5
2
2018
1682060029336_740
01-13
https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/144/134
https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/144
Syed Abdul Ahad Agha Tasa’wuf (Mysticism) Masoomiyah Purification.
برصغیر پاک وہند کے دوسرے حصوں کی طرح بلوچستان میں بھی اسلامی تعلیمات کی اشاعت ،خلق خدا کوتعلیمات نبویﷺسے آراستہ کرنے اور ان کی روحانی آبیاری کا سہرا علماء اورصوفیائے کرام کے سر ہے۔ اہل بلوچستان نےعلماء کرام اور صوفیاء کرام کی تعلیمات سے کما حقہ اکتساب فیض کیاہے جس کا اندازہ اس سرزمین کے مدارس،علمائے کرام ،خانقاہوں اورصوفیائے عظام کےعلمی وروحانی اثرات سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔
بلوچستان میں تعلیم وتعلم، علم وعرفان اورشعوروآگاہی کی روشنی بہت دیر سے پہنچی۔اگرچہ اس خطے میں اسلام کی آمد ابتدائی دور میں ہی ہوگئی تھی ، لیکن اقدار وروایات قبائلی ضابطوں کے مطابق ہی متعین ہوا کرتی تھی۔سرزمین بلوچستان پر بین القبائلی جھگڑوں، ضعیف الاعتقادی ،بے پناہ توہمات اور دوسری بہت سی رسوم کے ڈیرے لگے ہوئے تھے۔اس صورتحال کو تبدیل کرنے میں یقینا علماء عظام وصوفیاء کرام کا بے پناہ کردار ہے۔علماء وصوفیاء کے حلقوں میں سےکوئٹہ بلوچستان کے ایک نامور شخصیت حضرت مولانا سید عبدالاحد آغا الدلیلی نقشبندی معصومی مدظلہ العالی ہیں،جن کےخدمات وتعلیمات کا تذکرہ کرنا اس مقالے میں مقصود ہے۔
تعارف:
حضرت مولانا سید عبدالاحد آغاہیں 1939ء میں ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ سادات سید ھنی ؒ ابن سید محمد حمزہ گیسودرازؒ کی اولاد میں سے ہیں ۔ حضرت ھنیؒ کی اولاد تو زیادہ تر افغانستان میں آباد ہیں مگر کچھ پاکستان کے طول وعرض میں بھی آباد ہوئے، من جملہ ان میں سے کچھ ہستیاں کوئٹہ اور اس کے تحصل کچلاک میں کافی طویل عرصہ سے رہائش پزیر ہیں[1]۔ آپ کے خاندان میں بڑے اھل علم اور اھل اللہ ہستیاں گزری ہیں، جن میں سلسلہ نقشبندیہ کے شیخ المشائخ مفسرقرآن حضرت مولانا محمد یعقوب چرخیؒ،حضرت مولاناسیدمحمدیار آتش نفسؒ اور مصنف حرزموسوی حضرت مولاناسید محمد موسیٰؒ صاحبزادہ جیسے نامور اہل اللہ شامل ہیں۔
تعلیم وتربیت:
حضرت مولاناسید عبدالاحد آغانے اہل علم اور اہل اللہ خانوادے میں آنکھ کھولی چنانچہ آپ کی تربیت بھی اسی نہج پر ہوئی۔آپ نے حصول علم کی خاطرپاکستان وافغانستان کے طول وعرض کے اسفار کئے۔ آپ کے علمی استعداد کا یہ عالم تھا کہ صرف چند سال میں تمام بڑے کتب فنون ازقبیل صرف ، نحو ، منطق ،فقہ ، عقائد، علم کلام ، ریاضی ،فلکیات وغیرہ ازبر کئے۔ علمی مباحث میں دلیل کی بنیاد پر بات کرتے اسی وجہ سے ’’دلیلی‘‘کے نام سے مشہور ہوئے، اور یہی بعد میں آپ کا تخلص رہا۔ علمی شوق کا یہ عالم تھا کہ بعض کتابیں دودو،تین تین بار بھی پڑھی ہیں۔ دورہ حدیث سے پہلے آپ نے فنون کے تقریباًتمام کتب کی تدریس بھی کی۔ دورہ حدیث پڑھنے کا جب ارادہ کیا تو ذاتی شوق یہ تھاکہ صوبہ سرحد موجودہ خیبر پختونخوا جاکر دورہ حدیث پڑھ لے کیونکہ اس وقت صوبہ سرحد خصوصاًاکوڑہ خٹک کا ملک بھر میں علمی اعتبار سے اپنا ایک ممتاز مقام تھاچنانچہ آپ نے 1395ھ بمطابق 1974 /1975میں مناظر اسلام حضرت مولانا حمداللہ جان سے جامعہ مظہر العلوم ڈاگی ضلع صوابی میں تفسیر قرآن کریم ومناظرہ پڑھا اور 1975ء ہی میں جامعہ اکوڑہ خٹک سے دورہ حدیث مکمل کیا[2]۔
خدمات :
مولاناسیدعبدالاحد آغا کامدرسہ وخانقاہ کوئٹہ شہر سےمتصل سپنی روڈخلجی آباد میں’’جامعہ راحت القلوب وخانقاہ یعقوبیہ[3]‘‘سےمشہور ومعروف ہے۔آپ علم ظاہر وباطن کے باکمال شخصیت ہیں اور ہزاروں کےتعداد میں تشنگان علوم ظاہرہ وباطنہ کوسیراب کرتےرہے ہیں۔مولاناسید عبدالاحد آغاکےدینی خدمات کاسلسلہ زمانہ طالبعلمی سےہی جاری ہے۔ ہزاروں تشنگان علم کے پیاس بجاتے چلے آرہے ہیں ساتھ ہی سلسلہ طریقت کو جاری رکھتے ہوئے مخلوق خدا کے روحانی تربیت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔8ذی الحج 1428ھ بمطابق 8دسمبر 2007ء کو خلجی آباد بروری کوئٹہ میں جامعہ راحت القلوب وخانقاہ یعقوبیہ کی داغ بیل ڈالی جہاں علم ظاہر وباطن ، شریعت وطریقت کے تشنگان کے افادے کےلئےموقع ومقام فرہم کیا۔ جامعہ مذکورہ سے سائلان امور شرعیہ کو فقہ حنفی کے روشنی میں فتویٰ بھی جاری کیئے جاتے ہیں اور اب تک متعدد دقیق مسائل کے حل کے لیے متفق علیہ فتویٰ جاری کیئے گئے ہیں جنہیں بعد میں کتابی صورت میں شائع کرنے کا ارادہ ہے۔خانقاہ مذکورہ میں نہ صرف ذکرو اذکار یا بیعت کا سلسلہ جاری رہتاہے، بلکہ حضرت شیخ اپنے مریدوں کے اصلاح کے لئے باقاعدہ درس بھی دیتے ہیں تاکہ مرید کا تعلق مع اللہ مضبوط تر ہوں۔ مریدوں کے اصلاح ظاہروباطن پر خاص توجہ دیتے ہیں ۔مولاناسید عبدالاحد آغا ایک بارعب اوربے باک شخصیت کے مالک ہیں۔اخلاص، تقویٰ،للٰھیت اور خدا خوفی کا سچا مظہر ہے۔عقائد، اخلاق واعمال میں شرع کا پابند ،تارک دنیا ،راغب آخرت ہے،ظاہر وباطن طاعات پر مداومت رکھتا ہے۔تعلیم وتلقین میں اپنے شاگردوں ومریدوں پر شفقت رکھتاہے۔جو لوگ اس سے بیعت ہیں ان میں اکثر کی حالت باعتباراتباع شرع وقلت حرص دنیا کے اچھی ہے۔ عوام و خواص یعنی فہیم دیندار لوگ اس کی طرف زیادہ مائل ہیں ۔اس کی صحبت میں چند بار بیٹھنے سے دنیا کی محبت میں کمی اور حق تعالی کی محبت میں ترقی محسوس ہوتی ہے۔خود بھی ذاکر وشاغل ہے کیونکہ بدون عمل یا عزم عمل، تعلیم میں برکت نہیں ہوتی اور اپنے شاگردوں و مریدوں کو بھی عبادات واذکار پر مشغول دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ آپ عوام وخواص میں یکساں مقبول ہیں۔آپ کی نظر خاطر ہمیشہ غرباء ولاچار افراد پر ہی ہوتا ہے۔آپ اس سلسلے میں کافی شہرت رکھتے ہیں کہ اگر بیک وقت کوئی صاحب حیثیت اورکوئی غریب شخص موجود ہوں تو آپ غریب کو ہی ترجیح دیتے ہیں اور اکثر آپ کے مجلس میں غرباء ہی ہوتے ہیں۔صاحب ثروت کے مجلسوں سے ہمیشہ اجتناب اور غریب ولاچار کے مجلسوں میں بذات خود شرکت فرماتے ہیں۔ مولاناسید عبدالاحد آغا کا دعوت عام اور بات دوٹوک ہوتی ہے،چاہے کوئی کتنا بڑا شخص ناراض کیوں نہ ہو۔ آپ کی مجلس ،دعوت، تقریر،تحریر اور فیصلے صرف اور صرف شریعت محمدی ﷺ اورفقہ حنفیؒ کے مطابق ہوتے ہیں۔لاخوف علیھم ولاھم یحزنون[4]، کا سچاپیروکار دکھائی دیتا ہے۔آپ خلاف شریعت امور کو قطعاً برداشت نہیں کرتے اور کھل کر خلاف شریعت امور کا رد اورمخالفت فرماتے ہیں ۔اسی وجہ سے کسی غیر شرعی امر کا مرتکب شخص آپ کا سامنا کرتے ہوئے کتراتا ہے۔
بلوچستان میں اصلاح معاشرہ کے لئے صوفیاء کا بہت بڑا کردار رہا ہے۔ انتقامی بدلوں کے روک تھام ، قومی و خاندانی جھگڑوں و خصومتوں کے خاتمے ، قتل اور دوسری قومی جھگڑوں میں تصفیے کے لئے بدلے میں عورتوں وبچیوں کی بیاہی اور اس جیسے دیگرغیرشرعی و قبیح رسوات کے خاتمے میں بلوچستان کے معتبر علماء و صوفیاء کا خصوصی کردار رہا ہے۔ چنانچہ حضرت مولانا عبدالاحد آغا بھی انہی قبیح وغیرشرعی رسوم ورواج کے خاتمے، مختلف اقوام وخاندانوں کو جھگڑوں و خصومتوں سے نکال کر باہم شیروشکر کرنے اور معاشرے میں بھائی چارہ ومثبت اقدار کو فروغ دینے میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں اوراس سلسلے میں دیگر علماء وصوفیاء کی طرح آپ کی خدمات کا بلوچستان کے مختلف اقوام معترف ہیں۔
تعلیمات:
حضرت مولانا عبدالاحد آغاکی تعلیمات واضح، آسان فہم اور برائے خاص وعام ہوتے ہیں۔آپ قرآن کریم ، احادیث نبوی ﷺ اور اولیاء اللہ رحمہ اللہ کی تعلیمات بطور مثال بیان فرماتے رہتے ہیں۔ چنانچہ معرفت الہی کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
’’پروردگارعالم انسان ڈیر معزز ومشرف پیدا کڑے دی: وَلَقَد کَرمنَا بَنِی آدَمَ[5]او انسان یہ بیا د خپل معرفت دپارہ پیدا کڑے دے: وَمَاخَلَقت الجِن وَلاِنسَ اِلا لِیَعبدون [6]اوحدیث قدسی دے : کنت کنزاً مخفِیاً لاعرف فاَحببت اَن اعرَفَ فَخَلقت الخَلقَ فعرفتہم بی فعرفونی [7]نو داللہ معرفت پکار دے‘‘ ۔[8]
ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت معزز ومشرف پیدا فرمایا ہے :اور ہم نے بنی آدم کو عزت دی۔ اورانسان کو اپنی معرفت کے لیےپیدا فرمایاہے۔ ارشاد ربانی ہے کہ:میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔اور حدیث قدسی ہے کہ: میں ایک چُھپا ہوا خزانہ تھا میں نے چاہا کہ میری پہچان ہو‘ پس میں نے اپنی پہچان کے لیے مخلوق کو پیدا کیا۔ لہذا اللہ تعالیٰ کی معرفت لازمی ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو فقط اپنی معرفت ووصال کے لیے پیدا فرمایا ہے ۔ لہٰذا انسان پر واجب ہے کہ وہ دونوں جہان میں اُس چیز کو طلب کرے جس کے لیے اُسے پیدا کیاگیا ہے ۔ ایسانہ ہو کہ اس کی عمرلایعنی کاموں(فضول کاموں)میں ضائع ہو جائے اور مرنے کے بعداسے عمر کے ضائع ہونے کی دائمی ندامت اٹھانی پڑے۔ پس جو شخص اللہ تعالیٰ کو پہچانتا نہیں وہ اس کی عبادت کس طرح کر سکتا ہے؟ اور اللہ تعالیٰ کی معرفت آئینۂ دل کو حجاباتِ نفس کی کدورت سے پاک کر کے اُس کے اندر مقامِ سرّمیں مخفی خزانے کے مشاہدے سے حاصل ہوتی ہے۔ حدیث قدسی سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ کی معرفت اور پہچان ہے۔ اب انسان کو اللہ تعالیٰ کی پہچان کیسے ہوگی؟ تو اس کے لئےعرفانِ نفس،حقیقتِ انسان اور خود شناسی کی ضرورت ہے چنانچہ آپ حدیث نبویﷺ پیش کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ :
من عرف نفسہ فقد عرف ربہ۔[9]
ترجمہ:جس نے اپنے نفس کو پہچان لیاگویا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔
یعنی جس شخص نے اپنے نفس کو پہچان لیا اور اس پر غالب آگیا تو نفس اس کی سواری بن جاتا ہے اور اس کا بوجھ اُٹھاتا ہے اور اس کا حکم مانتا ہے اور مخالفت نہیں کر تا۔ تیرے اندر کوئی خوبی نہیں یہاں تک کہ تو اپنے نفس سے واقف ہو جائے اور اس کولذت سے روکے اور اس کا حق ادا کرے ہاں اس وقت تجھے دل سے قرار ملے گا اور دل کو باطن کے ساتھ قرار ملے گا اور باطن کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ قرار ملے گا۔خواہشات کے ساتھ چلنا کبھی نفس کو سیر نہیں کر سکتا اورنہ منزل تک پہنچا سکتا ہے۔آپ فرماتے ہیں کہ خودی کا عرفان ،ہنر کے تمام مرحلوں کی انتہاء ہے۔ اسی لئے تو علامہ محمداقبال ؒ فرماتے ہیں کہ:
اےزخودپوشیدہ خودرابازیابدرمسلمانی حرام است ایں حجاب
رمزدین مصطفیٰ دانی کہ چیستفاش دیدن خویش راشاہنشہی است
چیست دین؟دریافتن اسرار خویشزندگی مرگ است بے دیدارخویش
آں مسلمانے کہ بیندخویش راازجہانےبرگزیندخویش را۔[10]
اور:
بیابرخویش پیچیدن بیاموزبناخن سینہ کاویدن بیاموز
اگرخواہی خدارافاش بینیخودی رافاش تر دیدن بیاموز۔[11]
ترجمہ :یعنی جو لوگ اپنی خودی کی پہچان کے لئے کاوشیں بروئے کار لاتے ہیں اور اپنے سینے کو اس محنت سے داغدار کرلیتے ہیں ،وہی لوگ حتی الامکان اللہ تعالیٰ کی پہچان بھی کرلیتے ہیں۔دنیا کے معنی اور حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’دنیا بیا ودے تہ وائی چی ھغہ وتاتہ نزدے وی،لغۃً۔ او پہ عرف کشی دنیا ومطلق ھغہ حالت تہ وائی چی تر مرگ مخ کشی وی، او پہ شریعت کشی نوم دھغہ خاص حالت دہ چی مانع وی لہ امور دہ آخرت سخہ، او مجازاً یہ پر ھغہ اموال وامتعہ باندی اطلاق کیژی چی ھغہ اسباب وی دمانعیت دامور دآخرت سخہ۔حب ددنیا دٹولو امراضو سردےیعنی کبروبغض وحسدالخ،علاج دحب ددنیا دغہ حدیث دی چی‘‘ [12]: اکثروا ذکرھازم اللذات[13]۔
ترجمہ:لغت میں دنیا اس کو کہتے ہیں جو آپ کے قریب ہو،اور عرف میں دنیا مطلق اس حالت کو کہتے ہیں جو موت سے پہلے ہو۔شریعت میں اس خاص حالت کانام ہے جو امور آخرت سے مانع ہو۔مجازاً دنیا کا اطلاق ان متاع واموال پر ہوتا ہے جو امور آخرت سے مانعیت کے اسباب ہوں۔ حبِ دنیا تمام امراض یعنی کبر،بغض وحسد وغیرہ کا بنیاد ہے، حبِ دنیا کا علاج یہ حدیث ہے کہ: موت کو زیادہ یاد کیا کرو کیونکہ موت تمام لذتوں کو ختم کر دیتی ہے۔
طمع ولالچ کے متعلق بیان فرماتے ہیں کہ:
’’طامع سڑے ذلیل وخوار وی، قناعت او صبر نہ لری ،شاکر وحامد نہ وی۔کہ چیری دغہ طامع پہ قناعت پوہ سی
ترجمہ: یعنی قناعت وکڑی نو بہ دھروخت لپارہ معزز وی ،سردار دوعالم ﷺ فرمائیلی دی:العزمن قنع والذل من طمع۔ او کہ صبر مختارہ کڑی پرطاعات باندی او لہ معصیات راوہ گرزی نو بہ اللہ جل جلالہ لہ دہ سرہ وی پہ اعطاء د انعاماتو سرہ، او کہ شکر مختارہ کڑی نو بہ اللہ زیات انعامات ورکڑی: یاایھاالذین آمنوا استعینوا بالصبر والصلواۃ ان اللہ مع الصابرین[14]۔لئن شکرتم لازیدنکم[15]العز في القناعة، والذل في الطمع[16]: ذلك أن القانع لا يحتاج إلى الناس فلا يزال عزيزًا بينهم، والطماع يذل نفسه من أجل المزيد ۔[خلاصہ دادہ چی امل لہ اسبابو سخہ یو سبب دی دپارہ دتور والی دزڑہ، ھغہ انوار چی وزڑہ تہ پیداکیژی ھغہ پہ دغہ امل وامید سرہ لزڑہ سخہ پورتہ کیژی]‘‘ [17]
ترجمہ:طامع شخص ہمیشہ ذلیل وخوار ہوتا ہے،قانع وصابر اور شاکر وحامد نہیں ہوتا۔اگر طامع قناعت کو سمجھ جائے یعنی قناعت اپنائے تو ہمیشہ کے لئے معزز ہونگے۔حضورﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ : جس نے قناعت اختیار کی وہ معزز بنا اور جس نے طمع اپنائی وہ ذلیل ہوگا۔اگر طاعات پرصبر اختیار کرے اور گناہوں سے بچ جائے تو اللہ تعالیٰ انعامات کے اعطاء کے ساتھ ان کے ساتھ ہونگے، اور اگر شکر اپنائے تو اللہ تعالیٰ مزید انعامات عطاء فرمائیں گے۔ارشاد ربانی ہے کہ: اے ایمان والو صبر اور نماز کے ساتھ اللہ سے مدد مانگو ،بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔اگر تم شکر کرو گے تو میں اور زیادہ دوں گا۔ قناعت میں عزت اور طمع میں ذلالت ہے۔ یہ اس لئے کہ قانع شخص لوگوں کا محتاج نہیں ہوتا اس لئے ہمیشہ لوگوں میں معزز رہتا ہے اور طمع ولالچ والا مزید چاہنے کی وجہ سے اپنے آپ کو ذلیل کردیتا ہے۔خلاصہ یہ کہ اَمَل ( طمع ولالچ )دل کو سیاہ کرنے کے اسباب میں سے ایک سبب ہے، وہ انوار الہی جو دل میں پیدا ہوتے ہیں وہ اس طمع کے سبب اٹھ جاتے ہیں۔
مولاناسیدعبدالاحد آغا انتہائی شفیق وملنسار شخصیت کے حامل ہیں ۔شرعی امور کے علاوہ کبھی بھی غصہ نہیں کرتے اور وعظ ونصیحت کے علاوہ اپنے مجالس میں بھی بارہا یہ تذکرہ کرتے ہیں کہ بے جا غصہ سے اجتناب کریں ۔آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اول خو دالازمہ دہ چی انسان بہ غصہ نہ کوی :ان رجلاً قال للنبیﷺاوصنی قاللاتغضب فردد مراراًقال لاتغضب[18] او کہ چیری غصہ وکڑی( زکہ چی غصہ خو غیر اختیاری دہ)بیا بہ سوچ کوی پہ دغہ وخت دغصہ کشی بہ بدلہ نہ اخلی ۔فرضاً کہ ترحد شرعی انسان تیر سی ،یعنی ظلم زِنِی وہ سی بیا بہ معافی اخلی، او پہ ژبہ بہ اعوذباللہ وائی۔دادنیکانو خلقو کار دی چی غصہ بہ ضبط کوی او ترتقصیراتو بہ تیریژی او د خدائی نیکان خلق محبوب دی‘‘ [19]
وَالکاظِمِینَ الغَیضَ وَالعَافِینَ عَنِ الناسِ وَاللہ یحِب المحسِنِین[20]۔
پہلے تو انسان پر لازم ہے کہ غصہ نہ کرےاور اگر کبھی غصہ ہوبھی جائے کیونکہ غصہ تو غیراختیاری چیز ہے تو پھر غصے کی حالت میں سوچ بچار سے کام لے،اس وقت کسی سے بدلہ نہ لے۔اگر کبھی انسان حدِشرعی پار کرے یعنی اس سے ظلم ہوجائےتو اسے مظلوم سے معافی لینی چاہئیے اور زبان سے اعوذباللہ پڑھےنیک لوگ غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کے تقصیرات وغیرہ سے درگزر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو بھی ایسے نیک اور احسان کرنے والے لوگ پسند ہیں۔
جھوٹ اور جھوٹےشخص سے آپ کو سخت نفرت ہے ،جھوٹ کے متعلق آپ فرماتے ہیں کہ:
’’دیوسڑی خبرہ چی متکلم را نقل کوی او پہ ھغہ خبرہ کشی متکلم تحقیق و بیان نہ وی کڑی،بےثبوتہ د خبری بیان کوی ودی بیان تہ دروغ وائی، اودا ڈیرہ گناہ دہ چی یو سڑےبے علمہ د بل چا خبرہ بیانہ وی۔کفیٰ بالمرء کذباًان یحدث بکل ماسمع۔[21] پروردگار عالم فرمائیلی دی چی لہ دروغو سخہ لری سی،درواغ مہ وایاست۔ واجتنبوا قول الزور۔[22] دروغ او فجور یو شئی دی یعنی کاذب سڑے اوفاجر سڑے دواڑہ یو حکم لری،چی دوی دواڑہ بہ پہ جہنم کشی وی۔درے وارہ چی یو سڑے شھادت پہ درواغو ورکڑی ،نودرواغ ددغہ سڑے لہ شرک سرہ برابر دی:
دروغ آدمی راکند شرمساردروغ آدمی را کند بے وقار[23]
خلاصہ دا چی دروزغن سڑے بہ ہمیشہ ذلیل او خوار وی ،شرمندہ بہ وی او پہ دغہ سڑی بہ باور نہ کوی‘‘۔[24]
ترجمہ:جب متکلم کسی شخص کی بات بغیر تحقیق وبیان کے نقل کرے ، بلا ثبوت کسی بات کو بیان کررہاہو تو اسے جھوٹ کہا جاتا ہے۔اور یہ بہت بڑی گناہ ہے کہ کسی کی بات بلا تحقیق بیان کی جائے۔ حضورﷺ فرماتے ہیں کہ : کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جھوٹ سے بچو،جھوٹ مت بولو۔جھوٹ اور فجور ایک چیز ہیں ، جھوٹے اور فاجر شخص کا ایک ہی حکم ہے ،یہ دونوں جہنم میں ہونگے۔ تین مرتبہ جب کوئی شخص جھوٹی گواہی دے تو اس کےیہ جھوٹ شرک کے مساوی ہیں۔ جھوٹ انسان کو شرمندہ اور بے وقار کردیتا ہے ۔ خلاصہ یہ کہ جھوٹا انسان ہمیشہ ذلیل وخوار ہوگااور اس پر کوئی بھروسہ بھی نہیں کرے گا۔
آپ ہمیشہ فرماتے ہیں کہ :
زندگی کے بعد موت ہے، ہمجولی مٹی کے سپرد ہونے والے ہیں۔ یاد رکھیے! وہی لوگ کثرت سے نمازیں پڑھنے اور روزے رکھنے کے سبب سبقت لے گئے جنہوں نے میٹھی نیند چھوڑ دی اور جنت کو اپنی منزل بنایا، اس لیے ہمت کروتاکہ غنیمت حاصل کرو، جلدی کرو اس سے پہلے کہ تمہیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔رات کے اندھیرے میں امید کے دروازے پر دستک دو، خوب ذہن نشین کر لو کہ موت کے دروازے سے ہر ایک نے گزرنا ہے اور اس کو ٹالا نہیں جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ کاارشادہے کہ:
ذَٰلِكَ يَوْمٌ مَّجْمُوعٌ لَّهُ النَّاسُ وَذَٰلِكَ يَوْمٌ مَّشْهُودٌ وَمَا نُؤَخِّرُهُ إِلَّا لِأَجَلٍ مَّعْدُودٍ يَوْمَ يَأْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ۔[25]
ترجمہ:وہ ایک دن ہوگا جس میں سب لوگ جمع ہوں گے اور پھر جو کچھ بھی اُس روز ہوگا سب کی آنکھوں کے سامنے ہوگا ۔ہم اس کے لانے میں کچھ بہت زیادہ تاخیر نہیں کر رہے ہیں، بس ایک گنی چنی مدت اس کے لیے مقرر ہے ۔جب وہ آئے گا تو کسی کو بات کرنے کی مجال نہ ہوگی، الا یہ کہ خدا کی اجازت سے کچھ عرض کرے پھر کچھ لوگ اس روز بد بخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت ۔
اللہ ہمارا رب ہے، اس کی شان بلند ہے اس نے مخلوق کو پیدا کیا، سنوارا، اس نے تقدیر لکھی اور مخلوق کو ہدایت دی، ہر چیز کو اس نے پیدا کیا اور اس کی تقدیر رقم فرما دی۔یہ کائنات اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے اس کے نظم و ضبط اور پختگی میں اس کے بنانے والے کی تقدیر اور تدبیرمضمر ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُونٍ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ وَمَن لَّسْتُمْ لَهُ بِرَازِقِينَ۔وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ۔[26]
ترجمہ:ہم نے زمین کو پھیلایا، اُس میں پہاڑ جمائے، اس میں ہر نوع کی نباتات ٹھیک ٹھیک نپی تلی مقدار کے ساتھ اگائی ، اور اس میں معیشت کے اسباب فراہم کیے، تمہارے لیے بھی اور اُن بہت سی مخلوقات کے لیے بھی جن کے رازق تم نہیں ہو۔کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں، اور جس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیں ایک مقرر مقدار میں نازل کرتے ہیں۔
راستے کامتعین اور واضح ہونا، متوازن رفتار اور مہذب رویہ، متصوفانہ وسعادت مندانہ زندگی کے اصولوں میں سے اور دین اسلام میں معاملات کی بنیادوں میں سے ہے۔ کامل ایمان والا مومن وہ ہے جو سب سے اچھے اخلاق والا ہے، اعتال، توازن اور نظم و ضبط سب کچھ انسانی شخصیت میں راسخ اخلاق و عادات سے منعکس ہوتا ہے۔ جو اس کے اخلاق و اعمال کو حق کے موافق، برائی سے دور اور احساسات کا لحاظ کرنے والا بناتی ہیں۔ یعنی حقوق کی ادائیگی کا ہمیشہ خیال اور حقوق و فرائض میں توازن و اعتدال کرنے والا بنا دیتی ہے۔منظم معاملات تصحیح سوچ زندگی کا ذائقہ شیریں کر دیتی ہے اور اللہ کےحکم سے ایسے بوجھل خیالات سے بھی بچاتی ہے جو عقل، صحت اور مال کے لیے وبال بن جائیں۔ گہرے احساسات، بلند ارادے جن کی قیادت غیر متزلزل، سچا عزم اور استقامت کے ہاتھ میں ہو، امیدیں قوت سےنہیں بلکہ عزیمت اور استقامت سے اور اچھے آداب سے پوری ہوتی ہیں۔ مستقل مزاج مسلمان اپنی زندگی میں محنت کرنے والا اور اپنے کاموں کو منظم کرنے والا ہوتا ہے وہ اپنے وقت کے ہر لمحے کو کارآمد سمجھتا ہے اور اپنے ہر کام کا مقصد مقرر کرلیتا ہے اس کا کوئی لمحہ ضائع اور زندگی کی کوئی ساعت فضول نہیں ہوتی۔ وہ اہم اورغیر اہم چیزوں میں ترجیح پیدا کرتا ہے، اسلام کے فرائض، احکام اور آداب ہیں جو مسلمان کو اس کی پوری زندگی میں نظم وضبط کی ضرورت اور آداب کی طرف متنبہ کرتے ہیں۔
آپ فرماتے ہیں کہ سفر اور صحبت کے آداب کے متعلق اپنے نبی محمدﷺ کی تعلیمات کو یاد کرو، آپﷺ نے فرمایا:
اذاکان ثلاثۃ فی سفر فلیؤمروا احدھم [27]
ترجمہ: جب تین شخص سفر میں نکلیں تو ایک کو اپنا امیر بنا لیں۔
ابو ثعلبہ الخشنی سے روایت ہے کہعمر
کان الناس اذا نزل رسول اللہ ﷺمنزلاًتفرقوا فی الشعاب والاودیۃ ،فقال رسول اللہﷺ ان تفرقکم فی ھذہ الشعاب والاودیۃ انما ذالکم من الشیطان،فلم ینزل بعد ذالک منزلاً الا انضم بعضہم الیٰ بعض حتی یقال لوبسط علیھم ثوب لعمھم ۔[28]
ترجمہ: رسول اللہ ﷺجب کسی جگہ پڑاؤ ڈالتے تو لوگ گھاٹیوں اور وادیوں میں منتشر ہو جاتے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ان گھاٹیوں اور وادیوں میں تمہارا منتشر ہونا شیطان کی طرف سے ہے۔ اس کے بعد جب بھی کسی جگہ پڑاؤ ڈالتے توایک دوسرے کے ساتھ مل کر بیٹھتے حتیٰ کہ اگر ان پر کپڑا پھیلایا جائے تو سب پر آجائے۔
مہذب لوگ عمدہ الفاظ کا انتخاب کرتے ہیں، مناسب وقت اور موزوں طرز عمل اختیار کرتے ہیں، بلند ذوق رکھنے والے جھگڑے اور غصے کی شدت کو ختم کر دیتے ہیں، نامناسب اقوال اور برے افعال سے نفرت کرتےہیں، خشک مزاجی، درشتی او رسختی سے اجتناب کرتے ہیں۔ جس شخص میں توازن نہ ہو اور وہ افراط و تفریط کا شکار ہو تو اس کا نفس سخت، طبیعت خشک اور اس شخص کےل یے جس کے اردگرد تھکاوٹ اور فضولیات ہیں، وہ عبادات کا خیال نہیں رکھتا اور نہ لغزشوں سے بچتا ہے، اپنے کلام سے دوسروں کو تکلیف اور اپنی نظر سے زخم لگاتا ہے۔تہذیب سے ناآشنائی، برے طرز عمل، ناقص تدبیر، انجام سے بے پروائی وقت گزرنے کے بعد شرمندگی کی طرف لے جاتی ہے۔ غیر متوازن شخص کا کوئی ہدف مقرر اورکوئی کام سوچا سمجھا نہیں ہوتا۔ وہ ہر کام جلد بازی سے کرتا ہے لیکن پورا نہیں کرتا، اس کے وعدے ناقابل اعتبار ہوتے ہیں، وہ کام کی ابتدا کرتا ہے لیکن اسے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچاتا۔ دوسروں کے کاموں میں بہت زیادہ مداخلت کرتا ہے، اس کی حالت افراتفری اور اضطراب کی ہوتی ہے، وہ اپنی قوتوں کو رائیگاں، اپنے اوقات کو ضائع اور اپنی کوششوں کو منتشر کر لیتا ہے۔ تاخیر اور تردد کے درمیان وہ اپنی عمر ضائع کر لیتا ہے، فضول کاموں میں اپنا وقت ضائع کرتا ہے۔ایسے بے کار لوگوں کا رویہ عام طور پر رد عمل پر مبنی ہوتا ہے یا بغیر غور و فکر کےتقلید پر۔ یہ ہوا کے رخ پر چلتے ہیں، اگر لوگ برائی کریں تو یہ ان سے الگ رہنے کی طاقت نہیں رکھتے، فضول لڑائی جھگڑے اور تو تکار میں لگے رہتے ہیں۔ بے جا تنقیدان کا مشغلہ ہوتا ہے، نیک عزائم سے محروم لیکن غلبہ کے لیے نعرہ زن رہتے ہیں، ان کی زبانوں، قلموں اور ان کے مکالمات میں جو کچھ ہوتا ہے ان کے لیے موجب ہلاکت ہے۔جس نے بغیر کسی سبب کے کسی سے قطع تعلق کر لیا، عنقریب وہ بغیر کسی سبب کے راضی ہو گا، مسلمان بلندی کی منزلوں کواچھے اخلاق سے ہی فروغ دے سکتا ہے اورمقولہ ہے کہ آدمی کی خوبیاں بڑوں کے ساتھ معاملہ میں واضح نہیں ہوتیں بلکہ اس کی فضیلت اپنے سے کم تر کے ساتھ رویہ میں واضح ہوتی ہے۔ ایسے ہی شرافت، اچھا اخلاق اور بلند ذوق واضح ہو جاتا ہے۔
خلاصۃ البحث:
بلوچستان میں اسلامی تعلیمات کی اشاعت ، خلق خدا کو تعلیمات نبویﷺ سے آراستہ کرنے اور ان کی روحانی آبیاری کے لئے علماء وصوفیائے کرام نے شبانہ روز محنت کی ہے۔ان باصفا ہستیوں کے روحانی اثرات سے اہل بلوچستان نے کما حقہ اکتساب فیض حاصل کیاہے ۔معاشرتی اصلاح میں صوفیاء وخانقاہوں کا ایک اہم کردار ہے جنہوں نےجہالت ،توہم پرستی، ضعیف الاعتقادی اور قبیح رسوم کا خاتمہ کیا۔ ان کے تعلیمات کے اثر سے غیرشرعی رسوم کا چلن خاصا کم ہوچکا ہے ، علم کی روشنی اور شعور وآگہی پروان چڑھا ہے۔ قبائلی جھگڑوں اور خاندانی دشمنیوں کی بجائے بھائی چارہ اور اخوت کے جذبات نے جگہ لی ہے۔ جابجا دینی مدارس قائم ہیں۔ تبلیغی وفود اور جماعتیں بلوچستان کی دورافتادہ ، سنگلاخ اور بے آب وگیاہ علاقوں تک پھیل چکے ہیں ۔تاہم قبائل اقدار وروایات جو غالباً کسی حد تک ایک قبائلی معاشرے کی ضرورت ہیں، اب بھی باقی ہیں ،لیکن ان میں زیادہ تر ایسی ہیں جو شریعت کے منافی نہیں اور جو منافی ہیں تو ان کی شدت میں کمی آتی جارہی ہے۔غرضیکہ بلوچستان میں جو مسائل انتظامی ادارے، عدالتیں اور حکمران ختم نہیں کرسکتے وہ ان شیوخ، علماء وصوفیاء کرام اور درویشوں کے فیوضات سے حل ہوجاتے ہیں۔انہی خدمات میں حضرت مولاناسید عبدالاحد آغا کا ایک وسیع حصہ اور حلقہ وجود رکھتا ہے اور لوگ فیض یا ب ہوتے رہے ہیں ۔
حوالہ جات
- ↑ محمد عبداللہ شاہ ، تذکرہ سادات، کوئٹہ ،مکتبہ سید خیل ، 2009 ء،ص98
- ↑ بالمشافہ ملاقات میں تفصیل بتایا گیا ہے۔
- ↑ خانقاہ یعقوبیہ کا نسبت حضرت مولاناسید عبدالاحد آغا کے جدامجد اور سلسلہ نقشبندیہ کے نامور شیخ حضرت مولانا محمدیعقوب چرخیؒ کی طرف ہے۔
- ↑ القرآن : یونس62:10
- ↑ لقرآن : الاسراء:1770
- ↑ ا لقرآن : لذاریات56:15
- ↑ الہروی القاری، نورالدین علی بن سلطان محمد، المصنوع فی معرفۃ الاحادیث الموضوع، مکتبۃ المطبوعات الاسلامیہ، بیروت، 1426ھ، ص141
- ↑ آغا،مولانا سیدعبدالاحد ،خطباتِ تصوف،کوئٹہ،جامعہ راحت القلوب وخانقاہ یعقوبیہ،2010ء،ص21
- ↑ الہروی القاری، نورالدین علی بن سلطان محمد، المصنوع فی معرفۃ الاحادیث الموضوع،ص189
- ↑ اقبال،علامہ محمد، پس چہ بایدکرد،شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور،س ن، ص854
- ↑ اقبال،علامہ محمد، ارمغان حجاز،شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور،س ن، ص991
- ↑ آغا،مولانا سیدعبدالاحد ،خطباتِ تصوف ،ص22
- ↑ ترمذی ،محمد بن عیسیٰ بن سورہ ،الجامع للترمذی/ الجامع المختصرمن السنن عن رسول اللهَﷺومعرفة الصحیح والمعلول وماعلیہ العمل،مکتبہ علوم اسلامیہ،چمن،1425ھ،ابواب الزھد،باب ماجاء فی ذکرالموت، ج2،ص57
- ↑ ا لقرآن : البقرہ153:2
- ↑ ا لقرآن : ابراھیم7:14
- ↑ الغزالی الطوسی،ابوحامدمحمد بن محمد،إحياء علوم الدين،مطبعۃ المیمنیہ،مصر،1331ھ،ج4، ص212
- ↑ آغا،مولانا سیدعبدالاحد ،خطباتِ تصوف ،ص22
- ↑ البخاری،ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل،الجامع الصحیح للبخاری/ الجامع المسندالمختصر من امور رسول اللهَ ﷺ وسننہ وایامہ ، کراچی،قدیمی کتب خانہ، کتاب الادب، باب الحذرمن الغضب ،ج2،ص 903
- ↑ آغا،مولانا سیدعبدالاحد ،خطباتِ تصوف ،ص25
- ↑ لقرآن : آل عمران134:3
- ↑ القشیری،ابوالحسین مسلم ابن الحجاج ، الجامع الصحیح للمسلم/ المسند الصحیح المختصر من السنن بنقل العدل عن العدل عن رسول اللهَ ﷺ،کراچی،قدیمی کتب خانہ،1375ھ،مقدمہ،باب النہی عن الحدیث بکل ماسمع،ج1،ص8
- ↑ الحج30:22
- ↑ سعدی شیرازی،مُصلِح الدین مشرف بن عبدالله ، پنج گنج،مکتبہ ماجدیہ،کوئٹہ،1401ھ،کریما،باب درمذمت کذب، ص13
- ↑ آغا،مولانا سیدعبدالاحد ،خطباتِ تصوف ،ص26
- ↑ لقرآن : ھود105:11
- ↑ ا لقرآن : لحجر20:15-19
- ↑ السجستانی، ابی داؤد سلیمان بن اشعث،السنن لابی داؤد، مکتبہ رحمانیہ، لاہور ،کتاب الجہاد، باب فی القوم یسافرون یؤمرون، ج1،ص375
- ↑ ایضاً، کتاب الجہاد، باب مایؤمرمن انضمام العسکروسعتہ، ج1،ص377
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |