1
2
2014
1682060029336_668
10-21
https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/48/45
https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/48
تکافل مروجہ انشورنس کے متبادل باہمی امداد وتعاون کے اصول پر قائم نظام کا نام ہے، جس میں مروجہ انشورنس سے منسلک مقاصد کے حصول کے لئے شرعی ڈھانچہ تیار کیا گیا ہے۔تکافل کی عملی صورتیں گو جدید ہیں، لیکن یہ اسلامی اصول وضوابط کے ساتھ متصادم نہیں۔ذیل میں تکافل کا تعارف اورشریعتِ اسلامیہ میں اس کے لئےموجود نظائر کا تحقیقی مطالعہ پیش کیا جاتا ہے۔
مستقبل میں ممکنہ خطرات کے پیش آنے کے باعث پیدا ہونے والے نقصانات سے بچاؤ کی تدابیر ایک مستحسن اقدام ہے۔اسلام ایسے اقدامات کی نہ صرف ا جازت ديتا ہے بلکہ بعض اوقات اس کی ترغیب بھی دیتا ہے،چنانچہ وہ صحابی جنہوں نے حضورﷺسے عرض کیا کہ میں اُونٹ کو کھلا چھوڑ دو اور توکل کرو ں یا باندھ کرکے پھرتوکل کروں؟ آپﷺنے ارشاد فرمایا : ”اعقلها وتوکل “۔ (1) " اُونٹ کو رسّی سے باندھو اور پھر اللہ پر بھروسہ کرو"۔
مندرجہ بالا حدیث میں اُونٹ کے گم ہونے کے خطرے کے ازالےکے لئےحفاظتی اقدامات اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ ایسے مقاصد کا حصول اسلام میں ممنوع نہیں بلکہ مستحسن اور مرغوب ہے۔
مروّجہ بیمہ (Conventional Insurance) سے بھی اِس طرح کے مقاصد حاصل کئے جاسکتے ہیں ، البتہ اس کے لئے اختیار کیا جانے والا طریقہ کاراسلامی اُصولوں اورقواعدو ضوابط کے خلاف ہے۔چنانچہ بیمہ پالیسی کےعقود(Contracts) میں کافی غور وخوض اورمختلف مجالس میں معاصرعلماء کے مابین مناقشات کے بعد اُمّت کی اکثریّت نے اس کے ناجائز ہونے کاحکم لگایا ہے۔علامہ تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں :
قد ﺇتّفق معظم من العلماءالمعاصرين والمجامع النداوات الفقهية علی حرمة التأ مين التجاری التقليدی لمايشتمل من الغررِ والقمارِ والربا۔(2)
”بلاشبہ عصرِ حاضر کے اکثر علمائے کرام اور فقہی اکیڈمیوں کا مروّجہ تجارتی بیمہ کےحرام ہونے پراتفاق کیا ہے،کیونکہ یہ غرر،قمار اورربا پرمشتمل ہے “۔
اسلام میں صرف یہ نہیں کہ کسی چیز کو ناجائز قرارديا جائے اور بس، بلکہ مفادِعامہ کےپیشِ نظر عموماً اہلِ اسلام کےلئےناجائز قرار دینے والےمعاملے کے جائز متبادل کی بھی ترغیب ملتی ہے،چنانچہ علماء اُمت نےمروّجہ انشورنس کے متبادل”تکافل“ کا نظام متعارف کرایا،جس کےذریعے مروّجہ انشورنس سے منسلک مقاصد حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ذیل میں تکافل کا تعارف اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کے نظائر کا بیان کیا جاتا ہے۔
تکافل کی لغوی تعریف و تحقیق:
”تکافل “عربی زبان کالفظ ہے،یہ بابِ تفاعل سے ہےاس کامجرّد ”کفل“ہے جو[ک۔ف۔ل]سے مرکب ہے۔عربی لغت میں ”کفل” کامادّہ متعدد معانی کے لئے استعمال ہوتاہے۔ معنی کےاعتبارسے”کفل”جامد ہے،یہ اُس چادرکوکہتےہیں جواُونٹ کےکوہان پرباندھاجاتاہےیااُونٹ کےپیٹھ پر اِس طریقے سے باندھاجاتاہےکہ ایک سرا آگے کی طرف ہوتاہےاوردوسراسرا پیچھے کی طرف ہوتا ہے۔
الكِفْل: مِنْ مَرَاكِبِ الرِّجَالِ وَهُوَ كِسَاءٌ يؤْخذ فيعقَد طَرَفَاهُ ثُمَّ يُلقَى مقدَّمه عَلَى الكاهِل ومؤخَّره مِمَّا يَلِي العجُز، وَقِيلَ: هُوَ شَيْءٌ مُسْتَدِيرٌ يُتخذ مِنْ خِرَقٍ أَو غَيْرِ ذَلِكَ وَيُوضَعُ عَلَى سَنام الْبَعِيرِ. (3)
”کفل(کالفظ)آدمیوں کےسوارہونےکی شئے( کےلئےاستعمال)ہوتاہے،یہ وہ چادرہوتاہےجس کےدونوں اطراف کو(اُونٹ پر)باندھا جاتاہےپھراس کاایک سراپیٹھ کےآگے کی طرف ڈالاجاتاہے اور دوسرا سرا پیچھے کی طرف،اور(یہ بھی)کہاجاتاہے کہ یہ کپڑے وغیرہ کاایک گول ٹکڑاہوتاہےجواُونٹ کےکوہان پرباندھا جاتاہے “۔
اِس کےعلاوہ”کفل“ کامادّہ درج ذيل مختلف معانی ميں استعمال ہوتاہے۔
الحظّ والنصيب/الضِعف/المثلیعنی حصہ،دوگنا،مثل ونظیر کےمعنی میں۔ (4)
اس معنی سے متعلق قرآن کریم ميں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا الله وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ﴾ (5)
"اے ( عیسیٰ ؑ پر) ا یمان لانےوالوتم اللہ سے ڈرواوراس کےرسول پرایمان لاؤاللہ تعالیٰ تم کو اپنی رحمت (ثواب) سےدو(۲)حصّے
دےگا۔“
وَأخرج عبد بن حميد عَن قَتَادَة {كِفْلَيْنِ} قَالَ: حظين، وَأخرج ابْن جرير وَابْن الْمُنْذر عَن ابْن عَبَّاس فِي قَوْله: {كِفْلَيْنِ} قَالَ: ضعفين۔ (6)
” عبد بن حُمیؒد ،قتادہؒ کےحوالے سے نقل کرتے ہیں کہ” كِفْلَيْنِ“کےمعنی دوحصے،اورابن جریرؒو ابنِ منذرؒدونوں ابنِ عبّاس ؓ کاقول اس بارے میں نقل کرتے ہیں کہ” كِفْلَيْنِ“کےمعنی دوگناکےہیں “ََ۔
اسی طرح صحیح بخاری میں ہے:
وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ تُقْتَلُ نَفْسٌ ظُلْمًا إِلَّا كَانَ عَلَى ابْنِ آدَمَ الأَوَّلِ كِفْلٌ مِنْ دَمِهَا وَذَلِكَ لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ القَتْلَ“ (7)
”نبی کریمﷺنےفرمایا ہے:کہ جوانسان بھی ظلم کےساتھ قتل کیاجاتاہےتواس کےخون (کےگناہ) کاحصہ حضرت آدم ؑ کے پہلےبیٹے (قابیل) کا (بھی)ہوتاہے،کیونکہ اُنہوں نے سب سےپہلے یہ (قتل کا)طریقہ رائج کیاتھا “۔
(۲) الضمان کے معنی میں،چنانچہ کہاجاتاہے:
(الْكَفِيلُ) الضَّامِنُ وَقَدْ (كَفَلَ) بِهِ يَكْفُلُ بِالضَّمِّ (كَفَالَةً)، وَ (كَفَلَ) عَنْهُ بِالْمَالِ لِغَرِيمِهِ. وَ(أَكْفَلَهُ) الْمَالَ ضَمَّنَهُ إِيَّاهُ …وَ (كَفَّلَهُ) إِيَّاهُ (تَكْفِيلًا) مِثْلُهُ. وَ (تَكَفَّلَ) بِدَيْنِهِ.(8)
”کفیل ،ضامن کوکہتے ہیں چنانچہ کہاجاتاہےكَفَلَ بِهِ ۔۔۔فلاں آدمی نےاس کی طرف سےضمانت قبول کی،فلاں آدمی اس کے لئے اس کی قرض خواہ کا ضامن ہوا،اورفلاں آدمی کےلئے مال کاضامن ہوا(بابِ افعال سے متعدّی)اسی معنی میںكَفَّلَهُ إِيَّاهُ(بابِ تفعیل سے بھی ہے)۔ تَكَفَّلَ بِدَيْنِهِ فلاں اس کے قرض کاضامن ہوا(یعنی بابِ تفعّل میں بھی یہی معنی آتے ہیں) “
اس معنی کی تائید قرآن کریم کی درج ذیل آیت سے ہوتی ہے:
﴿فَقَالَ أَكْفِلْنِيهَا وَعَزَّنِي فِي الْخِطَاب﴾(9)”پس یہ کہتاہے کہ وہ بھی مجھ کودے دو،اوربات چیت میں مجھ کودباتاہے“۔
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ أُتِيَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ لَيُصَلِّي عَلَيْهِ، فَقَالَ: إِنَّ عَلَى صَاحِبِكُمْ دَينًا فَقَالَ أَبُو قَتَادَةَ: أَنَا أَكْفُلُ بِهِ، قَالَ:بِالْوَفَاءِ؟، قَالَ: بِالْوَفَاء۔ (10)
”عبداللہ بن ابی قتادۃؒ اپنے والد (ابوقتادۃؒ)سےروایت کرتےہیں:کہ ایک انصاری شخص نبی کریمﷺکی خدمت میں نمازِ جنازہ پڑھانے کی خاطر لایا گیا،آپؐ نےفرمایاکہ آپ کےاس ساتھی پر(تو)قرض ہے،ابوقتادۃؒ نے کہا:میں اس کاضامن ہوں، آپ ؐنےفرمایا:قرض اداکرنے کا؟اُنہوں نےکہا(ہاں) قرض اداکرنے کا “۔
(۳) الکافل عائل کےمعنی میں:
عائل کے معنی تربیّت اورپرورش کرنےوالا:الکافل فهوالذی يکفل انساناً يعولُه وينفق عليه۔ (11)
” کافل وہ آدمی ہےجوکسی انسان کی تربیّت اورپرورش کرتاہواوراُس پراپنامال خرچ کرتاہو “۔
قرآن کریم کی درج ذیل آیت سے اس معنی کی تائید ہوتی ہے:﴿وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا﴾(12)
”اور(حضرت)زکریّا علیہ السّلام کواس کاسرپرست بنایا “۔
عَنْ سَهْلٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَنَا وَكَافِلُ الْيَتِيمِ كَهَاتَيْنِ فِي الْجَنَّةِ. (13)
”حضرت سھلؓ(بن سعد)سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنےفرمایا :میں اوریتیم کا پرورش اوردیکھ بال کرنےوالا جنّت میں ان دو (انگلیوں )کی طرح(قریب)ہوں گے “۔
مذکورہ بالا عربی لغات، قرآنِ کریم کی آیات اوراحادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ”کفل“کےمادّہ کازیادہ تر استعمال عربی زبان میں ان تین معانی کے لئے ہوتاہے۔تکافل کےجدید اصطلاح میں بھی ان معانی کالحاظ کیا گیاہے ، البتہ لفظِ تکافل جب بابِ تفاعل سے ہو تواس میں مشارکت کا معنی پایا جاتا ہے ،لہذا اب تکافل کے معنی ”باہم ایک دوسرے کاضامن بننا“یا”باہم ایک دوسرے کی دیکھ بھال کرنا“کےہیں۔ (14)تکافل کی جدیداصطلاحی تعریف سے قبل، اسلام میں موجودتکافل کی ایک عام شکل کاذکرکیاجاتا ہےجسے ”تکافل اجتماعی“کہتےہیں۔
(۱) التکافل الاجتماعی: هو ايمان الأفراد بمسؤلية بعضهم عن بعض، وأن کان کل واحد منهم حاملٌ لتبِعات أخيه، فاذا أساء کانت اِساءته علی نفسه وعلی أخيه، واِذاما اَحسن کان احسانه لنفسه ولأخيه. (15)
”معاشرے کےافرادکایہ ایمان ہوکہ ہرایک دوسرے کا مسؤول (ذمہ دار)ہے،اوریہ کہ ہرایک اپنے بھائی کےافعال کےنتائج کاحامل ہے،پس اگروہ کوئی برائی کرے تواس کابوجھ اس پراوراس کے بھائی پرہے، اوراگر کوئی نیکی کرے تواس کافائدہ اس کا اور اس کے بھائی کاہے،تکافل ِاجتماعی کہلاتاہے “۔
(۲) (هو)التضامن المتبادل بين أفراد المجتمع بمسؤلية بعضهم عن بعض مادياً أو معنوياً، واِعتقادهم أنّ کل واحد منهم حاملٌ لتبِعات أخيه،فاذا اَحسن کان احسانه له ولأخيه، واِذا أساء کانت اِساءته علی نفسه وعلی أخيه. (16)
”معاشرے کےافراد کاایک دوسرے کے لئے ضامن ہونااورمادی ومعنوی مسؤولیت کایقین رکھنا اوریہ کہ ہرایک اپنے بھائی کےافعال کےنتائج کاحامل ہے،پس اگروہ کوئی نیکی کرے تواس کافائدہ اس کا اور اس کے بھائی کاہے، اوراگرکوئی برائی کرے تواس کابوجھ اس پراوراس کے بھائی پرہے،تکافل ِاجتماعی کہلاتاہے “۔
اجتماعی تکافل کی مذکورہ بالا تعریفات سے واضح ہوتا ہےکہ اسلام میں ہرمسلمان دوسرے کےافعال وغیرہ کا ضامن ہے اوریہ کہ معاشرےکے محتاج اورمعذور افرادکےخوراک،پوشاک اوررہائش کی ذمہ داری معاشرے کے مستطیع افراد کے ذمہ ہے۔
تکافل(Islamic Insurance)کی اصطلاحی تعریف:
”تکافل“ کاجدیدنظام بنیادی طورپرمروّجہ بیمہ(Conventional Insurance)کا متبادل ہے، مروّجہ انشورنس سے حاصل ہونے والےمقاصد کوشرعی سانچےمیں ڈال کرتشکیل دینے والانظام ہےچنانچہ ذیل میں اسی تصوّر کےمطابق جدیداسلامی معیشت کےماہرین کی چند تعریفیں ذکر کی جاتی ہے:
(1)……Takaful is the Islamic alternative to conventional insurance which is based on the idea of social solidarity, cooperation and joint indemnification of losses of the members. It is an agreement among a group of persons who agree to jointly indemnify the loss or damage that may inflict upon any of them out of the fund they donate collectively. (17)
(2)…...It is a system of Islamic Insurance based on the principle of TA’AWUN (mutual assistance) and TABARRU’ (Gift, Give away, donation) where the risk is shared collectively by the group VOLUNTARILY. This is a pact among a group of members or participants who agree to jointly guarantee among themselves against loss or damage to any of them as defined in the pact. (18)
(3) اتفاق أشخاص يتعرضون لأخطار معينة على تلافي الأضرار الناشئة عن هذه الأخطار، وذلك بدفع اشتراكات على أساس الالتزام بالتبرع، ويتكون من ذلك صندوق تأمين له حكم الشخصية الاعتبارية، وله ذمة مالية مستقلة، يتم منه التعويض عن الأضرار التي تلحق أحد المشتركين من جراء وقوع الاخطار المؤمَّن منها، وذلك طبقاً للوائح والوثائق. ويتولى إدارة هذا الصندوق هيئة مختارة من حملة الوثائق، أوتديره شركة مساهمة بأجر، تقوم بإدارة أعمال التأمين، واستثمار موجودات الصندوق. (19)
"لوگوں کے ایک گروہ کامخصوص خطرات کی بابت اتفاق کرنا کہ ان خطرات سے پیداہونے والےنقصانات کی تلافی کریں گے،اس طور پرکہ آپس میں تبرّع(بھلائی کرنا/تحفہ دینا)کرنے کےلئے مشترکہ فنڈجمع کریں گے،جس سےایک فنڈ بکس[Fund Box]تشکیل پائے گاجوشخصِ قانونی کےحکم میں ہوگااوراس(بکس)کی مالی ذمہ داری ہوگی(پھر)اس سے ان نقصانات کی تلافی ہوگی جوکسی شریکِ تکافل کوبیمہ شدہ خطرات کےپیش آنے سے سامنے آئیں،اوریہ معاہدے میں بیان شدّہ وثیقہ جات کےمطابق ہوگا۔فنڈبکس کاانتظام وانصرام بااختیارادارہ یاکمپنی سرانجام دیتی ہےجوتکافل کےمقاصد اورفنڈبکس کی
سرمایہ کاری وغیرہ کومنظّم کرتی ہے"۔
(4) عقد تبرع بين مجموعة من الأشخاص للتعاون على تفتيت الأخطار المبينة في العقد والاشتراك في تعويض الأضرار الفعلية التي تصيب أحد المشتركين والناجمة عن وقوع الخطرالمؤمن منه وذلك وفقاً للقواعد التي ينص عليهانظام شركة التأمين والشروط التي تتضمنهاوثائق التأمين وبما لا يتعارض مع أحكام الشريعة الإسلامي. (20)
”تکافل باہمی تعاون کی بنیاد پرایک گروہ کےمابین تبرّع کامعاملہ ہوتاہےجس میں کسی ایک شریک کوپہنچنےوالے نقصان(جوبیمہ شدہ خطرات کےسبب ہو)کامشترکہ طورپرازالہ کیاجاتاہےاس مقصدکاحصول تکافل کمپنی کےقواعدو شرائط اورتکافل معاہدات کےمطابق ہوتاہےاس حیثیت سے کہ شرعی اصول واحکام کےمخالف نہ ہو “۔
(5) ”تکافل ایک اسلامی انشورنس کانظام ہےجوباہمی تعاون وتناصراورتبرّع کےاصول پرمبنی ہے،جہاں تمام شرکاء رِسک کوشیئر کرتےہیں اوراس طرح باہمی تعاون وتناصرکےطریقےسےمقررہ اصول وضوابط کےتحت ممکنہ مالی اثرات سےمحفوظ ہوجاتےہیں۔ (21)
مذکورہ بالا”تکافل“کی اصطلاحی تعریفات سےواضح ہوتاہےکہ"تکافل کایہ جدیدنظام "باہمی تعاون وتناصر کےبنیاد پرقائم ہونےوالےنظام کانام ہےجس میں متعدّد لوگ باہم معاہدہ کرتےہیں کہ(بیان شدہ) خطرات کے سبب اگر کسی شریک(Participant)کوکوئی نقصان پہنچے توتمام شرکاء باہم مل کراس نقصان کاازالہ شرعی اصول واحکام کا لحاظ کرکے کریں گے۔
تکافل کےاجزائے ترکیبی [Elements of Takaful]:
تکافل باہمی تعاون وامداد اورتناصر کی بنیاد پر تشکیل دینے والانظام ہے،اس کی شرعی حیثیت تب معلوم ہوگی جب اِس کے بنیادی اجزائے ترکیبی کاعلم ہو،چنانچہ تکافل کے بنیادی اجزائے ترکیبی یاعناصر درج ذیل ہیں :
(۱)— حملة الأسهم:حملة الأسهم سے مراد وہ افراد ہوتے ہیں جوابتداءًتکافل کمپنی کی بنیاد رکھتے ہیں، یہ افراد آپس میں ایک رقم جمع کرتے ہیں ،لوگوں کوتکافل پالیسی اختیار کرنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔ان افراد کی مالی ذمہ داری اور قانونی حیثیت مستقل اور حملة الوثائق (policy Holders) سے جُدا ہوتی ہے۔ان کو هيئةالمساهمين اورملاک الشرکة (owners of company)بھی کہتے ہیں ۔(22)
(۲)— حملة الوثائق: حملة الوثائق سے مراد شرکاء تکافل ہیں ،جوتبرّع یا وقف کی بنیاد پر أقساط (premiums) جمع کرتے ہیں ، اوراِن میں سے کسی ایک پرواقع ہونے والےضرر اور تکالیف کو مشترکہ طور پر تقسیم کرتے ہیں ۔پھر قدرِ زائد (Surplus) میں ہر ایک کا استحقاق ہوتا ہے۔ان کو هيئةالمشترکين (Participants) اور مؤمَّن عليهم بھی کہتے ہیں ۔ (23)
(۳)— الشرکة (Company): هيئةالمساهمين کا قائم کردہ ادارہ الشرکة یا کمپنی کہلاتا ہے ، اس ادارے یا کمپنی کے اہم کام درج ذیل ہوتے ہیں :
1۔ شرکاء سے چندہ(Donation) وصول کرنا۔
2۔ چندہ اور فنڈز کو تکافل کے مقاصد کے لئےشرعی اُصولوں کےموافق انتظام وانصرام کرنا۔
3۔ سرمایہ کاری کےلئے مختص شدہ فنڈز پرشرعی اصولوں کے مطابق سرمایہ کاری کرنا۔ (24)
اسلامی تعلیمات میں” تکافل“ کا تصوّر:
تکافل کی بنیاد باہمی تعاون ،امداد اورتبرّع پر ہے،قرآن کریم کےمتعدد نصوص اوراحادیث ِ مبارکہ میں نہ صرف یہ کہ اس کاواضح تصورپایا جاتا ہےبلکہ ترغیبی انداز میں اس کی تعلیم بھی موجودہے۔
قرآن کریم اور” تکافل“ کا تصوّر:
ارشادِباری تعالیٰ ہے:
﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى﴾ (25)۔”نیکی اورتقوٰی کےکاموں میں ایک دوسرے کےساتھ تعاون کرو “۔
تکافل کا نظام بھی اسی تصور پر مبنی ہےکہ اس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اورتبرّع کیا جاتاہے۔
ایک دوسری جگہ قرآن کریم میں ارشادِخداوندی ہے:
﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ﴾(26) ”مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں “۔
اس باہمی اُخوت اوربھائی چارے کاتقاضا یہ ہےکہ ہرمسلمان دوسرے کے لئے سہارا بن جائے ،مصیبت میں کام آئے اور دوسرے مسلمان بھائی کےساتھ تعاون کرے۔
سنت اور” تکافل“ کا تصوّر:
احادیث میں بھی باہمی تعاون اورتناصر کھلے لفظوں موجودہے،ذیل میں اس کی چندمثالیں ذکر کی جاتی ہیں۔
(الف) میثاقِ مدینہ(Treaty of Madeena)
حضورﷺ نے مدینہ منوّرہ کوہجرت کرنے کےبعدمسلمانوں اوریہودیوں کےمابین ایک معاہدہ کیاتھا،یہ معاہدہ۴۷دفعات پرمشتمل ہےاس معاہدے کےاکثردفعات باہمی تعاون اورامداد پرمشتمل ہیں۔مثلاً:
۱۔ الْمُهَاجِرُونَ مِنْ قُرَيْشٍ عَلَى رِبْعَتِهِمْ يَتَعَاقَلُونَ بينهم، وهم يفدون عانيهم بالمعروف والقسط
[بين المؤمنين].وبنو عوف على… ثُمَّ ذَكَرَ كُلَّ بَطْنٍ من بطون الأنصار. (27)
”بےشک قریشی مہاجرین اپنی سابقہ حالت پربرقرار ہیں،آپس میں دیّت ادا کریں گےاوراپنے مسلمان قیدیوں کافدیہ انصاف اورعرف کےمطابق دیں گےاوربنوعوف(انصاری قبیلہ)اپنی سابقہ حالت پربرقرارہے۔۔۔پھر انصار کے تمام قبائل کااسی طرح ذکر کیا “۔
یہ باہمی امدادوتعاون اورایک دوسرے کے ضرروتکلیف کے وقت کام آنے پرواضح دلیل ہے۔
۲۔ وَإِنَّ الْمُؤْمِنِينَ لَا يَتْرُكُونَ مفرحابينهم وان يعطوه بالمعروف في فداء أو عقل.(28)
”مسلمان کسی عیالدار اورمقروض شخص کو یوں نہیں چھوڑیں گےبلکہ اس کے ساتھ فدیہ اوردیّت میں (ضرور) مددکریں گے “۔
اس روایت میں مسلمانوں کے لئے آپس میں ایک دوسرے کی مسؤولیّت کابہترین سبق ہے۔
۳۔ وَإِنَّهُ مَنْ تَبِعَنَا مِنْ يَهُودَ فَإِنَّ لَهُ النَّصْرَ وَالْأُسْوَةَ، غَيْرَ مَظْلُومِينَ وَلَا مُتَنَاصَرِينَ عَلَيْهِمْ۔(29)
”یہود میں سے جوہماری متابعت کرےتواس کےلئے ہمارے اُوپر امداداوراچھے اخلاق کاسلوک لازم ہے،ان پر ظلم کیاجائے گااورنہ ہی ان کےخلاف کسی کی مدد کی جائے گی “۔
مدینہ منورہ کےباشندوں کےمابین حقوق کی برابری اورکمزور کےلئے طاقتور پرامدادکے لزوم کے لئے بہترین ضمانت اور تکافل ہے۔
۴۔ وَإِنَّهُ مَنْ اعْتَبَطَ مُؤْمِنًا قَتْلًا عَنْ بَيِّنَةٍ فَإِنَّهُ قَوَدٌ بِهِ إلَّا أَنْ يَرْضَى وَلِيُّ الْمَقْتُولِ، وَإِنَّ الْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ كَافَّةٌ، وَلَا يَحِلُّ لَهُمْ إلَّا قِيَامٌ عَلَيْه.(30)
”اگر کوئی شخص کسی مسلمان کو ناحق قتل کرے تواس پرقصاص لازم ہوگاالبتہ اگر مقتول کاولی معاف کرے۔ اورتمام مسلمانوں پر اس سےقصاص لینا لازم ہے “۔
مظلوم کی امداداور اس کا حق وصول کرنے کی واضح مثال ہے۔
مذکورہ بالا دفعات کےعلاوہ اور بھی متعدددفعات ہیں جن میں مسلمان آپس میں تعاون وتناصر کی بنیاد پرایک دوسرے کے بوجھ برداشت کرنے،قیدیوں کی آزادی،محتاج عیالدار کی اعانت،مظلوم کی امداد،جابر وظالم کاقلع قمع اورمسلمانوں اور یہودِمدینہ کےمابین بیرونی دشمنوں کےخلاف باہمی اعانت وامدادکاعہد،سُکانِ مدینہ کادفاع اورایک دوسرے کےلئے بھلائی کی چاہت وغیرہ کاتذکرہ موجود ہے۔
(ب) قبیلۂ أشعرکاطرزِعمل اوررسول اللہ ﷺکا مدح:
قبیلۂأشعر کےلوگوں کایہ عمل تھاکہ میدانِ جنگ میں یااپنے ہی شہر میں رہتے ہوئے خوردونوش کاسامان ختم ہونے لگتا توہر
ایک کےپاس جتنا کچھ ہوتاوہ لےآتا اورتمام لوگ ایک کپڑے میں سب کچھ جمع کرتےاورپھرایک برتن کے ساتھ اس کو برابر تقسیم کرتے۔رسول اللہﷺنے ان کےاس طرزِعمل کی تعریف کرتے ہوئے ارشادفرمایا:
فهم منّی وأنا منهم.(31) ”پس وہ مجھ سے ہیں اورمیں ان سےہوں “۔
قبیلہ اشعرکےلوگ یہ عمل اس وقت کرتےتھےجب ہرایک کےپاس خورد ونوش کاسامان اتنا نہیں ہوتا کہ آنے والے مشکل (بھوک)کا بوجھ ہلکا کرسکے،کسی کےپا س ضرورت سےکم ہوتایابالکل نہیں ہوتااورکسی کےپاس ضرورت کی مقدار ہوتی یااس سے زائد ہوتا،لہٰذا مجموعی طور پرتمام اہلِ قبیلہ اپناخوراک جمع کرتےاور پھر برابر تقسیم کرتےجس سے بھوک میں مبتلا ہونے والے شخص کی پریشانی دور ہوجاتی اور چند ایک کا بوجھ تمام اہلِ قبیلہ پرڈالاجاتاتوان کےلئے اسے برداشت کرنا آسان ہوجاتااورخطرے میں مبتلاہونے والے شخص کی پریشانی دور ہوجاتی۔نظامِ تکافل کی بنیاد بھی اس طرح کےباہمی تعاون اورامدادپرہے،ایک شخص کےبوجھ کوکئی افراد میں تقسیم کرکےہلکاکیاجاتاہے،جس سے اس مبتلافرد کی پریشانی دورہوجاتی ہے۔
(ج)مہاجرین اورانصار کےمابین مؤاخاۃ:
رسولِ کریمﷺ اورمسلمانانِ مکہ نے نہایت کسمپرسی کی حالت میں مدینہ منوّرہ کو ہجرت کی۔ہجرت کے فوراً بعدآپﷺنے مہاجرین اورانصار کےمابین مؤاخاۃ (بھائی چارہ)قائم کیا،انصار نےبھی بخوشی قبول کیا۔جس کی توصیف اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں یوں کرتے ہیں:
﴿وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةًمِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُون۾﴾ (32)
”اورجولوگ جگہ پکڑرہے ہیں اس گھر(مدینہ)میں اورایمان میں اُن سے پہلے(انصارجومہاجرین کی آمد سےپہلے مدینہ میں سکونت پذیر تھے)وہ محبت کرتےہیں اس سے جووطن چھوڑکرآئے ہیں اُن کے پاس اورنہیں پاتے ہیں اپنے دل میں تنگی اس چیزسےجومہاجرین کودی جائےاورمقدّم رکھتےہیں اُن کواپنی جان سےاوراگرچہ ہو اپنے اوپرفاقہ،اورجوبچایا گیااپنے جی کولالچ
سےتووہی لوگ ہیں مراد پانےوالے “۔
انصارکی اِن فضیلتوں کودیکھ کرمہاجرین خود رشک کرنےلگےاوررسول اللہ ﷺسے فرمایا:
مَا رَأَيْنَا مِثْلَ قَوْمٍ قَدِمْنَا عَلَيْهِمْ أَحْسَنَ مُوَاسَاةً فِي قَلِيلٍ، وَلَا أَحْسَنَ بَذْلًا مِنْ كَثِيرٍ، لَقَدْ كَفَوْنَا الْمَؤُونَةَ وَأَشْرَكُونَا فِي الْمَهْنَأِ، حَتَّى لَقَدْ خَشِينَا أَنْ يَذْهَبُوا بِالْأَجْرِ كُلِّهِ.(33)
”ہم نے اس قوم سےبہترقوم نہیں دیکھی جس کی طرف ہم آئے ہیں،جنہوں نےقلیل میں ہماری اعانت کی اورکثیر کوخوب خرچ کیا،ہماری مشقتّوں اورتکالیف سےہم کوبےپرواکیا اوراپنی کمائی میں ہم کوشریک کیا،یہاں تک کہ ہمیں خوف ہے کہ سارااجروثواب تویہی لوگ حاصل کرگئے “۔
رسولِ کریمﷺنے اِن کے درمیان ایسے اُخوّت وبھائی چارے کی بنیاد ڈالی جس کی مثال آج تک کوئی معاشرہ پیش نہ کرسکا ۔ انصار ومہاجرین کےمابین قائم شدہ مؤاخاۃمیں تکافل کالفظ نہیں تاہم اس کی روح ضرور موجود ہے۔
نتائج بحث:
· مروجہ انشورنس میں موجود شرعی قباحتوں کی وجہ سے امتِ مسلمہ کی اکثریت نے اسے ناجائز قرار دیا۔
· تکافل ،مروجہ انشورنس کا اسلامی متبادل نظام کا نام ہے۔
· یہ باہمی امداد وتعاون اور تناصر کے اصول پر قائم ہے۔
· تکافل کا جدید نظام اگر چہ عہدِ رسالت اور عہدِ صحابہ میں نہیں تھا، لیکن اس دور میں اس کی روح ضرور موجود تھی۔
· میثاقِ مدینہ ،قبیلہ اشعر کا طرزِ عمل اوراور انصار ومہاجرین کے مابین مؤاخاۃ کا عمل اس کے شرعی نظائر ہیں۔
حواشی وحوالہ جات
(1) البیہقی،احمد بن الحسین بن علی[م ۴۵۹ھ]،الآداب للبيهقی،رقم الحدیث۷۷۸،مؤسسۃ الکتب الثقافیۃ ، بیروت۱۴۰۸ھ۔
(2) عثمانی، محمد تقی،مفتی، تأصيل التأمين التکافلی علی أساس ِالوقف، مخطوط:مکتبہ دارالعلوم کراچی نمبر14۔
(3) ابنِ منظورالأفریقی، محمد بن مکرّم بن علی،ابوالفضل،جمال الدین[م ۷۱۱ھ]،لسان العرب،حرف اللام، فصل الکاف،مادّہ ”کفل“، دار صادر، بیروت ۱۴۱۴ھ۔
(4) ابنِ منظورالأفریقی، [م ۷۱۱ھ]،لسان العرب،مادہ ”کفل“،حوالہ سابق۔
(5) [القرآن: ۲۸:۵۷]
(6) السيوطي (م۹۱۱ھ)، عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين، الدر المنثور،ج۸،ص۶۷، دار الفكر ،بيروت، س ن۔
(7) البخاری،محمد بن اسمٰعیل بن ابرٰہیم[م۲۵۶ھ]،صحيح البخاری، كِتَابُ الجَنَائِز ، بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
يُعَذَّبُ المَيِّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهِ وَالزَّوْجِ مَعَ الوَلَدِ وَغَيْرِه،ج۲،ص۷۹، دارطوق النجاۃ، بیروت ۱۴۲۲ھ۔
(8) زين الدين الرازی،محمد بن أبی بكر بن عبد القادر[م ۶۶۶ھ]،مختار الصحاح،ج۱، ص۲۷۱، المكتبۃ العصریۃ، الدار النموذجیۃ، بيروت ۱۴۲۰ھ۔
(9) [القرآن: ۲۳:۳۸]
(68) النسائی،أحمدبن شعيب بن علی،أبوعبدالرحمن،الخراسانی(م ۳۰۳ھ)، السنن الكبرى، كِتَابُ الْبُيُوعِ، باب الْكَفَالَةُ بِالدَّيْنِ،
رقم الحديث: ۶۲۴۵، مؤسسة الرسالة،بيروت۱۴۲۱ھ۔
(11) ابنِ منظورالأفریقی،لسان العرب،حرف اللام،فصل الکاف، مادّہ ”کفل“، حوالہ سابق۔
(12) [آل عمران ۳۷:۳]
(13) أبوداود،سليمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشيربن شدادبن عمرو،الأزدی،السّجِسْتانی[م ۲۷۵ھ]، سنن أبي داود،كِتَاب الْأَدَبِ،
بَابٌ فِي مَنْ ضَمَّ الْيَتِيمَ ،رقم الحديث:۵۱۵۰،المكتبہ العصريہ، بيروت سطن۔
(14) عصمت اللہ،ڈاکٹر،مولانا،تکافل کی شرعی حیثیت،ص۷۳، ادارۃالمعارف،کراچی۱۴۳۱ھ۔
(15) شلتوت،محمود شلتوت،الشیخ،الاِسلام والتکافل الاِجتماعی،ص۸،مجلۃ الاَزھر،سلسلہ نمبر۳۳، (شعبان۱۳۸۱ھ،جنوری ۱۹۶۲ء)۔
(16) سلیم،محمد فرح سلیم، التکافل الاجتماعی،ص۱۰، شرکۃ الطباعۃالفنیۃ المتحدۃ،قاہرہ،۱۹۶۸ء۔
(17) Mher Mushtaq Hussain, CONCEPTUAL AND OPERATIONAL DIFFERENCES BETWEEN GENERAL TAKAFUL AND CONVENTIONAL INSURANCE, Australian Journal of Business and Management Research, page: 24. Vol.1 No.8 [23-28] | November-2011.
(18) Muhammad Imran Usmani, Dr, Takaful, presentation in SECP, Takaful Conference March 14, 2007, Pakistan.
(19) المعايير الشرعية لهيئة المحاسبة والمراجعة للمو سسات المالية الاسلامية، المعيار الشرعي للبحرين، رقم [۲۶]في التأمين، الفقرة[۲]۔
(20) البعلی، عبد الحميد،دکتور، الاستثمار والرقابة الشرعية في المؤسسات المالية والإسلامية،ص۱۲، مكتبہ وهبہ،القاہرة سطن۔
(21) عصمت اللہ،ڈاکٹر،مولانا،تکافل کی شرعی حیثیت،ص۷۳،حوالہ سابق۔
(22) الخلیفی، ریاض منصور،دکتور،قوانين التأمين التکافلی، الأسس الشرعية والمعاييرالفنيّة ،ص۱۷، ﺇعداد للمؤتمر التأ مين التعاونی أبعاده اٰفاقه وموقف الشريعة الاسلاميّة منه، ۲۶– ۲۸ ، ربیع الثانی،۱۴۳۱ھ/۱۱– ۱۳اپریل ۲۰۱۰ء۔
(23) النشیمی،عجیل جاسم،دکتور،أستاد، الاِلتزام بالتبرّع وتوزيع الربح وتحمل الخسارة في التأمين التعاونى،ص۲،۱، ﺇعداد للمؤتمر التأ مين التعاونی أبعاده اٰفاقه وموقف الشريعة الاسلاميّة منه۔
(24) عصمت اللہ،ڈاکٹر،مولانا،تکافل کی شرعی حیثیت،ص۱۱۲۔
(25) [القرآن ۲:۵]
(26) [القرآن ۱۰:۴۹]
(27) ابنِ کثیر،اسماعیل بن عمر،ابوالفداء[م ۷۷۴ھ]،البداية والنهاية،ج۳،ص۲۷۳، دار إحياء التراث العربی، بیروت ۱۴۰۸ھ۔
(28) ابنِ کثیر،البداية والنهاية،ج۳،ص۲۷۴، حوالہ بالا۔
(29) ابنِ ہشام،عبدالملک بن ہشام،جمال الدین[م ۲۱۳ھ]، السيرة النبوية لابن هشام،ج۱،ص۵۰۳، مكتبۃومطبعۃ مصطفى البابی الحلبی ، مصر۱۳۷۵ھ۔
(30) ابنِ ہشام، السيرة النبوية لابن هشام،ج۱،ص۵۰۳،حوالہ بالا۔
(31) البخاری،محمد بن اسمٰعیل،صحيح البخاری،كِتَاب الشَّرِكَة،بابُ الشَّرِكَةِ فِي الطَّعَامِ وَالنِّهْدِ وَالعُرُوضِ،رقم الحدیث:۲۴۸۶۔
(32) [القرآن ۹:۵۹]
(33) ابنِ کثیر،البداية والنهاية،ج۳،ص۲۸۰۔
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |