2
1
2015
1682060029336_665
1-12
https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/91/72
https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/91
انبیا ء کرام علیہم السلام کو تمام مذاہب میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔یہی وہ ہستیاں ہیں جو انسانیت کے لئے مشغل راہ ہیں۔ان کا احترام کرنا لازمی ہے۔ان کی تحقیر وتذلیل کسی بھی صورت میں جائز نہیں۔موجودہ زمانے میں ان کی زندگیوں پر فلم سازی اور عکس بندی کا ایک سلسلہ شروع ہوا ہے ۔ خصوصا ً یہودی وعیسائی ان فلم سازی میں کا فی دلچسپی لے رہے ہیں۔ان کی دیکھا دیکھی بعض مسلم ممالک میں بھی اس قسم کے واقعات رونما ہورہے ہیں ۔ اس آرٹیکل میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ اسلامی شریعت کے احکامات اور ہدایات اس حوالے سے کیا ہیں اور اسلام ہمیں کیا راستہ اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے؟
موجودہ زما نے میں انبیا ء کرام ؑ کی زندگیوں پر جو فلم سازی ہو رہی ہے اس میں مندرجہ ذیل خامیاں پائی جا تی ہیں جن کی وجہ سے یہ فعل جواز نہیں رکھتا۔
(۱)غیر نبی کو نبی کی صورت میں پیش کرنا:
انبیاء علیہم السلام پر بننے والی فلموں میں نبی کا کردار کوئی اداکار پیش کرتاہے ،جس میں کئی قباحتیں ہیں:
(الف) جھوٹ: جھوٹ ایک قبیح فعل اور معاشرتی برائی ہے قرآن کریم میں اسے اللہ تعالیٰ کی لعنت کا سبب بتایا گیا: فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ۔ (1)مذکورہ فلموں میں غیر نبی کو نبی بنا کر پیش کیا جاتا ہے،چونکہ اصل ونقل میں تفاوت ضرور ہوتا ہے اس لئے یہ بالفعل جھوٹ ہوا اور جھوٹ چاہے بالفعل ہو یا بالقول، حرام ہے۔ بالخصوص انبیاء ؑ کے متعلق جھوٹ بولنے پر حدیث مبارک میں وعید آئی ہے۔رسول اللہﷺ نے فرمایا:من كذب علي متعمدا فليتبوأ مقعده من النار۔ (2)
(ب) اہانتِ نبی: ان فلموں میں نبی کا کردار فاسق و فاجر اداکارپیش کرتا ہے ،جو نبی کی اہانت و تحقیر ہے۔قاضی ابویوسف ؒ (3) فرماتے ہیں: ایما رجل سب رسول اللهﷺ او کذبه اوعابه او تنقصه فقد کفر بالله تعالى وبانت منه امرأته ۔ (4)
"جس شخص نے رسول اللہ ﷺ کو گالی دی یا اس کی تکذیب کی یا اس کے عیب بیان کئے یا اس کی تنقیص کی تو اس نے اللہ تعالیٰ کا کفر کیا اور اس کی بیوی اس سے جدا (طلاق)ہوگئی"۔
(ج) غیر نبی کا خود کو نبی کہنا:ان فلموں میں جن اداکاروں کو نبی کی صور ت میں پیش کیا جاتا ہے،وہ اپنے آپ کو خود بھی پیغمبر کہتا ہے اور دوسرے بھی اس کو پیغمبرکہہ کر پکارتے ہیں۔حالانکہ خود کو نبی کہنا کفر ہے،علامہ ابن عابدین ؒ (5)فرماتے ہیں:لو قال: أنا رسول الله أو قال بالفارسية من بيغمبرم يريد به من بيغام مى برم يكفر۔ (6)
"اگر کسی شخص نے کہا کہ میں اللہ کا پیغمبر ہوں یا فارسی میں کہا کہ میں پیغمبر ہوں تو یہ شخص کافر ہوگیا"۔
اسی طرح اس کو نبی کہنے والا بھی کافر ہوگا ۔لسان الحکام میں ہے :ولو ادعى رجل النبوة فطلب رجل منه المعجزة قال بعضهم يكفر (7)۔ "اگر کسی شخص نے نبوۃ کا دعویٰ کیا اورکسی دوسرے نے اس سے معجزہ طلب کیا تو بعض کہتے ہیں کہ یہ(معجزہ طلب کرنے والا) کافر ہوگیا"۔جب کسی کذاب مدعی نبوت سے معجزہ طلب کرنا کفر ہے ، تو کسی کونبی کہنا بطریق اولیٰ کفر ہوگا۔
(د)نقل اتارنا:ان فلموں میں نبی کا کردار پیش کرنے والا جیسے انبیاء علیہم السلام کی نقل اتار رہا ہو،حالانکہ نقل اتارنا کسی عام انسان کی بھی جائز نہیں۔سنن ترمذی میں ایک روایت منقول ہے: حكيت للنبي صلى الله عليه وسلم رجلا فقال ما يسرني أني حكيت رجلا وأن لي كذا وكذا۔ (8)
"کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کے سامنے ایک شخص کی نقل اتاری گئی تو فرمایا: مجھے اس بات سے خوشی نہیں ہوتی کہ میں کسی کا نقل اتاروں"۔جب عام انسان کی نقل اتارنا ممنوع و حرام ہے تو انبیاء علیہم السلام جو عظمت کے مینار ہیں ،ان کی نقل اتارنا تو بلا شک و شبہ حرام ہے۔
(ر) نبی کی شکل و صورت اختیار کرنا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : من رآني في المنام فقد رآني فإن الشيطان لا يتمثل في صورتي۔(9)
"جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو یقیناً اس نے مجھے دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا"۔
اس حدیث مبارک سے ثابت ہوتا ہے کہ شیطان نبی کی صورت اختیار نہیں کرسکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک نبی کی صور ت اختیار کرنا انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔شیطان جو ہر کسی کی صورت اختیار کرسکتا ہے،اللہ تعالیٰ نے اس کو یہ قدرت نہیں دی کہ کسی نبیؑ کی صورت اختیار کرے۔اس کا مقصد انبیا ء علیہم السلام کے عظمت کی حفاظت ہے۔ان فلموں میں جو اداکار نبی کی صورت میں پیش ہوتے ہیں ،ان کا یہ عمل اتنا قبیح ہے کہ شیطان کے بس سے بھی باہر ہے۔
غیر ِ نبی کو نبی کی صورت میں پیش کرنے میں جو قباحتیں ذکر ہوئی ان میں کوئی ایک بھی پائی جاتی ،تو ان فلموں کی حرمت کے لئے کافی تھی اور جب یہ تمام بیک وقت موجود ہیں ،تو اس کے حرمت میں کوئی شبہ نہیں رہتا۔
(۲) اسرائیلی روایات:
ان فلموں میں دکھائے جانے والے اکثر واقعات موضوع روایات پر مبنی ہوتے ہیں جن کا کوئی اصل نہیں ہوتا،جب کہ بعض واقعات اسرائیلی روایات کو بنیاد بناکر پیش کئے جاتے ہیں اور قرآن وحدیث سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔حالانکہ انبیاء کرام ؑ کے جو واقعات قرآن کریم میں جس طرح مذکور ہیں ، اس میں اپنی طرف سے یا موضوع واسرائیلی روایات کو بنیاد بنا کرکمی وزیادتی دین کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔
(۳) شان انبیاءؑ کی تنقیص:
اللہ تعالیٰ نے انبیاء ؑ کو تمام مخلوقات پر فضیلت دی اور ان کے متعلق فرمایا :وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِينَ۔ (10)
"اور ان میں سے ہر ایک کو ہم نے تمام عالم پر فضیلت دی ہے"۔اس فضیلت کا تقاضا ہے کہ ان کے عظمت وفضیلت کو نقصان پہچانے والے اقوال و افعال سے بچا جائے جب کہ کسی نبی کی زندگی پر فلم بنانا،ان کی عظمت و وقار کے منافی اورکسی اداکار کو نبی کی صور ت میں پیش کرنا ان کی توہین ہے۔
فلم و ڈرامے چونکہ لہو ولعب کے زمرے میں آتے ہیں اور نبوت جیسے اعلیٰ مقام کو لہو و لعب کے طور پر استعمال کرنے سے اس کی تنقیص ہوتی ہے،جو کہ حرام ہے۔
(۴) تصاویرِ انبیاءؑ:
شریعتِ اسلامی میں تصویر کی حرمت پر واضح احکامات موجود ہیں۔رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا گیا ہے: إِنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَذَابًا عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ القِيَامَةِ المُصَوِّرُونَ۔(11)علامہ نوویؒ (12)فرماتے ہیں: قَالَ أَصْحَابُنَا وَغَيْرُهُمْ مِنَ الْعُلَمَاءِ تَصْوِيرُ صُورَةِ الْحَيَوَانِ حَرَامٌ شَدِيدُ التَّحْرِيمِ وَهُوَ مِنَ الْكَبَائِرِ۔ (13)"ہمارے علماء نے فرمایا ہے کہ کسی حیوان کی تصویر بنانا شدید حرام ہے اور یہ کبائر میں سے ہے"۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عام جاندار کی تصویر حرام اور کبائر میں سے ہے۔ظاہر ہے کہ انبیاءؑ کی تصویر بنانا اور ویڈیو جو بیک وقت کئی تصاویر کا حکم رکھتی ہے،بطریقِ اولیٰ حرام و ممنوع ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :إن أولئك إذا كان فيهم الرجل الصالح فمات بنوا على قبره مسجدا وصوروا فيه تلك الصور فأولئك شرار الخلق عند الله يوم القيامة۔ (14)اس حدیث مبارک میں رسول اللہ ﷺ نے پچھلی امتوں کے ایک بدترین عمل کا بیان فرمایا ہےکہ وہ لوگ انبیاءؑ کی وفات کے بعد ان کی تصاویر بناتے تھے اور یہی ان کی گمراہی کا سبب بنا ۔ جب کہ انبیاءؑ پر بننے والی فلموں میں باقاعدہ انبیاءؑ کے کردار کو ویڈیو کی صورت میں دکھایا جاتا ہے،تو ظاہر ہے اس عمل کی برائی اور اس سے پیدا ہونے والی گمراہی تصاویر سے بڑھ کر ہوگی۔
(۵) اختلاط مرد وزن:
مرد وزن کا اختلاط غیر مشروع اور معاشرتی برائی ہے جب کہ عام فلموں کے ساتھ ساتھ انبیاءؑ کی زندگی پر بننے والے فلم میں یہ خلاف شریعت کام لازمی جزو کی حیثیت رکھتی ہے۔جس نبی ؑ کی زندگی پر فلم بنایا جاتا ہے اسی فلم میں اس نبی کے احکامات کو پامال کرکے ان کی دعوت اور شریعت کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔جس سے انبیاءؑ کی تعلیمات بے معنیٰ ہو کر رہ جاتی ہیں۔
(۶) موسیقی کے آلات کا استعمال:
لہو و لعب اور گانا بجانے کو شریعتِ اسلامی میں حرام قرار دیا گیا ہے،ایک حدیث مبارک میں اسے نفاق کا سبب قرار دیا گیا:الغناء ينبت النفاق في القلب ۔ (15)"گانا بجانا دل میں نفاق کو پیدا کرتا ہے"۔
موسیقی فلموں کا جزولاینفک بن چکا ہے لہٰذا یہ مان بھی لیا جائے کہ ان فلموں میں دکھائے جانے والے واقعات صحیح ہیں ،تب بھی موسیقی کی وجہ سے ایسی فلمیں بنانا اور دیکھنا حرام ہیں اور گانے و لہو و لعب کے ساتھ انبیاءؑ کا کردار پیش کرنا مقام ِ نبوت کی تحقیر ہے۔
(۷) مشابہتِ کفار:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:من تشبه بقوم فهو منهم (16) اسی طرح ایک اور حدیث مبارک میں منقول ہے:ليس منا من تشبه بغيرنا لا تشبهوا باليهود ولا بالنصارى۔ (17)"وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جس نے غیر کی مشابہت اختیار کی اور تم لوگ یہود اور نصاری کی مشابہت اختیار نہ کرو"۔
ان دونوں احادیث مبارکہ میں دوسرے اقوام کی مشابہت پر انتہائی سخت الفاظ میں نکیر فرمائی گئی ہے۔ انبیاءؑ کی تصاویر بنانا غیر مسلم اقوام (یونانیوں ) کا شیوہ رہا ہے۔چونکہ ان فلموں میں انبیاءؑ کی تصویریں اور ویڈیو بنائی جاتی ہیں، لہٰذا یہ غیر مسلم اقوام کی مشابہت ہےاور حرام ہے۔
(۸) عالم برزخ کے حالات دکھانا:
ان فلموں میں عالم برزخ کے حالات بھی دکھائے جاتے ہیں جو مکمل جھوٹ پر مشتمل ہوتے ہیں۔ عالم برزخ کے حالات اوروہاں کی نعمتوں ا ورعذاب کا انسانی ذہن احاطہ نہیں کر سکتی اور گمان و ظن اس معاملےمیں کوئی فائدہ نہیں دیتی:إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا۔ (18)اس لئے محض اپنے خیالات
اور گمان کے مطابق اسے فلما کر دکھانا اس کی وقعت گھٹانا اور اسے مذاق بنانا ہے۔
(۹) سد الذرائع:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ۔ (19)
اس آیتِ کریمہ سے ایک قاعدہ مستنبط ہوتا ہے ،وہ یہ کہ جو کام بذات خود تو گناہ نہ ہو مگر گناہ کی طرف لے جانے والا ہو ،تو وہ شرعاً ممنوع ہوگا ،اس کو سد الذرائع کہتے ہیں ۔انبیاءعلیہم السلام پر بننے والی فلموں سے کئی کبیرہ گناہوں کے دروازے کھل جانے کا خطرہ ہے،بلکہ بعض اوقات کفر میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ان گناہوں میں چند درج ذیل ہے:
(۱) استہزاء :
اہل سنت والجماعت کے نزدیک کسی بھی نبیؑ کا استہزاء و مذاق اڑانا کفر ہے۔اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کے عظمت وتقدس کی خاطر استہزاء تو کیا استہزاء کے شائبہ سے بھی منع فرمایا ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوا وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ (20)۔رَاعِنَا کا لفظ بذات ِ خود استہزاء نہیں ،لیکن یہود رسول اللہ ﷺ کو بطور استہزاء رَاعِنَا (ہمارے چرواہے)کہہ کر پکارتے تھے ،اس لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو رسول اللہ ﷺ کو اس لفظ کے ساتھ مخاطب کرنے سے منع کیا ،اگرچہ ان کی نیت استہزاء کی نہیں ہوتی تھی۔ (21) علامہ قرطبی ؒ (22) اس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ : في هذه الآية دليلان أحدهماعلى تجنب الألفاظ المحتملة التي فيها التعريض للتنقيص والغض الدليل الثاني- التمسك بسد الذرائع۔ (23)"اس آیت میں دو دلیلیں ہیں۔ ایک یہ کہ ان الفاظ سے بچا جائے جس میں تنقیص اور کم تری کا احتمال ہو اور دوسری دلیل اس میں تمسک سد ذرائع ہے"۔
ان فلموں میں انبیاء علیہم السلام کو انتہائی ذلت آمیزحالات میں دکھایا گیا ہےاور حقارت آمیز القابات سے پکارا گیا ہے،جس سے ان الفاظ کے ادا کرنے والے کے کافر ہونے میں تو کوئی شک نہیں ،لیکن دیکھنے اور سننے والے بھی ان الفاظ کے اثر سے محفوظ نہیں رہتے اور یہ خطرہ موجود ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام کے استہزاء کو معمولی سمجھ کر اس میں مبتلا ہو جائیں۔
(۲) استخفاف دین:
انبیاء ،فرشتوں اور شعائر دین کا استخفاف چاہے بغیر ارادے کے ہو، کفر ہے:من هزل بلفظ كفر ارتد وإن لم يعتقده للاستخفاف۔ (24) "جس نے (نبیؑ) کا لفظاً مذاق اڑایا تو وہ مرتد ہوگیا اگر چہ اس کا عقیدہ استخفاف کا نہ ہو"۔
امداد الاحکام میں انبیاء یا شعائر ِدین کی تحقیر کےمتعلق لکھا ہے کہ چاہے استہزاء و استخفاف کا قصد نہ کیا ہو تب بھی استخفاف دین سے انسان کافر ہو جاتا ہے۔ (25) جب کہ علامہ شبیر احمد عثمانیؒ (26)فرماتے ہیں کہ احکام ِ الہٰیہ کا استخفاف توایسی چیز ہے کہ اگر محض زبان سے دل لگی کےطور پر کیا جائے ،وہ بھی کفر عظیم ہے،چہ جائیکہ منافقین کی طرح ازراہِ شرارت و بد باطنی ایسی حرکت سرزد ہو۔ (27)
ان فلموں میں فلمی اداکاروں کو انبیاء علیہم السلام کی صورت میں اورفرشتوں کو انسانی صورت میں پیش کرنے اور انبیاء کو گالیاں دینے سے ،ان ہستیوں کا استخفاف کیا گیا ہے ،جو دیکھنے والوں کے ذہنوں میں بھی ان کی استخفاف وتحقیر کا بیج بو دیتا ہے۔
اسی طرح قرآن کریم میں ارشادِ ربانی ہے:لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا۔ (28) اس آیت کریمہ میں واضح طور پر اس بات سے منع کیا گیا کہ نبی کو عام انسانوں کی طرح نہ پکارو ،جب کہ ان فلموں میں نبی کا کردار پیش کرنے والے کو عامیانہ لہجے میں پکارا جاتا ہے،جو دیکھنے والوں کے سامنے مقام نبوت کی منزلت کو گرا دیتا ہے۔
انبیاءؑ پر بننے والی فلموں میں انبیاءؑکے کردار کو ایسی صور ت اور ایسے کام کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے جو مقام نبوت کے ساتھ مناسب نہیں۔جیسے سیدنا آدم وحوا علیہما السلام کے کرداروں کو بغیر کپڑوں کے دکھایا گیا،سیدنا یعقوب کے کردارکوجزع وفزع کرتے دکھایا گیا ، سیدنا داؤدؑ کے کردارکو موسیقی کا شوقین بتایا گیا،سیدنا یوسف ؑ کےکردارکو خشخشی داڑھی اور ننگے سر دکھایا گیا۔یہ تمام باتیں انبیاءؑ کی عظمت وعصمت کو متأثر کرنے کا سبب بننے والی ہیں۔
ان فلموں میں مندرجہ بالا قباحتیں اگر براہ راست نہ بھی پائی جائیں،تو اتنا خطرہ ضرور موجود ہے کہ یہ فلم ان برائیوں کا سبب بنے ،اگر ایسا ہےتو سد الذرائع کے طور پر یہ فلمیں حرام ہیں۔
اوپر ذکر کئے گئے دلائل سے یہ ثابت ہو چکا کہ انبیاءؑ کی زندگی پر فلمیں بنانا شریعتِ اسلامی کے اصولوں سے
متصادم اور حرام ہیں ۔ان فلموں کے اداکاروں کے متعلق بھی ثابت ہو چکا ہےکہ ان کا یہ کام غیر شرعی اور بعض حالات میں کفر تک پہنچتا ہے۔لیکن مسلمانوں کے لئے اس فلم کو دیکھنے کا حکم معلوم نہ ہو سکا لہٰذا ذیل میں اس کا حکم بیان کیا جاتا ہے۔
انبیاءؑ پر بننے والی فلموں کو دیکھنا:
سور ۃ النور میں ارشادِ ربانی ہے :قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ (29)"
اے پیغمبرؐ ! کہہ دیجئے مؤمنوں کو کہ اپنی نگاہیں نیچے رکھیں"۔ابوبکر جصاص ؒ (30) اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہاں ہر اس چیزسے نظر بچانے کا حکم دیا گیا ہے،جس کی طرف نظر کرنا حرام ہو۔ (31) اسی طرح تکملہ فتح الملہم میں ٹیلی ویژن کے متعلق کہا گیا : اما التلفزیون والفدیو فلا شک فی حرمة استعمالها بالنظر الی ما یشتملان عليه من المنكرات الكثيرة۔ (32)
"ٹیلی وژن اور ویڈیو کے کے حرمت میں کوئی شک نہیں ہے کیونکہ یہ دونوں بہت سے منکرات پر مشتمل ہوتے ہیں"۔
ان دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ ان فلموں کا دیکھنا مسلمانوں پر حرام ہے ۔ ان فلموں میں گانے سننے اور غیر محرم عورتوں کو دیکھنےجیسے محرمات کے علاوہ دیگر قباحتیں بھی موجود ہیں ،جن کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے ۔اس لئے عام فلموں کے مقابلے میں انبیاءؑ کی زندگیوں پر بننے والی فلموں کی حرمت شدید ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ(33)اس آیتِ کریمہ کی رو سے گناہ کے کام میں تعاون حرام و غیر مشروع ہے۔جب کہ ان فلموں کو دیکھنا ایک طرح سے اس میں تعاون کرنا ہے۔کیونکہ کیبل کے ذریعے دیکھنے ان چینلز کی ریٹنگ میں بہتری ان کے ساتھ تعاون ہے اور اگر سینما وغیرہ کے ذریعےدیکھا جائے ،تو ان کی آمدنی میں اضافے کی صورت میں ان لوگوں سے تعاون ہے۔اس لئے قرآنی احکامات کو مدنظر رکھتے ہوئےیہ کہنا بالکل بجا ہوگا کہ ان فلموں کودیکھنے والے بھی اس گناہ میں شریک ہوتے ہیں۔
انبیاءؑ پر بننے والی فلموں کی حرمت پر عرب وعجم کے علماء متفق نظر آتے ہیں لیکن بعض علماء ایسے بھی ہیں جو اس کو جائز سمجھتے ہیں ۔ان کی دلیل یہ ہے کہ چونکہ موجودہ دور میں اکثر لوگ ٹیلی ویژن اور ابلاغ کے جدید ذرائع استعمال کرتے ہیں اس لئے انبیاءؑ کی تعلیمات اور زندگی کو فلموں کے ذریعے ان تک
آسانی سے پہنچایا جا سکتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :لا يأتي الخير بالشر (34)"خیر کبھی شر کی وجہ سے نہیں آسکتا"۔
اس حدیث مبارک سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتاکہ شر کسی عملِ خیر کاذریعہ بنے ،اس لئے انبیاءؑ کی زندگی پر بننے والے فلموں میں موجودہ قباحتوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا ناممکن ہےکہ اس سے لوگوں کو خیر و فائدہ پہنچے گا۔
اسی طرح قاعدہ ہے:درء المفاسد أولى من جلب المنافع۔ (35)" فائدہ کے حاصل کرنے سے مفاسد سے بچنا اولیٰ ہے "۔اس قاعدے کی رو سے اگر کسی کام میں فائدہ و نقصان برابر ہو ،تو نقصان سے بچنے کے لئے فائدے کو ترک کرنا لازم ہوگا۔ان فلموں کے مفاسد تو لاتعداد ہیں اور فائدہ حاصل ہونےکی امید موہوم ہے۔اس لئے یہ لازم ہے کہ ان فلموں کےیقینی مفاسد سے بچنے کے لئےموہوم فائدہ کو ترک کر دیا جائے اور ان فلموں کی روک تھام کی جائے۔
تجاویز:
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:من رأى منكم منكرا فليغيره بيده فإن لم يستطع فبلسانه فإن لم يستطع فبقلبه وذلك أضعف الإيمان(36)" تم میں سے جو کوئی بھی کسی منکر کا م کودیکھے تو اس کو ہاتھ سے روک لےاور اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روک لے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل میں اس کو برا جانے اور یہ کمزور ایمان ہے"۔
اسی طرح ایک اور حدیث مبارک میں بھی یہی مضمون دوسرے الفاظ کے ساتھ وارد ہے:إن الناس إذا رأوا المنكر لا يغيرونه أوشك أن يعمهم الله بعقابه۔ (37) "جب لوگ کسی منکر کو دیکھے اور اس کو نہ روکے تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی عذاب سب کے لئے عام کردے"۔
ان احادیث مبارکہ میں امت مسلمہ پر یہ بات لازم کی گئی ہے کہ جب معاشرے میں کوئی برائی پھیلے تو ہر کسی پر اپنے استطاعت کے مطابق لازم ہے کہ اسے روکے ۔چونکہ انبیاءؑ کی زندگی پر بننے والی فلمیں لوگوں کے ایمان کے لئے خطرہ ہیں ،اس لئے ان فلموں پر پابندی لگانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
رہی یہ بات کہ یہ فلمیں ا نبیاءؑ کی تعلیمات کو ان اکثر لوگوں تک پہنچانےکے لئے بنائی جاتی ہیں جو ٹیلی وژن اور ابلاغ کے دوسرے جدید ذرائع استعمال کرتے ہیں ۔اس کا حل یہ ہے کہ جس قدر ممکن ہو ،نصابی کتب
میں انبیاءؑ کی تعلیمات شامل کی جائیں۔
ذرائع ابلاغ کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ ان فلموں کی تشہیر اور نشر کرنے سے گریز کریں اور خلاف ورزی کی صورت میں مناسب سزا دی جائے،جس کی مثال پاکستان میں یوٹیوب پر پابندی کی صورت میں موجود ہے۔
نتائج:
• انبیاءؑ کی زندگیوں پر فلمیں بنانا شریعتِ اسلامی کے قواعد کی رو سے حرام ہے۔
• ان فلموں میں پیش کئے جانے والے واقعات اکثر بے اصل اور خود ساختہ ہوتی ہیں۔
• یہ فلمیں انبیاءؑ اور مقام ِ نبوت کی استخفاف کا سبب بنتی ہیں اور ان سے انبیاءؑ اور شعائر دین کے استہزاء کا دروازہ کھلنے کا خطرہ ہے۔
• ان فلموں کے مفاسد چونکہ فائدے سے زیادہ ہے ،اس لئےموہوم فائدےکو چھوڑکر یقینی مفاسد سے بچنا ضروری ہے۔
• ان فلموں کو دیکھنا گناہِ کبیرہ ہےیہ دیگر برائیوں کے ساتھ ساتھ برائی کےکام میں تعاون بھی ہے۔
• امت مسلمہ کے ہر فرد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہےکہ اپنے دائرہ اختیار میں اس فتنے کے دفع کرنے کی کوشش کریں۔
حواشی و حوالہ جات
1: آل عمران : ۶۱
2 : بخاری ، محمد بن اسمٰعیل ، صحیح البخاری،کتاب العلم،باب اثم من کذب علی النبیﷺ،رقم ۱۱۰،دار طوق انجاۃ، بیروت،۱۴۲۲ھ/۲۰۰۲ء۔
3: امام ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم(۱۱۳ھ۔۱۸۲ھ)امام ،مجتہد،محدث اورقاضی القضاۃ تھے۔آپ نے امام ابوحنیفہؒ سے علوم حاصل کئے۔آپ کی تصانیف میں کتاب الخراج ،کتاب الآثار اور ادب القاضی شامل ہیں۔( الذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ۸/ ۵۳۵،دار الحدیث، القاہرۃ،۱۴۲۷ھ/۲۰۰۶ء)۔
4: ابن عابدین، محمد امین بن عمر، رد المحتار علی الدر المختار،۴ : ۲۳۴،دار الفکر،بیروت،۱۴۱۲ھ/۱۹۹۲ء۔
5: ابن عابدین ، احمد بن عبد الغنی بن عمر(۱۲۳۸ھ۔۱۳۰۷ھ)فقۂ حنفی کے ماہر فقیہ اور مفتی تھے۔آپ نے بیس(۲۰) کتابیں تصنیف کی۔آپ کے رسائل بہت مشہور ہوئے۔( الزرکلی، خیر الدین بن محمود ، الاعلام، ۱ / ۱۵۲،دار العم للملایین، بیروت،۱۴۲۲ھ /۲۰۰۲ء)۔
6: تاویٰ عالمگیریہ،لجنۃ علماء بریاسۃ بلخی،۲ : ۲۶۳،دار الفکر،بیروت،۱۳۱۰ھ/۱۸۹۰ء۔
7: ابن شخنۃ ، محمد بن احمد، لسان الحکام،۱ : ۴۱۵،البابی الحلبی،قاہرہ،۱۳۹۳ھ/۱۹۷۳ء۔
8: الترمذی،محمد بن عیسیٰ بن سورہ ، سنن ترمذی، ابواب صفۃ القیامۃ والرقائق و الورع،باب ما جاء فی صفۃ اوانی الحوض،حدیث : ۲۵۰۲، شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفیٰ البابی،مصر۔
9: صحیح البخاری،کتاب العلم،باب اثم من کذب علی النبیﷺ،حدیث: ۱۱۰۔
10: الانعام: ۸۶۔
11: صحیح البخاری،کتاب اللباس،باب عذاب المصورین یوم القیامۃ،حدیث: ۵۹۵۰۔
12: محی الدین ابو زکریا یحییٰ بن شرف النووی(۶۳۱ھ۔۶۷۶) امام ،حافظ ،عابد اور زاہد انسان تھے۔ حدیث میں انتہائی مہارت رکھتے تھے۔آپ کی تصنیفات میں المنہاج،ریاض الصالحین اور تہذیب الاسماء و اللغات مشہور ہیں(الاعلام ،۸ : ۱۴۹)۔
13: النووی ، یحییٰ بن شرف ،المنہاج شرح مسلم ، ۱۴ : ۸۱،دار احیاء التراث العربی،بیروت،۱۳۹۲ھ/۱۹۷۲ء۔
14: صحیح البخاری،کتاب الصلوٰۃ،باب هل تنبش القبور مشرکی اهل الجاهلیة،حدیث : ۴۲۷۔
15: سنن ابی داؤد،کتاب الادب،باب کراہیۃ الغناء والزمر،۴۹۲۷۔
16: ایضاً، باب فی لبس الشہرۃ،حدیث: ۴۰۳۱۔
17: سنن ترمذی ،ابواب الاستیذان والآداب،باب ما جاء فی کراہیۃ اشارۃ الید بالسلام،حدیث: ۲۶۹۵۔
18: یونس : ۳۶۔
19: الانعام : ۱۰۸۔
20: البقرۃ: ۱۰۴۔
21: الطبری، محمد بن جریر ، تفسیر الطبری، ۲ : ۴۶۰،مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت،۱۴۲۰ھ/۲۰۰۰ء۔
22: محمد بن احمدبن ابی بکر بن فرح القرطبی(۶۰۰ھ ۔۶۷۱ھ)قرطبہ میں پیدا ہوئے اور پھر مصر ہجرت کی۔آپ زاہد اور متبحرعالم اور اپنے زمانے کے ائمہ میں سے تھے۔آپ کی تصانیف میں تفسیر جامع احکام القرآن مشہور ہے۔(طبقات المفسرین، احمد بن محمد الادنہوی،۱ / ۲۴۶، مکتبۃ العلوم و الحکم،السعودیۃ،۱۴۱۷/۱۹۹۷ھ)۔
23: تفسیر محمد بن احمد القرطبی،۲ : ۵۷،دار الکتب المصریۃ،قاہرہ،۱۳۸۴ھ/۱۹۶۴ء۔
24: الدرالمختار،۴ / ۲۲۲۔
25: امداد الاحکام،مولانا ظفر احمد عثمانی،۱ / ۱۵۰،مکتبہ دارالعلوم کراچی،کراچی،۱۴۲۸ھ/۲۰۰۷ء۔
26: علامہ شبیر احمد عثمانی بن مولانا فضل الرحمٰن(۱۳۰۵ھ/۱۸۸۷ء ۔ ۱۳۶۹ھ/۱۹۴۹ء) بجنور ہندوستان میں پیدا ہوئے۔دارلعلوم دیوبند میں مختلف اوقات میں ۲۷سال تدریس کے خدمات سرانجام دئیے۔آپ کی تصانیف میں علم الکلام، فتح الملہم،فضل الباری اور شیخ الہندؒ کے ترجمۂ قرآن پر حواشی (تفسیر عثمانی)مشہور ہیں۔ تذکرہ و سوانح علامہ شبیر احمد عثمانی، مولانا عبد القیوم حقانی،۱۴ تا ۴۳ ،القاسم اکیڈمی۔نوشہرہ، پاکستان ، ۱۴۲۶ھ/۲۰۰۶ء)۔
27: تفسیر عثمانی،علامہ شبیر احمد عثمانی،۲۶۱،مجمع الملک فہد لطباعۃ المصحف الشریف،مدینۃ المنورۃ،۱۴۰۹ھ/۱۹۸۹ء۔
28: النور: ۶۳۔
29: النور : ۳۱۔
30: احمد بن علی الجصاص(۳۰۵ھ۔۳۷۰ھ) نے ابوبکر رازی کے نام سے شہرت پائی ۔حصول علم کے لئے بہت زیادہ سفر کئے۔آپ کی تصنیفات میں احکام القرآن اور الفصول فی الاصول مشہور ہیں۔(الاعلام،۱ : ۱۷۱)۔
31: الجصاص، احمد بن علی ابوبکر ، الرازی احکام القرآن ، ۵ : ۱۷۱،دار احیاء التراث العربی،بیروت،۱۴۰۵ھ/۱۹۸۵ء۔
32: تکملہ فتح الملہم ،مفتی محمد تقی عثمانی،۴ : ۹۸ ،مکتبہ دالعلوم کراچی،کراچی،۱۴۳۰ھ/۲۰۰۹ء۔
33: المائدۃ : ۲۔
34: صحیح البخاری،کتاب الزکوۃ،باب الصدقۃ علی الیتامیٰ،حدیث: ۱۴۶۵۔
35: القواعد الفقہیۃ و تطبیقتہا،محمد مصطفیٰ الزخیلی،۱ : ۲۳۹،دار الفکر، دمشق،۱۴۲۷ھ/۲۰۰۶ء
36: النیشاپوری ، مسلم بن حجاج ، صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب : کون النہی عن المنکر من الایمان،حدیث: ۷۸،دار احیاء التراث العربی ، بیروت۔
37: ابن ماجہ القزوینی، محمد بن یزید، سنن ابن ماجہ،کتاب الفتن،باب امر بالمعرف والنہی عن المنکر،حدیث: ۴۰۰۵،دار احیاء الکتب العربیۃ،حلب۔
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |