Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 2 Issue 2 of Journal of Islamic and Religious Studies

ذبح سے پہلے عمل تدویخ اور معاصر فقہی تحقیقات |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

تمہید

آبادی میں دن بدن اضافے کی وجہ سے گوشت کا کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ حصول عصر حاضر کی ایسی ضرورت ہے کہ جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کیلئے مغربی ممالک میں"مشینی ذبیحہ" کو متعارف کروایا گیا ۔ مغربی ممالک کے مذبح خانوں میں رائج مشینی ذبیحہ میں دیگر بہت سارے قابل تحفظ پہلوؤں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ لوگ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ ذبح کے عمل سے پہلے جانور کو "بے ہوش " یا "سن " کیا جائے ۔ان کی نظر میں یہ عمل جانور سے ذبح کی تکلیف کو کم کر دیتا ہے ۔ نیز ذبح کرنے والا بھی آسانی سے ذبح کر سکتا ہے اور وہ جانور کے کسی بھی ممکنہ حملے سے بچ سکتا ہے ۔اس حوالے سے سب سے پہلے مہم چلانے والا ایک نامور ڈاکٹر ،ڈاکٹر بینجمن وارڈ رچرڈسن (Benjamin Ward Richardson) تھا، یہ بیک وقت نفسیات اوربے ہوش کرنے کے عمل کا ماہر تھا ۔بیسویں صدی میں اس نے اپنی عملی زندگی کے بہت سے سال ذبح کے مہذبانہ طریقوں کو تخلیق کرتے گزارے۔

شروع شروع میں مغربی ممالک میں مسلمانوں اور یہودیوں کو اس بات کا استثناءحاصل تھا کہ وہ چاہیں تو اسٹننگ کے بغیر بھی مذبح خانوں میں جانور ذبح کر سکتے ہیں ،لیکن آہستہ آہستہ مغربی ممالک میں اسٹننگ کو ذبح کا جزولازم قرار دیا جانے لگا۔اب سوال یہ ہے کہ کیا ذبح سے پہلے اسٹننگ جائز ہے یا ناجائز؟

عمل تدویخ(Stunning)کی لغوی اور اصطلاحی تعریف:

آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق " Stun "کا معنی ہے :مار کر بے ہوش کرنا،چکرا دینا ،حیرت میں ڈال دینا ،سراسیمہ کرنا ۔1

انسائیکلو پیڈیا آف برٹا نیکا کے مطابق جدید مذبح خانوں کی اصطلاح میں جانوروں کے رحمدلانہ ذبح کی خاطر انھیں ذبح سے پہلے بے ہوش کرنے کو " Stunning"کہتے ہیں ۔2عربی زبان میں تدویخ کا معنی ہے: سر کا چکرانا ،چونکہ اسٹننگ کے عمل میں بھی جانور چکرا کر بے ہوش ہو جاتا ہے ،لہذا تدویخ کے لفظ کو جدید عربی زبان میں

" Stunning "کا ہم معنی قرار دیا گیا ۔3

عمل تدویخ کی اقسام

جدید قربان گاہوں میں جانوروں کو بے ہوش کرنے کے طریقے درج ذیل ہیں :

کرنٹ کے ذریعے جانور کو بے ہوش کرنا(Electrical Stunning)

الیکٹریکل اسٹننگ وہ طریقہ ہے جس میں برقی رو یا الیکٹرک کرنٹ جانور کے دماغ یا اس کے دل سے یا دونوں سے بیک وقت گزارا جاتا ہے ۔ تا کہ بیہوش کرنے کا عمل زیادہ موثر طور پر انجام پاسکے ۔مرغیوں کو اجتماعی طور پر کرنٹ دینے کے لیے ٹھندے پانی کے حوض میں کرنٹ چھوڑ کر انھیں اسمیں سے گزارا جاتا ہے،اس کو الیکٹریکل واٹر باتھ (Electrical Water Bath )کہا جاتا ہے،اور انفرادی طور پر کرنٹ دینے کے لیے جو طریقہ ایجا د کیا گیا ہے اسے ہیڈ اونلی الیکٹریکل اسٹننگ (Head Only Electrical Stunning )کا نام دیا گیا ہے،اس طریقے میں علیحدہ علیحدہ ہر مرغی کی گردن ایک ایسی کون میں ڈالی جاتی ہے کہ جس کے دونوں طرف ایک خشک الیکٹروڈ (Dry Electrode)لگا ہوتا ہے ،یہ الیکٹروڈز جوں ہی مرغی کے سر سے لگتے ہیں ،فورا مرغی ان سے نکلنے والے کرنٹ سے بے ہوش ہو جاتی ہے ۔ جبکہ بکروں اور بھیڑوں وغیرہ کو ہیڈ فون نما ایک آلے کے ذریعے کرنٹ دیا جاتا ہے،جسکے دونوں طرف ایک عد دچمٹی لگی ہوتی ہے،آلے کی دونوں چمٹیوں کو جانور کی پیشانی پر رکھ کر اسمیں کرنٹ چھوڑ دیا جاتا ہے۔اسے"الیکٹرک ٹنگ"(Electric Tong) کہا جاتا ہے۔4

گیس کے ذریعہ جانور کو بے ہوش کرنا (Gas Stunning)

اس طریقے میں جانوروں کو کچھ خاص گیسوں کے مکسچر سے بےہوش کیا جاتا ہے ۔ یہ گیسیں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونوآکسائید ہیں ۔ ان گیسوں کو سانس میں استعمال ہونے والی گیس (Breathing Gas)مثلا آکسیجن کے ساتھ ملا کر دیا جاتا ہے ،تاکہ جانور پر بیہوشی طاری ہو جائے اور جانور کی موت واقع نہ ہو ۔اگر صرف ایک گیس کو چیمبرمیں چھوڑیں گے تو جانور مر جائے گا ۔ یہ عمل الیکٹریکل اسٹننگ کے مقابلے میں سست روی سے انجام پاتا ہے ، جس کی وجہ سے نقصان کے امکانات بھی کم ہو تے ہیں ۔5

ضرب کے ذریعے جانور کوبےہوش کرنا (Percussive Stunning)

اس طریقہ کار میں ایک ایسا آلہ استعمال کیا جاتاہے جو جانور کے سر پر مارا جاتا ہے ، دور قدیم میں اس مقصد کے لیے ایک ہتھوڑا نما آلہ استعمال کیا جاتا تھا ،جو ہاتھ میں پکڑ کر جانور کے سر پر مارا جاتا تھا،بیسویں صدی کے آخر میں " کیپٹو بولٹ پسٹل "(Captive Bolt Pistol) نے اسکی جگہ لے لی،یہ سر پر ضرب لگانے کا جدید طریقہ ہے ۔اس طریقہ کار میں جانور کی پیشانی کے درمیان میں پستول نما ایک آلہ رکھا جاتا ہے اور جب اس کا بٹن دبایا جاتا ہے ،تو اس میں سے لوہے کی ایک سلاخ نکل کر جانور کی پیشانی میں پیوست ہو جاتی ہے ، جس سے جانور بیہوش ہو جاتا ہے ، یہ طریقہ عموما گائیوں کو بے ہوش کرنے لئے استعمال کیا جاتا ہے ، اس طریقہ سے جانور پر فور ی بیہوشی طاری ہو جاتی ہے ، جس کی وجہ دماغ کا ایک دورہ "Brain Trauma" ہے۔ بعض مذبح خانوں میں ایسی کیپٹو بولٹ پسٹل استعمال کی جاتی ہے ،جوصرف سر پر ضرب لگاتی ہے،سر میں سوراخ نہیں کرتی۔جبکہ بعض پسٹلز میں کارتوس بھی ڈالیں جاتے ہیں،دور جدید میں ان پسٹلز کی بے شمار اقسام ہیں۔ 6

عمل تدویخ کے متعلق معاصر علماء کے مؤقف کا جائزہ

علماء اسلام خصوصا علماء عرب اور علماء بر صغیر پاک و ہند نے جہاں مشینی ذبیحہ کے دیگر پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کی ہے ، وہیں انہوں نے ذبح سے پہلے عمل تدویخ کو بھی اپنی بحث کا حصہ بنایا ہے ۔ اس حوالے سے علماء کے تین گروہ ہیں۔

مانعین کا مؤقف

ذیل میں ان علماء کےمؤقف کو بیان کیا جائے گا جو عمل تدویخ کی تمام صورتوں کو نا جائز قرار دیتےہیں ۔

علماء کی ایک جماعت کا مؤقف

جانور کو ذبح سے پہلے بے ہوش کرنے کا طریقہ طریقہء شرع اور سنت متوارثہ کے خلاف ہے ،ایسا کرنا مکروہ تحریمی ہے۔اگر ذبح سے پہلے،عمل تدویخ کے نتیجے میں جانور کی موت واقع ہو جائے،تو جانور مردار ہے،اسکا کھانا جائز نہیں،لیکن اگر جانور میں قبل از ذبح حیات مستقرہ موجود تھی ،اور اسی حالت میں جانور کو ذبح کر لیا گیا تو ایسی صورت میں اسکا کھانا حلال ہے۔(حیات مستقرہ کی تفصیل حاشیہ میں ملاحظہ ہو7 )یہ مؤقف مفتی محمود حسن گنگوہی،مولانا اشرف علی تھانوی ،مولانا یوسف لدھیانوی اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا ہے،جامعہ بنوریہ کراچی کے دارالافتاء نے بھی اسی کے موافق فتوی دیا ہے۔8

دلائل

1)مولانا یوسف لدھیانوی لکھتے ہیں

اگر سر پر چوٹ مارکر ذبح کرنے میں جانور کو راحت ہوتی اور یہ طریقہ اللہ تعالی کے نزدیک پسندیدہ ہوتا تو رسول اللہ ﷺ خود اسکی تعلیم فرماتے۔جن لوگوں نے یہ طریقہ ایجاد کیا ہے وہ گویا اپنے آپکو رسول اللہ ﷺ سے زیادہ ذہین ثابت کرنے جا رہے ہیں۔9

2)مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں

ذبح کی علت یہ ہے کہ جانور کے جسم سے خون کا اخراج ہو جائے،جبکہ بے ہوشی کی وجہ سے طبیعت کمزور ہوجاتی ہے اور خون کا اخراج کم ہوتا ہے،لہذا شرعی لحاظ سے ایسا کرنا ممنوع ہو گا ۔نیز بدن میں کافی خون موجود ہونے کے باوجود جب خون کم نکلے گا تو باقی خون گوشت میں مل جائے گا ،لہذا طبی لحاظ سے بھی ایسا کرنا ممنوع ہو گا۔10

عبد اللہ عبد الرحیم العبادی کا مؤقف

عبد اللہ عبد الرحیم العبادی کہتے ہیں کہ مغرب کے مسیحی اور بت پرست خون کو کالے مشروب کی صورت میں استعمال کرتے ہیں ، لہذا وہ ذبح سے پہلے جانور کو تدویخ کے عمل سے گزارتے ہیں تاکہ جانور کا خون اسکے اندر ہی رہے اور جسم سے باہر اسکا اخراج نہ ہونے پائے ، تاکہ وہ اسے استعمال کر سکیں ، جبکہ مسلمان اور یہودی خون کے استعمال کو حرام کہتے ہیں ، لہذا یہ بات ناممکن ہے کہ وہ کسی ایسے طریقے کو قبول کریں کہ جس سے خون کا کافی مقدار میں اخراج ممکن نہ ہو ۔ نیز تدویخ کا طریقہ ، حیوانات کے اجتماعی قتل کے اس طریقے کے مقابلے میں زیادہ نرمی والا ہو سکتا ہے جو ماضی میں مغربی ممالک میں زیر استعمال تھا، لیکن یہ ذبح کے مقابلے میں زیادہ رحیمانہ نہیں ہے ۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اخراج خون سے پہلے تدویخ ایک عیب ہے جو عصبی صدمہ پیدا کرتا ہے اور یہ ایک ایسی حالت ہے جس میں خون کی گردش بند ہو جاتی ہے ۔ تدویخ کے مشینی آلات کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ نصف صدی سے زیادہ ہو گیا ہے ، لیکن تجربات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تدویخ کا کوئی ایک بھی ایسا آلہ نہیں ہے کہ جسے بے خطر استعمال کیا جا سکے ۔11

ڈاکٹر محمد شکیل اوج کا مؤقف

ڈاکٹر صاحب کے مطابق یورپ اور امریکا میں جانور کو الیکٹرک شاک کے ذریعے بے ہوش کرنے کا جو رواج چل پڑا ہے ، اسکی منطقی توجیح تو بہت خوبصورت ہے کہ جانور کو بے ہوش یا سن کر کے اسکی تکلیف کم کی جائے ، لیکن فن ذبح کے ماہرین خوب جانتے ہیں کہ ذبح کی حقیقت اسکے تذکیہ میں پوشیدہ ہے اور تذکیہ کیلئے جانور کا تڑپنا ضروری ہے ۔ جتنا جانور زیادہ تڑپے گا اسی قدر خون کا اخراج ہو گا ، اور اسکا تذکیہ عمدہ طریقے پر ہو جائے گا ، کیونکہ گوشت ، خون کے زہریلے جراثیم سے پاک ہو جائے گا اور ایسے ہی گوشت کو حلال و طیب کہا جاتا ہے ،قرآن کی رو سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کسی بھی چیز کے قابل طعام ہونے کے لیے فقط اس کا حلال ہونا کافی نہیں بلکہ طیب ہونا بھی ضروری ہے ، اسی لیے متعدد مقامات پر "حلال طیبا " کے الفاظ اکٹھے لائے گئے ہیں۔(البقرۃ:168۔المائدۃ:88۔الانفال:69۔النحل:114)

جن جانوروں کے ہوش و حواس ختم کر کے انہیں ذبح کیا جاتا ہے انہیں ظاہری پہلو کے لحاظ سے ذبیحہ تو کہہ سکتے ہیں ، لیکن حلال طیب نہیں کہہ سکتے اس بات کا بھی خیال رہے کہ دماغ پر چوٹ یا ضرب مار کر جانور کو تھوڑی سی دیر کے لیے بے حس و حرکت کر کے ٹھیک اسی وقت ذبح کرنا ، قریب قریب موقوذیت والی کیفیت کو مصنوعی طور پر پیدا کرنا ہے ۔ قرآن مجید میں فطری موقوذہ کے بارے میں "الا ما ذکيتم " (المائدہ :3)کے الفاظ سے یہ قانون بتلایا گیا ہے کہ اگر اسے ذبح کر لیں تو وہ حلال ہو جائے گا، لیکن مذکورہ صورت میں جانور کو مصنوعی طور پر موقوذہ بنایا جاتا ہے لہذا مصنوعی موقوذہ کو فطری موقوذہ پر قیاس کر کے حلت کا حکم نہیں لگایا جا سکتا، اگرچہ اس جانور کو الٹا کر کے اس کی نالیوں میں سے خون کو ڈرین کر لیا جائے ۔ایسا کرنا اسلام کے ذبح کے قانون کا مذاق اڑانا ہے ۔12

لجنة الفتاویٰ بالشبكة الاسلامية کا مؤقف

جانور کی قوت مزاحمت کم کرنے کیلئے بجلی کا کرنٹ استعمال کرنا جائز نہیں ہے ، کیونکہ اس سے جانور کو تکلیف پہنچتی ہے ، اور ایسا کرنا شرعا ناجائز ہے ، اگر کوئی ایسا کرنے کے بعد جانور کو ذبح کر دے اور ذبح سے پہلے جانور میں حیات مستقرہ موجود ہو تو جانور کا کھانا حلال ہے ۔دلیل ،باری تعالیٰ کا قول : الا ما ذکيتم (المائدہ :3) ہے ۔ حیات مستقرہ کی موجودگی کی دو علامات ہیں : جانور حرکت کرے یا اس سے تیزی سے خون بہہ کر نکلے ۔13

مجوزین بالشرط کا مؤقف

ذیل میں ان علماء کےمؤقف کو بیان کیا جائے گا جو عمل تدویخ کی مخصوص صورتوں کو شرائط و ضوابط کے ساتھ جائز قرار دیتے ہیں ۔

مفتی محمدتقی عثمانی صاحب کا مؤقف

ذبح سے پہلے مرغیوں کے عمل تدویخ کے حوالے سے مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا کہنا ہے کہ مرغیوں کو اگر ذبح سے پہلے ایسے ٹھنڈے پانی سے گزارا جائے کہ جس میں کرنٹ نہ ہو ، اور مرغیاں صرف پانی کی ٹھنڈک کی وجہ سے سن ہو جائیں تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، لیکن اگر اس پانی میں کرنٹ موجود ہو اور مرغیاں اس کرنٹ کی وجہ سے سن ہو جائیں تو پھر بھی یہ عمل ذبح کے لیے مضر نہیں ہے ، کیونکہ اس سے مرغیوں کی موت واقع نہیں ہوتی ۔ صرف اتنا ہوتا ہے کہ مرغیوں کا دماغ ماؤف ہو جاتا ہے ،دماغ کے ماؤف ہو جانے سے دل سکڑجاتا ہے اور اسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سن کیے ہوئے جانور سے اس جانور کی نسبت خون کم نکلتا ہے کہ جس کو سن نہ کیا گیا ہو ۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ اس امر کی تحقیق کرنی چاہیے کہ کہیں کوئی معین جانور اس عمل سے مر تو نہیں گیا ، کیونکہ ایسے جانور کا کھانا جائز نہیں، اگرچہ بعد میں شرعی طریقے پر اس کی رگیں کاٹ دی جائیں۔ لہذا اس معاملے کی خوب تحقیق کرنی چاہیے کہ اس کرنٹ میں اتنی طاقت تو نہیں ہے کہ یہ مرغیوں کو ذبح سے پہلے ہی مار دے، اور اس بات کی بھی کڑی نگرانی کرنی چاہیے کہ کہیں کوئی مرغی ذبح سے پہلے مر کر چین کے ذریعے آگے ذبح ہونے نہ پہنچ جائے لیکن اس کے باوجود بھی اس عمل کا ترک کرنا اولی ہے ،تاکہ کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے ۔

مفتی صاحب مزید فرماتےہیں کہ مشینی ذبیحہ میں تھوڑی سے ترامیم کروا کر اسے شریعت کے مطابق بنایا جا سکتا ہے اس میں ایک ترمیم یہ بھی ہے کہ ٹھنڈے پانی میں بجلی کا کرنٹ نہ چھوڑا جائے، یا اس بات کا یقین حاصل کر لیا جائے کہ اس کے نتیجے میں مرغی کے دل کی دھڑکن بند نہ ہو جائے ۔

گائے اور بکری وغیرہ کو بے ہوش کرنے کیلئے عموما چار طریقوں میں سے کوئی ایک طریقہ اختیار کیا جاتا ہے :

1) سر پر ہتھوڑا مار کر بے ہوش کرنا ۔

2) مخصوص قسم کے پستول سے جانور کی پیشانی پر سلاخ فائر کر کے بے ہوش کرنا ۔

3) چمٹی کی طرح کے آلے کو جانور کی کنپٹیوں پر رکھ کر اس کے ذریعے کرنٹ چھوڑ کر بے ہوش کرنا ۔

4) کاربن ڈائی آکسائڈ کے چیمبر میں جانور کو ڈال کر اسکو بے ہوش کرنا ۔

5) ان چاروں طریقوں کے بارے میں مفتی صاحب کا مؤقف یہ ہے کہ اگر ان طریقوں کے استعمال سے جانور سے ذبح کی تکلیف کم ہو جاتی ہے تو انکا استعمال جائز ہو گا ورنہ نہیں ۔ کیونکہ آپﷺ نے فرمایا:

"اذا قتلتم فاحسنو االقتلة ، واذا ذبحتم فاحسنو االذبح وليحد احد کم شفرته وليرح ذبيحته۔"14

جب تم (کسی کافر کو )قتل کرو تو اچھے انداز میں قتل کرو، اور جب تم ( کسی جانور کو ) ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو ،اور اپنی چھری تیز کر لو اور اپنے جانور کو راحت پہنچاؤ ۔

جہاں تک بے ہوشی کے عمل کا تعلق ہے جو بعض حالات میں حیوانات کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے اور ذبح کی تکلیف سے زیادہ اس میں تکلیف ہوتی ہے ، جیسا کے پیشانی پر ہتھوڑا مار کر بے ہوش کرنا، یہ طریقہ بلا شبہ شرعا ناجائز ہے ۔ باقی تین طریقوں کے بارے میں ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ انکے استعمال سے ذبح کی تکلیف میں کمی ہوتی ہے یا زیادتی ؟اس لیے کہ حیوان کی پیشانی پر پستول چلانے سے اسکو شدید چوٹ لگتی ہے ، کرنٹ کا جھٹکا بھی تکلیف سے خالی نہیں اور حیوان کو گیس کے چیمبر میں بند کرنا بھی حیوان کا سانس گھٹنے کی طرف پہنچا دیتا ہے ۔ لیکن علم الحیوان کے ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ یہ طریقے جانور سے ذبح کی تکلیف کم کر دیتے ہیں ، لہذا اگر یہ بات ثابت ہو جائے کہ انکی وجہ سے ذبح کی تکلیف کم ہو جاتی ہےاور جانور کی موت بھی واقع نہیں ہوتی تو انکا استعمال جائز ہو گا ورنہ ناجائز ۔ جب تک یہ طریقے مشکوک ہیں ،اس وقت تک ان سے دور رہنا ہی مناسب ہے ۔15

مجمع الفقہ الاسلامی (انٹرنیشل اسلامک فقہ اکیڈمی سعودی عرب) کا مؤقف

28 صفر 1418ھ کو مجمع الفقہ الاسلامی الدولی کا دسواںاجلاس جدہ سعودی عرب میں منعقد ہو ا، جس میں ذبح کے حوالے سے فقہا ء، اطباء، اور غذائی ماہرین نے ایک قرار داد منظور کی جو "قرار بشان الذبائح "کے نام سے معروف ہے ۔اس قرار داد میں یہ بات طے کی گئی کہ تذکیہ شرعی کی حقیقت یہ ہے کہ یہ بغیر تدویخ کے ہو ، اس لیے کہ ذبح اسلامی اپنی شرائط و آداب کے ساتھ ایک ایسا طریقہ ہے جو جانور کے لئے سب سے کم تکلیف دہ ہے ۔ اس قرار داد میں عمل تدویخ کے حوالے سے درج ذیل شقیں پاس کی گئیں :

(ا)اگر کسی جانور کو مندرجہ ذیل فنی شرائط ملحوظ رکھتے ہوئے عمل تدویخ سے گزارا جائے اور پھر اسے تذکیہ شرعیہ کے مطابق ذبح کر دیا جائے تو اسکا کھانا حلال ہے ۔

کیونکہ ماہرین نے ان شرائط کے بارے میں یہ وضاحت کی ہے کہ یہ شرائط جانور کو ذبح سے پہلے موت تک نہیں پہنچنے دیتیں :

1)کرنٹ کے ذریعے جانور کو بے ہوش کرنے کی صورت میں چمٹی نما آلہ جانور کی دونوں کنپٹیوں پر رکھ کر اسے کرنٹ دیا جائے ۔

2)کرنٹ کے وولٹیج کی رینج 400-100وولٹ ہو ۔

3) بھیڑبکریوں کیلئے کرنٹ کی شدت 0.75 – 1.0 amps ہو اور گائیوں کے لیے2-2.5amps ہو ۔

4)کرنٹ دینے کا وقت 3 – 6سیکنڈ ہو ۔

(ب) جانور کے سر یا پیشانی پر ہتھوڑا مار کر اسے بے ہوش کرنا ناجائز ہے ، نیز انگریزی طریقے سے ذبح کرنا یعنی سینے میں ہوا بھرکر جانور کو مارنا بھی ناجائز ہے ۔

(ج) مرغیوں کو ذبح سے پہلے کرنٹ دینا جائز نہیں ۔اس لیے کے تجربہ سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ سوائے چند مرغیوں کے بقیہ تمام مرغیاں ذبح سے پہلے ہی موت کا شکار ہو جاتی ہیں ۔

(د) کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ذریعے جانور کو بے ہوش کرنا یا کیپٹو بولٹ پسٹل کے استعمال سے اسے بے ہوش کرنا جائز ہے ، بشرطیکہ ذبح سے پہلے جانور موت تک نہ پہنچے ایسا جانور اگر ذبح کرلیا گیا تو حرام نہ ہو گا ۔

غیر اسلامی ممالک میں رہنے والے مسلمان یہ کوشش کریں کہ انہیں تدویخ کے بغیر ذبح کرنے کی اجازت مل جائے ۔16

فقہی اکیڈمی انڈیا کے احباب کا مؤقف

فقہی اکیڈمی انڈیا کے احباب کا مؤقف یہ ہے کہ جانوروں کو ذبح سے پہلے بجلی یا کسی اور طریقے سے بے ہوش کرنے کا جو طریقہ رواج پا رہا ہے اور اسے جانوروں کیلئے الم و تکلیف کم کرنے کا ذریعہ تصور کیا جاتا ہے ، سیمینار کو اس نقطہء نظر سے اتفاق نہیں ہے بہتر طریقہ یہی ہے کہ بغیر بے ہوش کیے جانور کو ذبح کیا جائے ۔

لیکن اگر کہیں یہ طریقہ رائج ہو اور اس بات کا یقین ہو جائے کہ جانور صرف بے ہوش ہوا ہے ، مرا نہیں ، پھر جانور کو ذبح کر لیا جائے تو ذبیحہ حلال ہو گا ۔17

ڈاکٹر وھبہ الزحیلی کا مؤقف

ڈاکٹر وھبہ الزحیلی کے نزدیک اگر ذبح سے پہلے ایسے ذرائع اختیار کیے جائیں کہ جس سے جانور کی مزاحمت کی قوت کمزور پڑ جائے اور اسے تکلیف بھی نہ ہو تو ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں لہذا تدویخ کے وہ تمام طریقے اسلام میں جائز ہوں گے کہ جن کے استعمال سے جانور کو تکلیف نہ پہنچے اور ذبح سے پہلے اس میں طبعی حیات کی موجودگی گی کا غالب گمان ہو ، جیسا کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنا، جبکہ سر پر ہتھوڑا مارنا کرنٹ اور کیپٹو بولٹ پسٹل کا استعمال نا جائز ہو گا کیونکہ اس سے جانور کو تکلیف ہوتی ہے لیکن اگر کوئی ان طریقوں کے استعمال کے بعد جانور کو ذبح کر دے اور اس میں حیات مستقرہ موجود ہو تو آئمہ اربعہ کے نزدیک وہ جانور حلال ہو جائے گا سننے میں یہ بات آئی ہے کہ مذبح خانوں میں جانور کو عمل تدویخ سے گزارنے کے چند سیکنڈ بعد ذبح کر دیا جاتا ہے ۔ لہذا ان کا کھانا حلال ہو گا ۔18

دار الافتاء المصریۃ کا مؤقف

اگر جانور کو صرف عمل تدویخ سے مارا جائے تو وہ میتۃ ، منخنقہ اور موقوذہ وغیرہ میں داخل ہو کر ازروئے قرآن حرام ہے، لیکن اگر جانور میں حیات مستقرہ موجود تھی اور اسے اسلامی طریقے کے مطابق ذبح کر دیا گیا تو ایسا جانور آئمہ اربعہ کے نزدیک حلال ہو جائے گا اور اگر اس میں حیات مستقرہ نہ ہو بلکہ حیات کی ذرا سی رمق ہو تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک تو حلال ہے ، ائمہ اربعہ کے نزدیک حلال نہیں ہے۔

عمل تدویخ سے مقصد اگر جانور کی قوت مزاحمت کو کمزور کرنا اور اس پر غلبہ پانا ہو تو ایسا کرنا جائز ہے اور اگر یہ مقصد نہ ہو تو یہ جانور کو تکلیف دینا ہے ، اور ایسا کرنا مکروہ ہے۔19

عبد العزیز بن باز کا مؤقف

مسلمان اور اہل کتاب کا وہ ذبیحہ کہ جس کے بارے میں علم ہو کہ انہوں نے غیر شرعی طریقے پر ذبح کیا ہے ، حلال نہیں ہے ، انکا وہ ذبیحہ جو اسلامی طریقے کے مطابق ذبح کیا گیا ہو یا اس کے بارے میں ہمیں علم نہ ہو کہ انہوں نے اسے کس طرح ذبح کیا ہے تو اصل یہ ہے کہ وہ حلال ہے، لیکن اگر غیر شرعی طریقے سے اسے ذبح کیا گیا ہو مثلابجلی کے جھٹکے وغیرہ سے جانور کو مار دیا جائے تو جانور حرام ہو جائے گا اور اگر عمل تدویخ کے بعد جانور میں حیات تھی اور اسے ذبح کر لیا تو بھی اس کا کھانا حلال ہے۔

شیخ ابن باز نے حرمت عليکم الميتة الخ (المائدہ :3) سے استدلال کیا ہے ، کیونکہ جو جانور بجلی کے کرنٹ سے مارا گیا ہو وہ منخنقہ اور موقوذہ میں داخل ہو کر حرام ہو گا خواہ مسلمان نے ایسا کیا ہو یا کتابی نے ۔20

مجوزین بغیر الشرط کا مؤقف

ذیل میں ان علماء کےمؤقف کو بیان کیا جائے گا جو عمل تدویخ کی تمام صورتوں کو بغیر کسی شرط کے جائز قرار دیتے ہیں ۔

مصر کے مفتی محمد عبدہ اور انکے تلمیذ رشید علامہ رشید رضا مصری کا مؤقف

مصر کے مفتی محمد عبدہ کا مؤقف یہ ہے کہ نہ صرف عمل تدویخ مستحسن ہے ، بلکہ اگر جانور کو صرف بجلی کے جھٹکوں سے مار دیا جائے اور ذبح نہ کیا جائے تو یہ طریقہ بھی نہ صرف جائز ہے ، بلکہ مستحسن ہے ۔

مفتی محمد عبدہ نے اپنی تفسیر المنار میں لکھا ہے :

"وإني لأعتقد أن النبی ﷺ لو اطلع علی طريقة التذکية أسهل علی الحيوان ولا ضرر فيها کالتذکية بالکهربائية ان صح هذا الوصف فيها لفضلها علی الذبح "21

(اور میرا تو یہ اعتقاد ہے کہ اگر نبی ﷺ کو تذکیہ کا کوئی ایسا طریقہ معلوم ہوتا ، جو جانوروں کیلئے سہولت کا اور بے ضرر ہو تا، جیسا کہ بجلی کے کرنٹ سے مار کر تذکیہ کرنا ہے ، اگر یہ وصف اس میں صحیح ہے، تو آپ ﷺ اس طریقے کو اسلا می ذبح کے طریقے سے افضل قرار دیتے )

اس کے بعد واضح لفظوں میں یہ بات بھی کہہ دی کہ جانور کا گوشت کھانا امور طبیعہ عادیہ میں سے ہے ، مذہب و ملت سے اسکا کوئی تعلق نہیں ہے۔ شرعی پابندیاں صرف عبادات میں ہوتی ہیں ۔ چونکہ لوگوں کے ہاں رائج طریقوں میں سے پالتو جانوروں کیلئے ذبح اور وحشی جانوروں کیلئے عقر کا طریقہ دیگر طریقوں کے مقابلے میں اکثر لوگوں کیلئے آسان تھا، نیز قتل وغیرہ کی نسبت اس میں جانور کو تکلیف بھی کم ہوتی تھی ، چنانچہ لوگوں نے یہ طریقہ اختیار کر لیا اور شریعت نے انکے لیے یہی طریقہ مقرر کر دیا۔22مفتی محمد عبدہ کے شاگرد رشید علامہ رشید رضا مصری نے مجلۃ المنار میں ذبائح اہل کتاب سے متعلق ایک استفتاء کا جواب دیتے ہوئے اپنے استاذ مفتی محمد عبدہ کی تائید کی ہے اور فرمایا ہے کہ ذبح سے پہلے اگر جانور کو کسی دھاری دار یا غیر دھاری دار چیز سے مارنے کے بعد ذبح کر لیا جائے تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ، کیونکہ جانور میں حیات مستقرہ موجود رہتی ہے اور جمہور فقہاء کے نزدیک ایسا جانور حلال ہو جائے گا ۔23

شیخ یوسف القرضاوی کا مؤقف

شیخ یوسف القرضاوی فرماتے ہیں کہ جس طرح اہل کتاب سے نکاح کر نے کی اللہ تعالیٰ نے رخصت دی ہے ایسے ہی ان کے کھانوں کے بارے میں بھی رخصت دی ہے چنانچہ فرمایا :"وطعام الذین اوتو االکتاب حل لکم"(المائدہ :5) مشرکین عرب کے کھانوں کے بارے میں اسلام نے شدت اختیار کی اور اہل کتاب کے کھانوں کے متعلق نرمی کا پہلو اختیار کیا ،کیونکہ وہ وحی ، نبوت اور اصول دین کے اعتراف میں مسلمانوں سے زیادہ قریب ہیں۔

"وطعام الذين اوتو الکتاب حل لکم"(المائدہ:5)کے الفاظ ان کے تمام کھانوں کو شامل ہیں ، چاہے وہ ذبائح ہوں یا اناج وغیرہ،سوائے حرام لعینہ کے جیسا کہ میتۃ ، دم مسفوح اور خنزیر، اس طرح کی چیزیں نہ تو کسی مسلمان سے کھائی جا سکتی ہیں نہ کتابی سے ۔

شیخ یوسف القرضاوی کے نزدیک اہل کتاب کے لیے مسلمانوں کی طرح ذبح کرنا شرط نہیں ہے ۔چنانچہ اہل کتاب کے ممالک سے مسلمانوں کے ملکوں میں جو گوشت درآمد کیا جاتا ہے اور جس کا تذکیہ بجلی کے کرنٹ وغیرہ کے ذریعے عمل میں لایا جاتا ہے اس کا کھانا شیخ کے نزدیک حلال ہے ، کیونکہ اہل کتاب جن کھانوں کو حلال سمجھتے ہیں وہ ہمارے لیے بھی حلال ہیں ، ان کی حلت سورۃ المائدہ کی آیت :5سے ثابت ہے۔

شیخ نے بطور استدلال کے امام مالک سے پوچھے گئے ایک استفتاء کا جواب بھی نقل کیا ہے کہ امام مالک سے اہل کتاب کہ ان ذبائح کے بارے میں پوچھا گیا کہ جو وہ اپنے عبادت گاہوں کے لیےذبح کرتے ہیں تو امام مالک نے فرمایا کہ میں اسے مکروہ سمجھتا ہو ں نہ کہ حرام ، مکروہ بھی بطور تقوٰ ی کے کہا کہ کہیں "وما أهل لغير الله به"(المائدہ:3) میں داخل نہ ہو ، ورنہ امام مالک کے نزدیک اہل کتاب کی نسبت سے "وما اہل لغیر اللہ بہ " (المائدہ:3)میں صرف وہ جانور داخل ہیں کہ جنہیں اپنے معبودوں کی خوشنودی کیلئے انہوں نے قربان کیا ہو اور وہ انہیں کھاتے نہ ہوں ، جبکہ وہ جانور کہ جنہیں ذبح کر کے وہ کھاتے ہوں تو وہ ان کے طعام میں داخل ہو کر " وطعام الذین اوتو الکتاب حل لکم"(المائدہ:5) کی رو سے حلال ہے ۔24

شیخ یوسف القرضاوی نے ابن عربی کے قول کو بھی دلیل بنایا ہے ۔ قاضی ابن عربی نے سورۃ المائدہ آیت : 5 کی تفسیر میں یہ بات کہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے شکار اور انکے کھانوں کو مطلقا حلال کیا ہے ۔25

شیخ یوسف القرضاوی فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مغربی ممالک سے آنے والے گوشت کی تفتیش نہ کریں کیونکہ ضابطہ یہ ہے کہ "ما غاب عنه لا نسال عنه " (غائب چیز کی تفتیش نہیں کرنی چاہیے)بلکہ اسے حلال ہی سمجھنا چاہیے ۔

بطور دلیل کہ بخاری شریف میں موجود حضرت عائشہ کی حدیث کو بھی نقل کیا ہے :

"عن عائشة رضي الله عنها، أن قوما قالوا للنبيﷺ: إن قوما يأتوننا باللحم لاندري ذکروا اسم الله عليه أم لا؟ فقال: سمو عليه، أنتم وکلوه، قالت: وکانوا حديثي عهد بالکفر۔"26

(عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ ایک قوم نے آپ ﷺ سے دریافت کیا کہ ایک ایسی قوم ہمارے پاس گوشت لاتی ہے کہ جسکے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ انھوں نے ذبیحہ پر اللہ کا نام لیا ہے یا نہیں ؟تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اللہ کا نام لے کر اسے کھا لیا کرو۔عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ وہ لوگ نو مسلم تھے)لہذا مغربی ممالک سے آنے والا گوشت حلال ہے۔27

عمل تدویخ سے متعلق معاصر علماء کے مؤقف کا تجزیہ

ذیل میں مقالہ نگار عمل تدویخ سے متعلق معاصر علماء کے مؤقف اور انکے دلائل کا تجزیہ اور ان پر تبصرہ اسی ترتیب سے ذکر کرے گا جس ترتیب سے ما قبل میں انکے مؤقف کا تذکرہ ہوا ۔

علماء برصغیر کی ایک جماعت کہ جس میں مفتی محمود حسن ، مولانا اشرف علی تھانوی ، مولانا یوسف لدھیانوی، مفتی مولانا انعام الحق قاسمی ، خالد سیف اللہ رحمانی اور جامعہ بنوریہ کے دار الافتاء کے مفتیان کرام شامل ہیں جن کے نزدیک عمل تدویخ کا استعمال خلاف سنت اور مکروہ تحریمی ہے ۔ ان میں سے بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ عمل تدویخ کے نتیجے میں خون کا اخراج کم ہوتا ہے ،لیکن یہ بات مطلقا درست نہیں ۔ماہرین کے نزدیک اگر فورا جانور کو ذبح کر لیا جائے تو خون کا اخراج معمول کے مطابق ہوتا ہے اور اگر کچھ دیر بعد ذبح کیا جائے تو خون کے اخراج میں کمی ہو جاتی ہے ۔

عبد اللہ عبد الرحیم العبادی کا مؤقف اس حوالے سے درست ہے کہ انہوں نے عمل تدویخ کے جملہ طریقوں کو ناجائز قرار دیا ہے ۔ کیونکہ تدویخ کا کوئی بھی طریقہ ہو اس کا استعمال ذبح سے پہلے ایک اضافی تکلیف ہے ۔ لیکن جیسا کہ انہوں نےعلی الاطلاق یہ دعوٰ ی کیا ہے کہ مغرب کے مسیحی اور بت پرست خون کو کالے مشروب کی صورت میں استعمال کرتے ہیں اور خون کو محفوظ کرنے کیلئے یہ طریقہ اپناتے ہیں ، مقالہ نگار کو اب تک اسکی کوئی سند نہیں مل سکی ۔

ڈاکٹرمحمد شکیل اوج اگرچہ عمل تدویخ کو درست نہیں سمجھتے ، لیکن انہوں نے ذبح اور تذکیہ کے نام سے جو اصطلاحات متعارف کروائی ہیں، اور عمل تدویخ کے بعد جانور کی رگیں کاٹنے کو ذبح اور اسکے بغیر جانور کی رگیں کاٹنے کو تذکیہ کہا ہے، اور یہ بھی باور کرایا ہے کہ اگر جسم سے خون اچھی طرح بہہ جائے تو تذکیہ ہو گا ورنہ صرف جانور ذبح ہوگا ، اور پھر ذبح شدہ کو حلال اور تذکیہ شدہ کو حلال طیب کہا ہے ، یہ انکا انفرادی نقطہ نظر ہے ، جمہور علماء کے ہاں ذبح، تذکیہ کی ایک قسم ہے ، نہ کہ کوئی علیحدہ اصطلاح ہے ۔

لجنة الشبكة الإسلامية نے عمل تدویخ کو ناجائز قرار دیا ہے ۔ مقالہ نگار کے نزدیک انکا مؤقف درست ہے ۔

مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے تدویخ کی شرعی حیثیت پر کوئی حتمی رائے قائم کرنے کا اقدام نہیں کیا ، انکی تمام بحث صرف اس اصول پر کھڑی ہے کہ اگر عمل تدویخ کے استعمال سے ذبح کی تکلیف کم ہو تو اسکا استعمال جائز ورنہ ناجائز ہو گا ۔ یہ بھی کہا کہ چونکہ ان طریقوں کے استعمال میں بہت زیادہ شبہات ہیں لہذا ان سے دور رہنا مناسب ہے ۔

مجمع الفقہ الاسلامی کی کاوش اچھی ہے کہ اس نے علماء اور غذائی ماہرین کی مشاورت سے عمل تدویخ کے معیارات مقرر کیے۔ تاہم یہ معیارات کرنٹ کے ذریعے جانور کو بے ہوش کرنے سے متعلق ہیں ۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پستول نما آلے کے ذریعے بے ہوش کرنے کے متعلق معیارات نہیں طے کیے گئے ۔ تاہم ان معیارات کے حوالے سے علم الحیوان کے ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ انہیں بنیاد نہیں بنایا جا سکتا ۔ کیونکہ حساسیت کے اعتبار سے ہر جانور دوسرے سے منفرد ہوتا ہے ، زیادہ حساس جانور ان معیارات کو پورا کرنے کے باوجود ذبح سے پہلے مر سکتے ہیں ۔

فقہی اکیڈمی انڈیا کے احباب اس بات سے متفق نہیں ہیں کہ عمل تدویخ کے ذریعے جانور سے ذبح کی تکلیف کم ہو جاتی ہے، بہتر طریقہ بغیر تدویخ کے ذبح کرنا ہے ۔ اس بات سے عمل تدویخ کا جواز سمجھ میں آجاتا ہے ۔ کیونکہ جب بغیر تدویخ کے ذبح کرنا بہتر ہے تو اسکا یہی مطلب نکلتا ہے کہ تدویخ کے بعد ذبح کرنا بہتر نہیں بلکہ جائز ہے ۔ اگر عمل تدویخ قبل از ذبح ایک اضافی تکلیف ہے اور جانوروں سے ذبح کی تکلیف کم کرنے میں مؤثر نہیں تو اسے صراحتا ناجائز قرار دینا چاہیے تھا ۔

ڈاکٹر وھبہ الزحیلی کے نزدیک تدویخ کے جملہ طریقے تکلیف دہ ہیں، بلکہ صرف کاربن ڈائی اکسائیڈ استعمال کر کے جانور کو بے ہوش کرنا تکلیف سے خالی ہے اور اس میں ذبح سے پہلے جانور میں حیات مستقرہ بھی موجود رہتی ہے ۔ غالبا انہوں نے اس طریقہ کو انسانوں کو دیے جانے والے اینستھیزیا پر قیاس کیا ہے۔ اس حوالے سے گزارش یہ ہے کہ آپریشن سے پہلے انسانوں کو جو اینستھیزیا دیا جاتا ہے وہ ہر ہر انسان کو علیحدہ علیحدہ ایک ماہر ڈاکٹر کی موجودگی میں دیا جاتا ہے ، جبکہ جانوروں کو اکٹھا ہی ایک گیس کے چیمبر میں بھر کر بے ہوش کر دیا جاتا ہے اور انفرادی طور پر اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا کہ یہ ہر ہر جانور کی قوت مدافعت کے مطابق ہے یا نہیں ؟

دار الافتاء المصریۃ نے کہا ہے کہ اگر اسکا مقصد جانور کی قوت مدافعت کو کمزور کرنا ہو تو اسکا استعمال جائز ہے اور اگر جانور کو تکلیف پہنچانا مقصود ہو تو اسکا استعمال مکرہ ہے ۔ یہ وجہ فرق جو انہوں نے بیان کی یہ مقالہ نگار کی سمجھ سے بالاتر ہے ۔ اگر ایک چیز فی الواقع تکلیف دہ ہے تو آپ کوئی بھی نیت کر لیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اس نے تو بہر حال تکلیف دینی ہے ۔

شیخ ابن باز نے عمل تدویخ کے جواز و عدم جواز کو موضوع بحث نہیں بنایا بلکہ غیر جانب دارانہ طور پر صرف اتنا کہا ہے کہ محض اسکے استعمال سے جانور کو مار دینے سے جانور حرام ہو جائے گا، لیکن اگر اسکے استعمال کے بعد شرعی طریقے سے ذبح کر دیا جائے تو وہ حلال ہو گا ورنہ نہیں ۔

مفتی محمد عبدہ اور علامہ رشیدرضا مصری کا مؤقف جمہور علماء امت کے بالکل برخلاف ہے ۔یہ ان دونوں حضرات کی اجتہادی غلطی ہے کہ انہوں نے محض بجلی کے کرنٹ سے جانور مار دینے کو بھی مستحسن قرار دیا ہے اور دلیل اس بات کو بنایا ہے کہ جانوروں کو ذبح کرنا امور عادیہ میں سے ہے نہ کہ امور تعبدیہ میں سے ہے ۔ حالانکہ بات یہ ہے کہ شریعت کا ذبح کرنے کا حکم چاہے امر تعبدی ہو یا امر عادی ، بالفاظ دیگر اسکی حکمت و علت ہمیں سمجھ آتی ہو یا نہ آتی ہو، ہم اسکے تبدیل کرنے یا مطلقا چھوڑ دینے کا حق نہیں رکھتے ۔28

شیخ یوسف قرضاوی کے مؤقف کا حاصل یہ ہے کہ اگر کتابی صرف عمل تدویخ کے استعمال سے جانور کو قتل کر دے تو بھی اسکا کھانا حلال ہے ، لیکن اگر مسلمان ایسا کرے تو اسکا کھانا حرام ہے ۔ اگر آیت قرآنی "وطعام الذین اوتو الکتاب حل لکم" (المائدہ:5) کی رو سے ہر قسم کا کھانا حلال قرار دیا جائے تو پھر اہل کتاب کا ذبح کیا ہو ا خنزیر بھی حلال ہونا چاہیے۔ جب خنزیر کو اس وجہ سے حرام قرار دیا گیا کہ ہماری شریعت نے اسے حرام کہا ہے تو پھر ہماری شریعت ہی نے "الا ما ذکیتم"(المائدہ:3) کی قید لگا کر ہمارے لیے صرف وہی جانور حلال کیے ہیں جو بطریق شرع ذبح کیے گئے ہوں ۔29جہاں تک ابن عربی کے فتوی کا تعلق ہے تو ابن عربی نے اس سے رجوع کر لیاتھا۔30اور حدیث عائشہ نو مسلموں کے بارے میں ہے،اس سے استدلال کر کے کفار کے ذبائح کو حلال قرار دینا درست نہیں ۔31

عمل تدویخ کے بارے میں مقالہ نگار کا مؤقف

عمل تدویخ کے بارے میں مقالہ نگار کا یہ مؤقف ہے کہ مسلمانوں کو اپنے مذبح خانوں میں اسلامی ذبح کے شرائطاو رآداب ملحوظ رکھتے ہوئے جانور کو ذبح کرنا چاہیے،ماہرین حیوانات اور علماء کرام نے مذبح خانوں میں اس چیز کا مشاہدہ کیا ہے کہ تدویخ کا کوئی بھی طریقہ تکلیف سے خالی نہیں اور یہ ذبح سے پہلے جانور کے لیے ایک اضافی تکلیف ہے۔حالانکہ شرعی طور پر حکم یہ ہے کہ جانوروں کو ذبح کے موقع پر سہولت و آرام کے ساتھ ذبح کیا جائے اور انھیں کسی بھی اضافی تکلیف سے بچایا جائے۔ شریعت نے احکام شرع کا دارومدار مشاہدہ پر رکھا ہے اور مشاہدہ یہی ہے کہ عمل تدویخ ذبح کی تکلیف کو کم یا ختم کرنے کی بجائے، ذبح سے پہلے ایک اضافی تکلیف ہے،لہذا عمل تدویخ کا کوئی بھی طریقہ استعمال کرنا مکروہ تحریمی ہے۔سائنسی نقطہء نظر سے بھی عمل تدویخ ،ذبح کےمقابلے میں زیادہ تکلیف دہ ہے،ڈاکٹر غلام مصطفی خان نے اس پر بہت خوبصورت تحقیق کی ہے،جسکی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔32

جہاں تک مغربی ممالک کے مذبح خانوں کا تعلق ہے تو مسلمانوں کو چاہیے کہ وہاں کی حکومتوں سے یہ بات منظور کروائیں کہ مسلمان عمل تدویخ کے بغیر جانور ذبح کریں گے ،جیسا کہ کوشر گوشت جو یہودیوں کے لیے بمنزلہ حلال گوشت ہے،اسمیں صرف وہ اپنے مذہبی طریقے پر اکتفاء کرتے ہیں اور تدویخ کے طریقے کو قبول نہیں کرتے۔لیکن جہاں کہیں عمل تدویخ کو اختیار کرنا قانونی مجبوری ہے ، وہاں بھی اس بات کا خیال رکھا جائے کہ تدویخ کے صرف وہ طریقے اختیار کیے جائیں کہ جن سے جانور کی موت واقع نہیں ہوتی ،جیسا کہ اسلامی فقہ اکیڈمی سعودی عرب نے اپنی دسویں قرارداد میں مرغیوں کے لیے ٹھنڈے پانی میں کرنٹ چھوڑ کر انھیں بے ہوش کرنے اور جانوروں کے سر پر ہتھوڑا مار کر انھیں بے ہوش کرنے کو ناجائز قرار دیا ہے،کیونکہ ماہرین کا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ ان دونوں صورتوں میں جانور کی موت واقع ہونے کی قوی امکانات ہوتے ہیں،جبکہ چھوٹے جانوروں کو چمٹی نما آلہ کے ذریعے کرنٹ دے کر یا کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے چیمبر میں ڈال کر بے ہوش کر نے کو جائز قرار دیا ہے ۔

جبکہ بڑے جانوروں کے لیے کیپٹو بولٹ پسٹل کے استعمال کو جائز کہا ہے ،لیکن شرط یہ ہے کہ ان تینوں طریقوں کے استعمال سے جانور کی موت واقع نہ ہو ،اسکے لیے اس قرر داد میں چند معیارات وضع کیے گئے ہیں ،جس میں چھوٹے اور بڑے جانوروں کے لیے کرنٹ دینے کے وقت اور اسکی حدوود کو ذکر کیا گیا ہے،لیکن مقالہ نگار نے ماہرین حیوانات سے مشورہ کیا تو معلوم ہوا کہ کمزور اور زیادہ حساس جانور ان معیارات کی موجودگی میں بھی مر جاتے ہیں ،اگر بے ہوش کرنے والا ماہر فن ہے تو وہ ہر جانور کی ساخت اور حالت کے لحاظ سے اسکو اتنی مقدار میں ہی بے ہوش کرتا ہے کہ جانور ذبح سے پہلے موت کے منہ میں نہ جائے ، چنانچہ جس طرح انسانوں کے آپریشن سے پہلے اینستھیزیا اسپیشلسٹ کی خدمات لی جاتی ہیں ،بالکل اسی طرح اسٹننگ اسپیشلسٹ کی خدمات اس حوالے سے حاصل کی جانی چاہئیں ۔تاکہ اس بات کا یقین حاصل ہوسکے کہ ذبح سے پہلے جانور میں حیات مستقرہ موجود ہے،اسکے بعد اگرجانور کو ذبح کر لیا جائے تو جانور کا کھانا حلال ہو گا ۔

بعض علماء نے عمل تدویخ کے عدم جواز کی یہ وجہ بھی تحریر کی ہے کہ عمل تدویخ کے بعد جانور کا خون کم نکلتا ہے جبکہ بعض دوسرے علماء نے یہ کہا ہے کہ انھوں نے مذبح خانوں کا مشاہدہ کیا ہے ،عمل تدویخ کے بعد خون کا اخراج معمول کے مطابق ہوتا ہے ۔33مقالہ نگار نے جب اس سلسلے میں ماہرین حیوانات سے رجوع کیا تو انھوں نے بتلایا کہ اگر اسٹننگ کے فورا بعد جانور کو ذبح کر لیا جائے تو ایسی صورت میں ذبح والا حساب ہی ہو جاتا ہے،اور خون معمول کے مطابق نکلتا ہے ،لیکن اگر کچھ دیر گزر جائے اور پھر جانور کو ذبح کیا جائے تو دل کی دھڑکن کم ہونے کی وجہ سے خون کا اخراج معمول سے کم ہوتا ہے،عموما مذبح خانوں میں جانور کو بے ہوش یا سن کرنے کے ایک منٹ بعد تک ذبح کر دیا جاتا ہے ،یا تو انھیں الٹا لٹکا کر ذبح کیا جاتا ہے یا ذبح کرتے ہی الٹا لٹکا دیا جاتا ہے،جسکی وجہ سے خون اچھی طرح ڈرین ہو جا تا ہے ،لہذا خون کے اخراج کی کمی کو عمل تدویخ کے عدم جواز کی علت بنا نا صحیح معلوم نہیں ہوتا ،بلکہ اصل وجہ یہی ہے کہ جانور کو ذبح سے پہلے ایک اضافی تکلیف پہنچنے کی وجہ سے عمل تدویخ ناجائز اور مکروہ تحریمی ہے ۔

اگر بالفرض عمل تدویخ کے بعد جا نور کو جلد ذبح نہ کیا جائے ،تو ایسی صورت میں یقینا خون کا اخراج کم ہو گا،لیکن یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک ذبح میں ودجین کا کاٹنا ضروری نہیں اور جب ودجین نہ کاٹیں تو جسم سے خون کا اخراج نہیں ہو گا ، لہذا امام شافعی اور امام احمد کے مذہب پر عمل کر تے ہوئے خون کے کم اخراج کے باوجود تذکیہ کی کیفیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔34

خلاصۂ بحث

مغربی ممالک کے مذبح خانوں میں اسلامی ذبیحہ کی بجائے ،بذریعہ تدویخ جانور کو بے ہوش کرنے کا طریقہ رائج ہے،اسکی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کی اس طریقے سے جانور سے ذبح کی تکلیف بھی کم ہو جاتی ہے،اور جانور ذبح کرنے والے کے قابو میں آسانی سے آجاتا ہے،نیز ذبح کرنے والا جانور کے کسی بھی ممکنہ حملے سے بچ جاتا ہے،اس مقصد کے لیے گیس،کرنٹ یا ضرب لگانے والے آلے کا سہارا لیا جاتا ہے،عرب اور بر صغیر کے علماء نے عمل تدویخ کی شرعی حیثیت کے حوالے سے تین مؤقف قائم کیے ہیں،بعض نے عمل تدویخ کو ناجائز کہا ہے،بعض نے شرائط کے ساتھ عمل تدویخ کی بعض یا تمام صورتوں کا جائز قرار دیا ہے،جبکہ بعض نے مطلقا تمام صورتوں کو بغیر کسی شرط کے جائز رکھا ہے۔مقالہ نگار کے نزدیک مانعین کا مؤقف راجح ہے۔کیونکہ مشاہدہ اور سائنس دونوں کی نظر میں عمل تدویخ ،ذبح سے پہلے ایک اضافی تکلیف ہے،جبکہ اسلامی ذبیحہ جانور کے لیے سب سے زیادہ سہولت کا طریقہ ہے،لہذا مسلمانوں کو اسے ہی اپنانا چاہیے،لیکن اگر کسی ملک میں حکومتی قانون کی وجہ سے مجبورا اسے اختیار کرنا پڑے تو اسٹننگ اسپیشلسٹ کی زیر نگرانی وہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ جس کے نتیجے میں جانور صرف بے ہوش ہو،اور ذبح سے پہلے اسمیں حیات مستقرہ موجود ہو، ایسی صورت میں اسلامی طریقے سے اسے ذبح کر دیا جائے تو ایسے جانور کا گوشت کھانا حلال ہو جائے گا۔

File:.png

This work is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License.

References

1شان الحق حقی، اوکسفورڈ انگلش اردو ڈکشنری، اوکسفورڈ یونیورسٹی پریس، 2005ء

Shan al ḥaq ḥaqqy, Oxford English Urdu Dictionary, (Oxford University Press, 2005)

2 C.W.G/Edt, The New Encyclopedia Britannica, (Encyclopedia Britannica, Inc, 15th Edition, 2010) Food Processing, P.356

3ابن منظور،لسان العرب،بیروت،دار صادر،1414ھ،3/16

Ibn e Manẓor, Lisan al ‘arab, (Beirut: Dār Ṣadir, 1414), 3:16

4 McSmith, A, I'll have my lobster electrocuted, please, (London: The Independent Newspaper), June 14, 2013.

Anon, CrustaStun, The 'humane' gadget that kills lobsters with a single jolt of electricity, (London: Mail Online Newspaper), June 14, 2013

Electrical Stunning of Red Meat Animals, (England: Humane Slaughter Association, 2013)

Charlotte Berg and others, A Review of Different Stunning Methods for Poultry—Animal Welfare Aspects (Stunning Methods for Poultry), Animals, May, 2015, P. 1209-1212

5 International Training Workshop on Welfare StanDārds Concerning the Stunning and Killing of Animals in Slaughterhouses or for Disease Control, (Bristol: Humane Slaughter Association), 2006

6 Captive-Bolt Stunning of Livestock, (England: Humane Slaughter Association), 2013

7فقہا نے اپنی تحریروں میں حیات کی تین اقسام بیان کی ہیں :

1) حیات مستقرہ:

جانور میں موجود ایسی زندگی جو اسکے جسم میں جاری و ساری اور رکی ہوئی ہو ، یعنی جانور کے جسم میں روح ہو اور اس میں اپنے ارادے سے دیکھنے کی قوت ہو، نیز اسکی تمام حرکات اختیاری ہوں نہ کہ اضطراری ۔

2) حیات مستمرہ:

جانور کے جسم سے روح نکل رہی ہو ، اس موقع پر اس میں جو زندگی ہوتی ہے اسے حیات مستمرہ کہا جاتا ہے ۔کتب فقہ میں اسے اصل حیات سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔

3) حرکت مذبوحی :

اسکا مطلب ہے مذبوح کی زندگی ۔یعنی ذبح کے بعد جانور میں جو زندگی ہوتی ہے اسے حرکت مذبوحی کہا جاتا ہے۔ اس حالت میں نہ تو جانور اپنے ارادے سے دیکھ سکتا ہے اور نہ ادھر ادھر حرکت کر سکتا ہے ، بلکہ اسکا دیکھنا اور مختلف حرکتیں کرنا اضطراری ہوتا ہے۔

امام ابو حنیفہ کے نزدیک پالتو جانوروں میں ذبح سے پہلے حیات مستمرہ کافی ہے،جبکہ صاحبین اور ائمہ ثلثہ کے نزدیک حیات مستقرہ ہونی ضروری ہے۔

(عبد الرحمن بن محمد،الفقہ علی المذاہب الاربعۃ،بیروت،دار الکتب العلمیۃ،1424ھ،1/654 ؛کاسانی،ابو بکر بن مسعود،بدائع الصنائع، بیروت، دار الکتب العلمیۃ،1406ھ،6/2788۔2789؛بکری،ابو بکر بن محمد،اعانۃ الطالبین، بیروت، دارالفکر، 1418ھ، 2/343)

‘Abd al Raḥman bin Muḥammad, Al Fiqh ‘ala al madhahib al aʼrbi‘ah, (Beirut: Dār al Kutub al ‘ilmiyyah, 1424), 1:654

‘abu Bakar bin Mas‘od, Badaʼe‘al ṣanaʼe‘, (Beirut: Dār al Kutub al ‘ilmiyyah, 1406), 6:2788-2789

‘abu Bakar bin Muḥammad, ʼe‘ant al ṭalebyn, (Beirut: Dār al Fikar, 1428), 2:343

8محمود حسن گنگوہی،مفتی،فتاوی محمودیہ،کراچی، جامعہ فاروقیہ، 2005ء،17/260۔261؛ لدھیانوی، محمد یوسف،مولانا، آپ کے مسائل اور ان کا حل، کراچی، مکتبہ لدھیانوی، 1998ء، 5/453؛ تھانوی،اشرف علی،مولانا،امداد الفتاوی،کراچی،مکتبہ دارالعلوم،،2010ء،3/607۔608؛رحمانی،خالد سیف اللہ ،مولانا،قاموس الفقہ،کراچی،زمزم پبلشرز،2007ء،3/456؛جامعہ بنوریہ کراچی کا فتوی،مؤرخہ 19 ذو الحجہ 1432ھ

Maḥmood Ḥasan Ghanghohy, Fatawa Maḥmoodiyah, (Karachi: jame‘ah farooqiyyah, 2005), 17:260-261

Muḥammad Yousaf, āap k masaʼel aur un ka ḥal, (Karachi: Maktabah Ludhiyanwy, 1998), 5:453

‘ashraf ‘Ali, ʼimdad al fatawaʼ, (Karachi: Maktabah Dārul‘uloom, 2010), 3:607-608

Khalid Syf allah, Qamoos al fiqh, (Karachi: Zam Zam Publishers, 2007), 3:456

The Fatwa Of jame‘ah binoriyah Karachi: 19-dho al ḥijjah-1432

9 لدھیانوی،محمد یوسف،مولانا،آپ کے مسائل اور ان کا حل،کراچی،مکتبہ لدھیانوی،1998ء،5/453

Muḥammad Yousaf, āap k masaʼel aur un ka ḥal, (Karachi: Maktabah Ludhiyanwy, 1998) , 5:453

10تھانوی،اشرف علی،مولانا،امداد الفتاوی،کراچی،مکتبہ دارالعلوم، ،2010ء،3/607۔608

Ashraf ‘Ali, ʼimdad al fatawaʼ, (Karachi: Maktabah Dārul‘uloom, 2010), 3:607-608

11عبداللہ عبدالرحیم العبادی،الذبائح فی الشریعۃ الاسلامیۃ،حافظ محمد عبد الغفار(مترجم) ، اسلام آباد،ادارہ تحقیقات اسلامی، 1988ء، 88۔96

‘abd Allah ‘abd al Raḥim, Al Dhabeḥ fi al shary‘ah al islamiyah,(Islamabad: IDāra Taḥqiqat e Islami, 1988), 88-86

12محمد شکیل اوج، شرعی اور مشینی ذبیحہ(ایک تحقیقی اور تقابلی جائزہ)، (شش ماہی)جھات الاسلام،اسلامک اسٹدیز، لاہور، جلد6شمارہ2، جنوری-جون2013ء، 95۔100

Muḥammad Shakeel, Shar‘ey aur mashyny dhabyḥa, (Lahore: Jihat al Islam ,Islamic Studies, Vol.:6, Issue:2, Jan-Jun 2013), 95-100

13لجنۃ الفتوی بالشبکۃ الاسلامیۃ کا فتوی،مؤرخہ 5 جمادی الاولی 1424ھ

The Fatwa Of Lajnat al fatwa be shabakat al islamiyah, 5-Jumadiyu al ʼuoola, 1424

14 صحیح مسلم،کتاب الصید و الذبائح وما یؤکل من الحیوان،باب الامر باحسان الذبح و القتل

Ṣaḥiḥ Muslim, Kitab al ṣayd wa al dhabaeḥ

15محمد تقی عثمانی،فقہی مقالات،کراچی،میمن اسلامک پبلشرز،1424ھ،4/253۔289

Muḥammad Taqi ‘uthmany, Fiqhy Maqalaʼt, (Karachi: Myman Islamic Publishers, 1424), 4:253-289

16مجمع الفقہ الاسلامی،قرار بشان الذبائح،مجلۃ المجمع،جدۃ،منظمۃ المؤتمر الاسلامی، العدد العاشر،جلد1،ص53

Majma‘ al fiqh al islamy, Majallat al majma‘, Qirar Bishan al dhabaʼeḥ (Jeddah, Munaẓẓamah al muʼtamir al islamy, Issue No.10), 1:53

17مجاہد الاسلام قاسمی،مولانا،اہم فقہی فیصلے،کراچی،ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ،ص82

Mujahid al Islam Qasmi, ʼehm fiqhy fysaly, (Karachi: ʼeDārat al Qurʼan wa al ‘uloom al islamiyah), 82

18وھبہ الزحیلی،الدکتور،الفقہ السلامی و ادلتہ،دمشق،دارالفکر،س۔ن، 4/2800۔2801

Dr. Wahbat al Zuhaili, Al Fiqh al islamy wa ʼadillatohu, (Beirut: Dār al Fikar), 4:2800-2801

19دار الافتاء المصریۃ کا فتوی،مؤرخہ 16 ربیع الاول1401ھ

The Fatwa of Dār al Ifta al miṣriyyah, 16-Raby‘ al ʼawal-1401

20ابن باز،عبد العزیز بن عبداللہ،مجموع فتاوی العلامہ عبد العزیز بن باز،محمد بن سعد الشویعر(طابع)،س۔ن،8/428۔429

ʼabd al ‘azyz bin ʼabd allah, The Collection of Fatawa of ʼabd al ‘azyz bin ʼabd allah, 8:428-429

21محمد رشید رضا،تفسیر المنار،مصر،الھیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب،1990ء،6/144

Muḥammad Rashyd Raḍa, Tafsyr al Manar, (Egypt: al huʼat al miṣriyah al ‘amah, 1990), 6:144

22تفسیر المنار،6/120

Tafsyr al Manar, 6:120

23محمد رشید رضا، مسألة ذبائح أهل الكتاب تأييد الفتوى بالإجماع،مجلۃ المنار،مطبعۃ المنار،مصر،جلد6شمارہ21، 16ذوالحجۃ1321ھ ،ص812 ۔831

Muḥammad Rashyd Raḍa, Masʼalah dhabaʼeḥ ʼahl al kitab,Majallat al Manar, (Egypt: Matba‘at al Manar, Vol.:6, Issue No.21,Dated:16-dho al ḥijjah-1321), 812-831

24یوسف القرضاوی،الحلال و الحرام فی الاسلام،دمشق،دار القرآن الکریم،1378ھ،ص61۔63

Yousaf al Qarḍawy, Al Ḥalal wa al Ḥaram fi al Islam, (Beirut: Dār al Qurʼan al Karym, 1378), 61-63

25ابن العربی،محمد بن عبد اللہ،احکام القرآن،ٍبیروت،دارالفکر،1408ھ،2/42۔45

Ibn al ‘araby Muḥammad bin ‘abd allah, aḥkam al qurʼan, (Beirut: Dār al Fikar, 1408), 2:42-45

26صحیح البخاری،کتاب الذبائح و الصید،باب ذبیحۃ الاعراب و نحوھم

Ṣaḥiḥ al Bukhary, Kitab al dhaba‘eh wa al ṣyd

27یوسف القرضاوی،الحلال و الحرام فی الاسلام،ص64

Yousaf al Qarḍawy, Al Ḥalal wa al Ḥaram fi al Islam,64

28ولی حسن ٹونکی ،مولانا،ذبح کا مسنون طریقہ مشمولہ فتاوی بینات،کراچی،مجلس دعوت و تحقیق اسلامی،2006ء،4/501۔504

Waly Ḥasan, Dhibaḥ ka masnoon ṭaryqah mashmola fatawa bayyinat, (Karachi: Majlis da‘wat wa taḥqyq islamy, 2006), 4:501-504

29محمد شفیع،مفتی،جواہر الفقہ،کراچی،مکتبہ دار العلوم،1999ء،2/388

Muḥammad Shafy‘, Jawahir al fiqah, (Karachi: Maktabah Dār al ‘uloom, 1999), 2:388

30احکام القرآن،2/46

aḥkam al Qurʼan, 2:46

31 مجموع فتاوی العلامہ عبد العزیز بن باز،8/428۔429

The Collection of Fatawa of ʼabd al ‘azyz bin ʼabd allah, 8:428-429

32 Dr. Ghulam Mustafa Khan, Al-Dhabah, (London: Islamic Medical Association, 1982)

33اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا،مشینی ذبیحہ ،فقہ اسلامی کی روشنی میں ،نئی دھلی، ایفا پبلیکیشنز،2014ء، ص132-133، 234-238

Ilamy fiqah Academy, Mashyny Dhabyḥah, fiqh Islamy ky Roshny may, (India: Eifa Publications, 2014), 132-238

34ابن قدامہ المقدسی، ،أبو محمد موفق الدين عبد الله بن أحمد ، المغنی،مکتبۃ القاهرة، 1388ھ ، 9/397

Ibn e Qudamah, Al Mughni, 9:397

Loading...
Issue Details
Showing 1 to 20 of 20 entries
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Volume 2 Issue 2
2017
Volume 2 Issue 2
2017
Volume 2 Issue 2
2017
Volume 2 Issue 2
2017
Volume 2 Issue 2
2017
Volume 2 Issue 2
2017
Volume 2 Issue 2
2017
Volume 2 Issue 2
2017
Volume 2 Issue 2
2017
Volume 2 Issue 2
2017
Volume 2 Issue 2
2017
Volume 2 Issue 2
2017
Volume 2 Issue 2
2017
Volume 2 Issue 2
2017
Volume 2 Issue 2
2017
Volume 2 Issue 2
2017
Volume 2 Issue 2
2017
Volume 2 Issue 2
2017
Volume 2 Issue 2
2017
Volume 2 Issue 2
2017
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Showing 1 to 20 of 20 entries
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
About Us

Asian Research Index (ARI) is an online indexing service for providing free access, peer reviewed, high quality literature.

Whatsapp group

asianindexing@gmail.com

Follow us

Copyright @2023 | Asian Research Index