کھڑا ہو گیا ،جب وحی اتر چکی تو آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی:
وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّاقَلِيلًا[37]
ترجمہ:اور وہ تجھ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں ،کہہ دیں روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں علم میں سے بہت تھوڑے کے سوا نہیں دیا گیا۔
اس سلسلے میں دوسر ی دلیل یہ روایت ہے :
جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ: مَرِضْتُ فَجَاءَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺيَعُودُنِي وَأَبُو بَكْرٍ وَهُمَا مَاشِيَانِ فَأَتَانِي وَقَدْ أُغْمِيَ عَلَيَّ فَتَوَضَّأَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺثُمَّ صَبَّ وَضُوءَهُ عَلَيَّ فَأَفَقْتُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ فَقُلْتُ أَيْ رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ أَقْضِي فِي مَالِي كَيْفَ أَصْنَعُ فِي مَالِي قَالَ فَمَا أَجَابَنِي بِشَيْءٍ حَتَّى نَزَلَتْ آيَةُ الْمِيرَاثِ[38]
ترجمہ:سیدنا جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں بیمار ہوا تو نبی اکرمﷺاور ابو بکر میری عیادت کے لیے تشریف لائے ۔ یہ دونوں بزرگ پیدل چل کر آئے تھے۔ پھر نبی اکرمﷺمیرے پاس آئے تو مجھ پر بے ہوشی طاری تھی۔ نبی اکرمﷺنے وضو کیا اور وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا ، اس سے مجھے افاقہ ہوا تو میں نے عرض کیا ،اے اللہ کے نبی اکرمﷺ!میں اپنے مال کے بارے میں کس طرح فیصلہ کروں ، میں اپنے مال کا کیا کروں ؟ جابر کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے کوئی جواب نہ دیا، یہاں تک کہ میراث کی آیت نازل ہوئی۔
خیر القرون یعنی عہد رسالت سے عہد تبع تابعین تک تفسیر تقریبا اسی شاہراہ پر چلتی رہی، یعنی تفسیر بالماثور ہی چلتی رہی۔اس دور میں استنباط و اجتہاد حدود و شریعت میں ہوتا رہا ،اپنے نظریات پر مشتمل مخصوص رائے کے دائرہ میں داخل نہیں ہوا تھا،یہاں تک کہ اسلام میں فرقوں کا ظہور ہونے لگا ۔ یہ فرقے بتدریج ایک دوسرے سے دور ہوتے گئے ، یہاں تک کہ عباسی سلطنت کے دور میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے تباہی کا سامان بن گئے۔علم تفسیر میں بھی انہوں نے ایسے اسالیب فراہم کئے جن سے قرآنی تعلیمات عجمی تاویلوں اور فلسفیانہ موشگافیوں کا مجموعہ بن گئیں، یا صاحب تفسیر کے اپنے خیالات، افکار،تاویلات اوراوہام باطلہ کا مجموعہ بن گئیں۔
8: شان نزول:
عموما تفسیر میں آیات اور سورتوں کی شان نزول بیان کرتے ہوئے صحیح و ضعیف روایات کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا،لیکن اس تفسیر میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ شان نزول میں بھی صحیح روایات اور مستند روایات ہی ذکر کی ہیں۔ مثلاً
قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ[39]
ترجمہ:یقیناً اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو تجھ سے اپنے خادند کے بارے میں جھگڑ رہی تھی اور اللہ کی طرف شکایت کر رہی تھی اوراللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا۔بے شک اللہ سب کچھ سننے والا ہے،سب کچھ دیکھنے والا ہے۔[40]
اس آیت مبارکہ کا شان نزول یہ ہےکہ:زمانہ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ جب میاں بیوی میں لڑائی ہو جاتی تو خاوند غصے کی حالت میں اپنی بیوی کو یوں کہتا کہ "تو میرے لیےمیری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے " تو دائمی طلاق سمجھا جاتا تھا،جس کے بعدان دونوں میاں بیوی کے مل بیٹھنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی تھی۔اب واقعہ یہ پیش
حوالہ جات
- ↑ سورۃ ال عمران103:3
- ↑ سیف اللہ خالد،ابو نعمان،تفسیر دعوۃ القرآن،لاہور:دارالاندلس،2010ء،ج1،ص469
- ↑ سورۃالفاتحہ6:1-7
- ↑ سیف اللہ خالد،ابو نعمان ،تفسیر دعوۃ القرآن،ج1،ص55
- ↑ سورۃالنساء69:4
- ↑ سیف اللہ خالد،ابو نعمان ،تفسیر دعوۃ القرآن،ج1،ص640
- ↑ شاہ ولی اللہ،احمد بن عبدالرحیم،حجۃ اللہ البالغۃ،کراچی:نورمحمدکارخانہ تجارت کتب آرام باغ ،ج1 ،ص 134
- ↑ سورۃالاحزاب40:33
- ↑ سیف اللہ خالد،ابو نعمان ،تفسیر دعوۃ القرآن،ج 4،ص423
- ↑ ترمذی،ابو عیسیٰ محمد عیسیٰ،سنن ترمذی،الریاض:دارالسلام،1999ء،کتاب الفتن،باب ما جاءلاتقوم الساعۃ حتی یخرج کذابون،حدیث2219
- ↑ بخاری ،محمد بن اسماعیل،صحیح بخاری،الریاض:دارالسلام،1999ء،کتاب فضائل القرآن،باب القراءمن اصحاب رسول اللہ ﷺ ، حدیث 4999
- ↑ مسلم بن حجاج،صحیح مسلم،الریاض:دارالسلام،1999ء،کتاب الاداب،باب النَّهْيِ عَنْ التَّكَنِّي بِأَبِي الْقَاسِمِ وَبَيَانِ مَا يُسْتَحَبُّ مِنْ الْأَسْمَاءِ، حدیث 2135
- ↑ سورۃ مریم28:19
- ↑ بخاری،محمد بن اسماعیل،صحیح بخاری،کتاب فضائل القرآن، باب القراء من اصحاب رسول اللہ ﷺ،حدیث 5002
- ↑ سورۃالقلم4:68
- ↑ ابو نعمان سیف اللہ خالد،تفسیر دعوۃ القرآن،ج5،ص501
- ↑ مسلم بن حجاج،صحیح مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین،باب صلاۃ اللیل و من نام عنہ او مرض،حدیث746
- ↑ بخاری،محمد بن اسماعیل،صحیح بخاری،کتاب العلم، باب اثم من کذب علی النبی ﷺ ،حدیث110
- ↑ ایضاً،حدیث109
- ↑ ایضاً،المقدمۃ،باب النھی عن الروایۃ عن الضعفاء و الا حتیاط فی تحملھا،حدیث7
- ↑ محمدتقی عثمانی،علوم القرآن(کراچی:مکتبہ دارالعلوم،1415ھ)ص345
- ↑ بخاری،محمد بن اسماعیل،صحیح بخاری،کتاب التوحید،باب مَا يَجُوزُ مِنْ تَفْسِيرِ التَّوْرَاةِ وَغَيْرِهَا مِنْ كُتُبِ اللَّهِ بِالْعَرَبِيَّةِ،حدیث 7542
- ↑ سورۃ آل عمران84:3
- ↑ بخاری،محمد بن اسماعیل،صحیح بخاری،کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،باب قول النبی ﷺ لا تسالوا اہل الکتاب عن شیء، حدیث 7362
- ↑ سورۃ العنکبوت46:29
- ↑ سورۃ الفاتحہ2:1
- ↑ ابو نعمان سیف اللہ خالد،تفسیر دعوۃ القرآن،ج1،ص45
- ↑ سورۃ الزمر75:39
- ↑ ابو نعمان سیف اللہ خالد،تفسیر دعوۃ القرآن،ج1،ص45
- ↑ بخاری،محمد بن اسماعیل،صحیح بخاری،کتاب التفسیر،باب قول اللہ عزوجل قل انما حرم ربی الفواحش ما ظھر منھا و ما بطن، حدیث4637
- ↑ ترمذی،ابو عیسٰی محمد بن عیسٰی،سنن ترمذی،کتاب الدعوات عن رسول اللہ ﷺ،باب منہ دعا سمع اللہ لمن حمدہ، حدیث3416
- ↑ ابن تیمیہ،احمد بن عبدالحلیم،اصول تفسیر،مترجم مولانا عبدالرزاق،لاہور:مکتبہ سلفیہ،2001ء، ص65
- ↑ سورۃ بنی اسرائیل36:17
- ↑ بخاری،محمد بن اسماعیل،صحیح بخاری،کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،باب ما یذکر من ذم الرای و تکلف القیاس، حدیث7307
- ↑ ایضاً،حدیث7308
- ↑ ایضاً، کتاب العلم،باب قول اللہ تعالیٰ و ما اوتیتم من العلم الا قلیلا،حدیث125
- ↑ سورۃ بنی اسرائیل85:17
- ↑ بخاری،محمد بن اسماعیل،صحیح بخاری،کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،باب مَا كَانَ النَّبِيُّ ﷺيُسْأَلُ مِمَّا لَمْ يُنْزَلْ عَلَيْهِ الْوَحْيُ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي أَوْ لَمْ يُجِبْ حَتَّى يُنْزَلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ وَلَمْ يَقُلْ بِرَأْيٍ وَلَا بِقِيَاسٍ،حدیث 7309
- ↑ سورۃالمجادلۃ1:58
- ↑ سیف اللہ خالد،ابو نعمان،تفسیر دعوۃ القرآن،ج5،ص351
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |