3
2
2018
1682060030498_799
107-128
https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/download/306/135
https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/view/306
Dissension Tafsīr Rūḥ Al Ma’Ānī Injunctions Intra-Faith Dialogue Dissension Tafsīr Rūḥ al Ma’ānī Injunctions Intra-faith Dialogue
تعارف:
دین اسلام کی تعلیمات اور اس کے خصائص کی کاملیت ہمیں اختلاف سے بچنے کا درس دیتی ہے ۔امت مسلمہ کا قطعی اور واضح احکام میں اختلاف نہیں ہے ۔ بلاشبہ اس طرح کا اختلاف رکھنے والا ملت اسلامیہ کا فرد ہی نہیں رہتا ۔مگر ایسے احکام جو فروعی اور مبہم ہیں ۔اُن میں اختلاف علم و فہم کے تفاوت کی وجہ سے ہوتا ہے ۔اس طرح کے اختلافات نصوص شرعیہ کے ابہام کی وضاحت کے سلسلے میں اجتہاد کا نتیجہ ہیں ۔دین اسلام میں ایسےاختلافات کی گنجائش اصول اجتہاد کی وجہ سے پائی جاتی ہے۔
اس سلسلے میں اہل رائے اپنی رائے کو حرفِ آخر قرار نہیں دیتے ۔ جیسا کہ اس کی وضاحت امام شافعی کے اس قول سے ہوتی ہے :میری رائے صحیح ہے اگرچہ غلطی کا امکان رکھتی ہے اور دوسرے کی رائے غلط ہے اگرچہ اس کے صحیح ہونے کا احتمال ہے[1] " چنانچہ وہ اختلاف جو اجتہادی ہو اور قرآن و حدیث کے متعین کردہ حدود کے اندر ہو قابل نفرت نہیں ۔بلکہ مجتہدین علماء کے تبحر علمی کی وجہ سے وسعت اور رحمت کا باعث ہے ۔اسلیے کہ اجتہاد کی وجہ سے شرعی احکام ہر زمانے کے تقاضوں کے ساتھ موافقت اختیار کرلیتے ہیں ۔اور اس اختلاف کے نتیجہ میں شرعی امور مختلف پہلوؤں میں تحقیق اور ترقی حاصل کرتے ہیں۔
علامہ آلوسی نے اس اختلاف کی وضاحت کچھ یو ں کی ہے : اس اختلاف سے صحابہ کرام اوراُن لوگوں کا اختلاف مراد ہے جو ان کے ساتھ اجتہاد میں شریک ہیں جیسے وہ مجتہدین جن کا اجتہاد قابل اعتبار ہے جو علمائے دین ہیں مبتدعین نہیں ہیں۔وہ لوگ جو ان مجتہدین کے درجہ تک نہیں پہنچ سکے ہیں، ان کے لیے مناسب نہیں ہے کہ دو مینڈھے ایک دوسرے کو اپنے سینگوں سے ماریں اور نہ ہی دو آدمی اس میں باہمی نزاع کریں۔[2]
صحابہ کرام کے اختلاف کے بارے میں امام شاطبی فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام نے دین کے احکام میں اختلاف ضرور کیا ہے لیکن ان کا یہ اختلاف ان کے باہمی افتراق اور گروہ بندی کا سبب نہیں بنا [3]۔ البتہ شریعت کے واضح احکام میں اختلاف افتراق اور فرقہ بندی ہے۔جب کہ اجتہادی امور میں دلیل کی بنیاد پر رائے کا اختلاف فرقہ بندی نہیں ہے ۔ لہذا ایسےاختلافات کم فہمی اور تعصب کی وجہ سے فرقہ واریت اور نفرت کا باعث نہیں ہونے چاہیے۔ایسے اختلافات سے غیر متعصب علماء نے امت مسلمہ کو بچانے کی خوب کوشش کی ہے جو افتراق کا باعث ہوں۔چونکہ ایسے علماء میں ایک نمایاں حیثیت کے حامل عالم دین تفسیر روح المعانی کےمصنف علا مہ شہاب الدین محمود بن عبد اللہ حسینی آلو سیؒ کی ہے۔ لہذا اس مختصر مقالہ میں دین کامل کی تعلیمات،خصائص اور اس میں واقع اختلاف پر روح المعانی کی روشنی میں بحث کی گئی ہے۔
علامہ آلوسی اور اُن کی تفسیر "روح المعانی" کا مختصر تعارف:
علا مہ آلو سی بغداد میں 1217ھ کو پیدا ہوئے[4]۔آپ کےتصانیف کی تعداد 21 تک ہے جن میں "روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی " کو زیادہ شہرت حاصل ہوئی[5]۔علامہ آلوسی بیک وقت مفسر ،محدث اور فقیہ تھے۔یہ تفسیر آپ کے تبحر علمی کا واضح ثبوت ہے ۔ یہ تفسیر نقلی روایات اورتفسیر بالرائےکا جامع ہے۔ مختلف تفاسیر اور علوم کو مد نظر رکھ کر علامہ آلوسیؒ نے یہ تفسیر لکھی ہے۔ تفسیر روح المعانی کے بارے میں محمد عبد العظیم زرقانی ؒ لکھتے ہیں :تفسیر روح المعانی کا شمار بلند پایہ ،ضخیم ترین اور جامع ترین تفاسیر میں ہوتا ہے۔جس میں اُنہوں نےسلف صالحین کی روایات کے ساتھ ساتھ متاخرین کےمقبول اقوال بھی جمع کیے ہیں[6]۔
ابوالبرکات نعمان بن محمودروح المعانی کے بارے میں لکھتے ہیں:روح المعانی دس ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے ۔یہ ایسی تفسیر ہے جس کی مثال ملنا مشکل ہے [7]۔ صاحب "يَتِيْمَةُ البَيان فِي شَيْءٍ مِن عُلومِ القُران " روح المعانی کے بارے میں لکھتےہیں:مواد کی کثرت ،واضح تعبیرات اور تحریر کی عمدگی میں مذکورہ تفسیر علامہ ابن حجر کی "فتح الباری "کے مانند ہے[8]۔
آیات قرآنیہ کی تفسیرو تشریح کے سلسلے میں عبارات اور اشارات سے استفادہ کرتے ہیں۔آیات کونیہ کی وضاحت عصری علوم کے ذریعے سے کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ قرآن واحادیث اور عصری علوم کے درمیان مطابقت پیدا ہو۔غیر مستند روایات و حکایات کی سختی سے تردید کرتے ہیں ۔ تحقیق کے بغیر رائے قائم نہیں کرتے ۔البتہ مختلف آراء و نظریات نقل کرکے غلط آراء و نظریات کی ابطال کرتے ہیں ۔
متقدمین کی تفاسیرسے عبارات پیش کرکے ان کاناقدانہ جائزہ بھی لیتے ہیں ۔ آپ مختلف آیات اور جملوں کا باہمی تعلق اور شان نزول بیان کرتے ہیں۔ جن مقامات پر انہوں نے ضرورت محسوس کی مفردات کی لغوی تحقیق کرکےکلام عرب سے استشہاد کرتے ہیں ۔تفسیرمیں اکثرنحوی صرفی مسائل سے بحث کرتے ہیں ۔اصل تفسیر کے علاوہ صوفیانہ معانی پر بھی اظہار خیال کرتے ہیں۔اختلافی فقہی مسائل میں دلائل کے بیان میں غیر متعصب رہتے ہیں۔
دین کے لغوی اور اصطلاحی معنی:
امام راغبؒ نے "الدین "کے معنی اطاعت ،جزاء،اور شریعت کے ذکر کیے ہیں ۔اور وضاحت کی ہے کہ الدین ملت کا مترادف ہے لیکن یہ شریعت کی پابندی کے معنی میں مستعمل ہوتاہے [9]۔امام بخاری نے "باب ما جاء فی الفاتحہ" میں "الدین"کی وضاحت میں فرمایاہے: "الدِّينُ الْجَزَاءُ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرّ" [10]یعنی دین سے مراد بدلہ ہے چاہے بھلائی کا ہو یا برائی کا ۔
شیخ احمد دیداد دین کی اصطلاحی معنی کے بارے میں فرماتے ہیں :دین سے مراد جامع نظام زندگی اور کامل نظام حیات ہے۔ اس طرح دین ہماری پوری زندگی پر محیط ہے ۔اس میں تمام شعبہ ہائے زندگی ،عقائد ،عبادات،اخلاقی معاشرت،معیشت،اور سیاسی امور شامل ہیں[11]۔
اختلاف کے لغوی اور اصطلاحی معنی :
اختلاف باب افتعال سے ہے اور اس کا معنی ہے گفتگو یا معاملہ میں ایسا اسلوب اختیار کرنا جو دوسروں کا نہ ہو ۔ چونکہ اس سے عموما ًجھگڑا پیدا ہوتا ہے اس لئے اختلاف نزاع کے معنی میں بھی ا ستعمال ہونے لگا [12]۔
محمد عمیم احسان اختلاف کے اصطلاحی معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دو فریقوں کے مابین حق کے اثبات اور باطل کے ابطال کے لیے جو مباحثہ ہو، اختلاف کہلاتا ہے[13]۔
امام راغب اصفہانی نے اختلاف کی تعریف کچھ یوں کی ہے
"أن يأخذ كلّ واحد طريقا غير طريق الآخر في حاله أو قوله" [14]
"کہ ہر کوئی ایسا راستہ اختیار کرے جوکردار کے لحاظ سے یا گفتار کے لحاظ سے دوسرے کا نہ ہو ۔"
دین کامل کے نمایاں خصائص :
۱: اسلامی بھائی چارہ
دین اسلام کی تعلیمات اور اس کے کامل خصائص ہمیں باہمی اختلاف سے بچنے کا درس دیتے ہیں۔ مسلمانوں کےعروج کا بنیادی نکتہ اتحاد واتفاق رہاہے ۔مسلمانوں کی ماضی کی عظمت رفتہ اس کا واضح ثبوت ہے ۔اس کے برعکس اُن کے زوال کا سبب باہمی اختلاف ہے ۔ رسول کریم ﷺ کی صحبت میں رہ کر تیس سال کے عرصے میں صحابہ کرامؓ دنیا کے لیے وحدت کی مثال بن گئے۔ہجرت مدینہ کے فورًا بعد آپﷺ نے اسلامی بھائی چارہ قائم فرمایا ۔اس طرح مسلمان تمام امتیازات سے آزاد ہو کر دین اسلام کے ذریعے بھائی بھائی بن گئے۔قرآن کریم میں اس کو اللہ تعالیٰ کی نعمت سے تعبیر کیا گیا ہے:
"وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ" [15]
"اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھامے رکھو،اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو،اور اللہ نے تم پر جو انعام کیا ہے اسے یاد رکھو ایک وقت تھا جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے،پھر اللہ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اللہ کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے ،اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پرتھے ،اللہ نے تمہیں اس سے نجات عطا فرمائی ۔اس طرح اللہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں کھول کھول کرواضح کرتا ہے ، تاکہ تم راہ راست پر آجاؤ ۔"
اس کی تفسیر میں علامہ آلوسیؒ فرماتے ہیں:
"اس نعمت میں سے (ایک اللہ تعالیٰ کی ) ہدایت ہے اور اسلام کی توفیق ہے جو تمہاری باہمی محبت کا سبب بنا (اور جس کی وجہ سے تمہاری) دشمنیاں ختم ہوگئیں ۔ممکن ہے کہ اس سے مراد وہ حالت ہو جو اللہ تعالیٰ نے اس قول میں بیان فرمایا "إذ كنتم أعداء" یعنی جاہلیت میں "فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ" یعنی اسلام کے ذریعہ سے تمہارے دلوں میں محبت پیدا فرمائی ۔"[16]
"فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا" کی تفسیر میں علامہ آلوسی لکھتے ہیں:
"اللہ تعالیٰ کی نعمت کے سبب حالت یہ ہوگئی کہ تم ایک دوسرے کے بھائی بن گئے۔اخوان "اخ" کی جمع ہے ۔تحقیق کے مطابق "اخوان" کی جمع صداقت کے لئے استعمال ہوتی ہے۔اتقان میں ہے کہ نسبی بھائیوں کے لئے "اخوۃ" کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ابن فارس کہتے ہیں ٍصداقت کے بھائیوں کے لئے "اخوان" کا لفظ استعمال ہوتاہے ۔لیکن دوسرے لوگوں نے اس کی مخالفت کی ہے اور صداقت کے بھائیوں کے لئے (مثال) "انماالمؤمنون اخوۃ"[17]پیش کی ہے ،اور نسبی بھائیوں کی مثال: "أَوْإِخْوانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوانِهِنَّ"[18] پیش کی ہے" اس سے معلوم ہوا کہ دونوں کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔" [19]
علامہ آلوسیؒ فرماتے ہیں :
"بعض کے نزدیک اس سے مراد اوس اور خزرج کی جنگیں ہیں جو 120 سال تک چلتی رہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد مشرکین عرب کی طویل جنگیں ہیں ۔حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعے سے ان کے درمیان محبت فرمائی (جس کی وجہ سے ) ان کے باہمی کینے ختم ہوگئے۔"[20]
2: دعوت کی عمومیت:
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام بنی نوع انسان کے لئے اللہ تعالیٰ کےآخری نبی ہیں۔آپ ﷺ سےپہلے جتنے بھی انبیاء آئے وہ ایک خاص جگہ، وقت اور قوم کے لئے بھیجے گئے تھے۔ ہر نبی کی دعوت صرف ایک خاص قوم اور علاقے تک محدود ہوتی جس کی تصریح سورۃ الاعراف آیت نمبر 84 اور 65 میں موجود ہے ۔ جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات دنیاکی مہذب اورغیرمہذب اقوام کے لیےیکساں ہدایت ہیں۔جس میں رنگ نسل اورجغرافیائی حدود اوروقت کی کو ئی قید نہیں۔جیسے ارشادِ باری تعالیٰ ہے: "وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا"[21]اور ہم نے تجھے تمام ہی لوگوں کے لئے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کربھیجاہے"۔
علامہ آلوسی نے عبداللہ بن عباسؓ کی تفسیر نقل کی ہے :"إلى العرب والعجم وسائر الأمم"[22] کہ آپﷺ عرب عجم اور تمام امتوں کی طرف بھیجے گئے۔اسی طرح مجاہدؒ فرماتے ہیں :تمام انسانوں کی طرف مبعوث ہوئے [23]۔چنانچہ آپ ﷺ کی زندگی ہی میں سیدنا بلال حبشی ،سیدنا صہیب رومی ،اور سیدنا سلمان فارسی کو صحبت کا شرف ملا ۔ "وارسلت إلى الخلق كافة وختم بى النبيون[24]" یعنی میں تمام لوگوں کے لئے بھیجا گیا ہوں اور مجھ پر انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ اختتام تک پہنچا"۔
نئےنبی اوردین کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے ۔ جب نبی کی سیرت اور دین ردو بدل کا شکار ہوتا ہے۔اور اس کے احکامات ناقابل عمل ہوجاتے ہیں۔ لیکن قرآن کریم اس بات سے مبرا ہے کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لیا ہے۔جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے: "إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ"[25] بلا شبہ ہم نے اس ذکرکو نازل کیا ہے اور ہم خود ہی اس کومحفوظ رکھنے والے ہیں"۔ چونکہ یہ قرآن کریم قیامت تک ناقابل تنسیخ ہدایت نامہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت وبقاء کا خصوصی انتظام فرمایا۔ اور اسلام کے ذریعے انسانوں کی انفرادی ،اجتماعی ،معاشرتی روحانی اور معاشی غرض زندگی کی ہر پہلو سے متعلق راہنمائی کی ہے۔
علامہ آلوسی "تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ"[26] کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"يدخل فيه العقائد والقواعد بالدخول الأولى، وذلك مستمر إلى البعث وما بعده"[27]
"اس میں ہر چیز کی وضاحت ہے جس میں عقائد اور قوانین اول درجے میں شامل ہیں ۔جی اٹھنے اور اس کے بعد کے امور بھی شامل ہیں"
نبی کریم ﷺ نے ایک حدیث میں اس کی خوب وضاحت فرمائی ہے:
"قد تركتكم على البيضاء ليلها كنهارها لايزيغ عنها بعدى إلا هالك"[28]
"میں تم کو ایک روشن راستہ پر چھوڑ تاہوں جس کی روشنی کا حال یہ ہےکہ اس کی رات بھی دن کے مانند ہے۔اس سے نہیں ہٹے گامگر ہلاک ہونے والا"۔
اس روشن راستے سے مراد شریعت کے عطاء کردہ اصول ہیں ۔پھر یہی بنیادی اصول ملحوظ رکھ کر ایک مجتہد یا جماعت مجتہدین ان کی روشنی میں موجودہ اور آنے والے مسائل کا حل پیش کرتے ہیں ۔ارشاد نبوی ﷺ ہے:
"إِذَا حَكَمَ الحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ"[29]
"اگر حاکم نے درست اجتہاد کیا تو اس کے لیے دو اجر ہیں اور اگر غلط اجتہاد کیا تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔"
۳: تعلیمات کی جامعیت:
اسلام کی تعلیمات تمام شعبہ ہائے زندگی پر محیط ہیں ۔بادشاہ،گدا،متوسط اور کمزور درجے کے حامل افراد سب کو ان کےفرائض اور حقوق سے باخبر رکھتی ہیں ۔یہ تعلیمات غم ،خوشی اور اضطرار کی حالت میں انسانوں کی راہنمائی کرتی رہتی ہیں ۔اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر معاشرے کے غرباء اور دولت مندوں کے مابین اختلافات کا خاتمہ ہوتا ہے ۔ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے نیک جذبات اور احساسات پیدا ہوتے ہیں۔ جو بھی انسان اسلامی تعلیمات کے پیش کردہ نمونہ کے مطابق اپنے آپ کو سنوار دے ۔وہ معاشرے کے لئے فرشتہ رحمت بن جاتا ہے ۔اس لئے کہ اسلام کسی بھی انسان کے ساتھ غیر عادلانہ رویے کی ہر گز اجازت نہیں دیتا۔ دین اسلام نے دین ودنیا سے متعلق ہمہ جہت اصول عطا کئے ہیں۔اور ان اصول کے ذریعے جزئیات اور فروعات کی تشکیل ہوئی ۔اور تا قیامت پیش آمدہ مسائل ان اُصول کی روشنی میں حل ہوں گے۔
تفصیل بالا سے یہ واضح ہوا کہ دین اسلام نے قومیت کی بنیاد پر اختلاف ختم کرکے بھائی چارہ میں بدل دیا۔مختلف قومیتوں کو صرف پہچان کا ذریعہ قرار دیا ۔
لسانی اختلافات یعنی عربی یا عجمی ہونے کو فضیلت یا ذلت کا معیار نہیں ٹھہرایا۔معاشرے میں موجود ادنیٰ سے ادنیٰ اور اعلیٰ سے اعلیٰ سب کے حقوق کا لحاظ رکھا۔مساوات اور عدل وانصاف کی انتہا کردی کہ خلیفہ وقت کو بھی عدالت میں کھڑا کیا ۔ الغرض ہر قسم کا وہ اختلاف جو تعصب ،افتراق اور دشمنی کا سبب تھا ، دین اسلام نے اس کی حیثیت ختم کردی۔
روح المعانی کی روشنی میں احکام دین میں اختلاف
قرآن واحادیث میں باہمی اختلاف سے بچنے کی سخت تاکیدا ت اور وعیدات آئی ہیں۔ اس بارے میں علامہ آلوسیؒ نے یہ حدیث نقل کی ہے کہ بنی اسرائیل کی ہلاکت کےا سباب زیادہ سوالات اور اپنے ابنیاء کے بارے میں اختلافات ہیں[30]۔ اور آپﷺ کا یہ ارشاد بھی نقل فرمایا ہے کہ تم اختلاف نہ کرو ورنہ تمہارے دلوں میں کجروی آجائے گی ۔[31]
علامہ آلوسیؒ امام سبکیؒ کے حوالے سے فرماتے ہیں:
"اگر چہ یہ حدیث صفوں کو سیدھا کرنے کے بارے میں وارد ہے لیکن الفاظ کے عموم کا اعتبار ہوتا ہے نہ کہ سبب (شان ورود ) کی خصوصیات کا"[32]
یہ وعیدات اور تاکیدات قطعی اور واضح احکام کے ساتھ خاص ہیں یا پھر ان اختلافات کے ساتھ جو افتراق کے باعث ہیں۔ البتہ ان اختلافات میں ایک قسم کے اختلاف کو استثناء حاصل ہے ۔اس کی وضاحت علامہ یوں فرماتے ہیں :
"فالاستثناء في قوله سبحانه : إلا من رحم ربك متصل على الأول وهو الذي اختاره أبو حيان وجماعة وعلى الثاني منقطع حيث لم يخرج من رحمة الله تعالى من المختلفين كأئمة أهل الحق فإنهم أيضا مختلفون فيما سوى أصول الدين من الفروع"[33]
"اس لئے ایک قول کے مطابق "إلا من رحم ربك"[34] میں استثناء متصل ہے جو کہ ابو حیان اور ایک جماعت نے اختیار کی ہے ۔ جبکہ دوسرے قول کے مطابق منقطع ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سےاختلاف کرنے والے اہل حق خارج نہیں ہوں گے ۔کیونکہ وہ بھی اصول دین کے سوا فروعی مسائل میں اختلاف کرتے ہیں۔" [35]
دین اسلام میں جس اختلاف کا جواز ملتا ہے وہ حقیقت میں اس دین کو جمود سے بچانے کا ایک راستہ ہے ۔وہ راستہ صرف مجتہدین علماء کے لئے کھلا ہوا ہے۔وہ اجتہاد کا راستہ ہے ۔ جس کی شرائط وآداب کو ملحوظ رکھ کر مجتہدین ایک دوسرے کے ساتھ دلائل کی بنیاد پر اختلاف کرسکتے ہیں ۔
تفسیر روح المعانی کی روشنی میں اختلاف کے اقسام:
تفسیر روح المعانی میں اختلاف کی تین قسمیں بیان ہوئی ہیں ۔ ایک اصول (نظریات )میں اختلاف ، دوم آراء کا اختلاف ہے ۔سوم فروع کااختلاف ہے [36]۔
اصول میں اختلاف :
اصول اصل کی جمع ہے اور اس کا لغوی معنی "جڑ"ہے[37]اصل لغت میں اس چیز کو کہتے ہیں کہ جس پر کسی دوسری چیز کی بنیاد ہو [38]۔ امام راغب اصفہانی نے اس کی تعریف یوں کی ہے:
"أصل الشئ قاعدتها التى لوتوهمت مرتفعة لارتفع بارتفاعه سائره لذلك"[39]
"کسی چیز کی اصل اس کی بنیاد کو کہتے ہیں کہ اگر اس کی نفی ہو جائےتو وہ چیز بالکل ختم ہوجائےگی۔"
یہاں پر اصول سے مراد دین اسلام کی تعلیمات کا پہلا بنیادی حصہ ہے ۔اصول دین مختصر مگر جامع ،ہمہ گیر اور ابدی نوعیت کے ہوتے ہیں ۔یہ وہ بنیادی تصورات ہیں جوذہن میں راسخ ہونے کے بعد انسان کو شوق و محبت کے ساتھ دیگر احکامات دین کا پابند بنا دیتے ہیں ۔اصول میں کوئی مجتہد ردو بدل کا مجاز نہیں ہے، ہاں فروع کے سلسلے میں اس سے راہنمائی حاصل کرسکتا ہے ۔کیونکہ اس میں ہر زمان ومکان میں انسانوں کی رہنمائی کے لئے روشنی موجود ہوتی ہے ۔
دین اسلام میں اصول کے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ۔ امت مسلمہ کابھی قطعی اور واضح احکام میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ بلاشبہ اس طرح کا اختلاف رکھنے والا ملت اسلامیہ کا فرد ہی نہیں رہتا ۔امت محمدیہ ﷺ کو اُصول کا بالکل پابند بنایا گیا ہے ۔
تعلیمات اسلام کی روسے اصول سب ادیان کے ایک رہےہیں ۔سیدناآدم سے لے کر محمدﷺ تک انبیاء کرام آتے رہے اور ان پر وقت کے تقاضوں کےتحت نئے فروعی احکام نازل ہوتے رہے اور اصل دین ایک ہی رہا۔لیکن مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے موسوم ہوتا رہا ۔اس حقیقت کی طرف قرآن کریم نے ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے:
"شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلاَ تَتَفَرَّقُوا فِيهِ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاء وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ" [40]
"اس نے دین میں تمہارے لئے وہی راہ مقرر کی جو نوح سے کہی تھی ٗاور جو ہم نے حکم بھیجا تم کو ٗاور جو کہہ دیا ہم نے ابراہیم کو اور موسیٰ کو اور عیسیٰ سے یہ کہ دین کو قائم کرو اس میں تفرقہ نہ ڈالوٗمشرکوں کو جدھر تو بلاتا ہے وہ ان پر گراں گزرتا ہےٗاور خدا اپنی طرف جس کو چاہتا ہے چن لیتا ہے اور اپنی طرف اس کو راہ دیتا ہے(اس کی طرف) رجوع ہوتا ہے"۔
اس کی تفسیر میں علامہ آلوسیؒ فرماتے ہیں :
"أن بيان نسبته إلى المذكورين عليهم الصلاة والسلام تنبيه على كونه دينا قديما أجمع عليه الرسل ، والخطاب لأمته عليه الصلاة والسلام أي شرع لكم من الدين ما وصى به نوحا ومن بعده من أرباب الشرائع وأولي العزم من مشاهير الأنبياء عليهم الصلاة والسلام وأمرهم به أمرا مؤكدا ، وتخصيص المذكورين بالذكر لما أشير إليه من علو شأنهم وعظم شهرتهم ولاستمالة قلوب الكفرة إلى الاتباع لاتفاق كل على نبوة بعضهم واختصاص اليهود بموسى عليه السلام والنصارى بعيسى عليه السلام وإلا فما من نبي إلا وهو مأمور بما أمروا به من إقامة دين الإسلام وهو التوحيد وما لا يختلف باختلاف الأمم وتبدل الأعصار من أصول الشرائع والأحكام"[41]
"اس دین کی نسبت تمام انبیاء کی طرف کی گئی یہ اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپﷺ کا وہی سابقہ وقدیم دین ہے جس پر تمام انبیاء کا اتفاق رہا ہے اور خطاب دراصل آپﷺ کی امت سے ہے ۔یعنی اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے لئے وہی دین مقرر فرمایا جس کا انہوں نے سیدنا نوح ؑ کو حکم فرمایا تھا۔ اور سیدنا نوح ؑ کے بعد ارباب شریعت اور اولو العزم مشہور انبیاء تھے سب کو یہی تاکیدی حکم ہوا تھا۔ یہاں پر عالی شان اور مشہور ہونے کی بناء پر بعض انبیاء کا خصوصی تذکرہ کیا گیا ۔اور آپﷺ کے اتباع کی طرف کافروں کے دل راغب کرنے کے لئے بعض انبیاء کا تذکرہ کیا گیا ۔چونکہ بعض انبیاء کی نبوت پر سب کا اتفاق رہا ہے ۔اور یہود نے سیدنا موسیٰؑ کو خصوصی طور پر نبی مانا ۔اور نصاریٰ نے سیدنا عیسیٰ ؑ کو خصوصی طور پر نبی مانا،ورنہ تمام انبیاء کرام کودین اسلام کی اقامت کا حکم دیا گیا تھا اس سے مراد وہ امور ہیں جن پر تمام امتیں متفق رہی ہیں یعنی اصول شریعت اور احکام جو زمانے کی تبدیلی کے ساتھ بھی سب میں متفق رہے ہیں۔"
نبی کریم ﷺ نے اس طرف اشارہ فرماتے ہوئے فرمایا ہے:
"وَالْأَنْبِيَاءُ إِخْوَةٌ لِعَلَّاتٍ أُمَّهَاتُهُمْ شَتَّى وَدِينُهُمْ وَاحِدٌ"[42]
"تمام انبیاء ایسے بھائی ہیں، جن کا باپ ایک ہے اور مائیں مختلف ہیں اور ان کا دین ایک ہے۔"
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :
"ومعنى الحديث أن أصل دينهم واحد وهو التوحيد وان اختلفت فروع الشرائع"[43]
اور حدیث کا مطلب یہ ہےکہ انبیاء کرام کا اصل دین ایک ہے اور وہ توحید ہے اگرچہ ان کی شریعت میں فروع مختلف ہوں۔"
لیکن جن لوگوں نےاصول دین ہی میں اختلاف کیا تو ان کے لئے سخت سزا کی وعید ہے ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
"اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جن کے پاس کھلے کھلے دلائل آچکےتھے،اس کے بعد بھی انہوں نے آپس میں پھوٹ ڈالی اور اختلاف میں پڑ گئے ۔ایسے لوگوں کو سخت سزا ہوگی"[44]
یہ اختلاف کرنے والے کون لوگ تھے اس بارے میں علامہ آلوسی نے حسنؒ اور ربیعؒ کا قول نقل کیا ہے کہ ان سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں [45]۔ اس آیت کریمہ کے ضمن میں علامہ آلوسی نے سیدنا انس کی یہ روایت نقل کی ہے :
"بنی اسرا ئیل اکہتر فرقوں میں بٹ گئے تھے (ان میں سے ) ستر فرقے ہلاک (گمراہ) ہوئے اور ایک فرقے نے فلاح پائی ۔بے شک میری اُمت ضرور بہتر فرقوں میں بٹ جائے گی ۔(ان میں سے) اکہتر گروہ ہلاک (گمراہ )ہوجائیں گے باقی ایک ہی گروہ نجات پائے گا۔"[46]
ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب آپﷺ سے پوچھا گیا :یا رسول اللہ!یہ نجات پانے والے کون لوگ ہیں ؟تو آپﷺ نے فرمایا یہ الجماعۃ ہے [47]
دوم آراء اور جنگی تدبیروں میں اختلاف :
اولو الامر اور امورِ جنگ کے بارے میں اختلاف:
اولو الامر کون ہیں: یہاں پر اولو الامر کی وضاحت کی جاتی ہے:
اس بارے میں علامہ آلوسی فرماتے ہیں :
"واختلف في المراد بهم فقيل:أمراء المسلمين في عهد الرسول صلى الله عليه وسلم وبعده ويندرج فيهم الخلفاء والسلاطين والقضاة وغيرهم"[48]
"اس بارے میں اختلاف ہے ایک قول کے مطابق اس سے آپﷺ کے دور میں یا ان کے بعد امراء مراد ہیں جس میں خلفاء ، بادشاہ اور قاضی شامل ہیں"
جب کہ دوسرے قول کے مطابق اس سے اہل علم مراد ہیں۔علامہ آلوسیؒ فرماتے ہیں : کئی مفسرین نے ابن عباس،جابر بن عبد اللہ ، مجاہد،حسن،عطاء اور ایک جماعت سے یہ (قول )نقل کیا ہے جبکہ ابو العالیہ نے اس کے لئے اللہ تعالٰی کے اس قول: "ولو ردوه إلى الرسول وإلى أولي الأمر منهم لعلمه الذين يستنبطونه منهم"[49]سے استدلال کیا ہے کہ احکام کے استنباط کرنے والے اور استخراج کرنے والے تو علماء ہی ہیں۔
علامہ آلوسیؒ اولی الامر کے بارے میں مفسرین کے اقوال نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
"وحمله كثير وليس ببعيدعلى ما يعم الجميع لتناول الاسم لهم لأن للأمراء تدبير أمر الجيش والقتال ، وللعلماء حفظ الشريعة وما يجوز مما لا يجوز"[50]
" اور بہت سے مفسرین نے اس کو عموم پر حمل کیا ہے کیونکہ یہ نام ان سب کو شامل ہے اور یہ بعید بھی نہیں کیونکہ امراء کے ذمے لشکروں اور جنگوں کی منصوبہ بندی ہے اور شریعت، جائز وناجائز کی حفاظت کا ذمہ علماء کا ہے۔"
اولی الامر اور عام لوگوں کے مابین امور دین میں جھگڑا ہونے کی صورت میں آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
" اس میں تمام مؤمنوں کو مطلقاً عام خطاب ہے اور "شئیء"مابعد کی دلیل کی وجہ سے امور دین کے ساتھ مخصوص ہےپس معنیٰ یہ ہے: اے ایمان والوں اگر تم اورتم میں سے اولی الامرکا امور دین میں سے کسی مسئلہ پر جھگڑا ہو تو اس معاملے میں رجوع اللہ کی طرف کرو یعنی اللہ کی کتاب کی طرف اور رسول کی طرف یعنی اس کی سنت کو ۔"[51]
البتہ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اولی الامر کی اطاعت غیر مشروط نہیں بلکہ اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کے ساتھ مشروط ہے ۔امراء اگر شریعت کے مطابق احکام صادر کررہے ہوں اور فقہاء شریعت کے موافق احکام بیان کررہے ہوں تب ان کی اطاعت ہوگی ۔ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں فرمایا:
"تم پر اگر ایک غلام بھی امیر مقرر کیا گیا ہو جو تمہاری قیادت اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق کر رہا ہو تو اس کی بات سنو اور حکم بجا لاؤ۔"[52]
علامہ آلوسیؒ فرماتے ہیں :ان(اولی الامر ) کی اطاعت اس وقت تک واجب ہے جب تک وہ حق پر قائم ہو پس شرع کی مخالفت میں ان کی اطاعت واجب نہیں [53]۔
اس ضمن علامہ آلوسیؒ نے ایک روایت نقل کی ہے :
"آپﷺ نے ایک سریہ روانہ فرمایا جس پر آپﷺ نےایک انصار ی کو امیر مقرر فرمایا اور اس کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کا فرمایا، پس انہوں نے امیر کو کسی چیز کی وجہ سے غصہ کیا تو اس نے حکم دیا کہ اس کے لئے لکڑی جمع کرو سو انہوں نے لکڑیاں جمع کیں پھر آگ جلانے کا حکم دیا تو انہوں نے آگ جلائی ۔پھر کہنے لگے کیا آپﷺ نے تمہیں یہ حکم نہیں فرمایا تھا کہ تم میری بات سنو گے اور میری اطاعت کرو گے؟، تو انہوں نے عرض کیا: ہاں! کیوں نہیں، تو اس نے کہا کہ اس آگ میں داخل ہوجاؤ تو وہ آپس میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور کہا کہ ہم تو آگ سے بھاگتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی طرف آئے ہیں ۔اس پر اس کا غصہ ختم ہوا اور آگ بھجادی گئی ۔جب سریہ والے آپﷺ کے پاس آئے تو آپﷺ کو یہ قصہ سنادیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اگر آگ میں داخل ہوجاتے تو کبھی بھی اس سے باہر نہ ہوجاتے اطاعت تو صرف معروف میں ہے۔"[54]۔
آراء کے بارے میں اختلاف :
آراء کے اختلاف کے سلسلے میں علامہ آلوسیؒ نے یہ حدیث نقل کی ہے :
"آپﷺ جب سیدنا ابو موسیٰ ؓ اور سیدنا معاذؓ کو یمن کی طرف بھیجنے لگے تو فرمایا : تم دونوں ایک دوسری کی بات مان لیا کرو اور ایک دوسرے سے اختلاف نہ کرو۔"[55]
اس حدیث میں آپﷺ نے صحابہ کرام کو اختلاف سے بچنے کی تاکیدکی ہے ۔
غزوہ احد میں مسلمانوں کو رسول کریم ﷺ کے حکم کی منشاء کا فہم نہ ہونے کی وجہ سے باہمی اختلاف ہوا ۔اور اسی اختلاف کی وجہ سے مسلمانوں کو عزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔چنانچہ علامہ آلوسیؒ فرماتے ہیں :
"جب تیر اندازوں نے دیکھا ( مسلمان فتح یاب ہوگئے ) تو سوائے چند لو گوں کے باقی سب لوٹ کر (اتر کر) آئے اور آکر لشکر میں داخل ہوئے ۔انہوں نے حکم کی مخالفت کی اور جہاں پر تھے اس کو چھوڑ گئے ،تو مشرکین کے گھڑ سوار اسی جگہ سے مسلمانوں کی طرف آئے تو ایک دوسرے کے اوپر وار کی ۔ان کو التباس ہوا اسی وجہ سے مسلمانوں میں سے کا فی لوگ شہید ہوئے۔"[56]
اس طرح کے اختلاف کے جائز یا ناجائز ہونے کے بارے میں علامہ آلوسیؒ فرماتے ہیں :
"ولا شك أيضا أنه حرام لما فيه من تضييع المصالح الدينية والدنيوية"[57]
"اس میں بھی شک نہیں کہ یہ(اختلاف ) حرام ہے اس لئے کہ اس سے دینی اور دنیاوی مصالح کا نقصان ہوتا ہے۔"
سوم: فروعی مسائل میں اختلاف:
ابہام کی صورت میں اشیاء کے حلال یا حرام وغیرہ ہونے کااختلاف فروعی اختلاف کہلاتا ہے ۔علامہ آلوسیؒ فرماتے ہیں:
"والذي نقطع به أن الإتفاق خير منه أيضا"[58]
"جس چیز کو یقینی سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ اس میں بھی اختلاف سے اتفاق بہتر ہے ۔"
نیز فرماتے ہیں:
"فإن قلنا : إن المصيب واحد وهو الصحيح فالحق في نفس الأمر واحد والناس كلهم مأمورون بطلبه واتفاقهم عليه مطلوب والاختلاف حينئذ منهي عنه وإن عذر المخطئ وأثيب على اجتهاده وصرف وسعه لطلب الحق"[59]
"اگر ہم یہ کہیں کہ حق تک پہنچنے والا ایک ہوتا ہے اور یہی بات درست ہے۔ حقیقت میں حق ایک ہی ہوتا ہے۔ اور سب لوگوں کو اسی حق کی تلاش کا حکم دیاگیا ہے اور اسی حق پر متفق ہونا مطلوب ہے اور اس وقت اختلاف کرنا ممنوع ہے، اگرچہ غلطی کرنے والا مجتہد معذور ہوگا اور اپنے اجتہاد کی وجہ سے اور اپنی کوشش کو حق تلاش کرنے میں خرچ کردینے کی وجہ سے مستحق اجر ہوگا۔"
علامہ ابن تیمیہ نے اس کی وضاحت کچھ یوں کی ہے :
"والمجتهد المخطىء له أجر لأن قصده الحق وطلبه بحسب وسعه وهو لا يحكم الا بدليل"[60]
"جس مجتہد سے اجتہادی خطا ہو وہ اجر کا حقدار ہے اس لیے کہ اس کا ارادہ حق کا ہوتا ہے اس تک پہنچنے کے لیے پوری کوشش کرتا ہے اوریہ کہ دلیل کی بنیاد پر ہی وہ حکم لگاتا ہے۔"
علامہ آلوسیؒ فروعی مسائل میں خواص کے اختلاف کے جواز کے سلسلے میں مختلف استدلالات نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"واستدل على عدم المنع من الاختلاف في الفروع بقوله عليه الصلاة والسلام : اختلاف أمتي رحمة"[61]
"فروع کے اندر اختلاف کے منع نہ ہونے پر آپﷺ کے اس ارشاد سے استدلال کیا گیا ہے کہ (آپﷺ فرماتے ہیں ) میری امت کا اختلاف رحمت ہے ۔"
اگر چہ لوگوں کے ہاں یہ بطور حدیث رسول کے مشہور ہوا ہے ۔ لیکن محققین علماء اور محدثین نے روایتاً اور درایتاً اس کا حدیث رسول نہ ہونا ثابت کیا ہے۔ چنانچہ اس بارے میں علامہ آلوسی نے امام سبکیؒ کا اعتراض نقل کیا ہے:
"أن اختلاف أمتي رحمة ليس معروفا عند المحدثين ولم أقف له على سند صحيح ولا ضعيف ولا موضوع ولا أظن له أصلا إلا أن يكون من كلام الناس بأن يكون أحد قال اختلاف الأمة رحمة فأخذه بعضهم فظنه حديثا فجعله من كلام النبوة وما زلت أعتقد أن هذا الحديث لا أصل له. واستدل على بطلانه بالآيات والأحاديث الصحيحة الناطقة بأن الرحمة تقتضي عدم الاختلاف"[62]
"یہ حدیث محدثین کے نزدیک معروف نہیں ہے ۔اور مجھے اس کی سند صحیح معلوم نہ ہوسکی (بلکہ ) ضعیف سند اور موضوع (من گھڑت ) سند بھی معلوم نہ ہوسکی ۔میرے خیال میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے ۔ہاں یہ عام لوگوں کا کوئی کلام ہوسکتا ہے۔ یعنی کسی نے کہا ہوگا کہ امت کا اختلاف رحمت ہے۔ بعض نے اس کو لے کر حدیث سمجھا ہوگا ۔اور کلام نبوت میں سے قرار دیا ہوگا۔ میرا یہ عقیدہ رہا ہےکہ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں ۔"
اس کا جواب امام سیوطیؒ نے الجامع الصغیر میں یہ دیا ہے :
"ولعله خرج في بعض كتب الحفاظ التي لم تصل إلينا"[63]
" شاید بعض حفاظ حدیث کی کتب میں اسے سنداً ذکر کیا گیا ہولیکن ہم تک نہ پہنچ سکی ہو۔"
لیکن شیخ البانی اس کے جواب میں لکھتے ہیں :
" وهذا بعيد عندي،إذ يلزم منه أنه ضاع على الأمة بعض أحاديثه صلى الله عليه وسلم، وهذا مما لا يليق بمسلم اعتقاده'"[64]
"یہ میرے نزدیک بعید ہے ۔اس لئے کہ اس سےیہ لازم آتا ہے کہ امت سے کچھ احادیث رسول ﷺ ضائع ہوگئی ہیں حالانکہ یہ عقیدہ نہ لائق اعتبار ہے، نہ ہی مسلم کہ کچھ احادیث ضائع ہوگئی ہیں ۔"
علامہ آلوسیؒ امام سبکیؒ کی تحقیق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"واستدل على بطلانه بالآيات والأحاديث الصحيحة الناطقة بأن الرحمة تقتضي عدم الاختلاف"[65]
"امام سبکیؒ نے اس کے بطلان پر آیات اور احادیث صحیحہ سے استدلال کیا جس سے واضح ہوتا ہے کہ رحمت تو اختلاف کا تقاضا نہیں کرتی ۔"
علماء و محدثین کی تحقیق سے واضح ہے کہ متون حدیث میں ایسی کوئی مستند حدیث موجود نہیں ہے جس میں امت کے عام افراد کا اختلاف رحمت قرار دیا گیا ہو ۔ البتہ ایسی احادیث اقوال وآثار موجود ہیں جس میں خواص کےفروع کا اختلاف رحمت قرار دیا گیا ہو ۔جن کو علامہ آلوسیؒ نے تفسیر روح المعانی میں نقل کئے ہیں، چنانچہ ارشاد نبوی ہیں :کہ جب بھی تمہیں کتاب اللہ سے جو کچھ دیا جائے (حکم کیا جائے )تو اس پر عمل کیا کرو۔ اس پر عمل نہ کرنے میں کسی کو کوئی عذر نہیں ہے اگر کوئی (صریح ) حکم کتاب میں (تمہیں معلوم ) نہ ہو تو میری سنت میں جو (حکم) جاری ہوگا (اس پر عمل کیا کرو ) اگر میری سنت میں معلوم نہ ہوجائے (تو پھر ) میرے اصحاب کے قول پر عمل کیا کرو۔ بلاشبہ میرے صحابہ آسمان کے ستاروں کے بمنزلہ ہیں ۔میرے جس صحابی کے قول پر تم عمل کروگے تو راہ راست پاؤ گے۔ اور میرے صحابہ کا اختلاف رحمت ہے[66]۔
اسی طرح امام بیہقیؒ نے قاسم بن محمدؒسے روایت نقل کی ہے :
"اختلاف أصحاب محمد رحمة لعباد الله تعالى"[67]
"صحابہ کرام کا اختلاف باقی لوگوں کے لئے رحمت ہے ۔ "
طبقات میں ابن سعد نے ان الفاظ کے ساتھ روایت نقل کی ہے
"كان اختلاف أصحاب محمد رحمة للناس"[68]
"صحابہ کرام کا اختلاف لوگوں کے لئے رحمت تھا ۔"
علامہ آلوسی ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
"وأراد بهم صلى الله تعالى عليه وسلم خواصهم البالغين رتبة الاجتهاد والمقصود بالخطاب من دونهم فلا إشكال فيه خلافا لمن وهم ، والروايات عن السلف في هذا المعنى كثيرة"[69]
"اس سے آپﷺ کی مراد وہ مخصوص صحابہ کرام ہیں جو اجتہاد کے درجہ تک پہنچے والے ہیں، اور (اختلاف نہ کرنے کے) خطاب سے مقصود اِن کے علاوہ حضرات ہیں (جو اجتہاد کی صلاحیت نہیں رکھتے )۔ لہذا اس میں (کسی کے لیے) کو ئی اشکال باقی نہیں رہا سوائے ن لوگوں کے جو وہم کے شکار ہیں۔اس بارے میں سلف سے بہت سی روایات مروی ہیں ۔"
علامہ آلوسی اس سے صحابہ کرام یا امت کے بڑے مجتہدین مرادلیتے ہیں چنانہ علامہ آلوسی فرماتے ہیں:
"أن المراد اختلاف الصحابة رضي الله تعالى عنهم ومن شاركهم في الاجتهاد كالمجتهدين المعتد بهم من علماء الدين الذين ليسوا بمبتدعين وكون ذلك رحمة لضعفاء الأمة ، ومن ليس في درجتهم مما لا ينبغي أن ينتطح فيه كبشان ولا يتنازع فيه اثنان"[70]
" اس اختلاف سے صحابہ کا اور اُن لوگوں کا اختلاف مراد ہے جو ان کے ساتھ اجتہاد میں شریک ہیں جیسے وہ مجتہدین جن کا اجتہاد قابل اعتبار ہے جو علماء دین ہیں مبتدعین نہیں ہیں۔ جبکہ وہ لوگ جو ان کے درجہ تک نہیں پہنچ سکیں ہیں (تو ان کے لیے) مناسب نہیں ہے کہ دو مینڈھے ایک دوسرے کو اپنے سینگوں سے ماریں اور نہ ہی دو آدمی اس میں باہمی نزاع کریں۔"
اسی طرح "اختلاف العلماء رحمة"[71] "علماء کا اختلاف رحمت ہے" ۔" اصل میں امام مالک کا قول ہے [72]لیکن اسے تسامحاً حدیث کہا گیا ہے۔ اس وجہ سے عوام میں بھی یہ حدیث نبوی ﷺ کے طور پر سمجھاجاتا ہے۔
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا فرمان ہمارے لیے بہترین راہبر ہے۔ یہ ایک تحریر ہے جو آپ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو قضا کے متعلق یوں لکھ بھیجی تھی :
"الْفَهْمَ الْفَهْمَ فِيمَا تَخَلَّجَ فِي صَدْرِكَ مِمَّا لَمْ يَبْلُغْكَ فِي الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ اعْرَفِ الأَمْثَالَ وَالأَشْبَاهَ ، ثُمَّ قِسِ الأُمُورَ عِنْدَ ذَلِكَ"[73]
"جو مسئلہ تمہیں قرآن و سنت میں نہ ملے اور آپ کو اس بارے میں شک ہو تو اس پر غور کرو اور اچھی طرح غور کرو اور اس سے مشابہ مسائل پر اسے قیاس کرلو۔ "
اجتہادی اختلاف کا ظہور
عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں:
"قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَنَا لَمَّا رَجَعَ مِنَ الأَحْزَابِ: لاَ يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ العَصْرَ إِلَّا فِي بَنِي قُرَيْظَةَ» فَأَدْرَكَ بَعْضَهُمُ العَصْرُ فِي الطَّرِيقِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لاَ نُصَلِّي حَتَّى نَأْتِيَهَا، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: بَلْ نُصَلِّي، لَمْ يُرَدْ مِنَّا ذَلِكَ، فَذُكِرَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يُعَنِّفْ وَاحِدًا مِنْهُمْ"[74]
"نبی کریم ﷺ جب غزوہ احزاب سے واپس ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا کہ کوئی بھی نماز عصر نہ پڑھے مگر بنی قریظہ ہی میں پڑھے ۔راستے ہی میں اُن پر عصر کا وقت آگیا تو بعض نے کہا کہ ہم وہاں پہنچنے سے پہلے نماز نہیں ادا نہیں کرسکتے ۔جب کہ بعض نے کہا کہ ہم نماز ادا کرتے ہیں کیونکہ نبی اکرمﷺ کا مقصود یہ نہ تھا۔ جب نبی کریم ﷺ کے سامنے اس کا ذکر ہوا تو آپﷺ نے ان میں سے کسی کی بھی سرزنش نہیں کی ۔"
اس پر روشنی ڈالتے ہوئے علامہ آلوسیؒ فرماتے ہیں :
"ولم يصلوا العصر لقول رسول الله صلّى الله تعالى عليه وسلم لا يصلين أحد العصر إلّا ببني قريظة وقد شغلهم ما لم يكن لهم منه بد في حربهم فلما أتوا صلوها بعد العشاء فما عابهم الله تعالى بذلك في كتابه ولا عنفهم رسوله عليه الصلاة والسلام"[75]
"رسول ﷺ کی اس فرمان کی وجہ سے کہ تم نے عصر کی نماز بنو قریظہ کے محلے میں جاکر ہی پڑھنی ہے۔ انہوں (صحابہ کرام )نے عصر کی نماز نہیں پڑھی ۔ وہ امور جنگ میں مصروف رہیں۔چنانچہ عشاء کے بعد انہوں نے آکر عصر کی نماز پڑھی تو اس پر نہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس کی مذمت کی اور نہ آپﷺ نے ان پر کوئی سختی کی ۔"
جس وقت نبی مہربان ﷺ سیدنا معاذ بن جبل کو یمن کا گورنر بنا کر بھیج رہے تھے تو فرمایا:
"كَيْفَ تَقْضِي إِذَا عَرَضَ لَكَ قَضَاءٌ؟» ، قَالَ: أَقْضِي بِكِتَابِ اللَّهِ، قَالَ: «فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِي كِتَابِ اللَّهِ؟ ، قَالَ: فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا فِي كِتَابِ اللَّهِ؟» قَالَ: أَجْتَهِدُ رَأْيِي، وَلَا آلُو فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدْرَهُ، وَقَالَ: «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ، رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللَّهِ"[76]
"جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آجائے اس کا فیصلہ کیسے کرو گے ؟ آپ نے فرمایا اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا ۔آپﷺ نے فرمایا اگر اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اس بارے میں کوئی حکم نہ ملے؟ آپﷺ نے فرمایا اگر رسول اللہ کی سنت میں اس بارے میں کوئی حکم نہ ملے ؟تو آپ نے فرمایا پھر میں رائے سے اجتہاد کروں گا اس پر آپﷺ نے ان کے سینے پر ہاتھ مار کر شاباس دی اور فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے جس نے اپنے رسول کے قاصد کو ایسی بات کی توفیق دی جس سے اللہ کا رسول راضی ہوا۔"
اس لئے کہ صحابہ کرام کا اختلاف فرقہ واریت کے خاتمے اور دین اسلام کی بقاء کے لئے تھا، چنانچہ جب یہود میں سے بعض نے سیدنا علیؓ سے ان کے اختلاف کے بارے میں کہا :
"مَا دَفَنْتُمْ نَبِيَّكُمْ حَتَّى اخْتَلَفْتُمْ؟ فَقَالَ:إِنَّمَا اخْتَلَفْنَا عَنْهُ وَمَا اخْتَلَفْنَا فِيهِ"[77]
"تم اپنے نبی کو ابھی دفن بھی نہ کر پائے تھے کہ اختلاف میں پڑ گئے ۔توآپ نے فرمایاہم نے ان کی (رسالت )کے بارے میں اختلاف نہیں کیا بلکہ (بقاء ) کے لئے اختلاف کیا ۔"
اس وجہ سے صحابہ کرام کے اختلاف کے بارے میں امام شاطبی فرماتے ہیں:
"ووجدنا أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم من بعده قد اختلفوا في أحكام الدين ولم يتفرقوا ولا صاروا شيعا"[78]
"صحابہ کرام نے دین کے احکام میں اختلاف ضرور کیا ہے لیکن ان کا یہ اختلاف ان کے باہمی افتراق اور گروہ بندی کا سبب نہیں بنا۔"
مستحسن اختلاف:
ثابت ہوا کہ وہ اختلاف جو اجتہادی ہو اور قرآن و حدیث کے متعین کردہ حدود کے اندر ہو، وہ قابل نفرت نہیں ہے بلکہ مجتہدین علماء کے تبحر علمی کی وجہ سے وسعت اور رحمت کا باعث ہے ۔اسلیے کہ اجتہاد کی وجہ سے شرعی احکام ہر زمانے کے تقاضوں کے ساتھ موافقت اختیار کرلیتے ہیں ۔شرعی امور کے مختلف پہلوؤں میں تحقیق اور ترقی اس اختلاف کا نتیجہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ قاضی ابن العربی فروعی مسائل کے اختلاف کے بارے میں فرماتے ہیں:
"فَأَمَّا الِاخْتِلَافُ فِي الْفُرُوعِ فَهُوَ مِنْ مَحَاسِنِ الشَّرِيعَةِ"[79]
"فروع مسائل میں اختلاف محاسن شریعت میں شمار ہوتا ہے۔"
اس ضمن میں علامہ آلوسیؒ نےبھی صحابہ کرام کے اختلاف کے بارے میں عمر بن عبدالعزیزؒ کا قول نقل کیا ہے:
"ما سرني لو أن أصحاب محمد لم يختلفوا لأنهم لو لم يختلفوا لم تكن رخصة"[80]
"مجھے صحابہ کرام کے اختلاف سے خوشی ہوتی ہے وہ اگر اختلاف نہ کرتے تو (دینی مسائل ) میں رخصت کی گنجائش نہ ہوتی ۔"
جب عمر بن عبدالعزیزؒ کو تمام مسلمانوں کو ایک ہی مسلک پر جمع کرنے کی تجویز پیش کی گئی تو انہوں نے جواب دیا:
" ان کا اختلاف نہ کرنا مجھےاچھا نہیں لگتا ۔ پھر انہوں نے تما م شہروں کو فرمان بھیجا کہ ہر قوم کے باشندے اسی کے مطابق فیصلہ کریں جن پر ان کے فقہاء متفق ہو ۔"[81]
قاسم بن محمدؒ صحابہ کرام کے اعمال میں اختلاف کے بارے میں فرماتے ہیں :
"اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کےساتھیوں کے اعمال میں اختلاف کی وجہ سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچایا۔ جب کوئی عامل صحابہ کرام میں سے کسی ایک کے عمل کے مطابق عمل کرتا ہےتو اپنے لئے کشادگی محسوس کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس سے بہتر انسان نے یہ عمل کیا تھا۔"[82]
اجتہادی مسائل میں اختلاف کے بارے میں امام مالکؒ کا قول قابل غور ہے کہ جب ہارون الرشید نے ان سے کہا کہ اے ابو عبداللہ ! آپ نے جتنی کتابیں تصنیف فرمائی ہیں ان کی اشاعت کی آپ مجھے اجازت دیجیے۔ میں بلاد اسلامیہ میں ان کو پھیلا دیتا ہو ں اور مسلمانوں کو ان پر عمل کرنے کا پابند بنا دیتا ہوں۔ تو امام مالکؒ نے فرمایا :
"امیر المؤمنین ! علمائے کرام کا آپس میں اختلاف اس امت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت کا باعث ہے۔ پس علماء میں سے ہر ایک عالم اس مسلک کی پیروی کرتا ہے جس کی دلیل اس کے نزدیک صحیح ہو (ان میں سے ) ہر ایک ہدایت پر ہے اور ہرایک عالم اس سے اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتا ہے۔"[83]
اسی طرح مؤطا کے بارے میں جب ہارون الرشید نے کہا کہ وہ لوگوں کو اس پر جمع کرانا چاہتا ہے تو امام مالکؒ نے جواب دیا :
"ایسا مت کیجیے اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں کا بھی فروع میں اختلاف رہا ہے اور وہ مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کی تما م سنتیں وہاں پہنچ گئی ہیں ۔ اس طرح کرنے سے یہ صرف اختلاف نہ ہوتا بلکہ افتراق یا کوئی اور خطرناک صورت اختیار کرنے سبب بنتا۔" [84]
آراء کاممنوع اختلاف:
اس اختلاف کے بارے میں قاضی ابن العربی فرماتے ہیں :
"الِاخْتِلَاف الْمَنْهِيَّ عَنْهُ إنَّمَا هُوَ الْمُؤَدِّي إلَى الْفِتْنَةِ وَالتَّعَصُّبِ وَتَشْتِيتِ الْجَمَاعَةِ"[85]
"ممنوع اختلاف وہ ہے جو فتنے ،تعصب اور امت مسلمہ کی جماعت میں انتشار کا سبب ہو ۔"
اسی طرح علامہ آلوسی ممنوع اختلاف کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
"جو ممنوع اختلاف ہے اس سے مراد وہ اختلاف ہے جس میں شارع کی طرف سےنص صریح موجود ہو یا اس پر اجماع کیا گیا ہو ۔"[86]
سفیان ثوریؒ فروعی مسائل کے اختلاف کی وجہ سے امت مسلمہ کی جماعت میں فساد اور انتشار کے خاتمے کے بارے میں رائے دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
"إِذَا رَأَيْتَ الرَّجُلَ يَعْمَلُ الْعَمَلَ الَّذِي قَدِ اخْتُلِفَ فِيهِ وَأَنْتَ تَرَى غَيْرَهُ فَلَا تَنْهَهُ"[87]
"جب تو کوئی شخص دیکھے جو ایسا کام کر رہا ہو جس کے جواز میں اختلاف ہو اور اس کی رائے تیری رائے کے خلاف ہو تو اسے اس کام سے نہ روکو۔"
ایک مسئلہ کے بارے میں جب دونوں جانب دلائل موجود ہوں تو اس طرح کے مسائل میں ایک جانب سے منع کرنا اختلاف کا سبب بنتا ہے ۔اس کی تائید امام نوویؒ کے الفاظ سے بھی ہوتا ہے ۔آپ فرماتے ہیں :
"الْعُلَمَاءُ إِنَّمَا يُنْكِرُونَ مَا أُجْمِعَ عَلَيْهِ أَمَّا الْمُخْتَلَف ُفِيهِ فَلَا إِنْكَارَ فِيهِ"[88]
"جس( کام )کے منکر ہونے پر ائمہ کا اجماع ہو علماء اس سے منع کرتے ہیں اور جس میں اختلاف ہو اس سے روکنا جائز نہیں ہے۔"
نتائج بحث :
مذکورہ بحث سے معلوم ہوا کہ سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر سیدنا محمدﷺ تک تمام ادیان کے اصول ایک رہے ہیں البتہ وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق ذیلی احکام جزوی تغیر کیا گیا ہے۔ * اصول ِ دین میں اختلاف قطعا اور یکسر ممنوع ہے۔
- فروعی مسائل میں اختلاف کی گنجائش ہے۔
- فروعی مسائل میں اختلاف کو شرعی قواعد و ضوابط میں رہتے ہوئے ، آدابِ اختلاف کے ساتھ کرنے کی اجازت ہے۔
This work is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License.
حوالہ جات
- ↑ == حوالہ جات(References) == ابن عابدین ،محمد امین بن عمر،الردالمختار علی الدر المختار،دار الفکر ۔بیروت 1992ء،-6:421الحوینی ،الاثری،ابو اسحاق ،محمد شریف ، نھی الصحبۃ عن النزول بالرکبۃ،دارالکتاب العربی ۔بیروت ،1988ء،2:2 Ibn ‘Abidiyn, Muḥammad Amin bin ‘Umar, Al Durr al Mukhtār ‘Ala Al Radd al Muḥtār, (Beirut: Dār al Fikr, 1992), 6:421, Al Ḥuwaynī, Muḥammad Sharīf, Nahyi al Ṣuḥbah ‘An Nuzuwl bil Rakbah, (Beirut: Dār al Kitab al ‘Arabī, 1988), 2:2
- ↑ آلوسی ، شہاب الدین محمود بن عبداللہ الحسینی ، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی ، تحقیق :علی عبد الباری عطیہ، دار الکتب العلمیۃ بیروت،1415ھ،2:241 Aluwsi, Meḥmuwd bin ‘Abdullāh Al Ḥusaini, Rūh al-Ma'ānī fī Tafsīri-l-Qur'āni-l-'Aẓīm wa Sab'u-l-Mathānī, (Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah, 1415), 2:241
- ↑ الشاطبی،ابواسحاق،ابراھیم بن موسیٰ، الاعتصام،المکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ۔مصر ،ندارد،2:231 Al Shaṭibi, Abu Isḥāq, Ibrahim bin Muwsa, Al I’tiṣām, (Egypt: Al Maktabah Al Tijāriyyah al Kubrā, 2:231
- ↑ السبکی ،تاج الدین بن علی ،طبقات الشافعیۃ الکبریٰ ،تحقیق :محمود محمدالطناحی، عبدالفتاح محمد الحلو، دارالہجر للنشر ، بیروت،1993 ء، 8:870 Al Subaki, Tāj al Dīn bin ‘Alī, ṭabaqāt al Shafa’iyyah al Kubrā, (Beirut: Dār al Hajr lil Nashar, 1993), 8:870
- ↑ روح المعانی 1: 5 Rūh al-Ma'ānī, 1:5
- ↑ محمد عبد العظیم زرقانی ،مناہل العرفان فی علوم القرآن ،دار الفکر بیروت ،1996ء، ج2،ص61 Al Zurqanī, Muḥammad ‘Abdul ‘Azīm, Manahil al ‘Irfān fī ‘Uluwm al Qur’ān, (Beurit: Dār al Fikr, 1996), 2:61
- ↑ ابوالبرکات نعمان بن محمود بن عبداللہ،جلاء العینین، مطبعۃ المدنی ،1981،1:58 Abu al Barakāt, Nu’mān bin Maḥmuwd bin ‘Abdullāh, Jilā’ul ‘Aynayn, (Matba’ah al Madani, 1981), 1:58
- ↑ بنوری،علامہ سید محمد یوسف ، يَتِيْمَةُ البَيان فِي شَيْءٍ مِن عُلومِ القُران،مکتبہ بینات ،بنوری ٹاؤن،ص:85 Binnori, Sayyid Muḥammad Yuwsuf, ‘Allama, Yatīmah al Bayān fī Shay’ min ‘Uluwm al Qur’ān, (Karachi: Maktabah Bayyināt, Binnori Town), p:85
- ↑ الراغب الاصفہانی ،ابو القاسم الحسین، المفردات فی غریب القرآن،دار القلم ،الدار الشامیۃ ، دمشق،1412ھ، 1:323 Al Raghib al Asfahani, Abu al Qasim al Ḥusain, Al Mufradāt fī Gharīb al Qur’ān, (Damascus: Dār al Qalam al Dār al Shamiyyah,1412), 1:323
- ↑ بخاری،محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ،صحيح بخاری، کتا ب لتفسیر، باب ما جاء الفاتحۃ، دار الشعب۔القاہرہ،1987ء Bukhari, Muhammad bin Isma’il, Al Jami‘ al Ṣaḥiḥ, (Cairo: Dār al Shu’ab, 1987)
- ↑ شیخ احمد دیدات ،یہودیت ،عیسائیت اور اسلام،عبداللہ اکیڈمی آر۔آرپرنٹرز۔لاہور،2010ء، ص25 Sheikh Aḥmād Dedāt, Yahudiat ‘Esāi’yyat Awr Islam, (Lahore: ‘Abdullah Academy, R.R Printers, 2010), p:25
- ↑ نعمانی ،مولانا عبدالرشید ، لغات القرآن،دار الاشاعت کراچی، 1986ء،1:42 Nu’māni, Mauwlana ‘Abdul Rasheed, Lughāt al Qur’ān, (Karachi: Dār al Asha’at, 1986), 1:42
- ↑ المجددی ، محمد عمیم الاحسان ،قواعد الفقہ، البرکی ،الصدف پبلشرز کراچی ،1984،1:102 Al Mujaddadi, Muḥammad ‘Amīm al Iḥsān, Qawa’id al Fiqh, (Karachi: Ṣadaf Publishers, 1984), 1:102
- ↑ المفردات فی غریب القرآن،1:294 Al Mufradāt fī Ghariyb al Qur’ān, 1:294
- ↑ سورۃ ال عمران :103 Surah Al ‘Imrān: 103
- ↑ روح المعانی،2:236 Rūh al-Ma'ānī, 2:236
- ↑ سورۃ الحجرات :10 Surah Al ‘Ḥujrāt: 10
- ↑ سورۃ النور:31 Surah Al Nuwr: 31
- ↑ روح المعانی، 2:236 Rūh al-Ma'ānī, 2:236
- ↑ روح المعانی، 2:236 Rūh al-Ma'ānī, 2:236
- ↑ سورۃ سباء:28 Surah Saba’: 28
- ↑ روح المعانی ، 11:316 Rūh al-Ma'ānī, 11:316
- ↑ روح المعانی،11:316 Rūh al-Ma'ānī, 11:316
- ↑ مسلم بن الحجاج ،ابو الحسن ،المسند الصحیح المختصر بنقل العدل الی رسول اللہ ﷺ ، کتاب المساجد،باب،حدیث:1195، دار احیاء تراث العربی ۔بیروت ،ندارد Muslim bin al Ḥajjaj, Abu al Ḥasan, Ṣaḥiḥ Muslim, (Beirut: Dār Iḥyaʼ al Turath al ‘Arabi), Ḥadith #1195
- ↑ سورۃ الحجر:9 Surah al Ḥajar: 9
- ↑ سورۃ النحل :89 Surah al Naḥal: 89
- ↑ روح المعانی، 7:451 Rūh al-Ma'ānī, 7:451
- ↑ ابن ماجہ ،ابو عبداللہ ،محمد بن یزید، سنن ابن ماجہ،باب اتباع سنۃ الخلفاء الراشدین المھدین، دار الکتب العلمیہ بیروت،2008ء،حدیث:42 Ibn e Majah, Muḥammad bin Yazīd, Sunan Ibn e Majah, (Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah, 2008), Ḥadith
- 42
- ↑ صحیح بخاری ،کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب الحاکم اذا اجتھد فاصاب او اخطا، حدیث:7352، احمد بن حنبل، مسند احمد ،مسند المکثرین من الصحابۃ،مسند ابی ھریرۃ،حدیث : 9344، صحیح مسلم ،کتاب الحدود،باب بیان اجر الحاکم اذا الحاکم اذا اجتھد فاصاب او اخطا، حدیث:1716، روح المعانی،2:241 Bukhari, Al Jami‘ al Ṣaḥiḥ, Ḥadith
- 7352, Aḥmād bin Ḥambal, Musnad, Ḥadith
- 9344, Ṣaḥiḥ Muslim, Ḥadith
- 1716, Rūh al-Ma'ānī, 2:241
- ↑ صحیح مسلم ،کتاب الحج،باب فرض الحج مرۃ فی العمر ،حدیث:412، سنن نسائی ،کتاب مناسک الحج، باب وجوب الحج ،حدیث: 2619 Ṣaḥiḥ Muslim, Ḥadith
- 412, Sunan Nasa’i, Ḥadith
- 2619
- ↑ سنن ابی داؤد،کتاب الصلاۃ،باب تصویۃ الصویۃ الصفوف،حدیث:664،سنن ابن ماجہ ،کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا ،باب من یستحب ان یلی الامام،حدیث:976صحیح بخاری ،کتاب الجہاد والسیر،باب ما یکرہ من التنازع والاختلاف، حدیث: 3038 Sunan abu Daw’ud, Ḥadith
- 664, Sunan Ibn e Majah, Ḥadith
- 976, Bukhari, Al Jami‘ al Ṣaḥiḥ, Ḥadith
- 3038
- ↑ روح المعانی،2:240 Rūh al-Ma'ānī, 2:240
- ↑ روح المعانی،6:356 Rūh al-Ma'ānī, 6:356
- ↑ سورۃ ھود:118 Surah Huwd: 118
- ↑ روح المعانی ،4:357 Rūh al-Ma'ānī, 4:357
- ↑ روح المعانی،2:240 Rūh al-Ma'ānī, 2:240
- ↑ لغات القرآن،2:152 Lughāt al Qur’ān, 2:152
- ↑ ابن سیدۃ،علی بن اسماعیل ،المحکم والمحیط الاعظم ،دار الکتب العلمیۃ،بیروت ،2000ء، 8:352 Ibn Sayyidah, ‘Ali bin Isma’il, Al Muḥkam wal Muḥīṭ al ‘Aẓam, (Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah, 2000), 8:352
- ↑ المفردات فی غریب القرآن، ص: 19 Al Mufradāt fī Gharīb al Qur’ān, 19
- ↑ سورۃ شورىٰ: 13 Surah al Shura’: 13
- ↑ روح المعانی، 13:22 Rūh al-Ma'ānī, 13:22
- ↑ صحیح بخاری، کتاب الانبیاء، باب، حديث:3259 Ṣaḥiḥ Bukhārī, Ḥadith
- 3259
- ↑ العسقلانی ،احمد بن علی بن حجر ،فتح الباری،دار المعرفۃ بیروت ،1379ھ، حدیث :3258 Al ‘Asqalani, Aḥmād bin ‘Ali bin Ḥajar, Fatḥ al Barī, (Beirut: Dār al Ma’rifah, 1379), Ḥadith
- 3258
- ↑ سورۃ ال عمران :105 Surah Al ‘Imrān: 105
- ↑ روح المعانی،2:239 Rūh al-Ma'ānī, 2:239
- ↑ احمدبن حنبل ، مسند احمد ،مسند المکثرین من الصحابۃ، مسند انس بن مالک، حدیث:12479 Aḥmād bin Ḥambal, Musnad, Ḥadith
- 12479
- ↑ سنن ابن ماجہ ،کتاب الفتن،باب افتراق الامم ،حدیث:3992 Sunan Ibn e Majah, Ḥadith
- 3992
- ↑ روح المعانی،3:63 Rūh al-Ma'ānī, 3:63
- ↑ سورۃ النساء:83 Surah al Nisa’: 83
- ↑ روح المعانی ،3:46 Rūh al-Ma'ānī, 3:46
- ↑ روح المعانی،3:46 Rūh al-Ma'ānī, 3:64
- ↑ صحیح مسلم ،کتاب الامارۃ،باب وجوب طاعۃ المراء فی غیر معصیۃ۔،حدیث:4868 Ṣaḥiḥ Muslim, Ḥadith
- 4868
- ↑ روح المعانی،3:64 Rūh al-Ma'ānī, 3:64
- ↑ روح المعانی،3:46 Rūh al-Ma'ānī, 3:46
- ↑ سنن ابی داؤد،کتاب الصلاۃ،باب تصویۃ الصویۃ الصفوف،حدیث:664،سنن ابن ماجہ ،کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا،باب من یستحب ان یلی الامام،حدیث:976 Sunan abu Daw’ud, Ḥadith
- 664, Sunan Ibn e Majah, Ḥadith
- 976
- ↑ روح المعانی،3:64 Rūh al-Ma'ānī, 3:64
- ↑ روح المعانی،2:240 Rūh al-Ma'ānī, 2:240
- ↑ روح المعانی،2:240 Rūh al-Ma'ānī, 2:240
- ↑ روح المعانی،2:241 Rūh al-Ma'ānī, 2:241
- ↑ الحرانی ،احمد بن عبدالحلیم بن تیمیہ مجموع الفتاوی ،مکتبہ ابن تیمیہ ،2005ء، 20:30 Al Ḥarrani, Aḥmād Bin ‘Abul Ḥalīm bin Taymiyyah, Majmu’ al Fatawa, (Maktabah Ibn Taymiyyah, 2005), 20:30
- ↑ روح المعانی،2:240 Rūh al-Ma'ānī, 2:240
- ↑ روح المعانی ،2:240 Rūh al-Ma'ānī, 2:240
- ↑ ۔السیوطی ،عبدالرحمٰن بن ابی بکر ،جلال الدین ،الفتح الکبیر فی ضم الزیادۃ الی الجامع،دار الفکر،بیروت،2003ء،1:54 Al Sayuwti, ‘Abdul Raḥmān bin Abi Bakar, Al Fatḥ al Kabīr fī Dham al Ziyadah ila Al Jami’, (Beirut: Dār l Fikr, 1423/2003), 1:54
- ↑ ابو عبدالرحمٰن محمد ناصر الدین البانی ،سلسلۃ الضعیفۃ و الموضوعۃ، دار المعارف ،الریاض ،المملکۃ السعودیۃ العربیۃ ،1992ء، حدیث:54 Al Albani, Muḥammad Naṣir al Din, Silsilah al Dha’efah wal Mauwdhah, (Riyadh: Dār al Ma’arif, 1992), Ḥadith
- 54
- ↑ روح المعانی ،2:240 Rūh al-Ma'ānī, 2:240
- ↑ ۔البیہقی ،احمد بن حسین بن علی ،المدخل الی السنن الکبریٰ،دارالخلفاء للکتاب الاسلامی ۔الکویت ، ندارد ،حدیث:152 Al Bayhaqi, Aḥmād bin Ḥusain bin ‘Ali, Al Madkhal Ila al Sunan al Kubra, (Kuwait: Dār al Khulafa’ lil Kutub al Islami), Ḥadith
- 152
- ↑ روح المعانی، 2:240 Rūh al-Ma'ānī, 2:240
- ↑ ابن سعد ، محمد بن سعد ،الطبقات الکبریٰ الجزء(5)،الطبقہ :من اھل المدینہ من التابعین،دار الکتب العلمیہ ،بیروت ، 1990ء، ابو نعیم احمد بن احمد ،الاصبہانی ،حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء،دار الکتاب العربی ۔بیروت ،1974ء Ibn Sa’ad, Muḥammad bin ‘Abdullāh, Al Tabaqat al Kubrā, (Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah, 1990), Volume: 5, Al Iṣbahani, Abu Nu’aym, Aḥmād bin Aḥmād, Ḥilyah al Awliya’ wa ṭabqāt al Aṣfiya’, (Beirut: Dār al Kitāb al ‘Arabi, 1349/1974)
- ↑ روح المعانی،2:240 Rūh al-Ma'ānī, 2:40
- ↑ روح المعانی،2:241 Rūh al-Ma'ānī, 2:241
- ↑ المظہری ،محمد ثناء اللہ التفسیر المظہری،مکتبۃ الرشیدیہ ۔باکستان ،1412ھ،2:209 Al Maẓhari, Muḥammad Sanaullah, Al Tafsīr al Maẓharī, (Pakistan: Maktabah al Rashidiyyah), 2:209
- ↑ جلا ء العینین،1:209 Jila’ al ‘Aynayn, 1:209
- ↑ الدارقطنی، علی بن عمر ، سنن دار قطنی،كتاب الأقضية والأحكام وغير ذلك،کتاب عمر الیٰ ابی موسیٰ، الکتب الاسلامیہ لاہور، حدیث:4471 Al Dār Quṭni, ‘Ali bin ‘Umar, Sunan, (Lahore: Al Kutub al Islamiyyah), Ḥadith
- 4471
- ↑ صحیح بخاری ،کتاب الصلوٰۃ الخوف،باب صلوٰۃ الطالب والمطلوب راکبا وایماء،حدیث:936 Ṣaḥiḥ Bukhārī, Ḥadith
- 936
- ↑ روح المعانی،11:173 Rūh al-Ma'ānī, 11:173
- ↑ ابوداؤد، سلیمان بن اشعث،سنن ابو داؤد،کتاب الاقضیۃ،باب اجتہادالرائ فی القضاء،حدیث:3594 Sunan Abu Daw’ud, Ḥadith
- 3594
- ↑ الرازی ،فخرالدین ،محمد بن عمر،التفسیر الکبیر، دار الکتب العلمیۃ ۔بیروت ،2000ء ، 22:90 Al Razi, Muḥammad bin ‘Umar, Al Tafsīr Al Kabīr, (Beirut: Dār Iḥyaʼ al Turath al ‘Arabi, 2000), 22:90
- ↑ الشاطبی، ابراھیم بن موسیٰ، الاعتصام ،2:231 Al Shaṭibi, Ibrahim bin Muwsa, Al I’tiṣām, 2:231
- ↑ ابن عربی ،القاضی ،محمد بن عبداللہ ،ابوبکر ، احکام القرآن لابن العربی، بیروت ،1988ء، 2:111 Ibn ‘Arabi, Muḥammad bin ‘‘Abdullāh, Aḥkām al Qur’ān, (Beirut, 1988), 2:111
- ↑ ابن بطۃ،العکبری ،ابو عبداللہ ،عبیداللہ بن محمد الابانۃ عن شریعۃ الفرقۃ الناجیۃ ومجانبۃ الفرق المدمومۃ،باب التحذیر من استماع کلام قوم یریدون،دارالرایۃ الریاض، 1994ء، 2:703 Ibn Baṭah, ‘Ubaidullah bin Muḥammad, Al Ibanah ‘An Shari’ah al Firqah al Najiyyah wa Mujanabah al Firaq al Mazmumah, (Riyadh: Dār al Rayah, 1415/1994), 2:703
- ↑ الدارمی،ابومحمد عبداللہ بن عبدالرحمٰن ، مسند دارمی کتاب العلم،باب اختلاف الفقہاء،دار المغنی ،المملکۃ السعودیۃ ،2000ء،،حدیث: 652، الجصاص ،ابوبکر الرازی ،الفصول فی الاصول،باب القول فی حکم المجتہدین واختلاف اہل العلم،وزارۃ الاوقاف،الکوتیۃ ، 1994ء، 4:310 Al Darami, ‘Abdullāh bin ‘Abdul Raḥmān, Musnad al Darami, (Saudiyyah: Dār al Mughni, 2000), Ḥadith
- 652, Al Jaṣaṣ, Abu Bakar al Razi, Al Fuṣuwl fil Uṣuwl, (Kuwait: Wazarah al Auwqāf, 1994), 4:310
- ↑ الشاطبی ،الغرناطی ،ابراہیم بن موسیٰ بن محمد ،الموافقات،دار ابن عفان ،1997ء، 4:125 Al Shaṭibi, Ibrahim bin Muwsa, Al Muwafaqāt, (Dār Ibn ‘Affān, 1997), 4:125
- ↑ جلا ء العینین،1:209 Jila’ al ‘Aynayn, 1:209
- ↑ شاہ ولی اللہ ،دہلوی ،احمد بن عبدالرحیم ،الانصاف فی بیان اسباب اختلاف،دار النفائس، بیروت،1404ء، 1:38 Dehlawi, Shah Waliullah, Aḥmād bin ‘Abdul Raḥim, Al Inṣāf fī Bayan Asbab al Ikhtilāf, (Beirut: Dār al Nafa’is, 1403), 1:38
- ↑ احکام القرآن لابن عربی،1:382 Ibn ‘Arabi, Aḥkām al Qur’ān, 1:382
- ↑ روح المعانی،2:240 Rūh al-Ma'ānī, 2:240
- ↑ الاصبہانی ،ابو نعیم ،احمد بن عبداللہ ،حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء Al Iṣbahani, Abu Nu’aym, Aḥmād bin Aḥmād, Ḥilyah al Awliya’ wa ṭabqāt al Aṣfiya’
- ↑ لنووی ابو زکریا محیی الدین بن شرف ،المنہاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج دار احیاء التراث العربی ۔بیروت،1392ھ Al Nawawi, Abu Zakariyya, Muḥyi al Din bin Sharaf, Al Minhāj fī Sharh Ṣaḥiḥ Muslim, (Beirut: Dār Iḥya’ al Turath al ‘Arabi, 1392)
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 3 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2018 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |