1
1
2017
1682060029185_985
31-90
https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/6/302
https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/6
Critical Analysis Books Usool-ul-Hadith Subcontinent Muslim Scholars
مقدمہ (تعارف ِتحقیق):
اصولِ حدیث وہ علم ہے جس کے ذریعے راوی او ر روایت کے حالات معلوم ہوتے ہیں پھر اس کی روشنی میں حدیث کو قبول کرنے یا رد کرنے کا فیصلہ کیاجاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں علم اصول حدیث سے مراد ایسے قواعد و ضوابط کا جاننا ہے۔ جن کے ذریعے سندومتن کی معلومات ہوں یا راوی اور مروی کے ان احوال کا علم ہو سکے جن کی بنیاد پر حدیث کے قبول یا مردود ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اصول حدیث ہی کے فن میں یہ بتایا جاتا ہے کہ کس حدیث میں علت یا اضطراب ہے، حدیث کو رد کس لیے کیا جاتا ہے؟ اور دوسری روایت سے شواہد حاصل کرنے کی ضرورت کن احادیث میں ہوتی ہے؟ اور حدیث کے سماع اور اس کے ضبط وتحمل کی کیفیت کیا ہے؟ محدث اور طالب حدیث کے کون سے آداب ضروری ہیں۔ علماء حدیث نے علمی بنیاد پر قواعد وضع کرنے کے سلسلے میں اولیت کا شرف حاصل کیا ہے۔ یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جو دیگر اقوام کے علماء کی تصانیف میں نہیں پائی جاتی یہاں تک کہ ان کی کتب مقدسہ میں بھی یہ صفت موجود نہیں ہے۔
ہر دور میں علماء امت نے قرآن مجید کے ساتھ ساتھ احادیث مبارکہ کے لیے گرانقدر خدمات سرانجام دی ہیں اور ان کی حفاظت کے لئے ہمہ تن گوش، اخلاص وللہیت کے ساتھ اپنی پوری زندگیاں وقف کیں، طرح طرح کی تکالیف اور مشقتیں برداشت کرکے ان کو ضائع ہونے سے بچایا اور امت کے ان جبال العلم علماء، اکابر محدثین کرام رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین نے علم حدیث کی تمام تر اقسام پر انتہائی جامع ومانع اور بہترین کتابیں تصنیف و تالیف اور ترتیب دی ہیں۔
احادیث مبارکہ کی حفاظت کا ایک اہم ذریعہ اور بنیادی مدار سند ہے، سند کے بغیر ان کی حفاظت و صیانت مشکل بلکہ ناممکن ہے، مشہور محدث وامام ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ الحافظ الحاکم النیسابوریؒ(المتوفی 405ھ) اپنی شہرہ آفاق کتاب معرفۃ علوم الحدیث میں امام و محدث حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ (المتوفی 181ھ) کے مشہور قول الاسناد من الدین ولولا الاسناد لقال من شاء وماشاء (اسناد حدیث ہی دین ہے' اگر اسناد نہ ہوتی تو پھر ہر کوئی جو چاہتا وہی کہہ دیتا) کو نقل کرنے کے بعد یوں فرماتے ہیں:
فلولا الاسناد و طلب ھذہ الطائفۃ لہ، و کثرۃ مواظبتھم علی حفظہ، لدرس منار الاسلام و تمکن أھل الالحاد و البدع منہ، بوضع الأحادیث، و قلب الاسانید، فان الاخبار اذا تعرت عن وجود الاسناد فیھا کانت بتر۔[1]
یعنی اگر اسناد نہ ہوتیں اور گروہ محدثین ان کوطلب نہ فرماتے اور ان کے حفظ پر کثرت سے مواظبت نہ کرتے تو علاماتِ اسلام مٹ جاتیں اور ملحد و بدعتی لوگ اس میں جھوٹی احادیث وضع کرنے پر قدرت پا کر غالب آجاتے اور احادیث کی اسناد کو الٹ پلٹ دیا جاتا کیونکہ اگر احادیث مبارکہ کو اسناد سے بے نیاز قرار دیا جائے تو وہ بے بنیاد ہو جائیں گی۔
حفاظت سنت کے پیش نظر علمائے کرام نے اس کے متعلق ہر طرح سے معلومات جمع فرمائیں، راویانِ احادیث کے مختلف طبقات بنائے، فنِ جرح و تعدیل کی بنیاد رکھی گئی، علم رجال جیسا عظیم الشان علم وجود میں آیا جس میں سینکڑوں نہیں بلکہ لاکھوں رواۃ حدیث کے احوال، ان کا علم ذوق و شوق ، طلب علم حدیث کے آداب تاریخ کے سنہرے اوراق میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئے، جو اس امت مرحومہ کا طرئہ امتیاز ہے۔ حدیث قبول کرنے اور نہ کرنے کے لیے کڑی شرائط، محکم اصول و قوانین وضع کرکے مقرر کیے گئے، ثقات و ضعفاء کی تفریق کی گئی اور ان کے لیے بھی قواعد و ضوابط مرتب کئے گئے اور انہی قواعد و ضوابط مرتب کرنے کے فن کو علم اصول حدیث یا علم مصطلح الحدیث کا نام دیا جاتا ہے۔ چنانچہ ہر دور میں طبقہ اہل علم نے علم حدیث کی ہر طرح، ہر جانب ہر انداز اور ہر زاویے سے خوب سے خوب تر کوششِ خدمت، اسے آسان سے آسان بنانے اور ترقی دینے کی بھرپور کامیاب اور مقبول سعی فرمائی ہے، بے شمار کتابیں ضبط تحریر لائی گئیں۔ بقول حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (المتوفی 852ھ)سب سے پہلے جس شخصیت کو اس فن پر قواعد و ضوابط مرتب کرنے کا اعزاز حاصل ہوا وہ چوتھی صدی ہجری کے مشہور امام و محدث قاضی ابو محمد رامہرمزی رحمہ اللہ (المتوفی 360ھ ) ہیں، چنانچہ الدکتور الاستاذ معظم حسین معرفۃ علوم الحدیث النیسا بوری کے مقدمے میں رقمطراز ہیں:
وقال الحافظ ابن حجر فی اول شرحہ لکتابہ نخبۃ الفکر:ان اوّل من صنف فی الاصطلاح ھوالقاضی ابومحمدالرامھرمزی فعمل کتاب المحدث الفاصل۔۔۔۔[2]
لیکن آگے جا کر امام حاکم النیسا بوری رحمہ اللہ کی اسی معرفۃ علوم الحدیث (ص 81) پر حافظ موصوف رحمہ اللہ امام علی بن عبداللہ بن جعفر مدینی ؒ کا ذکر فرماتے ہیں اور اس کے بعد علم حدیث اور اس کی انواع کے متعلق ان کے مصنفات گنواتے ہیں جو29کے لگ بھگ ہیں۔ امام ابن مدینی کی وفات 234ھ ہے جبکہ امام رامہر مزی رحمہ اللہ کا سن وفات 360ھ ہے اور ان کے درمیان تقریباً سوا صدی کا فاصلہ ہے اور امام ابن مدینی رحمہ اللہ متقدم ہیں لہٰذا معلوم یہی ہوتا ہے کہ امام رامہر مزی رحمہ اللہ سے پہلے بھی اس علم کی بمع انواعہ واقسامہ غیرمعمولی خدمات ہوئی ہیں، جیسا کہ معرفۃ علوم الحدیث میں حافظ نیسا بوری رحمہ اللہ کے کلام سے واضح ہے۔ (واللہ اعلم)بہرحال اسی طرح یہ سلسلہ آگے بڑھا اور بے شمار محدثین عظام نے اس فن پر مختلف اسلوب و انداز میں مختلف قیمتی کتابیں لکھیں، ان میں قابل ذکر مشہور مصنف و مورخ علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ (المتوفی 463ھ) ہیں جنہوں نے اس فن اور اس کے محتویات پر بعض حضرات کے بقول 23 اور بعض کے بقول 30 کے قریب گراں قدر کتابیں تصنیف فرمائیں، بعض حضرات نے منظوم انداز میں اس فن کی خدمت کی۔ بہرصورت بے شمار کتابیں و رسائل اس فن پر وجود میں آئے جن کی تفصیل مقالہ ہذا کے باب اول، فصل سوم میں ملاحظہ ہو۔انہی حضرات کی قابل قدر کوششوں اور سنجیدہ کاوشوں کا یہ نتیجہ ہے کہ آج اس علم کی دیگر علوم کی طرح اپنی اصطلاحات، اپنا انداز وادا، اپنا رنگ، اپنی لغات اور اپنی زبان ہے۔ بلکہ دیگر علوم کی بنسبت ہر انداز میں ان سے یکتا، ممتاز اور منفرد خصوصیات کا حامل ہے۔ اور جب کوئی علم اس بلند مقام پر فائز ہو جائے تو فہم عام کے لیے وہ ہر لغت، ہر زبان میں ہر طرح کی تشریح و توضیح اور کشف و بیان کا محتاج ہوتا ہے اور اسی کے پیش نظر تقریباً ہر زبان میں اس علم کی یہ شدید ضرورت پوری کرنے کی بھرپور کوشش و جدوجہد کی گئی ہے، اور شروع ہی سے ہر دور کے علماء امت، وقت کی ضرورت اور اہل زمانہ کی حاجت و معیار کے مطابق اور ان کے فہم و تفہیم کے معیار کے اعتبار سے اس سلسلہ کو بڑے احسن و خوبصورت اور سہل انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں اور انشاء اللہ یہ سلسلہ اسی طرح تاقیامت جاری وساری رہے گا۔
تحقیقی طریقہ کار:
مسلمانوں نے اصول حدیث اور دیگر علم حدیث پر بیش بہا ذخیرہ تیارکیا۔ اس ذخیرہ کتب میں علم کی کسی ایک شاخ پر الگ تصانیف بھی موجود ہیں اور جملہ علوم حدیث پر بحیثیت مجموعی بھی۔ عربی زبان چونکہ مسلمانوں کی علمی زبان رہی ہے اس لیے تدریس کے ساتھ تصنیف میں بھی اسی کو ذریعہ اظہار قرار دیا گیا۔برصغیر میں بھی علوم اسلامیہ کی تدریس کے لیے عربی تصانیف کو بنیادی اہمیت حاصل رہی تاہم تشریح و تعبیر کے لیے چونکہ اردو زبان استعمال ہوتی تھی اس لیے بعض کتب کے اردو تراجم بھی کیے گئے۔ دینی مدارس میں علوم حدیث کی جو کتاب بطور نصاب شامل رہی وہ حافظ ابن حجر کی مختصر کتاب ”شرح نخبة الفکر“ ہے۔اس کتاب کے اردو تراجم موجود ہیں۔ اس کے علاوہ بعض جدید کتب کے تراجم بھی ہوئے۔ مثلاً ڈاکٹر صبحی صالح کی علوم الحدیث اور ڈاکٹر محمود الطحان کی تیسیرمصطلحالحدیث وغیرہ۔ لیکن علوم حدیث،مصطلح الحدیث یا اصول حدیث پر اہل علم حضرات نے اعلیٰ و تحقیقی معیار پر مستقل کتابیں بھی تصنیف کیں۔علوم حدیث کےحوالےسےتحریرکردہ کتابوں کی ایک تعارفی وتجزیاتی فہرست پیش خدمت ہے۔آئندہ سطور میں سب سے پہلے عربی سے اردو تراجم پھر فارسی سے اردو تراجم اور آخرمیں علوم حدیث پر اردو میں لکھی گئی مستقل کتب کا تعارف و تجزیہ پیش کیا جائے گاانشاء اللہ۔
عربی سے اردو تراجم علوم حدیث کا جائزہ و مطالعہ
جس طرح برصغیر پاک و ہند کے علما نے عربی، فارسی اور اردو زبان میں مستقل کتابیں لکھ کر علوم حدیث کی خدمت کی ہے اسی طرح انہوں نے عربی اور فارسی زبان میں لکھی جانے والی کتابوں کا اردو زبان میں ترجمہ و شرح کر کے اس علم (علوم حدیث) سے لوگوں کو روشناس کرایا اور اسے مزید تقویت بخشی۔ علوم حدیث کی درج ذیل کتب اردو ترجمے سے مزین ہو کر منصۂ شہود پر آچکی ہیں۔
- معرفۃ علوم الحدیث (صفحات 388)[3]
علوم حدیث پر ایک اہم اور مفید کتاب ہے۔ پانچ اجزاء اور باون انواع پر مشتمل اس کتاب میں مصنف نے حدیث کی اسناد اور متون، رواۃ حدیث کے مختلف درجات و طبقات اور اصول حدیث کے اہم مسائل پر سیر حاصل اور عمدہ بحثیں کی ہیں۔ ہر مبحث کی تعریف، اہمیت و نوعیت اور ضرورت کو مثالوں سے واضح کیا گیا ہے۔ اس کی تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موضوع پر یہ دوسری باقاعدہ اور پہلی مکمل و جامع کتاب ہے۔
تحقیقی جائزہ و مطالعہ
یہ علوم حدیث پر ایک اہم اور مفید کتاب ہے۔ امام حاکمؒ کو اپنے عہد میں بدعتوں کی کثرت سنن سے عام ناواقفیت اور احادیث کے ضبط و تحریر میں اہمال اور لاپر واہی کی وجہ سے اس کی ترتیب و تصنیف کا خیال ہوا۔ اس سے پہلے علوم حدیث میں جو کتابیں لکھی گئی تھیں ان کی حیثیت متفرق اجزاء کی تھی۔ ابو محمد حسن بن عبدالرحمن بن خلاد الرامہرمزی کی کتاب المحدث الفاصل بین الراوی والواعی اس موضوع کی پہلی باقاعدہ کتاب ہے لیکن اس میں استیعاب و استقصاء نہیں کیا گیا تھا۔ امام حاکمؒ کے بعد خطیب بغدادیؒ اور حافظ ابن الصلاح کی کتابیں فواہد و معلومات کے لحاظ سے اہم ہیں۔ امام حاکم کا شرف و تقدم مسلّم ہے۔ مگر حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں: لکنہ لم یہذب ولم یرتب[4] نہ تو اس کتاب کی تہذیب کی گئی نہ ہی اسے ترتیب دیا گیا۔لیکن یہ بیان محل نظر ہے۔ فلسفہ تاریخ کے امام علامہ ابن خلدونؒ لکھتے ہیں کہ:علوم حدیث سے متعلق بہت سے لوگوں نے تالیفات کی ہیں جن میں سے ایک اس فن کے چوٹی کے امام حاکمؒ ہیں، انہوں نے اصول حدیث سے متعلق کئی معروف ومشہور کتابیں لکھیں، اس فن کو انہوں نے بڑی مہارت، خوبی اور ترتیب و تہذیب سے بیان کیا ہے۔ نیز انہوں نے اس فن کے محاسن اور خدوخال کو نمایاں کیا ہے۔[5]
کشف الظّنون میں ہے:اس فن کی جانب سب سے پہلے ابو عبداللہ حاکمؒ نے اعتناء کیا۔ اس کے بعد حافظ ابن الصلاح نے علوم الحدیث کے نام سے بڑی اہم اور قابل ذکر کتاب لکھی جو مقدمہ ابن صلاح کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں انہوں نے بعض انواع کا مفید اضافہ کیا ہے۔ لیکن حاکمؒ کی حیثیت متقدم کی ہے اور ابن اصلاح ان سے متاخر اور تابع ہیں۔ انہوں نے اکثر چیزیں حاکم کے حوالے سے لکھی ہیں۔[6]
اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موضوع پر یہ دوسری باقاعدہ اور پہلی مکمل و جامع کتاب ہے جو پانچ اجزاء اور باون انواع پر مشتمل ہے۔ اس میں مصنف نے حدیث کی اسناد اور متون، رواۃ حدیث کے مختلف درجات و طبقات اور اصول حدیث کے اہم مسائل پر سیر حاصل اور عمدہ بحثیں کی ہیں۔ ہر مبحث کی تعریف، اہمیت و نوعیت اور ضرورت کو مثالوں سے واضح کیا ہے۔ اس سلسلہ میں متقدمین کے کاموں کا ایک حد تک ذکر بھی آگیا ہے۔ ہر بحث میں پہلے احادیث و آثار سنداً بیان کیے گئے ہیں اور آخر میں ان سے مصنّف نے جو حقائق اور معنی خیز نتائج اخذ کئے ہیں ان کا ذکر ہے۔ ضمناً اکثر صحابہؓ اور رواۃ حدیث کی بعض خصوصیات، سنینِ وفات اور ان کے بارے میں دوسرے مختلف النوع معلومات بھی تحریر کیے گئے ہیں۔ معرفۃ علوم الحدیث کے قلمی نسخے یورپ، ترکی، مصر، شام، اور انڈیا کے متعدد کتب خانوں میں موجود ہیں۔ ان سب کی مدد اور مقابلہ و تصحیح کے بعد ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات وعربی کے سابق صدر ڈاکٹر سید معظم حسین نے اس کو ایڈٹ کیا تھا جو 1983ء میں مصر سے دائرۃ المعارف حیدرآباد کے اہتمام میں شائع ہوا ہے۔ اس کے شروع میں فاضل مرتب نے ایک جامع اور مبسوط مقدمہ بھی لکھا ہے۔ اس میں مصنف کے حالات، علمی خدمات اور اصول حدیث کے بنیادی مصادر کا تذکرہ کیا گیا ہے اور حواشی میں نسخوں کے فرق و اختلاف اور کمی بیشی کی تصریح کی ہے۔ حافظ ابو نعیم اصفہانی نے اس پر مستخرج لکھا تھا اور علامہ طاہر بن صالح الجزائری نے توجیہ النظر میں اس کا ملخص شامل کیا ہے۔
اُسلُوبِ مترجِم
1:کتاب کے حواشی میں سے انتہائی ضروری چیزوں کو منتخب کیا گیا ہے۔
2: تصحیح و تعلیق کے سلسلہ میں نسخوں کے تقابل کی بحث میں الجھنے سے گریز کیا گیا ہے۔ پیش نظر نسخہ پر ہی اعتماد کیا گیا ہے۔
3: حاشیے میں کچھ ضروری نوٹ اپنی طرف سے بھی بریکٹ یعنی ([ ]) کے درمیان دئیے گئے ہیں۔4: متن کے ترجمے میں بھی جابجا توضیح مطلب کے لیے قوسین ( ) میں کچھ عبارتیں لکھ دی گئی ہیں۔5: جہاں کہیں طباعت کی غلطی نظر آئی وہاں مترجم نے اپنی صوابدید کے مطابق اصلاح کر کے ترجمہ کیاہے([7])مختصر یہ کہ زیر نظر کتاب ایک فنی کتاب ہے اور اب تک اسے اردو قالب میں نہیں ڈھالا گیا تھا۔ یہ موقع اللہ تعالیٰ نے مولانا محمد جعفر شاہ پھلواروی کو دیا کہ وہ اس عظیم علمی سرمایہ کو اردو دانوں میں بھی روشناس کروائیں۔
- اختصار علوم الحدیث (صفحات 173)[8]
یہ بعض مفید اضافوں کے ساتھ مقدمہ ابن الصلاح کا خلاصہ ہے۔ حدیث کی پینٹسھ (65)اقسام کا محققانہ بیان کتاب ہذا کی امتیازی شان ہے۔
- الاکمال فی اسما ءالرجال(صفحات 144)[9]
مشکوٰۃ المصابیح میں جن صحابہ،صحابیاتؓ، تابعینؒ اور تابعیاتؒ نیز دیگر علما محدثین اور ائمہ فن کی روایات آئیں ہیں ان کےمستندحالات مختصراً بیان کیےگئےہیں۔تقریباً 1033 رواۃ جن کی مشکوٰۃ المصابیح میں روایات آئیں ان کے حالات درج ہیں۔
- فتح الکمال فی اسماء الرجال (صفحات 356)[10]
اکمال فی اسما ءالرجال ساتویں صدی ہجری کی تالیف ہے۔ فن رجال میں اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر یہ مجموعہ تالیف نہ ہوتا تو بیشتر صحابہ اور تابعینؒ کے حالات پردہ خفا میں رہتے۔ 1033رواۃ کے مستند حالات کا قدیم ترین مجموعہ اصول حدیث کے دیگر بے شمار مباحث پر مشتمل ہے۔
- علوم الحدیث و مصطلحہ(صفحات 520) [11]
علم حدیث کی تاریخ، اصطلاحات کی توضیح اور اسی قبیل کے دوسرے مباحث سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس کتاب کی افادیت اس بات سے ظاہر ہے کہ اس علم کی اکثر و بیشتر قدیم و جدید کتابوں کے مباحث کا نچوڑ اس میں موجودہے۔
- تاریخ حدیث و محدثین (صفحات 624)[12]
عہد نبوی سے سقوطِ بغداد (656ھ) تک تفصیل کے ساتھ اور سقوطِ بغداد سے عہد حاضر تک حدیث اورمحدثین کی تاریخ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ کتاب دراصل وہ تحقیقی اور علمی مقالہ (Thesis)ہے جس پر مصنف کو جامعہ ازہر نے 1946ء میں ڈاکٹریٹ کی سند دی تھی۔
- تذکرۃ الحفاظ(مجلدات: 4 عدد) [13]
حفاظ حدیث کا یہ تذکرۃ اکیس(21) طبقات پر مشتمل ہے۔ اس میں کل 1176 حفاظ کے حالات درج ہیں۔ پہلے طبقہ کا آغاز حضرت ابو بکر صدیق سے ہوتا ہے اور آخری طبقہ میں علامہ ابن تیمیہاور حافظ مزی وغیرھم کا ذکر ہے۔ آخر میں امام صاحبنے اپنے چھتیس (36) شیوخ کے مختصر حالات بیان کیے ہیں جن سے موصوف نے فنِ حدیث و رجال کی تعلیم حاصل کی۔
جائزہ و مطالعہ:
حدیث و سنت کی جمع و تدوین کے سلسلے میں امت مسلمہ نے جو علوم ایجاد کیے ہیں ان میں ایک نہایت عظیم الشان علم رجال و اسایند کا ہے۔ اس علم کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول ؐ کی احادیث و سنن کا ذخیرہ محفوظ کر لیا ہے۔ چنانچہ آج یا ادوار گزشتہ میں کسی بھی ملحدو بے دین کیلئے یہ ممکن نہیں ہوا کہ وہ رسول پاک ؐ کی طرف کوئی بات غلط طور پر منسوب کر سکے اس لیے کہ رسول ؐ کے ہر ارشاد اور آپ ؐ کے ہر عمل مبارک کے ساتھ صحابہؓ و تابعینؒ اور تبع تابعینؒ وغیرہم کا ایک سلسلہ رواۃ ہوتا ہے جس کی تحقیق کر کے بآسانی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ارشاد حقیقتاً آپ ؐ کا ہے یا نہیں۔ اسی سلسلہ رواۃ کی جانچ پڑتال کا نام علم رجال و اسایند ہے۔[14]امام ذہبیؒ اپنے عہد کے نہ صرف محدث و مورخ تھے بلکہ فنِ رجال میں تو کوئی دوسری شخصیت آپ کے پایہئ کی موجود نہ تھی۔ امام صاحب تعلیمی خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ تصنیف میں بھی مصروف رہے اور سو کے لگ بھگ بلند پایہ تصانیف سپرد قلم و قرطاس کیں۔ آپ کی بیشتر تصانیف کا موضوع تاریخ اور فنِ رجال ہے۔ انہیں کتب میں سے ایک تذکرۃ الحفاظ ہے۔[15]حفاظ حدیث کا یہ تذکرہ اکیس (21) طبقات پر مشتمل ہے۔ اس میں کل 1176 حفاظ کے حالات درج ہیں۔ پہلے طبقہ کا آغاز حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے ہوتا ہے اور آخری طبقہ میں علامہ ابن تیمیہؒ اور حافظ مزیؒ وغیرہم کا ذکر ہے۔ آخر میں امام صاحبؒ نے اپنے چھتیس(36) شیوخ کے مختصر حالات بیان کیے ہیں جن سے موصوف نے فنِ حدیث ورجال کی تعلیم حاصل کی تھی۔[16]تراجمِ حفاظ میں امام صاحبؒ نے جن امور کا اہتمام کیا ہے، ان میں سے
اوّلاً : ہر حافظِ حدیث کے نام و نسب اور تاریخ پیدائش کا بیان ہے۔
ثانیاً : اس کے ان اساتذہ و شیوخ کا ذکر کہ جن سے اس نے استفادہ کیا ہے۔
ثالثاً : اس سے جن طلبہ و تلامذہ نے علم حاصل کیا، ان کی مختصر تفصیل۔
رابعاً: اس کے اخلاق و عادات، اس کا علم و فضل اور اس کی ثقاہت وغیرہ کے بارے میں معاصرین کی آراء درج کی ہیں۔
خامساً: اس کی تاریخ و فات اور اس سال جن مشہور محدثین یا شخصیات نے انتقال کیا، ان کا ذکر ہےاورآخر میں امام کواسکے واسطہ سےجو حدیث ملی،اس حدیث کامتن دیکر ترجمہ کر دیتے ہیں۔[17]ترجمہ اور اس کی خصوصیات:
1:تذکرۃ الحفاظ کا ایک نظر ثانی اور تصحیح و تنقیح سے مزین ایڈیشن جن کی طباعت کا اہتمام داراحیاء التراث العربی، بیروت نے شائع کیا، زیرِ نظر اردو ترجمہ کی بنیاد ہے۔
2: دورانِ ترجمہ جن مصطلحات علم حدیث، مثلاً: صحیح حدیث، مرفوع، مرسل، ضعیف، موضوع، عالی و نازل سند، عوالی ابنِ عینیہ، رباعیات التابعین، ثمانیات، الفوائد، معاملیات، امالی، مسند، مفید، مقریٰ، متقن، حافظ، حجت اور حاکم وغیرہ سے قارئین کو سابقہ پیش آئے گا۔ اس کی وضاحت بھی کر دی گئی ہے۔
3: تراجم و طبقات کی وضاحت کیلئے کتاب میں نمبر لگائے گئے ہیں نیز اس اَمر کی وضاحت کیلئے کہ کس کی روایت کو محدثین صحاح ستہ میں سے کس نے لیا ہے۔ بعض اشارات درج کیے گئے ہیں۔ مثلاً (164،5/11ص) کا مطلب یہ ہے کہ اس ترجمہ کا مسلسل نمبر ١٦٤ ہے اور پانچویں طبقہ کا یہ گیارہواں ترجمہ ہے اور اس محدث کی روایت جمیع اصحاب ستہ نے قبول کی ہے۔ یا مثلاً (4/133، م 38) کا مطلب یہ ہے کہ اس ترجمہ کا مسلسل نمبر 133ہے اور یہ چوتھے طبقہ کا اڑتیسواں ترجمہ ہے اور اس محدث کی روایت سنن اربعہ کے مؤلفین اور امام مسلمؒ نے اپنی کتب حدیث میں لی ہے۔ صحاح ستہ کیلئے تذکرۃ الحفاظ کے زیرِ نظر ترجمہ میں حسب ذیل اشارات استعمال کیے گئے ہیں:
١- صحیح البخاری خ 2- صحیح مسلم م 3- سنن ابی داؤد د
4- سنن النسائی ن 5- سنن الترمذی ت 6- سنن ابن ماجہ جہ
7- چاروں سنن کیلئے 4 8- صحیحین اور سنن کے چھ مجموعوں کیلئے ع
4: زیرِ نظر ترجمہ میں حفاظِ حدیث کے اسماء پر اعراب لگائے گئے ہیں اور یہ کام مولانا ارشاد الحق اثری نے انجام دیا ہے۔[18]
5: ترجمہ پر نظر ثانی اور اُردو عبارت کی تہذیب و تزہین ناشر (منیر احمد السلفی) نے کی ہے۔ مختصر یہ کہ محدثین کرام کے حالات پر مشتمل یہ جلیل القدر کتاب اردو دان حضرات کیلئے انتہائی مفید ہے۔ اور علم حدیث کا کوئی بھی طالبِ علم احوال الرجال میں اس سے مستغنی نہیں ہوسکتا۔
- حدیث رسول ﷺ کا تشریعی مقام(صفحات 688) [19]
بزبان عربی”السنة ومکانتهافی التشریع الاسلامی“لکھی گئی کتاب کااردوترجمہ ہے۔
کتاب مذکور کے ص 158تا 211 اور ص 603 و ما بعد پر اصول حدیث کے موضوعات پر بڑی تفصیلی اور علمی بحث کی ہے۔
- تفہیم الراوی شرح اردو تقریب النووی(صفحات 450) [20]
کتاب ہذا اصول حدیث پر مشہور کتاب ”تقریب النووی“ کا ترجمہ اور تشریح ہے۔ کتاب میں اصطلاحات حدیث کی مکمل و آسان توضیح، حدیث کی تعریف اور وجہ تسمیہ، احادیث کی تشریح میں فقہاء اصولیین اور محدثین کے مذاہب کا تذکرہ، زیر بحث مسئلہ کی دلنشین تشریح کر کے درس و تدریس کے لیے نہایت کار آمد بنا دیا گیا ہے۔
- المدخل فی اصول الحدیث (صفحات 134) [21]
کتاب ہذا حاکم نیشا پوری کی ”الاکلیل فی الحدیث“ کا مقدمہ ہے۔ فن حدیث و اصول حدیث میں لاریب معلّمین و متعلمین کے لیے جادہ مستقیم و مشعل راہ ہے۔
- علوم الحدیث (صفحات ۔۔۔)[22]
اصطلاحات حدیث میں یہ مختصر کتاب مصر کے عالم دین محمد علی قطب کی تصنیف ہے جس کا اردو ترجمہ مولانا عمر فاروق سعیدی نے کیا اور اسے مکتبہ قدوسیہ لاہور نے 1997ء میں شائع کیا ہے۔
- فن غریب الحدیث کا آغاز و ارتقاء (صفحات 186) [23]
”غریب الحدیث“اس علم کا مقصد یہ ہے کہ حدیث کے مشکل اور ناما نوس الفاظ و اسالیب کی تشریح کی جائے۔ ابو عبید القاسم بن سلام اور ابن قتیبہ کی کتابوں کا تتمہ، تیسری صدی ہجری کے اواخر میں لکھی گئی یہ کتاب اپنی چند در چند خوبیوں کی بنا پر متعدد علمائے لغت کے نزدیک مشرق و مغرب میں اس موضوع پر لکھی گئی ساری کتابوں پر فوقیت رکھتی ہے۔
- الرسالۃ المستطرفۃ (صفحات 304)[24]
اس کتاب میں چھ سو سے زائد علماء محدثین، ان کی تالیف کردہ چودہ سو کتب حدیث اور ان کے باہمی مراتب کا تعارف کرایا گیا ہے۔
- الرسالۃ المستطرفۃ (صفحات 208)[25]
کتاب کاموضوع اورمواد نام ہی سے ظاہر ہے یعنی ایسی کتاب جس میں حدیث کی مشہور کتابوں کا تعارف ہے۔ یہ تالیف حدیث اور علوم حدیث کی چودہ سو کتابوں کے تذکرے اور چھ سو کے قریب مشہور محدثین کے تراجم اور تعارف پر مشتمل ہے۔
شروح نخبة الفکر و شروحها نزهة النظر کا جائزہ:
نخبۃ الفکر و شرحھا نزہۃ النظر،مؤلّف: ابن حجر العسقلانیؒ (م 852ھ)[26]یہ کتاب مصر اور پاک وہند سے متعدد بار چھپ چکی ہے۔ حافظ ابن حجرؒ سے پہلے اصولِ حدیث کی کتابوں پر ابن الصلاح کے افکار و انداز کی گہری چھاپ نظر آتی ہے، اور اسی کتاب کو نظم کیا جاتا رہا اور اسی کی تشریح وتعبیر کےمظاہر دکھائی دیتے ہیں،ابن حجرؒ کی تصنیف کے بعد کا دور شرح نخبۃ الفکر کا دور کہا جا سکتاہے، یہ کتاب اہل علم کےدرمیان بڑی مقبول اور داخل نصاب ہوئی، علماء نے اسکی شر حیں اور حواشی لکھے۔ اس کتاب کی تصنیف اور اس کی حیثیت کے بارے میں خود ابن حجر رقمطراز ہیں:
مجھ سے میرے بعض احباب نے خواہش ظاہر کی کہ تم بھی اس فن کے اہم مطالب کا خلاصہ کرنے کی خدمت قبول کرو چنانچہ میں نے بھی بایں خیال (کہ میرا نام بھی ان خدام کی فہرست میں درج ہو) چند اوراق میں ایک نادر ترتیب پر اس کا خلاصہ کر دیا۔ اور کچھ اور اس کے امور کے ساتھ اضافہ کر کے نخبۃ الفکر فی مصطلح اہل الاثر اس کا نام رکھا۔پھر بایں خیال (کہ صاحب خانہ گھر کے معاملات سے زیادہ واقف ہوتا ہے) دوبارہ مجھ سے خواہش کی گئی کہ اس کی ایک شرح بھی تم ہی لکھو جس سے اس کے اشارات اور مخفی مطالب واضح ہو جائیں۔ چنانچہ شرح کا بار بھی میں نے ہی اٹھا لیا۔ اس شرح میں دو امور کا لحاظ رکھا گیا ہے:
اولاً: توضیح مطالب، توجیہہ عبارت اور اظہار اشارات کی کوشش کی گئی ہے۔
ثانیاً: شرح کو متن کے ساتھ اس طرح پیوست کر دیا کہ دونوں مل کر ایک ہی بسیط کتاب سمجھی جاتی ہے۔[27]
نخبۃ الفکر کی اہل علم حضرات نے مختلف وجوہ سے خدمت کی۔ کسی نے اس کا حاشیہ لکھا تو بعض نے اس کی شرح۔ ذیل میں ہم (راقم الحروف) چند (عربی)شروح کا ذکر کرتے ہیں:
1: شرح النخبۃ کے مولف الشمنی (872ھ)[28]ہیں۔ اس مخطوطہ کا ایک نسخہ مکتبہ اوقاف (رقم 379) بغداد میں موجود ہے۔ ان کے بیٹے احمد نے اس کی شرح لکھی اور اس کا نام العالی الرتبۃ فی شرح نظم النخبۃ رکھا۔
2: حاشیۃ علی نزہۃ النظر کے مولف ابن قطلوبغا (م 879ھ)[29]ہیں۔ اس مخطوطہ کا ایک نسخہ مکتبہ اوقاف (مجموع رقم 878) بغداد میں موجود ہے۔
3: مصطلحات اہل الاثر شرح النخبۃ۔ملا علی القاری (م 1014ھ)[30]۔ یہ کتاب استنبول سے چھپ چکی ہے۔ اہل علم کے ہاں مقبول اور مفید تصور کی جاتی رہی ہے۔
4: الیواقیت والدرر کے مولف المناوی (م 1031ھ) [31] ہیں۔ یہ بھی نخبۃ الفکر کی شرح ہے۔ مخطوطہ کا ایک نسخہ دار الکتب المصریۃ (رقم6663)قاہرہ میں موجود ہے۔
5: قضاء الوطر فی شرح نخبۃ الفکر کے مولف ابراہیم بن ابراہیم اللقانی (م 1041ھ)[32]ہیں۔ مخطوطہ کا ایک نسخہ دارالکتب المصریۃ (رقم 6148) قاہرہ میں ہے۔
6: شرح نخبۃ الفکر۔ امام سندھیؒ (م 1138ھ)[33]نخبۃ الفکر و شرحھا نزہۃ النظر فن اصول حدیث میں علامہ ابن حجر عسقلانی (852ھ) کی وہ بینظیر تالیف ہے جس میں محدثین کی اصطلاحات حدیث کو نہایت اختصار اور جامعیت کے ساتھ یکجا کیا گیا اور گویا دریا کو کوزہ میں بند فرما دیا ہے۔ مقبولیت عامہ کے سبب یہ کتاب مدت سے نصاب نظامی میں داخل ہے اور جملہ مدارس عربیہ اسلامیہ میں پڑھائی جاتی ہے۔ اس کے متعدد اردو تراجم مختلف ناموں سے منظر عام پر آچکے ہیں جو عربی سے کیے گئے ہیں۔ ذیل میں ان تراجم کا تعارفی و تجزیاتی مطالعہ پیش کیا جاتا ہے۔
- حسن النظر فی شرح نخبۃ الفکر (صفحات 32) [34]
تحقیقی جائزہ
آغاز کلام:(دیباچہ کتاب)، تعریف اصول حدیث، خبر اور حدیث میں فرق، حدیث متواتر، حدیث مشہور، حدیث عزیز، حدیث غریب، حدیث احاد، اخبار احاد کا فائدہ، قرائن کا بیان۔خبر مقبول کی پہلی تقسیم:
صحیح لذاتہ، تفاوت مراتب صحیح، صحیحین کی احادیث میں فرق، بخاری اور مسلم کی احادیث کا تفاوت، مراتب کتب احادیث، حسن لذاتہٖ، صحیح لغیرہٖ، حسن صحیح کا مطلب، زیادت ثقہ کا حکم، شاذ ومحفوظ، منکر و موقوف، متابع، شاید، اعتبار، حسن لغیرہٖ۔
خبر مقبول کی دوسری تقسیم:
محکم، مختلف الحدیث، ناسخ و منسوخ، متوقف فیہ، خبر مردود کا بیان، معلق، تعدیلِ مبہم، مرسل، معضل، منقطع اور مدلس، مدلس اور مرسل خفی میں فرق۔
بیان خبر مردود بلحاظ طعن راوی:
موضوع، موضوع کی معرفت کے طریقے، متروک، منکر، معلل، مدرج الاسناد، مدرج المتن، مقلوب، المزید فی متصل الاسایند، مضطرب، محرف و مصحف، روایت بالمعنی، مجہول راوی، مبہم راوی، الواحدان، مبتدع، بدحافظہ راوی۔
تقسیم خبر بحیثیت اسناد:
بحث اسناد، حدیث مرفوع، موقوف، مقطوع، تتمہ، صحابی کی تعریف، تابعی، مخضرم، بیان اسناد، اسناد عالی، اسناد نازل، موافقت، بدل، مساوات، مصافحہ، بیان روایت: مدبج اور روایۃ الاقران، روایۃ الاکابر عن الاصاغر، روایت لاحق و سابق، دو شیخوں کا ہمنام ہونا، شیخ کا انکار کرنا، حدیث مسلسل۔
الفاظ ادائے حدیث:
سمعت و حدثنی، اخبرنی، قرأت علی الشیخ، اجازت بالمکاتبۃ و بالمشافہۃ، وجادہ، اعلام، اجازتِ مجہول۔
راویوں کا بیان:
متفق و مفترق، موتلف و مختلف، متشابہ، وہ اسماء جو تعداد حروف میں برابر ہیں۔ وہ اسماء جو تعداد حروف میں برابر نہیں۔ تقدیم و تاخیر سے اشتباہ ہونا۔
خاتمہ: فن حدیث کی اہم باتیں، راویوں کے طبقات کا علم، معرفت طبقات روات کا فائدہ، معرفت ولادت و وفات و وطن، معرفت تعدیل و جرح، مراتبِ تعدیل، تزکیہ، جرح وتعدیل، جرح، تعدیل پر کب مقدم ہوتی ہے،فصل، متعدد یا متشابہ کنیتیں، معرفت کنیت واسمائ، اسمائے مجردہ، اسمائے مفردہ، مجردالقاب والنساب، موالی کی معرفت، آداب شیخ و راوی، حصول حدیث کی قابلیت، کتابت حدیث کا طریقہ، تقابل حدیث کا طریق، اخذ حدیث کیلئے سفر، تصنیف حدیث کا طریق اور سبب حدیث کا علم وغیرہ مضامین پر مشتمل ہے۔
- سلعۃ القربہ اردو شرح نخبۃ الفکر (صفحات 111) [35]
اصول حدیث کی جامع مگر مختصر مشہور و مقبول کتاب ”نزہۃ النظر“ کی عام فہم توضیح۔ قواعد و اصطلاحات کو نہایت آسان کر کے پیش کیا گیا ہے۔
- تحفۃ الدرر شرح نخبۃ الفکر (صفحات 88)[36]
امام ابو الفضل حافظ ابن حجر احمد بن علی عسقلانی کی بے نظیر تالیف ”نزہۃ النظر “ فن اصول حدیث کا شاہکار ہے اوراس کے متن متین ”نخبۃ الفکر“ کو فن میں ریڑھ کی ہڈی کا مقام حاصل ہے۔یہ”تحفۃ“اسی”نخبۃ“کی شرح ہے نزہۃ کی شرح نہیں ہے۔ کتاب ہذا میں محدثین کی اصطلاحات حدیث کو نہایت اختصار اور جامعیت کے ساتھ یکجا کیا گیا اور گویا دریا کو کوزہ میں بند فرما دیا ہے۔
- بھجۃ الدرر شرح اردو نزہۃ النظر علی نخبۃ الفکر (صفحات 242) [37]
اصول حدیث پر نہایت مشہور، جامع، دقیق و غامض کتاب کی شرح ہے۔ مقصد عبارت و مفہوم کو واضح کیا گیا ہے۔ تشریح میں اختصار مخل طول فاحش سے گریز کیا گیا ہے۔
- شرح نخبۃ الفکر فی مصطلح اہل الاثر (صفحات 256) [38]
زیرِ نظر کتاب شرح نخبۃ الفکر کا اردو ترجمہ جو مولانا محمد منظور الوجیدی کا کیا ہوا ہے اورسابقہ ذکر کردہ تراجم سے بہت بہتر ہے۔ مولانا نے رواں اور سلیس اردو زبان میں ترجمہ کر کے حاشیہ میں تعلیقات کو لکھا ہے جو قاری کے لیے مزید توضیح و تفہیم کا ذریعہ ہیں۔
- عمدۃ النظر اردو شرح شرح نخبۃ الفکر (صفحات 272) [39]
اردو زبان میں شرح نخبۃ الفکر کی جدید اور پہلی تفصیلی شرح ہے جس میں تمام مباحث کو آسان انداز میں حل کیا گیا ہے۔
- توضیح نزہۃ النظر شرح نخبۃ الفکر (صفحات 128) [40]
زیر نظر حاشیہ میں ممکنہ حد تک تمام مصطلحات اور مشکل الفاظ کی توضیح کی گئی ہے۔ ”نزہۃ النظر“ کا یہ حاشیہ طالب علم کو دیگر حواشی سے مستغنی کر دے گا۔
- زبدۃ الفکر شرح نخبۃ الفکر (صفحات 110) [41]
حدیث کی اقسام باعتبار قوت و ضعف، ان کے درجات اور محدثین کرام کے درمیان استعمال کی جانے والی اصطلاحات کے سمجھنے اور ان میں مہارت و واقفیت حاصل کرنے کے لیے طلباءکو ایک ایسی ہی شرح کی تلاش تھی۔ علامہ موصوف کی تالیف کردہ شرح نخبۃ الفکر اپنے حسن ترتیب اور آسان ترجمہ کے سبب یقیناً مدارس اسلامیہ کے لیے مفید ہو گی۔
- استجلاء البصر من شرح نخبۃ الفکر (صفحات 263) [42]
یہ شرح نخبۃ الفکر کا ترجمہ(مع) اردو شرح ہے جو مولانا عبدالعزیز عثمانی ہزاروی کی تصنیف ہے۔ مولانا عبدالعزیز بن عبدالسلام عثمانی ہزاروی 1280ھ/1864ء کو گڑھی حبیب اللہ خان، تحصیل مانسہرہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے وطن مالوف سے حاصل کرنے کے بعد آپ دہلی چلے گئے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ آپ کے ممتاز اساتذہ میں مولانا محمود عثمانی، مولانا قاضی محمد، قاضی عبدالاحد خانپوری ہزاروی اور مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی ہیں۔[43]مختلف علماء سے تحصیل علم کے بعد حدیث کی سند سید نذیر حسین محدث دہلوی سے 1309ھ/1894ء میں حاصل کی اور تدریس و تصنیف کے بعد 1354ھ/1935ء میں ضلع ہزارہ میں ہی انتقال کیا۔[44]یہ شرح (استجلاء البصر من شرح نخبۃ الفکر، اردو) 6/شعبان 1322ھ/1905ء کو مکمل ہوئی اور مطبع مفید عام لاہور سے شائع ہوئی جو بڑے سائز کے 263 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ شرح نخبۃ الفکر کا نہایت عمدہ ترجمہ ہے جو مولوی عبدالعزیز نے کیا۔[45]
- نصیر الاصول فی حدیث الرسول ﷺ(صفحات 24)[46]
مؤلّف:قاضی محمد نصیر الدین [47]/ناشر:ایجوکیشنل پریس ڈپو پرانی تحصیل، لاہور/سن اشاعت:درج نہیں ہے/صفحات:24
وجہ ٔ تالیف:
نزھۃ النظر شرح نخبۃ الفکر تقریباً تمام جامعات کے نصاب میں شامل ہے کیونکہ یہ خالصتاً عربی میں ہے، اس لیے مؤلّف نے حدیث کے طلبہ کی سہولت کے پیش نظر اردو میں اسے ابتدائی معلومات کیلئے مرتب کیااس کتابچہ میں مؤلف نے اصول حدیث کےمسائل کومختصراً بیان کیا ہے[48]
تنقیدی جائزہ:
مؤلّف نے اگرچہ اصول حدیث کے مسائل کو مختصراً بیان کیا ہے پھر بھی یہ ان لوگوں کیلئے اچھی کوشش ہے، جو اصول حدیث سے بالکل ناواقف ہیں۔ مؤلّف نے تقریباً تمام اصطلاحات حدیث کو نہایت مختصراً بیان کیا ہے۔ زبان نہایت سادہ، عام فہم اور سلیس ہے۔ پیچیدہ الفاظ استعمال نہیں کیے۔ تمام اصطلاحات حدیث کی تعریف مختصراً بیان کی ہے جو عام قاری کیلئے تو مفید ہے لیکن اصول حدیث کے طلبہ کیلئے ناکافی ہے۔مختصر جملوں میں بات کی گئی ہے۔ جس سے عام قاری کو پڑھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی۔ اس کتابچہ میں حوالے نہیں دئیے گئے اور نہ ہی مثالوں سے وضاحت کی گئی ہے۔اس لیے یہ کتاب جدید تقاصوں کے معیارپر پورا نہیں اترتی۔[49]
- خلاصہ شرح نخبۃ الفکر (صفحات 80) [50]
شرح نخبۃ الفکر کا خلاصہ آسان لفظوں میں جاننے اور آداب شیخ و طالب حدیث کو یاد رکھنے اور انواع حدیث صحیح و ضعیف میں فرق کرنے کے لیے کتاب ہذا اپنی مثال آپ ہے۔
- قطرات العطر شرح اردو شرح نخبۃ الفکر (صفحات 436) [51]
قطرات العطر شرح شرح نخبۃ الفکر بہت سی خصوصیات کی حامل ہے۔ شرح میں چند
مباحث خاص طور پر قابل ذکر ہیں:
1:مرسل کی بحث2:متواتر کی بحث3: تلقی بالقبول کا دلیل صحت ہونا
4:فضائل میں حدیث ضعیف کا مقبول ہونا5:تقسیم سباعی پر جرح و نقد6:اسماءالرجال پر تصنیف شدہ کتب کا تعارف7:فن غریب الحدیث پرتصنیف شدہ کتب کاتعارف۔
ان مباحث کا خاص توجہ کیساتھ مطالعہ کیا جائےتو ان امور میں عمدۃ صلاحیت پیدا ہو سکتی ہے۔
تیسیر مصطلح الحدیث کی اردو شروح کا تحقیقی جائزہ ومطالعہ
تیسیر مصطلح الحدیث:مؤلّف:ڈاکٹر محمود الطحان [52]
اصطلاحات حدیث پر شائع ہونے والی ایک جدید کتاب تیسیر مصطلح الحدیث ہے۔ جس کے مصنف استاذ محترم محمود احمد الطحان ہیں، پاکستان میں خوب رواج پایا اور اکثر مدارس کے نصاب میں شامل ہے، جس کی وجہ غالباًاس کتاب کی عمدہ ترتیب و تدوین اور جامعیت ہے [53]یہ کتاب عصر حاضر کی اصول حدیث میں مقبول عام حاصل کرنے والی کتابوں میں سرفہرست ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے اپنے اساتذہ کرام کے توضیحی نوٹس سے استفادہ کرتے ہوئے قدیم کتابوں کو سامنے رکھ کر سلیس عربی زبان میں اصطلاحات حدیث کو بیان کیا ہے جو طلبہ کیلئے آسان بھی ہے اور عام فہم بھی، یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کو عرب و عجم دونوں میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔[54]اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے ان متاخرین مسلمان علماء کو جنہوں نے سنت کی روایت کے قوانین اور اس کے ضوابط کو سلف صالحین سے حاصل کیا اور انہیں مہذب اور مرتب شکل میں مستقل تصانیف میں جمع کر دیا اور بعد میں یہی علم علم مصطلح الحدیث کے نام سے مشہور ہوا۔[55]مولف کتاب کی وجہ تالیف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:چند سال پہلے جب مجھے مدینہ منورہ میں جامعہ اسلامیہ کے کلیۃ الشریعۃ میں علم مصطلح الحدیث کی تدریس سوپنی گئی اور اس کے کیلئے ابن الصلاح کی کتاب علوم الحدیث مقرر ہوئی۔ پھر اس کے بجائے امام نوویؒ کی کتاب التقریب جو کہ ابن الصلاح رحمتہ اللہ علیہ کی علوم الحدیث کا اختصار ہے، مقرر ہوئی تو میں نے ان دونوں کتابوں میں طلباء کیلئے چند دروس مشکل پائے لیکن باوجود اس کے مذکورہ دونوں کتابوں کی بڑی شان و عظمت ہے اور ان میں بہت زیاد فوائد ہیں۔ بشرطیکہ انہیں منظم ترتیب کے ساتھ پڑھا جائے۔ ان مشکلات میں کچھ نمونے یہ ہیں:
1: بعض بحثوں میں طوالت خاص طور پر ابن الصلاح کی کتاب میں۔
2: کچھ بحثوں میں اختصار خاص طور پر امام نوویؒ کی کتاب میں۔
3: عبارات کا مشکل ہونا۔
4: بعض بحثوں میں تکمیل کا فقدان ہے، جیسے تعریف چھوڑ دینا یا مثال سے غفلت برتنا یا کسی بحث میں اس کے فوائد کا ذکر نہ کرنا یا مشہور تصانیف کے درج کرنے کی طرف توجہ نہ کرنا وغیرہ۔ میں (دکتور محمود الطحان) نے ان کے علاوہ متقدمین کی دوسری کتب کو بھی ایسے ہی پایا ہے، بلکہ ان میں سے بعض کتب میں تو تمام علوم حدیث شامل ہی نہیں ہیں اور بعض غیر مرتب ہیں۔۔۔۔۔۔ اس بنا پر میں نے خیال کیا کہ کلیۃ الشریعۃ کے طلباء کے لیے مصطلح الحدیث اور اس کے علوم پر مشتمل آسان کتاب لکھوں، تاکہ اس فن کے قواعد اور اس کی اصطلاحات کو سمجھنا ان پر آسان ہو جائے، وہ اس طرح کہ ہر بحث کو سلسلہ وار منقش و مرقوم جملوں میں تقسیم کیا جائے۔ سب سے پہلے اس کی تعریف ہو، پھر مثال اور پھر اس کی اقسام بیان ہوں، علی ہذا القیاس۔ آخر میں اس بارے میں مشہور تصانیف پر گفتگو کی جائے۔ اس کی عبارت آسان ہو اور ایسا واضح علمی اسلوب ہو جس میں کوئی دشواری یا تعمق نہ ہو۔۔۔۔۔۔ میں نے اس کا نام تیسیر مصطلح الحدیث رکھا ہے۔[56]پھر لکھتے ہیں:میں (دکتور محمود الطحان) یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کتاب اس فن پر موجود متقدمین علماء کی کتب سے مستغنی کر دے گی بلکہ میرا مقصد تو یہ ہے کہ یہ ان کی چابی اور کلید بن جائے اور ان میں موجود مواد کیلئے ایک مذاکرہ بن جائے اور ان کے معانی کو سمجھنے کا ذریعہ ہو اور متقدمین علماء کی کتب اس فن میں علماء کیلئے مراجع ثابت ہوں اور ایسا فیاض چشمہ ثابت ہوں جس سے وہ خوب سیراب ہو سکے۔[57]اس کتاب میں جدت یہ ہے کہ :
1: تقسیم:ہر بحث کو نمبروار الگ الگ پیراؤں میں بیان کیا ہے۔ اس سے طالب علم کو موضوع کے سمجھنے میں آسانی رہے گی۔[58]
2: تکمیل: ہر بحث کو عمومی اعتبار سے مکمل کرنے کی کوشش کی ہے کہ ابتداء میں تعریف اور مثال ہو پھر دیگر متعلقات کا بیان ہو۔
3: احاطہ:مختصر طور پر اصطلاحات حدیث کی تمام جوانب کا احاطہ کرنے کی سعی بلیغ کی ہے۔ اس کتاب کی تبویب اور ترتیب میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ علیہ کی تالیف نخبۃ الفکر کا تتبع کیا گیا ہے کیونکہ ان کی ترتیب نہایت ہی شاندار ہے اور اس کے علمی لازمہ کیلئے میں نے زیادہ تر علوم الحدیث (ابن الصلاحؒ)، اس کے اختصار التقریب (نوویؒ) اور اس کی شرح تدریب الراوی (للسیوطیؒ) پر اعتماد کیا ہے۔[59]
اس کتاب میں مقدمہ کے علاوہ چار ابواب ہیں۔ جن کی تفصیل درج ذیل ہے: مقدمہ میں مولف نے علم اصطلاحات حدیث کا تاریخی پس منظر اور اس کے ارتقائی مراحل، اس فن کی مشہور تصنیفات اور علم مصطلح الحدیث کی ابتدائی ضروری تعریفات بیان کیں ۔
باب اوّل: خبر کے متعلق ہے اور اس میں چار فصلیں ہیں۔ جن میں خبر کی اقسام، ہم تک پہنچنے کے اعتبار سے خبر مقبول، خبر مردود اور وہ خبر جو مقبول و مردود دونوں میں مشترک ہو، پر مشتمل ہے۔باب دوم: مقبول راوی کی صفات اور اس سے متعلق جرح و تعدیل کے مباحث پر مشتمل ہے۔ اس باب میں تین ابحاث ہیں۔ بحث اوّل، راوی اور اس کے شروط قبولیت، بحث دوم، کتب جرح و
تعدیل کا سرسری جائزہ اور بحث سوم میں مراتب جرح و تعدیل کی وضاحت کی گئی ہے۔
باب سوم: آداب روایت حدیث اور کیفیت ضبط کے متعلق ہے اس میں دو فصلیں ہیں۔
فصل اوّل: ضبط روایت، روایت کی کیفیت اور اس کے حاصل کے طریقے اورفصل ثانی میں آداب
روایت کو بیان کیا گیا ہے، فصل اوّل مزید چار ابحاث پر مشتمل ہے جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:
بحث اوّل: حدیث کے سماع، اس کے حصول اور اس کے ضبط سے متعلق چند بنیادی امور۔
بحث دوم: حصول حدیث کے مختلف طریقے اور ادائیگی کے الفاظ۔
بحث سوم: کتابت حدیث اور اس کا ضبط اور تصنیف
بحث چہارم: روایت حدیث کے مختلف اسالیب۔ جبکہ فصل ثانی دو ابحاث پر مشتمل ہے۔
بحث اوّل: آداب محدث اور بحث ثانی میں آداب طالب علم حدیث کی وضاحت کی گئی ہے۔
باب چہارم: سند اور اس کے متعلقات پر مبنی ہے، اس میں دو فصلیں ہیں۔
فصل اوّل: لطائف و نکات اسناد جبکہ فصل دوم میں معرفت رواۃ کی تفصیلی بحثیں ہیں۔
فصل اوّل: لطائف و نکات اسناد:
(1)سند عالی و نازل (2)سند مسلسل (3)روایت اکابر از اصاغر (4)روایات آباء از ابنائ
(5)روایت ابناء از آباء (6)مدبج روایات اور روایات اقران (7)السابق واللاحق
فصل دوم: رواۃ کا اجمالی تعارف:
(1)صحابہ کرامؓ (2)تابعین عظام (3)الاخوۃ والاخوات (بھائی اور بہنیں) (4)المتفق و المفترق (5)الموتلف و المختلف (6)المتشابہ (7)المہمل (8)معرفۃ المبہمات (9)معرفۃ الوحدان (10)معرفۃ من ذکر باسما اور صفات مختلفہ (مختلف اسماء و صفات کےحامل راوی) (11)معرفۃ المفردات من الاسماء و الکنی و الالقاب (منفرد اسماء کنی اور القاب کے حامل راوی) (12)معرفۃ اسماء من اشتھر وابکناھم (کنیتوں سے معروف راویوں کے اسمائ) (13)معرفۃ الالقاب (14)معرفۃ المنسوبین الی غیر اباء ھم (غیر آباء کی طرف منسوب راوی) (15)معرفۃ انسب التی علی غیر ظاہرھا (نسبتیں جو حقیقت کے برعکس ہیں) (16)معرفۃ تواریخ الرواۃ (راویوں کی تاریخ) (17)معرفۃ من خلط من الثقات (وہ ثقہ محدثین جنہیں اختلاط کا عارضہ لاحق ہوا) (18)معرفۃ طبقات العلماء والرواۃ (محدثین و رواۃ کے طبقات) (19)معرفۃ الموالی من الرواۃ و العلماء (وہ رواۃ جو موالی ہوئے) (20)معرفۃ الثقات و الضعفاء من الرواۃ (ثقہ اور ضعیف راوی) (21)اور معرفۃ اوطان الرواۃ و بلدانھم (راویوں کے اوطان و بلاد)[60]جیسے مضامین پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ مختصر یہ کہ تیسیر مصطلح الحدیث للشیخ محمود الطحان کی نفیس ترین کتاب ہے۔ دکتور صاحب نے نہایت حسن ترتیب، اعلیٰ تنسیق اور بہترین انداز، جامع مواد میں عمدہ تحریر فرمایا ہے اور مصطلح الحدیث کو نہایت آسان کر کے پیش کیا ہے۔[61]ضرورت تھی کہ یہ مفید کتاب عربی کے علاوہ دیگر اسلامی زبانوں میں بھی ترجمہ ہو کر نفع عام کا وسیلہ بنے۔ اردو زبان جاننے والوں کے لیے اصطلاحات حدیث کے نام سے اس کے کئی تراجم سامنے آچکے ہیں۔ تراجم کی ترتیب و تفصیل درج ذیل ہے:
اصطلاحات حدیث ترجمہ تیسیر مصطلح الحدیث(صفحات 263) [62]
زیر نظر کتاب دراصل عربی تالیف ”تیسیر مصطلح الحدیث“ للطحان کا اردو ترجمہ ہے۔ تیسیر دراصل اصول حدیث کی مشہور کتاب مقدمہ ابن الصلاح کا خلاصہ اور ترتیب جدید ہے۔ تمام معلومات کو چھوٹے چھوٹے اور مختصر حصوں میں تقسیم کر کے پیش کیا گیا ہے اور ہر تقسیم کے بعد اس میں تصنیف کردہ کتابوں کا ذکر بہت ہی مفید ہے۔ کتاب ہذا تیسیر کا پہلا اردو ترجمہ ہے۔
- اصطلاحات حدیث (تعریف اور تشریح) (صفحات 224) [63]
ڈاکٹر محمود طحان کی ”تیسیر مصطلح الحدیث“ کا دوسرا اردو ترجمہ ہے۔
- تیسیر اصول حدیث (صفحات 215) [64]
تیسیر مصطلح الحدیث للطحان کا تیسرا اردو ترجمہ رواں دواں اور شستہ ہے۔ گمان ہوتا ہے کہ یہ مترجم کی اپنی کاوش علمی کا نتیجہ ہے۔ بہ ظاہر کسی دوسری کتاب کا ترجمہ محسوس نہیں ہوتا۔
- تحفۃ اہل النظر فی مصطلح اہل الخبر (صفحات 320) [65]
تیسیر مصطلح الحدیث للطحان کا چوتھا اردو ترجمہ ہے۔ مصطلح الحدیث کے جملہ مباحث کا بالاختصار استیعاب کیا گیا ہے۔
- تیسیر مصطلح الحدیث (صفحات 216) [66]
تیسیر مصطلح الحدیث للطحان کا پانچواں اردوترجمہ ہے۔مترجم نےخاص طورپرایضاح ومطالب کو پیش نظر رکھاہےاورلفظی ترجمہ سے بچنے کی کوشش کی ہے۔اس کتاب کےبارےمیں مجموعی رائےقائم کرتےہوئےہم یہ کہہ سکتےہیں کہ یہ ترجمہ چند اچھےتراجم میں شمار کیےجانےکا مستحق ہے۔
- تیسیر مصطلح الحدیث للطحان (۔۔۔۔)[67]
تیسیر مصطلح الحدیث کا چھٹا اردو ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر نے کیا ہے۔ جسے مکتبہ قدوسیہ لاہور نے شائع کیا ہے۔ کتاب ہذا میں اصطلاحات حدیث کی شافی توضیح اور اس فن کے اہم مسائل پرسیر حاصل تبصرہ فرمایا گیا ہے۔
- آسان اصول حدیث ترجمہ تیسیر مصطلح الحدیث (صفحات 282) [68]
تیسیر مصطلح الحدیث للطحان کا ساتواں اردو ترجمہ ہے۔ ترجمہ تحت اللفظ کے بجائے محاوراتی اسلوب میں کیا گیا ہے، جس سے مفہوم واضح اور ذہن نشین ہو جائے۔
- اصطلاحات حدیث (صفحات 312) [69]
تیسیر مصطلح الحدیث للطحان کا آٹھواں اردو ترجمہ ہے۔ مترجم موصوف نے بے حد عرق ریزی اور جدوجہد کے بعد ترجمہ و تالیف کو علم حدیث اور اصول حدیث کی خدمت کا سہل اور مفید ذریعہ بنایا ۔
فارسی سے اردو تراجم علوم حدیث کا جائزہ و مطالعہ
برصغیر پاک و ہند میں چونکہ ایک عرصہ تک علمی زبان فارسی رہی، اس لیے بیشتر علمی، ادبی اور تالیفی کام فارسی میں ہوا اور اب صورتحال یہ ہے کہ فارسی زبان کی تالیفات اور آثار یا تو لائبریوں کی زینت ہیں اور یا نمائشی مقاصد کے لیے محفوظ کر دئیے گئے ہیں۔ ہماری اردو زبان جس میں دینیات کا بڑا ذخیرہ منتقل ہو گیا ہے اور جو اسلامی تصنیفات کے لحاظ سے عربی کے بعد مسلمانوں کی دوسری زبان کہی جاسکتی ہے۔ عرصہ ہوا اس نے فارسی کو بھی بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ ذیل میں فارسی سے اردو تراجم علوم حدیث کا طائرانہ جائزہ پیش خدمت ہے۔
- فوائد جامعہ برعجالہ نافعہ (صفحات 576) [70]
علم حدیث کی گونا گوں۔۔۔۔ نادر اور اہم معلومات، کتب حدیث کے انواع وا قسام کاتفصیلی بیان اور صدہا علمی کتابوں کا تعارف، مشاہیر فقہا محدثین اور ان کی تالیفات کا مختصر و جامع تذکرہ، عجالہ نافعہ کی مبسوط شرح جس کا ہر مقالہ نہایت جامع، مدلل، دلچسپ اور بصیرت افروز ہی نہیں بلکہ ہر صفحہ معلومات کا مرقع او رپوری کتاب گنجینۂ تحقیقات ہے۔
تحقیقی جائزہ:
شاہ عبدالعزیز ؒ نے فارسی زبان میں عجالہ نافعہ کے نام سے علوم حدیث پر ایک مختصر رسالہ لکھا تھا۔ اس کتاب میں شاہ صاحب نے مصطلحات علم حدیث کو بیان کیا ہے۔ پھر طبقات کتب حدیث کے ضمن میں تقریباً ساٹھ مصنّفین کی کتب حدیث کا تعارف پیش کیا ہے۔ تفسیر کی بعض کتابیں بھی ذکر کی ہیں کیونکہ ان کا علم حدیث سے گہر اتعلق ہے۔ پھر راویان کتب ستہ کے تحت صحاح ستہ میں وارد 125 راویوں کا تعارف کروایا ہے، اس کے بعد فقہائے محدثین کے تحت 135 محدثین کے تراجم ذکر کئے ہیں۔ گویا یہ کتاب مصطلحات علم حدیث، طبقات کتب حدیث اور تراجم رجال کے موضوع پر ایک مفید کتاب ہے۔ اس میں کچھ تو فن حدیث کے متعلق ضروری معلومات ہیں اور اس کے علاوہ ایک مختصر سا ثبت ہے، جس میں صحاح ستہ، مشکوٰۃ شریف اور حصن حصین کی اسناد بیان کی گئی ہیں۔
عجالہ نافعہ کی وجہ تسمیہ:
عجالہ نافعہ جو حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کا فارسی زبان میں ایک مختصر رسالہ در فوائد متعلقہ بعلم حدیث ہے۔ شاہ عبدالعزیزؒ نے اس رسالہ کا کوئی اور نام تجویز نہیں کیا لیکن موصوف کے انہی الفاظ ایں رسالہ السیت رائعہ و عجالہالسیت نافعہ[71] (یہ رسالہ جو علم حدیث کے فوائد پر مشتمل ہے، نہایت عجلت میں لکھا گیا ہے۔ بڑا سود مند اور نہایت دل پسند رسالہ ہے)۔ نے رسالہ مذکورہ کو عجالہ نافعہ کے نام سے زبان زد خاص و عام کر دیا ہے۔[72]
سبب تالیف:
آپ نے یہ رسالہ سید قمر الدین الحسینی [73]کے شوق و خواہش پر رقم فرمایا تھا۔ شاہ صاحب سبب تالیف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:برادر عالی، جامع فضائل و کمالات سید قمر الدین حسینی جو شرافت کی آنکھ کا نور اور باغ سیادت کا پھول ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو دین و دنیا کی سرداری عطا فرمائے اور دونوں جہاں کی سعادت نصیب کرے، انہی کا ذوق و شوق اس رسالہ کی تحریر و ترتیب کا باعث ہوا [74]حضرت شاہ صاحب رسالے کی تمہید میں لکھتے ہیں:کہ اگر مضامین ایں رسالہ راکسے نصب العین خود ساز دو در فنون حدیث خوض غاید از غلط و خطا مامون و از تصحیف و تحریف مصؤن باشد و در تصحیح و تضعیف معیاری درست بدست داشتہ باشد۔[75]کہ جو کوئی اس رسالے کے مضامین پیش نظر رکھ کر فنون حدیث میں غور وفکر کرے گا وہ انشاء اللہ تعالیٰ غلطی اور خطاء سے محفوظ اور تصحیف و تحریف سے مامون رہے گا۔ نیز صحیح اور ضعیف حدیث کے پہچانے کے واسطے اس کے ہاتھ میں ایک عمدہ کسوٹی اور بہتر معیار ہو گا جس کی بدولت وہ صحیح اور غیر صحیح کو پہچان سکے گا۔[76]اس رسالے میں دو فصلیں ہیں:
فصل اوّل: در ذکر فوائد غایات علم حدیث (علم حدیث کے فوائد) اس فصل میں طبقات کتب حدیث کا ذکر ہےاسکے بعد بعض راویوں کے ناموں کی تحقیق کی گئی ہے۔ پھر کتب حدیث کے اقسام کا بیان ہے۔
فصل دوم: در ذکر سند علم حدیث:اس میں ایک مختصر سا ثبت ہے جس میں صحاح ستہ، مشکوٰۃ المصابیح اور حصن حصین کی اسناد بیان کی گئی ہیں اور خاتمہ جو علامت وضع حدیث و کذب راوی پر مشتمل ہے۔
مترجم و شارح:
مولانا محمد عبدالحلیم چشتی، (فاضل دارالعلوم دیوبند) نے شاہ عبدالعزیز کے اس رسالے کا اردو میں ترجمہ کیا ہے اور اس میں جن اسناد اور دوسری باتوں کا ذکر ہے ان کے بارے میں مفصل فوائد لکھے ہیں۔ مولانا ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی نے پہلے تو اس فارسی متن کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ عجالہ نافعہ کا فارسی متن کل 26 صفحے کا ہے اور اردو ترجمہ 31صفحوں میں آیا ہے۔ مولانا چشتی نے اردو ترجمے کرنے کے بعد اس پر فوائد جامعہ لکھے ہیں جو زیر نظر کتاب کے صفحہ 63 سے شروع ہو کر 531پر ختم ہوتے ہیں۔ ان فوائد کی نوعیت یہ ہے کہ رسالہ عجالہ نافعہ میں مترجم نے جو بات بھی تشریح طلب پائی ہے موصوف نے ان فوائد جامعہ میں اسے بڑی تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔ مثلاً یہ رسالہ سید قمر الدین حسینی کی خواہش پر لکھا گیا۔ ایک فائدہ میں صاحب موصوف کے حالات مذکور ہیں اور ساتھ ہی کہہ دیا ہے کہ حالات کیلئے نزہۃ الخواطر ملاحظہ ہو۔[77]
رسالے کے تمہید میں شاہ صاحب نے ایک حدیث نقل فرمائی ہے:ان للّٰہ فی ایام دھر کم نفخات الافتعرضوا لھا تعرضا لنفحات اللّٰہِ۔ [78]بلاشبہ تمہارے زمانے میں اللہ تعالیٰ کی خوشبوئیں ہیں، دیکھو، اللہ تعالیٰ کی ان خوشبوؤں سے مستفید ہوتے رہو۔[79]مترجم نے فوائد میں بتایا ہے کہ اس حدیث کی کس نے تخریج کی۔[80]
اسی طرح اصل متن میں ایک جگہ یہ عبارت ہے:
ایں علم بمنزلہ صرّافی است۔[81] یہی علم ایک ایسا صرّاف ہے۔[82]
اس پر مترجم کا فائدہ یوں شروع ہوتا ہے:اسی لیے نقاد حدیث کو صیر فی الحدیث کہتے ہیں۔ امام اعمشؒ ابراہیم نخعی ؒ کو صیرفی الحدیث کہتے تھے۔[83]طبقات کتب حدیث کے ذیل میں شاہ صاحب نے قاضی عیاض کی مشارق الانوار کا ذکر کیا ہے۔ مترجم نے اس پر ایک مبسوط فائدہ لکھا ہے[84]۔
اسی طرح عجالہ نافعہ میں جو بھی اسماء و اعلام آئے ہیں، مترجم نے بڑی تفصیل سے ان کے بارے میں جملہ معلومات بہم کر دی ہیں اور ساتھ ہی مراجع کا ذکر کر دیا ہے۔ طبقات کتب حدیث کے سلسلے میں شاہ صاحب نے مثال کے طور پر چند کتابوں کے نام گنائے ہیں، جن میں کتب بیہقی اور کتب طحاوی کا بھی ذکر ہے۔[85] مترجم نے فائدہ میں حافظ البیہقی( المتوفی 458ھ )اور حافظ طحاوی (المتوفی 321ھ) کی جملہ تالیفات کے نام اور ان کے بارے میں ضروری معلومات جمع کر دی ہیں اور ساتھ ہی مراجع کا بھی ذکر ہے۔[86] مولانا چشتی صاحب نے بعض مقامات میں صرف رسالے کی شرح پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس پر کچھ ضروری اضافے بھی کیے۔ مثال کے طور پر وہ لکھتے ہیں کہ:شاہ عبدالعزیز نے فقہاء محدثین کے سلسلے میں چند ہی ناموں پر اکتفا کیا ہے ہم نے اس سلسلے میں چند ناموں کا اضافہ کر کے بڑی حد تک اس خلا کو پُر کر دیا ہے۔[87]یہ اضافہ کوئی 112 صفحات کا ہے۔
- بستان المحدثین فی تذکرۃ الکتب والمحدثین (صفحات 352) [88]
اس کتاب میں شاہ صاحب نے صحاح، سنن، موطا، مسانید، مصنفات، معاجم، اجزاء اور اربعینات اور دیگر اقسام حدیث کی تقریباً ایک سو کتابوں کا تفصیلی تعارف پیش کیا ہے۔ کتابوں کے ساتھ ان کے مصنّفین کا تذکرہ خود بخود ہو گیا ہے۔
- السعی الحثیث فی مصطلح الحدیث (صفحات 118) [89]
مؤلف موصوف نے سوال اور جواب کے انداز سے (سوالاً و جواباً) آسان اور عام فہم اصول حدیث کے قواعد لکھے ہیں۔
- رسائل اصول حدیث (عربی و فارسی) (صفحات 40) [90]
اصول حدیث کے موضوعات پر مبنی مذکورہ بالا رسائل میں خالص علمی و تحقیقی انداز اختیار کیا گیا ہے۔
علماء برصغیر کی علوم حدیث پر مستقل لکھی گئی اردو کتب کا تعارفی و تجزیاتی مطالعہ:
برصغیر پاک وہند میں علم حدیث کی خدمت کا کام تین جہتوں سے ہوا ہے۔ ایک تو وہ بنیادی کام ہے جو یہاں کے محدثین کرام نے صحاح ستہ کی شروح اور تراجم کی صورت میں کیا۔ اس کے نتیجے میں عربی اور اردو میں نہایت وقیع اور مستند کتابیں وجود میں آئیں۔دوسرا اہم کام تدوین، حجیت اور حفاظت حدیث کے حوالے سے ہوا اور اس ضمن میں اردو اور عربی میں بے شمار مختصر اور ضخیم کتابیں لکھی گئیں اور اس کی بنیادی وجہ اس خطے میں انکار حدیث کے فتنہ کا جنم لینا تھا[91] تیسرا کام اصول حدیث کے حوالے سے ہے، تاہم اس موضوع پر مستقل کتابیں بہت کم لکھی گئیں۔ اکثر مصنّفین نے تدوین حدیث کے ضمن میں اصول حدیث پر بھی خامہ فرسائی کی ہے۔ برصغیر میں حدیث شریف اور علوم حدیث سے جیسا کہ اعتناء کرنا چاہیے تھا بہت بعد میں کیا گیا ہے، شروع کے ادوار میں حدیث شریف سے دلچسپی کی جھلکیاں ضرور نظر آتی ہیں، لیکن عام حدیث کی اصل اشاعت کا سہرا شیخ محمد طاہر پٹنیؒ اور شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ کے سروں پر ہے، پھر امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی(م 1176ھ) کی کوششوں سے برصغیر میں علوم حدیث کی اشاعت اس پیمانہ پر ہوئی کہ شہروں، قصبوں اور دیہاتوں کے در ودیوار قال اللہ و قال الرسول ﷺ کی صداؤں سے گونج اٹھے، حدیث کی کتابوں کی تدریس اور حدیث کے مختلف موضوعات پر تصنیف و تالیف کا ایک عظیم سلسلہ شروع ہو گیا، عام طور سے علمی کتابوں کی تصنیف کی زبان عربی یا فارسی ہوتی تھی، چودہویں صدی میں اردو میں بھی حدیث و علوم حدیث سے متعلق کتابیں تصنیف کی گئیں اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے(اللّٰهم زرفزد) یہاں پر برصغیر پاک و ہند میں علوم حدیث کی جو خدمات ہوئیں ان کا اختصار کے ساتھ جائزہ پیش کیاجائے گا۔
(الف) علوم حدیث پر علمائے ہند کی تالیفی خدمات
- حدیث رسول ﷺ کا قرآنی معیار (صفحات 124) [92]
علم حدیث کی اہمیت و عظمت اور اقسام کا قرآن کریم سے محققانہ ثبوت، جس میں قاری صاحب نے علم اصول حدیث کے معروف قواعد و ضوابط کو اپنے مخصوص متکلمانہ انداز میں آیات قرآنیہ سے ثابت کیا ہے۔
- اصولِ حدیث عربی مع ترجمہ اردو (صفحات 46) [93]
اصطلاحات حدیث اتنی سادہ اور عام فہم ہیں کہ عام قاری جو حدیث میں مہارت نہیں رکھتاوہ بھی بآسانی سے پڑھ اور سمجھ سکتا ہے۔
- خیر الاصول فی حدیث الرسول ﷺ(صفحات 16) [94]
رسالہ ہذا میں اہل فن کی کتب معتبرہ سے چند مصطلحات اصول حدیث کو منتخب کر کے مترجم و مرتب کیا گیا ہے۔
- احسن الوصول الی مصطلح احادیث الرسول ﷺ (صفحات 38) [95]
اس مختصر آسان رسالے کو ابتداء ہی میں از بر کر لینے کے بعد ایک طالب علم کے لیے اصول حدیث کی منتہی کتابیں آسان ہو جائیں گی۔ ان شاء اللہ۔
- اصول حدیث (صفحات 16) [96]
یہ کتابچہ اپنے اختصار اور آسان اسلوب کے پیش نظر اس وقت متعدد دینی مدارس کے نصاب میں شامل ہے اور اسے اہل علم اور طلباء کے اندر بڑی قبولیت حاصل ہے۔
- حدیث اور اس کے اصول و ضوابط (صفحات 264) [97]
اس کتاب میں حدیث کی لغوی و اصطلاحی تعریفات، تدوین حدیث، کتب احادیث کی اقسام، محدثین کے طبقات اور مختلف اصطلاحات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
- الدرایہ فی اصول الحدیث (صفحات 256) [98]
اصول حدیث کی وہ جامع ترین اور مستند کتاب ہے جسے قدیم مشاہیر علماء اصول حدیث کی مشہور تصانیف کی روشنی میں مرتب کیا گیا ہے اوران کے فوائد و نوادر ایک جگہ جمع کر دئیے گئے ہیں۔
- علم الحدیث (صفحات 94) [99]
علم الحدیث، جس میں فلسفہ علم حدیث کی انتہائی تحقیق کی گئی ہے اور دکھایا گیا ہے کہ یورپ کو آج جس فلسفہ تاریخ پر ناز ہے اسلام ہزار برس پیشتر اس کو مکمل کر چکا ہے۔
- حدیثی اصول (صفحات 128) [100]
اردو زبان میں یہ رسالہ حدیثی اصول ایک نادر تحفہ ہے اور خصوصاً شرح نخبۃ الفکر پڑھنے والوں کے لیے بہت مفید رہے گا۔
- آسان اصول حدیث (صفحات 67) [101]
اصول حدیث کے بنیادی مباحث کو بڑے آسان اور دلنشین پیرایہ میں پیش کیا گیا ہے۔
- علوم الحدیث (صفحات 415) [102]
اصول حدیث کے بیان میں یہ رسالہ نئے طرز پر ترتیب دیا گیا ہے اور فن کی بعض نئی تصنیفات سے بھی فائدہ اٹھایا گیا ہے۔
- ارشاد اصول الحدیث (صفحات 192) [103]
قدیم و جدید ذخیرہ سے فن اور اس کے متعلقات کا بہترین مجموعہ جس میں اصول قواعد و اصطلاحات کے علاوہ بہت سے قیمتی اور مفید معلومات ذکر کیے گئے ہیں۔
- حدیثیں کیسے جمع ہوئیں؟ مع اقسام حدیث (صفحات 256) [104]
کتاب ہذا میں ایجاز و اختصار کے ساتھ طالبان علوم دینیہ کے لیے جواہرات غالیہ چن کرجمع کردئیےگئے ہیں جن کےذریعہ اصول حدیث میں من وجہ بصیرت حاصل ہوسکتی ہے۔
- حدیث اور فہم حدیث (صفحات 686) [105]
علم حدیث تعریف و تقسیم، حجیت حدیث، تاریخ تدوین حدیث،درسی کتب حدیث تعارف و خصوصیات، نقد حدیث کا روایتی و درایتی معیار، فقہی اختلاف میں حدیث کا کردار، ضعیف حدیث کی استدلالی حیثیت،امام اعظم ابوحنیفہؒ ،علم حدیث اور ان موضوعات پر مبنی ایک شاہکار تصنیف ہے۔
- فتنہ وضع حدیث اور موضوع احادیث کی پہچان (صفحات 216) [106]
کسی روایت کو جعلی اور وضعی قرار دینے کے اصول کو پیش کرنے کے ساتھ ان وضعی روایات کا ایک قابل لحاظ مجموعہ بھی شامل کتاب ہے۔
- ضعیف احادیث کی معرفت اور ان کی شرعی حیثیت (صفحات 416) [107]
اسے ایک چھوٹا سا ضعیف حدیث کی معرفت کا دائرۃ المعارف کہنا چاہیے۔ ضعیف احادیث کے بارے میں یہ کتاب اردو زبان میں علم و تحقیق کے ایک نئے باب کا اضافہ ہے۔
- جرح و تعدیل (صفحات 571)[108]
فن حدیث پر ایک نہایت محققانہ و قیع اور نادر علمی دستاویز جرح و تعدیل۔ اسناد اور طبقات رجال کے بارے میں، قواعد جرح و تعدیل، ائمہ جرح و تعدیل، کتب جرح و تعدیل کے بارے میں معلومات کو فن اصول حدیث، جرح و تعدیل ، اسماء الرجال، دفاع عن السنہ کے اہم اور بنیادی جدید و قدیم مصادر و مراجع سے جمع کیا گیا ہے۔
- محدثین عظام اور ان کے علمی کارنامے (صفحات 292)[109]
اس کتاب میں ائمہ اربعہ، ارباب صحاح ستہ اور امام طحاوی کا تحقیقی تذکرہ کے علاوہ تاریخ تدوین حدیث اور جمع حدیث کے لیے ان کی کوششوں کا ذکر اور ان کی تصنیفات پر مفصل و سیر حاصل تبصرہ بھی کیا گیا ہے۔
- فن اسماء الرجال۔۔۔ ائمہ حدیث کا عظیم الشان کارنامہ(صفحات 104)[110]
یہ کتاب فن اسماء الرجال، جرح و تعدیل اور اس کے متعلقات کے تعارف اور اصول و
ضابطے کے بیان پر مشتمل ہے۔
- اولیاء رجال الحدیث (صفحات 232)[111]
بہ ترتیب حروفِ تہجی مرتب کی گئی اس کتاب میں دو سو محدثین و فقہائے کرام کے حالات اور عبادات و کرامات کو عمدہ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
- علوم الحدیث۔۔۔ مطالعہ و تعارف (صفحات 528 بڑی تقطیع ) [112]
18-19
اکتوبر 1998ء میں علی گڑھ (بھارت) میں مقامی جمعیت اہل حدیث کے زیر اہتمام ”علوم الحدیث“ کے موضوع پر ایک سیمینار ہوا تھا۔ یہ کتاب اس سیمینار میں پیش کیے گئے مقالات کا مجموعہ ہے۔ حدیث و علم حدیث سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اس میں کافی مواد ہے۔
- حدیث کا درایتی معیار (صفحات 288)[113]
کتاب میں حدیث کی اصلی صورت اور اس کا درایتی معیار کو بہت اچھے طریقے سے واضح کیا گیا ہے۔
- معجم مصطلحات حدیث (صفحات 207)[114]
علم مصطلح حدیث کی تاریخ اور اس علم کی اہم کتابوں کے تعارف کے بعد حروف تہجی کی ترتیب سے 543 مصطلحات اور ان کے مفاہیم و اطلاقات کی تفصیل دی گئی ہے۔
- علوم حدیث: تاریخ و تعارف (صفحات 602)[115]
فن حدیث کے مبادی سے متعلق کوئی قابل ذکر گوشہ ایسا نہیں چھوٹا ہے جس پر نہایت سلیقہ اور حسن ترتیب و حسن بیان کے ساتھ روشنی نہ ڈالی گئی ہو۔ بعض ایسی اصطلاحات کی بھی وضاحت کی گئی ہے جن کا ذکر اردو میں تو کیا عربی کتابوں میں بھی بہت کم ملتا ہے۔ (مثلاً
”مؤنن“ و ”مدبج“) اس پر مستزادیہ کہ ہر بات کا مکمل حوالہ دیا گیا ہے۔
- تسہیل اصطلاحات حدیث (صفحات 183)[116]
جیسا کہ نام سے ظاہر ہےاصول حدیث کی اصطلاحات کو آسان زبان میں سمجھایا گیا ہے۔
- علم حدیث اور چند اہم محدثین (صفحات 196)[117]
تاریخ تدوین حدیث،اصول حدیث،اصطلاحات حدیث،اہم محدثین کےحالات، محدثین کی فنی احتیاط اور دیانت داری کو مختلف واقعات کے تحت واضح کیا گیا ہے.
﴿ب﴾ علوم حدیث پر علمائے پاکستان کی تالیفی خدمات
عصر قدیم و جدید میں ہمارے علمائے پاکستان کی بھی علوم حدیث پر نمایاں تالیفی خدمات رہی ہیں، اگرچہ ان میں اکثر کا کام حافظ ابن حجر عسقلانی کی ”نخبة الفکر“ کی شرح پر ہی منحصر رہا، لیکن بعض علماء نے بعد میں اس فن پر مستقل کتابیں بھی تصنیف کیں۔ ذیل میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے علماء کی علوم حدیث پر کتب کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس سرسری جائزےسےاندازہ ہوگا کہ علوم حدیث کی خدمات میں پاکستان کا گرانقدر حصہ کس قدرہے۔
(ب) علوم حدیث پر علمائے پاکستان کی مستقل کتابیں
- مبادیات حدیث (صفحات 187)[118]
علم حدیث کے مبادیات اور اصول و ضوابط کا تعارف، حدیث کے لغوی و اصطلاحی معنی، تدوین حدیث، کتب حدیث کی قسمیں ، انواع علم حدیث اور جلیل القدر محدثین کے حالات آسان اور مدرسالان اسلوب میں جمع کیے گئے ہیں۔
- تسہیل اصول حدیث (صفحات 248)[119]
انداز مدرسانہ اور مفہمانہ ہے۔ کتاب جہاں سے بھی کھولی تحریر سلیس، نافع اور جامع
ہے۔ علم حدیث کے مختلف موضوعات پر مختصر مگر جامع بحث کی گئی ہے۔
- علوم حدیث (صفحات 194)[120]
اصول حدیث، تدوین حدیث بلکہ علوم الحدیث کے ان تمام پہلوؤں پر لکھا گیا جن کی ضرورت دورۂ حدیث کے ایک طالب علم کو ہوتی ہے۔
- معرفت علوم الحدیث (صفحات 472)[121]
مؤلف نے اصول حدیث کے جملہ پہلوؤں کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے اور اپنی کاوش میں بڑی حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔
- علوم الحدیث (فنی، فکری اور تاریخی مطالعہ) (صفحات 989)[122]
علوم الحدیث پر لکھی جانے والی اس غیر معمولی جامع کتاب میں اتنے متعدد اور متنوع
موضوعات پر قلم اٹھایا گیا ہے کہ جس کے باعث یہ ایک قاموسی نوعیت کا تجربہ دکھائی دیتا ہے۔ اس تحقیقی کتاب میں چار سو کتابوں،مخطوطات اور علمی جرائد سے 3070 مقامات پر استفادہ کیا گیا ہے۔
- التحدیث فی علوم الحدیث (صفحات 400)[123]
نفس مضمون پر ایک عمدہ تحقیقی کاوش ہے۔
- ضیاء علم الحدیث (صفحات 605)[124]
کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں تاریخ تدوین حدیث اور ائمہ حدیث کی سوانح حیات جبکہ دوسرے حصے میں اصول حدیث کی اصطلاحات کو انتہائی آسان اور ترتیب و تہذیب کے ساتھ مدون فرمایا ہے۔
- محاضرات حدیث (صفحات 480)[125]
12خطبات کامجموعہ جسمیں حدیث،علوم حدیث،تاریخ تدوین حدیث،مناہج محدثین، رجال، جرح و تعدیل، حدیث کی اقسام اور ان کے احکام جیسے دقیق اور فنی مباحث شامل ہیں۔
- آپ حدیث کیسے تلاش کریں؟ (صفحات 349)[126]
کتاب میں جہاں اصول فن تخریج کو سہل انداز میں پیش کیا گیا ہے، وہی پر مختلف احادیث کی عملی جستجو کروا کر اس کی تدریب و تمرین بھی کروائی گئی ہے اور کتاب کے آخر میں اصطلاحات حدیث کے نام سے ایک گرانقدر ذخیرہ معلومات بھی پیش کیا گیا ہے۔
- اصول حدیث مصطلحات و علوم (صفحات ، جلد اوّل 815، جلد دوم 497)[127]
ضحیم اور جامع کتاب میں”نزہۃ النظر شرح نخبۃ الفکر“ کی ترتیب و بیان ہی کو بنیاد بنا کر علوم ومصطلحات حدیث پر ذخیرۂ معلومات عالمانہ اورمحققانہ انداز میں بزبان اردو مہیا فرمایا گیا ہے۔
- فہم الحثیث فی اصطلاحات الحدیث (صفحات 200)[128]
علم حدیث کے اصول اور اصطلاحات پرمختصر مگر سہل اور جامع انداز میں بہترین مجموعہ، بمعہ کتب صحاح ستہ و شیوخ صحاح ستہ کا مختصر تعارف، مبتدیوں کے لیے بیش قیمت ہے جو آسان اور سادہ الفاظ میں لکھا گیا ہے۔
- آثار الحدیث (صفحات جلد اوّل،464، جلد ثانی 472)[129]
حدیث و علوم الحدیث کے متنوع موضوعات کو مختلف عنوانات کے تحت تقسیم کر کے ہر بات مستند حوالے سے درج کی گئی ہے۔
- تاریخ و مصطلح الحدیث (صفحات 69)[130]
ابتدائی کاوش، اس لیے کچھ کمزوریاں بھی ہیں، بایں ہمہ فن سے ابتدائی چاہنے والے طلبہ کے لیے مفید اور معلومات افزاء ہے۔
- علم حدیث اور پاکستان میں اس کی خدمت (صفحات 452)[131]
برصغیر پاک و ہند میں خدمت حدیث بجالانے والے ۳۵۳ علماء کا مختصر تعارف ترتیب زمانی کے اعتبار سے پیش کیا گیا ہے۔
- علوم حدیث رسول ﷺ (صفحات 256)[132]
یہ کتاب جملہ علوم حدیث کے تمام معروف پہلوؤں پر شائقین علوم حدیث کے لیے ایک بیش بہا مرقع ثابت ہو گا۔
- علم حدیث اور اس کا ارتقاء (صفحات 199)[133]
علم حدیث کے بارے میں اتنی ساری معلومات جامع انداز میں جامع اختصار کے ساتھ پیش کرنا مشکل کام ہے جسے قاری صاحب نے بحسن و خوبی انجام دیا ہے۔
- مطالعہ حدیث (صفحات 215)[134]
اس میں ان تمام فنی مباحث کی تفصیل مذکور ہے، جن کو جانے بنا حدیث کا کما حقہ علم حاصل نہیں ہو سکتا ہے۔
- سنت رسول ﷺ کیا ہے اور کیا نہیں ہے؟ (صفحات 97)[135]
منکرین حدیث کے بعض شبہات کا بہترین رد پیش کرنے کے علاوہ اصول حدیث کے متنوع اہم موضوعات پر بھی خامہ فرماسائی کی گئی ہے۔
- درج الدرر فی اصول حدیث خیر البشرﷺ (صفحات 88)[136]
زیر نظر رسالہ میں علم حدیث کے متعلق جملہ ضروری معلومات مجملاً آگئی ہیں۔ مترجم اس رسالہ کی ترتیب پر اور زیادہ توجہ دیتے تو بڑا اچھا تھا۔
- مبادئ تدبر حدیث (صفحات 157)[137]
اصول حدیث کے بعض موضوعات پر سیر حاصل بحثیں کی گئی ہیں اگرچہ موصوف سے اختلاف رائے کی گنجائش نکلتی ہے۔
- صحاح ستہ اور ان کے مؤلفین (صفحات 176)[138]
زیر نظر کتاب میں ائمہ صحاح ستہ کے حالات اور دفاتر حدیث اور ان کی شرحوں پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے اور صحاح ستہ اور مؤلفین صحاح کے متعلق اس کتاب میں مفید معلومات بہم پہنچائی گئی ہیں۔
- تخریج احادیث۔۔۔ اصول و ضوابط (صفحات 78)[139]
اپنے موضوع پر اردو زبان میں پہلی کاوش ہونے کی وجہ سے تعریف کی مستحق ہے، تاہم تخریج کا موضوع تشنہ ہے۔ کتاب ہذا میں ڈاکٹر محمود طحان کی کتاب ”اصول التخریج ودراسۃالاسانید“ سے بھرپور استفادہ کیا گیا ہے۔
- معرفت حدیث (صفحات 301)[140]
کتاب ہذا علم حدیث کی ایک اچھی خدمت کے ساتھ ساتھ اس علم سے دلچسپی رکھنے والے اردو دان حضرات کے لیے ایک عظیم تحفہ ہے۔
- حدیث موضوع اور اس کے مراجع (صفحات 142)[141]
علوم حدیث پر بحث و تحقیق ، جرح و تعدیل اور علل حدیث، آج کے علمی و تحقیقی دور میں منکرین حدیث کا مقابلہ کرنے کے لیے ان فنون پر مہارت ضروری ہے۔ زیر نظر مقالہ اسی سلسلے کی اہم کڑی ہے۔
- گلدستۂ حدیث (صفحات 200)[142]
اگر کوئی طالب علم اس کتاب کو اچھی طرح سمجھ کر پڑھ لے تو اسے علم حدیث کا اچھا
خاصا معتدبہ حصہ حاصل ہو سکتا ہے۔
- تاریخ حدیث و اصول حدیث (صفحات 62)[143]
دو حصوں پر مشتمل اس کتاب کےحصہ اوّل میں مشہورمحدثین اوران کی کتب حدیث کا تذکرہ کرنے کے بعد حصہ ثانی میں اصول حدیث کے مباحث پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔
- تاریخ و اصول حدیث (صفحات 112)[144]
دو حصوں میں منقسم اس کتاب کے حصہ اوّل میں مختلف حدیثی موضوعات جبکہ حصہ دوم میں شرح نخبۃ الفکر کا آسان اور عام فہم خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔
- تاریخ حفاظت حدیث و اصول حدیث (صفحات 363)[145]
تین حصوں میں منقسم اس کتاب کے حصہ اوّل میں حدیث و اصول حدیث کے مباحث پر خامہ فرسائی کی گئی ہے۔ قدیم و جدید مصادر سے تمام ضروری معلومات جمع کر دی گئیں جو ایک طالب علم اتنی آسانی سے حاصل نہیں کر سکتا۔
- علوم الحدیث (صفحات 254)[146]
اس کورس میں حدیث کے تین پہلوؤں اصول حدیث، تاریخ حدیث اور متن حدیث کا احاطہ کیا گیا ہے۔ مطالعہ حدیث کی ایسی جہتیں اور پہلو متعارف کرائے ہیں جن سے طلبہ محدود وقت میں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں گے۔
- قواعد و مصطلحات حدیث (صفحات 314)[147]
حدیث اور علم حدیث، حجیت سنت، مطالعہ حدیث، علم الاسناد کی اہمیت، تحمل حدیث، اقسام حدیث، مصطلحات حدیث ، خبر متواتر اور خبر واحد کی حجیت جیسے علمی موضوعات پر تفصیلی معلومات سپرد قرطاس کی گئی ہیں۔
- قواعد و مصطلحات حدیث (صفحات 353)[148]
حدیث مرسل، روایت الحدیث بالمعنی، اقسام کتب حدیث، اصول الدرایہ، ناسخ و منسوخ فی الحدیث، اختلاف الحدیث و غریب الحدیث، علم الجرح و التعدیل، علم التخریج اور اس کے اسالیب و مناہیج اور قواعد و ضع حدیث پر خامہ فرسائی کی گئی ہے۔
- مطالعہ نصوص حدیث (صفحات جلداول: 350، جلددوم 367)[149]
اس کورس کے مطالعہ کے بعد آپ حدیث کی اٹھائیس اہم کتب اور ان کے مصنّفین کے حالات سے واقف ہو جائیں گے۔ ان کتب کی اہم شروحات، ان کتب کا اسلوب اور ان کتب میں مختلف موضوعات پر مشتمل منتخب احادیث پر بحث کر سکیں گے۔
- رسالہ اصول حدیث (صفحات 16)[150]
تعریفیں نہایت مختصر دی گئی ہیں، اصطلاحات حدیث سادہ اور عام فہم ہیں، مختصر جملوں میں بات کی گئی ہے۔ البتہ اس کتابچے میں حوالے وغیرہ نہیں دئیے گئے اور نہ ہی مثالیں دی گئی ہیں۔
- المسلم مراءۃ (صفحات 60)[151]
یہ کتاب ایک عام قاری جو حدیث پر اچھی مہارت نہیں رکھتا کے لیے تو کافی ہے کہ وہ ابتدائی طور پر اصطلاحات کو جان سکے لیکن حدیث کے باقاعدہ طلبہ کے لیے یہ ناکافی ہے۔ البتہ حکیم صاحب نے زبان نہایت سادہ اور شستہ استعمال کی ہے۔
- عمدۃ الاصول فی حدیث الرسول ﷺ (صفحات 18)[152]
اگرچہ اس کتاب میں مصنف نے اصول حدیث پر بات کی ہے لیکن اصطلاحات اس قدر اختصار سے بیان کی ہیں کہ حدیث کے طلبہ کی تشفی نہیں ہوتی۔
- مبادی الآثار فی اصول الاخبار (صفحات 58)[153]
نفس مضمون پر مختصر مگر جامع تحقیقی کاوش ہے۔
- ریاض الحدیث (صفحات 516)[154]
تین حصوں میں تقسیم اس کتاب کے پہلے حصے میں اصول حدیث کے اہم مباحث سپرد قرطاس کیے گئے ہیں۔
- اصول حدیث (صفحات 92)[155]
کتاب کو مرتب کرتے وقت علوم الحدیث کے تمام ماخذ کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ تعریفات اور توضیحات میں مستند ماخذ سے کہیں انحراف نہیں کیا گیا۔
- معجم اصطلاحات حدیث (صفحات 511)[156]
حروف تہجی کی ترتیب سے کم و بیش ۸۷۱ مصطلحات اور ان کے مفاہیم و اطلاقات کی تفصیل دی گئی ہے۔ ان فن کی تمام اصطلاحات جمع کر دی گئی ہیں۔ کتاب کے مشتملات پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کتاب اپنے موضع پر جامع ہے۔
- قاموس اصطلاحات علوم الحدیث (صفحات 144)[157]
اصطلاحات علوم حدیث کو حروف ابجد کے اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے۔ کتاب ہذا میں چند اہم مباحث مثلاً حجیت سنت، تاریخ رجال الحدیث، تدوین حدیث، علم روایت و درایت، تخریج حدیث اور کتابۃ الحدیث وغیرہ پر بھی تفصیل ملتی ہے۔
- آسان علوم حدیث (صفحات 127)[158]
فن حدیث کے مبتدی طالب علموں کے لیے لکھی گئی ہے، اس لیے اس میں زیادہ مشکل اور فنی بحثوں سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا۔
- علم کا شہر (صفحات 373)[159]
فن حدیث، مصطلحات حدیث، فہم حدیث، اسماء الرجال، حدیثوں کو یکجا کرنے کے لیے محدثین کی خدمات اور اسی طرح دیگر موضوعات پر مشتمل یہ جواہر پارے یک جان و یک قالب ہو کر کتاب ہذا ”علم کا شہر“ کی شکل میں منظر عام پر آئے ہیں۔
- علوم الحدیث (صفحات 252)[160]
علم حدیث کےمتنوع موضوعات پرسیرحاصل بحث کی گئی ہے۔نفس مضمون پرعمدہ کتاب ہے
- متعلقات دورۂ حدیث (صفحات 463)[161]
بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ، موطا امام مالک، موطا امام محمد اور طحاوی تشریف یعنی مذکورہ بالا کتب حدیث کی خصوصیات، مصنّفین کے حالات اور ان کی لحاظ کردہ شرائط و عادات، اغراض و مقاصد اور متعلقہ مباحث و مضامین مع ضروری تفاصیل و دلائل موجود ہیں اور شروع میں ایک عمدہ مقدمہ منسلک کیا گیا ہے جو حدیث کے متعلق اہم علمی مباحث پر مشتمل ہونے کی وجہ سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
- احناف حفاظ حدیث کی فن جرح و تعدیل میں خدمات(صفحات 347)[162]
چوبیس احناف ائمہ جرح و تعدیل کے احوال پر محققانہ انداز میں تبصرہ کیا گیا ہے۔
- نصاب اصول حدیث مع افادات رضویہ (صفحات 95)[163]
اصول حدیث پر مشتمل ایک آسان اور جامع کتاب ہے۔
- راویانِ حدیث کا تذکرہ اور ان پر محدثین کا تبصرہ (صفحات 128)[164]
”اسماء الرجال“ کا علم عربی زبان تک محدود تھا جس سے ہر ایک کا استفادہ کرنا مشکل تھا۔ چنانچہ اردو زبان میں اس سے متعلق یہ پہلا رسالہ ہے جس سے طلباء و مبتدیوں کو بھی استفادہ
کرنا انتہائی آسان ہے۔
- اصول حدیث کوئیز (صفحات 24)[165]
مقدمہ شیخ عبدالحق دہلوی، تیسیر مصطلح الحدیث اور شرح نخبۃ الفکر کو حل کرنے کے لیے (127) سوالات اور ان کے جوابات پر مشتمل یہ ایک بہترین رسالہ ہے۔
- حدیث کی اہمیت اور ضرورت (صفحات 384)[166]
اصطلاحات حدیث، اقسام حدیث، تعارف کتب حدیث اور تراجم مکثرین رواۃ پر مشتمل یہ کتاب حدیث کے ابتدائی طالب علموں کے لیے نہایت مفید ہے۔
- حدیث اور خدام حدیث (صفحات 230)[167]
حدیث رسول ﷺ کی تشریعی حیثیت اور اقسام حدیث، تاریخ حفاظت حدیث، تذکرہ حفاظ حدیث، تذکرہ محدثین کرام اور علم حدیث کی اہمیت و حیثیت پر مشتمل یہ کتاب بڑی محنت شاقہ سے مرتب فرمائی گئی ہے۔
- آئینۂ معلومات احادیث (صفحات 364)[168]
سوال و جواب کے انداز سے آسان و عام فہم اصول حدیث کے قواعد لکھ دئیے ہیں۔ طلبائے حدیث اور علمائے دین کے لیے بھی بڑی مفید معلومات شامل ہے۔
- تذکرۃ المحدثین (صفحات 334)[169]
محدثین کی حالات میں لکھی گئی اس علمی و تحقیقی تصنیف میں اجل محدثین کرام کے حالات نہایت صحت و تحقیق کے ساتھ قلم بند کیے گئے ہیں۔ ان کی تصانیف کا پور ے طور سے تعارف کرایا گیا ہے۔ بایں ہمہ کتاب میں ایک تشنگی کا احساس ہوتا ہے اور وہ یہ کہ احناف کے جلیل القدر امام ابو یوسف کا تذکرہ بھی اس میں ضرور شامل ہونا چاہیے تھا، تاکہ اسکی شان,شان جمعیت دوبالا ہو جاتی۔
- اصطلاحات المحدثین (صفحات 32)[170]
اصطلاحات حدیث کو حروف ابجد کی ترتیب سے مرتب کر کے ان کی تعریفات بیان کی گئی ہیں۔
- المصنفات فی الحدیث (صفحات 495)[171]
1000ھ تک کی اکثر مصنفات حدیثیہ کا یکجا تذکرہ اس تفصیل و ترتیب سے اردو میں اس وقت تک راقم السطور کی نظر سے نہیں گزرا۔ یہ کتاب انتہائی جامع ہے اس میں ایک ہزار سال کے اکثر علمائے حدیث کی تصنیفات کا تذکرۂ خیر ہے۔
- کاروان حدیث (صفحات 360)[172]
دوسری صدی ہجری سے تیرہویں صدی ہجری تک42ممتازمحدثین کے تذکرے پرمشتمل ہے جنہوں نے احادیث پاک کی مختلف اورمتنوع جہتوں سے خدمت انجام دی ہے۔
- مؤلفین صحاح ستہ (صفحات 92)[173]
مرتبین حدیث: حضرت امام مالک، بخاری، مسلم ابو داؤود، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ رحمہم اللہ کے حالات اور دفاتر حدیث اور ان کی شرحوں پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔
- جامعین حدیث (صفحات صفحات 143)[174]
برصغیر پاک و ہند کے تیس (30) علماء کا تذکرہ ہے جو خدمت حدیث نبوی ﷺ کےحوالے سے معروف ہیں۔ ابتداء میں حدیث، دفاع حدیث اور خدام حدیث کے حوالے سے ایک وقیع مقدمہ بھی تحریر ہے، جو طلبہ حدیث کے لیے انتہائی مفید ہے۔
- مقدمہ دورۂ حدیث (صفحات 64)[175]
صحاح ستہ کو سمجھنے کے لیے جن قواعد اور اصطلاحات کی ضرورت پڑتی ہے ان کو جاننے کے لیے کتاب ہذا اپنی مثال آپ ہے۔
- اوصاف حدیث (صفحات 99)[176]
علم حدیث کی عظمت، اہمیت اور ان کے منافع سے آگاہی کے لیے، علامہ بہائی کی بے بہا کتاب ”الوجیزہ“ کی ترجمانی کے لیے اور احادیث کے مطالب اور معانی کی تحقیق کے لیے اس کتاب میں وہ راستہ اختیار کیا گیا ہے جسے ناظرین نگاہ بصیرت سے پسند کریں گے اور حاملین پوری قوت سے فائدہا ٹھائیں گے۔
- علم الحدیث (صفحات 152)[177]
دو حصوں پر مشتمل اس کتاب کے حصہ اوّل مصطلحات حدیث سے اور حصہ ثانی تدوین حدیث سے تعلق رکھتا ہے۔ علم حدیث و بیان طبقات محدثین و اقسام حدیث کو متن و سند کی حیثیت سے جاننے کے لیے یہ کتاب صرف تعلیمی اداروں کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر اس پڑھے لکھے انسان کے لیے ضروری ہے جو علم حدیث کے متعلق شیعی نقطہ نگاہ کو سمجھنا چاہتا ہو۔
- مکتب اہل بیت میں علوم حدیث کا ارتقاء (صفحات 271)[178]
مکتب امامیہ کے مجامیع حدیث، ان کی خصوصیات، علم حدیث کا تصور و ارتقاء نیز روایت و درایت اور علم الرجال کے بنیادی مباحث کو مکتب امامیہ کے نقطہ نظر سے سمجھنے اور جاننے کے لیے کتاب ہذا اردو دان حضرات کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ ہوگی۔
- تاریخ تدوین حدیث و تذکرہ شیعہ محدثین (صفحات 172)[179]
شیعہ محدثین یعنی رجال حدیث، تدوین حدیث اور اصول حدیث میں شیعی نقطہ نظر کو سمجھنے کے لیے موصوف کی بارہ (12) سالہ محنت کا ثمرہ، اپنی افادیت اور موضوع کی ندرت کے لحاظ سے یہ کتاب ایک منفرد حیثیت کی حامل ہے۔
- شیعہ کتب حدیث کی تاریخ تدوین (صفحات 218)[180]
حدیث کے متعلق شیعہ محدثین کی کاوشوں کا اندازہ کرنے کے لیے زیر نظر مقالہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس موضوع پر اردو میں اب تک جو کام ہوا ہے، اس شاہکار کو اس تمام کاوشوں پر بڑی فوقیت حاصل ہے، کیونکہ گہرائی اور گیرائی سے قطع نظر اس میں اسلوب کا نیا رنگ ہے، ترتیب کی دل آویز چھب ہے، عناوین کا انوکھا حسن ہے، عبارت آرائی میں بڑی مٹھاس اور پیش کش کے طریقوں میں خاصی جدتیں ہیں۔
- اصطلاحات حدیث (صفحات 80)[181]
اس کتاب کی اہم بات یہ ہے کہ علمی مباحث کے باوجود زبان انتہائی سادہ اور انداز بیان انتہائی سہل ہے کہ اس سے استفادہ میں کوئی رکاوت پیش نہیں آتی۔
- علم جرح و تعدیل (صفحات 459)[182]
جرح و تعدیل، جس کی جھلک کتاب اللہ میں ”فاسق“ و ”کذاب“ اور سنت رسول ﷺ میں ”نعم“ و ”بئس“ کی شکل میں نظرآتی ہے۔ مولف نے علم جرح و تعدیل کے جملہ پہلوؤں کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے اور اپنی کاوش میں بڑی حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔
- معارف علوم الحدیث (صفحات ۔۔۔)[183]
نفس مضمون پر عمدہ تحقیقی کتاب ہے۔
- آئینۂ اصول حدیث (صفحات 230 دو جلد)[184]
علوم حدیث سے متعلق اہم اور بنیادی مباحث کو ذکر کرنے کے علاوہ قواعدو اصطلاحات حدیث کو نہایت آسان کر کے پیش کیا گیا ہے.
خلاصۂ کلام
برصغیر پاک وہند کا اسلامی علوم خصوصاً حدیث واصول حدیث کے ساتھ تعلق تو بہت پرانا ہے بلکہ یوں کہیے کہ جتنی برصغیر میں اسلام کی تاریخ اور ثقافت پرانی ہے اتنا ہی حدیث واصول حدیث کا یہ تعلق بھی پرانا ہے۔برصغیر میں خصوصاً آخری صدیوں میں تو حدیث کے حوالے سے وہ خدمات انجام دی گئی ہیں جن کا برملا اعتراف علمائے عرب نے بھی کیا ہے، مصر کے مشہور ادیب اور محقق علامہ رشید رضا لکھتے ہیں:ولو لا عنایة اخواننا علماء الهند بعلوم الحدیث فی هذا العصر لقضیٰ علیها بالزوال من امصار الشرق، فقد ضعف فی مصر والشام والعراق والحجاز منذ القرن العاشر للهجرۃ (مفتاح کنوز السنۃ) یعنی علوم حدیث کی رونق دسویں صدی ہجری میں مصر اور حجاز وعراق میں تو ماند پڑ ہی چکی تھی، ادھر اگر ہندوستان کے علماء اسی دور میں اس کی طرف توجہ نہ کرتے تو ان علاقوں سے یہ علم ختم ہی ہو جاتا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں ہندوستانی علماء کا اس کام میں لگ جانا یہ عین بر محل تھا۔ اور علوم حدیث کی عالمی سطح پر تاریخ کا حصہ تھا۔ اس لیے اگر علم حدیث پر ہونے والی مساعی میں ہندوستانی( برصغیر پاک وہند کے) علماء کی خدمات کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ ناانصافی ہو گی۔ برصغیر کے علماء کی مساعی کے نتیجے میں حدیث و اصول حدیث پر بہت وسیع اور عمدہ ذخیرہ سامنے آیا۔ مقالہ ہذا میں راقم الحروف(مقالہ نگار) نے علماء برصغیر کی انہی ثمرات کو خاص طور سے ذکر کیا ہے۔خصوصاً اردو زبان میں منظرِعام پر آنے والا وہ قیمتی اثاثہ جو اصول حدیث کے مباحث پر مشتمل ہے۔اصول حدیث کی کتابوں کا اجمالی تعارف تو اپنی جگہ شائقین اتنی ڈھیر ساری حدیث کی کتابوں کے نام بھی پڑھ لیں تو یہ بھی ایک سعادت ہے۔
حوالہ جات
- ↑ الحاکم،معرفۃ علوم الحدیث، ت: السید معظم حسین، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ط،الثانیۃ 1319ھ،ذکراول نوع،ص6
- ↑ مقدمۃ المصحح ص یہ
- ↑ ابو عبداللہ الحاکم نیسابوری، معرفۃ علوم الحدیث، تصحیح و تعلیق: ڈاکٹر سید معظم حسین ، مترجم: مولانا محمد جعفر شاہ پھلواروی، لاہور، ادارۂ ثقافت اسلامیہ، 1970
- ↑ ابن حجرؒ، نزھۃ النظر، ص3
- ↑ ابن خلدون، عبدالرحمن بن محمد، مقدمۃ ابن خلدون، مصطفی محمد، القاھرۃ، 1329ھ، ص 369
- ↑ . حاجی خلیفہ، کشف الظنون، ج2، ص 29
- ↑ الحاکم، معرفۃ علوم الحدیث، محولہ بالا، ص 5-6
- ↑ ابن کثیر الدمشقی، اختصار علوم الحدیث، مترجم: حافظ زبیر علی زئی، لاہور، فیصل آباد، مکتبہ اسلامیہ، 2010ء
- ↑ ولی الدین ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ، الاکمال فی اسماء الرجال، ترجمہ: مولانا اشتیاق احمد،کراچی، میر محمد کتب خانہ ، س۔ن
- ↑ خطیب تبریزی، مترجم: مولانا ابو محمد یوسف شاہ ،لاہور، مکتبہ عائشہ صدیقہؓ، س۔ن
- ↑ ڈاکٹر صبحی صالح، بیروت، مترجم: پروفیسر غلام احمد حریری، لاہور، اتفاق پبلشرز، 2004ء
- ↑ استاذ محمد محمد ابوزہو، تاریخ حدیث و محدثین، مترجم: غلام احمد حریری ، لاہو، مکتبہ رحمانیہ، 1965ء
- ↑ شمس الدین ذہبی، تذکرۃ الحفاظ، مترجم: مولانا حافظ محمد اسحاق ( لاہور، اسلامک پبلشنگ ہاوس، 1999ء
- ↑ الذہبی، تذکرۃ الحفاظ، ص3
- ↑ الذہبی، تذکرۃ الحفاظ، ص 22
- ↑ ایضاً، ص 23
- ↑ ایضاً، ص 23
- ↑ بحوالہ الذہبی، تذکرۃ الحفاظ، ص 23-26
- ↑ ڈاکٹرمصطفیٰ سباعی،حدیث رسولﷺکاتشریعی مقام،مترجم:پروفیسرغلام احمدحریری،فیصل آباد،ملک سنز، 2006ء
- ↑ مولانافضل اللہ حسام الدین شامزئی،تفہیم الراوی شرح اردوتقریب النووی،اسلام آباد،مکتبہ جامعہ فریدیہ، 2008ء
- ↑ ابوعبداللہ حاکم نیشاپوری،المدخل فی اصول الحدیث،تبصرہ:مولاناعبدالرشیدنعمانی،کراچی،الرحیم اکیڈمی، س۔ن
- ↑ محمد علی قطب، علوم الحدیث، مترجم: مولانا عمر فاروق سعیدی، لاہور، مکتبہ قدوسیہ، 1977ء
- ↑ ڈاکٹر شاکر فحام، فن غریب الحدیث کا آغاز و ارتقاء، ترجمہ: ڈاکٹر محمد اجمل اصلاحی، لاہور، المصباح، س۔ن
- ↑ علامہ محمد بن جعفر الکتانی، الرسالۃ المستطرفۃ ، مترجم: مفتی شعیب احمد ، لاہور، مکتبہ رحمانیہ، س۔ن
- ↑ علامہ محمد بن جعفر الکتانی، الرسالۃ المستطرفۃ،مترجم: ابو احمد محمد دلپذیر، لاہور،سید شرافت حسین اینڈ سنز، 1979ء
- ↑ . ابن حجر، نزہۃ النظر، مقدمہ، تحقیق نور الدین عتر، النکت علی کتاب ابن الصلاح (مقدمہ)
- ↑ . ابن حجر، نزہۃ النظر، ص 18-19
- ↑ احمد بن محمد الشمنی الاسکندری، اسکندریہ میں پیدا اورقاہرہ میں فوت ہوئے، فقہ و حدیث میں و قیع تالیفات کے مؤلّف تھے۔ابن العماد حنبلی، شذرات، ج 7، ص313، الشوکانی،البدر الطالع، ج1، ص119،السخاوی،الضوء اللامع، ج2، ص 164
- ↑ قاسم بن قطلوبغا اپنے وقت کے مشہور عالم مؤرخّ اور مصنّف تھے۔ سخاوی کا کہنا ہے کہ وہ امام، علامہ زمان اور قادر علی المناظرۃ تھے۔ الشوکانی، البدر الطالع، ج٢ ، ص٢٥ ؛ السخاوی، الضوء اللامع، ج6، ص184
- ↑ . علی بن محمد، المعروف بالملا علی القاری، حنفی فقیہ اور محدث اپنے زمانے کے سربرآور دہ علماء میں سے تھے۔ الشوکانی، البدر الطالع، ج 1، ص445؛ الزرکلی، الاعلام، ج5، ص162
- ↑ محمد عبدالروف بن تاج العارفین الحدادی ثم المناوی القاہری، علوم اسلامیہ کے جلیل القدر علماء میں سے تھے۔ وقیع کتب تالیف کیں۔ الزرکلی، الاعلام، ج7، ص75
- ↑ . ابراہیم بن ابراہیم بن حسن اللقانی، مالکی مذہب کے عالم و فاضل شخصیت تھے۔ مختلف موضوعات پر کتب تالیف کیں۔ اسماعیل باشا بغدادی، ہدیۃ العارفین، مکتبۃ المثنی بغداد، 1951م،ج1، ص30
- ↑ محمد بن عبدالہادی سندھی، ابو الحسن، نور الدین حنفی فقیہ تھے۔ ٹھٹھہ سندھ میں پیدا ہوئے۔ مدینہ منورہ کو مسکن بنایا اور وہیں 1138ھ/1726ء کو وفات پائی۔ حدیث، تفسیر اور عربیت کے ماہر عالم تھے، المرادی، سلک الدرر، مصطفی البابی الحلبی مصر، بدون تاریخ، ج4، ص66، الزرکلی، الأعلام، ج6، ص253
- ↑ مولانا عبدالرحمن، حسن النظر فی شرح نخبۃ الفکر، دہلی، درجید برقی پریس، س۔ن
- ↑ مولانا عبدالحی، سلعۃ القربہ اردو شرح نخبۃ الفکر، لاہو، ادارۂ اسلامیات، 1979ء
- ↑ مفتی سعید احمد پالن پوری،تحفۃ الدرر شرح نخبۃ الفکر، لاہور ، مکتبہ الحسن، 1984ء/1405ھ
- ↑ مولانامحمدارشاد القاسمی بھاگل پوری،بھجۃ الدررشرح اردونزہۃ النظرعلی نخبۃ الفکر،کراچی،زم زم پبلشرز، 2010ء
- ↑ محمد منظور الوجیدی، شرح نخبۃ الفکر فی مصطلح اہل الاثر، (لاہور، شیخ غلام علی اینڈ سنز لمیٹڈ، پبلشرز، 1984ء
- ↑ مفتی محمد طفیل اٹکی، عمدۃ النظر اردو شرح شرح نخبۃ الفکر، راولپنڈی، مکتبہ عثمانیہ، س۔ن
- ↑ مولانا ڈاکٹر عبدالناصر لطیف، توضیح نزہۃ النظر شرح نخبۃ الفکر، راولپنڈی، ضیا العلوم پبلی کیشنز، س۔ن
- ↑ علامہ ناصر قادری مدنی، زبدۃ الفکر شرح نخبۃ الفکر، کراچی، قاسم پبلی کیشنز، 2010ء
- ↑ مولانا عبد العزیز عثمانی ہزاروی، استجلاء البصر من شرح نخبۃ الفکر، لاہور، مطبع مفید عام، 1905ء
- ↑ صدیقی، ڈاکٹر محمد سعد، علم حدیث اور پاکستان میں اس کی خدمت، ص 337
- ↑ تاج الدین الازہری، ڈاکٹر، اصول حدیث میں علماء برصغیر کی خدمات، سہ ماہی، فکر ونظر، اسلام آباد، ج 42-43، ش 1-4، اپریل-ستمبر 2005ء، ص57
- ↑ ایضاً، ص 57
- ↑ قاضی محمد نصیر الدین، نصیر فی الاصول حدیث الرسول ﷺ، لاہور، ایجوکیشنل پریس ڈپو پرانی تحصیل، س۔ن
- ↑ . قاضی محمد نصیر الدین صاحب، سابق استاذ ادارہ علوم اسلامیہ جامعہ پنجاب، لاہور
- ↑ چیمہ، محمد زمان، علمائے پنجاب کی علم حدیث میں خدمات، (1947ء تا2000ء) کا تحقیقی مطالعہ (مقالہ برائے ایم۔فل شعبہ علوم اسلامیہ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد، سیشن 2007ء)، ص 101
- ↑ ایضاً، ص 101 ﴿اسی طرح مولانا محمد عمر انور صاحب کی کتاب شرح اردو نخبۃ الفکر بھی طلباء میں مشہور و معروف اور متداول ہے۔ کتاب ہذا کو زم زم پبلشرز کراچی نے شائع کیا ہے(بحوالہ: ارکانی، مولانا حافظ محمد صدیق بن مولانا حسن علی، متعلقات دورئہ حدیث، زم زم پبلشرز، کراچی، 2004ء، ص 468 (آخر کتاب) ﴾
- ↑ علامہ عبدالرزاق بھترالوی، خلاصہ شرح نخبۃ الفکر، راولپنڈی، مکتبہ امام احمد رضا، س۔ن
- ↑ مولانا محمود عالم صفدر اوکاڑوی، قطرات العطر شرح اردو شرح نخبۃ الفکر، سرگودہا، مکتبہ اہل السنۃ و الجماعۃ، س۔ن
- ↑ ڈاکٹر الشیخ محمود الطحان، ڈاکٹر صاحب شام کے رہنے والے ہیں۔ عالم عرب کے نامور محدث ہیں جو اب تک متعدد جامعات میں یہ علم پڑھا چکے ہیں۔ سعودی عرب کی درسگاہوں میں علم حدیث کے استاذ رہے ہیں اور آج کل کویت میں تدریسی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
- ↑ . سہیل حسن، ڈاکٹر، معجم اصطلاحات حدیث، ص 57
- ↑ تاج الدین الازہری، ڈاکٹر، اصول حدیث میں علماء برصغیر کی خدمات، فکرونظر، اسلام آباد، خصوصی اشاعت42-43 ش 1-4،اپریل-ستمبر، 2005ء، ص 59
- ↑ . عبد الرشید تونسوی، مولانا، تیسیر مصطلح الحدیث، مکتبہ قدوسیہ، لاہور، 1999ء، ص 9-10
- ↑ . ایضاً، ص 10-11
- ↑ . ایضاً، ص 11
- ↑ . بحث کے موضوعات کو کئی پیراؤں میں تقسیم کا اسلوب میں (محمود الطحان) نے اپنے بزرگ اساتذہ سے اخذ کیا ہے۔ مثلاً استاذ مصطفی الزرقا۔ درکتاب الفقہ الاسلامی فی ثوبۃ الجدید استاذ ڈاکٹر معروف الدوالیبی۔در کتاب اصول الفقہ استاذ ڈاکٹر محمد زکی عبدالبر۔ در کتاب المذکرہ محترم آخر الذکر نے ہمارے دورِ طالب علمی میں ہم (ڈاکٹر محمود الطحان۔ مؤلف تیسیر مصطلح الحدیث) جامعہ دمشق میں کلیہ شریعہ میں زیر تعلیم تھے، ہدایہ (مرغینانی ؒ) پڑھاتے ہوئے مذکورہ مذکرہ تیار کروایا تھا اور اس نئے اسلوب سے ہمیں ان علوم کے سمجھنے میں بے حد آسانی رہی تھی۔ جبکہ اس سے پہلے ہمیں ان کتابوں کو سمجھنے میں بہت دقت ہوتی تھی۔ (بحوالہ السعیدی، ابوعمار عمر فاروق، تیسیر اصولِ حدیث، فاروقی کتب خانہ، لاہور، 1998ء،ص 13، حاشیہ)
- ↑ . السعیدی، ابو عمار عمر فاروق ، تیسیر اصول حدیث، ص 13-14
- ↑ . السعیدی، ابو عمار عمر فاروق ،تیسیر اصول حدیث،ص 3-5(فہرست عنوانات)
- ↑ . الراسخ، مولانا عبدالمنان، تاریخ و مصطلح الحدیث، مرکز اسلامی للدعوۃ والتحقیق، فیصل آباد، 1999ء، ص69
- ↑ ڈاکٹر محمود الطحان، اصطلاحات حدیث ترجمہ تیسیر مصطلح الحدیث،مترجم: ڈاکٹر محمدسعدصدیقی، لاہور،1989ء
- ↑ ڈاکٹرمحمودالطحان، اصطلاحات حدیث,مترجم:مولانامظفرحسین ندوی،لاہور،ادارۂ معارف اسلامی،منصورہ، 1998ء
- ↑ ڈاکٹر محمود طحان، تیسیر اصول حدیث، ترجمہ: مولانا عمر فاروق السعیدی، لاہور، فاروقی کتب خانہ، 1998ء
- ↑ مولانا عبدالجلیل ابن کلیم الدین اثری، تحفۃ اہل النظر فی مصطلح اہل الخبر، گوجرانوالہ، ندوۃ المحدثین، 1997ء
- ↑ ڈاکٹر محمود طحان، تیسیر مصطلح الحدیث، مترجم: مولانا عبدالرشید تونسوی، لاہور، مکتبہ قدوسیہ،1999ء
- ↑ ڈاکٹر محمود احمد الطحان، تیسیر مصطلح الحدیث، مترجم: مولانا محمود احمد غضنفر، لاہور، مکتبہ قدوسیہ، سن۔ن
- ↑ ڈاکٹرمحمودطحان،آسان اصول حدیث ترجمہ تیسیر مصطلح الحدیث، مترجم: ڈاکٹر قاری محمد ہاشم سعیدی، نیوملتان، مکتبہ مہریہ کاظمیہ، نزد جامعہ انوارالعلوم، 2009ء
- ↑ ڈاکٹرمحمودطحان،اصطلاحات حدیث،مترجم:مفتی محمدصدیقی ہزاروی،لاہور،مکتبہ اہل سنت،جامعہ نظامیہ، 2003ء
- ↑ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، فوائد جامعہ برعجالہ نافعہ، شارح و مترجم: مولانا ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی، کراچی،نور محمد، کارخانہ تجارت کتب، آرام باغ، 1964ء
- ↑ دہلوی، شاہ عبدالعزیز محدث،فوائد جامعہ برعجالہ نافعہ، نور محمد کارخانہ تجارت کتب، کراچی، 1964، ص 31
- ↑ . ایضاً، ص 63
- ↑ . سید قمر الدین حسینی کا آبائی وطن سونی پت تھا۔ انہوں نے دہلی میں آکر پڑھا، علوم عقیلہ اور نقلیہ کی تعلیم شاہ عبدالقادر اور شاہ رفیع الدین سے پائی۔ حدیث کی تکمیل شاہ عبدالعزیز کے حلقہ درس میں کی اور انہی سے روایت حدیث کی سند حاصل کی، ایک زمانہ تک موصوف کی صحبت میں رہ کر بہت استفادہ کیا۔ اذکار و اشغال کی تعلیم وتلقین شاہ فخر الدین بن نظام الدین دہلویؒ سے پائی اور دہلی میں ہی سکونت اختیار کر لی۔ شعر و سخن کا مذاق بھی خوب تھا اور نہایت پر گوشاعر تھے۔ اخیر زمانے میں دہلی سے لکھنؤ آگئے پھر حیدر آباد دکن چلے گئے۔ اخیر عمر میں قدرے تشیع کی طرح میلان ہو گیا تھا۔ 1280ھ میں ان کا انتقال ہوا۔ ایک لاکھ پچاس ہزار اشعار کا ایک دیوان یاد گار چھوڑا ہے۔ (حالات کیلئے ملاحظہ ہو: الحسنی، عبدالحئی، نزہۃ الخواطر ،مطبوعہ حیدر آباد، دکن ، 1959ء، ج 7، ص 390)
- ↑ .دہلوی، شاہ عبد العزیز محدث، فوائد جامعہ برعجالہ نافعہ، ص 31
- ↑ . ایضاً، ص 1
- ↑ ایضاً، ص 31-32
- ↑ ایضاً، ص 63
- ↑ . ایضاً، ص 1
- ↑ . ایضاً، ص 31
- ↑ . اس حدیث کی تخریج حافظ ابن ابی الدنیا اور امام طبرانی وغیرہ نے کی ہے۔ دیکھئے: سابق حوالہ، ص 63
- ↑ . ایضاً، ص2
- ↑ ۔ایضاً، ص 32
- ↑ ایضاً، ص 64
- ↑ . ایضاً، ص 66-68
- ↑ . ایضاً، 37
- ↑ . ایضاً، ص 77-80
- ↑ . دہلوی، شاہ عبد العزیز محدث، فوائد جامعہ برعجالہ نافعہ، ص 204
- ↑ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، بستان المحدثین فی تذکرۃ الکتب و المحدثین، مترجم: مولانا عبدالسمیع دیو بندی ، کراچی، ایچ۔ ایم سعید کمپنی، س۔ن
- ↑ مولانا محمد انور بدخشانی، السعی الحثیث فی مصطلح الحدیث، اردو ترجمہ بنام: آسان اصول حدیث ، ترجمہ: مولانا محمد عمران ولی ، کراچی، اسلامی کتب خانہ، 2009ء
- ↑ مفتی الٰہی بخش کاندھلوی،رسائل اصول حدیث، ترجمہ: نور الحسن راشد، کاندھلہ، مفتی الٰہی بخش اکیڈمی، 2001ء
- ↑ .دیکھئے:خالد ظفر اللہ رندھاوا، ڈاکٹر، برصغیر میں حجیت حدیث پر تجزیاتی لٹریچر سہ ماہی فکر ونظر ،اسلام آباد،اپریل ۔ جون 2000ء ، صفحات 123-154
- ↑ مولانا قاری محمد طیب مدنی، حدیث رسول ؐ کا قرآنی معیار، لاہور، ادارۂ اسلامیات، 1977ء
- ↑ مفتی نظام الدین اعظمی، اصول حدیث عربی مع ترجمہ اردو، کراچی ، صدیقی ٹرسٹ، 1982ء
- ↑ مولانا خیر محمد جالندھری، خیر الاصول فی حدیث الرسول ﷺ ،راولپنڈی، رشیدیہ کتب خانہ، س۔ن
- ↑ مولانامحمدامین اثری،احسن الوصول الی مصطلح احادیث الرسولﷺ،(انڈیا)،مکتبہ سلفیہ ریوڑی تالاب، 1998ء
- ↑ مولانا محمد اویس نگرامی ندوی، اصول حدیث،لاہور، دارالفرقان، س۔ن
- ↑ مولاناعبدالخالق ندوی،حدیث اوراسکےاصول وضوابط،رام پور،(یو۔پی)،حاجی فیصل رحمان،بینک کالونی، 2010ء
- ↑ مفتی امجدالعلی،الدرایہ فی اصول الحدیث،کراچی،محمدسعید اینڈ سنز قرآن محل، مقابل مولوی مسافر خانہ، 1966ء
- ↑ علامہ عبداللہ العمادی، علم الحدیث، حیدر آباد، دکن (انڈیا)، مکتبہ نشاۃ ثانیہ، معظم جاہی مارکیٹ، س۔ن
- ↑ مولانا وجیہ الدین احمد خان، حدیثی اصول ، دہلی، محبوب المطابع برقی پریس، جنوری 1958ء
- ↑ مولاناخالدسیف اللہ رحمانی،آسان اصول حدیث،حیدرآباد،الہند،شعبہ نشرواشاعت جامعہ عائشہؓ،نسواں، 1997ء
- ↑ مفتی محمد عبید اللہ الاسعدی، علوم الحدیث، کراچی، ادارۃ المعارف، 2008ء
- ↑ مفتی محمد ارشاد القاسمی، ارشاد اصول الحدیث، کراچی، زم زم پبلشرز، 2005ء
- ↑ علامہ محمد حنیف رضا خان بریلوی، حدیثیں کیسے جمع ہوئی مع اقسام حدیث، لاہور، مکتبہ اعلیٰ حضرت، 2008ء
- ↑ مولانا عبداللہ معروفی، حدیث اور فہم حدیث ،کراچی، مکتبہ خدیجہ الکبریٰؓ، 2010ء
- ↑ ڈاکٹر مولانا محمد سعود عالم قاسمی، فتنہ و ضع حدیث اور موضوع احادیث کی پہچان، لاہور، اسلامی اکادمی، س۔ن
- ↑ غازی عزیر مبارکپوری، ضعیف احادیث کی معرفت اور ان کی شرعی حیثیت، لاہور، دار الکتب العلمیۃ، 2010ء
- ↑ ڈاکٹر اقبال احمد محمد اسحٰق ، جرح و تعدیل، لاہور، مکتبہ قاسم العلوم، اکتوبر 2011ء
- ↑ مولانا تقی الدین ندوی مظاہری، کراچی، مجلس نشریا ت اسلام، 1979ء
- ↑ مولانا تقی الدین ندوی مظاہری، فن اسماء الرجال۔۔۔ ائمہ حدیث کا عظیم الشان کارنامہ، فیصل آباد، ملک سنز ناشران و تاجران کتب، 2005ء
- ↑ مولانا عبد المصطفیٰ اعظمی، اولیاء رجال الحدیث، لاہور، اکبر بک سیلرز، 2007ء
- ↑ مولانا رفیق احمد رئیس سلفی، (مرتب) علوم الحدیث۔۔۔ مطالعہ و تعارف، لاہور، دارالکتب السلفیہ،2010ء
- ↑ مولانا محمد تقی امینی، حدیث کا درایتی معیار، کراچی، قدیمی کتب خانہ، مقابل آدام باغ، 1986ء
- ↑ سید احمد زکریا ندوی مظاہری، معجم مصطلحات حدیث، کراچی، زم زم پبلشرز ، مارچ 2010ء
- ↑ سید عبدالماجد غوری ، سید احمد زکریا غوری ، علوم حدیث: تاریخ و تعارف، کراچی، زم زم پبلشرز، 2010ء
- ↑ 116سید عبد الماجد غوری، تسہیل اصطلاحات حدیث، کراچی، زم زم پبلشرز، 2010ء
- ↑ ڈاکٹر محمد سالم قدوائی، علم حدیث اور چند اہم محدثین، لاہور، نذیر سنز پبلشرز، 1986ء
- ↑ مفتی احمد خانپوری، مبادیات حدیث، کراچی، بیت العلم ٹرسٹ، 2005ء
- ↑ مفتی فدا محمد حقانی، تسہیل اصول حدیث لاہور، مکتبہ رحمانیہ، س۔ن
- ↑ مولانا حیدر علی المینوی، علوم حدیث ، اکوڑہ خٹک، KPK) ) فاروقی کتب خانہ، س۔ن
- ↑ ڈاکٹر ابو سلمان سراج الاسلام حنیف، معرفت علوم الحدیث، لاہور، دارالنوادر، 2011ء
- ↑ ڈاکٹر عبدالرؤف ظفر، علوم الحدیث، فنی فکری اور تاریخی مطالعہ، لاہور، نشریات، 2009ء
- ↑ ڈاکٹر عبد الرؤف ظفر، ڈاکٹر سراج الاسلام حنیف، التحدیث فی علوم الحدیث ،لاہور، مکتبہ قدوسیہ، 2007ء
- ↑ ابو العرفان محمد انور مگھالوی، ضیاء علم الحدیث، بھیرہ شریف، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، اکتوبر 2009ء
- ↑ ڈاکٹرمحمود احمد غازی، محاضرات حدیث ، لاہور، الفیصل ناشران و تاجران کتب، ستمبر 2008ء
- ↑ مولانا محمد محسن گلزار نعمانی، آپ حدیث کیسے تلاش کریں؟ کراچی، مکتبہ عمر فاروق، 2010ء
- ↑ ڈاکٹر خالد علوی، اصول حدیث مصطلحات و علوم ، لاہور، الفیصل ناشران و تاجران کتب، 2001ء/ 2013ء
- ↑ ابو معاویہ مولانا محمد آیاز درانی، پشاور، اشاعت اکیڈمی محلہ جنگی، 2006ء
- ↑ علامہ ڈاکٹر خالد محمود، آثار الحدیث، لاہور، دارالمعارف، 1985ء/1988ء
- ↑ مولانا عبد المنان راسخ، تاریخ و مصطلح الحدیث، فیصل آباد، المرکز اسلامی للدعوۃ و التحقیق، 1999ء
- ↑ ڈاکٹرمحمدسعدصدیقی،علم حدیث اورپاکستان میں اس کی خدمت،لاہور،شعبہ تحقیق،قائداعظم لائبریری، 1988ء
- ↑ ڈاکٹر رانا محمد اسحاق، علوم حدیث رسول ﷺ، لاہور، ادارۂ اشاعت اسلام، 1988ء
- ↑ قاری روح اللہ محمد عمر المدنی، علم حدیث اور اس کا ارتقاء، پشاور، NIPA، 1989ء
- ↑ مولانا محمد حنیف ندوی، مطالعہ حدیث، لاہور، ادارۂ ثقافت اسلامیہ، 1979ء
- ↑ مولانا محمد عاصم الحداد، سنت رسول ﷺ کیا ہے اور کیا نہیں ہے، لاہور، 5۔ای، منصورہ، اگست 1991ء
- ↑ شاہ محمد غوث، درج الدرر فی اصول حدیث خیر البشر ﷺ، مترجم و شارح: صاحبزادہ حافظ علی احمد پشاوری، پشاور، مکتبہ الحسن بازار یکہ توت، 1367ھ
- ↑ مولانا امین احسن اصلاحی، مبادئ تدبر حدیث، لاہور، فاران فاؤنڈیشن، اکتوبر 2000ء
- ↑ مفتی عبدہٗ الفلاح الفیروز پوری، صحاح ستہ اور ان کے مؤلفین، فیصل آباد، ادارۂ علوم اثریہ، س۔ن
- ↑ ڈاکٹر محمد ہمایوں عباس شمس، تخریج احادیث، اصول و ضوابط، فیصل آباد، مکتبہ صبح نور، 2002ء
- ↑ پروفیسر بسینہ خٹک، معرفت حدیث، لاہور، احباب پبلشرز، جنوری 2004ء
- ↑ مفتی محمد اکرم رحمانی، حدیث موضوع اور اس کے مراجع، فیصل آباد، ادارۂ علوم اثریہ، س۔ن
- ↑ پروفیسرمحمدنسیم عثمانی، گلدستۂ حدیث کراچی، شعبہ تصنیف و تالیف، وفاقی اردو کالج، 1403ھ
- ↑ مولانا محمد عباس طور، تاریخ حدیث و اصول حدیث، لاہور، آزاد بک ڈپو، مارچ 1990ء
- ↑ علامہ پروفیسر میاں منظور احمد، تاریخ و اصول حدیث، لاہور، علمی کتب خانہ، س۔ن
- ↑ ڈاکٹر فضل احمد، تاریخ حفاظت حدیث اصول حدیث کراچی، کفایت اکیڈمی، 1997ء
- ↑ ڈاکٹر علی اصغر چشتی،علوم الحدیث،علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی،اشاعت اوّل2004ء،یونٹ 1-6، کوڈ:972
- ↑ ڈاکٹر علی اصغر چشتی، ڈاکٹر سہیل حسن،قواعد و مصطلحات حدیث، AIOU، یونٹ1-9،کوڈ 4555، 2001ء
- ↑ ڈاکٹرعلی اصغرچشتی،ڈاکٹرتاج الدین الازہری،قواعدومصطلحات حدیث،AIOUیونٹ:10-18،کوڈ: 4555
- ↑ ڈاکٹرعلی اصغرچشتی،معین الدین ہاشمی،مطالعہ نصوص حدیث،AIOU،یونٹ1-8،کوڈ4557 ،2001ء
- ↑ مولوی عبدالحلیم شرر، رسالہ اصول حدیث، لاہور، انجمن شبان اہل حدیث کوٹ نوشیحاں، 1382ء
- ↑ حکیم عبد الرحمن ہاشمی، المسلم مراء ۃ، سرگودھا، ثنائی پریس، س۔ن
- ↑ قاضی غلام محمودہزاروی،عمدۃ الاصول فی حدیث الرسول ﷺ، جہلم، کتب خانہ غوثیہ چشتیہ جادہ،جہلم، س۔ن
- ↑ مولانامحمداسلم کورڈھی،مبادی الآثار فی اصول اخبار، لاہور، مولوی غلام یٰسین،خطیب مسجد،نیم والی، س۔ن
- ↑ پروفیسر عبدالغنی قادری، ریاض الحدیث، لاہور ، تاج بک ڈپو، 1969ء
- ↑ ڈاکٹر حمید اللہ عبد القادر، اصول حدیث، فیصل آباد/ لاہور، مجید بک ڈپو، 1997ء
- ↑ ڈاکٹر سہیل حسن، معجم اصطلاحات حدیث، اسلام آباد، ادارہ تحقیقات اسلامی، 2009ء
- ↑ ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی، قاموس اصطلاحات علوم الحدیث کراچی، دارالاشاعت، مارچ 2006ء
- ↑ مولانا محمد رفیق چوہدری، آسان علوم حدیث، لاہور، مکتبہ قرآنیات، جنوری 2009ء
- ↑ ڈاکٹر صفیہ سلطانہ صدیقی، علم کا شہر، کراچی، خزیمہ پبلی کیشنز، 2010ء
- ↑ ڈاکٹر محمد باقر خان خاکوانی، علوم الحدیث، لاہور،ادارۂ مطبوعات سلیمانی، اپریل 2011ء
- ↑ مولانا حافظ محمد صدیق ارکانی، متعلقات دورۂ حدیث، کراچی، زم زم پبلشرز، اگست 2004ء
- ↑ مولانا محمد ایوب الرشیدی، احناف حفاظ حدیث کی فن جرح و تعدیل میں خدمات،کراچی، زم زم پبلشرز، 2004ء
- ↑ امام احمدرضا خان,نصاب اصول حدیث مع افادات رضویہ،کراچی،مکتبہ المدنیہ فیضان مدینہ، 27؍ جون 2009ء
- ↑ مولانا محمد حسین صدیقی،راویان حدیث کا تذکرہ اوران پرمحدثین کا تبصرہ،کراچی،زم زم پبلشرز، 2009ء
- ↑ مفتی محمد فہیم مصطفائی قادری، اصول حدیث کوئیز، گوجرانوالہ، مکتبہ نعمان، 2010ء
- ↑ علامہ خلیل الرحمن چشتی، حدیث کی اہمیت اور ضرورت، اسلام آباد، الفوز اکیڈمی، مارچ 2009ء
- ↑ میاں انوار اللہ، حدیث اور خدام حدیث، اسلام آباد، مرکز دعوۃ التوحید، 2009ء
- ↑ علامہ نصرت علی اثیر، آئینۂ معلومات احادیث، لاہور، الفیصل ناشران و تاجران کتب، اکتوبر 2009ء
- ↑ علامہ غلام رسول سعیدی، تذکرۃ المحدثین، لاہور، فرید بک سٹال، ستمبر 2007ء
- ↑ مولانا سلطان محمود محدث جلال پوری، اصطلاحات المحدثین، لاہور، دارالفرقان، س۔ن
- ↑ مولانا محمد زمان کلا چوی،المصنفات فی الحدیث، نوشہرہ، (KPK)، القاسم اکیڈمی، س۔ن
- ↑ مولانا عبدالرشید عراقی، کاروان حدیث،لاہور، نور اسلام اکیڈمی، جنوری، 2001ء
- ↑ ملک عبدالرشید عراقی، مولفین صحاح ستہ، سیالکوٹ، جامعہ ابراہیمیہ، ناصر روڈ، س۔ن
- ↑ ملک عبدالرشید عراقی، جامعین حدیث، سیالکوٹ، جامعہ ابراہیمیہ، ناصر روڈ، س۔ن
- ↑ علامہ محمد ابراہیم سجاولی، مقدمہ دورۂحدیث ، حیدر آباد (سندھ) مسجد بلال، ڈیفنس کالونی، س۔ن
- ↑ آیت اللہ محقق حاج سید مرتضیٰ حسین لکھنوی، اوصاف حدیث، کراچی، زہراء اکادمی، 1992ء
- ↑ پروفیسر علامہ علی حسنین شیفتہ، علم الحدیث، کراچی، پیر محمد ابراہیم ٹرسٹ، س۔ن
- ↑ ڈاکٹر محسن نقوی، مکتب اہل بیت میں علوم حدیث کا ارتقاء، کراچی، مکتبہ عماد الاسلام، 2009ء
- ↑ سیدمرتضیٰ حسین،صدرالافاضل،تاریخ تدوین حدیث وتذکرہ شیعہ محدثین،راولپنڈی،پاکستان حسینی مشن، 1957ء
- ↑ علامہ سید حسین مرتضیٰ، شیعہ کتب حدیث کی تاریخ تدوین، کراچی، زہراء اکادمی، 1993ء
- ↑ شیخ عبدالحق محدث دہلوی،اصطلاحات حدیث،مترجم: مولانا غلام نصیر الدین چشتی،لاہور،نظامیہ کتاب گھر، 2010ء
- ↑ ڈاکٹرسہیل حسن،علم جرح وتعدیل،اسلام آباد،ادارہ تحقیقات،IIU،اشاعت اول،2014ء
- ↑ مولانا عبد المعبود، معارف علوم الحدیث، راولپنڈی، س۔ن
- ↑ مفتی انعام الحق قاسمی ستا ماری، آئینہ اصول الحدیث، کراچی، زم زم پبلشرز، س۔ن
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 1 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2017 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |