4
1
2017
1682060029336_666
40-65
https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/117/108
توریہ کا معنی و مفہوم
توریہ" عربی زبان کا لفظ ہے جس کا لغوی معنی کسی چیز کو چھپانے کا ہے"۔جیسے کہ قرآن مجید میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے:
فَبَعَثَ اللّهُ غُرَابًا يَبْحَثُ فِي الأَرْضِ لِيُرِيَهُ كَيْفَ يُوَارِي سَوْءةَ أَخِيهِ قَالَ يَا وَيْلَتَا أَعَجَزْتُ
أَنْ أَكُونَ مِثْلَ هَذَا الْغُرَابِ فَأُوَارِيَ سَوْءةَ أَخِي فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ (۱)
ترجمہ : پھر اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کرید رہا تھاتاکہ اس (قاتل) کو دکھائے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپا سکتا ہے۔ (کوے کو دیکھ کر) وہ کہنے لگا افسوس! میں تو اس کوے سے بھی گیا گزرا ہوں کہ اپنے بھائی کی لاش کو چھپا سکتا بعد ازاں وہ اپنےکئے پر بہت نادم ہوا۔
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالی ٰہے:
يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْءَاتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَىَ ذَلِكَ خَيْرٌ ذَلِكَ مِنْ آيَاتِ اللّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ(۲)
ترجمہ :اے بنی آدم! ہم نے تم پر لباس نازل کیا جو تمہاری شرمگاہوں کو چھپاتا ہے اور زینت بھی ہے اور لباس تو تقویٰ ہی کا بہتر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ تاکہ لوگ کچھ سبق حاصل کریں۔
اصطلاحی معنی کے لحاظ سے ایسی بات کو توریہ کہا جاتا ہے جس میں کہنے والا ایک ایسی بات کرتا ہےجس سے سننے والا کچھ سمجھے لیکن بات کرنے والا اس سے کوئی اور ممکنہ معنی مراد لیتا ہو، مثلاً کوئی یہ کہے کہ میری جیب میں ایک درہم بھی نہیں ہے، سننے والا اس سے یہ سمجھے کہ اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے ، لیکن کہنے والے کا مقصد یہ ہو کہ میرے پاس چاندی کا درہم تو نہیں لیکن سونے کا دینار ہے، اسی کو "توریہ" کہا جاتا ہے۔
توریہ بروزنِ توصیہ، بعض اوقات اس کو معاریض یا تعریض سے بھی تعبیرکیا جاتاہے اس سے مراد ہے ایسی بات کہنا جس کاایک ظاہر ی مفہوم ہو لیکن کہنے والے کی مراد کچھ اورہو ،اگرچہ سامع کی نظر ظاہری مفہوم کی طرف ہی جاتی ہو۔مثلاً کوئی شخص کسی آدمی سے سوال کرتا ہے کہ تم سفر سے کب آ ئے ہو ؟وہ کہتاہے : غروب سے پہلے . حالاں کہ وہ ظہر سے پہلے آ یا ہے . سننے والا اس کلام سے غروب سے تھوڑا سا پہلے سمجھتا ہے ، جب کہ کہنے والے کا ارادہ زوال سے پہلے ہے ، کیوں کہ وہ بھی غروب سے پہلے ہے۔
توریہ کی ضرورت
توریہ ایک ایساعمل ہے جس کے ذریعہ سےآدمی جھوٹ سے بچ جاتا ہےجیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے(۳)اور کام بھی چلا دیتا ہےاور اپنے مقصد میں کامیابی بھی حاصل کر لیتا ہے۔ دنیوی امورمیں،ضرر سے بچنے کے لئے، خوش طبعی کے لیے اورخصوصاً اُخروی امورمیں کسی مصلحت کی بنا پر، نبی کریم ﷺ سے توریہ کا جواز ثابت ہے۔ بلکہ مستحب ہے جیسا کہ صاحب شرح الشفا نے تصریح کی ہے۔(۴)
عمو ما ْ شر سے بچنے کے لئے توریہ کیا جاتا ہے مثلاً سعید بن جبیر کے حالات میں منقو ل ہے کہ حجّاج نے ان سے پوچھا کہ تمہارانظر یہ میرے متعلق کیساہے ؟انہوں نے کہا :میرے نظر یہ کہ مطابق “تو عادل ہے”،حجاج کے مصاحبین اورحامی خوش ہوگئے ۔ حجّاج نے کہا اس نے اس بات سے میرے کفر کاحکم صادر کیاہے ، کیوں کہ عادل کاایک معنی حق سے باطل کی طرف عدول کرنے والا اور منہ پھیر لینے والا ہے۔
ناجائز توریہ کی مثال فتاوٰی عالمگیری میں یہ ذکر کی گئی ہےکہ اگر کوئی شخص دوسرے سے سوال کرتاہے : “کیا تونے کھا نا کھایا ہے ” ؟ وہ کہتا ہے : ہاں سامع اس بات سے یہ سمجھتا ہے کہ اس نے آج کھالیاہے جب کہ اس کی مراد یہ ہے کہ اس نے کل کھانا کھایا ہے۔ یہ جھوٹ ہے۔(۵)
توریہ اور حضرت ابراہیم :۔
حضرت ا بوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا:
لَمْ يَکْذِبْ إِبْرَاهِيمُ النَّبِيُّ عَلَيْهِ السَّلَام قَطُّ إِلَّا ثَلَاثَ کَذَبَاتٍ ثِنْتَيْنِ فِي ذَاتِ اللَّهِ قَوْلُهُ إِنِّي سَقِيمٌ وَقَوْلُهُ بَلْ فَعَلَهُ کَبِيرُهُمْ هَذَا وَوَاحِدَةٌ فِي شَأْنِ سَارَةَ فَإِنَّهُ قَدِمَ أَرْضَ جَبَّارٍ وَمَعَهُ سَارَةُ وَکَانَتْ أَحْسَنَ النَّاسِ فَقَالَ لَهَا إِنَّ هَذَا الْجَبَّارَ إِنْ يَعْلَمْ أَنَّکِ امْرَأَتِي يَغْلِبْنِي عَلَيْکِ فَإِنْ سَأَلَکِ فَأَخْبِرِيهِ أَنَّکِ أُخْتِي فَإِنَّکِ أُخْتِي فِي الْإِسْلَامِ فَإِنِّي لَا أَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ مُسْلِمًا غَيْرِي وَغَيْرَکِ فَلَمَّا دَخَلَ أَرْضَهُ رَآهَا بَعْضُ أَهْلِ الْجَبَّارِ أَتَاهُ فَقَالَ لَهُ لَقَدْ قَدِمَ أَرْضَکَ امْرَأَةٌ لَا يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تَکُونَ إِلَّا لَکَ فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا فَأُتِيَ بِهَا فَقَامَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَام إِلَی الصَّلَاةِ فَلَمَّا دَخَلَتْ عَلَيْهِ لَمْ يَتَمَالَکْ أَنْ بَسَطَ يَدَهُ إِلَيْهَا فَقُبِضَتْ يَدُهُ قَبْضَةً شَدِيدَةً فَقَالَ لَهَا ادْعِي اللَّهَ أَنْ يُطْلِقَ يَدِي وَلَا أَضُرُّکِ فَفَعَلَتْ فَعَادَ فَقُبِضَتْ أَشَدَّ مِنْ الْقَبْضَةِ الْأُولَی فَقَالَ لَهَا مِثْلَ ذَلِکَ فَفَعَلَتْ فَعَادَ فَقُبِضَتْ أَشَدَّ مِنْ الْقَبْضَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ فَقَالَ ادْعِي اللَّهَ أَنْ يُطْلِقَ يَدِي فَلَکِ اللَّهَ أَنْ لَا أَضُرَّکِ فَفَعَلَتْ وَأُطْلِقَتْ يَدُهُ وَدَعَا الَّذِي جَائَ بِهَا فَقَالَ لَهُ إِنَّکَ إِنَّمَا أَتَيْتَنِي بِشَيْطَانٍ وَلَمْ تَأْتِنِي بِإِنْسَانٍ فَأَخْرِجْهَا مِنْ أَرْضِي وَأَعْطِهَا هَاجَرَ قَالَ فَأَقْبَلَتْ تَمْشِي فَلَمَّا رَآهَا إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَام انْصَرَفَ فَقَالَ لَهَا مَهْيَمْ قَالَتْ خَيْرًا کَفَّ اللَّهُ يَدَ الْفَاجِرِ وَأَخْدَمَ خَادِمًا۔(۶)
ترجمہ : حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تین مرتبہ کے علاوہ کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ دو جھوٹ تو اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے تھے،ان میں سے ایک یہ کہ انہوں نے یہ فرمایا کہ میں بیمار ہوں۔ دوسرا یہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ فرمانا کہ ان بتوں کو ان کے بڑے بت نے توڑا ہے اور تیسرا حضرت سارہ کے بارے میں ان کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک ظالم و جابر بادشاہ کے ملک میں پہنچے اور ان کے ساتھ (ان کی بیوی) حضرت سارہ (رضی اللہ عنہا)بھی تھیں اور وہ بڑی خوبصورت خاتون تھیں۔ حضرت ابراہیم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی سے فرمایا اگر اس ظالم باد شاہ کو اس بات کا علم ہو گیا کہ تو میری بیوی ہے تو وہ تجھےمجھ سے چھین لے گا اور اگر وہ بادشاہ تجھ سے پوچھے تو تو اسے بتانا کہ یہ میرا بھائی ہے کیوں کہ تو میری اسلامی بہن ہے اور اس وقت پوری دنیا میں میرے اور تیرے علاوہ کوئی مسلمان بھی نہیں ۔ پھر جب یہ دونوں اس ظالم باد شاہ کے ملک میں پہنچے ۔اس بادشاہ کے ملازم حضرت سارہ کو دیکھنے کے لیے آن پہنچے (حضرت سارہ رضی اللہ عنہاکو دیکھنے کے بعد) ملازموں نے بادشاہ سے کہا کہ تمہارے ملک میں ایک ایسی عورت آئی ہے جو تمہارے علاوہ کسی کے لائق نہیں اس ظالم بادشاہ نے حضرت سارہ کو بلوا لیا حضرت سارہ کو بادشاہ کی طرف لایا گیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نماز کے لیے کھڑے ہو گئے تو جب حضرت سارہ اس ظالم بادشاہ کے پاس آ گئیں تو اس ظالم نے بے اختیار اپنا ہاتھ حضرت سارہ (رضی اللہ عنہا)کی طرف بڑھایا تو اس ظالم کا ہاتھ جکڑ دیا گیا وہ ظالم کہنے لگا کہ تو اللہ سے دعا کر کہ میرا ہاتھ کھل جائے میں تجھے کوئی تکلیف نہیں دوں گا ۔حضرت سارہ (رضی اللہ عنہا)نے دعا کی اس کا ہاتھ کھل گیا پھر دوبارہ اس ظالم نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو پہلے سے زیادہ اس کا ہاتھ جکڑ دیا گیا اس نے پھر دعا کے لیے حضرت سارہ (رضی اللہ عنہا)سے کہا حضرت سارہ نے پھر اس کے لیے دعا کر دی اس ظالم نے تیسری مرتبہ پھر اپنا (ناپاک) ہاتھ بڑھایا پھر پہلی دونوں مرتبہ سے زیادہ اس کا ہاتھ جکڑ دیا گیا وہ ظالم کہنے لگا کہ تو اللہ سے دعا کر کہ میرا ہاتھ کھل جائے اللہ کی قسم! تجھے کبھی تکلیف نہیں دوں گا حضرت سارہ (رضی اللہ عنہا)نے دعا کی تو اس کا ہاتھ کھل گیا، اور اس ظالم نے پھر اس آدمی کو بلایا کہ جو سارہ کو لے آیا تھا وہ ظالم بادشاہ اس ملازم آدمی سے کہنے لگا کہ تو میرے پاس (نعوذ باللہ) شیطانی کو لایا ہے ، انسان نہیں لایا ،تو اس ظالم نے حضرت سارہ (رضی اللہ عنہا)کو اپنے ملک سے نکال دیا اور حضرت ہاجرہ (رضی اللہ عنہا)کو بھی ان کو دے دیا ۔حضرت سارہ حضرت ہاجرہ(رضی اللہ عنہما) کو لے کر چل پڑیں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب ان کو دیکھا تو پلٹے اور ان سے فرمایا کہ کیا ہوا حضرت سارہ (رضی اللہ عنہا)کہنے لگیں خیر ہے اور اللہ نے اس بد کردار ظالم کا ہاتھ مجھ سے روک دیا اور اس نے مجھے ایک خادمہ بھی دلوا دی۔
یہی حدیث صحیح بخاری و صحیح مسلم میں مختلف مقامات پر کہیںمجمل تو کہیںمفصل بیان ہوئی ہےیہ حدیث تین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ، حضرت انس بن مالک اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہم،اور اسے امام بخاری کے علاوہ، امام مسلم، امام ترمذی، امام ابن حبان، امام ابو عوانہ نے بھی صحیح قرار دیا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شانِ معصومیت کی وجہ سے یہ تصور بھی نہیں ہو سکتاکہ ایک جلیل القدر پیغمبر اور اللہ کا خلیل جھوٹ بولے،چوں کہ یہ صورۃً جھوٹ نظر آرہا ہے اس لئے بظاہر ایسا لفظ استعمال کیا گیا اور حقیقت میں یہ توریہ ہےاور توریہ جھوٹ نہیں ہو تا۔دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر سخت مصیبت اور ضرر کا خطرہ ہو تو بڑی مصیبت سے بچنے کے لئے چھوٹی مصیبت یعنی اخف الضررین پر عمل کرنا ضروری ہے۔(۷)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا کلام تو توریہ اور تعریض کے طور پر ہے وہ حقیقت میں جھوٹ ہے ہی نہیں ، البتہ اس بحث کے ضمن میں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ اگر" بل فعلہ کبیرھم "تعریض یا توریہ ہے اسی طرح" انی سقیم" اور" ھی اختی "اگر توریہ ہے تو حدیث شریف میں انہیں کذبات سے کیوں تعبیر کیا گیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ عربی زبان میں کذب یا کذبۃ کے معنی صرف جھوٹ کے نہیں ہیں بلکہ ان کا استعمال توریہ کے لئے بھی ہوتا ہے۔ چناں چہ حدیث شریف میں کذب کے معنی توریہ کے ہیں۔ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی زندگی میں صرف تین مواقع پر توریہ بولا ہے۔
چناں چہ صحیح بخاری شریف کے حاشیہ میں لمعات کےحوالہ سے لکھا ہے۔
والمراد بالکذب الکذب صورۃ لا حقیقۃ فیؤل ذالک بانہ کذب بالنسبۃ الی فھم السامعین امافی نفس الامر فلا(۸)
ترجمہ : یہاں کذب سے مراد حقیقۃً جھوٹ نہیں بلکہ صورۃً جھوٹ ہے لہٰذا اس کی یوں تاویل کی جائے گی کہ یہ سننے والوں کی سمجھ کے اعتبار سے جھوٹ ہے۔ واقع میں جھوٹ نہیں (حقیقت میں یہ توریہ ہے) ۔
سمجھنے والوں کواصل مغالطہ اس حدیث میںاستعمال کئے جانے والے لفظ سے پیدا ہوا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو کلام کیا ہے وہ مبنی پر حقیقت ہے۔ اس لفظ"کذب" کی لغوی تحقیق ملاحظہ فرمائیں۔مؤلف النہایہ فی غریب الاثر نے لکھا ہے کہ کذب کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے مثلاً
کذؔب کےایک معنی ترغیب دلانا بھی مستعمل ہے، مثلاً کذبتہ نفسہ "اس کے دل نے اسے ترغیب دلائی"۔وقال الفراء کذب علیک ای وجب علیک۔ قال الجوھری:کذب قد یکون بمعنی وجب۔
ترجمہ:کذؔب، وجوب کے معنی میں بھی آتا جوہری اور فراء کہتے ہیں:کذب معنی وجب کے ہے۔
کذب، لزم کے معنی میں بھی آتا ہے۔ کذب علیکم الحج و العمرۃ "تم پر حج اور عمرہ لازم ہو گیا ہے۔ (۹)غلطی یا خطا کے معنی میںبھی یہی لفظکذب استعمال ہوتا ہے۔ حدیثمیںہے:کذب ابو محمد(۱۰)
یعنی ابو محمد نے غلطی کی۔اسی طرح اجتہادی غلطی پر بھی کذب کا لفظ بولا جاتا ہے۔ صحیح بخاری میں نوف بقالی کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: کذب عدو اللہ۔ نوف نے غلطی کی یعنی اجتہادی غلطی کی۔(۱۱)اتنی تحقیق اس لفظ کی وضاحت کے لئے کافی ہے،جس ایک لفظ کی بنیاد پر انبیاعلیہم السلام،احادیث مبارکہ اور ائمہ حدیث پر جو گند مچایا جا رہا ہے، وہ انتہائی کمزور دلیل اور ذہنی فتور ہے۔ حافظ ابن قیم نے اس بحث کی نہایت عمدہ وضاحت کی ہے کہ سچ اور جھوٹ کی تشخیص میں نفس الامر اور متکلم کے قصد اور ارادہ کو بھی دخل ہے۔ اس لحاظ سے اس کی تین صورتیں ہوں گی۔ پہلی صورت یہ ہے کہ متکلم صحیح اور واقعہ کے مطابق کہے اور مخاطب کو وہی سمجھانا چاہے جو فی الحقیقت میں ہے۔ یہ دونوں لحاظ (واقعہ اور ارادہ) سے سچ ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ متکلم خلاف واقعہ کہے اور مخاطب کو اپنے مقصد سے آگاہ نہ کرنا چاہے بلکہ ایک تیسری صورت پیدا کر دے جو نہ صحیح ہو اور نہ ہی متکلم کا مطلب اور مراد ہو۔ یہ واقعہ اور ارادہ دونوں لحاظ سے جھوٹ ہوگا۔قرآنِ مجید میں منافقین کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نےاس انداز بیان فرمایا:
إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ (۱۲)
ترجمہ: جب آپ کے پاس منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ الله کے رسول ہیں اور الله جانتا ہے کہ بے شک آپ اس کے رسول ہیں اور الله گواہی دیتا ہے کہ بے شک منافق جھوٹے ہیں۔
یہاں منافقین کی صحیح بات کی بھی تصدیق نہیں فرمائی ، اس لئے کہ یہ ان کے ضمیر کی آواز نہیں، بلکہ ضمیر کی آواز اس کے خلاف ہے۔ اگرچہ ان کی بات درحقیقت سچ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ لیکن ان کا ضمیر اس حقیقت کو قبول کرنے میں مانع ہے، لہٰذا فقط غلط ارادے کی بنیاد پر ان کی مکمل بات ہی کی تغلیط کر دی۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ فقط حقیقت واقعہ کی اہمیت نہیں، بلکہ اس پر متکلم کا ارادہ بھی جھوٹ کا اطلاق کرنے کے لئے ازحد ضروری ہے۔
تیسری صورت یہ ہے کہ اگر متکلم صحیح اور نفس الامر کے مطابق گفتگو کرے لیکن مخاطب کو اندھیرے میں رکھنا چاہے اور اپنے مقصد کو اس پر ظاہر نہ ہونے دے اسے تعریض اور توریہ کہا جاتا ہے۔ یہ متکلم کے لحاظ سے صدق ہے اور تفہیم کے لحاظ سے کذب ہے۔صدق اور کذب میں جس طرح واقعے کو دخل ہے، اسی طرح ارادے کو بھی دخل ہے۔(۱۳)
تعریض یا توریہ حقیقت میں سچ ہوتا ہے لیکن ایک لحاظ سے اسے جھوٹ بھی کہا جا سکتا ہے۔ راغب اصفہانی نے سورۃ بقرہ کی اٰیت نمبر 235 کی تشریح میں لکھا ہے کہ "تعریض ایسی گفتگو ہوتی ہے، جس کے ہر دو پہلو ہوتے ہیں۔ من وجہ صدق اور من وجہ کذب۔ جیسے فیما عرضتم بہ من خطبۃ النساء(۱۴) اگر تم اشارے(کنایہ) میں عورتوں کو نکاح کا پیغام بھیجو" سے واضح ہے۔(۱۵)
تین واقعات(جن کا مندرجہ بالا حدیث میں ذکر ہوا)ان میں سے دو تو خود قرآن ہی میں موجود ہیں اور ایک حدیث میں۔ پہلا واقعہ جو بت شکنی کے متعلق ہے وہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب قوم کو بت پوجتے دیکھا، تو فرمایا:ان بتوں کے ساتھ تم نے کیا تماشا بنا رکھا ہے،پھر پوری صراحت سے حلفی اعلان فرمایا، تمہاری غیر حاضری میں یقینا تمہارے ان بتوں کا تیا پانچہ کر کے رہوں گا۔غور فرمائیے، اس اعلان اور حلفی بیان کے بعد جھوٹ بولنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ قوم اپنے مشاغل کے لئے چلی گئی، ان کی غیر موجودگی میں پورے اطمینان سے بڑے بت کے سوا باقی بتوں کو ریزہ ریزہ کر دیا، واپسی پر جب بت خانہ ویران پایا تو کہرام مچ گیا، بڑے حزن و ملال سے قوم کے سرداروں نے کہاکہ کسی بڑے ظالم نے ہمارے بتوں کا یہ برا حال کیا ہے۔بات ڈھکی چھپی نہ تھی، فوراً حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ملزم قرار دیا گیا۔کہا ایک ابراہیم نامی نوجوان کو ہم نے سنا تھا وہ ان کو برا بھلا کہتا تھا۔اسی وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بلانے کا فیصلہ ہوا کہ اسے کھلی عدالت میں پیش کر کے اس کے خلاف شہادت قائم کرو۔اس قدر کھلے اور پیش افتادہ واقعات میں نہ جھوٹ کی گنجائش ہے نہ انکار کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قوم کی بے وقوفی کو نمایاں کرنے کے لیے جواب میں تعریض کی صورت اختیار کی، کھلا اقرار نہیں کیا، اس لیے کہ واقعہ تو معلوم ہی تھا، فرمایا اس بڑے بت نے ہی یہ کیا ہے،ان سے پوچھو اگر یہ بولتے ہوں اور انہوں نے سر نیچا کئے ندامت سے اقرار کیا، تم جانتے ہو یہ تو بول نہیں سکتے۔ اصل مقصد یہی تھا کہ ان کی زبان سے ان کے دین کی کمزوری ظاہر ہو جائے، ورنہ دونوں فریق جانتے تھے کہ جسے بولنے کی ہمت نہیں، اسے توڑنے کی قدرت کہاں سے ہوگی۔ پھر کیا تم اللہ کو چھوڑ کر اُن چیزوں کی پوجا کرتے ہو جو نہ تمہیں نفع پہنچانے پر قادر ہیں نہ نقصان۔ (۱۶)
تفسیر صاوی نے بل فعلہ کبیرھم ھذاکی تفسیر میں لکھا ہے۔
یہ طنزتعریض کے قبیل میں سے ہے اور بعض علما نے اسے توریہ پر محمول کیا کہ اس کارروائی کا سبب یہی بڑا بت ہے، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا انی سقیم (میں بیمار ہوں) فرمانا یا حضرت سارہ کو بہن کہنابھی توریہ ہے۔ اور توریہ جھوٹ نہیں ہوتا۔(۱۷)
توریہ اور تعریض کو کوئی عاقل آدمی جھوٹ نہیں کہہ سکتا ،خود قرآن کریم میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے۔ ذُقْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْکَرِیْم (۱۸) (جہنم کا عذاب چکھ)یعنی ہاں ہاں تو ہی بڑا عزت والا اکرام والا ہے۔ یہ جملہ جہنمی سے طنز و اہانت کے طور پر کہا جائے گا۔ اسی طرح بہت سے نافرمانوں یا کفار کے لئے فرمایا گیا۔ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٌ اَلِیْمٌ (۱۹) ( انہیں درد ناک عذاب کی خوشخبری دیجئے) یہ جملہ بھی اہانت و طنز کے لئے ارشاد ہوا ،اس لئے کہ بشارت انعام پر ہوتی ہے عذاب پر نہیں۔ اور بعض باتیں مقاصد کے حصول کے لئے تدبیر کے طور پر توریہ کو اختیار کیا گیا۔
اس واقعے کے آیت نمبر 63 میں حضرت ابراہیم کا یہ جملہ کہ "اس بڑے بت نے ہی یہ کیا ہے "، یہ وہ جملہ ہے کہ جس پر احادیث میں لفظ کذب کا اطلاق کیا گیا ہے، جس کا درست مفہوم تعریض یا توریہ کے ساتھ ادا کیا جا سکتا ہے۔ اور ہر شخص یہاں دیکھ سکتا ہے کہ بظاہر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خلاف واقعہ بات ہی کہی ہے۔ بتوں کو توڑا تو خود ہی تھا، جیسا کہ آیت 58 سے ظاہر ہے، لیکن الزام بڑے بت پر لگا دیا، جیسا کہ آیت 63 سے ظاہر ہے، اگرچہ ان کی نیت فقط سمجھانے کی تھی۔ لہٰذا اسے خلاف واقعہ بات کہیے، تعریض کا نام دیجئے یا توریہ کہہ لیں،حقیقت یہی ہے۔
دوسرا واقعہحضرت ابراہیم علیہ السلام کی علالت کی ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ کہنا کہ میں بیمار ہوں، زیر بحث حدیث میں یہ دوسرا واقعہ ہے جس پر کذب کا اطلاق کیا گیا ہے۔ یہ واقعہ بھی خود قرآن ہی سے ثابت ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ لوگ کسی تہوار یا اجتماعی کام کے لیے جانا چاہتے تھے، ان کی خواہش تھی حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کے ہمراہ چلیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے اپنے حلفی بیان کے مطابق بتوں کو توڑنے کا پروگرام موجود تھا۔ ستاروں پر نگاہ ڈال کر فرمایا: فَقَالَ اِنِّیۡ سَقِیۡمٌ (۲۰)" میں بیمار ہوں" سقیم یعنی بیمار کے دو معنی ہیں۔ ایک زیادہ بیمار جس کا کہیں آنا جانا دشوار ہو۔ دوسرے معنی معمولی سا بیمار۔ بوجھل طبیعت۔ اس سے آپ کی قوم نے پہلا معنی سمجھا اور آپ نے دوسرا معنی مراد لیا اس لئے کہ ہر آدمی کسی حد تک بیمار رہتا ہے۔ نزلہ، زکام، کھانسی۔ دردِ سر، طبیعت کی گرانی کا شکار رہتا ہے۔ لہٰذا یہ جھوٹ نہیں۔
اس عذر کی بنا پرقوم چھوڑ کر چلی گئی تو اسی بیمار ابراہیم نے پورے بت خانہ کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ اب یہاں سقیم کے اظہار میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے توریہ سے کام لیا۔ یہ ابہام اور تعریض تھی جو بالکل سچائی اور حقیقت پر مبنی تھی، مگر قوم نے اسے واقعی اہم بیماری سمجھا۔ انہیں حق ہے کہ اس من وجہ صداقت کو کذب سے تعبیر کریں۔ اس لئے تعریض اور توریہ کو من وجہ کذب کہا جا سکتا ہے۔اب خود سوچئے ایسا مریض جو قوم کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہی پورے بت خانہ کا صفایا کر سکتا ہے، سینکڑوں مصنوعی خداؤں کو چند گھڑیوں میں پیوند خاک کر سکتا ہے، اس کی بیماری کی کمیت اور کیفیت کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ یہ تعریض ہی کے پیمانہ سے ناپی جا سکتی ہے، جس کا اندازہ دوست اور دشمن اپنے نقطہ نظر سے لگا سکیں۔ حدیث پر ہمہ وقت تنقید و تبرا کے لئے تیار، الزامات و اتہامات کے نت نئے طریقے ڈھونڈنے والے، آخر خود قرآن کو اسی نظر سے کیوں نہیں دیکھتے؟ دیانت کا تقاضا تو یہ ہے کہ حدیث کے اقتباسات لے کر جس نہج پر تنقید کی جاتی ہے، قرآن سے وہی چیز ثابت ہو جائے تو قرآن کو بھی لپیٹ میں لے لیا جائے اور یا پھر اللہ سے ڈر جائیں اور حدیث پر غیر ضروری اور نامناسب شکوک و شبہات پید ا کرنے سے باز آ جائیں۔
تیسرا واقعہ بیوی یا بہن کا ہےجو کہ تیسرے توریہ کے متعلق حدیث اپنی وضاحت آپ کرتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ میں نے ظالم کے پاس تمہیںاپنی بہن کہا ہے، تم میری تکذیب نہ کرنا ، فانک اختی فی الاسلام ۔(۲۱) "کیوں کہ تم اسلامی رشتے میں میری بہن ہو"۔ اور اس سرزمین میںتمہارے سوا کسی سے میرا یہ دینی رشتہ نہیں ہے۔اس تعریض کی حقیقت، ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سارہ رضی اللہ عنہا سے خود ظاہر فرما دی کہ اس سے دینی اخوت مراد ہے ، گو کہ ظالم اس سے بظاہر نسبی اخوت سمجھے گا۔ اس تعریض سے یہی مغالطہ مقصود ہے، تاکہ عصمت بھی محفوظ رہے اور شر بھی نہ پہنچ سکے۔ایسے حالات میں تو اگر عصمت کی حفاظت اور حدود اللہ کے احترام کے لئے اگر واضح جھوٹ بھی بولا جائے تو اس میں کچھ حرج نہیں۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعریض کی راہ اختیار فرمائی، جو درحقیقت صحیح ہے ۔
علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے فرمایااس مقام پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سارہ کے سامنے حقیقت کھول دی، ظالم کو مغالطہ میںرکھا ۔ تعریض کا یہی مطلب ہے۔(۲۲)
اس حدیثسے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے زندگی بھر کبھی توریہ یا تعریض تک نہیں کی ، ماسوائے ان تین مقامات کے کہ جہاں انہوں نے دعوت و تبلیغ کی خاطر یا عصمت کی حفاظت کی خاطر توریہ کیا۔ ڈیڑھ صد سال سے بھی زائد عرصہ کی زندگی میں فقط تین ناگزیر مقامات کے علاوہ کبھی بھی خلاف واقعہ بات کا نہ کہنا بجائے خود حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بہت بڑی فضیلت اور ان کی سچائی کا ثبوت ہے۔
اس حدیثمیںدراصل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جھوٹ بولنے کی نفی کی گئی ہے ۔ علماکی اصطلاح میںاس طرز کلام کوتاکید المدح بما یشبہ الذم کہتے ہیں۔ یعنی مدح میںاس طرحتاکیدی حکم لگانا کہ بظاہر اس میںمذمت کا پہلو نکلتا ہو۔ اس سے پہلے کہ علمائے کرام پر طعن و تشنیع شروع ہو، قرآن مجید سے مثال ملاحظہ فرمائیں۔:
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ هَلْ تَنقِمُونَ مِنَّا إِلاَّ أَنْ آمَنَّا بِاللّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلُ وَأَنَّ
أَكْثَرَكُمْ فَاسِقُونَ (۲۳)ترجمہ:کہہ دو اے اہلِ کتاب تم ہم میں کون سا عیب پاتے ہو بجز اس کے کہ ہم الله پر ایمان لائے ہیں اوراس پر جو ہمارے پاس بھیجی گئی ہے اور اس پر جو پہلے بھیجی جا چکی ہے باوجود اس کے تم میں اکثر لوگ نافرمان ہیں۔
اس آیت میں یہ ذکر ہے کہ اپنے آپ کو اہل اسلام عیب سے بری ثابت کرتے ہیں کہ ہم میں کوئی عیب نہیں۔ مگر طرز کلام میں ایک عیب کا اقرار کرتے ہیں، جو حقیقت میں عیب ہی نہیں۔ یعنی ہم میں صرف یہ عیب ہے کہ ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور کوئی عیب نہیں۔ مگر اللہ پر ایمان رکھنا چوں کہ عیب نہیں، اس واسطے ثابت ہوا کہ ہم میں کوئی عیب نہیں۔ اس حدیث کا یہی مطلب ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نہایت راست باز تھے۔پس ثابت ہوا کہ اگر وہ جھوٹے ہوتے تو ان تین مقامات پر بھی واضح جھوٹ بولتے، لیکن انہوں نے سنگین ترین مقامات پر بھی فقط توریہ سے کام لیا ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف جھوٹ منسوب کرنا خود قرآن کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے۔
واذ کر فی الکتب ابرہیم انہ کان صدیقا نبیا (۲۴)
ترجمہ:قرآن میں حضرت ابراہیم کا ذکر کیجئے جو بہت سچے نبی تھے ۔
اب یہاں آخر میں ایک نہایت اہم سوال جو عام آدمی کے ذہن میں پیدا ہو سکتا ہے اس کی وضاحت ضروری ہے۔ یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے یہ تین جھوٹ توریہ یا تعریض ہی کے قبیل سے تھے ، تو ان پر حدیث میں کذب کا اطلاق کیوں کیا گیا؟
یہ تذکرہ احادیث میں دو مقامات پر آیا ہے۔ ایک شفاعت کی حدیث میں کہ جب لوگ قیامت کے دن شفاعت کے لئے انبیاء علیہم السلام کے پاس پھرتے پھراتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے، تو حضرت ابراہیم علیہ صلوٰۃ و السلام معذرت کے طور پر فرمائیں گے:
انی قد کذبت ثلاث کذبات فذکر(۲۵)
ترجمہ:حضرت ابراہیم اپنے تین کذبات کا ذکر فرما کر شفاعت سے انکار فرما دیں گے۔
دوسرا مقام وہی ہے جو زیر بحث ہے۔
اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ جب یہ بات ثابت ہو چکی کہ یہ تعریض ہے، جسے من وجہ کذب کہا جا سکتا ہے، تو متکلم کو اختیار ہے جس عنوان سے چاہے تعبیر کرے۔نیز حضرت ابراہیم علیہ السلام چوں کہ شفاعت سے گریز فرما رہے ہیں، انہیں وہی عنوان اختیار کرنا چاہئے جو اس مقصد کے لئے مفید ہو۔
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس قسم کی تعریض بھی عمر میں بس تین ہی دفعہ فرمائی، جو بذات خود من وجہ صدق ہے۔ حقیقت میں انہ کان صدیقا نبیا کی تائید ہے، تعارض ہے ہی نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحتاً فرمایا تو بھی سچ تھا اور تعریضاً فرمایا تو بھی سچ تھا۔
اب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس فعل تعریض پر کذب کا اطلاق اس وجہ سے بھی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شان اس سے بہت بلند و ارفع تھی کہ آپ مصلحتاً بھی ایسی بات کرتے جو اگرچہ درست تھی، مگر بظاہر خلاف واقع تھی۔ یہ بات اگرچہ بذات خود معمولی ہے، مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسبت بہت بڑی ہے۔ لہٰذا اسے حسنات الابرار سیئات المقربین کے تحت کذب کہا گیا ہے۔ قرآن مجید میں اس کی تائید حضرت نوح علیہ السلام کے واقعہ سے ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ اجازت دی تھی کہ اپنے اہل کو کشتی میں سوار کر لیں، آپ نے سمجھا کہ اہل میں بیٹا بھی شامل ہے، اس لئے اس کو بھی کشتہ پر بٹھانے کی اجازت طلب کی۔ حضرت نوح علیہ السلام نے لفظ اہل کی تعبیر میں غلطی کی تھی اور اگرچہ یہ معمولی نوعیت کی غلطی تھی، کیوں کہ بیٹا بھی لغوی طور پر اہل میں یقیناً شامل ہوتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی اس تعبیر کو ناروا فعل اور جہالت قرار دیا۔ اس لئے سخت سے فرمایا:
قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ فَلاَ تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنِّي
أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ (۲۶) ترجمہ:فرمایا اے نوح وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے کیوں کہ اس کے عمل اچھے نہیں ہیں سو مجھ سے مت پوچھ جس کا تجھے علم نہیں میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کہیں جاہلوں میں نہ ہو جاؤ۔
جس طرح آیت کریمہ میں حضرت نوح علیہ السلام کی لغزش کو جہالت کہا گیا ہے۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعریض کو کذب کہہ دیا ہے۔ اب اگر قرآن کی تصریح کے مطابق جاہل کہنے سے حضرت نوح علیہ السلام کا جاہل ہونا ثابت نہیں ہوتا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کذب کا لفظ استعمال فرمانے سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کاذب کیسے بن گئے؟
پھر یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ جب قرآن نے بعض حالات میں مردار کھانے کی اجازت دی ہے اور کسی شخص کو ویسے حالات پیش آ جائیں اور حدیث میں یہ تذکرہ آ جائے کہ فلاں فلاں حالات میں فلاں نیک بندہ مردار کھانے پر مجبور ہوا۔ تو کیا اسے حرام خور کہا جائے گا؟اسی طرح اللہ نے اکڑ کر چلنے کی مذمت کی ہے، لیکن ساتھ ہی دوران جنگ ایسا کرنے کی اجازت بھی دی ہے، اب جو شخص دشمن کے مقابلہ میں اکڑ کر چلے گا، کیا اسے اللہ کے حکم کا نافرمان کہا جائے گا؟ بالکل اسی طرح کذب حرام ہے، لیکن جن مقامات پر اللہ نے اس کی اجازت دی ہے وہاں وہ درحقیقت صدق ہی ہے اور ایسے شخص کو کسی صورت کاذب نہیں کہا جا سکتا۔ مثلاً عصمت کی حفاظت کا معاملہ، اور دیگر دو معاملات تو خود قرآن میں مذکور ہیں ہی۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ کذب کو تعریض پر محمول کرنا ایک بالکل صحیح اور معقول توجیہ ہے، اور اس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عصمت پر کوئی زد نہیں پڑتی اور اس معنی کی رو سے کذبات ثلاثہ والی روایت انہ کان صدیقا نبیا آیت کے خلاف نہیں ہے ۔
توریہ اور حضرت یوسف :۔
سورۃ یوسف میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِيْ رَحْلِ اَخِيْهِ ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اَيَّــتُهَا الْعِيْرُ اِنَّكُمْ لَسٰرِقُوْنَ (۲۷)
ترجمہ:پھر جب (روانگی کے وقت) یوسف نے ان کا سامان تیار کرایا تو اپنا پیمانہ اپنے بھائی کے سامان میں رکھوا دیا، پھر ایک پکارنے والے نے پکار کر کہا، اے قافلے والو (ٹھہرو) تم لوگ تو بڑے چور ہو۔
جب حضرت یوسف اپنے بھائیوں کو بھیجوا رہے تھے تو آپ نے نے یہ بات کیوں راز میں رکھی ،توریہ کیا اور اپنے گھر پیغام نہیں بھیجوایا ،محمد بن احمد قرطبی نے اس کے چار جوابات دیئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے:
يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ أَرَادَ بِذَلِكَ أَنْ يُنَبِّهَ يَعْقُوبَ عَلَى حَالِ يُوسُفَ عَلَيْهِمَا السَّلَامُ.(۲۸)
"ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یعقوب کی آزمائش کے لئے اس طرح کرنے کا حکم دیا ہو گا"۔
اس کے بارے ابو الاعلیٰ مودودی نے لکھا ہے:
"سورۃ یوسف آیت نمبر 70 اور بعد والی آیات میں بھی کہیں ایسا اشارہ موجود نہیں جس سے یہ گمان کیا جا سکے کہ حضرت یوسف نے اپنے ملازموں کو اس راز میں شریک کیا تھا اور انہیں خود یہ سکھایا تھا کہ قافلے والوں پر الزام لگاؤ۔واقعہ کی سادہ صورت جو سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ پیالہ خاموشی کے ساتھ رکھ دیا گیا ہو گا بعد میں جب سرکاری ملازموں نے اسے نہ پایا ہو گا تو قیاس کیا ہو گا کہ ہو نہ ہو یہ انہی قافلے والوں میں سے کسی کا ہے جو یہاں ٹھہرے تھے"معلوم ہوا کہ دونوں بھائیوں نے راز کو اتنا مخفی رکھا کہ خادموں کو بھی پتا نہ چل سکا۔ (۲۹) حضرت یوسف نے سب کچھ توریہ اور مخفی تدبیر سے کیا۔(۳۰)
حفظ الرحمٰن سیوہاروی نے حضرت یوسف علیہ السلام اس توریہ کے بارے میں ایک منفرد قسم کی بات لکھی ہے کہ"ہم نے شاہی پیالہ کے واقعہ کی تفسیر میں عام تفاسیر سے جدا مفسرین کے اس قول کو اختیار کیا ہے جس کو متاخرین کے یہاں ‘‘قول شاذ کادرجہ ’’ حاصل ہے مگر اس مقام پر سب سے بہتر اور بے غل وغش تفسیر ہے، کتب تفاسیر میں عام طور پر آیت جعل السقایۃ فی رحل اخیہ ( رکھ دیا یوسف نے پیالہ کو بھائی(بنیامین) کے کجاوہ میں) میں حضرت یوسف علیہ السلام کے اس عمل کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ وہ چوں کہ بنیامین کو روکنا چاہتے تھے اور مصر کا قانون اس کی اجازت نہ دیتا تھا اس لئے انہوں نے یہی سمجھ کر یہ پیالہ رکھ دیا تھا کہ اس طرح بنیامین چوربن جائے گا اور میں اس کو روک سکوںگا اور پھر آیت أذَّنَ مُؤَذِّنٌ میں پکار نے والی شخصیت بھی یوسف علیہ السلام ہی کو بتاتے ہیں اور اس طرح جب ان پر جھوٹ کا الزام عائد ہونے لگتا ہے تو اس کو‘‘ توریہ’’ سے تعبیر کرکے ان کی معصوم شخصیت کو اس الزام سے بری کرتے ہیں، حالانکہ قرآن عزیز کے اسلوب بیان میں کوئی ایسا اشارہ تک موجود نہیں ہے جس سے حضرت یوسف علیہ السلام کی شخصیت پر جھوٹ کا شبہ بھی ہو سکتا ہو یا تو ریہ کہنے کی ضرورت پیش آتی ہو۔
یہ مانا کہ کسی محمود اور نیک مقصود کی خاطرْ ْ توریہ ’’ بری اور معیوب بات نہیں ہے،بلکہ اچھی بات ہے لیکن یہ کہنے والے اس کو قطعاً بھول جاتے ہیں کہ معاملہ ہمارا تمہارا یا صالحین اور ابرار کا نہیں ہے بلکہ خدا کے پیغمبر اور رسول کا معاملہ ہے ، ان کی اخلاقی زندگی کا معیار اس قسم کی اصطلاحی تعبیروں سے بہت بلند اور برتر ہے وہ اپنی نیک خواہشات میں بھی عزیمت کی بلندی کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ، پھر کیا ضرورت کہ ایسے موقعہ پر جہاں قرآن عزیزکا اسلوب بیان مجبور نہ کرتا ہو اوراحادیث صحیحہ اس کی تائید نہ کرتی ہوں خواہ مخواہ ان کی جانب ایسی بات منسوب کی جائے جس کے درست کرنے اور پیغمبرانہ معصومیت کو محفوظ رکھنے کے لئے’’ توریہ‘‘ کی پناہ لینی پڑے۔
اس مقام پر قرآن عزیز میں حضرت یوسف علیہ السلام کا صرف یہ عمل مذکور ہے کہ انہوں نے شاہی پیمانہ( چاندی کے کٹورے) کو بنیامین کی خورجی میں رکھ دیا( تاکہ بھائی کے پاس ایک نشانی رہے) ‘‘جعل السقایۃ فی رحل اخیہ’’ اس(یوسف) نے اپنے بھائی(بنیامن) کے کجاوہ میں کٹورہ رکھ دیا۔اس کے بعد حضرت یوسف علیہ السلام کا کوئی ذکر نہیں بلکہ تمام گفتگو کا معاملہ بھائیوں اور کارندوں کے درمیان دائر نظر آتا ہے۔’’پھر پکارا پکارنے والے نے اے قافلہ والو! تم تو البتہ چور ہو، وہ کہنے لگے ان کی جانب منہ کر کے تمہاری کیاچیز گم ہوگئی، وہ کارندے بولے ہم نہیں پاتے بادشاہ( یوسف) کا پیمانہ ( کٹورا) اور جوکوئی اس کو لائے اس کو ملے ایک اونٹ کا بوجھ( غلہ) اور میں ہوں اس کا ضامن ۔ وہ بولے خدا کی قسم! تم کو معلوم ہے کہ ہم شرارت کرنے کو نہیں آئے ملک ( مصر)میں اور نہ ہم کبھی چور تھے، وہ(کارندے) بولے پھر کیا سزا ہے اس کی اگر تم نکلے جھوٹے۔ کہنے لگے اس کی سزا یہ ہے کہ جن کے اسباب میں سے ہاتھ آئے وہی اس کے بدلے میں جائے، ہم یہی سزادیتے ہیں ظالموں کو۔‘‘
اس تمام مرحلے کے بعد یہ معاملہ قانونی طورپر عزیز مصر( یوسف علیہ السلام ) کے سامنے پیش ہوا اور ان کی تلاشی لی گئی تو بنیامن کے کجاوہ میں چاندی کا وہ پیمانہ موجود تھا۔‘‘پھر یوسف نے ان کی خورجیاں دیکھنی شروع کیں اپنے بھائی کی خورجی سے پہلے، آخر میں وہ برتن نکالا اپنے بھائی کی خورجی سے’’۔
اس تفصیل کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے احسان و انعام کا ذکر کرتا اور بتاتا ہے کہ‘‘ یوسف علیہ السلام جس بات کے لئے بے قرار تھے اور مصری قانون کے تحت اس کو نہیں کرسکتے تھے ہم نے اپنی خفیہ تدبیر سے اس کا سامان بہم پہنچایا۔یوں خفیہ تدبیر کردی ہم نے یوسف کے لئے وہ ہرگز نہ لے سکتا تھا اپنے بھائی کو اس بادشاہ ( مصر) کے طریقے کے مطابق مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی چاہے ہم درجے بلند کرتے ہیں جس کے چاہیں اور ہر جاننے والے سے اوپر جاننے والا ہے’’ ۔پس اس قدر صاف اور واضح بات کی ایسی تشریح کس لئے کی جائے کہ جس میں یوسف علیہ السلام کے کلام کو توریہ پر محمول کرنے کی ضرورت پڑے اور کیوں نہ وہ معنی لئے جائیں کہ جس سے نہ کوئی شبہ پیدا ہواور نہ اس کے لئے تاویلات کی ضرورت پیش آئے۔
بہرحال حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے فرمایا:دیکھو ایک مرتبہ پھر مصر جاو اور یوسف اور اس کے بھائی کی تلاش و جستجو کرو اورخدا کی رحمت سے ناامید و مایوس نہ ہو، اس لئے کہ خدا کی رحمت سے ناامیدی کا فروں کا شیوہ ہے۔ ‘‘اے میرے بیٹو(مصر) جاو اور یوسف اور اس کے بھائی کا سراغ لگاواور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، بلاشبہ اللہ کی رحمت سے کافروں کے سواکوئی ناامید نہیں ہوتا’’ ۔
حضرت یعقوب علیہ السلام نے بنیامین کے ساتھ حضرت یوسف علیہ السلام کا بھی نام لیاحالاں کہ بظاہر اس مقام پر ان کے سراغ کا کوئی جوڑ نہیں لگتا، معلوم ہوتا ہے کہ اب حضرت حق نے یعقوب علیہ السلام کے غم اوردکھ کی زندگی ختم کرنے کا ارادہ کر لیا اور یعقوب علیہ السلام کو یہ اشارہ کر دیا کہ بنیامین کے اس قصہ میں یوسف علیہ السلام کی ملاقات کا راز بھی محفوظ ہے ۔(۳۱)
مذکورہ بحث کے نتیجہ میں مؤلف قصص القرآن کی تحقیق و اخلاص اپنی جگہ پر بالکل درست ہے لیکن شریعت میں ایک چیز کا جواز اور رخصت موجود ہو تو اس پر اگر کسی مصلحت کی بنیاد پرتوریہ یاتعریض کے زمرے میں عمل کیا جائے تو اس کے ذریعےنہ پیغمبر کی شان میں کمی آتی ہے اور نہ اس سے اس کی ذاتِ اقدس و سیرت مجروح ہوتی ہے۔یقیناً خدا کے پیغمبر اور رسول کا معاملہ دوسروں سے بالکل مختلف ہوتا ہے ، وہ رخصت کے بجائے عزیمت پر عمل کرتے ہیں ، لیکن اس کےباوجود بھی بوقتِ ضرورت حضرت یوسف علیہ صلوٰۃو السلام کے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ صلوٰۃو السلام نے توریہ اور تعریض سے کام لیا ،جس کا اوپر ذکر کیا گیا۔پس معلوم ہوا کہ یہ پیغمبر علیہم السلام کی شانِ اقدس کے خلاف عمل نہیں۔
اُسوہ نبویﷺ اور توریہ
توریہ سے چوں کہ رازداری ہی مقصود ہوتی ہے اس لئے متکلم ایسی بات مخاطب کے سامنے کہہ دیتا ہے کہ وہ قریب معنی سمجھ کر راز سے واقف نہیں ہو سکتا اور کہنے والا بعید معنی مراد لیتا ہے۔اسی کے بارے میں قولی و فعلی احادیث مبارکہ سے یہ بات ہو چکی ہے کہ سید الکونین ﷺ ہر موڑ پر رازاداری کا اہتمام فرماتے تھے ،خصوصاً غزوات میں توریہ پر عمل کرتے تھے ۔محمد بن اسماعیل بخاری لکھتے ہیں:
لم یکن رسول اللہ ﷺیرید غزوۃ الاَّ ورّٰی بغیرھا۔(۳۲)
"نبی کریم ﷺ جب بھی کسی غزوہ پر جانے کا ارداہ فرماتے تو بظاہر خلافِ مقصود دوسری طرف توریہ فرماتے"۔
یعنی فوج کی نقل وحرکت خفیہ رکھنے کے لئے توریہ فرماتے تاکہ دشمن کو پتا نہ چلے کہ کہاں کا ارداہ ہےاگرچہ توریہ خدعۃ الحربی (جنگی دھوکا) کا حصہ ہےلیکن اس میں تعمیم ہے۔ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ کہ آپ ﷺ نے جنگ کے بغیر بھی اس پر عمل کیا۔(۳۳)
غزوہ بدر میں نبی کریم ﷺ بنفسِ نفیس اورحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ دونوں قریش کے خلاف معلومات حاصل کرنے کے لئے نکلے، تو راستے میں ایک بوڑھے(۳۴) آدمی سے ملاقات ہوئی،جس سے آپ ﷺ نے قریش کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے کچھ سوالات کئے۔اس نے کہاجب تک تم دونوں یہ بتاؤ گے کہ تم کون ہو؟ اُس وقت تک میں تم کو کچھ نہیں بتاتا۔ سردار دوعالم ﷺ نے فرمایاجب تم ہمیں بتاؤ گے تب ہم تم کو بتائیں گے۔آخر اس نے کہا کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ محمد (ﷺ) اور ان کے ساتھی فلاں دن مدینہ سے نکلے ہیں۔اگر یہ اطلاع صحیح ہے تو آج وہ فلاں مقام پر ہوں گے اور قریش فلاں دن مکہ سے چلے تھے۔اگر یہ اطلاع صحیح ہے تو آج وہ فلاں مقام پر ہوں گے۔ اس بات چیت کے بعد وہ پوچھنے لگا:
ممّن انتما؟قال رسول اللہ ﷺنحن من مّاءٍ ثمّ انصرفا عنہ قال الشیخ ما"من مّاءٍ"
اَمن العراق؟ (۳۵)
"تم دونوں کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا"ماء"سے،پھر دونوں وہاں سے چل پڑے ۔
بوڑھے آدمی نے پوچھاکونسے ماء سے۔"
ماء"کا لفظ پانی اور قبیلہ دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔اس سے نبی کریم ﷺ کی مراد توتخلیقی پانی تھایعنی آپ ﷺ نے ماءسے بعید معنی مراد لیا۔ مطلب یہ تھا کہ ہماری پیدائش پانی سے ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نےارشاد فرمایا:
وَجَعَلنَا مِنَ المَآءِ کُلَّ شَیءٍ حَیّ (۳۶)
ترجمہ : اورتمام جاندار چیزیں ہم نے پانے بنائیں۔
اس آدمی نے قریب معنی مراد لیاکہ قبیلہ "ماء" کا کہہ رہے ہیں کہ یعنی بوڑھا آدمی سمجھا کہ عراق کے رہنے والے ہوں گے۔اس لئے کہا کہ کیا آپ دونوں عراقی ہیں ؟ لیکن آپ ﷺ اس کے مزید استفسار سے قبل چل دیئے۔چوں کہ آپ ﷺ کو اپنے مشن اور اپنی فوج کی سکیورٹی اور رازوں کی حفاظت ضروری تھی اس لئے آ پﷺ نے فرمایا پہلے تم بتاؤ پھر ہم بتائیں گے۔معلوم ہوا کہ کسی کے پوچھنے اور باربار اصرار کرنے پر بھی معلومات اور مہم ظاہر نہیں کرنا چاہئے تب کامیابی ہوگی۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ سید الکونین ﷺ نے ایک موقعہ میں پر نبی کریم ﷺ نےارشاد فرمایا:
إِنَّ فِي الْمَعَارِيضِ لَمَنْدُوحَةً عَنِ الْكَذِبِ(۳۷)
ترجمہ:بے شک معاریض یعنی توریہ میں جھوٹ سے بچنے کا ایک کنایہ /طریقہ ہے۔
کچھ حالات ایسے ہیں جہاں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آسانی پیدا کرنے اور شرمندگی سے بچنے کے لئےتوریہ کرنے کی راہنمائی بھی ملتی ہے، مثال کے طور پر جب کسی آدمی کا نماز کے دوران وضو ٹوٹ جائے تو اس پریشان کن حالت میں کیا کرے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اپنی ناک کو پکڑے اور اس پر اپنا ہاتھ رکھ کر صف سے نکل جائے۔
اس کی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا أَحْدَثَ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ فَلْيَأْخُذْ بِأَنْفِهِ، ثُمَّ لِيَنْصَرِفْ۔(۳۸)
ترجمہ:جب تم میں سے کسی کا وضو نماز کے دوران ٹوٹ جائے تو اپنی ناک کو پکڑ کر صف میں سے نکل جائے۔
ملا علی قاری نے طیبی کے حوالہ سےلکھا ہے:
ناک پکڑنے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے تا کہ یہ محسوس ہو کہ اس کی نکسیر "ناک سے خون کا نکلنا"پھوٹ پڑی ہے، اور یہ جھوٹ بھی نہیں ہے، بلکہ یہ عملی توریہ ہے، یہ کام کرنے کی رخصت اس لئے دی گئی ہے کہ کہیں شیطان نمازی کے ذہن میں دیگر نمازیوں سے شرم دِلا کر اسے بے وضو حالت میں نماز جاری رکھنے پر نہ اکسائے ۔(۳۹)
یہ توریہ کی شکل میں جائز عمل ہے جس میں دیگر افراد کے ذہنوں میں کسی جائز کام کا تصور دیا جا رہا ہے، صرف اس لئے کہ نمازی کے ذہن میں کوئی خلفشار پیدا نہ ہو، اور دیکھنے والا یہ سمجھے کہ نمازی کی نکسیر پھوٹ گئی ہے۔۔۔
اُسوہ صحابہ رضی اللہ عنہماور توریہ
حضرآت صحابہ کرام رضی اللہ عنہمبھی آپ ﷺ کی تربیت یافتہ تھےانھوں نے بھی توریہ کرنے طریقہ سید الکونینﷺ سے سیکھا تھا ،یہاں ان دو مثالوں پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
محسنِ انسانیتﷺ اورحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے جارہے تھے،اسی سفر ہجرت کا واقعہ ہے ۔ کہ ایک آدمی جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے جب پوچھا جاتا کہ تمہارے ساتھ کون ہیں تو فرماتے:ھذا رجل یھدینی السبیل، (۴۰)کہ یہ میرے رہبر ہیں یعنی میرے ساتھ ایک آدمی جو مجھے راستہ دکھاتا ہے۔ راہ گیر سمجھتا کہ آپ کے ساتھ کوئی اُجرتی گائیڈ ہے ، (جیسا کہ اس زمانہ میں لوگ سفروں میں اُجرتی گائیڈز کی خدمات حاصل کرتے تھے) اور آپ کا مقصد یہ ہوتا کہ میرے ساتھ وہ ہستی ہے جو مجھے اسلام کا اور اللہ کی معرفت کا راستہ بتاتی ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی توریہ کا استعمال کیا تاکہ جھوٹ سے بھی بچا جائے اور مشرکین کی ایذاء سے بھی چھٹکارا حاصل کیا جائے۔یہ مکمل صدق بھی نہیں کہ مخاطب اس سے دنیاوی رہبر سمجھتا تھا، اور مکمل جھوٹ بھی نہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہرحال دینی لحاظ سے تو رہبر ہی ہیں۔
جب آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہجرت کرنے کے حکم سے آگاہ کیااور لوگوں کی امانتیں اُن کو لوٹانےکے لئے ان کے سپرد کیں۔سویرے قریش بستر رسولﷺ پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔انھوں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نبی کریم ﷺ کے بارے میں پوچھا کہ تو انھوں نے جواب دیا "اللہ اعلم بحال رسولہ"یعنی مجھے پتا نہیں۔انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ماراپیٹا، لیکن اس کے باوجود بھی انھوں نے آپ ﷺ کےبارے میں نہیں بتایا۔یہاں بھی توریہ سے کام لیا گیا ۔ملا علی قاری لکھتے ہیں کہ ممکن ہے کہ پتا نہ ہو یا توریہ سے کام لیا گیا۔(۴۱)
توریہ کاحکم
توریہ یعنی ذو معنی بات کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی بات سے ایسا معنی مراد لے جو ظاہر کے خلاف ہو، یہ دو شرائط کے ساتھ جائز ہے: پہلی شرط یہ ہے کہ الفاظ اس معنی کا احتمال رکھتے ہوں اور دوسری شرط یہ ہے کہ توریہ کی وجہ سے کسی پر ظلم نہ ہو۔ چناں چہ اگر کسی نے کہا کہ میں تو "وتد" پر ہی سوتا ہوں، وتد ایک لکڑی کو کہتے جسے دیوار میں ٹھونک کر سامان لٹکایا جاتا ہے، [جیسے ہک وغیرہ] اور وہ کہے کہ میری وتد سے مراد پہاڑ ہے، چناں چہ یہ توریہ درست ہوگا، کیوں کہ وتد کے دونوں معانی درست ہیں اور اس میں کسی پر ظلم بھی نہیں ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو قرآن مجید میں سقف کہا ہے، فرمایا:
وَّالْجِبَالَ اَوْتَادًاترجمہ : اور پہاڑوں کو اس کی میخیں(نہین بنایا)(۴۲)
اسی طرح اگر کسی نے کہا کہ : "اللہ کی قسم میں سقف [چھت]کے نیچے ہی سوؤں گا" اور پھر چھت پر چڑھ کر سو گیا ، پھر وضاحت کی کہ میں نے سقف سے مراد آسمان لیا تھا، تو یہ بھی ٹھیک ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو قرآن مجید میں سقف کہا ہے، فرمایا:
وَجَعَلْنَا السَّمَآءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا ترجمہ :اور ہم نے آسمان کو محفوظ سقف [چھت] بنایا ۔ (۴۳)
جس جگہ توریہ اگر ظلم ڈھانے کے لئے کیا جائے تو جائز نہیں ہوگا، جیسے کسی نے ایک آدمی کا حق ہڑپ کرلیا، اور مظلوم انسان قاضی کے پاس چلا گیا لیکن اس کے پاس کوئی گواہ یا دلیل نہیں تھی تو قاضی نے ملزم سے کہا کہ تم قسم دو کہ تمہارے پاس مدعی کی کوئی چیز نہیں ہے تو اس نے قسم اٹھاتے ہوئے کہا: " واللہ ما له عندي شيء " "ما" نفی کے لئے ہوتو اس کا معنی ہوگا: اللہ کی قسم اس کی کوئی چیز میرے پاس نہیں، تو قاضی نے ملزم کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے اسے بری کردیا۔تو ملزم کو لوگوں نے بتلایا کہ جو تم نے قسم اٹھائی ہے یہ تو یمین غموس ہے، کیوں کہ جھوٹی قسم ہے، اور جو بھی اس طرح کی قسم اٹھاتا ہے وہ جہنم میں جائے گا، جیسے کہ حدیث میں بھی آیا ہےکہ جس شخص نے بھی جھوٹی قسم کے ذریعے کسی مسلمان کا مال ہڑپ کیا ، وہ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملے گا کہ اللہ اس غضبناک ہوگا۔(۴۴)
تو ملزم جواب میں کہتا ہے کہ میں نے تو نفی کی ہی نہیں، میں نے اثبات میں جواب دیا تھا، اور "ما لہ"لفظ کا مطلب میری نیت میں یہ تھا کہ یہ "ما"اسم موصول ہے یعنی میرا مطلب تھا: "اللہ کی ذات کی قسم ! میرے پاس اس کی چیز ہے"۔چناں چہ مذکورہ لفظ اس مفہوم کا احتمال تو رکھتا ہے لیکن یہ ظلم ہے اس لئے جائز نہیں ہوگا، یہی وجہ ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ: (تمہاری قسم اسی مفہوم میں معتبر ہوگی جس مفہوم میں قسم لینے والا سمجھے گا)(۴۵) اور اللہ کے ہاں اس قسم کی تأویل مفید نہیں ہوگی، اور ایسی صورت میں یہ قسم جھوٹی تصور ہوگی۔
توریہ کے جواز کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ خوش طبعی میں توریہ کرنا جائز ہے ،جیسا کہ سید الکونینﷺکے عمل سے ثابت ہے ۔ایک دفعہ نبی کریمﷺ نے حضرت زاہر رضی اللہ عنہ کی بے خبری میں پیچھے کی طرف سے اپنے دونوں مبارک ہاتھ بغلوں کے نیچے سے نکال کر اس کی دونوں آنکھیں چھپا لیں،تاکہ وہ پہچان نہ سکے۔۔۔پھر فرمایا کہ مَنْ يَشْتَرِي الْعَبْدَ "کون اس غلام کا خریدار ہے"۔ یہاں لفظ "عبد" میں توریہ ہے آپ ﷺ نے زاہر رضی اللہ عنہ کو از راہِ مذاق غلام سے تعبیر کیااور حقیقت کے اعتبار سے کوئی جھوٹ بات بھی نہیں تھی کیوں کہ وہ اللہ کا غلام بہر حال تھے ہی ۔ یہ آپﷺ کی توریہ کی شکل میں خوش طبعی تھی۔(۴۶)
اسی طرح حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم ﷺ سے سواری کا ایک جانور مانگا تو آپﷺ نے فرمایا : إني حاملك على ولد الناقة"میں آپ کوسواری کے لئے اونٹنی کا بچہ دوں گا"۔اس شخص نے (حیرت کے ساتھ) کہا یا رسول اللہ !میں اونٹنی کے بچے پر کیا کروں گا؟محسنِ انسانیت ﷺ نے فرمایاکہ اونٹ کو اونٹنی ہی تو جنتی ہے۔(۴۷)
معلوم ہوا کہ رسولِ کریم ﷺ بھی مزاح کرتے تھے لیکن اس خوش طبعی میں سچی بات ہوتی تھی۔اس ہنس مذاق کی ممانعت ہے جس میں جھوٹی باتیں اور غیر شرعی امور کا ارتکاب ہو۔چوں کہ عربی میں بھی لفظ ِمزاح کا اطلاق اس خوش طبعی اور ہنسی مذاق پر ہوتا ہے جس میں کسی کی دل شکنی اور ایذاء رسانی کا پہلو نہ ہو،اس کے برخلاف جس خوش طبعی اور ہنسی مذاق کا تعلق دل شکنی اور ایذاء رسانی سے ہو اس کو سخریہ کہتے ہیں۔
اگر توریہ سے کسی کو ضرر دینے کا ارداہ ہو تو یہ جائز نہیں ۔کیوں کہ بظاہر سامع متکلم کو سچا سمجھتا ہے حالاں کہ وہ جھوٹ بول رہا ہوتا ہے۔اور یہ اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ خیانت ہے ،جیسا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
"سب سے بڑی خیانت یہ ہےکہ آپ اپنے بھائی کے سامنے بات کریں اور وہ تمھیں سچا سمجھے اور تو اس کے سامنے جھوٹ بولے"(۴۸)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کی کتاب الادب میں مستقل باب (116)قائم کیا، اور کہا " باب المعاريض مندوحة عن الكذب " جھوٹ سے بچنےکےلئے کنایہ کرنے کا باب۔
کیا توریہ جھوٹ ہے:۔
توریہ جھوٹ نہیں نہیں بلکہ جھوٹ سے چھٹکارے کا راستہ ہے۔یہ ایک مباح عمل ہےاور جھوٹ تو گناہِ کبیرہ میں سے ہے۔ ہاں یہ صرف صورۃً جھوٹ کی طرح نظر آتا ہےاور ہر جھوٹ بھی ناجائز نہیں ہوتا۔شرف الدین نووی نے لکھا ہے کہ بعض مقامات پرجھوٹ بولنا واجب ہو تا ہے جب حصولِ مقصود واجب ہو۔مثلاًایک آدمی کسی دوسرے آدمی کو ظلماً قتل کرنے یا اس کا مال غصب کرنےکا ارادہ کیا ہواور دوسرے سے پوچھ لے کہ فلاں کدھر ہے؟اب اس پرجھوٹ بولنا واجب ہےکہ اس کو کہے کہ مجھے پتا نہیں۔ کیوں کہ ایک مسلمان کی جان بچانا واجب ہےتوپھروہاں جھوٹ بولنا بھی واجب ہے،اگر حصولِ مقصود مباح ہو تو جھوٹ بولنا بھی مباح ہو گا۔(۴۹)
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جہاں ضرر کو دفع نہیں کیا سکتا سوائےضرر کے ذریعے تویہی کرنا چاہئے اور اس میں کوئی قباحت نہیں۔جھوٹ ناجائز ہونے کےایک وجہ یہ ہے کہ جب اس سے دنیوی نفع حاصل کرنا مقصود ہو، اس لئے تو لڑائی اور دو مسلمانوں کے درمیان صلح کرنے کے لئے جھوٹ بولنے کی اجازت دی گئی،کیوں کہ وہاں اخروی فائدہ مدنظر ہوتا ہے۔
اس لئےیہ نکتہ فقہ کی کتابوں میں بیان ہوا ہے کہ کیا تور یہ جھوٹ شمار ہوتاہے یانہیں ؟ توریہ جھوٹ میں داخل نہیں ہے ۔ نہ عرفاً اس پرجھوٹ صادق آ تاہے اور نہ ہی اسلامی روایات سے اس کاجھوٹ سے تعلّق معلوم ہوتاہے ، بلکہ چند روایات میں باقاعدہ اس کے جھوٹ ہونے کی نفی کی گئی ہے۔ البتہ وہ مواقع جہاں ضرور ت کا تقاضا ہو کہ انسان جھوٹ بولے وہاں یقینا جب تک تور یہ ممکن ہے اسے توریہ کرنا چاہیے البتہ صراحت کے ساتھ جھوٹ سے پرہیز کیا جائےتاکہ اس کی بات جھوٹ کامصدا ق نہ بنے ۔وجہ یہ ہے کہ صراحۃً جھوٹ کی اباحت کہی مذکور نہیں ،جہاں ہے وہاں توریہ کی صورت میں ہے۔(۵۰)
عصرِ حاضر کے حوالہ سے توریہ:۔
جب انسان کسی سے کچھ چھپانا چاہتا ہو اور اس کی کوشش ہو کہ میں جھوٹ بھی نہ بولوں اور مخاطب کو اصل حقیقت کا بھی پتا نہ چلے تو "توریہ" ایسے مشکل حالات میں ایک شرعی حل ہے۔توریہ شرعی مصلحت اور ضرورت کی بنا پر کرنا جائز ہے، لیکن ہمیشہ اسی پر عمل کرنا اور اپنی عادت بنا لینا درست نہیں ہے، چناں چہ کسی کا حق مارنے کے لئے یا باطل کام کا دفاع کرنے کےلئے توریہ جائز نہیں ہے۔
امام نووی کہتے ہیں:
علماء کہتے ہیں کہ توریہ کے لئے قاعدہ یہ ہے کہ اگر واضح شرعی مصلحت کی بنا پر مخاطب کو دھوکہ دینے کی ضرورت پڑ جائے، یا کوئی ایسی ضرورت آن پڑے کہ جھوٹ کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں ہے، تو اس وقت توریہ کیا جاسکتا ہے، چناں چہ اگر کوئی ضرورت نہ ہو تو توریہ کرنا مکروہ ہے، اور اگر توریہ کے ذریعہ کسی کا حق مارا جائے، یا کسی کے ساتھ زیادتی کی جائے تو اس وقت توریہ حرام ہوگا۔(۵۱)
اسی طرح جب کسی مسلمان کو سخت حالات کا سامنا ہو، اور اسے ان حالات سے نکلنے کے لئے ، یا اپنی جان ، یا کسی بے گناہ کو بچانے کے لئے خلافِ حقیقت بات کرنے کی ضرورت پڑے تو اس کے لئے شرعی اور مباح طریقہ کار موجود ہے جسے "توریہ" کہا جاتا ہے،
عصرِ کے حوالہ سے ابن قیم ؒ کی کتاب " إغاثة اللهفان "نے توریہ کے بارے میں بہت اچھی مثالیں بیان فرمائی ہیں،اختصار کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے یہاں صرف تین مثالیں ذکر کی جائے گی :
(1)حماد رحمہ اللہ کے بارے میں ذکر کیاجاتا ہے کہ جب ان کے پاس کوئی ایسا شخص بیٹھ جاتا جس کے ساتھ وہ بیٹھنا پسند نہ کرتے تو وہ خود ساختہ درد کا اظہار کرتے ہوئے کہتے میری داڑھ! میر ی داڑھ! اور یہ کہتے ہوئے اس آدمی کے پاس سے اٹھ جاتے جس کے ساتھ بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
(2)ایسے ہی ایک بار سفیان الثوری رحمہ اللہ کو خلیفہ مہدی کی مجلس میں لایا گیا، تو مہدی نے ان کی بہت تعریف کی ، چناں چہ سفیان الثوری رحمہ اللہ نے اٹھ کر جانے کا ارادہ کیا تو خلیفہ نے انہیں شد ومد کے ساتھ بیٹھنےکےلئے کہا، جس پر انہوں نے قسم اٹھاتے ہوئے کہا میں ابھی آرہا ہوں، اور جاتے ہوئے انہوں نے اپنی جوتی دروازے کے پاس چھوڑ دی، اور کچھ ہی دیر کے بعد آکر اپنی جوتی اٹھائی اور چلتے بنے، جب خلیفہ نے ان کے بارے میں پوچھا تو بتلایا گیا کہ سفیان نے واپس آنے کے لئے قسم اٹھائی تھی تو وہ واقعی واپس آئے تھے اور اپنی جوتی لےکر چلے گئے۔
(3)اسی طرح ایک بار امام احمد بن حنبل اپنے گھر میں تھے اور ان کے ساتھ کچھ شاگرد بھی بیٹھے تھے جن میں مِروذی بھی تھے، ایک آدمی باہر سے آیا اور مِروذی کے بارے میں پوچھنے لگا، امام احمد نہیں چاہتے تھے کہ مِروذی ان کی مجلس سے اٹھ کر جائے، تو امام احمد نے اپنی انگلی ہتھیلی پر رکھ کر کہا: مِروذی یہاں نہیں ہے، اور پھر یہاں مِروذی کا کیا کام ہے، اس ساری بات کا اشارہ امام احمد کی اپنی ہتھیلی کی طرف تھا، جب کہ باہر سے آنے والا آدمی اس کو نہ سمجھ پایا۔ (۵۲)
(4)آپ سے کسی کے بارے میں پوچھا گیا: کیا آپ نے فلاں شخص کو دیکھا ہے؟ اور آپ کو اندیشہ ہے کہ اگر میں نے اس کے بارے میں بتلا دیا تو یہ لوگ اسے قید میں ڈال دیں گے یا نقصان پہنچائیں گے، تو آپ یہ کہ سکتے ہیں کہ میں نے اسے نہیں دیکھا، اور آپ کے دل میں یہ ہو کہ میں نے اسے ایک ہفتہ پہلے یا کسی خاص وقت میں نہیں دیکھا۔
(5)اسی طرح کسی نے آپ کو کہا کہ تم مجھے قسم دو کہ فلاں شخص سے کلام نہیں کروگے، اور آپ نے اسے قسم دے دی، اور دل میں یہ سوچا کہ کلام سے مراد میں اسے زخم نہیں لگاؤں گا، کیوں کہ کلام کا معنی لغت میں زخم لگانے کے معنی میں بھی آتا ہے۔
(6) ایسے ہی اگر کسی نے آپ کو کفریہ بات کہنے پر مجبور کیا، تو آپ کو کوئی بھی ذو معنی بات کہنے کی اجازت ہے مثلاً عربی میں آپ کہو گے، "کفرتُ باللاھی" ھاکو لمبا کرکے، جس کا معنی ہوگا، میں نے لہو ولعب کرنے والے کا انکار کیا۔(۵۳)
کثرتِ توریہ سے پرہیز
شریعت میں توریہ کی تو اجازت ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ بس ہر وقت توریہ اور کنایات سے کام لیا جائے،کیوں کہ اس کی وجہ بہت سے مفاسد میں پڑنے کا شدید خطر لاحق ہوتا ہے۔اس لئے توریہ او ر کنایہ کے بارے میں ابن مفلح کی کتاب "الآداب الشرعیہوالمنح المرعیہ " میں ایک مستقل فصل" في إباحة المعاريض ومحلها " لکھی ہے۔
وہ لکھتا ہے کہ توریہ حاجت کے وقت جائز اور بلاضرورت ناجائز ہے ۔۔۔ بات چیت میں توریہ جائز ،خرید و فروخت میں ناجائز ہے۔ایک مسلمان توریہ کا استعمال انتہائی شدید قسم کے حالات میں کرے ، اس کی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں:
1: کثرت سے توریہ کرنے کی بنا پر انسان جھوٹ کی بیماری میں پڑ سکتا ہے۔
2: اس کی وجہ سے دوست احباب آپس میں گفتگو کرتے ہوئے اعتماد کھو بیٹھے گے، کیوں کہ ہر وقت توریہ کے عادی شخص کے بارے میں یہی سوچا جائے گا کہ کیا اس نے جو بات کی ہے اس کا یہی مطلب ہے جو ہم نے سمجھا یا کچھ اس کے پیچھے پوشیدہ ہے؟
3: جب توریہ کرنے والے کے بارے میں مخاطب شخص کو پتا چلے گا تو وہ اسے جھوٹا شخص قرار دے گا، اور یہ شرعی طور پر درست نہیں کیوں کہ انسان کو شریعت نے شکوک وشبہات پیدا کرنے والے کام کرنے سے منع فرمایا ہے۔
4: اس کی وجہ سے توریہ کرنے والا شخص خود پسندی میں واقع ہوسکتا ہے، کہ اس کے ذہن میں یہ بات آئے گی کہ میں لوگوں کو پاگل بنا دیتا ہوں اور انہیں پتا ہی نہیں چلتا۔
خلا صۃ البحث
مذکورہ بحث میں توریہ کی لغوی و اصطلاحی تحقیق سے معلوم ہوا کہ ایسی بات کہنا جس کا اصل منشا متکلم مخاطب سے چھپانا چاہتا ہو کیوں عموماً شر سے بچنے کے لئے کیا جاتا ہے۔یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعہ معاشرتی زندگی میں آسانی پیدا ہوتی ہےاور شریعت کا قانون بھی یہی ہے کہ یسّروا و لا تعسروا"آسانی پیدا کرو اور مشکلات پیدا نہ کرو"۔توریہ کے ذریعہ ضرورت کے وقت اپنے آپ کواور اپنے مسلمان بھائیوں کو نقصان سے بچانے کے لئے اس سے فائدہ اٹھایاجاتا ہے ،کیوں کہ توریہ مشکل حالات میں ایک شرعی حل ہے۔جیسا کہ مندرجہ بالا مضمون میں قولی و فعلی احادیث مبارکہ اور اٰثار میں وضاحت کی گئی۔ توریہ کی وجہ سے آدمی جھوٹ سے بچ جاتا ہےاور اپنا مقصد بھی آسانی سےحاصل کر لیتا ہے۔ صریح جھوٹ چوں کہ اخلاقِ ذمیمہ میں سے ہے اس لئے توریہ اخلاقی لحاظ بھی ایک اچھا عمل ہے۔
توریہ چوں کہ ایک مباح عمل ہےاور اس کو مباح کے درجہ میں ہی رکھنا چاہئےنہ کہ عام زندگی کا معمول بنائیں اور بات بات پر بلا وجہ توریہ وتعریض سے کا م لیتا رہے ،ایسا آدمی یا تو صریح جھوٹ میں مبتلا ہو جائے گا یا مشکوک ہو جائے گایا بدگمانی کاسبب بن جائے گا،جو شریعت میں ممنوع اور قابل ِ جرم فعل ہے۔اس لئے اس سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔
حواشی و حوالہ جات
(۱)القرآن، المائدہ:5/31،
(۲) القرآن، الأعراف:7 /26
(۳) ابن شیبہ ،مصنف ابن ابی شیبہ،من کرہ المعاریض،ادارۃ القرآن وعلوم الاسلامیہ،کراچی،1986ء،ص:5/282،
(۴)علی بن محمد،شرح الشفا،دار الكتب العلمیہ، بيروت، 1421 ھ،ص:2/242،
(۵)ویکرہ التعریض بالکذب الاّ لحاجۃ کقولک لرجل کُل فیقول اَکلتُ یعنی امس فانہ کذب بحوالہ شیخ نظام و جماعۃ من علمائے ہند، فتاوٰی عالمگیری، مکتبہ رشیدیہ سرکی روڈ،کوئٹہ،س ن،ص:5/148
(۶)مسلم ،صحیح مسلم،باب فی فضائل ابراہیم علیہ السلام،ص:4/1840۔صحیح مسلم کے علاوہ بتغیر الفاظ یہ حدیث اور کتابوں میں بھی موجودہے جن میں صحیح بخاری رقم۸۵۳۳، السنن الکبرٰی للنسائی رقم۷۱۳۸،مسندابی یعلی رقم۹۳۰۶،مسند احمدبن حنبل رقم۱۴۲۹،قابلِ ذکر ہیں۔
(۷)ابن حجر، فتح الباری شرح صحیح بخاری،دار المعرفۃ ،بیروت،1379ھ،ص:6/392،
(۸)بخاری،صحیح بخاری ، حاشیہ نمبر 1، نور محمد کارخانہ تجارت کتب ،کراچی،ص:1/474
(۹)ابن اثیر،النھایۃ فی غریب الاثر،المکتبۃ العلمیۃ،بیروت،1979ء،ص:4/157- 158(۱۰)ابو داؤد،سن ابی داؤد،رقم 425، المكتبۃ العصریہ صيدا ، بيروت ،س ن، ص1/125،
(۱۱) نسائی،سنن الکبرٰی ،مؤسسۃ الرسالۃ، بيروت،2001ء،ص:10/162،اسی طرح راغب اصفہانی نےمفردات القرآن،ص:2/ 288 ، اور دیگر کتب لغات میں بھی اسی قسم کی تفصیل موجود ہے۔ مثلاً دیکھئے: لسان العرب ،ص:1/ 708،الفائق للزمخشری ،ص:3/ 250،القاموس المحیط ،ص:166،تاج العروس ،ص:1/ 897
(۱۲) القرآن،المنافقون 63/1،
(۱۳) ابن قیم،إغا ثۃ اللهفان فی مصاید الشیطان ،مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت،س ن،ص:1/381 و ص:2/106-107،
(۱۴) القرآن،البقرۃ: 2/235،
(۱۵) راغب اصفہانی،تفسیرالراغب اصفہانی ، کلیۃ الآداب جامعہ طنطا،بیروت، 1999ء،ص:1/487،
(۱۶)یہ اس تفصیلی واقعہ کا خلاصہ ہے جو قرآنِ حکیم سورہ الانبیاء آیت 52 سے لے کر 66میں مذکور ہے۔
(۱۷) ابو العباس صاوی،تفسیر ،روضۃ القرآن جنگی محلہ قصہ خوانی،پشاور،ص:3-4/1305،
(۱۸) القرآن، الدخان: 44/49
(۱۹) القرآن، آلِ عمران: 3/21
(۲۰) القرآن،الصافات: /89
(۲۱)ابو یعلیٰ الموصلی،مسند ابی یعلیٰ،دار المأمون للتراث ، دمشق،1984،ص:10/426،
(۲۲)ابن حجر،فتح الباری شرح صحيح البخاری، دار المعرفہ، بيروت، 1397ھ، ص:6/392،(۲۳) القرآن، المائدہ: 5/59 ، (۲۴) القرآن،مریم: 19/41
(۲۵)ترمذی ، سنن ترمذی، شرکۃ مکتبہ مصطفى البابی الحلبی ،مصر،1975 ء،ص:4/622،
(۲۶) القرآن،ھود:11/45،(۲۷) القرآن، یوسف:12/70
(۲۸)القرطبی،محمد بن احمد،تفسیر قرطبی،دار الشعب ،القاہرہ1372ھ،ص:9/222،
(۲۹) مودودی ،ابو الاعلیٰ ،تفہیم القرآن ،ادارۃ ترجمان القرآن ،لاہور2000ء،ص:2/419،
(۳۰)امین احسن اصلاحی،تدبّر قرآن،انجمن خدّام القرآن ،لاہور1976ء،ص4/244،
(۳۱) حفظ الرحمٰن سیو ہاروی ،قصص القرآن،مکتبہ خلیل اردو بازار ،لاہور،2012ء،ص:1/192
(۳۲)بخاری،صحیح بخاری،کتاب الجھاد،مکتبہ رحمانیہ اردو بازار ،لاہور،س ن،ص1/521، "
(۳۳)محمد راکان الدغمی،التجسس و احکامہ فی الشریعۃ الاسلامیہ،دار السلام للطباعۃ و النشر،بیروت،1985ء،ص:225،
(۳۴)ابن اسحٰق کہتے ہیں کہ وہ بوڑھا آدمی سفیان ضمری تھا بحوالہ ابن ہشا م،سیرت بن ہشام مترجم، مقبول اکیڈمی سرکلر روڈ چوک اردو بازار ،لاہور،2007ء،ص:240،
(۳۵)علی بن ابراہیم الحلبی،السیرۃ الحلبیہ،دار المعرفۃ ،بیروت،1980ء،ص:2/387،
(۳۶) القرآن، الانبیاء:21/30،
(۳۷)بیہقی،سنن الکُبرٰی، مکتبہ دار البازمکۃ المکرمہ،السعودیہ،1994ء،ص:10/336 ،
(۳۸) ابو داود،سنن ابی داود، المكتبۃ العصریہ، صيدا ، بيروت،س ن ،ص:1/291،
(۳۹)ملاْ علی قاری، مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، دار الفكر، بيروت ، لبنان، 2002ء ،ص:3/18
(۴۰)بخاری،صحیح بخاری،باب الہجرۃ النبیﷺ،مناقب الانصار،دار ابن کثیرالیمامہ،بیروت،1987ء، ص:13/250،
(۴۱)ملا علی قای، مرقاۃ المصابیح شرح مشکوٰۃ المصابیح،باب المعجزات ،دار الفكر، بيروت ، لبنان، 2002ء ،ص:9/3828
(۴۲) القرآن،النبا: 78/7 ،
(۴۳) القرآن،الأنبياء : 21/32
(۴۴)بخاری، صحیح بخاری،دار طوق النجاة ،"کتاب الایمان والنذور"بیروت،1422ء، ص: 8/137
(۴۵) شیخ ابن عثیمی ،مجموع دروس وفتاوٰی الحرم المکی،مکتبۃ البازمکۃ المکرمہ،السعودیہ،ص:3/367،
(۴۶)علی بن محمد،جمع الوسائل فی شرح شمائل،المطبعۃ الشرقیۃ،مصر، ص:2/30،
(۴۷)محمد بن عیسیٰ،سنن ترمذی،باب ماجاء فی المزاح،شرکۃ مکتبۃ و مطبعۃ مصطفی البابی الحلبی ،مصر، 1975 ء ،ص:2/257۔
(۴۸) البیہقی، السنن الکبریٰ،مجلس دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدر آباد،دکن،۱۳۵۶ھ،ص:10/199،
(۴۹)نووی،ریاض الصالحین،مؤسسۃ الرسالۃ، بيروت،1998ء،ص: 1/439،
(۵۰)الماوردی،ادب الدنیا و الدین،شرکۃ دار الارقم بن ابی الارقم،س ن،ص:257،
(۵۱)النووي ،لأذكار، دار الفكر للطباعۃ والنشر والتوزيع، بيروت،1994ء ، ص: 380
(۵۲)ابن مفلح،الآداب الشرعیہ والمنح المرعیہ، " فصل في إباحة المعاريض ومحلها ،عالم الكتب،بیروت،ص:1/15،
(۵۳)ابن قیم،إغا ثۃ اللهفان فی مصاید الشیطان ،مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت،س ن،ص:1/381 و ص:2/106-107،
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 4 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 4 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 4 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 4 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 4 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 4 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 4 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 4 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 4 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 4 Issue 1 | 2017 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |