تعارف
مملکت پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے آثار اس کے معاشرے میں اس وقت تک عیاں تھے جب تک مرد و زن میں ایثار و قربانی اور اپنی اپنی ذمہ داریاں یعنی خاوند بطریقِ حلال اکتسابِ معاش کی فکرکرتا جبکہ زوجہ اپنے خاوند کی خدمت ،گھر کے مال و متاع کی حفاظت نیز بچوں کی پرورش اور تربیت کرنے کو اپنی ذمہ داری اور خاوند کا حق سمجھا کرتی تھی۔ لیکن جب دین سے دوری،حقوق و فرائض سے غفلت، اپنے تہذیب و ثقافت سے دوری،فلموں،ڈراموں اور مغربی تہذیب کی اندھی تقلید نیز موبائل فون،انٹرنیٹ ،سماجی روابط کے ذرائع نےشہوانی جذبات اور ہوس کو اس حد تک ابھارا کہ ان جذبات کی تکمیل کے لیے نہ حلال دیکھا جاتا ہے اور نہ حرام بلکہ جنسی لذت اور سفلی جذبات کی احسن طریق پر ادائیگی جملہ حقوق و فرائض سے نا صرف غافل بلکہ ایسی تعلیمات اور نصائح اکتاہت و بیزاری کا سبب معلوم ہوتی ہیں۔ جس کا لازم نتیجہ عدم برداشت،ذہنی تناؤ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور ہر وہ محرک جو اسے ناجائز جنسی تعلق یا ناحق عیاشی سے روکے، اس کو بالائے طاق یا ختم کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا ۔یہاں تک کہ اگر بیوی جو اپنی عائلی ذمہ داری ادا کر بھی رہی ہویا خاوند اپنی طرف سے حقوق ادا ہی کیوں نہ کر رہا ہو لیکن ہوس کی پیاس چونکہ حرام سے بجھانے کی عادی ہو چکے ہیں،لہٰذا اپنے ہوس و خواہشات سے مغلوب ہوکر ،ناعاقبت اندیش مرد و زن طلاق جیسے امرِ عظیم کو بغیر سوچے سمجھے یک لخت دینےکو تیار ہو جاتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ گھریلو اور خاندانی اختلافات،نشہ،ذرائع ابلاغ اور سماجی روابط وغیرہ جیسے وجوہات کے سبب ہمارے معاشرے میں طلاق کی شرح روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔
پاکستان میں طلاق کی صورتحال
ہمارے ملک میں گزشتہ دو دہائیوں سے طلاق کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے،انگریزی اخبارPakistan today میں۲۶ جون ۲۰۱۱ءمیں شائع اعداد و شمار کے مطابق صرف لاہور شہر کے فیملی کورٹ میں تقریباً یومیہ ایک سو (۱۰۰)کیسز رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔جبکہطلاق کےخصومات صرف اونچے گھرانوںمیں ہی نہیں بلکہ متوسط اورغریب گھرانوں میں بھی بڑھتے جارہےہیں۔ فروری ۲۰۰۵ءتا جنوری ۲۰۰۸ءتک تقریباً پچھتر ہزار (۷۵۰۰۰)طلاق کے کیسزز رجسٹرڈ ہوئے۔(۱) اسی طرح آبادی کے لحاظ سے بڑے شہروں میں شمار ہونے والے فیصل آباد میں پچھلے ۵ سال کے دوران طلاق و خلع کے واقعات کی تعداد کا شمارہ کچھ یوں ہے:
نمبر شمار |
سال |
طلاق و خلع کے واقعات |
۱۔ |
۲۰۱۰ء |
۸،۰۲۴ |
۲۔ |
۲۰۱۱ء |
۹،۴۷۵ |
۳۔ |
۲۰۱۲ء |
۹،۸۵۶ |
۴۔ |
۲۰۱۳ء |
۵،۷۱۱ |
۵۔ |
۲۰۱۴ء |
۱۳،۴۳۷ |
|
پانچ سالہ کل واقعات |
۴۶،۵۰۳(۲) |
ایک محتاط سروے کے مطابق ہمارے وطنِ عزیز میں سال ۲۰۱۵ ءمیں ۲۰۱۴ءکے مقابلے میں طلاق کی شرح میں ۳۰ فیصد اضافہ ہوا ہے ۔(۳)
Journal of Pioneering Medical Sciencesجسے عام طور پرJournal of Pakistan Medical Studentsبھی کہا جاتا ہے کے اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۱۰ءمیں صرف کراچی میں تقریباً۴۰،۰۰۰طلاق و خلع کے خصومات کا اندراج ہوا۔اور ۲۰۱۳ءمیں گجرانوالہ شہر میں تقریباً ۵،۰۰۰ طلاق کے خصومات کا اندراج ہوا۔(۴)
THE EXPRESS TRIBUNEمیں شائع ایک آٹیکل کے مطابق کراچی شہر میں مورخہ ۳۱ دسمبر ۲۰۱۶ء میں صرف خلع کے۱۲،۷۳۳خصومات عائلی عدالتوں میں زیر سماعت تھیں۔(۵)
مشہور انگریزی اخبار The Nationکے مطابق:صرف پنجاب میں۲۰۱۲ءمیں خلع کے ۱۳،۲۹۹خصومات درج ہوئے جن کی تعداد بعد میں بتدریج اضافہ کےساتھ۲۰۱۳ءمیں۱۴،۲۴۳جبکہ۲۰۱۴ءمیں۱۶،۹۴۲اور۲۰۱۶ءمیں۱۸،۹۰۱ہوگئی۔(۶)
مندرجہ بالا اعداد و شمار میں تقریباً ہرسال ہونے والا اضافہ مستقبل میں پاکستانی خاندانی نظام کے لیے خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں۔لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ فی الفور ایک جامع سروے کے ذریعے ایسے ممکنہ اسباب و وجوہات کا جائزہ لیا جائے کہ جن سے عمومی طور پر طلاق واقع ہوتی ہیں۔ اسباب و علل سے آ گاہی کے بعد ایسے جامع حکمتِ عملی کے تحت منصوبہ بندی کی جائے کہ جس کے ذریعے سے طلاق کے جملہ اسباب و علل کی بیخ کنی کی جائے ۔ان وجوہات کے استحصال و اصلاح کی عملی جدوجہد ہر اس شعبے میں کی جانی چاہیے کہ جس سے عام آدمی منسلک ہو تا ہے۔
ہمارے معاشرے میں عمومی طلاق کے اسباب
ہمارا معاشرے اکثریتی طور پرمسلم افراد پر مشتمل ہے لیکن اسلام کے اصولوں سے ہٹ کر ایک بڑی تعداد اپنے خاندانی رسوم و رواج کا پابند ہوتا ہے جبکہ اکثر پڑھے لکھے لوگ یا اپنے خاندانی رسوم سے باغی لوگ زیادہ تر مغربی تہذیب کے دلدادہ بن جاتے ہیں۔ ایک قلیل سی تعداد اپنی زندگی کے تمام معامالات کو اسلامی اصولوں کے تحت گزارتی ہے۔ ان تمام افراد پر مشتمل معاشرے میں عام مشاہدے میں آنے والے عمومی طلاق کے اسباب جنہیں ہم نمبر وار رقم کرینگے ،ان میں سب سے زیادہ اہم سبب دین سے دوری ہے۔
(۱) دینی تعلیم وتربیت کا فقدان
ہمارے معاشرے میں اسلامی اصولوں پر تعلیم کی طرف رجحان کچھ نہ کچھ موجود ہے لیکن تربیت ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے دیندار گھرانوں میں بھی آداب و اخلاق کی عملی صورت نظر نہیں آتی،جہاں بڑوں کا ادب ،چھوٹوں پر شفقت نیز گفتار و کردار میں اعتدال اور کھانے ،پینے،بولنے،نشت و برخاست اورلین دین میں آداب کو ملحوظ رکھا جاتا ہو۔اگر بچپن ہی سے والدین گھر کا ایسا ماحول بنائیں کہ جہاں اسلامی آداب و اخلاق کاعملی طور پر مظاہرہو نیز والدین اپنے تصفیہ طلب امورکوتحمل کے ساتھ بیٹھ کر باہمی گفت و شنید کے ذریعے بغیر ناشائستہ کلمات کے استعمال کیئے حل کریں تو بچوں میں غیر ارادتی طور پر مذکورہ اخلاقی امور پیدا ہوجاتے ہیں۔ایسے اخلاق زندگی میں سخت معاملوں میں بھی فیصلے قاعدے اورقانون کے موافق کرنے میں معین و مدد گار ہوتے ہیں۔لہذا طلاق دینے کی نوبت بہت کم پیش آتی ہے۔اسی طرح بچیوں کی تربیت میں جہاں اسکول و کالج وغیرہ میں تعلیم دی جاتی ہے وہاں شرم و حیا پر مبنی دینی تعلیم و تربیت اورایثار و قربانی پر مشتمل ہماری مشرقی ریت و رواج والی تربیت بھی بے حد ضروری ہے۔کیونکہ ہمارے معاشرے میں عام طور پر عورت سےصبر وتحمل ،ایثار و قربانی کی توقع کی جاتی ہے۔
اسلام نے نکاح کے مقدس بندھن کو تاحیات قائم و دائم رکھنے کی ترغیب دی ہے جبکہ طلاق کو ابغض المباح یعنی جائز امور میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ناپسند یدہ عمل کہا گیا ہے۔جوشخص اللہ سے ڈرتا ہو اور اسے مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہو کر ہر معاملے کے حساب دینے کا یقین ہو تووہ کبھی ظلم نہیں کرے گا ۔اگر بامر ِمجبوری ظالم یا مظلوم بننا ہی پڑے تو مؤمنِ کامل مظلوم تو بن جاتا ہے لیکن ظالم کبھی نہیں بنتا۔اگر ایسے اوصافِ حمیدہ کا حامل شخص اپنی زوجہ کی ترش روی یا نافرمانی کا شکار ہو تو جب تک صریح فحاشی کا ثبوت نہ ہو یا کوئی بے حیائی کا فعل سرزد نہ ہوا ہو ، تب تک صبر و تحمل سے سلسلہ ٔازدواجیت کو نبھانے کی بھرپور کوشش کرے گا تاکہ اس صبر و برداشت پر اسے آخرت کے بلند درجے مل سکیں۔
ایک دیندارشخص ہمیشہ حقوق کی ادائیگی کی طرف اور ظلم سے بچنے کی طرف اپنی توجہ مرکوز کیئے رہتا ہے ۔اسے ہوس، جنسی خواہشات کی تکمیل تمام ذمہ داریوں سے زیادہ عزیز نہیں ہوتی ہیں۔ اسی طرح تکبر،انا،ضد یا بے جا غصہ اور مغربی آزادانہ خیالات اس کے مزاج پر زیادہ اثرانداز نہیں ہوتے ، جس کی وجہ سے وہ ہر مسئلے میں اصولِ دین کی پیروی کا خود کو مکلف سمجھتا ہے اور ان ہی احکامات کی بجاا ٓوری پر مامور رہتا ہے کہ جن کے بارے میں روزِ قیامت بازپرس کی جائے گی۔اور اگر کسی مسلمان میں بہت زیادہ تقویٰ نہ بھی ہوبلکہ فقط ضروریاتِ دین سے روشناسی ہو تب بھی یک بارگی تین طلاق دینے سے تو باز ہی رہے گا اور بامرِ مجبوری اور بوقتِ ضرورتِ شدیدہ طلاق دینی بھی ہو تو شرعی طریقے کے مطابق فی الفور طلاق نہیں دے گا بلکہ پہلے خود زوجہ کو سمجھانے کے بعد اپنے بڑوں کو صلح کے لیےکہے گا جیسا کہ حکم خداوندی ہے:
وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَافَابْعَثُواحَكَمًامِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًامِنْ أَهْلِهَاإِنْ يُرِيدَاإِصْلَاحًايُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا۔(۷)
’’اور اگر تم لوگوں کو معلوم ہو کہ میاں بیوی میں اَن بَن ہے تو ایک منصف مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف عورت کے خاندان میں سے مقرر کرو۔‘‘
اگر بڑے بھی صلح نہ کر اسکے تو معلوم کیا جائے گا کہ ابھی زوجہ کے حیض کا زمانہ ہے یا طہر کا ؟اگر حیض کا زمانہ ہے تو پھر انتظار کرے گا اور اگر طہر کا زمانہ ہے تو پھر یہ دیکھے گا آیا اس طہر کے زمانے میں ہمبستری کی ہے یا نہیں اگر کی ہے تو پھر انتظار کرے گا یہاں تک کہ حیض آئے اور پھر حیض کے بعد طہر آئے۔اور اگر ایسا طہرہے کہ جس میں ہمبستری نہ کی ہو تب بھی صرف ایک ہی طلاق دے گا۔پھر اسے تقریباً تین مہینے تک سوچنے کا موقع ملے گا اوراگر ان تین مہینوں میں مطلقہ زوجہ سے رجوع نہ کیا تو نکاح ٹوٹ جائےگا ۔ لیکن جب بھی چاہےخاوند اسی عورت سے دوبارہ نکاح کے ذریعہ ازدواجی تعلقات کو قائم کر سکتا ہے۔
اب ذرا سوچیں اسلام نے جو طریقہ طلاق کا بیان کیا ہے اس میں اتنے قیودات لگائے کہ کوئی بھی شخص جذباتی کیفیت میں طلاق نہ دے سکے بلکہ مکمل غور و فکر کے بعد ہی ایسے طریقے پر طلاق دے گا کہ رجوع کرنا ممکن ہو۔ رجوع عدت کے دوران نکاحِ قدیم کے ساتھ اور عدت کے خاتمے کی صورت میں نکاح ِ جدید کے ساتھ ہوگا۔اگر دینی تعلیم وتربیت ہمارےمعاشرے کے ہر ہر فرد کو میسر ہوتو کافی حد تک ناحق طلاق دینے سے بچا جا سکے گا، جس سے معاشرے میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح میں واضح کمی آئے گی۔
(۲) گھریلو اورخاندانی اختلافات
ہمارے معاشرے میں ایک خاندانی نظام جہا ں کوئی شخص اپنے والدین اور بیوی بچوں کے ساتھ رہتا ہو اسے بہت اچھا سمجھا جاتاہے۔بزرگوں کی خدمت اور ان کے مشفقانہ سایہ میں رہنا باعث اطمینان وسکون اوربا برکت سمجھا جاتا ہے، لیکن عام طور پر ساس بہو،نندبھابی،دیورانی جیٹھانی اوردیور بھابی جہاں ہمارے گھریلو رشتے کہلاتے ہیں وہاں اختلافات و طلاق کا ذریعہ بھی بن جاتے ہیں۔ایک شادی شدہ خاتون سے صرف اپنے خاوند ہی کو نہیں بلکہ ساس،سسر، نند،دیورانی اور جیٹھانی کو بھی خوش اور راضی رکھنے کی توقع کی جاتی ہے۔اب ظاہر ہے اتنے لوگوں کی توقعات پر پورا اترنا بہت ہی مشکل ہے ماسوائے اس کے کہ خاوند اور زوجہ علیحدہ رہائش اختیار کر لیں اوردونوں طرف کے رشتہ داروں سے رشتے نبھاتے رہیں۔
والدہ اپنے بیٹے سے شادی کے بعد امیدرکھتی ہے کہ جسے بچپن سے پالا پوسا،جس کی خدمت کی اب وہ اپنی والدہ کی خدمت کرے گا۔اسے ذرا برابر بھی بیٹے کی میلانیت بیوی کی طرف اچھی نہیں لگتی۔لہٰذا عام طور پر والدہ بہو لانے کے بعد اپنے بیٹے کو کچھ زیادہ ہی نظر میں رکھتی ہیں کہ پہلے تو ایسے نہ تھا اب ایسے ہو گیا ہے، پہلے تو میرے پاس اتنی اتنی دیر بیٹھا رہتا تھا اب وقت نہیں دیتا وغیرہ وغیرہ۔دوسری جانب خاوند سے بیوی مطالبہ کرتی ہے کہ میں اپنے والدین کو چھوڑ کر صرف خاوند کے لیے آئی ہوں اور شوہر اپنی والدہ کے پاس سے ہٹتا ہی نہیں دن بھر انتظار اور رات کو بھی انتظار۔بہنوں بھائیوں کا شکوہ رہتا ہے کہ بھابی کے آنے کے بعد اب بھائی ہمارا نہیں رہا۔جیٹھانی اور دیورانی دونوں میں دیگر گھر والوں کی ہمدریاں اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے بھر پور کوششیں کی جاتی ہے۔جس آشیانے میں کئی بہن بھائی اکھٹے رہتے تھے اب بھابیوں کے آنے کے بعد ماحول یکسر تبدیل ہوجاتاہے۔ ایسے واقعات آئے دن اخبارات و رسائل کی زینت بنتے ہیں کہ ساس نے بہو کو یا بیوی نے شوہر کو یا دیور نے بھابی کو قتل کر دیا۔
خاندانی نظام میں اگر بعض حقائق کو تسلیم کر لیا جائے توامید ہے کہ زیادہ بگاڑ کی نوبت نہیں آئے گی جیسے شادی کے بعد ایک شخص فطری طور پر اپنی زوجہ کو وقت زیادہ دیتا ہے، والدین اور بہن بھائیوں سے کچھ دور ی ہو جاتی ہے۔اگر گھر کے دیگر افراد اس حقیقت کو قبول کر لیں تو شکوہ نہیں رہے گاجیسے کوئی شخص حادثے کا شکار ہوجائے تو تشفی تک اسے خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن بیٹے کو بھی چاہیے کہ ابتدائی ایام گزارنے کے بعد کوشش کرے کہ اعتدال کے ساتھ والدین ،بہن بھائی اور دیگر رشتہ داروں کو گاہے بگاہے وقت دیتا رہے تاکہ گھر کے دیگر افراد کی دل جوئی ہو سکے۔
بہر حال سب کی طبیعتیں ایک جیسی نہیں ہوتی ہیں۔یہ امر یقیناً بہت مشکل ہے کہ ایک چھت تلے تمام رشتوں کو نبھایا جائے سوائے اس کےکہ انہیں ایثار و قربانی کے ساتھ چلا جائے۔والدین جب بڑھاپے کو پہنچ جاتے ہیں تو بچوں کی طرح کا توجہ چاہتے ہیں اور ان کی باتیں بھی بہت سخت ہوجاتی ہیں۔ اگر بہو یہ سوچے کہ کل ہمیں بھی بوڑھا ہونا ہے اور ہمیں بھی خدمت کی ضرورت ہوگی ،ہم بھی ضدی ہوجائینگے،ہمیں کون برداشت کرے گا؟ تو ممکن ہے کہ ان کی سخت باتیں برداشت کرنا آسان ہوجائے۔کیونکہ اگر گھر میں روشنی درکار ہو توکسی نا کسی کو تو مثلِ چراغ اجالے کے لیے جلنا ہی پڑے گا اور جب کوئی بھی جلنے کے لیے تیار نہ ہو تو اس گھر میں اندھیرے چھا جاتے ہیں۔
(۳) عدالتی نظام میں پیچیدگی اور بےقاعدگی
اسلامی تعلیمات کے مطابق طلاق کے وقوع کو امرِ عظیم سمجھا جاتا ہے اور ایسے وقوعِ طلاق سے ہر ممکن بچنے کی کوشش کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔نیز غیر شرعی طریقے پر طلاق دینے پر حکومتی کو از روئے شریعت تعزیراتی سزائیں بھی دینے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔جیسا کہ حضرت عمرؓ جو اپنے وقت کے امیر المومنین یعنی اسلامی حکومت کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے تین طلاق دینے والے کو کوڑے بھی مار دیا کرتے تھے۔(۸) تو اس سے معلوم ہوا کہ حکومت کو بھی تین طلاق یک مشت دینے جیسے گناہ سے باز رکھنے کے لیے اقدامات کرنی چاہیے۔ہمارے ملک کے دستورساز اسمبلی میں باوجو اکثریت مسلمانوں کی ہےلیکن بدقسمتی سے ان کی اکثریت اسلامی تعلیمات برائے عائلی قوانین سے نابلد ہیں۔اوّلاً عائلی قوانین میں غیر شرعی طریقہ سے دی گئی طلاقوں کے روکنے کے لیے ایسے قوانین وضع کرنے کی ضرورت ہے کہ جن کے سبب غیر شرعی طلاقوں کو روکا جاتا، لیکن بجائے روکنے کے عورت کو خلع کے معاملے میں بغیر خاوند کے حاضری کے بھی طلاق کا پروانہ جاری کردیاجا تا ہے، جس سے بہت سی خواتین استفادہ کرتی ہیں اور اپنے خاوند کے قید سے آزاد ہوجانے کی کوشش کرتی ہیں۔
وکلاءحضرات میں بجائے حق و انصاف کے فروغ کے لیے خدمات کی ادائیگی کے عام طور پر اپنے اس مقدس شعبے کو فقط پیسے کمانے کے ذریعہ کے طور پر متعارف کرانے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔کوئی خاتون اپنے خاوند سے ناحق خلاصی چاہتی ہو تو اسے یہ مشورہ بہت کم دیا جاتا ہے کہ وہ باز آئے ۔زیادہ تر بھاری فیس بتا کر اس کے خصم کو فنکاری کے ساتھ نیز جھوٹے رپوٹس یا گواہوں کے ذریعے حقیقت کے منافی بنا کر کیس جیتنے کے لیے جتن کئے جاتے ہیں تاکہ نیک نامی میں اضافہ ہو اور آئندہ بڑے بڑے کیس ملنے کی راہ ہموار ہو۔حد تو یہ ہے کہ قتل،چوری،بدکاری وغیرہ جیسے امور میں بھی وکلاءبھاری فیس لے کر باوجود جانتے ہوئے کہ ملزم ہی حقیقت میں مجرم ہے لیکن جھوٹی شہادتوں اور مختلف فرضی رپوٹس کے ذریعےاسے باعزت بری کر وادیتے ہیں۔ایسے واقعات ہمارے معاشرے میں بڑی حد تک رونما ہورہے ہیں جس کی وجہ سے لوگ عدالتوں سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں بلکہ یہ مقولہ مشہور ہے کہ اللہ کسی دشمن کو بھی عدالتی معاملات سے محفوظ فرمائے۔
اگر عدالتی نظام درست اور اصلاح پر مبنی ہواور اس مقدس پیشے کےتقدس اور ذمہ داری کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے اور وکلاءحضرات عوام کو حق اور انصاف دلانے کے لیے اپنا فرض ادا کریں تو مجرم کو سزا ہوگی اور بے گناہ باعزت بری ہوگا، ازدواجی تعلقات کو فروغ اورطلاق و خلع جیسے امور کے ذریعے نکاح کے خاتمے کی نوبت بہت کم آئے گی۔
(۴) وٹہ سٹہ
پاکستانی معاشرے میں طلاق کی ایک وجہ وٹہ سٹہ بھی ہے یعنی لڑکے والے جس جگہ رشتہ کر رہے ہوں تو اپنی لڑکی بھی لڑکی والوں کو دینا ضروری سمجھیں یا بغیر ضروری سمجھے دے دیں۔اس طرح جانبین سے نکاح کے لیے لڑکی دی اور لی جاتی ہے۔عربی زبان میں اسے نکاح کوشغار کہتے ہیں۔اہلِ عرب میں اس کا رواج تھا لیکن حضورﷺنے اس سے منع فرمایا جیسا کہ روایت ہے:
عن ابن عمر رضي الله عنهما:أن رسول الله ﷺ نهى عن الشغار. والشغار أن يزوج الرجل ابنته على أن يزوجه الآخر ابنته ليس بينهما صداق۔(۹)
’’ ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے شغار سے منع فرمایا ہے۔اورشغاریہ ہے کہ ایک شخص اپنی بیٹی کو کسی دوسرے شخص سے اس لیے کراتا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی اس سے کرائے اور مہر ان کےدرمیان میں نہ ہو۔‘‘
فقہائے کرام میں سے حنفیہ کے ہاں شغار جائز ہے بشرط یہ کہ لڑکی کے بدلے لڑکی کی شرط نہ لگائی جائے اورالگ الگ مہر مقرر کیا جائے اور اگر مہر مقرر نہ کیا گیا ہو تو مہرِ مثل لازم آتا ہے۔(۱۰) لیکن اس کے اثرات ہمارے معاشرے میں بہت ہی بُرے دیکھے گئے ہیں، پاکستانی دیہی علاقوں میں وٹہ سٹہ کے عنوان سے (World Bank Policy Research Working Paper)کے مطابق پاکستان میں عمومی طلاقوں اور وٹہ سٹہ کے سبب ہونے والی طلاقوں کی شرح میں کوئی خاص فرق نہیں۔(۱۱)
وٹہ سٹہ سے ہونے والی طلاقوں کی وجوہات میں سے ایک سبب دینداری اورتقویٰ کی کمی ہے اور دوسری علت یہ ہے کہ طبیعتوں میں موافقت ہونا یا نہ ہونا ایک فطری امر ہے ۔اپنے کسب سے ذہنی ہم آہنگی بنانا انسانی اختیار سے باہر ہے،لہٰذا اگر کسی کی بہن، بیٹی یا قریبی رشتہ دار خاتون کو اس کا خاوند طلاق دیتاہے تو پھر تمام خاندان والے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وٹے سٹے ( بدلے )میں لی ہوئی لڑکی کو بھی طلاق دی جائے اور اس قدر زور ڈالا جاتا ہےکہ خاوند کے لیے دوہی صورتیں رہ جاتی ہیں یا تو طلاق دے کر خاندان والوں کو راضی کرے یا پورے خاندان سے بغاوت کرکے جدا ازدواجی تعلقات کو برقرار رکھے۔
وٹہ سٹا کے اغراض میں سے ایک یہ ہے کہ لڑکی دینے والوں کو لڑکے کا بھی رشتہ مل جاتا ہے یا لڑکی لینے والوں کی ایک اپنی لڑکی بھی بیاہی جائے ۔ دوسرامقصد یہ کہ اگر ان کی لڑکی سے شادی کے بعد سسرال والے ٹھیک روش اختیار نہ کریں تو بدلے میں وہ بھی ان کی لڑکی کے ساتھ بدلے میں وہی رویہ رکھیں بلکہ بدلہ لیں۔(۱۲)
اگر کسی وجہ سے وٹہ سٹہ کی نوبت آہی گئی تو دونوں خاندانوں کے افراد کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ ایک گھر میں پیش آنے والے کسی واقعہ سے دوسرا گھر متاثر نہ ہو۔لیکن ایسے کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ ایک طرف بہو اور دوسری طرف بیٹی ہے اور جہاں بیٹی ہوتی ہے وہاں بہو کبھی بھی نہیں ہوسکتی (الا ماشاءاللہ) تو بیٹی پریشان ہو اپنے سسرال والوں کی وجہ سے تو بہو کی خوشی برداشت کرنے کے لیے بہت بڑا حوصلہ درکار ہوتا ہے۔ ماسوائے اس کے کہ کوئی شخص اتنا متقی ہو کہ اس کے جذبات تک شریعت کے تابع ہوں۔
(۵) ذرائع ابلاغ (میڈیا) کا کردار
الیکڑانک میڈیا نے دنیا میں جلد از جلد کسی بھی معلومات تک رسائی سے انقلاب برپا کیا ہے ۔اب دنیا کے کسی بھی کونے میں ہونے والے واقعہ کو عالمی طور پر تشہیر ہونے کے لیے چند سیکنڈ درکار ہوتے ہیں ۔ ذرائع ابلاغ کا فروغِ تعلیم و معلومات کے لیے ہونا ایک امر ِمستحسن ہے لیکن جب سے میڈیا میں تفریحی پروگرامات کی پزیرائی ہوئی ہے تب سے عالمی سطح پر فحاشی،عریان اور اخلاق شکن مواد کی بہتات نیز رومانوی محبت اور ہوس و شہوت کو اس قدر ابھارا گیا اور مغربی جنسی آزاد معاشرے اور ہندوستانی رقص و سرور اورمعاشرتی تہذیب کی آمیزش نے ہمارے پاکستان کے پاک معاشرے پر نہایت ہی بُرے اثرات ڈالے ہیں۔
جدید میڈیا نے ہمارے پاکیزہ معاشرے کو اخلاقی و معاشرتی گندگی سے آلودہ کر دیا ہے۔کئی خاندان کے مرد و زن جو میڈیا یعنی ڈراموں اور فلموں سے متاثر ہو کر بجائے خود پر لازم ازدواجی حقوق،اولاد کے حقوق و فرائض اور ان کی تربیت کی ذمہ داری نبھانے کے، اُلٹا عشقِ مجازی میں اپنی تمام معاشرتی،قومی اور مذہبی ذمہ داریوں کو فراموش کر دیتے ہیں۔یہاں تک کہ شادی کو گزرے ایک دہائی سے اوپر ہوجائے نیز بچوں کی بھی ایک خاصی تعداد ہوجائے لیکن زوجہ یا خاوند یہی شکوہ کرتے نہیں تھکتے کہ سچا پیار کرنے والا شوہر نہیں ملا اور دوسری طرف یہی مطالبہ شوہر کی طر ف سے رہتا ہے کہ مجھ پرمرمٹنے والی بیوی نہیں ملی۔
فقط جنسی ہوس کی تکمیل کے لیے اپنی وفادار اور با حیا زوجہ کو اس لیے چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ سیدھی سادی بیچاری اپنے خاوند کی خدمت ،بچوں کی دیکھ بھال اور گھرداری کی عادی ہوتی ہے اور اسے جنسی تسکین کے غیر فطری یا نامناسب طریقوں سے آشنائی نہیں ہوتی۔اسی طرح خاوند اگر بااخلاق اور با کردار شریف اور اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مصروفِ عمل ہو اور اپنی زوجہ کی جنسی خواہش کو مناسب طریقے سے پوری بھی کر رہا ہو لیکن زوجہ میڈیا سے متاثر ہوکر خاوند کو فقط ایک پلے بوائے کی روپ میں دیکھنا چاہتی ہو تو اس کا دل ایسے سیدھے سادھے خاوند سے اٹھ جاتا ہے اوروہ ہوس کی پجاری ایسے خاوند سے جان چھڑانے کے لیے خلع یا مختلف طریقے ڈھونڈکر کسی ظاہری ایسے مرد سے منسلک ہونا چاہتی ہے جو حقوق و فرائض سے قطع نظر بس ایک جنسی ہوس کی تکمیل کا باعث ہو۔
میڈیا میں ایک ہی کردار خواہ وہ مرد ہویا عورت ،متعدد روپ اور مختلف روپ اور مختلف اداکار اور اداکاراوں کے ہمراہ فلم یا ڈراموں میں کام کرتے ہیں ۔اس عمل سے مالی اعتبار سے مضبوط مرد و زن بھی عیاشی کیلئے نئے نئے چہروں اور اجسام کے متلاشی ہوتے ہیں اورنت نئے شخصیات سے جسمانی تمتع کے حصول سے مستفید ہونے کو نہ صرف اپنی بے ہودہ ہوس کی تکمیل کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے بلکہ قابلِ فخر کارنامہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ابھی تو ہمارے معاشرے میں اس امر کی خواہش پھیلتی جا رہی ہے ما سوائے چند ایک عملی واقعات کے لیکن اگر یہی روش رہی اور لوگوں میں حقوق و فرائض کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانے کے بجائے عیاشی ہی کی طرف میلانیت برقرار رہی تو نکاح کی قید کے بغیر آزادانہ جنسی خواہش کی تکمیل لوگ اپنا حق سمجھیں گے اور یوں کوئی زوجہ اپنے خاوند کے لیے رفیقِ حیات نہیں رہے گی بلکہ کچھ وقت کے لیے جنسی ساتھی یا استعمال کی چیز جو پرانا ہونے پر چھوڑ کر پھر سے ایک نیا لے لیا جائے کا مصدا ق بن جائے گا۔اگر میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے شعبہ جات میں مرد و زن کے زندگی احسن طریقے پر گزارنے ،میاں بیوی کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنے،دینی اور قومی ذمہ داریوں کی ادائیگی جیسے اصلاحات پر مبنی مواد کو زیادہ سے زیادہ شامل جائے تو معاشرے میں طلاق کی شرح میں کافی حد تک کمی ہوسکتی ہے۔
(۶) موبائل فون،انٹرنیٹ،سماجی روابط کے ذرائع اور ان کا کردار
عہدِ حاضر میں پیغام رسانی کے جدید آلات نے پوری دنیا پر عام طور پر اور امتِ مسلمہ پر خصوصی طور پر اپنے گہرے اثرات مرتب کیئے ہیں۔ایک طرف مختلف چینلوں اور کیبل پر چلنے والے ڈرامے اور فلموں نے ہمارے باحیاءمعاشرے کے مرد و زن میں ناجائز تعلقات کے جذبات کو بڑھایا لیکن یہ امر کسی حد تک پردے اور مردوزن کے آزادانہ اختلاط کے عدم دستیابی کے سبب ڈھکی چھپی رہی لیکن جب سے موبائل فون کا استعمال عام ہوا اور ہر فرد اسے اپنی ضرورت سمجھنے لگا یہاں تک کہ اب ضرورت کم ،تفریح ،لڑکے لڑکیوں کے رابطے اور ملاقاتوں کے لیے مواقع کی اطلاعات کہ زمان ومکان خواہ مخصوص ومحدود پیمانے پر ہی کیوں نہ میسر ہو،مرد و زن برائی کے مرتکب ہوتے ہیں۔جس کا نتیجہ طلاق کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے او ریہ معاملہ ہمارے معاشرے میں کہ جہاں ابھی عفت و پاکدامنی کے اثرات موجود ہیں ، طلاق وخلع کی بہت بڑی وجہ بنتی جا رہی ہے۔"موبائل فون پیکجز بے راہروی، طلاق کے رجحان میں اضافے کا سبب ہیں"،کے عنوان سے نوائے وقت لاہور میں خواتین کی گفتگو کا ایک حصہ ملاحظہ فرمائیں:
’’سعدیہ ایوب ایڈووکیٹ نے کہا آج فون ضرورت کی بجائے انٹرٹینمنٹ کی چیز بن گیا ہے لوگ لڑکیوں کو تنگ اور ہراساں کرتے، بلیک میل کرتے ہیں جس سے جرائم اور نوجوانوں میں ڈپریشن میں اضافہ ہوا۔ غزالہ خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ آج کے دور میں موبائل فون ہر ایک کی ضرورت بن گیا ہے ۔ بیوفائی کی شکایات پر طلاق کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ عورت کچھ بھی برداشت کر لیتی ہے مگر شوہر کو دوسری خواتین سے گھنٹوں گفتگو کرتے یا روزمرہ بنیادوں پر گڈ نائٹ یا گڈ مارننگ کے ایس ایم ایس کرتے نہیں دیکھ سکتی، اس وجہ سے میاں بیوی کے مابین اعتماد کے رشتے کمزور ہوئے ہیں۔ دارالامان کی سپرنٹنڈنٹ مصباح رشید نے کہا کہ موبائل پیکج میں گفتگو کے دوران لڑکوں کی باتوں میں آ کرگھروں کو چھوڑنے والی لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘(۱۳)
جاوید چوہدری جو پاکستان کے معروف کالم نگاراورتجزیہ نگار ہیں اپنی ویب سائٹ پر رقم فرماتے ہیں:
’’پسند کی شادی گھریلو ناچاقی، عدم برداشت کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ سوشل میڈیا اور موبائل فون کا زیادہ استعمال بڑا سبب بنا ۔فیصل آباد میں۱۰ماہ کے دوران بیس ہزار خواتین نے فیملی کورٹس سےرجوع کیا۔ گھروں سے بھاگ کر شادی کرنے والی خواتین کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہونے لگا ہے ،جس میں ۱۵ سے ۲۰ سال کی کم عمر خواتین کی تعداد بہت زیادہ سامنے آئی۔یونیورسٹیوں اور کالجز میں طلباءاور طالبات کا اکھٹے تعلیم حاصل کرنا بھی اس خطرناک اضافے کا سبب ہے ۔والدین اپنے نوجوان بچے اور بچیوں کو موبائل فون کےاستعمال کو سختی سے روکیں۔ موبائل کے استعمال سے رشتے ٹوٹنے لگے میاں معمولی شک پر طلاق دے دیتے ہیں یا خواتین خلع کے لیے عدالتوں میں پہنچ جاتی ہیں ۔موبائل فون کے زیادہ استعمال نے عدم برداشت میں خطرناک حد تک اضافہ کیا ہے۔(۱۴)
اسلام نے تحمل ضبط اور بے یقینی و اضطرابی کیفیت میں فیصلہ کرنے سے منع کیا ہے یہاں تک کہ طبیعت معتدل نہ ہوجائے لہٰذا طلاق جیسے فیصلے میں تو بہت ہی سوچ بچار کا حکم دیا گیا ہےلیکن موبائل فون پر جھوٹی افواہ و اطلاع پر جذبات سے مغلوب ہوکر واقعات کے تصدیق کے بغیر ہی بے دریغ طلاق دی جاتی ہے اس سلسلے میں"مسئلہ یا ایس ایم ایس پر طلاق"کے عنوان سے انٹرنیٹ پر اور دارالافتاؤں سے جو اعداد و شمار ملے وہ بھی ہوش ربا تھے۔بہر کیف اگر موبائل فون اور سماجی روابط کو بقدر ضرورت ہی استعمال کیا اور کرایا جائے تو اس کے مضر اثرات سے تحفیظ ممکن ہے ۔
(۷) دوسری شادی ایک بنیادی وجہ
اسلام میں شادی کے لیے حقوق کی ادائیگی پر قدرت ضروری ہے اور اگر قدر ت و وسعت ہو تو دوسری اور تیسری شادی کرنا امرِ مستحسن ہے۔انبیاءعلیہ السلام، صحابہؓ ،تابعینؒ،تبع التابعینؒ، اولیائے کرام و بزرگان دین جملہ اسلاف میں تعدد ازواج کی ریت قائم رہی لیکن یورپ اورآزادانہ مرد و زن کے جنسی تعلقات کو فروغ دینے اور قانونی شادیوں کی دشواری اور پیچیدگیوں نے مغربی معاشرے میں دوسری شادی کومعیوب بنا دیا ہے۔یعنی جنسی خواہش تو بآسانی کسی سے بھی پوری کی جا سکتی ہے تو پھر قانونی تقاضوں کی بنیاد پر فقط ایک ہی بیوی کافی ہے۔یہ سوچ مغربی ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں بھی اس سوچ کے اثرات اس حد تک پڑے ہیں کہ مسلم عائلی قوانین میں بھی دوسری شادی کو پہلیزوجہکیاجازتپرمشروط کیا گیا ہے جو گو کہ امرِ مستحسن ہے لیکن واجب یا ایسی ضروری نہیں کہ اس کی خلاف ورزی پر تعزیری سزا دی جائے۔عجیب معاملہ ہے کہ بدکاری و فحاشی کے انسدادپر زور دینے کے بجائے حلال طریقے سے نکاح کرنے کے خلاف اتنی پابندیاں؟
حقوقِ نسواں کے نام پر خاوند کے حقوق کا استحصال اور اسے بیوی کے ماتحت کرنے کی مغربی ذہنیت نے اسلامی اصولوں کو ہمارے معاشرے میں اجنبی بنا دیا ہے۔زوجہ بجائے خاوند کی اطاعت و فرماں برداری کے اس کے دوسری شادی کے معاملات کے پیشِ نظر اپنی ازدواجی حیثیت کو داؤ پر لگا دیتی ہیں۔جبکہ دوسری طرف مرد جس سے دوسری شادی کا ارادہ رکھتا ہے توان کی طرف سے پہلی زوجہ کو چھوڑنے کی شرط بھی ہمارے معاشرے میں تقویت پارہی ہے۔جبکہ ارشا د نبوی ﷺہے:
عن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي ﷺ قال: لا يحل لامرأة تسأل طلاق أختها لتستفرغ صحفتها فإنما لها ما قدر لها۔(۱۵)
’’حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے ارشاد فرمایا (جس کا مفہوم یہ ہے کہ)کسی عورت کے لیے اپنی(مسلمان ) بہن کی طلاق کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے ، تاکہ اس کا نصیب اپنی جھولی میں ڈالے، یقیناً اسے وہی ملے گا جو اس کی تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے۔‘‘
اگر دوسری شادی سے روکنے کے لیے قانون سازی یا تعزیزی سزاؤں کے اجرا ء کے بجائے ایک یا ایک سے زائد ازواج کے حقوقِ واجبہ کی ادائیگی پر قانون سازی اور حق تلفی پر تعزیزی سزاؤں پر زور دیا جائے تو ملک میں ناصرف طلاقوں کے واقعات میں کمی بلکہ فحاشی و بدکاری کی شرح میں بھی واضح کمی واقع ہوگی۔
(۸) روشن خیالی (این جی اوز اورمغربی آزاد خیالی)
ہمارا ملک ترقی پذیر ممالک کی صف میں شمار ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ ترقی کی طرف چلنے کے لیے رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے اور ماضی قریب میں ایسی مثال یورپ کے صنعتی ومعاشی انقلاب میں موجود ہے کہ جہاں جاگیردارانہ نظام کے ظلم و استبداد کے خلاف جب عوام نےاپنے مذہبی رہنماؤں سے مدد طلب کی تو انہوں نےاس معاملے کو خارج از مذہب قرار دے کر خالص حکومتی امر بتایا کیونکہ ان کے ہاں مذہب فقط رہبانیت کا نام تھا جس میں حکومت و سیاست کو کچھ دخل نہیں ،لہٰذا عوام میں مذہبی بیزاری جیسے جذبات کو فروغ ملا اور انہوں نے جابر حکمرانوں کو ہٹایا یہاں تک کہ انہیں قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا اوریوں جمہوری اور پھر صنعتی انقلاب رونما ہوے اور یورپ دنیا کے صف اول کے ترقیافتہ ممالک پر مشتمل بر اعظم کے طور پر ابھرا۔یہی وجہ ہے کہ عام طور پر یورپ میں چرچ ویران اور عیاشی کے اڈے آباد ہیں ۔لوگ زیادہ تر سیکولر ذہنیت جو تقریباً دہریے یا لادین ومذہب ہورہے ہیں کہ جن کی زندگی میں اگر عبادت کا مفہوم ہے تو فقط انسانیت کی خدمت ۔خوف خدا ،فکر آخرت ،عذاب الہٰی اور بدعاوغیرہ جیسے عقائد سے یکسر منکرہیں اور دنیاوی اعتبار سے کامیابی کو اصل کامیابی سمجھا جاتا ہے۔
اس کے برخلاف اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے کہ جس میں ہر ظلم کے مقابلے میں انصاف کے حصول کےلیے تعلیمات موجود ہیں یہاں تک کہ اگر حکمران بھی ظالم وجابر ہوں یا غیر اسلامی قوانین کا جبراً نفاذ کریں تومخصوص صورتِ حال میں ان کے خلاف اور نفاذ اسلام کے لیے عملی اقدامات کرنا بھی جہاد ہے۔لیکن ہمارا معاشرہ ذہنی طور پر مغرب کے زیرِ اثر ہوتا جا رہا ہے اب یہاں بھی ایسی آوازیں سنی جاتی ہیں کہ دین و مذہب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔سیکولر طبقے کو حکومتی تعاون اور بیرونی امداد زیادہ حاصل ہے۔لوگوں میں دینی منافرت کو فروغ دیا جارہا ہے۔جس کا لازم نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہمارے ملک میں یورپ کی نقالی سے ترقی تو نہیں آسکی ،لیکن یورپ میں معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقی پستی،جنسی بےراہ روی،خاندانی اور گھریلو نظام کی تباہی جیسے امورہمارے معاشرے میں تیزی سے فروغ پا رہے ہیں ۔
دنیا میں ایسے ممالک کہ جہاں طلاق کی شرح سب سے زیادہ ہے ، ان ممالک میں امریکہ اور یورپی ممالک کا صف اول میں نام ملتا ہے۔ایک سروے کے مطابق امریکہ میں ہر چھ سیکنڈ میں ایک طلاق واقع ہوئی ہے۔اورمجموعی طور پر ہونے والی شادیوں میں سے۵۳فیصدکو طلاق یعنی مجموعی طور پر ہونے والی شادیوں میں سے نصف سے زائد شادیاں طلاق کے باعث ختم ہوجاتی ہیں۔اسٹونیا میں۵۸فیصدفرانس میں ۵۵-۵۶فیصد،لیگزیمبرگ میں۶۰فیصد،چیک ریپبلک میں۶۶فیصد،پرتگال میں تقریباً ۶۸فیصد،بیلجیم میں ۷۱فیصدطلاقیں ہوتی ہیں۔دنیا میں طلاق کی شرح میں مذکورہ بالا ممالک کے ساتھ ساتھ ہنگری،اسپین روس، بیلاروس، یوکرائین، لیتھونیا،کیوبا،برموڈا، کیمن آئی لینڈ وغیرہ شامل ہیں۔(۱۶)
جیسے جیسے ہمارے معاشرے میں مغربی سوچ و فکر پروان چڑ رہی ہے جیسے مرد آزاد ہے، چاہے نوکری کرے ، باہر گھومے پھرے وہ تفریحی مقامات یا دوستوں کے ساتھ کہیں بھی جائےتو بعینہ عورت بھی ہر اعتبار سے آزاد ہو۔ عورت بچے پالنے کی بھی مکلفہ نہ ہو اور نہ ہی خاوند کی خدمت کرنے کی پابندہے۔ اگر خاوند کے علاوہ کوئی اور مرد پسند آجائے تو اس سے بھی تعلقات رکھے جائیں اور کوئی انہیں منع نہ کرے۔ایسے معاملات میں مغربی دنیا میں اور اب کچھ اثرات ہمارے معاشرے میں بھی مرتب ہو رہے ہیں کہ خاوند سے جاں خلاصی کے لیے بے دریغ خلع لیا جاتا ہے۔اگر اہلِ مغرب کی اندھی تقلید چھوڑ کر اسلامی اصولوں کو اپنایا جائے تو طلاق کی شرح میں کافی حد تک کمی رونما ہوگی۔
(۹) والدین کی اطاعت میں بے جاغلو
والدین کی اطاعت بلا شبہ بہت اچھی بات ہے اور دین اسلام نے اس امر کا پابند بھی بنایا ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا۔(۱۷)
’’اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور ان سے بات ادب کےساتھ کرنا۔ ‘‘
لیکن ساتھ یہ بھی فرمایا:
وَإِنْ جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ۔(۱۸)
’’اے مخاطب اگر تیرے ماں باپ تجھے مجبور کریں کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک بنائے جس کی حقیقیت کی تجھے واقفیت نہیں۔ تو ان کا کہا نہ مانو۔تم سب کو میری طرف لوٹ کر آنا ہے ۔ پھر جو کچھ تم کرتے تھے ،میں تم کو جتادوں گا۔‘‘
لیکن اگر والدین شریعت کے مطابق کسی بات کا حکم دیں تو ان کی اطاعت ضروری ہے۔بخاری شریف میں واقعہ منقول ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ملنے مکہ تشریف لائے تو حضرت اسماعیل ؑ کی زوجہ سے حالاتِ زندگی کے بارے میں دریافت فرمایا۔زوجہ نے معاش کی تنگی کا شکوہ کیا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے انہیں کچھ باتیں حضرت اسماعیلؑ کو کہنے کو کہیں، جب حضرت اسماعیلؑ گھر واپس آئے تو زوجہ نے بتایا کہ کوئی بزرگ تشریف لائے تھے اوران سے ملاقات کی ساری روداد سنائی۔تو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا:
قَالَ فَهَلْ أَوْصَاكِ بِشَىْءٍ قَالَتْ نَعَمْ، أَمَرَنِى أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ السَّلاَمَ، وَيَقُولُ غَيِّرْ عَتَبَةَ بَابِكَ. قَالَ ذَاكِ أَبِى وَقَدْ أَمَرَنِى أَنْ أُفَارِقَكِ الْحَقِى بِأَهْلِكِ. فَطَلَّقَهَا، وَتَزَوَّجَ مِنْهُمْ أُخْرَى۔(۱۹)
’’حضرت اسماعیل علیہ السلام نے دریافت کیا کہ انہوں نے تمہیں کچھ نصیحت بھی کی تھیں؟ان کی بیوی نے بتایا کہ ہاں مجھ سے انہوں نے کہا تھا کہ آپ کو سلام کہہ دوں اور وہ یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ آپ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل دیں۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ بزرگ میرے والدتھے اور مجھے یہ حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں جدا کردوں، اب تم اپنے گھر جا سکتی ہو۔چنانچہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے انہیں طلاق دے دیا اور بنی جرہم ہی میں ایک دوسری عورت سے شادی کر لی۔‘‘
اس کے علاوہ حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں:
قال كانت تحتي امرأة وكنت أحبها وكان عمر يكرهها فقال لي طلقها فأبيت فأتى عمر النبيﷺ فذكر ذلك له فقال النبيﷺ طلقها۔(۲۰)
’’میرے نکاح میں ایک عورت تھی میں اس سے محبت کرتا تھا اور (میرے والد)حضرت عمرؓ کو وہ ناپسند تھی، انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم اسے طلاق دے دو،لیکن میں نے انکار کیا،تو حضرت عمرؓ نبی ﷺکے پاس گئے اور آپﷺسے اس کا ذکر کیا تو آپﷺنے فرمایا،اسے طلاق دے دو۔‘‘
مذکورہ بالا دونوں روایات کی روشنی میں بظاہر والد کے کہنے پر بیوی کو طلاق دینا جائز ہے ۔پہلی روایت میں تو صریح طور پر عورت کا شکوہ کرنا اس کے نامناسب اخلاق کی نشاندہی کرتا ہے کہ زوجہ بیٹے کے لیے درست نہیں ، اور دوسری روایت میں صریح طور پر عورت کا کوئی عیب مذکور نہیں لیکن حضرت عمرؓ جیسے بالغ نظر شخصیت کاطلاق کا مطالبہ فقط طبعی ناپسندیدگی کی بناءپر ہونا محال ہے ،یقیناً کوئی ایسی علتِ شرعی ضرور ہوگی کہ جس کی بناءپر طلاق کا مطالبہ کیا ۔ جیسا کہ حضرت احمد بن حنبل ؒ(متوفی:۲۴۱ھ)سے کسی نے پوچھا کہ اس کے والد اسے حکم دیتے ہیں کہ وہ اپنی زوجہ کو طلاق دے تو امام احمد ؒ نے فرمایا:
قال: لا تطلقها قال: أليس عمر أمر ابنه عبد الله أن يطلق امرأته قال حتى يكون أبوك مثل عمر رضي الله عنه۔(۲۱)
’’طلاق مت دو، اس شخص نے عرض کیا، کیا عمرؓ نے اپنے بیٹے عبداللہ کو حکم نہیں دیا تھا کہ وہ اپنی زوجہ کو طلاق دے ؟ تو امام احمد ؒ نے فرمایا،یہاں تک کہ تمہارے والد (تقویٰ اور دینی مصلحت میں ) حضرت عمرؓ کی طرح نہ ہوجائیں۔‘‘
اور یہ دینی اصولیات کے عین مطابق ہے کہ اگر والد دینی مصلحت یا بیٹے کے دینی اعتبار سے نقصان سے تحفیظ کے لیے ایسا حکم دے تو بیٹے کو اطاعت کرتے ہوئے طلاق دینی چاہیے لیکن اگرشادی کے بعد اولاد بھی ہو اور خاوند کو یقین ہو کہ وہ طلاق دینے سے گناہوں میں مبتلاءہوگا یا والد ناحق فقط اپنی طبعی ناپسندیدگی کی وجہ سے طلاق کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اس مطالبے کی تکمیل سے کوئی دینی فائدہ مقصود ہی نہیں جبکہ زوجہ اور اولاد پر طلاق دینے سے ظلم کا اندیشہ ہو تو یہ معاملات اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں شمار ہونگی لہٰذا ان سے ایسی اطاعت غلو کہلائے گی جیسا کہ روایت میں ہے:
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا طاعة لمخلوق في معصية الله۔(۲۲)
’’رسول اللہﷺنےفرمایا:کسی بھی مخلوق کی اطاعت (جائز)نہیں ہے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں۔‘‘
مذکورہ بالا بیان سے واضح ہوا کہ اگر والد دینی یا دنیاوی نقصان سے اپنے بیٹے کو بچانے کے لیے جبکہ طلاق سے بیٹا گناہوں میں مبتلاءنہ ہو اور نا ہی زوجہ و اولاد پر کسی بھی طرح ظلم کا اندیشہ ہو تو، والد کے طلاق کے مطالبے کو پورا کرنا اچھی بات ہے۔لیکن اس امر میں والدہ شامل نہیں کیونکہ مذکورہ بالا دونوں احادیث میں والد کا تذکرہ ہے جبکہ والدہ کا بہو کو ناپسند کرنا یہ ایک فطری امر ہے اور اس ناپسندیدگی کی وجہ سے بیوی کو طلاق دینا درست نہیں۔ہاں !والدہ کا حق بیٹے پر سب سے زیادہ ہے اور والدہ کے حق کو بیوی کے حق پر مقدم رکھنابھی بیٹے پر ضروری ہےلیکن والدہ کے کہنے پر طلاق دینا واجب نہیں ۔اگر دونوں میں تصفیہ ممکن نہ ہو تو گھر والی کا چولہا علیحدہ کرلے اور فقط چولہا علیحدہ کرنے سے بھی معاملہ حل نہ ہو تو بیوی کی رہائش جدا کرلے جبکہ والدہ کی خدمت میں کمی نہ ہونے پائے۔ کیونکہ فقہاءکرام کے مطابق:
تجب لها السكنى في بيت ليس فيه أحد من أهله، ولا من أهلها إلا أن يختارا ذلك لأن السكنى حقها۔(۲۳)
’’عورت کے لیے شوہر کے ذمہ ایسے رہائش کا انتظام کرنا واجب ہے کہ جس میں خاوند اور زوجہ دونوں کے گھر والوں میں سے کوئی بھی نہ ہو،سوائے اس کے کہ دونوں (رشتہ داروں کے )رہنے پر راضی ہوں،یہ اس لیے کہ رہائش عورت کا حق ہے۔‘‘
والد اگر دیندار ہوں اور بہو میں دینی اعتبار سے قباحتیں ہوں نیز اس مطالبے سے ظلم نہ ہوتا ہو تو بیٹے کو چاہیے کہ ایسی حالت میں دیندار والدین کی بات مان کر طلاق دے۔اور اگر والد دیندار و متقی نہ ہوں یا اس فیصلے سے زوجہ یااولاد پر ظلم ہوتا ہو یا خاوند کو قوی اندیشہ ہو کہ بعد از طلاق وہ اللہ کی نافرمانی میں مبتلاء ہو گا تو پھر والد کے مطالبے پر بھی طلاق نہ دے۔
(۱۰) نشہ
ہر انسان میں فطری طور پر صبروتحمل کا مادّہ کسی حد تک موجود ہی ہوتا ہے لیکن اس کی درست تعلیم و تربیت ذہنی اور جسمانی صفتِ برداشت کو بڑھا دیتی ہے۔اسی طرح کچھ ایسے حالات اور اشیاءہیں کہ جن سے عام انسان کے صبر و تحمل کی صفت میں بہت کمی آجاتی ہے اور جب جذبات اعتدال کے حدود کوپار کرتے ہوئے ،بغیر سوچے سمجھےفیصلے کرنے لگ جائیں، تب ظلم وجور کے واقعات سرزد ہونے لگتے ہیں کہ بعد میں انسان اپنے فیصلے پر شرمندہ ہوتا ہے۔لہٰذا ہر انسان کو ہمہ وقت اپنی طبیعت کو اعتدال میں رکھے رہنے کے لیے ایک مستقل قوت کی ضرورت ہوتی ہے اور طبیعت میں بے اعتدالی ہونے پر اسے فورا ًاعتدال کی طرف لانے کے لیے اقدامات کرنی چاہیے۔ پھر فطرتِ سلیمہ پر قائم انسان کے لیے ایسے طریقے سودمند بھی ہوتے ہیں اور وہ جلد اعتدالی کیفیت میں آجاتے ہیں لیکن اگر کسی نے اپنی فطرت کو مسخ کر دیا ہو تو عدمِ برداشت کی صفت اس حد تک قوی ہو جاتی ہے کہ بسا اوقات بغیر کسی وجہ کے جذبات سے مغلوب ہوکر انسان ایسے کام کر تا ہے کہ ہوش میں آنے کے بعد اسے وہ باتیں یاد ہی نہیں رہتی ہیں۔
یہ کیفیت کبھی تو بہت زیادہ غصے کی حالت میں ہوجاتی ہے اسی طرح نشے میں بھی ایسی کیفیت ہوجاتی ہے اور ایسے افراد میں صبر کا مادہ بہت کم ہوجاتاہے اور اپنے کمزور قوت ارادی کے سبب اکثر یہ لوگ بیوی ،بچوں اور خاندان سے بغاوت کر کے کسی بھی ذمہ داری کی ادائیگی سے بچنے کے لیے علیحدگی اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔نشے کے عادی افراد نشے کی خاطر تمام رشتہ ناتوں کو بالائے طاق رکھتے ہیں اپنے نشے کے حصول کے لیے کسی بھی رکاوٹ کو ختم کرنے کے درپے ہوتے ہیں، سلسلۂ ازدواجیت تو دور کی بات ہے وہ والدین اور اولاد کو بھی چھوڑنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔
نشے کے عادی افراد لوگوں کے لیے حکومت نے کچھ رقم مختص کرکےمعتدد ادارے قائم کئے ہیں جبکہ غیر سرکاری ادارے بھی متحرک ہیں اور یہ بات یقینا قابل ستائش بھی ہے ۔لیکن اگر نشے کے اسباب کا انسداد کیا جائےخصوصا نشے کی ابتدائی اشیاءجیسے چھالیا،گھٹکا،پان،شیشہ اور سگریٹ وغیرہ پر مؤثر پابندی لگائی جائے اور خاص طور پر کم عمر نوجوانوں کے لیے ذہنی و جسمانی ورزش اور کھیل و تفریح کےلیے جسمانی سرگرمیوں پر مبنی افعال کو فروغ دیا جائے اور ساتھ ساتھ بھر پور حوصلہ افزائی کی جائے اور اس مقصد کے لیے جامع حکمتِ عملی مرتب کرکے مکمل منصوبہ بندی کی جائے۔پھر اس منصوبے کے فی الفور،وسط مدتی اور طویل المیعاد اہداف مقرر کیئے جائیں تو کچھ بعید نہیں کہ ملک میں سلجھے ہوئے تعلیم و تربیت کے حامل افراد نہ صرف گھریلو طور پر بلکہ معاشرتی طور پر بہترین اخلاق و کردار کے پیکر بن جائینگے۔وطن عزیز میں جملہ معاشرتی بگاڑ بشمول طلاق ،جرائم ،چوری ،غنڈہ گردی وغیرہ جرائم کی شرح میں بہت کمی واقع ہوجائے گی۔ان شا ءاللہ۔
حوالہ جات
۴۔blog.jpmsonline.com/2017/01/26/rising-divorce-rates-in-pakistan-its-
impact-on-the-individual-and-society
۶۔nation.com.pk/27-Jun-2016/rising-divorce-rates
۷۔النساء،آیت 35
۸۔ابن ابی شيبة، أبو بكر، عبد الله بن محمد(المتوفى: 235هـ)،المصنف في الأحاديث والآثار،مكتبة الرشد، الرياض،الطبعة الأولى،1409ھ،:4/61
۹۔بخاری،محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح المختصر،دار ابن کثیر، بیروت،۱۴۰۷ھ:5/1966
۱۰۔زبیدی،ابوبکر بن علی(متوفی:۸۰۰ھ)،الجوھرۃ النیرۃ،المطبعۃ الخیریۃ،الطبعۃ الاولی،۱۳۲۲ھ ،الجوھرۃ النیرۃ،۲/۱۳
۱۱۔World Bank Policy Research Working Paper#4126, Watta Satta: Bride Exchange and women’s welfare in Rural Pakistan, Hanan G. Jacoby & Ghazala Mansuri, Page:04
۱۲۔عبد الوھاب منگریو،سندھی معاشرے میں شادی کی رسومات،معارف مجلہ تحقیق،شمارہ ۱۲،جولائی ۔ دسمبر،۲۰۱۶ئ،ادارہ معارف اسلامی، کراچی:ص۱۲۳،۱۲۴
۱۳۔نوائے وقت لاہور،۸دسمبر،۲۰۱۳
۱۵۔بخاری،محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح المختصر،دار ابن کثیر، بیروت،۱۴۰۷ھ:5/1978
۱۷۔اسراء:آیت:23
۱۸۔العنكبوت:آیت:8
۱۹۔بخاری،محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح المختصر،دار ابن کثیر، بیروت،۱۴۰۷ھ،۳/۱۲۲۷
۲۰۔ابوداؤد،سلمان بن الاشعث(متوفی:۲۷۵ھ)،سنن ابی داؤد،دار الفکر،بیروت،۲/757
۲۱۔عبد الله بن عبد الرحمن بن صالح بن حمد بن محمد بن حمد بن إبراهيم البسام التميمي (المتوفى 1423هـ)، توضِيحُ الأحكَامِ مِن بُلوُغ المَرَام، مكتَبة الأسدي، مكّة المكرّمة،الطبعة الخامِسَة1423هـ، ج 7، ص 332
۲۲۔احمد بن حنبل(متوفی:۲۴۱ھ)،مسند احمد،عالم الکتب، بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،۱۴۱۹ھ،4/66
۲۳۔زيلعي،عثمان بن علي(743ھ)،تبيين الحقائق شرح كنزالدقائق و حاشية الشلبي، المطبعة الكبري الاميرية، القاهرة،الطبعة الاولي 1313ھ، :3/58