2
2
2015
1682060029336_550
34-46
https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/94/84
https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/94
آج کا دور میڈیا کا دور کہلاتا ہے، اسی وجہ سے میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے، میڈیا نے جہاں بہت سی آسانیاں اور سہولتیں مہیا کر رکھی ہیں وہیں اس کے کچھ منفی پہلو اور نقصانات بھی ہیں۔ میڈیا کو دورِ حاضر میں مختلف مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، ان مقاصد میں سے ایک بنیادی مقصد اس کا تجارتی استعمال ہے۔تجارت کے پیشے سے وابستہ لوگ اپنے کاروبار کی تشہیر وفروغ کے لئے ہمیشہ سے مختلف ذرائع استعمال کرتے آئے ہیں، موجودہ دور میں عالمی سطح پر تجارت کی تشہیر کا سب سے بڑا ذریعہ میڈیا ہے، اسی لئے بڑے بڑے سرمایہ کار اور کارخانوں وفیکٹریوں کے مالکان اپنی مصنوعات کی سیل بڑھانے کے لئے اس اہم ترین ذریعے کو استعمال میں لاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ عصرِ حاضر میں ایڈورٹائزنگ ایک نہایت منافع بخش کا روبار کی شکل اختیار کر چکا ہےکیونکہ ہر بڑی کمپنی اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لئے سالانہ کروڑوں روپے ایڈورٹائزنگ پر خرچ کرتی ہے۔ شریعتِ اسلامیہ جس طرح انسان کو جائز طریقے سے کاروبار کی اجازت دیتی ہے اسی طرح شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے تجارت اور مصنوعات کی تشہیر کی بھی اجازت دیتی ہے، مگر تشہیر میں ایسا طریقہ اختیار کرنا جو شرعی حدود کے منافی ہو، یا معاشرے پر منفی اثرات مرتب کرتا ہو، شرعی اور اخلاقی اعتبار سے درست نہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ایڈورٹائزنگ کے شرعی اور اخلاقی پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے تاکہ اس اہم مسئلے کے صحیح حدود متعین ہو جائیں اور مسلمان اپنی تجارت کی تشہیر کے لئے شرعی حدود میں رہتے ہوئے ایڈورٹائزنگ کریں۔ زیرِ نظر آرٹیکل میں ایڈورٹائزنگ کے ان پہلوؤں پر غور کرنا مقصود ہے۔
ایڈورٹائزنگ کا تعارف:
ایڈورٹائزنگ (Advertising) انگریزی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے: خبردار کرنا، اشتہار دینا اور اعلان کرنا (1)۔ عربی زبان میں اس کے لئے "اعلان" کا لفظ استعمال ہوتا ہےجس کا معنیٰ ہے: المجاهرة بقصد الشيوع و الانتشار.(2)" کسی بات کو پھیلانے اور عام کرنے کے لئے اعلان کرنا"۔ اردو زبان میں عام طور پر اس کے لئے تشہیر کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، تاہم عرف میں ایڈورٹائزنگ کا مفہوم بہت وسیع ہے جس میں مصنوعات کی تشہیر، لوگوں کو مصنوعات خریدنے پر آمادہ کرنا اور لوگوں کے دلوں میں اپنی تیار کردہ اشیاء کا مثبت پہلو اور فوائد اتارنا شامل ہیں۔
ایڈورٹائزنگ کے ذرائع:
عصرِ حاضر میں ایڈ ورٹائزنگ کے ذرائع بنیادی طور پر تین قسم کے ہیں:
۱۔ آوٹ ڈور میڈیا ۲۔ الیکٹرانک میڈیا ۳۔ پرنٹ میڈیا
۱۔ آوٹ ڈور میڈیا:
آوٹ ڈور میڈیا میں سڑکوں، شاہراہوں اور عوامی جگہوں پر لگے ہوئے پینافلیکس، سائن بورڈز، بل بورڈز اور ہورڈنگز وغیرہ شامل ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ یہ عصرِ حاضر میں باقاعدہ کاروبارہ کی صورت اختیار کر چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ مین شاہراہوں پر چند دن کے لئے اشتہار لگوانے کے واسطے بھاری بھر کم معاوضے ادا کرنے پڑتے ہیں۔
۲۔ الیکٹرانک میڈیا:
اس میں ریڈیو، ٹیلی ویژن اور انٹر نیٹ شامل ہیں، مگر ایڈورٹائزنگ کے لئے ان میں سب سے نمایاں اور کثیر الاستعمال ٹی وی ہے، مختلف چینلز پر وقفے وقفے سے مختلف نوعیت کے اشتہارات کی بھرمار ہوتی ہے یہاں تک کہ میڈیا کے اخراجات کی وصولی کا سب سے بڑا ذریعہ ایڈورٹائزنگ ہے۔ اسی طرح انٹرنیٹ جس نے پوری دنیا کو ایک گلوبل ویلج کی حیثیت دی ہے، بھی تشہیر کا ایک بہت بڑا اور اہم ذریعہ ہےیہاں تک کہ انٹر نیٹ پر مختلف کمپنیوں کے اشتہارات چلانا بے شمار لوگوں کا ذریعہ آمدن ہے اور اس کے لئے باقاعدہ سائٹس بنی ہوئی ہیں جن پر بڑی بڑی کمپنیوں کے اشتہارات چلانے کے لئے باقاعدہ پروفیشنل کمپنیاں موجود ہیں۔
۳۔ پرنٹ میڈیا:
اس سے مراد اخبار، رسائل، میگزین اور جرائد وغیرہ ہیں، یہ بھی ایڈورٹائزنگ کے اہم ذرائع میں سے ہیں، بلکہ اخبارات اور رسائل کی کمائی کا اصل ذریعہ ہی گویا اشتہارات ہیں۔
مذکورہ تینوں ذرائع کو کاروباری تشہیر کے لئے بکثرت استعمال کیا جاتا ہے، اگرچہ ان کے استعمال کی صورتیں مختلف ہیں، اسی طرح اوقات بھی ہر ایک کے الگ الگ ہوتے ہیں، بعض اشیاء کی ایڈورٹائزنگ کم مدت کے لئے ہوتی ہے جب کہ بعض کی زیادہ مدت کے لئے، اسی طرح ان تینوں ذرائع کے اخراجات بھی مختلف ہیں، تاہم ایک بات سب میں مشترک ہے اور وہ یہ کہ اس کی بعض صورتیں اور طریقے شریعت اور اخلاق کے دائرے سے خارج ہیں، ذیل میں ایڈورٹائزنگ کے مفاسد اور خرابیوں کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے:
ایڈورٹائزنگ کے شرعی حدود:
اسلامی شریعت چونکہ عالمگیریت کا حامل ہے، اس لئے اس میں ہر حالت کے لئے بھرپور اور کامل راہنمائی موجود ہے۔ اسلام نے مسلمانوں کو ناجائز تجارت سے منع فرمایا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ(3)
اے ایمان والو! دوسروں کا مال ناحق مت کھاؤ مگر یہ کہ باہمی رضامندی سے تجارت ہو"۔ اس آیت میں مسلمانوں کے دوسرے کا مال ناحق اور غیر شرعی طریقے سے لینے سے منع فرمایا گیا ہے جس طرح تجارت غیر شرعی طریقے سے کرنا ناجائز ہے، اسی طرح غیر شرعی طریقے سے اس کی ایڈوٹائزنگ بھی ناجائز ہے۔ ذیل میں ایڈورٹائزنگ کے بعض اہم مفاسد شرعی دلائل کی روشنی میں ذکر کئے جاتے ہیں:
۱۔ ایڈورٹائزنگ اور مبالغہ آرائی:
ایڈورٹائزنگ کے فوائد کے ساتھ ساتھ اس کا ایک اہم منفی پہلو یہ ہے کہ عموماً یہ مبالغہ آرائی پر مشتمل ہوتی ہے، یعنی اگر کوئی پراڈکٹ حقیقت میں بہت سی خصوصیات کا حامل بھی ہو تو ایڈورٹائزنگ میں صرف اس کے حقیقی اوصاف کے بیان پر اکتفاء نہیں کیا جاتا، بلکہ انہیں اس قدر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے جو مبالغہ کے حدود میں داخل ہو جاتا ہےجب کہ شریعت کا تقاضا یہ ہے کہ بات صاف صاف کی جائے اور اس میں مبالغہ آرائی اور حدود سے تجاوز نہ کی جائے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ جو سید الاولین والآخرین ہیں آپﷺ نے اپنی ذات کے بارے میں بھی مبالغہ آرائی سے منع فرمایا ہے، چنانچہ حضرت مطرف بن عبد اللہ اپنے والد ماجد سے روایت کرتے ہیں کہ میں بنی عامر کے ایک وفد کے ہمراہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، ہم نے آپﷺ پر سلام کیا، سلام کے بعد بنو عامر کے لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ ہمارے والد ہیں، ہمارے سردار ہیں، ہم پر بہت مہربانی اور سخاوت فرمانے والے ہیں، آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
قولوا بقولكم لا تستهوينكم الشياطين(4)
"اپنی بات کہو، کہیں شیاطین تمہیں راہِ راست سے نہ ہٹائیں"۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مبالغہ آرائی اور کسی چیز کی تعریف میں حدسے تجاوز گمراہی اور بے راہ روی کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "لا تناجشوا" (5) "نجش (دھوکہ اور فریب) نہ کرو"۔ اس کی تشریح میں علامہ ابن الاثیرؒ فرماتے ہیں:
لا تناجشوا: النجش في الأصل: المدح والإطراء، والمراد به في الحديث الذي ورد النهي عنه: أنه يمدح السلعة، ويزيد فيها وهو لا يريدها ليسمعه غيره فيزيده، وهذا خداع محرم (6)
"نجش کا مطلب ہے تعریف اور مبالغہ آرائی، جس حدیث میں نجش سے ممانعت آئی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اشیاء کی تعریف میں مبالغہ کیا جائے، اور خود نیت اس کی خریداری کی نہ ہو بلکہ دوسروں کو سنانا مقصود ہو تاکہ وہ اس کو مہنگا خریدیں اور یہی دھوکہ اور حرام ہے"۔
اس سے واضح ہو گیا کہ کسی چیز کی تعریف میں مبالغہ آرائی اور حد سے تجاوز ناجائز اور شریعت کے خلاف ہے۔
۲۔ ایڈورٹائزنگ اور جھوٹ:
ایڈورٹائزنگ کی ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میں بسا اوقات کسی پراڈکٹ کے بارے میں ایسی باتیں کی جاتی ہیں جو حقیقت کے خلاف ہوتی ہیں، نیز پراڈکٹ کو اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ اس میں کوئی نقصان اور خرابی ہی نہیں، حالانکہ کسی پراڈکٹ کے عیب کو چھپانا اور اس کے ایسے اوصاف بیان کرنا جو درحقیقت اس میں نہ ہوں شرعاً منع ہے، چنانچہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لا يَحِلُّ لامْرِيءٍ مسلمٍ يبيعُ سِلْعَةً يَعْلَمُ أَنَّ بها داءً إِلا أَخْبَرَ به (7)
"جو مسلمان کسی ایسی چیز کو بیچتا ہو جس کے بارے میں اس کو معلو م ہو کہ اس میں یہ عیب اور خرابی ہے تو اس کے لئے جائز نہیں کہ اس کا عیب بتائے بغیر اس کو فروخت کرے"۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی عیب دار چیز کے عیب کو چھپانا درست نہیں، جب کہ موجودہ حالات میں کسی
بھی تشہیر میں کسی چیز کے عیب کی نشاندہی نہیں ہوتی بلکہ ہر پراڈکٹ کو اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ
گویا یہ سراپا خوبی ہے اور اس میں عیب اور خرابی نام کی کوئی چیز نہیں۔
خریدو فروخت میں جھوٹ بولنے کا ایک نقصان یہ ہے کہ اس کی وجہ سے برکت ختم ہو جاتی ہے، چنانچہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
البيعان بالخيار ما لم يتفرقا أو قال حتى يتفرقا فإن صدقا وبينا بورك لهما في بيعهما وإن كتما وكذبا محقت بركة بيعهما (8)
"بیچنے والے اور خریدنے والے کو (معاملہ ختم کرنے کا) اختیار ہے جب تک وہ دونوں الگ نہ ہو جائیں، اگر وہ دونوں سچ بولیں اور حقیقتِ حال بتا دیں تو ان کی خریداری میں برکت ہوتی ہے اور اگر وہ جھوٹ بولیں اور حقیقتِ حال چھپا دیں، تو ان کے معاملے سے برکت ختم کر دی جاتی ہے"۔
اس حدیث سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ خرید وفروخت میں جھوٹ بولنا نہ صرف ناجائز ہے بلکہ یہ دنیوی خسارے اور بے برکتی کا بھی ذریعہ ہے۔ لہٰذا ایڈورٹائزنگ میں جھوٹ سے اجتناب بہت ضروری ہے۔
3۔ ایڈورٹائزنگ اور فحاشی:
عصرِ حاضر کے اشتہارات خواہ وہ الیکٹرانک میڈیا پر ہوں یا پرنٹ اور آوٹ ڈور میڈیا کے ذریعے ہوں، ان میں سب سے غالب عنصر فحاشی،عریانی اور بے حیائی کا فروغ ہے، چنانچہ آج کے اشتہارات درحقیقت پراڈکٹس کی تشہیر کا ذریعہ کم اور بے حیائی اور بے راہ روی کا ذریعہ زیادہ ہیں۔ تقریباً ہر کمپنی کے اشتہارکا ایک بڑا حصہ فحش تصاویر پر مشتمل ہوتا ہے جو کہ مسلم معاشرہ کے لئے سمِ قاتل سے کسی صورت کم نہیں، ان فحش تصاویر کے ذریعے نوجوان نسل بے راہروی کا شکار ہو جاتی ہے، نیز جاندار اشیاء کی تصاویر بنانا شرعاً ناجائز ہے، حضرت سعید بن ابو الحسنؒ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی خدمت میں موجود تھا کہ ایک شخص نے آ کر کہا اے ابو عباس میرا ذریعہ معاش میرے ہاتھ کی کمائی ہے، میں یہ تصاویر بناتا ہوں، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا: میں آپ کو وہی بات بتاؤں گا جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے، میں نے آپﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:
من صور صورة فإن الله معذبه حتى ينفخ فيها الروح وليس بنافخ فيه (9 )
"جو شخص تصویر بنائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو اس وقت تک عذاب دیتے رہیں گے جب تک وہ اس میں جان نہ
ڈالے اور وہ کبھی بھی اس میں جان نہیں ڈال سکتا۔ یہ سن کر اس شخص کی سانس پھولنے لگی اور اس کا چہرہ زرد ہو گیا، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا: افسوس! اگر تم نے تصویر بنانی ہی ہو، تو درخت اور ان اشیاء کی تصویر بناؤجو بے جان ہیں"۔
اس حدیث سے جاندار کی تصاویر بنانے کی حرمت اور اس پر وعیدِ شدید واضح ہو گئی۔ جہاں تک ایسی تصاویر کا تعلق ہے جوفحاشی کا باعث ہوں ان کی حرمت اور بھی زیادہ اشد ہے، قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ(10)
"بے شک جو لوگ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلانا چاہتے ہیں، ان کے لئے دنیا وآخرت میں دردناک عذاب ہے"۔
اس آیت کی تفسیر میں فحاشی کی مختلف صورتیں بیان کرتے ہوئے صوفی عبد الحمید صاحبؒ رقمطراز ہیں:
"یہ آیت بتلا رہی ہے کہ بے حیائی کی تمام باتیں منجملہ زنا، لواطت، برہنگی، عریانی وغیرہ کی تشہیر اور معاشرے کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ اللہ نے ایسے لوگوں کو سزا کا مستحق قرار دیا ہے۔یورپ اور مشرکین کی تہذیب تو اس تشہیر کی بانی مبانی ہیں، آج کے زمانے میں مسلمان قوم کا بھی یہی حال ہے، مسلمان چاہے عرب کے ہوں یا عجم کے، ایرانی ہوں یا تورانی، ہر جگہ بے حیائی کا چرچا ہے، اخباروں اور رسالوں میں دیکھ لیں نیم عریاں تصویروں کی بھر مار ہے، کھیل تماشے کی تصویریں ہوں یا فلمی اشتہارات، فن کے نام پر انٹرویو ہو یا فیشن شو کی خبریں، ہر جگہ عریانی اور فحاشی کا دور دورہ ہےاور تمام اخبارات اور رسائل اس کی تشہیر کا ذریعہ ہیں۔ اب ٹیلیویژن ان سب پر بازی لے گیا ہے جو محض بے حیائی اور فحاشی کا اڈہ بن چکا ہے۔ بہر حال فحش بات کی تشہیر کو سخت ناپسند کیا گیا ہے، اور اس کی وجہ سے دنیا وآخرت کی تذلیل کی وعید سنائی گئی ہے"۔ (11)
اس میں کوئی شک نہیں کہ فحش تصاویر پر مبنی اشتہارات امتِ مسلمہ کی نسلِ نو کے لئے تباہی و بربادی، ان کا مزاج بگاڑنے اور انہیں نفسانی خواہشات کا غلام بنانے کا سبب بننے کی وجہ سے دنیا وآخرت میں باعثِ وبال ہیں کیونکہ مسلمان قوم جب عیش وعشرت اور فحاشی کا راستہ اختیار کر لے تو پھر اس کا انجام تباہی وبربادی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ لہٰذا ایڈورٹائزنگ سے وابستہ افراد پر یہ اہم دینی وملی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ
اشتہارات میں ناجائز تصاویر بنانے سے مکمل اجتناب کریں۔
4۔ ناجائز اشیاء کی ایڈورٹائزنگ:
شریعتِ مطہرہ نے بعض اشیاء کی خرید وفروخت کو ناجائز قرار دے کر ان پر پابندی عائد کی ہے، مثلاً سود، قمار (جوا)، بیوعِ فاسدہ اور جو معاملات سود، قمار اور غرر وغیرہ مفاسد پر مشتمل ہوں، ان معاملات کا کرنا بھی ناجائز ہے اور ان کی ترغیب وتشہیر بھی ناجائز ہے، اسی طرح فلموں، گانے باجے اور ناجائز کاموں کی تشہیر جائز نہیں کیونکہ ان کی ایڈورٹائزنگ ناجائز کاموں کے تعاون کے زمرے میں آتا ہے اور ناجائز کاموں میں تعاون ازروئے قرآن جائز نہیں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (12) " گناہ اور ظلم میں تعاون نہ کرو"۔
اس آیتِ کریمہ میں قرآنِ کریم نے یہ اہم اصول بتا دیا ہے کہ ناجائز اور حرام امور میں کسی کے ساتھ تعاون کرنا بھی ناجائز ہے۔ علامہ آلوسیؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
قوله تعالى:{وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الإثم والعدوان} فيعم النهي كل ما هو من مقولة الظلم والمعاصي، ويندرج فيه النهي عن التعاون على الاعتداء والانتقام. (13)
"یہ حکم ہر اس بات میں تعاون کی حرمت کو شامل ہے جو ظلم اور نافرمانی کے قبیل سے ہو اور اس میں زیادتی اور انتقام بھی شامل ہے۔اس میں شک نہیں کہ ناجائز معاملات پر لوگوں کو ابھارنا ظلم اور ناانصافی ہے"۔ فقہاء کرامؒ کی عبارات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ معصیت کے لئے سببِ قریب اور باعث بننا معصیت کے ارتکاب کی طرح حرام ہے، چنانچہ امام شاطبیؒ اپنی معروف کتاب" الموافقات" میں رقمطراز ہیں:
إيقاع السبب بمنزلة إيقاع المسبب، قصد ذلك المسبب أو لا؛ لأنه لما جعل مسبب عنه في مجرى العادات؛ عد كأنه فاعل له مباشرة(14)
"سبب کا ارتکاب مسبب کے ارتکاب کی طرح ہےچاہے اس مسبب کا قصد وارادہ کیا ہو یا نہ کیا ہو، کیونکہ جب یہ کام عرف و عادت میں اس کا مسبب اور نتیجہ ہے تو گویا اس شخص نے سبب کا ارتکاب کرکے مسبب ہی کا ارتکاب کیا"۔ چند صفحات کے بعد تحریر فرماتے ہیں:
فالفاعل ملتزم لجميع ما ينتجه ذلك السبب من المصالح أو المفاسد، وإن جهل تفاصيل
ذلك. (15)
"سبب کا ارتکاب کرنے والا ان تمام اچھائیوں اور برائیوں کا ذمہ دار ہے جو اس سبب کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں، چاہے اس کو ان مصالح ومفاسد کی تفصیلات معلوم نہ ہوں"۔
حرام کے اسباب کی تفصیل بیان کرتے ہوئے مفتی محمد شفیع صاحبؒ رقمطراز ہیں:
"پھر سببِ قریب کی بھی دو قسمیں ہیں: ایک سبب جالب وباعث جو گناہ کے لئے محرک ہو کہ اگر یہ سبب نہ ہوتا تو صدورِ معصیت کے ہونے کی کوئی ظاہری وجہ نہ تھی، ایسے سبب کا ارتکاب گویا معصیت ہی کا ارتکاب ہے ۔ نصِ قرآنی میں جہاں سبب کو حرام قرار دیا ہے، جیسے سبّ اٰلہ مشرکین یا عورتوں کے لئے ضربِ ارجل یا خصوع بالقول یا تبرج جاہلیت یہ سب اسی قسم کے اسباب ہیں کہ معصیت کی تحریک کرنے والے اور جالب وباعث ہیں، ایسے اسباب کا ارتکاب معصیت ہی کا ارتکاب سمجھا جاتا ہے، اس لئے باتفاق حرام ہیں"۔ (16)
مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں ناجائز اور حرام کاموں کی ایڈورٹائزنگ ناجائز ہےبلکہ اس ایڈورٹائزنگ کے نتیجے میں جتنے لوگ ان ناجائز کاموں کا ارتکاب کریں گے، ایڈورٹائزنگ کرنے والے افراد ان سب لوگوں کے گناہوں میں شریک ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
من سن في الإسلام سنة سيئة كان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أوزارهم شيء.(17)
"جس نے اسلام میں کسی برائی کی بنیاد رکھی تو اس پر اپنے عمل کا وبال بھی ہو گا اور ان لوگوں کے اعمال کا بھی جو اس کے بعد یہ عمل کریں گے اور اس کی وجہ سے ان کے وبال میں کوئی کمی نہیں ہو گی"۔
اسی طرح امام بخاریؒ نے صحیح البخاری میں باب قائم کیا ہے:
باب إثم من دعا إلى ضلالة أو سن سنة سيئة(18)
"باب اس شخص کے گناہ کے بارے میں ہے جو گمراہی کی طرف بلائے یا گناہ کی بنیاد رکھے"۔
امام بخاری نے اس کے تحت مختلف روایات ذکر کر کے اس کی حرمت واضح فرمائی ہے۔ لہٰذا ایڈورٹائزنگ سے وابستہ افراد کی یہ ذمہ داری ہے کہ ناجائز اور غیر شرعی امور کی تشہیر سے اجتناب کریں ورنہ جو لوگ ان کی وجہ سے کسی حرام اور ناجائز امر کا ارتکاب کریں گے ان کے گناہ میں یہ برابر کے شریک ہوں گے اور جب تک لوگ ان غیر شرعی امور کا ارتکاب کرتے رہیں گے ان کے اعمال نامے بھی سیاہ ہوتے رہیں گے۔ اس لئے دنیا کے عارضی فائدے کے حصول کے لئے اپنی آخرت کو نقصان پہنچانا کسی طرح بھی عقلمندی نہیں ہے۔
اس کے علاوہ بعض اشیاء ایسی ہوتی ہیں جو اگرچہ فی نفسہٖ جائز ہوتی ہیں مگر عوام الناس کی مصلحت اور فائدے کی خاطر ان سے منع کیا جاتا ہے، چنانچہ جن اشیاء کا استعمال صحت کے لئے مضر ہو، مثلاً سگریٹ، پان، گٹکا اور نشہ آور اشیاء، ایسی اشیاء کی ایڈورٹائزنگ بھی درست نہیں کیونکہ یہ تمام اشیاء ایک صالح اسلامی معاشرے کی تشکیل میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
5۔ ایڈورٹائزنگ اور تعیش پرستی:
ایڈورٹائزنگ کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے اکثر ایسی اشیاء کی تشہیر کی جاتی ہے جو لوگوں کی بنیادی ضرورت کا درجہ نہیں رکھتیں، ان غیر اہم اور غیر ضروری اشیاء کی تشہیر کے نتیجے میں لوگوں کے اندر انہیں خریدنے کا جذبہ ابھرتا ہے اور لوگ تعیش پرستی کا شکار ہوتے ہیں جب کہ اسلام نے ہمیں سادگی اپنانے اور تعیش پرستی سے بچنے کی تعلیم دی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
"إياك والتنعم فإن عباد الله ليسوا بالمتنعمين"(19)
"خوش عیشی سے بچو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے خوش عیش نہیں ہوتے"۔
لہٰذا ایڈورٹائزنگ کا یہ پہلو بھی قابلِ اصلاح ہے کہ اس میں غیر ضروری اشیاء اور تعیشات کی زیادہ تشہیر نہ ہو جس کی وجہ سے عوام میں ان کی ڈیمانڈ پیدا ہوتی ہےاور پھر وہ اس ڈیمانڈ کو پورا کرنے کے لئے مال حاصل کرنے کے لئے مختلف جائز وناجائز ذرائع اختیار کرتے ہیں۔
6۔ ایڈورٹائزنگ اور غریب طبقے میں مایوسی:
ایڈورٹائزنگ کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ جب غیر ضروری اشیاء کی تشہیر ہوتی ہے تو جو لوگ ان کے حصول کی قدرت نہیں رکھتے وہ احساسِ کمتری اور مایوسی کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں جس کے نتیجے میں معاشرہ تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے اور بہت سے نفسیاتی اور معاشرتی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
7۔ ایڈورٹائزنگ اور اسراف:
ایڈورٹائزنگ کی ایک بڑی خرابی اسراف ہے۔عصرِ حاضر میں ہر بڑی کمپنی اپنے پراڈکٹس کی تشہیر پر زرِ کثیر
خرچ کرتی ہے۔ایک مختصر دورانیے پر مشتمل تشہیری فلم بنانے پر لاکھوں روپے کے اخراجات آتے ہیں۔ اسی طرح ٹیلی وژن پر تشہیر چلانے اور انٹر نیٹ پر اشتہار کی بکنگ کے لئے بھی بہت سے اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ یہ اخراجات غیر ضروری ہونے کی وجہ سے اسراف اور فضول خرچی کے زمرے میں آتے ہیں جس سے بچنا ازروئے قرآن اہلِ ایمان کی صفت ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَالَّذِينَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَامًا(20)
"یہ وہ لوگ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ ہی کنجوسی، بلکہ ان دونوں کے درمیان (اعتدال سے) خرچ کرتے ہیں"۔
اسی طرح اسراف اور فضول خرچی کو قرآنِ کریم نے شیطانی کام قرار دے کر اس سے منع فرمایا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا() إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ(21)
"اسراف مت کرو کیونکہ اسراف کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں"۔
رسول اللہ ﷺنے بھی فضول خرچی سے بچنے اور اخراجات میں میانہ روی اپنانے کی ترغیب دی ہے۔ ارشاد ہے: الاقتصاد في النفقة نصف المعيشة(22) "خرچ کرنے میں میانہ روی اختیار کرنا آدھی معیشت ہے"۔
اس کے علاوہ اس کی ایک خرابی یہ ہے کہ مصنوعات بنانے والی کمپنیاں یہ تمام اخراجات ان کی قیمتوں میں شامل کرکے لوگوں سے وصول کرتی ہیں اور اس طرح عوام پر غیر ضروری بوجھ ڈالا جاتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ ایڈورٹائزنگ کے اخراجات دینی اور اخلاقی لحاظ سے ممنوع ہیں اور اس کا معاشی نقصان یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں اشیاء کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں جس کا سارا بوجھ صارفین پر پڑتا ہے۔
خلاصہ بحث:
1۔ میڈیا کے فوائد کے ساتھ ساتھ اس میں بہت سارے مفاسد اور خرابیاں بھی ہیں، بحیثیتِ مسلمان ان برائیوں سے بچنا لازم اور ضروری ہے۔
2۔ شرعی حدود کی رعایت کرتے ہوئے اپنی مصنوعات اور کاروبار کی تشہیر جائز ہے۔
3۔ ایڈورٹائزنگ میں مبالغہ آرائی، جھوٹ اور اسراف سے اجتناب ضروری ہے۔
4۔ ناجائز اور حرام اشیاء کی ایڈورٹائزنگ بھی ناجائز ہے، لہٰذا مسلمان ہونے کے ناطے اس سے احتراز لازم ہے۔
5۔ ایڈورٹائزنگ کے ذریعے لوگوں میں تعیش پرستی اور احساسِ کمتری پھیلانے سے گریز کرنا چاہئے۔
6۔ ایڈورٹائزنگ کے ذریعے فحاشی اور بے حیائی کو فروغ دینا دینی اور اخلاقی ہر اعتبار سے منع ہے، لہٰذا اس شعبے سے وابستہ لوگوں کا فریضہ ہے کہ اس ناجائز اور غیر اخلاقی عمل سے مکمل اجتناب کریں۔
حوالہ جات:
1: Oxford dictionary, oxford university press Pakistan
2: معجم المصطلحات والالفاظ الفقهية، محمود عبد الرحمٰن عبد المنعم، دارالفضيلة، القاهرة، ج:1، ص:237۔
3:سورۃ النساء: 29۔
4: سنن النسائی، أبو عبد الرحمن أحمد بن شعيب النسائی، باب ذكر اختلاف الأخبار في قول القائل سيدنا وسيدي، رقم الحديث: 1004۔
5: السنن الكبرى، أبو بكر أحمد بن الحسين بن علی البيهقی، باب النهى عن النجش، رقم الحديث: 11199۔
6: جامع الأصول فی أحاديث الرسول، مجد الدين أبو السعادات المبارك بن محمد الجزری ابن الأثير (المتوفى : 606ھ)، مكتبۃ الحلوانی، ج: 1، ص: 504۔
7: جامع الأصول فی أحاديث الرسول، ج:1، ص: 499۔
8: صحيح البخاری، محمد بن اسماعيل البخاری، باب إذا بين البيعان ولم يكتما ونصحا، رقم الحديث: ۲۰۷۹۔
9: صحيح البخاری، باب بيع التصاوير التي ليس فيها روح وما يكره من ذلك، رقم الحديث: ۲۲۲۵ ۔
10: النور: 19۔
11: تفسیر معالم العرفان فی دروس القرآن، صوفی عبد الحمید سواتی، ج: ۱۳، ص: ۷۲۹، مکتبہ دروس القرآن فاروق گنج، گوجرانوالہ، گیارہواں طبع : ۱۴۲۹ھ۔
12: سورۃ المائدۃ:2۔
13: روح المعانی، شهاب الدين محمود بن عبدالله الحسينی الألوسی، ج: 4، ص: 370۔
14: الموافقات، إبراهيم بن موسى بن محمد اللخمی الغرناطی الشهير بالشاطبی (المتوفى : 790ھ)، الطبعۃ الأولى: 1417ھ،
ج:1، ص: 335۔
15: الموافقات: ج:1، ص: 338 ۔
16: جواہر الفقہ، مفتی محمد شفیع، مکتبہ دارالعلوم کراچی، ج: 7، ص: 512، طبع: نومبر، 2010م۔
17: صحيح مسلم، مسلم بن الحجاج القشيری (المتوفیٰ: 261ھ)، دار احياء التراث العربی، بيروت، باب الحث على الصدقۃ ولو بشق تمرة ، رقم الحديث: 1017۔
18: صحيح البخاری، دار طوق النجاة، ج:1، ص: 219۔
19: مسند أحمد ،أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني، ج5 ،ص: 243 ،عالم الكتب، بيروت1998۔
20: سورۃ الفرقان: 67۔
21: سورۃ الاسراء: 26، 27۔
22: شعب الإيمان ،أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقی،ج5 ،ص: 254، دار الكتب العلميۃ، بيروت 1410۔
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 2 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2015 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |