Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 3 Issue 2 of Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob
Article Info
Authors
Volume
3
Issue
2
Year
2019
ARI Id
1682060029185_892
Pages
46-58
DOI
PDF URL
https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/74/371
Chapter URL
https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/74
Subjects
Qura’an Religion ease Leniency Qura’an Religion ease Leniency
شرعی احکام میں حکمت اور مصلحت یہ ہےکہ ان میں عام افراد کی قوت و استعداد اور انفرادی و اجتماعی حالات کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ شرعی احکام عام حالات میں مسلمانوں کی اکثریت کیلئے قابل عمل ہیں،جب حالات نارمل نہ رہیں تو ان میں مزید آسانی اور سہولت پیدا ہوجاتی ہے ۔احکام کی بجاآوری میں ہر فرد اپنی استطاعت اور بساط کے مطابق ہی مکلف قرار دیا گیا ہے، کسی بھی فرد پر اس کی قوت و طاقت سے زیادہ بوجھ اور ذمہ داری نہیں ڈالی گئی۔ جب کوئی کا م انسان کی قدرت اور ہمت میں نہیں رہتا تو وہ اس کا مکلف بھی نہیں ٹھہرتا ۔اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی ضروریات،طبائع اور مشکلات کو خوب جانتا ہے اس نے احکام میں اپنے بندوں کیلئے آسانی،سہولت،تخفیف ، عدم حرج،قلت تکلیف، گنجائش اور تدریج کو نمایاں رکھا تاکہ اس کے بندے مشکلات ، تنگیوں اور تکالیف سے محفوظ رہیں۔قرآنی احکام کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات بہت نمایاں طور پر سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نےاپنے بندوں کو ایسے احکام کا پابند نہیں ٹھہرایاجو ان کیلئے باعث مشقت اور ناقابل تحمل ہوں، بلکہ وہ اپنے بندوں سے انہیں افعال کا مطالبہ کرتا ہے جو ان کی طاقت اور قوت میں ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے احکام شریعت کو ہر فردکیلئےنرم اور آسان بنایاہے ۔کم طاقت اورتھوڑی قوت رکھنے والے بیمار، مسافر ، مجبور اور معذور افراد کیلئے رخصت وتخفیف رکھی ہے اور اسی طرح کم عمر اورمجنون کو مکلف ہی نہیں ٹھہرایا تاکہ ان پر بوجھ نہ پڑے۔ قرآن مجید کو یہ اعزاز اور مقام حاصل ہے کہ یہ آسان کتاب ہے، اسکے احکام آسانی و سہولت پر مبنی ہیں،ان میں تنگی اور دشواری کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِيْنَ وَ تُنْذِرَ بِهٖ قَوْمًا لُّدًّا۔[1]
ترجمہ:پس اے محمد(ﷺ)اس کلام کو ہم نےآسان کر کےتمہاری زبان میں اسی لیےنازل کیاہےکہ تم پرہیزگاروں کو خوشخبری دے دو اور ہٹ دھرم لوگوں کو ڈرا دو ۔‘‘
سورۃالدخان میں اللہ تعالیٰ اسی بات یوں بیان کیا ہے :
فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ۔[2]
ترجمہ:اے نبی ، ہم نے اس کتاب کو تمہاری زبان میں سہل بنا دیا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں ۔
سورۃ الاعلیٰ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:وَ نُيَسِّرُكَ لِلْيُسْرٰى۔[3]
ترجمہ:اور ہم آپ کو اس آسان (شریعت پر عمل پیرا ہونے) کے لئے (بھی) سہولت فراہم فرمائیں گے۔
قرآنی احکام میں لوگوں کے لئے انتہائی نرمی اور آسانی کو ملحوظ رکھا گیا ہے سورۃ القمر میں ہے :
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۔[4]
ترجمہ:ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان ذریعہ بنا دیا ہے ، پھر کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا ؟
شرعی امور میں آسانی اور سہولت اسلام کا روشن امتیاز ہے:
آسانی اور سہولت انسانوں کی مرغوبات ہیں ، انسان کسی بھی کام میں اپنے لئے آسان راستہ کی تلاش میں ہوتا ہے ،اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ تھوڑی محنت سے بڑا فائدہ حاصل ہو ۔اللہ تعالیٰ نے احکام شریعت میں بھی انسانی فطرت اور خواہش کے مطابق آسانی اور سہولت کو نمایاں رکھا ہے تاکہ اس کے بندے مشقت اور تنگی سے بچ سکیں ۔اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:
يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَ لَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ۔[5]
ترجمہ:اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے ،سختی کرنا نہیں چاہتا۔
امام طبری اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ بِتَرْخِيصِهِ لَكُمْ فِي حَالِ مَرَضِكُمْ وَسَفَرِكُمْ فِي الْإِفْطَارِ، وَقَضَاءِ عِدَّةِ أَيَّامٍ أُخَرَ مِنَ الْأَيَّامِ الَّتِي أَفْطَرْتُمُوهَا بَعْدُ إِقَامَتِكُمْ وَبَعْدَ بُرْئِكُمْ مِنْ مَرَضِكُمُ التَّخْفِيفَ عَلَيْكُمْ، وَالتَّسْهِيلَ عَلَيْكُمْ لِعِلْمِهِ بِمَشَقَّةِ ذَلِكَ عَلَيْكُمْ فِي هَذِهِ الْأَحْوَالِ.{وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ} [البقرة: 185] يَقُولُ: وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الشِّدَّةَ، وَالْمَشَقَّةَ عَلَيْكُمْ، فَيُكَلِّفُكُمْ صَوْمَ الشَّهْرِ فِي هَذِهِ الْأَحْوَالِ، مَعَ عِلْمِهِ شِدَّةَ ذَلِكَ عَلَيْكُمْ وَثِقَلَ حَمْلِهِ عَلَيْكُمْ لَوْ حَمَّلَكُمْ صَوْمَهُ۔[6]
ترجمہ: اللہ تعالیٰ مومنوں کیلئےسفروبیماری کی حالت میں روزہ چھوڑنے کی رخصت دی ہےسفر مکمل ہونے تک ان دنوں کی قضائی دی جائے جن میں روزہ چھوڑا ہے۔ بیماری کی صورت میں صحت یاب ہونے تک رخصت ہے۔اس نے یہ آسانی انسانوں کے احوال میں مشقت کی بناء پر کی ہے ۔{وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ}کہ وہ تم پر تنگی نہیں چاہتا ۔اس نے ان احوال میں تمہیں پورے مہینے کے روزوں کا مکلف بنایا ہےکہ اس ذمہ داری میں مشقت اور شدت کو بھی وہ خوب جانتا ہے ۔‘‘
وہ تما م امور جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض کئے ہیں ان میں حد درجہ آسانی اور سہولت ہونے کے باوجود جب بھی ان کی ادائیگی میں کوئی دشواری یا رکاوٹ آجائے گی وہ مزید تخفیف اور نرمی کا جواز پیدا کردے گی۔سید محمد رشید رضا لکھتے ہیں:
فالله لا یرید اِعنات الناس باحکامه،وانما یرید الیسر به موخیرهم و منفعتهم، وهٰذااصل فی الدین یرجع الیه غیرهو منهاخذوا قاعدة: المشقة تجلب التیسیر۔[7]
ترجمہ:اللہ تعالیٰ اپنے احکام سے لوگوں کو تنگی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا بلکہ وہ ان کی بھلائی اور منفعت کے پیش نظر آسانی کا ارادہ رکھتا ہے یہ دین کا ایک بنیادی اصول ہے اور باقی احکام بھی اسی کی طرف لوٹتے ہیں فقہاء نے قاعدہ فقہیہ المشقۃ تجلب التیسیر اسی آیت سےاخذ کیا ہے۔
الشیخ عبدالرحمان بن ناصر السعدی فرماتےہیں :
أي: يريد الله تعالى أن ييسر عليكم الطرق الموصلة إلى رضوانه أعظم تيسير، ويسهلها أشد تسهيل، ولهذا كان جميع ما أمر الله به عباده في غاية السهولة في أصله.وإذا حصلت بعض العوارض الموجبة لثقله، سهَّله تسهيلا آخر، إما بإسقاطه، أو تخفيفه بأنواع التخفيفات۔[8]
ترجمہ:یعنی اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ تم پر اپنی رضا کے راستے حد درجہ آسان کر دے ۔ ا س لیے وہ تمام امور جواللہ تعالیٰ نےاپنے بندوں پر فرض قرار دئے ہیں اصل میں حد درجہ آسان بنائے ہیں۔جب کوئی عارضہ پیش آجائے جو ان کی ادائیگی کو مشکل اور بوجھل بنا دے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک او رطرح سے آسان کر دیاہے یا تو سرے سے اس فرض ہی کو ساقط کر دیا یا اس میں مختلف قسم کی تخفیفات سے نواز دیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے جو اپنے بندو ں کیلئے امورِ الٰہیہ میں آسانیاں اور سہولتیں رکھی ہیں وہ تمام شرعیات کا احاطہ کئے ہوئے ہیں ان کی تفاصیل بیان کرنا ممکن نہیں ہے، اختصار کے ساتھ ان کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ تمام مشکلات اور تنگیاں جو انسانی طاقت اور استطاعت میں نہ رہیں اللہ تعالیٰ نے ان کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا، وہ اتنے ہی مکلف ہیں جتنی وہ قوت اور قدرت رکھتے ہیں۔
شرعی امور میں تخفیف و نرمی رحمت الٰہی ہے:
بنیادی طور پرانسان کی تخلیق کم زور ہے وہ مشکلات اور تنگیوں سے چھٹکارہ چاہتا ہے ۔ نرمی اور تخفیف کو اپنے لئے پسند کرتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اوامر و نواہی میں انسانوں کے لئے تنگی اور مشقت کی بجائے آسانی اور تخفیف کو پسند فرمایا ہے۔ ارشادربانی ہےکہ:
يُرِيْدُ اللّٰهُ اَنْ يُّخَفِّفَ عَنْكُمْۚ وَ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا۔[9]
ترجمہ:اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے ۔
امام الشوکانیاس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
قَوْلُهُ: یُرِیدُ اللَّهُ أَنْ یُخَفِّفَ عَنْکُمْ بِمَا مَرَّ مِنَ التَّرْخِیصِ لَکُمْ، أَوْ بِکُلِّ مَا فِیهِ تَخْفِیفٌ عَلَیْکُمْ وَخُلِقَ الْإِنْسانُ ضَعِیفاً عَاجِزًا غَیْرَ قَادِرٍ عَلَی مَلْکِ نَفْسِهِ وَدَفْعِهَاعَنْ شَهَوَاتِهَاوَفَاءًبِحَقِّ التَّکْلِیفِ فَهُوَمُحْتَاجٌ مِنْ هَذِہِالْحَیْثِیَّةِ إِلَی التَّخْفِیفِ، فَلِهَذَاأَرَادَاللَّه سُبْحَانَهُ التَّخْفِیفَ عَنْهُ"[10]
ترجمہ:اللہ تعالیٰ کا فرمان ] یُرِیدُ اللَّهُ أَنْ یُخَفِّفَ عَنْکُمْ [ میں تمہارےلیےرخصت گزر چکی ہے یا اس چیز کا بیان ہے جس میں تمہارےلیےتخفیف ہے ۔ انسان کو اس قدر کمزور پیدا کیا گیاہے کہ وہ اپنے نفس پر کنٹرول کرنے اور اپنی شہوات پر قابو رکھنے میں عاجز اور بے بس ہے،چہ جائیکہ وہ مشقت کے ساتھ احکامات کو پورا کرے، چنانچہ اس حیثیت میں وہ تخفیف کا زیادہ محتاج ہے اسی لیے اللہ نے اس سے تخفیف و آسانی کا ارادہ کیا ہے۔
سید طنطاوی فرماتے ہیں:
یرید الله بماشرعه لکم من أحکام،وبماکلفکم بهم نتکالیف هی فی قدرتکم واستطاعتکم أن یخفف عنکم فی شرائع هوأوامرهونواهیه، لکی تزدادواله فی الطاعة والاستجابة والشکر.وَخُلِقَ الْإِنْسانُ ضَعِیفاً أی لا یصبر علی مشاق الطاعات، فکان من رحمة الله به أن خفف عنه فی التکالیف.وهذا الیسر والتخفیف فی التکالیف من أبرز ممیزات الشریعة الإسلامیة، وقد بین القرآن۔[11]
ترجمہ: قدرت او راستطاعت کے وہ تمام امور خواہ و ہ اوامر ہوں یا نواہی جس کا تمہیں مکلف بنایا گیا ہے، اللہ تعالیٰ نے احکام شریعت میں تمہارے ساتھ تخفیف فرمائی ہےتاکہ تم اطاعت و استجابت اور شکر میں بڑھ جاؤ۔ اور انسان کو کمزور پیدا کیا گیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اطاعت کی مشقت پر قائم رہنے والا نہیں ہے ۔ چنانچہ مشقت میں تخفیف کر دینا یہ رحمت الہٰی سے ہے ۔ اور مشقت میں آسانی اور تخفیف شریعت کے روشن امتیازات میں سے ہے جس کی قرآن مجید نے وضاحت کی ہے ۔
انسان نہ صرف عبادات میں بلکہ ہر معاملہ میں خواہ وہ سماجی ہو ں یا معاشی اتناہی مکلف ٹھہرے گاجتنی اس میں بساط ہوگی اور جوچیز اس کی ہمت اور قدرت میں نہ ہو تو اس میں نرمی اور تخفیف پیدا ہو جائے گی ۔
شرعی امور میں قلت تکلیف اسلام کی عظیم خوبی ہے:
قلت تکلیف سےمراد یہ ہے کہ احکام الہٰی میں تکلیف کم سے کم دی گئی ہے سہولت اورآسانی زیادہ سے زیادہ رکھی گئی ہے کیونکہ تکلیف کی کثرت سے بہت ساری تنگیاں اور دشواریاں پیدا ہو جاتی ہیں،جن کی وجہ سے انسان حدود و قوانین سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کرتےہیں ۔شیخ ابن العربی "قلت تکلیف"کے بارے میں لکھتے ہیں :
هذا أصل عظيم وركن من أركان شريعة المسلمين شرفنا الله سبحانه على الأمم فلم يحملنا إمراً ولا كلفنا فى مشقة أمراً ۔[12]
ترجمہ:یہ ایک بڑااصول اور مسلمانوں کے ارکان شریعہ میں سے ایک رکن ہے جسکی وجہ سے ہمیں اللہ تعالیٰ نے دوسری امتوں پر شرف و عزت دی ہے کہ اس نےہم سے کوئی سخت معاملہ نہیں اٹھوایا اور نہ ہی مشقت والے کام کا ہمیں مکلف بنایا ہے۔
مولانا عبدالرحمان کیلانی ؒفرماتےہیں کہ :’’اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون سزا و جزا کا کلیہ بیان فرما دیا۔ یعنی جو کام کسی انسان کی استطاعت سے بڑھ کر ہیں ان پر انسان سے باز پرس نہیں ہوگی، باز پرس تو صرف اسی بات پر ہوگی جو انسان کے اختیار اور استطاعت میں ہو اور جہاں انسان مجبور ہوجائے وہاں گرفت نہ ہوگی۔ مگر اس اختیار، استطاعت اور مقدرت کا فیصلہ انسان کو نہایت نیک نیتی سے کرنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو دلوں کے راز تک جانتا ہے ‘‘[13]۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا۔[14]
ترجمہ:اللہ تعالیٰ ہر نفس کو اس کی وسعت کے مطابق تکلیف دیتے ہیں ۔
امام بغوی اس کی تفسیرمیں فرماتے ہیں:
لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها، ظَاهِرُ الْآيَةِ قَضَاءُ الْحَاجَةِ ، وَفِيهَا إِضْمَارُ السُّؤَالِ كَأَنَّهُ قَالَ: وَقَالُوا لَا تُكَلِّفُنَا إِلَّا وُسْعَنَا، فأجاب: لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها، أَيْ: طَاقَتَهَا، وَالْوُسْعُ: اسْمٌ لِمَا يَسَعُ الْإِنْسَانَ، وَلَا يُضَيِّقُ عَلَيْهِ۔[15]
ترجمہ:اس آیت کا ظاہر تنگی کو ختم کرتا ہے اور اس میں ایک مخفی سوال کاجواب ہے جیسے کہ انہوں نے کہا کیا تم نے ہمیں اپنی طاقت کے مطابق مکلف بنایا ہے ۔ تو اس نے جواب دیا لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها یعنی کہ ان کی طاقت کے مطابق ہے اور وسع تو انسان کی طاقت ہی کا نام ہے اور اس پر تنگی بھی نہیں ہے ۔
امام قرطبی فرماتےہیں :
ويُكَلِّفُ" يَتَعَدَّى إِلَى مَفْعُولَيْنِ أَحَدُهُمَا مَحْذُوفٌ، تَقْدِيرُهُ عِبَادَةً أَوْ شَيْئًا. فَاللَّهُ سُبْحَانَهُ بِلُطْفِهِ وَإِنْعَامِهِ عَلَيْنَا وَإِنْ كَانَ قَدْ كَلَّفَنَا بِمَا يَشُقُّ وَيَثْقُلُ كَثُبُوتِ الْوَاحِدِ لِلْعَشْرَةِ، وَهِجْرَةِ الْإِنْسَانِ وَخُرُوجِهِ مِنْ وَطَنِهِ وَمُفَارَقَةِ أَهْلِهِ وَوَطَنِهِ وَعَادَتِهِ، لَكِنَّهُ لَمْ يكلفنا بالمشقات المثقلة ولا بالأمور المولمة، كَمَا كَلَّفَ مَنْ قَبْلَنَا بِقَتْلِ أَنْفُسِهِمْ وَقَرْضِ مَوْضِعِ الْبَوْلِ مِنْ ثِيَابِهِمْ وَجُلُودِهِمْ، بَلْ سَهَّلَ وَرَفَقَ وَوَضَعَ عَنَّا الْإِصْرَ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي وَضَعَهَا عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَنَا۔[16]
ترجمہ:اور’تکلیف ‘یہ دومفعولوں کی طرف متعدی ہوتا ہے ان میں سے ایک محذوف ہے اور وہ عبارۃ یا شيأہے پس اللہ تعالیٰ نے ہم پر لطف وانعام فرمایا ۔ اگر وہ چاہتا تو ہمیں ایسے امورکامکلف بنادیتاجومشقت امیز اور اذیت رساں ہوتے ہیں ۔جیسا کہ دس کے مقابلہ میں ایک کا ثابت قدم رہنا ، انسان کاہجرت کرنا اور اپنے وطن سےنکلنا اور اپنے گھر والوں ، اپنے وطن اور اپنے کاروبار سےکلیۃً علیحدگی اختیار کرنا لیکن اس نے ہمیں ایسے کاموں کاجو سخت مشقت آمیز ہوں اور ایسے امور جواذیت اورتکلیف پہنچانےوالے ہوں ان کامکلف اور پابند نہیں بنایا جیسا کہ ہم سے پہلے لوگوں کو بنایا ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں سہولت عطا فرمائی اور نرمی فرمائی اور ہم سے اس بوجھ اورطوق کودور فرمایا جوہم سےپہلے لوگوں پر ڈالا ہوا تھا۔
شیخ الثعلبیؒ فرماتے ہیں:
لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها. أي طاقتها، وكان حديث النفس مما لم يطيقوا.قال ابن عباس في رواية أخرى: المؤمنون خاصّة وسّع الله عليهم أمر دينهم.ولم يكلّفهم إلّا ما هم له مستطيعون، فقال: يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ ، وقال: ما جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ، وقال: فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ....سئل سفيان بن عيينة عن قوله تعالى: لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها.فقال: إلّا يسرها لا عسرها، ولم يكلّفها طاقتها ولو كلّفها طاقتها لبلغ المجهود منها۔[17]
ترجمہ:لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَهامیں وسعھا سےمراد طاقت ہے اور یہ نفس کی وہ باتیں ہیں جن کی وہ طاقت نہیں رکھتے ابن عباسؓ نے دوسر ی روایت میں کہا اس میں خاص کر مومنوں کو امور دینیہ میں وسعت دی گئی ہے اور وہ استطاعت والی چیزوں کے ہی مکلف ہیں ،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا]يُرِيدُ الله بِكُمُ الْيُسْرَ[ (اللہ تم سے آسانی چاہتے ہیں ) اور ایک جگہ فرمایا ] ما جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ [اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں ڈالی اور فرمایا ] فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ (کہ اپنی استطاعت کے مطابق اللہ سےڈرو۔) .......سفیان بن عیینہ سے اللہ تعالیٰ کےاس فرمان کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا اس میں صرف آسانی ہے تنگی نہیں اور االلہ تعالیٰ نے انسان کو اس کی طاقت کا مکلف نہیں بنایا اور اگر اس کی طاقت کا مکلف بنا دیتا تو سخت محنت کرنا پڑتی ۔
امام المراغی لکھتے ہیں:
إن الله تعالى لا يكلف نفسا إلا ما يسعها فعله، بأن تأتيه بلا عسر ولا حرج، فهو لا يكلف من يبيع أو يشترى الأقوات ونحوها أن يزنها أو يكيلها بحيث لا تزيد حبة ولا مثقالا، بل يكلفه أن يضبط الوزن والكيل له أو عليه سواء بحيث يعتقد أنه لم يظلم بزيادة ولا نقص يعتد بهما عرفا۔[18]
ترجمہ: اللہ نے ہر نفس کو اسی فعل کامکلف بنایا ہے جس کو وہ کر سکتا ہے اور اس کی بجاآوری میں اسے کوئی تنگی و حرج نہیں ہے چنانچہ اس نے کسی بائع اور مشتری کو اشیاء قوت کا مکلف نہیں بنایا کہ وہ ان کا وزن اور ماپ اس اعتبار سے کریں کہ کوئی دانہ اور بوجھ بڑھ نہ جائے بلکہ اس نے وزن ،ماپ اور اس پر برابری کے انضباط کا مکلف بنایا ہے ۔ جب وہ عقد کریں تو کمی و بیشی سے کوئی ظلم نہ ہو جس کا عرف عام میں اعتبار کیا جاتا ہے ۔
یعنی طاقت اور بساط کے موافق احکام کی بجا آوری کی کوشش کی جائے اسی کا ہی انسان مکلف ہے ۔ جواشیاء انسانی طاقت میں نہ ہوں اللہ تعالیٰ ان پر درگزر فرمادیتا ہے ۔سید ابو الاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں:
’’یعنی اللہ کے ہاں انسان کی ذمہ داری اس کی مقدرت کے لحاظ سے ہے۔ ایسا ہرگز نہ ہوگا کہ بندہ ایک کام کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو اور اللہ اس سے باز پرس کرے کہ تو نے فلاں کام کیوں نہ کیا۔ یا ایک چیز سے بچنا فی الحقیقت اس کی مقدرت سے باہر ہو اور اللہ اس سے مواخذہ کرے کہ تو نے اس سے پرہیز کیوں نہ کیا۔ لیکن یہ اور ہے کہ اپنی مقدرت کا فیصلہ کرنے والا انسان خود نہیں ہے۔ اس کا فیصلہ اللہ ہی کر سکتا ہے کہ ایک شخص فی الحقیقت کس چیز کی قدرت رکھتا تھا اور کس چیز کی نہ رکھتا تھا۔‘‘ [19]
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر ایسا بوجھ نہیں ڈالاجو ا ن کی بشری وسعت سے باہر ہواور اس پر عمل کرنا نفس انسانی کے لیے شاق ہو ۔ اللہ تعالیٰ انسان کو اسی چیز کا مکلف ٹھہراتا ہے جس کو انسان پوری توانائی صرف کیے بغیر آسانی اور سہولت سے کر سکتا ہے ۔اس آیت سے یہ بات بھی اخذ ہوتی ہے چھوٹے موٹے معاملات میں انسانوں کو بھی ایک دوسرے سے درگزر سے کا م لینا چاہئے معمولی چیزوں اور معاملات پر ایک دوسری کی گرفت نہیں کرنی چاہئے اس سے نفرت اور فساد کی فضا پیدا ہوتی ہے۔
شرعی امور میں بارِ گراں کا خاتمہ :
اللہ تعالیٰ نے شرعی امور میں ان تمام بے جا پابندیوں اور ناروا بندشوں کا خا تمہ کردیا ہے جو عملی زندگی اور معاشرتی ترقی میں رکاوٹ اور دشواری پیدا کرتی تھیں ۔امام ابن کثیر لکھتے ہیں:
أی ما کلفکم مالا تطیقون،وما الزمک بشیء فشق علیکم الا جعل لکم خرجاَ و مخرجاَ۔[20]
ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایسے کا م کا مکلف نہیں بنایا جو تمہاری طاقت میں نہ ہواور نہ ہی ایسی چیز کو تم پر نافذ کیا ہے جو تمہارےلئے نا قابل تحمل ہواور اس نے تمہیں اس سے چھٹکارے کا راستہ نہ دیا ہو۔
اللہ تعالیٰ کا یہ بھی خاص فضل و احسان ہے کہ اس نے شریعت اسلامیہ میں ہر قسم کی معصیت اور جرم سے چھٹکارہ اور نجات حاصل کرنے کے لئے اپنے بندوں پر اپنی رحمت کا دروازہ ہمہ وقت کھلا رکھا ہوا ہے، کائنات میں کوئی گناہ ایسا نہیں ہے جس سے توبہ کی جائے تو اس کی معافی نہ ہو۔مفتی محمدشفیع لکھتے ہیں:’’دین میں تنگی نہ ہونے کا مطلب بعض حضرات نے یہ بیان فرمایا کہ اس دین میں ایسا کوئی گناہ نہیں ہے جو توبہ سے معاف نہ ہو سکے اور عذاب آخرت سے خلاصی کی کوئی صورت نہ نکلے۔ بخلاف پچھلی امتوں کے کہ ان میں بعض گناہ ایسے بھی تھے جو توبہ کرنے سے بھی معاف نہ ہوتے تھے۔حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ تنگی سے مراد وہ سخت و شدید احکام ہیں جو بنی اسرائیل پر عائد کئے گئے تھے جن کو قرآن میں صر اور اغلال سے تعبیر کیا گیا ہے اس امت پر ایسا کوئی حکم فرض نہیں کیا گیا۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ تنگی سے مراد وہ تنگی ہے جس کو انسان برداشت نہ کر سکے اس دین کے احکام میں کوئی حکم ایسا نہیں جو فی نفسہ ناقابل برداشت ہو ۔ باقی رہی تھوڑی بہت محنت و مشقت تو وہ دنیا کے ہر کام میں ہوتی ہے۔‘‘[21]
سید مودودی لکھتے ہیں:’’یعنی تمہاری زندگی کو ان تمام بے جا قیود سے آزاد کر دیا گیا ہے جو پچھلی امتوں کے فقیہوں اور فریسیوں اور پاپاؤں نے عائد کر دی تھیں ۔ نہ یہاں فکر و خیال پر وہ پابندیاں ہیں جو علمی ترقی میں مانع ہوں اور نہ عملی زندگی پر وہ پابندیاں ہیں جو تمدن اور معاشرے کی ترقی میں رکاوٹ بنیں ۔ ایک سادہ اور سہل عقیدہ و قانون تم کو دیا گیا ہے جس کو لے کر تم جتنا آگے چاہو بڑھ سکتے ہو ۔ ‘‘ [22]
شیخ عبد الکریم یونس لکھتے ہیں: إن هذا الدين سمح سهل، لا ينتفع به إلا إذا أخذ سمحا سهلا، تتقبله النفوس،و تنشرح له الصدور.. شأنه فى هذا شأن الطعام، لا يفيد منه الجسم، إلا إذا طابت لهالنفس، واشتهته، واستساغت طعمه، واستطابت مضغه وبلعه..وفى الحديث أيضا: «لا تبغّض إلى نفسك عبادة الله» وذلك بالقسوة عليها، وبحملها على ما هو شاق، وبين يديها القريب الميسور!"[23]
ترجمہ:بے شک یہ دین آسانی اور سہولت پر مبنی ہے ۔اس کو آسانی سے پکڑنے والے ہی اس سے نفع اٹھاتے ہیں دل جسے قبول کرتے ہیں اور سینے جس سے شاداں رہتے ہیں ۔ اس کا معاملہ کھانے کے معاملہ کی طرح ہے ۔ جسم اس سے اسی وقت فائدہ اٹھاتاہے جب دل کو اچھا لگتا ہے اور اس کی چاہت ہوتی ہے ۔ اور اس کا کھانا خوشگوار ہوتا ہے اور اس چبانا اور نگلنا نہایت خوشگوار ہوتا ہے۔ اور ایک حدیث میں ہے :اللہ کی عبادت میں اپنے نفس کو (خوش رکھو) ناراض نہ رکھو۔ اس کی وجہ سےدل میں سختی پیدا ہوتی ہے اور وہ مشقت والی چیزوں کو اٹھاتا ہے ، حالانکہ اس کے پاس آسان چیز موجود ہوتی ہے ۔
شرعی امور میں بے جا پابندیوں اور ناروا بندشوں کے خاتمہ کی اللہ تعالیٰ نے کئی ایک آیات میں صراحت فرمائی ہے کہ اس دین میں حرج اور تنگی پیدا کرنے کی ہرگز گنجائش نہیں ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
مَاجَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ۔[24]
ترجمہ:اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔
شیخ ابو الحسن الماوردی فرماتے ہیں کہ اس دین میں تنگی کا خاتمہ پانچ انعامات کے ذریعے کیا گیا ہے:
أحدها: أنه الخلاص من المعاصي بالتوبة. الثاني: المخرج من الأيمان بالكفارة. الثالث: أنه تقديم الأهلة وتأخيرها في الصوم والفطر والأضحى , قاله ابن عباس. الرابع: أنه رخص السفر من القصر والفطر. الخامس: أنه عام لأنه ليس في دين الإٍسلام ما لا سبيل إلى الخلاص من المأثم فيه۔"[25]
ترجمہ:1: یہ توبہ کے ذریعے معاصی سے چھٹکارا ہے۔ 2: کفارہ کے ذریعے قسم سے چھٹکارہ ہے۔3:بےشک یہ روزہ، صدقہ اور قربانی کےاوقات میں تقدیم و تاخیر کا تذکرہ ہے ۔ یہ ابن عباسؓ کی رائے ہے ۔ 4:بے شک اس نے سفر میں نماز قصر کرنے کی اور روزہ چھوڑنے کی رخصت دی ہے ۔5: دین اسلام میں کوئی ایسا عمل نہیں ہے جس میں گناہ سے خلاصی کی طرف کوئی راستہ نہ ہو ۔ بے شک یہ عام ہے ۔
شیخ ابو المظفرمنصور بن محمد فرماتے ہیں:
وَقَوله:(وَمَاجعل عَلَیْکُم فِی الدّین من حرج) (فَإِن قَالَ قَائِل:فِی الدّین حرج کثیربِلَا إِشْکَال فَمَامعنی قَوْله: (وَمَاجعل علَیْکُم فِی الدّین من حرج)قُلْنَا:فِیهِ أَقُول: أَحدهَا: أَن الْحَرج هُوَالضّیق، وَمعنی الْآیَةهَاهُنَا: أَنه لَا ضیق فِی الدّین بِحَیْثُ لَاخلاص عَنهُ،فَمَعْنَاه: أَنالمذنبوَإِنوَقعفِی ضیق من مَعْصِیَته،فقد جعل الله لَهُ خلاصابِالتَّوْبَةِ،وَکَذَلِکَ إِذا حنث فِی یَمِینه جعل الله لَهُ الْخَلَاص بِالْکَفَّارَةِ،وَالْقَوْل الثَّانِی:أَن معنی الْآیَة أَن اللهتَعَالَی لم یُکَلف نفسافَوق وسعهَا،وَقدذکرنَا هَذَامنقبل،وَالْقَوْل الثَّالِث:أَن المُرَادمن الْآیَة أَنهإِذاکَانَ مَرِیضا فَلم یقدر علی الصَّلَاة قَائِما صلی قَاعِدا،فَإِن لم یقدر علی الصَّلَاة قَاعِدا صلی بِالْإِیمَاء ِ، وَیفْطر إِذا شقّ عَلَیْهِ الصَّوْم بسفر أَو مرض أَو هرم،وَکَذَلِکَ سَائِروُجُوه الرُّخص۔[26]
ترجمہ:اللہ تعالیٰ کا فرمان (وَمَاجعل عَلَیْکُم فِی الدّین من حرج) اس میں کوئی کہنے والا یہ کہے کہ دین میں بغیر کسی اشکال کے بہت زیادہ حرج ہے تو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا کوئی معنی و مطلب نہیں رہتا۔ ہم کہتے ہیں اس میں کئی اقوال ہیں ۔1:حرج سے مراد تنگی ہے آیت میں یہاں اس سےمراد یہ ہے کہ دین میں خلاصی ہونے کے اعتبار سے کوئی تنگی نہیں ہے اس کا مطلب ہے جب گناہ کرنے والا اپنی معصیت میں واقع ہو جاتا ہے تو اللہ نے اس کیلئےتوبہ بطور خلاصی بنائی ہے اور اسی سے ہے جب وہ قسم توڑتا ہے تو اللہ نے اس کیلئےقسم کا کفارہ بطور خلاصی بنایا ہے۔ 2:بے شک اللہ نے ہر نفس کو اس کی طاقت سے بڑھ کر کسی چیز کا مکلف نہیں بنایا اور اسی چیز کو ہم نے پہلے ذکر کیا ہے ۔3:بےشک آیت سے یہ بھی مراد ہے کہ جب وہ مریض ہو اور نماز کھڑے ہو کر ادا نہیں کر سکتا ہے بیٹھ کر ادا کر لے ۔ اگر بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتا تو اشارہ سے پڑھ لے ۔ اور جب روزہ سفر یا بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے اس پر مشکل ہو جائے تو وہ روزہ چھوڑ دے اور رخصت کی تمام وجوہ اسی طرح ہیں ۔
دین اسلام میں لاچار، بے بس اور مجبور افراد کا بہت زیادہ خیال رکھا گیا ہے جہاں کہیں ان کیلئےکوئی عذر پیش آیا اللہ تعالیٰ نے ان کی مشکل کا خاتمہ کرکے ان کیلئےآسانی ،سہولت اور تخفیف فرمادی تاکہ وہ احکام کی بجاآوری میں خود کو مشکلات اور تنگیوں میں مبتلا نہ کریں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَآءِ وَ لَا عَلَى الْمَرْضٰى وَ لَا عَلَى الَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ مَا يُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ مَا عَلَى الْمُحْسِنِيْنَ مِنْ سَبِيْلٍ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۔[27]
ترجمہ:ضعیف اور بیمار لوگ اور وہ لوگ جو شرکتِ جہاد کے لیے راہ نہیں پاتے، اگر پیچھے رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں جبکہ وہ خلوصِ دل کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کے وفادار ہوں ۔ ایسے محسنین پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔
معذور اور مجبور افراد کے لئے تنگی اور حرج کاخاتمہ کرتے ہوئےاللہ تعالیٰ نےفرمایا:
لَيْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْمَرِيْضِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَنْ تَاْكُلُوْا مِنْۢ بُيُوْتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اٰبَآىِٕكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اُمَّهٰتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اِخْوَانِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَخَوٰتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَعْمَامِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ عَمّٰتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَخْوَالِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ خٰلٰتِكُمْ اَوْ مَا مَلَكْتُمْ مَّفَاتِحَهٗۤ اَوْ صَدِيْقِكُمْ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْكُلُوْا جَمِيْعًا اَوْ اَشْتَاتًا١ؕ فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُبٰرَكَةً طَيِّبَةً كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۔[28]
ترجمہ:کوئی حرج نہیں اگر کوئی اندھا ،یا لنگڑا،یا مریض(کسی کے گھر سے کھالے)اور نہ تمہارے اوپر اس میں کوئی مضائقہ ہے کہ اپنے گھروں سے کھاؤ یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے ،یا اپنی ماں نانی کے گھروں سے، یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے ،یا اپنی بہنوں کے گھروں سے،یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے،یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے،یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے،یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے،یا ان گھروں سے جن کی کنجیاں تمہاری سپردگی میں ہوں،یا اپنے دوستوں کے گھروں سے ۔ اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ تم لوگ مل کر کھاؤ یا الگ الگ ۔ البتہ جب گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، دعائے خیر، اللہ کی طرف سے مقرر فرمائی ہوئی، بڑی با برکت اور پاکیزہ ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے آیات بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو گے۔
ابو السعود العمادی اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ:(لَّیْسَ عَلَی الأعمی حَرَجٌ وَلاَ عَلَی الأعرج حَرَجٌ وَلاَ عَلَی المریض حَرَجٌ) أی فی التخلفِ عنِ الغزوِ لِما بِهمْمنالعذر والعاهة فإن التکلف یدورُ علی الاستطاعةِ وفی نفی الحرجِ عن کلِّ من الطوائفِ المعدودةِ مزیدُ اعتناء ٍ بأمرِهموتوسیعٌ لدائرةِ الرُّخصةِ۔[29]
ترجمہ:اللہ کے اس فرمان(لَّیْسَ عَلَی الأعمی حَرَجٌ وَلاَ عَلَی الأعرج حَرَجٌ وَلاَ عَلَی المریض حَرَجٌ)حرج سےمراد غزوہ میں عذر اورپریشانی سے پیچھے رہنا ہے ۔ بلاشبہ مکلف بننا استطاعت پر ہی منحصر ہے اور بے شمار چکر لگانے والوں سے نفی حرج ان کے معاملہ پر مزید توجہ دینا وسعت کے دائرہ کار کو وسیع کرنا ہے۔
شریعت اسلامیہ کےتمام احکام میں تنگی اورحرج کی نفی کر دی گئی ہے ،جہاں بھی کوئی تنگی اور حرج بندوں کی استطاعت اور قوت میں نہ ہو گا ان کو مکلف نہیں ٹھہرایا جائے گا۔ کوئی بھی فرد اگر اپنی ذات پر یا کسی دوسرے فرد پر قوت و برداشت سےزیادہ بوجھ ڈالے گا تو وہ شریعت کےروح کی خلاف ورزی کرے گا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں گنہگار ٹھہرےگا۔اسلام کے کسی بھی حکم کا افراد معاشرہ پر نفاذ اور اطلاق کرتے ہوئے اسلام کی دی ہوئی آسانی ،رخصت، قلت تکلیف اور عدم حرج کے اصولوں کو مد نظر رکھنا چاہئے کیونکہ ان اصولوں وقوانین اورقواعد و ضوابط کو نظر انداز کردینے کی بناء پر افراد معاشرہ کا انتہائی مشکلات میں مبتلا ہونے کااندیشہ ہوتا ہے۔
شرعی امور میں آسانی اور سہولت کی بقاء کے قرآنی اسالیب:
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی فطرت کو خوب جانتا ہے کہ رخصتیں اور تخفیفات اس کے بندوں کی انتہائی مرغوبات میں سے ہیں اس لئے اس نےمختلف حالات اور اوقات میں شرعی احکام کی بجا آوری کیلئے کئی اختیارات دئے ہیں تاکہ وہ حکم ِ الٰہی پر اس صورت میں عمل پیرا ہوں کہ ان کیلئے آسانی اور سہولت کا دروازہ بھی کھلا رہے اور ان کو مشقت اور حرج کا سامنا بھی نہ ہومثلاََ طہارت وپاکیزگی کے حصول میں کئی ایک سہولتیں عطاء فرمادی ہیں [30]، رمضان المبارک میں کئی ایک رخصتیں دی ہیں[31]، ایام ِحج میں آسانی اور سہولت کو نمایاں رکھا ہے[32]،قتل خطاء کی دیت میں تیسیر فرمائی[33]،ظہار(شوہر اپنی بیوی کو محرمات کیساتھ تشبیہ دے کر اپنے اوپر حرام کر لے اور پھر اپنے قول کوواپس لیناچاہے) کا شریعت نےجوکفارہ بیان کیا اس میں تین چیزیں بیان فرمائی اس میں مقصودیسرکوبرقرار رکھنا تھا[34]،یمین(قسم کے بعد اس کو توڑنا چاہے یاتوڑدے ) کا کفارہ بیان کرتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے آسانی کا معاملہ فرمایا ہے۔[35]
غایت درجہ کی مجبوری کو اضطرار کہا جاتا ہے ۔اضطراری حالات سےمراد وہ کیفیت ہے جس میں انسان دین، جان ،مال، عقل اورنسل کومحفوظ رکھنے کیلئے کسی چیز کی پناہ لینے پرمجبور ہوجائے۔عام حکم اضطراری اورمجبوری کے حالات میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اللہ کی طرف سے اس کےبندوں کیلئے انتہائی وسعت اور گنجائش ہے کہ وہ حالات کی تنگی میں مزیدآزمائش میں مبتلا نہ ہو جائیں۔[36]
تدریج ( ابتدائی حالات میں احکام نرم اور لچکدار تھے تاکہ آسانی سے ان کی تفہیم وتعمیل ہو سکے جیسے ہی حالات، احوال منشاء ربانی سے ہم آہنگ ہو گئے تو زندگی کے مختلف شعبوں اور متنوع پہلوؤں میں اللہ تعالیٰ نے احکام کی مستقل طور پر صراحت فرمادی)کا عمل بھی اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں کے ساتھ انتہائی رحمت اور نرمی کو واضح کرتا ہے۔شراب اور دیگرقبیح اشیاء کی ممانعت کے حکم کو ہی دیکھ لیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ممانعت یک بارگی نہیں فرمائی بلکہ اس نے تدریج کو اختیار کیا [37]وہ چاہتا تو فوراً اپنے بندوں کو شرب خمر اور دوسری قبیحات سے منع کر دیتا لیکن اس نےہرگز ایسا نہیں کیا تاکہ اس کے بندوں کی طبع پر بوجھل نہ ہو۔تنسیخ(کسی ایک حکم کو منسوخ کرکے اس کی جگہ پر دوسری چیز کا حکم دینا)کا عمل بھی اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں کے ساتھ رحیمانہ شفقت اور والہانہ محبت کا اظہار ہے۔[38]
شرعی امور میں ان تمام اقدامات کی موجودگی دین اسلام کے قوانین میں آسانی اور سہولت کے پہلوکی خوب تفسیر و تفصیل ہے اور اسی طرح دین اسلام کے احکام میں حرج ،تنگی اور مشقت کے خاتمہ کی تشریح و توضیح ہے ۔
حاصل بحث:
شرعی امور میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی آسانیوں اور سہولتوں سے فائدہ اٹھانا چاہئے، یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر خاص کرم و مہربانی ہے ۔ بعض افراد تھوڑے سے تقویٰ کےحصول کی خاطر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی رخصتوں کو قبول کرنے کی بجائے خود کو بےجا پابندیوں او رناروابندشوں میں جکڑ لیتے ہیں، جو شریعت اسلامیہ کی وسعتوں اور سہولتوں کےمنافی ہے۔جس طرح شرعی امور میں عزیمت اور مشقت اللہ کی منشاء ہے ،اسی طرح رخصت اور سہولت بھی اللہ کی پسندیدہ ہیں اس لئے ان کا انکار معصیت الہٰی کے مترادف ہے۔ اللہ کے قانون میں ہر فرد اپنی قوت و بساط کے مطابق ہی مکلف ہے ،کسی پراستطاعت و قدرت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا گیا۔ ایک مسلم کی کامیابی و کامرانی اسی میں ہی ہے کہ وہ ہر معاملہ میں اعتدال اور توازن سےکام لے ۔ جہاں وہ عزیمتوں پر عمل پیرا ہو وہاں رخصتوں کا بھی انکار نہ کرے۔
حوالہ جات
- ↑ مریم 19: 97
- ↑ الدخان 44: 58
- ↑ الاعلیٰ87: 8
- ↑
القمر54:17 اس آیت کو اللہ تعالیٰ نے اس سورہ میں تین مرتبہ دہرایا ہے تاکہ قرآنی احکام میں یسر کی خوب توضیح ہوجائے۔
- ↑ البقره 2 : 185
- ↑ طبری،محمد بن جریر بن یزید،جامع البیان عن تأویل آی القرآن،دار ہجر للطباعۃ والنشر والتوزیع والإعلان الطبعۃ: الاولیٰ، 1422ھ ، ج3،ص218
- ↑ ابن علی رضا، محمد رشید ،تفسیر المنار، الہیئۃالمصریۃالعامۃ للکتاب،1999ء ،ج2،ص132
- ↑ السعدی،عبدالرحمان بن ناصر، تفسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان المعروف تفسیر السعدی ، موسسۃ الرسالۃ، 2000ء،ج1،ص86
- ↑ النساء 4: 28
- ↑ الشوکانی،محمد بن علی بن محمد،فتح القدیر،دار ابن کثیر، دار الکلم الطیب ۔ دمشق، بیروت،1414ھ ،ج1؍ص 522
- ↑ طنطاوی،محمد سید،التفسیر الوسیط للقرآن الکریم،دار نہضۃ مصر للطباعۃ والنشر والتوزیع، الفجالۃ،القاہرۃ، 1997ء، ج3،ص123
- ↑ ابن العربی،محمدبن عبداللہ،قاضی،احكام القرآن لابن العربی،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،لبنان،1424ھ ،ص 264
- ↑ گیلانی ، عبدالرحمان ،تیسیر القرآن ، مکتبہ السلام ،لاہور ، ج1،ص242
- ↑ البقره 2: 286اس کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس اصول کو کئی ایک مواقع پر دہرایا تاکہ اس اصول کو ہر معاملہ انسانی میں پیش نظر رکھا جائےتفصیل کے لئے دیکھیں البقرہ،:233،الطلاق: 7الانعام:152، الاعراف:42، المومنون:62
- ↑ البغوی،ابو محمد الحسین بن مسعود بن محمد بن الفراء،معالم التنزیل فی تفسیر القرآن،دار إحیاء التراث العربی،بیروت، 1420 ھ ،ج1،ص402
- ↑ قرطبی،ابوعبد اللہ محمدبن أحمد،امام،الجامع لاحکام القرآن،دار الکتب المصریۃ،القاہرۃ 1964ء،ج3،ص430
- ↑ الثعلبی،احمد بن محمد بن إبراہیم، ابو إسحاق،الکشف والبیان عن تفسیر القرآن، دار إحیاء التراث العربی، بیروت – لبنان،2002ء، ج2،ص306
- ↑ المراغی،احمد بن مصطفی،تفسیر المراغی،شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابی الحلبی وأولادہ بمصر،1946ء،ج8،ص70
- ↑ مودودی، ابو الاعلیٰ ،سید،تفہیم القرآن، مکتبہ تعمیر انسانیت ، لاہور ، 1992ء، ج1،ص244
- ↑ ابن کثیر،اسماعیل بن عمر ،ابو الفداء،تفسیر القرآن العظیم،دار طیبہ للنشر والتوزیع،1999ء،ج10،ص 99
- ↑ محمد شفیع،مفتی، معارف القرآن،ادارہ المعارف، کراچی،1981 ء ،ج6،ص 289۔290
- ↑ تفہیم القرآن ،ج3،ص254
- ↑ الخطیب ،عبد الکریم یونس،التفسیر القرآنی للقرآن،دار الفکر العربی، القاہرۃ،ج9،ص1106-1107
- ↑ الحج 22: 78اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اس اصول کا دیگر جگہوں پر تذکر فرمایا ہے ۔المائدہ5:6اورالاحزاب33:37 اور 50 میں بھی اسی کی طرف راہنمائی کی گئی ہے۔
- ↑ الماوردی،علی بن محمد بن محمد،ابوالحسن،تفسیر الماوردی النکت والعیون،دارالکتب العلمیۃ، بیروت،ج4،ص42
- ↑ المروزی،منصوربن محمدبن عبدالجبار،ابوالمظفر،تفسیرالقرآن،دارالوطن،الریاض - السعودیۃ،1418ھ،ج3،ص458
- ↑
التوبہ 9: 91
- ↑ النور24: 61
- ↑ العمادی،محمد بن محمد ،ابو السعود،تفسیر ابی السعود إرشاد العقل السلیم إلی مزایا الکتاب الکریم،دار إحیاء التراث العربی۔ بیروت،ج8،ص109
- ↑ تفصیل کے لئے دیکھیں المائدہ6:5
- ↑ تفصیل کے لئے دیکھیں البقرہ158:2
- ↑ تفصیل کے لئے دیکھیں اٰل عمران97:3اورالمائدہ95:5
- ↑ تفصیل کے لئے دیکھیں النساء92:4
- ↑ تفصیل کے لئے دیکھیں المجادلۃ3:58
- ↑ تفصیل کے لئے دیکھیں المائدہ89:5
- ↑ تفصیل کے لئے دیکھیں البقرۃ173:2،المائدہ3:5، الانعام145:16، النحل115:16 اور النحل 106:16
- ↑ تفصیل کے لئے دیکھیں النحل67:16، البقرۃ219:2، النساء43:4اورالمائدۃ90:5
- ↑ تفصیل کے لئے دیکھیں المجادلۃ13-12:58، الانفال66-65:8اور دیگر منسوخ احکامِ قرآنی
Issue Details
Showing 1 to 20 of 22 entries
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Showing 1 to 20 of 22 entries
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...
Similar News
Loading...