5
1
2018
1682060029336_1018
53-72
https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/137/128
شریعت اسلامی کا ایک خاص امتیاز فطرت ِانسانی سے اس کی ہم آہنگی اور مطابقت ہے۔ اسی بناء پر شریعت میں اعذار اور انسانی مجبوریوں کی بڑی رعایت کی گئی ہے او ر اہم سے اہم حکمِ شرعی میں بھی عذر کی بناء پر تخفیف قبول کی جاتی ہے۔ جب ہم قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں یا احادیث مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں متعدد مقامات پر لفظ عذر مختلف صیغوں کے ساتھ نمایاں نظر آتا ہے۔
عذر سے متعلق قرآنی آیات
۱۔ وَ جَآءَ الْمُعَذِّرُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ لِیُؤْذَنَ لَھُمْ۔(1(
(اور آئیں کچھ عذر کرنے والے دیہاتیوں میں سے تاکہ اُن کو اجازت مل جاوے)
علامہ آلوسی رحمہ اللہ اس آیت کے ضمن میں تحریرفرماتے ہیں۔
المعذرون من عذرٍ فی الا مر اذا قصر فیہ۔(2(
یعنی معذرون معذور کی جمع ہے اور معذور کسی کام میں عذر سے مشتق ہے جب اس کام کی بجا آوری سے قاصر ہو۔
امام قر طبیؒ اور امام بغویؒ عذر کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔
عذّر فلان فی امر کذا تعزیراً ای قصّر ولم یبالغ فیہ۔(3(
یعنی فلاں شخص نے فلاں امر کے کرنے سے معذوری ظاہر کی۔ یعنی اس میں کمی کی۔ اور اس کو تکمیل تک نہیں پہنچایا۔
امام طبریؒ اس آیت کے ضمن میں تحریر فرماتے ہیں۔
ان المعذر فی کلام العرب انما ھو الذی یعذر فی الا مر فلا یبالغ فیہ ولا یحکم۔(4(
یعنی کلام عرب میں معذور اس شخص کو کہتے ہیں کہ وہ اس کام کے کرنے سے عاجز ہو اور اس کام کا حکم اُسے نہ دیا جا سکتا ہو۔
۲۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے:
وَلاَ یُؤْذَنُ لَہُمْ فَیَعْتَذِرُوْنَ۔ (5(
(اور انہیں اجازت نہ دی جائے گی کہ وہ عذر کریں)
اس آیت کے ذیل میں امام جلال الدین سیوطی، امام ابن کثیر اور قرطبی لکھتے ہیں:
ای ولا یوذن لھم فیہ لیعتذروا بل قد قامت علیھم الحجۃ۔(6(
یعنی انہیں عذر پیش کرنے کی اجازت نہ دی جائے گی کیونکہ ان پر حجت قائم ہو گئی ہے۔
۳۔تیسری آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
یَعْتَذِرُوْنَ اِلَیْکُمْ اِذَا رَجَعْتُمْ اِلَیْھِمْ قُلْ لَّا تَعْتَذِرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَکُمْ۔)7(
ترجمہ: یہ لوگ تمہارے پاس عذر پیش کریں گے جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے۔ آپ کہہ دیجئے کہ عذر پیش مت کرو ہم کبھی تم کو سچا نہ سمجھیں گے۔
امام رازی اور ابو حیان اندلسی اس کی تفسیر بیان فرماتے ہیں۔
لان غرض المعتذر ان یصدق فیما یعتذر بہ فاذا عرف انہ لا یصدق ترک الاعتذار۔(8(
یعنی معذور کا عذر سے غرض یہ ہوتا ہے کہ وہ جس کام کے کرنے سے معذوری ظاہر کر رہا ہے اس میں اس کے عذر کو سچا مانا جائے۔ پس جب اسے پتہ چل جاتا ہے کہ اس کی بات کا اعتبار نہیں کیا جائے گا تو وہ اعتذار کو ترک کردیتا ہے۔
عذر سے متعلق احادیث مبارکہ
۱۔عن عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما عن النبی ﷺ قال قال رسول اللہﷺ من جمع بین الصلاتین من غیر عذرٍ فقد اتی بابا ً من ابواب الکبائر۔ (9 (
(حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس نے بلا عذر دو نمازوں کو جمع کیا وہ کبیرہ گناہوں کے ایک دروازے سے داخل ہوا)
امام ترمذیؒ عذر کی تشریح میں فرماتے ہیں:
العذر قدیکون با لسفر و قد یکون با لمطر و بغیر ذلک۔(10)( عذر کبھی سفر سے ہو گا اور کبھی بارش سے اور کبھی ان کے علاوہ سے)
۲۔عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ عن النبی ﷺ قال اعذر اللہ الی امرءٍ اخّرا جلہ حتی بلغہ ستین سنۃ۔ (11)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ:
اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کے لیے عذر کا کوئی موقع باقی نہیں رکھا جس کو ساٹھ برس تک دنیا میں مہلت دی۔
امام ابن حجر العسقلانی فرماتے ہیں:
قولہ اعذر اللہ الاعذار ازالۃ العذر و المعنی انہ لم یبق لہ الا عتذار کان یقول لو مدلی فی الاجل لفعلت ما أ مرت بہ و نسبۃ الا عذار الی اللہ مجازیۃ و المعنیٰ ان اللہ لم یترک للعبد سبباً فی الا عتذار یتمسک بہ والحاصل انہ لا یعاقب الا بعد حجۃٍ(12)
یعنی اعذار عذر کے ازا لۃ کو کہتے ہیں جس کا معنی ہے کہ اُس کے لیے عذر کا موقع نہ رہاجیسا کہ وہ یہ کہے کہ اگر مجھے مہلت دی گئی موت میں تو میں وہ کام کروں گا جس کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور اعذار کی نسبت اللہ کی طرف کرنا یہ مجازی ہے اور اس کا معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کے لیے کوئی سبب نہیں چھوڑتا کہ جس کو بنیاد بنا کر وہ عذ ر پیش کرے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک سزا نہیں دیتا جب تک حجت قائم نہ ہو۔
عبادات (نماز، روزہ، حج، جہاد وغیرہ) اور دیگر فقہی امور میں عذر کی تاثیر سے متعلق آیات قرآنیہ اور احادیث نبویۃ کا ایک وافر ذخیرہ موجود ہے۔
عذر کے مفہوم کو متعین کرنے کے لیے بلاشبہ قرآنی آیات اور احادیث نبویۃ ایک مستند ذریعہ ہے کہ قرآن کی طرف سے دی گئی ہدایات کے مطابق نبی کریم ﷺ معاشرہ اور سماج کی تشکیل فرما رہے تھے۔
جیسا کہ مذکورہ آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ سے ثابت ہوا کہ اللہ جل شانہ اور رسول اللہ ﷺ نے اوامر کے بجا لانے اور نواہی سے اجتناب کرنے میں معذور شخص کو ان احکام کے عمومی اطلاق سے مستثنیٰ قرار دیا۔ اسی طرح فقہ اسلامی میں بھی معذور کے عذر کی خوب رعایت رکھی گئی ہے۔
فقہائے کرام ؒ کےنزدیک لفظ عذر کی تعریفات
۱۔العذر Excuse ۔العذر ھو الحجۃ التی یعتذر بھا و الجمع اعذار، و فی قول ابن حجر ھو الوصف الطاری علی المکلف المناسب للتسھیل علیہ۔(13)
یعنی ایسی حجت جو قابل عذر ہو اور اعذار اس کی جمع ہے۔ اورابن حجر کے قول کے مطابق عذر وہ وصف ہے جو شخص مکلف پر طاری ہوجاتا ہے اور پھر اس کے حق میں سہولت کا سبب بنتا ہے۔
۲۔المعذورExcusable ۔من یدوم العذر معہ وقتاً صلوۃً کاملاً۔ ولا یضر انقطاعہ وقتاً لا یتسع للو ضوء و الصلوۃ ثم لا یخلو بعد ذلک وقت من الا وقات من وجود ھذا العذر۔(14)
ترجمہ: اور اسی سے معذور نکلا ہے یعنی صاحب عذر عذر والا کہ جس کو ایک مکمل نماز کے وقت تک عذر گھیرے۔ وہ معذور ہے اور اُس عذر کا ختم ہونا ایسے وقت کو ضرر نہیں دیتا جس میں وضو اور نماز کی گنجائش نہ ہو اور اس عذر کے موجود ہونے سے اوقات میں کوئی وقت خالی نہ رہے۔ (یعنی جب تک وقت موجود ہے اس مکمل وقت میں کوئی لمحہ بھی اس عذر سے خالی نہ ہو)۔
۳۔العذر تعذر علیہ الا مر بمعنی تعسر علیہ۔(15)
ترجمہ: عذر کا مطلب ہے جب کسی پر کسی امر کا بجالانا شاق گذرے یعنی وہ اس کے لئے مشکل بن جائے۔
۴۔العذر السبب الشرعی الذی جعلہ الشارع امارۃ علی اباحۃٍ ترک بعض الواجبات و ارتکاب بعض المحظورات۔(16)
ترجمہ: یعنی عذر ایک ایسا شرعی سبب ہے کہ جس کے ذریعے شارع بعض واجبات کو ترک کرنے اور بعض محظورات (منع کی گئی چیزوں) کو مباح کرنے کا حکم دے۔
حنفی فقہاء کے نزدیک جب مکلف کسی امر شرعی کو بجالانے میں اضافی ضرر سے دوچار ہوتا ہو۔ تو یہ عذر کہلائے گا۔ اس ضمن میں انہوں نے عذر کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے۔
العذر: الحجۃ التی یعتذر بھا مایتعذر علیہ المعنٰی علی موجب الشرع الابتحمل ضرر زائد۔(17)
یعنی جب کسی شخص پر شریعت کے موجب کے مطابق ضرر زائد برداشت کئے بغیر احکام شرعی کا معنی متعذر ہو۔ تو یہ عذر کے زمرے میں آئے گی۔
جدید فقہی ماہرین نے عذر کو ارتفاعِ مسؤلیت اور موانع سزا کے اسباب میں سے ایک سبب قرار دیا ہے۔ اور اسے اعذارِ معفیہ (Excuse Absolutory) کا نام دیا ہے۔
جس کے تحت مرتکب فعل سے جسمانی سزا تو ختم ہوتی ہے۔ تاہم اُس پر مالی تاوان باقی رہتا ہے۔ مثلاً یہ کہا گیا ہے۔
”اذا اکرہ المتہم علی فعل جنایۃ أو جنحۃ بقوۃ لایستطیع مقاومتھا فلایعد ماوقع منہ جنایۃ أوجنحۃ“
(جب ثابت ہو کہ ملزم کو جرم پر مجبور کیا گیا تھا۔ جبکہ ملزم اس جبر کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا تو اس صورت میں اس کا کردہ فعل جرم متصور نہیں ہوگا)
تاہم اس تعریف پر اضافہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس قسم کے افعال کا فاعل مدنی مسؤلیت سے مستثنیٰ نہیں ہوگا۔ چنانچہ کہا گیا۔
أمافی حالۃ وجود سبب من الاسباب الشخصیۃ کالاکراہ أوالجنون فإن المسؤلیۃ المدنیۃ قدتبقی علی عاتق الفاعل۔
جہاں تک شخصی اسباب کا تعلق ہے۔ جیسے اکراہ یا جنون تو اس صورت میں فاعل کے ذمے مدنی مسؤلیت باقی رہے گی۔
جدید فقہاء نے عذر یا عدم مسؤلیت کی دو صورتیں بیان کی ہیں۔ ایک شخصی ہے۔ جس کی نسبت فاعل کی طرف کی جاتی ہے۔ جس کا ذکر ابھی ابھی کیا گیا۔ جیسے اکراہ‘ ضرورت‘ جنون یا عدم بلوغ وغیرہ۔ اس صورت میں فعل کا فاعل فوجداری طور پر مسؤل نہیں ہوتا۔ لیکن مدنی طور پر مسؤل ہوتا ہے اسے شخصی عدم مسؤلیت کہا جاتا ہے۔ اس کی دوسری صورت مادی عدم مسؤلیت ہے۔ جس کی نسبت فعل کی ماہیت اور طبیعت کی طرف کی جاتی ہے۔ جیسے دفاع شرعی یا (Self Defense) کی صورت میں کسی کو مالی تاوان دینا۔ تو اس صورت میں فاعل فوجداری اور مدنی دونوں اعتبار سے مسؤل نہیں گردانا جاتا۔
شارحین کے نزدیک پہلی صورت عدم مسؤلیت کے اسباب جبکہ دوسری صورت اسباب اباحت کے زمرے میں آتی ہے۔(18)
عبدالقادر عودہ شہیدؒ نے بھی ابوالحسن الآمدیؒ کے حوالہ سے بتایا ہے کہ عذر وہ ہوتا ہے۔ جب فاعل تکلیف یعنی خطاب کا محل نہ ہو۔ اس صورت میں غیر عاقل یا غیر مختار شرعی خطاب سے معذور متصور ہوگا۔(19)
فقہ اسلامی کی رو سے عذر کی صورتیں:
سابقہ صفحات میں علامہ ابن حجر اور دیگر فقھاء اور محدثین نے عذر کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ عذر کا اطلاق انسانی زندگی میں اس حالت پر ہوتا ہے۔ جو کسی مکلف پر طاری ہو۔ اوراس کی حالت اس بات کا تقاضا کرتی ہو کہ اس کے ساتھ رعایت کی جائے۔ اور اس حالت کی وجہ سے اُسے تکلیف اور شرعی امور کے امتثال سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔
گذشتہ صفحات میں عذر کی تعریف کے حوالے سے اس بات کی بھی نشاندہی کی جا چکی ہے کہ عذر کوئی ایسا امر ہے۔ جو شرعی امور یا واجبات کو ترک کرنے کا سبب بنتا ہے۔اور جس کے طاری ہونے کے نتیجے میں انسان پہلے کی طرح مکلف نہیں رہتا۔
گذشتہ صفحات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فقہی ماہرین کے نزدیک عذر جب ارتفاعِ مسؤلیت کا سبب بنتا ہے۔ تو وہ اس حالت میں کئے گئے کسی ایسے فعل کی سزا سے بھی مستثنیٰ ہوگا۔ جو کسی عام انسان کے بارے میں ازروئے شرع جرم کہلائی جاسکتی ہے۔
فقہ اسلامی کی رُو سے اس قسم کے اعذار کبھی داخلی اور کبھی خارجی عوارض کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔ فقھاء نے اس قسم کے عوارض کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ تاہم یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ اُصول فقہ کے مقابلے میں فقہ اسلامی کی رُو سے عارضہ بطور عذر یا عوارض بطور اعذار زیادہ تفصیل کی حامل ہیں۔ بایں ہمہ اس قسم کی تفصیل کسی نہ کسی شکل میں اُن عوارض کے زمرے میں آتی ہے جس کو اصول فقہ میں عوارض سماویہ اور عوارض مکتسبہ کا نام دیا گیا ہے۔
عوارض سماویہ:
وہ عوارض جن میں انسانی ارادہ و فعل کو کوئی دخل نہ ہو بلکہ یہ صاحب شرع کی جانب سے ثابت ہوتے ہیں۔ ان میں انسان کا اختیار نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے ان کی نسبت آسمان کی طرف کی جاتی ہے۔ کیونکہ جن امور میں انسان کو اختیار نہ ہو۔ ان کو آسمان کی طرف کرنا اسی معنی میں ہوتا ہے۔ کہ یہ انسان کی قدرت سے خارج ہیں۔
مثلاً جنون، صغر (کم سنی)، عتاہت، نسیان، نوم، اغماء، مرض، حیض، نفاس اور موت۔ (20)
عوارض مکتسبہ:
وہ عوارض جو انسانی ارادہ و اختیار سے وجود میں آئیں اور ان میں انسان کو کسب اور اختیار حاصل ہو یا اس لیے کہ آدمی ان کے روکنے میں کوشاں نہ ہو۔ ”ای اکتسبھا العبد او ترک ازالتھا“۔(21)
ان کی پھر دو قسمیں ہیں۔
اول:وہ امور جن میں انسان کی اپنی ذات کا دخل ہو۔ مثلاً جہل، سکر، ہزل، خطاء، سفر اور سفاہت
ثانی:وہ امور جو اس پر غیر کے لازم کرنے کی وجہ سے لازم ہو مثلاً اکراہ
عذر کی جدید طبی اور نفسیاتی صورتیں
۱۔مرگی اور ہسٹریا (Hysteria)
بعض اعصابی بیماریوں میں بھی مریض کا شعور اور اختیار ختم ہو جاتا ہے اور ان کا فہم و ادراک معدوم ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں ان سے ایسی حر کات اعمال اور اقوال سر زد ہوتے ہیں جن کو نہ وہ سمجھتے ہیں اور نہ ان کی حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں۔
اس ضمن میں فقہا ء کرام نے خصوصیت کے ساتھ اس قسم کی مر یضانہ کیفیتوں پر روشنی نہیں ڈالی ہے۔اس کی وجہ شاید یہ ہوسکتی ہو کہ اس وقت نفسیاتی اور طبعی علوم نے اس قدر ترقی نہیں کی تھی جس قدر کہ آج کر چکے ہیں۔ مگر قواعد شر یعت کی روشنی میں ان مریضانہ کیفیتوں کا حکم معلوم کر لینامشکل نہیں ہے۔
جس وقت مرگی کے مریض پر تشنجی دورے پڑتے ہیں تو اس کا ادراک و اختیار مفقود ہو جاتا ہے اور اس وقت اس سے ایسے اعمال سرزد ہو سکتے ہیں جن کا اسے افاقہ ہو جانے کے بعد بھی احساس نہ ہو کہ اس نے کیا کیا ہے۔
اسی طرح ہسٹیر یا کے مریض پر تشنجی دورے آتے ہیں جن میں وہ بے سمجھے ہذیان بکتا ہے جبکہ مالیخو لیا کا مریض ایسے تصور اور خیالات قائم کرتا ہے جن کی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور ان تصورات کے وقت وہ بلا جواز امور کا ارتکاب کر لیتا ہے۔
چنانچہ عبدالقادر عودہ نے التشریع الجنائی الاسلامی میں ان مریضوں اور ایسی ہی دیگر صورتوں کا حکم وہی لکھا ہے جو مجنون کا ہے بشر طیکہ ارتکاب جرم کے وقت ان کا ادراک مفقود ہو۔ یا ان کا ادراک معتوہ کے درجے میں کمزور ہو۔ اور اگر ان مریضوں کا وقت ارتکاب جرم ادراک و اختیار مفقود نہ ہو تو یہ فوجداری طور پر مسؤل ہوں گے۔(22)
۲۔ذہن پر غلط تصورات کا تسلط (تسلّط الأفکار الخبیثۃ)
افکارِ خبیثہ کا تسلط ایک ایسا عذر ہے جو جنون کے ساتھ ملحق ہے اور ذہن پر غلط تصورات کا تسلط بھی عوارض جدیدہ کی قسموں میں سے ایک قسم ہے۔ یہ ایک ایسی مر یضانہ کیفیت ہے جو اعصاب کی کمزوری سے رونما ہوتی ہے یا خاندانی وراثت سے منتقل ہوتی ہے اور انسان کے ذہن پر ایک تصور اس قدر چھا جاتا ہے کہ وہ اس کے نتیجے میں وہ شخص کوئی خاص کام یا عمل کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
مثال کے طور پرزیر نظر عارضہ سے متاثرہ شخص یہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ مظلوم ہے اور اسے کچھ لوگ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں یا مثلاً قتل کرنا یا زہر دینا چاہتے ہیں تو اس کے ذہن میں انتقام کا شدید جذبہ پیدا ہوجاتا ہے کہ جو لوگ اسے نقصان پہنچانا یاقتل کرنا چاہتے ہیں تووہ خود انہیں قتل کر دے اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی شخص کے ذہن پر یہ غلط تصور مسلط نہیں ہوتا بلکہ اس کا سر کش جبلی میلان اسے کسی جرم کے ارتکاب پر مجبور کر دیتا ہے۔
فقہاء کرام نے اس قسم کے مریضوں کا حکم مجنون کے ساتھ ملحق کیاہے۔ اب اگر ارتکابِ جرم کے وقت ان میں ادراک مفقود ہے یا ان کا ادراک اس قدر کمزور ہے کہ معتوہ کے درجے پر پہنچ گیا ہے تو وہ فوجداری طور پر مسؤل نہیں ہیں لیکن اس کے لیے نا قص اہلیت اداء ثابت ہوتی ہے مگر اہلیت وجوب مکمل طور پر باقی رہتی ہے۔ اسی بناء پر ان پر ایسے حقوق العباد جن سے مال مقصود ہو واجب ہو نگے لیکن سزائیں اورحدود ثابت نہ ہو گے۔ (23)
۳۔جذبات کی بر انگیختگی
شریعت اسلامیہ میں کوئی ایسا عذر نہیں ہے جو اہلیت وجوب یا اہلیت اداء کے منافی ہو۔ لہٰذا اس صورت میں جب ادراک و اختیار کی موجودگی بھی ہو جو انسان ارتکاب جرم کرے وہ اس جرم کے بارے میں فوجداری اور دیوانی دونوں طرح مسؤل ہے خواہ اس نے جرم کا ارتکاب کسی شدید جذبے کے زیر اثر کیا ہو اور خواہ اس کا یہ جذبہ شائستہ ہو یا کوئی سفلی میلان ہو۔ لہٰذا اگر کسی نے جذبہ انتقام کی شدت کے زیر اثر یا کسی دوسرے شخص کو انتہائی برا محسوس کرتے ہوئے ارتکاب جرم کیا تو وہ جواب دہ ہے۔ اسی طرح اگر کسی سے کوئی شخص شدید محبت رکھتا ہو اور وہ اسے اس کے تکالیف و مصائب سے نجات دلانے کے لیے قتل کر دے۔ تو وہ بھی مسؤل ہو گا۔ عرض جذبات کی شدت خواہ کسی درجے پر پہنچ جائے۔ مر تکب جرم فوجداری طور پر مسؤل ہے اور دیوانی طور پر بھی البتہ اگر تعزیری سزا ہو تو اس میں یہ عارضہ شدیدہ شر یعت کی نظر میں مؤثر ہو سکتا ہے۔ مگر حدود میں جذبہ شدید نہ مسؤ لیت پر اثر انداز ہے اور نہ سزا پر۔
شدید جذبات کی برانگیختگی شر یعت کی نظر میں نہ تو ارتکاب جرم کا جواز بنتا ہے اور نہ فو جداری مسؤ لیت سے مانع ہے۔ اگر اس کی کچھ تا ثیر ہے تو وہ تعزیری سزا میں ظاہر ہوتی ہے۔ مگر حدود میں اس کا کوئی اثر نہیں ہے۔
ظلم و اعتداء کے شدید خوف سے فو جداری مسؤ لیت ختم ہو جاتی ہے۔ بشر طیکہ مدافعت کی حالت شرعی موجود ہو یا اکراہ کی صورت ہو۔
مروجہ ملکی قوانین میں بھی شر یعت اسلامیہ کی طرح شدید جذبات کا اہلیت پر اور مسؤ لیت پر کوئی اثر نہیں ہوتا تاہم اگر عدالت محسوس کرے تو یہ جذبات سزا کی تخفیف کا سبب بن سکتے ہیں۔ البتہ بعض قوانین حالت اشتعال کو قانونی عذر مانتے ہیں جیسے فر انسیسی قانون جرائم قتل اور ضرب میں اشتعال کو بطور عذر تسلیم کرتا ہے اور جیسے مصری قانون حالت ِ ارتکاب زنا کو شوہر کے لیے عذر خیال کرتا ہے کہ وہ اپنی بیوی اور اس کے آشنا کو قتل کر دے۔ (24)
۴۔حرکت نو میہ (یقظۃ النوم)
یاتی بعض الناس افعالا وھو نائم دون ان یشعر‘ ویغلب ان تکون الحرکات التی یاتی بھا النائم تردیدا للحرکات التی اعتاد ان یأتیھا فی الیقظۃ۔ولکن یحدث ان یاتی بحرکات مخالفۃ لاعلاقۃ لھا بالحرکات التی یاتیھا وھو متیقظ۔(25)
ترجمہ:۔بعض اشخاص غیر شعوری طور پر سوتے ہوئے کوئی فعل انجام دیتے ہیں اور ان کی یہ حرکات ان حرکات کی تر دید ہوتی ہیں جو وہ حالت ِبیداری میں کرتے ہیں۔ مگر کبھی وہ حالت ِ خواب میں ایسی حرکات کرجاتے ہیں جن کا بیداری کی حالت کے اعمال سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
اس ضمن میں سائنسی نقطہ نگاہ سے عالم خواب میں چلنے پھرنے یا کچھ کرنے کی تو جیہہ یہ ہے کہ انسان کی تمام صلا حیتیں نیند سے متاثر نہیں ہوتیں۔ بلکہ بعض صلا حیتیں کسی نہ کسی درجے میں بیدار رہتی ہیں اور کبھی یہ صلاحیتیں غیر معمولی طور پر بیدار رہتی ہیں اور اس صورت میں سونے والا ایسے اعمال انجام دے لیتا ہے۔ جن کا اسے پتہ بھی نہیں چلتا اور جب یہ حالت ختم ہو جاتی ہے۔ تو پھر اپنی طبعی حالت پر آ جاتا ہے اور بیدار ہونے کے بعد اسے احساس بھی نہیں ہوتا کہ عالم خواب میں وہ کیا کرتا رہا ہے۔
شر یعت اسلامیہ میں ایک عمومی اصول یہ ہےکہ نائم یعنی سونےوالے پر سزا نہیں ہے کیونکہ ارشاد نبویﷺ ہے:
”رفع القلم عن ثلاث عن النائم حتی یستیقظ وعن الصبی حتی یکبر وعن المجنون حتی یعقل او یفیق“۔(26)
ترجمہ: تین افرادکے اعمال نہیں لکھے جاتے۔ ۱۔سونے والے کے یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے۔ ۲۔ بچے کے یہاں تک کے بالغ ہو جائے۔ ۳۔اور مجنون کے یہاں تک کہ اُسے فاقہ ہو جائے۔
اگرچہ حدیث میں حالت نوم اور حالت جنون کو ایک ساتھ بیان کر کے ان کا ایک ہی حکم بیان کیا گیا ہے۔ مگر فقہاء کرام حالت نوم کو اکراہ کے ساتھ ملحق کرتے ہیں۔ جنون کے ساتھ ملحق نہیں کرتے اور شاید اس کی حکمت یہ ہے کہ نائم متیقظ یعنی خواب میں جا گنے والے میں اد راک نوم موجود ہے مگر اختیار موجود نہیں ہے کیونکہ وقت عمل اس کے اپنے ارادے کو کوئی دخل نہیں ہوتا مگر اس کا ادراک موجود ہوتا ہے کیونکہ وہ نا سمجھی کے کام نہیں کرتا بلکہ اُسے مفید اور غیر مفید امور کی تمیز ہوتی ہے اور نقصان دہ امور سے اجتناب کرتا ہے۔
تاہم مروجہ قوانین میں یہ حالت جنون کے ساتھ ملحق ہے اوران کا اساس یہ ہے کہ نائم کا ادراک اور اختیار دونوں مفقود ہوتے ہیں اوراُسکےمیلانات اُس کے عضلات کو حرکت دیتے ہیں۔ مگر وہ خود اپنے عمل کو نہ دیکھتا ہے اور نہ سمجھتا ہے۔
عرض یہ کہ اس مسئلے میں شر یعت اسلامیہ اور مروجہ قوانین میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ اکراہ اور جنون سے شر یعت میں بھی سزاختم ہو جاتی ہے اور مروجہ ملکی قوانین میں بھی۔ اس لیے نائم کو خواہ مکرہ سمجھا جائے یا مجنون بہر صورت اس کے ان جرائم پر سزا نہیں ہے جن کا وہ حالت خواب میں ار تکاب کرے اور اس صورت میں وہ معذور سمجھا جائے گا۔(27)
۵۔مسمر یزم (عمل تنویم)
یہ مصنوعی نیند کی ایک صورت ہے جس میں ایک شخص عمل تنویم کرنے و الے کے اس طرح زیر اثر آ جاتا ہے کہ اس عمل کے دوران یا اس کے بعد عمل کرنے والا معمول کو جو بھی حکم دے وہ اُسے غیر شعوری طور پر اور بالکل مشینی انداز میں انجام دیتا ہے اور وہ عمل کرنے والے کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا اگرچہ ابھی تک یقینی طور پر یہ معلوم نہ ہو سکا کہ عمل تنویم کے دوران معمول پر کیا کیفیت طاری ہوتی ہے۔ مگر بعض اطباء کا خیال ہے کہ معمول حکمِ جرم کی خلاف ورزی کر سکتاہے۔ اس حالت پر اگر قواعد شر عیہ کی تطبیق کی جائے تو اس عمل تنویم کو طبعی نوم کے ساتھ ملحق کرنا چاہیے اس لیے معمول مکرہ ہے اور حالت اکراہ میں سزا نہیں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عمل تنویم کو جنون کے ساتھ ملحق کرنا دشوار ہے کیونکہ مصنوعی نیند سے ادراک ختم نہیں ہوتا صرف اختیار ختم ہو جاتا ہے۔
بیشتر ماہرین قانون کی رائے اس ضمن میں شر یعت اسلامیہ کے مطابق ہے چنانچہ ماہرین قانون عمل تنویم کو اکراہ کے ساتھ ملحق کرتے ہیں اگرچہ اس پر گفتگو جنون کے ذیل میں کرتے ہیں۔
عمل تنویم کا یہ حکم بایں صورت ہے کہ معمول کو جبرا ً معمول بنا یا گیا ہو یا عمل تنویم سے قبل معمول کا ارتکابِ جرم کے بارے میں کوئی ارادہ نہ ہو لیکن اگر معلوم ہو کہ عامل کا مقصد اُسے ارتکابِ جرم کی جانب متوجہ کرنا اور آمادہ کرنا ہے اور اس کے باوجود وہ عمل تنویم کو قبول کرے تو وہ ارتکاب جرم کو قصداکرنے والا متصور کیا جائے گا اور اس تنویم کو ایک وسیلہ سمجھا جائے گا اور وہ شر یعت کے عام اصولوں کے مطابق مسؤل ہو گا۔ اس ضمن میں مروجہ قوانین بھی شر یعت اسلامیہ سے متفق ہیں۔ (28)
۶۔ضعف ِ تمیز
بعض لوگوں میں مجنون اور معتوہ سے زیادہ ادراک موجود ہوتا ہے۔ مگرایسا ادراک نہیں ہوتا جیسا ایک مکمل انسان میں ہونا چاہیے چنانچہ ایسے لوگوں میں ادراک اور تمیز کی کمی ہوتی ہے اور اس کمزور ادراک کی بناء پر کسی فعل کی جانب تیزی سے سبقت کرجاتے ہیں۔تاہم ارتکاب جرم کے وقت ان میں اپنے فعل کا ادراک اور تمیز کچھ نہ کچھ موجود ہوتی ہے۔
اس ضمن میں قوانین شریعت اورمروجہ قوانین ایک دوسرے کےمطابق ہیں اوران قوانین کی روسےیہ کمزور ادراک والے سزا سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔اسی طرح جدید مروجہ قوانین میں بھی کمزور ادراک کے حامل لوگ سزا سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔
البتہ بعض ماہرین فاعل کو معذور خیال کرتے ہوئے تخفیف سزا کے قائل ہیں۔ جبکہ دیگر ماہرین سزا میں شدت کے قائل ہیں کیونکہ ان کے نزدیک سخت سزا اس قسم کے لوگو ں کو ارتکاب جرم سے باز رکھے گا۔
علاوہ ازیں قواعد شرعیہ کے مطابق تعزیراتی سزاؤں میں تخفیف ہو سکتی ہے مگر حدود و قصاص میں نہ تخفیف ہو سکتی ہےاورنہ انہیں تبدیل کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ جرائم انتہائی شدید ہیں اوراشخاص اور امن عامہ سے ان کا گہرا تعلق ہے۔(29)
۷۔گونگے بہرے ا نسان
گونگے بہرے انسان اپنے جرائم کے بارے میں فو جداری طور پر مسؤل ہیں۔ بشر طیکہ وقت ارتکابِ جرم ان میں ادراک و اختیار موجود ہو۔ اگر ان کی حالت ان کے ادراک پر اس حد تک اثر انداز ہو جائے کہ انہیں مجنون اور معتوہ کے درجے میں تصور کیا جا سکے تو ان پر مسؤ لیت نہیں ہے۔
امام ابو حنیفہؒ اور ان کے اصحاب کی رائے یہ ہے کہ گونگے بہرے لوگوں سے حدساقط ہے اور انہیں صرف تعزیزی سزا دی جائے گی اگرچہ وہ اقرار جرم بھی کر لیں کیونکہ گو نگا بہرا ہونا شبہ ہے اور ان کا اقرار اشارے سے ہوتا ہے۔ممکن ہے کہ ان کا اپنے اشارے سے کوئی اور مفہوم مراد ہو۔ نیز یہ کہ اگر وہ بول سکتے تو انہیں الزام کو رد کرنے اور شاہدوں (گواہوں) پر جرح کرنے کا اختیار ہوتا۔ ائمہ ثلاثہ کی رائے اس کے بر خلاف ہے۔ چنانچہ یہ ائمہ گونگے بہرے کے اشارے کو درست تسلیم کرتے ہیں اور سقوطِ حد کے قائل نہیں ہیں۔چنانچہ یہ فرماتے ہیں۔
الاشارۃ المعھودۃ للاخرس کالبیان باللسان۔(30)
یعنی گونگے کا معین اشارہ زبان سے بیان کرنے کی مانند ہے۔یہاں تک کہ نکاح وطلاق، خریدو فروخت، رہن وھبہ، اقرار ویمین میں اس پر احکام صادر ہوں گے۔(31)
قانونی عذر کے اطلاق سے متعلق قواعد فقہیہ کا تعارف
قانونی عذر کے اطلاق سے متعلق فقہ اسلامی کے بہت سارے فقہی قواعد ہیں جن کا مختصر تعارف مندرجہ ذیل ہے:
۱۔ماجاز لعذر بطل بزوالہ۔(32)(جو امر کسی عذر کے سبب جائز ہوا ہو۔ وہ اس عذر کے زائل ہونے کے ساتھ ہی باطل ہوجاتا ہے)
یعنی جب کوئی چیز عذر کی وجہ سے جائز ہوجاتی ہو تو جب وہ عذر ختم ہوجائیں اور اصل پر عمل کرنا ممکن ہو تو پھر اصل پر عمل کرنا ضروری ہوگا وگرنہ اصل اور خلف کا جمع ہونا لازم آئے گا جیسے حقیقت اور مجاز کو ایک وقت میں جمع کرنا ٹھیک نہیں ہے کیونکہ یہ قاعدہ ہے جب تک حقیقت پر عمل کرنا ممکن ہو تو مجاز کی طرف نہیں جائیں گے۔ لیکن جب حقیقت پر عمل کرنا متعذر ہوجائے تو پھر مجاز کی طرف جا سکتے ہیں۔مثلاً
العاری اذا وجد ثوبا یستر عورتہ لان الطھارۃ والستر والقیام والقرا ء ۃ فرض علی القادر علیھا والسقوط عن ھٰؤلاء للعجز وقد زال۔یعنی جب شرعی لباس پر قادر نہ ہونے والے کو اسی حالت میں نماز پڑھنے کی اجازت ہے مگر جب وہ اتنے کپڑے پر قادر ہوجائے جس سے وہ ستر چھپا سکے تو پھر ستر کا چھپانا اس پر لازم ہوجاتا ہے اور پھر بغیر ستر چھپائے نماز نہیں ہو گی۔ کیونکہ طہارت‘ ستر کا ڈھانپنا‘ قیام‘ قرات‘ فرض ہے۔اور جو کوئی اس پر قادر نہ ہو تو اس کے لئے عجز کی وجہ سے گنجائش ہے مگر جب یہ عجز زائل ہوجائیں تو پھر فرض پر عمل کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔اسی طرح متیمم جب پانی پالے تو اُس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔اسی طرح اشارہ کے ساتھ نماز پڑھنے والا جب رکوع سجود پر قادر ہوجائے تو اس کی نماز اشارے سے نہیں ہوگی۔ وگرنہ پھر اصل اور فرع کا جمع ہونا لازم آئے گا۔
۲۔الضرورات تبیح المحظورات۔(33) ( ضرورتیں محظورات (ممنوعات) کو جائز کر دیتی ہیں)
یہ قاعدہ دراصل قرآنِ کریم کی آیت سے ماخوذ ہے اور اللہ کا قول ہے
اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَیْہِ۔ (34)
اور اضطرار حاجت شدیدہ کو کہتے ہیں جبکہ ممنوع چیز کے کرنے سے منع کیا گیا ہے مگر یہی ممنوع چیز ضرورت کے وقت جائز ہوجاتی ہے جیسے کہ شدید بھوک کی حالت میں مردار کا کھانا۔اورشراب کا پینا شدید پیاس کی حالت میں۔
۳۔الضرورات تقدر بقدرھا۔(35)(ضرورتوں کی مقدار اُن کے اندازہ کے اعتبار سے متعین کی جاتی ہے) ضرورت کے وقت ممنوع چیز کے مباح ہونے کی مقدار معین ہے اور اس سے تجاوز نہیں کر سکتے جیسا کہ شدید بھوک کی حالت میں مردار کا کھانا اتنا جائز ہے جس سے ہلاکت سے بچ جائے۔اور اسی قاعدہ پر بڑے سارے فقہی مسائل کا دارومدار ہے۔
۴۔المشقۃ تجلب التیسیر۔
یعنی ان الصعوبۃ تصیر سبب للتسھیل ویلزم التوسیع فی وقت المضایقۃ یتفرع علی ھذا الاصل کثیر من الاحکام الفقھیۃ کالقرض والحوالۃوالحجروغیرذالک وماجوزہ الفقھاءمن الرخص والتخفیفات فی الاحکام الشرعیۃمستنبط من ھذہ القاعدۃ۔(36)
(مشقت آسانی کو پیدا کرتی ہے یعنی سختی سہولت کی موجب ہوتی ہے اور تنگی کے وقت میں وسعت ضروری ہوجاتی ہے۔ اس کلیہ پر بہت سے فقہی احکام مبنی ہیں مثلاً قرض‘ حوالگی اور حجر (محرومی) وغیرہ اور فقہاء نے شرعی احکام میں جورخصتیں اور سہولتیں جائز کی ہیں وہ اسی قاعدے سے مستنبط ہیں)
۵۔ما حرم فعلہ حرم طلبہ۔(37) ( جس کام کا کرنا حرام ہوں۔ اُس کام کو طلب کرنا بھی حرام ہے)
ہر وہ شی ئجس کا کرنا (مرتکب ہونا) ناجائز ہوں۔اس کا دوسرے سے طلب عمل بھی ناجائز ہے۔ چاہے اس کا تعلق قول سے ہو یا عمل سے ہو۔ بایں صورت کہ وہ واسطہ ہو یا ذی واسطہ ہو۔
جیسے انسان پر ظلم کرنا حرام ہے۔ اور رشوت لینا‘جھوٹی گواہی دینا‘ جھوٹی قسمیں کھانا حرام ہے۔ اسی طرح اوروں سے طلب کرنا بھی حرام ہیں۔
کہ دوسرے کو ان کے کرنے کا حکم دیں۔ یا شوق دلائیں یا اس کے لئے آلہ یا واسطہ بن جائے۔
۶۔الاشارات المعھودۃ للاخرس کالبیان باللسان۔(38) (گونگے کے معین اشارات زبان سے بیان کرنے کے مانندہے)
تشریح:گونگےکےلئےمعین اشارات جوعرف میں عام ہوں۔ جیسےاشارہ کرناآنکھ سے یا سر سے یا ہاتھ اور پیر سے تو یہ نطق”کلام“کےحکم میں ہیں۔ یہاں تک کہ نکاح وطلاق،خریدوفروخت،رہن وھبہ،اقرارویمین میں اس پراحکام صادر ہوں گے۔
۷۔البینۃ حجۃ متعدیۃ والاقرار حجۃ قاصرۃ۔(39) ( گواہ دلیل متعدیہ ہوتا ہے جب اقرار دلیل قاصرہ ہے)
تشریح:گواہ دلیل متعدیہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک گواہ کسی معاملے میں جو گواہی دیتا ہے۔ وہ اپنے اثرات ونتائج کے اعتبار سے محض فریقین مقدمہ پر ہی اثر انداز نہیں ہوتی۔ بلکہ دیگر افراد ومعاملات پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔ مثلاً کسی مقدمے میں یہ گواہی دی جائے کہ زید عمر کا بیٹا ہے۔ تو اس سے نہ صرف زید کا نسب ثابت ہوگا۔ بلکہ اس دلیل کے نتیجے میں زید عمر کا وارث بھی تسلیم کیا جائے گا۔
حجۃ قاصرہ سے مراد یہ ہے کہ اقرار کا اثر مقرتک محدود رہتا ہے۔ اس کااثر کسی دوسرے شخص کی طرف متعدی نہیں ہوتا۔ یعنی اقرار صرف اس شخص کے حق میں معتبر ہے جو اقرار کررہا ہو۔ اگر اس اقرار کا اثر کسی دوسرے شخص کے حق پر پڑتا ہو تو اس دوسرے شخص کے حق میں اس کا اعتبار نہیں کیونکہ مقرکو اپنے علاوہ دوسرے پر ولایت نہیں ہوتی۔ اس لیے مقرکی ذات پر ہی اکتفا کیا جائے گا۔
اس حوالہ سے جب فقہی اور قانونی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اقرار کا دائرہ مقر کی ذات تک محدود ہے یا کوئی بھی شخص (مقر) اپنے اقرار پر ماخوذ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عدالت کی نگاہوں میں اگر کوئی مقر دوسرے کو اپنے اقرار میں اپنا شریک جرم (Accomplice) قرار دینا چاہے تو عدالت اس کو شریک جرم قرار نہیں دے گی کیونکہ حجت قاصرہ کے طور پر اقرار ثانی الذکر شخص کے حق میں عذر ہے۔
۸۔المرء مواخذ باقرارہٖ۔(40) ( آدمی اپنے اقرار سے پکڑا جاتا ہے)
شرعی طور پر اقرار حق غیر کو اپنے نفس پر ثابت کرناہے کہ جب خبر سچ وجھوٹ کے درمیان متردّد ہوں تو اس وقت مرد کے اقرار کا اعتبار ہوگا۔اور جب اس نے اقرار کر لیا تو پھر رجوع نہیں کر سکتا۔ اس لئے کہ رجوع میں تضاد ہے۔مثلاً زید عمر کے لئے ایک ہزار روپے کا اقرار کرتا ہے تو پھر اپنے اس اقرار سے رجوع نہیں کر سکتا۔
۹۔الاضطرار لایبطل حق الغیر۔
یتفرع علی ھذہ القاعدۃ انہ لو اضطر انسان من الجوع فاکل طعام الاخر یضمن قیمتہ۔(41)
ترجمہ: اضطرار دوسرے کا حق باطل نہیں کرتا۔ اس قاعدہ پر یہ امر مبنی ہے کہ جب انسان بھوک سے بیتاب ہو اور کسی دوسرے شخص کا کھانا کھالے تو اس کھانے کی قیمت اس کے ذمہ واجب ہو گی۔
۱۰۔الضرر لایکون قدیما۔(42): (ضرر قدیم نہیں ہوتا)
تشریح:یعنی ہر وہ شی جو غیر مشروع ہوں۔ اور اس میں ضرر ہوں۔تو وہ زائل ہوجائیگا۔ اور قدیم اور جدیدمیں کوئی فرق نہیں اس لئے کہ ضرر دونوں میں مشترک علت ہیں۔
۱۱۔لا حجۃ مع الاحتمال الناشئی عن دلیل۔(43) (جو احتمال دلیل سے پیدا ہو وہ دلیل نہیں بن سکتا)
مثلاً ایک شخص نے مرض الموت میں اپنے ایک وارث کے قرض کا اقرار کیا تو وہ اقرار اس وقت تک صحیح نہ ہوگا جب تک دوسرے ورثاء اس کی تصدیق نہ کر دیں کیونکہ اس کا احتمال ہے کہ مریض نے اس اقرار قرض سے دوسرے تمام ورثاء کو ورثہ سے محروم کردینے کا ارادہ کیا ہو۔اور اس حوالے سے یہ احتمال دیگر ورثاء کے حق میں عذر متصور ہوگا جیسے کہ طلاق فار مطلقہ کے حق میں۔ کیونکہ وہ اقرار بحالت مرض الموت کیا گیالیکن اگر قرض کا اقرار صحت وتندرستی کے زمانہ میں کیا گیا ہو تو ایسا اقرار جائز ہوگا کیونکہ صحت کی حالت میں دوسرے تمام ورثاء کو محروم کر دینے کے ارادہ کا محض احتمال ایک وہم ہے اور وہم اقرار کی دلیل میں مانع نہیں ہو سکتا۔
مروجہ ملکی قوانین اور عذر
قانونی لغات کی رو سے عذر کی تعریف
قانونی اعتبار سے جب عذر کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد کوئی ایسا قانونی وجہ ہوتی ہے جو قانون کی نظر میں قابل توجہ ہو۔ اور جسے قانون بطور عذر تسلیم کرتا ہو۔ (44)
اسی طرح ایک معنی یہ بیان کیا گیا ہے
العذر تعذر علیہ الامر بمعنی تعسر علیہ۔(45)
عذر کا مطلب ہے جب کسی پر کسی امر کا بجا لانا شاق گزرے یعنی وہ اس کے لئے مشکل بن جائے۔
المعجم الوسیط میں بھی بذیل مادہ عذر یہی معنی کئے گئے ہیں۔(46)
EXCUSE.
A Lawful Excuse is a defence that may be raised by the defendant at trial. The onus/burden is on the defendant that even though they were breaking a law, they have a legal reason why they did it, and thus should not be found guilty. Example. Medical Emergency, if you get a ticket for speeding, but the reason you were speeding was you that were driving a very sick friend to the hospital.
An Excuse is essentially a defence for an individual's conduct that is intended to mitigate the individual's blame - worthiness for a particulars act or to explain why the individual acted in a specific manner. A driver sued for negligence, for exmaple, might raise the defence of excuse if the driver was rushing an injured person to a hospital.( (47
مذکورہ عبارت میں کہا گیا ہے کہ Lawful Excuse ایک دفاعی طریقہ ہے۔ البتہ اِس اَمر کی ذمہ داری، بہرحال، مدعا علیہ پر ہے کہ وہ ثابت کرے گا کہ اگر وہ قانون شکنی کا ملزم ہے تو اس کے پاس قانونی جواز موجود ہے جس کی بنا پر اُسے مجرم قرار نہیں دیا جانا چاہئے۔ اس کی مثال میڈیکل ایمرجنسی کی ہے، اگر آپ کا مقررہ حد رفتار سے زائد گاڑی چلانے پر چالان کیا جاتا ہے تو آپ اس عذر کی وجہ سے اپنا دفاع کر سکتے ہیں کہ آپ نے ایسا مجبوری کی وجہ سے کیا۔ اور وہ مجبوری یہ تھی کہ ایک انتہائی بیمار دوست کو جلد از جلد ہسپتال پہنچا کر اس کی جان بچانا چاہتے تھے۔
دراصل کوئی عذر بنیادی طور پر اس لئے ہوتا ہے کہ کسی فرد پر لگائے گئے الزام کی شدت کو کم کیا جا سکے۔ کسی خاص معاملہ میں ایک طرزِ عمل کی وضاحت کرکے دفاع کیا جا سکے۔مثلا اگر ایک ڈرائیور پر غفلت کے مرتکب ہونے کا کیس ہو تو وہ اپنے دفاع میں یہ عذر پیش کر سکتا ہے کہ اس نے ایسا مجبوری کی وجہ سے کیا تاکہ ایک زخمی کو فوری طور پر ہسپتال پہنچا سکے۔
مروجہ ملکی قوانین کی رو سے عذر کی ممکنہ صورتیں
مجموعہ تعزیرات پاکستان میں لفظ عذر کی نپی تلی تشریح تو نہیں کی گئی ہے۔ تاہم جیسا کہ تعزیرات پاکستان کے باب نمبر 4 کے متعلقہ دفعات میں کہا گیا کہ کچھ افراد ارتکاب جرم کے باوجود اس جرم پر مجوزہ سزا سے مستثنیٰ ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ جب استثناء کا لفظ بولاجاتا ہے۔ تو اس کا لازمی مطلب یہی ہوتا ہے کہ سزا اور مجرم کے درمیان کوئی ایسی بات ضرور آڑے آئی ہے۔ جومجرم کو سزا سے دور رکھتی ہے۔ اور سزا کو لاگو ہونے نہیں دیتی۔ اس قسم کی استثنائی صورتیں لازماً عذر کے زمرہ میں آتی ہیں۔
قانون کے تحت عذر کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔ اور اس میں قانونی مجبوریاں‘ خطائیں‘ بھول چوک جسمانی اور ذہنی عوارض اور وہ ضرورتیں بھی شامل ہیں۔ جن کی تکمیل پر انسانی حیات کے بقاء کا انحصار ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ مجموعہ تعزیرات پاکستان کا دفعہ نمبر ۴۹ بابت فعل بصورت اکراہ، دفعہ ۶۹ بابت حفاظت خود اختیاری دفعہ نمبر ۷۹ بابت حق حفاظت جان واملاک، دفعہ نمبر۸۹ بابت حق دفاع، دفعہ نمبر ۶۰۱ کے تحت اگر مذکورہ وجوہ کی بناء پر کسی فاعل کا فعل اور ردِّعمل کسی ایسے فعل پر منتج ہوجائے۔ جوازروئے قانون جرم مستوجب سزا ہو۔ تو اس صورت میں مندرجہ بالا وجوہات کو عذر مان کر ملزم کو اصل سزاسے استثناء حاصل ہوگی۔
مذکورہ دفعات باب نمبر ۲بذیل عام مستثنیات میں ذکر کئے گئے ہیں۔(48)
قانون قصاص ودیت کے تحت بھی اکراہ کو بطور عذر مانا گیا ہے۔
اس ضمن میں دفعہ نمبر ۳۰۳ کی تشریحی نوٹ کو دیکھا جا سکتا ہے جہاں اکراہ کی صورت میں شراب نوشی کی سزا ساقط ہوتی ہے۔ تاہم قصاص ودیت کے سلسلے میں سزا میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔(49)
قانون شہادت مجریہ ۴۸۹۱ء کے آرٹیکل نمبر ۷۱ میں اہلیت شہادت کے تحت پاگل اور اس قسم کے دوسرے معذور افراد شہادت سے مستثنیٰ قرار دئیے گئے ہیں۔(50)
حدود آرڈیننس بابت ۹۷۹۱ء جرم خلاف اموال کے دفعہ نمبر ۰۱ کے شق نمبر رکے تحت اکراہ اور اضطرار کو عذر مان کر ملزم سے حد سرقہ کو ساقط کرنے کا حکم دیا گیا۔(51)
مسلم فیملی لاء مجریہ ۲۶۹۱ء بابت ولایت دفعہ نمبر ۵۱ کے تحت کوئی بھی ولی کسی عمرانی معاہدے کا حصہ نہیں بن سکتا۔ (52)
قانون میعاد سماعت (Limitation Act) ۸۰۹۱ء کے دفعہ نمبر۶ کے تحت عدم بلوغ‘ پاگل پن اور اس کے ہم مثل عوارض کو معذور گردانا گیا ہے۔ لہٰذا دفعہ نمبر۶ کے تحت اگر وہ ادخالِ دعویٰ میں تاخیر کرے۔ تو اُن پر مذکورہ قانون کا دفعہ نمبر۳ بابت منسوخی مقدمات بعد از مرورِ میعاد کا اطلاق نہیں ہوتا۔(53)
مجموعہ ضابطہ دیوانی کے دفعہ نمبر ۷۴۱ کے تحت معذور افراد کے ولی یا رفیق کی طرف سے اُس کے حق میں اقرار یا رضامندی کو قبول کیا گیا ہے۔(54)
قانون معاہدہ مجریہ ۲۷۸۱ء (The Contract Act) کے دفعہ نمبر ۱۱، ۲۱، ۳۱، ۴۱، ۵۱ اور ۶۱، کے تحت بھی عدم بلوغ، جنون، جبرواکراہ، اضطرار، اور اس قسم کے دوسرے عوارض کے نتیجے میں کئے گئے معاہدے کو بوجہ عذر غیر جائز معاہدے (Voidable and Void Contract) سے تعبیر کیا گیا ہے۔(55)
خلا صۃ البحث
مذکورہ بحث و تفصیل کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ بعض اعصابی بیماریوں میں بھی مریض کا شعور اور اختیا رختم ہو جاتاہے اوران کا فہم ادراک معدوم ہو جاتاہے ۔ایسی صورت میں ان سے ایسی حرکات و اعما ل اور اقوال سر زد ہو جاتے ہیں جن کو نہ وہ سمجھتے ہیں اور نہ ان کی حقیقت سے آشنا ہو تے ہیں ۔اس ضمن میں فقہا ء کرام نے خصوصیت کے ساتھ اس قسم کی مریضانہ کیفیتوں پر روشنی نہیں ڈالی ہے شاید اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہو کہ اس وقت نفسیاتی اور طبی علو م نے اس قدر ترقی نہیں کی تھی جس قدر کہ آج کرچکے ہیں مگر قواعد شریعت کی روشنی میں ان مریضانہ کیفیتوں کا حکم معلوم کرلینا مشکل نہیں ہے ۔
اسی طر ملکی قوانین میں بھی عذر کی نپی تلی تشریح تو نہیں کی گئی ہے تاہم قانون کے تحت عذر کا دائرہ کا ربہت وسیع ہے اور اس میں قانونی مجبوریاں، خطائیں ،بھول چوک ،جسمانی اور ذہنی عوارض اور وہ ضرورتیں بھی شامل ہیں جن کی تکمیل پر انسانی حیات کے بقاء کا انحصار ہوتاہے ۔ظاہر ہے کہ جب استثنا ء کا لفظ بولا جاتاہے تو اس کا لازمی مطلب یہ ہوتاہے کہ سزا اور مجرم کے درمیان کوئی ایسی بات ضرورآڑے آئی ہے جو مجرم کو سزا سے دوررکھتی ہے اور سزا کو لا گو نہیں ہونے دیتی ۔اس قسم کی استثنائی صورتیں لا زما عذر کے زمرہ میں آتی ہیں ۔
حواشی و حوالہ جات
1۔القرآن: التوبہ۹/90
2۔الآلوسی، شہاب الدین ابو الفضل،(م۔1270ھ)، روح المعانی، (مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)، سورۃ التوبۃ، آیت نمبر 90
3۔القرطبی، محمد بن احمد، ابو عبداللہ،(م۔671ھ)، الجامع لاحکام القرآن،( داراحیاء التراث، بیروت ۵۶۹۱ء،)سورۃ التوبۃ آیت نمبر 90
البغوی، ابو محمد، الحسین بن مسعود،(م۔516ھ)،معالم التنزیل فی التفسیر والتأویل، (دارالفکر،بیروت 1405ء) سورۃ التوبۃ آیت نمبر 90
4۔الطبری، محمد بن جریر،(م۔310ھ)، جامع البیان فی تفسیرالقرآن، دارالمعرفۃ، بیروت 1986ء سورۃ التوبۃ آیت نمبر 90
5۔القرآن:المرسلات ۷۷/36
6۔السیوطی، جلال الدین، الامام،(م۔911ھ)، تفسیر جلالین،( دارالحدیث القاہرہ) ، سورۃ المرسلٰت، آیت نمبر92
الصابونی، محمد علی،(م۔774ھ)، صفوۃ التفاسیر، (مکتبہ برھان، کراچی1976ء)، سورۃ المرسلٰت آیت نمبر 92
القرطبی، الجامع لاحکام القرآن، مذکور، سورۃ المرسلٰت آیت نمبر 92
7۔القرآن:التوبہ۹/94
8۔الرازی، فخر الدین، الامام،(م۔606ھ)، التفسیر الکبیر،( دارالکتب العلمیہ تہران)، سورۃ التوبۃ آیت نمبر 94
الأندلسی،محمد بن یوسف،ابوحیان، (م754ھ)، (البحرالمحیط، دارالفکر، بیروت، 1983ء)، سورۃ التوبۃ آیت نمبر 94
9۔ا لترمذی، الجامع السنن، مذکور، (کتاب الصلوۃ، باب ماجاء فی الجمع بین الصلاتین فی الحضر)، ۱/357
10۔ایضاً
11۔البخاری،محمد بن اسماعیل ،(م -256ھ)،الجامع الصحیح،(دارطوق النجاۃ،بیروت)،(باب من بلغ ستین سنۃ فقد اعذر اللہ الیہ فی العمر)،۸/89
12۔العسقلانی، احمدبن علی بن حجر،حافظ،شہاب الدین،(م-852ھ) ،فتح الباری شرح صحیح البخاری، (دارالفکر، بیروت،1428ھ) (کتاب الرقاق،باب من بلغ ستین سنۃ فقد اعذر اللہ الیہ فی العمر )
13۔سعدی ابو جیب، القاموس الفقہی، (ادارۃ القرآن و العلوم الاسلامیہ، کراچی، 1397ء )، ص 245
14۔قلعہ جی محمد رواس، معجم لغۃ الفقھاء،(ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی 1397ھ)،بذیل مادہ عذر، ص 307
15۔المقری، احمد بن محمد،(م۔770ھ)، المصباح المنیر،( مطبع امیریہ، قاہرہ،1926ء)، بذیل مادہ عذر
الرازی ،زین الدین، محمد بن ابی بکر، ، (م۔۶۶۶ھ)، مختار الصحاح، (المکتبہ العصریہ ، بیروت 1420ھ)، بذیل مادہ عذر
16۔ الدکتور، قطب مصطفی سانو، معجم مصطلحات اصول الفقہ،(دار الفکر المعاصر، بیروت،۲۰۰۲ء)، بذیل مادہ عذر
17۔سعدی،ابوجیب،القاموس الفقہی،مذکور، بذیل مادہ عذر
18۔جندی، عبدالملک، الموسوعۃ الجنائیہ، (داراحیاء، التراث العربی،بیروت 1360ھ)، ۱/۴۷۴ومابعد
19۔عودہ، عبدالقادر،(م۔1385ھ)، التشریع الجنائی الاسلامی مقارناً بالقانون الوضعی، (دارالکتب العربی، بیروت) ، بذیل مادہ
نمبر ۲۷۲، نظریہ، المسئولیۃ الجنائیہ فی الشریعہ
20۔البخاری، عبدالعزیز بن احمد،علاؤ الدین،(م۔730ھ)، کشف الاسرار علی اصول فخر الإسلام البزدوی،( مکتبہ العبیکان، 1997ء) ۴/370
رحمانی،خالد سیف اللہ، قاموس الفقہ،(زمزم پبلشرز،کراچی 2007ء) ، ۲/ 259
الدکتور،عبدالکریم،زیدان، الو جیز فی اُصول الفقہ،(مکتبہ رحمانیہ ،لاہور) ، ص ۱۲۱
21۔رحمانی، سیف اللہ، قاموس الفقہ،مذکور، ۲/ 259
امیر بادشاہ، محمد امین بن محمود،(م۔978ھ)، تیسیرالتحریر،(دارالفکر، بیروت )، ۲/258
22۔عودہ،عبدالقادر، التشریع الجنائی الاسلامی مقارناً بالقانون الوضعی،بذیل مادہ نمبر 418، الصرع والھستیریا وماأشبہ، نمبر417، ۱/587-588
23۔ایضاً، بذیل مادہ نمبر 418، تسلط الأفکار الخبیثۃ،
24۔ایضاً، بذیل مادہ نمبر ۴۲۴، ھیاج العواطف، ۱/592ومابعد
25۔ایضاً، ۱/590
26۔ ابوداؤد، سلیمان بن الاشعث ،السجستانی ،(م-275ھ )السنن،( مکتبہ العصریہ،بیروت )(باب ماجاء فی المجنون)، حدیث نمبر 4401
النسائی،ابوعبدالرحمٰن،احمد بن شعیب،(م-302ھ)،السنن،(مطبع مجتبائی،دہلی،1991ء)،( کتاب الطلاق،باب مالایقع طلاقہ من الازواج،حدیث نمبر3465
27۔عودہ،ایضاً،التشریع الجنائی الاسلامی ، بذیل مادہ نمبر 422، الحرکۃ النومیۃ
28۔ایضاً، بذیل مادہ نمبر 423، التنویم المقناطیسی، ۱/591ومابعد
29۔ایضاً، بذیل مادہ نمبر ۰۲۴،ضعف التمیز، ۱/589
30۔ الاتاسی،محمد خالد،شرح المجلہ لاحکام العدلیۃ،( مکتبہ اسلامیہ کوئٹہ، 1403ھ)، ۱/193
تنزیل الرحمن، جسٹس، قانونی لغت،(پی ایل ڈی پبلشرز،لاہور،2011ء،چودھواں ایڈیشن) ، ص554
31۔عودہ، ایضاً، التشریع الجنائی الاسلامی، بذیل مادہ نمبر 421، الصم البکم، ۱/589 ومابعد
32۔الاتاسی، ایضاً، شرح المجلہ ، ۱/59۔60
33۔ایضاً ، ۱/۵۵
34۔القرآن:الانعام ۶/119
35۔ابن نجیم،زین الدین بن ابراہیم بن محمد،الامام،(-970ھ)،الاشباہ والنظائرعلی مذہب ابی حنیفۃ النعمان،(دارالکتب العلمیہ،بیروت،1419ھ)، 87
تنزیل الرحمن، ایضاً،قانونی لغت ، ص۵۳۵
36۔ابن نجیم، ایضاً ،الاشباہ والنظائر، 87
تنزیل الرحمن، ایضاً ،قانونی لغت، مذکور، ص534
37۔الاتاسی، ایضاً، شرح المجلہ، ۱/78
38۔ایضاً ، ۱/193
ابن نجیم، ایضاً ،الاشباہ والنظائر ،87
39۔تنزیل الرحمن، ایضاً، قانونی لغت، ص۵۴۵۔546
40۔الاتاسی، ایضاً، شرح المجلہ ، ۱/226
41۔تنزیل الرحمن، ایضاً، قانونی لغت، ص537
42۔الاتاسی، ایضاً ،شرح المجلہ، ۱/24
43۔تنزیل الرحمن، ایضاً ،قانونی لغت، ص544
44۔ تنزیل الرحمن، ایضاً ،قانونی لغت، بذیل مادہLawful, Excuse ، ص216
45۔فیروز آبادی، محمد بن یعقوب،(م۔817ھ)،القاموس المحیط،مذکور، بذیل مادہ،عذر
46۔ابراہیم مصطفی،احمد الزیات،حامد عبدالقادر،محمد النجار،مجمع اللغۃ العربیۃ بالقاہرہ،المعجم الوسیط،(دارالدعوۃ،مصر)،بذیل مادہ، عذر
47۔zaka336@gmail.com (10-9-2013) Time: 8:16pm
48۔نظامی،محمدمظہرحسن،(مرتب)مجموعہ تعزیرات پاکستان مجریہ1860ء،( PLD لاہور)،دفعہ نمبر94،96،97،98 ،106
49۔قانون قصاص ودیت مجریہ ۲۰۰۲ء، دفعہ ۳۰۳، ص165
50۔قانون شہادت مجریہ 1984ء ، (منصور بک ہاؤس، لاہور 2012ء)، آرٹیکل 17، ص ۷۷
51۔میجرایکٹ، حدود آرڈیننس، جرم برخلاف اموال،،(القانون پبلشرز،لاہور،ایڈیشن 45،2012ء) باب نمبر 34،دفعہ نمبر 10
52۔حکیم امین بخش، مینول آف فیملی لاز، (منصور بک ہاؤس، لاہور، 2011)، ص712
53۔قانون میعاد سماعت مجریہ1908ء، (The Limitation Act)، (منصور بک ہاؤس، لاہور 2012ء)، ص 17ومابعد
54۔مجموعہ ضابطہ دیوانی،مجریہ 1908ء،(منصور بک ہاؤس،لاہور، 2010ء)، ص 71
55۔قانون معاہدہ مجریہ1872ء، (The Contract Act)،( سول اینڈ کریمنل لاء پبلیکشنز، لاہور)، ص40 ومابعد
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 5 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 5 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 5 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 5 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 5 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 5 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 5 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 5 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 5 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 5 Issue 1 | 2018 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |