1
1
2016
1682060030498_565
9-20
https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/download/81/21
https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/view/81
Islamic Economic System Economics Ethics Islamic Economic System Economics Ethics
تمہید
دینِ اسلام صرف عقائد، عبادات اور چند رسوم کا نام نہیں جن کی ادائیگی کے نتیجے میں آدمی اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآں ہو جائے بلکہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں زندگی کے ہر شعبے اور ہر معاملے کے متعلق کامل و مکمل ہدایات و راہنمائی موجود ہے۔ اسلام کے اس جامع نظام کے تحت کئی شعبے ہیں جن میں ایک اہم اور بنیادی شعبہ معاملات کا ہے چنانچہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو عبادات کا مکلف اور پابند بنایا ہے اسی طرح معاملات کے بارے میں بھی اسے ہدایات دی ہیں اور انسان کو ان ہدایات و احکامات کا پابند بنایا ہے اور معاملات کے بارے میں بھرپور راہنمائی فرمائی ہے کہ لین دین اور خرید و فروخت کے وقت کن اہم باتوں اور اصولوں کی پابندی ضروری ہے، کون سی چیزیں جائز اور حلال ہیں اور کون سی ناجائز اور حرام ہیں۔
افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ عرصۂ دراز سے مسلمانوں کے دلوں سے معاملات کے متعلق احکاماتِ شرعیہ کی اہمیت مٹ چکی ہے، اور دین کو صرف چند عقائد اور عبادات تک محدود رکھا ہے۔ معاملات کے حوالے سے اسلام نے جن عمدہ اخلاقیات کی تعلیم دی تھی ان کی فکر امتِ مسلمہ سے رفتہ رفتہ ختم ہوتی جا رہی ہے۔
آج عالمی سطح پر مسلمانوں کو بد دیانت اور ناقابلِ اعتماد سمجھا جاتا ہے اور بہت سے لوگ مسلمانوں کے ساتھ مالی معاملات کرنے کو بھی تیار نہیں جس کی وجہ بھی صرف یہی ہے کہ اسلام نے معاملات کے لئے ہمیں جن زریں اخلاقیات کی تعلیم دی ہے ہم نے عمومی طور پر اس سے پہلو تہی اختیار کر رکھی ہے بلکہ بہت سے مسلمان تو اسلام کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں، اس غفلت اور دینی اخلاقیات سے دوری کے نتیجے میں ہم معاملات کے میدان میں دنیا سے بہت پیچھے رہ چکے ہیں۔
ان حالات میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اسلام کے معاشی اور اقتصادی اخلاقیات کو سمجھ کر ان پر عمل کیا جائے تاکہ دنیا کے سامنے اسلام کے عادلانہ معاشی نظام اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ نکھر کر سامنے آجائےاور بنی نوع انسان اس دائمی نظامِ معیشت کے فوائد سے مستفید ہو سکے۔
اسلامی نظامِ اقتصاد کے اخلاقیات کا دائرہ کار بہت وسیع ہے اس لئے ان تمام پہلووں پر تفصیلی روشنی ڈالنا ایک آرٹیکل میں ممکن نہیں تاہم ان کے اصول اور بنیادی باتوں کا جائزہ اس آرٹیکل میں لیا جائے گا۔
1: مال کمانا مقصدِ حیات نہیں
اسلامی نظامِ اقتصاد میں انسان کو جو سبق سب سے پہلے سکھایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ دنیا انسان کا مستقل گھر اور جائے قرار نہیں بلکہ یہ ایک عارضی ٹھکانہ ہے۔ اسی طرح مال کمانا انسان کا مقصدِحیات نہیں بلکہ انسان ایک اعلیٰ و ارفع مقصد کے لئے اس دنیا میں آیا ہے جو کہ حق تعالیٰ شانہ کی معرفت اور اس کی بندگی ہے۔ اسلام نے جائز طریقے سے مال کمانے پر پابندی نہیں لگائی بلکہ شرعی احکام کی پابندی کرتے ہوئے اس کی حوصلہ افزائی کی ہے، مگر ساتھ ہی دنیا کی محبت کو انسان کے لئے زہرِ قاتل اور تباہ کن قرار دیا ہے۔ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: حب الدنيا رأس كل خطيئة [1]دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے۔
یہ ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ آج دنیا میں جو فساد برپا ہے اس کے پیچھے دنیوی محبت کارفرما ہے۔ اسی طرح قرآن کریم نے بھی دنیا کو مقصود بنانے اور آخرت پر دنیا کو ترجیح دینے کو جہنم میں لے جانے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ فَأَمَّا مَنْ طَغَى (37) وَآثَرَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا (38) فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأْوَى (39) ﴾ [2]
اس آیت کریمہ میں سرکشی اور دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے (دنیا کی خاطر آخرت کو پسِ پشت ڈالنے) کو جہنم لے جانے والے اعمال میں سے قرار دیا ہے۔
نیز اسلام نے انسان کو جن باطنی اوصاف اور اخلاق کو اپنانے کی تعلیم دی ہے ان میں ایک اہم صفت زہد ہے۔ جس کے معنیٰ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے یہ بیان فرمائے ہیں:
الزهد أن لا يسكن قلبك إلى موجود في الدنيا ، ولا يرغب في مفقود منها [3]
زہد یہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ موجود ہے اس پر آپ کا دل مطمئن نہ ہو اور جو نہیں ہے اس میں رغبت نہ ہو۔ (یعنی دنیا کی محبت غالب نہ ہو اور نہ اصل مقصد دنیا کی دولت اور ساز وسامان ہو)
قرآن کریم نے انسان کی یہی ذہن سازی کی ہے کہ وہ اس دنیا پر مطمئن ہوکر آخرت کو بھول نہ جائے، اور نہ اس دنیا کو اپنا مقصد اورمنزل سمجھے بلکہ اس کو اللہ تعالیٰ کی نعمت سمجھتے ہوئے اس کے احکام کی پابندی کرتے ہوئے حاصل کرے اور اس کے حکموں کے مطابق خرچ کرے جبکہ غیر اسلامی نظریہ یہ ہے کہ مال و دولت اور عیش و عشرت ہی مقصود ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو ناپ تول میں کمی اور مالی معاملات میں کوتاہی کرنے سے منع کیا تو قوم نے جواب دیا:
﴿ قَالُوا يَا شُعَيْبُ أَصَلَاتُكَ تَأْمُرُكَ أَنْ نَتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَنْ نَفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ إِنَّكَ لَأَنْتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُ ﴾ [4]
(قوم کے لوگ) کہنے لگے اے شعیب (علیہ السلام) کیا تمہاری نماز تمہیں یہ سکھاتی ہے کہ ہم چھوڑ دیں ان (معبودوں) کو جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے تھے یا ہم اپنے مالوں میں کرنا (چھوڑ دیں) جو ہم چاہیں؟ بے شک تم تو بڑے باوقار سمجھ دار ہو۔
یعنی ان لوگوں نے اپنے معاملات میں کسی کی دخل اندازی گوارا نہیں کی، اور پیغمبر کی تعلیمات کو اپنی مرضی کے خلاف پا کر اس پر تنقید کرنے لگے۔ اس سے مسلم اور غیر مسلم کے درمیان فرق واضح ہو جاتا ہے کہ مسلمان معاملات کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق سرانجام دیتا ہے اور اسی میں اپنی نجات سمجھتا ہے خواہ وقتی طور پر اس میں نقصان برداشت کرنا پڑے، جبکہ غیر مسلم اپنی مرضی کے مطابق معاملات کرتا ہے اور اس میں حدود و قیود اور حلال و حرام کی تمیز نہیں کرتا۔ نیز مسلمان دنیا کو اپنا مقصد نہیں سمجھتا جبکہ غیر مسلم اس کو اپنا مقصد سمجھتے ہوئے اسی پر اکتفاء کرتا ہے۔
اسلام نے انسان کو مال کمانے سے منع نہیں کیا اور نہ ہی اس پر کلی پابندی لگائی ہے بلکہ جائز اور حلال طریقے سے مال کمانے کی اجازت اور حوصلہ افزائی فرمائی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:
طلب كسب الحلال فريضة بعد الفريضة [5]
حلال مال کمانا دیگر فرائض کے بعد فرض ہے۔
اس حدیث سے ایک طرف کسبِ حلال کی اہمیت معلوم ہوتی ہے کہ یہ بھی انسان کے ذمے لازم ہے تاکہ اپنی اور اپنے اہل و عیال اور متعلقین کی ضروریات جائز طریقے سے پوری ہو سکیں۔ دوسری طرف اس حدیث سے کسبِ مال کا درجہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ مقصدِ اصلی اور زندگی کی آخری منزل نہیں بلکہ دیگر فرائض اور اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ احکام کی پابندی ہر حال میں ضروری ہے ایسا نہیں کہ معاش کی وجہ سے دیگر فرائض کو نظر انداز کیا جائے۔ آج کی دنیا نے معاش اور پیسے کمانے کو انسان کی زندگی کا بنیادی مقصد قرار دیا ہے چنانچہ عصرِ حاضر میں انسانوں کی ساری دوڑ دھوپ مال و دولت کے گرد گھوم رہی ہے کہ کس طرح معیشت کو ترقی دی جائے، مال و دولت میں کس طرح اضافہ کیا جائے، گویا انسان اسی مقصد کے لئے اس دنیا میں آیا ہے۔ اسلام نے نہ صرف رزقِ حلال کی طلب کی اجازت دی ہے بلکہ اس کی ترغیب اور تاکید بھی فرمائی ہے لیکن اس نظریے کے ساتھ کہ طلبِ معاش مقصدِ زندگی نہیں بلکہ ضرورت ہے اور مقصدِ زندگی اللہ تعالیٰ کی عبادت اور بندگی ہے۔
2: سچائی اور دیانت داری کا اہتمام
اسلامی نظامِ اقتصادیات میں اگر غور کیا جائے تو ایک اہم اور بنیادی اصول جس کو ہر معاملے میں پیشِ نظر رکھنا اور اس کی رعایت کرنا بہر حال ضروری ہے وہ یہ ہے کہ معاملات میں سچائی اور دیانت داری کا اہتمام کیا جائے جھوٹ بولنے، دھوکہ دہی اور بددیانتی سے ہر حالت میں پر ہیز کیا جائے۔ قرآن وسنت کے نصوص معاملات میں سچ بولنے اور جھوٹ سے پرہیز کرنے کے بارے میں بہت واضح اور صریح ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:
التاجر الصدوق الأمين مع النبيين والصديقين والشهداء [6]
سچ بولنے والا، امانت دار تاجر قیامت کے دن انبیاء کرام علیہم السلام، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا۔
دوسری حدیث میں آپ ﷺکا ارشاد گرامی ہے:
إن التجار يحشرون يوم القيامة فجارا إلا من اتقى وصدق وبر [7]
تاجروں کا حشر قیامت والے دن فاجروں کے ساتھ کیا جائے گا مگر جس نے تقویٰ اختیار کیا اور سچ بولا اور نیکی کی۔
ایک حدیث میں رسول اکرم ﷺ نے معاملات میں جھوٹ بولنے پر بہت سخت وعید بیان فرمائی ہے، حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تین شخص ایسے ہیں جن سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کلام نہیں فرمائیں گے اور نہ ان کو (رحمت کی نظر سے) دیکھیں گے اور نہ انہیں پاک کریں گے۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ محروم ہوں اور خسارے میں پڑیں، یہ کون لوگ ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
المسبل والمنان والمنفق سلعته بالحلف الكاذب [8]
ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والا، احسان جتلانے والا، اور جھوٹی قسم کے ذریعے سامان بیچنے والا۔
اسلامی تعلیمات سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ سچ بولنے سے بعض اوقات اگر نفع کم نظر آئے تو اس سے پریشان نہیں ہونا چاہئے کیونکہ سچائی کی بدولت مال میں برکت آتی ہے جبکہ جھوٹ کی وجہ سے برکت ختم ہو جاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:
فإن صدقا وبينا بورك لهما في بيعهما وإن كتما وكذبا محقت بركة بيعهما [9]
اگر بائع و مشتری (خریدنے والا اور فروخت کرنے والا) سچ بولیں اور حقیقتِ حال واضح کریں تو اس معاملے میں ان کے لئے برکت ڈالدی جاتی ہے اور اگر وہ اصل صورتحال کو چھپائیں اور جھوٹ بولیں تو ان کے معاملے کی برکت ختم ہو جاتی ہے۔
ان نصوص سے واضح ہو گیا کہ معاملات میں سچائی اور دیانت داری دنیا و آخرت میں کامیابی اور خوشحالی کا ذریعہ ہے جبکہ جھوٹ بولنا اور بد دیانتی کرنا دین و دنیا میں ناکامی اور خسارے کا باعث ہے۔
عصرِ حاضر میں جھوٹ بولنے کو تجارتی مہارت اور کمال سمجھا جاتا ہے جو کہ دینی تعلیمات سے دوری اور آخرت سے غفلت کا نتیجہ ہے۔ امتِ مسلمہ پر لازم ہے کہ وہ معاملات میں سچائی اور دیانت داری کو اپنا شعار بنائیں تاکہ اس کے دنیوی فوائد اور برکات سے بھی مستفید ہو جائیں اور آخرت میں بھی سرخرو ہوں۔
3: معاملات میں نرمی اختیار کرنا
اسلام کے نظامِ اقتصاد کا ایک اہم اخلاقی پہلو یہ ہے کہ خرید و فروخت، لین دین اور دیگر معاملات کے وقت نرمی سے کام لیا جائے، سختی، بد زبانی اور سخت لہجے سے اجتناب کیا جائے[10] ۔ اسلام نے ہر معاملے میں نرمی اور رعایت کرنے کی ہدایت کی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:
إن الله تبارك وتعالى رفيق يحب الرفق ويرضى به ويعين عليه ما لا يعين على العنف [11]
بے شک اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والے ہیں اور نرمی کرنے کوپسند کرتے ہیں اور اس پر راضی ہوتے ہیں، اور نرمی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ مدد آتی ہے جو سختی کی وجہ سے نہیں آتی۔
ایک اور روایت میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے: إن الله يحب الرفق في الأمر كله [12]اللہ تعالیٰ ہر معاملے میں نرمی کو پسند کرتے ہیں۔
ان احادیث کا حاصل یہ ہے کہ ہر معاملے میں نرمی اللہ تعالیٰ کو پسندیدہ ہے اور نرمی کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت آتی ہے۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے نرمی کرنے والے کے لئے رحم کی بشارت دی ہے، آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:
رحم الله رجلا سمحا إذا باع وإذا اشترى وإذا اقتضى [13]
اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرماتے ہیں جو بیچتے وقت، خریدتے وقت اور اپنا حق وصول کرتے وقت نرم ہو۔
لین دین، خرید و فروخت اور معاملات میں نرمی اختیار کرنا اللہ تعالیٰ کی خوشنودی، رحمت و برکت اور دنیا میں کاروبار کی ترقی و خوشحالی کا ذریعہ ہے۔ اور یہ ایسا زرین اور بیش قیمت اصول ہے کہ اگر آدمی اس کو اپنائے تو بہت سی لڑائیاں، جھگڑے، اختلافات اور فسادات خود بخود ختم ہو جائیں گے۔
4: تقویٰ، استغفار، صلہ رحمی اور دیگر اعمالِ صالحہ کا اہتمام:
اسلامی معیشت کو دیگر معاشی نظاموں پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس میں انسانیت کو تمام تجارتی اور مالی معاملات میں ایسے اخلاقیات کے اہتمام کی تاکید کی گئی ہے جن کا دیگر نظامہائے معاش میں تصور بھی نہیں، اسلام نے مالی معاملات کے ساتھ ساتھ روحانی اعمال کی پابندی اور اہتمام کی بھی تاکید کی گئی ہے۔ اسلام نے معاشی نظام میں بعض ایسی چیزوں کی نشاندہی فرمائی ہے جنہیں ظاہر بین اور روحانیت سے محروم لوگ سمجھ بھی نہیں سکتے۔ اور ان کے لئے یہ باتیں بڑی عجیب اور ناقابلِ فہم ہوتی ہیں، مگر جن خوش قسمت لوگوں کو حق تعالیٰ نے روحانیت اور اسلام کی دولت سے مالا مال فرمایا ہے ان کے دل ان باتوں پر مطمئن ہوتے ہیں اور وہ انہیں تسلیم کرنے میں ذرہ برابر تامل سے بھی کام نہیں لیتے۔ ان روحانی اعمال میں ایک عمل استغفار کرنا ہے، قرآنِ کریم سے ہمیں یہ تصور وضاحت کے ساتھ ملتا ہے کہ استغفار کی کثرت معیشت میں ترقی اور خوشحالی کا ذریعہ ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے:
﴿ فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا (10) يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا (11) وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا (12)﴾[14]
اور میں نے کہا اپنے رب سے گناہوں کی معافی مانگو، یقیناً وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم خوب بارش برسائے گا اور تمہیں مال و اولاد میں ترقی دے گااور تمہیں باغ عطا فرمائے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری کرلے گا۔
اس آیتِ کریمہ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے استغفار کو رزق کی فراخی اور وسعت کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ ربیع بن صبیحؒ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حسنِ بصریؒ سے قحط سالی کی شکایت کی تو آپؒ نے فرمایا کہ استغفار کریں، دوسرا شخص آیا اس نے فقر کی شکایت کی تو آپؒ نے اس کو بھی استغفار کی تلقین کی، تیسرے شخص نے نرینہ اولاد کے لئے دعا کی درخواست کی تو آپ نے استغفار کرنے کا فرمایا، چوتھے نے باغات خشک ہونے کی شکایت ہے تو اس کے لئے بھی استغفار تجویز کی، حاضرین نے کہا کہ آپؒ نے سب کو استغفار کا کیوں کہا؟ آپؒ نے فرمایا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سب مسائل کا حل استغفار میں ہے۔[15]
اسی طرح تقویٰ اختیار کرنا بھی معیشت میں ترقی کا ذریعہ ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے:
﴿ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا(2) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ﴾ [16]
اور جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے راستہ نکال دیتے ہیں اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دیتے ہیں جہاں سے اس کو گمان نہیں ہوتا۔
نیز صلہ رحمی اور رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک بھی معاشی ترقی اور برکت کا سبب ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:
من سره أن يبسط له في رزقه وأن ينسأ له في أثره فليصل رحمه [17]
جو شخص یہ چاہے کہ اس کی رزق میں وسعت اور عمر میں اضافہ ہو جائے اس کو چاہئے کہ صلہ رحمی کرے۔
مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ نیکی کی بدولت معیشت میں ترقی اور اضافہ ہو جاتا ہے بالخصوص استغفار، تقویٰ اور صلہ رحمی وغیرہ کو معیشت کی ترقی میں خصوصی اہمیت حاصل ہے، اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ معاشی طور پر مستحکم ہونے اور بہترین معیشت کے حامل ہونے کے لئے محنت و جدو جہد کے ساتھ ان یقینی اسباب کو اختیار کریں۔
5: صدقہ کا اہتمام کرنا
معیشت میں ترقی اور مال و دولت میں برکت کے لئے صدقہ کا بھی اہتمام کرنا چاہئے، صدقہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ معیشت میں اضافہ فرماتے ہیں اور اس کو نقصانات اور آفات سے محفوظ فرماتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:
يا معشر التجار إن البيع يحضره اللغو والحلف فشوبوه بالصدقة [18]
اے تجار کی جماعت خرید و فروخت میں بیہودہ باتیں اور قسمیں ہو جاتی ہیں لہٰذا اس کو صدقہ سے دور کرو۔
ایک اور روایت میں آیا ہے: باكروا بالصدقة فإن البلاء لا يتخطى الصدقة[19]
صدقہ کرنے میں جلدی کرو کیونکہ مصیبت صدقہ کو نہیں پلانگ سکتی۔
محض انسانی ذہن اور عقل کی بنیاد پر فیصلہ کرنے والے یہ سمجھیں گے کہ یہاں تو مال خرچ کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے جو مال میں کمی کا ذریعہ ہے مگر الہامی تعلیمات سے روشناس اذہان اس بات کو تسلیم کرنے میں تامل نہیں کرتے کہ اس خرچ کے نتیجے میں مال بہت سے فتنوں اور آفات و مصائب سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
6: معیشت کے متعلق اسلامی احکام سیکھنا
اسلامی نظامِ اقتصاد کی خوبیوں میں سے یہ بھی ہے کہ معاملات کے جس شعبے میں انسان داخل ہونا چاہے سب سے پہلے اس کے متعلق اسلام کی زریں اور بیش قیمت تعلیمات و ہدایات کا علم حاصل کرے، حلال و حرام کے اصول اور احکام سیکھے تاکہ معاشی نظام کے حوالے سے اسلام کے طے کردہ اصولوں اور احکام کی پابندی کرے جس کے مفید اثرات نہ صرف اس کے مال و دولت پر مرتب ہوں بلکہ معاشرہ بھی ان کے برکات سے مستفید ہو سکے، اور حرام و ناجائز طریقوں سے اجتناب کرے تاکہ خود بھی ان کے برے اور تباہ کن نتائج و اثرات سے محفوظ رہے اور دوسرے لوگ بھی محفوظ و مامون ہوں۔ خلیفۂ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد مبارک ہے:
لا يتجر في سوقنا إلا من فقه ، وإلا أكل الربا [20]
ہمارے بازار میں صرف وہ شخص تجارت کرے جس نے دینی احکام سیکھے ہوں، ورنہ وہ سود خوری میں مبتلا ہو گا۔
مشہور فقیہ امام شمس الائمہ سرخسیؒ فرماتے ہیں: فإن أراد التجارة يفترض عليه تعلم ما يحترز به عن الربا والعقود الفاسدة[21] ۔ اگر کسی شخص کی نیت تجارت کرنے کی ہو تو اس پر فرض ہے کہ اتنا علم حاصل کرے جس کے نتیجے میں سود اور دیگر معاملاتِ فاسدہ سے بچ سکے۔
وزارۃ الاوقاف و الشئون الاسلامیہ کویت کی زیرِ نگرانی شائع ہونے والے عظیم فقہی انسائیکلو پیڈیا "الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیہ" میں لکھا ہے: ہر کمانے والے مسلمان پر لازم ہے کہ وہ کسب کے متعلق اسلامی تعلیمات کا علم حاصل کرے، تاکہ خرید و فروخت، سود، بیعِ سلم، شرکت اور قرض وغیرہ معاملات کے احکام سیکھ لے[22] ۔
7: ناپ تول میں کمی سے اجتناب
اسلامی نظامِ معیشت کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں معاملہ کرنے والوں کو دوسرے کے حقوق پورا پورا دینے کا پابند بنایا گیا ہے، اور ان میں کسی قسم کی کمی اور کوتاہی کرنے کی اجازت نہیں دی۔ یہ معاملہ صرف دنیوی قانون کا نہیں کہ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوں تو پورا پورا حق ادا کیا جائے گا اور اگر ان کا خوف نہ ہو تو حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کی جائے گی بلکہ اس پر سخت وعیدیں بیان فرما کر اس حقیقت کو واضح کر دیا ہے کہ دوسروں کو ان کے حقوق پورے پورے ادا کرنا صرف دنیوی قانون کی وجہ سے نہیں بلکہ آخرت میں اس کا محاسبہ ہو گا اور دوسروں کی حق تلفی کی وجہ سے سخت عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نیز دنیا میں بھی دوسروں کی حق تلفی کی وجہ سے مال و دولت میں برکت نہیں ہو گی۔ قرآن کریم میں حق تعالیٰ شانہ کا ارشاد مبارک ہے: ﴿ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ﴾[23] ان لوگوں پر سخت عذاب ہے جو دوسروں کا حق کم دیتے ہیں اور کم ناپتے اور تولتے ہیں۔
اس آیت میں تطفیف پر سخت وعید بیان کی گئی ہے اور تطفیف کا مطلب ہے کم ناپنا اور کم تولنا۔ مگر آیت کا مفہوم صرف ناپنے اور تولنے کے ساتھ خاص نہیں بلکہ تمام حقوق کو شامل ہے چنانچہ دوسروں کے جو حقوق واجب ہیں ان میں کمی کرنا اس کے مفہوم میں داخل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایسے شخص کو مفلس قرار دیا ہے جو دوسروں کے حقوق میں کوتاہی کرے، قیامت کے دن یہ شخص بہت ساری نیکیاں (نماز، روزے اور زکوٰۃ) لیکر آئے گا اور حقدار اس سے اپنے حقوق کے عوض نیکیاں لیتے رہیں گے جب نیکیاں ختم ہو جائیں تو حقداروں کے گناہوں کو اس پر لادا جائے گا جس کے نتیجے میں آخر کار اس کو جہنم میں ڈالدیا جائے گا [24]۔
8: ناجائز ذرائع آمدنی سے اجتناب
اسلام کے اقتصادی نظام کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس نے ناجائز اور ظالمانہ ذرائعِ آمدنی کا دروازہ بالکل بند کر دیا ہے۔ سود، جوا، سٹہ اور دولت حاصل کرنے کے دیگر ناجائز ذرائع کو بدترین جرم قرار دیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ ﴾ [25]
اے ایمان والو! ایک دوسرے کے مال کو ناحق طریقے سے مت کھاو، الا یہ کہ تمہاری باہمی رضامندی سے کوئی تجارت ہو۔ یہ آیت معاملات کے بارے میں اصل الاصول ہے جس نے مال کمانے کے تمام ناجائز اور حرام طریقوں کو ممنوع قرار دیا ہے جن میں سود، قمار، ممنوع ذخیرہ اندوزی اور دیگر ناجائز ذرائع شامل ہیں۔ جبکہ سرمایہ دارانہ نظام خرابیوں اور ناانصافیوں کا مجموعہ ہے، اور اس کی بنیاد ہی سود، قمار، سٹہ اور ذخیرہ اندوزی پر ہے، سرمایہ دار ظالمانہ طریقوں سے قوم کی دولت کو جمع کر لیتا ہے، اور دوسری طرف اس پر یہ کوئی پابندی نہیں کہ کسی غریب، نادار یا مفلس پر لازماً کچھ خرچ کرے یا ان کا کوئی خیال کرے [26]۔
اس کے برعکس اسلام نے ایک طرف مال کمانے کے ظالمانہ اور ناجائز ذرائع پر پابندی لگا دی اور دوسری طرف مالدار کو یہ تاکید کی کہ وہ غریبوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے ہوئے اپنے مال میں ان کے مقرر شدہ حقوق بخوشی و طیبِ خاطر ادا کرے۔ نیز اسلام نے مالدار کے مال میں زکوٰۃ، فطرہ اور دیگر مختلف طریقوں سے غریب کا حق مقرر فرمایا تاکہ مفلس اور ضرورت مندوں کی ضروریات بھی احسن طریقے سے پوری ہو جائیں۔
اسلامی نظامِ اقتصاد کی یہ خوبی ہے کہ اس نے مالدار اور سرمایہ دار کو یہ کھلی چھوٹ نہیں دی ہے کہ وہ جس طرح سے چاہے غریبوں کا خون چوستا رہے، مصنوعی بحران، دھوکہ دہی اور دوسروں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر پیسوں کے جمع کرنے کو اپنا وظیفۂ حیات بنائے جیسا کہ آج کی دنیا میں ہو رہا ہے، بلکہ اسلام نے انسان کو جائز طریقوں کا پابند بنا رکھا ہے، اور تمام ناجائز اور ظالمانہ طریقوں کا خاتمہ کیا ہے، چنانچہ ذخیرہ اندوزی جو عصرِ حاضر میں سرمایہ داروں کا وطیرہ بن چکا ہے اس پر پابندی عائد کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:
لا يحتكر إلا خاطئ[27]
ذخیرہ اندوزی وہی کرتا ہے جو خطاکار ہو۔
دوسری حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:
بئس العبد المحتكر ان أرخص الله الاسعار حزن وان أغلاها الله فرح [28]
بدترین شخص وہ ذخیرہ اندوزی کرنے والا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ قیمتوں کو کم کردے تو وہ پریشان ہو جاتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ قیمتوں کو بڑھائے تو وہ خوش ہو جاتا ہے۔
ذخیرہ اندوزی کرکے بحران پیدا کرنا اور اس کے نتیجے میں قیمتیں بڑھانا لوگوں پر ظلم ہے اس لئے اسلام نے اس پر پابندی عائد کی ہے اس کے علاوہ دیگر ظالمانہ طریقوں کو ناجائز اور ممنوع قرار دیکر ایک عادلانہ اور منصفانہ نظامِ اقتصاد دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، جو سرمایہ داری اور اشتراکیت کے افراط و تفریط سے پاک اور بنی نوع انسان کے لئے یکساں مفید اور کارآمد ہے، جس میں انسان کو نہ صرف یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جائز قوانین کی پابندی کی جائے بلکہ اس کو اخلاقیات کے وسیع نظام کا پابند بنا دیا ہے اور نہ صرف حرام چیزوں سے اجتناب کو کافی قرار دیا ہے بلکہ مشتبہ چیزوں سے بھی بچنے کی تلقین کی ہے۔ لہٰذا مسلمان معیشت دانوں پر لازم ہے کہ وہ حرام ذرائعِ آمدنی مثلاً آلاتِ لہو لعب کی صناعت، شراب فروشی، سود خوری، قمار، ظلم، دھوکہ دہی اور جھوٹی قسموں پر مشتمل تجارت وغیرہ ناجائز امور سے اجتناب کریں ۔
9: نظر برکت پر ہو کثرت پر نہ ہو
اسلامی نظامِ معیشت کی ایک امتیازی شان یہ ہے کہ اس میں انسان کی یہ ذہن سازی کی جاتی ہے کہ مال و دولت کی کثرت اصل نہیں بلکہ اصل چیز یہ ہے کہ اس میں برکت ہو۔ برکت کا مطلب یہ ہے کہ اپنے پاس جو بھی چیز ہے اس کے اندر جو اس کا مقصود یعنی اس کی منفعت ہے وہ بھرپور طریقے سے حاصل ہو [29]۔
آج حالت یہ ہو گئی ہے کہ نہ برکت پر نظر ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی کوئی قدر و قیمت ہے، بلکہ مال و دولت اور ساز و سامان کی کثرت پر نظر ہوتی ہے یعنی جس طرح بھی ہو جہاں سے بھی ہو مال اور پیسہ زیادہ آنا چاہئے، برکت کا مفہوم ذہنوں سے مٹ گیا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر برکت ہو گی تو کثرت نہ ہونے کے باوجود بھی انسان کو سکون اور اطمینان حاصل ہو گا اور اگر برکت نہ ہو گی تو انسان سکون و اطمینان سے خالی ہو گا چاہے مال و دولت کی کتنی ہی کثرت ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں برکت مانگنے کی تعلیم دی ہے، آپﷺ سے جو مبارک دعائیں منقول ہیں ان میں ایک اہم دعا یہ ہے:
وبارك لي في كسبي وقنعني بما رزقتني [30]
اے اللہ میری کمائی میں برکت ڈالدے اور جو رزق آپ مجھے دیں مجھے اس پر قناعت نصیب فرما لیں۔
آپﷺ وضو کے بعد جو دعا مانگا کرتے تھے اس کا آخری جملہ یہ ہے:
وبارك لي في رزقي [31]
اے اللہ میرے رزق میں برکت ڈالدے۔
رسول اللہ ﷺ کی ایک اور مبارک دعا ان الفاظ میں آئی ہے:
ولا تحرمني بركة ما أعطيتني[32]
اے اللہ! آپ نے جو نعمتیں مجھے دی ہیں ان کی برکت سے مجھے محروم نہ فرما۔
الغرض آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے مال و دولت کی کثرت نہیں مانگی بلکہ اس میں برکت مانگی ہے۔
نیز رسول اللہ ﷺ نے برکت کے اسباب بھی بیان فرمائے ہیں اور خسارے کے اسباب بھی بیان فرمائے ہیں، برکت کے اسباب میں سے معاملات میں سچ بولنا اور اگر معقود علیہ (جس چیز کی خرید فروخت ہو رہی ہے) میں کوئی عیب یا نقص ہو تو اس کا بیان کرنا، صدقہ دینا، صلہ رحمی کرنا اور نیکی و طاعت کا اہتمام شامل ہیں، جبکہ نقصان اور خسارے کے اسباب میں سے عیب چھپانا، جھوٹ بولنا، دھوکہ دہی اور معاصی کا ارتکاب شامل ہے ۔
لہٰذا مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ وہ حق تعالیٰ شانہ سے برکت مانگ لیا کریں اور برکت کے اسباب کو اپناتے ہوئے نقصان اور خسران کے اسباب سے اجتناب کریں۔ نیز نظر برکت پر رکھیں مال و دولت کی کثرت اور گنتی مقصود نہ ہو۔
10: گناہوں سے اجتناب
معاصی اور گناہوں کا ارتکاب اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور رزق اور برکتوں سے محرومی کا باعث ہے، نافرمانیوں کی وجہ سے انسان کی معیشت میں نقصان اور خسارہ امرِ یقینی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:
إن الرجل ليحرم الرزق بالذنب الذي يصيبه [33]
بے شک آدمی جس گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اس کی وجہ سے رزق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
اسی طرح جھوٹی قسمیں کھانا بھی بے برکتی اور خسارے کا باعث ہیں، اور ان کی وجہ سے مال و معیشت تباہی و بربادی کا شکار ہو جاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:
إياكم وكثرة الحلف في البيع فإنه ينفق ثم يمحق [34]
خرید و فروخت میں زیادہ قسمیں کھانے سے اجتناب کرو کیونکہ اس کے نتیجے میں سامان کی ترویج ہو جاتی ہے مگر آخرکار وہ برباد ہو جاتی ہے۔
اسی لئے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اسلام کے دئیے ہوئے زریں اصولوں اور ہدایات کی پیروی کرتے ہوئے اقتصاد کے اخلاقیات کو اپنائیں اور گناہوں سے اپنے آپ کو بچا کر اس طرح کی معاشی سرگرمیاں جاری رکھیں جس کے نتیجے میں دنیا میں بھی دیگر اقوام کے لئے مشعلِ راہ اور نمونہ بن سکیں اور آخرت کی ابدی زندگی میں ہمیشہ کی کامیابیوں اور کامرانیوں سے بہرہ ور ہو سکیں۔
خلاصۂ بحث:
1۔ اسلامی نظامِ معیشت بہت سی خوبیوں اور کمالات کا مجموعہ ہے، جس کو دنیا کے دیگر معاشی نظاموں پر مکمل برتری حاصل ہے، اور یہ ہر قسم کے مظالم و نا انصافیوں سے پاک اور منصفانہ تقسیمِ دولت کا ضامن ہے۔
2۔ اسلام نے انسان کو صرف ملکی قوانین کا پابند نہیں بنایا بلکہ اس کے ساتھ اخلاقیات کا ایک جامع نظام دیا ہے جس کا لحاظ معاملات کے ہر موڑ پر رکھنا ضروری ہے۔
3۔ اسلام نے انسان کو سچائی، دیانتداری، نرمی، تقویٰ و طہارت کی تعلیم دی ہے اور سود، رشوت، قمار، جھوٹ، دھوکہ دہی اور بد دیانتی سے سختی سے منع کیا ہے کیونکہ اس کے مضر اثرات پورے معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں۔
4۔ برکت اور بے برکتی کے اسباب معلوم کرکے برکت والے اعمال کو اپنانا چاہئے تاکہ زندگی پر سکون ہو۔
5۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ معیشت کے متعلق اسلامی ہدایات کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہو جائیں اور انسان کی ناقص عقل کے بنے ہوئے نظاموں کے بجائے خالقِ کائنات کے دئیے ہوئے ہمہ گیر اور جامع نظامِ معیشت کی پیروی کریں اور اسی کو اپنے لئے دنیا و آخرت میں باعثِ ترقی و نجات سمجھیں۔
حوالہ جات
- ↑ مصادر و مراجع (Refrences) المبارك بن محمد الجزري ابن الأثير ،جامع الأصول في أحاديث الرسول، مكتبة دار البيان، الطبعة : الأولى، ج: 4، ص: 506
- ↑ سورة النازعات : 37 - 39
- ↑ البيهقي، الزهد الكبير، المکتبة الشاملة، ج:1، ص: 3
- ↑ سورة هود : 87
- ↑ أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي، شعب الإيمان،دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة الأولى ، 1410ھ، ج: 6، ص:420
- ↑ محمد بن عيسى أبو عيسى الترمذي السلمي ،سنن الترمذي، دار إحياء التراث العربي، بيروت، ج: 3، ص: 515
- ↑ أبو جعفر أحمد بن محمد بن سلامة بالطحاوي،شرح مشكل الآثار، مؤسسة الرسالة، الطبعة: الأولى، 1415 هـ، ج: 5، ص: 331
- ↑ أبو داود سليمان بن الأشعث السجستاني ،سنن أبى داود، دار الكتاب العربي، بيروت، ج: 4, ص: 100
- ↑ محمد بن اسماعيل البخاری،صحيح البخاري، دارطوق النجاة، مصر، ج: 1، ص: 127
- ↑ مجلة البحوث الإسلامية، الرئاسة العامة لإدارات البحوث العلمية والإفتاء والدعوة والإرشاد، المکتبة الشاملة، ج: 73، ص:203
- ↑ مالك بن أنس،موطأ مالك، مؤسسة زايد بن سلطان آل نهيان، الطبعة : الاولى 1425هـ، ج: 5 ، ص: 1426
- ↑ محمد بن حبان بن أحمد التميمي، صحيح ابن حبان، مؤسسة الرسالة، بيروت، الطبعة الثانية، 1414ھ، ج: 14، ص:352
- ↑ صحيح البخاري، ج: 1، ص: 125
- ↑ سورة نوح : 10، 11 ، 12
- ↑ العلامة الألوسي, روح المعاني, ج: 21، ص: 315
- ↑ سورة الطلاق : 2 ، 3
- ↑ صحيح البخاري، ج: 1، ص: 7
- ↑ سنن أبى داود، ج: 3، ص: 246
- ↑ شعب الإيمان، ج: 3، ص: 21
- ↑ الموسوعة الفقهية الكويتية، وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية، الكويت، الطبعة الاولي ( من 1404 - 1427 هـ)، مطابع دار الصفوة، مصر، ج: 22، ص: 53
- ↑ شمس الدين أبو بكر محمد بن أبي سهل السرخسي،المبسوط ، دار الفكر، بيروت، الطبعة الأولى، 1421هـ ج: 30، ص: 466
- ↑ الموسوعة الفقهية الكويتية، ج: 34، ص: 235
- ↑ سورة المطففين : 1
- ↑ صحيح ابن حبان، ج: 10، ص: 259
- ↑ النساء : 29
- ↑ مفتی محمد تقی عثمانی،ہمارا معاشی نظام، مکتبہ دارالعلوم کراچی، طبع: 1423ھ، ص: 14
- ↑ سنن الترمذي، ج: 3، ص: 567
- ↑ سليمان بن أحمد الطبراني، المعجم الكبير، مكتبة العلوم والحكم، الموصل، الطبعة الثانية، 1404ھ، ج: 20، ص: 95
- ↑ اسلام اور جديد معاشی مسائل، ج: 1، ص: 139
- ↑ أبو شجاع شيرويه بن شهردار الديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب ،دار الكتب العلمية، بيروت، 1406 هـ، ج: 1، ص: 476
- ↑ مسند أحمد، أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني ، عالم الكتب، بيروت، الطبعة: الأولى، 1419هـ ، ج: 4، ص: 399
- ↑ الفردوس بمأثور الخطاب ، ج1، ص:476
- ↑ صحيح ابن حبان، ج: 3، ص: 153
- ↑ أبو عبد الرحمن أحمد بن شعيب النسائي,سنن النسائي, دار المعرفة, بيروت, الطبعة : الخامسة 1420ھ،ج: 7, ص: 282
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |