2
1
2015
1682060029336_1170
95-109
https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/87/81
https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/87
Islamic Books History of Hadith Islamic Tradition biographical dictionary
امت مسلمہ میں سلسلہ نسب اور علم رجال کا ہونا ایک امتیازی وصف ہےاور یہ شرف انہیں حدیث نبوی ﷺ کی عظمت کی بناء پر حاصل ہوا ۔اس علم میں ان اشخاص کےنام ، کنیت ، لقب ، حسب و نسب ، اساتذہ ، تلامذہ، رحلات علمیہ، دینی واخلاقی حالات اور تاریخ وفات وغیرہ کا مفصل ذکر ہوتا ہےجوسلسلہ روایت حدیث میں وارد ہوتے ہیں۔ علوم حدیث کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ نقد حدیث کےزیادہ تر قواعد"رجال" سے متعلق ہیں بلکہ حدیث کےصحت وضعف کا دارومدار بھی رجال پر ہے۔ اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ "صحیح حدیث" کےلیے علماءنے جن پانچ شرائط (1) کا ذکر کیا ہے ان میں سے چار بلاواسطہ رجال سے متعلق ہیں ، یعنی اتصال سند، عدالت ، ضبط اور عدم شذوذ اور پانچویں شرط عدم علت بھی بالواسطہ رجال سے تعلق رکھتی ہے ۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ "علم الرجال" علوم حدیث میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور اس کےمعرفت کےبغیر حدیث کی صحیح معرفت ممکن نہیں ہے ۔
تیسری صدی ہجری کی آمد کےساتھ ہی "علم الرجال" باضابطہ ایک فن کی شکل اختیار کر گیا ، جس کےاصول و ضوابط کی تفصیلات سینکڑوں کتابوں کےہزاروں صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں ۔نیزحفاظت حدیث کے نقطہ نگاہ سے جب راویان حدیث کی جانچ پڑتال شروع ہوئی تو اس سے ان کے عہد اور ان کے معاصرت کی تلاش شروع ہوئی، اس طرح علم الطبقات وجود میں آیا۔زیرنظرمقالہ انہی کتابوں کی ترتیب، محدثین کے اسلوب اور منہج کے بارے میں ترتیب دیا گیاہے۔
کتب رجال کی ترتیب و تنظیم :
کتب رجال کےمصنفین نے اپنے کتابوں کو درج ذیل چار مناہج پر ترتیب دیئے ہیں ۔
(ا) نسب کی بنیاد پر
(2) شہروں کی بنیاد پر
(3) حروف تہجی کی بنیاد پر
(4) طبقات کی بنیاد پر
ان چار مناہج ترتیب میں سے آخرالذ کر یعنی طبقات کی بنیاد پر کتب رجال کی ترتیب اس موضوع سے متعلق ہے لیکن ربط معلومات کےلیے بہت اختصار کےساتھ چاروں مناہج کا ذکر کیا جاتا ہے ۔
(1) نسب کی بنیاد پر کتب رجال کی ترتیب :
اس ترتیب کا مفہوم یہ ہے کہ مصنف ایک خاندان اور ایک قبیلہ کےتمام رواة کو ایک جگہ بیان کرے، مثال کےطور پر قبیلہ قریش میں پہلے بنو ہاشم کو ذکر کرے پھر نضر اور قحطان کےافراد کا ذکر کرے۔
اس ترتیب کی سب سے پہلی مثال سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کےدور خلافت میں ملتی ہے ۔ انہوں نے فوج کاجو دیوان مرتب کر ایا تھا اس میں اسی ترتیب کا لحاظ رکھا گیا تھا (2)اور جب تیسری صدی ہجری میں رجال کی کتابیں لکھی گئیں تو بعض مصنفین نے اسی ترتیب کو اختیار کیا ، اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ انساب اور قبائل کےبنیاد پر کتابوں کی ترتیب کا کام خالص اسلامی دور کی ایجاد ہے۔ جاہلی دور سے اس کا تعلق نہیں ہے، اس نہج کےمشہور اور قدیم کتابوں میں خلیفہ بن خیاط کی "کتاب الطبقات" اور محمد بن سعد کی "الطبقات الکبرٰی" قابل ذکر ہیں ۔
(۲) شہروں کی بنیاد پر کتب رجال کی ترتیب :
اس ترتیب کا مفہوم یہ ہے کہ مصنف ایک شہر کےتمام رجال ایک ساتھ بیان کرے ، اس منہج کی کتابوں کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنفین نے اُس شہر کو ترتیب میں سب سے مقدم رکھا ہے جس میں یا تو رواة کی تعداد سب سے زیادہ تھی یا اس کو دینی اور شرعی پہلو سے کوئی فضیلت حاصل تھی اور یہی وجہ ہے کہ تمام کتابوں میں مدینہ منورہ کو دیگر شہروں پر مقدم رکھا گیا ہے اس لیے کہ ابتدائی دوصدیوں تک وہاں علماءکی تعداد سب سے زیادہ ہے حتی کہ بعد کےزمانے میں بھی مکہ اور مدینہ کی افضلیت کی وجہ سے اسے مقدم رکھا گیا ہے ۔ علامہ ابن الجوزیؒ (3)نے چھٹی صدی ہجری میں جب اپنی کتاب "صفوة الصفوة " ترتیب دی تو یہ ارادہ کیا کہ اس وقت کےسب سے بڑی علمی مرکز بغداد کو ترتیب میں مقدم رکھیں لیکن پھر مکہ اور مدینہ کےمرتبہ و مقام کو دیکھتے ہوئے یہ ارادہ تبدیل کر دیا اور کتاب کی ابتدا مدینہ کےرجال سے کی۔ (4)اس ترتیب کےقدیم کتابوں میں ابن سعد کی "الطبقات الکبرٰی" امام مسلم بن حجاج کی" کتاب الطبقات " اور ابن حبان کی"مشاہیرعلماء الامصار" قابل ذکر ہیں ۔
(۳) حروف تہجی کی بنیاد پر کتب رجال کی ترتیب :
اس ترتیب کا مفہوم یہ ہے کہ راوی کےنام کےپہلے حرف کا اعتبار کرتے ہوئے اس راوی کو پہلے ذکر کیا جائے ۔نام الف سے شروع ہوتا ہے ۔ پھر حروف تہجی کی ترتیب کےمطابق دوسرے رواة کا ذکر کیا جائے ۔ مناہج ترتیب میں یہ منہج سب سے آسان اور مفید مانا جاتا ہے ۔ اسی لیے متاخرین مؤلفینِ رجال نے اسی ترتیب کو اپنایا ہے ، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ منہج ترتیب بعد کی ایجاد ہے بلکہ تیسری صدی ہجری کےنصف اول ہی میں محد ثین نے اس کو اختیار کر لیا تھا۔کتب رجال میں جو کتابیں اس منہج پر ترتیب دی گئی ہیں ، ان میں امام محمد بن اسماعیل بخاری کی "التاریخ الکبیر"امام مسلم بن حجاج کی "الکنیٰ والاسماء" امام عقیلی" کی الضعفاء الکبیر" امام ابن ابی حاتم الرازی کی "الجرح والتعدیل" اور امام ابن حبان کی "المجروحین من المحدثین" کا فی شہرت رکھتی ہیں ۔
(۴) طبقات کی بنیاد پر کتب رجال کی ترتیب :
کتب رجال کی طبقاتی ترتیب ہی اس مقالہ کا اہم حصہ ہے اس لیے اس منہج کی تھوڑی تفصیل پیش کی جاتی ہے۔
طبقہ کا لغوی معنی:
قرآن مجید میں لفظ "طبقہ" مستعمل نہیں ہے البتہ "طبق" اور "طباق" دو الفاظ وارد ہیں ، پہلی آیت سورہ انشقاق کی ہے:
لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ(5)اور دوسری آیت سورہ ملک کی ہے:الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا (6)
اصحاب لغت نےطبقہ کو اسی مادہ میں ذکرکیا ہےاور اس کے معنی ومفہوم کی وضاحت کی ہے۔
طبق من الناس: أي جماعة ، والمطابقة: الموافقة، وطبقات الناس: مراتبهم (7)
"طبقہ کا لغوی معنی ہے جماعت ، اسی سے لفظ مطابقت ماخوذ ہے جس کامعنی ہے موافقت اور طبقات الناس کا مطلب ہے لوگوں کے مراتب" ۔
علامہ ابن منظور افریقی (8)لکھتے ہیں:
الطَّبَق الجماعة من الناس يَعْدِلون جماعةً مثلهم (9)"طبقہ اس جماعت کو کہتے ہیں جو ہم مثل ہو"۔
طبقہ کی اصطلاحی تعریف:
طبقہ کا اطلاق ان لوگوں پر کیا جاتا ہےجن کی عمر یکساں ہوں اور وہ اپنے اساتذہ سے بھی حصول علم اور استفادہ میں باہم یکساں ہوں، حافظ سخاوی(10)لکھتے ہیں: الطبقات جمع طبقة: وهي في اللغة: القوم المتشابهون، (وتعرف) في الاصطلاح، (بالسن) أي: باشتراك المتعاصرين في السن ولو تقريبا (و) به (الأخذ) عن المشايخ، وربما اكتفوا بالاشتراك في التلاقي، وهو غالبا ملازم للاشتراك في السن (11)
طبقہ کی زمانی تحدید :
جب محدثین نے رواۃ کوطبقات میں تقسیم کیا تو یہ ایک اصطلاح اختیار کرگئی ، چنانچہ بعض علماء نے صحابہ کو ایک طبقہ ، تابعین کو طبقہ دوم اور اتباع تابعین کو طبقہ سوم ٹھہرایا۔اس تقسیم پر وہ اس حدیث نبوی سے استدلال کرتے ہیں:
"خيرُ القرون قرني، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم " (12)
"سب سے افضل لوگ میرے زمانہ کے ہیں، پھر ان کے قریب والے اور پھر ان کے قریب والے"۔
اسی طرح کچھ محدثین صحابہ کرام کو کئی طبقات میں تقسیم کرتے ہیں اور پھر اسی طرح تابعین اور اتباع تابعین کو بھی متعدد طبقات میں تقسیم کرتے ہیں، لیکن قرن کتنے عرصے کو کہا جاتا ہے ؟، اس میں اختلاف ہے، بعض کے ہاں سو سال اور بعض کے ہاں چالیس سال کا ہوتا ہے۔ حافظ ابن کثیر (13)لکھتے ہیں: فمن الناس من يرى الصحابة كلهم طبقة واحدة، ثم التابعون بعدهم كذلك....فذكر بعد قرنه قرنين أو ثلاثة. ومن الناس من يقسم الصحابة إلى طبقات، وكذلك التابعين فمن بعدهم. ومنهم من يجعل كل قرن أربعين سنة (14)
ہجری نام کےلغوی عالم نے سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما (15)سے نقل کیا ہے کہ طبقہ بیس سال کا ہوتا ہے۔(16)
طبقہ کی یہ تحدیدیں متقد مین علماءکے یہاں نہیں ملتیں بلکہ آٹھویں صدی ہجری میں امام ذہبی (17)کےبعد اس کا استعمال عام ہوا ہے ، اس طرح طبقہ کےکسی خاص مدت کی تحدید اس وقت مفید ثابت ہوتی جب اس تحدید پر علماءکا اتفاق ہوتا اور کتب رجال میں اس کا اعتبار کیاجاتا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہر مصنف کےیہاں طبقہ کی مدت الگ الگ ہے ۔
علم طبقات کے فوائد:
طبقات کا تعلق علوم الحدیث میں اسناد سے ہے۔اسے اگر علم اسماء الرجال کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا جس میں رواۃ کے حالات بیان کرکے اس کا طبقہ متعین کیا جاتا ہے جو علم تاریخ کا وظیفہ نہیں ہے۔فن جرح وتعدیل بھی اسماء الرجال کی جانچ پڑتال کی ایک شاخ ہے۔ان علوم کے باہمی ارتباط وتعلق کی وجہ سے علوم الحدیث میں علم طبقات کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔درج ذیل چند مثالیں علم طبقات کے فوائد اور اس کی اہمیت پر شاہد ہیں:
1: علم طبقات کے ذریعے ہم نام میں تمیز پیدا کرنا:
طبقات رواۃ کی معرفت سے ہی یہ چیز ممکن ہوسکتی ہے کہ متشابہ اور ایک جیسے ناموں کے رواۃ میں تمیز کی جاسکے،جیسے کوفہ میں اسماعیل بن ابان نام کے دو ہم عصر راوی تھے۔ایک اسماعیل بن ابان الوراق الازدی (18)جب کہ دوسرا اسماعیل بن ابان الغنوی،(19)ان میں الوراق ثقہ راوی اور امام بخاری کے شیوخ میں سے ہے جب کہ دوسرا کذاب اور وضاع ہے۔ان دونوں سے حافظ یعقوب ابن ابی شیبہ الصلت البغدادی (20)روایت کرتا ہے۔اب روایت میں ان کے درمیان تمیز کرنے کے لیے ہمیں علم الطبقات کا مرہون منت ہونا پڑے گا،جس سے ان کے شیوخ کا تعین ہوگا نیز ان سے روایت کرنے والے طبقہ سے بھی ان کی وضا حت ہوگی۔
2:سند میں وارد غیر منسوب راوی کا تعین:
بعض دفعہ سند میں راوی کو اس کی کنیت یا صرف نام سے ذکر کیا جاتا ہے جس سے صراحتاً اس کا تعین نہیں ہو پاتا تو طبقات رواۃ کی مدد سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔جیسے سفیان الثوری اورسفیان بن عیینہ نے اکثر ایک ہی سلسلہ شیوخ سے روایات کی ہیں اور اسناد میں سفیان کے نام کا تعین نہیں ہوپاتاکہ دونوں مین سے کون ہیں؟تو اس کی وضاحت یوں ہوتی ہے کہ امام ثوری نے ابن عیینہ کے مقدم طبقہ سے اخذ کیا ہے جنہیں ابن عیینہ نے نہیں پایا ۔جیسے عمرو بن مرہ اور زبید الیامی وغیرہ۔اس طرح ابن عیینہ ، سفیان ثوری سے 37 سال بعد تک زندہ رہےاور ان سے محدثین کے دو طبقات نے اخذکیا ہے جنہوں نے سفیان ثوری سے روایت نہیں لی۔چنانچہ جب امام احمد بن حنبل اور ان کے طبقہ کے محدثین اپنی روایت میں سفیان سے روایت بغیر وضاحت کے ذکر کریں تو اس سے مراد ابن عیینہ ہوتے ہیں ۔اسی طرح جب عبداللہ بن المبارک ،یحیی القطان ، وکیع ، فضل بن دکین وغیرہ حدثنا سفیان کہیں تو اس سے مراد سفیان ثوری ہیں ۔ جب کہ سفیان بن عیینہ کو یہ ان کے والد کی نسبت سے بیان کرتے ہیں۔ (21)
3: علم الطبقات کے ذریعے کذاب اور متروکین کی نشاندہی:
علم الطبقات کے ذریعے کذاب اور ضعیف ومتروک رواۃ کی اغلاط کی نشاندہی بڑی آسانی سے ہوجاتی ہے کہ جب ایک راوی ایک طبقہ کے راوی سے روایت کررہا ہو اور پھر اس سے ایک طبقہ آگے جاکر روایت شروع کردے یا دونوں کو اکٹھا ملا دے مثلاً:
امام حاکم اور خطیب بغدادی نے احمد بن علی بن حسنویہ نیشاپوری (وفات:350ھ) کو کذاب کہا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا امام ترمذی (وفات:279ھ)اورامام ابوحاتم (وفات:277ھ) سے سماع بالکل صحیح ہے کیونکہ یہ دونوں احمد بن علی نیشاپوری کے طبقے سے ہیں لیکن یہ جب اس سے آگے بڑھتے ہوئے امام مسلم (وفات:261ھ) اور احمد بن ازہر (وفات:263ھ) سے بھی سماع کا دعویٰ کرتا ہے تو ائمہ جرح وتعدیل فوراً اس کے کذب کو آشکارا کردیتے ہیں۔ (22)
اسی طرح امام وکیع بن الجراح سے روایت ہے کہ انہوں نے غالب بن عبیداللہ الجزری (23)سے ایک حدیث کے بارے میں سوال کیا۔اس نے کہا کہ "حدثنا سعيد بن المسيب، والاعمش" وکیع کہتے ہیں کہ میں نے اسے چھوڑ دیا کیوں کہ اس نے ایک ہی روایت میں اعمش اور ابن المسیب سے سماع کاذکر کیا جب کہ دونوں کے طبقہ میں کافی تفاوت ہے۔ (24)
4: اخبار اور نقل میں خلط ملط کی نشاندہی:
حافظ مزی نے امام اعمش (25)کے حالات میں لکھا ہے:
رأى أنس بن مالك ، وأبا بكرة الثقفي ، وأخذ له بالركاب(26)
"اعمش نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کودیکھا اور سیدنا ابوبکرہ الثقفی رضی اللہ عنہ کی رکاب تھامی"۔
اب یہ کیسے ممکن ہے کہ پانچویں طبقہ کا اعمش دوسرے طبقہ کے ابوبکرہ کو پالیں، کیوں کہ اعمش کی پیدائش ہی ابوبکرہ کے وفات کے بعد ہوئی ہے۔حافظ سخاوی علم طبقات کے فوائد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وهو من المهمات وفائدته الأمن من تداخل المشتبهين كالمنفقين في اسم أو كنية أو نحو ذلك كما بيناه في المتفق والمفترق وإمكان الإطلاع على تبين التدليس(27)
"رُواة کے طبقات کی پہچان سے وہ اِلتباس دورہوجاتاہے جوبعض راویوں کے ملتے جلتے ناموں اورکنیتوں کے مابین پیداہوجاتاہے۔علمِ حدیث میں بحث وتمحیص کرنے والوں کے لیے یہ سہولت پیداہوجاتی ہے کہ وہ بہت جلد تدلیس،اِنقطاع اوراِرسال کی صورتوں سے آگاہ ہوجاتے ہیں"۔
طبقات کی اہم کتابیں اور ان کا منہج:
دوسری صدی ہجری کی ابتداء تک تدوین حدیث اور مجموعہ احادیث کے حوالے سے بعض اہم کتب منظر عام پرآچکی تھیں مگر علم الرجال کے حوالے سے کسی تصنیف کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تھی اس کی ایک وجہ تو تقصیر سند تھی اور دوسری وجہ شیوخ محدثین کا معروف ہونا تھا کہ ہر عام وخاص انہیں جانتا تھا لیکن دوسری صدی کے اختتام تک جب اسلامی حکومت کی سرحدیں وسیع ہوئیں اور محدثین نے رحلات علمیہ سے دوردراز کے علماء سے اکتساب کیا تو اس بات کی ضرورت سامنے آئی کہ رجال حدیث کے اسماء واحوال کو ضبط تحریر میں لایا جائے ۔اس وقت کتب طبقات کو احاطہ تحریر میں لانے کا آغاز ہوا۔ان میں چند قدیم اورمعروف کتابوں کےمناہج انتہائی اختصار کے ساتھ بیان کیے جاتے ہیں :
1: طبقات الفقہاء والمحدثین: ہیثم بن عدی بن عبدالرحمن الطائی الثعلبی الکوفی۔ (28)اس کتا ب کو علم الطبقات میں خصوصاًاور علم الرجال میں عمومی طور پر پہلے کتب میں شمار کیا جاتا ہے۔یہ کتاب اب مفقود ہے اور اس کا ذکر صرف کتابوں میں ہی ملتا ہے۔البتہ حافظ خطیب بغدادی کی کتاب "تاریخ بغداد" میں منقول 23 نصوص اس کتاب کے ایک حصہ کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ (29)
2: کتاب الطبقات: محمد بن عمر بن واقد الواقدی۔ (30)اگر چہ متکلم فیہ ہیں لیکن سیر ومغازی کے ائمہ میں سے ہیں۔آپ نے رجال میں کئی ایک کتابیں تصنیف کی ہیں۔جن میں ایک "الطبقات" بھی ہے جوکہ اپنے فن کی ایک ممتاز تصنیف گردانی جاتی ہے جس سے بہت سے اہل علم مستفید ہوئے۔ (31)
3: الطبقات الکبریٰ : محمد بن سعد بن منیع کاتب الواقدی (32) طبقات ابن سعد فن رجال کی بنیادی کتاب ہے جس میں سیرت رسول ﷺ ، تذکرۂ صحابہ وتابعین پر توجہ دی گئی ہے۔یہ کتاب ترتیب زمانی ومکانی دونوں اعتبار سے مرتب ہے ۔صحابہ کرام ، تابعین اور تبع تابعین کو شہروں پر تقسیم کرکے طبقات پر مرتب کیا ہے۔موضوعات کے اعتبار سے اس طرح منقسم ہے:
جلد اول ودوم: سیرۃ النبی ﷺ۔
جلد سوم: بدری صحابہ کرام رضی اللہ عنہم۔
جلد چہارم: قدیم الاسلام صحابہ وتابعین نیز مکہ ، طائف ، یمامہ اور بحرین کے رہنے والے۔
جلد پنجم: اہل مدینہ کے صحابہ وتابعین ، نیز مکہ ، طائف ، یمامہ اور بحرین کے رہنے والے۔
جلد ششم: کوفہ میں رہنے والے صحابہ وتابعین۔
جلد ہفتم: بصرہ ، واسط ، مدائن ، خراسان ، رے ، ہمدان ، قم ، انبار ، شام ، جزیرہ ، عواصم ، ثغور ، مصر م ایلہ ، افریقہ اور اندلس میں رہنے والے صحابہ وتابعین۔
جلد ہشتم: صرف صحابیات کے لیے مخصوص ہے۔
4: کتاب الطبقات : ابو عمرو خلیفہ بن خیاط ۔(33)آٹھ اجزاء پر مشتمل اس کتاب کو علم الطبقات میں انتہائی اہم اور بنیادی مقام حاصل ہے۔اس کی سب سے اہم خوبی انساب کاخاص طور سے اہتمام ہے۔اس کتاب میں انہوں نے تمام صحابہ کرام کو ایک ہی طبقہ مانا ہے اور اپنے ہم عصر محمد بن سعد کی طرح صحابہ کرام کو کئی طبقات میں تقسیم نہیں کیا ہے۔اس کے بعد تابعین کو گیارہ طبقات میں تقسیم کیا ہے۔ (34)
5: الطبقات لمسلم بن الحجاج : طبقات کےموضوع پر پانچویں معروف کتاب امام مسلم (35)کی" الطبقات" ہے لیکن اس کتاب میں صرف صحابہ اور تابعین کےنام ذکر کیے گئے ہیں، ان کےحالات زندگی سے یہ کتاب خالی ہے ، البتہ صحابہ کرام کو ایک طبقہ میں اور تابعین کو تین طبقات میں تقسیم کیا ہے۔ (36)
6: مشاہیر علماء الامصار : یہ کتاب حافظ ابن حبان (37)کی ہے۔اس میں انہوں نے مشہور ومعروف اہل علم کے بلاد اور طبقات کے لحاظ سے تراجم ذکر کیے ہیں۔آپ نے رواۃ حدیث کو چار طبقات میں تقسیم کیا ہے۔صحابہ ، تابعین ، اتباع تابعین ، اتباع تابعین سے روایت کرنے والے ۔اس طرح بلاد اسلام کو بھی چھ اقالیم میں تقسیم کیا ہے۔ (38)
متقد مین کی طرح متاخرین علماءنے بھی اپنے کتب رجال میں طبقاتی نظام کو اختیار کیا ہے اور ان میں امام ذہبی کا نام سر فہرست ہے ، امام ذہبی نے اپنے متعدد کتابوں کو اس منہج پر ترتیب دیا ہے جیسے تذکرۃ الحفاظ ، تاریخ الاسلام، سیر اعلام النبلاء ، المعین فی طبقات المحدثین اور طبقات الشیوخ وغیرہ،لیکن ان تمام کتابوں میں طبقات کےتحدید اور مدت طبقات کےتحدید کا کوئی یکساں نظام نہیں ہے ۔ مثال کےطور پر تاریخ الاسلام کو ستر طبقات پر تقسیم کیا ہے اور ہر طبقہ کی مدت دس سال رکھی ہے ، تذکرة الحفاظ کو اکیس طبقات پر تقسیم کیا ہے اورسیر اعلام النبلاء کو چالیس طبقات پر تقسیم کیا ہے حالانکہ تذکرۃ الحفاظ اور سیر اعلام النبلاء دونوں کتابوں میں صحابہ کرام سے امام ذہبی کےدور تک کےتراجم رجال ذکر کیے گئے ہیں ۔
متاخرین علماءکی کتابوں میں حافظ ابن حجرؒ (39)کی معروف و متداول کتاب "تقریب التہذیب" بھی طبقاتی نظام پر مرتب کی گئی ہے۔آپ نے عہدصحابہ سے لے کر عصر روایت کے آخرتک راویوں کے طبقات شمارکیے ہیں۔موصوف نے راویوں کے کل بارہ طبقات بنائے ہیں اورصرف اُس راوی کواس زمرہ میں شمارکیا ہے جس کی روایت کتب ستہ[صحیح بخاری،صحیح مسلم،سنن ابی داؤد،سنن ترمذی،سنن نَسائی، اورسنن ابن ماجہ]میں سے کسی کتاب میں موجودہو۔طبقات حسب ذیل ہیں:
پہلاطبقہ:اس میں صحابہ کرام براختلافِ مراتب شامل ہیں۔
دوسراطبقہ:کبار تابعین مثلاً:سعیدبن مسیَّب کاطبقہ۔
تیسراطبقہ:تابعین کادرمیانی طبقہ،جیسے حسن بصری اورمحمدبن سیرین۔
چوتھا طبقہ: ان تابعین کاطبقہ جودرمیانی طبقہ سے ملتے جلتے تھے اورانہوں نے زیادہ تر تابعین سے ہی روایتیں لیں،جیسے ابن شہاب زہری اورقتادة۔
پانچواں طبقہ: صِغارتابعین کاطبقہ،جنہوں نے ایک دوصحابہ کودیکھامگراُن کا صحابہ سے سماع ثابت نہ ہو،جیسے:اعمش۔
چھٹاطبقہ:اس طبقہ میں وہ تابعین شامل ہیں جوپانچویں طبقہ والوں سے مل چکے تھے، مگران میں سے کسی کی بھی صحابی سے ملاقات اورروایت ثابت نہ ہوجیسے:ابن جُرَیج۔
ساتواں طبقہ:کِباراَتباعِ تابعین کاطبقہ مثلاً:مالک بن انس اورسفیان ثوری۔
آٹھواں طبقہ:درمیانہ طبقہ کے اَتباعِ تابعین مثلاً:سفیان بن عیینہ اورابن علیہ۔
نواں طبقہ: صِغاراَتباعِ تابعین مثلاً:ابوداؤدطیالسی اورشافعی۔
دسواں طبقہ: تبع تابعین سے روایت کرنے والے وہ رواۃ جو تابعین سے نہیں ملے،جیسے:احمدبن محمدبن حنبل۔
گیارہواں طبقہ:اَتباعِ تابعین کے بعدآنے والوں کادرمیانی طبقہ،مثلاً: امام ذُہلی اورامام بخاری۔
بارہواں طبقہ:وہ صِغارجنہوں نے اَتباعِ تابعین سے روایات لیں مثلاً: امام ترمذی۔ (40)
کتب طبقات اور کتب تاریخ میں فرق :
متقدمین علماءنے طبقاتی نظام پر ترتیب دی گئی کتابوں کو تاریخ کا نام دیا ہے ، مثال کے طور پر تیسری صدی ہجری کے امام بخاری نے رجال کے موضوع پر اپنی تین کتابوں کو تاریخ کا نام دیا ہے "التاریخ الکبیر"، "التاریخ الاوسط"اور "التاریخ الصغیر" لیکن متاخرین علماءنے تاریخ اور طبقات میں تمیز قائم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ علامہ العزبن جماعۃ (41)نے دونوں میں تمیز کو ایک مشکل کام قرار دیتے ہوئے مبہم اور غامض الفاظ میں تفریق کو بیان کیا ہے وہ لکھتے ہیں:
بينه وبين التاريخ عموم وخصوص وجهي فتجمعان في التعريف بالرواة وينفرد التاريخ بالحوادث والطبقات بما إذا كان في البدريين مثلا من تأخرت وفاته عمن لم يشهدها لاستلزامه تقديم المتأخر الوفاة وقد فرق بينما المتأخرين بأن التاريخ ينظر فيه بالذات إلى المواليد الوفيات وبالعرض إلى الأحوال والطبقات ينظر فيها بالذات إلى الأحوال وبالعرض إلى المواليد والوفيات (42)
"طبقات اور تاریخ میں عموم خصوص من وجہ کی نسبت پائی جاتی ہے ، رواة کی تعریف میں دونوں مشترک ہیں جب کہ حوادث کا بیان تاریخ کےساتھ خاص ہے اور تاریخ وفات کا اعتبار طبقات کےساتھ خاص ہے ، طبقات اور تاریخ میں فرق سے متعلق بعض متاخرین علماءکی رائے یہ ہے کہ تاریخ کا خصوصی موضوع تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات ہے اور راوی کےدیگر احوال تاریخ کا اضافی موضوع ہے جب کہ راوی کےحالات زندگی طبقات کا خصوصی موضوع ہے اور تاریخ پیدائش اور وفات اضافی موضوع ہیں ۔ الغرض طبقات اور تاریخ دونوں فنون ایک دوسرے سے کافی ملتے جلتے ہیں اور تفریق کی جو صورتیں بتائی گئیں ہیں کچھ کتابوں پر منطبق ہوتی ہیں اور کچھ پر نہیں "۔
نتائج بحث :
حدیث میں طبقات رجال کا موضوع انتہائی وسیع اور ہمہ گیر موضوع ہے اور ہر دور میں محدثین کرام نے اس موضوع پر علمی مواد اکٹھا کیا ہے اور نہایت علمی انداز میں اس فن کےکتابوں کو ترتیب دیا ہے اور یہی وہ علمی اور تحقیقی ورثہ ہے جس کی روشنی میں سنت کا صحیح اور حقیقی چہرہ نمودار ہوتا ہے ۔ حدیث کےاستناد میں اس کی اہمیت کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔کیونکہ:
1: طبقات رجال کی معرفت ، رواة حدیث پر کی جانے والی نقد و جرح اور تعدیل و توثیق کی معرفت میں معاون ثابت ہوتی ہے اور اس کی روشنی میں حدیث کا درجہ متعین کیا جا سکتا ہے۔ کسی راوی کےبارے میں اگر یہ علم نہ ہو کہ وہ کس طبقہ سے تعلق رکھتا ہے تو یہ اندازہ لگانا ایک مشکل امر ہوگا کہ وہ تابعی ہے یا تبع تابعی یا اس کےبعد کےدور سے تعلق رکھتا ہے ۔ حافظ ابن حجر کی رجال پر سب سے مختصر اور جامع کتاب "تقریب التہذیب" عام طور پر علماءاور طالبان علوم حدیث کےلیے اہم مرجع کی حیثیت رکھتی ہے ، لیکن اگر کوئی شخص اس کتاب کےطبقاتی نظام ترتیب سے واقف نہ ہو تو اس کتاب سے صحیح استفادہ نہیں کر سکتا اور راوی کےبارے میں یہ معلوم نہیں کر سکتا کہ وہ صحابی ہے یا تابعی ، تبع تابعی ہے یا اس کےدور کا ۔
2: طبقات حدیث کی معرفت سے حدیث کےاندر واقع ہونے والی ارسال ، انقطاع اور عضل کی معرفت ہوتی ہے ، مثال کےطور پر کسی حدیث کےسند میں چار رواة ہیں اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ کون سا راوی صحابہ کےطبقہ سے ہے اور کون تابعین، تبع تا بعین کےطبقہ سے ؟ اب اگر تابعی کےطبقہ سے تعلق رکھنے والا راوی اس حدیث کو رسول اللہ ﷺ سے بلاواسطہ روایت کرتا ہے تو وہ حدیث مرسل ہوگی ، اسی طرح چوتھے طبقہ کا روای تیسرے طبقہ کےراوی کو چھوڑ کر دوسرے یا پہلے طبقہ کےراوی سے روایت کرتا ہے تو وہ حدیث منقطع اور معضل ہوگی ۔
3: محدثین کےنزدیک معنعن روایت اس وقت تک متصل نہیں مانی جاتی جب تک یہ معلوم نہ ہوجائے کہ اس کےرواة تدلیس کےعیب سے پاک ہیں(43)اور مدلس راوی کا عنعنہ حدیث کےضعف کاباعث بن جاتا ہے ۔طبقات رجال کی معرفت سے تدلیس کو جاننے میں مدد ملتی ہے، مثال کےطور پر تیسرے طبقہ کاراوی پانچویں طبقہ کےراوی سے حدیث بیان کرتا ہے تو یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تیسرے اور پانچویں طبقہ کےدرمیان سے چوتھے طبقہ کاراوی ساقط کر دیا گیا ہے ، اس طرح طبقات رجال کی معرفت سے معنعن روایت میں تدلیس معلوم کیا جا سکتا ہے۔
4: رواة حدیث پر سرسری نظر ڈالنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ایک ہی نام کےایک سے زائد روای کتب حدیث میں پائے جاتے ہیں حتی کہ باپ اور دادا کےنام میں بھی یکسانیت دیکھنے کو ملتی ہے اور طبقات رجال ہی وہ فن ہے جس کی معرفت سے ایسے رواة کےمابین تمیز کی جاسکتی ہے ۔ مثال کےطور پر "احمد بن عبداللہ بن علی" نام کےدوراوی تقریب التہذیب میں مذکور ہیں، لیکن ایک کا تعلق گیارہویں طبقہ سے ہے اور دوسری کا تعلق بار ہویں طبقہ سے۔ (44)اس طرح کی بے شمار مثالیں کتب رجال میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔
خلاصہ کلام یہ کہ حدیث کےاستناد میں طبقات رجال کی معرفت اہم کردار ادا کرتی ہے، اس سے نقد اسناد اور نقد حدیث کا کام لیا جاتا ہے ، طبقات رجال کا علم رکھنے سے حدیث کےاندر ارسال ، انقطاع، عضل اور تدلیس کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ رواة کےیکساں ہو نے کےبعد ان میں تمیز کی جاسکتی ہے۔ طبقات کا علم ہو جانے کےبعد راوی کےشیوخ اور تلامذہ کی تحدید کی جا سکتی ہے اور یہ معلوم کیا جا سکتا ہےکہ راوی کا تعلق صحابہ سے ہے یا تابعین سے یا تبع تا بعین سے، تا کہ اس کےروایت پر حکم لگانے میں سہولت ہو ۔
*******
حواشی و حوالہ جات
1: حافظ ابن الصلاح نے حدیثِ صحیح کی تعریف یوں کی ہے: الحديث الصحيح : فهو الحديث المسند الذي يتصل إسناده بنقل العدل الضابط عن العدل الضابط إلى منتهاه ، ولا يكون شاذا ، ولا معللا.( مقدمۃ ابن الصلاح:12، ابوعمرو، عثمان بن عبد الرحمن الشهرزوری (ت 643ھ) دار الكتب العلميہ، بيروت، 1427ھ)
2: امام ابن سعد لکھتےہیں: هو أول من دون الديوان وكتب الناس على قبائلهم ، وفرض لهم الأعطية من الفيء (طبقات ابن سعد: 3/282، دارصادر بیروت، 1985م) ۔
3: عبدالرحمن بن علی بن محمد،ابوالفرج ابن جوزی،بغداد میں 508ھ کوپیداہوئے۔ حدیث،تاریخ،تفسیر اور مواعظ کے کثیرالتصانیف بزرگ تھے۔تین سو کے قریب کتابیں لکھیں۔597 ھ کوبغداد میں وفات پائی۔ (وفیات الاعیان 3/140، احمد بن محمد بن ابی بکر بن خلکان ، منشورات الرضی ، قم ، ایران 1364ش)۔
4: ابن جوزی لکھتےہیں: وإنما ضبطت هذا الترتيب تسهيلا للطلب على الطالب ولما لم يكن بد من مركز يكون كنقطة للدائرة رأيت أن مركزنا وهو بغداد أولى من غيره إلا أنه لما لم يمكن تقديمها على المدينة ومكة لشرفهما بدأت بالمدينة لأنها دار الهجرة ثم ثنيت بمكة (صفۃ الصفوة: 1/34، دارالحدیث ، قاہرہ 2000م)۔
5: الانشقاق:19
6: الملك :4
7: الصحاح فی اللغۃ :1/1511 ،المکتبۃ العصریہ ، بیروت 1994م)۔
8: محمد بن مكرم بن على، أبو الفضل، جمال الدين ابن منظور أنصاری الرويفعى افريقى،630ھ کو مصرمیں پیداہوئے،لغت وعربیت کےعالم اورفاضل تھے۔متعدد کتابیں تصنیف کیں۔طرابلس کے قاضی بھی رہے،711ھ کو وفات پائی۔ (الاعلام7/108، خیر الدین زرکلی ، دارالعلم للملایین ، بیروت 1974م۔
9: لسان العرب: 12/79 ابن منظور الافریقی ، دار إحياء التراث العربی– بيروت۔
10: محمد بن عبدالرحمن بن محمد شمس الدین سخاوی،قاہرہ میں 831ھ کوپیداہوئے،حصول علم کے لئے بکثرت اسفارکیے، خصوصاً حافظ ابن حجر عسقلانی سے بہت استفادہ کیا۔آپ نے بکثرت کتابیں تصنیف کیں۔902 ھ کومدینہ میں وفات پائی۔ (الاعلام 6/194 )۔
11: فتح المغیث شرح الفيۃالحدیث: 351:3 ،محمد بن عبدلرحمن السخاوی ، نشر مطبعۃ الأعظمی، الهند ۔
12: صحیح البخاری: کتاب الشهادات ، ]52[باب لا یشهدعلی جوراذا شهد ] 9[،رقم ]2656[۔
13: اسماعیل بن عمربن کثیرعمادالدین ابوالفداء الدمشقی۔ حافظ حدیث ، مؤرخ اور فقیہ تھے۔701ھ کودمشق میں پیداہوئے۔ طلب علم کے لیے لمبے لمبے اسفارکیے۔متعددکتابیں تصنیف کیں۔774 ھ کووفات پائی۔ (البدرالطالع 1/53 ، محمد بن علی شوکانی،مطبعۃ السعادۃ، مصر 134ھ)۔
14: اختصار علوم الحدیث: 230 حافظ ابن کثیر،دارالکتب العلمیہ، بیروت ، 1432ھ۔
15: عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب قرشی ہاشمی۔ 3قبل ہجری کوپیداہوئے۔رسول اللہﷺ کے جلیل القدر صحابی ہیں۔ حبرالامۃ (امت کےعالم) اور ترجمان القرآن جیسے القاب سے نوازے گئے، 68 ھ کوطائف میں وفات پائی۔ ( اسدالغابۃ 3/96، دارالکتب العلمیہ، بیروت ، 1425ھ)۔
16: لسان العرب: 12/80 ۔
17: محمد بن احمد بن عثمان بن قایماز،ابوعبداللہ شمس الدین ذہبی، حافظ،علامہ، محقق اور مؤرخ تھے۔673ھ کو دمشق میں پیداہوئے۔طلب حدیث کے لیے بکثرت اسفارکیے۔حاٖفظ مزی اور ابن تیمیہ کے فیض یافتہ ہیں۔جملہ علوم وفنون میں متعدد کتابیں تصنیف کیں اور اسماء الرجال کے ائمہ میں شمار ہونے لگے۔748 ھ کو دمشق ہی میں وفات پائی۔( الدرر الکامنہ3/336، مجلس دائرة المعارف العثمانیہ - حيدر اباد/ الهند)۔
18: اسماعيل بن أبان الوراق، امام بخاری اور ابو حاتم کے شیوخ میں سے ہیں۔ثقہ اور ثبت ہیں۔صحیح بخاری اورترمذی کے راوی ہیں۔ہجری216 کو وفات پائی۔(الکاشف:1/242)۔
19: اسماعيل بن أبان الغنوی۔ ہشام بن عروہ، محمد بن عجلان سے روایت کرتے ہیں۔کذاب اور متروک ہے۔210 ہجری کو وفات پائی۔(سیراعلام النبلاء:10/349)۔
20: يعقوب بن شيبہ بن الصلت بن عصفور، أبو يوسف، السدوسی البصری (182 - 262 ھ) مشہور ومعروف محدث اور مصنف تھے۔بغداد میں وفات پائی۔ (سیراعلام النبلاء:12/476)۔
21: التقييد والإيضاح شرح مقدمۃابن الصلاح: 416، دارالکتب العلمیہ، بیروت ، 1420ھ۔
22: لسان الميزان 1/223، ابن حجر عسقلانی ، دارالفکر، بیروت۔
23: غالب بن عبیداللہ الجزری العقیلی،ضعیف اور متروک راوی حدیث ہیں۔ 135 ھ کوفوت ہوئے۔ (المجروحین 2/201، دارالصمیعی ، سعودی عرب، 1420ھ)۔
24: نفس مصدر 4/414۔
25: سلیمان بن مہران اسدی ابومحمد اعمش ، تابعی ہیں، 60 ھ کو پیدا ہوئے۔کوفہ میں سکونت تھی اور وہیں 148 ھ کووفات پائی۔ قرآن وحدیث اور میراث کے بہت بڑے عالم تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ1/54، ابو عبد الله الذهبی، محمد بن أحمد بن عثمان دار إحياء التراث العربی، بيروت)۔
26: تهذيب الكمال 12/77، جمال الدين، أبوالحجاج يوسف المزی،تحقيق: بشار عواد - مؤسسۃ الرسالۃ، بيروت۔
27: فتح المغیث شرح الفيۃالحدیث: 351/3۔
28: ہیثم بن عدی بن عبدالرحمن الطائی الثعلبی الکوفی ، ماہرانساب اور مؤرخ تھے۔ ہشام بن عروہ اور سعید بن ابی عروبہ وغیرہ کے شاگرد ہیں۔ حدیث میں ضعیف تھے۔ 207 ھ کو وفات پائی۔(سیراعلام النبلاء10/103، حافظ أبی عبد الله الذهبی تحقيق: بشار عواد، وشعيب الأرنؤوط - نشر مؤسسۃالرسالۃما بين سنۃ (1405ھ)۔
29: الفهرست لابن الندیم : 111۔
30: محمد بن عمربن واق الواقدی۔ سیرومغازی کے امام تھے۔ طلب علم کے لیے بکثرت اسفار کیے۔ بغداد کے قاضی بھی رہے۔ کتابوں کے شوقین تھے،حدیث میں ضعیف قرار دیے گئے۔207 ھ کو بغداد میں وفات پائی۔ ((سیراعلام النبلاء9/462)۔
31: الفهرست لابن الندیم : 111، ابوالفرج محمد بن اسحاق ابن الندیم البغدادی ، دارالمعرفہ ، بیروت 1417 ھ۔
32: محمد بن سعدبن منیع ابوعبداللہ البصری، 168 ھ کوبصرہ میں پیداہوئے۔واقدی کی مصاحبت میں رہنے کی وجہ سے کاتب واقدی سے معروف ہوئے۔ماہرانساب ورجال تھے۔ 230ھ کو وفات پائی۔( تذکرۃ الحفاظ2/425)۔
33: خليفہ بن خياط بن خليفہ الشيبانی العصفری البصری،محدث ، ماہرانساب ورجال تھے۔طبقات اور تاریخ پرکتابیں تصنیف کیں، 240 ھ کووفات پائی۔ (الاعلام)۔
34: علم طبقات المحدثین: 155، اسعد سالم القیم،مکتبۃ الرشد، الریاض، 1994م۔
35: مسلم بن حجاج بن مسلم قشیری ابوالحسین نیشاپوری، 204 ھ کونیشاپور میں پیداہوئے۔کبار ائمہ اور حفاظ حدیث میں سے تھے،طلب حدیث کے لیےحجاز،شام اور عراق کے سفرکیےاورحدیث کے ائمہ میں شمارہونے لگے۔نیشاپورہی میں 261ھ کو وفات پائی۔ (تذکرۃ الحفاظ:2۔588، ابو عبد الله الذهبی، محمد بن أحمد بن عثمان (ت 748ھ) دار إحياء التراث العربی، بيروت)۔
36: علم طبقات المحدثین: 155۔
37: محمدبن حبان بن احمدبن حبان بن معاذتیمی،ابوحاتم سجستانی۔تاریخ،جغرافیہ،رجال ورحدیث کے بہت بڑےعالم تھے۔حصول علم کے سلسلہ میں خراسان، شام ، مصر،عراق اور جزیرہ کےسفرکیے۔متعدد کتابیں تصنیف کی۔354ھ کو وفات پائی۔(تذکرۃ الحفاظ 3/290)۔
38: علم طبقات المحدثین: 155۔
39: احمد بن علی بن محمد، ابوالفضل شہاب الدین ابن حجر عسقلانی، قاہرہ میں 773ھ کو پیداہوئے۔ حدیث،رجال اور تاریخ کے بےنظیر عالم تھے۔ لاتعداد کتابیں تصنیف کیں ، 852ھ کو وفات پائی۔ (البدرالطالع 1/87)۔
40: تقريب التهذيب: 1/2، دارنشر کتب الاسلامیہ ، لاہور1985م۔
41: عبد العزيز بن محمد بن ابراہيم، ابن جماعہ الكنانی، 694ھ کودمشق میں پیداہوئے،حافظ حدیث اور فقیہ تھے، متعدد کتابیں تصنیف کیں، مصر کے قاضی رہے،767ھ کو وفات پائی۔ (الاعلام4/26)۔
42: فتح المغیث شرح الفیۃ الحدیث: 4/395۔
43: نفس مصدر 1/187۔
44: تقريب التهذيب: 1/81۔
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 2 Issue 1 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2015 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |