1
2
2014
1682060029336_738
47-55
https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/51/48
تعارف:
قرآن کریم کا ثقہ اور قوی ہونا تو سب کے نزدیک مسلم ہے اور اس میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں ہے البتہ سنت رسول اللہ ﷺ کے سمجھنے کے لئے یہ بات ضروری ہےکہ اس کے روایت کو ان اصول کی روشنی میں جانچا جائے جو محدثین نے اس کے لئے مقرر کیے ہیں، لہٰذا اگر کوئی حدیث ان اصولوں کے موافق ہو تو درست قرار دیا جائے گالیکن جو روایت ان سے ہٹ کر ہو تو اس کے بارے میں سوچا جائے گا کہ آیا یہ درست ہے یا نہیں اور محدثین کے شرائط کے مطا بق ہیں یا نہیں کیونکہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ (1)
"مومنو!اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو (مبادا) کہ کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا دو۔ پھر تم کو اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے "(2)
اسی طرح رسول کریمﷺکاارشادہے: كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ (3)
"آدمی کے کاذب ہونے کے لئے یہ کا فی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو نقل کرے"۔
لہٰذا بغیر تحقیق کےرسول اللہ ﷺ کی طرف کوئی بات منسوب نہ کی جائے تاکہ رسول اللہ ﷺ کے اس وعید سے بچا جا سکے: مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّار (4)
''جو مجھ پر قصدا جھوٹ باندھےوہ اپنے لئے جہنم میں ٹھکانہ بنادے''۔
اسلامی آداب معاشرت میں بسم اللہ کو انتہائی اہم مقام حاصل ہے۔رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارک یہ تھی کہ جب بھی وہ کسی کام کو شروع کرتے تو بسم اللہ سے شروع کرتے اوراپنے ارشادات میں بھی اس بات کا حکم فرماتے تھے ۔سنن ابی داود کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"أغلق بابك واذكر اسم الله، فإن الشيطان لا يفتح بابا مغلقا، وأطف مصباحك واذكر اسم الله، وخمر إناءك ولو بعود تعرضه عليه واذكر اسم الله، وأوك سقاءك واذكر اسم الله "(5)
"دروازہ بند کرو تو اللہ کا نام لیا کروکیونکہ شیطان بند دروازہ نہیں کھول سکتا، دیا بجھا ؤ تو اللہ کا نام لیا کرو، اپنے برتن ڈھانپو تو اللہ کا نام لیا کرو اور اپنی مشک کا منہ باندھو تو اللہ کا نام لیا کرو"۔
مقصد یہ ہے کہ ہر چھوٹا بڑا کام کرتے وقت انسان اپنے کار ساز حقیقی کا نام لینے کا خوگر ہو جائے اور اس کی تائید و نصرت پر اس کا توکل پختہ ہو جائے۔ نیز جب بندے کو ہر کام کے شروع میں اللہ تعالیٰ کے نام لینے کی عادت پڑ جائے تو وہ ہر ایسا کام کرنے سے رک جائے گا جس میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہو ۔
کتب احادیث میں آپ ﷺ سے بسم اللہ کے بارے میں متعدد احادیث منقول ہیں ، جس میں ہر کام کاآغاز اللہ کے نام سے کرنے کے بارے میں بھی ایک حدیث مشہورومعروف ہے جو کہ مختلف الفاظ سے منقول ہے، جس کے بعض طرق میں بحمد اللہ، بعض میں بذکر اللہ اور بعض میں بسم اللہ کہنے کی تاکید آئی ہے۔
اس کے حل کا ایک طریقہ تطبیق ہے لیکن علامہ انورشاہ کشمیری ؒ (6)تطبیق کی تردید میں فرماتے ہیں کہ بہت سے لوگوں نے ان احادیث کو علیحدہ سمجھا ہے،اس لئے انہوں بتکلف اس میں تطبیق لانے کے لئے ایک عجیب راستہ اختیار کر رکھا ہے۔اپنی طرف سے ابتداء کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے کہ ایک ابتداء حقیقی ہے،دوسری اضافی ہے اور تیسری ابتداء عرفی ہے۔ پھر ان مختلف روایتوں کا حمل مختلف اقسام ابتداء پر کیا ہے (7)، لہذا جب تطبیق نہیں ہوسکتی توروایت کے مختلف طرق کو صحت وضعف کے معیار پر جانچنا ضروری ہے۔
مذکورہ صورت حال کے پیش نظر اس مقالہ میں مذکورہ حدیث کی تحقیق پیش خدمت ہے۔
روایات مذکورہ کی تخریج وتحقیق:
روایت "بحمد اللہ" کی تخریج وتحقیق :یہ روایت مختلف الفاظ سے کتب حدیث میں منقول ہے:
ابوداؤد میں یہ حدیث ان الفاظ سے آیاہے: كُلُّ كَلَامٍ لَا يُبْدَأُ فِيهِ بِالْحَمْدُ لِلَّهِ فَهُوَ أَجْذَمُ (8)
''ہر وہ کلام جس کے شروع میں حمد نہ ہو تو وہ بے برکت ہوتی ہے ۔ ''
سنن ابن ماجہ، مسند بزار اور سنن دار قطنی میں یہ روایت ان الفاظ سے منقول ہے: كل أمر ذي بال، لا يبدأ فيه بالحمد، أقطع (9) "ہر وہ شان والاکام جو حمد سے شروع نہ وہ بے برکت ہوتی ہے''۔
صحیح ابن حبان میں یہ حدیث یوں آیا ہے: كل أمر ذي بال لا يبدأ فيه بحمد الله فهو أقطع (10)
اس روایت میں قرۃ بن عبدالرحمن (11)کے علا وہ تما م راویوں کے ثقہ ہونے پر اتفاق ہے البتہ امام اوزاعی ؒ (12)نےان کی توثیق کی ہے لیکن امام احمد بن حنبل (13)،امام ابوزرعہ رازی (14)،اور امام نسائی (15)نے ان پر جرح کی ہے (16)۔ امام مسلم ؒ نے ان کی روایات بطور شاہد ذکر کی ہیں (17)۔
اس کی ایک طریق امام طبرانیؒ (18)کی المعجم الکبیر میں ان الفاظ سے منقول ہے: كُلُّ أمر ذی بال لَا يُبْدَأُ فِيهِ بِالْحَمْدُ لِلَّهِ أَجْذَمُ أو أقطعُ"
لیکن اس طریق میں صدقہ بن عبد اللہ موجود ہے جس کو امام احمدؒ، امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ نے ضعیف کہا ہےالبتہ امام ابوحاتمؒ (19)نے ان کی توثیق کی ہے (20)۔
حکم حدیث:
علامہ ابن صلاح ؒ (21)فرماتے ہیں:"أَنَّ الْحَدِيثَ حَسَنٌ دُونَ الصَّحِيحِ وَفَوْقَ الضَّعِيفِ مُحْتَجًّا بِأَنَّ رِجَالَهُ رِجَالُ الصَّحِيحَيْنِ سِوَى قُرَّةَ قَالَ فَإِنَّهُ مِمَّنِ انْفَرَدَ مُسْلِمٌ عَنِ الْبُخَارِيِّ بِالتَّخْرِيجِ لَه (22)''
"یہ حدیث حسن ہے جو کہ مرتبہ میں ضعیف سے بلند اور صحیح سے کم ہے۔ دلیل یہ ہے کہ قرۃ کے علاوہ اس روایت کے تمام راوی صحیحین کے راوی ہیں البتہ امام مسلم اس روایت کے ذکر کرنے میں متفرد ہیں"۔
امام نوویؒ (23) نے بھی اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔ ''
علامہ تاج الدین سبکی ؒ (24)نے قرۃ بن عبدالرحمن کی تو ثیق کرکے کہا ہے کہ سنن ابوداؤد، ترمذی ،نسائی اور ابن ماجہ نے ان سے روایت نقل کی ہے۔
سراج الدین ابن الملقنؒ (25)نے اس روایت پر طویل بحث کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ روایت موصولاً اور مرسلا ً دونوں طرق سے منقول ہے البتہ موصولا اس کی سند بہتر اور امام مسلمؒ کی شرط کے مطابق ہے لیکن امام نسائیؒ نے مرسل روایت کو ترجیح دی ہے۔
پھر خود فیصلہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ سند کا اتصال ثقہ راوی کی زیادت ہے جو کہ مقبول ہے۔ قرۃ کے بارے میں اگر چہ کلام ہوا ہے لیکن آپ صحیح مسلم کے راویوں میں سے ہیں۔ نیز ان کا متابع اور شاہد بھی منقول ہے۔ علامہ ابن الصلاحؒ نے اس روایت کو حسن کہا ہے۔ اسی طرح میرے علم کے مطابق یہ روایت حسن ہے۔ امام ابوعوانہؒ اور امام ابن حبانؒ نے بھی اس کی تصحیح کی ہے۔(26)
"بذکر اللہ" والی روایت کی تحقیق وتخریج:
یہ روایت مسند احمد میں ان الفاظ کے ساتھ واردہے: كل كلام أو أمر ذي بال لا يفتح بذكر الله، فهو أبتر أو قال: أقطع (27)
اورسنن دارقطنی نے یہ ان الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے: كُلُّ أَمْرٍ ذِي بَالً لَا يُبْدَأُ فِيهِ بِذِكْرِ اللَّهِ أَقْطَعُ (28)
الفاظ "ذکر اللہ" والی روایت بھی "حمد اللہ" والی سند سے منقول ہےاور اس میں بھی یہ قرۃ بن عبدالرحمن کے علاوہ تمام راوی ثقہ ہیں ۔
خلاصہ کلام یہ ہو ا کہ یہ روایت محدثین کے نزدیک حسن ہے اور اگر قرۃ بن عبد الرحمن کی وجہ سے اس کو ضعیف بھی مانا جائے تو بھی اس سے استدلال ٹھیک ہے اس لیے کہ اس کا تعلق فضائل کے باب سے ہے اور فضائل کے باب میں محدثین وسعت سے کام لیتے ہیں چنانچہ امام احمد بن حنبل ؒ کا قول ہے کہ حلال، حرام،سنن اور احکام سے متعلق احادیث نقل کرتے وقت ہم اسانید میں سختی کرتے ہیں جب کہ فضائل کے باب میں ہم سند میں تساہل سے کام لیتے ہیں ۔(29)
امام نووی ؒ نے فقہاء اور علماء کا قول نقل کیا ہے کہ ترغیب و ترھیب کے وقت ضعیف روایات پر عمل کرنا جائز ہے لیکن شرط یہ ہے کہ روایت موضوع نہ ہو البتہ حلال،حرام اور عقود میں صرف حدیث صحیح یا حسن پرعمل کیا جائےگا (30)۔
ملا علی قاری ؒ (31)نے علماء کا اجماع نقل کیا ہے کہ فضائل میں ضعیف روایات پر عمل کرنا جائزہے۔ (32)
مرتضی حسن زبیدیؒ (33)سے منقول ہے کہ موضوع روایت کوصرف اس صورت میں نقل کیا جائے گا جب اس کی موضوعیت کو بیا ن کیا جائے اور عقائد اور احکام کے علاوہ فضائل کے باب میں ضعیف حدیث کا نقل کرنا جائزہے۔(34)
علامہ ابن ہما مؒ (35)نے بھی فضائل میں ضعیف روایت کو نقل کرنا جائز قرار دیا ہے ۔(36)
تسمیہ والی روایت پر تحقیق:
اس روایت کو خطیب بغدادی ؒ (37)نے الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع اور تاج الدین سبکی ؒ نے طبقات الشافعیۃ الکبری میں ان الفاظ سے نقل کیاہے:كُلُّ أَمْرٍ ذِي بَالٍ لَا يُبْدَأُ فِيهِ بِبِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ أَقْطَع"(38)
لیکن اس سند میں احمد بن محمد بن عمران ابوالحسن بن الجندی ضعیف ہے۔خطیب بغدادی ؒ نے ان کے بارے میں تصریح کی ہے کہ یہ راوی ضعیف ہے اور امام زہری (39)نے اسے "لیسَ بشئٍ"کہا ہے:
ابن جوزی ؒ (40)نے ان کی روایات کو مو ضوع قراردیا ہے او ر ان کے متعلق خطیب بغدادیؒ اور امام زہریؒ کی جرح نقل کی ہے۔(41)
خلاصۃ البحث:
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ کل أمر ذی بال والی روایت کے بعض طرق میں "حمد اللّٰہ" کے الفاظ آئے ہیں جن میں قرۃ بن عبد الرحمٰن کے علاوہ تمام راوی ثقہ ہیں لیکن چونکہ آپ بھی سنن کے راوی ہیں لہذا ان پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح یہ روایت موصولاً ومرسلا ًدونوں طرح سے آئی ہے۔ امام نسائیؒ نے مرسل طریق کو ترجیح دی ہے لیکن امام نوویؒ، حافظ ابن الصلاحؒ اور علامہ سراج الدین ابن الملقنؒ نے موصول طریق کو ترجیح دے کر اسے حسن کہا ہے۔
کل أمر ذی بال والی روایت کے بعض دوسرے طرق میں "ذکر اللّٰہ" کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں بھی قرۃ بن عبد الرحمٰن کے علاوہ تمام راوی ثقہ ہیں لہذا یہ روایت بھی قابل استدلال ہے۔
اسی طرح اس روایت کی ایک طریق خطیب بغدادیؒ اور تاج الدین سبکیؒ نے ذکر کی ہے جس میں "بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم" کے الفاظ آئے ہیں لیکن چونکہ اس کا مدار ابن اجندی پر ہے جنہیں خطیب بغدادیؒ اور امام زہریؒ نے ضعیف کہا ہے لہذا یہ طریق ضعیف ہے۔
حواشی وحوالہ جات:
1: سورۃ الحجرات: ۶۔
2: ترجمہ قرآن[ القرآن الکریم]،جالندھری،مولانا فتح محمد،فاران فاؤنڈیشن لاہور،۱۴۳۰ھ/۲۰۰۹ء۔
3 :ا لمسند الصحیح المختصر بنقل العدل عن العدل الی رسول اللہﷺ ، النیسابوری ،مسلم بن الحجاج:۱/ ۱۰ ، دار احیاء التراث العربی، بیروت۔
4: صحیح البخاری ،البخاری، محمد بن اسماعیل ،کتاب العلم ، باب اثم من کذب علی النبی ﷺ،دار طوق النجاۃ طبع۱۴۲۲ھ/ ۲۰۰۱ء ۔
5: سنن ابی داؤد،ابوداؤد، سلیمان بن الأشعث، ، کتاب الاشربہ، باب فی ایکاء الآنیہ، رقم:3731،، المکتبۃ العصریۃ ،صیدا، بیروت۔
6: محمدانور بن معظم شاہ، ۱۲۹۲ھ کو کشمیر میں پیدا ہوئے۔زہد و تقوی میں مشہور تھے ۔قوی حافظہ کے مالک تھے۔ آپ نے ابتدائی کتابیں غلام رسول ہزاری سے پڑھیں اور سترہ سال کی عمر میں دیوبند پہنچ گئے۔۱۳۱۳ھ میں مولانا رشید احمد گنگوہی اور شخ الہند محمودالحسن سے دورہ حدیث
کیا ۔ آپ کے تصانیف میں فیض الباری،اکفار الملحدین اور خاتم النببین مشہور ہیں ۔۱۹۳۳ ء میں آپ وفات پاگئے۔
[بیس بڑے مسلمان،عبدالرشید ارشد: مکتبہ رشیدیہ،۲۵،لوئر مال شاہراہ پاکستان لا ہورطبع۱۹۹۹ء]۔
7: معارف السنن،بنوری ،محمد یوسف بن سید زکریا،۱/ ۶۳، ۶۴ایچ ایم سعید کمپنی،ادب منزل پاکستان چوک کراچی،طبع۱۴۱۳ھ۔
8: سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب الھدی فی الکلام،رقم:4840۔
9: ابن ماجہ،کتاب النکاح،باب خطبۃ النکاح:۱/ ۶۱۰، رقم:۱۸۹۴) مسند البزار المنشور با سم البحر الزخار، البزار،احمد بن عمرو :۱۴/ ۲۹۱،رقم :۷۸۹۸،مکتبۃ العلوم والحکم، المدینۃالمنورۃطبع۱۴۰۹ھ/ ۱۹۸۸ء۔ سنن الدار قطنی، الدارقطنی، علی بن عمر،کتا ب الصلوۃ:۱/ ۴۲۷،مؤسسۃ الرسالۃ ، بیروت- لبنان،طبع ۱۴۲۴ھ/ ۲۰۰۴ء ۔
10: الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان، ابن بلبان فارسی، باب ماجاء فی الابتداء بحمداللہ تعالیٰ،۱/ ۱۷۳، رقم:۱:مؤسسۃ الرسالۃ- بیروت، ۱۴۰۸ھ/ ۱۹۸۸ء
11: قرۃ بن عبدالرحمن بن حیوئیل المعافری۔سنن اربعہ کے راوی ہیں ، امام مسلم نے بھی ان کی ایک روایت شواہد میں لی ہے ، امام احمد بن حنبل نے منکرالحدیث، ابن معین نے ضعیف اور ابوحاتم ونسائی نے لیس بالقوی قرار دیا ہے۔147ھ کو وفات پائی۔تہذیب الکمال فی اسماء الرجال ، المزی ،یوسف بن عبدالرحمن،23/581، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت ،طبع۱۴۰۰ھ/ ۱۹۸۰ء۔
12: ابوعمر و عبدالرحمن بن عمرو الاوزاعی(۸۸ھ/ ۷۰۷ء- ۱۵۷ھ/ ۷۷۴ء)شام کے بڑے فقیہ اور زاہد گزرے ہیں۔بادشاہوں سے ان کی زیادہ تعظیم کی جاتی تھی۔آپ کوقضا پیش کیا گیا لیکن آپ نے انکار کیا۔اندلس میں ان کا فتوی چلتا تھا ۔ الأعلام، الزرکلی، خیر الدین بن محمد:۳/ ۳۲۰،دار العلم للملایین، طبع ۱۴۲۲ھ/ ۲۰۰۲ ء۔ وفیات الأعیان وأنباء أبناء الزمان، ابن خلکان، احمد بن محمد:۱/ ۲۷۵۔، دار صادر، بیروت، طبع: ۱۳۹۱ھ/ ۱۹۷۱ء ۔
13: ابوعبداللہ احمد بن محمد بن حنبل (۱۶۴ھ /۷۸۰- ۲۴۱ھ/ ۸۵۵ء) چار مشہور ائمہ میں سے تھے۔ان کے والد سرخس کے والی تھے ۔آپ نے علم کے حصول کے لئے بہت زیادہ اسفار کئے ۔آپ کے تصانیف میں مسنداحمد، فضائل الصحابہ اور کتاب الزہد زیا دہ مشہور ہے۔[ تاریخ بغداد:۱/ ۲۰۳، الاعلام:۱/ ۲۰۳]۔
14: ابوزرعۃ عبید اللہ بن عبدا لکریم الرازی(۲۰۰ھ/ ۸۱۵ء- ۲۶۴ھ/ ۸۷۸ء) ری کے مشہور امام اور حافظ حدیث تھے۔آپ نے امام احمد بن حنبل سے علم حدیث حاصل کی اور آپ کو ایک لاکھ احادیث یا د تھے ۔آپ کے بارے میں یہ مقولہ مشہور تھا کہ جس حدیث کو ابوزرعہ نہیں جانتا ہو اس کے لئے کوئی اصل نہیں ہوگا ۔ تذکرۃ الحفاظ، الذہبی ،محمدبن احمد:۲/ ۱۲۴،دارالکتب العلمیۃ ،بیروت ،لبنان طبع ۱۴۱۹ھ/ ۱۹۹۸ء-
15: ابو عبدالرحمن احمد بن علی (۲۱۵ھ/ ۸۳۰ء- ۳۰۳ھ/ ۹۱۵ء)النسائی مشہور محدث اور قاضی گزرے ہیں ۔علم حدیث سیکھنے کے لئے کئی ملکوں کا سفر کیا۔ مصر کو اپنا وطن بنایا ،لیکن وہاں کے لوگوں نے ان سے حسد کیا اس وجہ سے فلسطین چلے گئے۔آپ کے تصانیف میں سنن النسائی ، السنن الکبری اور الضعفاء والمتروکین زیادہ مشہور ہیں ۔[الاعلام:۱/ ۱۷۱۔ وفیات الاعیان:۱/ ۲۱]
16: تہذیب التہذیب ، ابن حجر، احمد بن علی العسقلانی: ۸/ ۲۷۲، ۲۷۳طبع دائرۃ المعارف النظامیۃ ، الہند طبع۱۳۲۶ھ/ ۱۹۰۸ء ۔
17: صحیح مسلم،کتاب المساقاۃ،باب بیع القلادۃ فیھا خرز وذھب:۳/ ۱۴۱۲، رقم:۱۵۹۱۔
18: سلیمان بن احمد بن ایوب (۲۶۰ھ/ ۸۷۳ء- ۳۶۰ھ/ ۹۷۱ء)لخمی، شامی، ابو القاسم۔ شام کے علاقے طبریہ کے تھے اور اسی کی طرف ان کی نسبت پڑگئی۔ حجاز، یمن، مصر، عراق، فارس اور جزیرہ کا سفر کیا۔ اصفہان میں فوت ہوئے۔ معاجم ثلاثہ: کبیر، اوسط اور صغیر کے مصنف ہیں۔
[وفیات الاعیان، ابن خلکان، احمد بن محمد، ۲: ۴۰۷، دار صادر بیروت، ۱۹۹۴ء، الاعلام۳: ۱۲۱]۔
19: محمد بن ادریس بن منذر بن داؤد (۱۹۵ھ/ ۸۱۰ء- ۲۷۷ھ/ ۸۹۰ء) ابو حاتم، رازی۔ حافظ حدیث اور امام بخاری اور امام مسلم کے ہم عصر ہیں۔ ری میں پیدا ہوئے۔ عراق، شام اور مصر کا سفر کیا۔ بغداد میں وفات پائی۔ طبقات التابعین اور تفسیر القرآن العظیم کے مصنف ہیں۔
[تاریخ بغداد، خطیب بغدادی احمد بن علی، ۲:۷ ۳، دار الکتب العلمیہ، بیروت، الاعلام۶: ۲۷]۔
20: مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، نور الدین علی بن ابی بکر ہیثمی، ۲: ۴۱۴، دار الفکر بیروت، ۱۴۱۲ھ۔
21: ابوعمرو عثمان بن عبدالرحمن المعروف بابن الصلاح (۵۷۷ھ/ ۱۱۸۱ء- ۶۴۳ھ/ ۱۲۴۵ء)تفسیر ،حدیث ،فقہ اور اسماء رجال کے بہت بڑے ماہر گزرے ہیں۔بیت المقدس میں تدریس کےخدمات سرانجام دیتے رہے ۔ان کے کتابوں میں معرفۃ انواع علم الحدیث جو کہ مقدمہ ابن الصلاح کے نام سے پہچانا جاتاہے،ادب المفتی والمستفتی اور طبقات الفقہاء الشافعیۃ زیا دہ مشہور ہے۔[الاعلام:۴/ ۲۰۸]
22: طبقات الشافعیۃ الکبری، السبکی، عبدالوہاب بن تقی الدین :۱/ ۹،دار ھجر للطباعۃ والنشر والتوزیغ، طبع:۱۴۱۳ھ/ ۱۹۹۳ء۔
23: ابوزکریا یحی بن شرف بن مری النووی الشافعی(۶۳۱ھ/ ۱۲۳۳ء-۶۷۶ھ/ ۱۲۷۷ء )فقہ اور حدیث کے مشہور امام گزرے ہیں۔دمشق میں علم حاصل کیا اور کافی عرصےتک وہاں مقیم رہے۔ان کے کتابوں میں تہذب الاسماء واللغات، منہاج الطالبین اور المنھاج فی شرح صحیح مسلم زیادہ مشہور ہیں۔الاعلام:۸/ ۱۴۹۔
24: تاج الدین عبدا لوہاب بن علی السبکی(۷۲۷ھ/ ۱۳۲۷ء- ۷۷۱ھ/ ۱۳۷۰ء) قاہرہ میں پیدا ہوئے ۔اپنے باپ اور امام ذہبی سے علم فقہ سیکھا۔ان کو شام کی قضا سپرد کی گئی۔ امام سبکی مشہور مناظر تھے ۔ان کے تصانیف میں طبقات الشافعیۃ الکبری، جمع الجوامع اورترشیح التوشیح وترجیح التصحیح زیادہ مشہور ہے۔[شذرات الذہب فی اخبار من ذہب،ابوالفلاح، عبدالحی بن احمد:۶/ ۲۲۱، بیروت دار ابن کثیر ،دمشق، طبع۱۴۰۶ھ/ ۱۹۸۶ء۔ الاعلام:۴/ ۳۲۵]۔
25: ابن الملقن عمر بن علی بن احمد الانصاری(۷۲۳ھ/ ۱۳۲۳ء- ۸۰۴ھ/ ۱۴۰۴ء) حدیث ،فقہ اور تاریخ کے مشہور عالم تھے۔ان کا اصل وطن اندلس تھا اور قاہرہ میں ان کی وفات ہوئی ۔ان کے تقریبا تین سو تصانیف تھے ۔ان میں سے ایک اکمال تہذیب الکمال فی اسماء الرجال ،التذکرۃ فی علوم الحدیث اور الاعلام فی عمدۃ الاحکام زیادہ مشہور ہے۔[الاعلام:۵/ ۵۷]۔
26: البدر المنیر فی تخریج الاحادیث والآثار الواقعہ فی الشرح الکبیر، عمر بن علی ابن الملقن، ۷: ۵۳۰، دار الہجرۃ ریاض سعودیہ، ۱۴۲۵ھ/ ۲۰۰۴ء
27: مسند الامام أحمد بن حنبل،الشیبانی ،ابو عبداللہ احمد بن محمد بن حنبل:۱۴/ ۳۲۹، مؤسسۃ الرسالۃ،۱۴۲۱ھ/۲۰۰۱ء-
28: سنن الدار قطنی، الدارقطنی، علی بن عمر:کتاب الصلوۃ:۱/ ۴۲۸،رقم:۸۸۴، مؤسسۃ الرسالۃ ، بیروت- لبنان،طبع ۱۴۲۴ھ/ ۲۰۰۴ء۔
29: الکفایۃ فی علم الروایۃ،الخطیب البغدادی،احمد بن علی:۱/ ۱۳۴، المکتبۃ العلمیۃ ، المدینۃ المنورۃ،طبع نامعلوم۔
30: الاذکار، النووی، یحی بن شرف:۱/ ۱۰۹، دار الفکر للطباعۃ والنشر والتوزیع ،بیروت لبنان،طبع ۱۴۱۴ھ/ ۱۹۹۴ء۔
31: علی بن محمد الملا علی القاری الہروی (المتوفی۱۰۱۴ھ- ۱۶۰۶ء)اپنے زمانے میں فقہ حنفی کے مشہور ماہر گزرے ہیں۔آپ نے کئی کتابیں لکھی ہیں۔ان میں تفسیر القرآن ،شرح مشکاۃ المصابیح ، شرح مشکلات الموطا زیا دہ مشہور ہیں۔الاعلام:۵/ ۱۲۔
32: مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح،الملا القاری، علی بن محمد،کتاب الصلوۃ،باب قیام شہر رمضان:۳/ ۹۶۹، دارالفکر،بیروت،لبنان، طبع۱۴۲۲ھ/ ۲۰۰۲ء۔
33: ابوالفیض محمدبن محمد الزبیدی(۱۱۴۵ھ/ ۱۷۳۲ء- ۱۲۰۵ھ/ ۱۷۹۰ء)لغت ،حدیث،اسماء رجال اور انساب کے ماہرتھے۔ان کا اصل وطن عراق تھا لیکن ان کی پیدائش ہند میں ہوئی اور یمن میں پلے۔پھر وہاں سے حجاز اور پھر مصر چلے گئے ۔ان کے کتابوں میں تاج العروس فی شرح القاموس،اتحاف السادۃ المتقین فی شرح احیاء العلوم للغزالی زیادہ مشہور ہیں۔ [الاعلام:۷/ ۷۰]۔
34: اتحاف السادۃ المتقین،الزبیدی،محمد بن محمد:۱/ ۴۱۷مؤسسۃ التاریخ العربی،طبع۱۴۱۴ھ/ ۱۹۹۴ء۔
35: ابن ہمام محمد بن عبدا لواحد(۷۹۰ھ/ ۱۳۸۸ء۔۸۶۱ھ/ ۱۴۵۷ٔء)احناف کے مشہور ائمہ میں سے تھے۔ تفسیر ،فرائض ،فقہ ،حساب اور لغت کے امام تھے۔آپ کئی مدت تک حرمین کے قریب رہے اس کے بعد اپنے شیخ کے پاس مصر چلے گئے ۔آپ کو اللہ تعالیٰ بہت بڑا رتبہ دیا تھا یہاں تک کہ بادشاہ ان کے پا س آتے تھے۔(الاعلام:۶/ ۲۵۵)۔
36: فتح القدیر،ابن الہمام،کمال الدین محمد بن عبدالواحد،کتا ب الصلوۃ،باب الامامۃ: ۱/ ۳۴۹،دارالفکر،طبع وتاریخ نامعلوم۔
37: احمد بن علی الخطیب البغددای مشہور محدث اور مؤرخ گزرے ہیں۔ابتدا میں حنبلی المذہب تھے اور بعد میں شافعی بنے ہمیشہ حنبلیوں کےساتھ مناظرے کرتے رہے۔آپ نے علم حدیث کے لئے مکہ بصرہ اور کوفہ وغیر ہ کا سفر کیا ۔آخر میں پھر بغداد آئے ۔ان کے تصانیف میں تاریخ بغداد،الکفایۃ فی علوم الدرایۃاور الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع زیا دہ مشہور ہے۔[الاعلام:۱/ ۱۷۲]
38: طبقات الشافعیۃ الکبری:۱/ ۱۲۔الجامع لأخلاق الراوی وآداب السامع، الخطيب البغدادی، أحمد بن علی بن ثابت:۲/ ۶۹، رقم:۱۲۱۰ مكتبۃ المعارف - الرياض طبع نامعلوم۔
39: ابو بکر محمد بن مسلم بن عبداللہ الزہری(۵۸ھ/ ۶۷۸ء- ۱۲۴ھ/ ۷۴۲ء)تابعی تھے۔بڑے فقیہ اور حا فظ حدیث تھے۔آپ نے دس (۱۰) صحابہ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا ۔وہ پہلے خوش نصیب انسان ہے جس نے احادیث کو مدون شکل دے دیا۔ان کو دولاکھ احادیث زبانی یاد تھے۔ان کے بارے میں عمر بن عبد العزیز نے اپنے عمال کو لکھاتھا:[عليكم بابن شهاب فإنكم لا تجدون أحدا أعلم بالسنة الماضية منه]'' تم ابن شہاب زہری کو لازم پکڑو کیونکہ تم ان کو سنت سے زیادہ جاننے والے کسی کو نہیں پاؤ گے۔[وفیات الأعیان:۴/ ۱۷۷- الأعلام:۷/ ۹۷]
40: یوسف بن عبدالرحمن بن علی ابن الجوزی البغدادی(۵۸۰ھ/ ۱۱۷۵ء- ۶۵۶ھ/ ۱۲۸۵ء)فقہ ،تاریخ ،حدیث اور ادب کے مشہور امام تھے۔وعظ میں بے مثل تھے۔خلفاء ان کواپنے مجالس میں بلاتے تھے ۔ان کے تصانیف میں تلبیس ابلیس ، الضعفاء والمتروکین اور الموضوعات زیادہ مشہور ہیں ۔[الاعلام:۴/ ۸۹۔البدایۃ والنہایۃ :۱۳/ ۲۸]۔
41: الموضوعات،ابن الجوزی،عبدالرحمن بن علی،کتاب الفضائل:۱/ ۳۶۸، ۳۶۹، مکتبہ محمد عبدالمحسن صاحب المکتبۃ السلفیۃ المدینۃ المنورۃ، طبع:۱۳۸۶ھ/ ۱۹۶۶ء۔
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 1 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2014 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |