2
1
2015
1682060029336_531
13-34
https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/82/73
https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/82
تعارف:
قرونِ اُولیٰ سے انسان انفرادی واجتماعی لحاظ سےاچھےمعاش کے وسائل اور زندگی گزارنے کے اسباب کی تلاش میں لگا ہوا ہے ۔ اس اہمیت کے پیشِ نظر دنیا میں مختلف ادوار میں متمدن اقوام نےاس کے لئے جامع منصوبہ بندی کی خاطراپنا اپنا نقطۂ نظر قائم کیا۔ اٹھارویں اور انیسوی صدی عیسوی میں جب صنعتی ترقی کی وجہ سے دُنیانے ایک نیا رُخ اختیار کیا تو مالیاتی نظام کو بھی بزعمِ خویش منظم کرنے کے لئے مختلف
نظرئیےظہور پذیر ہوئے جن میں دونظریوں کو کافی پذیرائی حاصل ہوئی اور عملی میدان میں بھی بہت زیادہ
ترقی کی، یعنی سرمایہ دارانہ نظام کا نظریہ [CAPITALISM] اور اشتراکی نظام کا نظریہ [SOCIALISM]۔
ان دونو ں نظاموں کے تعارف اور بنیادی نکات نیزاسلامی مالیاتی نظام کے اصول سے پہلے مال کے لغوی واصطلاحی معنی بیان کئے جاتے ہیں :
مال کے لغوی معنی:
مال کے لغوی معنی جاننے کا مدار اس کے مادۂ اشتقاق پر ہے چنانچہ مادۂ اشتقاق کے لحاظ سے مال کے اصل میں دو احتمال ہے۔
(۱) م۔و۔ل
(۲) م۔ی۔ل
اگر مادہ اول مراد لیا جائے تو اس کے معنی ذخیرہ کی جانے والی چیز کے ہیں ۔
اگر مادہ دوم مراد لیا جائے تو اس کے معنی میلان کے ہیں۔ (1)
اول معنی کے اعتبار سے مال کا مصداق محدود ہے جب کہ دوسرے معنی کے اعتبار سے اس میں کافی وسعت پائی جاتی ہے، مگر اہلِ لغت نے عموماً مادۂ اشتقاق م۔و۔ل(مولٌ) ذکر کیا ہے البتہ بعد میں اس کے مصداق اور اطلاق کی تعیین میں مرحلہ وار مختلف اشیاء شامل ہوئیالمالُ: مَا ملَكْتَهُ من كُلِّ شيءٍ… وَقَالَ ابنُ الأَثيرِ: المالُ فِي الأَصْلِ: مَا يُمْلَكُ من الذَّهَبِ والفِضَّةِ، ثمَّ أُطْلِقَ على كُلِّ مَا يُقْتَنى ويُمْلَكُ من
الأَعيانِ، وأَكثَرُ مَا يُطلَقُ المالُ عندَ العربِ على الإبِلِ، لأَنَّها كَانَت أَكثَرَأَموالِهِمْ۔ (2)
"مال ہر وہ چیز ہے جس کا آپ مالک بن سکتےہو۔ابن الاثیر کہتے ہیں :اصل میں مال سونا اور چاندی ہے جو
ملکیت میں آتے ہیں ،پھر اس کا اطلاق تمام ان اعیان(حسی اور مادی اشیاء) پر ہونے لگا جن کو ذخیرہ کیا جا سکے اور جن پر ملکیت حاصل ہو سکےاور عربوں کے ہاں مال کا اطلاق زیادہ تراُونٹوں پر ہوتا تھاکیونکہ ان کے ہاں زیادہ تر مال یہی تھا"۔
مال کےاصطلاحی معنی:
مال کے اصطلاحی معنی میں فقہاء کرام کی آراء مختلف ہیں چنانچہ ائمہ ثلاثہ یعنی امام مالک[م۱۷۹ھ]،امام شافعی [م ۲۰۴ھ]اور امام احمد بن حنبل[م ۲۴۱ھ]کےہاں مال کی حقیقت میں اعیان اور منافع دونوں شامل ہیں ۔
وقال غير الحنفية: أن المنافع أموال متقومة كالأعيان، لأن الغرض الأظهر من جميع الأموال هو منفعتها۔ (3)"احناف کے علاوہ دوسرے فقہاء کے نزدیک منافع بھی اموال(وہ جن کی قیمت کااعتبار کیا جاتا ہو)ہیں دوسرے مادی اشیاء کی طرح کیونکہ تمام اموال سے مقصود منفعت ہوتی ہے"۔
اس عبارت سے یہ ظاہرہواکہ ہر وہ شئے جس سےنفع حاصل کیا جا سکتا ہو وہ مال ہے خواہ وہ حسّی اور مادی ہو یا غیر حسّی اور غیر مادی ہوچنانچہ حقِ مسیل،حقِ شرب،حق ِمرور،حق تالیف،حق ایجاد اور علامت تجاری(Trade Mark) وغیرہ تمام حقوق ملکیہ(Intellectual Property) مال کے حکم میں ہوں گے۔ (4)
احناف کے ہاں مال کا اطلاق صرف اعیان پر ہوتا ہےجو مادی اور حسّی ہو، غیر مادی اور غیر حسّی اشیاء پر اس کا اطلاق درست نہیں چنانچہ اُن کے ہاں مال کی یہ تعریفیں کی گئی ہے:
۱: "الْمَالُ اسْمٌ لِغَيْرِ الْآدَمِيِّ خُلِقَ لِمَصَالِحِ الْآدَمِيِّ وَأَمْكَنَ إحْرَازُهُ وَالتَّصَرُّفُ فِيهِ عَلَى وَجْهِ الِاخْتِيَارِ۔" (5)
"مال غیرانسان کانام ہے جو مصالح انسان کے لئے پیدا کیا گیا ہواور اسے محفوظ کرنا اور اپنے اختیار سےاس
میں تصرف کرنا ممکن ہو"۔
۲: الْمُرَادُ بِالْمَالِ مَا يَمِيلُ إلَيْهِ الطَّبْعُ وَيُمْكِنُ ادِّخَارُهُ لِوَقْتِ الْحَاجَةِ۔ (6)
" مال وہ چیز ہے جس کی طرف طبیعت کامیلان ہواور وقتِ ضرورت کے لئے اس کاذخیرہ کرنا ممکن ہو"۔
درج بالادو/۲تعریفات کی روشنی میں یہ حقیقت واضح ہوئی کہ احناف کے ہاں مال کا اطلاق اُن اشیاء پر ہو گا
جن میں یہ تین صفات پائی جائیں:
1 ۔ذخیرہ کیا جاسکتا ہو۔ ۲۔تصرف کرنا ممکن ہو۔ ۳۔طبیعت کا میلان ہو۔
ان صفات کو مال کی حقیقت کے لئے معیار قرار دے کرصرف وہ اشیاء مال شمار ہوں گےجو اعیان کی جنس سے ہوں، غیراعیان یعنی منافع وغیرہ مال کی تعریف میں شامل نہیں ہوں گےتاہم یہ ایک حقیقتِ مسلّمہ ہےکہ زمانے کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ حالات اورحاجات وضروریات اور اسی طرح عرف وعادات بھی تبدیل ہوتی رہتی ہیں، اب یہ کافی مشکل تھاکہ زمانے کے حالات اور عرف وعادات کو نظر انداز کرتے ہوئے[مال] کو اپنے قدیم مفہوم تک محدود رکھا جائےلہٰذا بعد میں حنفی فقہاء نے بھی ضرورت ورعایت اورعرف وعادت کے اس معیار کے پیشِ نظر[فقہ حنفی] کے بنیادی تصوّر پر مستزادکچھ منافع اور حقوق مال کے حکم میں شامل کئے ہیں چنانچہ علامہ کاسانی ؒ[م ۵۸۷ھ] نے واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ مال کبھی عین ہوتا ہے اور کبھی منفعت۔وہ لکھتے ہیں:
۱: وَالْمَالُ قَدْ يَكُونُ عَيْنًا وَقَدْ يَكُونُ مَنْفَعَةً۔ (7) "مال کبھی عین ہوتا ہے اور کبھی منفعت "۔
۲: لِأَنَّ هَذِهِ الْمَنَافِعَ أَمْوَالٌ أَوْ الْتَحَقَتْ بِالْأَمْوَالِ شَرْعًا۔ (8)
" اس لئے کہ یہ منافع اموال ہیں یا شرعاً اموال کے ساتھ[حکم میں]منسلک ہیں "۔
اسی طرح ابن نجیمؒ[م ۹۷۰ھ]بھی لکھتے ہیں:
۳۔ لِأَنَّ هَذِهِ الْمَنَافِعَ أَمْوَالٌ أَوْ أُلْحِقَتْ بِالْأَمْوَالِ شَرْعًا فِي سَائِرِ الْعُقُودِ لِمَكَانِ الْحَاجَةِ۔ (9)
"اس لئے کہ یہ منافع اموال میں سے ہیں یا بوجہ حاجت تمام عقود میں شرعاً اموال کے ساتھ پیوست ہیں" ۔
درج بالا عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ حنفی فقہاء نے مال کی جو تعریف کی تھی وہ ان کے عرف وعادت کے
مطابق تھی گویا وہ ایسی تعریف تھی جس میں ضرورت اورعرف وعادت کی بناءپر تبدیلی اور توسیع ممکن ہے،عرف وعادت اورتعامل کے پیش نظر اگر کوئی فقیہ ماقبل مجتہدین کے برعکس اپنے مذہب کے اُصول وقواعدکے مطابق فتویٰ دے تو اُسے بے بنیاد قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ اصل مذہب کے قواعد پر مبنی فتویٰ تصوّر ہوگا،چنانچہ درج ذیل عبارت سے یہی واضح ہوتا ہے :
ولهٰذا ترٰی مشائخ المذهب خالفوا ما نصّ علیه المجتهد فی مواضعَ کثیرة بناها علی ما کان فی زمنه لعلمهم باَنّه لوکان فی مذهبهم لقال بما قالوا به اَخذاً من قواعد مذهبه۔" (10)
" بنا بریں تو مشائخ کو اس طرح پائے گاکہ اکثر مقامات میں وہ اپنےمجتہد کے منصوص مسائل کے خلاف ہوں
گے(یہ اس لئے کہ)اُنہوں نے اپنے زمانے کے حالات کےموافق فتویٰ دیا ہےکیونکہ اُن کو یہ علم ہےکہ اگر واقعہ یوں ہوتا جو اِس زمانے میں ہےتو وہ بھی اسی طرح کا حکم کرتے،(یہ)اپنے مذہب کے قواعد کا اعتبار کرتے ہوئے"۔
غرض یہ کہ مال کے لغوی اوراصطلاحی معنی کے تعیّن میں زمانے کے اختلاف اور لوگوں کے عرف وعادات کاکافی دخل ہےچنانچہ اب مال کے مصداق میں بھی اعیا ن کے علاوہ منافع اور حقوق ِمجرّدہ وغیرہ سب داخل ہیں۔
مالیاتی نظام کا تعارف:
انسانی زندگی کے بیشتر ضروریات کا تعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ "مال "کے ساتھ ہیں جس کو بالفاظِ دیگروسائل یا ذرائع بھی کہا جاتا ہے۔ان وسائل یا ذرائع سےضروریات کو کیسے پورا کیا جائے ؟اس کے لئے نظریاتی وعملی ہر دواعتبار سے منظّم منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس کے ذریعے محدود وسائل کے ساتھ بھی زیادہ ضرورتیں پوری ہوں، چنانچہ نظریاتی اعتبار سے اس نظم یا تنظیم کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں۔ابتداءً اس کی تعریف میں کافی حد تک سادگی تھی۔جیسے:
۱: مشہور مؤرخ اورماہِرعمرانیات علامہ ابنِ خلدون[م ۸۰۸ھ]اس کی تعریف یوں کرتے ہیں:
أنّ المعاش هو عبارة عن ابتغاء الرّزق والسّعي في تحصيله (11)
"معاش رزق ڈھونڈنے اور اسے حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کا نام ہے"۔
ابنِ خلدون کے زمانے کے بعددنیا نے ایک نیا رُخ اختیار کیااور مشرق سے علم اپنا بساط لپیٹ کر مغرب کی طرف چل پڑاتو دوسری ساری چیزوں کی جدّت اور ترقی کے ساتھ ساتھ اقتصادی نظم وضبط کے لئے بھی ایک جدید نظر وفکر مل گیا۔ اس دور کے سب سے بڑے ماہر معاشیات ایڈم سمتھ(Adam Smith) [م۱۷۹۰ء]نےاس میں جدت کا راستہ اختیار کیا۔یہاں صرف اس کی بیان کردہ تعریف ذکر کی جاتی ہے۔
۲: معاشیات دولت کے حاصل کرنے اور خرچ کرنےکےاُصول کا نام ہے۔ (12)
دورِ حاضر کے معروف مفکر اسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے بھی اس میدان میں اپنا لوہا منوایا ہے،انہوں نے
صرف یہ نہیں کہ جدید مالیاتی نظاموں کا مطالعہ کیا ہےبلکہ ان کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لئے بہت
اہم اقدام کیا ہے،آپ مالیاتی نظام کی بہت سادہ تعریف کرتے ہیں۔
۳: "وسائل کو اس طریقے سے استعمال کئے جائیں کہ اس سے زیادہ سے زیادہ ضرورتیں پوری ہوں"۔ (13)
اسلام کےتمام شعبے آپس میں مربوط ہیں اس لئے اسلام کی رو سے جس شعبے کی تعریف کی جاتی ہےتو تمام کو ملحوظ رکھا جا تا ہےچنانچہ اسلام کی رو سے معاشیات کی یہ تعریف کی جاتی ہے:
۴: "علمِ معاشیات زندگی کا وہ شعبہ ہےجوقرآن وحدیث کی ہدایت کے مطابق فلاح وبہبودِ انسانی کے لئے منضبط ہوتا ہے"۔ (14)
معاشیات یا مالیاتی نظام کی ان تمام تعریفات میں قدرِمشترک یہ ہےکہ انسان وسائل یا ذرائع معاش تلاش کرے اور اپنی ضروریات ِزندگی کو پوری کرے۔اس سلسلے میں چند اہم اور بنیادی نکات ہیں اگر اِن کو بطریقِ احسن بروئے کار لائے جائیں تو مالیاتی نظام کے لئے یہ ایک بہترین منصوبہ بندی ہوگی۔اس بارے میں مفتی محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں:
أنّ المسائل الأساسیة لکلّ نظام اقتصادیّ أربعة لابدّ لکل نظام من حلّها، وهی فی اصطلاح الاقتصادیین (۱)مسئلة الترجیحات(۲)مسئلة استخدام الوسائل(۳)مسئلة توزیع الثروة (۴)مسئلة الازدهار ۔ (15)
"ہر اقتصادی نظام کےلئے چار مسائل ہیں جن کو حل کرنا ناگزیر ہے،ماہرینِ اقتصادیات کی اصطلاح میں وہ
یہ ہیں :(۱)ترجیحات کا تعیّن(۲)وسائل کی تخصیص(۳)آمدنی کی تقسیم(۴)ترقّی"۔
یہ مسائل اگر چہ فطری ہیں لیکن ان کو حل کرنے کے لئےدُنیامیں ابتداءسے آج تک طبع آزمائی ہوئی ہے، ماضی قریب میں بھی سرمایہ دارانہ نظام [CAPITALISM] اور اشتراکی نظام [SOCIALISM] کے واضعین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان چاروں بنیادی مسائل کے حل کرنے کا یہی ذریعہ ہے۔سطورِذیل میں ان دونوں نظاموں کے تعارف اوربنیادی نکات پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام [CAPITALISM]
دنیائےمعاش کاترقی یافتہ یہ نظام انفرادپسندی کے اُصول پر قائم ہے۔اسے عدمِ مداخلت کا نظام یا آزادانہ معاشی نظام بھی کہتے ہیں۔
“Capitalism also called free market economy or free enterprise economic system” (16)
اس نظام میں حکومت عوام کی معاشی سرگرمیوں میں کوئی مداخلت نہیں کرتی اورزمینیں ،کارخانے، دکانیں اوردیگر تمام ذرائع پیداوار افراد یا اداروں کی ملکیت میں ہوتے ہیں،وہ ان وسائل کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔
“Capital is a system of economic organization in which individual person singly in groups privately owned production resources, including land and possess the rights to use these resources generally in whatever manner the choose .” (17)
سرمایہ دارانہ نظام کا ارتقاء :
ایڈم سمتھ(Adam Smith)نےسب سے پہلے ان تمام پابندیوں کو تجارت سے ہٹانے کی کوشش کی جو بعض ممالک نے اپنے ملک میں تجارتی سامان کے درآمد اوربرآمدپرپابندی لگارکھی تھی،اور"Free Tradism"کے اُصولوں پر تجارت کے لئےنئے نظام کا نظریہ پیش کیا۔ مالتھس(Malthus)[م۱۸۳۴ء]نےتقلیلِ حاصل"Diminishing"کانظریہ پیش کیااور پھر فری ٹریڈازم "Free Tradism" کاتاجرانہ اقتصادی نظام اٹھارویں صدی عیسوی میں سرمایہ دارانہ نظام کی صورت اختیار کر گیا۔
کینز(Keynes)[م۱۹۴۶ء] نے کساد بازاری سے بچنے کے لئے۱۹۳۶ء میں ایک نظریہ پیش کیا جس کو The general theory of employment interest and moneyکہتےہیں،اس نظرئیے سے سرمایہ داروں کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہوگئی۔ (18)
آج کل یہ نظام امریکہ اور انگلستان کے علاوہ مغربی جرمنی اور جاپان وغیرہ میں قائم ہے۔
The performance of Capitalism since World War 2nd in the United States, United Kingdom, West Germany and Japan (19)
سرمایہ دارانہ نظام کے اُصول:
سرمایہ دارانہ نظام کے بنیادی اُصول درج ذیل ہیں:
۱: ملکیت کی آزادی:
اس نظام میں افراد کو اشیاء پر بغیر کسی پابندی کےکامل ملکیت حاصل ہوتی ہے۔
۲: معاشی آزادی:
افراد حکومت کی مداخلت کے بغیر اپنی اموال کے تصرّف میں آزاد ہوتے ہیں اورمعاشی تنظیم منڈی کے
حوالے ہوتی ہے ،رسدوطلب “Supply and Demand”کی فطری قانون کے تحت منڈی کا نظام خود بخود منظّم ہوتا ہےاورمنافع کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
۳: منافع کی آزادی:
اس نظام میں منافع کا حق عامل اور تنظیم کنندہ کا ہے اور حکو مت کو پابندی کا کوئی حق نہیں کیونکہ اس قسم کی آزادی سے ہی آزادانہ تجارت"Free Tradism" کا عملی تجربہ ممکن ہے۔ (20)
اشتراکی نظام [SOCIALISM]
اشتراکی نظام ،سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں وجود میں آیا کیونکہ جب سرمایہ دارانہ نظام کی بدولت طبقاتی کشمکش اورباہمی جنگ وجدل دیکھنے میں آیا جس کے نتیجے میں امیر اورغریب کے درمیان فاصلے بہت بڑھ گئے تو اشتراکیت ان خرابیوں کے سدّباب کا دعویٰ لے کر میدان میں آئی اور کہا کہ بنیادی خرابی یہاں سے پیدا ہوئی ہے کہ وسائل کو انفرادی ملکیت قرار دیاگیا ہے۔اس کا حل یہ ہے کہ سارے وسائل ریاست کی ملکیت میں ہواور وہی معیشت کی بنیادی نکات (ترجیحات کا تعیّن،وسائل کی تخصیص،آمدنی کی تقسیم)کی منصوبہ بندی کرے گی،پھر انہی کے نتیجے میں ترقی خود بخود آئے گی۔
"A system of social organization in which private property and the distribution of income are subject to social control"(21)
اس نظام کے بانی اورمؤجد کارل مارکس [۱۸۱۸ء–۱۸۸۳ء]ہیں۔سرمایہ دارانہ نظام کا فائدہ جب نقصان سے کم ہونے لگا تو کارل مارکس نے اس کے خلاف آواز بلند کی۔
بنیادی طورپر اشتراکی نظام، فلسفہ،اقتصاداورسیاست تینوں کے مجموعے کا نام ہے۔کارل مارکس نے ان تینوں عناصر کو ایسا منظّم کردیا کہ ان کے باہمی میلاپ سے ایک علیٰحدہ تصوّرِ حیات وجود میں آیا،یہ اجزائے ترکیبی مندرجہ ذیل ہیں:
۱: تاریخ کی مادی تعبیر [Materialistic interpretation of History]کو فلسفہ کی حیثیت حاصل ہے۔
۲: نظریہ قدرِزائد [Theory of surplus value] یہ اقتصادی پہلو ہے۔
۳: طبقاتی جنگ [Class war] یہ کارل مارکس کی سیاست ہےجس سے ذاتی ملکیت مٹ کر کمیونیزم [Communism] وجود میں آتی ہے جس کی ایک شاخ سوشلزم[Socialism]بھی ہے۔ (22)
کارل مارکس نے دولت کی منصفانہ تقسیم اورطبقاتی کشمکش کے خاتمےکےلئےاُصول تووضع کئےلیکن وہ مذہب دشمنی پر مبنی تھےاور خُدا کےتصوّر کو ایک واہمہ قراردیا،اُن کے نزدیک یہ تصوّرات امیر طبقوں کی پیداوار ہے جن کی بنا پروہ مزدور جماعت کومذہب کا افیون دے کراُن کے حقوق پامال کرتے ہیں ۔وہ لکھتے ہیں:
’’اخلاقیات،مذہب،مابعد الطبعیات اوراس قسم کے دوسرےتصوّرات اپنا آزاد وجود کہیں نہیں رکھتے۔ان کی نہ کوئی تاریخ ہے اور نہ نشوونمابجز اس کے کہ انسان جب اپنے معاشی ذرائع کو نشوونما دیتا ہےتواس حقیقت کے ساتھ ساتھ اپنے افکار ونظریات کو بھی بدلتا رہتا ہے(انہی کا نام مذہب ہے)۔شعور انسان پر محاکمہ نہیں کرتا ،انسانی زندگی شعور کا تعیّن کرتی ہے‘‘۔ (23)
ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
"خُدا کا تصوّر ایک واہمہ ہے اس عالم کے ارتقائی وجود میں آج تک کسی بادشاہ یا خُداکے لئے جگہ نہیں"۔ (24)
اشتراکیت کے بنیادی اُصول:
اشتراکیت کے چاربنیادی اُصول ہیں:
۱: اجتماعی ملکیت [Collective Property]
۲: منصوبہ بندی [Planning]
۳: اجتماعی مفاد[Collective interest]
۴: آمدنی کی منصفانہ تقسیم[Equitable distribution of income] (25)
اسلام کا نظام ِ اقتصاد:
اسلام کلّی طورپرنہ مال کی نفی کرتا ہے اورنہ اسے انسانی زندگی کا حقیقی مقصد ٹھہراتا ہے۔مال کی تلاش اورمعیشت کی طلب کی ترغیب قرآن میں پائی جاتی ہے:
﴿فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ الله﴾ (26)"پھرجب نماز(جمعہ)پوری ہو چکےتواس وقت تم کو اجازت ہےکہ تم زمین پر چلو پھرواورخُدا کی روزی تلاش کرو"۔
جب کہ دوسری طرف مال کے لئے متاع الغرور(سامانِ دھوکہ)اورفتنہ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں:
﴿وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ﴾ (27)"اوردُنیاوی زندگی تو کچھ بھی نہیں صرف دھوکے کاسامان ہے"۔
﴿وَاعْلَمُوا أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَأَنَّ الله عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ ﴾ (28)
"اور تم اس بات کو جان رکھو کہ تمہارےاموال اورتمہاری اولادایک امتحان کی چیز ہےاور اس بات کو جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے پاس بڑا بھاری اجر(موجود)ہے"۔
اس طرزوانداز سے اسلام کے اقتصادی نظام اور دوسرے نظاموں کے درمیان فرق واضح ہوتا ہے کیونکہ
دوسرے نظاموں کی بنیاد"مادہ پرستی"پرہےکہ انسان کا معیشت کے سوا کوئی اوربڑامقصددنیامیں نہیں۔مفتی تقی عثمانی لکھتے ہیں :
أنّ الاقتصاد المادّی یعتبر"المعيشة"مقصداً اساسیّاً للاِنسانِ، ویرٰی أنّ الثروة والرفاهیة هی الغایة
المنشودة والمقصد الاَصیل لجمیع مایفعله الانسان فی هٰذہ الحیٰوة الدنیا۔ (29)
”مادی(نظام ِ)اقتصاد کے ہاں "معیشت"(کی طلب)انسان کا بنیادی مقصدہےاور اُن کی نظر میں دولت اور خوشحالی حیاتِ انسانی کی تمام سرگرمیوں کابنیادی مقصد اور محور ہے“۔
اسلام میں حیاتِ انسانی کا بنیادی مقصداللہ تعالی کی رضااورابدی سعادت ہےالبتہ وہ وسائل جن کےلئے انسان دُنیاوی زندگی میں محتاج ہے،ناگزیر اورضروری ہیں،اس کی تصریح اللہ تعالی یوں فرماتے ہیں :
وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ الله الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ الله إِلَيْكَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ (30)
"تجھ کو اللہ تعالیٰ نے جتنا دے رکھا ہےاِس میں عالمِ آخرت کی بھی جستجو کیاکرواور دُنیا سے اپنا حصّہ(آخرت میں لے جانا ) فراموش مت کرو، جس طرح اللہ تعالیٰ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہےتو بھی(بندوں کے ساتھ) احسان کیا کرواور دُنیا میں فساد کا خواہاں مت ہو"۔
مذکورہ بالا آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام انسانی فطرت کے موافق مال سے بقدرِ حاجت وضرورت مستفید ہونے کی ہرگز نفی نہیں کرتا بلکہ ایسے مال کو فضل اللہ وغیرہ جیسے الفاظ سے تعبیر کرتا ہےالبتہ مال کی اُس حیثیت کی ضرور مذمّت کرتا ہےجو انسان کو اُس کے مقصدِ اصیل سے غافل وبے پرواکرکےمقصدِ
حیات بن جائے۔
اسلامی نظامِ اقتصاد کے اُصول:
اقتصادِ اسلامی کے بنیادی اصول درج ذیل ہیں:
(۱) مرکب ملکیّت[ملکیّتِ عام وملکیّت ِخاص]
ملکیّت کا اصل حق اللہ تعالی ٰ کا ہے ،بندہ خلیفہ کی حیثیت سے اِس کامالک ہےیعنی جو کچھ انسان کی ملک میں ہےوہ اللہ کی دی ہوئی ہے۔اللہ تعالی ٰفرماتے ہیں:
۱: ﴿لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرَى﴾ (31)
"اسی کی ملک ہیں جوچیزیں آسمانوں اورجوچیزیں زمین میں ہیں اورجوچیزیں ان دونوں کےدرمیان ہیں اور جوچیزیں تحت الثریٰ میں ہیں"۔
۲: ﴿وَتَبَارَكَ الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا (32)
"اوروہ ذات بڑی عالی شان ہے جس کے لئے زمین اورآسمان کی اورجومخلوق اس کے درمیان میں ہےاس کی سلطنت ثابت ہے"۔
۳: ﴿وَلِله مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْض﴾ (33) "اوراللہ ہی کو سلطنت ہے آسمانوں اورزمین میں"۔
قرآن مجید میں ان آیات کے علاوہ اوربہت ساری آیات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہےکہ تمام اشیاء پر ملکیت کا اصل حق اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہے البتہ ایسی آیات بھی ہیں جن میں مال کی نسبت انسان کی طرف کی گئی ہے،ان میں سے چند آیتیں درج ذیل ہیں:
۱: ﴿وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُون﴾ (34)
”اوراگر تم توبہ کر لوگےتوتم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے۔نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤں گے اورنہ تم پر کوئی ظلم کرنے پائے گا“۔
۲: ﴿خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا﴾ (35)
"آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے جس کے ذریعے سے آپ ان کو(گناہ کے آثارسے)پاک صاف کر دیں گے"۔
۳: ﴿وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوم﴾ (36) "اور ان کے مال میں سوالی اورغیر سوالی کا حق تھا"۔
مذکورہ بالا آیات سے واضح ہوتا ہے کہ مال میں انسان کی حیثیت صرف ایک خلیفہ کی ہے،یعنی انسان کو منفعت اورتصرّف کا حق حاصل ہے جس طرح اللہ تعالی ٰ ایک اورجگہ فرماتے ہیں:
۴: ﴿وَأَنْفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُسْتَخْلَفِينَ فِيه﴾ (37)
”اورجس مال میں تم کو اس (اللہ تعالی ٰ)نے قائم مقام بنایا ہےاس میں سے (اس کی راہ)میں خرچ کرو“۔
خلیفہ اورنائب کی حیثیت سے مال میں ملکیّت انسان كو اگر چہ حاصل ہےلیکن یہ ملکیّت بھی دو(۲)طرح کا ہے۔
۱: ملکیّتِ خاص ۲: ملکیّتِ عام
۱: ملکیّتِ خاص:
ملکیّت ِ خاص کا تعلق معاشرے کے مخصوص افراد کے ساتھ ہے۔اسلام مخصوص افراد کی ملکیّت کا حامی اور اُن کے حقوق کی حفاظت ورعایت کا علمبردار ہےچنانچہ کسی آدمی کا مال ناجائز طریقے سے لینا ممنوع ہے۔
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا (38)
"بے شک تمہارا خون ،تمہارے اموال اورتمہاری عزّتیں تم پر حرام کی گئی ہیں،اس(مبارک)دن،اس (مبارک)مہینے اوراس(مبارک)شہر کی حُرمت کی طرح"۔
اس آیت میں ایک دوسرے کے اموال کو نا جائز طریقے سے استعمال کرنے کی ممانعت کےبیان سے یہ امر بھی بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ مال میں ملکیّت کا حق ایک فرد کو حاصل ہوتا ہے اوروہ حقِّ ملکیّت محترم بھی ہےیعنی کسی غیر کونا حق طریقے سے ملکِ غیر میں دَراندازی کا کوئی حق نہیں ۔ مالک کو اپنے مال سےپورا پورا فائدہ اٹھانا اوراس کو اپنی ضروریات میں خرچ کرنے کی اجازت اگر چہ ہےلیکن اگر کہیں مالک کا تصرف معاشرے کے اجتماعی ضرر کا سبب بن رہا ہوتو مالک کو اس طرح کے تصرف کا حق نہیں۔اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عمرفاروقؓ[م۲۴ھ]نےحضرت بلال بن الحارثؓ[م ۶۰ھ] سےوہ زمین واپس لی تھی جوحضورﷺ نے اس کو عطا کی تھی کیونکہ اُنہوں نے اس زمین کو بے کار چھوڑا تھا۔حضرت عمرؓ نے فرمایا:
لَيْسَ لِمُحْتَجِرٍ بَعْدَ ثَلَاثِ سِنِينَ حَقٌّ (39) "پتھر نصب کرنے والے کو تین سال کے بعد کوئی حق
نہیں"۔
اسی طرح معاشرے کی اجتماعی ضرورت وحاجت کے پیشِ نظر احتکار(ذخیرہ اندوزی)کی ممانعت کی گئی ہے۔جیسے کہ عبداللہ بن عمرؓ[م۷۳ھ] نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں:
"مَنِ احْتَكَرَ طَعَامًا أَرْبَعِينَ يَوْمًا، فَقَدْ بَرِئَ مِنَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَبَرِئَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى مِنْه" (40)
"جوآدمی چالیس روزتک خوراک کو ذخیرہ کرے تووہ اللہ تعالی ٰ سے بری ہے اور اللہ تعالیٰ اُس سے بری ہے"۔
حاصل یہ کہ اسلام نے جس طرح ایک فرد کی ملکیّت کو تسلیم کرکےاس کے مال کو نا جائز طریقےسے غصب کرنے کی ممانعت کی ہےاسی طرح معاشرے اور سوسائٹی کی اجتماعی ضرر کے سدّباب کی خاطر کسی آدمی کو اپنے مال میں ایسے تصرّف کی قطعاً گنجائش نہیں چھوڑی جس سے عام لوگ ضرر اور تکلیف میں مبتلا ہوں۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ثابت ہوا کہ اسلامی نظامِ اقتصاد میں ایسا توازن پایا جا تا ہے جو دوسرے نظاموں میں نظر نہیں آتا ۔
وهذا التوازن فی أیّ مذهب اٰخر، فالرأسمالیة اِتجهت نحوالفرد واِشباع رغباته دون حدود وقیود، والمارکسیّة ألغتْ مصلحة الفرد اِلغاءً تامّاً۔ (41)
"اس توازن کو ہم دوسرے نظاموں میں نہیں دیکھتے ،سرمایہ دارانہ نظا م کی پوری توجّہ افراداور ان کے مرغوبات (خواہشات)کی تکمیل بغیر کسی پابندی کے،کی طرف ہےاورمارکسیزم(اشتراکی نظام )نے تو (سرےسے)فرد کی مصلحت ہی ختم کردی ہے"۔
۲: ملکیّت ِعام:
ملکیّتِ عام کا مطلب یہ ہےکسی چیز کے ساتھ تمام افراد کی ملکیّت متعلق ہو،اس با رے میں بھی اسلامی تعلیمات میں اشارہ ملتا ہے،حضورﷺ کا ارشاد ہے: الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ: فِي الْكَلَإِ، وَالْمَاءِ، وَالنَّارِ۔ (42)"مسلمان تین چیزوں میں آپس میں شریک ہیں؛(خودرو)گھاس،پانی اورآگ"۔
ایک دوسری روایت میں ہے:
لاَ تَمْنَعُوا فَضْلَ المَاءِ لِتَمْنَعُوا بِهِ فَضْلَ الكَلَإ۔ (43) ”زائد پانی کو مت روکو(کیونکہ اس کے
ساتھ)تم (خودرو )گھاس روکتے ہو“۔
ان تین چیزوں میں شرکت عام اس وجہ سے ہےکہ ان کی ضرورت بہت زیادہ پیش آتی ہےالبتہ اگر ان تین
چیزوں کو کوئی مخصوص طریقے سے محفوظ اورمحصور کرلےتو پھر ان میں بھی ملکیّت خاص ہو جاتی ہے۔
روایات میں اگرچہ تین چیزیں واردہوئی ہیں لیکن لوگوں کی ضروریات زمانے اورماحول کےساتھ بدلتی
رہتی ہیں لہٰذا ان پر دوسری چیزوں کوبھی قیاس کیا جاسکتا ہے بشرط یہ کہ اُن میں بھی انہی تین چیزوں کی طرح صفات پائی جائے اوراسلام کے اُصول وقواعدکے موافق ہوں مثلاً ملکیّت عام کی ایک قسم وہ چیزیں جو ریاست کی ملکیّت میں ہوں جیسے بیت المال کی اراضی جن میں زکوۃ کے اُونٹ یا وہ اراضی جن میں عام لوگوں کے جانور چرتے ہیں۔ (44)
(۲)کفالت اور معاشی ذمہ داری :
اسلامی نظامِ اقتصاد میں مال میں صرف محنت یاخرچ ذریعۂ استحقاق نہیں بلکہ معاشرے میں بعض افراد کے لئے محنت اورخرچ کے بغیر بھی مال میں استحقاق اور حصّہ داری تسلیم کی گئی ہے،ایسے مستحقین کے لئے استحقاق کی دو بنیادیں ہیں: ۱۔حاجت مندی ۲۔قرابت داری (45)
۱– حاجت مندی :
ہر معاشرے میں مساکین ومحتاج طبقہ ضرور ہوتا ہے۔کبھی یہ حاجت مندی عارضی ہوتی ہے جیسے مسافر سفر کی وجہ سے تنگ دست ہوجائےاور کبھی دائمی ہوتی ہےمثلاً بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سےکوئی خود کام کاج نہ کر سکےایسے حاجت مند افرادکی کفالت کی ذمہ داری سب سے پہلے بیت المال پر ہےکیونکہ بیت المال کے ذرائع آمدن میں ایک ذریعہ اموالِ فاضلہ یا ضوائع کاہےجس سے غریب بیماروں کی مدداورناداراموات کی تجہیزوتکفین کا بندوبست کیا جا تا ہے،لاوارث بچوں کی پرورش اورجرمانے کی ادائیگی کے لئے استعمال کیا جا تا ہے،اسی طرح ایسے لوگوں کی مدد کی جاتی ہےجو اپنی رزی کمانے سے خود معذور ہوں اوران کا کوئی ایسا عزیزبھی نہ ہوجس کا وہ قانونی طور پر سہارالے سکیں۔ (46)
بیت المال کے بعدمعاشرے کے أغنیاء کی دولت میں بقدرِضرورت اِن نادار اور معذور افرادکا استحقاق بنتا
ہے۔ (47)
۲– قرابت داری :
قرابت داری اوررشتہ داری بھی ایک اہم وجہ استحقاق ہے،اس کی اہمیت اس وجہ سے ہےکہ اس میں "حق کفالت"بطورِ احسان کے نہیں بلکہ ایک اہم فريضہ کے طورپرادا کرنا ہوتا ہے ۔اسلامی نظامِ اقتصاد میں اس استحقاق کی بنا پر جو حقدار بنتے ہیں ان کے مختلف درجات ہیں:
درجہ اوّل:بعض افراد کو حصہ دینایا بطورِ قرابت داری ان کی کفالت اورمالی معاونت کرنا"واجب "کادرجہ
رکھتا ہے۔ مثلاً بیوی،نابالغ اولاد،بوڑھے والدین۔
درجہ دوم: بعض افراد کا درجہ استحقاق بذاتہٖ بڑا ہے اگر چہ درجہ اوّل کے استحقاق سے قدرے کم ہے۔مثلاً محتاج بہن بھائی یاان کی محتاج اولاد،چچا،ماموں ،خالائیں وغیرہ۔
درجہ سوم: بعض مستحقین درجۂ دوم سے کمترہیں،ان میں دور کے رشتہ دار اور ان کے لواحقین۔ان کے درمیان درجہ بندی رشتہ کی قرب اور بعد کی بنا پر ہو گا۔ان کےعلاوہ بعض افرادصرف اخلاقی اور کارِ خیر کی بنا پر مستحق ہیں۔مثلاً ہمسایہ ،ہم سفراور ہم جماعت وغیرہ۔اگرچہ بعض حالات میں ایسےمستحقین کی حاجت کی شدت کو مدّ نظر رکھ کران کی کفالت بھی واجب کے درجہ میں ہو جاتی ہے۔ (48)
(۳)حریّت [مگر حدود وقیود کے اندر]:
اسلامی نظامِ اقتصاد میں کسبِ معاش کے سلسلےمیں کوئی بھی فرد نہ تومکمل مقیّد ہے (اشتراکیّت کی طرح)اورنہ ہی مکمل آزادوخود مختار(سرمایہ دارانہ نظام کی طرح)ہےبلکہ کسبِ معاش کے اس جدوجہد میں ایسے اُصولوں کا پابند بنایا گیا ہےجو نظامِ معیشت کو بھی فاسد ہونے سے بچاتا ہےاور فرد کی زندگی کوبھی معاشی رفاہیّت کے ساتھ ساتھ دینی اور اخلاقی رفعت عطاکرتا ہے۔اس انفرادی معیشت کے حصول میں ہمیشہ دواُصول پیشِ نظر رہیں گے:
اول:جو حاصل کرے وہ "حلال "ہو۔
دوم:جن طریقوں سے حاصل کرے وہ"طیّب"ہوں۔ (49)ارشادِ باری تعالی ٰ ہے:
۱– ﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا﴾ (50) "اے لوگو جوچیزیں زمین میں موجود ہیں ان
میں سے حلال پاک چیزوں کو کھاؤ"۔
۲– ﴿ وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَيِّبًا﴾ (51) "اورخُدا تعالی ٰ نے جوچیزیں تم کو دی ہیں ان میں سے حلال مرغوب چیزیں کھاؤ"۔
مذکورہ بالا آیات میں پہلا اصل یعنی "حلال" جس کی ضد" حرام" ہے اورحرام کھانوں کا بیان خود اللہ تعالی ٰ نے آیتِ ذیل میں کیاہے:
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُم (52)
اوردوسرا اصل یعنی "طیب "جس کی ضد"خبیث"ہے،کی تفسیر میں رشید رضا مصری [م ۱۳۵۳ھ] لکھتے ہیں:
أَنَّ الطَّيِّبَ مَا لَا يَتَعَلَّقُ بِهِ حَقُّ الْغَيْرِ وَهُوَ الظَّاهِرُ، لِأَنَّ الْمُرَادَ بِحَصْرِ الْمُحَرَّمِ فِيمَا ذُكِرَ الْمُحَرَّمُ لِذَاتِهِ الَّذِي لَا يَحِلُّ إِلَّا لِلْمُضْطَرِّ، وَبَقِيَ الْمُحَرَّمُ لِعَارِضٍ فَتَعَيَّنَ بَيَانُهُ وَهُو مَا يَتَعَلَّقُ بِهِ حَقُّ الْغَيْرِ وَيُؤْخَذُ بِغَيْرِ وَجْهٍ صَحِيحٍ، وَيَخْرُجُ بِذَلِكَ الرِّبَا وَالرَّشْوَةُ وَالسُّحْتُ وَالْغَصْبُ وَالْغِشُّ وَالسَّرِقَةُ فَكُلُ ذَلِكَ خَبِيثٌ، وَكَذَا مَاعَرَضَ لَهُ الْخُبْثُ بِتَغَيُّرِهِ كَالطَّعَامِ الْمُنْتِن۔ (53)
"طیب سے مراد وہ اشیاء ہیں جن کے ساتھ کسی اور کا حق متعلق نہ ہواس لئے کہ نص قرآنی نے جن اشیاء کو حرام کیاہےان کی حرمت تو ذاتی ہےاوراس لئے مضطر کے علاوہ کسی حالت میں کسی کے لئےان کا استعمال درست نہیں اوران کے علاوہ جن اشیاء کی حرمت اس شئے کی حقیقت اورذات میں نہیں پائی جاتی بلکہ باہر کے اسباب سے حرمت آتی ہےان کی ممانعت "طیب"کہہ کردی گئی ہےپس جو شئے ناحق لی گئی اورصحیح طریقہ کار سے حاصل نہیں کی گئی بلکہ سود،رشوت،غصب ،ملاوٹ اورچوری وغیرہ ناجائز طریقوں سےحاصل کی گئی ہوتویہ "خبیث" ہےاوراس طرح اس میں خُبث تغیّر کی وجہ سے آیا ہوجیسے سڑ کر بو آنا(تویہ بھی خبیث ہے)"۔
حا صل یہ کہ اگرحرمت کسی شئے کی ذات میں ہو تو"حرام"ہےاور اگر خارج کی وجہ سے کسی شئے میں حرمت آئی ہو تو "خبیث"ہے۔مسلم معاشرے کافرداگر ان اساسی امور کا لحاظ کرکے کسبِ معاش کے لئے
جدوجہد کرےتو اِس کی یہ کمائی معیشتِ صالحہ کے نام سے موسوم ہوگی۔ (54)
اسلامی نظامِ اقتصاد میں ایک فرد جس طرح کسبِ معاش میں مقیّد ہے اسی طرح انفاقِ مال(مال کوخرچ کرنا) کےسلسلےمیں بھی بےلگام اورآزادنہیں چنانچہ وہ اپنے مال کو نہ بےموقع اور بےمحل اُڑائے گا اورنہ ہی کم خرچ کی جگہ زیادہ خرچ کرے گابلکہ اسراف اورتبذیر سے اپنےآپ کوبچائے گا۔ارشادِخُداوندی ہے: ﴿وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِين﴾ (55)
"اور خوب کھاؤ اورپیو اور حد سے مت نکلو بےشک اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتے حد سے نکلنے والوں کو"۔
﴿وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينَ﴾ (56) "اور(مال )کو بے موقع مت اڑانا(کیونکہ)بےشک بے موقع مال اڑانے والے شیطانوں کے بھائی بندے ہیں"۔
علامہ آلوسیؒ[م ۱۲۷۰ ھ] اسراف اورتبذیر کے مابین فرق کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
أن الإسراف تجاوز في الكمية وهو جهل بمقادير الحقوق والتبذير تجاوز في موقع الحق وهو جهل بالكيفية وبمواقعها وكلاهما مذموم والثاني أدخل في الذم. (57)
”کمیّت یعنی مقدارِ خرچ میں حد سے تجاوز کرنا"اسراف "ہےاوریہ عائدشدہ حقوق کی مقدارسے جہالت کا ثبوت ہےاورکیفیّت یعنی مواقعِ صرف وخرچ میں حد سے تجاوز کرنا"تبذیر"ہےاوریہ صحیح مواقع صرف سے نادان بننے کی دلیل ہےیہ دونوں مذموم ہیں بلکہ ثانی میں ذم زیادہ ہے“۔
الغرض ضرورت سے زیادہ اوربے جا مال اُڑانااسراف وتبذیر ہے اوریہ دونوں معیشتِ فاسدہ کی علامت ہے۔اسراف اورتبذیر کی ضد تقتیر ہے،یہ بھی مذموم ہے۔ان دونوں کے بین بین راستہ اختیار کرنا میانہ روی ہےاور وہی ممدوح ہے،اللہ تعالی ٰ مومنوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتےہیں:
﴿وَالَّذِينَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَامًا﴾ (58) "اور وہ جب خرچ کرنےلگتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان کاخرچ کرنا اس(افراط اورتفریط) کادرمیان اعتدال پرہوتا ہے"۔
امام رازیؒ[م ۶۰۶ھ] اسراف اور تقتیر کے بارے میں لکھتے ہیں:
وَذَكَرَ الْمُفَسِّرُونَ فِي الْإِسْرَافِ وَالتَّقْتِيرِ وُجُوهًا: أَحَدُهَا: وَهُوَ الْأَقْوَى أَنَّهُ تَعَالَى وَصَفَهُمْ بِالْقَصْدِ الَّذِي هُوَ بَيْنَ الْغُلُوِّ وَالتَّقْتِير۔ (59)
”اسراف اورتقتیر کے متعلق مفسرین نے مختلف وجوہ بیان کی ہے،ان میں سے قوی تر یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ نے اُن (نیک بندوں)کو میانہ روی کے ساتھ موصوف کئے ہیں جوبےجا غلوّ اور بےمحل بخل برتننے کے مابین ہے“۔
حاصل یہ کہ مسلم معاشرے کا کوئی بھی فرد کمانے اور خرچ کرنے میں قطعاً آزادنہیں بلکہ اسلامی حدود وقیود کے اندر ہی تصرّف کرے گا کیونکہ اگر ان حدود کی پابندی نہ کرے تو اس سے معیشت میں فساد آئے گا جو یاتو خود مالکِ مال کے لئے ضرر اور نقصان کا با عث ہوگا یا معاشرے کے دوسرے افراد کے لئےتکلیف اورنقصان کا سبب ہوگا اس کے بر عکس سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت میں کسب اورخرچ کی کھلی چھٹی ہے کوئی بھی فرد کسی قسم کی قیدوحد کا پابند نہیں وہ جس طرح چاہے اور جہاں چاہے مال کما سکتا ہےاورجیسا چاہے جہاں چاہے خرچ کرسکتا ہےکیونکہ اس کی بنیاد ہی خودغرضی اورذاتی منافع پر ہے،شخصی یا طبقاتی فوائد (Vested Interest)اس کی اوّلین ترجیح ہےاوراس میں کوئی بھی خدائی ضابطے یا اخلاقی اقدار کا پابند نہیں ہوتااورنہ ہی ملتِ انسانیّت اوردیگر طبقات ِانسانی کے مفادات کو اپنا ذاتی مفاداور ان کے نفع وضرر کو اپنا نفع وضررسمجھتا ہے۔ (60)
فقہ اسلامی کے اثرات:
عصرِ حاضر کے تمام مادی طریقہ ہائے تمویل خدائی ضابطوں اور حدود وقیود سےعاری اورآزاد ہیں کیونکہ ان کی بنیادیں ہی صرف اپنے ذاتی فوائد کے جمع کرنے پر ہیں مثلاً مروّجہ بینکاری سسٹمز وغیرہ کے اکثر معاملات "ربا"(سود) پرمبنی ہیں خواہ بینک قرض دارہو یاقرض خواہ ،دونوں صورتوں میں سودپایا جا تا ہے۔ اس کےبالمقابل اسلامی مالیاتی نظام میں ایسے طرقِ تمویل ہیں جن کو اختیار کرکے مروّجہ بینکوں سے منسلک فوائدحاصل کئے جا سکتے ہیں مثلاً بعض اسلامی ملکوں میں قائم اسلامی بینکوں کی بنیاد مرابحہ،مضاربہ،مشارکہ،استصناع اورشرکة منهیة بالتملیک پرہےجوکہ جائز اسلامی تمویلی طریقے ہیں۔عصرِ حاضر کے فقہاء نے مروّجہ بینکاری کاجائزہ لے کر ان کے متبادل جائز اسلامی تمویل کے طریقوں کو مروّج کرنے کی کوششیں کی ہیں چنانچہ"الموسوعة العلمیة والعملیة لاِتحاد البنوک الاسلامیة" ایک انسائیکلوپیڈیا تیار ہوچکی ہے جس میں مروّجہ بینکوں کے طریقوں کی وضاحت کی ہےاورپھر ہرایک کی شرعی صورت نکال کراس کو منطبق کرنے کاحل نکالا ہے۔ (61)
حواشی وحوالہ جات
1: مرتضیٰ الزبیدی،محمد بن محمد بن عبدالرزّاق[م ۱۲۰۵ھ]، تاج العروس من جواهرالقاموس، ج۳۰، ص۴۳۳، دارالھدایۃ،سطن۔
2: ایضاً : ۳۰/۴۲۸،۴۲۷۔
3: وھبہ الزحیلی، وھبہ بن مصطفی ٰ ،الفقہ الاسلامی وادلتہ،۶/۴۸۱۸،دارالفکر،دمشق سطن۔
4: عثمانی،محمد تقی،مفتی،بحوث فی قضايا فقهيۃمعاصرة،ص۷۷،دار القلم،دمشق۱۴۲۴ھ۔
5: ابن ِ نجیم،زین الدین بن ابراھیم بن محمد[م ۹۷۰ھ]، البحر الرائق شرح كنز الدقائق:۵/۲۷۷، دارالکتاب الاسلامی،سطن۔
6: ابن ِ عابدین ،محمد امین بن عمر [م ۱۲۲۵ھ]،رد المحتارعلى الدرالمختار:۴/۵۰۱، دارلفکر، بیروت ۱۴۱۲ھ۔
7: الکاسانی، ابو بکر بن مسعود،علاء الدین[م ۵۸۷ھ]،بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع: ۷/۳۸۵،دارالکتب العلمیۃ،بیروت۱۴۰۶ھ۔
8: ایضاً:۲/۲۷۹۔
9: ابن نجیم ، البحرالرائق شرح كنز الدقائق:۳/۱۶۹۔
10: ابن ِ عابدین ،محمد امین بن عمر ، مجموعۃ رسائل ابن عابدین:۲/۱۵۲،داراحياء التراث العربی، بیروت سطن۔
11: ابن ِخلدون،عبدالرحمٰن بن محمد بن محمد[م ۸۰۸ھ]،(مقدمہ ابن خلدون)دیوان المبتداء والخبرفی تاریخ العرب ِوالبربر ومن عاصرهم من ذوی الشأن الاکبر:۱/۴۷۹، دارالفکر، بیروت ۱۴۰۸ھ۔
12: چیمہ،غلام رسول،چودھری،اسلام کامعاشی نظام:ص۱۵،علم وعرفان پبلشرز،لاہور۲۰۰۷ء۔
13: عثمانی،محمد تقی،مفتی،اسلام اورجدید معیشت وتجارت:ص۲۱،مکتبہ معارف القرآن،کراچی۱۴۳۱ھ۔
14: غلام رسول چیمہ، اسلام کامعاشی نظام:ص۱۵۔
15: عثمانی،محمد تقی،مفتی،تکملۃفتح الملهم :۱/۱۹۹،مکتبہ دارالعلوم کراچی،کراچی۲۰۰۹ء۔
16: The New Encyclopedia of Britanica,vol:2, page:832, 5th edition USA2007
17: Comparative Economic System by William N.Loucks بحوالہ اسلام کامعاشی نظام, غلام رسول چیمہ،ص۶۹۔
18: حمد حسن کمال،نظامِ معیشت اوراسلام: ص۵۳،طیّب پبلشرز،لاہور۲۰۰۲ء۔
19 :The New Encyclopedia of Britanica, vol: 2, page: 832, ibid
20: مفتی تقی عثمانی، تکملہ فتح الملهم،ج۱،ص۲۰۱،حوالہ سابق۔
21: The New Encyclopedia of Britannica, vol: 10, page:962, ibid
22: غلام رسول چیمہ، اسلام کامعاشی نظام،ص۴۲،۴۱،حوالہ سابق۔
23: ایضاً ،ص۴۴،حوالہ بالا۔
24: ایضاً ،ص۴۴،حوالہ بالا۔
25: مفتی تقی عثمانی، اسلام اورجدید معیشت وتجارت،ص۳۵،۳۴،حوالہ سابق۔
26: الجمعۃ: ۶۲ ۔
27: آل عمران: ۱۸۵۔
28: الانفال: ۲۸۔
29: مفتی تقی عثمانی، تکملۃ فتح الملهم ،ج۱،ص۱۹۷،حوالہ سابق۔
30: القصص:۲۸۔
31: طٰہٰ :۶۔
32: الزخرف :۸۵۔
33: الجاثیۃ: ۲۷۔
34: البقرۃ: ۲۷۹۔
35: التوبۃ: 103۔
36: الذٰریات: ۵۱۔
37: الحدید :7۔
38: مسلم بن الحجاج،ابوالحسن،القشیری[م ۲۶۱ھ]،صحیح مسلم،رقم الحدیث۱۶۷۹،داراِحیاء التراث العربی،بیروت سطن۔
39: الزیلعی،ابو محمد عبداللہ بن یوسف،جمال الدین[م ۷۶۲ھ]،نصب الرایۃلاَحادیث الهدایۃ،ج۴، ص۲۰۹، مؤسسۃالریان، بیروت ۱۴۱۸ھ۔
40: الھیثمی،ابوالحسن علی بن ابی بکر،نورالدین[م ۸۰۷ھ]، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج۴، ص۱۰۰،رقم الحدیث۶۴۷۶، مكتبہ القدسی، القاهرة۱۴۰۴۔
41: السالوس،علی احمد،الدکتور،الاقتصادالاسلامی والقضایاالفقهیۃ المعاصرة،ص۳۶،دارالثقافۃ، الدوحۃ ۱۹۹۶ء۔
42: ابوداؤد،سلیمان بن الأشعث،السجستانی[م ۲۷۵ھ]،سنن أبي داود،ج۳،ص۲۷۸،رقم الحدیث ۳۴۷۷،مکتبۃ العصریۃ، بیروت سطن۔ابن حنبل،احمد بن محمد بن حنبل،ابو عبداللہ ،الشیبانی[م ۲۴۱ھ]، مسند الإمام أحمد بن حنبل،ج۳۸، ص۱۷۴، رقم الحدیث۲۳۰۸۲،مؤسسۃ الرسالۃ،بیروت۱۴۲۱ھ۔
43: ۱– محمد بن اسمٰعیل البخاری،صحیح البخاری،ج۳،ص۱۱۰،رقم الحدیث ۲۳۵۴،حوالہ سابق۔
۲– مسلم بن الحجاج القشیری،صحیح مسلم،ج۳،ص۱۱۹۸،رقم الحدیث ۱۵۶۶،حوالہ سابق۔
44: دکتور علی بن احمد السالوس، الاقتصادالاسلامی والقضایاالفقهیۃ المعاصرة ،ص۴۶،حوالہ سابق۔
45: غفاری،نورمحمد،ڈاکٹر،اسلام کامعاشی نظام،ص۲۵۶،دیال سنگھ لائبریری ٹرسٹ،لاہور۱۹۹۴ء۔
46: صدیقی،شجاعت علی،اسلام کا مالیاتی نظام،ص۱۵۷،۱۵۸،نیشنل بُک فاؤنڈیشن،اسلام آباد۲۰۱۱ء۔
47: کلیانوی،عمران الحق،ڈاکٹر،اسلام کا نظامِ کفالت(ایک تحقیقی جائزہ)،ص۱۸۱،دارالاشاعت، کراچی ۲۰۰۳ء۔
48: ڈاکٹرنورمحمد غفاری، اسلام کا معاشی نظام ،ص۲۵۸،۲۵۷،حوالہ سابق۔
49: سیوہاروی،حفظ الرحمٰن،مولانا،اسلام کا اقتصادی نظام،ص۶۴،مکتبہ رحمانیہ،لاہورسطن۔
50: البقرۃ:۱۶۸۔
51: المائدۃ:۸۸۔
52: المائدۃ:۳۔
53: رشید رضامصری،تفسیرالقرآن الحکیم(تفسیرالمنار)،ج۲،ص۷۱،حوالہ سابق۔
54: سیوہاروی،حفظ الرحمٰن،مولانا،اسلام کا اقتصادی نظام،ص۶۷،حوالہ سابق۔
55: الاعراف :۳۱۔
56: الاسراء:۲۷،۲۶۔
57: الآلوسی،محمود بن عبداللہ،شہاب الدین[م ۱۲۷۰ھ]، روح المعانی فی تفسير القرآن العظيم والسبع المثانی، ج ۸ ، ۶۲ دارالکتب العلمیۃ،بیروت۱۴۱۵ھ۔
58: الفرقان:۲۵۔
59: فخر الدين الرازی،أبو عبد الله محمدبن عمربن الحسن بن الحسين[م ۶۰۶ھ]، مفاتيح الغيب ( التفسير الكبير)،ج۲۴، ص۴۸۲،دار إحياء التراث العربي،بيروت۱۴۲۰ھ۔
60: محمدطفیل،نقوش[رسول نمبر]،محمد اشرف خان،مولانا،رسول کے عہد کااقتصادی ومعاشی نظام، ج۴، ص۷۳۴،ادارۂ فروغِ اُردو،لاہور سطن۔
61: دکتور علی بن احمد السالوس، الاقتصادالاسلامی والقضایاالفقهیۃ المعاصرة ،ص۹۶،حوالہ سابق۔
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |