3
2
2016
1682060029336_532
146-160
https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/184/172
https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/184
صنعتی انقلاب اور مادی ترقی کی ہوس نے انسان کو مذہب سے بے گانہ کر دیا ہے اوراس کی زندگی کا مقصدفقط معاشی خوشحالی ہے ، مادی ترقی کی خواہش میں انسان روحانیت کے میدان میں زبوں حالی کا شکار ہوچکا ہے ۔سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں بےلگام دوڑ اور وسائل کے بے دریغ استعمال نے اس کرہ ارض کےفطری حسن اور ما حولیاتی نظام کو کافی حد تک درہم برہم کر دیا ہے ، اسی لیے انسان یہ سوچنے پر مجبورہو چکا ہے کہ اگر آج اس نے اپنی اس روش کو تبدیل نہیں کیا ،تو آنے والی نسلوں کا مستقبل غیر محفوظ اور تاریک ہو جائے گا ،اور آنے والی نسلیں ایک ایسے ماحول میں آنکھ کھولیں گی جو انسانوں کی مادی ہوس کے نتیجے میں بگاڑ کا شکار ہو چکاہو گا،یہی سوچ اس بات کی عکاس ہے کہ زمین میں ہونے والے فساد اور ماحولیاتی نظام کی تباہی کی اصل وجہ انسان کا وحی الٰہی کی ہدایات سے محروم رہنا ہے ،کیونکہ انسان صرف عقل وخردسے اس نظام کے تمام حقائق نہیں جان سکتا اور نہ خیر وشر ،اور نہ اچھائی وبرائی کے معیار متعین کر سکتا ہے ،عقل کوشترے بے مہار چھوڑنے کا نتیجہ ہے کہ آج انسان اس کائنات کے توازن اور حسن کو بگاڑنے پر تلا ہوا ہے ،اسی لیے آج انسانی زندگی میں مذہب کی اہمیت پر بات ہو رہی ہے ۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ قدرتی ماحول کےبگاڑ اور وسائل کے بے دریغ استعمال نے زمین پر نظام زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے اور انسان کو اس بات پر مجبور کیا ہے کہ وہ پائیدار ترقی (سسٹینبل ڈولپمنٹ) جیسے نظریے کو متعارف کروائے،جس میں سماجی اور معاشی انصاف کا تذکرہ ہے اور اقتصادی میدان میں ایسی ترقی جس سے معاشرےکے تمام افراد کا معیار زندگی بلند ہو کو مقصد بنایا گیا ہے ،اسی کے ساتھ ماحولیاتی نظام کو عدم توازن کا شکار ہونے سے بچانے کی بات ہو رہی ہے ،معاشرے کو فلاحی معاشرہ بنانے کے لیے اور سسٹینبل ڈولپمنٹ کے ان مقاصد کے حصول کے لیے آج لوگ اسلام کے سماجی ،اقتصادی اور ماحولیاتی نظام کا مطالعہ کر رہے ہیں ، اور اس نظام کی طرف آرہے ہیں جو انسانیت کا واحدنجات دہندہ اور فلاح کا ضامن ہے ۔
سسٹینبل ڈولپمنٹ(پائیدار تر قی ) سے ایک ایسی حقیقی ترقی مقصود ہے، جو نہ صرف اس دنیا میں رہنے والے تمام طبقات کو خوشحال بنائے بلکہ ان کے مستقبل کو محفوظ بھی بنائےیعنی سٹینبل ڈولپمنٹ کاموں کو بہتر طریقے سے سر انجام دینا ہے کہ حا ل بھی آسودہ ہو اور مستقبل بھی محفوظ ہو ،لیکن کاموں کو مختلف انداز میں کرنے سے ہر گز یہ مراد نہ ہو گی کہ معیار پر سمجھوتہ کیا جائے یا افراد کے معیار زندگی کو گھٹایا جائے۔ سسٹینبل ڈولپمنٹ ایک ایسی سوچ متعارف کروانا ہے کہ جو اجتماعی ہو جس میں معاشرے کے تمام افراد اس دنیا کے وسائل سے مستفید ہو سکیں اور اپنے کاموں کوبحسن وخوبی سر نجام دیں۔
سسٹینبل ڈولپمنٹ کا پس منظر
عصر حا ضر میں مثالی معاشرہ کی تشکیل کے لیے پائیدار ترقی یعنی سسٹینبل ڈولپمنٹ(Sustainable development) کی اصطلاح متعارف ہوئی ہے۔ ۱۹۸۳ میں اقوام متحدہ نے ماحول اور ترقی (Environment and Development) کے لیےHarlem Brundtland کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا، اس کمیشن نے ۱۹۸۷ میں اپنی رپورٹ "Our Common Future " کے نام سے پیش کی ،اس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ اگر انسان نے اپنے موجودہ رہن سہن کے انداز کو نہ بدلا تو عنقریب اس دنیا کا ماحولیاتی نظام بگاڑ کا شکار ہو جائے گا اور انسانیت کو بے شمار مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا ، اسی کے ساتھ اس بات پر بھی زور دیا گیا تھا کہ دنیا کے معاشی نطام میں یہ اہلیت ہونی چاہیے کہ وہ لوگوں کی معاشی ضروریات کو پورا کرسکے اور دنیا کے تمام طبقات کے حقوق کا تحفظ ہو اور ان کے درمیان وسائل کی منصفانہ تقسیم ہو سکے ، اورایک ایسی ترقی مطلوب ہے جس میں ہم اپنی موجودہ ضروریات کو اس طرح پورا کریں کہ آنے والی نسلوں کا اپنی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت متاثر نہ ہو، اسی نظریہ کے لیے Harlem Brundtland نے سسٹینبل ڈولپمنٹ Sustainable Development کا نظریہ پیش کیا ،اس کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی:
Development that meet the needs of the present without compromising the ability of future generation to meet their own needs .
۱۹۹۲ میں برازیل کےشہر "رِیُو" میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں تمام ممالک نے "حقیقی ترقی" کا خاکہ پیش کیا ہےایسی ترقی جس میں سماجی ،اقتصادی اور ماحولیاتی نظام میں تواز ن برقرار رکھا جائے۔ اسی کے لیےسسٹینبل ڈولپمنٹ (پائیدار تر قی ) کےکئی اہداف مقرر کیے گے،سسٹینبل ڈولپمنٹ اس چیز کا نام نہیں ہے کہ کسی بھی عمل کے نتیجے اور مستقبل میں ہونے والے خطرات کے پیش نظر، آج اپنی ضروریات کو پورا نہ کیا جائے یا سماجی اور اقتصادی میدان میں ترقی نہ کی جائے ،مستقبل کی فکر میں حال کو نظرانداز کرنا درست نہیں ہے ۔
اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اور اس میں وہ تمام اصول ہیں جن پر عمل کر کے ہم آج بھی ایک فلاحی معاشرہ تشکیل کر سکتے ہیں ،ٓج جدید دور کے مسائل کا واحد حل اسلام کے زریں اصولوں پر عمل کرنے میں ہے ۔
سسٹینبل ڈولپمنٹ کے مقاصد اور اسلامی تعلیمات
سسٹینبل ڈولپمنٹ (پائیدار ترقی )کے تین بنیادی مقاصد ہیں جو کہ سماجی عدل ،معاشی انصاف اور ماحولیاتی نظام کےتحفظ پرمشتمل ہیں، ان تین بڑے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے سترہ اہداف مقررہ کیے گئے ہیں،ان اہداف کو۲۰۱۲ء کو اقوام متحدہ کے اجلاس میں پیش کیا گیا ہے، جس فلاحی معاشرے کے قیام کے لیے یہ مقاصد اور اہداف مقرر کیے گیے ہیں ، ان کے حصول کا بہترین طریقہ اسلامی تعلیمات اور احکام پر عمل ہے ، کیونکہ اسلام ایک فلاحی معاشرے کا بہترین تصور پیش کرتا ہے ۔
اسلامی فلاحی معاشرہ
فلاحی معاشرے کا جو تصور اسلام پیش کرتا ہے اس میں معاشرتی عدل اورحقوق عامہ تک ہر انسان کی رسائی ایک بنیادی وصف ہے اور یہی سماجی انصاف اوربنیادی انسانی حقوق کی فراہمی سسٹینبل ڈولپمنٹ کےبھی بنیادی مقاصد ہیں،اللہ تعالی نے انسان کو اس زمین میں اپنا نائب اور خلیفہ بنایا ہے إنِّي جَاعِلٌ فِي الأرضِ خَلِیفَةٌ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ۔ اب جب انسان کو زمین پر اللہ کا نائب بنایا گیااورحقیقی ملکیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے تو یہ نائب اپنے آقا کے بتائے ہوئے اصولوں پر ہی چلے گا ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے اس دنیاکے وسائل مسخر کیے ہیں اب اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس زمین کو آباد کرے اس میں ترقیاتی اقدامات کرے لیکن یہ اقدامات قرآن وسنت کے احکامات کے مطابق ہوں اور ان وسائل کا استعمال بے جا نہ ہو کہ آنے والی نسلوں کو ان سے محروم کیا جائے۔اللہ تعالیٰ نے اس انسان کو پیدا کیا اور زمین کو آباد کیا تا کہ وہ اس زمین میں اصلاح کرے اور امن قائم کرے اور بحیثیت خلیفہ اس زمین کا محافظ ہو ۔
اللہ تعالی ٰ نے تمام انسانوں کووہ وسائل جن سے اس کی بنیادی ضروریات پوری ہوتی ہیں ،یکساں فراہم کیں ہیں مثلا پانی ،ہوا ،جنگلات وغیرہ ۔ اسلامی نظام حیات میں نہ صرف فرد ایک پرامن اور خوشحال زندگی بسر کرتا ہے بلکہ اس میں قدرتی نظام کا بھی تحفظ ہے ،سسٹینبل ڈولپمنٹ کے مقاصد میں سے ماحولیاتی نظام کو عدم توازن کا شکار ہونے سے بچانا ہے اور وہ تمام اقدامات جو قدرتی ماحول کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہے ۔اسلامی فلاحی نظام میں معاشی سرگرمیوں کو بہت اہمیت حاصل ہے ، دولت کی متوازن تقسیم ،روزگار کی فراہمی اورمعاشرے کے تمام طبقات کی بنیادی انسانی ضروریات کا بطریقِ احسن پورا ہونا اسلامی معاشی نظام کا اولین مقصد ہے اور اسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے آج سسٹینبل ڈولپمنٹ کی اصطلاح استعمال ہو رہی ہے گویا یہ وہی بات ہے جس کی ترویج اسلام چودہ سو سال سے کر رہا ہے۔
سسٹینبل ڈولپمنٹ کے تین بنیادی مقاصد میں سے ایک ماحولیاتی نظام کا تحفٖط ہے کہ انسان جس ماحول میں رہ رہا ہے وہ اس کی تمام بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہو ،انسان کا ارد گرد اس کا ماحول کہلاتا ہے ،ایسی تمام سرگرمیاں جو ہمارے ارد گرد کو نقصان پہنچاتی ہیں ماحولی آلودگی کہلاتی ہیں ، اسلام ماحولیاتی نظام کے تحفظ اور اس کو ہر قسم کی آلودگی سے بچانے کی ترغیب دیتا ہے۔
اسلام اور ماحول کا تحفظ
اللہ تعالی نے انسان کو ایک صالح نظام حیات کے ساتھ اس دنیا میں بھیجا تھا اور یہ صالحیت اسے بتدریج حاصل نہیں ہوئی بلکہ اس کی زندگی کی ابتدا ہی صلاح سے ہوئی تھی اور بعد میں انسان نے اس درست نظام کو اپنی حماقتوں اور کوتاہیوں سے بگاڑنا شروع کیا اور زمین میں فسادپھیلایا، زمین کے انتظام میں اصل چیز صلاح ہی ہے نہ کہ فساد ۔اسی لیے حق تعالیٰ کا اپنے بندے سے یہ مطالبہ ہے کہ وہ زمین میں فسادنہ پھیلائے لَا
لاتُفسِدُوا فِی الاَرضِ بَعدَ اِصلَاحِهَا اِن کُنتُم مُومِنِینَ
ترجمہ : اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد برپا مت کرو ۔
جدید دور میں ہونے والی تبدیلیوں نے انسان کے لیے نت نئے مسائل کھڑے کر دیے ہیں، ایک طرف سائنس ،صنعت اور زراعت کے شعبوں میں ترقی اور دوسری طرف معاشرتی ،اقتصادی اور ماحولیاتی مسائل کا انبار لگا ہوت ہے ،انسان نے ترقی کے نام پر اس دنیا کے وسائل کا بے دریغ استعمال کیا ہے ،اسلام میں وسائل کے معتدل استعمال پر بھرپور زور دیا گیا ہے۔
قدرتی وسائل کے استعمال میں توازن
اللہ تعالی ٰ نے اس دنیا کو وقت مقررہ کے کے لیےبنایا ہے اوراس کی چیزوں کو انسان کے لیے مسخر کردیا ہے ،انسان کو مخدوم کائنات بنایا ہےتا کہ ان سے استفادہ کرسکے اور اپنی ضروریات پوری کر سکے ،حق تعالیٰ نے ان وسائل کواپنی نعمت قرار دیا ہے اور اس کائنات کی ہر چیز کو حکمت و مصلحت کے مطابق اندازے سے بنایا ہے ۔ یہ وسائل انسان کو بقدر ضرورت مہیا کیے گئے ہیں ، تما م اشیاء کیفیت اور کمیت دونوں کے اعتبار سے لگے بندھے ہیں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ اِنَاخَلَقنٰه بِقَدَر یعنی ہم نے ہر چیز کو ایک خاص اندازہ و مقدار کے ساتھ بنایا ہے ۔ مزید ارشاد فرمایا اَلَذِی خَلَقَ فَسَوٰی وَ الَّذِی قَدَّرَ فَهَدٰی یعنی اللہ کی ذات وہ ہے جس نے تخلیق کی اور تسویہ کیا اور وہی ہے جس نے تقدیر بنائی یعنی ایک خاص اندازہ مقرر کیا اور رہنمائی فرمائی،یعنی مناسب ماحول ہر جاندار کو دیا ہے جس میں اس کی ضروریات کے مناسب بندوبست کیا گیا ہے ۔ سورۃ عبس میں ارشاد رفرمایا خَلَقَه فَقَدَّرَه اور وہی ہے جس نےاس کو یعنی انسان کو بنایا اور اس کی تقدیر مقرر کی، انسان کی تخلیق ،اس کی جسمانی ساخت بلکہ کل کائنات میں ایک توازن قائم رکھا گیا ہے اور ہر چیز اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر دلالت کرتی ہے ۔مزید ارشاد فرمایا وَخَلَقَ کُلَّ شَیءِفَقَدَّرَه تقدیرا ہم نے ہر چیز کی تخلیق کی اور پھر ٹھیک کیا اس کو ناپ کر۔
اللہ تعالیٰ کا ئنات کے تمام نظام کو ایک نظم کے تحت چلا رہے ہیں:
اَلله يَعلَمُ مَا تَحمِل ُكُلَّ اُنثٰی وَ کُلَّ شَیءعِندَه بِمِقدَار
ترجمہ : اللہ جانتا ہے جو پیٹ میں رکھتی ہے ہر مادہ اور ہر چیز کے لیے اس کے ہاں اندازہ مقرر ہے ،اس کائنات میں ہر چیز کا اندازہ مقرر کیا گیا ہہے ۔
هُوَ الَّذِی خَلَقَکُم مِن طِین ثُمَّ قَضی ٰاَجلا وَاَجَل مُسَمًّی عِندَه
ترجمہ : وہی اللہ ہے جس نے تمھیں گیلی مٹی سے پیدا کیا ،پھرایک میعاد مقرر کر دی اور ایک متعین میعاد اسی کے پاس ہے۔
انسان نے ایک وقت مقررہ کے لیے اس دنیا میں رہنا ہے اس کا قیام عارضی ہے اسی لیے اس کو جو وسائل فراہم کیے گئے ہیں وہ بھی محدود ہیں ، مگر اس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں ۔
قرآنی آیات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اللہ تعالی نے اس کائنا ت اور اس میں موجود تمام اشیاء کو ایک خاص وقت تک کے لیے وجود بخشا ہےاور ماحولیاتی نظام کے وسائل بھی محدود ہیں لہذا ان کو ضائع کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے ۔انسان کی حیثیت اس دنیا میں متعین ہے کہ وہ اللہ کا نائب ہے اور اللہ نے بہت سی چیزوں بطور مانت اسے دی ہیں اور ان پر اسے تصرف عطاء کیا ہے لیکن ان کے استعمال میں اعتدال سے کام لے گاحق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّ اللهَ لَا یُحِبُّ المُعتَدِینَ
ترجمہ : بے شک اللہ تعالیٰ حد سے گزر جانے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔
اس امت کو اللہ تعالی نے امت وسط کا خطاب دیا ہے ،ایک ایسی امت جو معتدل ہے حدود سے تجاوز نہ کرنے والی امت وَکَذٰلِکَ جَعَلنٰکُم اُمَّةًوَّسَطًا . امت وسط کا مفہوم بہت وسیع ہے کسی دوسری زبان میں اس کا کما حقہ ترجمہ نہیں کیا جا سکتا، اس سے مراد ایسا اشرف اور اعلیٰ گروہ جو عدل و انصاف اور توسط کی روش پر قائم ہو، ہر اعتبار اور غایت سے اعتدال پر ہو اور افراط و تفریط سے پاک ہو اور یہی صفت عدل ہے جو انسان کی تکریم اور فضیلت کا باعث ہے اور یہ اعتدال اس کی زندگی کے تمام شعبوں میں نمایاں نظر آنا چاہیے ۔معاشرتی اور تمدنی اعتدال جس میں انسانی حقوق کا تحفظ ہو ،حق و ناحق کی پہچان ہو ،اقتصادی اور مالی اعتدال بھی مقصود ہے صر ف ذاتی منافع اور مادی ترقی کو مطمح نظر نہیں بنانا چاہیے ، مقصد حیات زروجواہر کے انبار لگانا نہ ہوں اور انسانی شرافت اور عزت کا معیار مال و دولت کونہیں بنانا چاہیےچنانچہ اسلام نے دولت کی تقسیم کے ایسےسنہری اصول بنائے ہیں کہ کوئی بھی فرد معاشرے میں ضروریات زندگی سے محروم نہ رہےگا ،اسی طرح اس امت سے ماحولیاتی نظام کا تحفظ اور اس کے وسائل کا میانہ رو استعمال کا مطالبہ ہے ۔
اسلام میں جدت کا تصور
نئی ایجادات اور تعمیرات کے لیے شریعت نے رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کی روشنی میں یہ اصول مرتب کیا ہے کہ کسی کام کی مشروعیت اس سے حاصل ہونے والے نتائج پر منحصر ہے ، صنعت، زراعت یا سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میںہونے والی نئی ایجادات ،جن سے معاشرے کو فائدہ پہنچےاورلوگوں کا معیار زندگی بلند ہو ،قابل ستائش ہیں اور عام طور پر ایجادات کا مقصد بھی انسان کی زندگی کو آسان بنانا ہے اوراس کو مصائب و آلام سے بچانا ہے اور یہ سوچ شریعت کی رو سے مستحسن ہےکہ کسی انسان کی تکلیف کو دور کیا جائےاور اس کے لیے آسانیاں پیدا کرنا اللہ کے نزدیک محبوب عمل ہے ،رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :
مَن اَحبِّ الاَعمَالِ اِلَی اللهِ اِدخَالُ السُّرُورِ عَلٰی المُسلِمِ اَو اَن تُفرِضَ عَنه غَمًا اَو تُقضِیَ عَنه دَینًا اَو تُطعِمَه مِن جُوع اور ایک اور جگہ ارشاد فرمایا اَحَبُّ النَاسِ اِلَی اللهِ اَنفَعُهَم لِلنَّاسِ ۔اللہ تعالی کو وہ لوگ زیادہ محبوب ہیں جو لوگوں کو نفع پہنچاتے ہیں۔
اگر یہ صنعت و حرفت کی ترقی انسانیت کے لیے باعث وبال ہو، تو ناقابل قبول ہے ، جیسا کہ صنعتوں کے قیام سے ماحولیاتی نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے ،فضا آلودہ ہو رہی ہے ، صاف پانی نا پید ہو گیا ہے ،شوروغل میں اضافہ ہو ا، الغرض ہر قسم کی آلودگی پھیل رہی ہے، کرہ ارض کے درجہ حرارت میں نمایاں تبدیلی واقع ہو رہی ہے، گلوبل وارمنگ(global warming ) اورclimate changeجیسی اصطلاحات سامنے آرہی ہیں ، اوزون ( ozone layer) جو کہ سورج کی خطرناک شعاعوں کو زمین پر آنے سے روکتے ہیں اس کو کافی نقصان پہنچ چکا ہے،لہذا ایسی ترقی جس کا فائدہ صرف چند لوگوں کو ہو اوراکثریت کو نقصان پہنچے شریعت کی روسے قابل مذمت ہے ۔ماحول کے بنیادی عناصر پانی ،ہوا اور زمین کی موجودہ صورت حال اور شرعی نقطہ نگاہ سے اس کی حفاظت کا جائزہ لیتے ہیں ۔
فضائی آلودگی
انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ایک صاف ستھری ہوا اور فضا بھی ہے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں انسانی ضروریات کو پیش نظر وسائل عطا کیے ہیں ،ہوا ہر جاندار کی بنیادی ضرورت ہے ، ہوا کے بغیر کسی بھی جاندار کی بقا ممکن نہیں ،اسی لیے اللہ تعالی ٰ نے اپنی اس نعمت کو عام رکھا اور ہر امیر غریب ، انسان حیوان تک اس کی پہنچ کو ممکن بنایا ۔انسان نےصنعتی انقلاب کےنتیجے میں اس فضا کو بھی گدلا کر دیا ہےاور اس وقت انسانیت کو جن اہم چیلنجوں کا سامنا ہے ان میں سے ایک فضائی آلودگی بھی ہے،کرہ ارض کے درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے،اور اس غیر معمولی اضافے کے لیے گلوبل وارمنگ(global warming ) کی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے،کارخانوں اور گاڑیوں سے خارج ہونے والی زہریلی گیسس بڑی تعداد میں فضا میں جمع ہو رہی ہیں اور ان کی تہ دن بدن موٹی ہوتی جا رہی ہے ، یہ سورج سے حرارت کو جذب کر رہی ہیں جس کے نتیجے میں کرہ ارض کا درجہ حرارت پڑھ رہا ہے ، اس کی وجہ سے زمین کے ماحولیاتی نظام میں کئی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ، ان میں نمایاں موسمی تبدیلی (climate change )ہے ، عصر حاضر میں اس موسمی تبدیلی کوماحولیاتی نظام کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا گیا ہے اوررفتہ رفتہ سائنسدان انسانی زندگی پر اس کے اثرات سے واقفیت حاصل کر رہے ہیں، اس تبدیلی کا اثر زراعت،ماحول،توانائی اور سب سے بڑھ کر انسانی صحت پر رونما ہو رہے ہیں ،نت نئی بیماریوں کی ایک وجہ درجہ حرارت کا تیزی سے بڑھنا ہے جس کے نتیجے میں شرح اموات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ٖفضائی آلودگی کی بنیادی وجہ کارخانوں اور گاڑیوں سے (CO2) گیس کا فضا میں جمع ہونا ہے۔اسی لیے آج تقریبا تمام ممالک میں ایسے قوانین بنائے جا رہے ہیں جن کی مدد سے صنعت کاروں کو اس بات کا پابند بنایا جائے گاکہ وہ ماحول دوست صنعتوں کو فروغ دیں ۔
شریعت نے بھی صاف فضا کو انسان کا بنیادی حق قرار دیا ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نےاس نعمت کو عام رکھا ہے اور یہی ہوائیں بادلوں کو لیے پھرتی ہیں اور باران رحمت سے مردہ زمین آباد ہوتی ہے حق تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔
هُوَ الَّذِی یُرسِلُ الرِّیَاح بُشرًا بَینَ یَدَی رَحمَتِه
ترجمہ اور وہی اللہ ہے جو اپنی رحمت(بارش) کے آگے آگے ہوائیں بھیجتا ہے جو (بارش)کی خوشخبری دیتی ہیں۔
رسول اللہﷺ نے بھی ماحول کو آلودہ کرنے کی ممانعت فرمائی ہے اور ایسی جگہوں پر جہاں لوگوں کی بھیڑ ہو وہاں پر بدبو پھیلانے سے منع فرمایا ہے ،اسی لیے مسجد میں آنے والوں کو پیاز اور لہسن نہ کھانے کی تاکید فرمائی ہے ۔
مَن اَکَلَ الثُومَ اَو البَصَلِ مِنَ الجُوعِ اَو غَیرَه فَلَا تَقرَبَّنَ مَسجِدَنَا تم میں سے جو لہسن یا پیاز کھائےچاہے بھوک کی حالت میں یا بغیر بھوک کے، وہ مسجد میں نہ آئے۔
آبی الودگی
پانی کو اللہ تعالیٰ نے اصل ِحیات اور سببِ حیات بنایا ہےاور اسی سے زندگی کا آغاز کیا ہے:
وَ جَعَلنَا مِنَ المَاءِ کُلَّ شَیء حَیّ۔اور ہم پانی سے ہر جاندار چیز کو بنایا ہے .ایک دوسری جگہ ارشاد ہے : وَاللهِ خَلَقَ کُلَّ دَابَّةمِّن مَّآء فَمنِهُم مَن یَّمشِی عَلٰی بَطنِه ،وَمِنهُم مَن یمَّشِی علَیٰ رِجلَیَن ،وَمِنهُم مَن یَّمشِی عَلٰی اَربَع
ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا ہےپھر ان میں سے کچھ وہ ہیں جو اپنے پیٹ کے بل چلتے ہیں ،کچھ وہ ہیں جو دو پاوں پر چلتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو چار پر چلتے ہیں۔
پانی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ۶۱ دفعہ پانی کا ذکر کیا ہے ۔ پانی انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ہے، نہ صرف انسان کی تخلیق میں پانی کا عمل دخل ہےبلکہ اس کی بقا بھی پانی کے بغیر نا ممکن ہے ۔ اس کی معیشت ،زراعت اورصنعت پانی ہی سے وابستہ ہے۔ کرہ ارض کا حسن پانی ہی کی بدولت ہے ورنہ زمین بنجر اور کھیت کھلیاںاور باغات ویران ہو جائیں۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اَلَم تَرَ اَنَّ اللهَ اَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَآء فَتُصبِحُ الاَرضُ مُخضَرَّة :یا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے اور اس کی بدولت زمین سرسبز ہو جاتی ہے ۔کرہ ارض کے سبزہ زار،کھیت کھلیان اور باغات پانی ہی سے سیراب ہو کر زمین میں آباد انسان ،چرند پرند سب کے لیےرزق کا وسیلہ بنتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے کرہ ارض پر انسانی ضروریات کے پیش نظر پانی کے وسیع ذخائر پیدا کیےہیں ۔موجودہ تحقیق کے مطابق اس وقت پانی سمندروں ، گلیشیر، زیر زمین چشموں اور ندی نالوں کی شکل میں موجود ہے ۔ 97.5% پانی سمندروں میں ہے جو کہ کھارا ہے ،میٹھا پانی 2.5% ہے اور یہ گلیشیر، زیر زمین ذخائر اور جھیلوں وغیرہ پر مشتمل ہے۔ پانی کے ذخائر انسانوں کی بد انتظامی اور غیر ضروری استعمال کی وجہ سے دن بدن کم ہوتے جا رہے ہیں ،صنعتوں کے پھیلاو ،دیہاتوں سے شہروں کی طرف آبادی کے رخ اور پر تعیش طرز زندگی نے ان مسائل میں مزید اضافہ کیا ہے،اور نہ صرف پانی کا غیر ضروری استعمال ہورہا ہےبلکہ پانی کو آلودہ بھی کیا جا رہا ہے ۔ گلوبل وارمنگ(global warming)،موسمیاتی تبدیلی(climate change) اور درختوں کے بے دریغ کٹائی کی وجہ سے گلیشیر تیزی سے کم ہو رہے ہیں،بارشیں وقت پر نہیں ہو رہی ہیں ، سیلاب اور طوفانوں کی وجہ سے میٹھے پانی کا ضیاع ہو رہا ہے ۔ ماحولیاتی میدان میں پانی کی کمی اور اس کی آلودگی سے نمٹنا ایک چیلنچ ہے ۔
پانی کی اس اہمیت کے پیش نظر اسلام اپنے ماننے والوںکو پانی کے مناسب استعمال اور اس کی حفاظت پر زور دیتا ہے ۔ ایک مسلمان کو اپنے دین فرائض کی ادائیگی کے لیے پانی کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے اور ایسا پانی جو رنگ ،بو اور ذائقہ تینوں اوصاف کے لحاظ سے صاف ہو ۔یہی ضرورت مسلمان کو پانی کی حفاظت پر مجبور کرتی ہے۔قرآن مجید میں ضرورت سے زائد خرچ کرنے کی ممانعت کی گئی ہے ،ارشاد ہے ۔
کُلُوا وَ اشرَبُوا وَلَا تُسرِفُوا اِنَّه لَا يُحِبُّ المُسرِفِینَ
ترجمہ : کھاو اور پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو ،بے شک اللہ تعالیٰ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔کُلُوا وَ اشرَبُوا وَلَا تُسرِفُوا مِن رِّزقِ اللهِ وَلَا تَعثَو ا فِی الاَرضِ مُفسِدِینَ
ترجمہ : اللہ کادیا ہوا رزق کھاو اور پیو ،اور زمین پر فساد مت پھیلاو۔
اللہ تعالیٰ کو انسان کی خستہ حالی عزیز نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ اس کے عطا کردہ نعمتوں کو استعمال کیا جائے کیونکہ یہ چیزیں اسی انسان کے لیے پیدا کیں ہیں لیکن ان کا بے جا استعمال ممنوع ہے ، رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے:
اَنَّ رَسُولُ اللهِ مَرَّ بِسَعد وَ هُوَ یَتَوَضَّاَ فَقَالَ مَا هَذاالسَّرفُ فَقَالَ اَفِی الوُضُو اسرَاف قَالَ نَعَم وَ اِن کُنتَ عَلیٰ نَهر جَار
ترجمہ : ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کا گزر سیدنا سعدؓپر ہوا ،وہ وضو کر رہےتھے،آپﷺنے ان سے فرمایا یہ کیا اسراف کر رہے ہو تو انہوں نے عرض کیا کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے آپﷺ نے فرمایا ہان اگرچہ تم بہتی نہر کے کنارے ہی کیوں نہ ہو ۔
اسی طرح شریعت نے پانی کو آلودہ کرنے کی سے منع کیا ہے ،رسول اللہﷺکا ارشاد ہے ۔
لَا یَبُولَنَّ اَحَدَکُم فِی المَاءِ الدَّائِمِ الَّذِی لَا یَجرِی ثُمَّ یَغتَسِلُ فِیه تم میں سے کوئی بھی کھڑے پانی میں پیشاپ نہ کرے ۔
یہ امر بالکل واضح ہے کہ پانی کے اہمیت دین اسلام میں مسلمہ ہے اور اس کی حفاظت اور معتدل استعمال پر بڑا زور دیا گیا ہے ۔
زمین کی آبادکاری
اللہ تعالیٰ نے انسان کو آباد کرنے کے لیے اس اس زمین کو پیدا کیا
هُوَ الَّذِی اَنشَاَکُم مِنَ الاَرضِ وَ استَعمَرَکُم فِیهَا
ترجمہ : اسی نے تم کو زمین میں پیدا کیا اور اس میں تمہیں آباد کیا ، انسان کی بحیثیت خلیفہ یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس زمین کی حفاظت کرے ،اسے آباد کرے ۔ قدرتی ماحول کی سرسبز و شادابی ایک صحت مند معاشرے کی ضرورت ہے اوراس ضرورت کا ادراک کرتے ہوئے رسول ا للہﷺ نے ان تمام اقدامات کو سراہا ہے جو عمومی ماحول کو تروتازہ بنائے ۔ درخت ،پودے اور سبزہ ہماری فضا کونکھارتی اور صاف ستھرا بناتے ہیں ،اسی لیے درختوں کی افزائش کو ایک مستحسن عمل قرار دیا گیا ہے ،رسول اللہ ﷺکا ارشاد ہے :
مَا مِن مُسلِم یَغرِسُ غَرسًا اَو یَزرِعُ زَرعًا فَیاکُلُ مِنه طَیرًا اَو اِنسَان اَو بَهِیمَة الِّا کَانَ لَه صَدَقَة
ترجمہ : جو مسلمان کوئی درخت یا کھیتی اگاتا ہے، جس سے کوئی پرندہ یا انسان یا حیوان کھاتا ہے، تو یہ بھی اس کے لیے باعث ثواب ہے۔
بنجر اور بے آباد زمینوں کی بحالی کے لیے شریعت نے یہ اصول وضع کیا ہے کہ جو شخص ایسی زمین کو جو کہ کسی کی ملکیت نہ ہو اسے آباد کرے وہ اس کا مالک تصور ہو گا ۔
گذشتہ مضمون کا حاصل یہ ہوا کہ معاشرے کی پائیدار ترقی کے لیے ماحولیاتی نظام کا تحفظ ہر انسان کی ذمہ داری ہے، جس سے نہ صرف خود مستفید ہو سکتا ہے، بلکہ سارماحول، معاشرہ پر امن اور خوشحال ہو گا ۔ یہی تصور قرآن وحدیث میں توازن، اعتدال، تقدیر اور میانہ روی وغیرہ مختلف انداز اور متعدد اسالیب کے ساتھ کئی ایک مواقع پر استعمال ہوا ہے، کیونکہ اسلامی معاشرہ ہی تہذیوں کے تصادم میں ایک ایسی ماحولیاتی نظام کے بقاء کی تعلیم دیتی ہے، جو بنی نوع انسان،درند، پرندو چرند کی نہ صرف حفاظت کرتا ہے، بلکہ اس کے لیے ایک بہترین نظام بھی مہیا کرتا ہے۔
حوالہ جات
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |