6
1
2019
1682060029336_1066
40-55
https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/161/150
https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/161
تعارف
ملکوں کی سالمیت اور بقا کا دارومدارمعاشی استحکام پرہے اور معیشت کی بہتری کے لئے امن وامان کی بحالی از حد ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ حضر ابرہیمؑ نے اپنی دعاء میں امن کو معیشت پر مقدم کیا ہے۔جس کے لیے ایسے جامع اور فعال قانون کی ضرورت ہے جوجرائم کی روک تھام اور مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے میں مؤثرہو ۔وضعی قوانین کی طرح شرعی قانون میں بھی جرائم کےسدباب اور مجرموں کی حوصلہ شکنی کے لئے جزاءوسزا کا جوتصور پیش کیا گیاہے اس میں سزا کے اعتبارسے جملہ جرائم کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔
(۱)جن سےحد لازم ہوتی ہو مثلازنا،چوری
(۲)جن سے کفارہ لازم ہوتاہو مثلا قتل خطا،حالت احرام یا رمضان میں دن کے وقت ہمبستری کرنا
(۳)جن سے نہ حد لازم ہوتی ہو اور نہ کفارہ ان میں تعزیر دی جائے گی
حد کے جرائم محدود اور متعین ہونے کی وجہ سے مجتہدین نے ان پر سیر حاصل گفتگوکی ہے لیکن ایسے لامحدود انوکھے اور نت نئے جرائم جن کاسماج کو سامنا ہےیاآنے والےادوار میں ہوگا، کےسد باب کے لیے تعزیر کی اصطلاح ایجاد کرکے اس کے اصول اور ذیلی مباحث کو توذکرکردیالیکن اس کی سزا کو حاکم کی صوابدید پر چھوڑدیا جو مناسب سمجھےسزا تجویزکرے ۔اس اعتبار سے تعزیر قانون کاایسا وسیع باب ہے جس سےہردورمیں ہر طرح کے جرم کاسدباب ممکن ہے اس طرح کی سزاؤں کی غرض:
(الف )جرائم کا خاتمہ کرنا
(ب) ان پر قابوپانا
(ج )یامجرم کی اصلاح کر نا
ہوتی ہے ۔برسوں پہلے ایسی جامع اصطلاح کااستعمال اور پھر اس کے احکامات کی تفصیل اسلام کی جامعیت،ہمہ گیریت کا منہ بولتا ثبوت ہے شومئی قسمت کہ مستشرقین نے ا سلام کی جامعیت پرسوال اٹھاتے ہوئے بڑی دیدہ دلیری کیساتھ یہ اعتراض کیا کہ قرآن وسنت کے نصوص میں سے کوئی ایک نص بھی تعزیر کے جواز پر دلالت نہیں کرتا اسی طرح دور حاضر میں عدلیہ کی جانب سے کیے جانے والے فیصلوں میں جرمانوں اور قید کی بہتات کیوجہ سے تعزیر کو انہی دو قسموںمیں منحصر سمجھا جانے لگا۔ زیر نظر مضمون میں مستشرقین کےاس شبہے کا تنقیدی جائزہ لینےکے بعد مختلف پہلوؤںمثلاجواز ،اقسام ،مراتب ، طریقے ،مقداراوراصول بیان کرکے نتائج ذکر کئے گئےہیں۔
تعزیر کی تحقیق
لفظ تعزیر باب تفعیل کا مصدر ہے جو تعظیم کےمعنی میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی کا ارشادہے :
لتؤمنوا باللّٰه ورسوله وتعزروه و توقروه[1]
ترجمہ:” تاکہ تم اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول پر ایمان لاؤاور (اس کے دین کی) مدد کرو اور اس کی تعظیم کرو“۔
ایک اور مقام پر ارشاد ہے:
وعزرتموهم وأقرضتم الله قرضا حسنا[2]
ترجمہ:” اور ان کی مدد کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خوش دلی سے خرچ کرتے رہے“۔
کبھی یہ روکنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے لغت کے علماء انہی دو معانی کا ذکر کرتے ہو ئےفر ماتے ہیں:
التعزیرألتعظیم، والإذلال، ألمنع والرد[3]
صاحب مجمل اللغة فرماتے ہیں:
ألتعزیر هی النصره والتعظیم، ألمسایعة علی الأمر[4]
جبکہ فقہاء کے ہاں اس کا اطلاق اس سزا پر ہوتا ہے جو حدکے علاوہ ہو چنانچہ علامہ ماوردی فرماتے ہیں:
ألتعزیر هو التادیب علی ذنوب لم تشرع فیها الحدود [5]
بعض اس کی تعریف یوں کرتے ہیں:
عقوبة غیر مقدرة تجب حقااللّٰه تعالٰی او لاٰدمی فی کل مخالفة لیس فیها حد مقدر[6]
گویا کہ فقہاء کے ہاں تعزیر اس تادیبی سزا کانام ہے جوحداور کفارے کی سزا کے علاوہ ہے۔ اسی کاذکر کر تے ہوئے ڈاکٹر عبدالرحمن الغرباطی فرماتے ہیں:
تادیب علی ذنب لا حد فیه ولا کفارة غالباً[7]
لفظ حدلغت میں کئی معنی میں استعمال ہوتاہے ۔
۱جدا کرنا
۲۔کسی شے کی انتہاء
۳۔ منع کرنا
۴۔ سزا دینا[8]
جبکہ اصطلاح میں ا اللہ رب العزت کی طرف سے مقرر کی گئی سزا کو حد کہاجاتاہے۔علامہ کاسانی فرماتے ہیں:
”وفی الشرع عبارة عن عقوبة مقدرة واجبة للّٰه تعالٰی عز شانه [9] حد اور تعزیر میں درج ذیل وجوہ سے فرق پایا جاتا ہے: ۱۔حد میں اجتہاد کی گنجائش نہیں جب کہ تعزیر میں ہوتی ہے۔
۲۔تعزیر میں کمی یا زیادتی ممکن ہے جب کہ حد میں نہیں۔[10]
۳۔حدود شبہات کی وجہ سے ٹل جاتی ہیں جب کہ تعزیر نہیں۔
۴۔حد بچے پر جاری نہیں ہوگی جب کہ تعزیر ہو سکتی ہے۔
۵۔حد ذمی پر جاری ہو گی جب کہ تعزیر نہیں ۔
۶۔حد کے نافذ کرنے کا اختیار حاکم کے پاس ہے جب کہ تعزیر کسی اور کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے۔
۷۔حد میں رجوع ممکن ہے جب کہ تعزیر میں نہیں
۸۔حد میں جھوٹے گواہوں سے تفتیش کی جا سکتی ہے جب کہ تعزیر میں نہیں ۔
۹۔حد میں سفارش یامعافی جائز نہیں جب کہ تعزیر میں ہے۔
اقسام تعزیر
چونکہ تعزیر تادیبی کارروائی کانام ہے اس لیے مآل کے اعتبار سے اس کی دو قسمیں ہیں :
(۱)ادب یا تر بیت کی بناء پر سزا دینا۔ مثال کےطور پر والد ین کا اولاد ،شوہر کابیوی ،استاد کا شاگرد کو مارنا اس میں ڈنڈوں سے زیادہ نہیں مارا جائے گا۔
(۲)جرائم کی بناء پر سزا دینا اس کا حکم یہ ہے کہ یہ حاکم کی صوابدید پرموقوف ہے کہ وہ حالات اور جرم کی نوعیت کو دیکھ کر جو سزا بھی تجویز کرےلیکن سزا تجویز کرتے وقت چند اصول مد نظر رکھے جائیں گے۔
۱۔ سزاکا مقصد عوام کے حقوق کا تحفظ ہو۔ مخصوص فرد یاافرادکے حقوق کے تحفظ کے لئے تعزیر نہیں ہو گی۔
۲۔یا شریعت کے مسلمہ مصالح کا تحفظ ہو۔ اگر ان مصالح کا تحفظ ممکن نہ ہو تو پھر تعزیر نافذ نہیں کی جائے گی۔
۳۔سزا کی وجہ سے جرم کے کم ہونے کا امکان ہو اگر جرم میں کمی کا امکان نہ تو تعزیر نہیں لگائی جائے گی ۔ کیونکہ منافقوں کامسلمانوں کے خلاف ہر سازش کا حصہ ہونے کے باوجود، آپﷺ معاشرے کو انتشار سے بچانے کی خاطر ان کےخلاف اقدام سے گریزاں رہے ۔
۴۔سزا جرم کے تناسب سے تجویز کی جائے گی ۔
جواز تعزیر ازروئے قرآن
تعزیر کے جائز ہونے پر مفسرین نے سورۃ نساء کی اس آیت
وَاللاَّتِی تَخَافُونَ نُشُوزهُنَّ فَعِظُوهنَّ وَاهجُرُوهنَّ فِی المَضَاجِعِ وَاضرِبُوهنَّ “ [11]
” انہیں نصیحت کرو اور ان کو بستر خواب پر تنہا چھوڑ دو اور (پھر بھی نہ مانیں تو) انہیں مارو“۔سے استدلال کیا ہے۔ مذکورہ آیت کریمہ میں نافرمان عورت کے لئے تین طرح سے سزا تجویز کی گئی ہے ۔
(۱)سمجھانا
(۲) بستر جدا کر نا
(۳)اس طرح مارناکہ نشان نہ پڑیں۔
مفسرین نے اسی آیت کو تعزیر کے لیے بنیاد ٹھہرا کر حاکم کو سزا کا اختیار دیا ہے۔ جب کہ بعض مفسرین نے اسی سورة کی دوسری آیت: وَاللَّذَانَ یَأتِیَانِهَا مِنکُم فَاٰذُوهمَا فَإن تَابَا وَأصلَحَا فَأعرِضُواعَنهُمَا إنَّ اللّهَ کَانَ تَوَّاباً رَّحِیماً[12]
”اور تم میں سے جو دو مرد بے حیائی کا کام کریں تو دونوں کو سزا دو اور اگر وہ توبہ کر لیں اور (آئندہ کے لئے) اپنی اصلاح کر لیں تو پھر انہیں چھوڑ دو ۔یقین رکھو اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے“۔
سے استدلال کیاہے جس میں ہم جنس پرستوں کی مذمت بیان کرکے سزا حاکم کی صوابدید پر چھوڑ دی گئی ہے۔
جواز تعزیر ازروئے حدیث
نبی کریم ﷺ نےمتعدد بارجرم کی نوعیت کو دیکھ کرمجرم کے لیے سزا تجویز فرمائی ہے۔ عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ سے درختوں پر لگے ہوئے پھلوں کی چوری سے متعلق پوچھا گیا تو آپ ﷺنے فرمایا:
” ما أصاب من ذی حاجة غیر متخذ خبنة فلا شیٔ علیه، ومن خرج بشیٔ منه فعلیه غرامة مثله والعقوبة“[13]
”ضرورت مند شخص جو چیزچوری سےلے جائے (پھلوں میں سے جب کہ وہ درختوں پر ہوں) تو اس پر کوئی جرمانہ نہیں اور اگر پھلوں کو محفوظ کرنے کے بعد (یعنی توڑنے کے بعد) لے جائے تو اس پر اس کی مقدار کے برابر جرمانہ اور چوری کی سزا ہو گی“۔
ایک دوسری حدیث میں آپﷺنے مانعین زکوٰة کے متعلق فرمایا:کہ جو زکوٰة نہیں دے گا اس سے دُگنا لیا جائے گا:
”من أعطاها موتجراً فله أجرها ومن أبٰی فإنا اٰخذوها وشطر إبله “ [14]
”جس نے زکوٰة ثواب کےلئےدیا اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب ہے اور جس نے زکوٰۃدینے سے انکار کیا تو ہم اس سے زبردستی لیں گے اور بطور (جرمانہ) اونٹوں کا کچھ حصہ بھی لیں گے“۔
ان احادیث سے تعزیر کاجواز ثابت ہو نے کے ساتھ یہ بھی ثابت ہورہا ہے کہ حالات کے تبدیل ہو نے سے حکم تبدیل ہوجاتا ہے اگرچہ امام نسائی کی اس روایت پر بہز بن حکیم کی وجہ سے محدثین کو کلام ہے، امام شافعیؒ تو اسے حدیث ہی نہیں مانتے ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض محدثین تعزیر بالمال کو ابتدائےاسلام پر محمول کرکے اس کے نسخ کے قائل ہیں ۔سنن نسائی کے محشی فرماتے ہیں:
” إنه کان فی صدر الإسلام یقع بعض العقوبات فی الأموال ثم نسخ“[15]
خلفائے راشدین کے ادوار میں دی جانے والی سزائیں
قرآن و سنت کے ساتھ تاریخ بھی اس پر شاہد ہےکہ خلفاءراشدین نے تعزیر میں مختلف قسم کی سزائیں دی ہیں جن میں سے چند ذیل میں نقل کی جاتی ہیں:
۱۔خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبرؓ کے دورِ میں مکہ کے مضافات میں ہم جنس پرستی عام ہونے لگی تو حضرت خالد بن ولیدؓ نے آپؓ کو خط کے ذریعے اطلاع دی کہ بعض علاقوں میں بڑی دھوم سے لڑکوں سے شادیاں کی جاتی ہیں تو صدیق اکبرؓ نے کبار صحابہ کرامؓ کو جمع کرکے مشاورت کی چنانچہ حضرت علی المرتضیٰؓ نے اپنی رائے کا اظہارکرتےہوئےفرمایا”أری أن یحرقوا با النار فکتب أبو بکر خالد أن یحرق فحرقه ثم حرقهم عبداللّٰه بن الزبیر فی خلافته ثم حرقهم هشام بن عبدالملک“۔
۲۔حضرت عمرؓ نے اس گھر کوجلانے کا حکم دیا جہاں شراب پی جاتی تھی۔
۳۔حضرت عمرؓ نے حضرت سعد ؓکے محل کو گرانے کے لیے محمد بن مسلمہؓ کو بھیجا جو گرا دیا گیا۔
۴۔اسی طرح آپؓ نے نصر بن الحجاج کو سر منڈوانے کا حکم دیا اور جلا وطن بھی کیا۔ [16]
۵۔اصبع التیمی پرعام مجالس میں بیٹھنے پر پابندی لگا دی
تعزیر کے طریقے
چونکہ تعزیر میں سزا حاکم کی رائے پر موقوف ہوتی ہے اس لئے جرم کی نوعیت سے مجرم کے لئے سزا تجویز کی جاتی ہے
یہی وجہ ہے کہ خیرالقرون میں تعزیر کی سزامیں مختلف طریقے اپنائےگئے ہیں حتی کہ کبھی کبھارتو تعزیر میں قتل بھی کیاگیا ہےذیل میں چند ایک طریقے ذکرکئے جاتےہیں :
1۔ قتل کرنا
ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
” من یعمل عمل قوم لوط فاقتلوا الفاعل والمفعول به “ [17]
” جس کسی کو پاؤکہ قوم لوط والا عمل کر رہا ہوتو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو“۔
2۔ مارنا
حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں” آپﷺؐکے پاس ایک ایساشخص لایا گیا جس نے شراب پی ہوئی تھی۔ آپﷺ نے فرمایا: إضربوه (اسے مارو) حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں: فمنا الضارب بیده والضارب بنعله والضارب بثوبه [18]ترجمہ ؛ہم میں سے بعض ہاتھوں سے مار رہے تھے بعض جوتوں سے اور بعض کپڑوں سے“
3۔دھمکانا
حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ فرماتے ہیں کہ”آپ ﷺنے فرمایا : اگر آدمی پہلی یا دوسری بار شراب پئے تو اسے کوڑے مارو اور اگر تیسری یا چوتھی بار پیئے تو فإن عاد الثالثة أو الرابعة فاقتلوه“ [19]اس کی تشریح کرتے ہوئے ابوداؤدکےمحشی فرماتے ہیں هذا وارد علی سبیل التهدید دون الامر بالقتل۔"یہ حکم خوف دلانے اورڈرانے کے لئے ہے "۔
4۔ مارنا اور جلاوطن کرنا
اگر حاکم وقت مارنے کے ساتھ جلاوطنی میں مصلحت سمجھےتو کر سکتا ہے کیونکہ معن بن زائدہ جب بیت المال کی مہر کی نقل بنواکر دھوکے سے مال لے گیاحضرت عمر کو جب اس کا پتہ چلا تو آپؓ نے اسے 200 کوڑے مارنے اور علاقہ بدر کرنے کاحکم دیا۔ چنانچہ ملا علی قاری فرماتے ہیں:
”فبلغ عمر ذلک فضربه مائة وحبسه فکلم فیه فضربه مائة أخری فکلم من بعد فضربه مائة فنفاه “[20]
اسی طرح آپ نے ابو محجن کوکثرت شراب نوشی کی وجہ سے ملک بدر کیا تھا [21]لیکن جب ربیعہ بن امیہ بن خلف کو اسی جرم میں علاقہ بدر کیا اوروہ مرتد ہو کر ہرقل کے ساتھ جا ملا ۔ تو حضرت عمرؓنے جلاوطن کر ناترک کردیا ۔
حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ ایک بار نبی کریم ﷺ میرے حجرے میں تشریف لائے تو ایک ہیجڑے کو بیہودہ باتیں کرتے ہوئے پایا۔ آپ ﷺنے انتہائی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا أخرجوهم من بیوتکم۔ "کہ اپنے گھروں سے ان کو نکال دو "۔ اسی کی تائید میں صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک ہیجڑہ آیا اور اس نے رزق کی تنگی کی شکایت کرتے ہوئے موسیقی کو معاش کا ذریعہ بنانے کی اجازت طلب کی ۔ آپﷺنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: أما إنک إن فعلت بعد التقدمة إلیک ضربتک ضرباً وجیعاً وحلقت رأسک مثلة ونفیتک من أهلک وأحللت بسلبک نهبة لفتیان أهل المدینة [22]
”خبردار اگر تو نے پھر یہ کام کیا جس سے میں تجھ کو منع کر چکا ہوں تو میں تجھے دردناک طریقے سے ماروں گا اور تیرا سرمنڈا دوں گا اور تیرے رشتہ داروں سے تجھے جلا وطن کر دوں گا اور تیرا مال مدینہ کے نوجوانوں کے لیے حلال کرا دوں گا یعنی لوٹنے کی اجازت دوں گا“۔6۔سر منڈوانا
سنن بن ماجہ کی حدیث میں وحلقت رأسک مثلة کی تشریح کرتے ہوئے محشی فرماتے ہیں:”هذا أیضاً تهدید و فیه جواز حلق الرأس لاهل المعاصی قلت هذا لیس بالمثلة الممنوعة لأن حلق الرأس جائز بالاتفاق“ کیونکہ حضرت عمرؓ نے نصر بن الحجاج کو حلق کا حکم دیا تھا۔ البتہ ابن عباسؓ اس کا انکار کرتے ہوئے فرماتے ہیں”جعل اللّٰه حلق الرأس سنة.... فجعلتموه نکالاً وزدتموه فی العقوبة“ [23]لیکن ابن ماجہ کی وہ حدیث جو باب المخنثین کے تحت ذکر کی گئی ہے اس میں نبی کریم ﷺ نے اس مخنث کو جن سزاؤں سے ڈرایا ہے ان میں حلق الرأس بھی شامل ہےجو جواز پر دلالت کررہا ہے۔
7۔تشہیرکرانا
کبھی کبھی مجرم کے شر سے لوگوں کو بچانے کے لئے اسے شہرت دلائی جاتی ہے۔ قاضی شریح کےپاس جھوٹا گواہ لایا گیاانہوں نے ” فنزع عمامته وخفقه خفقات بالدرة وبعث به إلی المسجد یعرفه الناس“[24]
”اس کی پگڑی اتاری اور اسے چند درے مارے اور اسے مسجد بھجوایا تاکہ لوگ اسے جان لیں کہ یہ جھوٹا گواہ ہے “۔
8۔ پابندی لگانا
اصبع التیمی حضرت عمرؓ کے پاس آیا بہت زیادہ سوالات کرنے لگا توآپ ؓنے حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کو لکھا کہ إمنع الناس مجالسه[25]
9۔ چہرے کا سیاہ کرنا
علامہ صنعانی حضرت عمرؓ کا عمل نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں ”إن عمر بن الخطاب أمر بشاهد الزور أن یسخم وجهه ویلقی فی عنقه عمامته ویطاف به فی القبائل ویقال إن هذا شاهد الزور“[26]
”حضرت عمرؓ نےجھوٹی گواہی دینے والے کے متعلق یہ حکم دیا کہ اس کا چہرہ کالا کر دیا جائے۔ اس کے گلے میں پگڑی ڈال کر آبادیوں میں پھرایا جائے “۔اور مصنف عبدالرزاق کی ایک دوسری حدیث میں وأن یحلق رأسه أن یطال حبسه[27]
"اس کا سر منڈوا کرحبس طویل میں رکھا جائے"، کا اضافہ ہے۔
10۔ قید کرنا
نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو تہمت یعنی شک کی وجہ سے قید کیا تھا۔ بہز بن حکیم فرماتے ہیں:” أن النبی ﷺ حبس رجلاً فی تهمة ثم خلی عنه“ [28]"نبی کریم ﷺ نے تہمت کی وجہ ایک شخص کو قید کیا اور تھوڑی دیر بعد اسے رہا کر دیا“۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تعزیر میں قید کرنا بھی جائز ہے۔
11۔تعلقات ترک کرنا
آپﷺؐنے غزوہ تبوک سے رہ جانے والے صحابہ کرامؓ حضرت ہلال بن امیہ ،کعب بن مالکؓ ،اور مرارة بن ربیعہؓ کے ساتھ مسلمانوں اور ان کی بیویوں کو نہ صرف تعلقات ترک کرنے کا حکم دیا بلکہ ان کی بے گناہی ثابت ہونے تک سلام سے بھی منع فرمایایہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی:
وَعَلَی الثَّلاَثَةِ الَّذِینَ خُلِّفُواحَتَّی إذَا ضَاقَت عَلَیهِمُ الأرضُ بِمَا رَحُبَت وَضَاقَت عَلَیهِم أنفُسُهُم وَظَنُّوا أن لاَّ مَلجَأ مِنَ اللّهِ إلاَّ إلَیهِ ثُمَّ تَابَ عَلَیهِم لِیَتُوبُوا إنَّ اللّهَ هو التَّوَّابُ الرَّحِیم ([29])
" اور تین افراد پر بھی اس نے مہربانی کی جن کا معاملہ ملتوی کر دیا گیا یہاں تک کہ زمین اپنی فراخی کے باوجود ان پر تنگ ہو گئی اور وہ خود اپنی جان سے تنگ آ گئے اور انہیں یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ (کے غضب) سے بچ کر نکل جانے کے لیے کوئی پناہ گاہ نہیں مگر اسی کی طرف رجوع میں ہے، جب اللہ نے ان پر توجہ فرمائی تاکہ وہ توبہ کریں بیشک اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا نہایت مہربان ہے“۔
اسی طرح حضرت عمرؓ نے اصبع التیمی کے ساتھ بھی لوگوں کو تعلقات ترک کرنے کا حکم جاری کیا تھا یہاں تک کہ اگروہ مجلس میں آجاتے تو لوگ اٹھ جایاکرتے تھے۔
12۔جرمانےلگانا
تعزیر میں کبھی جرمانا لگایا جاتا ہے۔ حدیث کی کتابوں میں اس کی کئی مثالیں پائی جاتی ہیں ۔
۱۔زکوٰۃ نہ دینے والوں سے دوگنا وصول کیا گیا۔
۲۔عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے میرے بدن پر زرد رنگ کے کپڑے دیکھے تو فرمایا کیا تمہاری والدہ نے تمہیں یہ پہننے کا حکم دیا ہے؟ میں نے کہا انہیں دھو ڈالوں گا۔ آپؐ نے فرمایا: بل أحرقهما[30] "دونوں کو جلا دو"۔ اور یہی تعزیر بالمال ہے جس کا حکم آپﷺفرما رہے ہیں۔
۳۔ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ راٰی خاتماً من ذهب فی ید رجل فنزعه فطرحه[31]
"نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو اس کے ہاتھ سے نکال کر پھینک دی"۔
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ مال کے ذریعے بھی تعزیر ہو سکتی ہے۔
مراتب تعزیر
تعزیر میں سزا تجویز کرتے وقت انسانی مرتبے اور مقام کو ملحوظ رکھا جاتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ فقہاءنے تعزیر کے نفاذ کے لیےمختلف مراتب ذکر کیے ہیں۔ علامہ کاسانی ان کا ذکر کرتے ہوئےفرماتے ہیں:
”ألتعازیر علی أربعة مراتب تعزیر الأشراف وهم الدهاقون، والقواد وتعزیر أشراف الأشراف وهم العلویة والفقهاء وتعزیر الأوساط وهم السوقة وتعزیر الأخساءوهم السفلة“([32])
۱۔تعزیر اشرف الاشراف
۲۔ تعزیر الاشراف
۳۔تعزیر الاوساط
۴۔تعزیر السفلہ
پہلے طبقے سے مراد علماءاور سید ہیں، ان کے تعزیر کا طریقہ یہ ہے کہ حاکم کارندے کے ذریعہ ان کو ان کی غلطی پر متنبہ کرے گا۔ علامہ کاسانی فرماتے ہیں” وتعزیر أشرف الأشراف بالأعلام المجرد وهو أن یبعث القاضی أمینه إلیه فیقول له بلغنی إنک تفعل کذا وکذا“۔ دوسرے طبقے سے مراد زمیندار ہیں ان کی تعزیر کا طریقہ یہ ہے کہ غلطی پر تنبیہ کے ساتھ ساتھ عدالت میں پیش کیا جائے گا۔” وتعزیر الأشراف بالأعلام والجر إلی باب القاضی والخطاب بالمواجهة“[33] الاوساط سے مراد مذکرہ تین طبقوں کے علاوہ لوگ ہیں۔ان کی تعزیر کا طریقہ یہ ہے کہ غلطی پر تنبیہ کےساتھ عدالت میں پیش کیا جائے گااور اگر ضرورت ہو تو قید بھی کیا جا سکتا ہے۔السفلہ کے مصداق میں فقہاءکی آرا ءمختلف ہیں:
۱۔امام ابو حنیفہؒ اس سے کافر مراد لیتے ہیں۔
۲۔امام ابو یوسفؒ فرماتے ہیں کہ اس سے گفتگو میں احتیاط نہ کرنےوالا مراد ہے ۔
۳۔امام محمدؒ کے ہاں اس سے مراد جواباز ہے۔
۴۔محمد بن مسلمہ اس کی تشریح افعال قبیحہ کےمرتکب سے کرتے ہیں ۔
۵۔نصر بن یحی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد وہ شخص ہے کہ جو دعوت پر مدعو ہواور کھانا کھانےکے بعد ساتھ لے جائے۔[34]
ان کی تعزیر کا طریقہ یہ ہے کہ تنبیہ، قید اور عدالت میں لائے جانے کے ساتھ ساتھ اگر ضرورت ہو تو مارا بھی جاسکتا ہے۔شریعت میں سزاؤں کا یہ فرق انسانی طبعیت کے موافق اس وجہ سے ہے کہ اس سزاکا مقصد زجر اور توبیخ ہے اور زجر ہر انسان کی طبیعت کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے ۔
تعزیر کی مقدار
تعزیر کی مقدار میں علماءکی آراء کا حاصل یہ ہے
1۔اصحاب الظواہراور امام احمد بن حنبلؒ کے ہاں تعزیردس کوڑوں سے زیادہ نہیں ہوگی اور ان کی دلیل ابی بردہ بن نیارؓ کی وہ حدیث ہےجس میں آ پ ﷺ نے فرمایا:
” لا یجلد فوق عشرة ألأسواط إلا فی حد من حدود اللّٰه“[35]
"دس کوڑوں سے زیادہ نہیں مارا جائے گا مگر حدود میں"۔
اس لئے صاحب ندیہ فرماتے ہیں:
”ولا یجاوز عشرة أسواطٍ“[36] "تعزیر دس کوڑوں سے زیادہ نہیں ہوگی "۔
اسی طرح صاحب منار السبیل فرماتے ہیں ” ولا یزاد فی جلد التعزیر علی عشرة أسواطٍ“[37]
اور یہی مسلک امام محمدؒ کاہے ”ولا یزاد فی جلد التعزیر علی عشرة اسواطٍ“[38]
لیکن یہ رائے اس لئےدرست نہیں کہ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ اگر کوئی انسان دوسرے کو یہودی یا مخنث کہے تو فاضربوه عشرین سوطا[39] "اُسے بیس کوڑے مارو"۔ اس سے معلوم ہورہاہے کہ ابی بردہ بن نیار کی روایت کاوہ مفہوم نہیں جو اصحاب الظواہراورحنابلہ نے لیا ہے۔
۲۔احناف اور شوافع کے مطابق تعزیر کی کم سے کم مقدار تین کوڑے ہیں اور قاضی یا حاکم کاکسی کو غصے سے دیکھنابھی کافی ہے لیکن اس پر دونوں متفق ہیں کہ تعزیرمیں حدسے تجاوز نہیں کیاجائے گاچنانچہ صاحب بدائع فرماتے ہیں:
والحاصل أنه لا خلاف بین أصحابنا رضی اللّٰه عنه انٔه لا یبلغ التعزیر الحد“ [40]
اور ان کی دلیل بیہقی کی وہ روایت ہے جس میں آپ ﷺنے فرمایا: ”من بلغ حداً فی غیر حد فهو من المعتدین“ [41]"جو تعز یر کے جرم کی سزا میں حد کی سزا تک پہنچا وہ حد سےتجاوز کرنےوالوں میں سے ہوگا"۔
لیکن اکثر مقدار میں امام ابو یوسفؒ اور امام ابو حنیفہ ؒکے مابین اختلاف ہے۔امام ابو حنیفہ نے حد شرب یا قذف میں غلام کی سزا پرقیاس کر کے تعزیر میں انتالیس (۳۹) کوڑوں سے تجاوز کو ممنوع قرار دیا ۔ کیونکہ قذف یا شرب میں آزاد آدمی کی سزاسی (۸۰) کوڑے اور غلام کی سزا چالیس کوڑے ہے ۔ امام ابو حنیفہ نے غلام کی سزا کا اعتبار کرکے انتالیس (۳۹) کوڑے تجویز کئے۔ جب کہ امام ابو یوسفؒ نے حدیث پر عمل کرنے کے لئے آزاد آدمی کی سزا میں ایک کوڑے کو کم کر کے زیادہ سے زیادہ مقدار اناسی (۷۹) کوڑے مقرر کئےہیں۔
۳۔امام مالک اور جمہور فقہاءکے قول کے مطابق تعزیر میں سزا کاتعین حاکم کی صوابدید پرموقوف ہے۔ وہ جرم کی مناسبت سے جو سزا بھی تجویز کرے ، صحیح ہو گی ۔ علامہ ابن عابدین اسی کو ترجیح دیتے ہوئےفرماتے ہیں:
"بل یختلف ذلک بإختلاف الأشخاص فلا معنی لتقدیره مع حصول المقصود بدونه فیکون مفوضاً إلی رأی القاضی یقیمه بقدر ما یرا المصلحة فیه“ [42]
جب کہ صاحب اعلاءالسنن اس عنوان پر مستقل باب قائم کرتے ہوئےفرماتے ہیں۔ باب التعزیر وأن مقداره إلی الإمام یبلغه به ما رأی[43]جب کہ ملا علی قاری فرماتے ہیں:” فیجوز للامام أن یزید فی التعزیر الحد إذا رأی المصلحة“[44]
متاخرین فقہاءکی رائے بھی یہی ہے لیکن سزا تجویز کرتے وقت جرم اور سزا میں مناسبت کا لحاظ رکھناضروری ہوگا۔ علامہ ابن نجیم فرماتے ہیں:” حاصل القول بالتفویض إلی رأی الإمام أن ینظر إلی الجنایة وإلی حال الجانی“[45]
من بلغ حداً الخ کا جواب:
علامہ مفتی تقی عثمانی فرماتے ہیں کہ گناہ کی دو قسمیں ہیں:
۱۔فی نفسہ گناہ ہو
۲۔فی نفسہ گناہ نہ ہو لیکن ریاست نے اسے جرم قرار دیا ہو۔
دونوں صورتوں میں حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بغیر جرم کے سزا میں حد سے بڑھ جانا تجاوز ہو گا یعنی من بلغ حدا فی غیر إثم فهو من المعتدین.
تعزیر میں سزا کامعاف کرنا
اس میں فقہاءسے متعدد اقوال منقول ہیں۔ اس عنوان پر سب سے زیادہ تفصیل درمختار میں بیان کی گئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جمہور ،ائمہ ثلاثہ اور امام شافعی اس کےجواز کے قائل ہیں جب کہ امام طحاوی اور ابن نجیم اس کے عدم جواز کو راجح قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:” وإقامة التعزیر إلی الإمام عند ابی حنیفة وأبی یوسف ومحمد و الشافعی ألعفوله أیضا قال الطحاوی وعندی أن العفو ثابت للذی جنی علیه“[46] اور یہی قول دُرمختار میں بھی ذکرکیا گیا ہے۔[47] ائمہ ثلاثہ کی تائید مسلم اور ترمذی میں عبداللہ بن مسعودؓ کی اس روایت سے ہوتی ہےکہ” نبی کریم ﷺ کے پاس ایک شٍخص آیا اور کہنے لگا : یارسول اللہ ﷺ شہر کے کونے میں میری ملاقات ایک عورت سے ہوئی، میں اس کے قریب ہوا لیکن جماع نہیں کیا ۔”فأنا هذا فاقض فی ما شئت فقال عمر لقد سترک اللّٰه لو سترت علی نفسک“۔ "میرے متعلق جو فیصلہ بھی ہو میں حاضر ہوں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تجھ پر پردہ ڈالا تھا اگر تو بھی اپنے پر پردہ ڈال دیتا"۔ دوسری حدیث میں ہے: فأمره أن یتوضأ ویصلی[48] "آپﷺنے وضو کرنے اور نماز پڑھنے کا حکم دیا"۔درج بالا حدیث میں مذکورقابل تعزیرجرم کونبی کریم ﷺ نے معاف کیاہے۔ایک اور حدیث میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
اقیلوا ذوی الهیئات عثراتهم إلا الحدود[49] "باعزت لوگوں کی غلطیوں پر چشم پوشی کرو سوائے حدود کے"۔ ذوالهیئات کی وضاحت سنن ابی داؤد کے محشی فرماتے ہیں: هم الذین لا یعرفون بالشر.
" یہ وہ لوگ ہیں جو برائیوں میں شہرت نہ رکھتے ہوں"۔
جب کہ حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:(أقیلو ذوی الهیئات) من الإقالة أی أعفو عن أصحاب المرؤت والأشراف والصلاح وتجاوزوا عنهم ولا تؤاخذوهم علی عثراتهم والعثرة ألذلة[50]علامہ ماوردی اس کی تائیدمیں فرماتے ہیں: أن الحد وإن لم یجز العفو عنه ولا الشفاعة فیه فیجوز فی التعزیر العفو منه[51] ا س وجہ سے ائمہ ثلاثہ مصلحت کی وجہ سے تعزیر میں معافی کے قائل ہیں ”أن المصلحة فی العفو و علم أنه ینزجر بدون العقوبة جاز له العفو عنها“[52]
دوسرا قول یہ ہے کہ جن گناہوں میں تعزیر واجب ہو ان میں معافی جائز نہیں مثلاً لواطت وغیرہ اور جن گناہو ں میں تعزیر واجب نہ ہو وہاں حاکم صوابدید ی اختیارات کے تحت معاف کر سکتا ہے۔تیسرا قول یہ ہے کہ حقوق اللہ میں تعزیرواجب اور حقوق العباد میں حاکم کی صوابدید پر موقوف ہوگی ۔[53]
خلاصہ بحث
جرائم کو روکنے اور معاشرے کی اصلاح کے لیے تعزیرایک مؤثرذریعہ ہےاگرچہ قرآن مجید میں یہ لفظ مروجہ معنی میں استعمال نہ ہونے کے باوجود متعدد نصوص اس کے جوازپر دلالت کررہے ہیں۔ مستشرقین کا یہ دعوی کہ تعزیر کے جواز پر کوئی نص دال نہیں حقیقت سے کوسوں دوران کی کم فہمی یا اسلام دشمنی کا غماز ہے حالانکہ صدیوں قبل مجتہدین اس کے لیے اصول وضوابط مدون کرکے ایسے سطحی اعتراضات کا ناطقہ بند کرچکے ہیں۔ حد سے کم جرم میں مجرم کی تنبیہ کے لیے مناسب سزا کا اختیار حا کم کی صوابدید پرموقوف کر دیا گیا ہے جس میں جرائم میں کمی یا خاتمے کے ساتھ مجرم کی اصلاح کا عنصر نمایاں ہونے کے ساتھ مجوزہ سزا کے نتائج،مقدار ،جرم اور سزا میں تناسب ،مجرم کی خاندانی حیثیت کا پاس رکھا گیا ہوتا کہ اسے اپنے کیے پر ندامت ہو ۔مثبت نتائج کے حصول کے لیے مروجہ طریقوں (قید اور جرمانے )کے علاوہ دیگر مؤثراورسود مند طریقے اپنائے جائیں جن کی نشاندہی کی جاچکی ہے اور اگر مجرم عادی نہ ہواور حاکم اس کو معاف کرنے میں مصلحت سمجھتاہو تو اس کومعاف کرنابھی جائزہےتاکہ یہ واضح ہو سکےکہ تعزیر میں سزا دینا ضروری نہیں البتہ تعزیر با لمال کے جواز وعدم جواز میں مجتہدین کے اختلاف کی وجہ سے احوط پر عمل مناسب ہوگا۔
حوالہ جات
- ↑ ) القرآن، الفتح: 9۔
- ↑ ) القرآن، المائدہ: 12۔
- ↑ ) ابی الحسن، احمد بن فارس بن زکریا،مجمل اللغة ، طبع موسسة الرسالة،ط 1984ء، مادہ ع ز ر، ج 3/667۔
- ↑ ) سعدی ،ابو حبیب، القاموس الفقہی، دارالفکر بیروت،ط 1982ء،ص 250۔
- ↑ ) الماوردی ابی الحسن علی بن محمدحبیب ،الاحکام السلطانیہ ولولایات الدینیۃ،م موسسۃ الکتب ،ط نامعلوم، ص 314۔
- ↑ ) لغربانی،الدکتور الصادق عبد الرحمن ،الفقہ المالکی وادلتہ ،الموسسة الریائی،ط اولیٰ، 2006ء،ج 4/697، (باب التعزیر)۔
- ↑ ) الزبیدی محمد مرتضی،تاج العروس من جواہر القاموس، دار احیاءالتراث العربیی،ناشر نامعلوم مادہ حدد، فصل الحا من باب الدال، ج 2/331۔
- ↑ ) ،مجمل اللغة، ط موسسۃ الرسالۃ1984,،ج3/667۔دا
- ↑ الکاسانی الحنفی علاوالدین ابوبکر بن سعود بن احمد،بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع ،دارالکتب العلمیۃ،م ثانیۃ، ط 1986ج7/33
- ↑ ) نفس مصدر، نفس صفحہ۔
- ↑ ) القرآن، النسآء: 34۔
- ↑ ) القرآن، النسآء: 16
- ↑ ) النسائی الخراسانی،ابو عبدالرحمان احمد بن شعیب بن علی ،سنن نسائی،ج 5 رقم الحديث 4953،ط ثانیہ 1986۔
- ↑ ) سنن نسائی،ج 8 رقم الحديث 2444،۔
- ↑ ) سنن نسائی ج 1/335۔ ط مکتبہ رحمانیہ اقراء سٹریٹ سنٹر لاہور نامعلوم
- ↑ ) الجوزیہ،امام ابن القیم ، جامع الفقہ ،دار الوفاءط اولی2000ء ، ج 6/546۔
- ↑ ) ابو داود سلمان بن الاشعثالسجستانی،سنن ابی داؤد،دارالرسالۃ العلمیہ ،ط اولی ،2009ج6 رقم الحدیث 4462، ۔
- ↑ ) سنن ابی داؤد،ج 6 رقم الحدیث4477،۔
- ↑ ) سنن ابی داؤد،ج 6 رقم الحدیث 4475،۔ سنن ابن ماجہ 2572،۔
- ↑ ) القاری الحنفی ،علی بن سلطان،س مرقاة المفاتیح شرح مشکوٰة المصابیح، مکتبہ امدادیہ ملتان ،مکتبہ وطبعہ نامعلوم ج 6/2380۔و قلعہ جی، محمد رواس، موسوعة فقہ عمر بن الخطاب، دارالنفاس، ط اولیٰ، 1997ء ، ص212۔
- ↑ ) سنن، ابن ماجہ،(باب المختنین)، ج2/2614۔ ۔
- ↑ ) سنن ابن ماجہ، ج 2 رقم الحدیث 26133، ۔
- ↑ ) الصنعانی ابوبکر عبدالرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الیمانی، مصنف عبدالرزاق، المجلس العلمی ،ط ثانیہ ،ج 9 قم الحدیث 17048،۔
- ↑ ) مصنف عبدالرزاق ،ج 8/15390،
- ↑ ) الہیثمی،حافظ نور الدین علی بن ابی بکر ابن سلیمان، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، دارالکتب العلمیہ بیروت،ط اولیٰ، 2001ء ، ج 7/76، ۔
- ↑ ) مصنف عبدالرزاق،ج 8/15394، ۔
- ↑ ) مصنف عبدالرزاق، ج 9رقم الحدیث15392، ۔
- ↑ ) الترمذی ابوعیسی محمدبن عیسی،سنن ترمذی،مصطفی البابی الحلبی ،ط ثانیہ،1975،ج 3 رقم الحدیث 1417، ۔
- ↑ ) القرآن، التوبہ:118۔
- ↑ ) صحیح مسلم، ج3 رقم الحدیث 2077،
- ↑ ) صحیح مسلم، ج3 رقم الحدیث 2090، (باب طرح خاتم الذھب)۔ صحیح حدیث ہے
- ↑ ) بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، ج7/64 (باب التعزیر )۔
- ↑ ) بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، ج7/64 (باب التعزیر )۔
- ↑ ) الزبیدی، ابی بکر علی بن محمد الحداد، الجوھرة النیرة شرح مختصر القدوری،دار الکتب العلمیہ بیروت، ط اولیٰ، 2006ء،ج 2/400، ۔
- ↑ ) الشوکانی الیمنی محمد بن علی بن محمد بن عبد اللہ ، نیل الاوطار فی شرح منتقی الاخبار، دار الحدیث مصر، ط اولیِ 1993ء ،ج 8/180۔
- ↑ ) القنوجی،ابی الطیب صدیق بن حسن بن علی ،الروضة الندیہ شرح الدردالبہیہ، دارالنثر الکتب الاسلامیہ، نامعلوم، ج 2/257۔
- ↑ ) ابن ضویان،منار السبیل فی شرح الدلیل ،،المکتبہ الاسلامی، ط سابعہ، 1989ء ، ج2/382۔
- ↑ ) ابو الخیر، ڈاکٹر علی، الواضح فی فقہ الامام محمد،دارالخیر دمشق،سال اشاعت1996ء ، ص509۔
- ↑ ) سنن ترمذی،ج 3 رقم الحدیث 1462، (باب ما جآءفیمن یقول لاخر یا مخنث، ابواب الحدود)۔ حدیث غریب ہے۔
- ↑ ) بدائع الصائع فی ترتیب الشرائع، ج7/64۔
- ↑ ) بیہقی، الحافظ ابی بکر احمد بن الحسین ، السنن کبریٰ،ج 13 رقم الحدیث 18075،
- ↑ ) ابن عابدین محمد بن عمربن عبدالعزیزالدمشقی،ردالمحتار علی الدرالمختار، ط دارالفکر بیروت ،م 1992ج4/60۔
- ↑ ) عثمانی،ظفر احمد، اعلاءالسنن، ادارة الفرقان والعلوم الاسلامیہ کراچی، نامعلوم، ج11/736۔
- ↑ ) مرقاة المفاتیح شرح مشکوٰة المصابیح، ج6/2380۔
- ↑ ) القاری الحنفی علی بن محمد سلطان،بحرالرائق شرح کنز الدقائق، دارلکتب العلمیہ،ط ا ولی 1992ج5/69، ۔
- ↑ ) بحرالرائق شرح کنزالدقائق، ج5/76، (کتاب الحدود، باب التعزیر)۔
- ↑ ) درالمحتار علی ردالمختار،ج 4/74، (باب التعزیر)۔
- ↑ ) سنن ترمذی،ج 5 رقم الحدیث 13112،سورة ہود،( کتاب التفسیر)۔ وصحیح مسلم ، (ان الحسنات یذھبن السیئات)۔ حدیث صحیح ہے۔
- ↑ ) سنن ابی داؤد،ج 6/4373، (کتاب الحدود، باب فی الحدیشفع فیہ)۔و سنن دارقطنی ، ج3/207، (کتاب الحدود والدیات)۔ حدیث صحیح ہے۔
- ↑ ) عسقلانی،حافظ ،بن حجر، بلوغ المرام من ادلة الاحکام، دارالسلام ریاض،1992ء ، ص378۔
- ↑ ) الاحکام السلطانیہ والولایات الدینیہ، ص 316۔
- ↑ ) دکتور، زید بن عبدالکریم بن علی بن زید، العفو عن العقوبة فی الفقة الاسلامی، دارالعاصمة ریاض، ط اولیٰ، سال اشاعت 1410ھ، ص496۔
- ↑ ) ردالمختار علی درالمختار،ج4/37۔
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |