4
2
2017
1682060029336_1238
45-59
https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/128/119
https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/128
دین اسلام کو یہ فخر اور اعزاز حاصل ہے کہ اس میں ہر سنی ہوئی بات کو نہیں مانی جاتی بلکہ جب بھی کوئی دلیل بیان کرے گا تو اس کے لئے سند بیان کرے گا اور یہی اس دین کو دوسرے ادیان سے ممتاز کرتا ہے۔ قرآن، حدیث، فن اسماء الرجال یا پھر تاریخ، سند کے بغیر قبول نہیں کئے جاتے۔تاریخ کا ایک بڑا حصہ سیرۃ رسول ﷺ پر مشتمل ہے جس میں نبی کریم ﷺ کی ولادت سے پہلے کے واقعات سے کر بچپن، جوانی، نبوت، ازدواجی زندگی، غرض زندگی کا کوئی گوشہ خالی نہیں ہے۔ لیکن اسناد کے ہونے کے باوجود سیرۃ رسول ﷺ سے متعلق بعض رواۃ نے ایسے قصے اور روایات بھی مشہور کئے ہیں جن کا سیرۃ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جن میں سے چند ایک ایسے روایات جو نبی کریم ﷺ کی ولادت سے متعلق ہیں، اُن کو زیر تحقیق لایا جارہا ہے، کہ ایسے روایات کی سند سے بحث کے ساتھ ساتھ ان کا عقلی لحاظ سے بھی جائزہ لیا جائے گا کہ آیا ایسا ہونا ممکن بھی ہے کہ نہیں؟کیونکہ ایسے روایات کا سیرۃ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
تمہید
نبی کریم ﷺ آخری نبی ہیں اور سید الاولین والآخرین ہیں، آپ ﷺ کا اسوۃ حسنہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ نبی کریم ﷺ کے اوصاف بیان کرنا اور آپ پر درود بھیجنا اللہ کے ہاں کار ثواب ہے، اسی لئے خیرالقرون سے لے آج تک علماء دین اسلام نبی کریمﷺ کی سیرت کو سند درسند بیان کرتے چلے آئے اور تاقیامت یہ سلسلہ جاری رہے گا۔سیرت کے حوالےسے اگر ایک طرف ذخیرہ کتب انتہائی ضخیم ہے تو دوسری طرف ان کتب میں ایسے روایات بھی موجود ہیں جو قابل اعتبار نہیں ہیں، اگرچہ یہ روایات مشہور علی السنۃ الناس ہیں اور سیرت کا ایک جزء لاینفک بن چکا ہے اور عوام وخواص ان روایات کو بڑے فخر سے بیان کرتے ہیں لیکن بہت کم لوگ ہوں گے جو ان روایات کی صحت وضعف سے واقف ہوں، اسی لئے اس مقالہ میں چند ایسے ہی روایات کا انتخاب کیاجارہا ہے جو تشنہ بحث ہیں تاکہ ان روایات کی استنادی حیثیت واضح ہوجائے۔لیکن ان روایات پر بحث سے پہلے ضروری ہے کہ سیرۃ کی تعریف کی جائے۔
سیرۃ کا لغوی معنی
سیرۃ بمعنی طریقہ، خواہ وہ طریقہ خیر کا ہو یا شر کا، جیسے کہ کہتے ہیں: فلان محمود السيرة وفلان مذموم السيرة۔[1]
سیرۃ کا اصطلاحی معنی:
متقدمین کی اصطلاح میں فقط غزوات اور سرایا کے حالات اور واقعات کے مجموعہ کو سیرت کہتے ہیں۔[2]
1:ولادت النبیﷺ سے پہلے کے روایات
حدث محمد بن إسحاق قال: سار تبع الأول إلى الكعبة. فأراد هدمها وكان من الخمسة الذين لهم الدنيا بأسرها.وكان له وزراء. فاختار منهم واحداً وأخرجه معه وكان يسمى عميارسنا لينظر إلى مملكته، وخرج في مائة ألف وثلاثين ألفاً من الفرسان ومائة ألف وثلاثة عشر ألفاً من الرجالة. وكان يدخل كل بلدة وكانوا يعظمونه وكان يختار من كل بلدةٍ عشرة أنفس من حكمائهم حتى جاء إلى مكة ومعه أربعة آلاف رجل من الحكماء الذين اختارهم من بلدانٍ مختلفة، فلم يتحرك له أحد ولم يعظموه، فغضب عليهم، ودعا عميارسنا وقال: كيف شأن أهل هذه البلد الذين لم يهابوني ولم يهابوا عسكري كيف شأنهم وأمرهم؟ قال الوزير: إنهم قوم عربيون جاهلون لا يعرفون شيئاً، وإن لهم بيتاً يقال له الكعبة، وإنهم معجبون بها، ويسجدون للطاغوت والأصنام من دون عز وجل. قال الملك: إنهم معجبون بهذا البيت؟ قال: نعم۔الخ[3]
ترجمہ : نبی کریمﷺ سے ایک ہزار سال بیشتر یمن کا بادشاہ تُبع خمیری تھا ، ایک مرتبہ وہ اپنی سلطنت کے دورہ کو نکلا، بارہ ہزار عالم اور حکیم اور ایک لاکھ بتیس ہزار پیادہ اپنے ہمراہ لیے ہوئے اس شان سے نکلا کہ جہاں بھی پہنچتا اس کی شان وشوکت شاہی دیکھ کر مخلوق خدا چاروں طرف نظارہ کو جمع ہوجاتی۔ یہ باد شاہ جب دورہ کرتا ہوا مکہ معظمہ پہنچا تو اہل مکہ میں سے کوئی اسے دیکھنے نہ آیا۔ بادشاہ حیران ہوا اور اپنے وزیراعظم سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ یہ عرب جاھل قوم ہے جو کچھ نہیں جانتے اور اس شہر میں ایک گھر ہے جسے بیت اللہ کہتے ہیں، اس کی اور اس کے خادموں کی جو یہاں کے باشندے ہیں ، تمام لوگ بہت تعظیم کرتے ہیں اور جتنا آپ کا لشکر ہے اس سےکہیں زیادہ دور اور نزدیک کے لوگ اس گھر کی زیارت کو آتے ہیں اور یہاں کے باشندوں کی خدمت کرکے چلے جاتے ہیں، پھر آپ کا لشکر ان کے خیال میں کیوں آئے؟ یہ سن کر بادشاہ کو غصہ آیا اور قسم کھا کر کہنے لگا کہ میں اس گھر کو کھدوا دوں گا اور یہاں کے باشندوں کو قتل کروا دوں گا۔ یہ کہنا تھا کہ بادشاہ کے ناک، منہ اور آنکھوں سے خون بہنا شروع ہوگیا اورایسا بدبودار مادہ بہنے لگا کہ اس کے پاس بیٹھنے کی بھی طاقت نہ رہی، اس مرض کا علاج کیا گیا مگر افاقہ نہ ہوا ، شام کے وقت بادشاہی علما ء میں سے ایک عالم ربانی تشریف لائے اور نبض دیکھ کر فرمایا : مرض آسمان کا ہے اور علاج زمین کا ہورہا ہے۔ اے بادشاہ! اگر آپ نے کوئی بری نیت کی ہے تو فوراً اس سے توبہ کریں ۔ بادشاہ نے دل ہی دل میں بیت اللہ اور خدام کعبہ کے متعلق اپنے ارادہ سے توبہ کی، توبہ کرتے ہی اس کا وہ خون اور مادہ بہنا بند ہوگیا اور پھر صحت کی خوشی میں اس نے بیت اللہ کو ریشمی غلاف چڑھایااور شہر کے ہر باشندے کو سات سات اشرفی اور سات سات ریشمی جوڑے نذر کئے۔ پھر یہاں سے چل کر مدینہ منورہ پہنچا تو ہمراہ علماء نے جو کتب سماویہ کے عالم تھے وہاں کی مٹی کو سونگھا اور کنکریوں کو دیکھا اور نبی آخر الزماں ﷺ کی ہجرت گاہ کی جو علامتیں انہوں نے پڑھی تھیں ، ان کے مطابق اس سرزمین کو پایا تو باہم عہد کرلیا کہ ہم یہاں ہی مرجائیں گے مگر اس سرزمین کو نہ چھوڑیں گے ، اگر ہماری قسمت نے یاوری کی تو کبھی نہ کبھی جب نبی آخر الزمان ﷺ تشریف لائیں گے ہمیں بھی زیارت کا شرف حاصل ہوگا ورنہ ہماری قبروں پر ضرور کبھی نہ کبھی ان کی جوتیوں کی مقدس خاک اڑکر پڑجائے گی جو ہماری نجات کے لئے کافی ہے۔ یہ سن کر بادشاہ نے ان عالموں کے واسطے چار سو مکان بنوائے اور اس بڑے عالم ربانی کے مکان کے پاس نبی کریم ﷺ کی خاطر ایک دو منزلہ عمدہ مکان تعمیر کروایا اور وصیت کردی کہ جب آپ ﷺ تشریف لائیں تو یہ مکان آپ ﷺ کی آرام گا ہ ہو، اور ان چار سو علماء کی کافی مالی امداد بھی کی اور کہا کہ تم ہمیشہ یہی رہو اور پھر اس بڑے عالم ربانی کو ایک خط لکھ دیا اور کہا کہ میرا یہ خط اس نبی آخر الزمان ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کردینا اور اگر زندگی بھر تمہیں نبی ﷺ کی زیارت کا موقع نہ ملے تو اپنی اولاد کو وصیت کردینا کہ نسلاً بعد نسلاً میرا یہ خط محفوظ رکھیں حتیٰ کہ نبی ﷺ کی خدمت میں پیش کیا جائے اور یہ کہہ کر بادشاہ یہاں سے چل دیا ۔ وہ خط نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک ہزار سال بعد پیش ہوا جس میں لکھا تھا:"کم ترین مخلوق تُبع اول خمیری کی طرف سے شفیع المزنبین ، سید المرسلین محمد رسول اللہ ﷺ ۔ اما بعد! اے اللہ کے حبیب! میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور جو کتاب آپ پر نازل ہوگی اس پر بھی ایمان لاتا ہوں اور میں آپ کے دین پر ہوں ، پس اگر مجھے آپ کی زیارت کا موقع مل گیا تو بہت اچھا وغنیمت اور اگر میں آپ کی زیارت نہ کرسکا تو میری شفاعت فرمانا اور قیامت کے روز مجھے فراموش نہ کرنا ، میں آپ کی پہلی امت میں سے ہوں اور آپ کے ساتھ آپ کی آمد سے پہلے ہی بیعت کرتاہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور آپ اس کے سچے رسول ہیں"۔
شاہ یمن کا یہ خط نسلاً بعد نسلاً ان چار سو علماء کے اندر حرزجان کی حیثیت سے محفوظ چلاآیا یہاں تک کہ ایک ہزار سال کا عرصہ گزرگیا ، ان علماء کی اولاد اس کثرت سے بڑھی کہ مدینہ کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہوگیا اور یہ خط دست بدست مع وصیت کے اس بڑے عالم ربانی کی اولاد میں سے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور آپ نے وہ خط اپنے غلام خاص ابو لیلیٰ کی تحویل میں رکھا اور جب نبی کریم ﷺ نے مدینہ ہجرت فرمائی اور مدینہ کی الوداعی گھاٹی مثنیات کی گھاٹیوں سے آپ کی اونٹنی نمودار ہوئی اور مدینہ کے خوش نصیب لوگ محبوب خدا کا استقبال کرنے کو جوق درجوق آرہے تھے اور ہرکوئی اپنی مکانوں کو سجا رہا تھا تو کوئی گلیوں اور راستوں کو صاف کررہا تھا اور کوئی دعوت کا انتظام کررہا تھا اور سب یہی اصرار کررہے تھے کہ نبی ﷺ میرے گھر تشریف لائیں ۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ میری اونٹنی کی نکیل چھوڑ دو جس گھر میں یہ ٹھہرے گی اور بیٹھ جائے گی وہی میری قیام گاہ ہوگی۔ چنانچہ جو دو منزلہ مکان شاہ یمن تبع خمیری نے حضور ﷺ کی خاطر بنوایا تھا وہ اس وقت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کی تحویل میں تھا، اسی میں نبی ﷺ کی اونٹنی جاکر ٹھہر گئی ، لوگوں نے ابو لیلیٰ کو بھیجا کہ جاؤ نبی ﷺ کو شاہ یمن تبع خمیری کا خط دے آؤ ، جب ابو لیلیٰ حاضر ہوا تو حضور ﷺ نے اسے دیکھتے ہی فرمایا تو ابو لیلیٰ ہے؟ یہ سن کر ابو لیلیٰ حیران ہوگیا ۔ حضورﷺ نے فرمایا : میں محمدرسول اللہ ﷺ ہوں ۔ شاہ یمن کا جو خط تمہارے پاس ہے ، لاؤ وہ مجھے دو چنانچہ ابو لیلیٰ نے وہ خط دیا ، حضور ﷺ نے پڑھ کر فرمایا : صالح بھائی تبع کو آفرین وشاباش ہے"۔
یہ واقعہ کئی ایک وجوہ سے کمزور ہے خواہ وہ عقلی لحاظ سے ہو یا نقلی لحاظ سے۔
دلائل عقلیہ
1:تبع حمیری کے علماء نے کیا صرف نبی ﷺ کی ہجرت والی مٹی اور اس کی کنکریوں کے بارے میں پڑھا تھا؟ ہونا تو چاہیے تھا کہ وہ مکہ کی مٹی کو بھی سونگھ لیتے کیونکہ نبی کریمﷺ نے تو زیادہ وقت مکہ میں گزارا تھا اور پھر آپ ﷺنے تو مبعوث بھی وہاں ہی ہونا تھا تو یہ بھی عجیب بات ہے کہ تبع حمیری اور اس کا لشکر بمعہ علماء کے مکہ میں اترا اور وہاں پر اُن کو نبی کریمﷺ کی کوئی نشانی نہیں ملی لیکن جب مدینہ آئے تو وہاں پر ہجرت کے آثار دیکھے۔
2: جس طرح بحیر ا راہب اور نسطورا راہب کو نبی کریمﷺ کی بعثت کا علم تھا تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ تبع حمیری کے علماء کو بھی نبی کریمﷺ کی بعثت کی جگہ کا علم ہوتا۔
3: تبع حمیری نبی کریمﷺ پر غائبانہ اسلام لے آیا تو اس طرح سے وہ سب سے پہلے مسلمان قرار پائے لیکن یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آیا سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہما تھے یا پھر تبع حمیری؟
4:ابو ایوب رضی اللہ عنہ کے حالات میں دیکھنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ابو لیلیٰ کے نام سے آپ کا کوئی غلام نہیں تھا۔واللہ اعلم۔
5: جب یہ اتنا اہم واقعہ ہے تو ضروری تھا کہ اس واقعہ کو حدیث کی دوسری کتابوں میں نقل کیا جاتا حالانکہ احادیث کی کسی بھی مستند کتاب میں اس واقعہ کا کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے ماسوائے تاریخ کی کتابوں کے اور وہ بھی بلاسند۔
6: اگر یہ اتنا اہم واقعہ ہے اور اس کا تعلق ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے ہے تو پھر اُس کے مناقب میں بھی اس کا ذکر ہونا چاہیے تھا حالانکہ اسماء الرجال کے کسی بھی کتاب میں ابو ایوب رضی اللہ عنہ کے حالات میں اس واقعہ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
دلائل نقلیہ
1:اس روایت کو صرف محمد بن اسحاق سے روایت کیا گیا ہے جب کہ اور کسی بھی راوی کا ذکر موجود نہیں ہے، تو جب اتنا بڑا واقعہ ہو اور اس کی سند بھی پوری نہ ہو تو اس پر صحت کا حکم کیسے لگایا جاسکتاہے؟
2: اس واقعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ تبع حمیری نبی کریم ﷺ پر سب سے پہلے ایمان لانے والا تھا لیکن ایک دوسری حدیث میں نبی کریم ﷺ سے جب تبع حمیری کے متعلق پوچھا جاتا ہے تو نبی ﷺ لاعلمی کا اظہار کرتےہیں۔ ارشاد نبویﷺ ہے:
حدثنا عبد الرحمن بن الحسن القاضي بهمدان ثنا إبراهيم بن الحسين ثنا آدم بن أبي إياس ثنا ابن أبي ذ ئب عن المقبري عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: ما أدري أتبع كان لعينا أم لا و ما أدري أذو القرنين كان نبيا أم لا و ما أدري الحدود كفارة لأهلها أم لا۔[4]
ترجمہ : ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مجھے نہیں معلوم کہ تبع لعین تھا یا نہیں؟ اور مجھے نہیں معلوم کہ ذوالقرنین نبی تھے یا نہیں؟ اور مجھے نہیں معلوم کہ حدود اپنے اہل کے لئے کفارہ ہوتے ہیں کہ نہیں؟۔
اس روایت کو حاکم نے صحیح علی شرط شیخین کہا ہے اور یہی بات تلخیص المستدرک میں امام ذہبی نے بھی کہی ہے۔
اب اس روایت سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ آیا تبع حمیری مسلمان تھا یا پھر یہ جھوٹ کا کوئی واقعہ ہے جس کو گھڑا گیا ہے کیونکہ اگر تبع حمیری کا یہ واقعہ سچا ہوتا اور وہ مسلمان ہوتے تو نبی کریم ﷺ لاعلمی کا اظہار کیوں کرتے اور اظہار بھی اس کی لعین ہونے سے ہے نہ کہ مسلمان ہونے سے۔لیکن یہاں پر ایک روایت یہ بھی ہے جس میں تبع حمیری کے مسلمان ہونے کا فرمان ہے۔ ارشاد نبویﷺ ہے:
حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا حسن ثنا بن لهيعة ثنا أبو زرعة عمرو بن جابر عن سهل بن سعد قال سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول: لا تسبوا تبعا فإنه قد كان أسلم۔[5]
ترجمہ : سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم لوگ تُبع کو گالیاں نہ دو، وہ مسلمان ہوچکاتھا۔
اس روایت کو امام احمد بن حنبلؒ نے اپنی مسند میں ذکر کیا ہے لیکن اس کے تعلیق میں شعیب الارنوؤط کہتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں ابن لھیعۃ ضعیف ہے اور ابو زرعۃ عمرو بن جابر تو انتہائی ضعیف ہے۔ اس طرح کی دوسری روایت کو ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی نے اپنی کتاب المعجم الکبیر اور المعجم الاوسط میں روایت کی ہے لیکن خود ہی اس پر حکم بھی لگایا ہے ۔ طبرانی فرماتے ہیں کہ اس روایت کو محمد بن ابی بزۃ مکی روایت کرنے میں متفرد ہے۔اور دوسری سند میں ابن لھیعۃ ہیں اور وہ بھی اس کو روایت کرنے میں متفرد ہے اور ابن لھیعۃ خود بھی ضعیف ہے۔[6]
ولادت سے متعلق روایات
2:ولادت نبیﷺ کے وقت شفاء بنت اوس رضی اللہ عنہا کو شام کے محلات کا نظر آنا
حدثنا عمر بن محمد بن جعفر، قال: ثنا إبراهيم بن السندي، قال: ثنا النضر بن سلمة، قال: ثنا أحمد بن محمد بن عبد العزيز الزهري، عن أبيه، محمد بن عبد العزيز الزهري، وعبد الرحمن بن حميد بن عبد الرحمن بن عوف كلاهما يحدثان عن حميد بن عبد الرحمن بن عوف، عن أبيه عبد الرحمن بن عوف، قال: كنت أنا ورسول الله صلى الله عليه وسلم تربا، وكانت أمي الشفاء بنت عمرو بن عوف ابنة عم أبيه، فكانت تحدثنا عن آمنة بنت وهب أم رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت أمي الشفاء بنت عمرو: لما ولدت آمنة محمدا صلى الله عليه وسلم وقع على يدي، فاستهل، فسمعت قائلا يقول: رحمك ربك، قالت الشفاء: فأضاء لي ما بين المشرق والمغرب، حتى نظرت إلى بعض قصور الشام، قالت: ثم ألبنته، وأضجعته، فلم أنشب أن غشيتني ظلمة ورعب وقشعريرة، ثم أسفر عن يميني، فسمعت قائلا يقول: أين ذهبت به؟ قال: ذهبت به إلى المغرب، قالت: وأسفر ذلك عني، ثم عاودني الرعب به؟ قال: إلى المشرق، ولن يعود أبدا، فلم يزل الحديث مني على بال حتى ابتعث الله عز وجل رسوله، فكنت في أول الناس إسلاما۔[7]
ترجمہ : روایت ہے کہ جب نبی کریم ﷺ پیدا ہوئے تو عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی والدہ شفاء بنت عمرو رضی اللہ عنہا ولادت کے وقت حضرت آمنہ کے پاس موجود تھیں، وہ کہتی ہیں کہ جب آپﷺ پیدا ہوئے تو پہلے غیب سے ایک آواز آئی ، پھر مشرق ومغرب کی ساری زمین میرے سامنے روشن ہوگئی یہاں تک کہ شام کے محل مجھ کو نظر آنے لگے ۔ میں نے آپ ﷺ کو کپڑا پہناکر لٹایا ہی تھا کہ اندھیرا چھا گیا اور میں ڈر کر کانپنے لگی ، پھر داہنے طرف سے کچھ روشنی نکلی تو یہ آواز سننے میں آئی کہ کہاں لے گئے تھے؟ جواب ملا کہ مغرب کی طرف ۔ ابھی کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ پھر وہی کیفیت پیدا ہوگئی ، میں ڈر کر کانپی ، پھر آواز آئی کہ کہاں لے گئے تھے ؟ جواب ملا کہ مشرق کی طرف۔ پھر یہ بات میرے دل میں تھی یہاں تک کہ نبی ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا تو میں اول اسلام لانے والوں میں سے تھی۔
اس روایت سے متعلق سید سلیمان ندویؒ فرماتے ہیں کہ اس کی سند میں ایک راوی احمد بن محمد بن عبدالعزیز نامعتبر ہیں اور اس کے دوسرے رواۃ مجہول الحال ہیں۔[8]
3:گلے میں تعویذ ڈالنا
دلائل النبوۃ اور سیرۃ ابن اسحاق میں روایت ہے:
حدثنا عمر بن محمد، قال: ثنا إبراهيم بن السندي، قال: ثنا النضر بن سلمة، قال: ثنا أبو غزية محمد بن موسى الأنصاري، عن أبي عثمان سعيد بن زيد الأنصاري، عن ابن بريدة، عن أبيه، قال: رأت آمنة بنت وهب أم النبي صلى الله عليه وسلم في منامها، فقيل لها: إنك قد حملت بخير البرية وسيد العالمين، فإذا ولدتيه فسميه أحمد ومحمدا، وعلقي عليه هذه قال : فانتبهت، وعند رأسها صحيفة من ذهب مكتوب فيها:
أعيذه بالواحد من شر كل حاسد وكل خلق رائد من قائم وقاعد عن السبيل عاند على الفساد جاهد من نافث، أو عاقد وكل خلق مارد يأخذ بالمراصد في طرق الموارد أنهاهم عنه بالله الأعلى، وأحوطه منهم باليد العليا، والكف الذي لا يرى، يد الله فوق أيديهم، وحجاب الله دون عاديهم، لا يطردونه، ولا يضرونه في مقعد، ولا منام، ولا مسير، ولا مقام، أول الليالي، وآخر الأيام۔[9]
ترجمہ : روایت ہے کہ حضرت آمنہ نے خواب میں دیکھا کہ کوئی اس سے کہہ رہا ہے کہ اے آمنہ! تیرا بچہ تمام جہاں کا سردار ہوگا ۔ جب بچہ پیدا ہو تو اس کا نام احمد اور محمد رکھنا اور یہ تعویذ گلے میں ڈال دینا۔جب وہ بیدار ہوئیں تو اس کے سرہانےسونے کے ایک رقعہ پر چار دفعہ کچھ اشعار لکھے ملے الخ"۔
اس روایت کو سید سلیمان ندویؒ اپنی کتاب میں ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ قصہ ابو نعیم میں ہے اور اس کا راوی ابو غزیۃ محمد بن موسی الانصاری ہے(جیسا کہ اوپر متن میں ظاہر ہے)جس کی روایتوں کو امام بخاری منکر کہتے ہیں۔ابن حبان کا بیان ہے کہ یہ دوسروں کی حدیثیں چرایا کرتا اور روایات وضع کرکے ثقہ راویوں کی جانب منسوب کرتا۔[10]
یہاں پر یہ بات قابل غور ہے کہ آپﷺ کا "محمد"نام آپ کے دادا عبدالمطلب نے رکھا تھا اور رہا آپ ﷺ کا نام احمد تو یہ نام انجیل میں تھا جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے: مُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ۔[11] ترجمہ : ایک رسول کی بشارت دینے والا جو عیسیؑ کے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہوگا"۔
4:زمین پر ستاروں کا جھک آنا
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بن عَمْرٍو الْخَلالُ الْمَكِّيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بن مَنْصُورٍ الْجَوَّازُ، ثنا يَعْقُوبُ بن مُحَمَّدٍ الزُّهْرِيُّ، ثنا عَبْدُ الْعَزِيزِ بن عِمْرَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بن عُثْمَانَ بن أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ أَبِي سُوَيْدٍ الثَّقَفِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عُثْمَانَ بن أَبِي الْعَاصِ، يَقُولُ: أَخْبَرَتْنِي أُمِّي، قَالَتْ: شَهِدْتُ آمِنَةَ لَمَّا وَلَدَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا ضَرَبَهَا الْمَخَاضُ نَظَرْتُ إِلَى النُّجُومِ تَدَلا، حَتَّى إِنِّي أَقُولُ لَتَقَعَنَّ عَلَيَّ، فَلَمَّا وَلَدَتْ، خَرَجَ مِنْهَا نُورٌ أَضَاءَ لَهُ الْبَيْتُ الَّذِي نَحْنُ فِيهِ وَالدَّارُ، فَمَا شَيْءٌ أَنْظُرُ إِلَيْهِ، إِلا نُورٌ۔[12]
ترجمہ : عثمان بن ابی العاص اپنی ماں سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے میری نے کہا: کہ میں رسول اللہ ﷺ کی ولادت کے وقت حضرت آمنہ کے پاس موجود تھیں ۔ جب حضرت آمنہ کو دردزہ شروع ہوا تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ تمام ستارے زمین پر جھک کر آئے ہیں یہاں تک کہ میں ڈری کہ کہی زمین پر نہ گر پڑیں اور جب آپ ﷺ پیدا ہوئے تو جدھر نظر جاتی تمام گھر روشنی سے معمور تھا"۔
سید سلیمان ندویؒ اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس کی سند میں یعقوب بن محمد زہر ی پایہ اعتبار سے ساقط ہے اور عبدالعزیز بن عمر بن عبدالرحمن بن عوف محض ایک داستان گو اور جھوٹا انسان تھا۔[13]
یہاں پر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ مکہ سے نہیں ہیں بلکہ طائف کے باشندے تھے اور قبیلہ ثقیف سے اس کا تعلق تھا۔ قبیلہ ثقیف والوں نے 9ھ کو اسلام قبول کیا ہے جب کہ 9ھ سے پہلے اس قبیلے کے صرف دو افراد اسلام لائے تھے ، ایک مغیرہ بن شعبۃ رضی اللہ عنہ جو صلح حدیبیہ کے موقع پر مشرف باسلام ہوئے تھے اور دوسرے عروۃ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ جو کہ 8 ھ میں اسلام لائے اور اسی جرم میں اہل طائف نے اس کو شہید کیا ۔ تو اب یہ کیسے ممکن ہے کہ عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی ماں نبی کریم ﷺ کی ولادت کے وقت مکہ میں موجود تھیں اور مشرف باسلام بھی 9ھ کے بعدہوئی؟[14]
یہاں ایک بات اورہے وہ یہ کہ اس سے پہلے ایک روایت میں عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی ماں شفاء بنت عمرو رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺ کی ولادت کے وقت موجود تھیں اور اس نے مشرق ومغرب یہاں تک کہ شام کے بعض محلات دیکھے اور یہاں اس روایت میں عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی ماں یہ بیان کرتی ہے کہ ایسی روشنی آئی جس سے یہ معلوم ہوتاتھا کہ تمام ستارے زمین پر جھک آئے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ نبی ﷺ کی ولادت کے وقت ان دونوں میں سے کون موجود تھیں؟ اور آیا صرف روشنی ہوئی تھی جس سے مشرق اور مغرب روشن ہوگئے تھے یا پھر ستارے زمین پر جھک آئے تھے؟ ان دونوں روایتوں میں تضاد نظر آتاہے جو کہ محل نظر ہے۔
5:چاند سے باتیں کرنا
دلائل النبوۃ میں ایک روایت وارد ہے:
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ قال حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب قال حدثنا أحمد بن شيبان الرملي قال حدثنا أحمد بن إبراهيم الحلبي قال حدثنا الهيثم بن جميل حدثنا زهير عن محارب بن دثار عن عمرو بن يثربي عن العباس بن عبد المطلب قال قلت يا رسول الله دعاني إلى الدخول في دينك أمارة لنبوتك رأيتك في المهد تناغي القمر وتشير إليه بإصبعك فحيث أشرت إليه مال قال إني كنت أحدثه ويحدثني ويلهيني عن البكاء وأسمع وجبته حين يسجد تحت العرش۔ تفرد به هذا الحلبي بإسناده وهو مجهول۔[15]
ترجمہ : حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ مجھ کو جس نشانی نے آپ کے مذہب میں داخل ہونے کا خیال دلایا وہ یہ ہے کہ جب آپ گہوارے میں تھے تو میں نے دیکھا کہ آپ چاند سے اور چاند آپ سے باتیں کرتا تھااور انگلی سے آپ اس کو جدھر اشارہ کرتے تھے ، اُدھر جھک جاتا تھا۔ فرمایا: ہاں، وہ مجھ سے باتیں کرتا تھا اور میں اس سے باتیں کرتا تھا ، وہ مجھے رونے سے بہلاتا تھا اور عرش کے نیچے جاکر جب وہ تسبیح کرتا تو میں اس کی آواز سنتا تھا"۔
اس روایت سے متعلق خود امام بیہقی فرماتےہیں کہ اس روایت کو نقل کرنے میں الحلبی متفرد ہیں اور وہ مجہول ہیں۔
یہاں پر غور طلب بات یہ ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺ سے صرف دو سال بڑے ہیں تو اس وقت وہ بھی شیرخوارہوں گے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ دو سال کے بچے کو یہ سب کچھ سمجھ میں بھی آجائے اور اسے یہ یاد بھی ہو اور ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ نبی کریم ﷺ سے چاند تو بچپن میں باتیں کرتا ہے لیکن جب نبوت ملی تو اس کے بات چاند کچھ بھی آپ سے بات نہیں کرتا؟ اور نہ تو نبی کریم ﷺ اس بات کا کہی ذکر کرتے ہیں؟ فیا للعجب!
6:ایک یہودی کی بشارت
مستدرک حاکم میں ایک روایت ا س طرح سے منقول ہے:
حدثنا أبو محمد عبد الله بن جعفر الفارسي ثنا يعقوب بن سفيان ثنا أبو غسان محمد بن يحيى الكناني حدثني أبي عن ابن إسحاق قال: كان هشام بن عروة يحدث عن أبيه عن عائشة رضي الله عنها قال: كان يهودي قد سكن مكة يتجر بها فلما كانت الليلة التي ولد فيها رسول الله صلى الله عليه و سلم قال في مجلس من قريش: يا معشر قريش هل ولد فيكم الليلة مولود: فقالوا و الله ما نعلمه قال: الله أكبر أما إذا أخطأكم فلا بأس فانظروا و احفظوا ما أقول لكم: ولد هذه الليلة نبي هذه الأمة الأخيرة بين كتفيه علامة فيها شعرات متواترات كأنهن عرف فرس لا يرضع ليلتين و ذلك أن عفريتا من الجن أدخل أصبعيه في فمه فمنعه الرضاع فتصدع القوم من مجلسهم وهم متعجبون من قوله و حديثه فلما صاروا إلى منازلهم أخبر كل إنسان منهم أهله فقالوا: قد ولد لعبد الله بن عبد المطلب غلام سموه محمدا فالتقى القوم فقالوا: هل سمعتم حديث اليهودي و هل بلغكم مولد هذا الغلام؟ فانطلقوا حتى جاؤوا اليهودي فأخبروه الخبر قال: فاذهبوا معي حتى أنظر إليه فخرجوا به حتى أدخلوه على آمنة فقال: اخرجي إلينا فأخرجته و كشفوا له عن ظهره فرأى تلك الشامة فوقع اليهودي مغشيا عليه فلما أفاق قالوا: و يلك ما لك؟ قال: ذهبت و الله النبوة من بني إسرائيل فرحتم به يا معشر قريش أما والله ليسطون بكم سطوة يخرج خبرها من المشرق و المغرب و كان في النفر يومئذ الذين قال لهم اليهودي ما قال: هشام بن الوليد بن المغيرة و مسافر بن أبي عمرو و عبيدة بن الحارث بن عبد المطلب و عتبة بن ربيعة شاب فوق المحتلم في نفر من بني عبد مناف و غيرهم من قريش.
هذا حديث صحيح الإسناد و لم يخرجاه. تعليق الذهبي قي التلخيص: عقب تصحيح الحاكم للحديث لا نافيا لصحته۔[16]
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جس شب آپ ﷺ پیداہوئے ، قریش کے بڑے بڑے سردار جلسہ جمائے بیٹھے تھے، ایک یہودی جو مکہ میں تجارت کرتا تھا ، اُن سے آکر دریافت کیا کہ تمہارے یہاں آج کسی کے گھر بچہ پیداہوا ہے؟ سب نے اپنی لاعلمی ظاہر کی ۔ اس نے کہا اللہ اکبر تم کو نہیں معلوم، تو خیر جو کچھ میں کہتاہوں اس کو غور سے سنو۔ آج شب کو اس پچھلی امت کو نبی پیدا ہوا ہے۔ اس کے دونوں مونڈھوں کے بیچ میں ایک نشانی ہے ، اس میں گھوڑے کے ایال کی طرح کچھ اوپر تلے بال ہیں۔ وہ دو دن تک دودھ نہ پئے گا کیونکہ ایک جن نے اس کے منہ میں انگلی ڈال دی ہے جس سے وہ دودھ نہیں پی سکتا۔ جب جلسہ برخواست ہوگیا اور لوگ گھروں کو لوٹے تو معلوم ہوا کہ عبدالمطلب کے گھر لڑکا پیدا ہوا ہے ۔ لوگ اس یہودی کو حضرت آمنہ کے گھر لائے ، اس نے بچے کے پیٹ پر تل دیکھا تو غش کھا کر گرپڑا ۔ جب ہوش آیا تو لوگوں نے سبب پوچھا تو اس نے کہا اللہ کی قسم اسرائیل کے گھرانے سے نبوت رخصت ہوگئی۔ اے قریش! تم اس کی نبوت سے خوش ہو، ہوشیار اللہ کی قسم یہ ایک دن تم پر ایسا حملہ کرے گا جس کی خبر چاردانگ عالم میں پھیلے گی"۔
اس روایت پر تبصرہ
1:اگر چہ حاکم نے اس روایت کو صحیح کہا ہے لیکن حافظ ذہبی نے اس کو اپنی تلخیص میں حاکم کی تردید کی ہے۔ اس کی سند میں ابو غسان محمد بن یحیی [17]کے بارے میں اگرچہ علماء کی آراء مختلف ہیں لیکن اس روایت میں وہ اپنے باپ یحیی بن علی کتانی سے روایت کرتے ہیں جس کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے کہ یہ کون ہے؟اور کب گزرا ہے؟۔
2:عقلی لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو اس روایت میں یہ بات بہت ہی عجیب اور عقل سلیم سے بہت ہی دور ہے کہ کسی جن کا نبی کریم ﷺ کے منہ میں انگلی ڈالنااور آپ ﷺ کا اس کی وجہ سے دو دن تک دودھ نہ پینا، حالانکہ نبی کریمﷺ تو جنات اور شیاطین کے ہر قسم کے تسلط سے پاک تھے اور اللہ نے آپ ﷺ کی حفاظت کی تھی۔
3:ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ یہودی کا مکہ میں آنا تو تاریخ کے منافی ہے کہ پوری تاریخ میں کسی یہودی کا مکہ میں ہونا بالکل بھی نہیں ملتا۔
4:یہودی کو نبی ﷺ کی ولادت کا پتہ کیسے چلا؟ کیا اس کے ساتھ علم غیب تھا؟ یا پھر اس کا سحر اتنا تیز تھا کہ ہر چیز کا پتہ چلاسکتا تھا؟ اگر واقعی اس کا سحر اتنا تیز تھا کہ اتنا تو معلوم کرسکتا ہے کہ کل رات کوئی بچہ پیدا ہوا ہے اور ا س کے دونوں مونڈھوں کے بیچ ایک نشانی بھی اس کو معلوم ہے تو پھر اس کو اتنا بھی معلوم ہونا چاہیے تھا کہ بچہ کس کے ہاں پیدا ہوا ہے؟
5:یہ بھی عجیب بات ہے کہ جب اس یہودی کو پتہ چلا کہ یہ آخری پیغمبر ہے تو پھر اس پر ایمان بھی لانا چاہیے تھا لیکن اس کے بعد کوئی تذکرہ نہیں ہے۔
7:حضرت عبداللہ سے ایک کاہنہ کی درخواست
اس سےمتعلق محمد بن سعد نے اپنی کتاب الطبقات الکبرٰٰ ی میں تین طریقوں سے روایت نقل کی ہے یعنی واقدی، کلبی اور ابو یزید مدنی کی سند سے لیکن یہاں پر صرف واقدی والی روایت پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔
قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ وَاقِدٍ الأَسْلَمِيُّ قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ابْنُ أَخِي الزُّهْرِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ قَالَ: وَحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ صَفْوَانَ، عَنْ أَبِيهِ، وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، قَالُوا جَمِيعًا: هِيَ قُتَيْلَةُ بِنْتُ نَوْفَلٍ أُخْتُ وَرَقَةَ بْنِ نَوْفَلٍ وَكَانَتْ تَنْظُرُ وَتَعْتَافُ فَمَرَّ بِهَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَدَعَتْهُ يَسْتَبْضِعُ مِنْهَا، وَلَزِمَتْ طَرَفَ ثَوْبِهِ، فَأَبَى وَقَالَ: حَتَّى آتِيَكِ وَخَرَجَ سَرِيعًا حَتَّى دَخَلَ عَلَى آمِنَةَ بِنْتِ وَهْبٍ فَوَقَعَ عَلَيْهَا، فَحَمَلَتْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ رَجَعَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِلَى الْمَرْأَةِ فَوَجَدَهَا تَنْظُرُهُ، فَقَالَ: هَلْ لَكِ فِي الَّذِي عَرَضْتِ عَلَيَّ؟ فَقَالَتْ: لاَ، مَرَرْتَ وَفِي وَجْهِكَ نُورٌ سَاطِعٌ ، ثُمَّ رَجَعْتَ وَلَيْسَ فِيهِ ذَلِكَ النُّورُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: قَالَتْ: مَرَرْتَ وَبَيْنَ عَيْنَيْكَ غُرَّةٌ مِثْلُ غُرَّةِ الْفَرَسِ، وَرَجَعْتَ وَلَيْسَ هِيَ فِي وَجْهِكَ۔[18]
ترجمہ : جبیر بن مطعم روایت کرتے ہیں کہ قتیلہ بنت نوفل جو کہ ورقہ بن نوفل کی بہن تھی جو کہ کاہنہ تھی اس نے حضرت عبداللہ کی پیشانی میں جو نور چمکا تھا اس کو پہچانا اور چاہا کہ خود عبداللہ سے ہم بستر ہوکر اس نور کی امین بن جائے مگر یہ سعاد ت اس کی قسمت میں نہ تھی ، اس وقت عبداللہ نے عذر کیا اور گھر چلے گئے ، وہاں یہ دولت حضرت آمنہ کو نصیب ہوئی ۔ عبداللہ نے واپس آکر اس کاہنہ سے درخواست کی تو اب اس نے رد کردی کہ اب وہ نور تمہاری پیشانی سے منتقل ہوچکا۔
اس روایت پر تبصرہ
1:اس روایت کی سند میں واقدی ہے جس کے بارے میں امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ واقدی کی کتابیں جھوٹ ہیں امام احمدبن حنبلؒ فرماتےہیں کہ واقدی احادیث کو الٹ پھیرکرتا تھا۔ اسحاق بن راھویہ کہتے ہیں: واقدی احادیث وضع کرتا تھا۔یحیی بن معین کہتے ہیں: میں واقدی کے احادیث نہیں لکھتا۔ابو زرعۃ نے محمد بن عمر الواقدی کو ضعیف کہا ہے۔ امام بخاریؒ اور ابو حاتم نے واقدی کو متروک کہا ہے۔ایک جگہ پر ابو حاتم اور امام نسائی نے کہا ہے کہ یہ احادیث کو وضع کرتا تھا۔ امام دارقطنیؒ کہتے ہیں: اس میں ضعف ہے۔ ابن عدی بھی کہتےہیں کہ اس کے احادیث غیر محفوظ ہیں۔ابوداؤد کہتےہیں کہ مجھے یہ علی بن المدینی کے حوالے سے یہ بات پہنچی ہے کہ واقدی تیس 30 ہزار ناآشنا احادیث بیان کرتا تھا۔ مغیرہ بن محمد المھلبی کہتےہیں کہ میں ابن المدینی کو سنا، وہ کہہ رہے تھے: ھیثم بن عدی میرے نزدیک واقدی سے اوثق ہیں، واقدی سے میں حدیث، انساب اور کسی چیز میں بھی لینے پر راضی نہیں ہوں۔خطیب بغدادی نے اپنی کتاب تاریخ بغداد میں واقدی کے حوالے سے لکھا ہے کہ واقدی نے جنگ احد کے واقعے کو بیس 20 جلدوں میں جمع کیا ہے۔ تاریخ کی کتب میں اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جن روایات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے متعلق کوئی منفی روایت ہو اس کی سند میں اکثرواقدی ہوتے ہیں اس لیے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ واقدی حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اس کی اولاد کےبارے میں متعصب تھے لیکن اس کے برعکس شیعہ عالم ابن الندیم اپنی کتاب الفہرست میں کہتے ہیں کہ واقدی میں تشیع پایا جاتا تھا لیکن تقیہ کے ذریعے اپنے آپ کو اہل سنت ظاہر کرتا تھا۔امام احمد فرماتےہیں: واقدی کذاب ہے، احادیث کو تبدیل کرتا رہتاہے۔ زہری کے بھانجے کی روایات کو معمر کی جانب منسوب کرتا ہے۔امام ابن الجوزی کہتےہیں: لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے یہ خود کو محمد بن ابی شملہ بھی کہلاتا تھا۔ علی بن المدینی کہتے ہیں کہ یہ احادیث وضع کرتا تھا۔اسحاق بن راھویہ کہتے ہیں کہ میرے نزدیک تو یہ احادیث وضع کرتاہے۔ امام ذہبی فرماتے ہیں کہ اس کے ضعف پر اجماع ہے۔[19] ۔
2:دوسری جو اہم بات اس روایت میں وہ یہ ہے کہ یہ جھوٹے راویان یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے والد ایک حوس پرست اور بدکار شخص تھے کہ ایک فاحشہ نے اس کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا تو اس وقت کسی خاص وجہ سے انکار کیا لیکن بعد میں خود اس فاحشہ کے پاس درخواست کرنے پہنچ گئے ۔ سوچنے کی بات ہے کہ آیا یہاں پر نبی کریمﷺ کی فضیلت بیان ہورہی ہے یا آپ ﷺ کے والد پر تبراء کیا جارہا ہے اور انہیں بدکار ثابت کیا جارہا ہے۔ فيا للعجب۔
3: یہ بھی عجیب بات ہے کہ عبداللہ کی پیشانی میں یہ نور اس سے پہلے کہی نہیں چمکا تھا؟ جس کو صرف قتیلہ بنت نوفل نے پہچانا اور یہ بھی عجیب ہے کہ کیا عبداللہ اس سے پہلے کبھی آمنہ کے پاس نہیں گئے تھے جس نور منتقل ہوتا یا پھر بقول واقدی کے اس کو قتیلہ بنت نوفل کو دکھانے کے لئے روکے رکھا تھا؟
خلاصۃ البحث
نبی کریم ﷺ سے محبت کا یہ عالم ہے کہ اگر کوئی اس کی سیرۃ کے حوالے جھوٹی روایت بھی بیان کردے تو لوگ اس کو سر آنکھوں پر ماننے کو تیار ہوتے ہیں کیونکہ حبك الشئ يعمی ويصم۔لیکن سیرۃ کے اکثر روایات کو قصہ گو مؤرخین نے نقل کئے ہوتے ہیں اس لئے ان روایات کے نقل کرنے میں احتیاط ضروری ہے اور یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ولادت سے قبل اور ولادت کے دوران سے متعلق ایسے روایات مشہور ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور سیرۃ الرسول ﷺ سے کوسوں دور ہیں۔
حوالہ جات
- ↑ :الجرجانی، علی بن محمدبن علی، التعریفات: 1/163، مادہ: السین، دارالکتاب العربی۔ بیروت، طبع1405ھ۔
- ↑ :کاندھلوی، محمد ادریس، سیرۃ المصطفیٰ: 1/3، الطاف اینڈ سنز۔ کراچی۔
- ↑ :الافریقی، محمد بن مکرم بن منظور، مختصر تاریخ دمشق: 2/221، باب: تبع بن حسان بن ملکیکرب بن تبع، تحت العنوان: اسماء الرجال علی حرف التاء المثناۃ فوقھا۔ طبع نامعلوم۔
- ↑ : ابو عبداللہ الحاکم، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین: 2/488، رقم3682، باب: تفسیر حٰم الدخان، دارالکتب العلمیۃ۔ بیروت، طبع 1411ھ۔1990م۔
- ↑ : ابو عبداللہ الشیبانی، احمد بن حنبل، مسند: 5/340، رقم22931، باب: حدیث ابی مالک سہل بن سعد الساعدی، مؤسسۃ قرطبہ۔ القاہرہ۔
- ↑ : ابو القاسم الطبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر: 5/500، رقم5881، طبع نامعلوم، طبرانی، المعجم الاوسط: 2/112، رقم1419، دارالحرمین۔ القاھرۃ، طبع 1415ھ۔
- ↑ : ابو نعیم الاصبہانی، احمد بن عبداللہ بن احمد(م430ھ)، دلائل النبوۃ: 1/91، رقم 77، باب: کنت انا ورسول اللہ ﷺ تربا، طبع نامعلوم۔
- ↑ : علامہ شبلی نعمانیؒ، سید سلیمان ندویؒ، سیرۃ النبیﷺ: 3/ 402، آر۔ زیڈ پیکجز۔ لاہور۔
- ↑ : ابو نعیم الاصفہانی، دلائل النبوۃ: 1/92، رقم 78۔
- ↑ : ندوی، سید سلیمان، سیرت النبی ﷺ: 3/402۔ابو عبداللہ بخاری، محمد بن اسماعیل، التاریخ الکبیر: 1/238، ترجمہ 753، طبع نامعلوم۔
- ↑ : القرن : الصف: 6۔
- ↑ : ابو القاسم الطبرانی، سلیمان بن احمد بن ایوب، المعجم الکبیر: 18/325، رقم20863، طبع نامعلوم۔ابوبکر البیہقی، دلائل النبوۃ: 1/111، باب ماجاء فی حفر زمزم علی طریق الاختصار، دارالکتب العلمیۃ۔ بیروت، طبع 1408ھ۔1988م۔
- ↑ : ندوی، سید سلیمان، سیرت النبیﷺ: 3/402۔
- ↑ : شمس الدین الذہبی، محمد بن احمد بن عثمان، سیر اعلام النبلاء: 2/374، ترجمہ 78۔ مؤسسۃ الرسالۃ۔ بیروت، طبع 1405ھ۔ 1985م۔
- ↑ : ابو بکر البیہقی، دلائل النبوۃ: 2/41، باب : الانبیاء قبلہ بالشام۔
- ↑ :ابو عبداللہ الحاکم النیسابوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین: 2/ 657، رقم4177، باب: ذکر نبی وروحہ عیسی بن مریم۔
- ↑ :نام ونسب: محمد بن يحيى بن على بن عبدالحميد بن عُبَيد بن غسان بن يسار الكنانى، أبو غسان المدنى۔ نسائی کہتے ہیں کہ لیس بہ باس اور ابن حبان نے اس کو اپنی ثقات میں ذکر کیا ہے۔امام بخاری نے آپ سے روایت لی ہے۔(ابو الحجاج المزی، یوسف بن الزکی عبدالرحمن، تہذیب الکمال: 26/636، ترجمہ 5690، مؤسسۃ الرسالۃ۔ بیروت، طبع 1400ھ۔1980م)۔
- ↑ :ابو عبداللہ البصری، محمد بن سعد، الطبقات الکبرٰی: 1/96، رقم 176، دار صاد ر ۔ بیروت، طبع 1968م۔
- ↑ : ابو عبداللہ، شمس الدین، محمد بن احمد بن عثمان بن قایماز الذہبی، میزان الاعتدال: 3/665، ترجمہ 7993، سطن۔
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 4 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 4 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 4 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 4 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 4 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 4 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 4 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 4 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 4 Issue 2 | 2017 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |