3
2
2018
1682060030498_771
1-24
https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/download/300/129
https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/view/300
Ṣaḥiḥ Bukhari Ḥadtih Khyber Pakhtunkhwa Treatise Ṣaḥiḥ Bukhari Ḥadtih Khyber Pakhtunkhwa treatise
موضوع تحقیق کا تعارف
برصغیر میں علم حدیث کی ابتداء باب الاسلام (سندھ) سے ہوئی۔ سندھ سے یہ سلسلہ لاہور اور ملتان کے راستے دہلی پہنچا۔ دہلی میں شاہ ولی اللہ کا سلسلہ شروع ہوا، جس نے برصغیر میں علم حدیث کی خدمات کو ایک منظم لڑی میں پرو دیا۔ سلسلسہ شاہ ولی اللہ جسے عام طور پر مؤرخین (ارباب حدیث) برصغیر میں علم حدیث کا موجد مانتے ہیں، دراصل علم حدیث کی سابق خدمات میں ایک انقلاب، نظم و انضباط اور استقلال پیدا کرتا ہے، کیونکہ اس سلسلے سے قبل برصغیر میں خدمات حدیث تشتت اور انتشار کا شکار تھیں اور برصغیر علم حدیث کے معاملہ میں خود کفیل نہ تھا، اہلیان برصغیر علم حدیث کے حصول کے لئے اسفار علمیہ کرتے ہوتے تھے0F[1]۔
تیرھویں صدی میں اس نظم و ضبط اور سلسلۃ الذھب کے نتیجہ میں ایک مزید انقلاب رونما ہوا کہ اس صدی میں برصغیر میں ایسی درسگاہوں کا قیام عمل میں آیا جن کی بناء پر ہند کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ عرب ممالک سے لوگ ہندوستان تعلیم حاصل کرنے کے لئے آنے لگے، اس سلسلہ کی ایک کڑی ضلع سہارن پور کے ایک قصبہ دیوبند میں "دارالعلوم دیوبند" کے نام سے 15 محرم 1283ھ مطابق 30 مئی 1867ء کو ظاہر ہوئی1F[2]۔
دارالعلوم دیوبند کے قیام کے چھ سال بعد 1872ء میں صوبہ یو پی میں بریلی کے مقام پر "مصباح التہذیب" کے نام سے ایک مدرسہ قائم ہوا، جو مصباح العلوم کے نام سے مشہور ہوا2F[3]۔
برصغیر میں بیدار ہونے والی اس علمی تحریک کو ہر آنکھ نے دیکھا اور ہر ذی حواس انسان نے محسوس کیا اور اس کا برملا اظہار کیا۔اسی تناظر میں خیبر پختونخوا بھی اہمیت کا حامل ہے جہاں علوم دینیہ اور خصوصاً علم حدیث پڑھنے کا رجحان برصغیر کے دوسرے خطوں سے زیادہ پایا جاتا ہے اور اب تک یہ رجحان برقرار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں کی جامعات میں علوم اسلامیہ کے شعبہ جات بھی اہل علم خدمت حدیث میں اپنی مقدور بھر کوشش کر رہے ہیں۔ علم حدیث کی طرف ایسے واضح رجحان کی وجہ سے یہاں تصنیفی لحاظ سے بھی حدیث کے میدان میں قابل قدر خدمات انجام دی گئیں اور بڑے بڑے مشائخ کی املائی تقریر یں اور شروحات حدیث منظر عام پر آئی ہیں۔ حدیث فہمی کے سلسلے میں حدیث کی دوسری اصناف کو بھی کسی حدتک توجہ دی گئی ہے۔
سابقہ تحقیق کام کا جائزہ
موضوع تحقیق پر پاکستانی جامعات میں باقاعدہ تحقیق نہیں ہوئی،البتہ جزوی طور پر چند ایک مقالات میں علمائے خیبر پختونخوا کا ذکر ملتا ہے جو تحقیقی اعتبار سے ناکافی ہے۔
جامعہ اسلامیہ بہاولپور میں" بر صغیر پاک و ہند میں محدثین کی خدمات" کے عنوان سے کام ہوا ہے،لیکن اس میں محدثین کے سوانح پر اکتفا کیا گیا ہے،تحقیقی و علمی کام کی تفصیل مذکور نہیں ہے۔اسی طرح ایک مقالہ "برصغیر پاک و ہند میں علم حدیث"کے متعلق ہےکہ کس طرح اور کن کن ذرائع سےیہ علم عرب سے برصغیر پاک و ہند میں پہنچا۔ایک مقالہ جامعہ پنجاب میں "ہندوستان میں علم حدیث" کے موضوع پر لکھا گیاہے۔ اسی طرح ایک مقالہ جامعہ پنجاب میں ڈاکٹر کرنل فیوض الرحمان نے "مشاہیر علماء سرحد" کے عنوان سے لکھا ہے۔ڈاکٹر محمد سعد صدیقی صاحب نے" علم حدیث اور پاکستان میں اس کی خدمت" کے عنوان سے ایک عمدہ کتاب مر تب کی ہے ،لیکن اس میں بھی خیبر پختونخوا میں کیے گیے کام کو ئی خاص توجہ نہیں دی گئی ہے
ان کے علاوہ محمد امیر شاہ قادری نے" تذکرہ علماء و مشائخ سرحد، بریگیڈئیر(ر) ڈاکٹر فیوض الرحمان نے مشاہیر علماء، محمد شفیع صابر نے" شخصیات سرحد" اور محمد قاسم نے "تذکرہ علمائے خیبر پختونخوا" کے موضوعات پر کتابیں تالیف فرمائی ہیں،لیکن یہ کتب ان علماء کی سوانح پر مشتمل ہیں، تحقیقی و علمی کام اور خصوصیت کے ساتھ علم حدیث اور شروح بخاری کی تفصیل ان کتب میں بھی مذکور نہیں ہے۔
افادیت
اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ خیبر پختونخوا میں شروح بخاری پرکام کرنے والے ان عظیم محسنوں کے احوال اور ان کے علمی کام پر کوئی تحقیقی کام منصۂ شہود پر آ جائے تاکہ خیبر پختونخوا میں حدیث فہمی کے کام کو اور بھی پذیرائی حاصل ہو اور دینی مدارس اور جامعات کی سطح پر ہونے والا کام نکھر کر یکجا ومنظم طور پر سامنے آجائے۔
اس مقالہ میں خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے شارحین بخاری کا تعارف اور ان کی شروح کا جائزہ لیا جائے گا ،اس مکمل جائزے سے اندازہ ہوگا کہ شروح بخاری میں علماء خیبر پختونخوا کی خدمات کا گرانقدر حصہ کس قدر موجود ہے۔
شرح غوثیہ شرح بخاری،مؤلف:سید شاہ محمد غوث پشاوری
آپ 1084ھ میں پیدا ہوئے۔ 18 برس کی عمر میں علوم مروجہ کی تمام کتب پڑھ لیں۔ اس کے بعد حدیث پڑھنے کے لئے لاہور چلے گئے اور میاں جان محمد کلاں سے حدیث پڑھی۔ فراغت کے بعد اپنے والد سید حسن قادری سے بیعت ہوئے اور قلیل عرصہ میں سلوک کی تکمیل پر خلیفہ مجاز بنے۔ 1120ھ میں خانقاہ قادریہ سید حسن میں تدریس شروع کی۔ 1131ھ میں بخاری کی شرح لکھی۔ 1148ھ میں لاہور چلے گئے۔ چار سال وہاں اقامت کے بعد 17 ربیع الاول 1152ھ کو وفات پا گئے۔
قادری، محمد امیر شاہ، تذکرہ علماء و مشائخ سرحد، مکتبۃ الحسن، یکہ توت پشاور، 1:74
Qadri, Muḥammad Ameer Shah, Taẓkira ‘Ulama’ Wa Masha’ikh e Sarḥad, (Peshawar: Maktaba tul Ḥasan, Yaka Tuwt,) 1:74
مترجم: محمد امیر شاہ قادری ۔آپ 9 جون 1919ء کو یکہ توت پشاور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم یکہ توت میں حاصل کی۔ آپ نے دینی علوم حافظ علی احمد جان، مولانا عبدالرحیم پوپلزئی، مولانا گل فقیر احمد، مولانا عبدالعلیم اور مولانا فضل الرحمن نقشبندی سے حاصل کیں۔ مولانا گل فقیر احمد گولڑوی سے سند حدیث حاصل کی۔ تصوف کے سلسلہ قادریہ میں اپنے والد کے خلیفہ مجاز تھے۔ آپ نے کئی سالوں تک یکہ توت پشاور میں تدریس کی۔ آپ 27 اکتوبر 2004ء کو وفات پا گئے۔
شاہ محمد غوث پشاوری نے فارسی زبان میں بخاری کی شرح تصنیف فرمائی جو ابتداء سے باب السجود علی الانف فی الطین تک کے مباحث کی تشریحات پر مشتمل ہے۔ اس وقت چونکہ فارسی رائج الوقت زبان تھی، اس لئے فارسی زبان میں بخاری کی شرح لکھنا وقت کی ضرورت تھی، لیکن اب جب کہ لوگ فارسی سے ناواقف ہیں اور خصوصاً پاکستان میں فارسی کتب کی طرف توجہ نہ رہی اور اس طرح سے اسلاف کی خدمات پر پردے پڑ رہے ہیں، اس لئے ان علوم کا رائج الوقت زبانوںمیں ترجمہ کر کےانہیں باقی رکھنا ضروری ہے تا کہ علمی تراث محفوظ رہ سکے۔ چنانچہ اس سلسلے میں محمد امیر شاہ قادری نے شاہ محمد غوث پشاوری کی فارسی شرح کا اردو میں ترجمہ کیا اور اس طرح اردو زبان میں ادب حدیث کے باب میں قابل قدر اضافہ کیا5F[4]۔
اس پر تعلیق و تحقیق کی ضرورت تھی جو پشاور یونیورسٹی کے ایک پی ایچ ڈی سکالر محمد سمیع اللہ نے "صحیح بخاری کی شرح غوثیہ کا مطالعہ( تسوید، تحقیق اور توثیق)" کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھ کر پوری کر دی ہے ۔
عین الجاری شرح صحیح البخاری (عربی)،افادات: شیخ الحدیث مولانا عبدالرحمان مینوی6F[5]
یہ شرح دراصل ان افادات کا مجموعہ ہے جو دارالعلوم تعلیم القرآن میں درس بخاری کے دوران ضبط کئے گئے ہیں۔ ان افادات کو ضبط کرنے کے بعد آپ کے شاگرد رشید مولانا خان محمد شیرانی نے اردو سے عربی زبان میں منتقل کرکے شائع کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔
مولانا عبدالرحمان مینوی چونکہ عظیم محدث گزرے ہیں، اس لئے ان کے علوم اگلی نسلوں تک منتقل کرنا وقت کی اہم ضرورت تھی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ان کے دروس من و عن محفوظ کر لیے جاتے اور انہیں کتابی شکل دے کر محفوظ کیا جاتا۔ لیکن افسوس کہ اس طرح نہ ہو سکا۔ مولانا خان محمد شیرانی نے اپنے ذوق کے مطابق ان کے دروس کو قلم کی رفتار سے ضبط کر کے اہل علم کے سامنے اسے پیش کر دیا ہے۔ اگرچہ اس سے حضرت مینوی کی محدثانہ شان کا پورا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا لیکن پھر بھی ان علوم کا کچھ حصہ اہل علم تک پہنچ گیا ہے، اور یہ بھی ایک نعمت عظمی ہے کہ تحریر ی ادب میں اس سے آپ کا نام زندہ رہے گا اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کے علمی افادات سے اہل علم استفادہ کرتے رہیں گے۔
اس شرح کا اسلوب کچھ یوں ہے:
- ابتداء میں امام بخاری اور ان کی کتاب صحیح بخاری کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔
- علم حدیث کے تعارف اور ان مبادیات پر روشنی ڈالی گئی ہے جن کی طلباء حدیث کو ضرورت ہوتی ہے اور اس کے مطالعہ سے طلباء کی یہ ضرورت بخوبی پوری ہوتی ہے۔
- مبادیات حدیث کے بعد کتاب کے ابواب کو شروع فرمایا ہے، اس میں طریقہ کار یہ اختیار کیا گیا ہے کہ سب سے پہلے باب کا عنوان قائم کیا جاتا ہے، اس کے بعد حدیث نقل کئے بغیر، حدیث الباب میں توضیح طلب امور پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ تفصیل سے پہلے جملہ عنوانات کو اجمالاً ذکر کیا جاتا ہے اوراس کے بعد ہر ایک کی تفصیل بیان کی جاتی ہے۔ ذیل کی سطور میں بطور مثال ایک درس کو تحریر کیا جاتا ہے۔
باب الاغتباط فی العلم والحکمة
یہاں آٹھ عنوانات پر بحث ہو گی۔
عنوان اول: اس باب کی کتاب العلم سے مناسبت
عنوان دوم: امام بخاری کی اس باب کو قائم کرنے کی غرض
عنوان ثالث:غبطہ اور حسد میں فرق اور ان کا حکم
عنوان رابع:علم اور حکمت میں فرق
عنوان خامس:حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول اور اس کا مطلب
عنوان سادس:امام بخاری کے قول کی وضاحت
عنوان سابع:بیان ادلہ اور وارد اعتراض کا جواب
عنوان ثامن:من اتاہ اللہ مالاً فسلطہ علی ھلکتہ پر وارد اعتراض کا جواب 7F[6]
اس کے بعد ہر عنوان کی تفصیلاات پر بحث کی گئی ہے۔
- حدیث کی تشریح کا انداز انتہائی دلنشین ہے اور طالب علم آسانی سے مباحث کو ضبط کر سکتا ہے۔
- ترجمۃ الباب کی بہترین انداز میں وضاحت کی گئی ہے۔
- باب میں وارد احادیث کے ساتھ متعارض احادیث کی توجیہ کر کے تعارض کو ختم کیا گیا ہے۔
- حدیث الباب سے جو مسائل مستنبط ہوتے ہیں، ان پر روشنی ڈالی گئی ہے اور امام بخاری کے فقہی استنباط کی وضاحت کی گئی ہے۔
- ایک جلد پر مشتمل یہ شرح صحیح بخاری کے جملہ ابواب کے علمی نکات پر مشتمل ہے اور مختصر ہونے کے باوجود اس میں گہرائی اور گیرائی بہت زیادہ ہے8F[7]۔
یہ شرح شروح بخاری کے ادب میں ایک قابل قدر اضافہ ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ باب کے تحت وارد احادیث کو بھی شامل کیا جائے تا کہ سمجھنے میں آسانی ہو۔ اسی طرح اس کی تخریج اور تعلیق پر کام کیا جائے تا کہ اس کی افادیت میں مزید اضافہ ہو سکے اور اس کا اردو میں ترجمہ کیا جائے تا کہ عظیم محدث کے علمی نکات سے اردودان طبقہ بھی مستفید ہو سکے۔
مفتاح البخاری شرح صحیح البخاری, افادات: مولانا عبدالرحمان مینوی
ترتیب: مولانا صابر شاہ فاروقی9F[8]
یہ شرح ان افادات کا مجموعہ ہے جو درس بخاری کے دوران ضبط کئے گئے ہیں۔ ان افادات کو ضبط کرنے کے بعد آپ کے شاگرد مولانا صابر شاہ فاروقی نے آپ کے افادات سے مفتاح البخاری شرح صحیح بخاری ترتیب دی ہے۔ مرتب مقدمہ میں فرماتے ہیں کہ:
"یہ میرے استاد مولانا عبدالرحمان مینوی کی وہ تقریر ہے جسے ایام طالب علمی میں درس بخاری کے دوران میں نے قلمبند کیا تھا۔ یہ تقریر علمی اعتبار سے انتہائی وقیع ہے اور اپنے اندر استفادہ کا سامان رکھتی ہے۔ اس لئے یہی احساس اسے کتابی شکل میں شائع کرنے کا محرک ثابت ہوا"P10F[9]
یہ تقریر بدء الوحی، کتاب الایمان اور کتاب العلم پر مشتمل ہے۔ تقریر کو مرتب کرتے ہوئے فیض الباری، عمدۃ القاری، لامع الدراری، فضل الباری، فتح الباری، زاد المعاد، ترجمان السنۃ، مفردات القرآن، جواہر الاصول اور شرح نخبۃ الفکر وغیرہ کتب سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔
اس شرح کا اسلوب یوں ہے کہ سب سے پہلے حدیث کا سلیس ترجمہ کیا ہوا ہے اور اس کے بعد حدیث کی دلنشین تشریح کی ہے، اور امام بخاری کے سند رجال کے حالات پر روشنی ڈالی ہے۔ جس سے طلباء حدیث کو سند حدیث کے بارے میں آگاہی حاصل ہو جاتی ہےاور امام بخاری کے رواۃ کا درجہ معلوم ہو جاتا ہے۔ مرتب نے کتاب کی ابتداء میں اصول حدیث پر ایک مفصل بحث مرتب فرمائی ہے جو طلباء حدیث کےلئے بہت مفید ہے۔
یہ شرح علم حدیث کے میدان میں اچھی کاوش ہونے کے باوجود چونکہ آپ کی تقریر بخاری کے مختصر اہم نکات پر مشتمل ہے، اس لئے اس میں مولانا عبدالرحمان مینوی کی علمیت اور ان کی محدثانہ شان کی وہ جھلک نمایاں نہیں جو مقام ان کو اللہ تعالیٰ نے علم حدیث میں عطا فرمایا تھا11F[10]۔
فیضان الباری فی حدیث ابن الحواری,مؤلف:مولانا عبدالرحمان مینوی
یہ ایک مختصر رسالہ ہے جو آپ نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی میراث والی روایت پر تحریر فرمایا ہے۔ قاضی شمس الدین رحمہ اللہ نے الہام الباری میں اس حدیث کی تشریح میں جو تقسیم ذکر کی ہے، اس تقسیم پر آپ کے کچھ تحفظات تھے جس کی وجہ سے آپ نے اس پر مستقل رسالہ تالیف فرمایا12F[11]۔
فضل الباری فی فقہ البخاری,مؤلف: عبدالرؤف ہزاروی13F[12]۔
اس شرح میں مؤلف کا اسلوب یہ ہے کہ شرح کی ابتداء میں اصول حدیث کے متعلق اہم مباحث کو بیان کیا ہے۔ اس کے بعد "باب بدء الوحی" سے شرح کا آغاز فرمایا ہے۔ باب کا عنوان قائم کر کے حدیث کو نقل کئے بغیر حدیث الباب کے مشکل اور توضیح طلب مقامات کو قولہ کے تحت بیان کیاہے۔ مشکل الفاظ کی لغوی اور نحوی تحقیق کی ہے ۔ اسی طرح ترجمۃ الباب کی بھی وضاحت کی ہے۔ جہاں کہیں حدیث الباب کسی دوسری روایت کے معارض ہو، تو اس کی وضاحت کرتے ہوئے ان کے درمیان وجہ ترجیح بیان کی ہے یا تطبیق کارراستہ اختیار کیا ہے۔ بعض مقامات پر مشکل الفاظ کی وضاحت فارسی عبارت میں کی ہے۔ حدیث الباب سے مستنبط ہونے والے احکام و مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے جہاں فقہاء کرام کا اختلاف ہو ، اس اختلاف کی د لیل کی بنیاد پر مختصر وضاحت کرتے ہوئے راجح قول کا تعین فرمایا ہے۔
یہ شرح بہت ہی علمی نکات پر مشتمل ہے تا ہم اگر جدید ترتیب سے اس کی طباعت ہو جائے تو اس سے استفادہ آسان ہو جائے گا، کیونکہ اس وقت اس میں حدیث الباب شامل نہ ہونے کی وجہ سے قاری بخاری کو سامنے رکھے بغیر صرف اس شرح سے کما حقہ استفادہ نہیں کر پاتا۔ بہرحال یہ کتاب علم حدیث کے باب میں قابل قدر اضافہ ہے14F[13]۔
حمد المتعالی علی صحیح البخاری (پشتو)،مؤلف:مولانا بادشاہ گل بخاری15F[14] ۔
حمد المتعالی دروس بخاری کا مجموعہ ہے جو کتاب المغازی پر مشتمل ہے۔فاضل مؤلف خود رقمطراز ہیں کہ میرے ان دروس کو مختلف طلباء نے دوران درس ضبط کرنے کے بعد مجھے تصحیح کے لئے پیش کیا۔ جب میں نے ان مجموعوں پر نظر ڈالی تو ان سے بہت سے ضروری نکات رہ چکے تھے اور بعض کے حوالے بھی غلط تھے، بہت سی جگہوں میں عبارت کا ترجمہ بھی درست نہیں تھا۔ چنانچہ ان مجموعوں کو لے کر اسے از سر نو ترتیب دی۔ چنانچہ میں نے اس کو ترتیب دیتے ہوئے اسلوب یوں اختیار کیا۔
- مسلسل عبارت اور لفظی ترجمہ سے احتراز کیا گیا تا کہ کتاب طوالت سے بچ سکے اور طلباء دورہ حدیث کو لفظی ترجمہ کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔
- حدیث کی عبارت بھی نقل نہیں کی گئی ہے اور صرف حدثنا الفلان سے حدیث کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
- باب میں مروی روایات کی تعداد کو بیان کیا گیا ہے اور ہر حدیث کی باب سے مناسبت بیان کر دی گئی ہے۔اسی طرح ایک باب کی دوسرے باب سے مناسبت بھی بیان کر دی گئی ہے۔
- جہاں عبارت مشکل ہو اس کا ترجمہ اور وضاحت کر دی گئی ہے۔
- مسائل متنازع فیھا کا حل مذہب حنفی اور اہل سنت کے مسلک کے مطابق پیش کر دیا ہے۔
- یہ شرح صحاح ستہ، عینی، فتح الباری، قسطلانی، فتح الملہم، فیض الباری، دلیل الفاتحین، اشعۃ اللمعات، انجاح الحاجۃ، شفاءقاضی عیاض، نسیم الریاض، مواھب لدنیہ، زرقانی، شامی، مغازی محمد بن اسحاق، الحواشی علی البخاری، مغازی ابن سعد، البدایہ والنھایہ، شرح الصدور، فتاویٰ حدیثیہ لابن حجر، شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام تقی الدین سبکی وغیرہ کتب سے ماخوذ ہےP16F[15]P۔
کتاب المغازی کی یہ شرح مختصر اور جامع علمی نکات پر مشتمل ہے۔ لیکن چونکہ یہ پشتو زبان میں ہے اور اس کی مزید اشاعت بھی رک گئی ہے، اس لئے یہ اہل علم کی نظروں سے اوجھل ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کا اردو ترجمہ اور تخریج و تعلیق کرنے کے بعد جدید ترتیب سے اس کی دوبارہ اشاعت کی جائے۔ تا کہ اسلاف کے ان علوم سے آج بھی استفادہ کیا جا سکے۔
یہ کتاب تقریباً تین سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اس پر ایک سکالر کے تحقیقی کام کی گنجائش موجود ہے۔ لیکن اس پر کام کرنے والا مضبوط علمی استعداد کے ساتھ ساتھ عربی اور پشتو زبان سے واقف ہو۔ یہ شرح علم حدیث میں ایک قابل قدر کاوش اور اسلامی لائبریری میں مفید اضافہ ہے۔
معین القاری شرح صحیح البخاری، افادات: مولانا معین الدین خٹک17F[16]
مرتب: مولانا محمد عارف 18F[17]
معین القاری شروح بخاری کے سلسلے میں خدمات کی ایک زرین کڑی ہے۔ یہ شرح مولانا معین الدین خٹک کی تقریر ہے جو کیسٹوں سے اتاری گئی ہے جو ان کے شاگرد رشید حضرت مولانا محمد عارف صاحب نائب شیخ الحدیث جامعہ عربیہ گوجرانوالہ کی زیر نگرانی کیسٹوں سے نقل کر کے مرتب کی گئی ہے19F[18]۔
اس تقریر کو مرتب کرتے ہوئے احادیث کا ترجمہ، رواۃ کا تعارف اور ترتیب و تخریج مولانا محمد عارف کی اپنی کاوش ہے جس نے کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ اس شرح کی خصوصیات درج ذیل ہیں:
- کتاب کے آغاز میں مولانا معین الدین خٹک، آپ کے استاد مولانا فخر الدین اور امام بخاری کے سوانح شامل کئے گئے ہیں تا کہ ان حضرات کی مساعی جمیلہ کا مطالعہ کرنے سے قبل ان کا ضروری تعارف حاصل ہو جائے۔
- حدیث کا مکمل متن مع اعراب تحریر کرکے ترجمہ کیا گیا ہے۔
- اطراف الحدیث کے تحت متعلقہ حدیث صحیح بخاری میں جن دیگر مقامات پر وارد ہوئی ہے ، ان مقامات کا حوالہ دیا گیا ہے۔
- مقدمہ اور شرح میں جن احادیث کا حوالہ دیا گیا ہے ، ان کی تخریج کی گئی ہے۔اسی طرح قرآنی آیات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔
- بعض مقامات پر مفید حواشی کا اضافہ کیا گیا ہے۔
- حدیث میں مذکور راویوں کا مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے۔
- تشریح میں وارد عربی عبارتوں کا اردو ترجمہ کیا گیا ہے20F[19]۔
اس کتاب کے بارے میں مولانا عبدالمالک شیخ الحدیث مرکز علوم اسلامیہ لاہور فرماتے ہیں کہ:
"اب تک جتنی شروح اور تقاریر سامنے آئی ہیں وہ اپنی ساری خوبیوں اور محاسن کے باوجود عوام کی رسائی سے دور ہیں۔ اکثر تو عربی میں ہیں اور جو اردو میں ہیں وہ بھی علماء و طلبہ کے استفادہ کے لئے ہیں۔ سکول و کالج، یونیورسٹیوں کے اساتذہ، طلبہ اور عامۃ المسلمین ان سے استفادہ نہیں کر سکتے، لیکن معین القاری صحیح بخاری کی ایسی شرح ہے جسے عصر حاضر میں صحیح بخاری کی تقاریر و شروح میں وہی مقام حاصل ہے جو قرآن پاک کی تفاسیر میں تفہیم القرآن کو حاصل ہے۔ جس طرح تفہیم القرآن سے ہر خاص و عام استفادہ کر سکتا ہے اسی طرح معین القاری سے بھی ہر خاص و عام استفادہ کر سکے گا"P21F[20]P۔
یہ شرح اساتذہ حدیث، منتہی طلبہ اور علمی ذوق رکھنے والے عوام الناس کے لئے یکساں مفید ہے اور علم حدیث کے باب میں ایک وقیع اور قابل قدر اضافہ ہے۔
آمالی مباحث کلامیہ بخاری (غیر مطبوع)،افادات :عبدالحلیم زروبوی22F[21]
علم حدیث میں آپ کی امالی ترمذی، امالی صحیح مسلم اور امالی مباحث کلامیہ بخاری آپ کے صاحبزادے مولانا ابراہیم فانی کے پاس موجود تھیں جن پر وہ تحقیق و تعلیق کر کے شائع کرنا چاہتے تھے اور ان میں سے آمالی ترمذی کا مسودہ تقریباً مکمل ہونے کو تھا کہ آپ اس دار فانی سے کوچ کر گئے او ر وہ کام ادھورا رہ گیا۔ یہ تمام آمالی اب مولانا ابراہیم فانی کے صاحبزادے مولانا محمود فاضل دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے پاس موجود ہیں اور اہل علم محققین کی توجہ کی منتظر ہیں23F[22]۔
الحواشی علی البخاری(غیر مطبوع)، مؤلف:مولانا محمد طاہر پنج پیری24F[23]
آپ کی یادگار تالیفات میں سے حدیث میں "التقریر للبخاری " غیر مطبوعہ تقریر ہے جس کا ایک نسخہ پروفیسر ڈاکٹر عمر سابق چیئرمین اسلامیہ کالج پشاور سے حاصل کیا گیا۔ اس تقریر کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ آپ کے شاگرد مولانا سلطان غنی عارف شہید کی ضبط کی ہوئی تقریر ہے جس کو بعد میں حافظ عبدالوہاب رستاقی نے خوشخط تحریر فرمایا ہے۔ یہ کوئی مستقل تصنیف نہیں بلکہ درس کے دوران آپ کے افادات قلم بند کر لئے گئے ہیں۔ اس مجموعہ میں اگرچہ اختصار زیادہ ہے تاہم بہت ہی منتخب مباحث پر مشتمل ہے۔
اس کے شروع میں علوم الحدیث پر مختصر اور جامع روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کتاب میں بعض ایسے فقہی مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے جن کی طرف عام طور پر معاصر علماء کرام نے توجہ نہیں دی ہے۔ اسی طرح تراجم حدیث اوراحادیث کے درمیان تعارض کے سلسلے میں بہت علمی نکات بیان کئے گئے ہیں۔ اس تقریر کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں حوالہ جات دیتے ہوئے کتاب کا نام اور صفحہ نمبر بیان کیا گیا ہے جو اس وقت کی شروحات میں بہت کم نظر آتا ہے25F[24]۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پراجیکٹ کی شکل میں علمی استعداد کے حامل اور عربی زبان سے واقف دو سکالر اس کی تعلیق و تخریج پر کام کریں اور اس کے بعد اسے شائع کیا جائے تا کہ اہل علم ان علمی نکات سے آسانی سے استفادہ کر سکیں۔
غنیۃ القاری شرح صحیح البخاری(عربی)، مؤلف:مولانا محمد عبدالخالق باجوڑی26F[25]۔
یہ شرح چھ جلدوں پر مشتمل ہے۔ جلد اول کے علاوہ باقی جلدیں غیر مطبوعہ ہیں۔ مؤلف نے مختلف کتابوں اورشروح کا مطالعہ کرنے کے بعد ان سے استفادہ کرتے ہوئے شرح تصنیف فرمائی ہے۔ شرح کا اسلوب فتح الباری شرح بخاری کی طرح ہے کہ احادیث کو علیحدہ اور ان کے ذیل میں طویل تشریح بیان کی گئی ہے۔ یہ شرح ما قبل کی دیگر شروح سے مختلف اور جامع ہے۔ متن حدیث کے مختلف حصوں کی رواں شرح بیان کی گئی ہے جس میں حدیث سے متعلق اکثر علوم بیان کیے گئے ہیں۔ صرفی اور نحوی تحقیقات کے ساتھ ساتھ علم معانی کوبھی خاص اہمیت دی گئی ہے۔ اسماء الرجال کو بھی بہت تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ حدیث کی تشریح میں فقہی مذاہب کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہوئے فقہ حنفی کو راجح قرار دینے کی پوری کوشش کی گئی ہے اور ا س سلسلے میں حنفی نقطہ نظر کی تطبیق کا احسن انداز اختیار کیا گیا ہے۔ مذاہب کو بیان کرتے ہوئے مخالفین کے اعتراضات کا تسلی بخش جواب دیا گیا ہے۔ اس شرح کی پہلی جلد مقدمۃ البخاری شیخ الحدیث مولانا عبدالخالق صاحب اور ابتداء تا اختتام کتاب الجنائز کی تشریحات پر مشتمل ہے27F[26]۔
روح الباری علی تراجم البخاری، مؤلف:قاضی محمدزاہد الحسینی28F[27]
یہ کتاب علم حدیث کی مشہور اور مستند کتاب صحیح بخاری کے تراجم الابواب کی اردو زبان میں پہلی شرح ہے جو شیخ العرب والعجم مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کی اجازت سے مرتب کی گئی ہےاور اس پر نظر ثانی مولانا عبدالرحمان کامل پوری صدر المدرسین مظاہر علوم سہارن پور نے فرمائی ہے۔ اس شرح کی جلد اول شائع ہوئی ہے جو دس پاروں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کو شیخ الاسلام علامہ سید محمد یوسف بنوری، مولانا خیر محمد جالندھری اور مولانا فخر الدین شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند نے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا:
"احناف کے ذمہ جو قرض تھا وہ قاضی محمد زاہد الحسینی کی مرتبہ اس کتاب نے ادا کر دیا ہے،یہ جلیل القدر کتاب دورہ حدیث کے طلباء اور مدرسین اساتذہ کے لئے انشاء اللہ مشعل راہ ہو گی"P29F[28]
اس کتاب کے بارے میں مولانا فخر الدین شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند فرماتے ہیں:
"فاضل مؤلف نے بخاری شریف کی متعدد شروح مطالعہ کرنے کے بعد تراجم پر قلم اٹھایا ہے۔ تراجم کی عبارت سادہ اور عام فہم ہے اور مطالب و مقاصد پر حاوی ہے اور کسی کسی مقام پر تو کمال ہی کر دیا ہے"P30F[29]
الأدب الجاری فی أبیات صحیح البخاری، مؤلف:مولانا لطافت الرحمان سواتی31F[30]
صحیح بخاری پر کیے گیےکام کے سلسلے میں ایک گرانقدر تصنیف ہے۔ اس کتاب کو القاسم اکیڈمی جامعہ ابوہریرہ نوشہرہ نے شائع کیا ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ ان اشعار کی عربی شرح ہے جو اشعار امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب صحیح ا لبخاری میں درج کئے ہیں۔ اس کتاب کی ترتیب کچھ یوں ہے کہ شعر کا ترجمہ اردو زبان میں کرنے کے بعدا س کی بہترین تشریح عربی میں کی ہے۔ اور شعر صحیح بخاری کے جس باب میں درج ہوا، اس کا حوالہ بھی دیا گیا ہے32F[31]۔
مولانا عبدالقیوم حقانی اس کتاب کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ کتاب اپنے موضوع پر جامع، عمیق اور عظیم کتاب ہے، اساتذہ حدیث اور طالبان علوم نبوت کے لئے انمول تحفہ ہے33F[32]۔
تسہیل بخاری(غیر مطبوع)، مؤلف:مولانا افضل خان شاہ پوری34F[33]
یہ کتاب صحیح بخاری کی کتاب الایمان کی پشتو زبان میں غیر مطبوع شرح ہے۔ اس شرح کو لکھتے ہوئے فاضل مؤلف نےاکثر مقامات میں ارشاد القاری اور الکوثر الجاری سے استفادہ کیا ہے35F[34]۔
طالب علم بخت نواز شریک دورہ حدیث جامعہ سعیدیہ اوگی کے واسطے سے مولانا افضل خان کے صاحبزادے مولانا محمد قاسم خان مدرس دارالعلوم تعلیم القرآن سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ کتاب ابھی تک چھپی نہیں۔ ہم اس پر تحقیق و تعلیق کے پہلو سے کام کرنا چاہتے ہیں۔ ان شاء اللہ جلد ہی زیور طبع سے آراستہ ہو کر قارئین کے ہاتھوں میں ہو گی۔
مقدمہ درس البخاری(عربی)، تالیف:مولانا گوہر رحمان36F[35]
صحیح بخاری کی ہر دور میں محدثین نے بہت خدمت کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی شروح کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ آپ بھی نہ صرف بخاری پڑھاتے تھے بلکہ اس سے والہانہ محبت اور عقیدت رکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ کاش مجھے موت اس حالت میں آئے کہ صحیح بخاری میرے سینے پر پڑی ہوئی ہو،اسی وجہ سے آپ نے اس کی عربی شرح لکھنا شروع کی،مقدمہ مکمل کرنے کے بعد باب بدء الوحی کی تیسری حدیث تک پہنچے تو داعی اجل نے لبیک کہا اور یہ شرح مکمل نہ ہو سکی۔
آپ کے ورثاء نے تحریر شدہ حصہ ایک جلد میں مقدمہ درس البخاری کے عنوان سے طبع کرایا۔اس وقیع مقدمہ میں حدیث کی لغوی و اصطلاحی تعریف، آداب محدث و طالب علم، روایت و درایت حدیث، حجیت حدیث، اقسام حدیث، تدوین و کتابت حدیث، امام بخاری کے حالات، صحیح بخاری کا تعارف اور کتب حدیث کی مختلف انواع جیسے موضوعات اور ان کے ذیل میں نفیس مباحث پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔اس کے بعد باب بدء الوحی اور کتاب الایمان کی احادیث کی تشریح بھی شامل کی گئی ہے۔یہ مقدمہ اصول حدیث کے باب میں ایک عظیم الشان علمی اور تحقیقی کاوش ہے،علماء و طلباء حدیث کے لئے ایک انمول تحفہ ہے اور علم حدیث کی لائبریری میں بیش بہا اور قابل قدر اضافہ ہے۔اگر آپ کی زندگی وفا کرتی اور اس کی تکمیل ہوجاتی تو یہ شرح آپ کی دیگر تصنیفات کی طرح شروح بخاری میں ممتاز حیثیت کی حامل ہوتی ،کیونکہ جن احادیث کی شرح لکھی گئی ہے اس کا انداز انتہائی عالمانہ اور فاضلانہ ہے37F[36]۔
درس بخاری، افادات: مفتی نظام الدین شامزئی38F[37]
آپ کا درس بخاری پورے ملک میں مشہور و معروف تھا، کیونکہ آپ کا انداز درس انتہائی سلیس اور رواں ہوتا تھا۔ اس لئے آپ کے درس کو قطب الدین عابد فاضل جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن نے کتابی شکل میں مرتب کیا۔ یہ صحیح بخاری کے صرف کتاب التیمم تک کے ابحاث کی تقریر ہے۔ مرتب اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ ہمیں آپ کی تقریر بخاری یہاں تک ہی دستیاب ہو سکی ہے39F[38]۔
آپ کا درس صحیح بخاری کی شروح کا خلاصہ اور نچوڑ ہے۔ آپ نے عمدۃ القاری، فتح الباری، شرح ابن بطال، شرح الکرمانی، فیض الباری، لامع الدراری اور فضل الباری سے بطور خاص استفادہ کیا ہے۔ ابتدائی ابحاث کا انداز بہت واضح، مرتب اور خوبصورت ہے۔ ترجمۃ الباب کی مفصل اور مدلل تشریح کے ساتھ ساتھ ماقبل اور مابعد سے ربط اور ترجمۃ الباب اور احادیث الباب میں مناسبت اور تطبیق کے لئے بہترین توجیہات پیش کی گئی ہیں۔ اسی طرح مشکل ا لفاظ کے معانی اور ان کی دلنشین تشریح کی گئی ہے۔ باب بلاعنوان اور بسم اللہ اثناء احادیث وغیرہ پر تشفی بخش کلام کیا گیا ہے۔
اس شرح میں خوبیوں کے باوجود ایک کمزوری یہ ہے کہ اس میں حدیث کو مکمل نقل نہیں کیا گیا ہے ،اس لئے قاری صحیح بخاری اپنے سامنے رکھے بغیر اس سے مکمل استفادہ نہیں کر سکتا۔ اسی طرح مباحث کی تخریج اور اس کے حوالہ جات کا اہتمام نہیں کیا گیا ہے۔ اگر ان باتوں کا ازالہ اگلے ایڈیشنوں میں کیا جائے تو بہت مفید ہو گا40F[39]۔
مفتی نظام الدین کی شخصیت اور علمی مقام تو بہت بلند ہے، اس تقریر میں تو ان کی علمیت کی جھلک نظر آتی ہے لیکن صحیح عکاسی اس تقریر سے نہیں ہو رہی، شاید تقریر ضبط کرنے والے نے جلدی میں آپ کی تقریر کا احاطہ نہ کیا ہو۔ بہر حال ان تمام مذکورہ وجوہات کے باوجود یہ کتاب طلبہ حدیث کے لئے ایک تحفہ ہے اور اسلامی کتب خانہ میں ایک گرانقدر اضافہ ہے۔
برکۃ المغازی، مؤلف:مولانا محمد حسن جان41F[40]
اس کتاب میں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی وصیت اور ترکہ کی حدیث (جس کو امام بخاری نے کتاب الجہاد کے تحت ذکر کیا ہے) کی مفصل شرح بیان کی گئی ہے۔ شرح اگرچہ عربی میں ہے مگر انداز بیان سہل اور جامع ہے اور طلباء کے ذہن میں ابھرنے والے سوالات کے تشفی بخش جوابات موجود ہیں۔ اس کتاب میں 28 غزوات اور 43 سرایا کی فہرست میں مسلمانوں اور کافروں کی تعداد، مقام، تاریخ اور مختصر نتیجہ ذکر کیا گیا ہے۔یہ کتاب دس بحوث پر مشتمل ہے جن کی تفصیل کچھ یوں ہے:
- عبداللہ بن زبیر کا تعارف اور جنگ جمل
- حدیث کی شرح اور روایتوں کی روشنی میں حساب کی تطبیق
- روایت پر وارد ہونے والے اشکالات اور علماء کے جوابات
- حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا ترکہ اور وارثوں میں اس کی تقسیم
- نبی کریم ﷺ کےغزوات اور اس کی صورتیں
- نبی کریم ﷺ کے سرایا کی تعداد
- شہدائے بدر کا تذکرہ
- بادشاہوں اور امراء کے لئے حضور ﷺ کے مکاتیب
- رسول اللہ ﷺ کے حیات کے اہم واقعات تاریخ وار
- جزیرہ عرب میں نبی کریم ﷺ کے غزوات اور سرایا کا نقشہ
یہ کتاب حدیث کے طلبہ کے لئے بہت مفید ہے۔ البتہ اس میں حوالہ جات کی طرف کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی ہے۔ اگر اس مختصر رسالہ میں حوالہ جات کا اہتمام ہو جائےاور اردو ترجمہ ہو جائے تو اسکی افادیت بڑھ جائے گی اور اردو دان طبقہ بھی اس سے مستفید ہو سکے گا42F[41]۔
تقریر بخاری مولانا حسین احمد مدنی(غیر مطبوع)، ضبط و ترتیب: مولانا عبدالدیان کلیم43F[42]
آپ نے حسین احمد مدنی کی تقریر بخاری لفظاً لفظاً نقل کی ہے جو ابھی تک مخطوط کی شکل میں محفوظ ہے۔ مقالہ نگار نے اس تقریر کے سلسلے میں آپ کے صاحبزادے مولانا شمس الرحمان نعمانی سے ملاقات کی اور اس تقریر کو ملاحظہ کیا۔ اس کے اوراق کی حالت انتہائی خستہ ہے۔ اس سے استفادہ بہت مشکل ہو گیا ہے۔ آپ کے صاحبزادے نے فرمایا کہ والد ماجد اس کو سمجھتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ میں اسے ایڈٹ کر کے شائع کروں گا کیونکہ مجھے اس کی ہر بحث میں موجود واقعہ کی پوری تفصیل معلوم ہے۔ اگر اس کو وہ خود شائع کرتے تو بہت مفید ہوتا ۔ لیکن چونکہ وہ خود نہ کر سکے، اس لئے اب اس کی ا شاعت سے وہ فوائد حاصل نہیں ہوسکتے۔ انہوں نےیہ بھی فرمایا کہ مولانا سمیع الحق نے بھی اس تقریر کی طباعت کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا لیکن والد صاحب نے یہ کہہ کر معذرت کی تھی کہ میں خود اس پر کام کر کے شائع کروں گا، لیکن افسوس وہ بھی اس کام کو نہ کر سکے اور اس طرح یہ علمی نکات ضائع ہو نے جارہے ہیں44F[43]۔
حواشی فیض الباری شرح بخاری(غیر مطبوع)، تالیف: ولی محمد بن سید احمد45F[44]
آپ نے فیض الباری پر مفید حواشی تحریر کئے ہیں۔ ان کی اس تعلیق سے ان کے وسعت مطالعہ کا اندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح پر بھی جگہ جگہ حواشی تحریر فرمائے ہیں اور صحیح مسلم پر بھی حواشی تحریر کئے ہیں۔ اسی طرح مولانا نصیر الدین غورغوشتوی سے مشکوٰۃ پڑھتے وقت ان کی زبانی تقریر کو بھی مشکوٰۃ کے حاشیہ پر تحریر کیا ہے اور بہت اچھے علمی اور جامع نکات کو جمع فرمایا ہے۔
ان تمام حواشی کو الگ سے تو نہیں طبع کیا جا سکتا تاہم اگر کسی مطبع والے ان کے حواشی کا عکس لے کر کتب کو شائع کرتے ہوئے ان کو بھی مزید حواشی کے طور پر شامل کر لیں تو بہت مفید ہو گا۔ یہ حواشی ان کے صاحبزادے مشتاق احمد کے پاس محفوظ ہیں46F[45]۔
تقریر بخاری مولانا نصیر الدین غورغوشتوی (غیر مطبوع)
ضبط و ترتیب: مولانا ولی محمد بن سید احمد
آپ نے مولانا نصیر الدین غورغوشتوی کی تقریر بخاری کو ضبط کیا ہے جو تدوین و طباعت کے لئے ان کے بھتیجے کرنل وہاج احمد کے پاس موجود ہے۔ اس کا کچھ حصہ کمپوز ہو چکا ہے جبکہ کچھ حصہ کی کمپوزنگ جاری ہے اور بہت جلد زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر موجود ہو گا47F[46]۔
خلاصہ فضل الباری(غیر مطبوع)، تالیف: ولی محمد بن سید احمد
یہ تالیف علامہ شبیر احمد عثمانی کی فضل الباری شرح بخاری کا نچوڑ اور خلاصہ ہے۔ یہ بھی تدوین و طباعت کے سلسلے میں آپ کے بھتیجے کرنل وہاج احمد کے پاس ہے اور وہ بھی عنقریب زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر موجود ہو گا48F[47]۔
احسان الباری لفہم البخاری، افادات: مولانا سرفراز خان صفدر49F[48]
یہ شرح دراصل مولانا سرفراز خان صفدر کی دروس بخاری کا مجموعہ ہے جن کو آپ کے صاحبزادے نے مرتب کرنے کے بعد آپ کو نظر ثانی کے لئے پیش کیا ہے جس پر انہوں نے کچھ مفید اضافے بھی کر دئیے ہیں۔ یہ کتاب باب کیف بدء الوحی سے کتاب العلم تک کے ابحاث پر مشتمل ہے۔ صحیح بخاری سے استفادہ کرنے میں آسانی کی خاطر حدیث سے متعلق بنیادی اور ضروری مباحث و اصطلاحات تفہیم کرانے کی کوشش کی گئی ہے اور اس سلسلے میں اشکالات کو حل کرنے اور امام بخاری کے منہج کو سمجھانے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
کتاب کے آغاز میں حجیت حدیث پر تفصیلی کلام کیا گیا ہے اور قرآن و حدیث سے اس کی حجیت کو ثابت کیا گیا ہے۔ اسی طرح منکرین حدیث کے رد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور آنحضور ﷺ کے دور میں حفظ حدیث اور کتابت حدیث پر تفصیلی کلام کیا گیا ہے اور اس ضمن میں خبر واحد کی حجیت پر بھی بحث کی گئی ہے۔ کتاب میں حوالہ جات مختصر بین السطور دئیے گئے ہیں۔ عربی عبارات کا ترجمہ نہیں کیا گیا ہے لیکن چونکہ آپ کے مخاطب علمی استعداد رکھنے والے طلباء ہوتے تھے اور اب بھی اس کتاب سے اہل علم ہی استفادہ کرتے ہیں، اس لئے یہ اس کتاب کی اہمیت اور وقعت کم نہیں کرتی۔ تاہم اگر ان عربی عبارات کا بھی اگلے ایڈیشنوں میں ترجمہ ہو جائے تو کتاب اہل علم کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے لئے بھی استفادہ کا سامان مہیا کرے گی جو مضبوط علمی استعداد نہیں رکھتے۔ بہر حال اس کے باوجود بھی یہ کتاب طلباء حدیث کے لئے ایک قیمتی تحفہ ہے50F[49]۔
الکوثر الجاری علی مشکلات البخاری، افادات: شیخ الحدیث مولانا محمد یار بادشاہ51F[50]
تعریب، تعلیق و تخریج: مولانا عبدالرحمان نورستانی 52F[51]
الکوثر الجاری علی مشکلات البخاری مولانا محمد یار بادشاہ کے دروس بخاری کا مجموعہ ہے جنہیں پشتو زبان میں ضبط کیا گیا ہے اوراس کے بعد آپ کے مایہ ناز شاگرد مولانا عبدالرحمان نے اسے عربی زبان میں منتقل کر دیا ہے اوراس کے ساتھ ساتھ اس کی تخریج و تعلیق بھی کی ہے جس سے اس کی افادیت کو چار چاند لگ گئے ہیں۔
ویسے تو بخاری شریف کی مختلف شروح شائع ہو چکی ہیں اور وہ کافی شافی ہیں لیکن مذکورہ بالا شرح میں مولانا محمد یار بادشاہ نے شیخ الحدیث مولانا عبدالرحمان مینوی اور شیخ القرآن مولانا محمد طاہر پنج پیری کے طریقوں کو جمع کر کے ایک نیا اور عجیب انداز پیدا کیا ہے جس نے تفہیم حدیث اور ضبط مطالب کو نہایت آسان کر دیا ہے۔ جس طرح مولانا محمد طاہر اپنے درس تفسیر میں توضیح آیات کے ضمن میں ہر آیت کے تحت تائیدات قرآنی جمع فرما کر تفسیر الآیات بالآیات کا عجیب سماں باندھ دیتے تھے۔ اسی طرح درس حدیث میں مولانا محمد یار بادشاہ کسی حدیث کی توضیح کرتے ہوئے اس کی تائید میں دیگر احادیث اس طرح جمع فرما دیتے تھے کہ اس کا مطلب واضح اور منقح ہو کر سامنے آجا تا۔ آپ کے اس بہار آفرین اسلوب درس نے تسہیل و تفہیم بخاری کا ایک منفرد طریقہ پیدا کر لیا ہے۔
اس شرح کے بارے میں مولانا ولی اللہ کابلگرامی فرماتے ہیں کہ:
"اگرچہ بخاری کی مختلف زبانوں میں شروح لکھی جا چکی ہیں لیکن تحقیق اور اپنے موضوع پر محتوی ہونے کے اعتبار سے اس طرح کی املاء میں نے کبھی نہیں دیکھی"P53F[52]
یہ شرح صحیح بخاری کو سمجھنے کے لئے ایک مفید تالیف ہے۔ علماء اور طلباء حدیث کے لئے یہ ایک انمول تحفہ ہے۔ تاہم اس علمی ذخیرہ سے اردو دان طبقہ استفادہ کرنے سے محروم ہے۔ اگر اس کا آسان اردو میں ترجمہ کیا جائے اور بقیہ مباحث کو بھی اس طرز پر قلمبند کر کے اس کی تکمیل کی جائے تو بہت مفید ہو گا۔
ہدایۃ القاری الی صحیح البخاری (عربی)، مؤلف:مفتی محمد فرید54F[53]
صحیح بخاری کی یہ شرح باب بدء الوحی، کتاب الایمان اور کتاب العلم پر مشتمل ہے اور ان ابواب کے تحت ایک سو ساٹھ موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس کتاب کا اسلوب کچھ یوں ہے کہ ابتداء میں ایک وقیع مقدمہ تحریر کیا گیا ہے جس میں حدیث ، روایت و درایت حدیث، حجیت حدیث، اقسام حدیث، تدوین و کتابت حدیث، امام بخاری کے حالات، صحیح بخاری کا تعارف اور کتب حدیث کی مختلف انواع جیسے موضوعات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔
اس شرح کو لکھتے ہوئے فتح الباری، عمدۃ القاری، فیض الباری اور شیخ الحدیث انور صاحب کے امالی سے بھرپور استفادہ کیا گیا ہے۔ حدیث کوخط کشیدہ لکھا گیا ہے اور تشریحات خط سے آزاد ہیں۔ تشریحات میں قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ سے بھرپور معاونت لی گئی ہے۔ کتاب مواد کے انتخاب کے حوالے سے تو بہت اچھی ہے لیکن اس میں حوالہ جات کی طرف توجہ نہیں دی گئی ہے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کی تخریج و تعلیق کی جائے اور اسے اردو کے قالب میں منتقل کیا جائے تا کہ اردو دان طبقہ بھی اس سے استفادہ کر سکے55F[54]۔
الھام الباری فی تقریر صحیح البخاری،افادات: مولانا علاؤ الدین56F[55]
یہ شرح دراصل آپ کے دروس بخاری کا مجموعہ ہے،جنہیں آپ کے شاگرد مولوی احسان اللہ نے ضبط کرنے کے بعد اس میں مفید اضافے کئے ہیں اور اس کی تخریج کر کے اس کو ترتیب دی ہے۔ اس شرح میں حسب ذیل چیزوں کاالتزام کیا گیا ہے۔
- عربی متن مع اعراب و اردو ترجمہ
- حدیث کے کلمات کا آسان مفہوم و تشریح اور حوالہ جات کی تخریج
- ترجمۃ الباب کی حدیث الباب سے مناسبت اور اغراض امام بخاری کی وضاحت
- مذاہب ائمہ اربعہ کا بیان اورترجیح مذہب امام اعظم ابو حنیفہ
- فرق باطلہ کا رد اور ان کے دلائل کے جوابات57F[56]۔
یہ شرح علم حدیث کے باب میں ایک قابل قدر اضافہ ہے اور طلباء حدیث کے لئے انمول تحفہ ہے۔ طلبہ حدیث کے علاوہ عوام الناس بھی اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
ہدیۃ الباجوڑی شرح الصحیح للامام البخاری، مؤلف:مولانا عبدالجبار باجوڑی58F[57]
ھدیۃ الباجوڑی مولانا عبدالجبار کی شرح بخاری ہے جو ایک وقیع تالیف ہے اور علمی نکات پر مشتمل ہے۔ اس شرح کا انداز و اسلوب کچھ یوں ہے:
- شرح کی ابتداء میں علم حدیث کے مبادیات کے متعلق ایک وقیع مقدمہ تحریر فرمایا ہے، جس میں انتہائی وضاحت کے ساتھ ان تمام امور کو زیر بحث لایا گیا ہے جن کی ایک طالب علم کو ضرورت ہوتی ہے۔ اور ان میں سے ہر عنوان پر کافی شافی مواد فراہم کیا گیا ہے۔
- اس کے بعد باب بدء الوحی سے ابتداء کی ہے اور انداز یہ اپنایا گیا ہے کہ باب کا عنوان قائم کر کے باب کے تحت زیر بحث آنے والے مباحث کو اجمالاً بیان کرتے ہیں۔ ایک مقام کو بطور مثال بیان کیا جاتا ہے:
باب قیام لیلة القدر من الایمان
ههنا عدة عنوانات:
(1): المناسبة مع ما قبله (2): رجال السند (3): فی تشریح قوله (من یقم لیلة القدر)
(4): قوله غفر ما تقدم من ذنبه (5): غرض الامام البخاری من انعقاد الباب59F[58]
یہ اس شرح کی ایسی خصوصیت ہے جو اس شرح کو دیگر شروحات سے منفرد و ممتاز مقام عطا کرتی ہے۔
- ترجمۃ الباب کی وضاحت عام فہم عبارت میں فرمائی ہے جس سے قاری امام بخاری کے مقصد کو باآسانی سمجھ لیتا ہے۔
- حدیث میں مذکور رجال کا تعارف کیا گیا ہے۔
- مشکل الفاظ کی لغوی، صرفی اور نحوی تحقیق کی گئی ہے۔
- حدیث الباب پر وارد اعتراضات کے جوابات دئیے گئے ہیں۔
- باب میں وارد احادیث سے جو مسائل مستنبط ہوتے ہیں ، ان پر بحث کی گئی ہے اور اس سلسلے میں ائمہ کرام کے مذاہب کی وضاحت کی گئی ہے۔
- حدیث کی دلنشین تشریح کی گئی ہے۔
- حوالہ جات کا اہتمام کیا گیا ہے۔
یہ شرح منفرد خصوصیات کی حامل ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ باب کے تحت وارد احادیث مکمل متن کے ساتھ شامل کی جائیں تا کہ صحیح بخاری سامنے رکھے بغیر بھی اس کتاب سے پورا استفادہ کیا جا سکے60F[59]۔
فضل الباری فی خلاصۃ البخاری، مؤلف: مولانا عبدالحق باجوڑی61F[60]
فضل الباری فی خلاصۃ البخاری صحیح بخاری کا خلاصہ ہے۔اس کتاب کے سبب تالیف کے بارے میں مؤلف رقمطراز ہیں:
"امام بخاری کی جلیل القدر کتاب صحیح بخاری کی مختلف زبانوں میں کئی شروح لکھی گئی ہیں، مجھے ضرورت محسوس ہوئی کہ کوئی مختصر خلاصہ دستیاب ہو جائے جو صحیح بخاری کا خلاصہ لکھنے اور مشکلات کے حل میں معاون ثابت ہو، لیکن مجھے اس کا کوئی خلاصہ نظر نہیں آیا، چنانچہ میں نے اس سلسلے میں جدوجہد شروع کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے خلاصہ لکھنے کی توفیق نصیب ہوئی"P62F[61]
اس کتاب میں فاضل مؤلف نے صحیح بخاری کا خلاصہ سمجھنے کے لئے کچھ قواعد و اصول وضع کئے ہیں (تا کہ اس کے پڑھنے میں کسی قسم کی دشواری پیش نہ آئے او ر اگر کوئی علمی فوائد حاصل کرنا چاہے توبا آسانی حاصل کر سکے)۔
اسی طرح ہر باب کے آخر میں مختصر فائدہ مہمہ بھی لکھا گیا ہے اور اس میں اختصار سے کام لیا گیا ہے تا کہ پڑھنے والے کو کسی قسم کا بوجھ محسوس نہ ہو، کھلے دل اور رغبت سے نظر دوڑائے اور خاطر خواہ نتیجہ اخذ کر سکے۔اسی طرح اس کتاب کی ابتداء میں اصول حدیث کے متعلق جامع انداز میں قلم اٹھایا گیا ہے جس سے طلباء کم وقت میں بہت کچھ استفادہ کر سکتے ہیں63F[62]۔
ان تمام خوبیوں کے باوجود اس کتاب سے صرف اہل علم، منتہی طلباء اور ٹھوس علمی استعداد کے حامل افراد استفادہ کر سکتے ہیں۔ اور صحیح بخاری کے بارے میں معلومات کے سلسلے میں یقیناً یہ ایک بیش بہا خزانہ ہے۔
خلاصہ بحث
برصغیر میں شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جب علم حدیث کی اشاعت کا بیڑہ اٹھایا تو یہ سلسلہ پھر رکا نہیں اور ان کے بالواسطہ اور بلاواسطہ شاگردوں کے ذریعےعلم حدیث کی روشنی خیبر پختونخوا میں بھی پہنچی۔یہاں پر حدیث کی دیگر اصناف کی طرح شروح حدیث اور خصوصا شروح صحیح بخاری پر اچھا خاصا کام ہوا ہے۔یہاں کے دینی مدارس میں مشائخ حدیث کی تقریریں ضبط ہو کر کتابی صورت میں سامنے آئیں جب کہ بعض مشائخ حدیث نے باضابطہ طور پر صحیح بخاری کی شروحات تصنیف فرمائیں۔مقالہ نگار کو اس سلسلے میں ستائیس شروح کا علم ہوا ہےجن میں سے بعض مطبوع اور بعض غیر مطبوع صورت میں ہیں۔اس مقالہ میں ان شارحین کا تعارف اور ان کی شروح کا جائزہ لیا گیا ہے ۔
نتائج بحث
- بر صغیر کے دیگر اہل علم کی طرح خیبر پختونخوا کے علماء نےبھی صحیح بخاری پر کام کرنے کے سلسلے میں بھرپور حصہ لیا ہے اور شروح حدیث کے باب میں وقیع اضافہ فرمایا ہے۔
- یہاں کے علماء نےاگرچہ بہت کچھ اس باب میں تالیف فرمایا ہے،لیکن افسوس ہے کہ علم حدیث کا ایک وسیع ذخیرہ اسباب و وسائل کی کمی اور بے توجہی کی بدولت ضائع ہو چکا ہے۔
- خیبر پختونخوا میں موجودمخطوطات؍ غیر مطبوعہ کتب علم حدیث کے باب میں ایک وقیع علمی ذخیرہ ہے،جو طلبہ حدیث اور اہل علم کی نظروں سے اوجھل ہے۔
سفارشات
- متن حدیث کو نئے انداز سےمرتب کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی نئی شروحات لکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ پرانی شروحات اس وقت کے سیاق وسباق میں لکھی گئیں ہیں اس میں بعض جدید موضوعات کو زیر بحث نہیں لایا گیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حدیث کی ایسی نئی شروحات آجائیں جو موجودہ دور کی ضروریات اور تقاضوں کو پورا کر سکیں۔
- خیبر پختونخوا میں مختلف شیوخ الحدیث کی درسی تقاریر جو ان کے شاگردوں نے آڈیو کیسٹ اور رجسٹروں میں ضبط کرکے محفوظ کی ہیں،اس پر بھی تحقیقی کام کرنے کی گنجائش موجود ہے،محققین سے التماس ہے کہ وہ اس طرف بھی تحقیقی کام پر توجہ دیں تاکہ علمی کام سامنے آجائے۔
This work is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License.
حوالہ جات
- ↑ == حوالہ جات(References) == صدیقی، ڈاکٹر محمد سعد، علم حدیث اور پاکستان میں اس کی خدمت، شعبہ تحقیق ،قائد اعظم لائبریری، باغ جناح، لاہور، ص: 332 Ṣiddiqī, Dr. Muḥammad Saad, Ilm e Ḥadith aur Pakistan me is ki Khidmat, (Lahore, Sho’ba e taḥqeeq, Quaid e Azam Library), 332
- ↑ ۔ مولانا محمد طیب،تاریخ دارالعلوم دیوبند، دارالاشاعت کراچی، 1972ء، ص: 14 Molana Muḥammad Tayyab, Tareekh Dar ul ‘Uloom Deoband, (Karachi: Dar ul Isha’at, 1972), 14
- ↑ ۔ ڈاکٹر محمد مسعود احمد،حیات مولانا احمد رضا خان بریلوی، اسلامی کتب خانہ سیالکوٹ، 1981ء، ص: 118 Dr. Muḥammad Mas’ood Ahmad, Ḥayat Mulana Aḥmad Raḍa Khan Braīlavī, (Sialkot: Islami Kutab Khāna, 1981), 118
- ↑ ۔ پشاوری ، شاہ محمد غوث ، شرح غوثیہ ،ترجمہ: محمد امیر شاہ قادری، مکتبۃ الحسن یکہ توت پشاور Peshawari, Shah Muḥammad Ghoas, Sharah Ghosiyyah, Urdu Translation, Muḥammad Amir Shah Qadri, (Peshawar: Maktaba tul Ḥasan ,Yaka Tuwt)
- ↑ ۔ مولانا عبدالرحمان مینوی1913ءکو ضلع صوابی کے دور افتادہ گاؤں مینئی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مقامی مدارس میں حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے دارالعلوم دیوبند چلے گئے اور 1939ء میں دورہ حدیث مولانا حسین احمد مدنی سے پڑھ کر سند فراغت حاصل کی۔ فراغت کے بعد مدرسہ امداد الاسلام میرٹھ میں حدیث پڑھانے کا آغاز کیا۔ تقسیم ہندوستان کے بعد پاکستان آئے اور مختلف مدارس میں پڑھاتے رہے، آخر میں دارالعلوم تعلیم القرآن راوالپنڈی میں شیخ الحدیث رہے ۔پوری زندگی درس و تدریس میں گزارتے ہوئے 1975ء میں وفات پا گئے اور اپنے آبائی گاؤں مینئی میں سپرد خاک کئے گئے۔
محمد قاسم بن محمد امین صالح، تذکرہ علمائے خیبر پختونخوا ،دارالقرآن والسنۃ،صوابی۔2015ء، ص :271 مرتب: مولانا خان محمد شیرانی، کوئٹہ
Muḥammad Qasim bin Muḥammad Amin Ṣaliḥ, Taẓkira ‘Ulama’ e Khyber Pakhtunkhwa, (Ṣwabi: Dar ul Qura’n Wa Sunnah, 2015) 271
- ↑ ۔ مینوی، مولانا عبدالرحمان ،عین الجاری شرح صحیح البخاری ، ترتیب: خان محمد شیرانی، اشاعت اکیڈمی، پشاور، 2010ء، ص:173,174 Manvi, Muwlana Abdur Rahman, ‘Ain ul Jari Sharah Ṣaḥiḥ Bukhari, Zabt o Tartīb: Mawlana Khan Muḥammad Sherani, (Peshawar: Isha’at Academy, Mohalla Jhangi, 2010), 173,174
- ↑ ۔ ایضاً: محولہ بالاIbid.
- ↑ ۔ آپ تحصیل ٹوپی، ضلع صوابی کے ایک چھوٹے سے گاؤں بیسک علاقہ گدون میں 1950ء کو پیدا ہوئے۔ تعلیم کی ابتداء دارالعلوم اسلامیہ چارسدہ سے کی۔ درس نظامی کے مراحل جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک اور دارالعلوم تعلیم القرآن راوالپنڈی سے طے کئے۔ مولانا عبدالرحمن مینوی آپ کے استاد ہیں۔ نومبر 1979ء میں پاک فضائیہ میں بطور خطیب تقرر ہوا اور 2000ء میں ریٹائرمنٹ ہوئی۔ فاروقی، مولانا صابر شاہ ، مقدمہ مفتاح البخاری ،مکتبہ،حقانیہ،اکوڑہ خٹک،نوشہرہ، ص: 130 Farooqi, Mauwlana Ṣabir Shah, Muqaddimah Miftaḥ ul Bukhari, (Nowshera: Maktabah Ḥaqqania, Akora Khatak,) 130
- ↑ ۔ ایضاً، ص: 12 Ibid., 12
- ↑ ۔ ایضا،محولہ بالا Ibid.
- ↑ ۔ مینوی ، مولانا عبدالرحمن، فیضان الباری فی حدیث ابن الحواری، مکتبہ حقانیہ، پشاور، ص:132 Mainavi, Mauwlana ‘Abdur Raḥman, Faiḍan ul Bari fi Ḥadees Ibn ul Hawarī, (Nowshera: Maktabah Ḥaqqania, Akora Khatak), 132
- ↑ ۔ آپ 1896ء کو سیریاں، ہری پور میں پیدا ہوئے۔ درس نظامی کی تکمیل اپنے والد اور بڑے بھائی مولانا عبدالجبار سے کی، پھر مولانا حمید الدین مانسہروی اور انی گجرات کے مولانا ولی اللہ سے پڑھنے کے بعد دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور 1338ھ میں مولانا انور شاہ کشمیری اور دیگر اساتذہ سے حدیث پڑھ کر سند حاصل کی۔ فراغت کے بعد مختلف مدارس میں تدریس کرتے رہے۔ تدریس کے ساتھ تصنیف و تالیف کے سلسلے سے بھی وابستہ رہے اور فضل الباری فی فقہ البخاری چار جلدوں میں تالیف فرمائی۔ آپ 16 نومبر 1978ء کو بروز جمعرات وفات پا گئے۔ علوی ، ڈاکٹر کرنل فیوض الرحمن، علمائے سرحد کی تصنیفی خدمات، فرنٹیئر پبلشنگ کمپنی، اردو بازار، لاہور، ص: 108 Alvi, Dr. Qari Colonel Fuyuz ur Rahman, ‘Ulama’ e Sarḥad Ki Taṣnifi Khidmāt, (Lahore: Frontier Publishing Agency, Urdu Bazar), 108
- ↑ ۔ ہزاروی، مولانا عبدالرؤف، فضل الباری فی فقہ البخاری ،مکتبۃ القاسم، ناصر آباد، بہاولنگر Hazarvi, Mulana Abdul Ra’uwf, Faḍal ul Bari Fī Fiqh al Bukhārī, (Bahawal Nagar: Maktabah tul Qasim)
- ↑ ۔آپ بروز جمعہ دسمبر 1914ء کو جناب مہربان علی شاہ کے گھر اکوڑہ خٹک نوشہرہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ اس کے بعد پشاور کے مضافات میں کوہستان ملا سے صرف و نحو کی کتابیں پڑھیں۔ اس کے بعد مختلف اہل علم سے فنون کی کتابیں پڑھیں۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے 1356ھ میں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور 1357ھ میں دورہ حدیث پڑھ کر سند الفراغ حاصل کی۔ فراغت کے بعد اکوڑہ خٹک واپس آکر مدرسہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی اور وہاں تدریس شروع کی۔ والد ماجد نے آپ کو سلسلہ قادریہ اور نقشبندیہ میں خلافت دی۔ بعد ازاں آپ حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کے دست حق پر بیعت ہوئے۔ آپ 1978ء کو وفات پا گئے۔ علوی ، ڈاکٹر کرنل فیوض الرحمن، علمائے سرحد کی تصنیفی خدمات، فرنٹیئر پبلشنگ کمپنی، اردو بازار، لاہور، ص: 108 Alvi, Dr. Qari Colonel Fuyuz ur Rahman, ‘Ulama’ e Sarḥad Ki Taṣnifi Khidmāt, 35,36
- ↑ بخاری ، مولانا سید بادشاہ گل ،حمد المتعالی علی صحیح البخاری المعروف بہ دروس البخاری ، دارالتصنیف جامعہ اسلامیہ پاکستان،اکوڑہ خٹک، ص:3Bukhari, Mawlana Badshah Gul, Ḥamdul Muta’āli ‘Ala Ṣaḥiḥ al Bukhari Al Ma’ruwf Bi Duruws ul Bukhari, (Nowshera: Darut Tasnif, Jamia Islamiah, Akora Khatak), 3
- ↑ ۔ مولانا معین الدین خٹک 1920ء میں ضلع کرک کے بیسک چونترہ میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم مولانا عمل الدین اور مولانا محمد سلیم سے حاصل کی۔ اس کے بعد مدرسہ امداد الاسلام میرٹھ میں داخلہ لیا اور اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے مدرسہ شاہی مراد آباد چلے گئے اور یہاں دو سال میں علوم کی تکمیل کرتے ہوئے دورہ حدیث بھی کیا۔تعلیم سے فراغت کے بعد مختلف مدارس میں تدریس کرتے ہوئے1978ء میں جامعہ عربیہ گوجرانوالہ تشریف لے گئے اور اپنی وفات 1982ء تک شیخ الحدیث کی حیثیت سے درس حدیث دیتے رہے۔ خٹک، مولانا معین الدین ،معین القاری شرح صحیح البخاری ، ناشر: جامعہ عربیہ گوجرانوالہ، ص: 1-9 Khatak, Mulana Moeen ud Din, Mu’en ul Qari Sharaḥ Ṣaḥiḥ al Bukhari, (Gujranwala: Jamia ‘Arabiah), 1-9
- ↑ ۔ مولانا محمد عارف جامعہ عربیہ گوجرانوالہ کے نائب شیخ الحدیث ہیں اور مولانا معین الدین خٹک کے شاگرد ہیں
- ↑ ۔ خٹک، مولانا معین الدین ،معین القاری شرح صحیح البخاری ، ناشر: جامعہ عربیہ گوجرانوالہ، ص: 1-9 Khatak, Mulana Moeen ud Din, Mu’en ul Qari Sharaḥ Ṣaḥiḥ al Bukhari, 1-9
- ↑ ۔ ایضاً: 1:17,18Ibid., 1:17-18
- ↑ ۔ ایضاً: 1:25 Ibid., 1:25
- ↑ ۔آپ 1908ء کو زروبی ضلع صوابی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم علاقے میں حاصل کرنے کے بعد چھچھ، چارسدہ اور غورغوشتو میں بھی تعلیم حاصل کی۔ 1930ء میں دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے اور 1933ء میں وہاں سے فراغت حاصل کی۔ فراغت کے بعد مدرسہ رحیمیہ دہلی میں مدرس مقرر ہوئے۔ جامعہ اسلامیہ اکوڑہ خٹک میں بھی تدریس کی اور وہاں استاد حدیث بھی رہے اور شیخ الحدیث بھی ۔ آپ 6 جنوری 1983ء کی شام کو وفات پا گئے۔ علوی ، ڈاکٹر کرنل فیوض الرحمن ، مشاہیر علمائے سرحد ، مجلس نشریات اسلام ،ناظم آباد کراچی، ص: 519 Alvi, Dr. Qari Colonel Fuyuz ur Rahman, Mashaheer ‘Ulama’ e Sarḥad, (Karachi: Majlis Nashriyat e Islam, Nazim abad), 519
- ↑ ۔ انٹرویو ،مولانا محمود، فاضل دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک، صاحبزادہ مولانا محمد ابراہیم فانی، طالب علم ایم ایس سی ماس کمیونیکیشن، سمسٹر دوم، نمل اسلام آباد،مورخہ 12.01.2017 Interview, Mauwlana Maḥmood, Faḍil Jamia Ḥaqaniah, Akora Khatak, Ṣaḥibzada Mauwlana Ibrahim Fani, Student M.Sc. Mass Communications, 2nd semester, NUML,Dated:12/01/2017
- ↑ ۔آپ فروری 1916ء کو تحصیل صوابی کے پنج پیر نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم پنج پیر میں مولانا گل احمد سے حاصل کی۔ اس کے بعد مولانا حسین علی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان سے بہت سی کتابیں پڑھیں اور سلسلہ نقشبندیہ میں بیعت ہوئے۔ مولانا نصیر الدین غورغوشتوی سے دورہ حدیث پڑھا۔ اس کے بعد دارالعلوم دیوبند میں دوبارہ داخلہ لیا اور 1934ء کو دارالعلوم دیوبند سے سند فراغت حاصل کی۔ 1936ء میں حج کے لئے تشریف لے گئے اور وہاں مولانا عبیداللہ سندھی سے تفسیر اور شاہ ولی اللہ دہلوی کی کتب پڑھیں۔ 1957ء میں مولانا حسین علی کے تلامذہ سے مل کر جمعیت اشاعت التوحید والسنۃ کی بنیاد رکھی اور اس کے صوبائی امیر مقرر ہوئے۔ 1947ء کو دارالقرآن پنج پیر کی بنیاد رکھی اور 1973ء میں یہاں دورہ تفسیر کا آغاز کیا۔ 30مارچ 1987ء کو وفات پا گئے۔ علوی ، ڈاکٹر کرنل فیوض الرحمن ، مشاہیر علمائے سرحد ، مجلس نشریات اسلام ،ناظم آباد کراچی، ص: 548 Alvi, Dr. Qari Colonel Fuyuz ur Rahman, Mashaheer ‘Ulama’ e Sarḥad, 548
- ↑ ۔ پنج پیری ، مولانا محمد طاہر ،مخطوطہ التقریر للبخاری: ذاتی لائبریری پروفیسر ڈاکٹر محمد عمر،پشاور۔ Panjpiri, Mauwlana Muḥammad Tahir, Makhṭoṭah Al Taqreer lil Bukhari, (Peshawar: Personal Library, Prof. Dr. Muḥammad ‘Umar)
- ↑ ۔آپ 1880ء میں گواٹی باجوڑ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد صاحب اور علاقے کے دیگر علماء سے حاصل کی۔ پھر مدرسہ عبدالرب دہلی میں داخلہ لیا اور 1334ھ میں مولانا عبدالعلی اور مولانا شفیع دیوبندی سے دورہ حدیث پڑھ کر سند حاصل کی۔ فراغت کے بعد وطن واپس آئے اور باجوڑ میں تدریس کا آغاز کیا۔ 1989ء میں آپ کا وصال ہوا۔ Alvi, Dr. Qari Colonel Fuyuz ur Rahman, Mashaheer ‘Ulama’ e Sarḥad, 568, 569
- ↑ ۔ باجوڑی، مولانا عبدالخالق، غنیۃ القاری شرح صحیح البخاری(عربی) ، جلد اول، منظور عام پریس پشاور، 1970ء Bajori, Mauwlana ‘Abdul Khaliq, Ghunyatul Qari Sharaḥ Ṣaḥiḥ al Bukhari, Arabic, (Peshawar, Manẓoor ‘Aām Press, 1970), 1:1-20
- ↑ ۔آپ یکم فروری 1913ء کو شمس آباد اٹک میں پیدا ہوئے۔ ناظرہ قرآن مجید خلیفہ عبدالرحمان سے پڑھا اور اس کے بعد ابتدائی فنون کی کتب علاقہ کے نامور علماء سے پڑھیں۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے مظاہر علوم سہارنپور چلے گئے۔ دورہ حدیث کے لئے دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور یہاں سے سند فراغت حاصل کی۔ فراغت کے بعد جامعہ اسلامیہ اکوڑہ خٹک میں بھی صدر مدرس کی حیثیت سے تدریس کی ہے۔ آپ گورنمنٹ کالجز میں پروفیسر بھی رہے اور ڈی آئی خان، ایبٹ آباداور اٹک میں تدریسی خدمات انجام دی ہیں۔ 14 مئی 1997ء کو وفات پا گئے۔ حامد، پروفیسر حافظ بشیر حسین ،قاضی محمد زاہد الحسینی تصنیف و تالیف کے میدان میں، مکتبہ حامدیہ نواں شہر، ایبٹ آباد، ص:9-20 Ḥamid, Prof. Bashir Ḥusain, Qaḍi Muḥammad Zahid al Ḥusaini Taṣneef wa Taleef k Maidan me, (Abbottabad: Maktabah Ḥamidiah, Nawan Shehar), 9-20
- ↑ ۔ الحسینی، قاضی محمد ز اہد ، حیات مستعار، مرتبہ نثار احمد الحسینی، دارالارشاد، اٹک شہر، ص: 202 Ḥusaini, Qaḍi Muḥammad Zahid, Ḥayat e Musta’ār, Murattabah: Nisar Aḥmad al Ḥusaini, (Attock: Dār ul Irshād), 202
- ↑ ۔ الحسینی، قاضی محمد ز اہد ، جواہر البخاری، پارہ اول، دارالاشاعت والتبلیغ شمس آباد، ضلع اٹک، ص: 3 Ḥusaini, Qaḍi Muḥammad Zahid, Jawahir ul Bukharī, (Attock: Dar ul Isha’āt Wa Tableegh, Shamsabad), 3
- ↑ ۔آپ 1920ء کو رونیال تحصیل مٹہ ضلع سوات میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد اور علاقے کے دیگر نامور علماء کرام سے حاصل کی 1351ھ میں دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے اور 1358ھ میں سند فراغت حاصل کی۔ فراغت کے بعد قاری محمد طیب کے حکم پر ڈیرہ اسماعیل خان میں تدریس شروع کی۔ یہاں دو سال گزارنے کے بعد اپنے گاؤں رونیال تحصیل مٹہ میں تدریس شروع کی اور 25 سال تک درس دیتے رہے۔ اس کے بعد جب سیدو شریف سوات میں ریاستی دارالعلوم قائم ہوا تو وہاں مدرس مقرر ہوئے اور آٹھ سال تک یہاں درس دیتے رہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور نے آپ کو شیخ الفقہ والقانون مقرر کیا اور 22 سال یہاں درس و تدریس کرنے کے بعد بحیثیت پروفیسر ریٹائر ہوئے۔ آپ رمضان 1423ھ کے آخری عشرہ میں اپنے آبائی گاؤں میں وفات پا گئے۔ تذکرہ علمائے خیبر پختونخواہ: محمد قاسم بن محمد امین صالح، دارالقرآن والسنۃ،صوابی۔2015ء، ص :432۔ Muḥammad Qasim bin Muḥammad Amin Ṣaliḥ, Tazkira ‘Ulama’ e Khyber Pakhtunkhwa, (Ṣwabi, Dar ul Qur’ān Wa Sunnah, 2015), 432
- ↑ ۔ مولانا لطافت الرحمن،الأدب الجاری فی ابیات صحیح البخاری ،القاسم اکیڈمی، خالق آباد، نوشہرہ، 1998ء Mauwlana Laṭafat ur Raḥman, Al Adab ul Jari Fi Abyat Ṣaḥiḥ al Bukhārī, (Nowshera: Al Qasim Academy, 1998)
- ↑ ۔ عراقی، علامہ عبدالرشید ، مطبوعات القاسم اکیڈمی نمبر، القاسم اکیڈمی، خالق آباد، نوشہرہ، ص: 124 ‘Iraqi, Allama ‘Abdur Rasheed, Maṭbo’āt al Qasim Academy Number, (Nowshera: Al Qasim Academy), 124
- ↑ ۔آپ 1345ھ مطابق 1926ء کو اولندر، علاقہ کانا، تحصیل الپوری ضلع شانگلہ میں پیدا ہوئے۔ 1940ء میں خاندان سمیت شاہ پور منتقل ہو گئے۔ ابتدائی کتابیں قاضی میر افضل خان سے پڑھیں۔ 1365ھ میں دارالعلوم اسلامیہ سوات تشریف لے گئے اور 1368ء میں دارالعلوم سیدو شریف سوات میں داخلہ لیا اور 1372ھ میں سند فراغت حاصل کی۔ فراغت کے بعد درس و تدریس سے وابستہ ہوئے اور شاہ پور میں دارالعلوم تعلیم القرآن کی بنیاد رکھی۔ 1376ھ میں آپ نے شیخ غلام اللہ خان اور 1393ھ میں مولانا محمد طاہر پنج پیری سے دورہ تفسیر پڑھا۔ ہر سال شعبان و رمضان میں دورہ تفسیر پڑھایا کرتے تھے۔ اور یہ سلسلہ 46 سال تک جاری رکھا۔ 30 جنوری 2003ء کو آپ کی وفات ہوئی۔ احسان الحق، علماء شانگلہ اور ان کی علمی خدمات، الہدی پرنٹرز پشاور،2014ء،طبع اول، ص: 274 Iḥsan ul Ḥaq, ‘Ulama’ e Shangla aur Unki ‘Ilmi Khidmāt, (Peshawar: Al Huda Printers, 1st Edition, 2014), 274
- ↑ ۔ افضل السوانح: مولانا عبدالرحیم، ناشر :دارالعلوم تعلیم القرآن، شاہ پور، سوات، ص: 112 Mauwlana ‘Abdul Raḥeem, Afzal us Sawaniḥ, (Swat: Dar ul ‘Uluwm Ta’leem ul Qur’ān, Shah Pur,), 112
- ↑ ۔ آپ 1936ء میں سابق ریاست امب کے علاقہ شنگلی میں پیدا ہوئے،پرائمری پاس کرنے کے بعد درس نظامی کی تکمیل اگرور،علاقہ چچھ،مردان اور چارسدہ کے مدارس سے کی،کسی خاص منظم مدرسہ میں پڑھنے کا موقع نہیں ملا۔تاہم مولانا غلام اللہ خان اور مولانا طاہر پنج پیری سے تفسیر پڑھا،فراغت کے بعد مختلف مساجد و مدارس میں پڑھانے کے بعد مردان میں دارالعلوم تفہیم القرآن کی بنیاد رکھی۔سیاسی اعتبار سے جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے تھے اور پختونخوا کے صوبائی امیر بھی رہے۔ آپ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔آپ 18 مارچ مارچ2003 کو 67 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ محمد قاسم بن محمد امین صالح، تذکرہ علمائے خیبر پختونخوا،دارالقرآن والسنۃ،صوابی۔2015ء، ص :428-430 Muḥammad Qasim bin Muḥammad Amin Ṣaliḥ, Tazkira ‘Ulama’ e Khyber Pakhtunkhwa, 428-430
- ↑ ۔ مولانا گوہر رحمان ،مقدمہ درس البخاری، مکتبہ تفہیم القرآن مردان، ص:6 Mauwlana Gohar Raḥman, Muqaddimah Darsul Bukhari, (Mardan: Matabah Tafheem ul Qur’ān,), 6
- ↑ ۔مفتی نظام الدین شامزئی جولائی 1952ء کو ضلع سوات کے علاقے شامزئی کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد اور گاؤں کے دیگر علماء کرام سے حاصل کی۔ درس نظامی کی بعض کتب مدرسہ عربیہ مظہر العلوم مینگورہ سوات کے شیخ الحدیث مولانا عبدالرحمان اور مولانا فضل محمد سواتی سے پڑھیں اور مولانا محمد طاہر پنج پیری اور شیخ غلام اللہ خان راوالپنڈی سے دورہ تفسیر پڑھا۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے کراچی تشریف لے گئے آپ نے جامشورو یونیورسٹی سندھ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ فراغت کے بعد آپ نے بیس سال تک جامعہ فاروقیہ میں تدریس کی اور اس کے بعد جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی میں شیخ الحدیث اور رئیس الافتاء کے منصب پر فائز ہوئے۔آپ 52 سال کی عمر میں 30 مئی 2004ء کو کراچی میں شہید کر دئیے گئے۔ تذکرہ علمائے خیبر پختونخواہ: محمد قاسم بن محمد امین صالح، دارالقرآن والسنۃ،صوابی۔2015ء، ص :604 Muḥammad Qasim bin Muḥammad Amin Ṣaliḥ, Tazkira ‘Ulama’ e Khyber Pakhtunkhwa, 604
- ↑ ۔ درس بخاری: افادات مفتی نظام الدین شامزئی، ادارۃ النور بنوری ٹاؤن، کراچی، ص: 1 Shamzai, Mufti Niẓam ud Din, Darse Bukhari, (Karachi: Idarah al Noor,), 1
- ↑ ۔ ایضاً:محولہ بالا۔ Ibid.
- ↑ ۔آپ ضلع چارسدہ کے علاقہ پڑانگ میں 6 جنوری 1938ء بروز پیر پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم دارالعلوم نعمانیہ اتمانزئی اور دارالعلوم اسلامیہ چارسدہ میں حاصل کی۔ دورہ حدیث کے لئے جامعہ اشرفیہ لاہور چلے گئے اور 1376ھ میں سند فراغت حاصل کی۔ اس کے بعد مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ وہاں علوم کی چار سالہ تکمیل کے بعد وطن واپس آئے اور مختلف مدارس میں تدریس کرتے رہے۔ 1983ء میں اپنے مرشد مولانا فقیر محمد کے حکم پر جامعہ امداد العلوم پشاور چلے گئے اور وہاں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز رہے ا ور مدرسہ سے ملحق جامع مسجد درویش میں امام و خطیب بھی تھے۔ آپ سیاسی اعتبار سے جمعیت علمائے اسلام سے تعلق رکھتے تھے اور 1990ء سے 1993ء تک قومی اسمبلی کےممبر بھی رہے۔ آپ اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر بھی رہے ۔آپ 14 ستمبر 2007ء کو کسی نامعلوم شخص کی فائرنگ سے شہید کیے گئے۔ محمد قاسم بن محمد امین صالح،تذکرہ علمائے خیبر پختونخوا، دارالقرآن والسنۃ،صوابی۔2015ء، ص :449۔ Muḥammad Qasim bin Muḥammad Amin Ṣaliḥ, Tazkira ‘Ulama’ e Khyber Pakhtunkhwa, 494
- ↑ ۔ مولانا محمد حسن جان، برکۃ المغازی ،مکتبہ روضۃ القرآن، قصہ خوانی، پشاور، اشاعت سوم، 1402ھ Mauwlana Muḥammad Ḥasan Jan, Barakat ul Maghāzi, (Peshawar: Maktabah Roḍatul Qur’ān, 3rd Edition, 1402)
- ↑ ۔آپ 15 اکتوبر 1936ء کو میٹھا خیل نوشہرہ کلاں میں پیدا ہوئے۔ آپ بچپن ہی میں اپنے بڑے بھائی مولانا مجاہد کے ساتھ دارالعلوم دیوبند چلے گئے۔ حفظ قرآن مجید اور ابتدائی کتب دارالعلوم دیوبند میں پڑھیں۔ا س کے بعد خیر المدارس ملتان میں داخلہ لیااور دورہ حدیث کے لئے جامعہ اشرفیہ لاہور چلے گئے۔ فراغت کے بعد آپ 1954ء میں دوبارہ دورہ حدیث کے لئے دارالعلوم دیوبند چلے گئے۔ دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد مختلف جگہوں میں تدریس کی۔ 1964ء میں اسلامیہ کالجیٹ پشاور یونیورسٹی میں اسسٹنٹ ڈین مقرر ہوئے ۔ 1995ء میں پشاور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 14 جون 1997ء کو اسلامیہ کالج پشاور سے لیکچرر کی حیثیت سے ریٹائر ہوگئے۔ محمد قاسم بن محمد امین صالح، تذکرہ علمائے خیبر پختونخوا ،دارالقرآن والسنۃ،صوابی۔2015ء، ص :263 Muḥammad Qasim bin Muḥammad Amin Ṣaliḥ, Tazkira ‘Ulama’ e Khyber Pakhtunkhwa, 263
- ↑ ۔ انٹرویو مولانا شمس الرحمان نعمانی، صاحبزادہ مولانا عبدالدیان کلیم، میٹھا خیل نوشہرہ، مورخہ: 2017-01-09 Interview: Mauwlana Shams ur Raḥman, Ṣaḥibzadah Mauwlana ‘Abdul Dayyan Kaleem, Meetha Khel, Nowshehra, Dated: 09/01/2017
- ↑ ۔آپ کا اصلی گاؤں پیر پٹہ تھا لیکن پھر اوگی بازار میں مقیم ہو گئے۔ قبیلہ اخون خیل سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ نے خیبر پختونخواہ اور پنجاب کے مختلف مدارس میں تعلیم حاصل کی۔ آپ نے مولانا احمد علی لاہوری اور مولانا غلام اللہ خان سے دورہ تفسیر پڑھا۔ دورہ حدیث مولانا نصیر الدین غورغوشتوی اور مولانا عبدالحق اکوڑوی سے پڑھا۔ آپ گورنمنٹ ہائی سکول اوگی میں عربی معلم تھے۔ اسی دوران دارالعلوم سعیدیہ اوگی میں بھی استاذ حدیث کی حیثیت سے پڑھاتے رہے۔ آپ جامع مسجد حنفیہ اوگی کے امام و خطیب تھے۔ 21 فروری 2010ء کو وفات پا گئے۔ محمد قاسم بن محمد امین صالح، تذکرہ علمائے خیبر پختونخوا ، دارالقرآن والسنۃ،صوابی۔2015ء، ص :625,624 Muḥammad Qasim bin Muḥammad Amin Ṣaliḥ, Tazkira ‘Ulama’ e Khyber Pakhtunkhwa, 624,625
- ↑ ۔ انٹرویو مشتاق احمد بن مولانا ولی محمد، پی ایس ٹی، گورنمنٹ پرائمری سکول اوگی، مورخہ: 17-02-14، بمقام اوگی۔ Interview: Mushtaq Aḥmad Bin Mauwlana Wali Muḥammad, PST, GPS, Oghi, Dated:14/02/2017.
- ↑ ۔ ایضاً :محولہ بالا۔ Ibid.
- ↑ ۔ ایضاً :محولہ بالا۔ Ibid.
- ↑ ۔آپ 1914ء کو ضلع مانسہرہ کے ایک گاؤں کڑمنگ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے علاقہ میں حاصل کرنے کے بعد سیالکوٹ، ملتان اور گوجرانوالہ کے علماء سے استفادہ کیا۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے اور وہاں سے سند فراغت حاصل کی۔ فراغت کے بعد مدرسہ نصرت العلوم گوجرانوالہ میں تدریس شروع کی۔ 5 مئی 2009ء کو آپ وفات پا گئے۔ محمد قاسم بن محمد امین صالح ، تذکرہ علمائے خیبر پختونخوا ، دارالقرآن والسنۃ،صوابی۔2015ء، ص :511 Muḥammad Qasim bin Muḥammad Amin Ṣaliḥ, Tazkira ‘Ulama’ e Khyber Pakhtunkhwa, 511
- ↑ ۔احسان الباری لفہم البخاری، افادات مولانا سرفراز خان صفدر، مرتب حافظ رشید الحق عابد، مکتبہ صفدریہ نزد گھنٹہ گھر، گوجرانوالہ،1995ء۔ Ṣafdar, Mauwlana Sarfaraz Khan, Iḥsan ul Bari Li Fahm al Bukhari, Murattib: Ḥafiẓ Rasheed ul Ḥaq ‘Abid, (Gujranwala: Maktabah Ṣafdariah, 1995)
- ↑ ۔ آپ 1945ء کو باجوڑ ایجنسی سلارزئی گاؤں بڈمالی، قریب پشت میں پیدا ہوئے آپ نے فنون کی کتابیں مختلف مقامات پر جید علماء کرام سے پڑھیں۔تین سال تک مسلسل تفسیر قرآن مولانا محمد طاہر پنج پیری سے پڑھتے رہے۔ 1972ء میں دارالعلوم تعلیم القرآن راجہ بازار راولپنڈی سے دورہ حدیث کی سند حاصل کی۔ شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان اور مولانا عبدالرحمان مینوی آپ کے اساتذہ تھے۔ فراغت کے بعد نے پنج پیر میں دورہ حدیث پڑھانا شروع کیا۔ آپ مسلسل 37 سال تک دارالقرآن پنج پیر میں درس دیتے رہے۔ آپ مولانا محمد طاہر سے سلسلہ نقشبندیہ میں بیعت تھے اور ان کے خلیفہ بھی تھے۔ محمد قاسم بن محمد امین صالح، تذکرہ علمائے خیبر پختونخوا، دارالقرآن والسنۃ،صوابی۔2015ء، ص :564،563 Muḥammad Qasim bin Muḥammad Amin Ṣaliḥ, Tazkira ‘Ulama’ e Khyber Pakhtunkhwa, 563, 564
- ↑ ۔ مولانا عبدالرحمان نورستانی 1971ء میں مولانا گل محمد کے گھر پیدا ہوئے۔مختلف مقامات پر جید علماء کرام سے فنون کی کتابیں پڑھیں اور تفسیر شیخ عبدالسلام رستمی سے پڑھی۔ دورہ حدیث کے لئے جامعہ امام طاہر دارالقرآن پنج پیر میں داخلہ لیا اور سند حاصل کی۔ اس کے بعد باجوڑ میں تدریس شروع کی۔ آپ نے بہت سی کتب تالیف فرمائی ہیں جن میں سے ایک علمی کام "الکوثر الجاری" کی تعریب، تحقیق و تعلیق بھی ہے۔ مولانامحمد یار بادشاہ ،الکوثر الجاری علی مشکلات البخاری ،تعریب، تعلیق و تخریج: مولانا عبدالرحمان نورستانی، ناشر مولانا مسیح اللہ بن مولانا یار بادشاہ،باجوڑ، ص: 11-13 Mauwlana Muḥammad Yar Badshah, Al Kawthar ul Jari ‘Ala Mushkilat al Bukhari, Ta’reeb, Ta’leeq wa Takhreej, Mauwlana ‘Abdul Raḥman Nooristani, (Bajor: Mauwlana Masiḥ Ullah Publisher), 11-13
- ↑ ۔ ایضا ، ص: 5 Ibid., 5
- ↑ ۔آپ یکم شوال 1324ھ کو زروبی ضلع صوابی میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی۔ ، پھر دینی علوم کے حصول کے لئے مختلف علماء کرام سے کسب فیض کیا۔ 1952ء میں علاقہ چھچھ کے گاؤں غورغوشتو سے آپ کی فراغت ہوئی۔ فراغت کے بعد اپنے آبائی گاؤں میں ایک سال تک پڑھایا ا ور اس کے بعد دارالعلوم حقانیہ میں مفتی اور مدرس مقرر ہوئےاور تیس سال تک یہاں پڑھاتے رہے۔ 1996ء میں آپ پر فالج نے حملہ کیا اوراس کے بعد 15 سال صاحب فراش رہے اور 9 جولائی 2011ء کو اس دار فانی سے رخصت ہو گئے۔ محمد قاسم بن محمد امین صالح، تذکرہ علمائے خیبر پختونخوا، دارالقرآن والسنۃ،صوابی۔2015ء، ص :543 Muḥammad Qasim bin Muḥammad Amin Ṣaliḥ, Tazkira ‘Ulama’ e Khyber Pakhtunkhwa, 543
- ↑ ۔ زروبوی، مفتی محمد فرید، ہدایۃ القاری الی صحیح البخاری، مؤتمر المصنفین، دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک Zarawbawi, Mufti Muḥammad Farid, Hidayat ul Qari Ila Ṣaḥiḥ al Bukhari, (Akora Khatak, Mo’tamar ul Muṣannifeen, Darul ‘Uluwm Ḥaqqaniah)
- ↑ ۔ آپ 21 مارچ 1913ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے۔ مڈل پاس کرنے کے بعد ملتان کے مدرسہ نعمانیہ میں داخلہ لیا اور فنون کی کتب پڑھیں۔ 1934ء میں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا۔ 1938ء میں دورہ حدیث سے فراغت ہوئی ۔دارالعلوم دیوبند سے واپسی کے بعد دارالعلوم نعمانیہ صالحیہ میں تدریس شروع کی ۔تحریک ختم نبوت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 16دسمبر 2013ء کو 109 سال کی عمر میں وفات پائی۔ مولانا علاؤ الدین، الھام الباری فی تقریر صحیح البخاری، المزمل بک سنٹر، رحیم بازار ڈیر اسماعیل خان، ص: 20 Mauwlana, ‘Ala ud Din, Ilham ul Bari fi Taqreer Ṣaḥiḥ al Bukhari, (DI Khan: Muzzammil Book Center), 20
- ↑ ۔ ایضاً: ص: 22,23Ibid., 22,23
- ↑ ۔مولانا عبدالجبار باجوڑی جامعہ امام طاہر دارالقرآن پنج پیر صوابی میں شیخ الحدیث ہیں۔
- ↑ ۔ مولانا عبدالجبار، ھدیۃ الباجوری شرح الصحیح للامام البخاری ، جامعہ دارالعلوم تعلیم القرآن ،توحید آباد، ترخو ،باجوڑ ایجنسی،1:252 Mauwlana ‘Abdul Jabbar, Hadyat ul Bajori Sharaḥ Ṣaḥiḥ lil Imam Bukhari, (Tarkho Bajawar Agency: Darul ‘Uluwm Ta’leem ul Qur’ān), 1:252
- ↑ ۔ ایضا: محولہ بالا۔ Ibid.
- ↑ ۔مولانا عبدالحق 1952ء میں مولانا فضل حق کے گھر گاؤں ایراب، علاقہ ماموند، باجوڑ میں پیدا ہوئے۔ 1967ء میں پشاور کے ایک سکول میں داخل ہوئے اور ساتھ ساتھ دینی علوم (کابل مولوی صاحب) سے پڑھتے رہے۔1973ء میں دسویں کا امتحان پاس کیا۔ساتھ ساتھ دینی علوم کی کتب پڑھیں۔ 1978ء میں مدرسہ قاسمیہ پشاور سے دورہ حدیث کر کے سند حاصل کی۔ فراغت کے بعد سول سیکرٹریٹ پشاور میں ملازمت اختیار کی اور ساتھ ساتھ چند طلباء کو دینی کتب پڑھاتے رہے ہیں۔ باجوڑی، مولانا عبدالحق، فضل الباری فی خلاصۃ البخاری، مکتبہ فیض القرآن، صدف پلازہ، محلہ جھنگی، پشاور ، 1:29 Bajori, Mauwlana ‘Abdul Ḥaq, Faḍal ul Bari fi Khulasah al Bukhari, (Peshwar: Maktabah Faiḍul Qur’ān, Mohallah Jhangi), 1: 29
- ↑ ۔ ایضاً ، ص: 30۔ Ibid., 30
- ↑ ۔ ایضاً: ص: 23-25 Ibid., 23-25
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 3 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2018 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |