2
1
2018
1682060029185_871
165-174
https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/29/325
https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/29
Prophet Muhammad(SAW) Biography Ideal Personality Qurān Hād┘th Prophet Muhammad (SAW) Biography Ideal Personality Qurān Hād┘th
نبی کریمﷺکی خصوصیات کوذکرکرتے ہوئے قرآن مجیدمیں ارشادہے:
ھوالذی بعث فی الامیین رسولاًمنھم یتلواعلیھم آیاتہٖ ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمۃ، وان کانوامن قبل لفی ضلالٍ مبین[1]
ترجمہ:(اللہ) وہ ذات ہے جس نےامیین(عربوں) میں انہی میں سےایک رسول بھیجا، جوان پر اللہ کی آیات تلاوت کریں اوران کاتزکیہ کریں، اوران کوکتاب وحکمت(سنت) کی تعلیم دیں، اوراگرچہ وہ اس سےپہلےواضح گمراہی میں تھے۔
ایک جگہ ارشاد ہے:
انک لعلیٰ خلق عظیم [2]
ترجمہ: اے محمدﷺ!بے شک آپ خلق عظیم پر(قائم) ہیں۔
اسی طرح امت کوتعلیم دیتے ہوئے فرمایا:
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ لمن کان یرجواللہ والیوم الآخر[3]
ترجمہ: تحقیق تمہارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے ہراس شخص کیلئے جواللہ اوریوم آخرت کی امید رکھتاہے ۔
اس آیتِ کریمہ کی روسے ایک مؤمن کے لیے اللہ تعالیٰ کاآخری اوربرگزیدہ رسول حضرت محمدمصطفیﷺ بمنزلۃ روشنی کے مینار کے ہیں، جس کی مددسے ہرمسلمان زندگی کی تاریکیوں میں روشنی حاصل کرکے دنیاوی سفر طے کرتاہے اورآخرت کی طرف گامزن ہے ۔نبی کریمﷺکے کردارواخلاقِ عظیمہ کواپنے لیے نمونہ بنانااورمشعلِ راہ بناناہرمسلمان کادینی فریضہ ہے ۔اوراسی میں اس کی فلاح وکامیابی ہے، اوراسی میں اس کی صلاح وبہتری ہے، لیکن جب کوئی مسلمان اس طریقہ ووطیرہ سے انحراف کرکے تغافل برتے تووہ دیناوی زندگی کی تاریکیوں میں بھٹک کرصحیح راستے سے دورہوجاتاہے اوراس کی زندگی جادۂمستقیم سے ہٹ جاتی ہے، اور پھر جب وہ بھٹک کرحرص وہوس کاپجاری بن جاتاہے توقرآنی آیتِ "اولٰئک کالانعام بل ھم اضل "کی روسے وہ جانوروں سے بھی بدتر ہوجاتاہے ۔
توگویاکہ ایک کامیاب مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ آپﷺکے اسوۃ اورسیرت اورآپﷺکی سنت وحدیث کوسمجھے اورکم ازکم زندگی کے کسی بھی موڑپرپیش آنے والے حالات وواقعات کے بارے میں آپﷺکے طرزِ عمل کوسمجھے ۔ اورایک مسلمان کے لیے آپﷺکی سیرت کواپنانااختیارکے درجے میں نہیں ہے بلکہ ضروری ہے، کیونکہ اگرچہ آیتِ کریمہ "لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ الخ"سے اختیار معلوم ہوتاہے ۔تاہم قرآن کریم کی دیگرآیات میں اس کےلازمی ہونےکی طرف اشارہ ہے۔چنانچہ ارشادباری تعالی ٰ ہے:
قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی [4]
ترجمہ:(اے پیغمبر) آپ کہہ دیجئے کہ اگرتم اللہ سے محبت کرتے ہوتومیری اتباع کرلو۔
اسی طرح دوسری جگہ ارشادہے:
من یطع الرسول فقد اطاع اللہ [5]
ترجمہ: جس نے رسول کی اطاعت کی تحقیق اس نے اللہ کی اطاعت کی ۔
الغرض ایک مسلمان کیلئے اپنے پیغمبرحضرت محمدﷺکی سیرت سے باخبر رہنااوراس کواپناناضروری اورانتہائی اہم ہے ۔ زیر نظرتحقیق میں سیرت کے بارے میں چند تحقیقی باتوں کاتذکرہ کیاجاتاہے:
(1) سیرت کالغوی معنیٰ:
یہ لفظ اردواورفارسی میں "سیرت "اورعربی میں "السیرۃ" استعمال ہوتاہے ۔اس کامادہ، س، ی، رہے۔
ساریسیرسیرًاوسیرۃًومسیرۃً(باب ضرب یضرب) اس میں دواحتمال ہیں: یہ سارَیسیرسے مصدر بھی بنتاہے، اوراس صورت میں اس کامعنیٰ ہوتاہے: "چلنا، راستہ لینا، رویہ یاطریقہ اختیارکرنا، روانہ ہونا، عمل پیراہونا[6]"جبکہ تحقیقی بات یہ ہے کہ ساریسیرسے فعلۃ کاوزن ہے، بمعنی چلنے کاانداز وطریقہ ۔جیسے ذبحۃ کامعنی ہے: ذبح کاطریقہ ۔اورقتلۃ کامعنیٰ ہے: قتل کاطریقہ[7]
اس کے علاوہ یہ مندرجہ ذیل معانی میں استعمال ہوتاہے ۔
اسلوب، چال چلن، حالت، رویہ، کردار، خصلت وعادت۔[8]
یہ لفظ اگرچہ عام ہے تاہم اب یہ نبی کریمﷺکی ذات کے ساتھ خاص ہوگیاہے ۔لفظِ سیرۃ مفردہے اوراس کی جمع سِیرَآتی ہے جیسے امام محمدؒ کی کتا بیں: السیرالصغیروالسیرالکبیروغیرہ۔اوریہ لفظ اگرچہ آﷺکی ذات کے ساتھ خاص ہوگیاہے یہی وجہ ہے کہ جب مطلق لفظِ سیرت بولاجائے تواس سے آپ ﷺکی سیرت ہی مرادہوتی ہے ۔چنانچہ مطالعہ سیرت یاکتبِ سیرت میں سیرت سے مراد آپﷺکی مبارک زندگی کے حالات وواقعات ہی ہے ۔
تاہم بعض دفعہ اہم شخصیات کی سوانحِ عمری اوراہم تاریخی واقعات کے لیے بھی استعمال ہوتاہے ۔چنانچہ "سیرتِ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا، یاسیرالصحابہ وسیرالصحابیات، کے نام سے کتابیں مشہورومعروف ہیں ۔البتہ جب کبھی کبھار اس لفظ کی اضافت کتاب کے مصنف ومؤلف کی طرف ہوجائے تووہاں پرآپﷺکی سیرتِ طیبہ ہی مرادہوتی ہے ۔چنانچہ "سیرت ابن ہشام، سیرت ابن اسحاق وغیرہ میں آپﷺکی سیرت ہی مراد ہے جوابن ہشام وابن اسحاق وغیرہ نے لکھی ہے ۔
سیرت کالفظ کبھی مطلق استعمال ہوتاہے جبکہ اس کے علاوہ کبھی سیرت مصطفیٰ، سیرت النبی ؐ، سیرت الرسولؐ وغیرہ الفاظ کے ساتھ بھی استعمال ہوتاہے، نیزکبھی کبھار اظہارِ عقیدت ومحبت کے لیے سیرت طیبہ، سیرت مطہرہ یاسیرت پاک وغیرہ جیسے الفاظ کے ساتھ بھی مستعمل ہوتاہے ۔
سیرت کااصطلاحی مفہوم:
سیرت کااصطلاحی مفہوم مندرجہ ذیل مختلف طریقے سے بیان کیاگیاہے:
السیرۃ: الحالۃ التی یکون علیھاالانسان وغیرہ غریزیاً کان اومکتسباً۔[9]
ترجمہ: سیرت سے مراد وہ حالت ہے جس پرانسان وغیرہ قائم ہو، چاہے وہ طبعی وغیراختیاری(قدرتی) ہویاچاہے وہ کسب کی گئی ہو۔
(2) Life of the prophet Muhammad ﷺmanner of dealing with others, conduct and biography. [10]
ترجمہ: پیغمبرمحمدعلیہ السلام کی زندگی، دوسروں کےساتھ ڈیلنگ ومعاملات کاطریقہ، چال چلن اورسوانح عمری(کانام سیرت ہے)
(3) آنچہ متعلق بوجودپیغمبرﷺوصحابۂکرام رضوان تعالی علیھم وآ ں عظام است وازابتداءِ تولدِ آنجناب تاغایتِ وفات آںِ راسیرت گویند۔[11]
ترجمہ: وہ جونبی علیہ السلام اورصحابہ کرام کےوجود سے متعلق ہواورآپ علیہ السلام کی ولادت مبارک سے لےکر وفات تک کےحالات کوسیرت کہتے ہیں۔
(4) آپﷺکی اصل سیرت توتمام ذخیرۂ احادیث ہے، لیکن متقدمین کی اصطلاح میں فقط غزوات اورسرایاکے حالات اور واقعات کے مجموعے کوسیرت کہاجاتاہے ۔[12]
گویاکہ آپﷺکی مبارک زندگی کے حالات وواقعات کے بیان کوسیرت کہتے ہیں ۔
لفظِ سیرت پورے قرآن کریم میں صرف ایک مرتبہ ذکرہواہے ۔چنانچہ ارشادِ باری تعالی ٰ ہے:
سنعیدھاسیرتھاالاولیٰ [13]
ترجمہ: ہم اس کو(اژدھاجوموسیٰ ؑکی لاٹھی سے بن چکاتھا) اس کی پہلی حالت پرلوٹادیں گے ۔
ابتدائی دَور میں کتب سیرت کوعموماًمغازی وسیرکی کتابیں کہاجاتاتھا۔لفظِ مغازی مغزیٰ کی جمع ہے جس کامعنی ہے؛ جنگ یاغزوہ کی جگہ ووقت ۔تاہم اب مغازی سیرت کاایک جزء بن گیاہے ۔
سیرت اورمغازی میں فرق:
فنی اعتبار سے سیرت اورمغازی میں مندرجہ ذیل فرق ہے:
مغازی کااندازتاریخی ہواکرتاہے جبکہ سیرت کااندازقانونی ہوتاہے ۔ خصوصاً جب فقہ میں سیرت کالفظ استعمال ہوجائے
تواس سے مراد جنگ وقتال سے متعلق قوانین ہوتی ہیں، مثلاً: ذمی ومستامن کے احکام وغیرہ ۔جیساکہ امام محمدؒ کی کتابیں: السیر الکبیر،
والسیرالصغیر، السیرالاوسط مشہورہیں ۔ان میں انہی احکام وقوانین کاذکرہے ۔
سیرت عندالمحدثین:
محدثین کے نزدیک سیرت کالفظ مغازی اورجہاد دونوں میں استعمال ہوتاہے ۔چنانچہ صحیح مسلم میں کتاب السیر والجہاد ۔ بخاری میں کتاب الجہاد والسیر اورفتح الباری شرح البخاری میں کتاب المغازی والسیرہے ۔
حدیث اورسیرت میں فرق:
نبی پاکﷺکے ارشادات، افعال واعمال اورتقریرات اس اعتبار سے کہ کیاجائزہے؟، کیاناجائز ہے ؟یہ حدیث ہے، جبکہ آپﷺکے افعال واقوال وتقریرات میں آپﷺکے شمائل اورطرزِ زندگی ملحوظ ہوتویہ سیرت ہے ۔ نیزسیرت میں کم درجہ کی روایات بھی چلتی ہیں، جبکہ حدیث میں مستند روایات کاہوناضروری ہے ۔
سیرتِ طیبہ کے مآخذ ومصادر:
==(1) ==قرآن مجید==: ==سیرت کابنیادی اورمستند ترین ماخذ قرآن مجید ہے ۔چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی ٰ عنھاکااشاد ہے:
"کان خلقہ القرآن [14]"یعنی آپﷺکے اخلاق بعینہٖ قرآن ہے ۔
چنانچہ بعض سیرت نگاروں نے سیرت کی پوری کتابیں ایسی لکھی ہے جن کی بنیادقرآن مجید کی آیات کی روشنی میں سیرت طیبہ کابیان ہے ۔مثلاً: ابوالکلام آزادی کی کتاب "رسول ِرحمت"۔
==(2) ==سیرت نبوی ﷺکادوسراماخذ تفسیرہے:
تفسیرکی تعریف:
وقال الزركشي: التفسير: علم يفهم به كتاب الله المنزل على نبيه محمد صلى الله عليه وسلم وبيان معانيه واستخراج أحكامه وحكمه ۔[15]
ترجمہ: تفسیرسے مراد وہ علم ہے جس کے ذریعے نبیﷺپرنازل شدہ کتاب اللہ کافہم اوراس کے معانی کابیان اورحکم اورحکمتوں کااستخراج معلوم ہوں۔
اس کی مثال یہ ہے کہ قرآن کریم کی آیت ہے:
ولاتکن للخائنین خصیما۔[16]
اس کی تفصیل یہ ہے کہ بنی ابیرق نے خودچوری کی تھی اورالزام ایک یہودی پرلگایاتھا، اورالزام کوسچ ثابت کرنے کے لیے یہ
چال چلائی کہ کہ آٹے کے تھیلے میں سوراخ کرکے مذکورہ یہودی کے گھرتک لے گئے تھے ۔چنانچہ ظاہری شواہدوقرائن کودیکھ کرآپ
ﷺ کامیلان نبی ابیرق کی طرف بن گیاتھا، لیکن آیتِ کریمہ نازل ہوگئی، جس سے یہودی کی برات وبے گناہی ثابت ہوگئی ۔
قال أبو جعفر: وهذه الآية عندي تأديبٌ من الله جل ثناؤه عبادَه المؤمنين أن يفعلوا ما فعله الذين عذَروا بني أبيرق= في سرقتهم ما سرقوا، وخيانتهم ما خانوا۔[17]
==(3) ==سیرت کاتیسراماخذحدیث ہے۔حدیث، قرآن کریم کے بعد سیرت کامستندترین ماخذہے ۔
حدیث کی تعریف:
نبی علیہ السلام کےقول، فعل اورتقریرکوحدیث کہتے ہیں[18]۔چنانچہ امام بخاری ؒکی کتاب "صحیح بخاری "میں باب بدء الوحی "کتاب المغازی اورکتاب النکاح "سیرت ہی سے متعلق احادیث پر مشتمل ہیں۔
==(4) ==سیرت کاچوتھاماخذ شمائلِ نبوی ﷺہیں ۔کتبِ شمائل نبوی ﷺسے مرادوہ کتابیں ہیں جن میں خصائل ِ نبویہ ﷺپرمبنی احادیث ذکرہو، اس بارے میں شمائلِ ترمذی امام ترمذی کی کتاب مشہورہے، اسی طرح "الشمائل النبویہ والخصائل المصطفویہ" بھی اسی سے متعلق ہے۔
==(5) ==سیرت کاپانچواں ماخذ مغازی ہے ۔چنانچہ شروع میں سیرت اورمغازی میں کوئی فرق نہیں تھاتاہم اب مغازی سیرت کاایک جز ء بن گیاہے ۔
==(6) ==سیرت کاچھٹاماخذ طبقات کے نام سے لکھی گئی کتابیں ہیں جس کی تفصیل یہ ہے: کہ بعض علماء نے مشہورشخصیات کوالگ الگ کرکے ہرگروہ یاطبقے کے مشاہیرکے حالات الگ الگ کتابوں میں جمع کیے ہیں، جوطبقات کے نام سے مشہورہیں، جیسے: طبقاتِ ابن سعد، طبقات الاطباء وغیرہ ۔ان جیسی کتابوں میں چونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم سے متعلق احوال بھی بیان کیے گئے ہیں، جو سیرت کامواد بن سکتاہے، مثلاً: الطبقات الکبیر(جوطبقات ابن سعدرضی اللہ تعالیٰ کے نام سے مشہورہے) یہ محمد بن سعد کی تصنیف ہے ۔صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اورتابعین کے حالات پرمشتمل ہیں ۔مکمل کتاب 8جلدوں میں ہے ۔اسی طرح علامہ ذہبیؒ کی کتاب "تاریخ الاسلام والطبقات المشاہیر والاعلام "بھی اسی سے متعلق ہے ۔
==(7) ==سیرت کے لیے ماخذ ومصدرکتب تواریخ بھی ہے ۔چنانچہ سیرت کاایک بہت بڑاحصہ تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے، خصوصاً حرمین(مکہ مکرمہ) کی تاریخ جن کتابوں میں بیان کی گئی ہے۔وہ سیرت کے لیے ایک بڑاماخذ ہے ۔چنانچہ مدینہ منورہ کی تاریخ پر پہلی کتاب، ابن زبالہ نے 199ھ میں لکھی ۔اسی طرح ابن الارزق کی کتاب اخبارمکہ المشرفۃ مشہورہے ۔اس کے علاوہ علامہ سمہودی کی کتاب وفاالوفاء باخباردارالمصطفیٰ، ابراھیم رفعت پاشا کی کتاب تاریخ الحرمین، محمد حسین ہیکل کی کتاب فی منزل الوحی، عبدالقدوس انصاری کی کتاب آثارالمدینۃ المنورۃ ۔اسی طرح اردومیں مولٰناعبدالمعبود کی دوکتابیں "تاریخِ مدینہ منورہ اورتاریخِ مکہ مکرمہ" اس بارے میں لکھی گئی کتبِ تاریخ ہیں۔خاص حرمین پرلکھی گئی کتب کے علاوہ اوربھی تاریخِ اسلام کی ضخیم کتابیں موجود ہیں جوسیرت کے لیے ماخذ بنی ہیں: مثلاً: امام ابن جریر طبری کی کتاب "تاریخ الرسل والملوک "جوتاریخ طبری کے نام سے مشہورہے اس کتاب کی کل 8جلدیں ہیں ۔ اس کااردومیں ترجمہ بھی ہوچکاہے ۔علامہ ابن الاثیرکی کتاب "الکامل فی التاریخ "ہے جس کی کل 9جلدیں ہیں ۔حافظ ابن کثیر کی کتاب "البدایۃ والنہایۃ "کی کل 9جلدیں ہیں، اس کتاب کی دوسری جلدسے لےکرچھٹی جلد تک کی پانچ جلد یں سیرت سے متعلق ہیں ۔اوراس کتاب کایہ مخصوص(سیرت والا) حصہ" سیرت ابن کثیر"کے نام سے الگ سے 4جلدوں میں شائع بھی ہواہے ۔
سیرت نبویﷺتاریخ کے آئینے میں(ابتدائے تالیف سیرت)
حضرت امیرمعاویۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی دورِ خلافت میں اس بات کی خواہش ظاہرکی، کہ تاریخ میں کوئی کتاب تدوین کی جائے ۔چنانچہ اس مقصد کے لیے صنعاءِ یمن سے عبید بن شریۃ الجرھمی کوبلایا۔چنانچہ اس نے گذشتہ لوگوں اوربادشاہوں کے اخبار کی کتاب لکھی ۔اوریہی چیز بنیاد بنی اس بات کی، کہ اکثرعلماء عمومی تاریخ کے بجائے خصوصی طورپرسیرت ِ نبﷺکی طرف متوجہ ہوئے ۔[19]
البتہ یہ بات مسلم ہے کہ تدوین سیرت کتابت حدیث ہی کے بعد معرضِ وجود میں آئی ہے، اورانہی محدثین ہی نے سب سے پہلے سیرت کی تدوین وتالیف کی ہے ۔چنانچہ سب سے پہلے عروۃ بن الزبیر(المتوفی 92ھ) نے تدوین وکتابت سیرت کی ۔اس بارے میں مقدمہ سیرت ابن ہشام میں لکھتے ہیں:
"فجاء اکثرمن رجل کلھم محدث، فدونوافی السیرۃ کتباً، نذکرمنھم؛ عروۃ بن الزبیربن العوام الفقیہ المحدث، الذی مکنہٗ نسبہٗ من قبل ابیہ الزبیر وامہ اسماء بنت ابی بکر ان یروی الکثیرمن الاخبار والاحادیث عن النبیﷺ وحیاۃ صدرالاسلام ۔[20]
یعنی عروۃ بن زبیر بن العوام جیسے فقیہ ومحدث نے سیرت مدون کی۔اورآپؒ کے اپنے باپ حضرت زبیربن عوام اوراپنی ماں اسماء بنت ابی بکر جیسے شریف نسب رکھنے اورنجیب الطرفین ہونے کی برکت تھی کہ آپؒ سے نبیﷺکی احادیث اورسیرت کاایک بڑاذخیرہ منقول ومروی ہے ۔اسی طرح الدکتور محمد سعید رمضان لکھتے ہیں:
ولعل اول من اھتم بکتابۃ السیرۃ النبویۃ عموماً، ھوعروۃ بن الزیبر المتوفی 92ھ ثم ابان بن عثمان المتوفی 105ھ ثم وھب بن منبہ المتوفی 110ھ، ثم شرحبیل بن سعید المتوفی 123ھ ثم ابن شھاب الزھری المتوفی 124ھ ۔[21]
ترجمہ: اورشایدکہ سب سے پہلے سیرتِ نبویﷺکوعمومی طور پرلکھنے کاجس نے اہتمام کیا۔وہ عروہ بن زبیرہے پھراس کےبعدابان بن عثمان، پھروھب بن منبہ، پھرشرحبیل بن سعد، پھرابن شھاب الزھری نے کتابتِ سیرت کی ۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اگرچہ مختلف محققین(متقدمین ومتاخرین) نے سیرت کی تالیف میں اپناحصہ ڈالاہے، تاہم ان سب میں سب سے زیادہ معتمد، محمدابن اسحاق(المتوفی 152ھ) کی سیرت ہے، جس کوعبدالملک ابن ہشام نے مہذب ومنقح کرکے امت کے سامنے پیش کیا۔اس بات پرتقریباً تمام محققین کااتفاق ہے ۔
سیرت نگاروں کی اقسام:
سیرت کی تالیف وکتابت کاکام کرنے والوں کی تین قسمیں ہیں:
==(1) ==پہلی قسم ان مؤلفین کی ہے جنہوں نے متقدمین کی کتابوں کوسامنے رکھ کرتالیف کی ہے ۔اوریہ تین طریقوں سے ہواہے ۔ اول یہ کہ متقدمین کی کتابوں کی تشریح کی ہے ۔دوم یہ کہ متقدمین کی کتابوں کااختصار پیش کیاہے ۔سوم یہ کہ متقدمین کی کتابوں کوکلامِ منظوم کی شکل میں پیش کیاہے ۔
==اول کی مثال==، سہیلی اورابوذرہے جنہوں نے سیرۃ ابن ہشام کی تشریح کرکے گویاشروحات لکھی ہیں ۔
==دوم کی مثال==، قاسم بن قطلوبغاہے جس نے حافظ علاؤالدین مغلطائ کی کتاب کی تلخیص واختصارکی ہے ۔
==سوم کی مثال==، عبدالعزیز بن احمد المعروف بسعد الدیری(م607ھ) اورابوالحسن فتح بن موسیٰ القصری(م608ھ) اورابن سعید(م 793) ہیں، جنہوں نے نظم واشعار کی شکل میں سیرت نگاری کی ہے ۔
==(2) ==دوسری قسم ان مؤلفین کی ہے جنہوں نے سیرت کی کئی کتابوں کوسامنے رکھ کران سے ایک نئی کتاب کی تخریج کرکے ایک مستقل مصنف کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی ہے ۔اس قسم میں شامل چندمصنفین کے نام مندرجہ ذیل ہیں:
ابن فارس لغوی(م395ھ) محمدبن علی بن یوسف الشافعی(600ھ) علاؤالدین علی بن محمدالخلاطی الحنفی(م708ھ) ، علی بن برھان الدین صاحب السیرۃ الحلبیۃ(م1044ھ) وغیرہ ۔
==(3) ==تیسری قسم ان مؤلفین(سیرت نگاروں) کی ہےجنہوں نے تلخیص کاکام کیاہے بایں صورت کہ سیرت النبی ﷺکے کسی خاص جزء کی تلخیص کی ہو، مثلاً: مولدِ نبویﷺسے متعلق کوئی کتاب لکھناوغیرہ ۔ان جیسی کتابوں کوجزء کے نام سےبھی موسوم کیا جاسکتاہے ۔
اسی طرح سیرت نگاروں کی مختلف طرزِ تحریر کے اعتبار سے بھی سیرت کی کتابوں کی کئی قسمیں بنتی ہیں:
(1) محدثانہ اندازمیں لکھی گئی کتب، جیسے "البدایہ والنہایۃ "کاجزء سیرت ۔
(2) فقہی مسائل کی ترتیب سے فقیہانہ اندازمیں لکھی گئی کتب، جیسے زادالمعاد فی ہدی خیرالعباد۔
(3) عاشقانہ اورصوفیانہ انداز سے لکھی گئی کتب، جیسے: شفاء لقاضی عیاض ۔
(4) مغازی اورغزوات کومعیاربناکرمرتب شدہ کتب، جیسے: سیرت ابن ہشام ۔
(5) مؤرخانہ اندازمیں ترتیب شدہ کتب، جیساکہ عام سیرت کی کتابوں کااندازہے ۔
(6) اس کے علاوہ بعض کتابیں وہ ہیں جوتاریخ، تحدیث اورتحقیق وغیرہ تمام پہلوؤں کے اجتماع سے مرتب ہوئی ہیں اوران میں سب فنون کی ملی جُلی مثالیں نظرآتی ہیں، جیسے: علی ابن برھان الدین حلبی کی سیرت حلبیۃ۔[22]
خلاصۃ البحث:
ایک مسلمان کےلیےسیرت النبی ﷺسےواقفیت انتہائی ضروری ہے، چنانچہ ہرمسلمان کادینی فریضہ بنتاہےکہ وہ اپنے پیغمبر حضرت محمدؐکی حیات طیبہ سے باخبر ہواورزندگی کے ہرموڑپرآپؐ کی مبارک سنتوں پرعمل پیراہونے کی کوشش کرے۔سیرت نگاروں نےاسی اہمیت کے پیش نظر مختلف طریقوں سے سیرت نگاری کی ہے چنانچہ سب سے پہلے عروۃ بن الزبیر(المتوفی 92ھ) نے تدوین وکتابت سیرت کی ابتدائی دَور میں کتب سیرت کوعموماًمغازی وسیرکی کتابیں کہاجاتاتھا۔لفظِ مغازی مغزیٰ کی جمع ہے جس کامعنی ہے؛ جنگ یاغزوہ کی جگہ ووقت ۔تاہم اب مغازی سیرت کاایک جزء بن گیاہے ۔
سیرت اورمغازی میں فرق: فنی اعتبار سے سیرت اورمغازی میں مندرجہ ذیل فرق ہے: مغازی کااندازتاریخی ہواکرتاہے جبکہ سیرت کااندازقانونی ہوتاہے ۔ خصوصاً جب فقہ میں سیرت کالفظ استعمال ہوجائے تواس سے مراد جنگ وقتال سے متعلق قوانین ہوتی ہیں، مثلاً: ذمی ومستامن کے احکام وغیرہ ۔جیساکہ امام محمدؒ کی کتابیں: السیر الکبیر، والسیرالصغیر، السیرالاوسط مشہورہیں ۔ان میں انہی احکام وقوانین کاذکرہے ۔
سیرت عندالمحدثین: محدثین کے نزدیک سیرت کالفظ مغازی اورجہاد دونوں میں استعمال ہوتاہے ۔چنانچہ صحیح مسلم میں کتاب السیر والجہاد ۔بخاری میں کتاب الجہاد والسیر اورفتح الباری شرح البخاری میں کتاب المغازی والسیرہے ۔
حدیث اورسیرت میں فرق: نبی پاکﷺکے ارشادات، افعال واعمال اورتقریرات اس اعتبار سے کہ کیاجائزہے؟، کیاناجائز ہے ؟
یہ حدیث ہے، جبکہ آپﷺکے افعال واقوال وتقریرات میں آپﷺکے شمائل اورطرزِ زندگی ملحوظ ہوتویہ سیرت ہے ۔ نیزسیرت میں کم درجہ کی روایات بھی چلتی ہیں، جبکہ حدیث میں مستند روایات کاہوناضروری ہے ۔
سیرت کے مآخذ یعنی جہاں سےسیرت کامواد لیاگیاہے، مندرجہ ذیل ہیں:
(1) قرآن کریم(2) علم تفسیر(3) احادیث نبویہ(4) شمائل نبویؐ(5) کتب تاریخ(6) کتب طبقات(7) مغازی۔
حوالہ جات
- ↑ الجمعۃ: 2
- ↑ القلم: 4
- ↑ الاحزاب: 21
- ↑ العمران 3: 3
- ↑ النساء8: 4
- ↑ ابوالفضل بلیاوی، عبدالحفیظ، مصباح اللغات، مطبع مجلس نشریات اسلام کراچی، 1992ء، ص410، مادہ: س، ی، ر
- ↑ کیرانوی، مولاناوحیدالزمان، القاموس الوحید، مطبع ادارہ اسلامیات، لاہور، 2001ء، ص831
- ↑ ایضاً
- ↑ اصفہانی ؒ، امام راغب، غریب القرآن للاصفہانی، مطبع دارالفکربیروت لبنان، س ن، ج1، ص247
- ↑ تھانوی، محمدبن اعلیٰ، کشاف اصطلاحات الفنون
- ↑ شاہ عبدالعزیز، عجالہء نافعہ
- ↑ کاندہلوی، مولانا محمد ادریس، سیرت مصطفیٰ، مکتبہ دارالاشاعت، کراچی، س ن، ج1، مقدمہ
- ↑ طہٰ: 21
- ↑ طبرانی، المعجم الاوسط، مکتبہ دارالفکربیروت لبنان، مطبع1988، ج1، ص75
- ↑ زرکشی، بدرالدین محمدبن عبداللہ، البرھان فی علوم القرآن، مطبع داراحیاء الکتب العربی، 1376ھ، مقدمہ، ج1، ص13
- ↑ النسآء105: 4
- ↑ امام طبری، ابوجعفرمحمدبن جریر، تفسیرطبری، مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ، س ن، ج9، ص302
- ↑ جالندھری، خیرمحمد، خیرالاصول فی حدیث الرسول، مکتبۃ البشریٰ، 2012ء، ص3
- ↑ عبدالملک ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، مکتبہ دارالخیر، ملتان، 1410ھ، 1990ء، مقدمہ، ج1، ص20
- ↑ ایضاً
- ↑ الدکتورسعید رمضان، فقہ السیرۃ النبویۃ، مطبع داراالفکرالمعاصر، بیروت، بیروت 1996/1417ھ، ص18
- ↑ قاری محمد طیب، مقدمہ سیرت طیبہ اردو، مکتبہ دارالاشاعت، لاہور، 1999، ج1، ص39
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |