1
2
2014
1682060029336_970
56-70
https://burjis.com/index.php/burjis/article/download/52/52
https://burjis.com/index.php/burjis/article/view/52
علم الفواصل قرآن مجید کی آیات کی تعداد اور راسِ آیت کے جاننے کا علم ہے، ہر سورت میں کتنی آیات ہیں اور آپ ﷺ نے کس جگہ وقف کیا ہے اور کس موقع پر وصل۔قرآن مجید کی آیتوں میں مقاطع ،اسجاع کی بجائے فواصل کہلاتے ہیں کیونکہ سجع اور قافیہ بلاغت کے لحاظ سے عیب ہےاور جمہور کے مطابق قرآن مجید کے لئے سجع اور قافیہ کے الفاظ کا استعمال ممنوع ہے۔ فواصل قرآنیہ کو مشاکلت، نظائر، اور انفصال کلام سے پہچانا جاسکتا ہے۔فواصل کی معرفت کی وجہ سے وقفِ حسن اور نماز و خطبہ کی صحت کےلئے مشروع تعداد آیات کا علم ہوتا ہے۔اسی وجہ سے علماءکرام نے ہر دور میں فواصل کی معرفت، اقسام اور اعجاز کے حوالے سے بیش قیمت تصنیفات کی ہیں۔
حرف اول
قرآن مجید وہ واحد آسمانی کتاب ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ نے لی ہے۔اسی وجہ سے یہ کتاب سراپا معجزہ ہےاور جب فصاحت و بلاغت کے دعوی دار عرب قوم نے اسے سنا تواس کے دلنشین اسلوب کلام کی وجہ سے کسی نے اس کو شاعر کی کتاب اور بعض لوگوں نے کاہن کی سجع قرار دی۔اللہ نے خود اس کی وکالت فرمائی۔
وما علمنٰه الشعر وماینبغی له ان هو الا ذکر و قراٰن مبین (یٰس:۹۶) دوسری جگہ اللہ فرماتے ہیں:
وماهوبقول شاعر قلیلاماتومنون. ولابقول کاهن قلیلا ما تذکرون (الحاقۃ: ۱۴،۲۴)
ان ہی الزامات کے پس منظر میں علم الفواصل کی بنیاد پڑی۔قرآن مجید کے مقاطع اسجاع کی بجائے فواصل کہلاتے ہیں۔کیونکہ سجع عیب اور فواصل بلاغت ِعالیہ ہے۔قرآن مجید کے اوزان کی بنیاد نہ بحرِ مدید پر ہے اور نہ بحرِ طویل پر۔بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسانی سانس کی فطری درازی کو قرآن مجید کا وزن بنایا ہے۔اور اسی بناءپر بعض آیات میں دو دو اور بعض میں تین تین فواصل ہوتے ہیں۔
اس مقالے میں فواصل کی تعریف، تاریخ، موضوع،حکمت واعجاز،وجہ تسمیہ،معرفت کے طریقے اور فوائد،اقسام اور سجع فی القرآن پر بحث ہوگی۔
تعریف الفواصل
فواصل فاصلۃ کی جمع ہے۔اس کا مادہ ف ص ل(فصل) ہے۔جس کے معنی قطع کرنا،جداکرنا،ممتاز اور علیحدہ کرنا۔الفصل دو
چیزوں کے درمیان روک اور دو زمینوں کے مابین حد کو کہتے ہیں۔الفاصلہ مؤنث ہے فاصل کا؛ہار کے دو مہروں کے درمیان ایک دوسرے رنگ کے مہرے کو کہتے ہیں۔عرب کہتے ہیں: فصل العقد۔” اس نے ہار کے دو ہم رنگ موتیوں کے درمیان ایک دوسرے رنگ کی موتی ڈال دی ہے “۔ (1)
ابنِ منظور الافریقی لکھتے ہیں: الفصل بون ما شیئین۔ فصلت الشیءفانفصل ای قطعته فانقطع۔والفاصلة الخرزة التی
تفصل بین الخرزتین فی النظام و اواخر الایات فی کتاب الله فواصل بمنزلة قوافی الشعر جلّ کتاب الله عز وجلّ واحدتها فاصلة۔ وقوله عزّوجلّ کتاب فصّلناه له معنیان احدهما تفصیل ایاته بالفواصل والمعنی الثانی فی فصّلناه بیّناه۔(2)
۱۔ابو عمر الدانی(م444ھ) کہتے ہیں:کلمة آخر الجملة(3)۔” جملہ کے آخری کلمہ کو فاصلہ کہتے ہیں “۔
۲۔علامہ الزرکشیؒ(م794ھ) کہتے ہیں: الفاصلة هی کلمة آخر الآیة: کقافیة الشعر و قرینة السجع(4)۔
” فاصلہ آیت کے آخری کلمہ کو کہتے ہیں جس طرح شعر میں قافیہ اور سجع میں قرینہ ہوتا ہے “۔
۳۔علامہ سیوطیؒ(م911ھ) الفاصلة هی آخر کلمة فی الآیة کقافیة الشعر و قرینة السجع(5)۔
”جس طرح شعر کے آخری لفظ کو قافیہ اور سجع کے انتہائی لفظ کو قرینہ کہتے ہیں اسی انداز پر آیت قرآنی کے اخیر کا کلمہ فاصلہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے “۔
۴۔قاضی ابو بکرالباقلانی(403ھ)كہتےہیں: الفواصل حروف متشاکلة فی المقاطع، یقع بها افهام المعانی(6)۔
”فواصل ان ہم شکل حروف کا نام ہے جو کہ کلمات کے مقاطع میں ہوتے ہیں اور ان کے ذریعہ سے افہام معانی کا وقوع ہوا کرتا ہے “۔
۵۔الرّمانی المعتزلی (384ھ)کہتے ہیں: الفواصل حروف متشاکلة فی المقاطع توجب حسن افهام المعانی(7)۔
”فواصل ان ہم شکل حروف کو کہتے ہیں جو کلمات کے مقاطع میں ہوتے ہیں اور حسن معانی کو واجب کرتے ہیں “۔
۶۔ابن منظور الافریقی کہتے ہیں: اواخر الایات فی کتاب الله فواصل بمنزلة قوافی الشعر جلّ کتاب الله عژوجلّ(8)۔
” کتاب اللہ کی آیات کے آخر کو فواصل کہتے ہیں جوشعر کے قوافی کی مانند ہوتے ہیں،اللہ کی کتاب اس سے پاک و برتر ہے “۔
ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ فاصلہ کسی کلمہ کے آخر میں معانی کی تحسین اور کلام کے دوران استراحت کے لئے ہوتا ہے۔انسانی سانس کی فطری درازی قرآن کریم کا وزن ہے۔
تاریخ الفواصل
اسلامی علوم میں فاصلہ اور علم الفواصل کا ظہور کب سے ہوگیا تھا ؟اس کے متعلق مندرجہ ذیل دو قسم کے شواہد پائے جاتے ہیں۔
۱۔بعض علماءکے مطابق قرآن مجید میں الفاصلہ کی طرف اشارہ موجود ہے۔جیسے کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَلَقَدْ جِئْنَاهُمْ بِكِتَابٍ فَصَّلْنَاهُ عَلَى عِلْمٍ هُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (الاعراف:52)
دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے: كِتَابٌ فُصِّلَتْ آيَاتُهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ(حم السجدة:3)۔
ان دو آیات مبارکہ سے فواصل کی بنیاد کا پتہ چلتا ہے کہ خود قرآن مجید میں اس کا ثبوت روز اوّل سے موجود ہے۔
۲۔ فواصل کی بحث علوم کی نشاةِ اول سے جاری و ساری تھی۔ابتداءسے یہ علم بلاغت کا حصہ تھا لیکن جاحظ(م255ھ) کی کتاب ”نظم القرآن“ کے ضائع ہونے کی وجہ سے یہ بتانا مشکل ہوگیا ہے کہ قرآن مجید کے بعد اس کا نام ’الفاصلہ‘ کس نے رکھا۔
امام جلال الدین السیوطیؒ(م911ھ) نے ابو عثمان عمرو بن البحر الجاحظ(م255ھ) کی طرف یہ بات منسوب کی ہے:
”اللہ تعالیٰ نے عربوں کے برخلاف اپنی کتاب کا نام قرآن مجید رکھا جس طرح وہ کسی مجموعے کا نام دیوان رکھتے ہیں۔اسی طرح قرآن مجید کا کچھ حصہ سورۃ کہلاتا ہے جیسے دیوان میں قصیدہ ہوتا ہے۔سورۃ کا کوئی ٹکڑا آیت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے جس طرح قصیدے کا کوئی بیت اور شعر ہوتا ہے۔بالکل اسی طرح آیت کے آخر کو فاصلہ کہتے ہیں جس طرح شعر کے آخر کو قافیہ بولتے ہیں “۔ (9)
البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ فواصل کو منظر عام پر لانے کا سہرا ابوالحسن الاشعری(م324ھ) ،الرّمانی المعتزلی(م384ھ) اور القاضی ابوبکر الباقلانی(م403ھ) کے سر ہے۔ان حضرات نے اس اصطلاح کومتعارف اور متداول کرایا۔یہی وجہ تھی کہ علوم القرآن اور بلاغت کی کتب میں اس کے لئے لمبی لمبی فصلیں متعین کی گئی ہیں۔
قرآن مجید کی آیات کے اواخر کے لئے فواصل کا لفظ سب سے پہلے مشہور نحوی عالم اور تابعی خلیل بن احمد فراہیدی(م170ھ) نے استعمال کیا تھا۔اسی نے مقاطع قرآن کو سب سے پہلے فاصلہ کے نام سے موسوم کیا تھا۔
ابوالحسن الاشعری وہ پہلی شخصیت تھی جس نے قرآن مجید کو سجع سے پاک اور برتر قرار دیا ۔اس نے فاصلہ کو نطمِ قرآنی کے ساتھ مخصوص کیا۔اسی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے القاضی ابوبکر الباقلانی نے اپنی کتاب میں دو الگ الگ فصل قائم کئے ہیں۔ ایک ”فصل فی نفی السجع من القرآن“ اور دوسری ”الفواصل والفرق بینها و بین الاسجاع“ کے نام سے ہیں۔(10)
وجہ تسمیہ
علامہ سیوطیؒ نے اپنی کتاب میں فاصلہ کا وجہ تسمیہ یوں بیان کیا ہے:
وتسمّی فواصل لانّه ینفصل عندها الکلامان وذٰلک ان آخر الاٰیة فصل بینها و بین ما بعدها (11)۔
”آیتوں کا نام فواصل اس واسطے رکھا گیا کہ اس جگہ دو کلام ایک دوسرے سے الگ ہوا کرتے ہیں یوں کہ آیت کا اخیر اس آیت اور اس کے مابعد کے مابین فصل ڈال دیتا ہے “۔
علامہ ابن ِ خلدون(م808ھ)اپنی شہرہ آفاق کتاب میں لکھتے ہیں:
”قرآن پاک اگر چہ نثر ہے مگر نہ تو نثرِ مرسل ہے اور نہ نثرِ مسجع، بلکہ اس کی آیتوں میں فاصلہ ہے۔اور وہ ایسے مقطعوں پر ختم
ہوتی ہے کہ ذوق ان پر کلام کے ختم ہونے کی خود شہادت دیتا ہے۔پھر ہر مقطع کے بعد دوسری آیت کا آغاز اور اختتام ہوتا
ہےاور اسی وجہ سے ان کو فواصل کہتے ہیں “۔ (12)
علم الفواصل
علم الفواصل جسے علم الفواصل القرآنیہ بھی کہتے ہیں،اس کا دوسرا نام ”علم عدّ الآی“ ہے۔اس کی تعریف حسبِ ذیل ہے۔
هو علم یبحث فیه عن اصول آیات القرآن الکریم من حیث ان کلّ سورة کم اٰیةً وما رﺅوسها وما خاتمتها.هل الفاصلة هی رأس الآیة ام غیرها؟(13)
”یہ وہ علم ہے جس میں قرآن کریم کی آیات کے متعلق اصولوں پر بحث کی جاتی ہے۔یعنی ہر سورت میں کل کتنی آیات ہیں؟ ہر آیت کا سر اور خاتمہ کس لفظ پر ہوتا ہے؟کیا یہ فاصلہ راس آیت ہے یااس کے علاوہ؟“
موضوع علم الفواصل:
اس علم کا موضوع قرآن کریم کی آیات مبارکہ ہیں۔اس علم میں قرآن کی سورتوں کے متعلق یہ بحث بھی کی جاتی ہیں کہ سورتوں کی موجودہ ترتیب سماعی ہے یا توقییفی؟ آیات مبارکہ کی کل تعداد کتنی بنتی ہیں؟
فواصل اور رؤوس آیت میں فرق:
فواصل اور راسِ آیت میں عام اور خاص کافرق ہے۔ابو عمر الدانی لکھتے ہیں:
امّا الفاصلة فهی الکلام المنفصل ممّا بعده والکلام المنفصل قد یکون رأس آیةٍ، وغیر رأس وکذٰلک الفواصل یکن رؤوس آی وغیرها وکلّ رأس اٰیة فاصلة و لیس کلّ فاصلة رأس اٰیة(14)۔
" پس فاصلہ بعد میں آنے والے کلام سے ایک الگ کلام ہوتا ہےاور یہ کلام منفصل کبھی راس آیت ہوتی ہے اور کبھی راس آیت نہیں ہوتی اور ہر آیت کا سرفاصلہ ہوتا ہے جب کہ ہر فاصلہ راسِ آیت نہیں ہوتاہے"۔
یہی فرق صاحبِ کشف الظنون نے بھی بیان کی ہے۔
الفاصلة هی الکلام المنفصل عمّا بعده والکلام المنفصل قد یکون رأس اٰیة وقد یکون غیره و رؤوس الآی قد تکون منفصلة و قد لا تکون۔(15)
قرآن کریم کی آیات اور سورتوں کی ترتیب:
لفظ آیت مختلف معنوں معجزہ،علامت،عبرة،دلیل و برہان اور امرِعجیب میں استعمال ہوتا ہے۔آیات مبارکہ کی موجودہ ترتیب اور آج مصاحف میں اس کا لکھا ہوا انداز توقیفی ہے، یعنی اسی ترتیب اور انداز کے ساتھ نازل ہوا ہےاور اس ترتیب پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا اجماع منعقد ہوچکا ہے۔علامہ زرقانیؒ (م1367ھ) اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں:
”قرآن مجید کی موجودہ ترتیب توقیفی ہے اور اس میں رای اور اجتہاد کا عمل دخل نہیں ہے۔حضرت جبرئیل علیہ السّلام اللہ کی
طرف سے وحی لانے کے بعد جس طرح تلاوت فرماتے بالکل اسی طرح ان آیات کی متعین سورۃ میں جگہ بھی ارشاد فرماتے۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ صحابہ کے سامنے تلاوت فرماتے “۔ (16)
قرآن مجید کی موجودہ توقیفی ترتیب کے متعلق امام قرطبیؒ نے اپنی شہرہ آفاق تفسیر میں قرآن مجید کی اس آیت کی تفسیر میں دو روایات سے استشہاد کیا ہے۔وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ(البقرہ:281)
اس آیت کے نزول کے بعد آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
اجعلوها بین اٰیة الرّبا و اٰیة الدّین۔”اس آیت کو ربا اور قرض کی آیت کے درمیان رکھو۔“اس طرح کی ایک اور روایت امام قرطبیؒ نے مکی ابن ابی طالب سے نقل کی ہے، کہ آپﷺ نے فرمایا:
جاءنی جبرئیل فقال: اجعلها علیٰ رأس مائتین و ثمانین اٰیةً(17) ۔
”حضرت جبرئیل علیہ السّلام تشریف لائے اور فرمایا کہ اس آیت کو دوسواسی(280) کے راس پر رکھو “۔
البتہ آیاتِ قرآنیہ کے فواصل کے تعیّن اور سورتوں کی آیات کی تعداد کے متعلق درج ذیل دو آراءپائی جاتی ہیں:
پہلی رائے :
قرآن مجید کے تمام فواصل کا تعین توقیفی ہے اور اس میں اجتہاد کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔اس کے ثبوت کے طور پر یہ روایت موجود ہے۔
عن عطاءبن یسار السلمی، انّه قال: حدّثنی الّذین کانوا یقرؤوننا القراٰن وهم عثمان بن عفان، وعبد الله بن مسعود، و ابی بن کعب، انّ الرسولﷺ کان یقرئهم العشر من القراٰن فلا یجاوزونها الیٰ عشرٍ اٰخر حتّی یتعلموا ما فیها من العمل۔ فقالوا تعلمنا القراٰن والعمل جمیعاً۔(18)
”حضرت عطاءبن یسار السلمی سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ مجھے ان لوگوں نے بتایا ہے جو ہمیں قرآن پڑھاتے تھے اور وہ حضرت عثمان بن عفان،عبداللہ بن مسعود،اور ابی بن کعب رضی اللہ عنھم تھے، کہ حضورﷺ انہیں قرآن مجید کی دس آیات پڑھا دیتے تھے اور اس وقت تک اگلی دس آیات کی طرف نہ جاتے جب تک ان دس آیات میں موجود باتوں کو عمل کے ذریعے سیکھ نہ لیتے۔انہوں نے کہا کہ اس طرح ہم نے قرآن اور عمل کو ایک ساتھ سیکھا“۔
قرآن مجید کی آیات کی ترتیب کے توقیفی ہونے کی ایک عقلی دلیل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بعض آیات کا مابعد کے کلام کے ساتھ گہرا تعلق ہے لیکن ان کو اس کے ساتھ شمار نہیں کیا گیا ہے۔مثلاًسورہ علق کی آیت ارایت الذی ینهیٰ کا تعلق سورة النازعات کی آیت عن من تولیّٰ کے ساتھ۔جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں قیاس اور اجتہاد کی گنجائش نہیں ہے۔
دوسری رائے:
یہ رائے کئی وجوہات کی بناءپر راجح معلوم ہوتی ہے۔اس کو ابن عبد الکافی اور امام الدانی نے اختیار کیا ہے اور امام الشاطبی نے اس کی پیروی کی ہے۔اس رائے کے مطابق بعض فواصل توقیفی ہیں اور بعض دوسرے اجتہادی۔
1۔ تعینِ فواصل توقیفی 2۔ تعینِ فواصل اجتہاد۔
تعیّنِ توقیفی:
قرآن مجید کی اکثر آیات کے فواصل توقیفی ہیں۔یہ وہ آیات مبارکہ ہیں جن پر آپﷺ نے ہمیشہ وقف کیا ہے اور ان پر کبھی بھی وصل نہیں کیا۔یہ آیات ہمیشہ منفرد گنی ہوئی(Counted Individualy)ہیں۔اسی طرح ایسے مواقع بھی ہیں جن پر آپﷺ نے ہمیشہ وصل کیا ہے کبھی وقف کی نوبت نہیں آئی۔ان آیات کو متفقہ طور پر علیحدہ اور جدا شمار نہیں کیا گیا ہے۔
تعیّن اجتھادی:
یہ وہ آیات مبارکہ ہیں جن پر آپﷺ نے کبھی وقف کیااور کبھی وصل۔وقف کرنے کا مقصد امت کو راس آیت یا وقفِ تام بتلانا مقصود ہوتا تھا۔یا پھر آرام کی وجہ ہوتی۔وصل کرنے کی وجہ امت کو یہ تعلیم دینا تھا کہ یہ کلمہ جدا نہیں ہے۔اسی وجہ سے بعض صحابہ نے راس آیت شمار کی اور دیگر نے شمار نہیں کیا۔مثلاً سورة الفاتحہ کی آیات احادیث کی روشنی میں سات ہیں لیکن بظاہر یہ چھ ہیں۔اب کچھ حضرات بسم اللہ کو اس سورۃ کا جزو قرار دیتے ہیں اور دوسروں نے انعمت علیهم پروقف کیا ہے اور اس کو راسِ آیت قرار دیا ہے۔
حکمتِ فواصل
قرآن مجید کی ایک معجزانہ حیثیت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت کے عین مطابق اتارا ہے۔فواصل قرآن بھی اسی حکمت کی ایک کڑی ہے۔چنانچہ علامہ الزرکشیؒ لکھتے ہیں:
وتقع الفاصلة عند الاستراحة فی الخطاب، لتحسین الکلام بها و هی الطریقة الّتی یباین القراٰن بها سائرالکلام۔ (19)
”فاصلہ اس وقت واقع ہوتا ہے جب خطاب کے ساتھ استراحت کی جاتی ہےاور اس ا ستراحت سے کلام میں حسن و خوبی پیدا کرنا مطلوب ہوتا ہےاور یہ ایسا طریقہ ہے کہ اس کی وجہ سے قرآن تمام کلاموں سے بالکل الگ اور نمایاں مقام رکھتا ہے “۔
اسی کوامام سیوطیؒ نے اپنی کتاب الاتقان فی علوم القرآن میں اختیار کیا ہے۔(20)
امام شاہ ولی اللہؒ(م1176ھ) فواصل قرآن کے متعلق ’الفوز الکبیر‘ میں تحریر فرماتے ہیں:
انّه تعالیٰ قد راعیٰ فی اکثر السور امتداد النفس بالمدة وبما تستقرّ علیه المدة؛ و کذٰلک اعتبر فی الفواصل انقطاع
النفس بالمدة وبما تستقر علیه المدة، لا قواعد فنّ القافیة۔(21)
”اللہ نے اکثر سورتوں میں سانس کی درازی کا لحاظ فرمایا ہے نہ کہ بحر طویل اور مدید کا۔اس طرح فاصلوں میں اعتبار فرمایا ہے سانس کا حرف مدہ اور اس حرف پر ختم ہونے کا جس پر حرف مدہ ٹھہرتا ہے نہ کہ فن قافیہ کے قواعد کا “۔
فواصل میں منہج القرآن:
قرآن کریم کے فواصل کے متعلق امام شاہ ولی اللہؒ فرماتے ہیں:
”اگر آیت کا آخری کلمہ قافیہ بننے کے لائق ہوتا ہےتو اسی کو قافیہ بنایا جاتا ہے ورنہ آیت کے آخر میں ایساجملہ بڑھادیا جاتا ہے جس میں اللہ کی نعمتوں کا بیان ہوتا ہے یا مخاطب کے لئے تنبیہ ہوتی ہے۔مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:و هو الحکیم الخبیراور وکان الله علیماً حکیماًاور کبھی لعلّکم تتّقون اور کسی موقع پر ارشاد ہوتا ہے انّ فی ذٰلک لاٰیٰت لقومٍ یعقلون اور لقوم یتفکرون۔بعض اوقات اطناب سے کام لیا جاتا ہے۔مثلاً سورة الفلق میں ومن شرّ حاسدٍ اذا حسد اس میں اذا حسد کا اضافہ اطناب ہے۔ اطناب سے کلامِ سابق کی مزید وضاحت اور تاکید مقصود ہوتی ہے۔
اور کبھی ایسی جگہوں میں تقدیم اور تاخیر کی جاتی ہے مثلاً إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌاس میں روءف میں مبالغہ زیادہ ہے لیکن فاصلہ کی رعایت کی وجہ سے رحیم کومؤخر کیا گیا ہے۔
کبھی فواصل کی وجہ سے قلب و زیادتی کی جاتی ہے۔جیسے سورہ صافات کی آیت 130میں الیاس کو الیاسین سے بدلا گیا ہے۔اسی طرح الظنونا، الرسولا، السبیلامیں فاصلہ کی رعایت کی وجہ سے الف کی زیادتی کی گئی ہے “۔ (22)
سجع فی القرآن کے متعلق مختلف نظریات
قرآن مجید اللہ کی کتاب ہے اور یہ مخلوقات کی تمام صفات سے بالاتر کلام ہے۔سجع کبوتر کی آواز کو کہتے ہیں اسی طرح عرب کاہن بھی اپنا رعب جمانے کے لئے مسجع کلام بولتے تھے لہٰذا قرآن مجید کی آیات کے لئے اس جیسے الفاظ کے استعمال کی ممانعت آئی ہے۔امام الزرکشیؒ اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں:
و یمتنع استعمال القافیة فی کلام الله تعالیٰ لانّ الشرع لما سلب عنه اسم الشعر وجب سلب القافیة ایضاً عنه
لانّها منه وخاصة به فی الاصطلاح۔ و کما یمتنع استعمال القافیة فی القراٰن لا تطلق الفاصلة فی الشعر لانّها صفة لکتاب الله فلا تتعدّاه۔(23)
” اور کلام اللہ میں قافیہ کا استعمال ممنوع ہے کیونکہ جب شریعت نے اس سے شعر کی نسبت سلب کر دی ہے (وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيلًا مَا تُؤْمِنُونَ(الحاقۃ:41) )تو اس طرح قافیہ کا لفظ بھی سلب ہونا چاہئے۔کیونکہ قافیہ کا تعلق شعر سے ہے اور یہ اس کی مخصوص اصطلاح ہےاور جس طرح قرآن میں قافیہ کا استعمال ممنوع قرار دیا گیا ہے اسی طرح شعر میں فاصلہ کا اطلاق کرنا
ٹھیک نہیں ہے کیونکہ یہ کتاب اللہ کی صفت قرار دی گئی ہے پس اس سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے“۔
ابن خلدون (م808ھ) کا موقف :
”اس (قران مجید) میں کسی حرف کا التزام نہیں کیا جاتاکہ سجع بن جائے۔قرآن کی آخری آیتوں (رؤوس آی) کو فواصل کہتے ہیں کیونکہ اس میں سجع نہیں ہے کہ اسجاع کہلائیں اور نہ اس میں سجع کی طرح حرف روی(قافیہ) کی رعایت کی جاتی ہے کہ قوافی کہلائیں “۔ (24)
علامہ جلال الدین السّیوطیؒ کا موقف:
والقرآن جامع لمحاسن الجمیع علیٰ غیر نظم لشیئٍ منها، یدلّ علیٰ ذٰلک انّه لا یصحّ ان یقال له رسالة او خطابة او شعرا او سجع کما یصح ان یقال له کلام۔(25)
” قرآن مجید تمام محاسن کا مجموعہ ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کو رسالہ یا خطبہ یا شعر اور سجع کہنا صحیح نہیں ہے۔جس طرح اس کو کلام کہنا صحیح ہے “۔
یہی کچھ آپؒ نے الاتقان میں بھی بیان کیا ہے: ” آیات کا نام قوافی رکھنا اجماعاً ناجائز ہے “۔ (26)
الرّمانی المعتزلی کا موقف:
الرّمانی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :” اشعریہ قرآن میں سجع ہونے کے قول کو ممنوع قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سجع اور فواصل میں نمایاں فرق یہ ہوتا ہے کہ سجع مقصود فی نفسہ شے ہوا کرتی ہے جب کہ فواصل معانی کے متبع ہوا کرتے ہیں اور مقصود فی نفسہ نہیں ہوتے۔اسی سبب فواصل کو بلاغت میں شمار کیا گیا ہے اور سجع کو عیب کہا گیا ہے “۔ (27)
قاضی ابو بکر الباقلانی(م403ھ) کا موقف:
قاضی صاحب نے بھی الرّمانی کا تتبع کیا ہے ، وہ لکھتے ہیں :
واما الفواصل فهی حروف متشاکلة فی المقاطع، یقع بها افهام المعانی و فیها بلاغة۔ والاسجاع عیب لانّ السجع یتبعه المعنیٰ والفواصل تابعة للمعانی۔(28)
”فواصل مقاطع میں معانی کے افہام کے لئے واقع ہوتا ہے اور اس میں بلاغت ہےجب کہ سجع ایک عیب ہے کیونکہ معنی کو سجع کی پیروی کرنی پڑتی ہےجب کہ فواصل معانی کے تابع ہوتے ہیں “۔
ابو محمد عبداللہ بن محمد الخفاجی(م466ھ) کا موقف:
الخفاجی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ رمّانی کا یہ قول" سجع عیب ہے اور فواصل بلاغت ہیں" غلط ہےکیونکہ اگر اس نے سجع سے وہ
عبارت مراد لی ہے جو معنیٰ کی متبع ہو اور اس میں تکلّف مقصود نہ ہوتو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایسا کلام بلاغت ہے اور
فواصل بھی اسی کے مانند ہیں لیکن اگر اس نے اپنے اس قول سے ایسے کلام کو مراد لیا ہے کہ معانی اس کے تابع واقع ہوا کرتے ہیں اور وہ مقصود بالتکلف ہوتا ہے تو یہ بات عیب ہے “۔ (29)
معرفتِ فواصل کے طریقے:
علم الفواصل قرآن مجید کا ایک اہم علم ہے۔قرآن مجید کی تلاوت کرنی ہو یا اس کی تفسیرلکھنی ہوفواصل کا جاننا انتہائی ضروری ہوتاہے۔فواصل کی پہچان کے لئے علامہ سیوطیؒ نے مندرجہ ذیل دو طریقے بیان کئے ہیں:
(الف) توقیفی طریقہ (ب) قیاسی طریقہ
٭توقیفی طریقہ
اس کو سماعی طریقہ بھی کہتے ہیں۔وہ فواصل سماعی اور توقیفی کہلاتے ہیں جو قراةِ نبیﷺ اور سماعِ صحابہؓ سے ثابت ہو چکے ہوں اور جس پر رسول اللہﷺ کا دائماً وقف کرناثابت ہو۔اسی طرح جس لفظ اور کلمہ پر آپﷺ نے ہمیشہ وصل کیا ہو ۔مثلاً سورة الفاتحہ کے فواصل کے متعلق امّ سلمیؓ سے روایت نقل کی گئی ہے،فرماتی ہیں:
ان رسول الله ﷺ کان یقطع قراءته آیة آیة یقول بسم الله الرحمن الرحیم ثم یقف ثم یقول الحمد للة رب العلمین ثم یقف ثم یقول الرحمن الرحیم الخ۔(30)
اس حدیث کے مطابق رسول اللہﷺ نے ،الرحیم، العلمین، الرحیم، الدین، نستعین،المستقیم اورالضالین پر وقف کیااور یہ درس دیا کہ یہ سب کلمات فاصلہ ہیں اور راس آیت ہیں۔
٭ قیاسی طریقہ
غیر منصوص اور احتمالی کو قیاسی قاعدہ کہتے ہیں۔وقف ہر ایک کلمہ پر الگ الگ بھی جائز ہے اور تمام قرآن مجید کا وصل بھی جائز
ہے۔(31)
فواصل کی معرفت کے لئے علماءاور ائمہ فن نے چند قواعد مقرر کئے ہیں جو حسب ذیل ہیں:
۱۔ کسی آیت کا ما قبل آیت کے ساتھ طول اور قصر میں مساوات قائم ہوجانا۔یعنی چھوٹی آیت کے متصل چھوٹی آیت آجانا۔ اس فن میں اس مساوات کا دو طرح سے اعتبار کیا جاتا ہے۔کسی سورت کے ساتھ آیت کی مناسبت یا کسی سورت کی ایک آیت کے ساتھ دوسری آیت کا موازنہ کرنا۔البتہ یہ قاعدہ اکثریہ ہے کلیہ نہیں۔مثلاً: ﴿ ثم نظر﴾ کو سورة مدثر میں شمار کیا گیا کیونکہ اس سورت کی اکثر آیات اسی طرح چھوٹی چھوٹی ہیں۔
۲۔ فواصل کی پہچان کا دوسرا قاعدہ مشاکلت کا ہے۔کسی فاصلہ کا ماقبل یا اس سے ماقبل کے ساتھ موازنہ کرنا۔مثلاً سورة النساء،
الاسراء، الکهف اور دوسری سورتوں کے فواصل کے آخر میں الف آتا ہے یعنی کبیراً، علیماً اور تفصیلاً وغیرہ کے الفاظ۔ اسی طرح سورة البلد اور سورة الاخلاص میں فواصل کے آخر میں حرفِ دال آتا ہے۔مثلاً احد، یلد اور بلد وغیرہ۔
۳۔قرآن مجید کی کسی سورت میں اس لفظ کے نظائر شمار کرنے پر اہلِ فن کا اتفاق کرلینا۔مثلاً سورۃ آل عمران میں لفظ قیوم وغیرہ۔
۴۔ کلام کے مکمل ہوجانے پر بھی کسی فاصلہ کا تعین کیا جاتا ہےکیونکہ فاصلہ درحقیقت کلامِ منفصل کا نام ہے۔
فواصل کی معرفت کے فوائد
رؤوسِ آیات اور فواصل کی معرفت ایک عظیم الفائدہ امر ہے۔اس کی معرفت کے درج ذیل فوائد ہیں۔
٭ فواصل کی وجہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تین مختصر آیات نبی ﷺکا معجزہ ہےاور اس حکم میں وہ لمبی آیت بھی شامل ہے جو تین آیات کے قائمقام ہو۔یعنی الفاظ کی تعداد میں تین آیات کے برابر ہوں۔قرآن مجید کی سب سے مختصر سورت سورة الکوثر ہےاور اس میں تین آیات ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ (البقرہ:23)
٭فواصل کی پہچان کا ایک فائدہ یہ ہے کہ وقف حسن اور وقف سنت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔اور عندالبعض رؤوس آیات پر وقف کرنا مستحب فعل ہے۔
٭نماز اور خطبہ کی صحت کے لئے لازم آیات کا علم ہوجاتا ہے۔کیونکہ ان دونوں کےلئے ایک حد مقرر ہے۔
٭نماز میں معین تعداد آیات کی تلاوت سے اجر موعود کا علم ہوتا ہے۔حدیث شریف میں ہے۔نماز میں تین آیات کی تلاوت کرنے سے تین موٹی،فربہ اور حاملہ اونٹیوں کا ثواب ملتا ہے۔لہٰذا جب مسلمان کو فواصل کا علم ہوگا تو اس میں اجروثواب کی رغبت مزید بڑھے گی۔(32)
فواصلِ قرآن مجید کی چار صورتیں:
علامہ جلال الدین السیوطیؒ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ فواصل قرآن درج ذیل چارصورتوں میں منحصر ہیں:
۱۔ تمکین ۲۔ تصدیر ۳۔ توشیح ۴۔ ایفال
۱۔ تمکین: اس کو ایتلاف القافیہ بھی کہتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ نثر نگار قرینہ کے واسطے اور شاعر قافیہ کے لئے ایسی تمہید اٹھائے کہ اپنی جگہ پر بالکل درست آجائے۔اس کے معنی پورے کلام کے ساتھ ایسے متعلق ہو کہ اس کی عدم موجودگی کی صورت میں پورا کلام مضطرب ہوجائے۔ذکر نہ کرنے کی صورت میں بھی سامع اس کو اپنی طبیعت سے مکمل کرسکتا ہے۔مثلاً حضرت زید بن ثابتؓ سے روایت منقول ہے کہ جب رسول اللہﷺنے مجھے یہ آیت املا کرائی وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِين۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَر۔(المومنون:12-14) تو معاذبن جبلؓ بول اٹھے؛ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَتو رسول اللہ ﷺ ہنسنے لگے۔ معاذ بن جبل ؓ نے وجہ دریافت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ آیت انہی الفاظ پر ختم ہوتی ہے۔(33)
تصدیر: تصدیر اس بات کانام ہے کہ فاصلہ کا لفظ بعینہ ویسا ہی لفظ ہو جو کہ آیت کے شروع میں پہلے آچکا ہے۔اس کا دوسرا نام ردالعجز علی الصدر بھی ہے۔اس کی تین قسمیں ہیں:
اول یہ کہ فاصلہ کا آخر اور صدر کلام کا آخری کلمہ باہم موافق ہوں مثلاً قولہ تعالیٰأَنْزَلَهُ بِعِلْمِهِ وَالْمَلَائِكَةُ يَشْهَدُونَ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا۔دوم یہ کہ صدر کلام کا اول کلمہ فاصلہ کے آخری کلمہ سے موافق ہو۔مثلاً قولہ تعالیٰوَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ۔سوم یہ کہ فاصلہ کا آخیر کلمہ صدر کلام کے کسی نہ کسی کلمہ کے موافق ہو۔جیسے قولہ تعالیٰفَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا(34)
توشیح : توشیح ا س کو کہتے ہیں کہ اول کلام میں کوئی ایسی بات ہو جو کہ قافیہ کو مستلزم ہوتی ہے۔توشیح اور تصدیر میں فرق یہ ہے کہ توشیح کی دلالت معنوی ہوتی ہے اور رتصدیر کی دلالت لفظی۔مثلاً اس ارشاد ربانی میںوَآيَةٌ لَهُمُ اللَّيْلُ نَسْلَخُ میں سننے والا فوراً سمجھ جائے گا کہ آیت کا فاصلہ مظلمون ہوگا۔(35)
ایفال : ایفال امکان کو کہتے ہیں۔اوراس کی تعریف یہ ہے کہ کلام کو کسی ایسی بات پر ختم کیا جائے جو کہ ایسے نکتہ کا فائدہ دیتی ہو کہ کلام کے معنی بغیر اس نکتہ کے بھی تام ہوجاتے ہیں۔مثلاً قولہ تعالیٰ يَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ() اتَّبِعُوا مَنْ لَا يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُمْ مُهْتَدُونَاس آیت میںوَهُمْ مُهْتَدُونَایفال واقع ہوا ہے کیونکہ تمام رسول ہدایت یافتہ ہوتے ہیں۔(36)
فواصل کی اقسام:
فواصل قرآن کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں:
۱۔ متماثل ۲۔ متقارب ۳۔ متوازی ۴۔متوازن ۵۔مطرف ۶۔مرصع
٭ المتماثل: فواصل کے حروف متماثل یعنی ہم جنس ہو۔جیسے: وَالطُّورِ () وَكِتَابٍ مَسْطُورٍ () فِي رَقٍّ مَنْشُورٍ (الطور:1۔3)
وَالْعَادِيَاتِ ضَبْحًا () فَالْمُورِيَاتِ قَدْحًا () فَالْمُغِيرَاتِ صُبْحًا (العادیات:1۔۔۔3)
فَلَا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ () الْجَوَارِ الْكُنَّسِ () وَاللَّيْلِ إِذَا عَسْعَسَ (التکویر: 15۔۔۔17) ۔ (37)
٭ المتقارب : فواصل کے حروف متقارب ہوں یعنی قریب المخارج حروف ہوں۔ جیسے:
الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ () مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ () إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحہ:2۔۔۔4)
ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ () بَلْ عَجِبُوا أَنْ جَاءَهُمْ مُنْذِرٌ مِنْهُمْ فَقَالَ الْكَافِرُونَ هَذَا شَيْءٌ عَجِيبٌ (ق:1۔2) ۔(38)
٭ المتوازی: متوازی اس کا نام ہے کہ دو فاصلے وزن اور قافیہ کی جہتوں سے باہم متفق ہوں اور پہلے فاصلہ میں جو لفظ ہے وہ دوسرے فاصلہ کے لفظ سے وزن اور قافیہ بندی میں مقابل نہ ہو۔مثلاً: فِيهَا سُرُرٌ مَرْفُوعَةٌ () وَأَكْوَابٌ مَوْضُوعَةٌ (الغاشیۃ:13۔ 14)
٭ المتوازن : متوازن اس کو کہتے ہیں کہ دوفاصلے وزن میں بغیر خیال قافیہ بندی اور وزن کے موافق آ جائے۔مثلاً:
وَنَمَارِقُ مَصْفُوفَةٌ () وَزَرَابِيُّ مَبْثُوثَةٌ (الغاشیۃ: 15۔ 16)
٭ المطرف : مطرف سے مراد یہ ہے کہ دو فاصلے وزن میں باہم مختلف اور حروف سجع میں باہم متفق ہو۔مثلاً:
مَا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا () وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا(نوح:13۔ 14)
٭ مرصع : مرصع سے مراد دو فاصلے وزن اور قافیہ بندی دونوں لحاظ سے متفق ہوں اور جو بات پہلے فاصلے میں ہے وہ دوسرے فاصلہ کی بات سے ویسی ہی مقابل واقع ہوں۔جیسے قولہ تعالیٰ إِنَّ إِلَيْنَا إِيَابَهُمْ () ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا حِسَابَهُمْ (39)
خلاصہ بحث
علماءکرام کاقرآن کے جملوں اور آیتوں کانام فواصل اور اس کے لئے سجع سے پرہیز کا بنیادی مقصدیہ ہے کہ قرآن مجید کو ان تمام اوصاف سے پاک اور منزّہ قرار دیا جائے جو کاہنوں سے روایت کئے جانے والے کلام کے بارے میں آتا ہے۔
قرآن مجید کلام اللہ ہے اور اس کو کسی مخلوق کی ایسی صفت کے ساتھ متصف کرنا جائز نہیں ہے جس کے متعلق کوئی حکمِ خداوندی موجود نہ ہو۔
٭ حوالہ جات ٭
۱ ۔لویس معلوف، المنجد، دارالاشاعت اردو بازار کراچی۔1994 ء۔ص750، 751 ۔
2 ۔ابن منظور، محمد بن مکرم الافریقی، لسان العرب،دار صادر، بیروت،لبنان۔الطبعة الاولیٰ،11/521 ۔ مادہ ’فصل‘۔
3 ۔الزرکشیؒ،بدرالدین ، محمد بن عبداللہ،البرھان فی علوم القرآن،دار الحدیث جامعہ ازہر،مصر۔2006 ء۔ص50 ۔
4 ۔ایضاً۔
5 ۔السیوطیؒ، جلال الدین، علامہ ، الاتقان فی علوم القرآن،مکتبۃ العلم اردو بازار لاہور،پاکستان۔ 2/230 ۔
6 ۔ الباقلانی،قاضی ابوبکر،اعجاز القرآن،www.waqefya.com ۔ص 270 ۔
7 ۔ الرّمانی، ثلاث رسائل فی اعجاز القرآن،الرسالۃ الثانیہ۔ص 89 ۔
8 ۔ ابن منظور ، لسان العرب،11/521۔ مادہ ’فصل‘۔
9 ۔ الحسناوی،محمد،الفاصلۃ فی القرآن، دار عمار،عمان۔2000 ء۔ ص 39 ۔
10 ۔ ایضاً، ص 41 ۔
11 ۔ السیوطیؒ،الاتقان فی علوم القرآن،2/232 ۔ خطیب، عبدالکریم، اعجاز القرآن الکریم، مکتبۃ دار الفکر العربی۔1974 ء۔
2/206، 207۔
12 ۔ ابن خلدون، عبد الرحمن،مقدمہ، المیزان ناشران و تاجران کتب لاہور۔2005 ء۔ص687 ۔
13 ۔ عبد الرزاق علی ابراھیم موسیٰ، المحرر الوجیز فی عدّ آی الکتاب العزیز، مکتبۃ المعارف،ریاض،سعودی عرب۔1988 ء۔ ص25 ۔
14 ۔ الزرکشیؒ، البرھان فی علوم القرآن، ص50 ۔
15 ۔حاجی خلیفہ، کشف الظنون،www.almishkat.com ، 2/1293۔
16 ۔ الزرقانی، محمد عبد العظیم،مناہل العرفان فی علوم القرآن، www.almishkat.com ، الطبعۃ الثالثہ، 1/1346۔
17 ۔ قرطبی، ابو عبد اللہ محمد بن احمد، الجامع لاحکام القرآن(تفسیر قرطبی) ، www.al-islam.com ، 3/375۔
18: رضوان بن محمد المكنى بأبی عيد، شرح المخللاتي :1/22، فصل في الأعداد المتداولة بين علماء الأمصار،طبع نامعلوم۔
19 ۔الزرکشیؒ، البرھان فی علوم القرآن، ص50 ۔
20 ۔ السیوطیؒ، الاتقان فی علوم القرآن،2/231، 232۔
21 ۔شاہ ولی اللہؒ، الفوزالکبیرفی اصول التفسیر، باب سوم فصل دوم، مکتبۃ البشریٰ کراچی،پاکستان۔2010 ء۔ ص 76 ۔
22 ۔ پالن پوری، مفتی سعید احمد،الخیر الکثیر (شرح الفوز الکبیر) دارالاشاعت کراچی۔2007ء ۔ ص405 ۔
23 ۔ قرطبی، الجامع لاحکام القرآن(تفسیر قرطبی) ، ص 53 ۔
24 ۔ ابن خلدون، عبد الرحمن،مقدمہ، ص687 ۔
25 ۔السیوطیؒ،جلال الدین،معترک الاقران فی اعجازالقرآن،دار الکتب العلمیہ،بیروت،لبنان۔1988 ء۔1/6 ۔
26 ۔ السیوطیؒ، الاتقان فی علوم القرآن، 2/232۔
27 ۔ الرّمانی، ثلاث رسائل فی اعجاز القرآن، ص 89 ۔
28 ۔ الباقلانی،قاضی ابوبکر،اعجاز القرآن، ۔ص 270 ۔
29 ۔ الخفاجی،ابو محمد عبد اللہ بن محمد بن سعید بن سنان، سرّ الفصاحۃ، دار الکتب العلمیہ،بیروت،لبنان۔
30 ۔ السعید وعزوز، الحقائق المکللة فی بیان اعجاز فواصل الآیات المنزّلة۔www.alq10.com. ،2008 ء۔ص 6 ۔ السیوطیؒ، الاتقان فی علوم القرآن، 2/231۔
31۔ایضاً۔
32 ۔ الزرقانی، مناہل العرفان فی علوم القرآن، 1/344۔
33 ۔ السیوطیؒ،الاتقان فی علوم القرآن،2/239۔
34 ۔ ایضاً: 2/244، 245۔
35 ۔ ایضاً۔
36 ۔ ایضاً:2/185۔
37 ۔الزرکشیؒ، البرھان فی علوم القرآن، ص62 ۔
38 ۔ ایضاً، ص63 ۔
39 ۔ ایضاً۔
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |