اﷲتعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت و کامرانی اور فلاح دارین کے لئے قرآن حکیم نازل فرمایا، اور قرآن حکیم کا نزول ازروئے حدیث سات حرفوں پر ہوا، اور چونکہ قرآن صفت حکیم کے ساتھ متّصف ہے، اسی لئے سات حرفوں پر نازل ہونے میں بے شمارحکمتیں اور فوائد پنہاں ہیں۔ اس تحقیق میں ہم نے پہلے قرآن کا تعارف ، قرآن کے لغوی اور اصطلاحی معنٰی کو بیان کیا ہے، پھر سبعۃ احرف کی تفصیل کے ساتھ وضاحت کی ہے، نیز سبعۃ احرف کے معنٰی کو بیان کرتے ہوئے حرف کےلغوی اور مجازی معنٰی کو بیان کیا ہے، پھر سبعۃ احرف سے متعلق اقوال بیان کرتے ہوئے تین مشہور اقوال کو بیان کیا ہے ، جس کے ذیل میں امام رازی ؒ کے قول کو بھی خصوصیت کے ساتھ بیان کیا ہے، آخر میں قول جدید بیان کرنے کے بعد قول جدید کی تشریح دلنشین انداز میں تحریر کی ہے۔
علاوہ ازیں قرآن کے سات حرفوں پر نازل ہونے کے اسباب اور حکمتوں کا بیان ہے، جس کے ذیل میں قرآن کے عربی زبان میں نزول،حضورﷺکا امت پر شفقت کا اظہار، امت اسلامیہ کیلئے سہولت کا پیدا کرنا ، فطرتِ سلیمہ کی تسکین ، عرب کے قبائل کے درمیان لسانی تعصّب کا انسداد، دو مختلف حکموں کا اجتماع، دومختلف الجہت حکم کا بیان، ثواب کی کثرت، حقّانیتِ قرآن، قارئ قرآن وناقلینِ قراءت کے مرتبہ کا اظہارجیسی حکمتوں پر تفصیلی گفتگوکرنے کے ساتھ موجودہ حالات کے تناظر میں خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔
قرآن کا تعارف
قرآن کےلغوی معنیٰ
لفظ قرآن لغوی اعتبار سے مصدر ہے جوکہ قراء ات کا مترادف ہے ، پھر اس معنٰی مصدری کو ’’ ایسے کلام جو کہ معجز ہےاورحضوراکرمﷺپر نازل ہواہے۔(اطلاق المصدر علیٰ مفعول)قاعدہ کے تحت اس کا نام بنادیا گیا۔
قرآن کے اصطلاحی معنیٰ
اصطلاحی اعتبار سے قرآن باری تعالیٰ کا کلام ہے جو کسی انسان کے کلام کی طرح نہیں ہے اور یہ کلام، موضع شک وشبہ سے بالا ہے۔عربی لغت کے ماہرین ، فقہاء اور علمائے اصولیین قرآن کی تعریف اس طرح فرماتے ہیں:
(الکلام المعجزالمنزل علی النبیﷺ المکتوب فی المصاحف،المنقول بالتواتر، المتعبدبتلاوتہ) ۱
’’قرآن ایک ایسا کلام ہے جوکہ معجز ہے ، حضور اکرمﷺکی ذاتِ مبارکہ پر نازل ہوا ہے ، مصاحف میں لکھا ہوا ہے، ہم تک تواتر کے ساتھ نقل ہوتا چلا آرہا ہے ، اور جس کی تلاوت کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘
سبعۃ احرف کا مفہوم
حدیث سبعۃ احرف جوکہ متواتر ہے ، اس حدیث میں سبعۃ احرف سے کیا مراد ہے؟ اور اس کا کیا مفہوم ہے ؟ اس کے بارے میں قرونِ اولی سے لیکر موجودہ زمانے تک علماء و اہل ِ دانش کے درمیان آراء کا شدید اختلاف پایا جاتا ہے ، اور وجہ اس کی یہ ہے کہ عہدِ نبویﷺمیں سبعۃ احرف کی وضاحت نہ ہوسکی ، نہ ہی صحابہ ؓ نے دریافت کیا اور نہ ہی حضور اکرمﷺنے قولی وضاحت فرمائی۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سبعۃ احرف کا مفہوم عہدِ نبویﷺمیں کسی کو معلوم ہی نہ تھا ، بلکہ صحابہؓ کے درمیان تو سبعۃ احرف کا مفہوم اتنا واضح اور بدیہی تھا کہ ان کو سوال کرنے کی حاجت ہی نہ تھی۔
بہرحال عہدِ نبویﷺمیں سبعۃ احرف کی عملی وضاحت تو تھی لیکن قولی وضاحت نہ ہوسکی ، اسی طرح عہد ِ صحابہؓ میں بھی قولی وضاحت نہ ہوسکنے کی وجہ سے سبعۃ احرف کا مفہوم واضح نہ ہوسکا۔بعد میں آنیوالے زمانے میں جب ہر منقولی چیز کو کسوٹی پر پرکھا جانے لگا اور جانچنے کے پیمانے تیار ہونے لگے تو ہر منقول شدہ چیز کو وضاحت کی حاجت ہوئی ، اور چونکہ سبعۃ احرف کی تشریح ماقبل کے زمانے میں نہ ہوسکی تھی ، اسی لئے یہ مسئلہ بعد میں آنیوالے حضرات کی لئے ایک معرکۃ الآراء مسئلہ بن گیا ۔پھر ہر وہ شخص جس نے سبعۃ احرف کی تشریح کی یا اس کے معنٰی متعین کرنے کی کوشش کی ان میں سے اکثر حضرات نے جن کا ذوق اور فنّی مہارت جس علم سے وابستہ ہوئی ، سبعۃ احرف کو اسی علم کے معنٰی پہنانے کی انہوں نے کوششیں کیں ، جبکہ ان حضرات میں سے بعض ایسے بھی تھے جنہوں نے انتہائی بحث و تمحیص اور برسوں کی ریاضت کے بعد کسی چیز سے متاثر ہوئے بغیر سبعۃ احرف کے مفہوم کی وضاحت میں ایک دوسرے سے فائق ہوگئے ۔اﷲتعالیٰ جزائے خیر اور اجر جزیل عطاء فرمائے ان تمام حضرات کو جنہوں نے نیک نیتی کے ساتھ کسی بھی طرح سبعۃ احرف کے مفہوم کو واضح کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔
اب ذیل میں ہم ’’سبعۃ احرف‘‘ کے معنٰی کو بیان کرینگے ، پھر سبعۃ احرف سے متعلق آراء کو بیان کرینگے اور آخر میں اپنی رائے کے اظہار کے ساتھ وجہ ترجیح بھی بیان کرینگے۔
حرف کے معنیٰ
لغوی اعتبار سے حرف تقریباً چھ معنٰی میں استعمال ہوا ہے۔(۱)طرف (۲)کنارہ (۳)حد (۴)حافہ (۵)وجہ (۶)کسی چیز کا ٹکڑا۔ اسی لئے حروف ہجاء میں سے کسی ایک کو بھی حرف کہتے ہیں گویاوہ بھی کلمہ کا ایک ٹکڑاہوتاہے۔۲
امام دانی ؒ فرماتے ہیں حدیث میں جو احرف ہے اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں :
(۱) وجہ: یہ لغوی معنی ہیں اور دلیل میں فرماتے ہیں باری تعالیٰ کا قول ہے (ومن الناس من یعبداﷲعلیٰ حرف)بعض لوگ اﷲکی عبادت ایک وجہ پر کرتے ہیں۔ پھر اس کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ اگر اس کو خیر حاصل ہوتی ہے تو ایمان پر جما رہتا ہے اور عبادت کرتا رہتا ہے اور اگر سختی اور نقصان کی حالت پیش آتی ہے تو کفر کو اختیار کرلیتا ہے اور عبادت چھوڑ دیتا ہے۔
(۲) قراءا ت: یہ مجازی معنی ہیں اور دلیل اس کی یہ ہے کہ اہلِ عرب کی یہ عادت ہے کہ کبھی وہ کسی شئی کا وہ نام بھی رکھ دیتے ہیں جو اس کے جزو یا مقارب ومناسب یا سبب یا اس سے تعلق رکھنے والی چیز کا نام ہوتا ہے ۔لہٰذا چونکہ مختلف قراء تیں حرف ہی میں تغیر ہونے سے پیدا ہوتی ہے ، اس لئے عرب کی عادت کے مطابق حضور اکرمﷺنے قراء ت کو مجازاً حرف فرمادیا پس یہاں کل کی بجائے جزو کا نام استعمال کیا ہے ۔ ۳
امام دانی ؒ کے قول کو نقل کرنے کے بعد امام جزریؒ فرماتے ہیں حدیث میں دونوں معنی مراد ہوسکتے ہیں ، لیکن قوی بات یہ ہے کہ حدیث (انزل علی سبعۃ احرف)میں تو احرف سے وجوہ مراد لی جائے اور حضرت عمر ؓ کے قول(سمعت ھشاماً یقرأ سورۃ الفرقان علیٰ حروف کثیرۃ) میں حروف سے مراد قراء ت لی جائے ۔۴
ہم نے یہاں حرف کے لغوی معنی میں سے حروف ہجاءکا ایک حرف انتخاب کیا ہے اور اس انتخاب کی وجہ ہم اپنا قول پیش کرتے ہوئے بیان کرینگے۔
سبعۃ احرف کے متعلق اقوال وآراء
سبعۃ احرف سے متعلق بہت سے اقوال اور آراء ہیں یہانتک کہ ابنِ حبانؒ نے پینتیس اقوال شمار کئے ہیں ۔ جبکہ علّامہ سیوطیؒ نے چالیس اقوال بیان کئے ہیں۔ ۵ ان اقوال میں سے بعض اقوال ایسے ہیں جن کی کوئی دلیل موجود نہیں حتّٰی کہ وہ اقوال حدیث کے مضمون کے مخالف نظر آتے ہیں اور وجہ اس کی یہی ہے کہ جو شخص جس علم سے وابستہ رہا اس نے سبعۃ احرف کو اسی علم کا لبادہ اڑھانے کی کوششیں کیں ۔ بہرحال ہم ان میں سے چند مشہور اقوال کا یہاں تذکرہ کرتے ہیں ۔
پہلا قول:سبعۃ احرف سے مراد ایسی سات وجہیں ہیں جو معانی کے لحاظ سے متفق ہوں لیکن الفاظ مختلف ہوں جیسے:(اقبل، تعال، ھلم، عجّل اور اسرع) یہ سب معانی کے لحاظ سے تو متفق ہیں لیکن الفاظ کے اعتبار سے مختلف ہیں۔۶ یہ قول سفیان بن عیینہؒ، ابن وہبؒ کی طرف منسوب ہے، علّامہ ابن عبد البرؒ یہانتک فرماتے ہیں کہ اکثر علماء کا یہی قول ہے، اور اسی قول کو مناع قطّانؒ، حافظ ابن حجرؒ، شبیر احمد عثمانی ؒاور خلیل احمد سہارنپوریؒ نے ایک قول کے مطابق اختیار کیا ہے۔
دوسرا قول:سبعۃ احرف سے مراد قبائل عرب کی سات لغات ہیں جو قرآن کریم میں متفرق طور پر پھیلی ہوئی ہیں ۔ یہ قول امام ابو عبیدؒ کی طرف منسوب ہے، اور اکثر اہل علم کا میلان بھی اسی طرف ہے۔۷
تیسرا قول:سبعۃ احرف سے مراد اختلافِ قراءت کی سات نوعیتیں ہیں یعنی جتنی قراء تیں پائی جاتی ہیں ان میں جو اختلافات ہیں وہ سات اقسام پر منحصر ہیں۔ یہ قول علماءکی ایک بہت بڑی جماعت کا ہے ۔ اور اکثر اہل علم نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔۸
امام رازیؒ کا قول
(۱) اسماء کا اختلاف: جس میں افراد، تثنیہ ، جمع اور تذکیر و تانیث دونوں شامل ہیں۔ (کلمۃ ربک، کلمٰت ربّک)
(۲) افعال کا اختلاف: کسی قراء ت میں صیغہ ماضی ہو، کسی قراءت میں مضارع ہو اورکسی قراءت میں صیغہ امر ہو۔(ربَّنا بٰعد، ربُّنا بٰعد)
(۳) وجوہ اعراب کا اختلاف: جس میں اعراب مختلف قراء توں میں مختلف ہوں۔(ولا یضارَّ، ولا یُضارُّ)
(۴) الفاظ کی کمی وبیشی کا اختلاف: (جری من تحتہا الٲنہٰر، تجری تحتہا الٲنہٰر)
(۵) تقدیم وتاخیر کا اختلاف: (سکرۃ الموت بالحق، سکرۃ الحق بالموت)
(۶) بدلیت کا اختلاف: ایک قراء ت میں ایک لفظ ہو اور دوسری قراء ت میں دوسرا۔(ننشزہا، ننشرہا)
(۷) لہجوں کا اختلاف: جس میں تفخیم ، ترقیق، امالہ ، قصر، مد وغیرہ شامل ہیں۔۹
اس قول کی تائید کرنے والوں میں عبد العظیم زرقانی ؒ، محمد علی صابونی ؒ اور مفتی تقی عثمانی ؒ شامل ہیں۔
سبعۃ احرف سے متعلق قول جدید
’’سبعۃ احرف ’’ سے ‘‘حرف کی سات نوعیتیں’’ مراد ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ زیادتی ونقصان حرف (وسارعوا، سارعوا)
۲۔ تقدیم وتاخیر حرف (سٰحر، سحّٰر)
۳۔ ابدال الحرکۃ بالحرکۃ فی الحرف (مَیسَرَۃ، مَیسُر َۃ)
۴۔ انتقال حرکت مع حذف حرف (مِنَ الاُولیٰ، مِنَ الُاولیٰ)
۵۔ ابدال حرف بالحرف (یعملون، تعملون)
۶۔ ابدال صفات مع بقاء الحرف (الصلوٰۃ ،تغلیظ لام، ترقیق لام)
۷۔ ابدال حرف مع ابدال صفات ( والصفتِ صَفا، والصفت صَّفا)
قول جدید کی تشریح
’’سبعۃ احرف’’ سے ہم نے جو ‘‘حرف کی سات نوعیتیں یا حالتیں’’ مراد لی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’احرف‘‘ حرف کی جمع ہے، اور’’حرف‘‘ کے لغوی معنوں میں سے ہم نے یہاں’’ حروف تہجّی کا ایک فرد‘‘مراد لیا ہے ، پھر ہم نے قاعدہ ’’ تسمیۃ الکل باسم الجزء‘‘کے تحت مطلق حروف تہجّی کا نام ’’حرف‘‘ رکھ دیا، لہٰذا ہم نے’’ احرف‘‘ سے ’’حروف تہجّی ‘‘ مراد لیےہیں، اور’’سبعۃ‘‘ سے’’سبعۃ احوال‘‘ مراد لیے ہیں، لہٰذا’’سبعۃ احرف‘‘ کا مطلب ہوا کہ’’حروف تہجّی کی سات حالتیں‘‘اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ کلمہ قرآنی میں موجود ہرہر حرف کو سات حالتوں پر تلاوت کیا جاسکتا ہے۔بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قراء ت جس کا ضابطئہ قراء ات کے مطابق قراء ت ہونا ثابت ہو تو ایسی قراء ت کے ہر وہ حرف جس میں اختلافِ قراء ت ہے اس کی موافقت ہمارے بیان کردہ قول میں موجود حرف کی سات حالتوں میں سے کسی نہ کسی حالت کے ساتھ ہوجاتی ہے۔
لہٰذا ہمارا یہ استقراء جہاں لغوی معنٰی کے زیادہ قریب ہے وہاں قراء اتِ متواترہ کے جمیع اختلافِ قراء ات کو شامل ہے ، حتّٰی کہ مدّات کی مقداروں کا تفاوت بھی اس سے باہر نہیں ہے ، نیز اس قول کو اختیار کرنے میں کسی قسم کی خرابی بھی لازم نہیں آتی اور حدیث کی دور ازکار تاویل نہیں کرنی پڑتی ، لہٰذا یہ قول ہر اعتبار سے ایک مکمل اور عمدہ قول ہے۔
سات حرفوں پر قرآن نازل ہونے کے اسباب
عن ٲبی بن کعب قال: لقی رسول اﷲ ﷺجبرئیل فقال: یا جبرئیل انی بعثت الی ٲمۃ ٲمیین منھم العجوز والشیخ الکبیر والغلام والجاریۃ والرجل الذی لم یقرٲ کتابا قط، قال: یا محمد ان القراٰن ٲنزل علی سبعۃٲحرف۔۱۰
’’حضرت ابی بن کعبؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا حضور اکرم ﷺ کی ملاقات حضرت جبرئیل ؑ سے ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے جبرئیل مجھے ایک ایسی امت کی طرف مبعوث کیا گیا ہے کہ جو ان پڑھ ہے جن میں بوڑھے ، عمر رسیدہ ، جوان مرد اور عورتیں شامل ہیں، اور ایسے لوگ بھی ہیں جنھوں نے کوئی لکھی ہوئی چیز کبھی نہیں پڑھی ، حضرت جبریل ؑ نے جواباً ارشاد فرمایااے محمد!اسی وجہ سے قرآن سات حروف پر نازل کیا گیا ہے۔‘‘
محقق ابنِ جزریؒ فرماتے ہیں:
وکانت العرب الذین نزل القراٰن بلغتہم لغاتہم مختلفۃ وٲلسنتہم شتّٰی ویعسر علی ٲحدہم النتقال من لغتہ الی غیرہا ٲو من حرف الی آخر بل قد یکون بعضہم لا یقدر علی ذلک ولا بالتعلیم والعلاج لا سیما الشیخ والمرٲۃ ومن لم یقرٲ کتابا کما ٲشار الیہ فلو کلفوا العدول عن لغتہم والنتقال عن ٲلسنتہم لکان من التکلیف بما لا یستطاع وما عسی ٲن یتکلف المتکلف وتٲبی الطباع۔۱۱
’’اور رہے عرب جن کی زبان میں قرآن اترا ، ان کی لغات جدا جدا اور ان کی زبانیں (لہجات)متفرق تھیں اور ایک لغت والے کا دوسری لغت میں تکلم کرنا اسی طرح ایک انداز(لہجات)والوں کا دوسرے انداز کو اختیار کرنا دشوار تھا بلکہ بعض افراد تو ایسے بھی تھے جنہیں اگر تعلیم بھی دی جائے یا کوئی تدبیر بھی کی جائے انہیں دوسری لغت یا دوسرا انداز اختیار کرنے کی بالکل ہی قدرت نہیں ہوتی ، خاص طور پر عمر رسیدہ افراد ، عورتوں اور ان حضرات کے لئے جنھوں نے کبھی کوئی لکھی ہوئی چیز نہیں پڑھی ، جس کی طرف حضور اکرم ﷺنے حدیث مبارکہ میں اشارہ فرمایا ہے ۔ لہٰذا اگر ان حضرات کو اپنی لغت سے عدول کرنے کا یا اپنے تکلم کے انداز سے منتقل ہونے کا مکلف بنایا جاتا تو ان کے لئے یہ تکلیف تحمل سے باہر ہوتی اور اگر کوئی بتکلف ایسا کربھی لے تو طبیعتیں اس کا انکار کر دیتیں۔‘‘
سات حرفوں پر نزول قرآن کی حکمتیں
قرآن حکیم کا نزول تدریجی طور پر کم وبیش تیئس سال کے عرصہ میں ہوا اور اس تدریجی نزول میں جو حکمتیں اور مصلحتیں مضمر تھیں اس کا حقیقی علم تو باری تعالیٰ ہی کو ہے لیکن علمائے ارباب ودانش نے اپنی بساط کے مطابق احادیث کی روشنی میں ان حکمتوں کو بیان کیا ہے۔نیز یہ تدریجی نزول ازرؤے حدیث سبعۃ احرف پر ہوا ہے، لہٰذا جس طرح اہلِ خردودانش نے تدریجی نزول کی حکمتوں کو بیان کیا ہے ، اسی طرح نزول علی سبعۃ احرف کی بھی حکمتوں کو بیان کیا ہے۔ ذیل میں ہم نزول قرآن علی سبعۃ احرف کی حکمتوں کو مفکّرین اہلِ اسلام کی آراء اور اقوال کی روشنی میں بیان کرتے ہیں۔
پہلی حکمت:قرآن کا عربی زبان میں نزول
اﷲتعالیٰ نے بنی نوع انسان کی راہنمائی کے لئے انبیاء علیہ السّلام کا سلسلہ جاری فرمایا ، اور کوئی قوم کسی زمانے میں ایسی نہیں گذری جس کے لئے کوئی ہادی اور راہبر نہ ہو۔ باری تعالیٰ نے سورءہ رعد میں فرمایا:
لکل قوم ہاد ۔۔۔۔ الخ ’’ہر قوم کے لئے کوئی نہ کوئی ایسا شخص ہوا ہے جو ہدایت کا راستہ دکھائے۔‘‘۱۲
لہٰذا مذکورہ بالا آیت سے جہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امم سابقہ میں کوئی امت ایسی نہیں ہوئی جس کے لئے کوئی راہبر اور ہادی نہ ہو ، وہاں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ان انبیاء اکرام کی لائی ہوئی شریعت مخصوص زمانے اور محدود خطے تک ہوتی تھی ، یہی وجہ ہے کہ ایک ہی زمانے میں کئی کئی نبیوں کو مختلف خطّوں میں مبعوث کیا جاتا، اور عموما ً انھیں جس قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا اس قوم کی زبان ، تہذیب و ثقافت اور بودوباش کے طریقے کی یکسانیت کی وجہ سے ایک جیسی ہی ہوتی اور طرزو اداء میں ان کے درمیان فرق نہ ہوتا، یہی وجہ ہے کہ ان کو جو شریعت صحیفوں اور کتابوں کی صورت میں دی گئی اسکی زبان اور طرزواداء دونوں یکساں تھے۔برخلاف حضور اکرمﷺ کو دی گئی شریعت کے کیونکہ آپ کو دی گئی شریعت نہ کسی زمان کے ساتھ ہے نہ کسی مکان کے ساتھ محدود بلکہ حضور اکرمﷺسے لیکر قیامت تک آنیوالی ان گنت قوموں اور نسلوں کی فلاح دارین شریعتِ محمدیﷺکے اتباع میں رکھ دی گئی ہے ۔ اور چونکہ مختلف زمانوں سے تعلق رکھنے والی قوموں میں تہذیب و تمدّن کا اختلاف ایک فطری امر ہے ، اسی وجہ سے ان کے درمیان زبانوں میں بھی اختلاف رہا۔
نیز جس زمانے میں قرآن کا نزول ہوا ، اس زمانے میں پوری دنیا میں بولے جانی والی زبانوں میں سب سے فصیح ترین زبان عربی تھی، یہی وجہ تھی کہ عربی زبان سے تعلق رکھنے والے حضرات غیر عربیوں کو عجمی یعنی گونگا کہا کرتے تھے، اسی لئے حضور اکرم ﷺ کو سر زمینِ عرب میں مبعوث فرمایا گیا اور آپﷺکو دی جانے والی کتاب قرآن حکیم کی بھی زبان کا انتخاب عربی کیا گیا ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
بلسان عربی مبین ’’یہ قرآن ایسی عربی زبان میں اترا ہے جو پیغام کو واضح کردینے والی ہے۔‘‘۱۳
دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ولو جعلنٰہ قراٰنا ٲعجمیا لقالوا لولا فصلت اٰیٰتہ ء اعجمی و عربی ’’اور اگر ہم اس قرآن کو عجمی قرآن بناتے تو یہ لوگ کہتے کہ اس کی آیتیں کھول کھول کر کیوں نہیں بیان کی گئیں؟ یہ کیا بات ہے کہ قرآن عجمی ہے او ر پیغمبر عربی ہے۔‘‘۱۴
لہٰذا یہ بات واضح ہوگئی کہ عربی زبان ہی ایسی فصیح زبان ہے ، جس میں پیغام کی صحیح ترجمانی بلیغ پیرائے میں مختلف انداز سے کی جاسکتی ہے ، کیونکہ کسی بھی لغت کا فصیح ہونا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ ایسی لغت ہے جس میں بات کو مختلف اسالیب سے کہا جانا ممکن ہے۔لہٰذا قرآن کا نزول علی سبعۃ احرف سے مراد یہ ہے کہ اس قرآن کو عربی زبان کے سات مختلف اسالیب سے تلاوت کیا جانا ممکن ہے۔
دوسری حکمت: حضور اکرم کا امت پر شفقت کا اظہار
ہر دور میں انبیاء اپنے اپنے زمانے میں اعلم الناس ہوتے ہیں اور اپنی قوم کی نفسیات سے بخوبی واقف ہوتے ہیں اور کیوں نہ ہوجبکہ دستِ ایزدی ان کے سر پر سایہ فگن ہوتا ہے اور وحی الٰہی ان کی راہنما ہوتی ہے ۔ اسی وجہ سے حضور اکرمﷺکی ذاتِ مبارک اپنی قوم کے مسائل سے سب سے زیادہ واقف تھی اور حضور اکرمؐ سب سے زیادہ اپنی قوم کے مزاج شناس تھے ، کیونکہ آپ تمام انبیاء کے سردار تھے، اسی وجہ سے آپ کو علم بھی تمام انبیاء سے زیادہ عطاء کیا گیا، اور یہی نہیں آپ کی ذات علیم ہونے کے ساتھ ساتھ رحیم بھی تھی، اسی بات کو قرآن حکیم نے اپنے خوبصورت انداز میں یوں بیان کیا :
لقد جاء کم رسول من ٲنفسکم عزیز علیہ ماعنتّم حریص علیکم بالمؤمنین رء وف رحیم ’’لوگو!تمھارے پاس ایک ایسا رسول آیا ہے جو تمھی میں سے ہے ، جس کو تمھاری ہر تکلیف بہت گراں معلوم ہوتی ہے ، جسے تمھاری بھلائی کی دھن لگی ہوئی ہے ، جو مومنوں کے لئے انتہائی شفیق، نہایت مہربان ہے۔‘‘۱۵
یہی اپنی قوم کی مزاج شناسی اور صفتِ رحمت کا تقاضہ تھا کہ نزولِ قرآن کے موقعہ پر جب قرآن ایک حرف پر نازل ہونا شروع ہوا تو آپ کو اس بات کا احساس ہوا کہ میری امت ، ایک عالمی امت ہے اور اس میں ہر قسم کے طبقہ کے لوگ شامل ہیں ، بعض تو وہ لوگ ہیں جو پختہ عمر والے ہیں ، جن کی زبانیں عمر کی پختگی کی وجہ سے پکّی ہوچکی ہیں اور ان کا میلان دوسری لغت کی طرف انتہائی مشکل ہے ۔ اوربعض وہ لوگ ہیں جو ناخواندہ اور ان پڑھ ہیں جو سرے سے کچھ لکھنا پڑھنا ہی نہیں جانتے ، لہٰذا اگر ان کو ایک حرف پر پڑھنے کا مکلّف بنا یا جائے گا تو یہ ان کے لئے جہدِ طویل ثابت ہوگا ، جس کے وہ متحمّل نہیں ہوسکیں گے، اور جبکہ عربی زبان میں فصاحت کی بناء پر اتنی وسعت ہے کہ کسی بات کو بغیر کسی مشقّت کے مختلف اسالیب میں بیان کیا جاسکتا ہے تو آپؐ نے امت پر شفقت فرماتے ہوئے باری تعالیٰ سے حرف کی زیادتی کی درخواست کردی جو قبول کرلی گئی اور سات حرفوں پر تلاوت کی اجازت دے دی گئی۔
تیسری حکمت: امتِ اسلامیہ کے لئے سہولت پیدا کرنا
حضور ﷺکو عطاء کردہ شریعت کے بنیادی اساس میں سے ایک یہ ہے کہ امت کو ایسے احکامات کا مکلّف بنایا جائے جن کی بنیاد زیادہ سے زیادہ سہولت اور آسانی پر مبنی ہو ، چنانچہ خود حضور اکرم ؐکی تعلیمات میں سے ایک تعلیم یہ بھی ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
بشرواولا تنفّرواویسّرواولا تعسّروا ’’خوشخبری سناؤ، نفرت مت دلاؤ، آسانی کرو اورلوگوں کودشواری میں مت ڈالو۔۱۶
لہٰذا جب قرآن نازل ہونا شروع ہوا تو امّتِ اسلامیہ کے لئے عموما ً اور اہلِ عرب کے لئے خصوصی طور پر سہولت کے پیشِ نظر انہیں مختلف اسالیب کے ساتھ قرآن حکیم کی تلاوت کی اجازت دی گئی کیونکہ اگر انہیں ایک ہی حرف کا پابند بنایا جاتا تو یہ حکم ان کے لئے مشقت کا باعث ہوتا ۔اسی طرح اہلِ عرب کے قباءل کے درمیان لہجات اور بعض اشیاء کی تذکیر و تانیث کا فرق موجود تھا اور چونکہ عربی زبان ایک فصیح زبان ہے اس لئے ان کے درمیان فصیح لغت اور غیر فصیح لغت کا امتیاز بھی موجود تھا ۔ لہٰذا اگر ان کو ایک ہی لغت اور ایک ہی لہجہ کا پابند بنادیا جاتا تو یہ ان کے لئے بڑی مشقت کا باعث ہوتا ۔
چوتھی حکمت: فطرتِ سلیمہ کی تسکین
اﷲتبارک وتعالیٰ نے انسان کو بے شمار فطری خوبیوں سے آراستہ کیا ہے ۔ ان فطری خوبیوں میں سے ایک خوبی انسان کا تنوّع مزاج ہونا ہے ، بحیثیت انسان جب ہم اس تنوّع مزاجی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم پر یہ بات آشکارا ہوتی ہے کہ انسان ہر چیز میں تنوع کو پسند کرتا ہے۔ روز مرّہ استعمال ہونے والی اشیاء میں سے صرف لباس ہی کو لے لیجئے ، جس کا کام تن ڈھانکنا ہے اور یہ کام ایک ہی قسم کے لباس سے ممکن ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ مشرق سے لیکر مغرب تک جتنی قومیں بھی آباد ہیں وہ اپنی تہذیب اور رہن سہن کے طریقوں کے مطابق مختلف قسم کے ملبوسات زیب تن کرتی ہیں ، یہی نہیں بلکہ بدلتے موسموں اور مختلف تہواروں میں ان کے ملبوسات جدا جدا ہوتے ہیں، یہی حال تمام اشیاء کا ہے۔
اسی طرح جب ہم کلام میں تنوع کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ کسی جملہ کو اگر ایک خاص ربط کے ساتھ کہاجائے تو اس میں ایک الگ کشش ہوتی ہے ، لیکن اگر مرادفات کا سہارا لیکر وہی جملہ دوسرے پیرائے میں کہا جائے تو اس جملہ کی جاذبیت میں اضافہ ہوجاتا ہے ، اور اگر اس بات کو سجع بندی میں کہا جائے تو اس میں الگ معنوی حسن پیدا ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح حذف و اثبات ، تقدیم و تاخیر اور دوسرے مختلف طریقوں سے کلام میں حسن پیدا کیا جاسکتا ہے۔لہٰذا جب باری تعالیٰ نے قرآن حکیم کو نازل کرنا شروع کیا تو حضور اکرمﷺنے انسانی فطرت کا مشاہدہ کیا اور سات حرفوں پر پڑھنے کی اجازت طلب فرمائی ، جس کو از راہِ شفقت باری تعالیٰ نے قبول کیا اور انسانوں کو اجازت دے دی گئی کہ وہ سات مختلف اسالیب اور مختلف انداز میں تلاوت کرسکتے ہیں ، اور اس اجازت میں فطرتِ سلیمہ کی اجازت کا سامان ہے جو اہلِ علم پر مخفی نہیں۔
پانچویں حکمت: عرب کے قبائل کے درمیان لسانی تعصّب کا انسداد
جب قرآن کا نزول ہوا اس وقت عرب کی قوم بہتیر قبائل پر مشتمل تھی اور ان قبائل کی زبان میں تھوڑا بہت فرق تو تھا لیکن ان کے درمیان لسانی تعصّب حد درجہ تھا ، لہٰذا اگر قرآن ایک ہی لغت پر نازل ہوتا تو دوسری لغت والوں کو یہ کہنے کی گنجائش باقی رہتی کہ اگر قرآن ہماری لغت کے مطابق نازل ہوتا تو ہم اس کا مثل بنا لاتے ، لہٰذا حکمتِ الٰہی کے تحت ہر قبیلہ کو اپنی اپنی لغت کے مطابق تلفّظ کی اجازت دے دی گئی تاکہ کسی قبیلہ کو اپنی لغت کی محرومی کا افسوس بھی نہ رہے اور ان کے درمیان قرآن کریم کی تلاوت لسانی تعصّب کی زد میں نہ آئے اور قرآن کریم کا پیغام واضح اور بہتر انداز میں ان تک پہنچ سکے۔
چھٹی حکمت: دو اختلافی حکموں کا دو مختلف قراء ت میں اجتماع
سبعۃ احرف پر نزولِ قرآن کی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بھی ہے کہ کبھی دو مختلف قراء توں کے ذریعہ دو مختلف حکموں کا بیان بھی کردیا جاتا ہے ۔ جیساکہ باری تعالیٰ ہے:
ولا تقربوہن حتّٰی یطہرن ’’اور جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں ، ان سے قربت’’جماع‘‘نہ کرو۔‘‘۱۷
اس آیت میں کلمہ قرآنی’’ یطھرن‘‘ میں دو قراء تیں ہیں۔ علّامہ جزریؒ فرماتے ہیں:
واختلفوافی حتی یطہرن فقرٲ حمزہ والکسائی وخلف وٲبوبکر بتشدید الطاء والھاء والباقون بتخفیفہا۔۱۸
’’کلمہ قرآنی(حتّٰی یطھرن)میں اختلافِ قراء ت ہے۔ اس میں دو قراء تیں ہیں ، پہلی قراء ت طاء اور ھاء کی تشدید سے ہے ، اور اس قراءت کو اختیار کرنے والے قرّاء میں حمزہ ؒ، کسائی ؒ، خلفؒ اور ابوبکرؒ ساڑھے تین قرّاءہیں۔ اور دوسری قراء ت طاء اور ھاء کی تخفیف سے ہے اور اس قراء ت کو اختیار کرنے والے باقی ساڑھے چھ قرّاء یعنی نافع ؒ، مکّی ؒ ، ابو عمروؒ، شامیؒ، ابوجعفرؒ، یعقوبؒ اور حفصؒ ہیں۔‘‘
اس کلمہ میں پہلی قراء ت جو طاء اور ھاء کی تشدید کے ساتھ(یطّھّرن)ہے، اس میں طہارت میں مبالغہ مقصود ہے ۔ اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب حیض سے فراغت کے بعد غسل کرلیا جائے اور اس غسل کرنے کے بعد شوہر کے لئے اپنی بیوی سے جماع کرنا جاءز ہوگا ، اور یہی اکثر فقہاء کا قول ہے ۔ چنانچہ امیر عبد العزیزفرماتے ہیں:
ذہب اکثر العلماء وفیہم الشافعیۃ والمالکیۃ والحنابلۃ لی ٲن المرٲۃ ذا انقطع حیضہا لا یحل لزوجہا ٲن یجامعہا لا بعد ٲن تغتسل من الحیض.. فان ذلک یعنی النہی عن قربانہن حتّٰی یغتسلن بالماء ولا یکفی فی ذلک انقطاع الدم فقط ، بل الاغتسال بعد الانقطاع والجفوف۔۱۹
’’اکثر علماء جن میں شافعیہ ، مالکیہ اور حنابلہ شامل ہیں ، ان کا مسلک یہ ہے کہ عورت جب حیض سے فارغ ہوجائے تو غسل کرنے سے پہلے اسکے شوہر کو اس سے مباشرت کی اجازت نہیں ہے .. اور ان عورتوں سے مباشرت سے رکنا غسل کرنے تک ہے ، لہٰذا صرف خون کے رکنے کا اعتبار نہیں کیا جائے گا بلکہ خون کے رکنے اور خشک ہوجانے کے بعد غسل کیا جائے گا۔‘‘
اور ان حضرات نے اس مسءلہ میں تشدید والی قراء ت سے دلیل حاصل کی ہے ۔دوسری قراء ت جو طاء اور ھاء کی تخفیف کے ساتھ ہے(یطھرن)ہے وہ احناف کا مستدل ہے، چنانچہ امام جصّاصؒ فرماتے ہیں:
اذا انقطع دمہا وٲیامہا دون العشرۃ فھی فی حکم الحاءض حتّٰی تغتسل اذا کانت واجدۃ للماء او یمضی علیہا وقت الصلاۃ فاذا کان احد ہذین خرجت من الحیض وحل زوجہا وطؤہا وانقضت عدتہا ان کانت آخر حیضۃ واذا کانت ٲیامہا عشرۃ ارتفع حکم الحیض بمضی العشرۃ وتکون حینءذ بمنزلۃ امرٲۃ جنب فی باحۃ وطء الزوج وانقضاء العدۃ وغیر ذلک۔۲۰
’’اور جب دس دن سے کم مدت میں خون آنا بند ہوجائے تو ایسی عورت حاءضہ کے حکم میں ہے جب تک کہ وہ غسل نہ کرلے اگر وہ پانی پر قدرت رکھتی ہے یا اس پر ایک نماز کا وقت انقطاع دم کے بعد گزرجائے ، لہٰذا اگر دونوں صورتوں میں سے کسی ایک صورت کا بھی وقوع ہوجائے یعنی یا تو وہ غسل کرلے یا پھر نماز کا وقت گزر جائے تو ایسی عورت اب حاءضہ نہیں رہے گی ، لہٰذا ایسی عورت سے اس کے شوہر کا مباشرت کرنا بھی جاءز ہوگا اور اگر عورت عدت میں ہے اور اس کا یہ آخری حیض ہے تو اس کی عدت بھی پوری ہوجائے گی ۔ اور اگر انقطاعِ دم دس دن کی مدت پوری ہونے کے بعد ہوا ہو تو ایسی صورت میں دسویں دن کے گزرنے کے ساتھ ہی حیض کا حکم مرتفع ہوجائے گا اور اب وہ حاءضہ نہیں رہے گی اور وہ جنبی عورت کے مرتبہ میں ہوجائے گی ، لہٰذا ایسی عورت سے شوہر کا مباشرت کرنا بھی حلال ہوگا اور اگر ایسی عورت عدت میں ہے تو اس کی عدت بھی پوری ہوجائیگی اگر یہ حیض آخری حیض تھا۔ اور اس کے علاوہ بھی دوسرے پاکی کے تمام احکامات کی وہ مکلّف ہوجائیگی۔‘‘
ساتویں حکمت:دو ایسے شرعی مسئلہ کا بیان جو دو مختلف حالتوں سے متعلق ہوں
سات حرفوں پر قرآن نازل ہونے کی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بھی ہے کہ کبھی اختلافِ قراء ت کے ذریعہ کسی مسءلہ کی دو مختلف حالتوں پر روشنی ڈالی جاتی ہے، تاکہ دونوں حالتوں کا حکم واضح ہوجائے ، جیساکہ باری تعالیٰ کا قول ہے :
یٰایہا الذین اٰمنوا اذا قمتم الی الصلٰوۃ فاغسلوا وجوہکم وایدیکم الی المرافق وامسحوا برء وسکم وٲرجلکم الی الکعبین۔۲۱
’’اے ایمان والو! جب تم نماز کے لئے اٹھو تو اپنے چہرے اور کہنیوں تک اپنے ہاتھ دھولو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں بھی ٹخنوں تک دھولیا کرو۔‘‘
یہ آیت، آیتِ وضوء ہے جس میں وضوء کرنے کا طریقہ بیان ہوا ہے ، اس آیت میں کلمہ قرآنی(ارجلکم)میں دو قراء تیں ہیں۔ پہلی قراء ت لام کے نصب کے ساتھ ہے اور دوسری قراء ت لام کے جر کے ساتھ ہے ۔ چنانچہ علّامہ جزریؒ فرماتے ہیں:
واختلفوا فی وٲرجلکم فقرٲ نافع وابن عامروالکسائی ویعقوب وحفص بنصب اللام وقرٲ الباقون بالخفض۔۲۲
’’اور کلمہ قرآنی(وارجلکم) میں اختلافِ قراء ت ہے ، لہٰذا اس میں پہلی قراء ت لام کے نصب سے(وارجُلَکم)ہے۔ اس قراء ت کو اختیار کرنے والے قرّاء میں نافعؒ ، ابن عامرؒ، کسائی ؒ، یعقوبؒ اور حفصؒ شامل ہیں۔اور اس کلمہ میں دوسری قراء ت لام کے جر کے ساتھ(وارجُلِکم)ہے۔ اس قراء ت کو باقی تمام قرّاء مکّیؒ ، ابوعمروؒ، حمزہؒ، ابوجعفرؒ، خلفؒ اور شعبہؒ نے اختیار کیا ہے ۔‘‘
پہلی قراء ت جو لام کے نصب کے ساتھ ہے ، اس صورت میں(ارجلکم)کا عطف(وجوھکم)پر ہوگا، اور چونکہ چہرہ اعضائے مغسولہ میں شامل ہے لہٰذا وضوء کرتے ہوئے پاؤں کو دھویا جائے گا۔ دوسری قراء ت جو لام کے جر کے ساتھ ہے ، اس صورت میں(ارجلکم)کا عطف(رؤوسکم)پر ہوگا۔ اور سر اعضائے ممسوحہ میں سے ہے لہٰذا وضوء کرتے ہوئے پاؤں کو دھویا نہیں جائے گا بلکہ پاؤں کا مسح کیا جائے گا۔
اب بظاہر یہ دونوں حکم متعارض ہیں کہ ایک ہی وقت میں ایک عضو کا مسح بھی کیا جائے اور غسل بھی کیا جائے ، یہ کس طرح ممکن ہے؟تو حضور اکرم ؐنے حدیثِ مبارکہ میں ان دونوں کی جہتوں کا تعین فرمایا ہے ، چنانچہ فرمانِ رسولؐ کے مطابق جو شخص خفّین یعنی موزے پہنا ہوا ہو اس کا وظیفہ مسح کرنا ہے اور جو شخص موزے وغیرہ نہ پہنا ہوا ہو اس کا وظیفہ پیروں کا دھونا ہے ، لہٰذا اس طرح اختلافِ قراء ت کے ذریعہ دو مختلف حالتوں سے تعلق رکھنے والے حکم کی وضاحت کردی گئی۔
آٹھویں حکمت: ثواب کی کثرت
حضرت عبداﷲبن مسعودؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا:
قال رسول اﷲ من قرٲ حرفا من کتاب اﷲ فلہ بہ حسنۃ والحسنۃ بعشر ٲمثالہا لا ٲقول الم حرف ولٰکن ٲلف حرف ولام حرف ومیم حرف۔۲۳
’’حضور اکرم ؐنے فرمایا جو شخص کتاب اﷲ میں سے ایک حرف پڑھے اس کو ہر حرف کے بدلے ایک نیکی ملے گی اور ایک نیکی کا اجر دس نیکیوں کے برابر ہے ، میں یہ نہیں کہتا کہ(الٓمٓ)ایک حرف ہے ، بلکہ الف ایک حرف ، لام ایک حرف اور میم ایک حرف ہے۔‘‘
اس میں اختلاف ہے کہ(الم)سے مراد حرفِ مقطّعات ہیں یا سورءہ فیل کا شروع مراد ہے اگر حروفِ مقطّعات مراد ہیں تو بظاہر مطلب یہ ہے کہ اعتبار لکھے ہوئے حروف کا ہوگا اور چونکہ لکھنے میں یہ تین ہی حروف لکھے جاتے ہیں اس لئے تیس نیکیاں ملے گی اور اگر اس سے مراد سورۃ فیل کا آغاز ہے تو پھر سورءہ بقرہ کے شروع میں جو(الٓمٓ)ہے وہ نو حروف ہونگے اس لئے اس کا اجر نوے نیکیاں ہونگی۔بعض دفعہ ایک قراء ت میں کلمہ کے حروف کی تعداد کم ہوتی ہے اور دوسری قراء ت میں حروف کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، جیسے کلمہ قرآنی(علیھم)پڑھنے سے پچاس نیکیاں ملتی ہیں، اور اگر اس کو صلہ کے ساتھ پڑھا جائے(علیھموا)تو اس صورت میں ساٹھ نیکیاں ملیں گی، اس طرح پڑھنے والوں کے ثواب میں اضافہ ہوتا ہے۔
نویں حکمت: حقّانیتِ قرآن
باری تعالیٰ نے نزولِ قرآن سے لیکر قیامت تک آنے والے انسانوں اور جنّات کو اور خاص طور پر ان اہلِ عرب کو جو یہ خیال رکھتے تھے کہ یہ قرآن خدا کی طرف سے نازل کردہ نہیں ہے بلکہ یہ محمدؐ کا اپنی طرف سے بنایا ہوا کلام ہے ۔ ان تمام اعتراضات کو باری تعالیٰ نے قرآن حکیم میں بیان فرمایا ، پھر ان کو چیلنچ دیا، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وما کنت تتلوا من قبلہ من کتٰب ولا تخطہ بیمینک اذ لارتاب المبطلون۔
’’اور تم اس سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ کوئی کتاب اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے، اگر ایسا ہوتا تو باطل والے مین میخ نکال سکتے تھے۔‘‘۲۴
اس آیتِ مبارکہ میں اﷲجلّ جلالہ نے حضور اکرم ؐکے امی ہونے کی حکمت یہ بیان فرمائی کہ اگر آپ پڑھے لکھے ہوتے توآپ کے مخالفین کو یہ کہنے کا موقعہ مل جاتا کہ آپ نے کہیں سے پڑھ پڑھا کر یہ مضامین اکٹھا کر لئےہیں ، لیکن مخالفین ہمیشہ آپ کی تاک میں ہی رہے اور اعتراض کا موقعہ ڈھونڈتے ہی رہے ، بالآخر انہیں اعتراض کا موقعہ ہاتھ آگیا۔
مکہ مکرمہ میں ایک لوہار تھا ، آپ کبھی کبھار اس کے پاس تشریف لے جایا کرتے تھے ، وہ آپ کی باتیں دل لگاکر سنا کرتا تھا اور وہ کبھی کبھی انجیل کی کوئی بات بھی سنا دیا کرتا تھا اس کو بنیاد بنا کر مخالفین نے یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ لوہار آپ کو قرآن سکھاتا ہے ۔ باری تعالیٰ نے سورۃ نحل میں اس اعتراض کو بیان فرماکر اس کا جواب بھی مرحمت فرمایا، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
ولقد نعلم انہم یقولون انما یعلمہ بشر لسان الذی یلحدون الیہ اعجمی وہذا لسان عربی مبین ۔
’’اور اے پیغمبرہمیں معلوم ہے کہ یہ لوگ تمھارے بارے ميں یہ کہتے ہیں کہ ان کو تو ایک انسان سکھاتا پڑھاتا ہےحالانکہ جس شخص کا یہ حوالہ دے رہے ہیں اس کی زبان عجمی ہے ، اور یہ قرآن کی زبان صاف عربی زبان ہے۔‘‘۲۵
اس آیتِ کریمہ نے ان کے اعتراض کی قلعی کھول دی کہ لوہار تو عجمی ہے وہ کس طرح عربی زبان کے اس فصیح وبلیغ کلام کا مصنف ہوسکتا ہے۔پھر بعض مخالفین نے یہ اعتراض کیا کہ قرآن کو عربی زبان میں نازل ہی نہیں ہونا چاہیے تھا بلکہ دوسری زبان میں نازل ہونا چاہےے تھا ، کیونکہ اگر قرآن دوسری زبان میں نازل ہوتا تو ہمیں یقین آجاتا کہ یقینا یہ کلام اﷲکا ہے، کیونکہ آپ عربی کے علاوہ کوئی دوسری زبان جانتے نہیں ہیں۔حالانکہ یہ اعتراض سرے سے ہی بیہودہ ہے کیونکہ اگر قرآن غیرعربی میں نازل ہوتا تو تفہیم اور پیغام رسانی کا کام کس طرح ممکن ہوتا کیونکہ جس ذاتِ اقدس پر قرآن نازل ہوا وہ بھی عربی اور جو قرآن کے اولین مخاطب ہیں وہ بھی عربی ، لیکن باری تعالیٰ نے ان کے اس اعتراض کو بیان فرمایا اور اعتراض کا جواب بھی عنایت فرمایا ، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ولو جعلنٰہ قراٰنا اعجمیا لقالوا لولا فصّلت اٰیٰتہءاعجمی وعربی۔
’’اور اگر ہم اس قرآن کو عجمی بناتے تو یہ لوگ کہتے کہ اس کی آیتیں کھول کھول کر کیوں نہیں بیان کی گئیں ؟ یہ کیا بات ہے کہ قرآن عجمی ہے اور پیغمبر عربی؟‘‘۲۶
پھر ان مخالفین اور معاندین سے کچھ بن نہ پڑا تو یہ کہنے لگے کہ یہ قرآن تو بڑا عجیب ہے اور اس کے احکامات بھی ہمارے لئے مشکل ہیں تو انہوں نے آپ سے اس بات کا مطالبہ کیا کہ یا تو آپ کوئی دوسرا قرآن لیکر آئیں یا پھر اس قرآن کو بدل دیں ۔ باری تعالیٰ نے ان کے اس احمقانہ مطالبہ کو کچھ اس طرح بیان فرمایا:
واذا تتلی علیہم اٰیاتنا بینٰت قال الذین لا یرجون لقآء نا اءت بقراٰن غیر ہذا او بدّلہ قل ما یکون لی ان ابدّلہ من تلقآ· نفسی ان ٲتبع الا ما یوحٰٓی لی نی ٲخاف ن عصیت ربی عذاب یوم عظیم قل لو شآء اﷲ ما تلوتہ علیکم ولا ادرٰکم بہ فقد لبثت فیکم عمرا ً من قبلہ ٲفلا تعقلون۔
’’اور وہ لوگ جوآخرت میں ہم سے آملنے کی توقع نہیں رکھتے ، جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں جبکہ وہ بالکل واضح ہوتی ہیں ، تو وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ نہیں ، کوئی اور قرآن لیکر آؤیا اس میں تبدیلی کرو۔اے پیغمبر!ان سے کہہ دو کہ مجھے یہ حق نہیں پہنچتا کہ میں اس میں اپنی طرف سے کوئی تبدیلی کرو ۔ میں تو کسی اور چیز کی نہیں صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے ۔ اگر کبھی میں اپنے رب کی نافرمانی کر بیٹھوں تو مجھے ایک زبردست دن کے عذاب کا خوف ہے۔کہہ دو کہ اگر اﷲ چاہتا تو میں اس قرآن کو تمھارے سامنے نہ پڑھتا اور نہ اﷲتمھیں اس سے واقف کراتا ، آخر اس سے پہلے بھی تو میں ایک عمر تمھارے درمیان بسر کرچکا ہوں ، کیا پھر بھی تم عقل سے کام نہیں لیتے؟‘‘۲۷
پھر ان مشرکین کے اعتراضات جب حد سے بڑھے تو باری تعالیٰ نے ان کو چیلنچ دیا کہ تم جو یہ کہتے ہو کہ یہ کسی انسان کا کلام ہے تو تم بھی ایک انسان ہو لہٰذا تم بھی اس جیسا کلام بناکر لاؤ۔باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
ٲم یقولون افترٰہ قل فٲتوا بعشر سور مثلہٰ مفتریٰت وادعوا من استطعتم من دون اﷲ ان کنتم صٰدقین فالّم یستجیبوا لکم فاعلموا انما ٲنزل بعلم اﷲ۔
’’بھلا کیا یہ لوگ یوں کہتے کہ یہ وحی اس پیغمبرنے اپنی طرف سے گھڑلی ہے ؟اے پیغمبر! ان سےکہہ دو کہ پھر تو تم بھی اس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں بنا لاؤ اوراس کام میں مدد کے لئےاﷲکے سوا جس کسی کو بلا سکو بلالو، اگر تم سچے ہو، اس کے بعد اگر یہ تمھاری بات قبول نہ کریں تو اے لوگو یقین کرلو کہ یہ وحی صرف اﷲکے علم سے اتری ہے۔‘‘۲۸
باری تعالیٰ نے یہ چیلنچ خاص طور پر تمام اہلِ عرب کو دیا اور چونکہ قرآن کا نزول سات حرفوں پر ہوا ہے ، اس لئے عرب میں بولی جانے والی تمام لغتیں اس چیلنچ میں شامل ہوگئیں ، لہٰذا ان سے مطالبہ ہوا کہ کسی بھی لغت میں تم اس جیسی دس سورتیں بناکر لاؤ، اگر تمھارے زعم کے مطابق یہ کلام کسی انسان کا کلام ہے، لیکن ان سے دس سورتیں تو کیا ایک سورت بھی کسی بھی لغت میں نہ بن سکی، باری تعالیٰ نے ان کا یہ عجز دیکھتے ہوئے مطالبہ میں تخفیف فرمائی اور قرآن کی ایک سورت جیسی سورت بناکر لانے کا مطالبہ کیا، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہوا:
وان کنتم فی ریب مما نزّلنا علیٰ عبدنا فٲتوا بسورۃ من مثلہ وادعوا شھدآء کم من دون اﷲ ان کنتم صٰدقین فان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوالنار التی وقودہا الناس والحجارۃ ٲعدّت للکٰفرین۔
’’اور اگر تم اس قرآن کے بارے میں ذرابھی شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندےمحمدپر اتارا ہے ، تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ، اور اگر سچے ہو تو اﷲ کے سوا اپنے تمام مددگاروں کو بلالو پھر بھی اگر تم یہ کام نہ کرسکو اور یقینا ً کبھی نہیں کرسکوگے ، تو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہونگے ، وہ کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔‘‘۲۹
اس چیلنچ کے بعد بھی ان سے ایک سورت بھی کسی بھی لغت میں نہ بن سکی اور ان کا عجز بالکلیہ ظاہر ہوگیا توپھر اللہ تعالیٰ نے ایک عام خطاب تمام انسانوں اور تمام جنّات سے کیا کہ اگر ابتدائے آفزینش سے لیکر قیامت تک آنے والے تمام انسان اور تمام جنّات بھی جمع ہوجائیں اور وہ ایک دوسرے کی مدد بھی کریں تو وہ اس کلام کے جیسا کلام تو کجا ایک آیت بھی بنا نہیں سکتے، ارشادِ ربّانی ہے:
قل لءن اجتمعت الانس والجن علیٰٓ ٲن یٲتوا بمثل ہٰذا القراٰن لایٲتون بمثلہ ولو کان بعضہم لبعض ظہیرا۔
’’کہہ دو کہ اگر تمام انسان اور جنّات اس کام پر اکٹھے بھی ہوجائیں کہ اس قرآن جیسا کلام بنا کر لے آئیں ، تب بھی وہ اس جیسا نہیں لا سکے گے، چاہے وہ ایک دوسرے کی کتنی مدد کرلیں۔‘‘۳۰
لہٰذا تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ نزول ِ قرآن سے لیکر موجودہ زمانے تک ہر دور میں معاندینِ اسلام اور منکرین ِ قرآن کی یہ کوشش رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اسلام کی عمارت کو منہدم کردیں اور چونکہ اسلام کی اساس قرآن حکیم ہے ، اس لئے انھیں سب سے زیادہ چڑ قرآن کریم سے ہی ہے ، اسی لئے انہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں اور توانائیاں قرآن حکیم کو غیر معتبر قرار دینے میں صرف کیں۔من جملہ ان اعتراضات میں سے ایک اعتراض یہ بھی کیا کہ انہوں نے قراء اتِ قرآنیہ کو من گھڑت قرار دیا اور یہ کہا کہ قراء ات بعد میں آنے والےقرّاء کی ایجاد ہے۔
اس اعتراض کا ایک جواب یہ بھی ہے کہ قرآن کریم کا چیلنچ قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کو یہ ہے کہ وہ اس جیسی ایک چھوٹی سے چھوٹی سورت بناکر پیش کریں جیساکہ ماقبل میں گذرا، اور چونکہ قرآن کا نزول سات حروف پر ہوا ہے اسی لئے یہ چیلنچ اور عام ہوگےا کہ کسی بھی لغت اور کسی بھی حرف جس کا قرآن ہونا ثابت ہے ، اس کے مطابق ہی تم کوئی ایک سورت بناکر پیش کرو۔ جبکہ تمھارے زعم کے مطابق قراء ات اگر قرّاء کی ایجاد ہے تو وہ بھی تو تمھاری طرح کے انسان تھے ، جب وہ قراء ات ایجاد کرسکتے تھے تو پھر تم کیوں نہیں کسی بھی لغت میں اس جیسا کلام پیش کرسکتے ، جب ان کا عجز ظاہر ہے تو معلوم ہوا قراء ات بھی منزّل من اﷲہیں اور کسی کی ایجاد نہیں ہیں۔اور اس بات سے قرآن اور قراء ات کی حقّانیت خوب واضح اور مستحکم ہوگئی۔
دسویں حکمت: قارقرآن وناقلین قراء ت کے مرتبہ کا اظہار
حضور اکرم ؐنے اپنے قول اور فعل سے قرآن سیکھنے والے ، قرآن پڑھنے والے ، قرآن کو آگے پھیلانے والوں کی فضیلت کو بیان فرمایا اور چونکہ قرآن کو سات حرفوں میں سے کسی ایک حرف پر پڑھا جانا ہی ممکن ہے اسی لئے اس زمرہ میں ناقلینِ قراء ت بدرجہ اولیٰ شامل ہیں، حضور اکرمﷺکا ارشاد ہے:
عن عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اﷲ خیرکم من تعلم القراٰن وعلمہ۔۳۱
’’حضرت عثمانؓ سے حضور اکرمؐ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن کو سیکھے اور سکھائے۔‘‘
عن ابی سعیدؓ قال قال رسول اﷲیقول الرب تبارک وتعالیٰ من شغلہ القراٰن عن ذکری ومسءلتی ٲعطیتہ افضل ما ٲعطی الساءلین وفضل کلام اﷲ علیٰ ساءرالکلام کفضل اﷲ علیٰ خلقہ۔۳۲
’’حضرت ابو سعید خدریؓ سے حضور اکرمؐ کا ارشاد منقول ہے کہ حق سبحانہ وتعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ جس شخص کو قرآن شریف کی مشغولی کی وجہ سے ذکر کرنے اور دعائیں مانگنے کی فرصت نہیں ملتی میں اس کو سب دعائیں مانگنے والوں سے زیادہ عطاء کرتا ہوں اور اﷲتعالیٰ شانہ کے کلام کو سب کلاموں پر ایسی فضیلت ہے جیسی کہ خود حق تعالیٰ شانہ کو تمام مخلوق پر۔‘‘
عن عبداﷲ بن عمروؓ قال قال رسول اﷲ یقال لصاحب القراٰن قرٲ وارتق ورتّل کما کنت ترتل فی الدنیا فان منزلک عند اٰخر اٰ یۃ تقرٲہا۔۳۳
’’حضرت عبداﷲبن عمرو ؓ سے منقول ہے انہوں نے فرمایا کہ حضور اکرمؐ کا ارشاد ہےقیامت کے دن صاحب قرآن سے کہا جائے گا قرآن شریف پڑھتا جا اور جنت کے درجوں پر چڑھتا جا ، اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جیساکہ تو دنیا میں اطمینان اور آرام سے تلاوت کرتا تھا، بس تیرا مقام وہاں ہے جہاں تو آخری آیت پڑھتے ہوئے پہنچے۔‘‘
عن علیؓ قال قال رسول اﷲ من قرٲ القراٰن فاستظھرہ فاحل حلالہ وحرم حرامہ ادخلہ اﷲ الجنۃ وشفعہ فی عشرۃ من اہل بیتہ کلھم قد وجبت لہ النار۔۳۴
’’حضرت علیؓ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ حضور اکرمؐ کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے قرآن پڑھا ، پھر اس کو حفظ یاد کیا اور اس کے حلال کو حلال جانا اور حرام کو حرام ، حق تعالیٰ شانہ اس کو جنت میں داخل کرینگے، اور اس کے گھرانے میں سے دس ایسے لوگوں سے متعلق اس کی شفاعت قبول فرمائینگے جن کے متعلق جہنمی ہونے کا حکم ہوچکا ہوگا۔‘‘
خلاصہ
آج ہم جس دور سے گزررہے ہیں ، اس میں مسلمانوں کے مجموعی زوال کے اسبابوں میں سے ایک بڑا سبب قرآن کریم سے بے توجہی اور استغناء ہے ، مسلمانوں میں سے ایک بہت بڑا طبقہ قرآن کریم کی ٹھیک طرح تلاوت کرنے پر قادرنہیں ، قرآن کریم کے معنی اور حکمتوں کو جاننا تو دورکی بات ہے ۔لیکن اس کے برعکس جن خاندانوں اور جن گھرانوں میں قرآن کریم کی تلاوت بھی ہوتی ہے اور قرآن کریم کو سمجھنے کی جستجو بھی ہوتی ہے تو ایسے خاندان دنیا وآخرت دونوں اعتبار سے خوشحال خاندان ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا اگر ہم آخرت تو آخرت دنیا میں بھی ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے رویّوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، ہمیں قرآن اور اہل ِ قرآن کی محبت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔نیزجیسے جیسے زمانے میں عہد ِ نبوی ؐسے بعد ہوتا جائے گا ، ویسے ویسے قرآن کریم کی خدمت مشکل ہوتی جائے گی ، اور یہ بات ہمارے معاشرے میں بالکل عیاں ہے ،ہم دیکھتے ہیں کہ اوّل تو لوگ قرآن کریم کو سیکھنے اور سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور اگر کچھ لوگ تیار بھی ہوجائیں اور وہ کچھ نہ کچھ سیکھ بھی لیں تو وہ لوگ قرآن کریم کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش نہیں کرتے ، کیونکہ ایسے لوگوں کو جو دن رات قرآن کریم کی خدمت میں مصروف ہیں ، ہمارا معاشرہ انہیں تیسرے درجہ کا شہری سمجھتا ہے اور اس کے ساتھ برتاؤ بھی ویسا ہی کرتا ہے اور یہ بڑے خطرے کی بات ہے۔لہٰذا معاشرے میں اس شعور کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ حاملین ِ قرآن کو ان کا جائز مقام دیں ، قرآن اور اہل ِ قرآن کو ہر جگہ مقدم رکھیں تاکہ لوگوں میں قرآن کریم سیکھنے کا جذبہ پیدا ہو اور ہمارے معاشرے میں سدھار آسکے اور ہم اور آئیندہ آنے والی نسلیں پیش آمدہ فتنوں سے محفوظ ومامون ہوسکیں ۔
حواشی وحوالہ جات
۱ زرقانی، محمد عبد العظیم ، شیخ، مناھل العرفان فی علوم القرآن، دار صادر، بیروت، ۸۰۰۲ء، ج۱، ص۷۱
۲ ابن منظور، علّامہ ، لسان العرب، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ۸۸۹۱ء، ج۳، ص۷۲۱
۳ دانی، عثمان بن سعید، جامع البیان فی القراء ات السبع المشہورۃ، دارالکتب العلمیہ بیروت، ۵۰۰۲ء، ص۳۲
۴ ابن الجزری، محمد بن محمد، النشر فی القراء ات العشر، مصطفی محمد ، مصر، ج۱، ص۴۲
۵ سیوطی، جلال الدین، الاتقان فی علوم القرآن، مکتبہ نزار، مصطفی الباز، ریاض، ۶۹۹۱ء، ج۱، ص۲۷۱
۶ صمیدہ، مصطفی، فتح المالک، عباس احمد باز، مکہ، ج۴۱، ص۷۹
۷ مہدوی، قاسم بن سلّام، ابوعبید، کتاب فضاءل القرآن، دار ابن کثیر، بیروت، ۵۹۹۱ء، ص ۶۴۳
۸ ایضاً
۹ زرقانی، محمد عبد العظیم ، شیخ، مناھل العرفان فی علوم القرآن، دار صادر، بیروت، ۸۰۰۲ء، ج۱، ص۹۹
۱۰ رمذی، محمد بن عیسٰی، جامع الترمذی، دار الفکر، بیروت، ۴۹۹۱ء، ج ۴، کتاب القراء ات، باب ۱۹، ص ۴۳۴، رقم الحدیث ۳۵۹۲
۱۱ ابن جزری، محمد بن محمد،ابو الخیر، النشر فی القراء ات العشر، مطبعہ مصطفٰی محمد بمصر، ج۱، ص۲۲
۱۲ عثمانی، محمد تقی، مفتی، آسان ترجمہ قرآن، مکتبہ معارف القرآن، ۳۱۰۲ء، پارہ ۳۱، سورءہ ۳۱، ع۱، آیۃ ۷، ص۴۳۵
۱۳ عثمانی، محمد تقی، مفتی، آسان ترجمہ قرآن، مکتبہ معارف القرآن، ۳۱۰۲ء، پارہ ۹۱، سورءہ ۶۲، آیۃ ۵۹۱، ص۷۳۱۱
۱۴ عثمانی، محمد تقی، مفتی، آسان ترجمہ قرآن، مکتبہ معارف القرآن، ۳۱۰۲ء، پارہ ۴۲، سورءہ ۱۴، آیۃ ۴۴، ص۵۶۴۱
۱۵ عثمانی، محمد تقی، مفتی، آسان ترجمہ قرآن، مکتبہ معارف القرآن، ۳۱۰۲ء، پارہ ۱۱، سورءہ ۹، آیۃ ۸۲۱، ص۵۴۴
۱۶ قشیری، مسلم بن الحجاج، صحیح مسلم، بیروت، ۳۰۰۲ء، ج۳، کتاب الجھاد والسیر۲۳، باب ۳، ص ۱۶۲، رقم الحدیث ۲۳۷۱
۱۷ عثمانی، محمد تقی، مفتی، آسان ترجمہ قرآن، مکتبہ معارف القرآن، ۳۱۰۲ء، پارہ ۲، سورءہ ۲، آیۃ ۲۲۲، ص۹۳۱
۱۸ ابن جزری، محمد بن محمد،ابو الخیر، النشر فی القراء ات العشر، مطبعہ مصطفٰی محمد بمصر، ج۲، ص۷۲۲
۱۹ امیر عبد العزیز، دکتور ، فقہ الکتاب والسنۃ، دار اسلام، مصر، ۹۹۹۱ء، ج۱، ص۳۴۳
۲۰ جصاص، احمد بن علی، احکام القرآن، سہیل اکیڈمی، لاہور، ۰۸۹۱ء، ج۱، ص۸۴۳
۲۱ عثمانی، محمد تقی، مفتی، آسان ترجمہ قرآن، مکتبہ معارف القرآن، ۳۱۰۲ء، پارہ ۶، سورءہ ۵، آیۃ ۶، ص۷۲۳
۲۲ ابن جزری، محمد بن محمد،ابو الخیر، النشر فی القراء ات العشر، مطبعہ مصطفٰی محمد بمصر، ج۲، ص۴۵۲
۲۳ ترمذی، محمد بن عیسٰی، جامع الترمذی، دار الفکر، بیروت، ۴۹۹۱ء، ج ۴، کتاب القراء ات، باب ۶۱، ص ۷۱۴، رقم الحدیث ۹۱۹۲
۲۴ عثمانی، محمد تقی، مفتی، آسان ترجمہ قرآن، مکتبہ معارف القرآن، ۳۱۰۲ء، پارہ۱ ۲، سورءہ۹ ۲، آیۃ ۸۴، ص۶۴۸
۲۵ عثمانی، محمد تقی، مفتی، آسان ترجمہ قرآن، مکتبہ معارف القرآن، ۳۱۰۲ء، پارہ ۴۱، سورءہ ۶۱، آیۃ ۳۰۱، ص۴۹۵
۲۶ عثمانی، محمد تقی، مفتی، آسان ترجمہ قرآن، مکتبہ معارف القرآن، ۳۱۰۲ء، پارہ۴ ۲، سورءہ ۱۴، آیۃ ۴۴، ص۹۰۰۱
۲۷ عثمانی، محمد تقی، مفتی، آسان ترجمہ قرآن، مکتبہ معارف القرآن، ۳۱۰۲ء، پارہ ۱۱، سورءہ ۰۱، آیۃ ۵۱۔۶۱، ص۰۵۴
۲۸ عثمانی، محمد تقی، مفتی، آسان ترجمہ قرآن، مکتبہ معارف القرآن، ۳۱۰۲ء، پارہ ۲۱، سورءہ ۱۱، آیۃ ۳۱۔۴۱، ص۴۷۴
۲۹ عثمانی، محمد تقی، مفتی، آسان ترجمہ قرآن، مکتبہ معارف القرآن، ۳۱۰۲ء، پارہ ۱، سورءہ ۲، آیۃ ۳۲۔۴۲، ص۷۴
۳۰ عثمانی، محمد تقی، مفتی، آسان ترجمہ قرآن، مکتبہ معارف القرآن، ۳۱۰۲ء، پارہ ۵۱، سورءہ ۷۱، آیۃ ۸۸، ص۸۱۶
۳۱ البخاری، محمد بن اسمٰعیل، صحیح البخاری، دار ابن کثیر ،بیروت، کتاب۶۶، باب۱۲، ص۳۵۳، رقم الحدیث ۷۲۰۵
۳۲ ترمذی، محمد بن عیسٰی، جامع الترمذی، بیروت، ۴۹۹۱ء، ج ۴، کتاب فضاءل القرآن، باب ۵۲، ص ۵۲۴، رقم الحدیث۵۳۹۲
۳۳ ترمذی،محمدبن عیسٰی،جامع الترمذی، بیروت، ۴۹۹۱ء، ج ۴، کتاب فضاءل القرآن، باب ۸۱، ص ۹۱۴، رقم الحدیث۳۲۹۲
۳۴ ترمذی،محمدبن عیسٰی،جامع الترمذی، بیروت، ۴۹۹۱ء، ج ۴، کتاب فضاءل القرآن، باب ۳۱، ص ۴۱۴، رقم الحدیث۴۱۹۲