تعارف مصنف
مولانا سلیم اللہ خان نور اللہ مرقدہٗ دارالعلوم دیوبند کے فاضل ہیں۔آپؒ شیخ الاسلام مولانا سیدحسین احمد مدنی قدس سرہٗ کے تلمیذِ رشید، حضرت مولانا مسیح اللہ خانؒ کے تربیت یافتہ وقابل فخر شاگرد، جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی کے مؤسس، رئیس و شیخ الحدیث، وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور اتحادِ تنظیماتِ مدارسِ دینیہ کے قائد وصدر تھے، آپؒ اتحاد ویکجہتی کی علامت، مردم شناس ومردم ساز،محدث،فقیہ مفکر،داعی اسلام،استادالعلماء جیسےالقابات کےحقیقی حقدارگردانے جاتے ہیں۔ آپ کی پیدائش 25 دسمبر 1926ء1کوقصبہ حسن پور لوہاری انڈیا میں ہوئی جو تھانہ بھون اور جلال آباد کے قریب ہے ۔
شیخ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ بچپن میں پڑھنےکیلئےہمیں مسلم اسکول میں بٹھایا گیا ،پرائمری پاس کرنے کے بعد ہم نے استاد محترم منشی جی سے فارسی شروع کی، وہ فارسی کے بہت بڑے عالم تھے البتہ عربی سے بالکل ناواقف تھے۔2 پھر شام کو مغرب کے بعد ہم دونوں بھائیوں کو منشی اللہ بندے قرآن کریم پڑھانے آتے تھے، میرا قرآن تین مہینے میں ختم ہو گیا تو انگریزی شروع کرادی تھی، عبد القیوم خان مرحوم قرآن کریم پڑھتے رہے، میں نے انگریزی کی دو تین کتابیں پڑھیں ۔3
آپ ؒاپنے تعلیمی، تدریسی اور حالاتِ زندگی کو مختصرلفظوں میں ایک خط میں یوں لکھتے ہیں کہ:
’’احقر کی پیدائش قصبہ حسن پور لوہاری میں ہوئی جو تھانہ بھون اور جلال آباد کے قریب ہے۔ اردو، فارسی کی تعلیم لوہاری میں ہوئی۔ رابعہ تک شرح وقایہ، شرح جامی وغیرہ ڈھائی سال میں مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد میں استاد محترم مولانا مسیح اللہ خانؒ سے پڑھی۔ 5 سال دیوبند میں گزارے اور شیخ الاسلام حضرت اقدس مولانا سید حسین احمدمدنی قدس سرہٗ سے سنن ترمذی جلداول اورصحیح بخاری مکمل پڑھی۔اس کے بعد 8 سال مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد میں مدرس اور ناظم تعلیمات کی حیثیت سے گزارے۔ اسی مدرسہ میں مولوی جمشید علیؒ نے دو سال احقر کے پاس تعلیم حاصل کی۔اس کے بعد احقر مولوی جمشید علیؒ کو لے کر پاکستان میں ٹنڈوالہ یار میں مولانا احتشام الحق مرحوم کے قائم کردہ دارالعلوم آگیا، 3 سال اس دارالعلوم میں گزارے۔ اس میں احقر کو وہاں کی آب وہوا ناموافق ہوئی، مزید وہاں کا نظم بھی قابل رشک نہ تھا، یہاں احقر ابوداؤد، ہدایہ آخیرین، جلالین وغیرہ پڑھاتا رہا، اس کے بعد احقر دارالعلوم کراچی منتقل ہوگیا۔ مولانا جمشید علی مرحوم ٹنڈوالہ یار ہی میں رہے، پھر کسی وقت وہ رائے ونڈ چلے گئے۔دارالعلوم کراچی میں احقر نے 10 سال ترمذی شریف ، 6 سال بخاری شریف کا درس دیا۔ دارالعلوم ہی کے زمانہ میں ایک سال تک بعد نمازِظہر تا عصر جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں ترمذی جلد ثانی، شمائل ترمذی اور بیضاوی شریف کا درس دیا۔ دارالعلوم میں فنون کے اسباق بھی احقر نے پڑھائے، پھر حضرت مفتی محمد شفیع ؒ سے اجازت لے کر جامعہ فاروقیہ کراچی قائم کیا۔ اجازت بڑی مشکل سے ملی تھی، تاحال جامعہ فاروقیہ میں ہوں، پہلے تو بخاری، ترمذی، مشکوٰۃ کے دوسرے اسباق بھی احقر سے متعلق ہوتے تھے، اب جب معذوری کی حالت ہے تو فقط بخاری اول پڑھاتا ہوں۔ ‘‘4
آپ ؒکے بہت سارے اساتذہ تھے، لیکن آپؒ کو سب سے زیادہ تعلق اور محبت چار اساتذہ سے تھی، جن میں شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ،شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علیؒ، شیخ التفسیر حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ، اور حضرت مولانا عبدالخالق ملتانیؒ شامل ہیں۔
آپؒ سے شرفِ تلمذ حاصل کرنے والوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے، جن میں سے مشہور ومعروف جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے مہتمم ثانی حضرت مولانا مفتی احمد الرحمنؒ، مہتمم ثالث حضرت مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہیدؒ، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے سابق شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر مفتی نظام الدین شامزی شہیدؒ، مولانا عنایت اللہ شہیدؒ، مولانا سید حمید الرحمن شہیدؒ، تبلیغی جماعت کے بزرگ حضرت مولانا جمشید علی خان رحمہم اللہ تعالیٰ ، دارالعلوم کراچی کے صدر حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، نائب صدر حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، آپ کے صاحبزادےمولانا ڈاکٹر محمد عادل خان اورمولانا عبید اللہ خالد ،مولانا منظور احمد مینگل ، مولانا ولی خان المظفر، مولانا ابن الحسن عباسی دامت برکاتہم نمایاں شخصیات ہیں۔
تصنیفی وتالیفی خدمات:
مولانا سلیم اللہ خان ؒ کا بوجہ دیگر مشاغل کثیرہ اور عوارض کے تصنیفی وتالیفی میدان میں (چندکتب کےعلاوہ)کوئی بہت زیادہ کام نہیں ہے،جس کے متعلق آپ خود”صدائے حق“کے پیش لفظ میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
”زندگی کی دوسری مصروفیات نے مجھے مستقل طور پر تصنیف وتالیف اور تحریر کا موقع نہیں دیا۔ تدریسی خدمت اور انتظامی اُمور نے ایسا گھیرا کہ میں اس میدان کی طرف توجہ نہ دے سکا۔ البتہ جامعہ فاروقیہ سے شائع ہونے والے اردو ماہنامہ ”الفاروق“کے اجراء کے بعد کچھ عرصہ ”صدائے حق“ کے عنوان سے اس کے لیے چند موضوعات پر لکھنے کا موقع ملا، جن میں بعض اگرچہ معروضی اور وقتی تھے تاہم ان مخصوص حالات کے اسباب اور ان کیلئےتجویز کردہ علاج کے طریقے بہر حال ایک مستقل اور دائمی حیثیت رکھتے ہیں اور ان سے مستقبل میں بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے“۔
اسی طرح دارالعلوم کراچی کے ترجمان ماہنامہ ”البلاغ“کیلئےبھی اس کے ابتدائی مراحل میں ”درسگاہ رسالت“کے عنوان سے چند احادیث کی عام فہم تشریح لکھنے کا موقع ملا۔“5
جب تائیدایزدی شامل حال ہوتوتوفیق ربانی سے ناممکن بھی ممکن ہوجاتے ہیں یہی حال مولانا سلیم اللہ خان ؒ کی رہی کہ زندگی کی آخری سالوں میں اچھے شاگرددستیاب ہونے کی وجہ سے آپ کے دست راست ثابت ہوکرآپؒ کی فرمودات اورمسودات کومرتب کرنے میں معاو ن بنے۔
ذیل میں حضرت کی تالیفات اورمصنفات کا تعارف پیش کیا جاتاہے،البتہ ایک بات کی بطورتنبیہ کے یاددہانی کرانا ضروری سمجھتاہوں کہ حضرت کی تمام کتب جامعہ فاروقیہ کی ملکیت ہونے کی وجہ سے تمام حقوق بحق جامعہ فاروقیہ محفوط ہے،یہی وجہ ہے کہ آپ ؒ کی تمام کتب مکتبہ فاروقیہ کراچی سے چھپ کرہی سامنے آتی ہیں۔
===کشف الباری عمافی صحیح البخاری:===
یہ کتاب حضرت شیخؒ کے الجامع الصحیح للبخاری کےتقریری افادات پر مشتمل مرتب ومحقق بے مثال اور بے نظیر مجموعہ ہے۔اس بے مثال شرح کے وجود میں آنے کا پس منظر یہ ہے کہ 1986-1987، میں جب موجودہ دور کے مناظر اسلام شیخ الحدیث مولانا ڈاکٹر منظور احمد مینگل نے جامعہ فاروقیہ کراچی میں دورہ حدیث کیا تو اس سال حضرت شیخ کے درس بخاری کو مکمل ریکارڈ کیا گیا، جو تقریبا چار سو سے بھی زائد کیسٹوں پر مشتمل تھا، بعد ازاں ان کیسٹوں سے مکمل تقریر قلم بند کر لی گئی۔ پھر اس تقریر پر تحقیق و ترتیب اور تعلیق کا کام شروع ہوا، اس عظیم کام کیلئےمولانا ابن الحسن عباسی زید مجدہ سے لے کر اب تک کئی حضرات اہل علم اس سعادت کو حاصل کرتے رہے، جس کے نتیجے میں تاحال بائیس جلدیں منظرِ عام پر آ کر مقبولیت عامہ وخاصہ حاصل کر چکی ہیں ۔ان مطبوعہ بائیس جلدوں پر محققین کے کام کی تفصیل ذیل میں درج کی جاتی ہے۔
مولانا ابن الحسن عباسی کی تحقیق سے کل چھ جلدیں منظریں عام پر آئی ہیں ، جن میں تمام مباحث صحیح بخاری جلد ثانی کی ہیں ،ان میں:کتاب المغازی، کتاب التفسیر، کتاب فضائل القرآن، کتاب النکاح،کتاب الطلاق،کتاب النفقات،کتاب الاطعمہ،کتاب العقیقہ،کتاب الذبائح والصید، کتاب الاستیذان،کتاب الرقاق، کتاب الدعوات،کتاب الطب، کتاب اللباس اورکتاب الادب شامل ہیں۔
مولانا نور البشر زید مجدہ کی تحقیق سے پانچ جلدیں منظر عام پر آئی ہیں ، ان پانچ جلدوں کی تمام مباحث صحیح البخاری، جلد اول کی بالکل ابتدائی مباحث ہیں ، ان میں:کتاب بدء الوحی، کتاب الایمان جلد اول و جلد دوم،کتاب العلم جلد سوم، کتاب العلم جلد چہارم اورکتاب الوضوء جلد اول شامل ہے۔
مولانا عزیز الرحمن عظیمی کے قلم سے ”کتاب فضائل الصحابہ “کے ابتدائی 23 /ابواب پر کام ہوا۔
مفتی محمد مزمل سلاوٹ کے قلم سے ”کتاب البیوع“کی کتاب السلم ، کتاب الشفعہ، کتاب الاجارہ، کتاب الحوالہ، کتاب الکفالہ، کتاب الوکالہ، کتاب الحرث، کتاب المزارعہ، کتاب المساقاۃ، پر کام ہوا۔
مفتی حبیب حسین کے قلم سے ”کتاب الجہاد“کی ایک جلد پر مکمل اور ”کتاب احادیث الانبیاء“پر نامکمل کام ہوا۔
مولانا حبیب اللہ زکریا کے قلم سے تین جلدیں منظر عام پر آ چکی ہیں ، جن میں ”کتاب الجہاد“ کی دو جلدیں اور ”کتاب بدء الخلق“ ہے۔
مفتی عارف محمود نے ”کتاب الغسل“، جلد اول پر کام کیا۔مفتی مبارک علی نے ”کتاب الحیض“ پر کام مکمل کیا، اس کے بعد مفتی حبیب حسین والے کام ”کتاب الانبیاء“ کی تکمیل بھی کی۔
مفتی امان اللہ نے ”کتاب التیمم“پر کام کیا۔محمد راشد ڈَسکوی نے ”کتاب الصلاۃ“، جلد اول پر کام کیا ہے۔
کشف الباری کی وہ جلدیں جو مولانا ابن الحسن عباسی کی تحقیق سے سامنے آئیں ان میں بنسبت دیگر تمام جلدوں کے قدرے اختصار ملتا ہے، لیکن بقیہ تمام جلدوں میں تفصیل اور تقریبا تمام مباحث کا استیعاب ہے،مذکورہ شرح میں حضرت شیخ کی تقریر کو بنیاد بناتے ہوئے ایک خاص منہج کے مطابق کام کیاگیا ہے، ذیل میں وہ منہج ذکر کیا جاتا ہے:
1:ترجمۃ الباب کے مقصد/ مقاصد کی وضاحت اور تراجم ابواب پر سیر حاصل بحث۔
2:ربطِ ابواب، ذکر مناسبت۔
3:حدیث باب کا ترجمہ۔
4:حدیثِ باب کی امہاتِ ستہ سے تخریج۔
5:رواۃِ حدیث کا جامع تعارف، خاص طور پر ان کی توثیقات وتعدیلات کا ذکر، اسی طرح ان پر اگر ائمہ کا کلام ہو تو ان کا ذکر، اگر بلا تکلف وتصنع دفاع ہو سکے تو دفاع، ورنہ کم ازکم صحیح بخاری میں ایسے متکلم فیہ راوی کے مندرج ہونے کا عذر۔
6:سندِ حدیث پر محققانہ کلام۔
7:متنِ حدیث پر محدثانہ کلام۔
8:شرح حدیث میں ملحوظ امور:دیگر طرق حدیث میں وارد الفاظ مختلفہ کو لا کر تشریح، نحوی، صرفی، بلاغی، لغوی اور اعرابی حیثیت سے تشریح وتحقیق،فقہی مذاہب کی (اصحابِ مذاہب کی کتب سے) تنقیح اور حوالہ،دلائل فقہیہ کا التزام،حنفی مذہب کو مدلل ومبرھن انداز سے پیش کرنا اور وجوہِ ترجیح مذہب ِ حنفیہ کا التزام کرنا۔
9:حدیث شریف کی ترجمۃ الباب سے مطابقت۔
10: متابعات وشواہد بخاری کی تخریجات۔
ٍ11: حوالہ جات وتعلیقات میں درج ذیل امور کو خاص طور پر ملحوظ رکھا جائے۔
12: کتب حدیث کا حوالہ جہاں جلد، صفحات کے ساتھ دیا جائے وہاں ”کتاب“ اور ”باب“
اسی طرح”رقم الحدیث“ضرور ذکر کیے جائیں۔
13:حدیثِ باب کی تخریج امہات ستہ سے خاص طور پر کی جائے، اگر امام بخاری اس حدیث میں متفرد ہوں تو کسی معتمد مصنف کا حوالہ ضرور دیا جائے اور اس سلسلے میں فتح الباری اور عمدۃ القاری کے ساتھ ساتھ ”تحفۃ الاشراف“سے مدد لی جائے۔
14:متن میں جس کتابِ حدیث کا حوالہ آئے اور وہ کتاب اگر دارالتصنیف میں موجود ہو یا آسانی سے مل سکتی ہو تو اس کی مراجعت کر کے حوالہ ثبت کیا جائے، ورنہ بدرجہ مجبوری ثانوی مراجع مثلا: فتح الباری وغیرہ کا حوالہ دیا جائے۔
15:تعلیقات بخاری کے سلسلہ میں ”تغلیق التعلیق“ سے ضرور استفادہ کیا جائے۔
16:رواۃ کے سلسلہ میں عام شروح کا حوالہ دینے کے بجائے اسماء الرجال کی معتبر کتابوں کا حوالہ دیا جائے۔
17: لغوی تحقیقات کے لیے لغاتِ حدیث اور عام بڑی لغت کی کتابوں ، مثلا: تاج العروس، لسان العرب، المصباح المنیراور المغرب وغیرہ کو ترجیح دی جائے۔
18:اعرابی ،نحوی وصرفی تحقیقات کیلئے(کتب نحو وصرف اور خاص طور سے) شروح حدیث سے استفادہ کیا جائے۔
19:فقہی مذاہبِ ودلائل کے لیے ہر مکتبہ فکر کی اپنی کتابوں کو ملحوظ رکھا جائے۔
20:حدیثی مباحث اور محدثانہ کلام کے لیے شروحات کے ساتھ ساتھ عللِ حدیث پر لکھی گئی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے۔
21: معاصرتقاریرپرسرسری استفادہ کی حدتک تو اعتمادہولیکن حوالہ جاتی اعتماد ہرگز نہ کیاجائے۔
22:ما یستفاد من الحدیث کا شراح حدیث کے کلام کی روشنی میں تذکرہ کیا جائے۔
23: کسی حدیث پر فقہی وکلامی مباحث کو بھی مکرر نہ لکھا جائے، إلا یہ کہ کسی جگہ ناگزیر ہو تو پہلی جگہ کا حوالہ بھی ذکر کریں ۔
24:حدیث شریف سے متعلق کون سے مباحث ذکر کرنے ہیں،ان کی تعیین اکابرین کی شروحات وتقاریر کو سامنے رکھ کر کی جا سکتی ہے۔
فی الوقت پانچ علمائے کرام (مولانا حبیب اللہ زکریا، مفتی امان اللہ ، مفتی مبارک علی،مفتی ثناء اللہ اور محمد راشد ڈَسکوی)کشف الباری پر کام کر رہے ہیں ، اللہ کرے کہ اس عظیم علمی منصوبہ پر جلد بعافیت کام مکمل ہو جائے۔6
پشتوزبان والوں کیلئے خوش آئندبات یہ ہے کہ کشف الباری کا پشتو زبان میں ترجمہ بھی شروع ہوا ہے، جس کی ایک جلد کا ترجمہ مکمل ہو کر شائع ہو چکا ہے، پشتو ترجمہ کرنے کی سعادت حاصل کرنے والے مولانا شاہ فیصل ، جو پشاور کی جامع مسجد فرقان پنبور کے خطیب ہیں ۔
کشف الباری کی خصوصیات:
جامعہ فاروقیہ کے سائٹ پرکشف الباری کی خصوصیات کے بارے میں محمدنجیب سنبھلی تحریرفرماتےہیں کہ:
”کشف الباری عما فی صحیح البخاری“ کی خصوصیات او رامتیازات تو بہت ہیں، یہاں اجمالاً چند خصوصیات کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔مشکل الفاظ کے لغوی معانی اور یہ کہ یہ لفظ کس باب سے آتا ہے بیان ہوتا ہے ۔اگر نحوی ترکیب کی ضرورت ہو تو جملے کی نحوی ترکیب کو ذکر کیا گیا ہے ۔حدیث کے الفاظ کا مختلف جملوں کی صورت میں سلیس ترجمہ کیا گیا ہے۔ترجمة الباب کے مقصد کا تحقیقی طریقے سے مفصل بیان کیا گیا ہے او راس سلسلے میں علماء کے مختلف اقوال کا تنقیدی تجزیہ پیش کیا گیا ہے ۔باب کا مقابل سے ربط وتعلق کے سلسلے میں بھی پوری تحقیق وتنقید کے ساتھ تجزیہ پیش کیا گیا ہے ۔مختلف فیہا مسائل میں امام ابوحنیفہ ؒکے مسلک اور دوسرے مسالک کی تنقیح وتحقیق کے بعد ہر ایک کے مستدلات کا استقصاء اور پھر دلائل پر تحقیقی طریقے سے رو وقدح او راحناف کے دلائل کی وضاحت او رترجیح بیان کی گئی ہے۔اگر حدیث میں کوئی تاریخی واقعہ مذکور ہو تو اس کی پوری وضاحت کی گئی ہے ۔جن احادیث کو تقریر کے ضمن میں بطور استدلال پیش کیا گیا ہے ان کی ترجیح بیان کی گئی ہے۔تعلیقات بخاری کی تخریج کی گئی ہے ،اور سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ مختلف اقوال کےنقل کرنے میں حضرت صرف ناقل نہیں ہیں بلکہ ہر قول پر محققانہ او رتنقیدی کلام بھی بوقت ضرورت کیا گیا ہے۔تلک عشرة کاملہ۔7
کشف الباری سے متعلق علماء کرام نے اپنے رائے کااظہاربڑے اچھے اورعظیم پیرایہ میں کیاہے۔ان حضرات کابیان کتاب کی عظمت کی دلیل ہے۔
دار العلوم حقانیہ کے شیخ الحدیث مولانا مغفور اللہ دامت برکاتہم العالیہ کا یہ قول معتمد ذرائع سے سننے میں آیا ہےکہ صحیح البخاری کیلئے کشف الباری کے بعد کسی اور شرح کی دیکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔
مفتی نظام الدین شامزئی شہیداس شرح کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
”بندہ تقریبا تین سال سے جامعہ علوم اسلامیہ (کراچی) میں صحیح بخاری پڑھاتا ہے اور الحمد للہ صرف اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے کہتا ہوں کہ مجھے مطالعہ کرنے کا ذوق اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل وکرم سے عطا فرمایا ہے، صحیح بخاری کی مطبوعہ ومتداول شروح، حواشی اور تقاریر اکابر میں سے شاید کوئی شرح، حاشیہ، یا تقریر ایسی ہو گی جو بندہ کی نظر سے نہیں گذری، لیکن میں نے ”کشف الباری“جیسی ہر لحاظ سے جامع، مرتب اور تحقیقی شرح نہیں دیکھی، اگرچہ علماء کا مشہور مقولہ ہے: ”لا یغني کتاب عن کتاب“، لیکن ”ما من عام إلا وقد خص عنہ البعض“ کے قاعدے کے مطابق ”کشف الباری“اس قاعدے سے مستثنی ہے، بلا مبالغہ حقیقۃً وواقعۃ ًیہ ایسی شرح ہے کہ انسان کو دوسری شروح سے مستغنی کر دیتی ہے“۔
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اس شرح کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
”اگر میں یہ کہوں تو شاید مبالغہ نہیں ہو گا کہ اس وقت صحیح بخاری کی جتنی تقاریر اردو میں دستیاب ہیں ان میں یہ تقریر اپنی نافعیت اور جامعیت کے لحاظ سے سب پر فائق ہے۔ اور یہ صرف طلبہ ہی کے لیے نہیں ، بلکہ صحیح بخاری کے اساتذہ کیلئےبھی نہایت مفید ہے۔مباحث کے انتخاب، تطویل اور اختصار میں ہر پڑھانے والے کا مذاق جدا ہو سکتا ہے۔ لیکن اس میں صحیح بخاری کے طالب علم اوراستاذ کے لیے تقریبا تمام ضروری مسائل کا احاطہ کر لیا گیا ہے۔“8
اربعینات:
یہ حضرت اقدس کی وہ تصنیف لطیف ہے، جوحال ہی میں مکمل ہو کر منظر عام پر آئی ہے، جس طرح کہ علماءکرام نے چہل حدیث کے نام سے کتابیں لکھی ہیں مثلا: علامہ نووی کی اربعین، اسی طرح شیخ سلیم اللہ خان ؒ نے بھی چالیس احادیث پرمشتمل اپنی تشریح کے ساتھ”اربعینات“کے نام سے ایک کتاب تحریر فرمائی اس کتاب میں کل گیارہ مختلف موضوعات پر چہل حدیث جمع کی گئی ہیں ، یہ کتاب کل 173صفحات پر مشتمل ہے،جوکہ مکتبہ فاروقیہ کراچی سے گتے کے گردپوش اور اعلی معیاری کاغذ پر چھپ چکی ہے۔
نفحات التنقیح فی شرح مشکاۃ المصابیح:
”نفحات التنقیح“مشکوۃ المصابیح کی شرح ہے، اس شرح کے پیش لفظ میں خود حضرت شیخ الحدیث ؒتحریر فرماتے ہیں کہ:
”اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے زمانہ طالب علمی ہی میں مجھے مشکوٰۃ شریف پڑھانے کا موقع ملادارالعلوم دیوبندمیں دورہ حدیث میں داخلہ لینےسےقبل بعض طلبہ کویہ کتاب پڑھانےکی سعادت مجھے حاصل ہوئی اور پھر فراغت کے بعد اپنی طویل تدریسی زندگی میں سالہا سال تک اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور توفیق سے مشکوۃ شریف پڑھانے کی سعادت حاصل رہی ہے اور اب بھی الحمد للہ اس کا ابتدائی حصہ کتاب العلم تک زیر تدریس رہتا ہے۔دوران درس بعض طلبہ عموما اساتذہ کی تقریر لکھنے کا اہتمام کرتےہیں،میری مشکوٰۃ کی تقریربھی مختلف طلبہ مختلف سالوں میں لکھتےرہےہیں،مولانا قاضی عبد الخالق نے بھی پڑھنے کے زمانے میں میرا درس مشکوٰۃ ضبط کیا تھا، میرے علم کے مطابق ان کی لکھی ہوئی درسی تقریر سےخاص طور پر بعد میں اساتذہ اور طلبہ استفادہ کرتے رہے ہیں اور نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی اس تقریر کی فوٹو کاپیاں بڑی تعداد میں عام ہوئیں ، میرے پاس بھی ان کی ضبط کردہ تقریر کی فوٹو کاپی رہی، جو بعد میں زیر مطالعہ بھی رہی، یہ تقریر الحمد للہ جامع بھی تھی اور مرتب بھی، اس میں حدیث کے طویل فنی مباحث کو جامع اور مرتب انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ مشکوٰۃ شریف کی اس درسی تقریر کو کتابی شکل میں لانے کے لیے اہل علم کی طرف سے اصرار رہا، لیکن ایک درسی تقریر کو تحقیق وتعلیق اور حوالہ جات کے بغیر شائع کرنے پر دل آمادہ نہیں تھا، پھر جب جامعہ فاروقیہ میں شعبہ تصنیف وتالیف قائم ہوا تو مشکوٰہ شریف کی اس تقریر پر بھی تحقیق وتعلیق کا کام شروع کرایا گیا اور الحمد للہ مشکوۃ شریف جلد اول یعنی کتاب النکاح تک کی تقریر پر تحقیق و تعلیق اور تخریج کا کام ہو چکا ہے، یہ کام مولانا اسد اللہ اور مولانا محمد عظیم (اساتذۂ جامعہ فاروقیہ) نے بڑی محنت اور لگن کے ساتھ انجام دیا ہے، میں نے بالاستیعاب ان کا کام دیکھ لیا ہے، امید یہی ہے کہ یہ تقریر موجودہ صورت میں طلبہ اور علماء کے لیے مفید ثابت ہو گی“9
یہ شرح ریگزین گردپوش کے ساتھ چارمتوسط مجلدات میں مکتبہ فاروقیہ کراچی سے طبع ہوئی ہے، ان چار میں سے پہلی تین جلدیں مشکوٰۃ جلد اول کی مباحث کی تشریح پر مشتمل ہیں ، اور چوتھی جلد میں مشکوٰۃ جلد دوم کی ابتدائی مباحث ہیں ،باقی پرتاحال کام جاری ہے،اس طرح یہ شرح غیر مکمل شکل میں ہے جوکہ ابھی تک تکمیلی مراحل میں ہے۔
اتحاف الذکی بشرح جامع الترمذی:
حضرت شیخ الحدیث نے 32سال جامع الترمذی کا درس دیا ہے، اس دورانیے میں کئی طلباء حضرت کی تقریر کو اپنے اپنے طور پر ضبط بھی کرتے رہے، ان منضبط تقاریر میں سے کچھ رجسٹر سامنے رکھ کر مفتی عبد الرحیم حفظہ اللہ کی تحقیق سے” اتحاف الذکی“کے نام سے ایک جلد منظر عام پر آئی ہے، اس کام کی تفصیل ذکر کرتے ہوئے حضرت شیخ اتحاف الذکی کے مقدمے میں لکھتے ہیں :
”احقر کی ایک طویل عرصے سے خواہش تھی کہ جامع ترمذی پر بھی سابقہ معیار (یعنی کشف الباری اور نفحات التنقیح کےمعیار)کےمطابق تحقیقی کام کیاجائےجس میں تحقیق وتدقیق کے تمام ممکنہ تقاضوں کو پورا کیا جائے، ہمارے اساتذہ، دیگر اکابرینِ دیوبند اور اس خطے کے دیگر اساتذۂ حدیث کا یہ دستور چلا آ رہا ہے کہ صحاح ستہ میں اپنی مفصل تقاریر کا محور جامع ترمذی ہی کو بناتے ہیں ، جیسا کہ حضرت مدنی نور اللہ مرقدہ کے درسِ ترمذی کے متعلق ماقبل میں ذکر ہوا، اسی وجہ سے احقر نے جامع ترمذی کی اپنی درسی تقاریر اور امالی پر تحقیقی انداز میں کام کا ارادہ کیا۔احقر نے جامع ترمذی 32 مرتبہ پڑھائی ہے، ایک سال مفتاح العلوم جلال آباد میں پڑھائی، اس کے بعد دارالعلوم کراچی میں دس سال پڑھائی، ایک سال جامعۃ العلوم الاسلامیہ (بنوری ٹاؤن) میں اور اس کے بعد سالہا سال تک جامعہ فاروقیہ میں پڑھائی ہے۔مفتی محمد رفیع عثمانی، مفتی محمدتقی عثمانی، مفتی احمد الرحمن، مولانا حبیب اللہ مختار شہیدؒ نے ترمذی احقر کے پاس پڑھی، ایسے ہی مولانا محمد یاسین اور مفتی نصیر احمد نے جامع ترمذی مفتاح العلوم جلال آباد میں احقر سے پڑھی، یہاں چند خواص کے نام لکھے ہیں، وگرنہ پڑھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے“۔ 10
جامع الترمذی کی یہ شرح صرف ایک ضخیم جلد،ریگزین گرد پوش اوراعلی معیاری پیپر کے ساتھ جامعہ فاروقیہ کے اپنے مکتبہ، مکتبہ فاروقیہ کراچی سے سامنے آئی ہے۔
تفسیر کشف البیان :
ایک عرصے سے اہل سنت کے علمی ذخیرے میں ایسی تفسیر کی تشنگی محسوس کی جارہی تھی، جس کا بیان ہی ادیان باطلہ اور فرق ضالہ، الحاد واستشراق کی فکری گمراہیوں کی تردید ہو، تفسیر کشف البیان اسی تشنگی کی سیرابی اور ایک دیرینہ خواب کی تعبیر ہے،یہ حضرت شیخؒ کے افادات پر مشتمل تفسیر قرآن ہے، جس کی ابھی تک ایک جلدطبع ہوئی ہے، اس تفسیرکی خصوصیات حسب ذیل ہیں :
1:پہلی جلد 645صفحات پر محیط سورہ فاتحہ اور سورۃ البقرہ کی تفسیر پر مشتمل ہے۔
2:ترجمہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن کا نقل کیا گیا ہے۔
3:ابتدا میں حضرت شیخ الحدیث صاحب کے محققانہ قلم سے تفسیر کا جامع تعارف جس میں پوری تفسیر کی علمی جان سمٹ آئی ہے۔
4:ابتدا میں مقدمہ تفسیر شامل ہے، جس میں تفسیر، اصول تفسیر، اقسام تفسیر پر مختصر اور عام فہم انداز میں بحث کی گئی ہے۔
5:تفسیر میں جن آیاتِ قرآنیہ کا تعلق علم المخاصمہ سے ہے ان آیات کی تشریح اس تفسیر کا خاص موضوع ہے۔
6:ایسے تمام مقامات پر تفصیلی مباحث پیش کیے گئے ہیں ، اولا: اہل سنت والجماعت کا مؤقف مع الدلائل اور ثانیا: فریق مخالف کا مؤقف مع الدلائل ان کی کتب سے باحوالہ پیش کر کے اس کا علمی جائزہ لیا گیا ہے۔
7:جو آیات علم المخاصمہ سے تعلق نہیں رکھتیں ، ان کی تفسیر حکیم الامت مولانا محمداشرف علی تھانویؒ کی تفسیر بیان القرآن کی روشنی میں سہل اور عام فہم زبان میں کر دی گئی ہے۔ چونکہ شیخ الہندؒاور حکیم الامت ؒکا ترجمہ جدا جدا ہے، اس لیے بعض مواقع پر تراجم کے اختلاف کا اثر تفسیر میں بھی پڑتا ہے، اس لیے ایسے مواقع پر شیخ الہندکے ترجمے کے موافق تفسیر کی گئی ہے۔
8: تفسیر ہٰذا میں اہلِ اسلام سے اختلاف رکھنے والے فرق مثلا: قادیانیت، اثنا عشریہ، رافضی فرقے، اسماعیلیہ وغیرہ منکرین حجت حدیث، نیچری وغیرہ کے عقائد باطلہ کی تردید کر کے اہل اسلام کے مؤقف کو قرآن وسنت کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے۔
9:اہل سنت والجماعت سے جزوی اور اجماعی مسائل سے اختلاف رکھنے والے قدیم وجدید بدعتی فِرَق کے ساتھ ساتھ استشراقی فکر کے علم بردار تجدد پسند طبقے کا فکری جائزہ بھی لیا گیا ہے۔
10:فقہی احکام پر مشتمل آیات کو اہل علم کی اصطلاح میں ”آیات الاحکام“کہتے ہیں ، ایسی آیات کی تفسیر میں صرف وہی فقہی مسائل ذکر کیے گئے ہیں جو آیت کریمہ سے براہ راست مستفاد ہوتے ہیں ان کی تفصیل فقہ حنفی کی روشنی میں کی گئی ہے، فقہاء کے اختلاف پر بقدر ضرورت کہیں کہیں روشنی ڈالی گئی ہے۔11
یہ تفسیرایک عمدہ کاوش ہے مگراہل علم حضرات اس سے ناواقفیت اورلاعلمی کی بناپر استفادہ نہیں کرپارہے ہیں،مکتبہ فاروقیہ سے تاحال صرف ایک جلد ،ریگزین گردپوش کیساتھ 645 صفحات پرمشتمل ہوکرطبع ہوئی ہے۔
الإمام البخاري،حیاتہ وأعمالہ:
اس کتاب میں امام بخاری کے زہد وتقویٰ ، اخلاص وللہیت، روایت، حفظ حدیث میں ان کا مقام ومرتبہ، ذہانت وقوت حافظہ کے حیرت انگیز واقعات، صحیح بخاری کی خصوصیات وامتیازات کا تفصیلی تذکرہ، صحیح بخاری کی بعض احادیث اور ان کے رجال پر تنقیدی وتحقیقی جائزہ، صحیح مسلم پر صحیح بخاری کی فوقیت کی وجوہ کابیان، الغرض بچپن سے وفات تک امام بخاری کی سوانح، علمی اور تاریخی کارناموں کی دل آویز تفصیلی روداد کا بیان ہے۔
یہ مجموعہ درحقیقت وہ مقالہ ہے جو حضرت شیخ کی طرف سے ”آکسفورد للدراسات الإسلامیۃ للمشارکۃ“کی طرف سے امام بخاری کی منقبت میں قائم کیے جانے والے سیمینار میں پیش کیا گیا تھا، اس سیمینار میں شیخ عبد الفتاح ابو غدہؒ، شیخ ابو الحسن علی الندویؒ جیسے کبار محدثین بھی شریک تھے، اس مجلس میں اس مقالے کو پڑھا گیا اور بہت پسند کیا گیا۔یہ کتاب عربی زبان میں 103صفحات پرمحیط ہے،گردپوش اوراندرکےصفحات کیلئے کمزورکاغذاستعمال کیاگیاہے،جامعہ فاروقیہ نے اپنے ہی مکتبہ، مکتبہ فاروقیہ سے شائع کیاہے۔
القول السلیم في مبادیٔ التاریخ والتقویم:
درس نظامی کے درجہ خامسہ میں الدکتور ابراہیم الشریفی کی ایک کتاب”التاریخ الإسلامی“ پڑھائی جاتی تھی، اس کی ابتداء میں تاریخ کے مبادیات اور تعارف واہمیت پر مشتمل ایک نہایت علمی مقدمہ ”القول السلیم في مبادیٔ التاریخ والتقویم“ کے نام سے شامل ہے، جو حضرت شیخ کا مرتب کردہ ہے، مکتبہ فاروقیہ سے کل کتاب کی تو276 صفحات ہیں،اورشیخ صاحب کامرتب
کردہ مقدمہ بیس صفحات پر مشتمل ہوکرمکتبہ فارقیہ سے سامنے آئی ہے۔
محدثین عظام اور ان کی کتابوں کا تعارف:
مولاناسلیم اللہ خان ؒ اس کتاب کی تالیف کے بارے میں ا س کے پیش لفظ میں خودتحریر فرماتے ہیں کہ:
”اللہ جل شانہ نے محض اپنے فضل وکرم سے گزشتہ تقریبا نصف صدی سےاحادیث کی کتابیں پڑھانے کی توفیق عطا فرمائی ہے، صحاح ستہ اور دوسری کتب حدیث کا سالہا سال درس ہوتا رہا، ہر کتاب کی ابتداء میں مصنف اور کتاب کا تعارف کرانے کا معمول عام ہے، ہمارے درس میں بھی یہ معمول جاری رہا اور کتاب کو شروع کرنے سے پہلے اس کتاب کے مصنف کے حالات تفصیل کے ساتھ بیان کئے جاتے اور کتاب کی خصوصیات اور تعارف پر مفصل گفتگو کی جاتی، مختلف سالوں میں طلبہ اس کو قلمبند کرتے رہے، اسی طرح صحاح ستہ کے علاوہ مؤطا امام مالک، مؤطا امام محمد اور طحاوی شریف حدیث کی ان 9 معیاری کتب اور ان کے مصنفین کے تفصیلی حالات الحمد للہ قلمبند ہو گئے، کئی سال پہلے کتابی شکل میں یہ مرتب بھی ہو گئے اور اس کی کتابت بھی ہو گئی تھی، لیکن تحقیق وتخریج اور حوالہ جات کا کام اس پر نہیں ہوا تھا اور اس کے بغیر کتاب کی اشاعت پر دل مطمئن نہیں ہو رہا تھا۔اللہ جزائے خیر دے جامعہ فاروقیہ کے سابق استادمولانا عبد الاحد کو،جنہوں نے اس کی تحقیق وتخریج کی ذمہ داری قبول کی اور بڑی محنت اور دلچسپی کے ساتھ اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا، مولوی حبیب اللہ زکریا اور مولوی سلیم اللہ زکریا نے پروف کی تصحیح میں تعاون کیا“۔12
یہ کتاب مکتبہ فاروقیہ سے 453صفحات میں چھوٹے سائز میں چھپی ہے۔
تسہیل الادب:
عربی زبان سیکھنے کیلئے مبتدی طلباء کیلئےیہ ایک ایسی کتاب ہے، جو ُاسلوب کے اعتبار سے انتہائی آسان ہے، صرف ونحو کے ضروری قواعد کی تمرین اس میں کروائی گئی ہے، جدیدالفاظ کا بھی ایک بڑا حصہ اس میں شامل کیا گیا ہے، مبتدی طلبہ نہایت سہولت اور آسانی سے اسے یاد کر سکتے ہیں ، یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے، پہلے حصے میں اسم وحرف کے ضروری قواعد کے ضمن میں تمرینات اور الفاظ جدیدہ ذکر کیے گئے ہیں ، اور یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ اولا آسان الفاظ میں ضروری قواعد بیان کر دیے جاتے ہیں ، اس کے بعد ”الأسئلۃ“کے عنوان کے تحت مثالیں دی جاتی ہیں ، تا کہ قواعد اچھی طرح ذہن نشین ہو جائیں ، اس کے بعد انہی قواعد کی مناسبت سے تمرینات اور مشقیں دی گئی ہیں ، اور آخر میں الکلمات الجدیدۃ کے عنوان سے جدید الفاظ دئیے گئے ہیں ، اگر سبق کے ساتھ تمرینیں زبانی یاد کروائی جائیں اور ان کے لکھوانے کا اہتمام کیا جائے تو امید ہے کہ ان شاء اللہ اس سلسلہ کے ذریعے طلبہ میں دلچسپی پیدا ہو گی اور طلبہ کے ذہنوں میں تعبیرات کا کافی حصہ محفوظ ہو جائے گا۔کتاب کے دوسرے حصے میں فعل کی مباحث ہیں اور ہر سبق کے آخر میں بھی تمرینات کا وہی انداز ہے جو حصہ اول میں اختیار کیا گیا ہے،کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتاہے کہ یہ کتاب وفاق المدارس العربیہ کے نصاب میں بھی شامل ہے ۔دیگرکتب خانوں کے ساتھ ساتھ جامعہ فاروقیہ نے بھی اعلی معیاری جلدمیں مکتبہ فاروقیہ سے ایک جلدمیں شائع کیاہے۔
صدائے حق:
یہ کتاب حضرت شیخ الحدیث ؒکے مختلف مضامین اور خطبات ومواعظ کا مجموعہ ہے، کتاب میں دو باب قائم کیے گئے ہیں ، باب اول میں حضرت شیخؒ کی تحریروں کو جمع کیا گیا ہے ، اس باب میں کل تریسٹھ مضامین شامل ہیں اورباب دوم میں آپؒ کےمختلف خطبات ومواعظ کو جمع کیا گیا ہے۔ حضرت شیخ الحدیثؒ اس کتاب میں تحریر فرماتے ہیں کہ :
”میری مختلف تحریروں اور مضامین کا مجموعہ ”صدائے حق“کے نام سے شائع کیا جا رہا ہے۔ یہ تحریریں مختلف اوقات اور مختلف حالات کے پس منظر میں لکھی گئی ہیں ۔ زندگی کی دوسری مصروفیات نے مجھے مستقل طور پر تصنیف وتالیف اور تحریر کا موقع نہیں دیا۔ تدریسی خدمت اور انتظامی اُمور نے ایسا گھیرا کہ میں اس میدان کی طرف توجہ نہ دے سکا۔ البتہ جامعہ فاروقیہ سے شائع ہونے والے اردو ماہنامہ ”الفاروق“کے اجراء کے بعد کچھ عرصہ”صدائے حق“کےعنوان سے اس کیلئے چند موضوعات پر لکھنے کا موقع ملا، جن میں بعض اگرچہ معروضی اور وقتی تھے تاہم ان مخصوص حالات کے اسباب اور ان کیلئےتجویز کردہ علاج کے طریقے بہر حال ایک مستقل اور دائمی حیثیت رکھتے ہیں اور ان سے مستقبل میں بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔اسی طرح دارالعلوم کراچی کے ترجمان ماہنامہ ”البلاغ“کیلئے بھی اس کے ابتدائی مراحل میں ”درسگاہ رسالت“کے عنوان سے چند احادیث کی عام فہم تشریح لکھنے کا موقع ملا۔ یہ سلسلہ اس کے کئی شماروں میں شائع ہوا۔ ”صدائے حق“ کا یہ مجموعہ انہی تحریروں اور مضامین پر مشتمل ہے“۔13
مجالس علم وذکر:
مختلف مواقع پر مولاناسلیم اللہ خانؒ نے جوتقاریرومواعظ ارشادفرمائی ہے ان کویکجاکرکے جامعہ فاروقیہ کے اساتذہ نے مکتبہ فاروقیہ سے دوجلدوںمیں چھپواکرشائع کرائی ہے۔
صدائے وفاق:
ماہنامہ ”وفاق المدارس“کے سابق مدیر ابن الحسن عباسی زید مجدہم نے ماہنامہ وفاق کے اداریوں کو جو حضرت شیخ کی طرف سے لکھے گئے تھے، جمع کرکے کتابی شکل میں صدائے وفاق کے نام سے جمع کیا۔
مولانا سلیم اللہ خانؒ کے مذکورہ کتب کے علاوہ دیگرتالیفات میں ذکرِ سلیم ، خطباتِ سلیم، مکتوباتِ سلیم، آثارِ سلیم اورذکرِ رفتگاں کاشماربھی گراں قدر سرمایہ ہے۔اہل علم اور تشنگان علم کیلئے آپؒ کے مذکورہ کتب خزانہ بیش بہاء کا حیثیت رکھتا ہے،جس سے برصغیر پاک وہند کےساتھ ساتھ بنگلہ دیش،افغانستان اور دیگر عرب ممالک میں موجود مولانا سلیم اللہ خانؒ کے شاگرد اور دیگر اہل علم مسفید ہورہے ہیں۔
خلاصہ بحث:
ضرورت اس امر کی ہے کہ شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خانؒ کے مذکورہ کتب کومختلف ممالک میں موجود ان کے شاگرد اور شائقین علوم اسلامیہ ، اپنے مقامی زبانوں میں ترجمہ کر کے اسے نافع خاص وعام بنائیں۔ اگرچہ اس وقت آپؒ کے چند ایک کتب کا پشتو ترجمہ ہوا ہے لیکن لازمی ہے کہ دیگر زبانوں میں بھی اس کی تراجم منظرعام پر لائی جائیں۔ خصوصاً آپؒ کے جن کتب پر تاحال کام نہیں ہواہےیاآپؒ کےمواعظ وخطوط اصلاحیہ جوغیرطبع شدہ ہیں ان کو”مواعظ“اور”خطوط اصلاحیہ“ کے نام سے شائع کیا جائے تاکہ اصلاح ورہنمائی کا سبب بنے۔
حوالہ جات
1محمداعجاز،رئیس المحدثین کی رحلت،ماہنامہ البینات،کراچی،فروری 2017ء،جلد80،شمارہ5،ص4
2صابرمحمود ،مفتی،تذکرہ شیخ سلیم اللہ خان ،ادارہ الرشید کراچی،یکم مئی 2017ء،ص22
3ایضاً،ص23
4محمداعجاز،رئیس المحدثین کی رحلت،ماہنامہ البینات،کراچی،فروری 2017ء، جلد80،شمارہ5،ص4
5سلیم اللہ خان، مولانا،صدائے حق ،مکتبہ فاروقیہ،کراچی،2005،ص3
6صابرمحمود ،مفتی،تذکرہ شیخ سلیم اللہ خان ،ادارہ الرشید کراچی، یکم مئی 2017ء،ص 273۔274
7سلیم اللہ خان،مولانا ،کشف الباری،مکتبہ فاروقیہ،کراچی،2014ء،ج1مقدمہ،ص9
8جالندھری،محمدحنیف ،مولانا،ماہنامہ وفاق المدارس،ملتان،فروری 2017ء،جلدنمبر14،شمارہ نمبر5،ص6
9سلیم اللہ خان، مولانا،نفحات التنقیح علی المشکوۃ المصابیح،مکتبہ فاروقیہ ،کراچی،2005ء،ج1،ص10
10جالندھری،محمدحنیف ،مولانا، ماہنامہ وفاق المدارس،ملتان،فروری 2017ء،جلدنمبر14،شمارہ نمبر5،ص 4
11صابرمحمود ،مفتی،تذکرہ شیخ سلیم اللہ خان ،ادارہ الرشید کراچی، یکم مئی 2017ء،ص 285
12سلیم اللہ خان، مولانا ،محدثین عظام اوران کی کتابوں کاتعارف،مکتبہ فاروقیہ،کراچی،2010ء،ص5
13سلیم اللہ خان، مولانا ،صدائے حق ،مکتبہ فاروقیہ،کراچی،2005ء، ص3