2
1
2015
1682060029336_1021
110-122
https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/88/79
https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/88
تمہید:
ہر علم وفن کے ماہرین نے اس فن کو سمجھنے اور اس میں مہارت حاصل کرنے کے لئے کچھ اصول اور قواعد مقرر کئے ہیں جن کی بدولت اس فن کا سمجھنا آسان ہو جاتا ہے، علمِ فقہ کے ماہرین نے اس علم سے مناسبت پیدا کرنے کے لئے قرآن وسنت کے نصوص، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے تعامل اور فیصلوں میں غور وفکر کرکے کچھ قواعد وضوابط مقرر کئے ہیں جن کی بدولت نہ صرف اس علم سے مناسبت پیدا ہوتی ہے بلکہ فقہی بصیرت اور فقہاء کرام کے اندازِ استدلال کو سمجھنا بھی آسان ہو جاتا ہے۔
قواعدِ کلیہ کے فوائد میں سے یہ ہے کہ یہ زیرِ غور مسئلے کے بارے میں فقہی نقطۂ نظر اور عمومی فکر کی نشاندہی کرتے ہیں،نیز فقہاء کرام ؒ کے طرزِ استدلال سے باخبر ہونے کے لئے ان کا معلوم ہونا ضروری ہے۔ یہ بات پیشِ نظر رہے کہ فقہی قواعد دوسرے فنون کے قواعد کے برخلاف عموماً اکثری ہوتے ہیں، جو کہ اپنی اکثر جزئیات پر منطبق ہوتے ہیں۔ ان قواعد میں سے ایک اہم قاعدہ " الأصل في الأشياء الإباحة حتى يدل الدليل على التحريم"(1)"ہے، جو کہ اس مقالہ میں زیرِ بحث ہے۔
قاعدہ کا لغوی معنیٰ:
قاعدہ لغت میں اس شے کو کہتے ہیں جس پر کوئی چیز ثابت اور برقرار رہے"القاعدة ما يقعد عليه الشيء أي يستقر ويثبت"(2) یعنی اساس اور بنیاد کو قاعدہ کہتے ہیں " والقاعِدَةِ أَصلُ الأُسِّ والقَواعِدُ الإِساس "(3) اسی وجہ سے گھر کی بنیادوں کو قواعد کہتے ہیں " قوَاعِدُ البيت أساسه"(4)
کجاوے کی مضبوطی کے لئے اس کے نیچے لگائی جانے والی لکڑیوں کو بھی قواعد کہتے ہیں، کیونکہ وہ کجاوے کے لئے بمنزلۂ بنیاد کے ہوتی ہیں۔ "( وقواعد الهودج : خشبات أربع ) معترضة"(5)
قرآنِ کریم میں بھی لفظ" قواعد" بنیاد کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِد﴾(6)"سو اللہ تعالیٰ نے ان کا بنا بنایا گھر جڑ بنیاد سے ڈھا دیا "۔
قاعدہ کی اصطلاحی تعریف:
قاعدہ کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں، جن میں سےدو مشہور تعریفیں مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ وفي اصطلاح الفقهاء هو الحكم الكلي أو الأكثري الذي يراد به معرفة حكم الجزئيات.(7)
"فقہاء کرام کی اصطلاح میں قاعدہ سے مراد وہ حکمِ کلی یا اکثری ہے جس سے مقصود جزئیات کا حکم معلوم کرنا ہو"۔
۲۔ اصول فقهية کلية فی نصوص موجزة دستورية تتضمن احکاما تشريعية عامة فی الحوادث التی تدخل تحت موضوعاتها.(8)
"قواعد کلیہ سے مراد وہ کلی فقہی اصول اور ضوابط ہیں جنہیں مختصر قانونی زبان میں مرتب کیا گیا ہو، اور جن میں ایسے عمومی شرعی احکام کا بیان ہو جو احکام اس موضوع کے تحت آنے والے حوادث اور واقعات کے بارے میں ہوں"۔
زیرِ بحث قاعدہ اور اس کی توضیح:
" الأصل في الأشياء الإباحة حتى يدل الدليل على التحريم"(9)
" اشیاء میں اصل یہ ہے کہ وہ مباح ہیں جب تک ان کے حرام ہونے پر کوئی دلیل نہ ہو"۔
اس قاعدے کا مطلب یہ ہے کہ جن اشیاء کے بارے میں قرآن وسنت خاموش ہیں، یعنی قرآن وسنت میں جن اشیاء کی حلت وحرمت مذکور نہیں، ایسی اشیاء اپنی اصل کے اعتبار سے مباح اور جائز سمجھی جائیں گی۔لیکن اگر کسی چیز کے بارے میں دلائلِ شرعیہ سے کوئی صریح اور واضح حکم موجود ہو تو وہ اس زمرے میں نہیں آئے گی اور نہ ہی اس چیز کو اس اصول کی بنیاد پر مباح کہا جائے گا بلکہ اس کے بارے میں دلائلِ شریعت سے جو حکم متعین ہے وہی معتبر ہو گا۔ حاصل یہ کہ اگر کسی چیز کی حرمت یا کراہت شرعی دلائل سے ثابت نہ ہو تو اس کو اپنی اصل کے لحاظ سے مباح سمجھا جائے گا۔
مذکورہ قاعدے کا ثبوت آیاتِ قرآنیہ سے:
مذکورہ قاعدہ قرآن ِکریم کی کئی آیات سے ثابت ہےجن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :﴿خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الأرْضِ جَمِيعًا﴾(10)
"اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے وہ سب کچھ پیدا کیا ہے جو زمین میں ہے"۔
اس آیتِ کریمہ سے معلوم ہوا کہ شریعت کا منشأ یہ ہےکہ انسان پر تنگی نہ ہو بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اشیاء سے فائدہ اٹھائے۔
۲۔ سورۃ الانعام میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَالَكُمْ أَلَّا تَأْكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَاحَرَّمَ عَلَيْكُمْ إلَّامَااضْطُرِرْتُمْ إلَيْهِ (11) "اور تم کو کونسا امر اس کا باعث ہو سکتا ہے کہ تم ایسے جانور میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہو حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان سب جانوروں کی تفصیل بتلادی ہے، جن کو تم پر حرام کیا ہے"۔
شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
دَلَّتْ الْآيَةُ مِنْ وَجْهَيْنِ: أَحَدُهُمَا: أَنَّهُ وَبَّخَهُمْ وَعَنَّفَهُمْ عَلَى تَرْكِ الْأَكْلِ مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ قَبْلَ أَنْ يُحِلَّهُ بِاسْمِهِ الْخَاصِّ فَلَوْ لَمْ تَكُنْ الْأَشْيَاءُ مُطْلَقَةً مُبَاحَةً لَمْ يَلْحَقْهُمْ ذَمٌّ وَلَا تَوْبِيخٌ إذْ لَوْ كَانَ حُكْمُهَا مَجْهُولًا أَوْ كَانَتْ مَحْظُورَةً لَمْ يَكُنْ ذَلِكَ. الْوَجْهُ الثَّانِي: أَنَّهُ قَالَ: {وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ} وَالتَّفْصِيلُ التَّبْيِينُ فَبَيَّنَ أَنَّهُ بَيَّنَ الْمُحَرَّمَاتِ فَمَا لَمْ يُبَيِّنْ تَحْرِيمَهُ لَيْسَ بِمُحَرَّمِ. وَمَا لَيْسَ بِمُحَرَّمِ فَهُوَ حَلَالٌ إذْ لَيْسَ إلَّا حَلَالٌ أَوْ حَرَامٌ. (12)
"یہ آیتِ کریمہ دو طریقوں سے (اشیاء میں اباحت اصل ہونے پر ) دلالت کرتی ہے: پہلا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اس وجہ سے توبیخ کی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح شدہ جانوروں کو نہیں کھاتے، اگر اشیاء میں اصل اباحت نہ ہوتی تو یہ ذم اور توبیخ نہ ہوتی۔دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:﴿وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَاحَرَّمَ عَلَيْكُمْ﴾جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حرام چیزوں کا بیان کیا ہے۔ لہٰذا جس چیز کی حرمت اللہ تعالیٰ نے بیان نہ کی ہو وہ حرام نہیں اور جو حرام نہیں وہ حلال (مباح) ہے"۔
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ جس چیز کی حرمت قرآن وسنت میں مذکور نہ ہو، وہ حلال اور مباح ہو گی، یعنی اشیاء میں اصل اباحت ہے۔
۳۔ سورۃ الانعام میں دوسری جگہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿قُلْ لَا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْزِيرٍ﴾(13)
"آپ کہہ دیجئے کہ جو وحی میری طرف کی گئی ہے اس میں میں کسی چیز کو حرام نہیں پاتا جو کسی کھانے والے
پر حرام ہو مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو"۔
علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: فما لم يجد تحريمه ليس بمحرم وما لم يحرم فهو حل.(14)
" جس چیز کی حرمت کا حکم نہ ہو وہ حرام نہیں اور جو حرام نہ ہو وہ حلال ہے"۔
۴۔ سورۃ الجاثیہ میں ارشادِ خداوندی ہے:
﴿وَسَخَّرَ لَكُمْ مَافِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ ﴾(15)
"جتنی چیزیں آسمانوں میں ہیں اور جتنی چیزیں زمین میں ہیں، ان سب کو اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم اور فضل سے تمہارے فائدے کے لئے مسخر کیا ہے"۔
شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ جب زمین کی ساری چیزیں ہمارے لئے مسخر ہیں تو ان سے فائدہ اٹھانا بھی ہمارے لئے جائز ہے۔ (16) (ورنہ مسخر ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا)۔
اس کے علاوہ بھی قرآنِ کریم کی کئی آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کائنات کی چیزیں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے فائدے کے لئے پیدا فرمائی ہیں، جس سے معلِوم ہوتا ہے کہ جن چیزوں کی حرمت قرآن وسنت اور اصولِ شریعت سے ثابت نہیں، وہ مباح ہیں کیونکہ اگر مباح نہ ہوں تو پھر ان چیزوں سے انسان کو کوئی فائدہ حاصل نہ ہو گا۔
مذکورہ قاعدے کا ثبوت احادیثِ نبویہ سے:
بہت ساری احادیث سے بھی اس قاعدے کا ثبوت ہوتا ہے، جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ مسند بزار میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد مبارک نقل کیا گیا ہے:
ما أحل الله في كتابه فهو حلال و ما حرم فهو حرام و ما سكت عنه عفو فاقبلوا من الله عافيته فإن الله لم يكن لينسى شيئا(17)
"اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جو چیز حلال قرار دی ہے وہ حلال ہے اور جو چیز حرام قرار دی ہے وہ حرام ہے اور جس چیز کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے وہ قابلِ معافی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی دی ہوئی رعایتیں قبول کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو بھولنے والا نہیں ہے"۔
حدیثِ مذکور کی تشریح میں ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں:
(وما سكت) أي الكتاب (عنه) أي عن بيانه أو وما أعرض الله عن بيان تحريمه وتحليله رحمة
من غير نسيان فهو مما عفا عنه أي عن استعماله وأباح في أكله وفيه أن الأصل في الأشياء الإباحة(18).
" جس چیز کی حلت وحرمت کا بیان اللہ تعالیٰ نے نہ کیا ہو تو وہ معاف (مباح) ہے اس سے معلوم ہوا کہ اشیاء
میں اصل اباحت ہے"۔
۲۔ امام طبرانیؒ نے حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد مبارک نقل کیاہے:
إن الله فرض فرائض فلا تضيعوها وحد حدودا فلا تعتدوها وسكت عن كثير من غير نسيان فلا تتكلفوها رحمة من الله فاقبلوها.(19)
"اللہ تعالیٰ نے فرائض مقرر کئے ہیں انہیں ضائع مت کرو، اور حدود مقرر کئے ہیں ان سے تجاوز نہ کرو، اور بہت سی چیزوں کے بارے میں خاموشی اختیار فرمائی ہے نہ اس وجہ سے کہ وہ بھول گیا ہے بلکہ تم پر رحم کرتے ہوئے ، لہٰذا انہیں قبول کرو، اور تکلف سے کام نہ لو"۔
۳۔ امام بیہقیؒ نے حضرت ابو ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے:
إن الله فرض فرائض فلا تضيعوها وحد حدودا فلا تعتدوها ونهى عن أشياء فلا تنتهكوها وسكت عن أشياء رخصة لكم ليس بنسيان فلا تبحثوا عنها. هذا موقوف(20).
"اللہ تعالیٰ نےکچھ چیزیں فرض فرمائی ہیں انہیں ضائع مت کرو اور حدود مقرر کئے ہیں ان سے تجاوز نہ کرو اور کچھ چیزوں سے منع فرمایا ہے ان کی ہتک مت کرو اورکچھ چیزوں کے بارے میں خاموشی اختیار فرمائی ہے آپ کو رخصت دینے کے لئے نہ کہ بھولنے کی وجہ سے،ان کے بارے میں بحث مت کرنا"۔
اس حدیث کی تشریح میں علامہ مبارک پوریؒ فرماتے ہیں:
وبالجملة فالحديث يقتضي أن الأصل في الأشياء الإباحة والحل. وقد حكى بعضهم الإجماع على ذلك.(21)
"اس حدیث کا مقتضیٰ یہ ہے کہ اشیاء میں اصل اباحت اور حلت ہے۔اور بعض حضرات نے اس پر اجماع نقل کیا ہے"۔
مذکورہ قاعدہ قیاس اور عقل کی روشنی میں:
یہ قاعدہ قرآن وسنت کے علاوہ عقل اور قیاس کے بھی عین مطابق ہے۔ عبد اللہ بن یوسف الجدیع فرماتے ہیں: وهذا أصلٌ استُفيدَ من نصوصٍ صريحةٍ في الكتابِ والسُّنَّةِ، وهو مناسبٌ للمعقولِ الصَّريح، فإنَّ من أعظمِ مقاصدِ التَّشريعِ: رفع الحرجِ، والإباحةُ تخييرٌ، ورفعُ الحرج ثابتٌ بها(22)
"یہ قاعدہ قرآن وسنت کے صریح نصوص سے ثابت ہےاور صریح عقل و قیاس کے مطابق ہے کیونکہ شریعت کے عظیم مقاصد میں سے یہ ہے کہ حرج اور تنگی نہ ہو اور مباح ہونے میں مکلف کو کام کرنے اور نہ کرنے کا اختیار ہوتا ہے، جس سے حرج ختم ہو جاتا ہے"۔
مذکورہ قاعدہ کے بارے میں ائمہ مجتہدینؒ کی آراء:
مذکورہ قاعدہ فقہاء شافعیہ کے نزدیک مسلم ہے(23)، البتہ فقہاء احناف کے بارے میں مختلف روایتیں پائی جاتی ہیں۔ بعض حضرات نے امام صاحبؒ کی طرف یہ بات منسوب کی ہے کہ آپؒ کے نزدیک اشیاء میں اصل حرمت ہے اور اباحت دلیل سے ثابت ہو گی، (24) جب کہ علامہ ابن عابدینؒ تحریر فرماتے ہیں:والصحيح من مذهب أهل السنة أن الأصل فيها الوقف حتى يرد الشرع(25)
" اہلِ سنت کے نزدیک راجح یہ ہے کہ اشیاء میں اصل توقف ہے"۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ شافعیہ کی طرح اکثر احنافؒ کے نزدیک بھی اشیاء میں اصل اباحت ہے، یعنی وہ مذکورہ قاعدے سے اتفاق کرتے ہیں۔ جیسا کہ علامہ حمویؒ نے علامہ قاسم بن قطلوبغاؒ کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ جمہور احناف کے نزدیک اشیاء میں اصل اباحت ہے (26)۔
علامہ ماردینی شافعی نے لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ، ابو العباس، ابو اسحاق شافعی اور بصرہ کے معتزلہ کا مذہب یہ ہے کہ اشیاء میں اصل اباحت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اشیاء ہمارے فائدے کے لئے پیدا کئے ہیں اور جو چیز ہمارے فائدے کے لئے ہو وہ ہمارے لئے مباح ہو گی،اس لئے کہ اس میں نہ کوئی خرابی ہے اور نہ مالک (اللہ تعالیٰ ) کا کوئی ضرر ہے۔ ابن ابی ہریرہ، شافعی، بعض شیعہ اور بغداد کے معتزلہ کا مسلک یہ ہے کہ اصل اشیاء میں حرمت ہےکیونکہ یہ چیزیں سب اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور دوسرے کی ملکیت میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف کرنا قبیح ہے۔لہٰذا کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ کسی چیز میں تصرف کرے جب تک شریعت اس کی اجازت نہ دے۔
ابو الحسن اشعری اور ابو بکر صیرفی کی رائے یہ ہے کہ اصل اشیاء میں توقف ہےجب تک شریعت کسی چیز کو
حرام یا حلال قرار نہ دے، اس کے بارے میں توقف کیا جائے گا، نہ اسے حلال کہا جائے گا اور نہ حرام(27)۔
مشہور اصولی محمد امین امیر بادشاہؒ نے جمہور احناف اور شوافع کا مسلک یہ ذکر کیا ہے:
(والمختار أن الأصل الإباحة عند جمهور الحنفية والشافعية ولقد استبعده) أي كون الأصل الإباحة بمعنى عدم المؤاخذة بالفعل والترك ( فخر الإسلام)(28)
"راجح یہ ہے کہ جمہور حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک اباحت اصل ہے، البتہ فخر الاسلام نے اسے بعید اور دور از قیاس قرار دیا ہے"۔ علامہ ابن نجیم حنفیؒ نے "الاشباہ والنظائر" میں"شرح المنار" کے حوالے سے تحریر فرمایا ہے کہ بعض احناف اباحت کے قائل ہیں اور ان میں امام کرخیؒ بھی ہیں،جب کہ بعض محدثین کی رائے یہ ہے کہ اصل اشیاء میں حرمت ہے (29)۔
اس قاعدے سے مستثنیٰ اشیاء:
مذکورہ قاعدہ تمام اشیاء کو شامل نہیں کہ ہر شے میں اصل اباحت ہو بلکہ بعض اشیاء ایسی ہیں جو اس قاعدے سے مستثنیٰ ہیں، جن کی تفصیل یہ ہے:
(۱) نجس اشیاء:جو چیزیں نجس ہیں ان میں اصل اباحت نہیں بلکہ حرمت ہے(30)۔ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿إنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾(31)
"اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں ہیں۔ شیطانی کام ہیں۔ سو ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو"۔
(۲) مضر اشیاء: مضر اشیاء (جو چیزیں ضرر رساں ہیں ان) میں اصل حرمت ہے، جب کہ فائدے والی چیزوں میں اصل اباحت ہے(32)۔ مشہور فقیہ علامہ عبد الرحمٰن مقدسی فرماتے ہیں: والمضر حرام أيضا لضرره "كالسموم" ونحوها(33) "مضر چیزیں بھی حرام ہیں جیسے زہر وغیرہ"۔ مضر اشیاء میں حرمت اصل ہونے کی دلیل آپ علیہ السلام کا یہ ارشاد مبارک ہے:"لا ضرر ولا ضرار في الإسلام"(34)
(۳)شرمگاہ (فروج): فروج بھی اس قاعدے سے مستثنیٰ ہیں، یعنی ان میں بھی اصل حرمت ہے جب تک
اباحت کی دلیل نہ پائی جائے انہیں حرام تصور کیا جائے گا۔شرمگاہوں میں حرمت اصل ہونے کے
بارے میں علامہ موفق نے " المغنی " میں اور امام نووی نے "المجموع" میں اہلِ علم کا اجماع نقل کیا ہے۔
أما الأبضاع؛ فقد حكى الموفق في: "المغني"، والنووي في: "المجموع" إجماع أهل العلم على
ذلك.(35)
اسی لئے "کشف الاسرار" میں لکھا ہے کہ نکاح میں اصل ممانعت ہے اور اس کا جواز ضرورت کی وجہ سے ہے۔ اگر کسی عورت میں جانبِ حلت اور حرمت کا تعارض ہو تو جانبِ حرمت کو ترجیح دی جائے گی(36)۔ علامہ ابن رجب حبنلیؒ نے "جامع العلوم والحکم" میں تحریر فرمایا ہے کہ جن چیزوں میں اصل حرمت ہے جیسے فروج اور حیوانات کا گوشت، تو انہیں تب حلال کہا جائے گا جب ان کی حلت کسی یقینی ذریعے سے ثابت ہو جائے، مثلاً حلال جانور کو ذبح کیا جائے اور بضع کا عقدِ نکاح ہو جائے۔ اگر کسی اور سبب کی وجہ سے ان میں تردد ہو تو اصل یعنی حرمت کی طرف رجوع ہو گا(37)۔
(۴) عبادات:مذکورہ قاعدے کو عبادات پر بھی منطبق نہیں کیا جا سکتا، کہ کوئی خاص طریقہ جس کے بارے میں قرآن و سنت خاموش ہوں اس کو عبادت سمجھا جائے یہ جائز نہیں کیونکہ عبادات اور ان کےہیئت و طریقہ کو قرآن وسنت سے ہی ثابت کیا جا سکتا ہے، اسی لئے اگر کوئی طریقہ اور ہیئت شریعت سے ثابت نہ ہو تو اس کو عبادت نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی اسے بطورِ عبادت اپنایا جا سکتا ہے۔ علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ عبادات میں اصل توقف ہے لہٰذا کسی چیزکو عبادت نہیں کہا جائے گا جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی مشروعیت نہ ہو، ورنہ اس آیتِ کریمہ کے مصداق بن جائیں گے:﴿ أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللهُ ﴾(38)"کیا ان کے کچھ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے ایسا دین مقرر کر دیا ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی" ۔ جب کہ عادات میں اصل اباحت اور جواز ہے، لہٰذا کسی عادت کو ناجائز نہیں کہا جائے گا جب تک شریعت سے اس کا عدمِ جواز ثابت نہ ہو (39)۔
(۵) جان ، مال اور عزت و آبرو:مذکورہ قاعدے سے خون، مال اور عزت وآبرو بھی مستثنیٰ ہیں (40)، کیونکہ جان، مال اور عزت وآبرو میں اصل حرمت ہے۔
زیرِ بحث قاعدے کی روشنی میں چند اہم مسائل کا حکم:
یہ قاعدہ بہت مفید ہے اور بہت سے ایسے پیچیدہ اور مشکل مسائل کے حل میں اس سے مدد لی جاتی ہے جن کے بارے میں قرآن وسنت کے نصوص ساکت ہوں۔
(۱) زرافہ کی حلت وحرمت :
زرافہ کی حلت وحرمت کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں، امام سبکیؒ فرماتے ہیں کہ راجح یہ ہے کہ یہ
حلال ہے کیونکہ اصل اشیاء میں اباحت ہے، نیز ذی ناب یعنی چیز پھاڑ کر شکار کرنے والے جانوروں میں سے
نہیں ہے،لہٰذا یہ حیواناتِ محرمہ کے ضمن میں نہیں آتی۔ فقہاءِ حنفیہ اور مالکیہ میں سے کسی نے اس کا ذکر نہیں کیا لیکن ان کے قواعد سے اس کی حلت معلوم ہوتی ہے(41)۔
(۲) مجہول الاسم نباتات:
ایسے پودے جن کا نام وغیرہ معلوم نہ ہو انہیں بھی اسی قاعدے کی رو سے مباح سمجھا جائے گا،جیسا کہ امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ یہ اپنی اصل (حلت) پر ہوں گے(42)۔
(۳) مجہول الِملک نہر:
جس نہر کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ وہ مباح ہے یا مملوک، اسے بھی اصل کے اعتبار سے مباح کہا جائے گا۔چنانچہ علامہ ابن نجیم حنفیؒ نے ایسی نہر کو مباح قرار دیا ہے(43)جب کہ علامہ ماوردی نے اس کے بارے میں دو قول نقل کئے ہیں جن کی بناء اسی قاعدے پر ہے کہ اصل اشیاء میں اباحت ہے یا حرمت (44)۔
(4) سگریٹ نوشی:
سگریٹ نوشی کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں، بعض حضرات اس کی اباحت کے قائل ہیں جب کہ بعض کراہت کے اور کچھ حضرات اس کو حرام قرار دیتے ہیں (45)۔ علامہ عبد الغنی نابلسیؒ نے سگریٹ نوشی کے جواز پر ایک رسالہ لکھا ہے جس میں اسی قاعدے کی بنیاد پر اس کو حلال قرار دیا ہے، علامہ علاؤالدین تحریر فرماتے ہیں:
وألف في حله أيضا سيدنا العارف عبد الغني النابلسي رسالة سماها الصلح بين الاخوان في إباحة شرب الدخان وتعرض له في كثير من تآليفه الحسان، وأقام الطامة الكبرى على القائل بالحرمة أو بالكراهة، فإنهما حكمان شرعيان لا بد لهما من دليل ولا دليل على ذلك، فإنه لم يثبت إسكاره ولا تفتيره ولا إضراره، بل ثبت له منافع، فهو داخل تحت قاعدة الاصل في الاشياء الاباحة(46)
"علامہ عبد الغنی نابلسی نے سگریٹ کی حلت پر ایک رسالہ لکھا ہے جس کا نام "الصلح بين الاخوان في
إباحة شرب الدخان" رکھا ہے، اور حرمت وکراہت کے قائلین پر شدید تنقید کی ہے، کیونکہ کراہت اور حرمت احکام شرعیہ ہیں جن کے لئے دلیلِ شرعی ضروری ہے حالانکہ سگریٹ کی حرمت اور کراہت پر کوئی دلیل موجود نہیں کیونکہ نہ اس میں نشہ ہے اور نہ ہی ہر شخص کے حق میں ضرر، بلکہ اس کے کچھ
فوائد بھی ہیں لہٰذا یہ "الاصل في الاشياء الاباحة" کے تحت داخل ہے"۔
خلاصۂ بحث:
زیرِ بحث قاعدہ نہایت مفید اور بہت سے اہم اور مشکل فقہی مسائل کے حل میں کار آمد ہے۔ جمہور احناف اور شوافع اس کے قائل ہیں کہ اشیاء میں اصل اباحت ہے۔ اور یہ بات قرآن وسنت کے بہت سے دلائل سے ثابت ہے۔
حوالہ جات
1: السيوطی، عبدالرحمن بن أبی بكر: الأشباه والنظائر (دارالكتب العلميۃ، بيروت، 1403ھ)، 1/ 60
2: المناوی، محمد عبد الرؤوف :التعاريف (دار الفکر، بيروت، الطبعۃالأولى، 1410ھ) 1 / 569
3: ابن منظور،محمد بن مکرم الافريقی: لسان العرب (دارصادر ،بيروت ،الطبعۃالأولی): 3 / 357
4: الرازی، محمد بن أبی بكر بن عبدالقادر:مختار الصحاح (مكتبۃلبنان ناشرون،بيروت، 1415ھ) 1 / 560
5: الزبيدی، محمد بن محمد: تاج العروس من جواهر القاموس (دارالهدايۃ)،9 / 49
6: النحل: 26
7:علی حيدر: درر الحكام شرح مجلۃ الأحكام، (دارالكتب العلميۃ، بيروت) ،1 / 17
8: الزرقاء، مصطفیٰ احمد : المدخل الفقهی العام ، 947/2
9:السيوطی، الأشباه والنظائر ، 1/ 60
10: البقرة: 29
11: الانعام : 119
12: شيخ الاسلام ابن تیمیہ، تقی الدين أبوالعباس أحمد بن عبد الحليم : مجموع الفتاوی (دارالوفاء، الطبعۃالثالثۃ، 1426 ھـ) 21 / 536
13: الأنعام : 145
14: ابن تیمیہ:مجموع الفتاوی (دارالوفاء)21 / 537
15: الجاثیۃ:13
16: ابن تیمیہ: مجموع الفتاوی ، 21 / 536
17: البزار، احمد بن عمرو البصری: مسند البزار، 2/111، ذکر السيوطی فی الاشباه و النظائر 1/60
18: ملا علی قاری،أبو الحسن نور الدين: مرقاة المفاتيح(دار الفكر، بيروت، الطبعۃ الأولى) 12 / 479
19: الطبرانی، سليمان بن أحمد :المعجم الصغير (المكتب الإسلامی، بيروت، الطبعۃ الأولى، 1405ھ)2 / 249
20: البيهقی، أبو عبد الله حامد بن أحمد:سنن البيهقى الكبرى، 10/ 12
21: المباركفوری، أبو الحسن عبيد الله بن محمد عبد السلام: مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (إدارة البحوث العلميۃ والدعوة والإفتاء، بنارس الهند، الطبعۃ: الثالثۃ، 1404 ھ) 1/300
22: عبدالله بن يوسف الجُديع: تيسير علم أصول الفقہ ، 1 / 34
23: السيوطی، الأشباه والنظائر، 1/ 60
24: حوالہ بالا
25: ابن عابدين، محمدأمين بن عمر بن عبدالعزيز: حاشيۃابن عابدين (دارالفكر، بيروت، 1421ھ) 4 / 161
26:الحموی، شهاب الدين أحمد بن محمد مكی: غمز عيون البصائر علی الاشباه والنظائر لابن نجيم (دارالكتب العلمیۃ، 1405ھ) ،
1 / 223
27: الماردينی، شمس الدين محمد بن عثمان: الأنجم الزاهرات على حل ألفاظ الورقات (مكتبۃالرشد،الرياض) 1 / 52
28: أميربادشاه محمدأمين: تيسير التحرير (دارالفكر) 2 / 246
29: ابن نجيم، الأشباه والنظائر، 1 / 66
30: المقدسی، عبدالرحمن بن إبراهيم بن أحمد: العدة شرح العمدة (دارالكتب العلمیۃ، الطبعةالثانیۃ، 1426ھ) 2 / 83
31: المائده: 90
32: أحمد بن عبدالله بن حميد: الشرح على شرح جلال الدين المحلی للورقات 1 / 222
33: المقدسی، العدة شرح العمدة ، 2 / 83
34: الإسنوی، جمال الدين عبدالرحيم: نهايۃالسول شرح منهاج الوصول (دارالكتب العلمیۃ، بيروت ، الطبعۃالأولى 1420ھ) 2 / 235
35: صالح بن محمد بن حسن الأسمري: مجموعۃ الفوائد البهيۃعلى منظومۃالقواعد البهيۃ (دارالصميعی ،الطبعۃالأولى) 1 / 72
36: ابن نجيم، الأشباه والنظائر ، 1 / 67
37: ابن رجب الحنبلی، أبوالفرج عبدالرحمن بن أحمد: جامع العلوم والحكم (دارالمعرفۃ،بيروت ،الطبعۃالأولى) 1 / 69
38: الشوریٰ:21
39: محمَّد بنْ حسَيْن بن حَسنْ الجيزانی: معالم أصول الفقہ عند أهل السنۃ والجماعۃ (دار ابن الجوزی، الطبعۃالخامسۃ، 1427 ھ)
1 / 310
40: الزركشی ، بدرالدين محمد بن بهادر: البحر المحيط فی أصول الفقہ (دارالكتب العلميۃ ، بيروت ، الطبعۃ: 1421ھ) 4 / 325وايضا القرافی، شهاب الدين أحمد بن إدريس المالکی: شرح تنقيح الفصول 3 / 204
41: السيوطی، الأشباه والنظائر،1 / 60
42: ایضا۔
43: الدكتور وهبۃ الزحيلی: الفقہ الإسلامی وأدلتہ ، 8 / 534
44: السيوطی، الأشباه والنظائر،1 / 60
45: علاء الدين محمد بن محمد أمين المعروف بابن عابدين (المتوفى: 1306ھ): تكملۃ حاشیۃ رد المحتار (دار الفكر للطباعۃ والنشر والتوزيع، بيروت، س،ن)، 1 / 15
46:ایضا
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |