2
2
2017
1682060030498_1260
131-142
https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/download/286/117
https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/view/286
Intra-Faith Dialogue Unity Firqa Bandi Sectarianism Intra-Faith Dialogue Unity Firqa Bandi Sectarianism
تمہید
تاریخ اسلام اس بات کی گواہ ہے کہ ائمہ وفقہاء کرام ، محدثین،اورمفسرین، کے ہاں کئی ایک مسائل میں اختلاف رہا،لیکن اس اختلاف کے باوجود آپس میں محبت ،خیر خواہی اور اتحاد بھی قائم رہا۔بین المسالک برداشت اور ہم آہنگی کے لئے ایک دوسرے کا احترام ضروری ہے۔
پاکستان میں موجود مسالک بریلوی، دیوبندی،اہل حدیث اور شیعہ کے درمیان اختلافات جہاں دین اسلام کے لیے سوالیہ نشان ہے وہاں پوری دنیا میں مسلمانوں کے اس مسلکی رویے کی وجہ سے اسلام کی ساخت کو بہت نقصان ہو رہا ہے۔دیوبندی بریلوی دونوں امام ابو حنیفہ ؒ کے مقلد ہیں۔ اور عقائد میں دونوں امام ابو الحسن اشعریؒ اور امام ابو منصُور ماتریدیؒ کو مقتدا مانتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود دونوں کے درمیان چند امور میں اختلاف ہے۔آج وقت کی ایک اہم ضرورت ہے کہ مسلکی اختلافات کو ختم کیا جائے اور قرآن و سنت کی روشنی میں مسلمانوں کے درمیان اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔
اللہ تعالیٰ کا بھی یہی حکم ہے "فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ"[1]ترجمہ " اگر تمہارے درمیان کسی چیز میں جھگڑا پڑ جائے تو تم اُسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹاؤ"۔ جب کہ رسول اللہ کا فرمان "ترکت فيکم امرين لن تضلو اماتمسکتم به کتاب اللهِ وسنة رسوله"[2] ترجمہ ؛میں تمہارے درمیان دو چیزیں (قرآن اور حدیث ) چھوڑ کر جا رہا ہوں تم ہرگز گمراہ نہیں ہو گے جب تک انہیں مضبوطی کے ساتھ پکڑے رکھو گے، وہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ہے"۔ جبکہ امام ابوحنیفہؒ کا قول ہے "اذا صح الحديث فهو مذهبی"[3]۔ ترجمہ " جب صحیح حدیث ہو تو وہی میرا طریقہ ہے ۔"
عصر حاضر میں جید علمائے کرام نے اتحاد بین المسالک کے موضوع پر کتابیں تحریر کی ہیں، جن میں فضل احمد غزنوی کی کتاب "شیعہ سنی اتحاد"، مولانا عبدالستار خان نیازی کی کتاب"اتحاد بین المسلمین وقت کی اہم ضرورت ہے"، مفتی محمد شفیعؒ کی کتاب "وحد ت اُمت"، ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی کتاب "فرقہ پرستی کیوں کر ممکن ہے" اور پروفیسر حبیب اللہ چشتی کی کتاب "اتحاد اُمت کیسے ممکن ہے" شامل ہیں، جن میں انہوں نے قرآن و سنت کی تصریحات کی روشنی میں ان مسالک کے مختلف فیہ مسائل کے بارے میں اپنا نقطہ ء نظر پیش کیا ہے۔ زیرِ نظر مقالہ میں ان کی کتابوں اور دیگر تحاریر کا تجزیہ و مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔
سابقہ تحقیقی کام کا جائزہ
مذکورہ موضوع" پاکستان میں اتحاد بین المسالک پر منتخب اردوتحریروں کا تعارف: تجزیاتی مطالعہ" انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس کی اہمیت کے پیش نظر فرقہ واریت کے رد ااور اتحاد بین المسالک پر اردو زبان میں لکھی گئی بعض تحریروں اور کتابوں کے مقدمہ میں موضوع سے متعلق دیگر کتب کا مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے۔ مثلاً: مفتی محمدشفیعؒ کی کتاب "وحدت امت "کے مقدمہ میں اس کتاب کے متعلق مختصر ذکر کیا گیا ہے۔[4] اور محمد عبدالستار خان نیازی کی تحریر "اتحاد بین المسلمین وقت کی اہم ضرورت" پر آغاز میں سلیم تابانی نے مختصر تبصرہ کیا ہے۔[5]
اسی طرح انٹرنیٹ پر کتابوں کے تعارف کے لیے اس موضوع سے متعلق کچھ مواد موجود ہےلیکن وہ بہت ناکافی ہے ۔ مثلاً: محدث لائبریری میں کتب کا مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے۔[6] کوئی بھی مکمل تحریر اس موضوع پر تفصیل سے نہیں لکھی گئی جس میں پاکستان میں اتحاد بین المسالک پر لکھی گئی تحریروں کا تعارف اور تجزیاتی مطالعہ تفصیل کے ساتھ پیش کیا گیا ہو۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے اس موضوع پر تفصیلی مقالہ تحریر کیا جائے ایک عام قاری کو معلوم ہو سکے کہ پاکستان میں فرقہ واریت کا سدِ باب کیسے ممکن ہو کتا ہے؟ اور مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کیسے پیدا کیا جا سکتا ہے؟۔
پاکستان میں موجود مختلف مسلکی مکاتبِ فکر کا تعارف
بریلوی مکتبۂ فکر
بریلویت پاکستان میں موجود احناف کے مکاتبِ فکر میں سے ایک مکتبہ فکر ہے۔ بریلوی نظریات رکھنے والے جن عقائد کے حامل ہیں ان کی بنیاد و تنظیم کا کام بریلوی مکتبۂ فکر کے مجدد احمد رضا خان بریلوی نے انجام دیا اور بریلویت کی وجۂ تسمیہ بھی یہی ہے۔[7]برصغیر پاک و ہند میں اہلِ سنت والجماعت کا ایک گروہ جو افکار و عقائد میں احمد رضا خان بریلوی کو اپنا امام تسلیم کرتا ہے۔ تاریخی لحاظ سے یہ گروہ محمد بن عبدالوہا ب نجدی[8]کی تحریک اور علمائے دیوبند کی تحریک کے ردِ عمل کے طور پر معرضِ وجود میں آیا۔یہ لوگ اسلاف میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی[9] کے نظریات سے اتفاق کرتے ہیں اور اپنے عقائد کی تائید میں ان کے اقوال پیش کرتے ہیں۔[10]
بریلویت کے بانی و رہنما مولانا احمد رضا خان ہندوستان کے صوبے اتر پردیش (یو ۔پی)میں واقع بریلی شہر میں ۱۰؍شوال۱۲۷۲ھ بمطابق ۱۴جون۱۸۵۶ء کوایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔[11]
دیوبندی مکتبہ فکر
1857ء کی جنگ آزادی کے بعد جب مسلمانوں کو ہر طرف سے مشکلات کا سامنا تھا اور انہیں سیاسی، معاشی اور معاشرتی سطح پر کمزور کیا جا رہا تھا۔ اس موقع پرمسلمانوں کو دینی علوم سے روشناس کروانے اور مضبوط بنانے کے لیے1867ء میں دیوبند کے مقام پر مسجد چھتہ[12]میں جہاں مولانا محمد قاسم نانوتوی[13]کا قیام تھا، ایک دارالعلوم کی بنیاد رکھی گئی۔[14] جس سے شیخ الہندمولانا محمودحسن دیوبندی، مولانا خلیل احمد سہارنپوری، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی، محدث کبیر علامہ انورشاہ کشمیری، مفتی کفایت اللہ دہلوی، مولانا اصغر حسین دیوبندی، مولانا سید حسین احمد مدنی، مولانا محمد الیاس کاندھلوی، علامہ ابراہیم کاندھلوی، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا مناظر احسن گیلانی،حکیم الاسلام قاری محمد طیب دیوبندی اور مفتی اعظم پاکستان محمد شفیع عثمانی جیسے جید علماء پیدا ہوئے۔اسی دیوبند کی نسبت کی وجہ سے اس مسلک کے لوگوں کو دیوبندی کہا جاتا ہے۔ دیوبند علمی حیثیت سے شاہ ولی اللہؒ کے شاگردوں کی ایک جماعت ہے جو کہ مسلکا ً اہلِ سنت والجماعت ہیں اور جن کی بنیاد کتاب وسنت، اجماع اور قیاس پر ہے۔[15]
اہلِ سنت والجماعت کا یہ مسلک فقہ میں امام ابو حنیفہؒ کی تقلید کرتا ہے اور عقائد میں امام ابو الحسن اشعری ؒاور امام ابو منصور ماتریدیؒ کو اپنا مقتدا تسلیم کرتا ہے ۔تصوف کے چاروں سلسلوں یعنی قادری،چشتی،نقشبندی اور سہرور دی میں بیعت کرتا ہے۔[16]
اہل حدیث مکتبہ فکر
شیخ ابنِ تیمیہؒ [17]اہلِ حدیث کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
" اہلِ حدیث سے مراد وہ لوگ نہیں جو صرف سماع حدیث، کتابت حدیث اور روایتِ حدیث تک ہی محدود ہوں بلکہ ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو ظاہر و باطن میں حدیث کے حفظ اس کی معرفت اس کے فہم اور اس کی اتباع کے پابند ہوں۔"[18]امام ابنِ تیمیہ اپنی کتاب"منہاج السنہ" میں اہلِ حدیث کے متعلق لکھتے ہیں:
"اِن اهل الحديث من اعظم الناس بحثاً عن الاقوالِ النبی و طلبًا لِعِلمها و ارغب الناس فی اتباعها و ابعدالناس عن اتباعِ هويخَالفها"[19]
اہل حدیث کی یہ صفت ہے کہ وہ نبیﷺ کے ارشادات کے سب سے زیادہ متلاشی رہتے ہیں اور آپﷺ کے احکام کی پیروی ان کے نزدیک پسندیدہ ہے اور جو چیز اس کے خلاف ہو وہ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔امام ابن تیمیہ مسلک اہل حدیث کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ یہ کوئی مذہب مروجہ یا فرقہ جدیدہ نہیں ہےبلکہ یہ آئمہ اربعہ سے پہلے کا مذہب ہے اور نبی اکرمﷺ کے صحابہ کرام اسی کے مطابق عمل کرتے تھے اور در حقیقت یہی لوگ اہلِ سنت ہیں جو آپﷺ کے اقوال و افعال پر عمل پیرا ہیں۔[20]
عصر حاضر کے اہل حدیث محمد بن عبدالوہاب نجدی کو اپنا پیشوا مانتے ہیں۔ یہ محمدی، وہابی اور سلفی بھی کہلاتے ہیں۔ یہ آئمہ اربعہ میں سے کسی کی تقلید نہیں کرتے ، توسل ابنیاء و اولیاء کے منکر ہیں اور مزارات پر حاضری کے خلاف ہیں اور ان سب چیزوں کو شرک سمجھتے ہیں۔ہندوستان میں مولانا محمد حسین بٹالوی نے انھیں اہل حدیث کے نام سے مشہور کروایا۔[21]
شیعہ مکتبہ فکر
اصطلاح میں شیعہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو آپ ﷺکے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلافت کا زیادہ حقدار مانتا ہے۔ان کے خیال کے مطابق نبی کریم ﷺ نے حضرت علیؓ کی خلافت پر نص کر دیا تھا اس لیے امامت ہمیشہ آپؑ کی اولاد میں رہے گی۔ دوسرے خاندانوں میں نہیں جا سکتی۔ متقدمین و متاخرین فقہا اور اہلِ کلام کی اصطلاح میں "شیعہ" حضرت علی اور اولادِ علی رضی اللہ عنہ کے پیروکاروں کو کہا جاتا ہے۔[22]
اتحاد بین المسالک پر لکھی گئی تحریروں کا تعارف و تجزیہ
رسالہ شیعہ سنی اتحاد اور اس کے مصنف مولانا فضل احمد غزنوی
مصنف کا تعارف
ممتاز عالم دین و مفسر قرآن فضل احمد غزنوی کی وفات ۴ دسمبر ۱۹۸۶ میں ہوئی۔ تدفین حیدر آباد سندھ میں ہوئی۔[23]
کتاب کا تعارف
نام رسالہ :شیعہ سنی اتحاد
مصنف:مولانا فضل احمد غزنوی
ناشر:ادارہ تبلیغ اسلام حیدرآباد، سندھ
اشاعت:۲۳ جون ۱۹۵۵ ء
صفحات:۴۸
رسالہ کا تجزیہ
اُردو زبان میں تحریراڑتالیس صفحات پر مشتمل یہ رسالہ مولانا فضل احمد غزنوی[24]کی تصنیف ہے جو دراصل غلام محمد پرویز[25]کی کتاب قرآنی فیصلے کے جواب میں صحیح قرآنی فیصلے کا ایک باب ہے۔ یہ کتاب صرف شیعہ سنی مسالک کے اتحاد پر مبنی ہے مگر ابتداء میں مصنف نے تمام مسالک کو فرقہ کی بجائے مکاتب ِ فکر گردانا ہے اور کسی کے درمیان بھی کسی قسم کے اصولی اختلاف کو رد کیا ہے۔مصنف لکھتے ہیں کہ حقیقت میں مسلمانوں میں قطعاً کوئی اختلاف ہے ہی نہیں ۔ حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی و اہلِ حدیث میں سرے سے کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ اختلاف بھی نہیں۔ نہ صرف اتنا بلکہ خود شیعہ و سنی میں بھی کوئی اصولی اختلاف ہر گز نہیں ۔ صرف انتخاب میں قدرے اختلاف رائے پایا جاتا ہے جس کا اسلام کے بنیادی اصولوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اس وقت ان مسائل کا طے کرنا نہایت ضروری ہے تاکہ اسلام سے یہ خانہ بر انداز فرقہ بندیاں ختم ہو جائیں۔دراصل یہ فروعی اختلافات خود غرض سیاسی عیار لیڈروں اور دغاباز حکمرانوں کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔[26]
کتاب: "اتحاد بین المسلمین وقت کی اہم ضرورت "اور اس کے مصنف مولانا محمد عبدالستار خان نیازی
مصنف کا تعارف
مولانا محمد عبدالستار خان نیازی بن ذوالفقار علی خان نیازی کی ولادت یکم اکتوبر ۱۹۱۵ء میں پٹیالہ، تحصیل عیسی خیل، ضلع میانوالی میں ہوئی۔ اسلامیہ کالج لاہور کے اسلامک ڈیپارٹمنٹ کے سابق صدر رہے۔ ۱۹۴۶ ء سے لے کر ۱۹۵۱ء تک پنجاب اسمبلی کے رکن رہے۔۱۹۵۳ء میں تحریک ختم نبوت کے سلسلہ میں انہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی۔تحریک نظام مصطفیٰ کے جنرل سیکرٹری رہے۔مرکزی جمعیت علماء پاکستان کے ۱۹۷۳ءسے لے کر ۱۹۷۹ءتک جنرل سیکرٹری رہے۔ ۱۹۸۷ءمیں انہیں گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔ میاں والی میں مسلم لیگ کے بانی و کنوینیر رہے۔پنجاب سٹوڈنٹ فیڈریشن کے بانی تھے۔۱۹۸۸ء سے لے کر ۱۹۹۰ء تک قومی اسمبلی کے رکن رہے۔ مذہبی امور کے وفاقی وزیر اور سینیٹر بھی رہے۔۱۹۸۹ء میں جمعیتِ علماء پاکستان کے چیئر مین بھی منتخب ہوئے۔۲ مئی ۲۰۰۱ء میں اس دنیا فانی سے کوچ فرمایا۔[27]
کتاب کا تعارف
نام کتاب:اتحاد بین المسلمین وقت کی اہم ضرورت
مصنف:مولانا محمد عبدالستار خان نیازی
ناشر:مکتبہ رضویہ ۲/۲۴ سوڈھیوال کالونی ملتان روڈ، لاہور، 25
اشاعت دوئم:مئی ۱۹۸۵
صفحات:۳۶۰
کتاب کا تجزیہ
اتحادبین المسلمین وقت کی اہم ضرورت اپنےعنوان کےحوالہ سےایک اہم کتاب ہےاس موضوع پرجہاں کتب کی کمی ہے۔ وہاں واضح لائحہ عمل اور حل کا بھی فقدان ہے۔ اکثر کتب محض مسئلہ کی اہمیت پر ہیں ۔ دوٹوک حل بہت کم پیش کیا گیا ہے۔ مذکورہ کتاب اس حوالہ سےایک اچھی کوشش ہے مگر مصنف نےخوداپنی مسلکی جانبداری کوترجیح دیتےہوئےاپنےمسلک کی تعبیروتجاویز کوحق گردانا ہے کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ "اتحادبین المسلین وقت کی اہم ضرورت "حصہ اول میں امت کےلئے اتحادکا چارنکاتی فارمولا پیش کیا گیا ہے۔ اور فرقہ واریت کی وجوہات اورحل کےلئےتجاویز پیش کی گئی ہیں۔ "اتحادبین المسلین وقت کی اہم ضرورت " حصہ دوم میں تتمہ الموافقات،مآخذومراجع کوواضح انداز میں بیان کیاگیاہے۔
رسالہ "وحدت امت "اور اس کے مصنف مفتی محمد شفیع ؒ
مصنف کا تعارف
محمد شفیع ۱۸۹۷ء کو انڈیا کے قصبے دیوبند میں پیدا ہوئے۔آپ نے تعلیم دارالعلوم دیوبند سے حاصل کی۔آپ کی مشہور تصانیف میں سے" معارف القرآن " ہے، جو کہ۸ جلدوں پر مشتمل ہے۔آپ کی وفات ۱۹۷۶ء کو کراچی میں ہوئی۔[28]
رسالہ کا تعارف اور تجزیہ
رسالہ " وحدت امت" مفتی محمد شفیع صاحب کی دو تقاریر کی تحریری شکل ہے۔ ایک تقریر " وحدت امت" کے موضوع پر ہے جبکہ دوسری تقریر " اختلافاتِ امت اور اُن کا حل" کے عنوان پر ہے۔ دونوں تقاریر میں ایک ہی نقطہ نظر بیان کیا گیا ہے۔ کتابچہ نہایت مختصر مگر جامع ہے۔ کُل انسانیت کو ایک وحدت اور خصوصًا ملت اسلامیہ کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کرنے کے لیے بنیان ِ مرصوص کےطور پر ایک راستہ فراہم کیا ہے ۔ اختلافِ رائے پر نصوص احادیث، صحابہ کرام و مجتہدین کی آراء سے کافی مواد پیش کیا گیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ اختلاف رائے ایک فطری اور طبعی امر ہے جس سے نہ کبھی انسانوں کا کوئی گروہ خالی رہا نہ رہ سکتا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ اختلاف رائے عقل و دیانت سے پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے اس کو اپنی ذات کے اعتبار سے مذموم نہیں کہا جا سکتا ـ
کتاب: "امت مسلمہ، عبرتناک حال، تابناک مستقبل" اوراس کےمصنف الحاج ظہورالحسن
مصنف کا تعارف
الحاج ظہور الحسن ۱۹۰۵ء میں کراچی میں پیدا ہوئے۔جمیعت علما ءپاکستان کے جنرل سیکرٹری اورقائد اعظم کے پیش امام رہے۔ ۱۹۷۲ءمیں آپ نے کراچی میں وفات پائی۔خون کے آنسو، تحقیق الفقہ فی کلمۃ الحق کے مصنف ہیں۔
کتاب کا تعارف
نام کتاب:امت مسلمہ، عبرتناک حال، تابناک مستقبل
مصنف:الحاج ظہور الحسن
ناشر:عالمی دعوتِ اسلامیہ فصیح روڈ اسلامیہ پارک، لاہور
اشاعت:مارچ ۱۹۹۶
صفحات:۲۸۲
کتاب کا تجزیہ
یہ تالیف اردو زبان کےاخبارات و جرائد میں شائع ہونے والے مختلف افراد کے مضامین پر مشتمل ہے۔ جنھیں استفادہ عوام کے لیے یکجا کیا گیا ہے۔ یہ تالیف چار ابواب پر مشتمل ہے۔ تمام مضامین سادہ اور عام فہم ہیں۔ مؤلف نے مضامین کی ترتیب اس طرح کی ہے کہ باب اول کو " مسائل امت" باب دوم کو "سازشیں " باب سوئم کو "اتحاد بین المسلمین" اورباب چہارم کو " عملی تقاضے" کے عنوان کے تحت ترتیب دیا ہے۔
مؤلف کا اس تالیف کے حوالہ سے موقف ہے کہ وقت کی اشد ضرورت ہے کہ ملت اسلامیہ موجودہ انتشار و افتراق کی روش ترک کر کے اسلامی اخوت اور رواداری کی راہ پر گامزن ہو اور متحد ہو کر مشترکہ لائحہ عمل تیار کر کے اسلام دشمن طاقتوں کی ظاہری اور خفیہ سازشوں کا مقابلہ کرے۔ امریکہ کے نیو ورلڈ آرڈر کے مقابلہ میں امت مسلمہ کے مفکرین اب" مسلم اقوام متحدہ" اور مسلم ورلڈ آرڈر کے قیام کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائیں۔[29]
رسالہ "وحدت امت" اور اس کے مصنف مولانا محمداسحاق
مصنف کا تعارف
مولانا محمد اسحاق ؒ بن میاں منشی۱۵ جون،۱۹۳۵ء کو گاؤں ریڑھا ٹاہلی، تحصیل و ضلع فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔[30]آپ نے چک نمبر ۱۱۵، ج ب، گورنمنٹ مڈل سکول دیال گڑھ سے مڈل کا امتحان پاس کیا اور پھر گورنمنٹ ہائی سکول جھمراضلع فیصل آباد سے میڑک کا امتحان اور گورنمنٹ کالج فیصل آباد سےایف-اےکا امتحان پاس کیا۔[31]دارالعلوم چک جھمرہ میں مولانا امداد الحق دیوبندی فاضل دارالعلوم دیوبند انڈیا سے درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔آپ کی تصانیف میں تین کتب ہیں رسالہ وحدت امت،خطبات اسحاق ،حج و عمرہ۔ آپ نے۱۸ اگست ۲۰۱۳ء کو اس دارفانی سے کوچ فرمایا۔ [32]
رسالہ کا تعارف
نام رسالہ:-وحدت امت
مصنف:-مولانا محمد اسحاق
اشاعت نہم :-جنوری ۲۰۰۵ء
ناشر:-مکتبہ ملیہ،فیصل آباد
صفحات:-۹۵
رسالہ کا تجزیہ
یہ رسالہ مولانا محمد اسحاق ؒ کے خطبہ جمعہ پر مبنی ہے جو کہ۸رمضان المبارک ۱۴۱۲ھ کو جامع مسجد کریمیہ فیصل آباد میں دیا گیا تھا۔یہ خطبہ بنیادی طور پر پنجابی زبان میں تھا لیکن بعد میں اردو زبان میں تحریر کیا گیا۔ مصنف نے پیش لفظ میں دور حاضر میں ملت اسلامیہ کو درپیش چیلنجوں سے آگاہ کیا ہے۔ اور اس بات کو واضح کیا ہے کہ مسالک کی تفریق ایک انتہائی افسوسناک پہلو ہے۔ جس کی وجہ سے مسلمان ٹیکنالوجی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ چکے ہیں۔ اور مسلمانوں کی باہمی تفرقہ بندیاں امت مسلمہ کا بہت بڑا نقصان ہے اور یہ دشمن اسلام کی سازش ہے۔ جس کا ہمیں شکار نہیں ہونا چاہیے۔کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کسی گروہ انسانی کو برےاعمال کی بناء پر عذاب میں مبتلا کرتا ہے تواس کی مختلف صورتوں میں سے ایک صورت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس گروہ کو متفرق کر دیتا ہے۔ جس سے اس کی طاقت ختم ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے"أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ"[33] ترجمہ: یا وہ تمہیں فرقہ فرقہ کردے اور تمہیں ایک دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دےـ
رسالہ "اختلاف رحمت ہے فرقہ بندی حرام " اور اس کے مصنف مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی
رسالہ کا تعارف
نام رسالہ:اختلاف رحمت ہے فرقہ بندی حرام
مصنف:مولانا مفتی محمد رفیع عثمانیؒ
ناشر:ادارۃ المعارف کراچی نمبر ۱۴
اشاعت:جنوری2006ء
صفحات:۳۲
رسالہ کا تجزیہ
یہ رسالہ سعودی عرب میں مختلف تنظیموں اور مسالک سے تعلق رکھنے والے احباب سے ایک خطاب ہے۔اس کی زبان سادہ اور عام فہم ہے۔ آپ نے حدود کے اندر اختلاف کو مذموم نہیں کہا بلکہ اختلاف کو رحمت قرار دیا ہے۔ البتہ "تفرق" کی مذمت کی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے درمیان اختلاف رائے موجود تھا۔ آپ ﷺ کے سامنے ایسے واقعات پیش آئے مگر آپؐ نے نکیر نہیں فرمائی۔مصنف نے اختلاف کے حوالہ سے تین چیزیں بیان کی ہیں۔(i ) جو اختلاف قرآن و سنت کی بنیادپر اخلاص پر مبنی ہے وہ رحمت ہےـ(ii)وہ اختلاف جن کاقرآن و سنت میں دو ٹوک فیصلہ موجود نہیں ان مسائل میں اجتہاد کی گنجائش ہے۔یعنی ایک سے زیادہ آراء کا احتمال، یہ ناجائزو ناپسند نہیںـ (iii)آئمہ کے اقوال میں غلط ہونے کا احتمال بھی ہے۔مروان بن الحکم کا عید کا خطبہ پہلے اور نماز بعد میں پڑھانا، اور جھگڑا نہ کرنااورعید کی نماز میں سجدہ سہو کی معافی ۔آپ ﷺ کاحطیم کو بیت اللہ میں شامل نہ کرنا جیسے واقعات مسلمانوں میں پھوٹ کے اندیشہ کو فرو کرنے کے لیے تھے۔
کتاب "اتحادِ امت کیسے ممکن ہے" اور اس کے مصنف پروفیسر حبیب اللہ چشتی کا تعارف
مصنف کا تعارف
پروفیسرحبیب اللہ چشتی ۲۱مئی۱۹۶۷ء کو ضلع سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام سردار محمد ہے۔دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف ضلع سرگودھا سےدینی تعلیم حاصل کی۔[34]پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اور پھر فیصل آباد یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔حال ماڈل کالج برائے طلبہ، H/8 اسلام آباد میں شعبہ اسلامیات کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ہیں۔
تصانیف
اتحادِ امت کیسے ممکن ہے،امت ِ مسلمہ کا عروج و زوال،اسلامی اسلوب ِدعوت،قرآن کافلسفہ حیات،دلائل التوحید،اسلام کیا ہے،عقیدۂ ختم نبوت،مقاماتِ رسالت،قرآن،یہود اور ہم،روحِ عبادت۔
کتاب کا تعارف
نام کتاب :اتحادِ امت کیسے ممکن ہے
مصنف:پروفیسر حبیب اللہ چشتی
ناشر:ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور
اشاعت:جولائی ۲۰۰۸ء
صفحات:۱۹۲
کتاب کا تجزیہ
مذکورہ کتاب کی زبان سادہ عام فہم ہے۔ عبارت کو اشعار سے آراستہ کیا گیاہے۔اشعار کے انتخاب میں کلامِ اقبال سے زیادہ استفادہ کیا گیا ہے۔مصنف لکھتے ہیں کہ اس کتاب کےلکھنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ امتِ مسلمہ آپس میں اتحاد و اتفاق سے رہے اور اپنی صلاحیتوں کو اپنے مقصد ِ اصلی پر صرف کرے۔ مقصدِ اصلی مصنف کے نزدیک تبلیغِ اسلام ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ امتِ مسلمہ کے وجود کا سبب دو چیزیں ہیں۔ ایک اپنے میں پائی جانے والی بے عملی کو ختم کرنا اور دوسرا پوری دُنیا میں اسلام کا پیغام پہنچانا۔ پہلی چیز کو اصلاح اور دوسری کو دعوت کہا جا سکتا ہے۔مسلکی اور گروہی اختلافات صدیوں سے نہیں حل ہوئے تو آج بھی نہیں ہوں گے۔ میرا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ ‘‘نظریاتی کفر ’’سے توجہ ہٹا کر‘‘قطعی کفر’’پر مرکوز کی جا ئے اور ہماری وہ کوششیں جو دوسروں کو زیر کرنے میں صرف ہوتی ہیں، کفار اور مشرکین کے خلاف خرچ ہوں۔[35]
کتاب "فرقہ پرستی کا خاتمہ کیوں کر ممکن ہے؟" اور اس کے مصنف ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا تعارف
کتاب کا تعارف
نام کتاب:-فرقہ پرستی کا خاتمہ کیوں کر ممکن ہے؟
مصنف:-شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری
ناشر:-منہاج القرآن پبلیکیشنز، ماڈل ٹاون لاہور
اشاعت نہم :-مارچ ۲۰۱۰
کتاب کا تجزیہ
یہ کتاب فرقہ پرستی کے خاتمہ کے حل کے لیے ایک اچھی کتاب ہے ابتدا ء میں اکثرعنوانات فرقہ پرستی اور تفرقہ پردازی کے خامیوں سے متعلق ہیں،جیسے خطرناک مضمرات سے متعلق ہیں۔
مصنف نے قرآن و حدیث اور تاریخ اسلام کے واقعات سے استنباط کیا ہےاور فرقہ پرستی کے خلاف نظریاتی اور فکری بنیادیں فراہم کی ہیں۔ پیرائے بیان سادہ قابل فہم اور منطقی ہے۔ کتاب میں ربط ہے بعد کے عنوانات فرقہ پرستی کے خاتمہ کا ممکنہ لائحہ عمل پیش کرنے اور ان کی وضاحت کرنے سے متعلق ہیں، فرقہ پرستی کے اسباب بیان کیے گئے ہیں اور اس کے خاتمہ کے لیے سفارشات بھی مرتب کی گئی ہیں۔ سفارشات قابل عمل ہیں۔ اور مسئلے کے حل کے لیے ایک اچھا لائحہ عمل فراہم کرتی ہیں۔بریلوی مکتبہ فکر کے ایک جید عالم مولانا عبدالستار خان نیازی نے اپنی کتاب "اتحاد بین المسلمین وقت کی اہم ضرورت " میں مختلف مکاتب فکر کے درمیان اختلاف کو بنیادی حقیقی اور اعتقادی کو قرار دیا ہے۔ جبکہ ڈاکٹرطاہرالقادری صاحب نے اپنی زیر تبصرہ کتاب میں اختلاف کو فروعی قرار دیا ہے۔اور اپنے مؤقف کو قرآن و حدیث کے حوالے سے ثابت کیا ہے ۔ اور مضبوط بنیادیں فراہم کی ہیں۔
نتائج
فقہائے اربعہ، امام مالک، امام ابوحنیفہ ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ اور دیگر ائمہ مجتہدین نے قرآن و سنت کی روشنی میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکے مطلوب و منشا کو پانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ ان کی آراء میں دلائل کی روشنی میں باہم اختلاف ہے اس وجہ سے کئی ایک مسالک معرضِ وجود میں اگئے اور اسی وجہ سے ان کے متبعین میں بھی اختلاف رونما ہو گیا۔ ان تمام مسالک کے درمیان دینِ اسلام کی بنیادی اعتقادات مشترک ہیں۔ اور اگر کہیں کو ئی اختلاف ہے تو صرف فروعی حد تک، اور وہ بھی ان کی علمی تفصیلات اور کلامی شروحات متعین کرنے میں ہے۔ کیونکہ اس سے عقائدِ اسلام کی بنیادوں پر کو ئی اثر نہیں پڑتا۔پاکستان میں اتحاد بین المسالک پر لکھی گئی مندرجہ بالا تحریروں کے تجزیاتی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ دور میں اتحاد و اتفاق مسلمانوں کی سب سے اہم اور بنیادی ضرورت ہے۔ اتحاد کی کمی اور فرقہ واریت کے سبب ہی امت مسلمہ زوال کا شکار ہوئی۔
مندرجہ بالا تحریروں میں سے پاکستان میں اتحاد بین المسالک پر لکھی گئی مفتی محمد شفیعؒ کی تقریر " وحدت امت" بہت مفید اور اہم ہے۔ علامہ طاہر القادری کی کتاب " فرقہ پرستی کا ختمہ کیوں کر ممکن ہے؟" بھی امت مسلمہ میں اتحاد پیدا کرنے لے لیے بہت فائدہ مند ہے اور اس سلسلے میں معلومات کے لحاظ سے اچھی کتاب ہے۔ مفتی رفیع عثمانی کی تحریر"اختلاف رحمت ہے فرقہ بندی حرام" بھی فرقہ واریت کے سدباب میں اپنے موضوع پر بہترین کتاب ہے۔ پروفیسر حبیب اللہ چشتی کی کتاب " اتحادِ امت کیسے ممکن ہے؟"جس میں مسلمانوں کو اپنے فروعی اختلافات بھلا کر اپنے دشمنوں کفار اور مشرکین سے مقابلے کی دعوت دی گئی ہے، امت مسلمہ میں اتحاد پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہ کتابیں عہد حاضر میں ملتِ اسلامیہ میں باہمی یگانگت و اخوت، اتحاد و اتفاق، اور مکالمہ بین المسالک کے احسن طریقہ سے انجام دہی کا سبب بن رہی ہے۔
حوالہ جات
- ↑ References 1القرآن، سورۃ النساء، ۴ : ۵۹ Surah al nisaʼ, Verse No. 59
- ↑ محمد ولی الدین، امام، مشکوۃ المصابیح، باب الاعتصام بالکتاب و السنۃ،دارالاشاعت، کراچی، ج ۱، حدیث:۱۸۶ Muḥammad Waly al din, Mishkat al maṣabyḥ, (Karachi: Dar al Isha‘at), 1:, No.:186
- ↑ ابن عابدين، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز عابد ين ،رد المحتار على الدر المختار ،ج۱، ص۶۳ Muḥammad Amin bin Umar, Rad al Mukhtar, 1:63
- ↑ محمد شفیع، مفتی، وحدت امت، مکتبہ مرکزی انجمن خدام القرآن، لاہور، ط3، 1997، ص4 Muḥammad Shafi’, Wahdat Ummat, (Lahore: Markazi Anjuman Khudam al Qur’an 1993), 4
- ↑ نیازی، محمد عبدالستار خان، اتحاد بین المسلمین وقت کی اہم ضرورت، مکتبہ رضویہ، لاہور، ص1
- ↑ http://kitabosunnat.com/ ,محدث لائبریری،میاں محمد جمیل، "اتحاد امت نظم جماعت" Accessed: Time, 8:32PM, Date, 26-10-2017
- ↑ رحمان علی، مولوی، تذکرہ علمائے ہند، جامعہ کراچی،۲۰۰۳ء، ص۱۱۰-۱۱۲ Raḥman ‘Ali, Tadhkirah ‘ulmaʼy hind, (Karachi: University of Karachi: 2003), 110-112
- ↑ محمد بن عبدالوہاب عرب کے علاقے نجد میں۱۷۰۳ء/۱۱۱۵ھ میں پیدا ہوئے اور۱۷۹۲ء میں فوت ہوئے۔ ان کی بہت سی تصنیفات ہیں جن میں کتاب التوحید زیادہ مشہور ہے۔ محمد بن حسن الحجوی الثعالبی، الفکر السامی فی تاریخِ الفقہ الاسلامی،ج۴، ص۱۹۶ Muḥammad bin Ḥassan, Al Fikr al samy fi tarykh al fiqh al islamy, 4:196
- ↑ شیخ عبدالحق بن سیف الدین بن سعد اللہ ترک الدہلوی بخاری، کنیت ابوالمجد، آپ کے آباو اجداد بخارا سے دہلی میں آ کر سکونت پذیر ہوئے۔ آپ کی ولادت ماہِ محرم ۹۵۸ھ میں اور وفات۱۰۵۲ھ میں ہوئی۔آپ کا مقبرہ دہلی میں واقع ہے۔ جہلمی،فقیر محمد، مولوی، حدائق الحنفیہ، مکتبہ ربیعہ،کراچی،۱۲۹۷ھ، ص۴۳۰،۴۳۲ Faqir Muḥammad, Ḥadaʼeq al Ḥanafiyyah, (Karachi: Maktabah Rabeey‘a, 1297), 430-432
- ↑ بریلوی، احمد رضا خان، الدولۃ المکیہ، مکتبہ نبویہ، لاہور، ۲۰۰۱ء، ص۱۱-۱۰ Aḥmad Raḍa Khan, Al dowlah al makkiyyah, (Lahore: Maktabah Nabwiyyah, 2001), 10-11
- ↑ رضوی،ظفرالدین، مولانا، ملک العلما،حیاتِ اعلیٰ حضرت، مکتبہ رضویہ، کراچی، ۱۹۳۸ء،ج۱، ص ۱ ẓafar al din, Ḥayat e ʼa‘la ḥaḍrat, (Karachi: Maktabah Riḍwiyyah, 1938), 1:1
- ↑ مسجد چھتہ، شہر کے مغربی جانب دارالعلوم کے جنوب مشرقی کونے میں واقع ہے۔ اسی مسجد میں دارالعلوم دیوبند کا آغاز ہوا۔
- ↑ ابوالہاشم محمد قاسم بن اسد علی بن غلام شاہ بن محمد النانوتوی کی ولادت ۱۲۴۸ھ میں ہوئی۔ انھوں نے۱۲۸۳ھ میں دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی اور ۱۲۹۷ھ میں وفات پائی۔
- ↑ نقشبندی، ذولفقار احمد، پیر، علمائے دیوبند کا تاریخی پس منظر، کتب خانہ فخریہ، دیوبند، ص20۔
- ↑ www.darululoom-deoband.com , Accessed: Time, 9:38PM, Date, 26-10-2017,
- ↑ ایضاً
- ↑ امام ابن تیمیہ کا نام احمد، لقب تقی الدین اور کنیت ابوالعباس ہے۔ ۱۰ربیع الاول۶۶۱ھ (۲۱جنوری۱۲۶۳ء) کو حران کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ۲۸ذیقعدہ۷۲۸ھ(۴اکتوبر۱۳۲۸ء)میں وفات پائی۔ بھٹی محمد اسحاق،برصغیر میں اہلِ حدیث کی آمد، مکتبہ قدوسیہ ، لاہور،۲۰۰۴ء، ص۱۵۸ Muḥammad Isḥaq, Barreṣaghyr myn ʼehl e ḥadith ki āmad, (Lahore: Maktabah Qudoosiyyah, 2004), 158
- ↑ سعید احمد چنیوٹی، اتحاد ملت کا نقیب فکر اہلِ حدیث ہی کیوں؟، مرکزی جمعیت اہل حدیث، ص۳۲ Sa‘ied Aḥmad chiyoti, Ittiḥad e millat ka naqyb fikar e ʼehl e ḥadith he kiyo?,Markazy jam‘eyyat ʼehl e ḥadith, 32
- ↑ ابن تیمیہ، امام، منہاج السنہ النبویہ، موسسۃ قرطبہ، بیروت، ط،ن، ج۴، ص۱۵۶ Ibn e Tymiyyah, Minhad al sunnah al nabwiyyah, (Bearut, Muassissat Qurtabah), 4:156
- ↑ ایضاً، ج۲، ص۳۶۳ Ibid., 2:363
- ↑ www.ahlelhadith.com , Accessed: Time, 9:38PM, Date, 26-10-2017,
- ↑ احمد نگری ، عبد رب النبی بن عبد رب الرسول "دستورالعلماء" دارالکتب العلمیہ، لبنان، بیروت،۱۴۲۱ھ، ج۲، ص۱۶۵ ‘abd rab al naby, Dastoor al ʼulmaʼ, (Bearut, Dar al kutub al ʼelmiyyah, 1421), 2:165
- ↑ سلیچ، محمد منیر احمد، ڈاکٹر، وفیات ناموران پاکستان، اردو سائنس بورڈ، لاہور، ۲۰۰۶، ص ۸۰۵ Dr. Muḥammad Munir Aḥmad, Wafayat namwaran e Pakistan, (Lahore: Urdu Science Board, 2006), 805
- ↑ ممتاز عالم دین و مفسر قرآن فضل احمد غزنوی کی وفات ۴ دسمبر ۱۹۸۶ میں ہوئی۔ تدفین حالہ حیدر آباد سندھ میں ہوئیسلیچ، محمد منیر احمد، ڈاکٹر، وفیات ناموران پاکستان، ص ۸۰۵ Dr. Muḥammad Munir Aḥmad, Wafayat namwaran e Pakistan, 805
- ↑ غلام احمد پرویز بن چوہدری فضل دین ہندوستان کے ضلع گورداس پور کے شہر بٹالہ میں ۹ جنوری ۱۹۰۳ ء میں حنفی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد اور دادا سے حاصل کی۔ ۱۹۲۱ ء میں میٹرک اور ۱۹۲۴ ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ تصانیف قرآنی فیصلے ،لغات الحدیث، قرآنی قوانین، معراجِ انسانیت ،طلوع اسلام مشہور ہیں۔ www.anwar-e-islam.org, accessed at 10:10PM on 8-04-2016
- ↑ غزنوی، فضل احمد، مولانا،شیعہ سنی اتحاد، ص۴ Faḍal Aḥmad , Shi‘a sunni Ittiḥad, 4
- ↑ سلیچ، محمد منیر احمد، ڈاکٹر، وفیات ناموران پاکستان، ص۴۹۵۔ Dr. Muḥammad Munir Aḥmad, Wafayat namwaran e Pakistan, 495
- ↑ سلیج، محمد منیر احمد، ڈاکٹر، وافیات ناموران پاکستان، اردو سائنس بورڈ لاہور، ۲۰۰۶، ص۷۵۵ Dr. Muḥammad Munir Aḥmad, Wafayat namwaran e Pakistan, (Lahore: Urdu Science Board, 2006), 755
- ↑ ظہور الحسن، الحاج، امت مسلمہ، عبرناک حال، تابناک مستقبل، عالمی دعوت اسلامیہ،لاہور،۱۹۹۶، ص ۱۰ Ẓahuor al Ḥasan, Ummat e Muslimah, ‘abarnak ḥal, tabnak Mustaqbil, (Lahore: ‘almy dawat islamiyah, 1996), 10
- ↑ محمد اسحاق، مولانا، خطبات اسحاق، مکتبہ تکبیر فیصل آباد، ۲۰۰۵، ج۱، ص ۶ Muḥammad Isḥaq, Khutbat e Isḥaq, (Fysala ābad, Maktabah Takbyr, 2005), 1:6
- ↑ ایضاً، ج۲، ص ۱۷،۱۸،۱۹ Ibid,. 2:17-19
- ↑ محمد جعفر بن محمد اسحاق، احکام عید و قربانی، مفتی محمد اسحاق ریسرچ فائدیشن فیصل آباد،ص۹ Muḥammad Ja‘far bin Muḥammad Isḥaq, aḥkam eyd wa qurbany, (Fysala ābad, Muḥammad Isḥaq Research Foundition), 9
- ↑ القرآن،سورۃ الانعام، ۶:۶۵ Surah al an‘am, 6:65
- ↑ صابری، مقصود احمد،وارثانِ علم و حکمت، مکتبہ صابریہ، راولپنڈی،۲۰۱۲ء، ص۱۱۰۶ Maqṣood Aḥmad, Warethan e ‘ilm wa ḥikmat, (Rawalpindi: Maktabah Ṣabriyyah, 2012), 1106
- ↑ چشتی،محمد حبیب اللہ ، پروفیسر،اتحادِ امت کیسے ممکن ہے، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۸ء ص۲۲ Muḥammad Ḥubaib Allah, ʼettiḥad e ummat kysy mumkin hy, (Lahore: ḍiyaʼ al Qurʼan Publications, 2008), 22
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |