1
2
2017
1682060029185_810
69-81
https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/15/311
https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/15
معنی ومفہوم:
صاحب منجدکہتا ہے کہ:”ابلاغ“ کامعنی ہےترسیل،پہنچانا،بھیجنا اورنشریہ ۔[1]
دوسروں تک بات پہنچانے کانام”ابلاغ“ہےبادی النظر میں یہ ایک معمولی اور مختصرعمل ہےلیکن آج اس عمل کوسائنس کی حیثیت حاصل ہےجس کےبغیرقومیں ترقی کی منازل طےنہیں کرسکتیں اورنہ ہی معاشروں میں انقلابی تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں۔ آج اس سائنس کو”ابلاغ عام“ کانام دیاجاتاہے۔ جس کےذریعےہم تعلیم کوفروغ دےسکتےہیں، ایک دوسرے کومعلومات اورموجودہ دور کےمصروف انسان کو گھر بیٹھے تفریح کا سامان فراہم کرسکتےہیں۔اگرابلاغ نہ ہوتوفرد،فردسےاورمعاشرہ معاشرےسےکٹ کررہ جائےاور ان کے درمیان فکری اورعملی ہم آہنگی کی خواہش محض خواب پریشان بن کر رہ جائے۔[2]
ذریعہ ابلاغ:
پیغام بھیجنےکےلئےہمیں وسیلےکی ضرورت ہوتی ہے،جوماخذاورمنزل کےدرمیان رابطے کاکام دےسکیں۔”ابلاغ“ کی اصطلاح میں ہم کسی وسیلے کو ذریعہ(Channel) کہتے ہیں۔ذریعہ ابلاغ کتنی قسم کےہوسکتے ہیں؟ابلاغ عامہ کےضمن میں یہ دوقسم کےہوتے ہیں
1):۔ الیکٹرانک ذرائع ابلاغ،جس میں ریڈیواورٹیلی وژن وغیرہ شامل ہیں۔
2):۔طباعتی ذرائع، جس میں اخبارات اور دیگر طباعتی ذرائع شامل ہیں۔
ہمارےحواص خمسہ بھی ذرائع ابلاغ میں شامل ہیں۔ مثلاًہم اپنی قوت فیصلہ کی مدد سےطباعت یا بصری مواد کامطالعہ یا مشاہدہ کرتےہیں،قوت کی بدولت سمعی ذرائع سے استفادہ کرتے ہیں،پیغام دیکھنا،سننا، چکھنا،چھونا اورسونگھناسب ابلاغ کے مختلف ذرائع ہیں۔ [3]
کسی بھی معاشرےمیں ذرائع ابلاغ کا کرداراس معاشرےکی تعمیروترقی خواہ وہ معاشی ہو،سماجی ہویاثقافتی بےحداہم ہوتاہے۔تاریخ کےمطالعہ سےپتہ چلتاہےکہ انسانوں اورمعاشروں کی اصلاح کےلئےدوطریقےاستعمال کئےگئے:ایک تبلیغ اوردوسراتعزیر،یاتو وعظ اورنصیحت کےذریعےاصلاح احوال کی کوشش کی گئی یاپھرسختی سےکام لیا گیا ۔ انسانوں کے طرزعمل کے سلسلےمیں قوانین اورضابطےوضع کئےگئےاوران کی خلاف ورزی کی سزامقرر کی گئی۔انسان اشرف المخلوقات ہے ۔اللہ تعالیٰ نےاسےسوچنے،سمجھنےاورنیکی وبدی اورغلط وصحیح میں تمیزکرنے کی صلاحیت عطاکی ہے،اس لئےاگراسےصحیح اندازمیں سمجھنےکی کوشش کی جائے تو وہ کارگرثابت ہوتی ہے۔ انبیاءکرام نےبگڑے ہوئے انسانی معاشروں کی
اصلاح کےلئے تبلیغ کا راستہ اختیار کیااوران کی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کی۔
دین اسلام نے جہاں ہر شعبہ زندگی کے اصول وضع کئے ہیں ،وہاں ابلاغ عامہ کے لئے بھی اخلاقی ضابطے متعین کئے ہیں۔ذرائع ابلاغ بھی احکام و حدود کے پابند ہیں جن کا مقصد خیر کا فروغ اور برائی کا انسداد ہے ۔ اسلام ہمیں حکم دیتا ہے کہ کھری اور سیدھی بات کی جائے ،انسان کیلئے ضروری ہے کہ با ت ہمیشہ سیدھی اور کھلی کرے نہ کہ گھما پھرا کر،اسی لئے حکم دیا گیا ہےکہ :
وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا۔[4] "اور بات کیاکرو سیدھی بات"۔
ایک اور جگہ ارشاد با ری تعا لیٰ ہےکہ:
قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ يَّتْبَعُهَآ اَذًى[5]۔
تر جمہ :بھلی بات کہہ دینا اوردرگزر کرنااس صدقے سے بہتر ہےجس کےبعدکوئی تکلیف پہنچائی جائے۔
اسلا می نظریہ ابلاغ میں صدق اور عدل ابلاغ کے نما یاں ترین اصول ہیں۔قرآن پاک میں سچائی کی راستی اختیار کر نے والوں کومتقین سے تعبیر کیا جا تا ہے۔
وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰي [6]
تر جمہ :اور جب کوئی بات کہو تو انصاف کرو۔ اگرچہ کوئی قرابت دار ہی کیوں نہ ہو۔
ابلاغی معا ملات خواہ عدالت کے ہوں یا معا شرتی برائیوں کے خلاف آواز اٹھانے کی بات، جہاں تک ممکن ہو حق بات کی جائے اور سچائی کو چھپایا نہ جائے۔
وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۭ وَمَنْ يَّكْتُمْهَا فَاِنَّهٗٓ اٰثِمٌ قَلْبُهٗ[7] ۔
تر جمہ: اور گواہی کو چھپایا نہ کرو اور جو کوئی گواہی کو چھپائے گا تو اس کا دل گنہگار ہوگا۔
وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَــقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ [8]۔
تر جمہ : اور نہ گڈمڈ کرو حق کیساتھ باطل کو اور نہ چھپاؤ حق کو درانحالیکہ تم جانتے ہو۔
ابلاغ کا کام خبر پہنچانا ہے اور ایک اہم اسلامی اصول ہے کہ بلا تحقیق بات کو بیان نہ کیا
جائےاورنہ ہی اسے بڑھا وا دیا جا ئے ، ارشاد ربانی ہے کہ:
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًا بِجَــهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ[9]۔
ترجمہ: اے اہل ِایمان ! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق شخص کوئی بڑی خبر لے کر آئےتو تم تحقیق کرلیا کرو ، مبادا کہ تم جا پڑو کسی قوم پر نادانی میں اور پھر تمہیں اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے۔
اِذْ تَلَقَّوْنَهٗ بِاَلْسِنَتِكُمْ وَتَــقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِكُمْ مَّا لَيْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ وَّتَحْسَبُوْنَهٗ هَيِّنًا ڰ وَّهُوَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِيْمٌ[10] ۔
ترجمہ :جب تم لے رہے تھے اسے اپنی زبانوں سے اور تم اپنے مونہوں سے وہ کچھ کہہ رہے تھے جس کے بارے میں تمہیں کوئی علم نہیں تھا اور تم اسے معمولی سمجھ رہے تھے ‘ جبکہ اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑی بات تھی۔
اس بارے میں حدیث مبا رکہ ہے کہ:
إياكم والظن فإن الظن أكذب الحديث، ولا تجسسوا، ولا تناجشوا، ولا تحاسدوا،ولا تباغضوا[11]
ترجمہ: بدگمانی سے بچتے رہو ، بدگمانی اکثر تحقیق کے بعد جھوٹی بات ثابت ہوتی ہے اور کسی کے عیوب ڈھونڈ نے کے پیچھے نہ پڑو ، کسی کا عیب خواہمخواہ مت ٹٹولواور کسی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ بڑھاؤ اور حسد نہ کرو ، بغض نہ رکھو ۔
ذرائع ابلاغ معاشرے کی اصلاح میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ذرائع ابلاغ کو انہی مقاصد کے تحت لایا اور ان کا استعمال کیا جائےکہ افراد اور معاشرے کی فکری نشو و نما اسلام کے مطابق ہو۔ فرد ہو یا معاشرہ اس کی اصلاح کا مطلب اس کے فکر اور طرز عمل میں تبدیلی ہے اور تبدیلی لانے کیلئے اولین ضرورت صحیح و غلط میں تمیز کا شعور پیدا کرنا ہے۔ یہ تمیز مؤثر ذرائع ابلاغ کے ذریعے کی جا سکتی ہے۔ لوگوں میں شعور پیدا کیا جائے کہ ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کس نہج پر ہیں۔ کون سی خرابیاں ہیں جو قومی اخلاقی اور دینی لحاظ سے معاشرے کے انتشار اور بے راہ روی کا سبب ہیں۔ان خرابیوں اور برائیوں کا شعور ذرائع ابلاغ کے ذریعے پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اور مؤثر ذرائع ابلاغ ہی کے ذریعے ایسی مؤثر فضا پیدا کی جائے کہ لوگ انفرادی اور اجتماعی و قومی سطح پر اپنی اصلاح قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق کرسکیں اور ایک پر امن فلاحی اسلامی معاشرہ قائم ہوکیونکہ آج ہمارے معاشرے کی جو روش ہے، اس کی خرابی میں ہمارے ذرائع ابلاغ نے مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ ذرائع ابلاغ نے جو کچھ پیش کیا اور جو فضا تیار کی ،اس میں اچھائی اور برائی کی تمیز ختم ہو گئی ہے۔عوام پر ایسے نظریات مسلط کئے جا رہے ہیں جس سے معاشرے میں منفی رجحان فروغ پا رہا ہے ۔ لوگوں کی سوچ و فکر کے دائروں کو تبدیل کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے اسلامی تشخص اور معاشرتی روایات ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ پروپیگنڈے کے ذریعے اسلامی شعار کی تحقیر و توہین کی جارہی ہے۔ جدید ذرائع ابلاغ منفی پروپیگنڈے کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کو استعمال کر کے مغرب نے مسلمانوں کو ایسی غلامانہ ذہنیت کا مالک بنا دیا ہے کہ خود ان کی اپنی نظر میں ان کی تہذہب قومی روایات اور نظریہ زندگی بے وقعت ہو کر رہ گئے ہیں۔انہوں نے ذرائع ابلاغ جیسے خطرناک مؤثر ہتھیار سے وہ کام لیا جو بڑی سے بڑی فوجی قوت کے استعمال سے بھی ممکن نہیں تھا۔ ہر ایک ایسی نفسیاتی جنگ ہے جو بغیر ہتھیاروں کے کامیابی سے لڑی جا رہی ہے۔
امت مسلمہ کے ہاں مضبوط خا ندانی نظام موجود ہےجو معاشرتی ترقی اور امن و سکون کی فراہمی میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے برعکس مغرب کا عائلی و خاندانی نظام بری طرح شکست وریخت کا شکار ہے۔ اہل مغرب اپنی قومی آمدنی کا بڑا حصہ شیزو فرینیا کے مریضوں کی صحت یابی کیلئے خرچ کر رہی ہے اور یہ بیما ری خراب خاندانی حالات کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ عصری ذرائع ابلاغ ایسے پروگرام پیش کر رہے ہیں جس سے مسلمانوں کا عائلی نظام بھی مسائل اور تباہی سے دو چار ہوتا جا رہا ہےذرائع ابلاغ کی تیز رفتار ترقی نے خا ندانی نظام زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
میڈیا کے اس غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کے اثرت تو اب ظاہر ہونا شروع ہوئے ہیں۔ اس پر ہونے والے پروگراموں کی نہ کوئی اخلاقی قدر ہے نہ کو فکری اقدار نہ مذہب سے کوئی تعلق ٹی وی پرنشر کئے جانے والے پروگرام میں جس طرح تہذیب اور رسم و رواج کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ اس نے عام شخص کی زندگی کو مزید الجھا دیا ہے۔"ہمارے اطراف میں لگے بڑے بڑے بل بورڈ جس پر رنگ برنگی پرنٹ پہنے ماڈلز ، ٹی وی پر دکھانے والے خوابوں کی دنیا کے ڈرامے اور ان میں دکھائے جانے والے محبتوں کے جال اور بے باکی کے فیصلوں کی حوصلہ افزائی ، شادی بیاہ کی غیر ضروری اور ان گنت رسم ورواج اور ان میں دکھائی جانے والی مہندیاں، ڈریسز ڈھوکل ڈھمکے،جبکہ اس کے مقابلے میں ان پڑھ غریب جنہیں ماں کی گود سے تعلیمی اداروں تک واحد جمع ، مذکر مؤنث، مارننگ واک ، قائد اعظم کے چودہ نکات اور مغلیہ دور کے عروج و زوال کے سوا معاشرے کا ایک بہترین فرد بنانے کے لئے کچھ پڑھا یا نہ جاتا ہووہاں قندیلیں پیدا ہوتی جاتی ہیں"[12]۔
میڈیا کی شتر بے مہاریلغار کا اثر ہے کہ مغربی دنیا کی طرح اب مسلم امہ بھی اسلامی اقدار سے عاری ہو رہی ہے۔ مغربی طرز معاشرت کی پیروی میں مسلم خواتین میں شرعی پردہ کا اہتمام تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ اسلامی شرم و حیا عنقا ہو رہی ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں مرد وزن کا اختلاط عام ہو رہا ہے۔ مخلوط تعلیمی ادارے، ہسپتال ، تفریح گاہیں، اونچے درجے کے ریسٹورنٹ و کلب وغیرہ تو اب یورپی معاشرے کا منظر پیش کرتے ہیں۔ہم اپنے ملک اورمعاشرےکودیکھیں تومیڈیا کی وجہ سےطرز معاشرت پر اسکے نمایاں اثرات دیکھے جا سکتے ہیں گھر یلو خواتین میں فیشن کو فرو غ حاصل ہوا اورانہوں نے میڈیا پر دکھائے جانے والے اداکاراؤں، اور ماڈلز کی نقل میں خود کو ویسا ہی ڈھالنے کی کوشش کی ہیں اور اپنے لباس میں تبدیلی پید اکی ہے۔ کل تک ہمارے معاشرے میں لباس اور پہناوے میں شائستگی اور تہذیب کی جھلک تھی لیکن میڈیا نے ہی طرز معاشرت میں پہناوؤں ، لباس کو یکسر بدل دیا ہے۔ اب خواتین سر عام بلا جھجک کے پینٹ اور جینز میں نظر آتی ہیں۔ یہی نہیں اعلیٰ طبقے کی خواتین کا لباس اب عریانی کی حددوں کو پار کر رہا ہے اور یہ تبدیلی انہی چینلز کی پیدا کردہ ہے۔یہی نہیں اٹھنا بیٹھنا ،نشست و برخاست سب میڈیا کےزیر اثر نظر آتا ہے، حتیٰ کہ گھروں کی سجاوٹ میں بھی خواتین میڈیا سے متاثر نظر آتی ہیں اور ماضی میں جو باتیں ہمارے معاشرے کیلئے ناقابل قبول تھیں اب ذرائع ابلاغ خاص کر ٹی وی چینلز کی وجہ سے رفتہ رفتہ قابل قبول ہو کر معاشرے کا حصہ بنتی جا رہی ہیں مردو زن کا اختلاط ، عورتوں کی بے پردگی ، ٹیلی میڈیا میں کام کرنے والے مرد و خواتین بھی شہوتوں کی کثرت کو فروغ دینے میں معاون بن رہے ہیں۔ذرائع ابلاغ نے مساوات مرد وزن کے نعرے میں عورت کو گھر سے نکالا اور بازاروں کی زینت بنا دیا۔ آزادی نسواں کے نام پر اس پر مشقت کا بوجھ لا دیا۔ اور معاشی چوراہوں پر بکاؤ مال بنا کر چھوڑ دیا۔ذرائع ابلاغ نے عورت کو بطور اداکارہ گلو کارہ، اور ماڈل پیش کر کے اس کا استحصال کیا ، کسی بھی اشتہار کو دیکھ لیں عورت اس کا لا زمی جزہو گی گویا عورت کے بغیر اشتہار ہو ہی نہیں سکتا ۔
جدید معاشرے میں عریانی و فحاشی اور بے حیائی پھیلانے میں ذرائع ابلاغ نے گھر گھر نقب لگائی ہے، ہر پروگرام میں عورت کھلےبال،کھلےبازو،ننگی پنڈلیوں اورنیم عریاں نظر آتی ہے،مختلف پروگراموں میں مخلوط مجالس ، رقص اورنقل و حرکت کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، مردوعورت کے آزادانہ اختلاط نے عورتوں میں حسن کی نمائش کے جذبے کو اجاگر کیا ہے چنانچہ خوشبوئیات سے لیکر شیونگ کریم، بلیڈ،چائے سگریٹ ٹوٹھ پیسٹ کے اشتہار میں عورت کی موجودگی کامیابی کی ضمانت ہے۔ کارخانوں ، تعلیمی اداروں، ہوائی جہازوں ، ہسپتالوں اور کاروباری اداروں میں عورت کو کم حیثیت کام پر لگا کر ماں ، بہن بیٹی کی حیثیت سے گرا دیا ہے۔ خود غرض سرمایہ داروں کے لشکر نے ہر ممکن تدبیر سے عوام کی شہوانی پیاس کو بھڑکانے میں لگا ہوا ہے۔ اور اپنے کاروبار کے فروغ کے لئے انھوں نے فحاشی و عریانی کو بڑھا وا دیا اور اس کام میں اعلیٰ درجہ کی ذہانت فن کاری اور نفسیات کی مہارت صرف کی جا رہی ہے تاکہ لوگوں کے ذہنوں پر ان کی گرفت مضبوط رہے[13]۔
ہما رے معا شرے پر بیرونی ثقا فتی اثرات نمایاں طور سے دیکھے جا سکتے ہیں ،عام طرز زندگی کا مشاہدہ کیا جائے تو طرز لباس سے لیکر رسم و رواج اور غیر مسلم تہوار تک ہمارے معا شرے کا حصہ بنتے جارہے ہیں ۔میڈیا کے شوروغل نے سچ اور جھوٹ کی پہچان مشکل بنا دی ہے۔ مباحثوں ، خبروں اور دلکش پروگراموں کے ذریعے فکر،سوچ اور ذہن کو مسخر کیا جاتا ہے۔ ملکی اور غیر ملکی میڈیا کی بھر پور یلغار کی بدولت آج اسلامی معاشرے میں فحاشی ، عریانی رقص و سرور سب سے بڑھ کر لادینی لعنتوں کا سامنا ہے ۔ ہندوانہ رسومات عام ہو رہی ہیں بچوں اور نوجوانوں کو مغربی اور ہندووانہ رسم رواج سے آشنا کر دیا گیا ہے۔ روشن خیالی اور تفریح کے نام پر نسلوں کو بدلا جا رہا ہے۔
ہمارا میڈیا اس وقت بھارتی کلچر کو فروغ دینے میں لگا ہوا ہے۔ ٹاک شوز، ڈراموں ، فلموں اور تفریح کے دیگر پروگراموں میں بھی ہماری ثقافت کہیں نظر نہیں آتی ۔مختلف چینلز پر غیر ملکی ڈرامے اور فلمیں پیش کیجاتےہیں جو نہ صرف ان کےرسم و رواج کو پروان چڑھا رہے ہیں ،بلکہ ان کے مذہبی رسومات کو بھی بڑے ہی مؤثر انداز میں پیش کیا جا تا ہے ۔ہمارے ذرائع ابلاغ خاص طور سے جو انڈین ڈرامے، فلمیں اور کارٹون دکھاتے ہیں ان پروگراموں کو بڑے پر کشش انداز میں رسم و رواج سے بھرپور پیش کیا جاتا ہے۔اسی بنا پر لوگ ان کی جانب راغب ہوتے ہیں اور ہر چھوٹا بڑا ان پروگراموں کا گرویدہ ہےاورمسلسل دن رات انہی پروگراموں کو دیکھتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ اسی زبان کا بھی استعمال کرتے ہیں جو ان پروگراموں کی ہوتی ہےاور اسی انداز بیان کو بھی اپناتے ہیں ۔ محمد زابر سعید لکھتے ہیں کہ: "بھارت نے اپنی فلموں اور بعد ازیں ڈراموں کی مدد سے ہمارے معاشرے کا چلن ہی بدل کر ر کھ دیا ہے اردو میں فارسی اور عربی کے الفاظ نئی نسل کوسمجھ نہیں آتے بلکہ اندھی الفاظ ان کی جگہ لے چکے ہیں "[14]
بچےجوقوم کا اثاثہ اور کسی بھی قوم کا آنے والا کل ہوتے ہیں اور وہی قوم ترقی کر سکتی ہےجس کے دامن میں جسمانی و نفسیاتی اور روحانی اعتبار سے صحت مند قوم ہو گی۔"عصری ذرائع ابلاغ بچوں کو ایسے مشاغل میں مصروف رکھتے ہیں کہ وہ نہ صرف جسمانی اعتبار سے سست ، مایوس اور ڈھیلے ہو جاتے ہیں بلکہ تشدداور فحاشی کے مناظر ان پر زہر یلے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ ٹی وی پر دکھائے جانے والے تشدد اور جرائم میں معاشرے میں بچوں میں بڑھتی ہوئی سنگدلی، درشتی اور بے ادبی میں واضح تعلق موجود ہے"[15]۔
بچوں میں تقلید کا مادہ زیادہ ہوتا ہے۔ ٹیلی ویژن دلکش ذرائع ابلاغ ہونے کی بنا پر بچوں کو بہت جلد اپنی طرف مائل کرتا ہے۔ تصویر ظاہر ہونا، محترک ہونا بچوں کی متجسس ذہن کو اپنی طرف مبذول کرنا ہے ۔مغربی طرز کے پروگرام انہی کی تہذہب و ثقافت اور تعلیم و تربیت کے مطابق ہوتے ہیں۔ ان پروگراموں میں سب سے مؤثر کارٹون پروگرام ہیں جو بچوں میں بے حد مقبول ہیں۔ یہ بچوں کو مغربی ثقافت و روایت سے آگاہ کرتا ہےاور بچوں کے ذہنوں کو خاص سمت کا شعور دیا جا رہا ہے۔چونکہ کارٹون عموماً طلسماتی کردار پر مشتمل ہوتے ہیں جس میں کارٹون کے کردار کو عام انسانوں سے ہٹ کر غیر معمولی طاقت اور صلاحیت کا مالک دکھایا جاتا ہے اور بچے اسکے کارنامے دیکھ کر ان کرداروں سے مرعوب ہو جاتے ہیں۔ اب تو کارٹون بھی مذہبی عقائد کی ترویج کیلئے استعمال ہونے لگے ہیں غیر مسلم ممالک اپنی مذہبی کتابوں میں موجود سوچ اور مواد کو کارٹون کی شکل میں پیش کر رہے ہیں جن کی وجہ سے مسلمان بچوں کی سوچ وفکر کو غیر محسوس اندازمیں غیر مذہبوں کی طرف راغب کیا جا رہا ہے۔ مسلمان بچے ان طلسماتی کرداروں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتےاور کچی عمر میں کسی غیر مذہب کی شخصیت سے اس طرح متاثر ہونا انتہائی خطرناک ہے۔ "ہم اپنے بچوں کو نادانستہ غیر محسوس انداز میں غیر مذہب کے تعلیمات سے روشناس کروا رہے ہیں۔ ایسے کارٹون جو مذہبی کرداروں میں ڈھلے نظر آتے ہیں، جن میں چھوٹا بھیم، جو مہا بھارت جو ہندؤں کی ایک مقدس کتاب میں ایک بہادر شخص کے طو ر سے ہے اس کے ساتھ ہی کرشنا کا کارٹون اور اس کے علاوہ ہنو مان بندر اور سور کی شکل کا کارٹون یہ سب وہ محرمات ہیں جن کا ہم تذکرہ بھی کرنا پسند نہیں کریں گے۔ لیکن کارٹون کی صورت میں ہمارے بچوں کے ذہنوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں"[16]۔
اس کے علاوہ ایسے ویڈیو گیمز بھی اب آگئے ہیں جو مار کٹائی اور تشدد سے بھر پور ہیں ،بلکہ پوری طرح سے بچوں کے ذہن کو متا ثر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مذہبی سوچ کو بھی بدل رہی ہے۔اس کے اثرات بھی کا رٹونز کی طرح ہی ہیں،ان ویڈیو گیمز سے بچوں کے ناپختہ ذہنوں میں تشدد کا مزاج فروغ پاتا ہے۔ایک دوسرے کو مارنا، سر پھاڑ ڈالنا، دوسروں کو گالیاں دینا دوسرے کو گرانے اور پچھاڑنے کے لئے کسی بھی حد سے گزر جانے کی نوعیت کے جذبات ابھرتے ہیں۔
معاشرتی نفسیات کے امریکی ماہر ڈاکٹر البرٹ بندورا (Dr. Albert Bandura) کے مطابق بچےآموزش بذریعہ تقلیدسے بہت سی عادتیں اور طریقے سیکھتا ہے اور بچے دوسروں کی تقلید بہت جلد کرتے ہیں ، بندورا کا کہنا ہے کہ :"اس طریقے سے سیکھے ہوئے افعال فرد کے ذہن میں محفوظ ہو جاتے ہیں اور وہ ان کا اظہار کرتا ہے۔ مثلاً بچے لڑائی کے مناظر سے بھر پور فلمیں دیکھ کر جارحیت سیکھ جاتے ہیں۔البرٹ نے بچوں کو ایک فلم دکھائی جس میں ایک خاتون ہتھوڑے کی مدد سے گڑیوں کو توڑتی پھوڑتی نظر آتی ہے۔فلم دکھانےکے بعد جب بچوں کو گڑیاں کھیلنے کو دی گئی تو بچوں نے فلم میں دکھائی جانے والی خاتون کی تقلید میں گڑیوں کیساتھ جارحانہ رویے کامظاہرہ کیا"[17]
خلاصہ بحث:
جدیدمیڈیا پر پیش کئے جانے والے ڈرامے فلمیں، مارننگ شوز ، میوزیکل پروگرام کسی بھی طرح سے ہمارے ثقافتی و مذہبی اقدار کے مطابق نہیں ہیں۔ میڈیا نے عوام کی سوچ و فکر کو متا ثر کیا ہے حال ہی میں ایک چا ئے والے کو اس کی خو بصورت کی بنا پر ہیرو بنا کر پیش کیا گیا تو کیا اس ملک میں اسا تذہ ڈاکٹر، انجینئر،دوسرے ہنر مندوں کی کو ئی قد رو قیمت نہیں ان کے کا رنا موں کی کوئی وقعت نہیں،وہ طالبعلم جو دن رات محنت کر تے ہیں ،کیا ان پر اس کے منفی اثرات مر تب نہیں ہو نگے جب ہما را معیا ر صرف اداکار اور نا چ گا نے والے رہے جا ئیں گے؟درحقیقت ان ہی ذرائع ابلاغ نے ہی اسلامی اقدار کو پس پشت ڈال دیا ہے۔
جدید ذرائع ابلاغ کے عوام پر ایسے نظریات مسلط کئے جا رہے ہیں جس سے معاشرے میں منفی رجحان فروغ پا رہا ہے ۔ لوگوں کی سوچ و فکر کے دائروں کو تبدیل کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے اسلامی تشخص اور معاشرتی روایات ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ پروپیگنڈے کے ذریعے اسلامی شعار کی تحقیر و توہین کی جارہی ہے۔ جدید ذرائع ابلاغ منفی پروپیگنڈے کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کو استعمال کر کے مغرب نے مسلمانوں کو ایسی غلامانہ ذہنیت کا مالک بنا دیا ہے کہ خود ان کی اپنی نظر میں ان کی تہذہب قومی روایات اور نظریہ زندگی بے وقعت ہو کر رہ گئے ہیں۔انہوں نے ذرائع ابلاغ جیسے خطرناک مؤثر ہتھیار سے وہ کام لیا جو بڑی سے بڑی فوجی قوت کے استعمال سے بھی ممکن نہیں تھا۔یہ ایک ایسی نفسیاتی جنگ ہے جو بغیر ہتھیاروں کے کامیابی سے لڑی جا رہی ہے۔ہمارے ذرائع ابلاغ،پرنٹ والیکٹرانک میڈیاکےکرتادھرتاپڑھےلکھےلوگ ہیں اسلئےیہ توکوئی بھی تسلیم نہیں کرسکتا کہ وہ ہمارےقومی نظریہ یاہماری معاشرتی اوردینی اقداروروایات سےنابلدہیں۔ اس لئے لامحالہ یہی رائے قائم کی جاسکتی ہےکہ ان اقدار وروایات کاایک خاص مشن کے تحت جان بوجھ کرمذاق اڑایا جا رہاہے۔یہ مشن کیاہے؟بظاہرتو یہی معلوم ہوتاہےکہ” ملت پاکستان کےبدن سےروح محمدﷺ نکال دو“۔
جدیددورمیں میڈیاکوبہت آزادی دی گئی لیکن اس قسم کی شتربےمہاراورمادرپدرآزاد آزادی کےبےحدمنفی اثرات سامنےآئے۔اس سےخاندانی نظام ختم ہورہاہے،بچوں میں بڑوں کاادب اوربڑوں میں بچوں سےمخصوص انسیت ختم ہوتی جارہی ہے۔ شرم وحیا توگویا ماضی کی کتابوں کاحصہ بن گئی۔ لحاظ ومروت تواب کسی کومعلوم ہی نہیں کہ کس چیز کانام تھا بس آزادی بولڈہونا ،منہ پھٹ ہوناہی شایدنئی تہذیب ہےاسکی وجہ صرف ہمارا میڈیا ہے کیونکہ میڈیا کےپاس کوئی واضح مقصدہی نہیں۔ہمارےمعاشرےمیں پورا میڈیا چند مالکان اورمخصوص طبقہ فکرکے چندصحافیوں کےنظریات کےگردرقص کررہاہےاورپوری قوم انکے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔صحافت کواگرہم معاشرے کاآئینہ کہتے ہیں تویہ آئینہ صرف جرم،سیکس ،لچر پن کو ہی کیوں دکھارہاہے؟کیا ہمارامعاشرہ عریان زدہ معاشرہ ہی رہ گیا ہے؟ ہاں اب مکمل طورپرتہذیب وتمدن ختم ہوتاجا رہاہے۔دوسرےجرائم کوتو دکھادیاجاتاہےلیکن سزاکےبارےمیں کیوں کچھ نہیں بتایاجاتا؟اس سےان ناپختہ ذہنوں میں جوابھی”جرم وسزا“کی نوعیت کونہیں سمجھتے،انکوایک ”محرک“مل جاتاہےوہ بھی”جرم“ کرکےدیکھتے ہیں کیونکہ انہوں نےیہ دیکھ لیاہوتاہےکہ اس سے پہلے اس جرم کی سزا نہیں مل سکی۔اس صورت میں پورا معاشرہ ہی مجرموں کامعاشرہ دکھائی دیتاہے،عدم تحفظ کا احساس پیداہوتاہےاورخوف جنم لیتا ہے۔ مجرموں کی اسطرح سےتشہیرہوتی ہےکہ وہ ہیرو دکھائی دیتے ہیں اوران گنت ناپختہ اذہان منفی اثرات قبول کرلیتے ہیں جرائم کی غیرمعمولی تشہیر برائی کواچھالنے کےذیل میں آتی ہے۔ برائی کو اچھالنا صحافت کےمسلمہ ضابطے کی
خلاف ورزی بھی ہےاوراسلامی تعلیمات کی بھی منافی ہے۔
حوالہ جات
- ↑ الیسوعی،لویس معلوف،مترجم عصمت ابوسلیم،لاہور، مکتبہ دانیال،ص76
- ↑ ایس ایم شاہد، مطالعہ صحافت،لاہور، پبلشرز ایمپوریم، 1998ء، ص47
- ↑ ایضاً،ص23
- ↑ الا حزاب 70:33
- ↑ البقرہ 2 :263
- ↑ الانعام6 :152
- ↑ البقرہ 2 :283
- ↑ البقرہ 2 :42
- ↑ الحجرات 49 :6
- ↑ النور24 :15
- ↑ الخطیب العمری،ولی الدین محمد بن عبداللہ،مشکواۃ المصابیح، مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ، کتاب الادب، باب السلام ، الفصل الاول، حدیث957
- ↑ نوازش،علی معین، حساب تو دینا ہی ہوگا، روزنامہ جنگ ، کوئٹہ،20جولائی 2016ء،ص3
- ↑ شیخ،وسیم اکبر، ڈاکٹر، ذرائع ابلاغ اور اسلام، نعمانی کتب خانہ ،لاہور،2015ء، ص171
- ↑ محمد زابر سعید بدر، "کشمیر اور بھارتی نفسیاتی جنگ "لاہور ، روزنامہ نوائے وقت ، 18اکتوبر 2016ء
- ↑ خالد علوی ، ڈاکٹر "اسلام کا معاشرتی نظام "، لاہور،الفیصل نا شران ، ص438
- ↑ مفتی ،محمد شہزاد ،"کارٹون بینی ، ویڈیو گیم اور مسلمان بچے" کراچی ، رطیب پبلیشرز ، ص 21-22
- ↑ عبدالحمید،" نفسیات "،لاہور ،اردو سا ئنس بورڈ ، ص287
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |