1
2
2016
1682060030498_1277
1-12
https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/download/137/65
https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/view/137
Imām Qudūrī Kitāb al Tajrīd ‘Ilm al Khilāf Imām Qudūrī Kitāb al Tajrīd ‘Ilm al Khilāf
تمہید
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں امتحان کے لئے بھیجا ہے اس کا امتحان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایات اور تعلیمات کی روشنی میں اپنی زندگی گزارے۔ انسان کی راہنمائی کے لئے سب سے آخری کتاب قرآن کریم ہے جس میں بنی نوع انسان کی ہدایت و راہنمائی کے لئے بہترین سامان موجود ہے۔ قرآن کریم، سنتِ رسول اللہ ﷺ، اجماعِ امت اور قیاس صحیح کی روشنی میں فقہائے کرام نے امت کی آسانی کے لئے زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق مسائل و احکامات جمع کئے ہیں۔ قرآن وسنت کے بعض نصوص مجمل ہیں جن کی تفسیر میں اختلافِ راے کا ہونا بدیہی بات ہے، اسی طرح بعض اوقات دلائل میں تعارض ہو جاتا ہے اس وقت ترجیح میں اختلاف کا آنا قرینِ قیاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسائل میں ہمیشہ سے اختلاف رہا ہے اور یہی اختلاف جو دلائل کی بنیاد پر ہو اور حدود کی رعایت کے ساتھ ہو امت کے لئے سراپا رحمت ہے۔اختلاف بنیادی طور پر دو قسم پر ہے:
1۔ اختلافِ مذموم:
یہ نصوصِ قطعیہ میں اختلاف کرنا ہے جو کہ شرعاً منع اور ناجائز ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتَابِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ ﴾[1]
2۔ اختلافِ ممدوح:
یہ وہ اختلاف ہے جو اہلِ علم کے درمیان ایسے فروعی مسائل میں واقع ہو جو اجتہادی ہوں اور ان میں قرآن و سنت کی کوئی صریح نص موجود نہ ہو۔
فقہاء کرامؒ کا اختلاف اسی دوسری قسم سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ اس کی بنیاد دلائل اور براہین پر ہوتا ہے، جانبین کے پاس قرآن و سنت کے دلائل ہوتے ہیں اور ان دلائل کی بناء پر وہ اختلاف کرنے میں حق بجانب ہوتے ہیں۔ احناف اور شوافع کے درمیان بہت سے مسائل میں فقہی اختلاف پایا جاتا ہے جس پر دونوں مکاتب کے علماء نے مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ ان کتب میں ایک مایہ ناز کتاب اور دلائل کا انسائیکلوپیڈیا امام قدوریؒ کی کتاب التجرید ہے۔ جس کا تعارف اور منہج و اسلوب بیان کرنا اس مقالہ میں پیشِ نظر ہے۔
تعارفِ کتاب
زیرِ نظر کتاب کا نام "التجرید" ہے جو مشہور حنفی فقیہ احمد بن محمدالقدوریؒ کی تالیف ہے۔ یہ کتاب احناف اور شوافع کے درمیان اختلافی مسائل اور ان کے دلائل کے حوالے سے معروف ہے۔ اس میں کتبِ فقہیہ کی ترتیب پر مسائل مذکور ہیں اور کتاب الطہارت سے کتاب ادب القاضی تک کے فقہی ابواب میں جو مختلف فیہ مسائل ہیں انہیں علم الخلاف کی روشنی میں دلائل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ یہ کتاب سن 1427ھ میں بارہ (12)جلدوں میں دارالسلام قاہرہ سے شائع ہوئی ہے۔ اسی طرح مکتبہ محمودیہ قندہار، افغانستان سے بھی 12 جلدوں میں شائع ہوئی ہے، جو دارالسلام والی طباعت کے بعینہٖ مماثل ہے۔ ان دو طباعتوں کے علاوہ مزید طباعتیں تلاش کے باجود نہیں ملیں۔
حاجی خلیفہؒ اس کتاب کا تعارف کرتے ہوئے لکھتےہیں:
أفرد فيه : ما خالف فيه الشافعي من المسائل بإيجاز الألفاظ وأورد بالترجيح ليشترك المبتدي والمتوسط في فهمه وشرع في إملائه : سنة خمس وأربعمائة, ثم كتب : أبو بكر : عبد الرحمن بن محمد السرخسي المتوفى : سنة ست وثلاثين وأربعمائة تكملة التجريد [2]
امام قدور یؒ نے اس کتاب میں مختصر الفاظ میں صرف ان مسائل کو ذکر کیا ہے جن میں امام شافعیؒ کا اختلاف ہے، اور ترجیح کا طریقہ اپنایا ہے تاکہ مبتدی اور متوسط دونوں کے لئے سمجھنا آسان ہو۔ 405ھ کو آپؒ نے اس کی املا شروع کی۔ پھر امام سرخسیؒ نے 436ھ کو اس کا تکملہ لکھا۔
مؤلف کا تعارف
التجرید کے مؤلف کا نام احمد بن محمد بن جعفر ہے، آپؒ کی کنیت ابو الحسین اور لقب قدوری ہے۔ آپؒ سن 362ھ کو بغداد میں ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کو قدوری کہنے کی مختلف وجہیں بیان کی گئی ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ قدور بغداد کے قریب ایک بستی ہے لیکن راجح یہ ہے کہ قدور لفظ "قدر" کی جمع ہے جس کے معنیٰ ہانڈی کے ہیں اس لحاظ سے قدوری کا معنیٰ ہے ہانڈیوں والا۔ آپؒ کو قدوری اس وجہ سے کہا جاتا تھا کہ آپ ہانڈیاں بناتے تھے یا اس کا کاروبار کرتے تھے۔ یہ نسبت آپؒ کے ساتھ اتنی خاص ہو گئی کہ جب قدوری کا لفظ بولا جائے تو آپ ہی مراد ہوتے ہیں۔
آپؒ کے مشہور اساتذہ میں سے عبید اللہ بن محمد حوشبیؒ، محمد بن علی العنبریؒ، رکن الاسلام محمد بن یحی الجرجانیؒ وغیرہ حضرات شامل ہیں۔ آپؒ کے شاگردوں میں ابوبکر احمد بن علی (خطیب بغدادی)، قاضی القضاۃ محمد بن علیؒ، ابو نصر احمد بن محمد الاقطعؒ، عبد الرحمٰن بن محمد السرخسیؒ، ابو الفرج المفضل التنوخی النحویؒ وغیرہ حضرات ہیں۔
علامہ قاسم بن قطلوبغا آپ کے بارے میں فرماتے ہیں:
انتهت إليه رياسة الحنفية بالعراق وعظيم عندهم قدره وارتفع جاهه [3]
عراق میں آپؒ پر فقہ حنفی کی سیادت ختم ہوئی ہے اور احناف کے نزدیک آپ کا مقام اور مرتبہ بہت بلند ہے۔
آپؒ کئی اہم اور قیمتی فقہی کتابوں کے مصنف ہیں، جن میں التجريد، التقريب، شرح المختصر للکرخی اور المختصر جو قدوری کے نام سے معروف ہے، زیادہ مشہور ہیں ۔ [4]
آپؒ کے علمی مقام اور عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپؒ فقہاء احناف کے پانچویں طبقے یعنی اصحاب الترجیح میں داخل ہیں۔[5]
علم الخلاف کی تعریف
خلاف کا لغوی معنیٰ ہے اختلاف اور مخالفت کرنا۔ اصطلاح میں علم الخلاف کی کئی تعریفیں کی گئی ہیں جن میں چند مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ علم الخلاف علم باحث عن وجوه الاستنباطات المختلفة من الأدلة الإجمالية أو التفصيلية الذاهب إلى كل منها طائفة من العلماء [6]
یہ وہ علم ہے جس میں مختلف تفصیلی اور اجمالی دلائل کے ذریعے استنباط کے مختلف طریقے بیان کئے جاتے ہیں، جن میں ہر ایک پر اہلِ علم کے ایک طبقے نے عمل کیا ہے۔
2۔ دوسری تعریف یہ کی گئی ہے:
هو علم يعرف به كيفية إيراد الحجج الشرعية ودفع الشبه وقوادح الأدلة الخلافية بإيراد البراهين القطعية وهو الجدل الذي هو قسم من المنطق إلا أنه خص بالمقاصد الدينية.[7]
یہ وہ علم ہے جس میں شرعی دلائل بیان کرنے، دلائل پر وارد ہونے والے شبہات اور فریقِ مخالف کے دلائل کا قطعی اور یقینی دلائل کے ساتھ جواب دینے کے طریقوں سے بحث کی جاتی ہے۔ یہ بھی درحقیقت علمِ جدل ہی ہے مگر فرق یہ ہے کہ یہ دینی مقاصد کے ساتھ خاص ہے۔
حاصل یہ کہ علم الخلاف وہ علم ہے جس میں مختلف دلائل کا اس انداز سے جائزہ لیا جاتا ہے کہ ان سے استنباط کس طرح کیا جاتا ہے، فریقِ مخالف کے دلائل کیا ہیں اور ان کا جواب کس طرح دلائل کی روشنی میں دیا جائے گا۔
علم الخلاف کا ارتقاء اور تاریخی پسِ منظر
رسول اللہ کی حیات مبارکہ میں اگر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا کسی مسئلے میں اختلاف ہو جاتا تو وہ حضرات رسول اللہ ﷺ کی طرف رجوع فرماتے۔ آپﷺ ان کے درمیان فیصلے فرماتے جس سے اختلاف ختم ہو جاتا۔ اس دوران ان حضرات کوعمومی طور پر نہ اجتہاد کی ضرورت پیش آتی اور نہ ہی قیاس کی۔ آپﷺ کے اس دارِ فانی سے تشریف لے جانے کے بعد فتوحات کے نتیجے میں اسلامی سلطنت کا دائرہ وسیع ہونے کی وجہ سے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم دنیا کے مختلف اطراف میں پھیل گئے۔ چونکہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں یکساں وقت گزارنے اور استفادہ کرنے کا موقع نہیں ملا تھا، لہٰذا مسائل متنوع ہونے کے نتیجے میں ان حضرات کے درمیان بھی مختلف مسائل میں اختلافِ رائے سامنے آنے لگا۔ اس کے بعد حضرات تابعینؒ کے درمیان بھی مسائل میں اختلاف رہا۔[8]
رفتہ رفتہ یہ مستقل علم اور فن کی حیثیت اختیار کر گیا، کئی اہلِ علم حضرات نے اس موضوع پر کتابیں لکھیں جن میں عبید اللہ بن عمر بن عیسی الدبوسی کا نام سرفہرست ہے۔ اس موضوع پر آپؒ کی مایہ ناز کتاب تاسيس النظر فی اختلاف الائمة معروف و مشہور ہے۔ [9]
امام قدوریؒ کے زمانے میں علم الخلاف والمناظرہ اپنے عروج پر تھے۔ مختلف فرقے اس علم کے ذریعے ایک دوسرے کی تردید کرتے اور جرح و تنقید کا بازار گرم رہتا۔ امام قدوریؒ نے اس ماحول میں یہ عظیم الشان فقہی انسائیکلوپیڈیا مرتب فرمایا ہے مگر آپؒ راہِ اعتدال پر مستقیم رہے اور اختلافِ رائے کی وجہ سے دوسرے مسلک کی تنقیص اور تذلیل نہیں کی۔
امام قدوریؒ کا منہج و اسلوب اور خصوصیاتِ کتاب
اختلافاتِ فقہاء پر لکھی گئی کتابیں کسی ایک منہج اور اسلوب کے ساتھ خاص نہیں بلکہ مختلف مصنفین نے اس ضمن میں مختلف مناہج اور اسالیب اپنائے ہیں چنانچہ علامہ ابن قدامہ حنبلیؒ نے المغنی میں مذاہبِ اربعہ کو تفصیلی اور واضح دلائل کے ساتھ ذکر کیا ہے مگر ظاہراً اور صراحتاً کسی ایک مسلک کو ترجیح نہیں دی۔ اسی طرح علامہ ابن رشد مالکیؒ نے بھی تقریباً علامہ ابن قدامہؒ کا طریقہ کار اپنایا ہے۔ بعض حضرات کا منہج خلافیات میں یہ ہے کہ وہ پہلے مختلف فیہ اصول اور قواعد ذکر کرتے ہیں پھر ان قواعد پر جزئیات کی تفریع کرتے ہوئے مختلف فیہ مسائل بیان کرتے ہیں جیساکہ تخریج الفروع علی الاصول میں علامہ زنجانی شافعی کا انداز ہے اسی طرح علامہ ابو زید دبوسی حنفیؒ نے اپنی کتاب "تاسیس النظر" میں بھی احناف اور شوافع کے درمیان مختلف فیہ اصول بیان کئے ہیں مگر انہوں نے جزئیات کی تفصیل ذکر نہیں کی۔ جبکہ امام قدوریؒ کا منہج ان حضرات سے مختلف ہے۔ آپؒ فریقین (احناف اور شوافع) کے درمیان مختلف فیہ مسئلہ بیان کرنے کے بعد دونوں مسلکوں کے مستدلات بالاستیعاب ذکر فرماتے ہیں پھر اپنے مسلک کی ترجیح دلائل کی روشنی میں کرتے ہیں۔ امام قدوری نے زیرِ نظر کتاب میں علم الخلاف کی رعایت کی ہے جس کی وجہ سے آپؒ کی کتاب کو اس نوعیت کے کتب میں ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔ اس کتاب میں آپؒ نے جس عمدہ منہج و اسلوب کو اپنایا ہے اس کو ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے۔
1۔ مسلکِ احناف کی تقدیم
امام قدوریؒ نے التجرید میں شروع سے آخر تک ہر مسئلے میں احناف کے مسلک کو پہلے بیان کیا ہے۔ احناف میں اگر امام ابو حنیفہؒ کا قول ذکر کرنا ہو تو اس کے لئے قال ابو حنیفۃ کے الفاظ ذکر کرتے ہیں جبکہ صاحبین کے قول کےلئے قال ابو یوسف و محمد کی تعبیر اختیار فرماتے ہیں لیکن اگر کسی کی طرف قول منسوب کئے بغیر مسلک کا بیان مقصود ہو تو اس کے لئے قال اصحابنا کی تعبیر اختیار کرتے ہیں۔ چنانچہ پانی کے ساتھ کسی پاک چیز کے ملنے کا حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
قال أصحابنا: إذا خالط الماء طاهر فغيّره ولم يغلب على أوصافه، جاز الوضوء به. خلافًا للشافعي[10].
ہمارے ائمہ فرماتے ہیں: جب پانی کے ساتھ کوئی پاک چیز مل جائے اور اس کو تبدیل کرے مگر پانی کے اوصاف پر غالب نہ ہو تو اس سے وضوء کرنا جائز ہے بخلاف امام شافعیؒ کے ۔
ایک اور مقام پر احناف کا مسلک بیان کرتے ہوئے امام ابو حنیفہؒ کا قول یوں بیان فرماتے ہیں:
قال أبو حنيفة: لا يُكْرَه استعمال الأواني المفضضة[11].
امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں: جن برتنوں پر چاندی لگی ہوئی ہو ان کا استعمال مکروہ نہیں ہے۔
ظہر کے وقتِ آخر کے بارے میں امام ابوحنیفہؒ اور صاحبین کا مسلک ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:
قال أبو حنيفة: آخر وقت الظهر إذا صار ظل كل شيء مثليه سوء فيء الزوال.وقال أبو يوسف ومحمد: إذا صار ظل كل شيء مثله، وهو قول الشافعي[12].
امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں: ظہر کا آخری وقت یہ ہےکہ ہر چیز کا سایہ زوال کے سایہ کے علاوہ اس کے دوگنا ہو جائے۔ جبکہ امام ابو یوسف اور امام محمد فرماتے ہیں: جب ہر چیز کا سایہ (سوائے سایہ اصلی کے) اس کے برابر ہو جائے تو یہ ظہر کا آخری وقت ہے اور یہی امام شافعیؒ کا بھی قول ہے۔
2۔ ثانیاً شافعی مسلک کا بیان
احناف کا مسلک ذکر کرنے کے بعد شافعیہ کا مسلک بیان کرتے ہیں۔ اس میں بھی وہی طریقہ اپناتے ہیں جو مسلکِ حنفی کے بیان میں ہے یعنی اگر امام شافعیؒ کا قول ہو تو اس کے لئے قال الشافعی کی تعبیر ہوتی ہے اور اگر کسی کی طرف منسوب کئے بغیر صرف مسلک بیان کرنا مقصود ہو تو اس کے لئے قال اصحاب الشافعی کے الفاظ ذکر کرتے ہیں۔ اس کی توضیح ذیل کی مثالوں سے ہو جاتی ہے:
تکبیر کے مسئلے میں احناف کا مسلک ذکر کرنے کےبعد شوافع کا مسلک امام شافعی کے قول کے ساتھ ان الفاظ میں تحریر فرماتے ہیں:
قال أصحابنا: الإقامة مثنى مثنى. وقال الشافعي: فرادى[13].
امام شافعیؒ فرماتے ہیں: (تکبیر) میں الفاظ ایک دفعہ پڑھے جائیں گے (جماعت کے لئے جب تکبیر کی جائے گی تو اس میں تکرار نہیں ہو گا جیسے اذان میں تکرار ہوتا ہے)۔
ایک اور مقام پر عصر کے آخری وقت کے بارے میں حضرات شوافع کا مسلک بعض شافعیہ کی طرف منسوب کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں:
قال أصحابنا: وقت العصر يمتد إلى غروب الشمس. ومن أصحاب الشافعي من قال: إلى المثلين[14].
احناف کا بیان ہے کہ عصر کا وقت مغرب تک ہوتا ہے جبکہ بعض شافعیہ کا بیان ہے کہ دو مثل تک عصر کا وقت ہے(اس کے بعد ختم ہو جاتا ہے)۔
3۔ احناف کے مستدل کی تقدیم
امام قدوریؒ کے ہاں اس بات کا التزام پایا جاتا ہے کہ آپؒ پہلے احناف کے مستدل کو ذکر کرتے ہیں اس کے بعد شوافع کے مستدلات ذکر کرتے ہیں۔ مندرجہ ذیل مثال سے اس کی وضاحت ہو جاتی ہے:
عصر کے وقتِ آخر کے بیان میں احناف اور شافعیہ کا مسلک بیان کرنے کے بعد احناف کے مستدل کو یوں بیان فرماتے ہیں:
والدليل على ما قلناه: ما روي في حديث عبد الله بن عمرو أن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: وقت العصر ما لم تصفر الشمس[15]۔
ہماری بات کی دلیل وہ حدیث ہے جس کو حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عصر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک سورج پیلا نہ ہو جائے۔
اس کے بعد احناف کے مزید مستدلات بیان فرمائے ہیں، اور یہی طریقہ پوری کتاب میں بالکل نمایاں اور واضح ہے۔
4۔ شوافع کے مستدلات کا بیان اور ان کا جواب
امام قدوریؒ نے چونکہ اس کتاب میں مناظرانہ اسلوب اور علم الخلاف کی پیروی کی ہے اس لئے آپؒ ہر جگہ شوافع کے دلائل ذکر کرنے کے بعد احناف کی طرف سے بھرپور جوابات دیتے ہیں، کہیں پر بھی جواب دئیے بغیر آگے نہیں بڑھتے۔ کتاب کا قاری یوں محسوس کر رہا ہوتا ہے کہ گویا امام قدوری کا شوافع کے ساتھ مناظرہ چل رہا ہے جس میں آپؒ دونوں مسلکوں کے دلائل بھی ذکر کر رہے ہیں اور حضرات شافعیہ کے مستدلات کے ٹھوس جوابات بھی دے رہے ہوتے ہیں۔
فجر کی نماز کے دوران اگر سورج طلوع ہو جائے تو احناف کے نزدیک نماز باطل ہو جاتی ہے جبکہ امام شافعیؒ کے نزدیک نماز باطل نہیں ہوتی، بلکہ بناء کرکے اسی نماز کو مکمل کیا جائے گا۔ اس مسئلہ میں حضرات شافعیہ کے دلائل اور ان کے جوابات کا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
احتجوا: بما روي عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: لا يقطع الصلاة شيء.
والجواب: أن هذا الخبر لا يمكن حمله على ظاهره، فوجب أن يقصر على سببه، وهو المار بين يدي المصلى.
قالوا: روي أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من أدرك ركعة من الصبح فقد أدرك الصبح.
قلنا: هذا متروك الظاهر بالاتفاق؛ لعلمنا أن المدرك للركعة مدرك لبعض الصبح وباقيها يقع قضاء
قالوا: صلاة صحت في وقت فوجب أن لا تبطل بخروج الوقت، أصله: إذا غربت الشمس في العصر.
قلنا: لا تبطل بخروج الوقت عندنا، وإنما تبطل بطلوع الشمس الذي لا يجوز الابتداء معه، فإن أرادوا أن خروج الوقت سبب انتقضت علتهم بالمسح على الخفين إذا ذهب الوقت في خلال الصلاة: إن صلاته تبطل وخروج الوقت سبب في بطلانها. ولأن الشمس إذا غربت جاز ابتداء الصلاة، فلم يمنع البقاء، وإذا طلعت لا يجوز الابتداء، فلا يجوز البقاء.
قالوا: اعتراض الوقت الذي يكره فيه التنفل لا يمنع فعل الصلاة، كغروب الشمس.
قلنا: ليس المانع عندنا اعتراض وقت يمنع التنفل فيه، وإنما يمنع الصلاة فيه[16] ۔
حضرات فقہاء شافعیہ نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ نماز کو کوئی چیز نہیں توڑتی۔ (نماز کسی چیز سے نہیں ٹوٹتی)
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ایسی روایت ہے جس کو ظاہر پر محمول کرنا ممکن نہیں (ورنہ کسی بھی وجہ سے نماز فاسد نہ ہو گی، خواہ وضوء بھی ٹوٹ جائے اور اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔) لہٰذا اس کو اپنے سبب کے ساتھ خاص کرنا ضروری ہے اور وہ نمازی کے سامنے سے گزرنا ہے۔
انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد مبارک سے بھی استدلال کیا ہے جس میں آپﷺ نے فرمایا ہے: جس نے فجر کی ایک رکعت پائی تو اس نے فجر کی نماز پائی۔
ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ اس کا ظاہری معنیٰ بالاتفاق متروک ہے، کیونکہ یہ بات یقینی ہے کہ جس شخص کو فجر کی ایک رکعت (طلوعِ شمس سے پہلے) مل جائے تو اس کو فجر کی بعض نماز ملی ہے اور باقی نماز قضاء ہے۔
ان حضرات کا کہنا ہے کہ یہ ایسی نماز ہے جو وقت میں صحیح ہوئی ہے تو ضروری ہے کہ اسی وقت کے نکلنے سے باطل نہ ہو جائے، جیسا کہ عصر کی نماز کے دوران سورج غروب ہو جائے۔
ہم کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک وقت کے نکلنے سے نماز باطل نہیں ہوتی بلکہ سورج طلوع ہونے کی وجہ سے باطل ہوئی ہے جس کے ساتھ نماز کی ابتداء جائز نہیں۔ اگر ان کی مراد یہ ہو کہ خروجِ وقت سبب ہے، تو اس علت پر موزوں پر مسح کے مسئلے سے نقض وارد ہوتا ہے کہ جب نماز کے دوران وقتِ مسح ختم ہو جائے تو نماز باطل ہوجاتی ہے اور خروجِ وقت ہی اس کے بطلان کا سبب ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب سورج غروب ہو جائے تو نماز شروع کرنا جائز ہے لہٰذا (پہلی سے شروع کی گئی) نماز کو برقرار رکھنا بھی جائز ہو گا۔ اور جب سورج طلوع ہو جائے تو نماز شروع کرنا جائز نہیں، اسی طرح نماز کو برقرار رکھنا بھی جائز نہیں ہو گا۔
وہ فرماتے ہیں کہ ایسے وقت کا بیچ میں آنا جس میں نفل مکروہ ہو، نماز کے لئے مانع نہیں ہے جیسا کہ نماز کے دوران سورج کا غروب ہونا۔
ہم کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک مانع ایسا وقت نہیں جس میں نفل مکروہ ہو بلکہ یہ تو ایسا وقت ہے جس میں نماز پڑھنا ممنوع ہے۔ (طلوعِ شمس نماز کے لئے مانع ہے نہ کہ سببِ کراہت)
اس سے واضح ہوتا ہے کہ امام قدوریؒ کس قدر استیعاب اور تفصیل کے ساتھ جانبین کے دلائل ذکر کرنے کے بعد اپنے موقف کی ترجیح کے لئے شوافع کے دلائل کا فرداً فرداً جواب دیتے ہیں۔ اور یہی وہ خصوصیت ہے جو اس عظیم ذخیرۂ دلائل و مسائل کو دیگر کتب سے ممتاز کرتی ہے۔
5۔ ادب واحترام کی رعایت
امام قدوریؒ چونکہ ایک علمی اور معتدل شخصیت کے حامل تھے اس لئے اگرچہ اس کتاب میں آپ کے پیشِ نظر احناف کے مسلک کی بھرپور تائید و ترجیح اور شوافع کے دلائل کے جوابات دینے ہیں مگر اس کے باوجود آپؒ پوری کتاب میں راہِ اعتدال پر قائم رہتے ہوئے کہیں ادب و احترام کے دامن کو نہیں چھوڑتے، اور نہ ہی امام شافعیؒ کی طرف کوئی طنزیہ نسبت یا خلافِ ادب الفاظ ذکر کرتے ہیں بلکہ فقہاء شافعیہ کا تذکرہ بھی نہایت ادب و احترام کے ساتھ کرتے ہیں۔ برخلاف امام بیہقیؒ کے، کہ ان کے لہجے اور انداز میں کسی قدر سختی اور شدت پائی جاتی ہے چنانچہ آپؒ احناف کا قول ذکر کرتے ہوئے اکثر "کما زعموا" وغیرہ کی تعبیر اپناتے ہیں۔ اسی طرح امام جوینیؒ نے بھی امام ابو حنیفہؒ کے خلاف نہایت سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے لکھا ہے:
أما أبو حنيفة فلا ننكر ( اتقاد ) فطنته وجودة قريحته في درك عرف المعاملات ومراتب الحكومات فهو في هذا الفن واستمكانه من وضع المسائل بحسنه على النهاية ولكنه غير خبير بأصول الشريعة[17]
ہم معاملات کے عرف اور سرکاری و قانونی مراتب کے بارے میں امام ابو حنیفہؒ کی مہارت اور ذہانت کا انکار نہیں کرتے، کیونکہ آپ اس فن میں خوب ماہر ہیں اور مسائل حل کرنے میں آپؒ کی استعداد نہایت زیادہ ہے مگر آپ شریعت کے اصول سے بے خبر ہیں۔
ان حضرات کے برخلاف امام قدوریؒ کا لہجہ اور انداز نہایت مودبانہ ہے۔ آپؒ نے کہیں بھی امام شافعیؒ کی نسبت جہل کی طرف نہیں کی ہے۔ بلکہ اس طرح کی نامناسب تعبیرات سے اجتناب کیا ہے، جیسا کہ امام شعرانیؒ نے اپنی کتاب "المیزان الکبریٰ" کا مقصد بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
ليقوموا بواجب حقوق ائمتهم فی الادب معهم [18]
(میری اس کتاب کا مقصد یہ ہے کہ ائمہ کرامؒ کے دلائل میں تطبیق پیش کروں تاکہ اس کے نتیجے میں ) لوگ اپنے اماموں کے حقوقِ واجبہ (سب ائمہ کا ادب و احترام) کی ادائیگی کریں۔
6۔مغلق تعبیرات سے گریز
جس کتاب کے مصنف کا اندازِ بیان اور تعبیرات آسان ہوں اس کو لوگ دلچسپی سے پڑھتے ہیں اور اس سے استفادہ کرنا بھی آسان اور سہل ہوتا ہے۔ امام قدوریؒ کی زیرِ نظر کتاب کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں آپؒ نے آسان اور عام فہم تعبیرات اختیار کرنے کا التزام کیا ہوا ہے چنانچہ آپؒ کی پوری کتاب عام فہم اور سلیس تعبیرات پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے اس سے استفادہ کرنا بہت آسان ہے۔
7۔ استیعابِ دلائل
کتاب التجرید کی امتیازی اور نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بالاستیعاب دلائل کو ذکر کیا گیا ہے، چنانچہ امام قدوریؒ نے ہر مقام پر یہ کوشش کی ہے کہ احناف اور شوافع کے تمام دلائل کو ذکر کیا جائے۔ اس ضمن میں آپؒ پہلے نقلی دلائل ذکر فرماتے ہیں اس کے بعد دلائلِ عقلیہ کا بیان ہوتا ہے۔ اس طرح یہ کتاب احناف اور شوافع کے مختلف فیہ مسائل اور دلائل کا ایک جامع انسائیکلو پیڈیا ہے۔ مذکورہ تفاصیل کی وضاحت کے لئے ایک مثال ملاحظہ ہو:
قال اصحابنا: الطهارة بالماء لا تفتقر الی نية خلافا للشافعی۔ لنا قوله تعالیٰ:
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ ﴾[19]
و ايجاب النية زيادة وذلک لا يجوز بخبر الواحد والقياس۔ ولا يقال: ان ايجاب النية يخصص لان الغسل علی ضربين فاذا جوزنا احدهما فقد خصصنا عمومها و ذلک لان فی الاية الغاسلين و ليس فيها غسل, والمخصوص يتبع اللفظ دون المعنیٰ ولا يجوز الغسل الجائز عندهم کغسل الجنابة عندهم لا يجوز کونه غسلا و انما يجوز بالنية و هذا معنی الزيادة۔
ولا يقال: ان قوله : إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا معناه: لها، کما يقال: اذا دخلت علی الامير فالبس، و هذا معنی النية[20]
احناف کا مسلک یہ ہے کہ پانی سے پاکی حاصل کرنے میں نیت ضروری نہیں ہے۔ جبکہ امام شافعیؒ کا اس میں اختلاف ہے۔ احناف کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: اے ایمان والو! جب نماز کے لئے کھڑے ہونے لگو تو چہرہ دھو لو۔
یہاں نیت کو لازم ٹھہرانا کتاب اللہ میں زیادتی ہے جو کہ خبر واحد اور قیاس کے ذریعے جائز نہیں ہے۔یہ نہ کہا جائے کہ ایجابِ نیت میں اس لئے تخصیص کی جائے گی کہ غسل دو قسم پر ہے جب ہم نے ایک میں جواز کا قول اختیار کیا تو اس آیت کے عموم میں تخصیص آ گئی، اس کی وجہ یہ ہے کہ آیت میں غاسلین کا ذکر ہے نہ کہ غسل کا۔ اور مخصوص میں لفظ کا اعتبار کیا جائے گا نہ کہ مفہوم کا۔ شوافع کے نزدیک جائز غسل جیسے غسلِ جنابت نیت کے بغیر جائز نہیں اور یہی کتاب اللہ پر زیادتی ہے۔
یہ نہ کہا جائے کہ آیت میں "الیٰ" لام کے معنیٰ میں ہے، جیسے عربی محاورہ ہے: اذا دخلت علی الامير فالبس اور یہی نیت کا معنیٰ ہے ۔
اس کے بعد احناف اور شوافع کے کئی مزید دلائل اور ان پر تفصیلی کلام کیا ہے۔
8۔ احناف پر وارد ہونے والے اعتراضات کا جواب
امام قدوریؒ نے اس کتاب میں اس بات کا التزام کیا ہے کہ احناف پر جو اعتراضات وارد ہوتے ہیں ہر اعتراض کے علمی جوابات دئے ہیں۔ اور اس کے لئے علم الخلاف کے اصول کو اپناکر تحقیقی انداز میں اپنے مسلک کی ترجیح ثابت کرنے کی مفید کوشش کی ہے۔ اور علم الجدل اور منطق کا سہارا لے کر امام ابو حنیفہؒ کا بھر پور دفاع کیا ہے۔
چنانچہ احناف پر وارد ہونے والے اشکال کا ذکر کرتے ہوئے "فان قالوا" یا "لایقال" کے ا لفاظ ذکر کرتے ہیں اور جواب دیتے ہوئے عموماً "قلنا" کا لفظ ذکر کرتے ہیں۔ بسا اوقات اشکال کے لئے " قولہم : کیف یقال:" اور جواب کے لئے "لانه یقال" کی تعبیر اختیار فرماتے ہیں۔ اس کی توضیح ذیل کی مثال سے ہو جاتی ہے:
و قولهم : کيف يقال: لمن قدم الاذان نام، ليس بصحيح، لانه يقال ذلک لمن فعل الشئ علی غير جهته انه نام عنه : انه غافل و يکون معناه انه اذن و هو من بقية النوم فلم يعرف الوقت۔[21]
حضرات شوافع کا یہ کہنا کہ جو شخص وقت سے پہلے اذان دیدے اس کے بارے میں "نَامَ"(وہ سو گیا) کہنا کیسے صحیح ہو گا؟ یہ درست نہیں ہے، کیونکہ جو شخص کسی چیز کو صحیح طریقے پر نہ کرے تو اس پر نوم کا اطلاق ہوتا ہے۔ چنانچہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اذان دی جب کہ اس پر نیند کے آثار تھے جس کی وجہ سے اس سے وقت پہنچاننے میں غلطی ہو گئی۔
ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں:
ولا يقال: وجوب الاعادة لا ينفی الفعل کالامساک فی رمضان والسجدتين والتکبير يدرک الامام فيها والمصلی بسور الحمار من غير تيمم، و ذلک لانا لم نجعل وجوب الاعادة فی مواضع الالزام دليل علی ان الامساک ليس بصوم لکن غير الصوم قد يقوم مقام الصوم۔ [22]
یہ اعتراض نہ کیا جائے کہ اعادے کا واجب ہونا فعل کی نفی نہیں کرتا، جیسا کہ رمضان میں امساک ، دونوں سجدے اور تکبیر جب اس حالت میں امام کے ساتھ شامل ہو جائے۔ اور وہ شخص جو گدھے کے جوٹا پانی سے وضو کرکے تیمم کئے بغیر نماز پڑھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم الزام کی جگہوں میں(جہاں ہم فعل اور اس کے اتمام کو واجب کہتے ہیں وہاں) اعادہ کو واجب نہیں کرتے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ امساک روزہ نہیں ہے، لیکن بعض صورتوں میں غیرِ صوم کو صوم کا قائم مقام کیا جاتا ہے۔
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
فان قالوا: قد خفی علی ابن مسعود التطبيق و علی ابی بکر ميراث الجدة، وعلی علی ادخار لحم الاضاحی
قلنا: لا ننکر ان يخفی علی الواحد ما تعم به البلویٰ و انما ننکر ان يخفی علی الجماعة ۔ [23]
اگر حضرات فقہاء شافعیہ یہ کہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو روایات میں تطبیق کا علم نہیں ہوا تھا، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دادی کی میراث کا علم نہیں ہوا تھا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قربانی کا گوشت ذخیرہ کرنے کا علم نہیں ہوا تھا۔
ہم جواب میں کہتے ہیں کہ ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ ایک شخص کو کسی ایسی چیز کا پتہ نہ چلے جس میں عمومِ بلویٰ ہو۔ لیکن ہم اس بات کو نہیں مانتے کہ پوری جماعت کو ایسی چیز کا پتہ نہ چلے۔
حاصل یہ کہ امام قدوریؒ نے نہ صرف حضرات شوافع کے دلائل کے جوابات دئیے ہیں بلکہ احناف کے دلائل پر وارد ہونے والے شبہات اور اعتراضات کے بھی شافی جوابات دئیے ہیں۔
خلاصۂ بحث
مذکورہ تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ دلائل کی بنیاد پر فروعی اختلاف باعثِ رحمت و یُسر ہے، البتہ اختلاف کے حدود اور مراتب کا لحاظ رکھنا بہر حال ضروری ہے۔ فروعی اور مسلکی اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کا ادب و احترام از حد لازم اور ضروری ہے۔ امام قدوریؒ کی کتاب التجرید احناف اور شوافع کے درمیان اختلافی مسائل اور ان کے تفصیلی دلائل کے حوالے سے نہ صرف ایک اہم اور بنیادی مصدر ہے بلکہ انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے۔ امام قدوریؒ کے منہج سے اختلافِ رائے کے انداز اور طریقہ کار کا پتہ چلتا ہے کہ فقہی اختلاف کی وجہ سے کسی کی توہین اور تحقیر ہرگز نہیں کرنی چاہئے، بلکہ دلائل کی بنیاد پر ترجیح کا طریقہ اپنانا چاہئے۔ اس حوالے سے عصرِ حاضر کے بیشتر اختلافات کے لئے یہ ایک اہم اور بنیادی لائحہ عمل ہے کہ ہمیں ہر قسم کے تعصب اور تشدد سے ہٹ کر دلائل کی بنیاد پر بات کرنی چاہئے۔ امام قدوریؒ نے احناف کے تفصیلی دلائل ذکر کرکے اس حقیقت کو روزِ روشن کی طرح واضح کیا ہے کہ مسلکِ احناف محض رائے اور قیاس پر مبنی نہیں ہے بلکہ قرآن و سنت کے ٹھوس دلائل اور براہین پر اس کی بنیاد ہے اور بیشتر مسائل قرآن و سنت سے ماخوذ ہیں قیاس سے ثابت شدہ مسائل انتہائی قلیل مقدار میں ہیں۔
حوالہ جات
- ↑ حواشی و مصادر (References) البقرة : 176
- ↑ كشف الظنون، حاجي خليفة، المكتبة الشاملة, ج: 1 , ص: 346
- ↑ تاج التراجم في طبقات الحنفية، زين الدين أبو العدل قاسم بن قطلوبغا السودوني، (المتوفى: 879هـ)، دار القلم، دمشق الطبعة: الأولى، 1413 هـ ، ج: 1، ص: 98
- ↑ تاج التراجم في طبقات الحنفية، زين الدين أبو العدل قاسم بن قطلوبغا السودوني، ج: ١، ص: ٩٩
- ↑ پانچویں طبقے سے مراد وہ حضرات فقہاء کرامؒ ہیں جو بعض روایات کو دیگر پر ترجیح دیتے ہیں۔ شرح عقود رسم المفتی، علامه سيد محمد امين بن عمر، ابن عابدين شامی، مکتبة البشریٰ، کراچی، الطبعة الاولیٰ، 1433ھ، ص: 11
- ↑ أبجد العلوم، صديق بن حسن القنوجي، دار الكتب العلمية، بيروت ، 1978م، ج: 2، ص: 278
- ↑ أبجد العلوم، صديق بن حسن القنوجي، ج: 2 ، ص: 276
- ↑ اسبابِ اختلاف کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو :الاحکام فی اصول الاحکام، أبو محمد علي بن أحمد بن سعيد بن حزم الأندلسي القرطبي الظاهري (المتوفى : 456هـ)، دار الفكر، بيروت
- ↑ تهذيب الاسماء واللغات، أبو زكريا يحيى بن شرف بن مري النووي ، دارالکتب العلمية، بيروت، ج: 2، ص: 262
- ↑ التجريد، امام احمد بن محمد قدوری، دار السلام، القاهرة، الطبعة: الأولى، ج: 1، ص: 65
- ↑ التجريد، امام قدوری، دار السلام، القاهرة، الطبعة: الأولى، ج: 1، ص: 99
- ↑ نفسِ مصدر، ج: 1، ص: 382
- ↑ نفسِ مصدر، ج: 1، ص: 417
- ↑ نفسِ مصدر، ج: 1، ص: 387
- ↑ نفسِ مصدر، ج: 1، ص: 387
- ↑ نفسِ مصدر، ج: 1، ص:452، 453
- ↑ البرهان في أصول الفقه، عبد الملك بن عبد الله بن يوسف الجويني أبو المعالي، الوفاء، المنصورة، مصر، الطبعة الرابعة ، 1418ھ، ج: 2 ، ص: 748
- ↑ الميزان الكبري, الامام الشعراني, دار الكتب العلمية, بيروت, ج: 1, ص: 7
- ↑ المائدة : 6
- ↑ التجريد، امام قدوری، دار السلام، القاهرة، الطبعة: الأولى، ج: 1، ص: 101
- ↑ التجريد، امام احمد بن محمد قدوری، مکتبه محموديه، قندهار، افغانستان، ج: 1، ص: 405
- ↑ نفسِ مصدر، ج: 1، ص: 236
- ↑ نفسِ مصدر، ج: 1، ص: 191
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |