1
2
2016
1682060030498_808
109-119
https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/download/142/70
https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/view/142
Hinduism Judaism and Islam Hoarding Rules Hinduism Judaism and Islam Hoarding Rules
تمہید
ذخیرہ بندی سے عموما ًتجارتی اور دوسرے ضروریات کی اشیاء کو مستقبل کے لئے محفوط کرنا مراد لیا جاتاہے۔عام طور پر کھانے کی اشیا کوگل سڑنے سے بچانے کے لئے مختلف طریقوں یعنی خشک کرکے یا مختلف قسم کے پیکٹوں میں بند کرکے ذخیرہ کیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جدید طریقوں سے زرعی پیداوارکو معمولی تبدیلی کے ساتھ زیادہ وقت کے لئے تحفظ فراہم کرکے ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔[1]
عام طور پر ذخیرہ اندوزی کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں جن میں سےچند صورتیں درجہ ذیل ہیں:
(۱):کوئی شخص اپنی زمین کی فصل کو روک رکھے اور فروخت نہ کرے تو یہ جائز ہےلیکن اس صورت میں گرانی اور قحط کا انتظار کرنا گناہ ہے۔اگر لوگ تنگی میں مبتلا ہو جائیں تو اس کو اپنی ضرورت سے زائد غلہ فروخت کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔
(۲):دوسری صورت یہ ہے جس میں کوئی شخص غلے کو ذخیرہ کرکےقحط کےوقت بازار میں فروخت کے لئے لائےتو یہ صورت حرام ہے۔
(۳):تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ بازار میں اُس چیز کی فراوانی ہواور لوگوں کو قلت کا سامنا نہ ہو تو ایسی حالت میں ذخیرہ اندوزی جائز ہے لیکن گرانی کے انتظار میں غلے کو روکنا کراہت سے خالی نہیں ۔
(۴):چوتھی صورت یہ ہے کہ انسانوں یا چوپایوں کی خوراک کی ذخیرہ اندوزی نہیں کرتا ،اس کے علاوہ دیگر چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے،جس سے لوگوں کو تنگی لاحق ہو جاتی ہے تو یہ بھی ناجائز ہے۔[2]
لفظ ذخیرہ کے لغوی معانی ومفہوم :
اُردو لغت کے اعتبار سے لفظ ذخیرہ سے مراد ،ذاخیر ، ذخیرہ کرنے والا لیا جاتاہے۔[3]یعنی اس کا معانی گودام یا خزانہ ،جمع پونجی اور انبار وغیرہ ہو سکتے ہیں۔[4] عربی لغت میں ذخیرہ بندی اور سٹوریج کے لئے مختلف الفاظ استعمال ہوتے ہیں جس کے معانی و مفہوم بھی جمع پونجی یا کثیر مقدار کے ہو سکتے ہیں ۔[5] مطلب غلے کو ذخیرہ کرنا۔
اسی طرح انگریزی لغت میں ذخیرہ اندوزی کے لئے Storageکا لفظ استعمال کیاجا سکتا ہےجس کے معانی گنجائش یا وہ رقبہ جس میں پیداوار کو ذخیرہ کیا جاتا ہو۔[6] دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو اُردو لغت کے مطابق لفظ ذخیرہ بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے۔جس سے مراد جمع کردہ سامان کے ڈھیریا ہر وہ شے جو جمع کی جائے،خصوصاً کھانے کی اشیا اناج وغیرہ،اسی طرح وہ جگہ جہاں یہ سامان جمع کیا جاتا ہے گودام کہلاتا ہے۔[7]
الغرض مذاہب ثلاثہ میں ذخیرہ اندوزی سے متعلق قوانین کایہاں پر مختصر ذکرکیا جاتا ہے۔
ذخیرہ اندوزی اور ہندومت:
أ: ہندومت میں غلے کی حفاظت کے لئے مناجات :
دنیا کے ہر مذہب نے ذخیرہ اندوزی کے تصور کواپنے انداز سے بیان کیاہے۔ذخیرہ اندوزی کے بارے میں ہندومت کے مطالعے سے یہ پتہ چلتا ہےکہ ابتدا سےغلے کو مختلف قسم کے چھوٹے کیڑے مکوڑوں یعنی حشرات وغیرہ جو غلے کو نقصان پہنچاتے ہیں اُن سے اناج کی بچاو کے لئیے مختلف منتروں کا سہارا لیا جاتا ہے۔اتھر وید میں ایک جگہ پر کہا گیا ہےکہ‘‘ اے کھودنے والے جانداروں اور اے اُڑنے والے کیڑے مکوڑوں اور اے فصل کو چھوٹے چھوٹے کاٹنے والے جانداروں ( چوہے وغیرہ)ہمارے اس اناج کو نقصان نہ پہنچاو چلے جاو’’۔[8]
مطلب چوہے اور دوسرے جاندار جو اناج کو نقصان پہنچاتے ہیں اُن سے اناج کی تحفظ کےلیئے دعا کی گئی ہےتا کہ ذخیرہ اناج یا کھیت میں تیار فصل کو کوئی نقصان نہ پہنچے ۔ہندومت کے مذہبی قوانین کے مطالعے سے یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ ذخیرہ اندوزی کسی حد تک جائز ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ذخیرہ اندوزی کی جائے۔دوسری طرف یجر وید میں بہت جگہوں پر مال و دولت اور اناج کے بڑھانے اور حفاظت کے لئے دعا کی گئی ہے ۔ اناج کی کثرت سے ملنے[9] اور مختلف دیوتاوں سے منتروں کے ذریعے اناج و دولت کی کثرت کی غرض سے تعلق کوظاہر کیا گیا ہے۔[10]
اسی طرح آسمان وزمین اور پوری کائنات سے دولت کی طلب کے لئیے دعاگو رہنا ہندومت میں شروع سے چلا آ رہا ہے۔[11] میدان جنگ میں گھوڑوں کو بیجنے کا اصل مقصد بھی آناج کا حصولقرار دیا گیا ہے۔[12]دوسری طرف سورج دیوتا سے عمر،روشنی اور اولاد کے ساتھدولت،منافع ،سونے کے زیورات اور دوسرے سامان وغیرہ کی طلب کے لئے خصوصی دعا مانگی گئی ہے اور بار بار یہی اصرار کیا گیا ہے کہ ‘‘ہماری گم شدہ دولت پھر سےہمیں مہیا ہو جائے’’۔[13] ہندومت زندگی کے مختلف مدارج حاصل کرنے کے لئے اناج کو بہادری کا ایک ذریعہ مانتی ہے کہ ‘‘آناج کا مالک ہو کر میں سب طبقات کو حاصل کروں اور یہی اناج( نذرانے) مجھے دیوتا کی سامنےبہادر بنائے گا’’۔[14]
الغرض زیادہ تر دیوتاؤں کو مال و دولت اور اناج کو اپنی مقصد بنا کر پکارا جاتا ہے شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہندومت میں بہت سے پودوں کو مقدس مانا جاتا ہے جن میں سے ایک پودا‘‘ جؤ’’ کوبھی شمار کیا جاتاہے[15]جب کہ دوسری طرف مال ودولت اور ذخیرہ اندوزی کو لالچ قرار دیا گیا ہے اورلالچ کو حکمت عملی سے چھوڑنے کی ہدایت کی گئی ہے۔[16]
ب: غلےکی ذخیرہ اندوزی کا تصوراور قانون سازی :
ہندومت راجہ کی ذمہ داریوں میں یہ ضروری قرار دیتا ہے کہ جہاں پر راجا کا قیام ہو وہاں اُس قلعے میں پھلوں اور فصلوں کوضرورت کی خاطر ذخیرہ کرنے کے لئے علٰحیدہ علٰحیدہ گودام ہونے چاہئیے۔[17]اسی طرح اگرجنگ کے دوران سونا ،چاندی یا سیسہ و پیتل کے علاوہ اگر اناج کسی نے قبضے میں لیا ہو تو جس نے فتح کیا ہو اُس کو ملے گا البتہ راجا کا مخصوص حصہ دینا ہوگا۔[18] اس کے ساتھ راجہ کو محفوظ چیزوں(ذخیرہ ) کے بڑھانے کی ترغیب دے دی گئی ہے لیکن ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ‘‘قحط کی صورت میں دان کی تقسیم کو یقینی بنائیں’’۔[19]ہندومت کے مذہبی قوانین میں اس بات کا درس بھی دیا گیا ہے کہ محصول تھوڑا سہی لیکن اس کے حصول کو یقینی بنایا جائے گااوراس حصول میں زمین کی عمدگی اور غیر عمدگی کومدنظر رکھا جائے گا۔[20]
ہندومت محصول کے حصول میں غریب لوگوں سے بھی جتنا ممکن ہو محصول لینے پر زور دیتاہے۔[21]دوسری طرف غلے کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے (کیڑے و غیرہ)اناج میں زہر اور بیماری کو فنا کرنے والی چیزوں کے استعمال کا ذکر آیا ہواہے۔[22]اناج کی ذخیرہ اندوزی کے بارے میں راجہ کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ اگر اس کے پاس کوئی زر نہ ہو لیکن جو چیز لینے کی اُس کی قابلیت نہ ہو راجہ اُس کو ہر گز نہ لے اور اسی طرح جو چیز چھوٹی ہو (یعنی قیمت میں کم )لیکن لینے کے قابل ہو اُس کو نہ چھوڑدیا جائے۔[23]
ج:اچھے راجا کی خصوصیات:
ہندومت کے مطابق ایک اچھا راجہ وہ تصورہوتاہے جو وسائل کو حاصل کرنے، انہیں محفوظ رکھنے ،بڑھانے، اور اسی طرح بڑھوتری کے فوائد کو مستحقوں میں تقسیم کرنے کا طریقہ کارسمجھتا ہو ۔[24]تب وہ زندگی میں بخشش ،دولت اور خواہش، تینوں کا مساوی طور پر لطف اُٹھا سکتا ہے۔لگان لینے کے سلسلے میں وہ نئی زمینوں کی آباد کاری کے وقت یا ہنگامی حالات میں لگان معاف کرے گا تاکہ زرعی لحاظ سےملک ترقی کرے۔[25] ضرورت کے مطابق قلعے کے اندر تیل ،غلہ ،دوائیں وغیرہ اتنی مقدار میں ذخیرہ کرنےکی اجازت دے دی گئی ہے کہ برسوں کے لئے کافی ہوں اور کوئی کمی محسوس نہ ہو۔[26]دوسری طرف راجاکے لئیے یہ ضروری قرار دیا گیا ہےکہ وہ حکومت کےساتھ ذخیراندوزی کے سلسلے میں سرکاری ملازموں کے کردار کی بھی چھان بین کرےتاکہ جن چیزوں کی مستقل ملک میں مانگ موجود ہواور ان کی تقسیم کے لئے وقت کی کوئی قید بھی موجود نہ ہو، تاکہ اُس مالکی ذخیرہ اندوزی نہ کی جا سکے۔اسی طرح سرکاری مال کو چھوٹے فروخت کاروں کے ذریعے مختلف منڈیوں میں مقرر ہ قیمت پر فروخت کرنے کی تاکید ملتی ہے تاکہ ہر کسی کو ضرورت کی اشیا مناسب مقدار اور مناسب قیمت پر مل سکے۔[27]
ح: قحط کی صورت میں :
زراعت کے نگران کو موسم اور پانی وغیرہ کی حالت کو دیکھ کر کاشت کاری کرنے کا حکم دینے پر زور دیا گیا ہے۔[28]اسی طرح قحط کی صورت میں یہ واضح حکم دیا گیا ہے کہ راجہ مہروبانی سے پیش آکر لوگوں کو خوراک مہیا کرےاوراپنے خوراک کے ذخیرہ کو تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کا جمع کیا ہوا ذخیرہ بھی تقسیم کرے دوسری طرف راجادوست ریاستوں سے قحط میں مدد بھی مانگ سکتا ہے۔[29]اسی طرح خالی خزانے کو بھرنے کے لئے راجا کسانوں پر زور دے گا کہ وہ گرمیوں کی فصل اُگائیں۔جب کہ جنگ سے حاصل ہونے والی املاک میں زمین کو ترجیح دینے پر زور دیا گیا ہے جو ضرورت کے وقت قحط کے مسئلے کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔[30]
د: جرمانے کا تصور:
ہندومت ذخیرہ اندوزی کی صورت میں ( چھپانے کی شکل میں )کسان سے آٹھ گنا جرمانہ وصول کرتا ہےجب کہ دوسرے کی کھیت سے چرانے کی صورت میں ۵۰ گناوصول کرنے کا حکم دیتاہےاگر چرانے والا اُسی ذات کا ہو۔البتہ اگر چرانے والے کا تعلق دوسرے ذات سے ہوا تو اُسے قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔[31]
الغرض ہندومت ذخیرہ اندوزی کے خلاف ہے۔ اصل مقصد راجا کا رعایا کی خدمت کرنا ہے۔گو کہ قوانین میں کہیں نہ کہیں انصاف کو نظر انداز کیا گیا ہےلیکن رعایا کی خدمت کے واسطے ہندومت کی قوانین راجا کو مکمل اختیار فراہم کرتےہیں۔
ذخیرہ اندوزی اور یہودیت:
أ: تورات اور ذخیرہ اندوزی کا تصور :
جب ہم ذخیرہ اندوزی کے بارےمیں عہد نامہ قدیم پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ذخیرہ اندوزی کے بارے میں چند ایسے واقعات ملتے ہیں جس سے اس بات کا اندازہ ہوجاتاہے کہ آیا یہودیت میں واقعی ذخیرہ اندوزی جائز ہے ؟مثال کے طور پر حضرت یوسفؑ کا واقعہ جو تورات میں پیش کیا گیا ہے کہ ‘‘ اور وہ لگاتار ساتوں برس ہر قسم کی خورش جو ملک مصر میں پیدا ہوتی تھی جمع کرکے شہروں میں اُس کا ذخیرہ کرتا گیا ’’۔
اور مزید کہا گیا کہ ‘‘ یوسف نے غلہ سمندر کی ریت کی مانند نہایت کثرت سے ذخیرہ کیا یہاں تک کہ حساب رکھنا بھی چھوڑ دیا کیونکہ وہ بے حساب تھا’’۔[32]
لہذاتورات کے مطالعے سےکچھ قوانین بظاہر ایسے ملتے ہیں جو ذخیرہ اندوزی کی طرف راہ ہموار کرتے ہیں جیسا کہ حضرت یوسف ؑ کا واقعہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ وہ غلے کی کثیر مقدار کی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے۔دوسری طرف شاید یہودیت میں ذخیرہ اندوزی مصروالوں کی تہذیب کی وجہ سے سرائیت کر چکی ہےکیونکہ وہاں اسرائیلیوں پر بیگار لینے والے مقرر کئے گئے تھےاور اُن سے ذخیرہ کےلئیے شہر بنائے گئے تھے۔[33]لیکن دوسری طرف عہد نامہ قدیم میں جگہ جگہ ساتویں سال وغیرہ کے احکامات کا ذکرملتاہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ‘‘ چھ برس تو اپنی زمین میں بونا اور اُس کا غلہ جمع کرنا اور ساتویں برس اُسے یوں ہی چھوڑ دینا’’۔[34]
اس کے ساتھ مزید یہ بھی کہا گیا ہے کہ
‘‘ چھٹے برس ایسی برکت تم پر نازل کروں گا کہ تینوں سال کے لئے غلہ کافی پیدا ہو جائے گا اور آٹھویں برس پھر جوتنا بونا اور پچھلہ غلہ کھاتے رہنا بلکہ جب تک نویں سال کے بوئے ہوئے کی فصل نہ کاٹ لو اُس وقت تک وہی پچھلہ غلہ کھاتے رہو گے’’۔[35]
اس کے ساتھ مزید یہ بھی کہا گیا‘‘اور غلے میں تم اتنے خود کفیل ہو جاو گے کہ تم بہت سے قوموں کو قرض دو گے پر تجھ کو اُن سے قرض لینا نہیں پرے گا یہ اللہ تعالیٰ کا تم سے وعدہ ہے ’’۔[36]
ب: یہودی فقہ میں ذخیرہ اندوزی کا تصور اور قانون سازی:
عہد نامہ قدیم کے بعد مشنا کے قوانین میں ذخیرہ اندوزی سے متعلق کئی قوانین کاذکر آیا ہوا ہے۔مشنا میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ واجب الادہ حصوں کی ادائیگی کولازمی عملی جامعہ پہنایا جائےگا،اس کے بعد باقی ماندہ پیداوار کو اپنی ذاتی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ [37]
لیکن دوسری طرف ذخیرہ شدہ اناج کوتحفظ فراہم کرنے کے لئیے یہ بھی کہا گیا ہے کہ اناج کو مختلف حالتوں میں جیسے بارش کے موقع پر اُوپر سے ڈھانپاجائےگا تاکہ اناج کو محفوظ بنایا جا سکے۔[38]گو کہ بظاہر یہودیت میں ایک طرح سے ذخیرہ اندوزی کی رہنمائی کی گئی ہے لیکن حقیقت میں یہودیت ذخیرہ اندوزی کے سخت خلاف ہے۔مشنا کے قوانین میں ایک قانون یہ بھی ملتا ہے کہ سبت کے موقعے پر سارے غلے کو جس کی دہ یکی ادا کی گئی ہو اُس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے لیکن جس اناج کی دہ یکی ادا نہیں کی گئی اُس کودہ یکی سے پہلے ایک جگہ سے دوسری جگہ تبدیل نہیں کیا جائے گاکیونکہ اناج کو خالص یا پاکی فراہم کرنے کے لیئے یہ ضروری ہے کہ اس سے پہلے اُن حصوں کی ادائیگی کو لازمی ادا کیا جائے جو واجب الادہ ہوتےہیں۔[39]یہودیت غلے کی تجارت میں اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ سوداگر تجارت کی غرض سے بڑے گوداموں سے غلہ خرید سکتا ہے چھوٹے گوداموں سے نہیں ۔البتہ خریدنے کے بعد چھوٹے گوداموں میں اس کو ذخیرہ کیا جا سکتاہے۔[40]
الغرض ان قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ضرورت کی حد تک یہودیت ذخیرہ اندوزی کی اجازت دیتا ہے لیکن ضرورت کے لئیے جمع کرنے والے غلے سے پہلے ادائیگی(دہ یکی1/10) لازمی قرار دے دی گئی ہے،اس ادائیگی کے بعد وہ اناج استعمال کے قابل ہو سکتا ہے۔
ذخیرہ بندی اور اسلام:
أ: قرآنی تعلیمات کےمطابق ذخیرہ اندوزی کا تصور :
ہندومت اور یہودیت کی طرح دین اسلام بھی ذخیرہ بندی کے خلاف ہےلیکن دوسری طرف اگر یہی ذخیرہ اندوزی قرآن و حدیث کی روشنی میں کی گئی ہے تو دین اسلام اس کی اجازت بھی فراہم کرتاہے۔دین اسلام کسی چیز کو آئندہ مہنگا بیچنے کے لئے روک لینے کی سختی سے مذمت کرتا ہے۔[41] قرآن مجید نے اس عمل کو بھڑکتی ہوئی آگ سے تشبیہ دی ہے جو انسان کی کھال کھینچنے والی آگ ہے۔[42] کیونکہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ نفع مومن کے لئے کافی ہے ۔
(بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ۚ وَمَا أَنَا عَلَيْكُم بِحَفِيظٍ)[43]
یعنی ‘‘ اللہ تعالی کا حلال کیا ہوا جو بچ رہے تمہارے لئے بہت ہی بہتر ہے اگر تم ایمان والے ہو، میں تم پر کچھ نگہبان (اور داروغہ) نہیں ہوں’’۔
دوسرے مقام پر قرآن واضح الفاظ میں ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے پاس ہی جائیں گے [44]اوران لوگوں کی غلطی یہ ہو گی کہ انہوں نے مال کو جمع کیا اور بند کر رکھا ۔[45]پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عطا کیا ہوا مال فتنہ ہے اور بُخلمہنگا پڑنے والی چیز ہے۔
(وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَّهُم ۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ ۖ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ)[46]
یعنی ‘‘ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وه اس میں اپنی کنجوسی کو اپنے لئے بہتر خیال نہ کریں بلکہ وه ان کے لئے نہایت بدتر ہے، عنقریب قیامت والے دن یہ اپنی کنجوسی کی چیز کے طوق ڈالے جائیں گے، آسمانوں اور زمین کی میراث اللہ تعالیٰ ہی کے لئے اور جو کچھ تم کر رہے ہو، اس سے اللہ تعالیٰ آگاه ہے’’۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ مزید فرماتا ہے کہباطل طریقے سے اموال کو کھانے والےشخص کوسخت عذاب دیا جائے گا۔
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۗ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ۔يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ)[47]
یعنی ‘‘ اے ایمان والو! اکثر علما اور عابد، لوگوں کا مال ناحق کھا جاتے ہیں اور اللہ کی راه سے روک دیتے ہیں اور جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راه میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے جس دن اس خزانے کو آتش دوزخ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم نے اپنے لئے خزانہ بنا کر رکھا تھا۔ پس اپنے خزانوں کا مزه چکھو’’۔
ب: احادیث اور ذخیرہ اندوزی کاتصور :
قرآن کے ساتھ ساتھ حدیث مبارکہ میں بھی ذخیرہ اندوزی کے بارے میں سخت وعید آئی ہوئی ہے۔گرانی کے وقت غلہ خرید کر اس کو رکھ چھوڑنا کہ جب بہت گراں ہو گا تو بیچیں گے ،اگر ارزانی کے وقت خرید کر رکھ چھوڑے، تو یہ ذخیرہ اندوزی میں شمار نہیں ہو گا۔[48]احتکار کی لغوی معانی ذخیرہ اندوزی سے گراں نرخ پر چیزیں فروخت کرنا کہلاتا ہےجس کی دین اسلام میں اجازت نہیں۔[49] حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ
(عَنْ سَالِمٍ،[50] عَنْ أَبِيهِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ رَأَيْتُ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ الطَّعَامَ مُجَازَفَةً يُضْرَبُونَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ يَبِيعُوهُ حَتَّى يُئْوُوهُ إِلَى رِحَالِهِمْ.)[51]
یعنی ‘‘سالم نے ، اور ان سے ان کے باپ نے بیان کیا ، کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ان لوگوں کو دیکھا جو اناج کے ڈھیر ( بغیر تولے ہوئے محض اندازہ کر کے ) خرید لیتے ان کو مار پڑتی تھی۔ اس لیے کہ جب تک اپنے گھر نہ لے جائیں نہ بچیں’’۔
یعنی غلہ ابھی تک موجود نہیں تھا جو دو ماہ بعد ملے گی اور روپیہ کے بدلے روپیہ بک رہا تھا ۔ایک دوسری حدیث میں حضور ﷺ فرماتے ہیں۔(قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " مَنِ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلاَ يَبِعْهُ حَتَّى يَقْبِضَهُ) [52]
یعنی ‘‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص بھی کوئی غلہ خریدے تو اس پر قبضہ کرنے سے پہلے اسے نہ بیچے’’۔
لہذا اسلام ذخیرہ اندوزی کی مکمل مخالفت کرتا ہے ۔
ج: فقہا کی نظر میں ذخیرہ اندوزی کا مفہوم :
فقہا کے نزدیک احتکار کی مکمل تفسیر بیان کی گئی ہے۔ مالکیہ کے ہاں احتکار ذخیرہ اندوزی کو کہتے ہیں تاکہ بازار کے حالات بدل جانے پر بیچ کر نفع کمایا جائےحالانکہ خوراک کے لئے ذخیرہ کرنا ذخیرہ اندوزی نہیں۔[53]جب کہ حنفیہ کے ہاں احتکار،حکر کا مصدر ہے جس کے معنی روکے رکھنا، یعنی مہنگائی کے انتظار میں کسی چیز کو روکے رکھنا، یہ احتکار کہلاتا ہے ۔یعنی خوراک کو مہنگائی کے انتظار میں روکے رکھنا اس ضمرے میں شامل ہے۔[54]اسی طرح اہل شوافع کے ہاں مہنگائی کے وقت خریدی ہوئی چیز روکے رکھنا ،تاکہ جب ضرورت زیادہ شدید ہو جائے تو مہنگے داموں فروخت کرے،ذخیرہ اندوزی کہلاتا ہے۔لہذا سستے وقت میں خریدی ہوئی چیز کو روکے رکھنا یا ا س چیز کو روکے رکھنا جس کو مہنگائی کے وقت خریدا گیاتھا تاکہ اُس قیمت پر آگے بیچ دے، یہ سب صورتیں ذخیرہ اندوزی میں شمارنہیں ہوں گی۔[55] حنابلہ کے ہاں حرام احتکار وہ ہے جس میں تین شرطیں پائی جائیں :
۱: خرید کر ذخیرہ کیا ہو نہ کہ باہر سے لا کر ذخیرہ کیا ہو ۔
۲: خریدی ہوئی چیز ایسا اناج ہو جو خوراک کے طور پر استعمال ہوتا ہو ۔
۳: اس کے خریدنے سے لوگوں پر تنگی ہو مطلب جہاں کے رہنے والوں پر اس کی وجہ سے تنگی ہو اور تنگ حالات میں یہ ذخیرہ اندوزی کی گئی ہو۔[56]
لہذا اس سے ثابت ہوا کہ احتکار تنگی اور ضرورت کے وقت پر ہوتا ہے نہ کہ خوشحالی کے وقت، اور یہ عام طور پر چھوٹے شہروں میں کیا جاتاہے۔ اس سے عام مسلمانوں کو نقصان پہنچتا ہو۔ اپنی ذاتی زمین کا غلہ روکنے والا جو خالصتاً ان کا ذاتی حق ہو ،ذخیرہ بندی میں شمارنہیں ہوتا۔علما کا اس پر اتفاق ہے کہ احتکار ان چیزوں میں حرام ہے جو انسانی غذا ہو۔ حنفیہ ،شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک اس بات پر اتفاق ہے کہ خوراک کا احتکار کراہت سے خالی نہیں ہے ۔[57]اسی طرح تجارتی قافلوں سے تجارتی سامان لیکر شہر میں مہنگے داموں بیچنا بھی مکروہ قرار دیا گیا ہے۔[58] اگر شہر والوں کے لئے نقصان دہ نہیں تو کوئی حرج نہیں لہذاجس نے ذخیرہ اندوزی کی تاکہ مسلمانوں پر مہنگے داموں پر فروخت کرے ،تو یہ کام غلط تصور کیا جائے گااورجس نے مسلمانوں پر مہنگائی کی خاطر نرخ میں دخل اندازی کی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو لازمی طور پر آگ کے بہت بڑے آلاو میں بیٹھائے گا۔ [59]
حنفیہ کے نزدیک احتکار کرنے والوں کو قاضی کی طرف سے حکم دیا جائے گا کہ وہ اپنی ذاتی اور گھر والوں کی ضرورت سے زیادہ خوراک بیچ ڈالے اگر بار بار کہنے کے باوجود نہیں مانتاتو اُن کو گرفتار کر کے اس غلے کو بازار کے نرخ کے مطابق فروخت کیا جائے گا۔[60]جب کہ مالکیہ کے ہاں بھی یہی حکم دیا گیا ہے کہ حاجت مندوں کو اُسی قیمت پربیج دیا جائے گا۔[61] حنفیہ مسلک نے اس پر مزید اضافہ کرکے حکم صادر کیا ہوا ہے کہ اگر حاکم کو کسی شہر والوں کے ہلاک ہونے کا خوف ہو تو وہ ذخیرہ اندوزوں سے خوراک لیکر لوگوں میں تقسیم کر سکتا ہے۔[62] شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک حاکم لوگوں کے نرخ مقرر نہیں کر سکتا بلکہ لوگ اپنی مرضی سے مال فروخت کریں گے۔[63] جب کہ حنفیہ اور مالکیہ نے حاکم کو نرخ مقرر کرنے کی اجازت دی ہے تاکہ لوگوں سے ضررکو دور کیا جا سکے۔[64]
الغرض دین اسلام ذخیرہ اندوزی کے خلاف مکمل تفصیل بیان کرتا ہے ۔ ذخیرہ اندوزی کی مختلف صورتوں کو واضح انداز میں بیان کرکے یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ ذخیرہ اندوزی کیا ہے ؟ اس کی روک تام کیسے کی جا سکتی ہے ؟اور اس کے خلاف کیسے کاروائی کی جا سکتی ہے ؟ ۔
لہذا اپنی پیداوار کو اپنی ضرورت کے لئے روکنا احتکار نہیں ہے بلکہ دوسروں کے ہاتھ بیچنے کے لیے گرانی کے انتظار میں روکنا احتکار ہے اور حکومت اس کو اپنے مقرر کردہ بھاوٗ پر بیچنے کے لئے مجبور کر سکتی ہے ۔[65]
خلاصہ بحث
الغرض ادیان ثلاثہ میں ہندومت کے قوانین میں کچھ تضادات جیسے جرمانے کی ادائیگی میں عدم انصاف کا ہونا ایک طرف ذخیرہ اندوزی کی طرف اشارہ کرتی ہے لیکن پھر بھی ادیان ثلاثہ میں ذخیرہ اندوزی کے سلسلے میں یہ بات مشترکہ پائی جاتی ہےکہ تینوں ادیان ذخیرہ اندوزی کی مخالفت پر زور دیتے ہیں۔ تینوں ادیان اس بات پر متفق ہیں کہ پیروکاروں کی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر حال میں ذخیرہ اندوزی کی مخالفت کی جائے گی۔آسمانی آفات کے سلسلے میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ حکومت ہر حال میں موجودذخائر کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے حکمت عملی وضع کرے گی جب کہ وسائل کو تحفظ اس لئےبھی دیا جائے گا تاکہ حادثات کی صورت میں ان وسائل کو بروئے کار لاکر عوام کو آرام پہنچایا جا سکے۔
حوالہ جات
- ↑ حواشی و مصادر (References) The New Encyclopedia BritannicaEncyclopedia Britannica Inc,Chairman Board of Directors ,Robert P.Gwinn , President ,Charles E.Swanson ,Editor in Chief ,Philip W Goetz , , Volume, 19, page, 89,Printed in USA,Chicago,Auckland ,Geneva,London,Manila ,Paris ,Rome,Fonded,1768 ,15th Edition., Ibid, Volume, 11, page, 290..
- ↑ فقہ حنفی قرآن و سنت کی روشنی میں ،ترجمہ تحقیق و ترتیب،مولانا خالد،مفتی عبد العظیم،مولانا محمد انس،جلد دوم ،ص۳۹۱،ادارہ اسلامیات پبلشرز،بک سیلرز،ایکسپوٹرلاہور،اشاعت ۲۰۰۸ قاموس الفقہ ، تالیف مولانا خالد سیف اللہ ،جلد دوم،ص،۳۹،زمزم پبلشرزنزد مقدس مسجد اُردو بازار کراچی،اشاعت ،۲۰۰۷
- ↑ فیروز اللغات( فارسی اردو) مرتب مقبول بیگ بدخشانی،ایڈیٹر ڈاکٹر وحید قریشی ، ص،۴۴۴،فیروز سنز پرائیوٹ لمیٹڈ لاہور کراچی راولپنڈی ، بار اول، ۲۰۰۴م
- ↑ قاموس مترادفات،وارث سر ہندی ، ص،۶۳۹اردو سائنس بورڈ ۲۹۹،اپر مال لاہور،طبع اول اگست ۱۹۸۶م
- ↑ المورد الحدیث، قاموس انکلیزی،ص،۱۱۵۷، دارالعلم للملایین شارع مارالیاس،بنایۃ متکو الطابق الثانی بیروت لبنان،۲۰۰۹ م
- ↑ The Oxford English Dictionary, J.A.Simpson and E.S.C.Weiner, , Volume, XVI, page, 787Clarendon Press Oxford, 1989, Second Edition..
- ↑ اُردو لغت( تاریخی اُصول پر )مدیر اعلیٰ ،ڈاکٹر مولوی عبد الحق(مرحوم)ڈاکٹر ابواللیث صدیقی،ڈاکٹر فرمان فتح پوری،اردو لغت بورڈ (ترقی اردو بورڈ) کراچی،جنوری ۱۹۹۰،جلددہم،ص،۲۹۱
- ↑ Oriental series ,Atharva-veda samhita, vol, 7,book,vi,50,V,2,page,318Motilal Banarsidass delhi,Varanasi,Patna,oxford university press,1897…..
- ↑ یجر وید اردو ترجمہ مولوی عبد الحق، ادھیائے ۱،اشلوک،۱۱ ،احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور ۱۹۲۷م
- ↑ ایضاً،ادھیائے ۵، اشلوک،۹
- ↑ ایضاً، ادھیائے،۵،اشلوک،۱۹
- ↑ ایضاً، ادھیائے ۹،اشلوک،۱۹
- ↑ ایضاً،ادھیائے ،۱۲،اشلوک،۷ ،۸ ، ۱۰، ۱۱۲
- ↑ ایضاً، ادھیائے ۱۸، اشلوک ،۳۲،۳۳،۳۴،۳۵،
- ↑ ۔Hymns of the Atharva-veda, book ,vi,91,V,1,2,3,Barly and water as universal remedies. sacred books of the east ,edited by F.Max Muller ,vol,xlii,Motilal banarsidass Delhi ,Varanasi Patna,2nd print,1967
- ↑ منو سمرتی، مالودھرم،شاستر بھرگ سنکھتا،سنسکرت مع ترجمہ اردو ،مرتب لالہ سوامی دیال صاحب ،ادھیائے ،۷،اشلوک،۴۹ ،مطبع منشی نول کشور مقام کانپور میں طبع ہوئی ، بار دوم ،ت ن،
- ↑ ایضاً،،ادھیائے ،۷، اشلوک،۷۶
- ↑ ایضاً،ادھیائے ،۷،اشلوک،۹۶
- ↑ ایضاً،ادھیائے ،۷،اشلوک،۹۹ ،۱۰۱
- ↑ ایضاً،ادھیائے ،۷،اشلوک،۱۲۹، ۱۳۰
- ↑ ایضاً،ادھیائے ،۷،اشلوک،۱۳۷
- ↑ ایضاً،ادھیائے ،۷،اشلوک،۲۱۸
- ↑ ایضاً، ادھیائے ،۸،اشلوک،۳۸ ، ۱۷۰
- ↑ ارتھ شاستر (آچاریہ کوتلیہ چانکیہ کی رموز سیاست و حکمرانی پر عالمی شہرت یافتہ کتاب)کا مکمل اردو اور انگریزی ترجمہ )،باب ،۱،جزو ، ۴،ٹیکساس پرنٹرز یونیورسٹی روڈ کراچی ۱۹۹۱م
- ↑ ایضاً،، دوسرا باب ،جزو،۱
- ↑ ایضاً، دوسرا باب ، جزو،۴
- ↑ ایضاً، دوسرا باب ، جزو،۱۶
- ↑ ایضاً، دوسرا باب ، جزو،۲۴
- ↑ ایضاً،چوتھا باب جزو،۳
- ↑ ایضاً، باب،۵، جزو،۲،
- ↑ ایضاً، باب،۵، جزو،۲،
- ↑ پیدائش،باب ۴۱،ایت ۴۸ ، ۴۹ ،بائبل سوسائٹی لاہور
- ↑ خروج، باب ۱، ایت،۱۱
- ↑ ایضاً،باب ۲۳، ایت، ۱۰
- ↑ احبار،باب ۲۵، ایت،۲۱، ۲۲
- ↑ استثنا،باب۱۵،ایت،۶
- ↑ Mishnayoth vol, 1, Zeraim, tractate, Berachoth, chapter, 1, mishnah,1.The Judaica press INC, New York, 1963….
- ↑ ۔Mishnayoth vol,ii,Order moed,tracate,Betsah,by Philip Blackman,chapter,5,mishnah,1,the Judaica press INC,New York,1963…
- ↑ ۔ Mishnayoth vol,ii,Order moed,tracate,Sabbath,chapter,18,mishnah,1…
- ↑ Mishnayoth vol, iv, Order Nezikin tractate, Baba Metzia, chapter,4, mishnah,12the Judaica press INC New York,1963….
- ↑ اسلامی انسائیکلو پیڈیا منشی محبوب عالم ،( مکمل دو جلدیں )،احتکار، ص،۵۲،الفیصل ناشران و تاجران کتب اُردو بازار لاہور اشاعت ، ۲۰۰۳
- ↑ سورہ المعارج، ایت، ۱۶
- ↑ سورہ ھود، ایت، ۸۶
- ↑ سورہ المعارج، ایت، ۱۷
- ↑ ایضاً، ایت، ۱۸
- ↑ سورہ ال عمران، ایت، ۱۸۰
- ↑ سورہ التوبۃ، ایت، ۳۴ ، ۳۵
- ↑ صحیح بخاری ابی عبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری الجعفی ۱۹۴ ھ۔۲۵۶ھ،کتاب البیوع،باب ۵۴، دارلسلام للنشر والتوزیع الریاض۔ذوالحجہ ۱۴۱۹ھ۔مارس ۱۹۹۹ء
- ↑ فیروز اللغات،(فارسی اردو) ص ، ۲۸
- ↑ سالم تابعین میں سے تھے اور حضرت عبداللہ بن عمر بن خطابؓ کے فرزند تھے ابو عمران ان کی کنیت تھی قریشی عدوی مدنی ہیں۔فقہائے مدینہ کے سرخیل ہیں ۱۰۶ ھ میں مدینہ میں وفات پائی ،صحیح بخاری ترجمہ اردو ،حضرت مولانا محمد داود راز ، جلد ۳،باب ،۵۴،ص،۳۲۳ مکتبہ قدوسیہ اردو بازار لاہورمارچ ۲۰۰۱م
- ↑ صحیح بخاری باب۳۴،کتاب البیوع، باب ۵۴،حدیث،۲۱۳۱
- ↑ ایضا، حدیث ۲۱۳۳
- ↑ المنتقی علی الموطا، مالک بن انس جلد،۵،ص،۱۵،موسئۃ الرسالۃ بیروت، ۱۹۹۲
- ↑ رد المختار ، جلد،۵،ص،۲۸۲، البدائع، فی ترتیب الشرائع تالیف علامہ علاوالدین ابوبکر الکاسانی، جلد،۵،ص،۱۲۹ ،مطبوعہ مطبع جمالیہ مصر ۱۳۲۸ ھ
- ↑ مغنی المحتاج، الی معرفۃ معانی الفاظ المنھاج ،محمد الشرینی الخطیب، جلد،۲،ص،۳۸ بیروت دار احیا التراث العربی س ن
- ↑ المغنیلابن قدامہ،تالیف ابی محمد عبداللہ بن احمد بن محمد بن قدامہ والمتوفی ۶۴۰ھ علی مختصر ابی قاسم عمر بن حسین بن عبداللہ احمد الخرقی ،جلد،۴،ص،۲۲۱ مکتبۃ الریاض الحدیثہ بالریاض ،طبع اول ۱۴۰۸ ھ
- ↑ نیل الاوطار، الشوکانی،جلد،۵،ص،۲۲۲دارالکتب العلمیۃ بیروت،۱۹۹۵
- ↑ ایضاً، جلد،۵،ص،۱۶۶
- ↑ ایضاً، جلد،۵، ص، ۲۲۰
- ↑ ردالمختار، جلد، ۵،ص،۲۸۲ ،الطریق الحکمیتہ،لابن قیم،ص،۲۸۴
- ↑ المنتقی علی الموطا، جلد، ۵،ص،۱۷
- ↑ ردالمختار، جلد ،۵،ص،۲۸۳، البدائع، جلد،۵،ص، ۱۲۹
- ↑ مغنی المحتاج، جلد، ۲،ص،۳۸
- ↑ الدرالمختار، جلد، ۵،ص، ۲۸۳ ، تکملۃ الفتح القدیرالامام العلامہ محمد بن علی بن محمد الشوکانی(۱۱۷۳ ۔۱۴۵۰ ھ) تحقیق عبد الرزاق المھدی،، جلد، ۸،ص، ۱۲۷،درالکتب العربی بیروت لبنان الطبعۃ الاولی،۱۹۹۹ م
- ↑ مزید تفصیل، فتاوی عالمگیری، مولانا امیر علی، جلد،۴،احتکار،ص،۵۴۰ ،طبع کلکتہ ،۱۲۵۰ ھ فتاوی محمودیہ ، مفتی محمود الحسن گنگوہی،تحریج و تعلیق شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان جلد،۱۶،باب ۱،احتکار،ص، ۲۳۴ ،دارالافتا جامعہ فاروقیہ کراچی اشاعت ۲۰۰۵م احکام بیع،طاہر منصوری،احتکار،ص، ۱۰۳ اسلامی فقہ ،منہاج الدین مینائی،احتکار،ص، ۵۴۰اسلامک پبلی کیشنز پرائیوٹ لمیٹیڈ ۳ کورٹ سٹریٹ لوئر مال روڈ لاہور اکتوبر،۲۰۰۵م
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |