2
1
2017
1682060030498_679
37-51
https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/download/203/10.12816%2F0037061
https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/view/203
Joseph Schacht Hadith Muhaddithin Orientalism Joseph Schacht Hadith Muhaddithin Orientalism
تمہید
پروفیسرجوزف شاخت(1902-1969ء) جرمنی، موجودہ پولینڈ میں پیدا ہوئے۔ گھر کے یہودی مذہبی اور تعلیم یافتہ ماحول میں پرورش پائی۔ 1929ء میں صرف ستائیس سال کی عمر میں جرمنی کی کسی بھی یونیورسٹی کے سب سے کم عمر پروفیسر بنے۔ انھوں نے اسلامی تعلیمات کے ضمن میں دنیاکے معروف علمی رسائل و جرائد میں مضامین لکھے ۔ دائرہ معارفِ اسلامیہ، دائرہ معارفِ علوم اجتماعیہ اور تاریخ فقہِ اسلامی میں کئی مقالات تحریر کیے اور کئی مستقل کتب بھی تصنیف کیں۔شاخت کا کام اگرچہ اسلامی تعلیمات کے بہت سے پہلوؤں پر محیط ہے تاہم ان کا سب سے بڑا تحقیقی حصہ اسلامی قانون کے شعبے میں ہے۔ پروفیسر شاخت نے سب سے پہلے احادیث کی استنادی حیثیت پر سوالات کھڑے کیے اور تمام ذخیرۂ حدیث کو موضوع قرار دیا۔
پروفیسر شاخت اور ان کے ہم نواؤں کے تحقیقی نتائج، محدثین اور مسلم سکالرز کے اخذ کردہ نتائج سے مختلف، بلکہ عام طور پر الٹ ہیں۔ نتیجتاً شاختین کے نزدیک ذخیرہ حدیث کے نام پر مسلم دنیا جس مواد کو اقوال و افعال رسول صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہے اور اس کے اصلی ہونے کی دعویدار ہے حقیقت میں یہ سارے کا سارا ملغوبہ بعد کے ادوار کی پیداوار ہے۔ نیز کتب حدیث میں موجود سلسلہء سند جس پر روایات کے صحت وضعف کی اصل بنیاد ہے ،وہ بھی من گھڑت ہے۔پروفیسر شاخت اور ان کے متبعین کے غلط نتائج تک پہنچنے کی وجہ ان کے طرز تحقیق میں پائی جانے والی کچھ بنیادی خامیاں ہیں۔مستشرقین جب تک اپنی ان بنیادی غلطیوں کی اصلاح نہیں کر لیتے صحیح نتائج اخذنہیں کر سکتے۔ ان میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں۔
مصطلحات الحدیث کا غلط مفہوم:
پروفیسر شاخت کی تحقیق کے غلط نتائج کی ایک وجہ مصطلحات الحدیث کا غلط مفہوم ہے۔ یا تو وہ ان اصطلاحات میں تمیز نہیں کر پائے یا جان بوجھ کر انھوں نے اس سے اختلاف کیا ہے۔ اس کی بڑی مثال علم الحدیث میں مستعمل اصطلاح ’’سنت‘‘ ہے۔ محدثین کے ہاں اصطلاحاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال ،افعال اور تقاریر کو سنت کہتے ہیں ۔[1]
پروفیسر شاخت سنت کے مفہوم کو تین ادوار میں تقسیم کرتے ہیں:
ان کے مطابق اسلام کے ابتدائی دور میں پہلے لوگوں ( آباؤ اجداد) کے رسم و رواج کو سنت کہا جاتا تھا[2]
دوسرا دور فقہی مذاہب کا دور تھا۔ انھوں نے بنوامیہ کے دور حکومت میں سنت کا مفہوم تبدیل کرکے معاشرتی رسم و رواج اور علماء کے نظریات کے معنی میں استعمال کیا۔[3]
بعد ازاں امام شافعی نے سنت کے مفہوم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص کردیا۔ اس وقت تک محدثین بھی سنت کو اسی معنی میں استعمال کرچکے تھے۔[4]
اس میں شک نہیں کہ ’’سنت‘‘ لغوی طور پر وسیع مفہوم کی حامل اصطلاح ہے جو ابتداء کسی بھی دوسری اصطلاح کی طرح صرف سنت نبوی سے مختص نہ تھی۔ بلکہ بسا اوقات دوسرے لوگوں کے طریقے کو بھی سنت کے نام سے موسوم کردیا جاتا تھا۔ حتی کہ قرآن اور حدیث میں اس کے مختلف استعمالات کی کئی امثلہ موجود ہیں۔ لیکن ان امثلہ سے شاخت کا یہ ثابت کرنا کہ ابتدائی اسلامی عہد میں سنت کا لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے استعمال نہیں ہوتا تھا، سراسر علمی خیانت کے زمرے میں آتا ہے۔ عام طالب علم بھی اس حقیقت سے آشنا ہے کہ کئی احادیث میں سنت نبوی کا ذکر موجود ہے ۔بعد ازاں یہ لفظ اصطلاحاً تقریباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مختص ہوگیا اور جب بھی بغیر تخصیص کے استعمال ہو تو اس سے مراد سنت نبوی ہی ہوتی ہے۔ یہ ہے حقیقت ،جسے پروفیسر شاخت یوں پیش کرتے ہیں جیسے پہلے سنت سے مراد آباء و اجداد کی رسوم یا معاشرتی رواج تھا، بعد میں وہ مفہوم متروک ہوگیا اور اس کی جگہ سنت کا موجودہ نیا مفہوم وضع کرلیا گیا۔ جیسا کہ مسند احمدبن حنبل میں سالم سے منقول ہے کہ:
کان عبدالله بن عمر رضی الله عنه یفتي بالذی أنزل الله عزوجل من الرخصة بالتمتع ، وسن رسول الله صلی الله علیه وسلم فیه،فیقول ناس لابن عمر رضی الله عنه کیف تخالف أباک وقدنهی عن ذلک! فیقول لهم عبدالله:ویلکم! ألا تتقون الله؟ان کان عمر رضی الله عنه قد نهی عن ذلک فیبتغي فیه الخیر یلتمس به تمام العمرة،فلم تحرمون ذلک،وقد أحله الله،وعمل به رسول الله صلی الله علیه وسلم!أفرسول الله صلی الله علیه وسلم احق أن تتبعوا سنة أم سنة عمر رضی الله عنه؟ ان عمررضی الله عنه لم یقل لکم ان العمرة في أشهر الحج حرام ، ولکنه قال:ان أتم العمرة أن تفردوها فی اشهر الحج.[5]
’’عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق (حج) تمتع کی رخصت کا فتوی دیاکرتے تھے۔ بعض لوگ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے: آپ کیونکر اپنے باپ کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ وہ اس سے منع کیا کرتے تھے؟ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: تمہارے لیے ہلاکت ہے! تم اللہ سے کیوں نہیں ڈرتے؟ عمررضی اللہ عنہ نے اس سے خیر کے ارادے سے منع کیا تھا وہ چاہتے تھے کہ لوگ عمرہ مکمل کرلیں۔ تم اس سے منع کیوں کرتے ہو جبکہ اللہ نے اسے حلال کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مطابق عمل کیا ہے! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ مستحق ہیں کہ تم ان کی سنت کی اتباع کرو یا سنت عمر رضی اللہ عنہ؟ عمر رضی اللہ عنہ نے تمہیں کبھی بھی یہ نہیں کہا تھا کہ حج کے مہینوں میں عمرہ حرام ہے۔ انھوں نے تو یہ کہا تھا کہ اشھر حج میں مکمل عمرہ مفرد ہے۔‘‘
دکتور سعدالمرصفی اس حدیث پر یوں تبصرہ کرتے ہیں:
’’وهذا القول من عبدالله بن عمر رضی الله عنه’’أفرسول الله صلی الله علیه وسلم أحق أن تتبعوا سنة أم سنة عمر رضی الله عنه!‘‘ فصل فی هذه القضیة،حیث مایزبین قضیتین مختلفتین تماماً ، أثبت للأولی حق الاتباع، ولو کان العرف الشائع أو تقالید المجتمع هما السنة، فکیف نفسر قول ابن عمر رضی الله عنه هذا!‘‘ [6]
’’عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول ’’کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ مستحق ہیں کہ تم ان کی سنت کی اتباع کرو یا سنت عمر رضی اللہ عنہ؟‘‘ اس جھگڑے میں قول فیصل کی حیثیت رکھتا ہے جو دونوں مختلف باتوں میں مکمل طور پر فرق کردیتا ہے۔ پہلے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے اتباع کا حق بالکل ثابت ہے۔ اگر رسم و رواج یا پہلے لوگوں کے طور طریقے سنت (کے معنی میں مستعمل) تھے تو ہم ابن عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول کی کیسے وضاحت کریں گے؟‘‘
Guillaume Alfred کہتے ہیں کہ شاخت کو سنت کا مفہوم سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی ہے اور جس بھی مقدمے کی بنیاد اس غلط تعریف پر رکھی جائے گی، اس کے نتائج غلط ہی نکلیں گے۔ وہ لکھتے ہیں:
"In connexion with the whittling down of the meaning of sunna to the practic of the Prophet it is important to observe that the Sunna madiya is not, as Dr Schacht translates, a 'Past Sunna' but an established practice of the present going back to the past, and so we should read in three places a present sunna going back to the Prophet."[7]
’’مفہوم سنت کی عمل نبوی کے معنی میں قطع وبرید کے ضمن میں یہ ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ سنۃ ماضیۃ (سے مراد) وہ نہیں جو ڈاکٹر شاخت بیان کرتے ہیں ’گزری ہوئی سنت‘ بلکہ (اس سے مراد) موجودہ زمانے میں مروج وہ عمل ہے جو ماضی تک پہنچتا ہو اس لیے تینوں جگہوں پر سنت جاریۃ سے مراد ایسی سنت لینی چاہیے جو پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہو۔‘‘
دکتورسعدالمرصفی گولڈزیہراور شاخت وغیرہ کے سنت کو غلط مفہوم میں استعمال کرنے پرتنقیدکرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’ولذا فلا یمکن ان تقبل تلک المفتریات، سواء فی ذلک مازعمه جولد تسیهر فی تفسیره السنة بأنها (مصطلح وثنی) استعمله الاسلام، أو ذهب الیه مار غلیوث من أن معناها فی العهد الاول کان (عرفیاً) أو ما ادعاه شاخت فی دراسته من أن معناها (تقالید المجتمع) أو (الأعراف السائدة لأن تلک المزاعم تخالف مخالفة جذریة مادلته علیه النصوص القطعیة،والتیی یفسر بعضهابعضا۔‘‘[8]
’’اس لیے یہ مفتریات قبول کرنا ممکن نہیں۔ خواہ وہ جو سنت کی تعریف کے متعلق گولڈزیہر کا زعم ہے کہ یہ (بت پرستانہ اصطلاح) ہے جسے اسلام نے استعمال کیا ہے یا جو مارگولیتھ کا رجحان ہے کہ قرون اولیٰ میں اس سے مراد (رواج) تھا یا جو شاخت نے اپنی تحاریر میں دعویٰ کیا ہے کہ اس سے مراد (معاشرتی روایات و اقدار) یا (معروف رسوم) ہیں کیونکہ یہ تمام دعوے قطعی اور واضح ترین نصوص کے بالکل برعکس ہیں۔‘‘
ڈاکٹر مصطفی اعظمی نے شاخت کے اس مفروضے پر مفصل و مدلل بحث کی ہے اور شاخت کی پیش کردہ مثالوں کا تنقیدی جائزہ بھی پیش کیا ہے۔ حاصل بحث میں وہ لکھتے ہیں:
"The word sunna literally means a way, rules, or conduct of life. It has been used in pre-Islamic poetry as well as in the Qur'an in the same sense. Anyone can establish a suuna, good or bad, if it is followed by others. As the life of the Prophet was the model for all Msulims to follow, the expression "suuna of the Prophet" came into use in the life of the Prophet and was even used by him. Sometimes the norms drawn analogically from the practice or the sayings of the Prophet were also called suuna."[9]
’’لفظ سنت کے لغوی معانی طریق، اصول یا طرز زندگی کے ہیں۔ یہ لفظ ما قبل اسلامی شاعری اور قرآن مجید میں بھی انہی معانی میں استعمال ہوا ہے۔ کوئی بھی شخص اچھی یا بری سنت قائم کرسکتا ہے اگر اس کی پیروی کرنے والے لوگ ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی چونکہ مسلمانوں کے لیے اسوہ کی حیثیت رکھتی ہے لہٰذا ’’سنت نبوی‘‘ کی ترکیب عہد نبوی میں استعمال ہوتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس کو استعمال کیا۔ بعض اوقات اقوال و افعال نبوی کے متماثل مثالی نمونے بھی سنت کہلاتے تھے۔‘‘
اس سے واضح ہوتا ہے کہ پروفیسر شاخت وغیرہ جس طرح سنت کو بتدریج اس مفہوم تک پہنچاتے ہیں یہ مفروضہ حقائق و دلائل سے ثابت نہیں ہے اور اقوال صحابہ و قرون اولیٰ کے واقعات بھی اس نظریے کی نفی کرتے ہیں۔ مزید برآں قرآن و حدیث کی واضح اور بکثرت نصوص سے سنت کی اہمیت واضح ہوتی ہے جبکہ وہی قرآن آباء و اجداد کی تقلید کی نفی کرتا ہے اور کفار کی اس روش پر شدید تنقید کرتا ہے کہ وہ اپنے آباء و اجداد کے طور طریقوں پر بلا دلیل عمل پیرا تھے اور واضح دلائل کے بعد بھی اپنی اس روش کو چھوڑنے پر تیار نہ تھے۔ کیا شاختین اس تضاد کی وضاحت کرپائیں گے کہ قرآن میں واضح طور پر کفار کے اس طریقے پر شدید نقد کی موجودگی میں قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے ہاں سنت کا یہ مفہوم کیونکر رواج پذیر ہوا اور جیسا کہ بقول شاخت سنت کا موجودہ مفہوم امام شافعی کا متعارف کردہ ہے[10]۔
یہاں شاخت دو متضاد باتیں بھی پیش کر رہے ہیں ایک طرف تو ان کے بقول امام شافعی سے پہلے والے زمانے میں محدثین وضع حدیث میں ملوث تھے (اور اس میں اہمیت سنت سے متعلقہ احادیث بھی یقینی طور پر شامل تھیں) دوسری طرف وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ (محدثین) سنت کا پہلے سے مروجہ مفہوم ماننے کو بھی تیار نہیں تھے۔ اس کی بھی کوئی منطقی دلیل نہیں بنتی کہ اگر محدثین سنت کے مروجہ مفہوم کو تبدیل کرنے جا رہے تھے تو وہ اسی سنت کی اہمیت میں احادیث کیوں وضع کرنے لگے۔
پروفیسر شاخت نے علوم الحدیث کی ایک دوسری اصطلاح تفرد کو بھی غلط مفہوم میں بیان کیا ہے۔ ان کی ایک بڑی تھیوری Common Link (مشترک تعلق) (جس کی بنیاد پر وہ ذخیرہ حدیث کی وضعیت کے دعویدار ہیں) کی بنیاد اس غلط مفہوم پر ہے۔ شاخت تفرد کی صرف ایک قسم کو تمام غیر متواتر احادیث کے معنی میں پیش کرتے ہیں جس وجہ سے ان کے دعوے کا نتیجہ کتب ستۃ وغیرہ کی تمام (غیر متواتر) احادیث کے موضوع ہونے کا تقاضا کرتا ہے جو کہ مشترک راویوں سے مروی ہونے کی وجہ سے پروفیسرشاخت کے وضع کردہ صحیح حدیث کے اصول پر پوری نہیں اترتیں۔ حقیقت میں محدثین کے ہاں مستعمل فرد کی اصطلاحات میں سے صرف فرد مطلق پروفیسر شاخت کے بیان کردہ مشترک تعلق کے معنی میں استعمال ہوتی ہے۔
تفرد کی اصطلاح جسے پروفیسر شاخت نے Common Link کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ پیچیدہ ترین مصطلحات حدیث میں سے ہے۔ پروفیسر شاخت نے Common Link کا نظریہ قائم کرتے ہوئے فرد کی مختلف امتیازی اقسام کو ملا کر ایک ہی قسم کے طور پر پیش کیا ہے ۔ شاخت اپنے تفرد کے تصور میں فرد مطلق ، فرد نسبی اور ان کی مزید مختلف اقسام کو ایک ہی قسم کے طور پر پیش کرتے ہیں۔نیز وہ غلط طور پر یہ بھی باورکرواتے ہیں کہ فرد کی تمام اقسام محدثین کے ہاں برابر مستند سمجھی جاتی ہیں۔
محدثین کے ہاں مستعمل اصطلاح ’’تفرد‘‘بہت وسیع مفہوم کی حامل ہے جس میں فرد، غریب ، منکر، مدرج، زیادۃ الثقہ اور شاذ وغیرہ شامل ہیں ۔ جیساکہ دکتورعبدالجوادحمام لکھتے ہیں:
’’إذا التفرد لیس هو الحدیث الفرد فقط بل هو أعمل وأشمل والحدیث الفرد جزء في أجزاءه و أحد مکوناته فیهما عموم وخصوص مطلق‘‘[11]
فرد کی دو بنیادی اقسام ہیں۔ پہلی قسم میں صحابی منفرد ہوتاہے۔ اگر صحابی منفرد ہو اسے تو شاخت Common Link میں شمار نہیں کرتے۔[12]
فرد کی دوسری قسم میں صحابی کے بعد کوئی راوی منفرد ہوتا ہے۔ اس کی مزید دواقسام ہیں۔
پہلی قسم میں وہ حدیث ہے جس کے مخالف حدیث ہو سکتی ہے۔[13]یہ قسم مزید دو شاخوں میں منقسم ہے۔[14]
(الف) شاذ: اگر کوئی راوی اپنے ہم مرتبہ یااپنے سے ثقہ تین راویوں کی مخالفت میں روایت کرے تو اس کی روایت شاذ کہلائے گی۔ [15]
یہ ضعیف ہے اور ناقابل قبول ہے۔[16] اگر مخالف اسناد برابرہوں تو حدیث مضطرب ہوگی۔[17] یہ بھی ضعیف کی ہی ایک قسم ہے۔
(ب)منکر: جس راوی سے بکثرت غلطی یا نسیان سرزد ہو اس راوی کی حدیث کو منکر کہتے ہیں۔
دوسری قسم وہ حدیث ہے جس کے مخالف حدیث نہ ہو ۔ اس کی مزید دو اقسام ہیں۔
الف۔ فرد مطلقب۔ فرد نسبی[18]
(الف)فرد مطلق: جس کا راوی منفرد ہو اور متابع یا شاہد نہ ہو[19]۔یہ ضعیف ہوتی ہے۔
(ب)فرد نسبی: محدثین نے اسے تین اقسام میں تقسیم کیا ہے۔
۱۔ جسے کسی خاص شہر یا علاقے کے راویوں نے بیان کیا ہو۔[20]
۲۔ کسی امام سے اس کے صرف ایک شاگرد نے روایت کی ہو۔[21]
۳۔ کسی خاص علاقے یا شہر سے دوسرے علاقے والے روایت کریں۔[22]
ان تینوں اقسام کی احادیث صحیح ہو سکتی ہیں۔ اس کی مزید وضاحت مندرجہ ذیل خاکہ کی مدد سے کی گئی ہے۔
کتب حدیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مشترک راوی کی وجہ سے ضعیف قرار پانے والی روایات کو محدثین نے فرد مطلق کی اصطلاح کے تحت ناقابل قبول قرار دیا ہے تاہم ایسی روایات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ شاخت کے دعویٰ کے مطابق ہر غیر متواتر حدیث ایسی نہیں ہے جیسا کہ امام ذہبی نے وضاحت کی ہے کہ مشہور راویان کے ہاں ان کی تعداد اتنی کم ہے کہ اگر کوئی امام دو لاکھ احادیث بیان کرے تو ان میں سے فقط دو یا تین اسناد اس طرح کی ہوں گی۔[23]
پروفیسر شاخت کے تضادات
پروفیسر شاخت کی کتب میں ایک خامی یہ ہے کہ ان کی مکمل توجہ ذخیرہ حدیث کو موضوع ثابت کرنے پر مرکوز ہے۔ اس انہماک میں وہ اکثر متضاد باتیں کر جاتے ہیں، جن میں تطبیق ممکن نہیں ہوتی بلکہ بسا اوقات ان کی ایک بات دوسری کی تردید کر رہی ہوتی ہے۔ ذیل میں اس کی چند امثلہ دی جا رہی ہیں۔
پروفیسر شاخت کا دعویٰ ہے کہ فقہاء نے شروع میں حدیث کی شدید مخالفت کی کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ حدیث ان کی فقہ پر زیادہ اثر انداز نہ ہوسکے[24]نیز ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ امام شافعی سے دو نسلیں پہلے صحابہ اور تابعین کے زمانے میں شاذ و نادر ہی احادیث نبوی کی موجودگی کا کوئی اشارہ ملتا ہے۔ [25]
جبکہ اس کے برعکس ایک دوسری جگہ پر وہ موضوع حدیث کی پہچان کے لیے یہ اصول بھی مقرر کرتے ہیں کہ اگر کسی زمانے میں فقہاء کی بحوث میں کسی حدیث کا ذکر نہیں ملتا تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ حدیث اس سے بعد والے زمانے میں وضع کی گئی ہے۔[26]
اب اگر پروفیسر شاخت کے دعوی کے مطابق فقہاء نے شروع میں احادیث نبوی کی مخالفت کی تھی تو وہ اپنی بحثوں میں احادیث کا حوالہ کیوں کر دینے لگے اور اگر فقہاء اپنی گفتگو اور مکالموں میں احادیث کے حوالے دیتے تھے تو پھر ان کی جانب سے احادیث کی مخالفت والے دعوے میں کیا صداقت رہ جاتی ہے۔ یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کی ضد ہیں جو بیک وقت تسلیم نہیں کی جاسکتیں۔
پروفیسر شاخت کا ایک نکتہ یہ ہے کہ فقہاء اور محدثین کے درمیان حدیث کے معاملے میں شدید مقابلہ ہوا۔ محدثین چاہتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول احادیث کو فقہ اور اصول فقہ پر غالب رہنا چاہیے جبکہ فقہاء احادیث کے مقابلے میں آثار کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ اس مقدمے کے ثبوت میں انھوں نے مؤطا امام مالک و محمد اور آثار ابی یوسف و محمد کے تقابل سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ فقہاء نے اس جنگ میں فتح حاصل کرنے کے لیے اپنی کتب میں بتدریج احادیث کا بیان کم اور آثار پر توجہ زیادہ کرنا شروع کردی[27]۔دوسری طرف وہ یہ مفروضہ بھی پیش کر جاتے ہیں کہ فقہاء پر محدثین کا غلبہ بڑھتا گیا اور بالآخر محدثین اس کشمکش میں فقہاء پر غالب آگئے۔
ڈاکٹر شاخت امام شافعی پر علمی غیر دیانت داری اور سوء فہم کا الزام عائد کرتے ہیں[28]۔ جبکہ امام شافعی کے اپنے مخالف فقہاء پر حدیث کو ترک کرنے کے الزام کو اتنی پذیرائی بخشتے ہیں کہ دوسرے فقہاء کا خود اپنے بارے میں یہ قول قبول نہیں کرتے جو وہ کہتے ہیں کہ ہم حدیث پر عمل پیرا ہیں اور تمام اقوال و آثار پر حدیث نبوی کی ترجیح کے قائل ہیں[29]۔امام مالک نے اپنی مؤطا میں یہ حدیث نقل کی ہے:
"ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما تمسکتم بهما کتاب الله وسنة نبیه[30]
’’میں نے تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑی ہیں جب تک ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے ہرگز گمراہ نہ ہوگے اللہ کی کتاب اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔‘‘
لیکن ڈاکٹر شاخت امام مالک پر پھر بھی یقین نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ فقہی مسائل میں فقہائے مدینہ حدیث کو نہیں مانتے تھے اور اگر کچھ فقہائے مدینہ کا حدیث پر عمل ثابت بھی ہے تو وہ امام شافعی کے زمانے کے لوگ نہیں ہیں۔[31]
پروفیسر شاخت کہتے ہیں کہ امام شعبی (م ۱۱۰ھ) کی زندگی میں اسلامی فقہ موجود نہیں تھی[32]۔قدیم فقہی مکاتب فکر کی ابتداء اس کے بعد ہوئی پھر یہ مکاتب فکر اپنے خیالات اور نقطہ ہائے نظر کو متقدمین سے منسوب کرنے لگے پہلے پہل ان کی نسبت مشہور آئمہ کی طرف کی جاتی تھی جو بتدریج ترقی کرتے کرتے تابعین اور صحابہ سے ہوتی ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک جا پہنچی اس کے رد عمل میں محدثین نے احادیث وضع کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کرنا شروع کردیں۔ فقہاء کے پاس اس کا کوئی توڑ موجود نہیں تھا نتیجہ یہ ہوا کہ فقہاء کو شکست ہوئی اور احادیث کی بالادستی قائم ہوگئی۔
شاخت کی بیان کردہ تاریخی معلومات کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ صرف تیس سال کے قلیل عرصہ میں مندرجہ بالا تمام انقلابات رونما ہوئے۔ بھلا یہ ممکن ہے کہ اتنے مختصر وقت میں اتنی بڑی بڑی بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئی ہوں اور کسی کو ان کی مخالفت یا تنقید کی ہمت نہ ہو پائی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے متضاد دعوے پروفیسر شاخت اور ان جیسے مستشرقین کے ذہن میں تو اتنی جلدی پیدا ہوسکتے ہیں۔ حقیقت میں ایسی بنیادی تبدیلیاں صدیوں میں ہی رونما ہوسکتی ہیں۔
پروفیسر شاخت کا یہ بھی کہنا ہے کہ حماد بن ابی سلیمان پہلے عراقی فقیہہ ہیں جنہوں نے فقہ کی تعلیم کے لیے حلقہ درس قائم کیا [33]گویا یہ فقہ کا ابتدائی دور تھا واضح رہے کہ شاخت کے بقول امام شعبی (م ۱۱۰ھ) سے قبل اسلامی فقہ کا وجود ہی نہیں تھا۔ لیکن دوسری طرف وہ امام حماد پر یہ الزام بھی عائد کرتے ہیں کہ وہ اسی زمانے کی معروف ایسی روایات بھی صحابہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے تھے جو ان کی ذاتی آراء اور ان کے مکتب فکر کے نقطۂ نظر کے خلاف تھیں کیونکہ فقہاء پر محدثین کا دباؤ تھا۔ [34]
لیکن یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ حماد جن کی وفات ۱۲۰ھ ہے۔[35] اور وہ فقہی مکاتب فکر کے بانیوں میں سے ہیں ان کے دور میں ہی اتنے قلیل عرصہ (تقریباً ۱۰سال) میں فقہاء پر محدثین کا شدید دباؤ کیسے ہوگیا۔ اتنے مختصر وقت میں تو فقہی مکاتب فکر وجود میں نہیں آسکتے دوسری بات یہ بھی ہے کہ اگر وہ احادیث حماد اور ان کے فقہی مکتب فکر کے خلاف تھیں تو انہیں کیا ضرور ت تھی کہ وہ ایسی احادیث روایت کرکے اپنی پوزیشن کمزور کرتے۔
غیر متعلقہ ماخذ کا استعمال:
پروفیسر شاخت کی تحقیقات کے غلط نتائج کی ایک اہم وجہ ماخذ کے انتخاب کی غلطی ہے۔ یہ سادہ سی بات ہے کہ اگر ہم کسی مذہب کے عقائد کے متعلق صحیح معلومات حاصل کرنا چاہتے ہوں لیکن مطالعہ ہم ان کے ناولوں یا شاعری کی کتب کا کریں تو یقینا نتائج تحقیق سو فیصد درست برآمد نہیں ہوں گے۔ اس کے لیے ہمیں عقیدہ کے موضوع سے متعلق کتب کا انتخاب کرنا ہوگا۔ پروفیسر شاخت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ حدیث پر بحث کرنے کے لیے فقہ کی کتب سے مثالیں پیش کرتے ہیں۔
پروفیسر شاخت کی ماخذ کے حوالے سے ایک غلطی یہ ہے کہ وہ پیش نظر مقصد کی ضرورت کے مطابق ماخذ پر اعتبار نہیں کرتے وہ کتب فقہ سے احادیث بطور مثال پیش کرتے ہیں جہاں عموماً مکمل احادیث کی بجائے ان کا متعلقہ حصہ ذکر کیا جاتا ہے بلکہ بسا اوقات صرف اشارہ کردیا جاتا ہے کیونکہ فقہاء کا اصل مقصد مکمل متن اور سند کے ساتھ احادیث کو محفوظ کرنا نہیں تھا اور وہ جانتے تھے کہ یہ کام محدثین کا ہے اور انھوں نے اپنی کتب میں اس کا التزام کیا ہے۔ Coulson نے شاخت کے اس نقص پر برملا تنقید کی ہے[36]شاخت نے امام شافعی پر حد سے زیادہ انحصار کیا ہے۔انہوں نے دراصل دوسری صدی ہجری میں حدیث کے ارتقاء کو امام شافعی کی نظر سے دیکھا ہے۔ ان کی کتاب ’’ The Origins of Muhammadan Jurisprudence‘‘ کو اصل میں فقہ اسلامی کی بجائے امام شافعی کا تنقیدی جائزہ کہنا چاہیے۔
کسی موضوع پر تحقیق کرتے وقت مخصوص ماخذ پر مکمل انحصار بہت سے مسائل کا سبب بنتا ہے بطور خاص اس وقت جب اسی موضوع پر اور بہت سے ماخذ بھی بنیادی حیثیت رکھتے ہوں۔ Schoeler تو شاخت کی اس تنگ نظری کی بناء پر مطالبہ کرتے ہیں کہ فقہ اسلامی سے متعلق پروفیسر شاخت کے دعویٰ کی توثیق کے لیے اس کا دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
"Since many new sources with Musa material have come to light and have been made accessible in recent years, and since recent research has strongly challenged or even wholly refuted schacht's theories the time seems to be ripe for a renewed examination of the muntakhab."[37]
’’جب سے موسیٰ کے کام کے ساتھ کئی نئے ماخذ منصۂ شہود پر آئے ہیں اور حالیہ برسوں میں قابل رسائی ہوچکے ہیں اور حالیہ تحقیق شاخت کے نظریات کو زبردست چیلنج یا حتی کہ مکمل طور پر رد کرچکی۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وہ وقت آچکا کہ منتخب (عبد بن حمید کی کتاب) کا دوبارہ سے جائزہ لیا جائے۔‘‘
ماخذ کے انتخاب میں پروفیسر شاخت کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ کسی گروہ یا طبقے کا نقطۂ نظر بیان کرنے کے لیے ان کی کتب کی طرف رجوع کرنے کی بجائے ان کے متشدد مخالفین کی کتب میں مذکور ان سے متعلق موقف کو مانتے ہیں۔ حالانکہ اصولاً اگر کوئی آدمی اپنے متعلق بات کہتا ہے تو اس کی بات کو تسلیم کیا جانا چاہیے نہ کہ اس کے متعلق اس کے مخالفین کی رائے کو! ہاں البتہ اس کے قول کی تصدیق کی غرض سے قول و فعل کا موازنہ کیا جاسکتا ہے۔ تمام فقہاء کے اقوال موجود ہیں کہ وہ احادیث کو اپنی آراء پر ترجیح دیتے تھے لیکن شاخت مثلاً امام ابو حنیفہ کے متعلق امام شافعی کا موقف پیش کرتے ہیں کہ وہ حدیث کی چنداں اہمیت کے قائل نہ تھے۔ پروفیسر شاخت معتزلہ کو حدیث کے شدید مخالفین میں شمار کرتے ہیں حالانکہ خود معتزلہ کے کبار علماء نے حدیث کی اہمیت کا اقرار کیا ہے۔ ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی شاخت کے اس رویے پر یوں تبصرہ کرتے ہیں:
’’حقیقت یہ ہے کہ شاخت نے خود قدیم معتزلہ کا براہِ راست مطالعہ نہیں کیا ہے بلکہ ان کے اس موقف کی بنیاد ابن قتیبہ متوفی۲۷۶ھ کی چند باتوں پر ہے۔ ابن قتیبہ کی معتزلہ دشمنی مشہور ہے، ان کی بعض باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ اہل کلام معتزلہ ایسے تھے جو حدیث کی اہمیت کے چنداں قائل نہیں تھے، ابن قیتبہ کی اگر یہ رائے درست تسلیم کرلی جائے تو بھی شاخت کے رویہ کے بارے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ کون سی منطق ہے اور یہ کیسا طریقہ استدلال ہے۔‘‘[38]
پروفیسر شاخت اپنی مرضی سے ماخذ اور دلائل کا انتخاب کرتے ہیں کسی اصول کی ان کے ہاں کوئی اہمیت نہیں ہے بلکہ بسا اوقات وہ ایک ہی کتاب کی ایک بات کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں جبکہ دوسری بات کو ٹھکرا دیتے ہیں اس کی مثال ان کا یہ دعویٰ ہے کہ دوسری صدی ہجری کے نصف اول میں آزاد کردہ غلام کی خرید و فروخت معمول تھا اور اسے درست سمجھا جاتا تھا [39]پروفیسر شاخت اس کی بنیاد پر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایسی تمام روایات جن میں مولیٰ کی فروخت سے منع کیا گیا ہے موضوع ہیں۔ ان کے اس پورے قضیے کی بنیاد ابن سعد کی بیان کردہ ایک بات پر ہے جو ابو مسہر کے آزاد کردہ غلام کی فروخت سے متعلق ہے۔ اگرچہ ابن سعد نے اس کا کوئی حوالہ نہیں دیا تاہم شاخت اسے قابل دلیل شہادت سمجھتے ہیں اور اس منفرد واقعہ کو معاشرے کے اجتماعی عمل سے موسوم کرتے ہیں لیکن جب یہی ابن سعد بریرہ کے واقعے سے متعلق آٹھ روایات تفصیل کے ساتھ باحوالہ جات نقل کرتے ہیں۔[40] تو شاخت ان کو موضوع کہہ کر ماننے سے انکار کردیتے ہیں۔[41]
پروفیسر شاخت کے اس کمزور پہلو کو عتر نے "منهج النقدفی الحدیث"[42]میں اور الزہرانی نے"موافق اهل الاهواء"[43]میں ذکر کیا ہے۔ دکتور محمد بہاالدین نے بھی "المستشرقون والحدیث" میں یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ پروفیسر شاخت کے غلط نتائج کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ درست ماخذ کو نظر انداز کرکے غیر متعلقہ اور غلط ماخذ سے دلائل لیتے ہیں[44]جیسا کہ وہ اسناد حدیث پر بحث کرتے ہوئے بخاری و مسلم کی بجائے موطا اور الرسالۃ سے مثالیں پیش کرتے ہیں جو بنیادی طور پر فقہ کی کتب ہیں یا کم از کم خالص کتب حدیث نہیں ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر شاخت کی بحوث میں قرآن مجید کو (جو شریعت اسلامی کا مصدر اول ہے) شاذ و نادر ہی درخور اعتناء سمجھا گیا ہے۔ ایسی صورت میں صحیح نتائج کی توقع کیونکر کی جاسکتی ہے۔
غیرسائنسی اور غیر منطقی طرز استدلال:
پروفیسر جوزف شاخت کے غلط نتائج تحقیق کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ غلط مفروضہ قائم کرلیتے ہیں پھر عبارات سے ایسے مفاہیم اخذ کرتے ہیں جس کا اصل عبارت میں شائبہ تک نہیں ہوتا۔ یوں لگتا ہے کہ ان پر ایک ہی دھن سوار ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے تمام احادیث کو غلط اور موضوع ثابت کیا جائے خواہ اس کے لیے جو بھی ہتھکنڈا استعمال کیا جائے۔ ذیل میں اس کی چند ایک امثلہ مذکور ہے۔
پروفیسر شاخت کا کہنا ہے کہ معاشرے میں جو کام معمول بہ بن جاتا تھا بعد میں اس عمل کی تائید میں احادیث وضع کرلی جاتی تھیں۔ یہ اصول انھوں نے ابن قاسم کی ایک عبارت سے اخذ کیا ہے جو پروفیسر شاخت کے مطابق یوں ہے:
This tradition has come down to us, and if it were accompanied by a practice passed to those from whom we have taken it over by their own predecessors, it would be right to follow it. But in fact it is like those other traditions which are not accompanied by practice. Here Ibn Qasim gives examples of tradition from the Prophet and from Companions. But these things could not assert themselves and take root (Lam tashtadd wa-lam taqwa), the practice was different, and the whole community and the Companions themselves acted on other rules. So the traditions remained neither discredited (in Principle) nor adopted in practice (ghair mukadhdhab bih wa-la ma'mul bih), and actions were ruled by other traditions which were accompanied by practice.[45]
’’یہ حدیث ہم تک پہنچی ہے اور اگر اس کے ساتھ عمل بھی ہوتا (یعنی) جن سے ہم نے یہ حدیث سنی اور انھوں نے جہاں سے اسے اخذ کیا ان سب کا عمل بھی اس کے مطابق ہوتا تو اس کی پیروی کرنا حق تھا۔ لیکن درحقیقت یہ دوسری ان احادیث کی طرح ہے جن کے ساتھ عمل موجود نہیں ہے (یہاں ابن قاسم نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے روایات بطور مثال پیش کرتے ہیں) لیکن یہ اپنے آپ کو منوا نہیں سکیں (لم تشد ولم تقوی) عمل اس سے مختلف ہے اور تمام لوگوں اور صحابہ کرام کا عمل دوسری حدیث کے مطابق ہے تو حدیث کی نہ تو تکذیب کی جائے گی اور نہ اس پر عمل کیا جائے گا (غیر مکذب به ولا معمول به) اور عمل دوسری حدیث پر کیا جائے گا جس کے ساتھ عمل بھی موجود ہے۔‘‘
مندرجہ بالا عبارت سے ابن قاسم کا یہ موقف سامنے آتا ہے کہ اگر ایسی دو احادیث میں تعارض ہو جائے کہ ایک صحابہ کرام اور بعد کے ادوار میں معمول بہ ہو جب کہ دوسری غیر معمول بہ ہو تو اس پر عمل کیا جائے گا جس پر صحابہ اور بعد کے لوگوں کا عمل ہے لیکن پروفیسر شاخت کا زرخیز ذہن اس سے یہ ثابت کر رہا ہے کہ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ عمل پہلے سے موجود ہوتا تھا اور بعد میں اس کے مطابق احادیث وضع کی جاتی تھیں۔
وہ لکھتے ہیں:
"That the 'practice' existed first and traditions from the Prophet and from Companions appeared later, is clearly stated in Mud. iv. 28, where Ibn Qasim gives a theoretical justification of the medinese point of view." [46]
’’ عمل پہلے سے موجود ہوتا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے روایات بعد میں سامنے آ ئیں یہ بات مدونۃ ۴/۲۸ میں واضح طور پر بیان ہوئی ہے جہاں ابن قاسم اہل مدینہ کے نقطۂ نظر کا اصولی جواز پیش کرتے ہیں۔‘‘
پروفیسر شاخت نے کئی احادیث کے متعلق دعویٰ کیا ہے کہ وہ فلاں مشہور امام یا راوی کے بعد وضع کی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک کا عنوان یوں ہے:
Traditions originating between "Ibrahim Nakha'i" and Abu Hanif
A certain tradition from the Prophet is unknown to Ibrahim (Athar Shaib. 22), known to Abu Hanifa without isnad (Athar A.Y.251), and appears with a full isnad in Muw.i.275; Muw. Shaib. 122; Tr. II, 19 (g) and in the classical collections.[47]
ابراہیم نخعی اور ابوحنیفہ کے درمیان وضع حدیث:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک روایت جسے ابراہیم نہیں جانتے (آثار شیبانی ۲۲) ، ابو حنیفہ کو بغیر اسناد کے معلوم (آثار ابو یوسف ۲۵۱)، موطا جلد ۱ص ۲۷۵؛ موطا شیبانی ۱۲۲، کتاب الام ج۷، ص۱۷۲ اور کتب ستۃ میں مکمل اسناد کے ساتھ موجود ہے۔
پہلی بات پروفیسر شاخت نے یہ کی ہے کہ اس روایت کا ابراہیم نخعی کو علم نہیں تھا حالانکہ ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے نہ تو کہیں ابراہیم نخعی نے خود اس بات کا اظہار کیا ہے کہ مجھے اس روایت کا علم نہیں ہے اور نہ ہی کسی ان کے شاگرد یا مخالف نے ان کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی ہے۔ پروفیسر شاخت کے اس موضوع الزام کی حقیقت(جسے وہ وضع حدیث ثابت کرنے کے لیے گھڑ رہے ہیں) صرف اتنی ہے کہ امام محمد نے یہ حدیث اپنی کتاب میں ابراہیم نخعی کے واسطے سے بیان نہیں کی لیکن کوئی بھی انصاف پسند آدمی اس وجہ سے یہ الزام کیسے عائد کرسکتا ہے؟ کیا امام محمد کے ابراہیم نخعی کے علاوہ دوسرے اساتذہ نہیں تھے؟ یا انھوں نے اپنے اوپر لازم ٹھہرایا تھا کہ ابراہیم نخعی کی روایت کردہ ہر حدیث کو اپنی کتاب میں ضرور درج کریں گے؟ مزید برآں کیا یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ پروفیسر شاخت کے عہد میں امام محمد کی تمام کتب موجود اور دستیاب ہیں اور وہ ان کا بغور مطالعہ بھی کرچکے ہیں؟
دوسرا دعویٰ شاخت کا یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ کو یہ روایت بغیر سند کے معلوم تھی اس کی حالت بھی ان کے پہلے دعوے سے مماثل ہے اور اس کی طرح ہی یہ بات بھی بلا دلیل ہے۔ امام ابوحنیفہ سے بغیر سند مروی ہونا یہ دلیل کیسے بن سکتا ہے کہ ان کو سند معلوم ہی نہ تھی حقیقت حال پہلے بھی بیان ہوچکی ہے کہ جن کتب سے پروفیسر شاخت دلائل پیش کر رہے ہیں وہ اس فن کی خالص کتب نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ امت ان کتب کو فن حدیث کی امہات الکتب کی بجائے کتب فقہ میں شمار کرتی ہے۔ جہاں تک حدیث کی بنیادی کتب کا تعلق ہے جن کے مولفین نے باسناد احادیث درج کرنے کا اہتمام کیا ہے تو پروفیسر شاخت بھی اسے تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ ان کتب (ستة) میں یہ حدیث مکمل سند کے ساتھ موجود ہے جو الحمد للہ اس کی صحت کا منہ بولتا ثبوت ہے لیکن اس کے باوجود پروفیسر شاخت غلط طور پر یہ تاثر پیدا کر رہے ہیں کہ حدیث بعد میں وضع کرکے اس کے ساتھ سند لگا دی گئی ہے۔
اس عبارت کی تیسری اہم اور قابل توجہ بات اس کا انتہائی غلط عنوان قائم کرنا ہے۔ فرض کیا شاخت اپنے غلط طرز تحقیق کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ ابراہیم نخعی کو اس حدیث کا علم نہیں تھا اور امام ابوحنیفہ کو حدیث کا علم تو تھا سند کا پتہ نہ تھا پھر بھی اس بنیاد پر اسے ’’وضع حدیث‘‘ کا عنوان دینا کون سا اصول اور کیسی تحقیق ہے کیا یہ ضروری ہے کہ کسی امام کو تمام احادیث اور ان کی اسناد کا علم ہو؟ کیا ایسا عملی طور پر ممکن ہے کہ ابراہیم نخعی کے علم سے باہر کوئی روایت نہیں ہوسکتی؟ اور جو وہ جانتے ہیں اسے اپنے ہر شاگرد کو ضرور بیان کریں گے؟ اور جو وہ بیان کریں گے اسے شاگرد لازمی طور پر انہی کے واسطے سے ہی آگے روایت کرے گا؟
حالانکہ یہی حدیث موطا امام مالک میں مکمل اسناد کے ساتھ موجود ہے جو ابو یوسف اور شیبانی سے بالترتیب بیس اور پینتالیس سال بڑے ہیں۔ دوسری طرف شاخت کا ایک اصول یہ ہے کہ جب وہ کسی حدیث کو سب سے قدیم ماخذ میں دیکھتے ہیں تو اس سے اس کے وضع کا زمانہ متعین کرتے ہیں کہ اس سے پہلے یا اس دور میں وضع کی گئی ہے لیکن یہاں وہ اپنے اس اصول کو خود ہی پس پشت ڈال دیتے ہیں۔
’’امام مالک (م ۱۷۹ھ) نے اپنی کتاب میں حضرت انس بن مالک (۱۳۴ھ) سے روایت کرتے ہوئے اس حدیث کو نقل کیاہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابو یوسف سے بہت پہلے یہ حدیث انس بن مالک، اسحق بن عبداللہ اور جابر بن زید کے نزدیک معروف و مشہور تھی کیوں کہ اس روایت کو ربیع بن حبیب بصری نے اپنی مسند ص ۵۴ میں نقل کیا ہے اور یہ ربیع بصری حضرت انس بن مالک سے بھی قدیم ہیں، جب ان ساری تاریخی شہادتوں سے صرف نظر کرکے اور اپنے ہی اصولوں کو پامال کرنے کے بعد شاخت محض دروغ کا سہارا لیتے ہیں تو پھر اس کے سوا اور کیا باقی رہ جاتا ہے کہ وہ یہ کہیں کہ ’’ حق صرف یہی ہے کیوں کہ میں ایسا ہی کہتا ہوں اور میرا کہنا ہی دلیل ہے‘‘ ہم سمجھتے ہیں کہ شاخت کی تحقیق اور ان کے طرز تحقیق کی نوعیت اب ہمارے سامنے آچکی ہے۔[48]
مخصوص اور استثنائی واقعات سے عمومی قواعد کا استنباط:
پروفیسر شاخت کے غلط نتائج کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی مخصوص واقعہ کو دیکھ کر اس سے اصول اخذ کرتے ہیں اور اسے وسیع تناظر میں لاگو کر کے عجیب و غریب نتائج اخذ کرتے ہیں۔یہ دیکھنے کی بھی زحمت نہیں کرتے کہ یہ بہت سے دوسرے حقائق کی رو سے بالکل غلط ہے۔ مثلاََ پروفیسر شاخت نے فقہی احادیث پر بحث کی ہے۔ جیسا کہ ان کی کتاب کے نام(Muhammadan Jurisprudence The Origins of )سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔جبکہ نتائج کو تمام احادیث پر پھیلا دیا ہے۔ حالانکہ ان کی اس کتاب کو اصل میں فقہی احادیث کی بجائے بھی امام شافعی کے نقطء نظر کا تنقیدی جائزہ کہنا زیادہ موزوں ہو گا۔ اس کی ایک مثال پروفیسر شاخت کا یہ دعویٰ ہے کہ کسی بھی بات کا مختصر بیان عام طور پر پرانا اور طویل بعد کا ہوتا ہے۔ان کے اس اصول کی بنیاد اصل میں ان کا یہ مفروضہ ہے کہ احادیث کے متون اور اسناد جب تک مدون نہیں ہو گئے بتدریج ان کو بہتر بنایا جاتا رہا ہے۔ Harald Motzkiنے بھی پروفیسر شاخت کے اس طرز تحقیق پر تنقید کی ہے۔[49]وہ ابن ابی الحقیق کے واقعہ پر تفصیلی بحث کے بعد لکھتے ہیں:
"This leaves us with the thorny question as to which of the two versions is more original, the longer one preserved by Al Waqidi or Al Zuhri's shorter one? As said above following the ideas of J. Schacht there is a tendency in Western Hadith Scholarship to regard the shorter traditions as being the older ones. In my view there is no plausibble reason why such a generalization should be accepted. Detailed narratives may be as old as shorter ones and after the later one obviously abbreviations of the former."[50]
’’یہ ہمیں ایک چبھتے ہوئے سوال کی نظر کردیتا ہے کہ دونوں میں سے کس کی روایت زیادہ اصلی ہے، الواقدی کی بیان کردہ لمبی روایت یا الزہری کی مختصر،جیسا کہ اوپر شاخت کے خیالات کے تحت مذکور ہے یہ رجحان مغربی فاضلین حدیث کے ہاں پایا جاتا ہے کہ وہ مختصر روایات کو قدیم خیال کرتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ قابل صفت بات نہیں جس وجہ سے اس عمومی اصول کو قبول کیا جائے ۔تفصیلی روایات بھی اتنی ہی قدیم ہو سکتی ہیں جتنی کہ مختصر اور ممکن ہے کہ آخرالذکر اول الذکر کا ہی اختصار ہوں۔
نتائج
یہ اور اس طرح کی کئی مزید چھوٹی بڑی غلطیوں کا منطقی نتیجہ ہے کہ پروفیسر شاخت اپنے دیگر ہم نواوؤں کی طرح اپنی تحقیقات میں حقیقت تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں۔مستشرقین کے محدثین کی تحقیقات سے اختلاف کی بنیادی وجہ ایسی ہی تکنیکی غلطیاں ہیں جن کی بنیاد پروہ محدثین کے معیار کے مطابق صحیح قرار پانے والے تمام یا زیادہ تر ذخیرہ حدیث کی تضعیف کے دعویدار ہیں۔ مسلم اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی ایسی اغلاط کی نشاندہی کریں جو تھوڑی سی محنت سے ان کی کتب میں بکثرت تلاش کی جا سکتی ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری کوتاہی کی وجہ سے آئندہ نسلیں ان کے غلط نتائج فکر کو تحقیق سمجھ کر قبول کر لیں۔ نیز جب تک ان کو اس بنیادی حقیقت سے روشناس نہیں کروا دیا جاتا تب تک وہ اپنی غلط تحقیقات پر بھروسہ کرتے ہوئے حدیث کی استنادی حیثیت کو سمجھنے میں ناکام رہیں گے۔
حوالہ جات
- ↑ حواشی و مصادر الشوکانی، محمد بن علی، ارشاد الفحول، دارالکتب الحلبی، القاھرۃ، ص۳۳؛ ابو زھو، محمد ، الدکتور، الحدیث والمحدثون، طبع اولیٰ، ۱۳۷۸ھ/۱۹۵۸ء، القاھرۃ،۱۰؛ ابن تیمیہ، تقی الدین، مجموع فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ، جمع ابن قاسم، الریاض،۱۰/۱۸
- ↑ Schacht , Joseph, An Introduction to Islamic Law,Oxford,University Press, 196., P17
- ↑ An Introduction to Islamic Law, P33
- ↑ An Introduction to Islamic Law, P47
- ↑ احمد بن حنبل، امام، مسند احمد بن حنبل، موسسۃ الرسالۃ، بیروت، الطبعۃ الثانیۃ، ۱۴۲۹ھ/۲۰۰۸ء،۸/۶۱،ح:،۵۷۰
- ↑ المرصفی، دکتور سعد، المستشرقون والسنۃ، موسسۃ الریان، بیروت، لبنان، ص۳۳
- ↑ Guillaume, Alfred, Joseph Schacht ; The Origins of Muhammadan Jurisprudence, Bulletin of the School of oriental and African Studies 16, No1(1954) : 176-77.
- ↑ المستشرقون والسنۃ،ص۳۳
- ↑ Aazmi, Muhammad Mustafa,On Schacht's Origins Of Muhammadan Jurisprudence,Sohail academy Lahore,2004, P36
- ↑ An Introduction to Islamic Law, P47
- ↑ حمام،عبدالجواد،دکتور،التفرد فی روایۃالحدیث و منھج المحدثین فی قبولہ او ردہ،دارالنوادر، ۲۰۰۸، ص۲۱۶
- ↑ یہ بات شاخت نے چوتھے مقدمے میں بیان کی ہے۔
- ↑ العراقی، عبدالرحیم، التقیید والایضاح،دارالفکر ، بیروت،۱۹۸۱ء ،ص۱۰۴
- ↑ العراقی ، عبدالرحیم، فتح المغیث ،مجموعہ الکتب الثقافیۃ، بیروت،۱۹۹۵ء،ص۹۶
- ↑ الحاکم، ابو عبداللہ ، معرفۃ علوم الحدیث ،المکتبۃ التجاری، بیروت،۱۹۷۷ء،ص۱۱۹
- ↑ ابن حجر،عسقلانی، تہذیب التہذیب،مجلس دائرۃ المعارف العثمانیہ، حیدرآباد،۱۹۰۷ء،۲۳۵/۱
- ↑ ابن رجب، عبدالرحمن، شرح علل الترمذی ،احیاء التراث ، بغداد،۱۹۷۶ء
- ↑ العراقی، التقیید والایضاح ،ص۱۱۵
- ↑ ، یحییٰ بن شرف،محی الدین، التقریب والتیسیر لمعرفۃ سنن البشیر النذیر، دارالجنان، بیروت،۱۹۸۶ء ص۳۴
- ↑ معرفۃ علوم الحدیث ،ص۹۶
- ↑ معرفۃ علوم الحدیث ،ص۱۰۰
- ↑ معرفۃ علوم الحدیث ،ص۱۰۰
- ↑ الذہبی ، محمد بن احمد، الموقذۃ ، مکتب المطبوعات الاسلامیۃ، حلب، ۱۹۸۵، ص۷۷۔
- ↑ Schacht,Joseph,The Origins of Muhammadan Jurisprudence,p57,Oxford University press,London.
- ↑ The OriginsOf Muhammadan Jurisprudence, P3
- ↑ The OriginsOf Muhammadan Jurisprudence, P140
- ↑ The OriginsOf Muhammadan Jurisprudence, P,22
- ↑ The OriginsOf Muhammadan Jurisprudence, P321,322
- ↑ الشیبانی ، محمد ، امام ،الحجۃ علی اھل المدینۃ،حیدر آباد،۱۳۸ھ/۱۹۶۵ء ۱/۴۵
- ↑ مالک ،امام ،موطا امام مالک ، تحقیق: محمد فواد عبد الباقی ، قاھرۃ۱۳۷۰ ھ، کتاب الجامع، باب النھی عن القول فی القدر، ص۳۶۳
- ↑ The OriginsOf Muhammadan Jurisprudence P12
- ↑ The OriginsOf Muhammadan Jurisprudence, P230
- ↑ The OriginsOf Muhammadan Jurisprudence, P238
- ↑ The OriginsOf Muhammadan Jurisprudence, P239
- ↑ ابن سعد، طبقات الکبری ، داراحیاء التراث العربی ، بیروت ، ۱۹۹۶ء،۶/۲۳۲
- ↑ Coulson, Noel,j, European Criticism of Hadith literature, A.F.L. Beeston, Arabic literature to the end of the Umayyad period, Cambridge University press, 1983, 318
- ↑ Schoeler, George, Musa B.Uqbah Maghazi, in the Biography of Muhammad, Islamic History and Civilization, Studies and Texts, V32 Boston: Brill, 2000,90
- ↑ عبدالرحمن، صلاح الدین، سید (مرتبہ)، اسلام اور مستشرقین، دار المصنفین، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ، یو-پی، ہند، ۲۰۱۱ء ،۶/۱۰۹
- ↑ The OriginsOf Muhammadan Jurisprudence P,173
- ↑ طبقات ابن سعد، ۸/۱۸۷، ۱۸۸
- ↑ The OriginsOf Muhammadan Jurisprudence P174
- ↑ عتر،نورالدین،منھج النقد فی علوم الحدیث،دارالفکر،الطبعۃ الثالثۃ،۱۴۰۱ھ/۱۹۸۱ء، ص ۴۶۶
- ↑ الزہرانی، محمود، موافق اھل الاھواء، مکتبۃ الصدیق ، طائف، ۱۹۹۱، ص۴۹
- ↑ المستشرقون والحدیث، ص ۱۰۲
- ↑ The OriginsOf Muhammadan Jurisprudence, P,63
- ↑ The OriginsOf Muhammadan Jurisprudence, P,63
- ↑ The OriginsOf Muhammadan Jurisprudence, P141
- ↑ اسلام اور مستشرقین ،۶/۱۲۷،۱۲۸
- ↑ Motzki Harald, The Murder of Ibn-Abi-Al-Huqayq,P.188
- ↑ The Murder of Ibn-Abi-Al-Huqayq,220
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 2 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 1 | 2017 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |