2
2
2015
1682060029336_1020
94-106
https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/98/87
https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/98
حکمت الہی روز اول سے یہ رہی ہے کہ انسانی فلاح وبہبود میں مسلسل اِضافہ ہو ا ور نقصانات کا ازالہ ہوتا رہے اور اِس کی دو ممکنہ صورتیں ہو سکتی ہیں:
۱: پوری انسانیت کی خاطر ایسے اصول اور ضوابط وضع کئے جائیں جن سے خاطر خواہ فوائد حاصل ہو۔
۲: نقصانات اور مضرت سے بچنے کے لئے حدود اور قیود متعین کئے جائیں۔
اسی مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺ کو ختمِ نبوت سے سرفراز فرمایا اور الیوم اکملت لکم دینکم اور لا رطب ولا یابس اِلّا فی کتٰب مبین جیسی آ یات سے نوازا۔
قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں مذکورہ احکامات محدود اور مجمل ہیں۔یہ احکامات اکثر کلیات کی شکل میں ہیں لیکن ان کلیات میں بے شمار جزئیات کی گنجائش موجود ہے۔حالاتِ زمانہ میں تغیرات اور تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں، لوگوں کے رسم ورواج اور عرف میں انقلابات آتے رہتے ہی، جدید سہولیات اور گلوبلائزیشن نت نئے مسائل کو جنم دے رہے ہیں، بقولِ فقہاء کرام:
النصوص معدودة والحوادث ممدودة (نصوص محدود مسائل لا محدود)
ان ہی مسائل نے اجتہاد و قیاس کے دروازے کھول دئیے ہیں۔
قیاس فقہ اسلامی کے ادلہ اربعہ میں سے چوتھا مآخذ ہے۔ قیاس در حقیقت اجتہاد کا دوسرا نام ہے لیکن اجتہاد کے اکثر مسائل قیاس سے حل ہوتے ہیں لہذا اب اجتہاد کی جگہ قیاس کا نام لیا جاتا ہے۔
قیاس کا تمام دارومدار علّت پر ہوتا ہے۔ علّت کی مثال بالکل ایسی ہے جس طرح انسانی جسم میں ریڑھ کی ہڈی۔علّت قیاس کا رکنِ اعظم کہلاتا ہے۔علّت کیا ہے؟ علّت کی اقسام، علّت کی ساخت،مسالکِ علّت، شرائط اور موانع علّت کون کون سے ہیں؟ یہ تمام باتیں اس مقالہ میں زیر بحث آئیں گی ان شاء اللہ۔
علّت کی تعریف:
علت عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ (ع ۔ل۔ل ) ہے اس کے معنی ہیں بیماری۔مشغول کرنے والا واقعہ۔ اورعلۃ الشی کا مطلب ہے سبب۔ اس کی جمع عللٌ اور علاِّت استعمال ہوتی ہےجب کہ جمع الجمع اعلالٌ ہے ۔ (1)
علت عربی زبان میں مختلف معانی اور مفاہیم میں استعمال ہوتا ہے لیکن تین معانی مشہور ہیں ۔(2)
الف: تکرار الشی او تکریره: مجتہد علت کے استخراج کے لئے بار بار غور و فکر کرتا ہے۔
ب:الضعف فی الشی: اسی معنی میں بیماری کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
ج:السبب : علت کسی حکم کا سبب بنتاہے۔
اصطلاحی معنی میں یوں تو بہت سارے اقوال ہیں لیکن چار مشہور ہیں۔
اول: یہ کسی حکم کے لیے معرِف ہوتاہے۔
دوم: یہ بذات خود کسی حکم میں مؤثر ہوتاہے۔
سوم: یہ کسی حکم میں مؤثر ہوتاہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اسی لئے بنایا ہے۔
چہارم: یہ کسی تشریعی حکم کا باعث ہوتاہے۔ (3)
علماء اصولیین نے علت کی تعریف ان الفاظ میں فرمائی ہے:
العلّة ما یضاف الیه وجوب الحکم ابتدآءً۔ (4)
" علت سے مراد وہ چیز ہے جس کی طرف بغیر کسی واسطہ کے حکم کا وجوب منسوب کیا جائے"۔
الغر ض علت قیاس کا وہ رکن اعظم ہے جو مقیس اور مقیس علیہ کے درمیان مشترکہ صفت ہوتی ہے اور حکم کا دارومدار اسی علت پر موقوف رہتا ہے۔
متعلقات علّت:
اصولِ فقہ میں علت کے دامن میں ہمیں سبب ، شرط،علامت اور حکمت جیسے الفاظ بھی دکھائی دیتے ہیں جوعلت کے انتہائی قربت کی وجہ سے علت کا جزو دکھائی دیتے ہیں لیکن علت کے مقابلے میں یہ سب الگ الگ وجود رکھتے ہیں اور ان کا یہ فرق درج ذیل سطور سے معلوم کیا جا سکتاہے۔
ا۔ سبب :سبب کے لفظی معنیٰ راستہ اور طریقہ کے ہیں۔فقہاء کی اصطلاح میں حکم تک پہنچنے کے راستہ اور طریقہ کو سبب کہتے ہیں۔ما یکون طریقاً الیَ الحکمِ (5)
اس تعریف کی رو سے راستہ ’’سبب‘‘ جب کہ اس پر چلنا ’’علت‘‘۔ لہذا پہنچنے کی نسبت چلنے کی طرف کی جائے گی نہ کہ راستہ کی طرف۔ علّامہ شاشیؒ فرماتے ہیں:
کلّ ما کان طریقاً الی الحکم بواسطة یسمّی له سبباً ویسمّی الواسطة علّة (6)
" حکم تک پہنچنے کا راستہ سبب ہے جب کہ اس کے لئے مستعمل واسطہ علت ہے"۔
ب۔ شرط:شرط لغت میں اس علامت کو کہتے ہیں جس پر کسی چیز کا وجود موقوف ہو۔علماء اصولیین شرط کی وضاحت کچھ یوں کرتے ہیں۔
الشرط ما یضاف الحکم الیه وجودا عنده۔ (7)
"شرط وہ شئ ہے جس کے وجود کے وقت حکم کے وجود کی طرف نسبت کی جائے"۔
نوٹ:شرط پر وجود موقوف ہوتا ہے جب کہ علت پر وجوب کا دارومدار ہوتا ہے۔
ج۔حکمت: حکمت اس مصلحت کا نام ہے جو ابتداء انسانیت سے قائم ہے اور اللہ تعالیٰ کے تمام احکا مات جلیلہ کی بنیاد ہے۔البتہ اس کا ادراک ہر کس و ناکس کے لئے ناممکن ہے۔چونکہ حکمت میں خفا زیادہ ہوتا ہے اس لئے اس کو لوگوں کے ذہن و عقل کے مطابق بنانا دشوار کام ہے۔لہذا ہر حکمت علت قرار نہیں دی جا سکتی۔
عِلّت کی ساخت اور بناوٹ:
قیاس میں علت رکن اعظم کی حیثیت رکھتا ہے۔اسی وجہ سے علت کے لئے یہ بات لازمی ہے کہ وہ سمجھ اور عقلی بساط کے مطابق ہو ،تاکہ احکامات معلوم کرنے کی سہولت موجود رہے۔امام شاہ ولی اللہؒ فرماتے ہیں:
یجب ان یکون علة الحکم صفةً یعرفها الجمهور ولا تخفیٰ علیهم حقیقتها ولا وجودها من عدمها۔ (8)
"یہ بات لازمی ہے کہ حکم کی علت ایسی صفت ہو جس کو لوگ جان سکیں ، اس کی حقیقت پوشید ہ نہ ہو۔اس کے وجود اور علم میں امتیاز حاصل ہو سکتا ہو"۔
علت مصلحت کے حصول کا ظن غالب پیدا کرتا ہے۔اس کے پائے جانے کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں:
ا: واسطہ اور ذریعہ ہو۔ب: راستہ وطریقہ ہو۔ج: مصلحت سے متصل ہو۔
مثال کے طور پرشراب پینے میں بہت سارے مفاسد اور نقصانات ہیں اور یہ مفاسد ممانعت کی علت ہیں ۔ اسی وجہ سے شارع نے شراب کی تمام قِسموں سے منع فرمایا ہے۔ (9)
علت میں جب ذرائع ، طریقے یا اور لوازمات ایسے موجود ہوں جو علت بننے کاجواز رکھتے ہیں تو صرف اسی کو علت قرار دیا جائے گا جس کی معقول وجہ ترجیح موجود ہو ۔یعنی وہ دوسروں کی نسبت واضح اور زیادہ قوی ہو مثلاً: قصر اور افطار صوم کی علت سفر اور مرض قرار پائے ہیں حالانکہ گرمی سردی یا اور بھی علتیں ہوسکتی ہیں لیکن ان کے حدود اور انضباط نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن بھی ہیں۔علت کی ساخت میں کبھی انسان کی حالت کالحاظ رکھا جاتا ہے۔یہ حالت انسان کی صفات لازمہ ہوتی ہے۔یہ حالت دراصل صفت لازمہ اور ہیئت طاریہ سے مرکب ہے۔علت کی یہ قسم زیادہ تر عبادات میں ملتی ہیں۔مثلاًعاقل بالغ پر اپنے وقت میں نماز پڑھنا ، رمضان شریف کا مہینہ عقل، بلوغت اور طاقت کی حالت میں پانا،اسی طرح صاحبِ نصاب پر سال گزرنے پر زکوۃ واجب ہے۔
ان مثالوں میں صفت لازمہ عقل و بلوغت ہے جب کہ ہیئت طاریہ وقت نماز، مہینہ صوم اور زکوۃ میں ملکِ نصاب ہے۔
مسالکِ علت:
احکامات کی علت کن کن طریقوں سے معلوم کی جاتی ہے؟بالفاظ دیگر علت کے مآخذ کون کون سے ہیں؟
اسلامی احکامات کی علت کے مصادر مندرجہ ذیل ہیں:
۱: قرآن مجید ۲: حدیث ۳: اجماعِ امت۴: اجتہاد
ان تمام مآخذوں میں علت کا ذکر کبھی صراحت و وضاحت کے ساتھ ہوتا ہے جب کہ بعض اوقات اشارۃً علت کا ذکر کیا جاتا ہے۔
قرآن و سنت میں مذکور صریح علتیں:
ا۔لیس علیکم ولا علیهم جناح بعدهن طوافون علیکم بعضکم علیٰ بعض (10)
"تمہارے اور ان کے اوپر کوئی حرج نہیں ہے جب وہ بلا اجازت ان تین اوقات کے علاوہ اور اوقات میں تمہارے پاس آئیں کیوں کہ یہ کثرت سے ایک دوسرے کے پاس آتے جاتے ہیں"۔
ّآیت مبارکہ میں گھر کے خادموں اور بچوں کو تین اوقات(قبل صلاۃ الفجر۔بعد صلاۃ العشاء۔دوپہر) کے علاوہ اجازت سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے اور اس کی علت کثرت آمد و رفت بیان کی ہے۔
نبی کریمﷺ نے بلیّ کے جھوٹے کے متعلق فرمایا:
إنها لیست بنجسة انّما هی من الطوافین علیکم والطوّافات۔ (11)
اس میں بلی کا جھوٹا پاک قرار دیا گیا ہے اور علت یہ بیان کی گئی ہے کہ بلی گھروں میں کثرت کے ساتھ آتی جاتی ہےلہٰذا اس سے اشیاء کو بچانا کافی مشکل کام ہے۔
ب۔ صریح الفاظ اور حروف کے ذریعے علت ذکر کرنا:
۱: لفظِ کَی سے علتِ حکم
کَی لا یکون دولة بین الاغنیاء منکم۔ (12)"تاکہ تم میں دولت امیروں کے درمیان سمٹ کر نہ رہ جائے"۔
۲: ’’من اجل‘‘یا ’’الاجل‘‘ سے علت بیان کرنا:
من اجل ذٰلک کتبنا علی بنی اسرائیل۔(13)
آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے فساد اور قتل و غارت کے سد باب کی وجہ سے ایک انسان کی موت کو ساری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے۔
حدیث مبارکہ میں آپﷺ فرماتے ہیں:
إِنَّمَا نَهَيْتُكُمْ مِنْ أَجْلِ الدَّافَّةِ الَّتِى دَفَّتْ فَكُلُوا وَادَّخِرُوا وَتَصَدَّقُوا۔(14)
"بیشک میں نے قربانی کا گوشت جمع کرنا اس لئے منع کیا ہے تاکہ دوسروں کے لئے وسعت پیدا ہو۔پس اس کو کھاؤ، ذخیرہ کرو اور صدقہ کرو"۔
۳: حرفِ لام سے علت ذکر کرنا:
اہل لغت اس بات پر متفق ہیں کہ لام تعلیل کے لئے ہے۔قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے:
کتٰب انزلنه الیک لتخرج الناس من الظلمت الی النور۔(15)
۴: حرف باء سے علت بیان کرنا:
اللہ تعالی فرماتے ہیں: فبما رحمة من الله لنت لهم (16)
۵: حرف فاء سے علت ذکر کرنا:
آپﷺ کا ارشاد ہے : زملوهم بکلومهم ودماءهم فانّهم یحشرون۔(17)
صریح علت کے درجات اور مراتب:
علماء اصولیین نے حروفِ علت کی قوت اور ضعف کے لحاظ سے صریح علت کے مندرجہ ذیل چار مراتب ذکر کئے ہیں۔
پہلا مرتبہ الاجل ۔من اجل۔ اذن۔
دوسرا مرتبہ لام تعلیل
تیسرا مرتبہ اَن۔ باء
چوتھا مرتبہ فاء سے تعلیل۔ (18)
قرآن مجید و سنت میں موجود اِشارۃً علتیں:
قرآن و حدیث میں مذکور اشارۃً علتوں کی تعداد فقہاء کرام نے بارہ ذکر کئے ہیں جو کہ یہ ہیں۔(19)
۱: حرف فاء کے ذریعے مثلاً:
السارق والسارقة فاقطعوا ایدیهما (20)
۲: نبی کریم ﷺ کو کسی شخص کے کسی وصف کا علم ہو اور آپﷺ نے اسی بنیاد پر کوئی حکم صادر فرمایا ہو۔اس صورت میں وہی صفت اس حکم کی علت قرار پائے گی۔مثلاًآپﷺ کے پاس ایسا شخص آیا جس نے روزے کی حالت میں بیوی سے جماع کیا تھا۔آپﷺ نے ارشاد فرمایا : اعتق رقبة ’’غلام آزاد کر‘‘۔
۳: کسی خاص صفت کی بنیاد پر دو حکموں میں فرق کیا جائے تو وہ معلوم صفت علت شمار ہوگی مثلاً آپﷺ نے فرمایا : للفارس سهمان و للرّجل سهم۔اس میں سواری اور پیادہ کی وجہ سے الگ الگ حکم صادر ہوا ہے۔حکم کی علت سواری ہے۔
۴: جب دو حکموں یا دو چیزوں میں ایک کا ذکر کیا جائے تو غیر مذکورہ چیز علت قرار دی جائے گی۔مثلاً:القاتل لا یرث۔"قاتل کو وراثت نہیں ملتی"۔اس میں محرومی کا سبب قتل ہے جو ذکر نہیں ہے۔
۵: دو احکامات میں حرفِ استثناء کے ذریعے فرق کیا جائے تو یہ علت کی طرف اشارہ تصور ہوگا۔مثلاً:
و ان طلّقتموهنّ من قبل ان تمسّوهنّ و قد فرضتم لهنّ فریضةً فنصف ما فرضتم الّا ان یعفون۔ (21) ۔"اور ان کا مہر مقرر ہے تومقررہ مہر کا آدھا حصّہ دینا پڑے گاالبتہ اگر وہ معاف کر دیں " ۔
۶:حکم کی انتہاء بیان کرکے دونوں میں فرق بیان کیا جائے۔مثلاً:
فاعتزلوا النسآء فی المحیض (22)۔اس آیت میں علیحدگی کی علت مخصوص ناپاکی کے دن ہیں۔
۷:بطریقہ شرط ذکر کیا جائے جس سے تفریق سمجھ میں آ جائے۔مثلاً:
فان اختلف الجنسان فبیّعوا کیف شئتم۔’’جب دوجنس مختلف ہو جائے تو جس طرح چاہو بیچو‘‘۔
۸: لٰکن کے ساتھ علت ذکر کرنا۔مثلاً:
لا یواخذکم الله باللّغوا فی ایمانکم ولٰکن یواخذکم بما عقدتم الایمان (23)
"اللہ تعالی لغو قسموں میں تم سے مواخذہ نہیں فرماتے بلکہ وہ تمھارے قصدًا قسموں کا مواخذہ کرے گا"۔
۹: کلام میں ایسی صفت ذکر کی جائے جو بغیر معنی علت کے بیکار معلوم ہو۔مثلاً:
اینقض الرطب اذا جف قیل نعم قال فلا اذاً۔’’کیا تازہ کجھور خشک ہونے سے کم ہوتا ہے،کہا گیا جی ہاں۔فرمایا پھر جائز نہیں ہے‘‘۔
۱۰:وجہ شبہ بیان کرنے سے علت کی جانب اشارہ مقصود ہو۔مثلاً:
’’ ایک دفعہ حضرت عمر فاروقؓ نے آپﷺ سے سوال کیا۔کیا بوس و کنار سے روزہ فاسد ہوتا ہے؟ّ آپﷺ نے پوچھا کلی کے لئے پانی منہ میں ڈالا جائے اور حلق میں اندر نہ جائے۔کیا روزہ فاسد ہوگا؟فرمایا نہیں۔ جواب ملا ۔بالکل اسی طرح بوس و کنار بھی ہے"۔
۱۱: جو صفت حکم کے ساتھ متصل ذکر کی جائے اسے علت کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔مثلاً:
لا یقضی القاضی وهو غضبان۔"قاضی غصہ کی حالت میں فیصلہ نہ کریں"۔اس میں فیصلے سے ممانعت کی علت غصہ ہے۔
۱۲: عمل درآمد میں رکاوٹ بننے والی چیزکا ذکر حکم کے بعد کرنا دراصل اس کی علت بتلانا مقصود ہوتا ہے۔ مثلاً:فاسعوا الیٰ ذکر الله و ذروا البیع۔(24)
اس آیت مبارکہ میں جمعہ کی اذان کے بعد خرید و فروخت سے منع کیا گیا ہےکیوں کہ یہ تفویتِ واجب کی علت ہے۔
اجتہاد او ر استنباط سے علت اخذ کرنے کے طریقے:
علماء اصولیین نے اجتہاد اور استنباط کے ذریعے علت اخذ کرنے کے مندرجہ ذیل سات طریقے بیان کئے ہیں:
پہلا طریقہ: مناسبت۔
اجتہاد سے بطریقہ مناسبت علت اخذ کرنے میں یہ امور مد نظر رکھے جاتے ہیں:
تمام فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ نص کے تمام اوصاف کا حکم میں اثر نہیں ہوتا یعنی اللہ تعالیٰ کا حکم اور آپ ﷺ کا ارشاد کسی ایک انسان یا ایک قبیلہ کے ساتھ مخصوص نہیں رہتابلکہ اس کا اطلاق سب پرہوتا ہے۔ اسی طرح نص کے تمام اوصاف علت نہیں بنتے۔فقیہ کے لئے یہ بات جائز ہے کہ وہ بلا سبب کسی بھی وصف کو علت قراردے۔
دوسرا طریقہ: طرد و عکس
اس کا دوسرا نام ’’ طریقہ دوران‘‘ بھی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک وصف موجود ہے حکم بھی
موجود رہے گا لیکن جوں ہی وصف میں تبدیلی آئے گی حکم بھی تبدیل ہو جائے گا۔اس طریقہ میں وصف کو مدار اورحکم کو دائر کہتے ہیں۔مثلاً جب تک انگور کے شیرہ میں نشہ کی صفت موجود ہے تب تک یہ حلال نہیں ہے۔امام شافعیؒ اور امام غزالیؒ کے نزدیک یہ طریقہ زیادہ رائج ہے جب کہ امام ابو حنیفہؒ کے ہاں زیادہ رائج نہیں ہے۔
تیسرا طریقہ:شبہ ۔
شبہ اس وصف کو کہتے ہیں جس میں غور و فکر اور تحقیق کے باوجود بھی حکم سے مناسبت ظاہر نہ ہو۔ لیکن بعض دوسرے احکامات میں اس کی طرف شارع کی توجہ پائی گئی ہوں۔
فائدہ: یہ طریقہ مناسبت کے طریقے سے کم تر درجہ رکھتا ہے جب کہ طرد و عکس سے بلند تر درجہ ۔
چوتھا طریقہ:قیاس الاشتباہ
اس طریقے میں نیا مسئلہ دو لحاظ سے اصل کے مشابہ ہوتا ہے۔ایک کے ساتھ مشابہت حکم میں اور دوسرے کے ساتھ مشابہت صورت میں۔
پانچواں طریقہ:تقسیم و سبر
اس طریقے میں متوقع صفات علت کو بار بار آزمایا جاتا ہے اور مقررہ قواعد کی روشنی میں ایک ایک کرکے دوسرے صفات کو لغو قرار دیا جاتا ہے۔جو صفت قاعدہ کے موافق مل جاتی ہےاسے علت قرار دیا جاتا ہے۔
چھٹا طریقہ:طرد۔
طریقہ طرد میں حکم کو ایسے اوصاف سے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کی مناسبت حکم سے معلوم نہ ہو۔اس کی حجت میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔عند المحققین یہ طریقہ حجت نہیں ۔
ساتواں طریقہ:تنقیحِ مناط
اس میں اصل(حکم سابق) اور فرع(حکم حادث) کے درمیان فرق کرنے والی شے کو دلائل سے لغو ثابت کیا جاتا ہے۔مشترک چیز کو بنیاد بنا کر مطابقت قائم کی جاتی ہے۔ اس طریقے کے لئے فقہاء دو اور اصطلا حیں استعمال کرتے ہیں ۱۔تخریجِ مناط ۲۔تحقیقِ مناط ۔ (25)
شرائط علّت
فقہاء نے علت کے لئے مندرجہ ذیل شرائط مقرر فرمائے ہیں:
۱:علت کے لئے مناسبت شرط ہے۔احکام مقرر کرنے میں شارع کی مصلحت کو مد نظر رکھنا چاہئے۔ یعنی شارع کی مصلحت اس علت کی حکمت کو شامل ہو۔
۲: علت معیّن اور مقرر ہونی چاہئےاور اسی وجہ سے حکمت کو علت نہیں بنایا جاتا کہ اس میں پوشیدگی اور غمض زیادہ ہوتا ہے۔
۳: وجودی حکم کے لئے عدمی علت لانا درست نہیں ہے۔البتہ عدمی حکم کے لئے عدمی علت لانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔مثلاً مالِ فئی میں مالِ غنیمت کی طرح خمس نہیں ہے۔یعنی نہ جنگ اور نہ غنیمت۔
۴: علت قاصرہ نہ ہو۔علتِ قاصرہ سے مراد یہ ہے کہ علت اصل سے فرع کی طرف متعدی نہ ہوسکے اگر علت قاصرہ اور علت متعدیہ دونوں جمع ہو تو اس وقت علت متعدیہ قابلِ ترجیح ہوگی۔
۵: علت ایسی ہونی چاہئے جو کسی بھی مقام پر حکم سے پیچھے نہ رہے۔بالفاظِ دیگر ایسا نہ ہو کہ علت موجود ہو اور حکم موجود نہ ہو۔
۶:علت کے مقابلے میں اصل حکم میں ایسا وصف نہ ہوجو علت میں مداخلت کی صلا حیت کا حامل ہو۔ اگر کوئی مداخل موجود ہوتو دونوں کے مجموعہ کو علت بنانا ہوگا۔
۷: علت کی دلیل ایسی نہ ہو جو فرع کو شامل ہو۔
۸: علت کا عقل کے لئے قابلِ قبول ہونا شرط ہے۔(26)
علّت کی قسمیں:
فقہاء کرام نے علت کی مندرجہ ذیل تین قسمیں بیان کی ہیں:
(۱) اسمی (۲) معنوی (۳) حکمی
الف: علتِ اسمی: وہ علت جو شرعاً حکم کے لئے وضع ہوئی ہواور بلا واسطہ حکم کی نسبت اس کی طرف ہو۔
ب: علتِ معنوی: وہ علت جس کا حکم ثابت کرنے میں کسی نہ کسی طرح کا اثرہو۔
ج: علتِ حکمی: وہ علت جو حکم کے وجود کو اس طرح ثابت کرے کہ اس کے ساتھ حکم ملا ہوا ہو۔(27)
موانعِ علّت:
قیاس میں علت کا اپنا ایک مقام ہےلیکن بعض حالات میں علت کی معتبر حیثیت بھی کام نہیں آتی۔ موانع کی موجودگی میں علت ناقابلِ اعتبار ہو جاتی ہے۔علت کے موانع مندرجہ ذیل ہیں:
(ا) وہ علت جو علت بننے ہی نہ دیں۔مثلاً آزاد انسان کی بیع کے لئے اس کی حریت مانع ہوتی ہے۔
(ب) کوئی صفت علت کی تاثیر اور اتمام کے لئے رکاوٹ بن جائے۔مثلاً کسی کے غلام کی بیع اس کی اجازت کے بغیر ناقابلِ تاثیر ہوتی ہے۔
(ج) کوئی صفت حکم کی ابتداء کو روک دے۔مثلاً بائع کا خیارِ شرط مشتری کی ملکیت کو روک دیتی ہے۔
(د) علت کسی حکم میں ابتداء ًثابت ہو جائے لیکن اتمامِ حکم کو روک دے۔مثلاً خیارِ رؤیت کے بغیر ملکِ تام حاصل نہیں ہوتا۔
(ہ) وہ حکم کو لازم ہونے سے روک دے مثلاً خیارِ عیب۔ (28)
فوائد متعلقِ علت:
۱: کسی جگہ علت اور سبب دونوں جمع ہو جائے تو حکم کی نسبت علت کی طرف ہوگی نہ کہ سبب کی طرف۔ البتہ اگر علت کی طرف نسبت دشوار ہو تو پھر اس کی نسبت یقیناًسبب کی طرف ہوگی۔مثلاً کسی نے بچے کو جانور پر سوار کیا ۔بچے نے جانور کو بھگایا جس سے بچہ گر کر ہلاک ہوگیا۔اب سوار کرنے والا ضامن نہیں ہے البتہ سوار کرنے کے بعد جانور کو دوڑایا بھی ہو تو سوار کرنے والا موت کا ضامن ہوگا۔
۲: سبب علت کے معنی میں ہویہ اس وقت جب سبب علت کو ثابت کرنے والا ہو۔اس صورت میں نسبت سبب کی جانب ہوگی۔مثلاً کسی نے جانور کو ہانکا اور اس جانور نے کوئی نقصان کیا تو ہانکنے والاتاوان کاذمہ دار ہوگا۔
۳: سبب علت کے قائمقام بنتا ہے جب اصلی علت سے واقفیت دشوار ہو جائے۔اس حالت میں وہ سبب علت کاکام دیتا ہے۔مثلاً نیند (سبب) حدث (علت) کے قائمقام ہے۔
۴: کبھی شرط علت کے معنی میں ہوتا ہے یہ اس صورت میں جب ایسی علت موجود نہ ہو کہ حکم کی نسبت اس کی طرف کی جائے۔مثلاً کسی نے راستے میں کنواں کھودا۔اور اس میں کوئی گرا۔(29)
خلاصہ:
قیاس میں علت کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے اور یہی علت ہی ہے جس کی وجہ سے فقہی احکام کا استنباط کیا جاتا ہے۔ چونکہ قیاس میں ہمیشہ علت کی طرف دیکھا جاتا ہے اس لئے علماء اصول نے علت کے لئے نہ صرف یہ کہ شرائط مقرر کئے بلکہ اس کے اقسام ، موانع اور اجتہاد واستنباط میں علت کے طرق کو بھی خوب بسط وتفصیل سے بیان کیا تاکہ علت کی اہمیت اور ضرورت اور بھی واضح ہوجائے۔
حوالہ جات:
1: المنجد ص۶۷۴ دارالاشاعت اردو بازار لاہور۔
2: الفرّاء قاضی ابو یعلی محمد بن الحسین بغدادی(۴۵۸ھ) ، العدۃ فی اصول الفقہ‘ عربی ۔ ۱۹۹۰ء۔
3: ایضاً۔
4: الحسامی، حسام الدین محمد بن محمد بن عمر(۶۴۴ھ)۔المیزان ناشران و تاجرانِ کتب اردو بازار لاہور۔
5: امینی،محمد تقی ۔ فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر،اشاعت جدید ۱۹۹۱ء۔قدیمی کتب خانہ ،کراچی۔
6: شاشی،نظام الدین۔اصول الشاشی(عربی) مکتبہ امدادیہ ملتان۔
7: امینی،محمد تقی۔فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر۔
8: شاہ ولی اللہ، حجۃ اللہ البالغہ(عربی) وحیدی کتب خانہ ، پشاور۔
9: ایضاًَ۔
10: سورۃالنور :۵۸
11: ابوبکر البیہقی، احمد بن الحسین بن علی، السنن الکبرٰی: 1/245، رقم 1205، مجلس دائرۃ المعارف النظامیہ، حیدرآباد، ہندوستان، طبع 1344ھ۔
12: سورۃالحشر:۷۔
13: سورۃ المائدۃ: ۳۲۔
14: ابوالحسین القشیری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم: 6/80، رقم، 5215، باب بَيَانِ مَا كَانَ مِنَ النَّهْىِ عَنْ أَكْلِ لُحُومِ الأَضَاحِىِّ بَعْدَ ثَلاَث۔دالافاق الجدیدۃ۔بیروت۔
15: سورۃ ابراہیم:۱۔
16: سورۃ آل عمران:۱۵۹۔
17: ابو عبداللہ الشیانی، احمد بن حنبل، مسند احمد:5/431، رقم، 23708، باب: عبداللہ بن ثعلبۃ بن صغیر رضی اللہ عنہ، مؤسسۃ قرطبہ۔ قاہرہ۔
18: امینی،محمد تقی۔فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر۔
19: ایضاً۔
20: سورۃ المائدہ:۳۸۔
21: سورۃ البقر ہ :۲۳۷۔
22: سورۃ البقرۃ:۲۲۲۔
23: سورۃ المائدہ:۸۹۔
24: سورۃ الجمعۃ:۹۔
25: رحمانی، خالد سیف اللہ۔قاموس الفقہ ج ۴ ص۵۴۲ ،زمزم پبلشرز کراچی۔
26: امینی، محمد تقی۔ فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر۔
27: ایضاً۔
28: ایضاً۔
29: ایضاً۔
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 2 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2015 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |