2
1
2015
1682060029336_859
78-94
https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/86/77
https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/86
تعارف عنوان:
عصر حاضر میں دنیا نے ترقی کے وہ زینے پار کیے ہیں جس کا تصور بھی عصر قدیم میں کسی نے نہیں کیا تھا۔ سائنس نے کئی اوجھل اوامر کے نشیب وفراز معلوم کیے اور ان کے اسرار ورموز واضح کردیے لیکن اس کے باوجود مذہب کی اہمیت جتنی ماضی میں محسوس کی گئی تھی اور اس کا لوگوں پر اثر تھا اتنا ہی موجودہ دور میں بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ میڈیا کی تیز رفتاری کے باعث لوگ ایک دوسرے کے عقائد ونظریات سے باخبر ہونے لگے ہیں۔ دنیا میں غالب اقوام اپنے نظریات کی پرچار کرتے ہیں تو مغلوب اقوام اپنے نظریات کو بچانے کے درپے ہیں۔ اس بنیاد پر موجودہ دور میں مذہب کی بنیاد پر ایک سرد جنگ جاری ہے۔
دنیا کے مذاہب اور خصوصا ہمسایہ ممالک کے مذاہب کا مطالعہ اس وجہ سے بھی ضروری ہے تاکہ ان کے مشترک اور مختلف اقدار معلوم ہوسکیں۔ ان کے موافقات اور تضادات کا جائزہ لیا جاسکے۔ ہندو پاک (بھارت) میں ہندومت اور سکھ مت دو اہم مذاہب شامل ہیں۔ ہندومت ایک قدیم جب کہ سکھ مت ایک جدید دھرم ہے۔ سکھ مت نے ایسے دور میں جنم لیا ہے جب کہ برصغیر میں مسلمان اور ہندو ایک دسترخوان پر کھاتے تھے۔ ظاہر ہے ایسی حالات میں سکھ مت نے دونوں مذاہب سے کچھ نہ کچھ تنکے اٹھا کر اپنے آشیانے کو وجود دیا ہوگا۔ مذکورہ بات ایک حقیقت ہے۔ موجودہ دور میں سکھ مت اگر چہ ہندومت کے قریب بلکہ اس کے اکثر نظریات ہندومت میں مدغم ہوکر رہ گئے ہیں لیکن ابتدائی دورمیں سکھ دھرم اسلام کے انتہائی قریب تھا۔ بدقسمتی سے گرو نانک برصغیر میں جس امن اور صلح کے پیغام لے کر آئے تھے اس کے منافق پیروکاروں نے ان کی تعلیمات کے برعکس ان کی خواہشوں پر پانی پھیر کر سکھوں کے نئے مذہب کو بدنام کردیا۔ ہزاروں بے گناہوں کے خون کرنے اور بچوں، بوڑھوں اور عورتوں پر ظلم کرنے کی وجہ سے مغل حکمران سکھوں کے ساتھ محاذ آرائیوں پر مجبور ہوگئے جس کی وجہ سے اسلام اور سکھ دھرم میں کافی بعد پیدا ہوا۔ اس کے باوجود اگر انصاف سے کام لیا جائے اور سکھ دھرم کے اولین نظریات و تعلیمات ان کے سامنے رکھ دیے جائیں تو اس دوری کا کچھ حد تک ازالہ کیا جاسکتا ہے۔
یہ مقالہ اسی تسلسل کی ایک کڑی ہے۔ اگر چہ اس محدود مقالے میں تفصیل کے ساتھ ان تمام اسلامی نظریات کا احاطہ ناممکن ہے جو سکھ دھرم میں پائے جاتے ہیں لیکن پھر بھی اختصار کے ساتھ ایسے نظریات کا ذکر کرکے اس ناحیہ کے متعلق یہ مقالہ بنیادی حیثیت حاصل کرسکے گا جو کہ اس حوالہ سے قلم
اٹھانے والوں کے لیے معاون ثابت ہوگا۔
سکھ دھرم کا تعارف
سکھ سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے معنی مرید یا تابع کے ہیں (1)۔ بعض محققین کے نزدیک سکھ پالی(Pāli) زبان کے لفظ سکھا(Sikkha) سے نکلا ہے جس کے معنی چیلا اور مرید کے ہیں۔ (2)
سکھ دھرم گورونانک کے بعد دس گورو پر مشتمل ہے جن میں آخری گورو گوبند سنگھ ہے۔ انہوں نے گورو (معلمین) کے سلسلے کے اختتام کا اعلان کیا۔ (3)
انسائیکلو پیڈیا آف ریلیجنز اینڈ بیلیفس نے سکھ کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے: ہر وہ انسان جو دس گورو اور گرنتھ صاحب پر یقین رکھتا ہو"۔(4)
1891ء کی مردم شماری میں سکھ اس شخص کو تصور کیا جانے لگا جو خالصہ کا ممبر ہو اور گورو گوبند سنگھ کا پیروکار ہو۔ (5)
بانی مذہب کا تعارف
سکھ دھرم کے بانی گورونانک ۱۵ اپریل ۱۴۶۹ء کو لاہور سے چالیس میل دور گاؤں تلونڈی ضلع شیخوپورہ کے ایک کھستری مہتہ کالوچندکے گھر میں علی الصبح پیدا ہوئے (6)۔ ماں کا نام تریتا دیوی تھا۔ پانچ سال کی عمر میں سکول میں داخل ہوا اور ہندی اور پنجابی سیکھی۔ ایک معلم ملا قطب الدین سے فارسی پڑھی۔ سنسکرت بھی سیکھی۔ نانک نے پڑھائی کی طرف بالکل توجہ نہیں دی بلکہ ہر وقت سوچ وبچار میں ڈوبا رہتا۔
۱۹ سال کی عمر میں سلکھنی دیوی عرف چندو رانی سے اس کی شادی ہوئی اور آپ کے دو بیٹے سری چند اور لکھی داس پیدا ہوئے۔ کچھ وقت تک نانک نواب دولت خان لودھی کے خیرات خانے میں ملازم رہا۔(7)
اس کے بعد نانک نے مختلف اسفارکیے۔ مشرق کی طرف جاکر ہندؤؤں کی مقدس جگہوں کی زیارت کی اور پنڈتوں سے روحانی مسائل پر بحث کی۔ دوسرا سفر جنوب کی طرف کیا اور سری لنکا پہنچا۔ تیسرا سفر شمال کی طرف کیا جس میں مکہ، مدینہ، بصرہ اور بغداد تک گیا۔ واپسی پر کرتاپور (سیالکوٹ) میں قیام کرکے آخری دم تک تقریبا آٹھ سال لوگوں کی اصلاح کرتا رہا (8)۔ نانک کا دعوی تھا کہ اس نے اللہ رب العزت کی رؤیت کا شرف حاصل کیا ہے۔ بعد میں تین دن غائب ہونے کے بعد "نہ ہندو نہ مسلمان" نعرے کے ساتھ ظاہر ہوئے (9)۔نانک نے۲۲ دسمبر ۱۵۳۹ء کو وفات پائی۔ مسلمانوں اور ہندؤؤں میں جھگڑا پیدا ہوا۔ مسلمان اسے دفنانا چاہتے تھے اور ہندو جلانا چاہتے تھے۔ آخر فیصلہ اس پر ہوا کہ دونوں فریق لاش پر پھول رکھیں گے جس کے پھول صبح کو مرجھاگئے ہوں تو دوسرا فریق لاش لے جائے گا۔ صبح ہوئی تو لاش غائب تھی اور چادر وہی پڑی تھی جسے دونوں فریق میں تقسیم کردی گئی۔(10)
دس گورووں کا مختصر تعارف
گورو انگد دیو جی Guru Angad Dev Ji(1504-1552): گورو نانک نے گوروانگد کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ چونکہ گورونانک عقیدہ تناسخ کے قائل تھے لہذا سکھوں میں مشہور ہوا کہ نانک کی روح انگد میں حلول کرگئی ہے۔ گورو انگد ایک غریب اور مخلص عبادت گزار انسان تھا۔ اپنے ہاتھوں سے روزی کماتے تھے۔ اس نے گورو امرداس کو اپنا جانشین مقرر کیا۔(11)
گورو امرداس جی(1479-1574) Guru Amar Das Ji : سکھوں کے تیسرے گورو امرداس ہیں جو کہ بائیس سال گدی پر بیٹھے رہے۔ امرداس ایک مخلص جانشین ثابت ہوا۔ انہوں نے مذہب کی پرچار کی۔ ملک کے مختلف حصوں میں کئی منجیاں (تبلیغ کے لیے بیٹھک) قائم کیں۔ سکھوں میں مساوات بڑھانے کے لیے ایک عام لنگر قائم کیا۔ اکبر بادشاہ کے ساتھ روابط مضبوط کردیے۔ رسم ستی کی مخالفت کی اور نکاح بیوگان پر زور دیا۔
گورو رام داس جی(1534-1581) Guru Ram Das Ji : امرداس کے بعد رام داس جانشین مقرر ہوا۔ اکبر بادشاہ اس کا بہت مداح تھا۔ انہوں نے اسے ایک وسیع قطعہ اراضی عنایت کردیا جہاں اس نے مقدس تالاب بنایا جو امرتسر (آب حیات کا تالاب) سے مشہور ہوا۔ اب یہ پورا علاقہ امرتسر سے مشہور ہے۔
گورو ارجن دیو جی (1563-1601) Guru Arjan Dev Ji : رام داس کے بعد اس کا بیٹا گورو ارجن گدی نشین ہوا۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ سکھوں کی مشہور مذہبی کتاب گورو گرنتھ کی تالیف ہے۔ اس کے لیے انہوں نے گورووَں کے شدوں، ہندو یوگیوں اور مسلمانوں کی تصانیف سے اقتباسات جمع کیے۔ گورو ارجن کا دوسرا کارنامہ یہ تھا کہ اس نے گورو کے نام چندہ جمع کیا اور اپنے مریدوں میں تجارت کی حوصلہ افزائی کی۔ گورو ارجن نے اپنے والد کے باغی شہزادہ خسرو کی مدد کی۔ شہزادہ خسرو کی شکست کے بعد گورو ارجن کو لاہور میں قید کیا گیا۔ جیل ہی میں مختلف اذیتوں کے بعد گورو ارجن نے وفات پائی۔گورو ارجن
کے بعد گورو گدی موروثی چیز بن گئی۔(12)
گورو ہرگوبند جی(1595-1644) Guru Hargūbind Ji : گورو ہرگوبند سنگھ گیارہ سال کی عمر میں گدی نشین ہوا۔ عشر اور نذرانوں کی وجہ سے امیر ترین شخص تھا۔ چونکہ مغل بادشاہ جہانگیر کے ساتھ دشمنی رکھتا تھا لہذا نفس کشی چھوڑ کر فوجی زندگی شروع کی۔ مغل فوجوں سے کئی بار محاذ آرائی کی اور انہیں نقصان پہنچایا۔ موت سے پہلے اپنے نواسے گورو ہری رائے کو اپنا جانشین مقرر کیا۔
گورو ہر رائے جی (1630-1616) Guru Har Raʼi Ji : گورو ہر رائے ایک اچھا شکاری اور بہت نرم دل تھا۔ اپنی حفاظت کی خاطر ۲۲۰۰ سکھ سواروں کا دستہ رکھتا تھا۔ چونکہ ہر رائے جی کے داراشکوہ کے ساتھ اچھے تعلقات تھے لہذا اورنگزیب کے خلاف اس کی مدد کی۔(13)
گورو ہرکرشن (1656-1664) Guru Har Krishan : گورو ہرکرشن گورو ہررائے کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا۔ چھ سال کی عمر میں گدی نشین ہوا۔ رام رائے نے اس کے خلاف اپنا دعوی اورنگزیب کے سامنے پیش کیا۔ گورو ہرکرشن دہلی بلایا گیا جہاں وہ چیچک کی وجہ ۱۶۶۴ء میں فوت ہوا۔(14)
تیغ بہادر (1621-1675) Guru Tegh Bahādur : ہرکرشن کے بعد گدی نشین کے متعلق تنازع پیدا ہوا اور بہت زیادہ مخالفت کے بعد گورو تیغ بہادر گورو تسلیم کیا گیا۔ چونکہ اس کی مخالفت کی آگ ابھی بھی ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی لہذا دھیر مل نے اس پر حملہ کیا۔ تیغ بہادر بچ گیا تو اس نے دھیر مل پر حملہ کیا۔ ان فسادات کی وجہ سے گورو گرنتھ کا اصل نسخہ ضائع ہوا (15)۔ان حالات کی وجہ سے گورو تیغ بہادر نے ہندوستان کا ایک طویل سفر کیا۔ واپس آیا تو لوٹ کھسوٹ پر زندگی بسر کی اور تمام قانون شکنوں کو پناہ دی جس کہ وجہ شاہی دستوں نے اس پر چڑھائی کی اور قید کرکے دہلی لے آئے۔ بادشاہ کے حکم سے اسے ۱۶۷۵ء میں سزائے موت دی گئی۔(16)
گورو گوبند سنگھ(1666-1708) Guru Gobind Singh : گورو تیغ بہادر کے بعد اس کے بیٹے گورو گوبندکو گورو تسلیم کیا گیا۔ گورو گوبند سنگھ کے دل میں اورنگزیب عالمگیر کے خلاف دشمنی کی آگ بھڑک رہی تھی جس کی وجہ سے اس نے سکھوں کو ایک جنگجو قوم بنادیا۔ اس نے بیس سال پہاڑوں میں گزارے اور مذہبی تعلیم اورجنگی تربیت حاصل کی۔ سکھوں میں مطابقت پیدا کرنے لیے "پاھل (17)" کا رسم جاری کیا۔ اس رسم کے بعد ہر سکھ اپنے نام کے ساتھ سنگھ لگاتے تھے۔ اس نے حکم دیا تھا کہ گوشت کھانے والے
مسلمانوں کو ختم کردیا جائے۔ گورو گوبند سنگھ کے متعلق اگرونتی پانچھویں چھند میں درج ہے:
"سارے ہندوستاں سے دشٹ ترکوں (مسلمانوں) کو ختم کرکے دھرم کا جھنڈا جلادو۔ دونوں پنتھوں (ہندو دھرم اور اسلام) میں کپٹ (دشمنی) کی دویا (جھگڑا) چل پڑی ہے۔ اس لیے میں نے تیسرا پنتھ (مذہب) پردھان کیا ہے۔ ان دونوں دھرموں اسلام اور ہندو دھرم کو چھوڑ کر سکھ دھرم اپناؤ"۔(18)
اس کی لوٹ مار کی بڑھتی وارداتوں کی وجہ سے پہاڑی راجاؤں نے اس کے خلاف عالمگیر بادشاہ سے مدد مانگی۔ سخت لڑائی ہوئی اور گورو کو شکست ہوئی لیکن گورو اپنے اہل وعیال کے ساتھ بھاگ نکلا (19) اس کے دو بیٹے اہل کاروں کی سازش کی وجہ سے قتل ہوئے اور دو بیٹے گرفتار ہوئے جن کے متعلق ایک ہندو "سچا نند" نے کہا کہ سانپ کو مارنا اور اس کے بچے کو چھوڑنا عقلمندی کی بات نہیں لہذا وہ بھی قتل کردیے گئے۔ (20)
اس کے بعد گورو بٹھنڈہ اور دمدمہ میں بالترتیب مقیم ہوا۔ دمدمہ میں گورو نے دسم گرنتھ تصنیف کی۔ عالمگیر کے بعد بہادر شاہ کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کیے۔ اکتوبر ۱۷۰۸ء کو ایک افغانی باشندے نے ذاتی رنجش کی وجہ اس پر حملہ کرکے اسے شدید زخمی کیا (21)۔موت سے پہلے گورو نے گور گدی گورو گرنتھ صاحب کو سونپ دی اور کہا کہ جو سکھ بھی مجھ سے بات کرنا چاہے تو وہ گورو گرنتھ کی پاٹھ (تلاوت) کرے۔ میں اس سے ہم کلام ہوں گا۔(22)
سکھ دھرم اور اسلام
سکھ دھرم اصل میں ہندومت کے بہت سے خرافات، پیچیدہ رسومات، ذات پات کے انسانیت سوز بندھن، مخلوق پرستی، بت پرستی اور فرضی دیوی دیوتاؤں کے خلاف وجود میں آیا تھا۔ برہمنوں کے تفوق اور مذہبی ورثہ پر ان کی جاگیرداری کو ختم کرنے کے لیے سکھ مت ایک مصلح کی شکل میں نمودار ہوا۔ ستی جیسے ظالمانہ رسوم کے خلاف سکھ مت میں آواز اٹھایا گیا۔ ان بنیادوں پر سکھ مت اسلامی تعلیمات کے انتہائی قریب آگیا کیونکہ اسلام بھی ان تمام ظالمانہ رسومات اور تعلیمات کا مخالف ہے۔ ظلم کے اس طلسم کو ختم کرنے کا احساس سکھ مت کو اسلامی معاشرےاور مسلمانوں کے مابین رہ کر ہی پیدا ہوا۔ صرف سکھ مت ہی نہیں بلکہ کئی ہندو مصلحین نے بھی ہندومت کے ان ظالمانہ تعلیمات کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان تعلیمات کی تردید کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ نانک صاحب نے شیخ اسماعیل بخاری، بابا فرید، علاؤ الحق، سید علی ہجویری جلال الدین بخاری اور مخدوم جہانیاں جیسے صوفیائے کرام اور بزرگوں سے صحبت فیض حاصل کی۔ اس وجہ سے ہی نانک صاحب کے مسلمان ہونے کا عقیدہ مسلمانوں میں چلا آرہا ہے (23)۔ گیانی گیان سنگھ نے لکھا ہے کہ نانک صاحب حج گئے تھے اور وہاں ولی ہند سے مشہور تھے (24)۔ گورو نانک نے اپنے علاقے کے مشہور پیر سید میر حسن سے بھی تلمذ کا شرف حاصل کیا تھا (25)۔ سکھوں کا مشہور گوردوارہ گولڈن ٹمپل ایک مسلمان صوفی حضرت سائیں میاں میر جی کی سعی سے وجود میں آیا ہے۔(26)
سکھ دھرم اور اسلامی عقائد
۱: توحید اور اللہ تعالیٰ کے صفات: سکھ دھرم توحید کا درس دیتا ہے۔ ہندومت کے لامحدود دیوی دیوتاؤں کی تردید کرتا ہے۔ نانک صاحب کہتاہے:
واحد مطلق وہ اللہ ہی فقط معبود ہے اپنے اوصاف سہ گانہ ہی میں موجود ہے۔
وہ محیط کل ہے برحق خالق وبیباک ہے بغض وکینہ عداوت سے سراسر پاک ہے۔
حق وہی موجود ہے اس وقت بھی آفاق میں تاابد باقی رہے گا حق ہی آفاق میں۔ (27)
سکھ منی صاحب میں ہے:
Remember the one God, make him your heart desire. Sing the excellence of the one God who is endless with soul and body, repeat the name of the one God. God himself is the only one. (28)
"ایک اللہ کو یاد رکھا کرو۔ اسے اپنے دل کی چاہت بنادو۔ اسی واحد ذات کی برتری کے نغمے گاؤ جس کی ذات ابد تک قائم ودائم ہے۔ ایک اللہ کے نام کو دہرایا کرو۔ اللہ مکمل طور پر واحد لاشریک ہے۔"
گورو نانک کے متعلق اردو دائرہ معارف کہتاہے: باباجی موحد تھے، بت پرستی کے خلاف تھے"(29)
۲: رسالت کا تصور اور محمدﷺ سے محبت اور عقیدت: سیدنا محمدﷺ کی پاک زندگی ہر کسی کے لیے بہترین نمونہ ہے۔
گورونانک صاحب رسول اللہﷺ کو اپنا اسوہ حیات مانتے تھے۔ گورو نانک صاحب رسول اللہﷺ کے بارے میں فرماتے ہیں:
How can he be saved from hell, who keeps not the prophet in the mind? (30)
"جو پیغمبرﷺ کا عقیدہ نہیں رکھتا وہ جہنم سے نجات حاصل نہیں کرسکتا"۔
ڈاکٹر تاراچند نے لکھا ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ نانک صاحب نے پیغمبر ؐکو اپنا اسوہ حیات بنایا تھا اور اس کی تعلیمات میں اس حقیقت کی گہری رنگ نظر آتی ہے۔
It is clear that Nanak took the prophet of Islam as his model and his teaching was naturally deeply coloured by this fact. (31)
گورو گرنتھ صاحب میں لکھا ہے کہ مسلمان ہونے کا مستحق صرف وہی شخص ہے جو اللہ پر ایمان رکھتا ہو اور اپنے عقیدے کے راہنما (پیغمبر) پربھی ایمان رکھتا ہو۔
Hard it is to call oneself a Muslim if one has these (attributes) then alone is he one, first let the faith in Allah and with faith in the leader of faith. (32)
۳: قرآن مجید اور دیگر آسمانی کتابوں کی تصدیق: قرآن مجید کے بارے میں سکھ دھرم کہتا ہے:
کل پروان کتیب کران پوٹھی پنڈت رہے پوران
نانک ناؤں پھیا رہمان کرکرتا تو اکو جان (33)
"قرآن پاک تمام کتابوں کا سردار ہے۔ کل یگ میں قرآن خدا تعالیٰ کی کتاب ہے۔ پوتھی پنڈت کا دور ختم ہے۔ اے نانک! نام صرف ایک رحمان (خدا) کا ہے جو سب کچھ کرنے والا ہے۔"
ایک جگہ چاروں کتابوں کے بارے میں فرمایا:
توریت، انجیل، زبور تریہہ پڑھ سن ڈٹھے وید رہیا فرقان کتیبڑے کل یگ میں پروان (34)
"میں نے توریت، انجیل، زبور اور وید پڑھ کر دیکھ لیے ہیں۔ قرآن مجید ہی دنیا کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے منظور فرمایا ہے"۔
سکھوں کا قرآن کو حقیقی ماننے کا اس سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک مرتبہ ایک خوش نویس نے کئی سالوں کی محنت کے بعد قرآن کریم کا ایک نسخہ تیار کیا لیکن کسی نے بھی اس کی محنت کا مناسب معاوضہ نہیں دیا۔ لاہور میں رنجیت سنگھ سے ملاقات ہوئی تو اس نے قرآن کریم کو اپنی پیشانی سے لگایا اور خوش نویس کی محنت کا مناسب صلہ دیا۔(35)
۴: فرشتوں کا تصور: سکھ دھرم میں فرشتوں کا عقیدہ بھی پایا جاتاہے۔
طاعت حق میں ہے سدھ پیرو ملائک اولیاء
طاعت حق میں ہے اجرام فلک ارض وسماں (36)
۵: قیامت اور جزا وسزا کا تصور: گورونانک ہندومت کی طرح تناسخ کے قائل تھے لیکن اس کی تعلیمات میں قیامت کا تصور موجود ہے۔ اسلام کی طرح سکھ مت میں بھی قیامت کے دن حساب سے ڈرانے کا ذکر ہے:
Be in fear of that day when God will judge thee. (37)
"اس دن سے ڈرو جب اللہ خود تمہارا قاضی ہوگا"
۶: جنت ودوزخ کا تصور: سکھ مت میں اسلام کی طرح جنت ودوزخ کا تصور پایا جاتاہے۔ سکھ منی صاحب میں لکھا ہے:
Maya with its three qualities and all other entanglements was also created by him. Sins and virtues, hell and heaven come into existence. (38)
"مایا (ہر غیر حقیقی چیز جو انسان کو مغالطہ میں ڈال دےجیسے بیوی، خاندان، دولت وغیرہ) کو اپنے تمام ماہیتوں کے ساتھ اللہ نے پیدا کیا۔ بدیاں ، نیکیاں، دوزخ اور جنت اس نے پیدا کیے"۔
ایک جگہ گورو گرنتھ صاحب میں لکھا ہے:
He who forsakes his master in battle shall be dishonored here and condemned hereafter. He shall not go to heaven hereafter nor obtain glory here. (39)
"جو اپنے آقا کو میدان جنگ میں چھوڑکر بھاگ جائے وہ اس جنم میں بے عزت اور دوسری جنم میں ذلیل ہوگا۔ وہ یہاں خوشی حاصل کرسکے گا نہ اس جنم میں جنت۔"
۷: جزا وسزا کا تصور: سکھ دھرم کے مطابق نیک اعمال کا بدلہ نیک جب کہ برے اعمال کا بدلہ برا ہوگا۔ سکھ دھرم کے مطابق انسان کو ویسے ہی بدلہ ملتا ہے جس طرح وہ عمل کرتا ہے۔ وہ اپنے اعمال کے اعتبار سے کھیت کے مشابہ ہے جس میں اگتا وہی ہے جسے بویا جائے۔
As man soweth, so shall he reap? His body is the field of acts. (40)
اگر چہ سکھ دھرم میں جنت ودوزخ اور جزا وسزا کا تصور موجود ہے لیکن ہندومت کے عقیدہ تناسخ کے باعث یہ تصور اسلام کی طرح واضح نہیں ہے۔
۸: تقدیر کا تصور: اسلام میں تقدیر کے عقیدہ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس عقیدے کا تصور سکھ دھرم میں بھی پایا جاتاہے۔ گورو نانک صاحب فرماتے ہیں:
حکم حق ہی سے ہے نیک وبد کا وابستہ ظہور ہیں مقدر حکم سے عالم کے سب رنج وسرور
حکم حق سے ہے مہیا ہر ایک کو لطف وعطا حکم حق سے ایک سرگرداں ہے مثل آسیا(چکی) (41)
سکھ دھرم اور اسلامی عبادات:
گورونانک صاحب کی زندگی کو مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے نماز پڑھی، روزہ رکھا اور کعبہ کا حج ادا کیا۔
گورو نانک صاحب فرماتے ہیں:
Let mercy be thy mosque, faith thy prayer, mat and honest living thy Quran, Humility thy circumcision and good conduct thy fast thus dost thou became a (true) Muslim, If pious works be thy Kaʽba, good deed thy prayer. (42)
" تمہاری مسجد رحم وشفقت، تمہاری یقین نماز، تمہارا قرآن ایمانداری، تمہارے ختنے انکساری و نیک طبعی اور اچھے اخلاق تمہارے روزے ہونے چاہیے۔ تم سچے مسلمان بن جاؤ گے اگر تمہارا کعبہ نیک اعمال اور تمہاری نماز نیک کارنامے ہوں"۔
نانک صاحب دوسری جگہ نماز کے بارے میں فرماتے ہیں:
“Thou sayest thy prayers five times giving them five names” (43)
"تم اپنی نمازیں پانچ وقت پڑھتے ہو اور اسے پانچ نام دیتے ہو"۔
ذکر وفکر کو سکھ دھرم میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ ورد حق میں ہے:
مرشد روز ازل ہے وہ سراپا مہربان ورد میں اس کے منزہ کر بشر ہر دم زبان (44)
اگر چہ سکھ مذکورہ اسلامی عبادات کا اہتمام نہیں کرتے اور نہ ان کےنزدیک ان کے وہی معانی ہیں جو اسلام میں ہیں لیکن خود نانک صاحب کی زندگی میں ان اعمال کا اسلامی تصور ملتا ہے۔
سکھ دھرم اور اسلامی تعلیمات واخلاقیات
سکھ دھرم میں سب سے زیادہ مذمت ہندومت کے ذات پات کے نظام کی کی گئی ہے اور اسلامی بھائی چارے کو سراہا گیا ہے۔ نانک صاحب نے خاص طور اسلامی بھائی چارے پر زور دیا ہے اور ذات پات کے نظام کی تردید کی ہے:
Caste hath no power in the next world, there is new order of being. Those whose accounts are honored are the good.
O, Foolish one; be not proud of thy caste. From such pride many sins result. (45)
" اگلے جنم میں ذات پات کے نظام کی کوئی اہمیت نہیں ہے بلکہ وہاں نیا انسانی نظام ہوگا۔ اچھے لوگ وہ ہیں جن کے اعمال نامے نیک ہیں۔ اے بیوقوف! اپنی حسب پر تکبر مت کر۔ اس تکبر کی وجہ سے ہی کئی گناہ جنم لیتے ہیں"۔
کئی مذاہب میں رہبانیت کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ اسلام نے رہبانیت کی تردید کی ہے۔ گورو نانک صاحب بھی رہبانیت کو پسند نہیں کرتے بلکہ اس کی مذمت کرتے ہیں:
Many may be vowed to silence. He may live on leaves. He may room about naked in the forest……… But even though he made hundreds of thousands of such efforts, his mental impurity would not depart. (46)
" کئی لوگ تنہائی اختیار کرلیتے ہیں، پتوں پر گزر بسر کرتے ہیں اور جنگلوں میں زندگیاں کاٹنے لگ جاتے ہیں لیکن اس طرح کے سو اور ہزار کوششوں کے باوجود ان کی ذہنی ناپاکی ختم نہیں ہوتی"۔
سکھ دھرم نےاسلام کی طرح عاجزی اور انکساری کو سراہا ہے اورفضیلت کی بنیاد تقوی کو قرار دیا ہے:
Among all men formost is he who by association with the pious effaceth pride. He who deemth himself lowly shall be deemed the most exalted of all. (47)
" تمام لوگوں میں برتر وہی ہے جو تقوی کی مدد سے تکبر کو مٹادے اور جو خود کو ضعیف اور کمتر سمجھے تو تمام لوگ اسے افضل اور برتر سمجھیں گے"۔
سکھ دھرم لالچ، غصہ اور بہتان کی مذمت کرتا ہے اور اس سے بچنے کی تلقین کرتاہے:
Put away from you lust, wrath and slander. Abandon avarice and covetousness, and you shall be free from care. (48)
"خواہش نفس، غصے اور افتراء پردازی سے خود کو دور رکھو۔ حرص اور طمع چھوڑدو تو تفکرات سے آزاد ہوجاؤگے"۔
سکھ دھرم میں جھوٹ ایک جرم جب کہ سچائی گناہوں سے پاکیزگی کا ذریعہ ہے:
Man is known as true when truth is in his heart, when the filth of falsehood departh, man washes his body clean. Truth is the medicine for all, it removeth and washeth away sin. (49)
" آدمی تب سچا ہوتاہے جب سچائی اس کے دل میں جاگتی ہے، جب جھوٹ کی گندگی رخصت ہوجاتی ہے۔ آدمی اپنے بدن صاف کرنے کے لیے اسے دھوتاہےجب کہ گناہوں کو صاف کرنے والی دوائی سچائی ہے"۔اسی طرح سچائی سکھ دھرم کے مطابق کامیابی کی ضامن ہے:
مومن صادق کے پاؤں چومتی ہے خود نجات اس کے سب چھوٹوں بڑوں کو بخش دیتی ہے حیات (50)
سکھ دھرم میں ناشکری ایک بہت بڑا جرم ہے:
Bear that God in thy mind, by whose favor thou dwellest comfortably home, by whose favor thou enjoyest mental and bodily pleasure, by whose favor every one honoureth thee.The ungrateful shall wander in transmigration. (51)
"اس اللہ کو اپنے ذہن میں یاد رکھو جس کی نعمت سے تمہیں سکون کا گھر نصیب ہے، جس کے فضل سے تمہیں ذہنی اور بدنی خوشی مہیا ہے اور جس کےرحم سے ہر کوئی تمہیں عزت بخشتا ہے۔ (سمجھ لو) احسان ناشناس نافرمانی میں مارا مارا پھرتا ہے"۔
ہمدردی اور مخلوق خدا سے محبت سکھ دھرم میں بہترین عمل قرار دیا گیا ہے:
The best act is philanthropy. (52)
سکھ دھرم اپنے ماننے والوں کو شراب پینے سے منع کرتا ہے:
If possible, drink not at all the false wine. (53)
سکھ دھرم پر اسلامی تصوف کے اثرات
سکھ دھرم کے بانی گورو نانک پر اسلامی تصوف اور صوفیوں کے اثرات اتنے نمایاں تھے کہ خود سکھ بھی اس کے اعتراف کرنے پر مجبور تھے۔
Nanak was born of Hindu parents but was strongly influenced by the teaching of Muslim mystics called Sūfīs. (54)
"نانک اگر چہ ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے لیکن وہ مسلم صوفیوں کی تعلیمات سے نمایاں طور پر متاثر تھے"۔
گورو نانک صاحب صوفیوں کی طرح اللہ تعالیٰ کی محبت اور عشق میں اونچی پرواز پر جاتے تھے اور وہ کچھ محسوس کرتے جس کا سننا اس کی اپنی زبان سے زیادہ مفید ہے:
The divine palace is illuminated by his light which exceeds the light of millions of moons lamps, suns and torches and where from behind the curtain of the unknown (ghybi) the sounds of bells is heard. (55)
"ایوان الہی اس نورالہی سے منور ہے جو لاکھوں آفتابوں، ماہتابوں اور چراغوں سے زیادہ روشن ہے۔ جہاں پردہ غیب کے پیچھے جرس (صلصلۃ الجرس جیسا کہ حدیث میں بھی استعمال ہوا ہے) کی آواز سنائی دیتی ہے"۔
خلاصہ:
مذکورہ حقائق کا مشاہدہ کرتے ہوئے اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خود گورو نانک صاحب کی زندگی مسلمانوں سے ملتی جلتی اور مسلمانوں صوفیائے کرام کی رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔نانک کی زندگی کے نشیب وفراز کو غور سے دیکھنے والے بعض محققین کی رائے یہ ہے کہ نانک ایک صوفی تھے اور اس نے کبھی بھی پیغمبری کا دعوی نہیں کیا ہے۔ دین اسلام کے ساتھ زیادہ موافقت کی وجہ سے نتیجہ یہ نکالا ہے کہ سکھ دھرم محمدی فرقہ کی ایک شاخ ہے،(56) جب کہ بعض محققین کا خیال ہے کہ نانک پہلے مسلمان تھے لیکن بعد میں اپنے نئے مذہب کی بنیاد رکھی۔(57)
دائرہ معارف گورو نانک کے متعلق کہتاہے: باباجی موحد تھے، بت پرستی کے خلاف تھےاور انسانی مساوات پر یقین رکھتے تھے۔ مسکین اور نادار لوگوں سے زیادہ میل جول رکھتے تھے۔(58)
حقیقت بھی یہی ہے لیکن سکھ دھرم میں بعد میں پیدا ہونے والے تضادات کی وجہ سے سکھ دھرم ہندومت اور اسلام دونوں سے ایک الگ مذہب کی شکل اختیار کرگیا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سکھ دھرم اگر چہ ابتداء میں اسلام کے قریب تھالیکن کئی اسباب کی وجہ سے اسلام سے زیادہ ہندومت کے قریب چلا گیا جن میں سب سے اہم کردار مسلسل محاذ آرائیوں اور میدان کارزار نے ادا کیا۔
اس اختلاف وتضاد میں سب سے بڑا کردار گورو گوبند سنگھ نے ادا کیا۔ گورو گو بند سنگھ نے سکھوں کا ایک الگ تصور قائم کرنے کے لیے تیسرے مذہب کی بنیاد رکھی۔ اس مذہب کا نام خالصہ تھا۔ اس مذہب کا مقصد بھائی نندلال کے قول کے مطابق یہ ہے کہ اس کا خالص سیاست سے تعلق ہے کیونکہ اس شخص کو خالصہ قرار دیا گیا ہے جو مسلح ہو، گھوڑے کی سواری کا ماہر ہو اور جنگ کرنے کے لیے ہمیشہ تیار ہو۔
سکھ محققین کو اقرار ہے کہ گورو گوبند سنگھ کا مشن یا نصب العین یہ تھا کہ بھارت سے مسلمانوں کے اقتدار کا خاتمہ کرکے سکھوں کو راج دیا جائےجو ان کی زندگی میں پورا نہ ہوسکا، البتہ وہ ایسی تعلیم ضرور چھوڑ گئے۔(59)
حواشی اور حوالہ جات
1: الموسوعۃ المیسرہ فی الادیان والمذاہب والاحزاب المعاصرۃ، الندوۃ العالمیہ للشباب الاسلامی، ج۱: ۱۴۳، مطبوع دارالندوۃ العالمیہ، سن طباعت ندارد۔
:2 Sikhism by Khuswant Singh, Encyclopedia of religions and beliefs, v:11, page:315, Macmillan publishing company New York, 1913-1936
3: الموسوعۃ المیسرہ فی الادیان والمذاہب والاحزاب المعاصرہ۱: ۱۴۴۔
:4 Sikhism by Khuswant Singh, Encyclopedia of religions and beliefs, v:11, page:309-312۔
:5 Sikh Separatism: The politics of Faith by Rajiv A Kapur, page:12-24, Published by Allen and Unwin publishers 40 Museum street London 1986.
6: الموسوعۃ المیسرہ فی الادیان والمذاہب والاحزاب المعاصرہ۱: ۱۴۳۔
7: گورو نانک از ہربنس سنگھ لاہور۲۰۰۰، ص۱۰۰تا ۱۰۶، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ج۲۲: ۷۶، دانش گاہ، پنجاب لاہور، ۱۴۰۹ھ₌۱۹۸۹ء۔
:8Sikhism by Khuswant Singh, Encyclopedia of religions and beliefs, v:11, page:310
9: الموسوعۃ المیسرہ فی الادیان والمذاہب والاحزاب المعاصرہ۱: ۱۴۳۔
:10 Guru Granth (English version) by Dr. Gupal Singh Delhi 1996, page: xxxix
؛11 Guru Granth (English version) by Dr Gopal Singh, page: XLIII, published by India Prakash, Barakhamba road New Delhi, 10th edition 1996
12: سکھ از محمد اقبال، اردو دائرہ معاف اسلامی، ج۱۲: ۱۱۰تا ۱۱۲۔
:13 Guru Granth (English version), page: XLIII
14: سکھ از محمد اقبال، اردو دائرہ معاف اسلامی، ج۱۲: ۱۱۰تا ۱۱۲۔
15: سکھ مسلم تاریخ حقیقت کے آئینے میں، ابو الامان امرتسری، ص۸۲، ناشر ادارہ ثقافت اسلامیہ پاکستان، کلب روڈ لاہور، مطبع پاک پبلشرز پرنٹنگ پریس لاہور۱۹۵۸، ۔
16: سیر المتاخرین از علام حسین طباطبائی ترجمہ یونس احمد:۷۳، جولائی ۱۹۷۸۔
17: سکھ مت کا ایک مشہور رسم ہے جو بچے کی بلوغت کے وقت ادا کی جاتی ہے۔ مخصوص شخص صاف کپڑے پہن کر سکھوں کی ایک جماعت کی موجودگی میں آدھی گرنتھ کے کچھ اشعار پڑھتے ہوئے تلوار کو لوہے کی ایک ایسی برتن میں ہلاتاہے جس میں پانی اور چینی ہوتی ہے۔ اس محلول کا کچھ حصہ اسے پلایا جاتاہے اور کچھ اس کے کپڑوں پر ڈالا جاتاہے۔ اس رسم سے مخصوص شخص ایک برادری میں داخل ہوجاتاہے جسے خالصہ کہتے ہیں۔ خالصہ برادری میں داخل ہونے کےبعد مردکو اپنے نام کے آخر میں "سنگھ" اور عورت کو "کور" کا لفظ لگانا پڑتا ہے۔
(Encyclopedia of religions and Ethics, T & T Clark, page: 508, 38 Gorge street, Edinburg 1920)
18: اگرونتی کی وار نامدھاری نت نیم ص: ۲۸۹، بحوالہ تاریخ سکھ مت گورو نانک جی: ۸۳ ، اسلامی مشن، سنت نگر لاہور۔
19: سکھ از محمد اقبال، اردو دائرہ معاف اسلامی۱۲: ۱۱۳۔
20: سکھ مسلم تاریخی حقیقت کے آئینے میں: ۲۳۱۔
:21 Guru Granth, page: XLVII
22: گورو ہے بانی، گورمت پرکاش سبھا مردان، ص ۲۳۱، لاہور پہلی ایڈیشن ۱۹۹۴ء۔
23: تواریخ گورو خالصہ، پروفیسر سندر سنگھ، ص۲۴، لاہور پریس، سن اشاعت ندارد۔
24: تواریخ گورو خالصہ:۴۲۲۔
25: تواریخ گورو خالصہ: ۸۶۔
:26Religions by the empire edited by Have W.L and Rose S.E.D, page:234-236, published by Duckworth London 1925
27: ورد حق سری جپ صاحب کا منظوم بہ اردو از ماسٹر لال سنگھ، ص ۱ تا ۲، دہلی سکھ گوردوارہ پر بندھک کمیٹی، سن اشاعت ندارد۔
:28 Religions by the empire:234-236
29: اردو دائرہ معارف اسلامیہ ۲۲: ۷۸۔
:30Influence of Islam on Indian culture by Dr. Tara Chand, p:169, published by Mustafa Waheed, print Masood Lahore 1979
:31 Sikhs at cross road by Sayyed Shabir Husain Karma, p:38-39, publishing House 52, Bazar Road, Ramna 6/4, Islamabad 1984
:32 Guru Granth Sahib(English version), vol:1, page:132
33: سکھ مسلم تاریخ حقیقت کے آئینے میں:۴۸۔
34: تمدن ہند پر اسلامی اثرات از ڈاکٹر تارا چند، ترجمہ محمد مسعوداحمد، ص:۲۷۵، ناشر ترقی ادب۲ کلب روڈ لاہور، طبع اول ۱۹۶۴۔
:35 Court and camp of Ranjit Singh by the Hon. W.G. Osborne, p: 7, unique prints, Chundrigar Road Karachi 1937
36: ورد حق:۱۳۔
:37 Influence of Islam on Indian culture :174
:38 Sermons of Sukhmani Sahib by Herbans Singh, p:319, Chanigarh 1978
:39 Sermons of Sukhmani Sahib:321
:40 Religions by the empire :239
41: ورد حق:۴۔
:42 Guru Granth Sahib:46
:43 Guru Granth Sahib:132
44: ورد حق: ۱۔
:45 Religions of the empire: 232
:46 Ibid: 223
:47 Ibid: 253
:48 Ibid:253
:49 Ibid: 236
50: ورد حق: ۱۔
:51 Religions of the Empire: 234
:52 Sermons of Sukhmani Sahib:321
:53 Religions of the Empire: 238
:54 Court and camp of Ranjit Singh by the Hon. W.G. Osborne, p: 16
:55 Influence of Islam on Indian culture: 176
:56 Sikh at crass road:40
57: الموسوعۃ المیسرہ فی الادیان والمذاہب والاحزاب المعاصرہ۱: ۱۴۳۔
58: اردو دائرہ معارف اسلامیہ ۲۲: ۷۸۔
59: تاریخ سکھ مت گورو نانک جی: ۸۱۔
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |