1
2
2014
1682060029336_297
1-9
https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/47/44
عقل اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے جو اس نے انسان کو عطا فرمائی ، اسی عقل کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو دیگر مخلوقات پر فضیلت و برتری عطا فرمائی ہے ۔عاقل انسان ہی احکام شریعت کا مکلف ہوتا ہے ۔عقل ہی کے ذریعے دنیوی مصالح اور مفاسد کی معرفت حاصل ہو سکتی ہے جب کہ اخروی مصالح و مفاسد کی معرفت عقل کے دائرہ کار میں شامل نہیں۔مقاصد شریعت کی معرفت اور پہچان کے لیے عقل کا کردار نہایت اہم ہے۔یہی وجہ ہے کہ اصولیین نے مقاصد شریعت کی پہچان کے لیے عقل کے کردار کو بہت اہمیت دی ۔اس تحقیقی مقالہ میں مقاصد شریعت کی معرفت میں عقل کے کردار کے بارے میں اصولیین کی آراءکا جائزہ پیش کیاگیا ہے۔
اشیاءکے درست ادراک، ان کی صحیح فہم، ان میں غوروفکر کرنے، ان اشیاءکے مابین موازنہ کرنے اور حصول علم کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو عقل عطا فرمائی ہے۔ اس کے ذریعے انسان کائنات کو مسخر کرنے، اس کو آباد کرنے اور اس کی اصلاح میں کوشاں نظر آتا ہے۔ انسانی عقل کی راہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ نے وحی کا اہتمام فرمایا ہے اور اسے شریعت کے بنیادی مقاصد سے آگاہ کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ایسی فطرت پر پیدا کیا ہے کہ انہیں دنیا کی بڑی بڑی مصالح کا عرفان عطا فرمایا تاکہ وہ ان سے استفادہ کر سکیں اور بڑے بڑے دنیوی مفاسد کی معرفت عطا فرمائی تاکہ وہ ان سے بچ سکیں۔ اگر انسانی طبائع میں غوروفکر کیا جائے تو بہت قلیل طبائع اس عطیہ خدواندی سے محروم نظر آئیں گی۔ جن مصالح کے حصول اور مفاسد سے بچاؤکا طبائع شوق پید اکرتی ہیں ،شرائع بھی ان ہی کا شوق دلاتی ہیں۔
” وَلَا یَقِفُ عَلَی الصَّوَابِ اِلاَّ ذَوُوالبَابِ۔“(1)۔"درست بات سے آگاہی صرف اہل عقل کو ہوتی ہے"۔
قرآن وسنت میں متعدد طریقوں سے کائنات میں غوروفکر، تفکر وتدبر کرنے اور اس کے خفیہ اسرار سے آگاہی کا حکم دیا گیا ہے۔عزالدین بن عبد السلام ؒنے غوروفکر کی متعدد مقامات پر تاکید کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
” اِنَّ النَّظَرَ فِکر مُوصِل اِلٰی مَعرِفَةٍ اَو اِعتِقَادٍ اَو ظَنِّ۔“(2)۔
"بلاشبہ غوروفکر کرنا معرفت یا اعتقاد یا ظن کے حصول کا باعث بنتا ہے"۔
” وَ یَشرُفُ النَّظَرُ بِشَرفِ المَنظُورِ فِيه فَالنَّظَرُ فِی مَعرِفَةِ الله اَفضَلُ مِن کُلِّ نَظَرٍ لِفضَائِه اِلٰی اَفضَلِ المَقَاصِدِ۔“(3)
"منظور فیہ کے شرف ومرتبہ کی وجہ سے غوروفکر کو بھی اعزاز حاصل ہوتا ہے "۔
اللہ تعالیٰ کی معرفت کے لئے غوروفکر کرنا سب سے اچھا غوروفکر ہے کیونکہ یہ افضل مقصد تک رسائی کا ذریعہ بنتا ہے۔
عزالدین بن عبد السلام ؒ نے اپنے موقف کی تا ئید میں مندرجہ ذیل آیات بھی ذکر کی ہیں:
قُلِ انْظُرُوا مَاذَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا تُغْنِي الْآيَاتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَا يُؤْمِنُونَ (4)۔
"کہہ دیجئے: غور وفکر کرو کہ آسمانوں اور زمین میں کیا کیا چیزیں ہیں"۔
أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللَّهُ مِنْ شَيْءٍ وَأَنْ عَسَى أَنْ يَكُونَ قَدِ اقْتَرَبَ أَجَلُهُمْ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُون (5)۔
"کیا انہوں نے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اور اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی کسی چیز میں غور وفکر نہیں کیا اور اس میں کہ شاید قریب آگیا ہو ان کا وعدہ، سو اس کے پیچھے کس بات پر ایمان لائٰیں گے؟"(6)۔
عزالدین بن عبد السلام ؒ نے غوروفکر نہ کرنے کو منہیات باطنہ میں شمار کیا ہے۔(7 )اور اس پر دلیل کے طور پر یہ آیت ذکر کی ہے:أَفَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ (8)۔" کیا وہ اونٹ کی تخلیق اور آسمان کی بلندی میں غوروفکر نہیں کرتے"۔
عزالدین بن عبد السلام ؒنے غوروفکر نہ کرنے کے بارے میں لکھا ہے:
اِنَّ التَّقصِیرَ فِی النَّظَرِ تَفرِیط فِی اَمرِ الله وَاِهمَال لِمَا اَمَرَ بِه مِنَ المَنظُورِ فِيهِ۔“(9)
"غوروفکر کرنے میں کوتاہی اصل میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری میں کمی ہے اور منظور فیہ کی ادائیگی میں سستی ہے"۔
عقل اللہ تعالیٰ کی سب سے اعلیٰ، بلندپایہ اور عالی مرتبہ( 10)مخلوق ہے اور قوت سماعت کی طرح یہ بھی توحید کے لئے دلیل ہے۔ جیسے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِير (11)
"وہ کہیں گے کہ اگر ہم سنتے یا غوروفکر کر کے سمجھتے تو ہم دوزخ میں کبھی نہ جاتے "۔
ابن عربی( 12)اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
” فَاِنّهم لَوسَمِعُوا وَعَقَلُوا لَعَرَفُوا الحَقَّ وَاَطَاعُوا فَنَجَوا وَخَلَصُوا اِلٰی عَالَمِ النُّورِ وَجَوَارِ الحَقِّ“(13)
"اگر وہ غور سے سنتے اور اسے سمجھتے تو یقینا ًانہیں حق کی معرفت حاصل ہوتی اور وہ احکام الٰہیہ کی اطاعت کرتے تو وہ یقینا ًکامیاب ہو جاتے اور وہ ہدایت اور حق کو پالیتے"۔
عقل اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کے خطاب اور تکالیف شریعت کی مرکزو محور ہے۔(14 )اسی کے ذریعے دنیا کی مصالح اور مفاسد کی پہچان ہوتی ہے۔(15 )ہر عاقل جانتا ہے کہ خالص مصالح کا حصول اور خالص مفاسد سے بچاؤانسان کے لئے قابل ستائش ہے اگرچہ شرع کے احکام نہ بھی ہوں۔( 16)بقول ابن تیمیہؒ: اس شخص کو عاقل کہا جاسکتا ہے جو بھلائی اور خیر کو پہچان کر اسے حاصل کرے اور شر اور برائی کو پہچان کر اسے چھوڑ دے۔(17)
عزالدین بن عبد السلام ؒنے عقل کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
” مُعظَمُ مَصَالِحِ اِلدُّنیَا وَمَفَاسِدِها مَعرُوفَة بِالعَقلِ۔“(18)" دنیا کی بڑی بڑی مصالح اور مفاسد کا علم عقل کے ذریعے ہوتا ہے"۔
عقل کے بارے مقاصد شریعت کی پہچان میں ضابطہ کار:
عقل اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم عطیہ ہے اس کی احکام شریعت میں بہت اہمیت ہے ۔انسان اس کے ذریعے بعض اوقات مصالح اور مفاسد کا عرفان حاصل کر لیتا ہے لیکن عام طور پر تمام مصالح اور تمام مفاسد کے ادراک سے قاصر رہتا ہے۔
ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں:
” مَا یَتَوَهّمُ الاِنسَانُ اَنَّ الشَّیئَ یَنفَعُ فِی الدِّینِ وَالدُّنیَا وَیَکُونُ فِيهِ مَنفَعَة مَرجُوحَة بِالمَضَرَّةِ کَمَا قَالَ تَعَالٰی: قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا(19) وَکَثِیرٌ مِمَّا ابتَدَعَه النَّاسُ مِنَ العَقَائِدِ وَالاَعمَالِ.... حَسَبُوهُ مَنفَعَةً اَومَصلَحَةً نَافِعًا وَ حَقًّا وَ صَوَابًا وَلَم یَکُن کَذٰلِکَ۔“ (20)
"اکثر اوقات انسان کسی شے کو دین اور دنیا میں نافع سمجھ لیتا ہے حالانکہ اس میں نقصان کی بجائے فائدہ زیادہ ہوتا ہے۔ جیسے اللہ
تعالیٰ کا فرمان ہے کہ آپ ﷺ فرما دیجئے کہ ان (شراب اور جوئے) میں بڑا نقصان ہے اور لوگوں کے لئے فائدے بھی ہیں اور ان کے نقصان ان کے فائدے سے زیادہ ہیں۔ اکثر اوقات لوگ ایسے نئے نئے عقائد اور اعمال گھڑ لیتے ہیں جنہیں منفعت یا
مصلحت نافعہ، حق اور درست گمان کر لیتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہوتا"۔
عزالدین بن عبد السلام ؒ نے مقاصد شریعت کی پہچان کے سلسلے میں عقل کے لئے کچھ ضوابط ذکر کئے ہیں تاکہ امکانی حد تک انسان درست فیصلہ کر سکے اور گمراہی وضلالت سے بچ سکے:
اول: مصالح اور مفاسد تلاش کرتے وقت انسان خواہشات نفسانیہ کی اتباع سے بچے۔ عزالدین ؒنے وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ(21) کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے:
لَا تَمِل مَع مَن تَهوَاه فَتَجُورَاَ ولَا تَحکُم بِمَا تَهوَاه فَتَزِلَّ دِینَه اَو طَاعَتَه (22)۔
"تو اپنی خواہشات نفسانیہ کی پیروی نہ کر ورنہ تو ظلم کرے گا اور تو اپنی خواہش کی پیروی میں فیصلہ نہ کر ورنہ اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کی اطاعت سے بھٹک جائے گا"۔
خواہشات نفسانیہ کی پیروی عقل کو اندھا کر دیتی ہے اور انسان راہ راست سے بھٹک جاتا ہے اور وہ حَسَن کو قبیح اور قبیح کو حَسَن شمار کرنا شروع کر دیتا ہے اسی لئے امام شاطبیؒ لکھتے ہیں کہ خواہشات نفسانیہ کی پیروی کرنے والا شخص احکام شریعت پر عمل کرتے وقت اپنے اغراض ومقاصد کے لئےحیلے اور بہانے تلاش کر لیتا ہے جس طرح ریاکار اپنے اعمال کو لوگوں کے سامنے خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے۔(23)
دوم: مصالح اور مفاسد تلاش کرتے وقت صرف ان کے ایک پہلو کو مدنظر نہ رکھا جائے بلکہ انہیں دنیاوی اور اخروی دونوں اعتبار سے پرکھا جائے کیونکہ دنیا اور آخرت دونوں کی مصالح اور مفاسد کی پہچان مجتہد کی نگاہوں میں ہونی چاہئے۔ وہ لوگ جو صرف دنیوی زندگی کی مصالح اور مفاسد کو جانتے ہوں اور اخروی مصالح اور مفاسد سے غافل ہوں اللہ تعالیٰ ان کی مذمت فرماتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ(24)
"وہ دنیاوی زندگی کے ظاہری پہلو کو جانتے ہیں اور وہ آخرت سے تو بالکل غافل ہیں"۔
عزالدین بن عبد السلام ؒ مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
”اَی یَعلَموُنَ تَصَرُّفًا ظَاهرًا اَوسَعیًا ظَاهرًا مِّن تَصَرُّفِ الحَیَاةِ الدُّنیَا اَو مِن سَعیِ الحَیَاةِ الدُّنیَا وَهُم عَن عَمَلِ الاٰخِرَةِ اَو عَن سَعیِ الاٰخِرَةِ مُعرِضُونَ۔“(25)
"یعنی وہ دنیوی زندگی کے ظاہری معاملات یا دنیوی زندگی کی ظاہری کوشش وجدوجہد کو جانتے ہیں اور آخرت کے عمل یا آخرت کی سعی سے بالکل غافل ہیں"۔
ان دونوں ضابطوں سے واضح ہوتا ہے کہ عزالدین ؒنے معرفت صحیحہ کے لئے عقل کو بالکل آزاد کی حیثیت نہیں دی بلکہ اس کی درست راہنمائی کے لئےوحی کی تعلیمات کو ضروری قرار دیا ہے۔ اس نقطہ نظر کی تائید ابن تیمیہؒ کے اس قول سے بھی ہوتی ہے:
” وَلَولَا الرِّسَالَةُ لَم یهتَدِ العَقلُ اِلٰی تَفَاصِیلِ النَّافِعِ وَالضَّارِّ فِی المَعَاشِ وَالمَعَادِ۔“(26)
" اگر رسالت نہ ہوتی تو عقل کو دنیا اور آخر ت کے نفع اور نقصان کا تفصیلی علم نہ ہوتا"۔
امام غزالیؒ عقل کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عقل کی وجہ سے انسان کو احکام شریعت کا مکلف بنایا گیا ہے اور اس کے ذریعے دنیا کی مصالح کا ادراک کیا جاتا ہے۔ (27)
عقل کے لئے قرآنی راہنمائی اس طرح ضروری ہے جس طرح چراغ کے لئے تیل ضروری ہے لہٰذا عقل صحیح کی راہنمائی کے لئےاحکام شریعت سے راہنمائی حاصل کرنے والا انسان کامیاب وکامران ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ(28)
"یقینا اس میں نصیحت ہے اس شخص کے لئے جو عقل صحیح اور قلب بینا رکھتا ہو اور کلام الٰہی کو ہمہ تن گوش ہو کر سنے"۔
ابن حزم ؒ نے آیت مذکورہ میں ”قلب“ سے مراد عقل لی ہے۔(29)
عقل کے بارے میں آراءکا جائزہ:
عزالدین بن عبد السلام ؒ نے مصالح معقولیہ کو بنیاد قرار دینے پر کافی توجہ دی ہے۔ آپ نے متقدمین اصولیین سے استفادہ کیا اور متاخرین نے اس سلسلے میں آپ کی اتباع کی ہے۔
امام جوینیؒ نے مصالح کی تلاش کے لئے رائے کو اہمیت دی ہے بشرط یہ کہ اس کی بنیاد کسی شرعی اصل پر قائم ہو۔جیسے کہ وہ فرماتے ہیں: عُقُولُ العُقَلَائِ قَد تَختَلِفُ وَتَتَبَایَنُ عَلَی النَّقَائِضِ وَالاَضدَادِ فِی المَظنُونَاتِ وَلَایَلزَمُ مِثلُ ذٰلِکَ فِیمَالَه اَصل فَاِن شَوَّفَ النَّاظِرُونَ اِلَی الاُصُولِ المَوجُودَةِ فَاِذَا رَمَقُوها وَاتَّخَذُوها مُعتَبَرَهُم لَم یَتَبَاعَد اَصلًا اِختِلَافُهم۔(30)۔
"عقلاءکی عقلیں معاملات کو سمجھنے میں ایک جیسی نہیں ہوسکتیں۔ظنی اشیاءمیں نقائص اور اضداد کی وجہ سے اختلاف پایا جاتا ہے لیکن یقینی اشیاءمیں ایسا اختلاف ممکن نہیں۔ ناظرین کی نگاہیں موجود اصول (کتاب وسنت)پرپڑیں گی اور وہ غور وفکر کریں گے تو وہ ان میں اختلاف ہوتے ہوئے بھی انہیں معتبر سمجھ کر قبول کر لیں گے"۔
امام غزالی ؒ نے امام الحرمین جوینیؒ کی پیروی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عقول کے ذریعے دنیا کی مصالح کا ادراک ہوتا ہے۔(31)
امام سرخسیؒ رائے اور عقل کی اہمیت کے بارے میں لکھتے ہیں:
” اِنَّمَاالرَّایُ لِمَعرِفَةِ المَصَالِحِ العَاجِلَةِ الَّتِی یُعلَمُ جِنسُها بِالحَوَاسِّ ثُمَّ تُستَدرَکُ نَظَائِرُها بِالرَّایِ۔“(32)
"حواس کے ذریعے معلوم کی جانی والی اور جلد حاصل ہونے والی مصالح کی معرفت رائے اور عقل کے ذریعے ہوتی ہے، رائے کے ذریعے ہی ان کی نظائر اور امثلہ تلاش کی جاتی ہیں"۔
ابن قیمؒ رائے اور عقل کے بارے میں کہتے ہیں کہ کچھ افعال کا حسن و قبح کا علم عقل کے ذریعے ہوتا ہے۔(33)اوامر بذات خود
ہر عقل سلیم کے نزدیک معروف ہوتے ہیں اور نواہی طبائع اور عقول کے نزدیک منکر ہیں یہی وجہ ہے کہ عقول سلیمہ منکرات کا سختی سے انکار کرتی ہیں۔(34)
ابن عاشور ؒ لکھتے ہیں:
” وَیَحِقُّ عَلَی العَالِمِ اَن یَغُوصَ فِی تَتَبُّعِ المَصَالِحِ الخُفیَةِ فَاِنَّه یَجِدُ مُعظَمَها مُرَاعًی فِيهِ النَّفعُ العَامُّ لِلاُ مَّةِ وَالجَمَاعَةِ اَو لِنِظَامِ العَالَمِ۔“(35)
"عالم پر لازم ہے کہ وہ مصالح خفیہ کی تلاش کے لئے غوطہ زن ہو جائے کیونکہ اس میں امت اور جماعت یا پورے نظام کے لئے فائدہ ہوگا"۔
ابن العربی ؒ مصالح کی معرفت کے لئے عقل کے کردار کی نفی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عقلوں کے ذریعے حسن وقبح کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ عقلیں تو گمراہی کا سبب بنتی ہیں منافع کی طرف کیسے راہنمائی کر سکتی ہیں؟"(36)
امام شاطبی ؒ نے بھی ابن العربیؒ کی پیروی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عقول کسی کام کو اچھا یا برا قرار نہیں دے سکتیں کیونکہ یہ فریضہ تو شریعت کو حاصل ہے۔(37)عقل دنیا کی ادنی حکمت اور ادنی نعمت تک رسائی سے بھی قاصر ہے۔ (38)صرف دنیوی تصرفات کے حوالے سے معمولی نفع ونقصان کا ادراک عقل کر سکتی ہے اور یہ اخروی معاملات کے بارے میں تو بالکل کچھ نہیں جانتی۔ (39)
عزالدین بن عبد السلام ؒ کے قول : ”وَاَمَّا مَصَالِحُ الدُّنیَاوَاَسبَابُها وَمَفَاسِدُها وَاَسبَابُها فَمَعرُوفَة بِالضَرُوَراتِ وَالتَّجَارِبِ وَالعَادَاتِ وَالظُّنُونِ المُعتَبَرَاتِ.... اِلاَّ مَا تَعَبَّدَالله بِه عِبَادَهُ وَلَم یَقِفهم عَلٰی مَصلَحَتِه اَو مَفسَدَتِه۔ “(40)
"دنیوی مصالح اور ان کے اسباب اور دنیوی مفاسد اور ان کے اسباب ضروریات، تجربات، عادات اور قابل اعتبار ظن سے معلوم کی جاسکتی ہیں ۔جو شخص مصالح اور مفاسد کے مناسبات معلوم کر کے ان میں سے راجح اور مرجوح کی معرفت حاصل کرنا چاہے تو اسے عقل پر پیش کر ے کیونکہ شرع نے ان کو بیان نہیں کیا پھر اس پر احکام کی بنیاد رکھے۔ اس حکم سے صرف تعبدی امور مستثنیٰ ہیں کیونکہ عقل ان کی مصالح اور مفاسد سے واقف نہیں"۔
اس پر امام شاطبیؒ اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دنیوی مصالح اور مفاسد کی معرفت کے بارے میں عزالدین کا یہ قول کچھ پہلوؤں سے غلط اور کچھ پہلوؤں سے درست ہے کیونکہ شریعت نے زمانہ فترۃ کے لوگوں کے راہ راست سے بھٹکنے اور احکام پر عدل کے تقاضوں کے مطابق عمل نہ کرنے کوبیان کیا ہے عزالدین بن عبد السلام ؒ کے بقول معاملہ مطلق ہوتا تو شریعت صرف اخروی مصالح کا ذکرتی ہے جب کہ شریعت دنیوی اور اخروی دونوں امور ایک ساتھ قائم کرنے پر زور دیتی ہے۔(41)
آخر میں عزالدین بن عبد السلام ؒ کی رائے کی تائید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عقل کے لئے مستقل طور پر تفصیلاً مصالح اور مفاسد کو
جاننا محال ہے لیکن اگر قائل کا مقصد یہ ہو کہ شریعت کے اصولوں کے بعد عقل کے ذریعے معرفت تجارب وغیرہ سے حاصل ہوتی ہے تو اس صورت میں کوئی اختلاف نہیں رہتا۔(42)
خلاصہ بحث یہ ہے کہ درست ادراک و فہم کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل کی نعمت سے نوازا ہے۔ عقل کے ذریعے ہی انسان مصالح و مفاسد کی پہچان کر سکتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے عقل کو جلا بخشنے کے لیے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر غور و فکر کی دعوت دی ہے ۔اکثر اصولیین نے مقاصد شریعت کی معرفت کے لیے عقل کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے ۔مثلاً عز الدین بن عبد السلام ؒکے نزدیک دنیا کی بڑی بڑی مصالح و مفاسد کا علم عقل کے ذریعے ہی ہوتا ہے اور ان کی پہچان کے لیے کچھ ضوابط بھی مقرر کیے گئے ہیں۔ امام غزالی ؒ کے نزدیک انسان کو احکام شریعت کا مکلف صر ف عقل کی وجہ سے بنایا گیا ہے ۔ابن تیمیہ ؒنے عقل کی درست راہنمائی کے لیے وحی کی راہنمائی کو ضروری قرار دیا ہے ۔امام جوینی ؒ مختلف لوگوں کی عقل اور سمجھ میں یکسانیت کے قائل نہیں، وہ لکھتے ہیں کہ یقینی اشیاءکے بارے میں اختلاف نہیں ہوتا بلکہ ظنی اشیاءکے بارے میں اختلاف ممکن ہے ۔امام سرخسی ؒ کے نزدیک حواس خمسہ کے ذریعے حاصل ہونے والی مصالح و مفاسد کی معرفت عقل اور رائے کے ذریعے ہی حاصل ہوتی ہے ۔ ابن قیم ؒ کے بقول افعال کے حسن و قبح کا علم عقل کے ذریعے حاصل ہوتا ہے ۔ابن عربیؒ اور شاطبیؒ کے نزدیک کسی عمل کے حسن و قبح ہونے کا فیصلہ شریعت کرتی ہے نہ کہ عقل ۔دنیوی معاملات میں عقل کے کردار کی نفی وہ بھی نہیں کرتے ۔ الغرض مقاصد شریعت کی معرفت میں عقل کا کردار نہایت اہم ہے۔
حواشی و حوالہ جات
1 - عزالدین، عبدالعزیز بن عبدالسلام، قواعد الاحکام فی اصلاح الانام، دارابن حزم، بیروت ، لبنان ، 1424ھ /2003ء۔ص:332۔
2- شجرة المعارف:57، امام غزالی نے غوروفکر کو معرفت اور کشف کی چابی قرار دیا ہے (احیاءعلوم الدین :1/336) ۔
3- عزالدین، عبدالعزیز بن عبدالسلام، شجرة المعارف والاحوال وصالح الاقوال والاعمال، بیت الافکار الدولیۃ، ریاض، سعودی عرب۔
ص :355-
4۔ سورة یونس :101۔
5- سورة الاعراف:185۔
6- شجرة المعارف: 55۔
7- ایضاً : 104۔
8- سورة الغاشیہ:17، 18۔
9- شجرة المعارف: 131۔
10- قواعدالاحکام: 200۔
11- سورة الملک:10۔
12- یہ محمد بن علی بن محمد ابن عربی (560ھ-638ھ) ہیں جو محی الدین ابن عربی کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ ایک عظیم فلسفی اور متکلم ہو گزرے ہیں آپ نے ”وحدت الوجود“ کے نظریہ سے شہرت پائی۔ اندلس میں پیداہوئے‘ اشبیلیہ میں کچھ عرصہ قیام کیا پھرشام، بلاد روم، عراق اور حجاز کا سفر کیا۔ دمشق میں وفات پائی۔ تقریباً چارسو کتب ورسائل تحریر کئے جن میں الفتوحات المکیہ، فصوص الحکم اور مفاتیح الغیب وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔ (الاعلام: 6/281، 282)۔
13- تفسیر القران الکریم لابن عربی :2/677۔ محمد نعیم الدین مراد آبادی لکھتے ہیں کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ مکلف بنانے کا دارومدار ادلہ سمعیہ اور عقلیہ دونوں پر ہے اور یہ دونوں حجتیں لازم وملزوم ہیں۔(خزائن العرفان فی تفسیر القرآن مع کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن:رقم، 1012)۔
14 - شجرة المعارف :334۔
15- قواعدالاحکا م: 9۔
16- ایضاً۔
17- مجموع الفتاوی: 7/24۔
18- قواعدالاحکام: 9
19- سورة البقرة : 219۔
20- ابن تیمیہؒ، احمد بن عبد الحلیم، امام‘ شیخ الاسلام، مجموع الفتاوی، سعودی عرب۔: 11/345۔
21- سورة ص:26، ترجمہ: تم خواہشات نفسانیہ کی پیروی نہ کرورنہ اللہ تعالیٰ کے راستے سے بھٹک جاؤگے۔
22- تفسیر القران للعز:481۔
23- شاطبی، ابراہیم بن موسیٰ، ابواسحاق، الموافقات فی اصول الشریعۃ، دارالفکر العربی، مصر۔ 2/176۔
24- سورة الروم:7۔
25- عزالدین، عبدالعزیز بن عبدالسلام، کتاب الاشارة الی الایجاز فی بعض انواع المجاز، مکتبۃ توحید وسنت، پشاور۔ص: 181۔
26- مجموع الفتاوی: 19/100۔
27- غزالی، محمد بن محمد بن محمد، ابو حامد، امام، حجۃالاسلام، احیاءعلوم الدین، دارالمعرفۃ، بیروت، لبنان۔،4/115۔
28- سورة ق:37۔
29- ابن حزم، علی بن احمد، ابومحمد، ظاہری، الاحکام فی اصول الاحکام، مطبعۃ العاصمۃ، قاہرة، مصر۔، 1/6۔
30- جوینی، عبدالملک بن عبداللہ بن یوسف، ابوالمعالی، البرہان فی اصول الفقہ، مطابع الدوحۃ الحدیثۃ، قطر،
1399ء۔:2/1120، 1121۔
31- احیاءعلوم الدین: 4/115۔
32- سرخسی، محمد بن احمد بن ابی سہل، ابوبکر، اصول السرخسی، دارالمعرفۃ، بیروت، 1393ھ/۱۹۷۳ء۔:2/120۔
33- ابن قیم، محمد بن ابی بکر، ابوعبداللہ، مفتاح دارالسعادة ومنشور ولایۃ العلم والارادة، مکتبۃحمیدؤ، مصر، دارالفکر، بیروت، 1399ھ/1979ء۔،ص: 332۔
34 - مفتاح دار السعادة : 332۔
35- مقاصد الشریعۃالاسلامیہ لابن عاشور،دار الکتب العلمیۃ ،بیروت -لبنان: 280۔
36- ابن العربی، محمد بن عبداللہ، ابوبکر، احکام القرآن، دارالمعرفۃ للطباعۃ والنشر، بیروت، لبنان۔: 2/707۔
37- الموافقات: 1/87۔
38- ایضاً: 4/309۔
39- ایضاً: 4/21۔
40- قواعدالاحکام: 13۔
41- الموافقات: 2/48۔
42- ایضاً۔
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |