2
2
2018
1682060030112_872
34-46
http://www.journalusooluddin.com/index.php/irjdu/article/download/23/22
http://www.journalusooluddin.com/index.php/irjdu/article/view/23
Syed Hasan Ghaznavi Poet of Persian Famous Persian Poet Syed Hasan Ghaznavi Poet of Persian famous Persian poet
ڈاکٹر غلام مصطفٰے خانؒ کی عربی، فارسی، اردو اورانگریزی کی تصانیف کی تعداد تقریباً سو کے قریب ہیں۔جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے نہ صرف اردو زبان و ادب، قواعد واملاپر بے مثل کام کیا ہے بلکہ فارسی کے کئی قدیم شعراء کی حیات وتصانیف، کئی علمائے کر ام کے ملفوظات، مکتوبات، تاریخِ بہرام شاہ غزنوی (انگریزی) ، اسلامی اورغزنوی عَلم، فارسی پراردو کا اثر، توضیحِ مصطلِحاتِ صوفیہ، اسلامی تصوف اورمثنوی مولانا رومؒ، علامہ سیوطیؒ اورعلمِ لغت، حافظ کے قصیدے (غزلیات کے بجائے قصائد سے ان کا مرتبہ متعین کیا ہے) جیسے اہم تحقیقی کام فارسی میں بھی کیے ہیں۔ سید حسن غزنویؒ، حیات اور ادبی کارنامے میں ڈاکٹر صاحبؒ نے فارسی کے بزرگ شاعر سید حسن غزنویؒ کی حیات اور فکروفن کامحققانہ جائزہ لیا ہے۔اس تحقیق پر میرا ایک مضمون’’سید حسن غزنوی ؒحیات اور ادبی کارنامے پر ایک نظر‘‘ ماہنامہ قومی زبان (کراچی: اکتوبر ۲۰۱۵ء) میں شائع ہوچکا ہے۔موجودہ مضمون اسی موضوع پر مزید اضافے کے بعد شائع کیا جارہا ہے۔
ڈاکٹر صاحبؒ تحقیق میں جزئیات پر گہری نظر رکھتے تھے اور کتبِ تواریخ پر دسترس کوبے حد اہمیت دیتے تھے۔ان کے مطابق ’’ ادبی تحقیق میں وہی زیادہ تر کامیاب رہے ہیں جنھیں زیرِتحقیق عہد کی تاریخ کے اہم اور مستند بنیادی مآخذتک رسائی حاصل تھی اور جو ادبی حقائق کو تاریخ کی روشنی میں دیکھنے کے قابل تھے۔‘‘ (۱) تحقیق کے ساتھ تنقید کو لازمی قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’تحقیق کی روح اور جان تو یہی ہے کہ حقائق کی تلاش کی جائے اور اچھی طرح چھان بین کی جائے اور وہ بلاشبہ نامکمل ہے اگرتعبیر وتشریح کے ساتھ نہ ہو یا باالفاظِ دیگر اگر اس کے ساتھ تنقید نہ ہو۔‘‘ (۲) سید حسن غزنویؒ پر ان کی تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انھوں نے نہ صرف ادبی حقائق کو تاریخ کی روشنی میں دیکھا ہے بلکہ اپنی تحقیق کو تنقید کے ساتھ پیش کیا ہے۔ڈاکٹر اسلم فرخی لکھتے ہیں: ’’ڈاکٹر صاحبؒ اپنی تحقیق میں خارجی اور داخلی شہادتوں پر پوری توجہ کرتے ہیں۔سید حسن غزنویؒ میں داخلی شہادتوں سے تحقیق کا حق بڑے مناسب انداز میں ادا کیا گیا ہے اور تحقیق کا اعلی معیار پیش کیا گیا ہے۔ڈاکٹر صاحب استخراجِ نتائج میں تمام پہلوؤں پر نظر رکھتے ہیں۔بڑے غوروفکر کے بعد کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں اور پھر اس پر قائم رہتے ہیں۔منسوبات کے حوالے سے ڈاکٹر صاحبؒ کے یہاں تحقیق کے بڑے اعلیٰ اور معیاری نمونے ملتے ہیں۔‘‘ (۳)
ڈاکٹر صاحبؒ نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن جبل پور سے حاصل کی۔ علی گڑھ سے ۱۹۲۹ء میں میٹرک پاس کیا اور ۱۹۳۶ء تک دو ایم ۔اے اور ایل ایل بی کے امتحانات پاس کیے اور جبل پور واپس چلے گئے۔چند ماہ بعد ناگ پور یونیورسٹی سے ملحقہ کنگ ایڈورڈ کالج امراؤتی (برار) میں پڑھانے لگے ۔ یہاں دس سال اور مارس کالج ناگ پور میں قریب ایک سال پڑھایا۔ (۴) حسن غزنویؒ پر تحقیق کرنے کا مشور ہ ان کے استاد نے دیا۔ڈاکٹر صاحبؒ لکھتے ہیں: ’’ علی گڑھ کے قیام کے زمانے میں بعض اساتذہ کے تحقیقی کاموں کو دیکھ کر مجھے بھی تحقیق کا شوق پیدا ہوا۔وہاں سے آنے کے بعد فاضل یگانہ پروفیسر ضیاء احمد بدایونی ؒ (م۔۱۹۷۳ء) سے زیادہ تعلق رہا۔چناچہ انھوں نے۴ مارچ ۱۹۳۸ء کو مجھے گرامی نامہ لکھا اور مشورہ دیا کہ سید حسن غزنویؒ پر کام کرو۔ میں نے ناگ پوریونیورسٹی کو اس موضوع پر کام کرنے کی اجازت کے لیے درخواست دی اور وہ منظورہوگئی۔پھر میں نے علی گڑھ، حبیب گنج، رام پور، بریلی، کاکوری، لکھنو کے مختلف کتب خانے، ریواں ریاست، پٹنہ، الہ آباد، بھوپال، عثمانیہ یونیورسٹی، آصفیہ لائبریری، بمبئی کے مختلف کتب خانے اور برہان پور وغیرہ کے کتب خانے دیکھے۔وہاں سے شاعر کے کلام اور اس کے متعلق تاریخیں اور تذکرے تلاش کیے۔پھر لندن اور پیرس سے اس شاعر کے دیوان کے عکس حاصل کیے۔اس معاملے میں ناگ پور یونیورسٹی نے مجھ سے ہر طرح کا تعاون کیا بلکہ میرے بعض تحقیقی مقالات کی بنا پر مجھے بغیر نگراں کے کام کرنے کی اجازت مل گئی۔‘‘ (۵)
ڈاکٹر صاحبؒ حبیب گنج میں حبیب الرحمٰن خان شروانی سے ملے تھے، پھر رام پور گئے تھے۔اپنے دو خطوط بنام امتیاز علی عرشی صاحب میں شروانی صاحب نے ڈاکٹر صاحبؒ کی اس تحقیق کا ذکر کیاہے۔یہ دونوں خطوط نقوش کے مکاتیب نمبر ۶۵، ۶۶میں شائع ہوچکے ہیں ۔اپنے پہلے خط میں وہ لکھتے ہیں’’غلام مصطفٰے خان ایم اے (علیگ) رام پور آتے ہیں ۔سید حسن غزنویؒ کے متعلق ریسرچ کر کے پی۔ایچ ۔ڈی کی ڈگری لینی چاہتے ہیں۔یہاں بھی اس سلسلے میں آتے رہے، جوسرمایہ تھا پیش کر دیا گیا۔اب رام پور آتے ہیں۔آپ سے اگرچہ مراسلت کر چکے ہیں تاہم میرے شوقِ ہم کلامی نے ان چند سطور کی تحریر پر آمادہ کیا۔‘‘حبیب گنج ضلع علی گڑھ۔ ۱۹، اکتوبر ۱۹۳۸ء ۔ (۶)
دوسرے خط میں لکھتے ہیں: ’’غلام مصطفٰے خان جو سید حسن غزنویؒ کے کلام کے ریسرچ کے لیے رام پور حاضر ہوئے تھے، ان کی تحریر سے معلوم ہوا کہ دیوانِ حسن کے نو ورق بڑے بڑے کتاب خانہ ریاست میں ہیں۔دل سے ممنون ہوں گااگر بہ توجہ سامی ان کی نقل یہاں آجائے، اجرت ادا ہوگی۔‘‘حبیب گنج ضلع علی گڑھ۔۱۔دسمبر ۱۹۳۸ء نیاز مند۔حبیب الرحمن۔ (۷)
ڈاکٹرصاحب ؒنےلکھاہے: ’’نواب صاحب نے اپنا پورا کتب خانہ (حبیب گنج) میرے مطالعے کے لیے کھول دیاتھا۔آٹھ دس دن کام کر کے امراؤتی واپس ہوا تو ایک فاضل کا خط ملا کہ اس شاعر پر کام کرنا بہت مشکل ہے۔میری دل شکنی ہوئی تو نواب صاحب کو خط لکھا۔انھوں نے بڑی شفقت سے یہ جواب دیا۔ہرگز خیال نہ بدلنا، ورنہ ہمیشہ مشکلات سے گھبرا کرمنہ موڑو گے اور یہ زندگی کی شکست ہے جو کام کر رہے ہو استقلال سے اللہ پر بھروسا کر کے کیے جاؤ۔سید حسن غزنویؒ پر مقالہ لکھنا مردانہ کام ہے ۔پس مرد بنو جیسے کہ ہو۔‘‘یہ خط ۲۶ نومبر ۱۹۳۸ء کولکھا گیا۔ (۸)
سید حسنؒ پر یہ مقالہ ۱۹۴۶ء، ۱۳۶۷ھ میں پیش کیا گیاتھا۔مقالے کے دو حصّے تھے ایک شاعر سے متعلق تھا جو اردو میں تھا اور دوسرا شاعر کے ممدوح سے متعلق تھا اور وہ انگریزی میں تھا (A History of Bahram Shah of Ghaznan) جو لاہور سے ۱۹۹۴ء میں اورکراچی سے۱۹۹۵ء میں شائع ہوا اس کاپیش لفظ ڈاکٹرمحمد شفیع صاحب نے لکھا ہے ۔ڈاکٹر عبدالستار صدیقی نے صرف اردو والے حصّے پرڈگری کی سفارش کی تھی اورڈاکٹر ہادی حسن نے صرف انگریزی والے حصّے کو ڈگری کے لیے کافی سمجھا تھا۔مولوی عبد الحق صاحب اسے دہلی سے شائع کرنا چاہتے تھے لیکن یہ مقالہ اور دوسری کتابیں ۱۹۴۷ء کے اواخر میں نذر آتش ہو گئیں۔علامہ ڈاکٹرمحمد شفیع صاحب نے ضمیمہ اورینٹل کالج میگز ین (اگست ۱۹۴۸ء تا فروری ۱۹۵۰ء) کے طور پریہ مقالہ شائع کیا۔ (۹)
سید حسن غزنوی بہرام شاہ (غزنین) کے درباری شاعر تھے، اور سلطان سنجر (خراسان) سے بھی وابستہ رہے اس تحقیق کے دوران ڈاکٹر صاحب کی نظر ان کے معاصر شعراء، متقدمین اور متاخرین پر بھی رہی اور اکثر جگہ مختلف شعراء کے کلام سے موازنہ بھی کیا ہے۔دیگرکتب کے حوالوں کے علاوہ اپنی کتاب تاریخِ بہرام شاہ غزنوی، تذکرہ دولت شاہ بن بہرام شاہ، نسائی، عمادی، معزی، برہانی، سوزنی، ادیب صابر، اسلامی اورغزنوی عَلم پر اپنے مضامین جو معارف میں شائع ہوئے، ان سب سے حوالے دیے ہیں جو تفصیل سے حواشی میں موجود ہیں۔تقریباً ساڑھے تین سو صفحات (مع حواشی ۔جو خود قدیم فارسی شعراء کا اہم مآخذہے) پرمشتمل اس کتاب سے میں نے سید حسن کے حالاتِ زندگی اور کلام کا مختصر ذکر لیا ہے طوالت کے خیال سے قصائد اور غزلیات کے بھی چنداشعار دیے ہیں۔
ڈاکٹر صاحبؒ کی تحقیق کے مطابق’’حسن غزنوی سنائی (م۔۵۴۵ھ) کا معاصر تھا اور اس نے ایران و افغانستان کے مختلف مقامات بلکہ ہندوستان کی بھی سیر کی تھی۔ بغداد کے بعدوہ مدینہ منورہ بھی حاضر ہوا اور حضورانورﷺکی خدمت میں ایک فارسی ترجیع بند پیش کیا جس کا تر جیعی شعر عربی میں یہ تھا۔
سلّموا یا قوم بل صلّوا علی الصدر الامین۔ مصطفٰے ماجآء الّا رحمتہ للعالمین
یہ شعر آج بھی مقبول ہے۔اس ترجیع بند کے چھ بند ہیں ۔‘‘ (۱۰)
کئی مشہور لغات جن میں منشی محمد پادشاہ کی فرہنگِ آنند راج، مصطلحات الشعراء (نول کشور پریس، کان پور۔۱۸۹۸ء) فرہنگِ جہانگیری (لکھنو ۱۸۷۶ء۔جلد اوّل) ، سند باد نامہ، المعجم فی معاییر، اشعار العجم اور راحت الصدور میں سید حسن کے کئی اشعار بطورِ سند پیش کیے گئے ہیں، جن کی مثالیں ڈاکٹر صاحبؒ نے دی ہیں۔ سید حسن اپنے معاصرین اور متاخرین میں بھی مقبول تھے۔ (۱۱) ڈاکٹر صاحبؒ لکھتے ہیں: سید حسن کی سب سے زیادہ مقبولیت غالباً یہ ہے کہ سلطان بہرام شاہ (م۵۵۲ھ) کے ایک سکّے میں اس کا شعر کندہ تھا۔ راورٹی (طبقات ناصری۔ص۱۱۰۔نوٹ نمبر ۔۱) نے لکھا ہے کہ بہرام شاہ کے سکےّ کی پشت پر یہ شعر کندہ تھا۔
منادی برآمد ز ہفت آسماں۔کہ بہرام شاہ است شا ہ جہاں (۱۲)
سید حسن کے کلام کی ایک اور اہمیت ڈاکٹر صاحبؒ کے مطابق یہ ہے کہ اس میں بہرام شاہ اور سلطان سنجر کے تاریخی واقعات کے اشارے بہت ہیں۔ ڈاکٹر صاحبؒ لکھتے ہیں: ’’سید حسن اور اس کے معاصرینِ نظم ونثر کے کلام سے جو تاریخی اشارات جمع ہوئے تھے ان سے تاریخِ بہرام شاہ غزنوی (انگریز ی) لکھنے میں مدد ملی ۔‘‘ (۱۳)
حسن غزنوی کے حالاتِ زندگی کی تفصیل دیتے ہوئے ڈاکٹرصاحبؒ نے ٹیپو سلطان شہید علیہ الرحمتہ کے مجموعے میں سے سید حسن غزنویؒ کا دیوان جو انڈیا آفس (Ethe No 931) لندن میں محفوظ ہے، کے مقدمے میں سے کچھ اقتباسات درج کیے ہیں۔ جن سے یہ باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
۱۔ مقدمہ کا لکھنے والا شاعر کا شاگرد یا معتقد ہے، جس کا بیس سال سے تعلق ہے اور وہ ایک مدت اپنے استاد کے ساتھ رہا ہے۔
۲۔ شاعر کا پورا نام مع القاب یہ ہے۔سید امام اجل، عمدۃ الدین، عمدۃ الاسلام، افضل الزمان، اشرف العالم، مفخر اللسانین، محترم الحرمین، ذوالشہادتین، ابوالعلی حسن بن محمد الحسینی الغزنوی۔
۳۔ شاعر کا انتقال ابو القاسم محمود خان (المتوفی۔۵۵۷؍۱۱۶۲ھ) کی حکومت کے زمانے میں ہوا۔
۴۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاعر نے عربی اشعار بھی خاصی بڑی تعداد میں لکھے ہوں گے۔ اس کی دوسری تصانیف کے متعلق بھی اشارے ملتے ہیں لیکن سوائے کلیاتِ فارسی کے سب ناپید ہیں۔
ڈاکٹر صاحبؒ کی تحقیق کے مطابق’’شاعر کانام حسن تھا اورحسینی سید ہونے سے متعلق اس کے اشعار سے شہادت ملتی ہے۔ شاعر کے القاب مختلف تذکروں میں مختلف ہیں۔تاج الدین دو جگہ ہے۔اشرف الدین یا اشرف شاگرد کے مقدمے اور راحت الصدور میں اکثر مقامات پر یہی لقب پا یا جاتا ہے متاخرین میں مزید لقب بھی ملتے ہیں۔شاعر کے والد کانام شاگرد کے مقدمہ مذکورہ میں اور راحت الصدور میں محمد ہے اور یہی درست مانا جائے گا۔شاعر کے وطن کے متعلق سب تذکرے متفق ہیں کہ وہ غزنین کا ہے اور شاگرد کی تصدیق کے بعد کوئی شبہ باقی نہیں رہ جاتا۔اہل غزنین تو اب بھی پورے آٹھ سو سال گزر جانے کے بعد اس پر فخر کرتے ہیں۔شاعر کے سالِ ولادت کے متعلق تاریخوں اور تذکروں سے معلوم نہیں ہوتالیکن کلام سے یہ اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ وہ ۴۸۰ھ۔۱۰۷۸ء تک ضرور پیدا ہوچکا ہوگا۔ تتمہ صوان الحکمہ (ص۔۹۶۔فارسی۔لاہور ۱۹۳۹ء) سے معلوم ہوتا ہے کہ سید حسن غزنویؒ کے استاد محمد بن مسعود غزنوی تھے۔جو فلسفی، ادیب اور مہندس بھی تھے اور انھوں نے فلسفہ پر ایک کتاب احیاء الحق لکھی تھی۔چونکہ حسن کاصرف کلیات ملتا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے اپنے استاد سے صرف ادب کی تعلیم حاصل کی۔کیوں کہ اس کے کلام میں فلسفہ یا دوسرے علوم کا کوئی عکس نظر نہیں آتا۔‘‘ (۱۴)
اس کے انتقال کا مقام غز نین سب سے پہلے دولت شاہ کے یہاں ملتا ہے، اس کے بعد مختلف تذکروں میں اسی کی نقل ہے۔ (۱۵) ڈاکٹر صاحبؒ نے شاعر کے وفات کے سال کے لیے بھی کئی تواریخ اور تذ کروں سے شواہد اکھٹے کیے ہیں اور اس کی وفات کا سال ۵۵۶ھ۔۱۱۶۱ء متعین کیا ہے۔ (۱۶) حسن غزنویؒ کے حالاتِ زندگی کے متعلق تاریخ اور تذکروں میں بہت کم ملتا ہے البتہ اس کے کلام سے بہت کچھ اخذ کیا جاسکتا ہے۔ڈاکٹر صاحبؒ نے سید حسن غزنویؒ کے مختلف ممالک کے دوروں کا ذکر کیا ہے اور لکھتے ہیں ’’وہ ۵۱۳ھ۔۱۱۱۹ء میں بہرام شاہ کے ساتھ ہندوستان آیا تھااور کچھ دن اس نے قیام بھی کیا تھا چناں چہ سید حسن کے کلام میں ہندوستانی الفاظ بھی ملتے ہیں اور اس کا کچھ کلام ہندوستان میں بھی مقبول ہوا ہے ۔اس سلسلے میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہماری اردو زبان کی داغ بیل گو کہ عربوں اور ہندیوں کے میل جول سے پڑ چکی تھی لیکن باقاعدہ اس کا سلسلہ غزنویو ں کے عہد سے چلتا ہے جب ہندوستانی لونڈی غلام بکثرت غزنین گئے اور غزنین کے لوگ یہاں آئے۔‘‘ (۱۷) ڈاکٹر صاحبؒ نے حسن کے کلام سے اردو کی کئی مثالیں دی ہیں جن میں سے ایک دیکھیے: ایک لفظ قرنفل ہے جو کرن پھول کا مفرس ہے۔اسے شاعر نے بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔
خورشید گل فروش ومہ لالہ پوش را۔ در بندِ مشک ودامِ قرنفل فگندہ (۱۸)
سیدحسن غزنوی ؒنے ایسے زمانے میں آنکھ کھولی جب کہ فارسی کے بڑے شعراپیدا ہوچکے ہیں اورخود معاصرین میں معزی (م۵۴۲ھ۔۱۱۴۷ء) ، سنائی (م۵۴۵ھ۔۱۱۵۰ء) ، عمادی (م تا۵۴۵ھ۔۱۱۵۰ء) ، عثمان مختاری (م۵۴۴ھ۔۱۱۴۹ء) ، ادیب صابر (۵۴۷ھ۔۱۱۵۲ء) ، وطواط (م۵۷۸ھ۔۱۱۸۲ء) ، سوزنی (م۵۶۹ھ۔ ۱۱۷۳ء) جیسے متعدد اکابرشعرا موجود تھے اور ان سب کی شاعری کا دارومدار زیادہ تر قصیدہ گوئی پر تھا۔چناچہ حسن نے بھی اپنی شاعری کی ابتدا قصیدہ گوئی سے کی۔ (۱۹) سید حسن کے قصائد کی تعداد ۹۵ ہے اوران کے اشعار کی تعدادکم وبیش پونے تین ہزار ہے اس کے یہاں پہلی خصوصیت تو یہ ہے کہ واقعات اور حالات کے متعلق مختلف اہم اشارات ملتے ہیں۔ جن سے ایک طرف اگراس عہدکی تاریخ میں مدد ملتی ہے اور دوسری طرف خود شاعر کی قدردانی کا حال معلوم ہوتا ہے۔سید حسن نے۵۰۰ھ سے ۵۵۶ھ تک یعنی کم از کم ۵۵ سال مدح سرائی کی ہے۔متعدد وزرا، امرا اور سلاطین کے نام کو زندہ کیا ہے۔اس طرح اس عہد کی تاریخ کو مرتب کیا ہے۔ (۲۰)
ڈاکٹر صاحبؒ لکھتے ہیں’’اس کے شروع کے قصائد سادہ تمہید کے ساتھ ہیں۔مثلاً ۵۰۰ھ میں وہ ایک قصیدہ لکھتا ہے جو اس طرح شروع ہوتا ہے ۔
نسیم عدل ہمی آید از ہوای جہان۔شعاعِ بخت ہمی تابد از نقای جہان
دو تین شعر میں تمہید ختم ہو گئی اور کوئی خاص خیال بندی یا لطافت نہیں ہے۔لیکن اسی سال ایک قصیدہ بہاریہ تمہید کے ساتھ لکھا جس میں نئی نئی تشبیہات واستعارات کا نگار خانہ سجایا ہے اور قدما کی طرح ہم وزن الفاظ کا التزام بھی ہے۔یہ بہرام شاہ غزنوی کی مدح میں ہے۔اس کا ایک شعر دیکھیے۔
روی بستانِ بنفشہ زلفِ لالہ رخ نمود۔ پر ز چشمِ نرگس و ابروی سیمین بر شود
غرض کہ اس قسم کے متعدد اشعار تمہید میں ملتے ہیں اور یہ عجیب بات ہے کہ خراسانی ممدوح کے متعلق جو قصیدے ہیں ان میں نہ تو ایسی طویل تمہید ہے اور نہ ایسی لطیف تشبیہات و استعارات۔لیکن جو قصیدے سید حسن نے غزنوی دربار میں لکھے ہیں وہ انھیں تصنعات سے پر ہیں۔جس سے ظاہر ہے کہ اس قسم کے اشعارغزنوی دربار میں پسند کیے جاتے تھے اور وہاں کا علمی وادبی ذوق خراسان سے بلند تھا گوکہ اس میں شک نہیں کہ خراسان کی زبان اس زمانے میں ٹکسالی سمجھی جاتی تھی۔‘‘ (۲۱)
ڈاکٹرصاحبؒ نے حسن کے متعدد قصائد سے مثالیں دی ہیں اور ان کی دل کشی، دل آویزی، اوصاف نگا ری، رنگینی و لطافت، ندرت و جدت، روانی، برجستگی، تشبیہات واستعارات کی فراوانی کا بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’تخلص میں بھی بر جستگی ہے لیکن دعائیہ اشعار میں کوئی گدایا نہ استدعا یا خوشامد نظر نہیں آتی۔اس کی وجہ کچھ تو یہ ہوگی کہ شاعر کو اکثر وبیشتر نوازا گیا ہوگا۔کیوں کہ اس کے یہاں بہت کم ممدوح کی بے التفاتی کا ذکر ملتا ہے اور دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ شاعر کو اپنے فضل وکمال کا احساس ہے اور خودی کا بھی پاس ہے۔‘‘ (۲۲) سید حسن کی تقلید میں کئی شعرا نے قصیدے لکھے ہیں جن کی مثا لیں ڈاکٹر صاحب نے دی ہیں اورلکھا ہے: ’’اس کے ایک قصیدے کے متعلق دولت شاہ کا خیال ہے کہ اسی سے فخریہ قصیدے کی ابتداہوئی ہے۔‘‘ (۲۳) ڈاکٹر صاحبؒ نے سید حسن سے پہلے کے شعرا کے قصائد کے نمونے بھی دیے ہیں جن کی تقلید اس نے کی ہے لیکن اپنے قصائدمیں تشبیہات، استعارات، جدتِ طبع، رعایتِ لفظی ومعنوی اور صنعتِ تضاد سے وہ کمال پیدا کیا ہے کہ ان تمام شعرا سے اس کا مقام بلند نظر آتا ہے۔
سید حسن کے یہاں سولہ ترجیع بند اور دو ترکیبِ بند ملتے ہیں۔جن کاہر بندہمیشہ سات شعر کا ہے اور بندوں کی تعداد تین سے لے کر نو تک ہے۔اس طرح مجموعی اشعار ۷۴۲ ہوتے ہیں۔ان اصنافِ سخن کی ابتدا بھی غزنوی دور (فرخی) سے ہوتی ہے۔لیکن شاید سب سے پہلا نعتیہ ترجیع بند حسن ہی نے لکھا تھاجب ۵۴۶ھ کے اوائل میں وہ مدینہ طیبہ پہنچتا ہے تو وہ سات بند کا ایک ترجیع بند پڑھتا ہے۔بقیہ پندرہ ترجیع بند سنجر کے وزیر، سلجوقی سلاطین اور غزنوی دربار سے تعلق رکھتے ہیں اور دو نوں ترکیبِ بند غزنوی دربار سے متعلق ہیں۔ (۲۴) سیدحسن کے یہاں قطعات بھی متعددملتے ہیں، جن کے اشعار کم از کم ساڑھے تین سو ہو ں گے۔ان میں مختلف ممدوحین کی مدح اور مختلف واقعات کا حال ملتا ہے، بعض قطعات میں وہ دنیا والوں سے بیزار نظرآتا ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ اس کے فضل وکمال کی وجہ سے لوگ اس کے دشمن اور حاسد تھے۔ایک رباعی میں یہ بھی کہتا ہے۔
یک دوست توئی وصد ہزاران دشمن (۲۵)
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں: ’’اس قسم کے مضامین نظر آتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر کی زندگی مدح سرائی کے باوجود بے جاحرص وآز سے پاک تھی اوردنیوی مکروہات سے بے نیازتھی۔وہ زمانے کے معمول کے خلاف ہجو نگاری سے پرہیز کرتا تھا۔‘‘ (۲۶)
جہاں تک غزل کے اصل موضوع یعنی داستانِ حسن وعشق کا تعلق ہے۔شاعر یہاں بھی فن کی بلندیوں پر نظر آتا ہے۔ڈاکٹر صاحبؒ نے قدیم غزل گو شعرا میں سے رودکی (۳۱۹ھ۔۱۹۴۱ء) ، دقیقی طوسی (م۳۴۱ھ۔۹۵۲ء) کی غزلیات میں سے مثالیں دی ہیں اور بتایا ہے کہ اس دور کی غزل میں تسلسل اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ طرزِ بیان اور خیالات سادہ ہیں۔کوئی خاص تصنع نہیں ہے۔غزنوی عہد کی غزلوں میں سے خود سلطان محمود غزنوی کی ایک غزل’’بزم آرا‘‘ کے حوالے سے نقل کی ہے اورمزید کہتے ہیں: ’’اس میں محمودی اوصاف پائے جاتے ہیں۔تشبیہات واستعارات میں لطافت ہے لیکن جذبات کی فراوانی ایک شاہانہ عاشق کے یہاں کیوں کر ہوگی؟‘‘ (۲۷) اس کے بعدعنصری (م۴۳۲ھ ۔۱۰۴۰ء) اورمسعودسعدسلمان (۵۱۵ھ۔۱۱۲۱ء) کی غزلیات سے نمونے دیے ہیں اور لکھا ہے: ’’مضامین میں تسلسل اور ہم آہنگی ہے لیکن خیالات میں تکلف اور تصنع نہیں ہے۔‘‘ (۲۸)
اس تحقیق کے بعد ڈاکٹر صاحبؒ سید حسن کے مشہور ہم عصر سنائی (م۵۴۵ھ۔۱۱۵۰ء) کے لیے لکھتے ہیں: ’’غزل اس کے یہاں ایک نئی کروٹ لیتی ہے۔لیکن سید حسن کے یہاں بھی خمریات اور مستی کے مضامین ملتے ہیں۔چناں چہ یہ فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کہ ان دونوں میں پہلے کس نے ابتدا کی۔‘‘ (۲۹)
سید حسن نے اپنے الفاظ وبحور کا انتخاب اس صنفِ سخن کے لیے اس طرح کیا ہے کہ اس سے اس کی مہارت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔اس کےیہا ں۷۰۔۷۵ غزلیں ہیں جن میں تقریباً سات سو اشعار ہیں اور وہ سب کے سب اس کے قلبی واردات کے ترجمان ہیں۔ڈاکٹر صاحبؒ لکھتے ہیں: ’’اگر غزل سے حقیقی اور ذاتی جذبات ہی کا تعلق ہونا چاہیے اور وہ قصیدے کے تصنعات سے آزاد ہے تو ہم کو یہ کہنے میں تامل نہیں ہے کہ سید حسن نے تقریباً۵۰ سال کی مدح سرائی کے باوجود غزل اپنے لیے لکھی اور اپنے دلی جذبات کے لیے اسے وقف کیا ورنہ اس طرح صاف صاف نہ کہتا:
عشق بازی صدم افزون افتاد۔لیک زین سان نہ کہ اکنون افتاد
اس شاعر کے قصائد میں تشبیہات واستعارات اور دوسرے صنائع کی فراوانی دیکھتے ہیں لیکن غزل میں حقیقت نگاری ہے۔اس لیے سادگی وسلاست پائی جاتی ہے۔تصنعات ہیں بھی تو بہت کم ہیں۔اس کے علاوہ غزل میں مضمون کا تسلسل جو سعدی کے یہاں عام ہے وہ سید حسن کے یہاں پہلے سے موجود ہے دیکھیے کس قدر ربط اور تسلسل اس غزل میں ہے:
منم در عشقِ تو جانا وجانی ۔ کشیدہ پوستے بر استخوانی
نہ جز گریہ مرا پشت وپناہی۔نہ جزنالہ مرا نام و نشانی
اس کے یہاں حقیقی جذبات اور دلی واردات جو غزل کی جان ہیں بدرجہ اتم موجود ہیں۔‘‘ (۳۰)
ڈاکٹر صاحب مزید لکھتے ہیں: ’’اس کے یہاں تصوف کی چاشنی بھی ہے اور سعدی کی طرح یہ بھی ہر چیز کومعشوقِ ازلی سے متعلق دیکھتا ہے۔چند شعردیکھیے:
قمری اندر بہار یارِ من ست۔مونسِ نالہ ہای زار من ست
فاختہ طوقِ عشق بر گردن ۔ در غم دوست غم گسار من ست
اس قبیل کی کئی غزلیں ہیں جن میں شاعر ہمہ اوست کا دم بھرتا ہے اور ہر جگہ اپنے معشوق کا جلوہ دیکھتا ہے۔‘‘ (۳۱)
اس کے یہاں غزل میں سادگی وسلاست ضرور ہے لیکن ساتھ ہی قوتِ متخیلہ کے ایسے بلندنمونے بھی ملتے ہیں جو اس کے معاصرین میں بہت کم ہیں ۔ یہ شعر دیکھیے:
ای کہ گل جامہ زرنگِ رخ تو چاک زدہ ست۔ جان ببوی تو نواہای طرب ناک زدہ ست
اس کے علاوہ رواج کے مطابق اس کی غزلوں میں بادشاہ کا نام بھی آجاتاہے۔‘‘ (۳۲) ڈاکٹر صاحب نے اس کی ایک غزل کے لیے لکھاہے: ’’اس پر متاخرین کی غزلیں بھی قربان ہیں۔‘‘اس غزل کے یہ شعر دیکھیے:
ای آرزو ی دیدۂ بینا چگونۂ ۔ وی یار ومونسِ دلِ تنہا چگونۂ
از ناز ونازکی اگر این جا نہ آمدی۔باری یکی بگوی کہ آن جاچگونۂ (۳۳)
ڈاکٹر صاحبؒ نے کئی شعرا کے کلام سے مثالیں دی ہیں ۔جنھوں نے اس زمین میں سید حسن کی تقلید کی ہے اور لکھا ہے: ’’اس کے لیے یہ فخر کیا کم ہے کہ کئی قصیدوں اور غزلوں میں اس کے متعدد مقلد ین نظر آتے ہیں۔‘‘ (۳۴)
ڈاکٹر صاحبؒ نے شاعر کے کلام سے کئی رباعیات کی مثالیں بھی دی ہیں اور لکھا ہے: ’’تاریخ جیسے خشک مضا مین سے لے کر مدحیہ مضامین تک سب اس کی رباعی میں ملتے ہیں۔‘‘ (۳۵) رباعیات اور دو بیتی میں لطافت، جدت، ندرت، حسنِ تعلیل، لطیف جذبات اورحسرت ویاس سے شاعر نے کمال پیدا کر دیا ہے۔تشبیہات اورحسنِ تعلیل کا ایک اور مجموعہ اس ’’دو بیتی‘‘ میں دیکھیے:
از رنگِ لبِ تو لالہ پرتاب شدہ ست۔ نرگس زپیِ چشم تو بی خواب شدہ ست
از رشک خطت بنفشہ در تاب شدہ ست۔وزآتشِ رخسار توگل آب شدہ ست (۳۶)
ڈاکٹر صاحبؒ نے محقیقین کے لیے ذوقِ تحقیق کو لازمی قرار دیا ہے۔ (۳۷) سید حسن غزنوی پر ان کی تحقیق کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اس ضمن میں پیش آنے والی تمام مشکلات کا بحسن وخوبی سامنا کیا ہے۔ حواشی سے معلوم ہوتا ہے کہ شاعر کے کلام کا جو نسخہ بر ٹش میوزیم میں ہے اس میں اور دوسرا نسخہ جو انڈیا آفس میں ہے ان دونوں کے اشعار میں جو معمولی فرق تھا اس کی اصلاح کے لیے ڈاکٹر صاحبؒ نے متعدد اکابرین کو لکھا تھا لیکن کہیں سے مدد نہ مل سکی تھی۔ (۳۸) اسی طرح ایک قصیدے کی زمین کی تصدیق کے لیے کہ اس کا موجد مسعود سعد سلمان ہی ہے، ڈاکٹر صاحبؒ نے کئی مطبوعہ اور قلمی نسخے اور کئی کتب خانوں میں اسے تلاش کیا لیکن اس سےمنسوب اس زمین کاکوئی قصیدہ نہیں ملا۔ (۳۹) ڈاکٹر صاحب ؒکی یہ تحقیق ایک مثا لی ہے کہ حقائق کی تلاش میں دشواریوں کا سامناکرنا، اردو کے علاوہ دیگر زبانوں سے واقفیت، کتبِ تواریخ پر نظر اور ضروری مواد تک رسائی لازمی ہے اور یہ ’’تحقیق کے بنیادی لوازم‘‘میں سے ہیں۔
مآخذ
۱۔ غلام مصطفٰے خان، ڈاکٹر، تاریخِ اسلاف (حیدرآباد: اشاعتِ اوّل: ۱۳۸۳ھ؍۱۹۶۴ء) ناشر کا نام درج نہیں
۲۔ غلام مصطفٰے خان، ڈاکٹر، نواب محمد حبیب الر حمن خان شروانی مشمولہ طوبی لھم (حیدرآباد: رائل بک ڈپو۔۱۴۱۵ھ، ۱۹۹۵ء)
۳۔ غلام مصطفٰے خان، ڈاکٹر، تحقیق کے بنیادی لوازم، مشمولہ سراج البیان (کراچی: گابا سنز، ۱۹۹۲ء)
۴۔غلام مصطفٰے خان، ڈاکٹر، تنقید وتحقیق، مرتبہ ڈاکٹر اسلم فرخی (کراچی: فضلی سنز، اپریل ۲۰۰۱ء)
۵۔مکتوباتِ نواب محمد حبیب الرحمن خان شروانی بنام امتیاز علی خان عرشی مشمولہ نقوش مکاتیب نمبر: ۶۵، ۶۶ مرتب، محمد طفیل (لاہور: ادارہ فروغِ اردو نومبر ۱۹۵۷ء)
۶۔غلام مصطفٰے خان، ڈاکٹر، سید حسن غزنوی۔حیات اور ادبی کارنامے، (لاہور: ادارہ یادگارِ شیفتہ بہ اشتراک پاکستان رائٹرس کوآپریٹو سوسائٹی، ۱۴۱۹ھ، ۱۹۹۸ء)
حواشی
۱۔غلام مصطفٰے خان، ڈاکٹر، تحقیق کے بنیادی لوازم، مشمولہ سراج البیان (کراچی: گابا سنز، ۱۹۹۲ء) ص۲۱۳
۲۔ ایضاً، ص ۲۱۴
۳۔غلام مصطفٰے خان، ڈاکٹر، تنقید وتحقیق، مرتبہ ڈاکٹر اسلم فرخی (کراچی: فضلی سنز، اپریل ۲۰۰۱ء) ص۱۰
۴۔غلام مصطفٰے خان، ڈاکٹر، تاریخِ اسلاف (حیدرآباد: اشاعتِ اوّل۱۳۸۳ھ، ۱۹۶۴ء ناشر کا نام درج نہیں ہے) ص۱۷، ۱۸
۵۔ غلام مصطفٰے خان، ڈاکٹر، حسن غزنوی ۔حیات اور ادبی کارنامے (لاہور: ادارہ یادگارِ شیفتہ بہ اشتراک پاکستان رائٹرس کو آپریٹو سوسائٹی۱۴۱۹ھ، ۱۹۹۸ء) ص۶
۶۔مکاتیبِ حبیب الرحمن خان شروانی بنام امتیاز علی خان عرشی مشمولہ نقوش مکاتیب نمبر۶۵، ۶۶ مرتب: محمد طفیل (لاہور: ادارہ فروغِ اردو نومبر، ۱۹۵۷ء) ص۲۷۵
۷۔ایضاً
۸۔غلام مصطفٰے خان، ڈاکٹر، نواب محمد حبیب الر حمن خان شروانیؒ مشمولہ طوبی لھم (حیدرآباد: رائل بک ڈپو، ۱۴۱۵ھ، ۱۹۹۵ء) ص۳۴، ۳۵
۹۔ غلام مصطفٰے خان، ڈاکٹر، حسن غزنوی۔ حیات وادبی کارنامے (لاہور: ادارہ یادگارِ شیفتہ بہ اشتراک پاکستان رائٹرس کو آپرئیٹو سوسائٹی ۱۴۱۹ھ، ۱۹۹۸ء) ص۹ ۱۰۔ ایضاً، ص۷، ۸
۱۱۔ ایضاً، ص۱۷۴ تا ۱۷۷
۱۲۔ایضاً، ص ۷
۱۳۔ ایضاً، ص۸، ۹
سید حسن غزنوی، بہرام شاہ غزنوی کے درباری شاعر تھے ۔ اسی تعلق سے ایک بات کا ذکر ضروری ہے کہ ایک مرتبہ وہ اپنے کچھ کاغذات مجھ سے نکلوارہے تھے تو ان کاغذات میں تذکرہ دولت شاہ بن بہرام شاہ کا انگریزی ترجمہ (غیر مطبوعہ) رکھا تھا۔ میں نے ان سے اجازت لی کہ اسے ان ہی کی لکھائی میں چھپوادیا جائے تاکہ محفوظ ہوجائے۔تذکرۂ دولت شاہ کا یہ ترجمہ ۲۰۰۴ء میں (کراچی: پیرا ماؤنٹ پرنٹرز اور پبلشرز) Literal English Translation of the First Chapter of Poet's Biographies by Daulat Shah کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔اس کے پہلے صفحے پر ڈاکٹر صاحب نے یادداشت کے طور پراپنے دستخط کے ساتھ لکھا ہے: ’’جب میں علی گڑھ میں ایم ۔اے کا طالب علم تھاتو استاذی ڈاکٹر ہادی حسن صاحب نے فرمایا کہ تم تذکرہ دولت شاہ کا فارسی سے انگریزی میں ترجمہ کرو۔ان کے ارشاد کے مطابق اس تذکرہ کا کچھ حصّہ ۹نومبر۱۹۳۴ء میں مکمل کیا۔یعنی فارسی نثر کاانگریزی نثر میں اور فارسی شعر کا اکثر انگریزی شعر میں ترجمہ کیا۔‘‘
۱۴۔ایضاً، ص۱۱ تا ۲۱
۱۵۔ایضاً، ص۱۶۷
۱۶۔ ایضاً، ص۱۶۹
۱۷۔ایضاً، ص۱۷۸
ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون’’فارسی پر اردو کا اثر‘‘ (معارف فروری تا مارچ۱۹۴۱ء) میں فارسی کے متقدمین اور متوسطین شعرا کے کلام سے اردو الفاظ جمع کیے ہیں۔
۱۸۔ایضاً، ص۱۷۹
۱۹۔ ایضاً، ص۲۳
۲۰۔ ایضاً، ص۲۳۹ تا ۲۴۱
۲۱۔ایضاً، ص۲۴۲
۲۲۔ایضاً، ص۲۵۶
۲۳۔ ایضاً، ص۲۰۴
۲۴۔ ایضاً، ص۲۵۹ تا ۲۶۲
۲۵۔ایضاً، ص۶۶۲
۲۶۔ایضاً، ص۲۶۹
۲۷۔ایضاً، ص۲۷۲
۲۸۔ایضاً، ص۲۷۲ تا ۲۷۳
۲۹۔ایضاً، ص۲۷۵
۳۰۔ایضاً، ص۲۷۸
۳۱۔ایضاً، ص۲۸۱
۳۲۔ایضاً، ص۲۸۲
۳۳۔ایضاً، ص۲۸۴
۳۴۔ایضاً، ص۲۸۵
۳۵۔ایضاً، ص۲۸۸، ۲۸۹
۳۶۔ ایضاً، ص۳۴۳
۳۷۔غلام مصطفٰے خان، ڈاکٹر، تحقیق کے بنیادی لوازم، مشمولہ سراج البیان (کراچی: گابا سنز ۱۹۹۲ء) ص۲۱۲ تا ۲۱۴
۳۸۔غلام مصطفٰے خان، ڈاکٹر، سید حسن غزنوی ۔حیات اور ادبی کارنامے (لاہور: ادارہ یادگارِ شیفتہ بہ اشتراک پاکستان رائٹرس کو آپریٹو سوسائٹی ۱۴۱۹ھ، ۱۹۹۸ء) ص۳۲۲، ۳۲۳
۳۹۔ایضاً، ص۳۳۲
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |