2
2
2017
1682060030498_1275
75-91
https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/download/283/114
https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/view/283
Lesley Hazleton Muḥammad Seerah the First Muslim Lesley Hazleton Muḥammad Seerah The First Muslim
تمہید
انسانوں کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام ؑ کا سلسلہ جاری کیا۔ اس سلسلے کے پہلے پیغمبر حضرت آدمؑ جبکہ آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰﷺ ہیں ۔ آپ ﷺ نے دنیا سے جہالتوں کو مٹایا ۔ معاشرے کے ہر طبقہ کو حقوق دیکر امن برپا کیا ۔ مظلوموں ، فقیروں ، یتیموں ، بیواؤں ، اور بے سہاروں کی مدد کی ۔ آپ ﷺ جانوروں اور حیوانات پر بھی مہربان تھے ۔ آپ ﷺ پر وحی کا سلسلہ مکمل ہوا ۔ آپ ﷺ کی سیرت مبارکہ کے بارے میں ہر دور اور ہر زبان میں کتابیں لکھی گئیں ۔مسلمان سیرت نگاروں کے علاوہ غیر مسلم ، خصوصاً مغربی مصنفین نے بھی اس میدان میں کام کیا اور کتابیں لکھیں ۔مغربی مصنفین کی کتابوں میں نبی ﷺ کی عظمت کے با رے میں اعترافات بھی ہیں۔ لیکن ان کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جنہوں نےآپ ﷺ پر قسم قسم اعتراضات کئے ہیں ۔
عصرِ حاضر کے مغربی مصنفین میں سے ایک نام Lesley Hazletonبھی ہے ، جس نے نبی ﷺ کےبارے میں " The First Muslim - The Story of Muhammad " کے نام سے کتاب لکھی ہے ۔ یہ کتاب نبی ﷺ کی پیدائش سے لیکر وفات تک کے واقعات پر مشتمل ہے ۔ کتاب کی مصنفہ ایک برطانوی نژاد امریکی شہری ہے ۔ اس نےمشرقِ وسطیٰ کی تہذیب ، تاریخ ، سیاست اور مذہب پر بعض دیگر کتب بھی لکھی ہے ۔سیرت طیبہ کے بارے میں لکھی گئی اس کتاب کو مصنفہ نے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے اور ان حصوں کے نام بالترتیب یوں یہ رکھے ہیں ۔ یتیم ، جلا وطنی اور قائد ۔ کتاب میں کل 21 ابواب ہیں۔ مصنفہ کو لکھنے کا فن آتا ہے ۔ اس لئے اسلام اور سیرت نبویﷺ سے بے خبر لوگوں کو جلد متاثر کر تی ہیں ۔ اس پر پیش رو مستشرقین کا بھی اثر ہے ۔ گویا اس نے پرانے شراب کو نئی بوتلوں میں بند کرنے کی کوشش کی ہے ۔
منٹگمری واٹ اور کیرن آرم سٹرانگ کی تقلید کرتے ہوئے ایک جگہ نبی ﷺ کے بارے میں اچھی باتیں ذکر کرتی ہیں، تو دوسری جگہ شکوک و شبہات پیداکرتے ہوئے اپنا کام نکال لیتی ہے ۔ مُصَنِّفہ نے ایک طرف بڑی کمزوراور ضعیف روایات کا سہارا لیا تو دوسری طرف نبی ﷺ کی سیرت پر تخیّلاتی انداز میں لکھتی ہیں ۔ مصنفہ نے تحقیق کے نام پر حقائق مسخ کیے ہیں۔ تقریباً ہر واقعہ کو غلط رنگ میں غلط انداز سے پیش کیا ہے ۔ نبیﷺ کی پیغمبرانہ شان کو مشکوک بنانے کی کوشش کی ہے اور آپ ﷺ کو ایک عام دنیاوی سیاست دان کی صورت میں پیش کیا ہے ۔ اس لئے ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ مصنفہ کی کتاب کا تحقیقی جائزہ لیا جائے ۔اور سیرتِ طیبہ کو قرآن و سنت اور سیرت و تاریخ کی مستند روایات کی روشنی میں پیش کیا جائے ،اورجہاں جہاں روایات کو غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے اُن پرعلمی گرفت کی جائے ۔
مصنفہ کا تعارف :
لیزلے ہزلٹن برطانوی نژاد امریکی مصنفہ 1945 ء کو انگلینڈ میں پیدا ہوئی ہے ۔ 1966ء سے 1979 ء تک یروشلم میں رہائش پذیر رہی ۔ پھر 1979 ء سے 1992 ء تک امریکہ کے شہر نیو یارک میں رہائش پذیر رہی ۔ پھر نیویارک سے امریکہ کے شہر سیٹل ( Seattle) منتقل ہوئی اور 1994 ء میں امریکہ کی شہریت حاصل کی ۔ مصنفہ نے علمِ نفسیات میں دو ڈگریاں حاصل کی۔ بی اے کی ڈگری انگلستان کے مانچسٹر یونیورسٹی سے اور ایم۔اے کی ڈگری یروشلم کے ہیبرو یونیورسٹی سے حاصل کی۔وہ خود کو Agnostic Jew بتاتی ہیں ۔ اپریل 2010 ء میں Accidental Theologist کے طور پر بلاگنگ شروع کی۔
سال 2012 ء میںThe Stranger’s Genius ایوارڈ حاصل کیا ۔ مختلف موضوعات پر کتابیں لکھیں جن میں Agnostic ، Jezebel ، Where Mountains Roar ، England , Bloody England ، Jerusalem ، Israeli Women ، After the Prophet ، Driving to Detroit اور Mary وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سے ایک کتاب کا نام The First Muslim : The Story of Muhammad ہے جو پیغمبر ِ اسلام محمدﷺ کی سوانح پر مشتمل ہے۔[1]
کتاب The First Muslim کا تعارف ومنہج :
یہ کتاب پہلی مرتبہ 2013 ء میں Atlantic Books London نے شائع کی ۔ اس میں مصنفہ نے زمانی ترتیب کا خیال رکھا ہے ۔مصنفہ کو زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے ، اس لئے اسلام اور سیرت نبوی ﷺ سے کم باخبر یا بالکل بے خبر لوگوں کو جلد متاثر کر تی ہیں ۔ مصنفہ پر پیش رو مستشرقین جیسے منٹگمری واٹ اور کیرن آرم سٹرانگ کا اثر بھی نظر آتا ہے ۔ مصنفہ نے ایک طرف کمزور اور ضعیف روایات کا سہارا لیا تو دوسری طرف نبی ﷺ کی سیرت پر تخیّلاتی انداز میں لکھا ۔ یہ کتاب 320 صفحات پر مشتمل ہے ۔ کتاب میں کل 21 ابواب ہیں ۔ مصنفہ نے اس کو تین حصّوں میں تقسیم کیا ہے ۔ اور ان حصّوں کے نام بالترتیب یوں رکھے ہیں۔ یتیم ( Orphan) ، جلا وطن ( Exile) اور قائد ( Leader)
جس طرح عموماً کتابوں کے شروع میں فہرستِ عنوانات ہوا کرتا ہے، اس کتاب میں مفقود ہے۔مختلف بیانات کو رواں انداز میں ترتیب دیا ہے اور کوئی ذیلی عنوان ذکر نہیں کیا بلکہ مسلسل پیراگراف ہیں۔
کتاب کا پہلا حصّہ سات ابواب پر مشتمل ہے ۔[2] دوسرا حصہ گیارہ ابواب اور [3]کتاب کاآخری حصہ صرف تین ابواب پر مشتمل ہے اور یہ حصہ بیالیس صفحات پر مشتمل ہے ۔[4]
تمام ابواب کے بعد مصنفین کے عام طریقہ کار سے ہٹ کر Acknowledgments ہے جس میں مصنفہ نے اس کتاب کی تکمیل میں اس کے ساتھ تعاون کرنے والوں ، حوصلہ افزائی کرنے والوں اور اپنی دوسرے محسنین کا شکریہ ادا کیا ہے ۔ [5]اس کے Notes درج ہیں جن میں اس کتاب میں وارِد قرآنی آیات کے تراجم، دیگر کتب کے اقتباسات یا نوٹس ہر باب اور صفحہ وارترتیب سے دئیے ہیں۔ [6]
اس کے بعد Bibliography اس کتاب کے مصادر و مراجع کا ذکر ہے۔[7] سب سے آخر میں کتاب کا اشاریہ Index ہے جس میں مصنفہ نے کتاب میں وارِد اعلام و اماکن وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے جس سے کتاب کے مطالعہ میں آسانی رہتی ہے ۔ [8]
کتاب کی وجہ تسمیہ :
کتاب کا نام The First Muslim رکھنے سے یہ تأثر ملتا ہے کہ مصنفہ بھی دوسرے مستشرقین کے نقش قدم پر چل نکلی ہے ، عام طور پر دوسرے مستشرقین نبی کریمﷺ کو بانی ٔ اسلام سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ محمدﷺ نئے دین کے بانی نہیں بلکہ دینِ ابراہیمی کے تجدید کرنے والے اور سلسلہ انبیاء علیہم السلام کی آخری کڑی اور خاتم النبیین ہیں۔ دینِ اسلام ایک ہی دین ہے جو تمام انبیاء کا دین اور اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے تاہم زمان ومکان کے اختلاف سے شرائع مختلف ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ ۔[9]
" اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ۔"
اور
لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا [10]
"ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے ایک شریعت اور ایک راہ ِعمل مقرر کی ۔ "
مصنفہ نے قرآن پاک کے الفاظ: أَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ [11]" سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا میں ہوں " کی وجہ سے یہ نام رکھ دیا ہے ۔ حالانکہ اس کا مطلب اس قدر ہے کہ آپ ﷺ عرب کے معاشرے میں دوسروں سے بڑھ کر اور سب سے پہلے حضرت ابراہیم ؑ کے لائے ہوئے خالص دین کے علمبر دار ہیں ۔ وہ ابراہیم ؑ ، جن کو نہ صرف عرب کے مشرکین بلکہ یہودی اور مسیحی بھی اپنا پیشوا مانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو امتحانات میں ڈالنے اور اس میں کامیاب ہونے پر آپ علیہ السلام کی یہی صفت بیان کی ہے:
وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا [12]
"یاد کرو کہ جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اتر گیا تو اس نے کہا : " میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں "۔
مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں :"اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا نے اس دین کا نام اسلام رکھا ہے جو ہر پیغمبر لے کر آیا ہے۔حضرت ابراہیم ؑ نے بھی اس دین کو اسلام کا نام دیا تھا اور ظاہر ہے کہ اس وقت مسلمان موجود نہیں تھے ، ابراہیم ؑ کے بعد جتنے پیغمبر آئے اور جو امتیں ہوئی ہیں وہ پیغمبر اسلام کے داعی تھے اور امتیں اسلام کی متبع تھیں"[13]
مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں : " تمام انبیاء دین ِ اسلام ہی کی تعلیم دیتے چلے آئے ہیں ۔ اور دین ِ اسلام یہ ہے کہ تم خدا کی ذات و صفات اور آخرت کی جزا و سزا پر اُس طرح ایمان لاؤ جس طرح خدا کے سچّے پیغمبروں نے تعلیم دی ہے ۔ خدا کی کتابوں کو مانو اور تمام من مانے طریقے چھوڑ کر اُسی طریقے کو حق سمجھو جس کی طرف ان کتابوں میں رہنمائی کی گئی ہے ۔ خدا کے پیغمبروں کی اطاعت کرو اور سب کو چھوڑ کر انہی کی پیروی کرو ۔ خدا کی عبادت میں خدا کے سوا کسی کو شریک نہ کرو ۔ اسی ایمان اور عبادت کا نام دین ہے اور یہ چیز تمام انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات میں مشترک ہے ۔
اس کے بعد ایک چیز دوسری بھی ہے ، جس کو شریعت کہتے ہیں ۔ یعنی عبادت کے طریقے ، معاشرت کے اُصول ، باہمی معاملات اور تعلقات کے ، قوانین ، حرام اور حلال ، جائز اور ناجائز کے حدود وغیرہ ۔ ان اُمور کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ابتداء میں مختلف زمانوں اور مختلف قوموں کے حالات کا لحاظ کرکے اپنے پیغمبروں کے پاس مختلف شریعتیں بھیجی تھیں ، تاکہ وہ ہر قوم کو الگ الگ شائستگی اور تہذیب و اخلاق کی تعلیم و تربیت دے کر ایک بڑے قانون کی پیروی کے لئے تیار کرتے رہیں ۔ جب یہ کام مکمل ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو وہ بڑا قانون دے کر بھیج دیا جس کی تمام دفعات تمام دنیا کے لئے ہیں ۔ اب دین تو وہی ہے جو پچھلے انبیاء علیہم السلام نے سکھایا تھا ، مگر پرانی شریعتیں منسوخ کر دی گئی ہیں اور ان کی جگہ ایسی شریعت قائم کی گئی ہے جس میں تمام انسانوں کے لئے عبادت کے طریقے اور معاشرت کے اصول اور باہمی معاملات کے قانون اور حلال و حرام کے حدود یکساں ہیں "۔[14]
تمام سابقہ انبیاء کا دین بھی دین اسلام ہی تھا ۔آیاتِ قرآنیہ اس پر دلالت کرتی ہیں ۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ () قُلْ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ () لاَ شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ [15]
" اے محمدؐ ! کہو میرے رب نے بالیقین مجھے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے ، بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں ، ابراہیم کا طریقہ جسے یکسو ہو کر اس نے اختیار کیا تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا ، کہو ، میری نماز ، میرے تمام مراسِم عبودیت ، میرا جینا اور میرا مرنا ، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لئے ہے جس کا کوئی شریک نہیں ۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا میں ہوں ۔ "
توحید کی یہی دعوت تمام سابقہ انبیاء علیہم السلام نے بھی دے دی تھی جس طرح آخری پیغمبر محمد ﷺ کی زبان سے کہلوایا گیا کہ " اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا میں ہوں ۔ "
مولانا مودودی ؒ اِن آیات کی تشریح میں یوں لکھتے ہیں :
" اگرچہ اس کو موسیٰؑ کا طریقہ یا عیسیٰؑ کا طریقہ بھی کہا جا سکتا تھا ، مگر حضرت موسیٰ ؑ کی طرف دنیا نے یہودیت کو اور حضرت عیسیٰؑ کی طرف مسیحیت کو منسوب کر رکھا ہے ، اس لئے "ابراہیم کا طریقہ " فرمایا ۔ حضرت ابراہیمؑ کو یہودی اور عیسائی، دونوں گروہ برحق تسلیم کرتے ہیں ، اور دونوں یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ یہودیت اور عیسائیت کی پیدائش سے بہت پہلے گزر چکے تھے۔ نیز مشرکین عرب بھی ان کو راست رَو مانتے تھے اور اپنی جہالت کے باوجود کم ازکم اتنی بات انھیں بھی تسلیم تھی کہ کعبہ کی بنا رکھنے والا پاکیزہ انسان خالص خدا پرست تھا نہ کہ بت پرست ۔ " [16]
قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا:
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلاَّ نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لا إِلَهَ إِلاَّ أَنَا فَاعْبُدُونِ [17]
" ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجا ہے اس کو یہی وحی کی ہےکہ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پس تم لوگ مَیری ہی بندگی کرو ۔"
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ، جس میں ہے کہ نوح ؑ نے اعلان فرمایا تھا کہ :
وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ [18]
"اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ ( خواہ کوئی مانے یا نہ مانے میں خود مسلم بن کر رہوں۔"
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ جس میں ابراہیمؑ کو حکم ہے کہ فرمانبردار ہو جا : إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ [19]"جب اس کے رب نے اسے کہا : " مسلم ہو جا " ، تو اس نے فوراً کہا : " میں مالک کائنات کا " مسلم " ہو گیا ۔ " اللہ کے پیغمبر ابراہیمؑ اور یعقوبؑ نے اپنی اولاد کو وصیّت فرمائی تھی : وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلاَ تَمُوتُنَّ إَلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ [20]" اسی طریقے پر چلنے کی ہدایت اس نے اپنی اولاد کو کی تھی اور اسی کی وصیت یعقوبؑ اپنی اولاد کو کر گیا ۔ اس نے کہا تھا کہ میرے بچّو ، اللہ نے تمہارے لئے یہی دین پسند کیا ہے ۔ لہٰذا مرتے دم تک مسلم ہی رہنا " "
اللہ تعالیٰ کے پیغمبر یوسف ؑ نے دعا فرمائی تھی کہ اے اللہ مجھے اسلام کی حالت میں دنیا سے مٹانا : تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ[21] " میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجام کار مجھے صالحین کے ساتھ ملا "
اسی طرح موسیٰ ؑ نے اپنی قوم کو فرمایا تھا : وَقَالَ مُوسَى يَا قَوْمِ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللَّهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُواْ إِن كُنتُم مُّسْلِمِينَ [22]موسیٰ ؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ " لوگو ، اگر تم واقعی اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اس پر بھروسہ کرو اگر مسلمان ہو ۔ "
مولانا مودودیؒ اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں :
" حضرت موسیٰ کا یہ ارشاد صاف بتا رہا ہے کہ بنی اسرائیل کی پوری قوم اس وقت مسلمان تھی ، اور حضرت موسیٰ ان کو یہ تلقین فرما رہے تھے کہ اگر تم واقعی مسلمان ہو ، جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے ، تو فرعون کی طاقت سے خوف نہ کھاؤ بلکہ اللہ کی طاقت پر بھروسہ کرو " ۔ [23]
اللہ تعالیٰ کے پیغمبر عیسیٰ ؑ کے حواریوں کے بارے میں قرآن میں یہ ارشاد موجود ہے : وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِيِّينَ أَنْ آمِنُواْ بِي وَبِرَسُولِي قَالُوَاْ آمَنَّا وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ[24] "اور جب میں نے حواریوں کو اشارہ کیا کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ تب انہوں نے کہا کہ ہم ایمان لائے اور گواہ رہو کہ ہم مسلم ہیں "۔
قرآن میں نبی ﷺ کے اول مسلم ہونے کا مطلب :
اللہ تعالیٰ کافرمان ہے : قُلْ إِنِّيَ أُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ وَلاَ تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكَينَ [25]"کہو ، مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے اس کے سامنے سر تسلیم، خم کرو ں ( اور تاکید کی گئی ہے کہ کوئی شرک کرتا ہے تو کرے ) تو بہر حال مشرکوں میں شامل نہ ہو ۔ " دوسری جگہ آیت مبارکہ ہے : لاَ شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ[26] " ( اُس ) کا کوئی شریک نہیں ۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا میں ہوں ۔ " ایک دوسری آیت ہے : وَأُمِرْتُ لأَنْ أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ [27]" اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے میں خود مسلم بنوں "۔
مندرج بالا آیات میں "اول مسلم " کا لفظ ہے ۔یعنی پہلا (مسلم ) اس لفظ کا مطلب یہ ہے کہ آبائی دین کی مخالفت کرکے توحید کی دعوت سب سے پہلے محمد ﷺ نے دے دی تھی ۔
واضح ہوا کہ توحید کی دعوت تمام انبیاء علیہم السلام نے دے دی تھی اور تمام انبیاء کا دین اسلام ہی تھا ۔ تمام انبیاء اور ان کے مخلص پیرو کاروں نے اسی اسلام کو اپنایا جس میں توحیدِ الوہیّت کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔محمدﷺ بانئ اسلام نہیں تھے ، بلکہ اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر یعنی خاتم النبیّین ہیں ۔
محمدﷺ کی عظمت کا اعتراف:
مصنفہ اپنی کتاب میں نبیﷺ کی عظمت کا بھی جگہ جگہ اعتراف کرتی ہے۔ وہ بعض جگہوں میں مثبت بات کہتی ہیں اور ابتداء میں مثبت ذکر کرتی ہیں تاہم آگے جاکر چند اعتراضات کرتی ہیں۔مثلاً:
1 ۔ تعدّدِ ازواج :
مستشرقین کے ایک بڑے گروہ نے نبی ﷺ کی کثیر الازواجی کو بارہا ہدفِ تنقید بنایا ہے لیکن منٹگمری واٹ اس امر کو کسی نفسانی غرض سے منسوب نہیں کرتا ۔ ایک قبائلی اور بدوی معاشرے میں کثرتِ ازواج کی سیاسی ضرورت کو وہ تسلیم کرتا ہے ۔ کیرن آرمسٹرانگ بھی نبی ﷺ کے کثیر الازواجی کے سیاسی اہداف کو قبول کرتی ہیں۔ اسی طرح لزلے کی سوچ بھی دوسرے مستشرقین کی بجائے واٹ اور کیرن کی طرح ہے ۔ وہ کہتی ہیں کہ عرب معاشرے میں تعدد ازدواج سیاسی اتحاد کا مؤثر ذریعہ تھا ۔ جسے پیغمبرِ اسلام ﷺ نے استعمال کیا ۔ وہ لکھتی ہیں :
“It was also a means of forming and consolidating alliances. Marriage brought allies close and former enemies even closer. It was a declaration of political amity written, as it were, in the flesh.” [28]
" تعددِ ازواج اتحادوں کی تشکیل اور اس کے استحکام کا ذریعہ تھا ۔ شادی کے ذریعے سابقہ اتحادی اور قریب آجاتے اور سابقہ دشمن قریب تر ہو جاتے ۔ گویا یہ ایک ایسی سیاسی اتحاد کا اعلامیہ تھا جس کی جڑیں گوشت میں پیوست تھیں ۔"
وہ یہ اعتراف بھی کرتی ہیں کہ تعدد ازواج عرب کے قبائلی معاشرے کا ایک لازمی حصّہ اور نسلی اشتراک کے سلسلے میں دور رس نتائج کا حامل ادارہ تھا ۔ لکھتی ہیں :
“This seeming muddle of marriages was part of the traditional and far reaching Arabian web of kinship.” [29]
اسی طرح ایک اعتراف یہ کرتی ہیں:
“By both giving and taking in marriage, Muhammad was establishing the leadership matrix of the new Islamic community.” [30]
"رشتہ داری میں لین دین کے ذریعے محمد ﷺ در اصل مستقبل کی نئی اسلامی قومیت کے لئے قیادت کا ایک میٹرکس Matrix)) قائم کر رہے تھے ۔"
لیکن ساتھ ہی زمانہ جدید کے معیار کے مطابق اس پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتی ہیں :
“This seeming muddle of marriages …beggars the modern Western idea of the nuclear family. It makes a mockery of something as simplistically linear as a family tree, becoming far more like a dense forest of vines.” [31]
"شادیوں کا بظاہر ایک گورکھ دھندا ۔۔۔جدید زمانے کے مرکزی خاندان کے تصوّر سے لگا نہیں کھاتا۔ جدید تصوّر کے مطابق شجرۂ نسب ایک نسل کے تسلسل کو ظاہر کرتا ہے ۔ تعدد ازواج اس تصوّر کی عین نفی ہے اور اس کی صورت میں شجر نسب نہیں بلکہ ایک پیچیدہ قسم کی پھیلی ہوئی انگور کی بیل کا تصوّرسامنے آ جاتا ہے ۔" آگے ایک اعتراض کرکے لکھتی ہیں :
“But if this was clear to the men, it was not necessarily so to the women involved, and especially not to the youngest, the most outspoken, and most controversial of Muhammad’s late life wives, abu Bakr’s daughter Aisha.” [32]
" لیکن ( اتّحادِ قبائل کی یہ حکمت ) گو مردانِ عرب کے لئے قابلِ فہم تھی ، تا ہم یہ لازمی طور پر خواتینِ عرب اور خاص طور پر سب سے نوجوان اور ( نعوذ بااللہ ) حضرت عائشہ جیسی بے باک اور سب سے متنازعہ اہلیہ کے لئے قابل فہم نہ تھی ۔ "
مزید لکھتی ہیں :
“ Certainly Aisha never saw herself as merely a means of political alliance, let alone as just one wife among many . In fact if there was one thing she would insist on all her life, it was her exceptionality.”[33]
"یقیناً حضرت عائشہ نے اپنے آپ کو محض سیاسی اتحاد کے ذریعہ کے طور پر بالکل قبول نہ کیا ۔ ( کہ میرے ذریعہ دو قبائل قریب آرہے ہیں ) اور اس بات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ وہ اپنے آپ کو تعدد ازواج کے سلسلے کی ایک کڑی سمجھیں۔ درحقیقت اپنی ساری زندگی انہوں نے جس بات پر اصرار کیا وہ ان کی انفرادیت پسندی تھی ۔ "
"قوم" کا مغربی تصور یہ ہے کہ قوم نسل سے بنتی ہے مثلاً جرمن قوم ، پرتگالی قوم اور انگریز قوم وغیرہ ۔ اس لئے مصنفہ تعددِ ازواج کو اسی تناظر میں دیکھتی ہے جبکہ اسلام ایک امت کا تصور دیتا ہے جس میں مختلف اقوام شامل ہوتے ہیں اور یہی وہ نکتہ ہے جسے مصنفہ نہ سمجھ سکی۔
مصنفہ نے اپنی دوکتابوں میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی کردار کُشی کی ہے اور یہیں سے اپنی دوسری کتاب کی بیانیہ کی بنیاد رکھی جس کے مطابق حضرت عائشہؓ ساری زندگی نعوذ باللہ خاندانِ نبوت کے لئے مسائل کھڑی کرتی رہیں ۔ [34]
2 ۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو خراجِ تحسین :
مصنفہ نے اس کتاب میں جگہ جگہ ام المؤمنین خدیجہ ؓ کے کردار کو سراہا ہے مثلاً جن دنوں میں نبی ﷺ غارِ حِرا میں تشریف لے جاتے تو اس موقع پر مصنفہ نے ،حضرت خدیجہؓ کو نبی ﷺ کی زندگی کا بنیادی سہارا یعنی ( Bedrock of his life) کہاجو کہ ایک مثبت اشارہ ہے ۔ [35]
اسی طرح ایک جگہ ابن اسحاق ؒکے حوالے سے یہ جملہ استعمال کرتی ہیں۔
“a merchant woman of dignity and wealth , a determined , noble , and intelligent woman .”
یعنی " تاجر خاتون جوکہ با وقار اور مالدار تھیں ، پر عزم ، نیک اور ذہین خاتون تھیں ۔"
مصنفہ اس پر اپنا تبصرہ یوں پیش کرتی ہیں:
“It’s unusual to see the words determined and intelligent used about any woman of the time, but in Khadija’s case they were entirely appropriate.” [36]
اس وقت کی کسی عورت کے بارے میں پر عزم اور ذہین جیسے الفاط کا استعمال ایک غیر معمولی بات ہے ، لیکن حضرت خدیجہؓ کے معاملے میں یہ الفاظ انتہائی مناسب تھے ۔
3۔ حجَرِ اسود کی تنصیب :
مصنفہ نے نبی ﷺ کے حجرِ اسود کی تنصیب کے واقعہ کی داد دی ہے۔یہ واقعہ اور فیصلہ ذکر کرنے کے بعد لکھتی ہیں :
“It was acclaimed as the perfect solution. Everyone had had a hand in the process, and all had been equally honored .But for Muhammad this small but poignant demonstration of the constructive power of unity can only have served as a distressing reminder of division. What would stay with him was not the praise for his judiciousness but the alacrity with which the Quraysh had restored to threats of violence , and at the one place , the sanctuary of the Kaaba , where violence was forbidden . [37]
4۔ نزولِ وحی
نزولِ وحی کے وقت نبی ﷺ پر ایک خاص کیفیت طاری ہو جاتی تھی ۔ بعض مستشرقین اسے مرگی کا دورہ قرار دیتے ہیں۔ وہ وحی کا مطالعہ ابنارمل سائیکالوجی کے تحت کرتے ہیں ۔اور نبی ﷺ پر صرع اور مرگی کا بیہودہ الزام لگاتے ہیں ۔لیکن مصنفہ نے واٹ اور دیگر مشتشرقین کی طرح Epilepsy Theory کو مسترد کیا ہے ۔ وہ لکھتی ہیں کہ نبی ﷺ کے مخالفین (کفّار) نے آپ ﷺ کوافسانہ تراز ،جھوٹا اور جادوگر تو کہا ، لیکن مرگی کا مریض نہیں کہا ۔ وہ لکھتی ہیں :
“If he were in fact subject to epileptic fits, his many opponents in Mecca would certainly have made much of his condition , yet even though they would use every argument they could muster against his preaching – he was a fabulist , they’d say , a dreamer , a liar , a sorcerer – they would never use this one.” [38]
اگر محمد ﷺ فی الواقعہ مرگی کے مریض ہوتے تو مکہ میں موجود آپؐ کے بہت سے مخالفین آپؐ کی اس حالت کو دیکھ کر بات کا بتنگڑ بنا دیتے ، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اگرچہ انہوں نے حسبِ توفیق نبی ﷺ کے خلاف ہر قسم کا الزام لگایا ۔ آپﷺکو افسانہ تراز ، مستقبل کا خواب دیکھنے والا ، جھوٹا اور جادوگر تو کہا ، لیکن مرگی کا مریض نہیں کہا ۔
5
۔ اسی طرح مصنفہ نے صلح حدیبیہ کی تعریف کی ہے اور اُسے ڈپلومیسی کا شاہکار A strategic master stoke)) کہا ہے ۔ لکھتی ہیں کہ محمد ﷺ نے اپنی سیاست سے وہ کچھ حاصل کر لیا جو جنگ سے حاصل نہ ہو سکتا تھا ۔ لکھتی ہیں :
“In time, the truce of Hudaibiya would come to be seen as a strategic masterstoke on Muhammad’s part. Ibn Ishaq would write that no victory greater than this one had been won previously in Islam. There had only been fighting before, but when the truce took place and war laid down its burdens and all the people felt safe with each other, they met with each other in conversation and debate , and all who possessed understanding and were told about Islam accepted it.” [39]
6
۔ اسی طرح غزوۂ خیبر کے متعلق لکھتی ہیں کہ ایک محاصرہ وہ تھا جو ابوسفیان نے جنگِ خندق میں مدینہ کا کیا تھا اور ایک محاصرہ یہ تھا جو محمد ﷺ نے خیبر کا کیا اور کامیاب ہوئے ۔ لزلے نے یہاں محمدﷺ کی جنگی حکمتِ عملی کو سراہا ۔ لکھتی ہیں:
“With the Meccan truce in place, Muhammad set about securing what he now considered his hinterland to the north. Just a month after returning to Medina, he headed an expedition of sixteen hundred men against Khayber, the richest of the Oases of the northern Hijaz. Its vast date palm plantations were divided among seven Jewish tribes, each one with its own fortified stronghold. When abu Sufian had led a massive army against Madina , with its similar system of strongholds, he had laid siegh to it and failed . Now Muhammad would give practically a text book illustration of how it should be done.” [40]
درج بالا چند اعترافات کے علاوہ جگہ جگہ مثبت خیالات بھی پیش کرتی ہیں یعنی اس نوع کے کچھ دوسرے واقعاتِ سیرت بھی ہیں جہاں ایک صحیح العقیدہ مسلمان چند قدم مصنفہ کے ساتھ چل سکتا ہے تاہم کچھ آگے جاکر دونوں کےراستے مختلف ہو جاتے ہیں ۔ لزلے کے اٹھائے ہوئے بہت سے نکات قابلِ گرفت ہیں اور زیرِ بحث لائے جا سکتے ہیں مثلاً:
سیرتِ نبویﷺ پر اعتراضات
ان چند اعترافات کے علاوہ مصنفہ پیغمبرِ اسلام ﷺ کے بارے میں چند اعتراضات بھی کرتی ہیں۔ اس کتاب میں وہ بعض بنیادی امور کے بارے میں اپنے پیش رو مستشرقین کے نقشِ قدم پر چلتی دکھائی دیتی ہے۔اس نے نبی ﷺ کی پیغمبرانہ حیثیت کو مشکوک بنانے کی کوشش کی ہے جو کہ تحریک استشراق کا بنیادی تقاضا ہے ۔
کتاب کے تینوں حصّوں میں جگہ جگہ ، سیرتِ نبویﷺ کے بارے میں اعتراضات موجود ہیں ۔چند مثالیں درج ذیل ہیں ۔
1 ۔ ام المؤمنین عائشہ ؓ کے بارے میں نازیبا باتیں لکھی ہے ۔ اپنی دوسری کتاب میں بھی اس نے عائشہ ؓ کی کردار کُشی کرکے ناروا جسارت کی ہے ۔ [41]
2 ۔ نبیﷺ کا زینبؓ سے شادی کے بارے میں ایک من گھڑت اور موضوع روایت قبول کرکے لکھا ہے ۔
3 ۔ واقعہ معراج کو حالتِ خواب میں مانتی ہے اور وہ بھی صرف ایک صوفیانہ تجربہ ۔ حالانکہ واقعہ معراج نبیﷺ کا ایک اہم معجزہ ہے اور یہ روح مع الجسد واقع ہوا تھا ۔ قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ سے یہ صاف واضح ہے ۔ تاریخی اعتبار سے بھی یہ درست ہے ۔ جدید سائنس بھی اس کی تائید کرتا ہے ۔
4 ۔ کہتی ہیں کہ مدینہ کے یہود قبائل بے قصور تھے اور نبی ﷺ نے ان یہود کے ساتھ زیادتی کی ہیں ۔ (نعوذبااللہ )
5 ۔اسی طرح یہ کہتی ہیں کہ دادا عبدالمطلب اور چچا ابوطالب دونوں کا محمدﷺ کے ساتھ محبت نہیں تھا ۔
6 ۔ وحی پر اعتراض کرکے اسے ایک صوفیانہ تجربہ سمجھتی ہے ۔
7 ۔ نبیﷺ کے امی ہونے پر بھی شک کا اظہار کرتی ہیں۔
8 ۔ واقعہ غرانیق کو سچا واقعہ مانتی ہے ۔ حالانکہ یہ ایک جھوٹی اور من گھڑت واقعہ ہے اور عصمت انبیاء علیہم السلام سے متصادم ہے ۔
9 ۔ کہتی ہیں کہ مدینہ میں آکر نبیﷺ کا کردار ( نعوذبااللہ ) بدل گیا اور مکہ والوں کو تنگ کرنا شروع کیا ۔
10 ۔رئیس المنافقین عبداللہ بن ابئی کو بھی بڑی اچھی نگاہ سے دیکھتی ہے اور کہتی ہیں کہ وہ منافق نہیں تھے ۔ اس کو سیاست میں ماہر سمجھتی ہے ۔ مصنفہ کی اس روش سے یہ اندازہ بخوبی ہوتا ہے کہ اہل مغرب کی سیاست بھی جھوٹ اور دھوکے پر مبنی سیاست ہے ۔
کتاب کی چند خصوصیات
1 ۔ مغربی ممالک میں زیادہ پڑھی جانے والی کتاب
یہ کتاب امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے اور پوری دنیا میں اس کی اشاعت ہورہی ہے۔ نائن الیون کے بعد مغرِب میں اسلام اور پیغمبرِ اسلام ﷺ کے بارے میں ویسے بھی طرح طرح کی باتیں ہو رہی ہے ۔ اسلام فوبیا کا ماحول فروغ پا رہا ہے ۔ اس لئے مغرب میں جو لوگ اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کے ذہنوں میں نبی ﷺ کے بارے میں منفی خیالات پیدا ہو جاتے ہیں ۔
سر ولیم میور نے "دی لائف آف محمد " نامی کتاب چار جلدوں میں لکھی تھی ۔ لیکن مصنفہ نے جدید اسلوب اور نئی علم کلام کی صورت میں اس کتاب کو ایک جلد میں پیش کیا۔ ولیم میور کی کتاب کی بجائے اس کتاب کو زیادہ وقعت ملی۔اس لئے نئے علم کلام اور جدید اسلوب کے ساتھ اس کا جواب از بس ضروری ہے ۔
2 ۔کتاب میں کتب ِ حدیث سے کوئی حوالہ موجود نہیں
لزلے کی پوری کتاب میں صحاحِ ستہ یا دیگر کسی حدیث کی کتاب کا کوئی حوالہ نظر نہیں آتا ۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہو جاتاہے کہ مصنفہ کو سیرت کے بنیادی مصادر کا پتہ نہیں ۔اس نے صرف سیرت ابن اسحاقؒ اور طبریؒ سے اپنی مطلب کی چیزیں اکھٹی کی ہیں۔ حالانکہ قرآن مجید کے بعد احادیث ِ رسول ﷺ، سیرتِ نبوی ﷺ کا معتمد ترین مأخذ اور ذریعہ ہے ۔
اس کے متعلق علامہ شبلی نعمانیؒ لکھتے ہیں:
"(یورپی مصنِّفین کی غلط کاریوں کی) سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کا تمام تر سرمایۂ استناد صرف سیرت و تاریخ کی کتابیں ہیں، مثلاً مغازی ، واقدی ، سیرت ابن ہشام ، سیرت محمد بن اسحاق ، تاریخ طبری وغیرہ "۔ [42]
آگے لکھتے ہیں :
"لیکن آنحضرت ﷺ کی سوانح عمری کے یقینی واقعات وہ ہیں جو حدیث کی کتابوں میں بہ روایاتِ صحیحہ منقول ہیں ۔ یورپین مصنِّفین اس سرمایہ سے بالکل بے خبر ہیں ۔ " [43]
3۔ سیرت ابن اسحاق کو ہر جگہ نہیں مانتی
اس کتاب میں مصنفہ کا پسندیدہ اور بنیادی مأخذ سیرت ابن اسحاق ہے لیکن اس کے باوجود جو بات مصنفہ کی رائے کے مطابق نہیں، وہاں ابن اسحاق کی روایت کو بھی نہیں لیتی۔چند مثالیں یہ ہیں :سیرت ابنِ اسحاق میں حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے مسلمان ہو جانے کے بارے میں واضح روایات موجود ہیں لیکن مصنفہ کا کہنا ہے کہ وہ عیسائی ہی رہا تھا ۔ اسی طرح سیرت ابن اسحاق میں شقِّ صدر کے واقعہ کا ذکر ہے، لیکن مصنفہ یہ واقعہ نہیں مانتی ۔ اسی طرح سیرت ابن اسحاق میں ام المؤمنین عائشہ ؓ کے نکاح اور شادی کے وقت عمر بالترتیب چھ اور نو سال کی روایت موجود ہے ، لیکن مصنِّفہ اس سے بھی اختلاف کرتی ہیں۔
4۔ اصل مصادر (عربی کتب) کے بجائے انگریزی تراجم کا استعمال
اصولِ تحقیق کے مطابق کوئی بھی مواد حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اصلی مصادر سے رجوع کیا جائے۔دینِ اسلام کی بنیادی کتب یعنی قرآن مجید اور احادیث مبارکہ عربی زبان میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
الر تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ () إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُون [44]
" ا،ل ،ر۔یہ اس کتاب کی آیات ہیں جو اپنا مدعا صاف صاف بیان کرتی ہیں۔ ہم نے اسے نازل کیا ہے قرآن بنا کر عربی زبان میں تاکہ تم ( اہل عرب ) اس کو اچھی طرح سمجھ سکو۔"
اسی طرح نبی کریمﷺ بھی عرب تھے لہذا آپ ﷺ کی زبان عربی تھی ۔ سیرت و تاریخ کی بنیادی مصادر مثلاً سیرت ابن اسحاق ، ابن ہشام وغیرہ بھی عربی زبان میں لکھی گئی ہیں ۔ لیکن مصنفہ نے قرآن مجید کے انگریزی تراجم سے استفادہ کیا ہے اور ان میں بھی اکثریت مستشرقین کی لکھی ہوئی کتابیں ہیں ۔ اسی طرح سیرت ابن اسحاق اور تاریخ ِ طبری کے انگریزی تراجم سے استفادہ کیا ہے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مصنفہ کو عربی علوم پر دسترس حاصل نہیں ہے ۔
علامہ شبلی نعمانی ؒ اس قسم کے مصنِّفین کے بارے میں لکھتے ہیں :" جو ( مصنِّفینِ یورپ ) عربی زبان اور اصلی مأخذسے واقف نہیں، ان لوگوں کا سرمایہ معلومات اوروں کی تصنیفات اور تراجم ہیں ۔ ان کا کام صرف یہ ہے کہ اس مشتبہ اور نا کامل مواد کو قیاس اور میلانِ طبع کے قالب میں ڈھال کر دکھائیں ۔ " [45]یقیناً مصنفہ نے بھی اپنی طبع اور میلان کے مطابق کتاب ترتیب دے دی ہے ۔
5۔مصنفہ کی کتاب کے مصادر
اپنی کتاب کی تدوین میں مصنفہ نے تاریخ اسلام کے دو کتب یعنی سیرت ابن اسحاق اور تاریخ طبری کے انگریزی تراجم سے استفادہ کیا ہے ۔ اس بارے میں وہ لکھتی ہیں :
“Unless otherwise indicated, all direct speech and dialogue in this book are from either ibn Ishaq’s eight century biography of Muhammad, Sirat Rasul Allah, or al Tabari’s ninth century history of early Islam, Tarikh al Rasul wa’al Muluke. [46]
یعنی مصنفہ کے بقول اس کی اس کتاب میں جو بیانات واوین " " یا ڈائریکٹ سپیچ میں ہیں ۔ تو وہ یا تو ابن اسحاق کی کتاب سیرت رسول اللہ ﷺ سے ہیں اور یا ابن جریر طبری ؒ کی کتاب تاریخ الرسل والملوک [47]سے ہیں ۔
اسی طرح دوسری جگہ لکھتی ہیں :
“This book is thus based on the original eight and ninth century histories.”[48]
یعنی اس کتاب کی بنیاد آٹھویں اور نویں صدی میں لکھی گئی سیرت و تاریخ کی کتب پر ہے ۔ جوکہ ابن اسحاق ؒ اور ابن جریر طبری ؒ کی کتابیں ہیں ۔ آگے ان دونوں مؤرخین کے کام کو سراہتی ہوئی لکھتی ہیں :
“The early Islamic historians ibn Ishaq and al Tabari are out standing for the breath and depth of their work , which makes extensive use of both oral history and earlier written sources that have since been lost .” [49]
اسلام کے اولین اور ابتدائی مؤرخین ابن اسحاق اور طبری ہے ۔ وہ اپنے کام کے گہرائی اور گیرائی میں نمایاں ہیں ۔ انہوں نے زبانی تاریخ اور ابتدائی لکھی ہوئی تاریخی مواد سے اخذ کیا اور یہ کتابیں قلمبند کیں ۔
مصنفہ کے یہاں تک کے بیانات سے یہ واضح ہوا کہ وہ ابن اسحاق اور طبری کی کتابوں سے اخذ کرتی ہیں۔ ان دونوں کتابوں کی وہ تعریف کرتی ہیںاور ان کو وہ اپنی بنیادی مآخذ گردانتی ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ہے کہ کیا اس نے براہ راست ان کتب کے عربی نسخوں سے اخذ کیا ، یا ان کتب کے انگریزی ترجموں سے ؟ اس بارے میں وہ خود لکھتی ہیں :
“Muhammad ibn Ishaq’s Sirat Rasulul Allah , “The life of the Messenger of God,” is the earliest extant biography of Muhammad . Ibn Ishaq was born in Madina around the year 704 and died in Damascus in 767. His work was expanded and annotated in the ninth century in Egypt by ibn Hisham , whose annotated version of ibn Ishaq original Sira is available in an eight hundred page. English translation by Alfred Guillume : The life of Muhammad : A Translation of Ishaq’s Sira Rasul Allah ( Oxford : Oxford University Press , 1955( [50]
اس عبارت میں مصنِّفہ ابن اسحاق کا مختصر تعارف پیش کرتی ہیںاور پھر اس کتاب کی بات کرتی ہیںکہ سیرت ابن اسحاق کو اس کے شاگرد ابن ہشام نے نئی انداز میں مرتب کیا ۔ پھر کہتی ہیں کہ الفریڈ گیوم نے اس کتاب کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے جو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے 1955 ء میں چھاپ لی ہے ۔ اور مصنفہ نے اس انگریزی ترجمہ سے اخذکیا ہے ۔
6۔ مصنفہ کی جانب داری اور یہودکی حمایت
مصنفہ زیرِ نظر کتاب میں یہودیوں کی وکیل کے طور پر سامنے آتی ہے ۔ یہودیوں کا موقف دلائل کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اور محمدﷺکی پالیسیوں پر منفی تبصرہ کرتی ہے۔ مصنفہ چرچ اور ریاست کی علیٰحدگی کا تصوّر پیش کرتے ہوئے عبداللہ بن ابی کی بھی وکالت کرتی ہے۔
7۔ نظریہ احتمالیت کا استعمال اور تخیّلات
مصنفہ دیگر مستشرقین کی طرح اس کتاب میں نظریہ احتمالیت اور تخیّل سے کام لیتی ہے ۔ نبی ﷺ کی سیرت کو تخّیلاتی انداز میں پیش کرتی ہیںاور جگہ جگہ ایسے الفاظ استعمال کرتی ہے: مثلاً Probably, Must have , Might , Might be وغیرہ ۔ جن کے معنی واضح ہیں۔گویا کہ مصنفہ نے اس تصنیف میں سیرتِ طیبہ کی اصلی روح کو مجروح کرنے کی کوشش کی ہے جس طرح کہ عام مستشرقین کا طریقہ کار ہے۔ اور دانستہ یا نادانستہ اس نے صداقتوں کا انکار کیا ہے ۔ غلط فہمیوں کی تخم ریزی کی ہے ۔ اپنے مادی اور نفسیاتی طرزِ فکر سے نبوت کے چہرہ کو داغ دارکرنے کی کوشش کی ہے ۔
8 ۔ بیانات میں عصرِ حاضر سے تطبیق کی کوشش
مصنفہ سیرتِ طیبہ ﷺ کو موجودہ دنیاوی حالات کے تناظر میں بیان کرنے کی کوشش کرتی ہیںحالانکہ اصولِ تحقیق کے مطابق کسی بھی واقعہ کو دیکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس وقت کے پسِ منظر اور پیشِ نظر باتوں کو دیکھا جائے اور اسی تناظر میں وہ واقعہ دیکھا جائے نہ کہ موجودہ حالات کے تناظر میں۔مثلاً وہ واقعہ معراج کا بحالتِ جسمانی و بیداری کا منکر ہے ۔ اس سلسلے میں جب کفار نے اس واقعے کی تکذیب کی تو مصنِّفہ اس بارے میں لکھتی ہیں :
“His opponents crowed, with all the glee of modern politicians exploiting an electoral rival’s gaffe.” [51]
" آپ ﷺ کے مخالفین ( کفار مکہ ) اس بات پر جدید سیاسی رہنماؤں کی طرح خوشی منانے لگے ۔ جب کسی مخالف پارٹی سے کوئی صریح غلطی ہو جائے اور اس پارٹی کی غلطی کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہو ۔ "
مصنفہ کے اس فن میں ماہر ہونے کا ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اصل میں اپنے پیش رو مستشرق منٹگمری واٹ کی خوشہ چین ہے ۔ جس کے بارے میں ڈاکٹر عماد الدین خلیل نے اپنے مقالہ میں لکھا: " ایک اور بات جو سب ہی مستشرقین میں پائی جاتی ہے، یہ ہے کہ وہ سیرتِ طیبہ کے واقعات کی صحیح نوعیت سمجھنے کے لئے اُس زمانہ کے عربی ماحول سے توصرف نظر کر لیتے ہیں، اور پھر خود اپنے ہی زمانہ کے آئینے میں، اپنے ہی رسوم و قیود سے بندھے ہوئے ماحول میں ان واقعات کو سمجھنے اور اپنے خیالات کا ان پر عکس ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ، مغربی محققین نے سیرت رسول اللہ ﷺ پر جو کام کیا ہے ان میں تحقیق کی یہ خامی ہر جگہ موجود ہے ۔
ان تحقیقات میں مغرب کی ذہنی پیچیدگیاں اور ان کی تہہ میں مذہبی جذبات ایک ساتھ کار فرما ہیں ، مزید برآں سیکولر رجحانات ، مادہ پرست زندگی کے اصول ، ان کا مصنوعی نقطۂ نظر اور ہر چیز کو اسی کی روشنی میں جانچنے کی خواہش ، روحانی اور غیبی امور میں بھی اسی نقطۂ نظر کی عکاسی اور یہ خیال کہ تجربہ اور نظر میں نہ آنے والی ہر چیز بے اصل اور وہم ہے ۔ یہ باتیں استشراقی تحقیقات میں یکساں طور پر پائی جاتی ہیں ۔ " [52]
9 ۔ ملفوف انداز
مصنفہ کو زبان پر قدرت حاصل ہے ۔ بیانات میں منفی اور بظاہر مثبت دونوں قسم کے اشارات ملتے ہیں ۔منفی بات کہنے کا انداز بہت ملفوف قسم کا ہے ۔ بعض امور میں محمدﷺ کی خوب تعریف کی ہے لیکن ساتھ ساتھ بڑے ہلکے اور غیر محسوس انداز میں اعتراضات بھی اٹھائے ہیں۔ مصنفہ کا یہ انداز اس کے پیش رو مستشرقین میں کارل لائل ، منٹگمری واٹ اور کیرن آرمسٹرانگ وغیرہ کی طرح ہے ۔
خلاصہ بحث
حاصلِ بحث یہ ہے کہ لیزلے ہزلٹن کی لکھی ہوئی یہ کتاب پیغمبرِ اسلام محمدﷺ کے بارے میں نہایت بد باطنی پر مبنی ہے۔ اس میں مصنفہ نے تحقیق کے نام پر حقائق مسخ کی ہے ۔ تقریباً ہر واقعہ کو غلط رنگ اور غلط انداز سے پیش کیا ہے ۔ نبیﷺ کی پیغمبرانہ شان کو مشکوک بنانے کی کوشش کی ہے اور آپ ﷺ کو ایک عام دنیاوی سیاست دان کی صورت میں پیش کی ہے ۔ حالانکہ آپﷺ سیاستدان اور انسان ہونے کے ساتھ ساتھ پیغمبر بھی ہیں اور وحی الٰہی کے ذریعے آپﷺ کی رہنمائی خود اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے۔مصنفہ نے یا تو سیرت ابن اسحاق اور تاریخ طبری کی ضعیف ، کمزور اور موضوع روایات کا سہارا لیا ہے اور یا اپنے پیش رو مستشرقین کی راہ پر چل نکلی ہے ، اس کے علاوہ اس کی بیانات تخیلاتی فکر کی عکاسی کرتی ہیں۔ غرض اس نے نبیﷺ کی سیرتِ مبارکہ کو داغدار کرنے کی کوشش کی ہے ۔ کتاب میں جگہ جگہ نبیﷺ کے عظمت کے بارے میں اعترافات بھی ہیں، لیکن کتاب کا اکثر حصّہ سیرتِ نبوی ﷺ کے بارے اعتراضات پر مشتمل ہے ، بلکہ تقریباً ہر ہر جملہ میں کوئی نہ کوئی کجی اور غلط بیانی ضرور پائی جاتی ہے۔ لہٰذا سیرتِ طیبہ کی ماہرین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کتاب کا ناقدانہ اور تحقیقی جائزہ لیکر سیرتِ نبویﷺ کو مصادرِ اصلیہ کی روشنی میں پیش کرے ۔
نتائج
بحث سے حاصل ہونے والے نتائج مندرج ذیل ہیں :
1۔ مصنفہ نے کتاب کی تدوین میں تاریخ اسلام کے دو کتب سیرت ابن اسحاق اور تاریخ طبری کے انگریزی تراجم سے اخذ کیا ہے۔ باقی کام اپنی پیش رو مستشرقین کے کام کی روشنی میں کیا ہے ۔
2 ۔ مصنفہ نے جدید اسلوب اور نئی علم کلام کی صورت میں اس کتاب کو پیش کیاجس کوزیادہ وقعت ملی۔اس لئے نئے علم کلام اور جدید اسلوب کے ساتھ اس کا جواب ضروری ہے ۔
3 ۔ ان دو کتب کی استنادی حیثیت یہ ہے کہ سیرۃ ابن اسحاق میں بعض ضعیف اور موضوع روایات موجود ہیں مثلاً واقعہ غرانیق والی روایت۔ اسی طرح تاریخ طبری میں بھی ضعیف اور موضوع روایات موجود ہیں۔ اس لئے مستشرقین انہی روایات کا سہارا لیتے ہیں اور مصنفہ نے بھی ایسا ہی کیا ہے ۔
4 ۔ مصنفہ نبی ﷺ کی پیغمبرانہ شان کو مشکوک بنانے کی کوشش میں آپﷺ کو ایک عام دنیاوی سیاست دان کی صورت میں پیش کرتی ہے۔
5 ۔ واقعات کے بیان میں مصنفہ کی تخیلاتی پرواز کا ہر جگہ دخل نمایاں ہے ۔ اس کے علاوہ دیگر مستشرقین کی طرح مصنفہ نے بھی نظریہ احتمالیت کا خوب استعمال کیا ہے اور فرضی باتیں بھی جگہ جگہ موجود ہیں
This work is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License.
حوالہ جات
- ↑ References www.accidentaltheologist.com/
- ↑ لزلے ہزلٹن ، دی فرسٹ مسلم ۔ دی سٹوری آف محمد ، اٹلانٹک بکس ، لندن ، 2013 ء، ص 1 Lesley Hazleton, The First Muslim-The Story of Muḥammad, (London: Alantic Box, 2013), 1
- ↑ ایضا، ص 87 Ibid., 87
- ↑ ایضا، ص 255 تا 296 Ibid., 255-296
- ↑ ایضا، ص 297 Ibid., 297
- ↑ ایضا، ص 299 تا 304 Ibid.,299-304
- ↑ ایضا، ص 305 تا 310 Ibid., 305-310
- ↑ ایضا، ص 311 تا 320 Ibid., 311-320
- ↑ سورہ اٰل عمرٰن:19 Surah ʼal ‘imran, Verse No.19
- ↑ سورہ المائدہ:48 Surah Al Maʼda, Verse No.48
- ↑ سورہ الانعام : 163 Surah Al Anʼam, Verse No.163
- ↑ سورہ البقرہ:124 Surah Al Baqarah, Verse No.124
- ↑ صباح الدین عبد الرحمان ،سید، اسلام اور مستشرقین ، معارف پریس شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ ہندوستان ، 1428ھ / 2007 ء، ج1،ص67 ṣbaḥ al din ‘abd al Raman, Islam and Orentalists, (India: Shibly Academy, 2007), 1:67
- ↑ مودودی ؒ ، ابوا لاعلی ٰ بن سید احمد حسن ، دینیات ، ادارہ ترجمان القرآن ، لاہور پاکستان ، 1437ھ / 2015 ء، ص149 Abu al a‘la bin Sayyed Aḥamad Hasan, Dyniyyat, (Pakistan: Idara Tarjuman al Qurʼan, 2015), .149
- ↑ سورہ الانعام : 161 تا 163 Surah Al Anʼam, Verse No.163
- ↑ مودودی ؒ ، ابوا لاعلی ٰ بن سید احمد حسن ، تفہیم القرآن ، ترجمان القرآن ، لاہور پاکستان ، 1994 ء ،ج1،ص605 Abu al a‘la bin Syyed Aḥamad Hasan, Tafhym al Qurʼan ,(Pakistan: Idara Tarjuman al Qurʼan, 1994), 1.605
- ↑ سورہ الانبیاء : 25 Surah Al Anbiyah, Verse No.25
- ↑ سورہ یونس : 72 Surah Younas, Verse No.72
- ↑ سورہ البقرۃ : 131 Surah Al Baqarah, Verse No. 131
- ↑ ایضا : 132 Ibid., 132
- ↑ سورہ یوسف : 101 Surah Yousaf, Verse No. 101
- ↑ سورہ یونس : 84 Surah Younas, Verse No. 84
- ↑ مودودی ؒ ، تفہیم القرآن ، ج 2 ، ص 306 Moudoody, Tafhym al Qurʼan, 2:306
- ↑ سورہ المائدہ : 111 Surah Al Ma‘da , Verse No. 111
- ↑ سورہ الانعام : 14 Surah Al Anāam, Verse No. 14
- ↑ ایضا : 163 Ibid., 163
- ↑ سورہ الزمر : 12 Surah Al Zumar, Verse No. 12
- ↑ لزلے ، دی فرسٹ مسلم، ص 213 Lesley, The First Muslim, .213
- ↑ ایضا، ص 214 Ibid., 214
- ↑ ایضا Ibid.
- ↑ ایضا Ibid.
- ↑ ایضا Ibid.
- ↑ ایضا Ibid.
- ↑ سید سلیمان ندوی نے ایک کتاب لکھی ہے ، سیرت عائشہؓ ،اس میں ایسی تمام غلط باتوں کی تردید موجود ہے ۔
- ↑ لزلے ، دی فرسٹ مسلم ، ص 72 Lesley, The First Muslim, .72
- ↑ ایضا، ص 64 Ibid., 64
- ↑ ایضا، ص 75 Ibid., 75
- ↑ ایضا، ص 32 Ibid., 32
- ↑ ایضا، ص 244 ، 245 Ibid., 244-245
- ↑ ایضا، ص 246 Ibid., 246
- ↑ ۔ After the Prophet The Epic Story of the Shia Sunni Split in Islam
- ↑ یعنی ان کتب میں صحیح روایات کے علاوہ بڑی تعداد میں ضعیف اور موضوع روایات بھی شامل ہیں ۔
- ↑ اصلاحی، عبد الرحمٰن پرواز،مولانا ، اسلام اور مستشرقین ،معارف پریس ، شبلی اکیڈمی ، اعظم گڑھ ہندوستان ، 1424ھ/ 2003 ء ، ج4،ص275 Abdu al Rahman Parwaz,Islam and Oerntalists, (India: Shibly Academy, 2003), 4:275
- ↑ سورہ یوسف:1 ، 2 Surah Yousaf, Verse No. 1,2
- ↑ اصلاحی، اسلام اور مستشرقین ، ج 4 ص 274 Islahi, Islam and Orentalists, 4:274
- ↑ لزلے ، دی فرسٹ مسلم ، ص 299 Lesley, The First Muslim,.299
- ↑ امام ابن جریر طبری کی تاریخ اسلام کے بارے میں لکھی گئی مشہور کتاب جو کئی جلدوں میں ہے ، اس کو تاریخ الرسل والملوک کے علاوہ، تاریخ الا مم و الملوک بھی کہا جاتا ہے ۔ مقالہ نگار
- ↑ لزلے ، دی فرسٹ مسلم ، ص 305 Lesley, The First Muslim,.305
- ↑ ایضا، ص 305 Ibid., 305
- ↑ ایضا، ص 305 ، 306 Ibid., 305-306
- ↑ ایضا، ص 143 Ibid., 143
- ↑ اصلاحی، ضیاء الدین ، اسلام اور مستشرقین ،مقالہ : ڈاکٹر عماد الدین خلیل ، اردو، عبید اللہ کوٹی ندوی، معارف پریس ، شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ ، ہندوستان ، 1425ھ/ 2004 ء،ج6،ص230 ḍiya al Din, Islam and Orentalists, (India: Shibly Academy, 2004), 6:230
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |