6
1
2019
1682060029336_861
22-39
https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/160/151
https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/160
Universe Seal of the Prophets Prophet hood Revelation Miracles.
لزلے ہزلٹن کا مختصر تعارف
لزلے ہزلٹن (Lesley Hazleton) برطانوی نژاد امریکی شہری ہیں ۔ سال 1945 ء کو انگلینڈ میں پیدا ہوئی۔ وہ 1966 ء سے 1979 ء تک یروشلم اورپھر 1992ء تک امریکہ کے شہر نیو یارک میں رہائش پذیر رہی ۔ پھر وہاں سے امریکہ کے ایک اور شہر سیٹل (Seattle ) منتقل ہوئی اور 1994 ء میں امریکہ کی مستقل شہریت حاصل کرکے تا حال وہاں مقیم ہے ۔ اُس نے بی اے کی ڈگری مانچسٹر یونیورسٹی آف انگلینڈ اور ایم اے سائیکالوجی کی ڈگری ہیبرو یونیورسٹی یروشلم سے حاصل کی ۔ خود کو اگناسٹک Jew بتاتی ہے ۔اُس نے ابھی تک کئی کتابیں تصنیف کی ہیں ۔ ([1]) ان میں ایک کتاب محمدﷺ کی سوانح عمری کے بارے میں "The First Muslim - The Story of Muhammad"کے نام سے بھی لکھی ہے جس میں نبی کریمﷺ کی سیرت کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والے بیانات سے کام لیا ہے اور حقائق مسخ کرکے مسموم اعتراضات کئے ہیں ۔ مذکورہ کتاب پہلی بار سال 2013ء میں شائع ہوئی۔ کتاب کے انداز تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنفہ پر اپنے پیش رو (Predecessors) مستشرقین کے گہرے اثرات ہیں ۔ منٹگمری واٹ اور کیرن آرم سٹرانگ کی تقلید کرتے ہوئے چند مقامات پر آپﷺ کی تعریفیں بھی کی ہیں لیکن پھر اکثر مقامات پر شکوک و شبہات پیداکرتے ہوئے ملفوف انداز میں اعتراضات کرتی ہیں ۔مصنفہ نے ایک طرف ضعیف اور موضوع روایات کا سہارا لیا تو دوسری طرف نبی ﷺ کی سیرت پر تخیّلاتی انداز میں لکھا ۔ کتاب تین سو بیس صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں کل 21 ابواب ہیں ۔ مصنفہ نے اس کو تین بڑے حصّوں میں تقسیم کیا ہے جن کے نام بالترتیب یتیم (Orphan)، جلا وطن (Exile) اور قائد (Leader)رکھا ہے۔
لزلے ہزلٹن نے کتاب کا یہ نام رکھنے کی کوئی واضح وجہ تو نہیں بتائی لیکن معلوم یہ ہو تا ہے کہ وہ بھی بہت سے دیگر مستشرقین کی طرح ، محمدﷺ کو بانئ اسلام سمجھتی ہے ۔ حالانکہ محمدﷺ نئے دین کے بانی اور ایجاد کرنے والے نہیں بلکہ انبیاء کرام کے سلسلے کی آخری کڑی ہے ۔ آپﷺ خاتم النبیّن ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ( [2]) ترجمہ : "مسلمانو ! محمد ( ﷺ ) تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں ، اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں ۔ اور اللہ ہر بات کو خوب جاننے والا ہے ۔ "
لزلے نے جدید اسلوب اور نئی علم کلام کی صورت میں اپنی یہ کتاب پیش کی ہے اور محمدﷺ کی سیرت کے بارے میں بے بنیاد اعتراضات کئے ہیں جو محض اُس کے اپنے ناقص ذہن کے اختراعات ہیں ۔ اس کتاب میں اُس کے پیش نظر صرف سیرت ابن اسحاق اورتاریخ طبری کے انگریزی تراجم ہیں۔ قرآن مجید کے بعد احادیث ِ مبارکہ ، سیرت نبوی ﷺ کا معتمد ترین مأخذ اور ذریعہ ہے اور تیسرا درجہ سیرت کی روایات کا ہے ۔ لیکن اس کتاب میں کہیں بھی احادیث کا کوئی حوالہ نظر نہیں آتا ۔ علّامہ شبلی نعمانیؒ مغربی مصنفین کے اس طرز عمل کے بارے میں لکھتے ہیں: " ( یورپی مصنفین کی غلط کاریوں کی ) سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کا تمام تر سرمایۂ استناد صرف سیرت و تاریخ کی کتابیں ہیں، مثلاً مغازی واقدی ، سیرت ابن ہشام ، سیرت محمد بن اسحاق ، تاریخ طبری وغیرہ ۔ اور یہ ظاہر ہے کہ کوئی غیر مسلم شخص اگر آنحضرتﷺ کی سوانح عمری مرتب کرنا چاہے گا تو عام قیاس یہی رہبری کرے گا کہ اس کو تصنیفاتِ سیرت کی طرف رجوع کرنا چاہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ سیرت کی تصنیفات میں سے ایک بھی نہیں جو استناد کے لحاظ سے بلند رتبہ ہو ۔" ([3] ) آگے جاکر مولانا موصوف لکھتے ہیں کہ " لیکن آنحضرت ﷺ کی سوانح عمری کے یقینی واقعات وہ ہیں جو حدیث کی کتابوں میں بہ روایاتِ صحیحہ منقول ہیں ۔ یورپین مصنفین اس سرمایہ سے بالکل بے خبر ہیں ۔ " ([4] ) اسی طرح آپؒ نے مصنفین یورپ کے ایک قسم کے بارے میں یہ بھی لکھا ہے کہ " ( ان میں ایک قسم ) عربی زبان اور اصل مأخذوں سے واقف نہیں ، ان لوگوں کا سرمایہ معلومات اوروں کی تصنیفات اور تراجم ہیں ۔ ان کا کام صرف یہ ہے کہ اس مشتبہ اور ناکامل مواد کو قیاس اور میلان طبع کے قالب میں ڈھال کر دکھائیں ۔ " ( [5]) لزلے ہزلٹن کا بھی یہی حال ہے کہ وہ دوسرے مستشرقین کی طرح نظریہ احتمالیت کا استعمال کر تی ہیں اور بات ایسی انداز میں پیش کرتی ہیں جس میں شک کا شائبہ پایا جاتا ہے ۔مثلاً ایسا ہوا ہوگا یا شاید وغیرہ جیسے الفاظ سے اس کے بیانات خالی نہیں۔ الغرض اس تصنیف سے سیرتِ طیبہ کی اصل روح مجروح ہوئی ہے ۔ اس نے بنیادی صداقتوں کا انکار کرکے غلط فہمیوں کی تخم ریزی کی ہے اور اپنے مادی اور نفسیاتی طرزِ فکر سے نبوت کے مصفا چہرہ کو داغ دارکرنے کی کوشش کی ہے ۔بیانات میں منفی اور بظاہر مثبت دونوں قسم کے اشارات ملتے ہیں ۔منفی بات کہنے کا انداز بہت ملفوف قسم کا ہوتا ہے۔ اس نے بعض امور میں محمد ﷺ کی خوب تعریف کی ہے اور بعض امور میں اعتراضات کی بھر مار کردی ہے ۔ اپنی کتاب میں دیگر اعتراضات کے علاوہ نبوت ، وحی ([6] ) اور معجزات ([7] ) جیسے بنیادی امور کے بارے میں بھی شکوک و شبہات پیداکرنے کی ناروا جسارت کی ہے ۔ ایک جگہ لکھتی ہیں :
“A man navigating between idealism and pragmatism, faith and politics, non-violence and violence.” ([8] )
" ( نعوذ با اللہ ) آپ ﷺ ایک ایسے شخص تھے جو ( عمر بھر ) تصوریّت اور عملیت ، مذہب اور سیاست اور عدمِ تشدد اور تشدد کے درمیان ہی بھٹکتے رہے ۔ " سیرت نبویﷺ کے بارے میں لزلے کا رویہ متعصبانہ ہے ۔اُس نے محمدﷺ کی پیغمبرانہ حیثیت کو مشکوک بنانے کی مذموم سعی کی ہے ۔حالانکہ دیگر انبیاء کرام کی طرح آپﷺ اللہ تعالیٰ کے برحق پیغمبر ہیں ۔ آپﷺ کے بارے میں مصنفہ کے بیانات حقائق پر مبنی نہیں ۔ اُس نےتقریباً ہر واقعہ کی اصل شکل بگاڑنے کی کوشش کی ہے اور اپنے پیش رو مستشرقین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے محمدﷺ کی کردار کُشی کی ہے ۔ ڈاکٹر مصطفیٰ حسنی سباعی مستشرقین کے اس طرزِ فکر کے بارے میں لکھتے ہیں : " مستشرقین کے ذہنی خلجان اور نفسیاتی پریشانی کا واحد سبب یہ ہے کہ وہ نبی کریمﷺ کی نبوت کی تصدیق نہیں کرتے اور عدمِ تصدیق ہی اُن کی ساری حیلہ سازیوں ، بہانہ بازیوں اور غلط بیانیوں کا سرچشمہ ہے ۔ " ([9] ) ذیل میں لزلے کے بعض اعتراضات کا تفصیلی جائزہ لیا جاتا ہے ۔
قرآن مجید کے اصل مأخذ کے متعلق اعتراض
لزلے ہزلٹن کے نزدیک قرآن مجید ( جوکہ وحی ہے ) کا مأخذ اصل میں وہ علم ہے جو محمدﷺ نے مکہ ، مدینہ ، یمن اور نجران وغیرہ کے یہودیوں اور عیسائیوں کی زبانی حاصل کیا ۔ وہ لکھتی ہیں :
“But there were already so many prophets. Muhammad heard about them from the Jews who came to ʻUkāz from the great palm oases of Medina and Khaybar to the north, as well as from the Christians who came from Yemen and the cathedral city of Najrān to the south. They were known as the people of the book… itself exerted a magical force on a boy who could neither read nor write.” ([10] )
"بہت سے پیغمبر پہلے سے گزر چکے تھے ۔ محمد ﷺنے ان کے بارے میں یہودیوں سے سن رکھا تھا جوکہ عکاظ کے میلوں میں کھجوروں کے نخلستان مدینہ اور مشرق میں خیبر سے آیا کرتے تھے ۔ اسی طرح آپ نے ان عیسائیوں سے بھی سن رکھا تھا جو یمن اور نجران کے عیسائی شہرمکہ کے جنوبی طرف آتے تھے ۔ وہ اہلِ کتاب تھے ۔۔۔ اس نو جوان لڑکے پر ایک جادوئی اثر چھوڑا ، جوکہ نہ پڑھ سکتا تھا اور نہ لکھ سکتا تھا ۔ "
جائزہ
مستشرقین اور اُن کے تلامذہ کا ایک اعتراض یہ ہے کہ قرآن وحی نہیں بلکہ یہ محمد ﷺ نے یہودیوں اور عیسائیوں سے سیکھ کر مرتب کیا ہے۔ لزلے ہزلٹن بھی ان معترضین کی صف میں کھڑی ہیں ۔ لیکن یہ اعتراضات کم علمی اور تعصب پر مبنی ہیں ۔ قرآن نہ تو محمد ﷺ کی تصنیف ہے اور نہ یہ آپ ﷺ نے یہودی اور عیسائی لوگوں یا عالموں سے سن کر تیار کی ، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اس کا مقابلہ آج تک کوئی نہ کر سکا اور نہ کر سکے گا ۔ قرآنی آیات سے ان تمام شبہات و اعتراضات کا بخوبی ازالہ ہو جاتا ہے ۔ قرآن نے کئی مقامات پر یہ چیلنج دیا ہے کہ اگر تم قرآن مجید کو کلام الٰہی نہیں مانتے تو تم لوگوں میں بڑے بڑے ادیب ، شاعراور تجربہ کار لوگ موجود ہیں وہ سب مل کر قرآن مجید جیسا کلام بنا کر لے آئیں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : أَمْ يَقُولُونَ تَقَوَّلَهُ بَل لاَّ يُؤْمِنُونَ () فَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِّثْلِهِ إِن كَانُوا صَادِقِينَ ( [11]) " ہاں کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ "اس صاحب نے یہ ( قرآن ) خود گھڑ لیا ہے " ؟ نہیں ! بلکہ یہ ( ضد میں ) ایمان نہیں لا رہے ۔ اگر یہ واقعی سچے ہیں تو اس جیسا کوئی کلام ( گھڑ کر ) لے آئیں" اللہ تعالیٰ ایک اور جگہ کفار کی دروغ گوئی اور بہتان تراشی کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلاَّ إِفْكٌ افْتَرَاهُ وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ آخَرُونَ فَقَدْ جَاؤُوا ظُلْمًا وَزُورًا () وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلاً () قُلْ أَنزَلَهُ الَّذِي يَعْلَمُ السِّرَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ إِنَّهُ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا([12]) " اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے ، وہ کہتے ہیں "یہ ( قرآن ) تو کچھ بھی نہیں، بس ایک من گھڑت چیز ہے جو اس شخص نے گھڑ لی ہے ، اور اس کام میں کچھ اور لوگ بھی اس کے مدد گار بنے ہیں ۔ " اس طرح ( یہ بات کہہ کر ) یہ لوگ بڑے ظلم اور کھلے جھوٹ پر اتر آئے ہیں ۔ اور کہتے ہیں : "یہ تو پچھلے لوگوں کی لکھی ہوئی کہانیاں ہیں جو اس شخص نے لکھوالی ہیں، اور صبح و شام وہی اس کے سامنے پڑھ کر سنائی جاتی ہیں " کہہ دو کہ "یہ کلام تو اس ( اللہ ) نے نازل کیا ہے جو ہر بھید کو پوری طرح جانتا ہے ، آسمانوں میں بھی ، زمین میں بھی۔ بیشک وہ بہت بخشنے والا ، بڑا مہربان ہے ۔" قرآن مجید میں تو پوری دنیا کے لئے کھلا چیلنج ہے اور قیامت تک کے لئے ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُواْ بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ( [13]) " بھلا کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ وحی اس ( پیغمبر ) نے اپنی طرف سے گھڑ لی ہے ؟ ( اے پیغمبر ! ان سے ) کہہ دو کہ : " پھر تو تم بھی اس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں بنا لاؤ ، اور ( اس کام میں مدد کے لئے ) اللہ کے سوا جس کسی کو بلا سکو بلا لو ، اگر تم سچے ہو۔" بلکہ اس پر مستزاد یہ کہ اگر انسانوں کے علاوہ جن بھی قرآن جیسا کلام ، اس کلام کی ایک سورت یا ایک آیت لانے کی کوشش کرے تو نہ لا سکیں گے ۔ فرمانِ الٰہی ہے : قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَن يَأْتُواْ بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لاَ يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا ( [14]) " کہہ دو کہ اگر تمام انسان اور جنات اس کام پر اکھٹے بھی ہو جائیں کہ اس قرآن جیسا کلام بنا کر لے آئیں ، تب بھی وہ اس جیسا نہیں لا سکیں گے ، چاہے وہ ایک دوسرے کی کتنی مدد کر لیں ۔ " اسی طرح سورۂ البقرہ میں بھی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُواْ شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ () فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ وَلَن تَفْعَلُواْ فَاتَّقُواْ النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ ([15] ) "اور اگر تم اس ( قرآن ) کے بارے میں ذرا بھی شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے (محمدﷺ) پر اتارا ہے ، تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ ، اور اگر سچے ہو تو اللہ کے سوا اپنے تمام مدد گاروں کو بلالو ۔ پھر بھی اگر تم یہ کام نہ کر سکو ، اور یقیناً کبھی نہ کر سکو گے ،تو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے ، وہ کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ "
محمدﷺ کی اُمّیت کے متعلق اعتراض
مصنفہ آپﷺ کی اُمیّت پر شک کا اظہار کرتی ہیں۔ اپنی دوسری کتاب میں واقعہ قرطاس کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ جب آپ ﷺ لکھناپڑھنا نہیں جانتے تھے تو پھر قلم اور دوات منگوانے کی کیا ضرورت تھی ؟ اگرچہ مصنفہ خود بھی کہتی ہیں کہ آپ ﷺ لکھنا نہیں ، بلکہ لکھوانا چاہتے تھے ۔ لکھتی ہیں :
“However improbable that may have been in a man who was for many years a merchant trader. That would have required that he keep records of what was bought and sold, and though this was no great literary art, it did require the basic skills of literacy. But Muhammad’s assumed illiteracy acted as a kind of guarantee that the Quran had been revealed, not invented, that it was truly the word of the divine, not the result of human authorship.” ([16] )
" پڑھ لکھ نہ سکنے کی بات ایک ایسے شخص کے لئے قرینِ قیاس نظر نہیں آتی جو برسوں تک تاجر رہا ہو ۔ اس کام کے لئے چیزوں کی خرید و فروخت کا ریکارڈ رکھنے کی ضرورت تھی ۔ اور اگرچہ اس کے لئے کسی بڑے فن کی ضرورت نہ تھی لیکن خواندگی کی بنیادی باتوں کا جاننا ضروری تھا ۔ لیکن محمد ﷺ کے بارے میں وضع کردہ ناخواندگی کا تصور اس بات کی ضمانت بن گیا کہ قرآن وحی کیا گیا ہے ، ایجاد نہیں کیا گیا ہے ۔ اور یہ کہ یہ بجا طور پر قولِ خدا ہے ، انسانی کاوش کا نتیجہ نہیں ۔ "
جائزہ
نبی کریمﷺ اُمّی تھے یعنی صرف لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی بڑی حکمت یہ تھی کہ لوگ قرآن کے منزل من اللہ ہونے پر شک نہ کریں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ آپ ﷺ نے علم حاصل کرنے کے لئے کسی استاد کی شاگردی اختیار نہیں کی اور نہ کسی مدرسہ میں داخلہ لیا ۔ آپ ﷺ نے توسابقہ امتوں کا حال بیان کیا اور مستقبل کے بارے میں پیشن گوئیاں بھی کیں ۔ یہ سب اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آپ ﷺ نے جو کچھ بھی بتایا ، وحی الٰہی کے مطابق بیان فرمایا ۔ ارشادباری ہے : الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِيَ أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ( [17]) " جو اُس رسول ، یعنی نبیِ اُمّی کے پیچھے چلیں جس کا ذکر وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پائیں گے ، جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دے گا ، برائیوں سے روکے گا ، اور ان کےلئے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور گندی چیزوں کو حرام قرار دے گا ، اور ان پر سے وہ بوجھ اور گلے کے وہ طوق اتار دے گا جو ان پر لدے ہوئے تھے۔ چنانچہ جو لوگ اُس ( نبی ) پر ایمان لائیں گے ، اس کی تعظیم کریں گے ، اس کی مدد کریں گے ، اور اُس کے ساتھ جو نور اتارا گیا ہے، اس کے پیچھے چلیں گے ، تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے ۔ " متصلاً دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ یوں فرماتے ہیں: قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ لا إِلَهَ إِلاَّ هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ فَآمِنُواْ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ( [18])
"(اے رسول ! ان سے ) کہ دو کہ"اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں ، جس کے قبضے میں تمام آسمانوں اور زمین کی سلطنت ہے ۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔ وہی زندگی اور موت دیتا ہے ۔ اب تم اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لےآؤ جو نبی اُمّی ہے ، اور جو اللہ پر اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے اور اُس کی پیروی کرو ، تاکہ تمہیں ہدایت حاصل ہو۔ " مکہ کے کافر قرآن کے بارے میں یہ اعتراض کرتے کہ یہ کتاب تو محمدﷺ نے فلاں فلاں لوگوں کی صحبت میں رہ کر سیکھ لی ہے ۔ کفار کے اس اعتراض کی تردید خود قرآن مجید میں موجود ہے ۔ ارشاد باری ہے : وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لاَّرْتَابَ الْمُبْطِلُونَ ( [19]) "اور تم ان سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے ، اور نہ کوئی کتاب اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے۔اگر ایسا ہوتا تو باطل والے ان میں میخ نکال سکتے تھے ۔ " اس آیت کی تفسیر میں مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں : " اس آیت میں استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ نبیﷺ اَن پڑھ تھے ۔ آپ کے اہل وطن اور رشتہ و برادری کے لوگ جن کے درمیان روزِ پیدائش سے سنِ کہولت کو پہنچنے تک آپ کی ساری زندگی بسر ہوئی تھی ، اس بات سے خوب واقف تھے کہ آپ نے عمر بھر نہ کبھی کوئی کتاب پڑھی ، نہ کبھی قلم ہاتھ میں لیا ۔ اس امر واقعہ کو پیش کرکے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ اس کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ کتب آسمانی کی تعلیمات ، انبیاء سابقین کے حالات ، مذاہب و ادیان کے عقائد ، قدیم قوموں کی تاریخ اور تمدن و اخلاق و معیشت کے اہم مسائل پر جس وسیع اور گہرے علم کا اظہار اِس اُمّی کی زبان سے ہو رہاہے یہ اس کو وحی کے سوا کسی دوسرے ذریعہ سے حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔ اگر اس کو نوشت و خواند کا علم ہوتا اور لوگوں نے کبھی اسے کتابیں پڑھتے اور مطالعہ و تحقیق کرتے دیکھا ہوتا تو باطل پرستوں کےلئے یہ شک کرنے کی کچھ بنیاد ہو بھی سکتی تھی کہ یہ علم وحی سے نہیں بلکہ اخذ و اکتساب سے حاصل کیا گیا ہے ۔ لیکن اُس کی اُمّیت نے تو ایسے کسی شک کےلئے برائے نام بھی کوئی بنیاد باقی نہیں چھوڑی ہے ۔ " ( [20])
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر مستشرقین کے اس بارے میں اعتراضات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ " منٹگمری واٹ کا بھی یہ دعویٰ ہے کہ پیغمبرِ اسلامﷺ لکھنا پڑھنا جانتے تھے اور اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ آپ ایک تاجر تھے اور تجارت کے پیش نظر آپ کو حساب کتاب کےلئے لکھنے پڑھنے کی ضرورت تھی ۔ لہٰذا آپ پڑھے لکھے تھے ۔ قرآن مجید میں آپ کےلئے ' اُمّی ' کا جو لفظ استعمال ہوا تو مٹگمری واٹ کے نزدیک اس سے مراد 'غیر یہودی ہونا' ہے نہ کہ ان پڑھ " ڈاکٹر موصوف منٹگمری واٹ کے ان خیالات کو بودے قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :"۔۔۔۔ پڑھنا لکھنا ایک فن ہے ، علم نہیں ۔ ایک شخص جو پڑھ لکھ سکتا ہو ، جاہل ہوسکتا ہے جیسا کہ ہمارے ہاں بینرز لکھنے والے عموماً اصحاب علم میں سے نہیں ہوتے ہیں ۔ اسی طرح ایک شخص جو پڑھنا لکھنا نہ جانتا ہو ، عالم ہو سکتا ہے ۔ پس آپﷺ عالم تھے لیکن پڑھنا لکھنا نہیں جانتے ہیں ۔ پڑھنا لکھنا علم نہیں بلکہ علم کے حصول کے ذرائع (Means of Knowledge Acquisition) میں سے ایک ذریعہ ہے ۔ آپﷺ نے جو کتاب یا علم اس امت کو دیا ہے ، آپ نے وہ پڑھنے لکھنے کے ذریعے سے حاصل نہیں کیا بلکہ وحی کے ذریعے حاصل کیا ہے ۔ پس آپﷺ کا ذریعہ علم خاص ہے عام نہیں ۔ " ([21] )
لزلے ہزلٹن کی کتاب اصل میں اُس کے پیش رو مستشرقین کا تسلسل فکری ہے ۔ وہ منٹگمری واٹ کی خوشہ چین ہے اس لئے آپﷺ کی اُمّی ہونے پر شک کا اظہار کرتی ہے ۔ اُمّی ہونے کے بارے میں واٹ کی خود ساختہ تعبیر بھی صحیح نہیں ہے ۔ قرآن ، احادیث مبارکہ ، سیرت و تاریخ کی روایات اور عربی زبان کی لغات میں کہیں بھی اُمّی کا معنی و مفہوم ' غیر یہودی ' نہیں ہے ۔ جیسا کہ پروفیسر عبد القیوم نے اپنے مضمون میں قرآن ، احادیث ، لغات عربی اور مفسرین اور سیرت نگاروں کے اقوال کی روشنی میں یہ واضح کیا ہے کہ اُمّی وہ ہوتا ہے جو لکھ پڑھ نہ سکے ۔( [22])
وحی کے بارے میں اعتراضات
مصنفہ وحی کو صوفیانہ تجربہ سمجھتی ہے اور اس کی نوعیت کے بارے میں (Meditation) کی مثالیں دی ہیں کہ ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہ نیند کو اڑا دینے اور روزے رکھنے سے یہ کیفیت آتی ہے ۔ لکھتی ہیں:
“We do not need to insist that Muhammad actually heard Gabriel speaking as though the angel were a human being, let alone reduce Muhammad to the status of a divinely appointed voice recorder playing back what was dictated to him. Since we are rational products of the twenty first century, we might look instead to science for an explanation, calling on neuro Psychiatry and the idea of “altered states of consciousness.” Was Muhammad in such an altered state that night on Mount Ḥira? Of course he was. But neurological research has only revealed what ascetics have always known: that practices such as fasting, sleep deprivation and intense meditation can induce such states, which are accompanied by changes in the brain’s chemical activity.”([23] )
" ہمیں یہ اصرار کرنے کی ضرورت نہیں کہ محمدﷺ نے جبریل علیہ السلام کو فی الواقع ایسے سنا گویا کہ فرشتہ کوئی انسان ہو اور محمدﷺ کو خدا کی طرف سے بھیجی گئی ایسی شخصیت ماننے کی ضرورت نہیں ہے جوکہ خدا کی سنائی ہوئی آواز کو ہوبہو پیش کر رہا ہو۔چونکہ ہم اکیسویں صدی کی عقلی پیداوار ہیں اس لئے ہم اس تجربے کی تشریح کے لئے سائنس کی طرف رجوع کر سکتے ہیں ۔ خصوصاً نیورو سائیکاٹری کی طرف ۔۔۔سوال یہ ہے کہ کیا کوہِ حرا پر محمدﷺ کی ذہنی کیفیت ایسی ہوئی تھی؟ بے شک ہوئی تھی ۔ لیکن نیورولاجیکل تحقیق نے وہی بات ظاہر کردی ہے جو تارک الدنیا لوگ ہمیشہ سے جانتے ہیں ۔ اور وہ یہ کہ روزہ رکھنے ، کم خوابی اور گہری سوچ و بچار انسان کے اندر ایسی کیفیات پیدا کر سکتے ہیں ، جوکہ ذہن کی کیمیاوی سرگرمیوں میں تبدیلیاں لاتے ہیں ۔ "
اس کا مطلب یہ ہے کہ مصنفہ وحی کا تجزیہ انسانوں کے بنائے ہوئے علوم کی روشنی میں کرتی ہے کہ مراقبوں ، روزہ رکھنے اور کم خوابی سے ایسی کیفیات وارد ہوتی ہیں ۔ اسی طرح اس نے یہ بات لکھی ہے کہ غارِ حرا میں پہلی وحی کے نزول کے بعد محمد ﷺ جب واپس آئے تو وہ یقینِ کامل کے ساتھ نہیں ، بلکہ شک و شبہ کی حالت میں آئے ۔
“So the man who fled down Mount Hira trembled not with joy but with a stark primordial fear. He was overwhelmed not with conviction, but by doubt.”([24] )
" پس وہ شخص جو حِرا کی پہاڑی سے بھاگ کر نیچے آیا ، وہ خوشی سے نہیں بلکہ ایک شدید خوف سے کانپ رہا تھا ۔ وہ یقین کامل سے نہیں بلکہ تشکیک سے مغلوب ہو چکا تھا ۔ "
جائزہ
لزلے وحی کو صوفیانہ تجربہ سمجھتی ہے اور کہتی ہے کہ نیند اڑانے اور روزے رکھنے سے یہ کیفیت آتی ہے۔ نبوت اور وحی کے متعلق مصنفہ کے تمام اعتراضات بے بنیاد ہیں۔ نبوت اور پیغمبری کوئی کسبی چیز نہیں جو محنت شاقّہ اور مراقبوں سے حاصل کیا جائے ۔ محمدﷺ نبوت کے لئے اُمیدوار نہیں تھے اور نہ پہلے سے آپ ﷺ کو کوئی علم تھا ۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے ، پیغمبر بنا کربھیجتا ہے ۔ اسی طرح مصنفہ کی یہ بات بھی خلاف واقعہ ہے کہ غارِ حرا میں پہلی وحی کے نزول کے بعد محمد ﷺ جب واپس آئے تو یقینِ کامل کے ساتھ نہیں بلکہ شک و شبہ کی حالت میں آئے ۔مصنفہ کی یہ باتیں قرآن و سنت کی تعلیمات اور حقائق کے خلاف ہیں ۔ آپﷺ کو وحی اور اپنی نبوت کے بارے میں کوئی شک نہیں بلکہ مکمل یقین تھا کہ یہ وحی جبرائیل علیہ السلام ہی لائے ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ آپﷺ کو وحی کا پہلا تجربہ تھا۔ جبریل علیہ السلام کی آواز میں ایک طاقت تھی اور یہ نیا واقعہ آپ ﷺ کے لئے ایک سخت تجربہ تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ آپﷺ پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تو آپﷺ نے واپس گھر آکر خدیجہ ؓ سے یہ واقعہ بیان کیا ۔ اس نے آپﷺ کوتسلی دی اور آپﷺ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ ورقہ نے کہا : کہ یہ تو وہی ناموس ہے جو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر اتارا تھا ۔ ([25] ) مولانا مودودی ؒ لکھتے ہیں : " اللہ تعالیٰ جب کسی شخص کو اپنی نبوت کے لئے چن لیتا ہے تو اس کے دل کو شکوک و شبہات اور وساوس سے پاک کرکے یقین و اذعان سے بھر دیتا ہے ۔ اس حالت میں اس کی آنکھیں جو کچھ دیکھتی ہیں اور اس کے کان جو کچھ سنتے ہیں اس کی صحت کے متعلق کوئی ادنیٰ سا تردد بھی اس کے ذہن میں پیدا نہیں ہوتا ۔ وہ پورے شرح صدر کے ساتھ ہر اس حقیقت کو قبول کر لیتا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر منکشف کی جاتی ہے ۔ خواہ وہ کسی مشاہدےکی شکل میں ہو جو اسے آنکھوں سے دکھایا جائے ، یا الہامی علم کی شکل میں ہو جو اس کے دل میں ڈالا جائے، یا پیغام وحی کی شکل میں ہو جو اس کو لفظ بہ لفظ سنایا جائے ۔ ان تمام صورتوں میں پیغمبر کو اس امر کا پورا شعور ہوتا ہے کہ وہ ہر قسم کی شیطانی مداخلت سے قطعی محفوظ و مامون ہے اور جو کچھ بھی اس تک کسی شکل میں پہنچ رہا ہے وہ ٹھیک ٹھیک اس کے رب کی طرف سے ہے ۔ تمام خداداد احساسات کی طرح پیغمبر کا یہ شعور و احساس بھی ایک ایسی یقینی چیز ہے جس میں غلط فہمی کا کوئی امکان نہیں ۔ جس طرح مچھلی کو اپنے تیراک ہونے کا ، پرندے کو اپنے پرندہ ہونے اور انسان کو اپنے انسان ہونے کا احساس بالکل خداداد ہوتا ہے اور اس میں غلط فہمی کا کوئی شائبہ نہیں ہو سکتا ، اسی طرح پیغمبر کو اپنے پیغمبر ہونے کا احساس بھی خداداد ہوتا ہے ۔ اس کے دل میں کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی یہ وسوسہ نہیں آتا کہ شاید اسے پیغمبر ہونے کی غلط فہمی لاحق ہوگئی ہے " ( [26]) ایک اورمحقق مولانا گوہر رحمانؒ اپنی کتاب میں پہلی وحی کے مباحث میں لکھتے ہیں : "نبی کو نبوت ملتے ہی اور پہلی وحی آتے ہی اپنی نبوت کا یقین جازم اور قطعی علم حاصل ہو جاتا ہے اور اس کے دل و دماغ میں اپنے نبی ہونے کے بارے میں کسی قسم کا شک و شبہ داخل نہیں ہو سکتا بلکہ جس طرح امتی پر اپنے نبی کی نبوت پر ایمان لانا فرض ہوتا ہے اسی طرح نبی پر بھی اپنی نبوت پر ایمان لانا فرض ہوتا ہے ۔" ( [27]) دوسری جگہ لکھتے ہیں : "انبیاء ( علیہم السلام ) کا اپنی نبوت کے بارے میں ہرقسم کے شکوک و شبہات سے محفوظ ہونا ، ہرقسم کے کبائر سےمعصوم ہونا اور ذہنی و دماغی خلل اور فتور سے پاک ہونا قرآن کریم ، سنتِ صحیحہ اور عقلی دلیل تینوں سے ثابت ہے۔"( [28]) پروفیسر صلاح الدین کاشمیریؒ نے اپنی کتاب میں مستشرقین کے اس قسم کے اعتراضات کا جواب دیا ہے ۔ وہ " حضرت خدیجہؓ کے کلماتِ تسلی کا مقصود " نامی عنوان کے تحت لکھتے ہیں : " جب آنحضرتﷺ نے اُنہیں غار میں پیش آنے والے واقعات سنائے تو اُنہوں نے بلا تردد تسلیم کرلیا کہ فی الحقیقت جبریل علیہ السلام ہی اُن کے پاس مژدۂ رسالت اور " حکم نبوت " لے کر آئے تھے ۔ جناب خدیجہؓ نے اس موقع پر جو کلماتِ تسلی ادا فرمائے ، اس سے مقصود معاذ اللہ حضورﷺ کے تذبذب یا بے یقینی کو رفع کرنا نہ تھا بلکہ اُس طبعی گھبراہٹ کو دور کرنا تھا جس میں حضورﷺ مقصدِ بعثت اور کارِ نبوت کی گراں باری کا تصور کرکے مبتلا ہوگئے تھے ۔ اس قسم کا طبعی خوف ہرگز منصبِ رسالت کے منافی نہیں ۔ " ([29] ) اسی طرح ورقہ بن نوفل سے ملاقات کے بارے میں بھی لکھتے ہیں : " صاف اور سیدھی بات صرف اتنی ہے کہ جب نبیﷺ نے گرانباری فرض نبوت و رسالت کی بنا پر پریشانی کا اظہار کیا تو جناب خدیجہؓ اپنے محبوب شوہر کی پریشانی دیکھ کر خود پریشان ہوگئیں ۔ اس لئے نبیﷺ کو مقصدِ بعثت کے حصول کی جدوجہد کے حوالے سے جو اندیشہ لاحق ہوا اور جس کا اظہار آپﷺ نے "مجھے میری جان کاڈر ہے" کہہ کر کیا اور اس طرح کی طبعی گھبراہٹ قطعاً غیر متوقع نہ تھی تو اولاً جناب خدیجہؓ نے آپﷺ کو تسلی دی کہ اللہ تعالیٰ مقصدِ بعثت کی جدوجہد میں ہرگز آپ کو رسوا اور رنجیدہ نہ کرے گا اور ثانیاً آپﷺ کو اپنے چچا زاد ورقہ بن نوفل کے پاس لےگئیں ۔ جناب خدیجہؓ کا اس سے مقصود سوائے آپﷺ کی تسلی و تشفی اور پریشانی کو دور کرنے کے اور کچھ نہیں تھا ۔ جب ورقہ نے غارِ حرا کی روداد آپﷺ کی زبانی سنی تو فوراً تصدیق کی کہ آپﷺ فی الحقیقت بشارتِ عیسیٰؑ ہے ۔ اور اس کے بعد مقصدِ بعثت کے حصول کی جدجہد میں ممکنہ مصائب کا ذکر کیا جن کا انہیں اپنی کتب کے حوالے سے علم تھا ۔ " ([30] ) آگے کاشمیریؒ صاحب اس بحث کو سمیٹتے ہوئے لکھتے ہیں:"رسولﷺ اپنی نبوت و رسالت کے ضمن میں ہرگز کسی کی تصدیق کے محتاج نہ تھے ۔ رسولِ اُمّی کو اپنی رسالت و نبوت کے بارے میں ذرہ برابر شک اور تردد نہیں تھا ۔ " ( [31])
فترۃ الوحی کے بارے میں اعتراضات
لزلے ہزلٹن فترۃ وحی کے زمانہ کو غیر مزروعہ یا بنجر اراضی (A frustratingly fallow period) سے تشبیہہ دیتے ہوئے سیرت پاکﷺ پر معترض ہے ۔لکھتی ہیں کہ دو سال کوئی وحی نہیں آئی اور (نعوذ با اللہ ) آپﷺ تنہائی ، مایوسی اور نا اُمیدی میں مبتلا ہوگئے ۔اُمید اور نا اُمیدی کی بات کرتے ہوئی کہتی ہے کہ آپﷺ بے یقینی (Uncertainty) کا شکار تھے ۔ ([32] ) اسی طرح وہ وحی کو نبیﷺ کی ذاتی کوشش قرار دیتی ہے ۔اپنے مزعومہ مباحث کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتی ہے :
“As weeks and then months passed and no more came, Muhammad alternated between hope and despair.” ([33] )
ایک غلط بیانی یہ کرتی ہے کہ فترۃ وحی کے بعد نازل ہونے والی وحی سورۃ الضحیٰ کی آیات بتلاتی ہے ۔ وہ لکھتی ہے :
“At last it came. It would be known as the Surah of the morning.” ([34] )
" بالآخر ( فترۃ وحی کے دو سال عرصہ کے بعد دوسری وحی ) آئی ۔ یہ سورۃ الضحیٰ کے نام سے مشہور ہے ۔ "
جائزہ
لزلے ہزلٹن پہلی اور دوسری وحی کی درمیانی مدت کو دو سال بتاتی ہیں اور اس عرصہ کے بارے میں نازیبا الفاظ کا استعمال کرتی ہے ۔ اس کے علاوہ وہ دوسری وحی کو "سورۃ الضحیٰ" کی آیات بتاتی ہے جبکہ احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ پہلی وحی کی بندش کے بعد دوسری وحی "سورة المدثر" کی ابتدائی آیات ہیں ۔ ([35] ) اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ وحی کی بندش کا عرصہ دو سال نہیں بلکہ بہت مختصر ہے ۔ بعض محققین سیرت نگاروں نے اس کی وضاحت کی ہے ۔ مثلاً مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوریؒ لکھتے ہیں : "رہی یہ بات کہ وحی کتنی دنوں تک بند رہی تو اس سلسلے میں ابن سعدؒ نے ابن عباسؓ سے ایک روایت نقل کی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ بندش چند دنوں کےلئے تھی اور سارے پہلوؤں پر نظر ڈالنے کے بعد یہی بات راجح بلکہ یقینی معلوم ہوتی ہے اور یہ جو مشہور ہے کہ وحی کی بندش تین سال یا ڈھائی سال تک رہی تو یہ قطعاً صحیح نہیں ۔ " ([36] ) مولانا موصوف آگے حاشیہ میں مزید نوٹ یوں لکھتے ہیں : " اہل سیر کے تمام روایات کے مجموعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپﷺنے تین سال حراء میں ماہ رمضان کا اعتکاف کیا تھا اور نزول وحی والا رمضان تیسرا یعنی آخری رمضان تھا ۔ اور آپﷺ کا دستور تھا کہ آپﷺ رمضان کا اعتکاف مکمل کرکے پہلی شوال کو سویرے ہی مکہ آ جاتے تھے ۔ مذکورہ روایت کے ساتھ اس بات کو جوڑنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ والی پہلی وحی کے دس دن بعد یکم شوال کو نازل ہوئی تھی یعنی بندش وحی کی کل مدت دس دن تھی ۔ " ([37] ) پروفیسر صلاح الدین کاشمیریؒ نے بھی اپنی کتاب میں متعدد مقامات پر دلائل سے ثابت کیا ہے کہ بندشِ وحی کی مدت صرف دس دن تھی ۔ مثلاً ایک جگہ لکھتے ہیں : "پہلی وحی یعنی ' حکم نبوت ' کے نزول کے بعد ، ہماری تحقیق کے مطابق دس دن یعنی پہلے مرحلۂ دعوت میں وحی بند رہی اور جبریل علیہ السلام کوئی وحی نہ لائے ۔ " ([38] ) اسی طرح دوسری جگہ لکھتے ہیں : "بندش وحی کی مدت محض دس روز تھی ۔۔۔۔ لیکن اس مرحلہ میں نبیﷺ سے جو رویہ منسوب کیا گیا ہے اُس کی بنیاد دراصل غلط طور پر اختیار کردہ یہ خیال ہے کہ بندش وحی کی یہ مدت سالوں پر محیط تھی ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ رسول کریمﷺ نے دس دن کی یہ مدت نہایت پر وقار طریقے سے گزاری ۔ ابتدائی چند دن اپنے گھر میں قیام پذیر رہے ۔ صرف صبح و شام نماز کےلئے اولاً جناب خدیجہؓ کو ساتھ لے کر اور ثانیاً حضرت خدیجہؓ اور حضرت علیؓ دونوں کو ساتھ لے کر کسی گھاٹی میں تشریف لے جاتے ۔ ماہ رمضان کے آخری چار پانچ دن آپﷺ نے غارِ حراء میں گزارے تاکہ بقیہ مدت اعتکاف و عبادت پوری کر سکیں ۔ " ([39] ) پروفیسر ڈاکٹر تسنیم احمد کی تحقیق بھی یہی ہے کہ بندش وحی کی مدت بہت قلیل یعنی دس روز تھی ۔ وہ لکھتے ہیں " فترۃ الوحی کی مدت بعض اصحاب نے ڈھائی تین سالوں پر محیط جانی ہے ۔ یہ بات ناقابل فہم ہے ۔ " ([40] )
معجزاتِ رسولﷺکے متعلق اعتراضات
نبی کریمﷺ کے معجزات کے متعلق بھی لزلے شدید تحفطات رکھتی ہیں۔ وہ آپ ﷺ کو عام انسانوں کی سطح پر لانے کی کوشش کرتی ہے۔ اُس نے اپنی کتاب میں صرف چند ایک معجزات جیسے واقعہ معراج اور شقِ صدر وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے اور اُن کو بھی "معجزہ" ماننے کےلئے تیار نہیں ۔ باقی پوری کتاب میں کسی معجزے کا ذکر نہیں حالانکہ یہ کتاب آپﷺ کی پیدائش سے وفات تک کے سینکڑوں واقعات کے بارے میں زمانی ترتیب پر مشتمل ہے ۔ احادیث و سیر کی کتب میں مختلف غزوات کے بیانات میں آپﷺ کے متعدد معجزات مذکور ہیں مثلاً غزوۂ بدر ، غزوۂ خندق اور غزوۂ تبوک وغیرہ کے دوران آپﷺ کے مختلف معجزات کا تذکرہ موجود ہے۔لیکن مصنفہ نے کسی ایک کا بھی ذکر نہیں کیا ہے ۔ اُس کے نزدیک محمدﷺ کی زندگی کے معجزاتی پہلو پر اصرار اگر کم کیا جائے تو ان کی زندگی زیادہ غیر معمولی نظر آتی ہے، لکھتی ہیں:
“Muhammad’s is one of those rare lives that is more dramatic in reality than in legend. In fact the less one invokes the miraculous, the more extraordinary his life becomes.”([41] )
" محمدﷺ کی زندگی ان چند نایاب زندگیوں میں سے ایک ہے ، جو داستان کی بجائے حقیقت میں زیادہ ڈرامائی نظر آتی ہے ۔ فی الواقع جتنا معجزات کا سہارا کم لیا جائے گا تو اتنی ہی یہ زندگی زیادہ غیر معمولی نظر آتی ہے "۔
شق صدر کے متعلق لکھتی ہیں:
“It becomes less specifically Arabian as it develops, calling on elements of hero legends worldwide: on Greek and Egyptian god legends.”( [42])
" واقعہ شق صدر کی روایات بڑھتے بڑھتے یونانی اور مصری دیوتاؤں سے وابستہ روایات کی شکل اختیار کر لیتی ہیں ۔ "
گویا لزلے کے نزدیک خود اسی کے الفاظ میں جیسے حضرت عیسیٰؑ کی شخصیت کے ساتھ مافوق الفطرت واقعات شامل کر لئے گئے ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں نے بھی شق صدر کا واقعہ وضع کر لیا ہے ۔
جائزہ
مستشرقین اور اُن کے پیروکار اہل قلم کے ہاں اصطلاحی تضادات پائے جاتے ہیں ۔ یعنی ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ یہ انوکھا پیغمبر ہے ، جس نے تلوار چلائی ، شادیاں کیں ، سیاسی معاہدے بھی کئے وغیرہ وغیرہ ۔ تو دوسری طرف جب پیغمبرﷺ کے معجزات جیسے شقِ صدر کا ذکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ تم تو پیغمبرﷺ کو Divine بنا رہے ہو۔
آپﷺ کے شق صدر کا واقعہ دو مرتبہ پیش آیا تھا ۔ ایک جب آپ ﷺ حلیمہ سعدیہ کے ہاں زیرِ پرورش تھے ۔ اور دوسری مرتبہ معراج کے موقع پر ۔ یعنی ایک مرتبہ انتہائی بچپن میں اور دوسری مرتبہ نبوت ملنے کے بعد جو مکی دور کا آخری زمانہ تھا ۔ جب آپﷺ حلیمہؓ کے پاس دو سال تک رہے اور دودھ چھڑانے کا وقت آیا تو وہ آپﷺ کو مکہ واپس لے گئیں ۔ لیکن وہ چاہتی تھیں کہ آپﷺ کو مزید بھی اپنے ساتھ رہنے دیں ۔ حضرت آمنہؓ راضی ہوئیں اور وہ آپﷺ کو واپس گھر لے آئیں ۔ واپس آنے کے دو تین مہینے بعد شقِ صدر کا واقعہ پیش آیا ۔ مولانا مودودیؒ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حاشیہ میں لکھتے ہیں :"واضح رہے کہ یہ شق صدر کا واقعہ اَسرارِ الٰہی میں سے ہے جس کی کنہ کو انسان نہیں پہنچ سکتا ۔ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ایسے عجیب واقعات بے شمار آئے ہیں جن کی کوئی توجیہ نہیں کی جاسکتی ۔ لیکن توجیہ کا ممکن نہ ہونا اس کے لئے کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ ان کا انکا رکر دیا جائے ۔ " ([43])
مصنفہ واقعہ معراج کو ایک نفسیاتی تجربہ سمجھتی ہیں ۔ اُس کے نزدیک یہ واقعہ ایک نفسیاتی تجزیہ کا محتاج ہے۔مصنفہ کا مطلب یہ ہے کہ آپﷺ نہایت سخت حالات سے دو چار تھے اس لئے ان حالات میں اگر آپ اس طرح کا خواب دیکھ لیں یا اس طرح کی نفسیاتی کیفیت سے گزریں، تو ناقابلِ فہم نہیں ہے ۔([44]) واقعہ معراج محمدﷺ کے مسلمہ اور اہم معجزات میں سے ہے ۔ معراج ، تخیلاتی اور خواب نہیں ہے بلکہ اس کا روح اور جسم سمیت ، حالت بیداری میں واقع ہونا قرآن ، احادیث اور آثار صحابہ کے مطابق ایک طے شدہ امر ہے ۔ لہٰذا لزلے کے شبہات اور اعتراضات کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔
خلاصہ
ساری بحث کا حاصل یہ ہے کہ مصنفہ نے اپنی کتاب میں نبوت ، وحی اور معجزات کے بارے میں اعتراضات کئے ہیں۔ اُس کے خیالات تعصب اور کذب پر مبنی ہیں ۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی آخری آسمانی کتاب ہے ۔ یہ کسی انسان کی بنائی ہوئی کتاب نہیں۔ اس کتاب میں مختلف ادوار میں تحریف کی کوششیں ہوئیں تاہم الٰہی کتاب ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا ذمہ خود لیا اور اس کی حفاظت کرکے دکھائی۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ نبوت کسبی چیز نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں جسے چاہے دیتا ہے۔ حضرت محمد مصطفیٰﷺ سلسلہ انبیاء علیہم السلام کی آخری کڑی ہیں۔ آپﷺ کو وحی اور اپنی نبوت کے بارے میں ذرہ بھر شک نہیں تھا ۔ آپﷺ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے لیکن اس کے باوجود اقوامِ سابقہ کے قصص سنائے اور دیگر پیشن گوئیاں کی جو کہ آپﷺ کو وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے بتائے۔ آپﷺ نے جو کتاب یا علم اس امت کو دیا ہے ، آپ نے وہ پڑھنے لکھنے کے ذریعے سے حاصل نہیں کیا بلکہ وحی الٰہی کے ذریعے حاصل کیا ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے حکم سےآپﷺسے کثرت سے خرقِ عادت اُمور یعنی معجزات بھی رونما ہوئے ہیں جو کہ پیغامِ الٰہی کے پہنچانے کے لئے تائید کے طور پر آپﷺکے ہاتھوں پیش آئیں۔ یہ معجزات صرف آپﷺ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ آپﷺ سے پہلے انبیاء کرام کو بھی اللہ تعالیٰ نے دیں جیسے سیدنا نوح علیہ السلام کا سیلاب میں بچ جانا، سیدنا صالح علیہ السلام کی اونٹنی، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا آگ میں محفوظ رہنا، سیدنا اسماعیل علیہ السلام کا ذبح سے بچ جانا اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے مختلف معجزات عطا کی گئیں۔
نتائج
بحث سے حاصل ہونے والے نتائج مندرج ذیل ہیں :
1 ۔ لزلے ہزلٹن کی کتاب محمدﷺ کی سوانح عمری کے بارے میں ہے جو زمانی ترتیب سے لکھی گئی ہے۔
2 ۔ مصنفہ نے دوسرے مستشرقین کی طرح سیرتِ نبویﷺ پر اعتراضات کئے ہیں ۔
3 ۔ آپﷺ کی نبوت کو مشکوک بنانے کی مذموم سعی کی ہے اور واقعات کے بیان میں کذب بیانی سے کام لیا ہے ۔
4 ۔ وحی اور قرآن مجید کے کلامِ الٰہی ہونے میں شکوک و شبہات والے بیانات سے کام لیا ہے ۔
5 ۔ مصنفہ وحی کے مباحث میں غلط بیانیوں سے کام لیتی ہے اور سیرتِ طیبہ کو مجروح کرنے کی ناروا جسارت کی ہے ۔
6 ۔ فترۃ وحی کا عرصہ دو سال بتاتی ہے اور دوسری وحی سورۃ الضحیٰ کی آیات بتاتی ہے ۔
7 ۔ معجزاتِ رسولﷺکو کوئی اہمیت نہیں دیتی ۔اُس نے اپنی کتاب میں صرف چند ایک معجزات کا ذکر تو کیا ہے لیکن انہیں "معجزات" ماننے کےلئے تیار نہیں ۔ باقی پوری کتاب میں معجزات سے متعلق ابحاث کا ذکر نہیں کیا۔
حوالہ جات
- ↑ ۔ https://en.wikipedia.org/wiki/Lesley_Hazleton Access date 23 / 01 / 2018
- ↑ ۔ سورۃ الاحزاب : 40
- ↑ ۔ نعمانی ، شبلی ، مولانا ، سیرۃ النبیﷺ ،الفیصل ناشران ، لاہور پاکستان ، س ۔ ن ، ج 1 ص 64
- ↑ ۔ایضاً ، ص 65
- ↑ ۔ ایضاً ، ص 63
- ↑ ۔ وحی کے لغوی معنے ہیں : اشارہ کرنا ، خط لکھنا ، پیغام بھیجنا ، دل میں کوئی بات ڈال دینا ، سرگوشی کرنا اور ہر وہ بات جو دوسرے کی جانب پھینک دی گئی ہو۔ جیسا کہ علامہ جوہری نے لکھا ہے : الوحى: الاشارة، والكتابة، والرسالة، والالهام، والكلام الخفى، وكل ما ألقيته إلى غيرك. الجوہری ، اسماعیل بن حماد ، الصحاح ، تحقیق : احمد عبد الغفور عطار ، دار العلم للملائین ، بیروت لبنان ، 1407 ھ / 1987 ء ج 8 ص 458 جب کہ وحی کا شرعی مفہوم ہے شرعی احکام کی خبر دینا ، لیکن اس کا استعمال اسم مفعول کے معنوں میں بھی ہوتا ہے یعنی وہ کلام جو نبی پر اتارا گیا ہو ۔ جیسا کہ ابن حجرؒ لکھتے ہیں : " وشرعا الاعلام بالشرع وقد يطلق الوحي ويراد به اسم المفعول منه أي الموحي وهو كلام الله المنزل على النبي صلى الله عليه و سلم " یعنی وہ پیغام اور کلام جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی پر نازل ہوتا ہے ۔ابن حجرؒ ، ابوالفضل احمد بن علی ، فتح الباری ،دار المعرفہ ، بیروت لبنان ، س ۔ ن ، ج 1 ص 12
- ↑ ۔ معجزات " معجزہ " کی جمع ہے ۔ اس کا لفظی معنی ہے عاجز کرنا ۔ معجزہ ایک ایسا امر ہے جو مدعی نبوت ( یعنی پیغمبر ) کے ہاتھ پر منکرین کو چیلنج کرنے کے وقت ایسے انداز پر ظاہر ہو جو منکر کو اس وقت مثل پیش کرنے سے عاجز کردے اور یہ اس لئے کہ اگر معجزہ کے ذریعہ تائید نہ ہوتی ہو تو اس کے قول کو قبول کرنا واجب نہ ہوتا اور دعویٰ رسالت میں سچا جھوٹے سے ممتاز نہ ہوتا ۔ تفتازانی ، علامہ سعد الدین ، شرح العقائد للنسفی ، مکتبہ حقانیہ ، ٹی بی ہسپتال روڈ ، پشاور پاکستان ، س ۔ ن ، ج 2 ص 178
- ↑ . Hazleton , Lesley, The First Muslim -The Story of Muhammad , Atlantic books, London 2013 , P 11
- ↑ ۔ سباعی ، مصطفیٰ حسنی ، ڈاکٹر ، استشراق اور مستشرقین ، مترجم : محمد نور الحسن خان ازہری ، کتاب محل ، لاہور پاکستان ، 1438ھ / 2017 ء ، ص 41
- ↑ . Hazleton , Lesley, The First Muslim , P 47
- ↑ ۔ سورۃ الطور : 33 ، 34
- ↑ ۔ سورۃ الفرقان : 4 تا 6
- ↑ ۔ سورۃ ہود : 13
- ↑ ۔ سورۃ بنی اسرائیل : 88
- ↑ ۔ سورۃ البقرۃ : 22 ، 23
- ↑ . Hazleton, Lesley, After the Prophet, Anchor Books A Division of Random House, Inc. New York , 2009 , P 48
- ↑ ۔ سورۃ الاعراف : 157
- ↑ ۔ ایضاً : 158
- ↑ ۔ سورۃ العنکبوت : 48
- ↑ ۔ مودودیؒ ، ابوالاعلیٰ بن سید احمد حسن ، مولانا ، تفہیم القرآن ، ادارہ ترجمان القرآن ، لاہور پاکستان ، 1415ھ / 1994 ء ، ج 3 ص 711
- ↑ ۔ حافظ ، محمد زبیر ، ڈاکٹر ، اسلام اور مستشرقین ، مکتبہ رحمۃ للعالمین ، لاہور پاکستان ، 1435ھ / 2014 ء ، ص 41
- ↑ ۔ " اُمّی نبیﷺ کا مفہوم " پروفیسر عبد القیوم ، نقوش رسولؐ نمبر ، لاہور پاکستان ، شمارہ نمبر 130 ، جنوری 1983 ء ، ج 4 ص 708
- ↑ . Hazleton , Lesley, The First Muslim , P 80
- ↑ . Ibid , P 6
- ↑ ۔ امام بخاری ، ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل ، الجامع الصحیح ، مکتبہ رحمانیہ، اردو بازار، لاہور- پاکستان ، س ۔ن ، ح 4 ، ج 1 ص 58
- ↑ ۔ مودودی ؒ ، ابو لاعلی ٰ بن سید احمد حسن ، مولانا ، سیرتِ سرورِ عالم ﷺ، ادارہ ترجمان القرآن ، لاہور- پاکستان ، 1434 ھ / 2013 ء ، ج 2، ص 671
- ↑ ۔ گوہر رحمانؒ ، مولانا ، علوم القرآن ، مکتبہ تفہیم القرآن ، مردان پاکستان ، 1424ھ/ 2003 ء ، ج 1، ص 136
- ↑ ۔ ایضاً ، ج 1 ص 144
- ↑ ۔ کاشمیریؒ ، صلاح الدین ، پروفیسر ، مطالعہ سیرت پیغمبرِ انقلابﷺ اور قرآنِ حکیم ، ظلال القرآن فاؤنڈیشن ، راولپنڈی -پاکستان ، 1427 ھ / 2006 ء ، ج 1، ص 122
- ↑ ۔ ایضاً ، ص 127
- ↑ ۔ ایضاً
- ↑ . Hazleton , Lesley, The First Muslim , P 89
- ↑ . Ibid , P 90
- ↑ . Ibid , P 93
- ↑ ۔ صحیح بخاری ،ج 4 ، ج 1 ص 58
- ↑ ۔ مبارک پوری ، صفی الرحمن، مولانا ، الرحیق المختوم، مکتبہ سلفیہ، لاہور- پاکستان 1424ھ /2003ء ، ص 101
- ↑ ۔ ایضاً ص 102
- ↑ ۔ کاشمیریؒ ، صلاح الدین ، پروفیسر ، مطالعہ سیرت پیغمبرِ انقلابﷺ اور قرآنِ حکیم ، ج 1ص 138۔
- ↑ ۔ ایضاً ، ص 142
- ↑ ۔ تسنیم احمد ، پروفیسر ڈاکٹر ، روح الامین کی معیت میں کاروانِ نبوتﷺ ، مکتبہ دعوۃ الحق ، کراچی پاکستان ، 1439 ھ / 2018 ء ، ج 1 ص 68
- ↑ . Hazleton , Lesley , The First Muslim , P 10
- ↑ . Ibid , P 31
- ↑ ۔ مودودیؒ ، سیرتِ سرورعالم ﷺ ، ج 2 ص 97
- ↑ . Hazleton , Lesley , The First Muslim , P 144
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |